زیورخ: جرمن سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ انہوں نے عین انسانی جسم کے ماحول والی مشین میں پہلے انسانی جگر کو درست کیا اور اسے ایک مریض تک منتقل کیا ہے۔
اس کےعلاوہ انسانی جگر کو بدن سے باہر تین روز تک فعال رکھا گیا جو ایک اور کارنامہ ہے۔ یونیورسٹی آف زیورخ اور یونیورسٹی ہسپتال زیورخ کے سائنسدانوں نے مسلسل محنت سے عین انسانی جسم جیسی مشین بنائی ہے جس میں عطیہ کردہ جگر کو تین روز تک زندہ رکھا گیا۔
انسانی جسم کی مناسبت میں مشین کے اندر ایک پمپ لگایا گیا ہے جو دل کا متبادل ہے۔ اس کےعلاوہ آکسیجنیٹر بھی نصب کیا گیا ہے جو پھپھڑوں کا کام کرتے ہوئے پورے نظام کو آکسیجن فراہم کرتاہے۔ اس کے اندر ڈائلائسس مشین لگی ہے جنہیں ہم مصنوعی گردے کہیں گے۔
جگر کا ورکشاپ
مریض کے لیے عطیہ کردہ جگر کی کیفیت بہت بری تھی جسے مریض میں منتقل کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پیچیدہ افعال بڑھانے کے لیے اسے ایک پرفیوژن مشین میں رکھا گیا۔ مشینی میں ضروری مائعات سے اور بنیادی اجزا بھی شامل تھے۔ جگر جیسے اہم عضو کو اینٹی بایوٹک اور ہارمون تھراپی سے گزارا گیا۔ اس کے بعد کچھ ٹشوز (بافتوں) کی آزمائش بھی کی گئی۔
عام حالات میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اسے سے قبل جگر کو صرف 12 گھنٹے ہی محفوظ کیا جاسکتا تھا تاہم پرفیوژن مشین میں یہ مدت تین روز تک بڑھائی گئی اور عطیہ کردہ جگر کی گویا حیاتیاتی مرمت کرکے اسے پیوندکاری کے قابل بنایا گیا۔
اس سال مئی کے وسط میں درست کردہ جگر کینسر کے ایک مریض کو لگایا گیا اور اب مریض ہسپتال سے فارغ ہوکر پرسکون زندگی گزاررہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2330283/9812/
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر آپ نے اسپیس سوٹ کے بغیر مریخ کی سطح پر سانس لینے کی کوشش کی تو آپ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
فرض کریں آپ ایک خلاباز ہیں جو ابھی ابھی مریخ سیارے پر اترے ہیں، تو سب سے پہلے آپ کو سوچنا ہوگا کہ آپ کو زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔؟ ظاہر ہے کہ آپ کے پاس کم از کم پانی، خوراک، سونے کی مناسب جگہ اور آکسیجن کا ہونا ناگزیر ہے۔
آپ یقینا جانتے ہیں کہ یہاں زمین پر ہم جو سانس لیتے ہیں تو ہوا میں موجود آکسیجن استعمال کرتے ہیں، جو کہ پودوں اور کچھ اقسام کے دیگر بیکٹیریاز ہمیں فراہم کرتے ہیں۔
زمین پر ہمارے ماحول میں آکسیجن ہی واحد گیس نہیں ہے اور نہ ہی یہ وافر مقدار میں ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق ہماری ہوا کا محض 21 فی صد حصہ ہی آکسیجن پر مشتمل ہے۔ اس کو علاوہ تقریباٰ 78 فی صد نائیٹروجن موجود ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: مریخ پر یہ پراسرار پودا کیسا ہے؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب زمین پر نائیٹروجن زیادہ ہے تو ہم صرف آکسیجن کیوں اور کیسے لیتے ہیں؟
اس کا اصول یوں ہے کہ تکنیکی طور پر جب ہم سانس لیتے ہیں تو فضا میں موجود ہر چیز ہماری ناک کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے مگر ہمارا جسم طے شدہ قدرتی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صرف آکسیجن ہی کو استعمال کرتا ہے اور جب آپ سانس چھوڑتے ہیں تو دیگر اجزا خودبخود باہر آ جاتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق مریخ کا فضائی غلاف بہت پتلا ہے اور یہ زمین کے فضائی غلاف کے مقابلے میں صرف 1 فی صد ہے۔ اسے آسانی سے سمجھنے کے لیے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ مریخ پر ہوا زمین کے مقابلے میں 99 فی صد کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مریخ کا سائز زمین کی نسبت تقریباٰ نصف ہے جب کہ دیگر وجوہات میں اہم یہ بات بھی ہے کہ یہاں کی کشش ثقل بھی اتنی طاقت ور نہیں کہ ماحول کی گیسوں کو خلا میں جانے سے روک سکے۔
مریخ کے پتلے ماحول میں سب سے زیادہ (وافر) گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ زمین پر تو انسانوں کے لیے یہ ایک زہریلی گیس ہے، جو کہ مارس پر سب سے زیادہ ہے۔ زمین پر بسنے والوں کی خوش قسمتی ہے کہ یہ ہمارے ماحول میں صرف 1 فی صد سے بھی کم ہے لیکن مریخ پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب ہوا کا 96 فی صد ہے۔
علاوہ ازیں مریخ پر آکسیجن تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے یعنی ہوا کے ایک فی صد کا بھی دسواں حصہ ہے، جو انسان کے زندہ رہنے کے لیے ناکافی ہے۔
ایسی صورت میں اگر آپ مریخ پر آکسیجن فراہم کرنے والے اسپیس سوٹ کے بغیر سانس لینے کی کوشش کریں گے، تو یہ یقینی ہے کہ پہلے تو آپ کا دم گھٹنے لگے گا اور نتیجتا آپ کی موت واقع ہو جائے گی۔
سائنس دانوں کو مریخ پر زندگی کے تاحال کوئی آثار نہیں ملے، تاہم اس سلسلے میں تلاش اور تحقیق مسلسل جاری ہے۔
مختصر یہ کہ مریخ پر ایک انتہائی ماحول پایا جاتا ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ ہوا نہیں ہے، بلکہ یہاں کی سطح پر بہت کم پانی ہے۔ مریخ کا درجہ حرارت ناقابل یقین حد تک سرد ہے جب کہ رات کے وقت یہ منفی 100 ڈگری فارن ہائیٹ (منفی 73 ڈگری سیلسیس) سے زیادہ رہتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2329599/508/
واشنگٹن: امریکا میں دنیا کا نیا تیز ترین کمپیوٹر متعارف کرا دیا گیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس کی تیز رفتاری کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا لفظ درکار ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ توانائی کی اوک رِج نیشنل لیبارٹری میں نصب کیا گیا یہ فرنٹیئر سسٹم 500 تیز ترین کمپیوٹروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
یہ سپر کمپیوٹر صرف دنیا کا تیز رفتار کمپیوٹر ہی نہیں ہے بلکہ یہ اتنا طاقتور ہے کہ اس کا مقابلہ تمام سات سپر کمپیوٹر مل کر بھی نہیں کر سکتے۔
ٹاپ 500 کی فہرست میں اول نمبر حاصل کرنے کے بعد فرنٹیئر گرین 500 میں بھی سرِ فہرست ہے۔ سپرکمپیوٹنگ سسٹم کی یہ درجہ بندی ان کے مؤثر ہونے پر مبنی ہوتی ہے۔
مشین کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اس میں ایک ایسا کولنگ سسٹم نصب کیا گیا ہے جس میں ایک منٹ میں 6000 گیلن پانی کو پمپ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس سسٹم کی تنصیب کے بعد تیز ترین کمپیوٹر کا تاج واپس امریکا کے سر پر سج گیا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ دو برس تک جاپان کے رائیکن سینٹر فار کمپیوٹیشنل سائنسز میں نصب فُوگاکُو سسٹم کے پاس تھا، جو فرنٹیئر سسٹم کے متعارف کرائے جانے کے بعد دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔
فرنٹیئر کمپیوٹر صرف سب سے زیادہ طاقتور ترین کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ یہ پہلا کمپیوٹر ہے جو ’exaflopکی حد‘ کو عبور کرتے ہوئے پہلی ایگزا اسکیل سسٹم بن گیا ہے۔
ایگزا فلاپ یا ایگزا اسکیل کمپیوٹنگ کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسی مشین جو ایک سیکنڈ میں 1018 یعنی 10 لاکھ کھرب آپریشنز کرنے کے قابل ہو۔
https://www.express.pk/story/2329291/508/
زیورخ: جرمن سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ انہوں نے عین انسانی جسم کے ماحول والی مشین میں پہلے انسانی جگر کو درست کیا اور اسے ایک مریض تک منتقل کیا ہے۔
اس کےعلاوہ انسانی جگر کو بدن سے باہر تین روز تک فعال رکھا گیا جو ایک اور کارنامہ ہے۔ یونیورسٹی آف زیورخ اور یونیورسٹی ہسپتال زیورخ کے سائنسدانوں نے مسلسل محنت سے عین انسانی جسم جیسی مشین بنائی ہے جس میں عطیہ کردہ جگر کو تین روز تک زندہ رکھا گیا۔
انسانی جسم کی مناسبت میں مشین کے اندر ایک پمپ لگایا گیا ہے جو دل کا متبادل ہے۔ اس کےعلاوہ آکسیجنیٹر بھی نصب کیا گیا ہے جو پھپھڑوں کا کام کرتے ہوئے پورے نظام کو آکسیجن فراہم کرتاہے۔ اس کے اندر ڈائلائسس مشین لگی ہے جنہیں ہم مصنوعی گردے کہیں گے۔
جگر کا ورکشاپ
مریض کے لیے عطیہ کردہ جگر کی کیفیت بہت بری تھی جسے مریض میں منتقل کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پیچیدہ افعال بڑھانے کے لیے اسے ایک پرفیوژن مشین میں رکھا گیا۔ مشینی میں ضروری مائعات سے اور بنیادی اجزا بھی شامل تھے۔ جگر جیسے اہم عضو کو اینٹی بایوٹک اور ہارمون تھراپی سے گزارا گیا۔ اس کے بعد کچھ ٹشوز (بافتوں) کی آزمائش بھی کی گئی۔
عام حالات میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اسے سے قبل جگر کو صرف 12 گھنٹے ہی محفوظ کیا جاسکتا تھا تاہم پرفیوژن مشین میں یہ مدت تین روز تک بڑھائی گئی اور عطیہ کردہ جگر کی گویا حیاتیاتی مرمت کرکے اسے پیوندکاری کے قابل بنایا گیا۔
اس سال مئی کے وسط میں درست کردہ جگر کینسر کے ایک مریض کو لگایا گیا اور اب مریض ہسپتال سے فارغ ہوکر پرسکون زندگی گزاررہا ہے۔
ٹیکساس: دنیا بھر میں قابلِ نوش پانی کی شدید قلت ہے اور اب ایک ہائیڈروجل پرمشتمل باریک چادر پوا سے پانی کشید کرسکتی ہے۔ جامعہ ٹیکساس کے مطابق یہ اہم ایجاد روزانہ ایک بالٹی بھر پانی ہوا سے کشید کرسکتی ہے۔
یہ ایک طرح کا نرم جیل gel ہے جو دو عام اور ارزاں اشیا سے بنا ہے جن میں ایک پودوں سے حاصل شدہ سیلیولوز ہے اور دوسری ایک طرح کی گوند ہے جو کھانوں میں استعمال ہوتی ہے اور اسے انگریزی میں کونجک گم بھی کہتے ہیں۔ دونوں مل کر ہوا سے پانی کشید کرتے ہیں اور توانائی بھی کم خرچ ہوتی ہے۔
سب سے پہلے گوند ہوا میں موجود پانی کو کشش کرتی ہے۔ اس کے بعد سیلیولوز کچھ اسطرح بنایا گیا ہے کہ وہ حرارت پاکر پانی خارج کرتا ہے اور یوں گوند کا جمع شدہ پانی باہر نکلنے لگتا ہے۔

آزمائش کے دوران اس کے بہترین نتائج سامنے آئے اور ہوا میں 30 فیصد نمی پر فی کلوگرام جل نے 13 لیٹر پانی بنایا ۔ اس کے بعد ریگستانی ماحول جہاں ہوا میں نمی 15 فیصد تک ہوتی ہے وہاں بھی اس نے 6 لیٹر پانی جمع کرلیا جو ایک نمایاں پیشرفت ہے۔ لیکن اس کی افادیت مزید بڑھائی جاسکتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جیل انتہائی کم قیمت پر تیار کیا جاسکتا ہے اور خام مال کی قیمت صرف دو ڈالر فی کلوگرام تک ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر پانی کشید کرنے کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کیلفورنیا: ایک دلچسپ ایجاد ملاحظہ کیجئے جس میں ایک شے میں 20 اشیا موجود ہے۔ یہ کہنے کو تو ایک غیر روایتی پنکھا ہے لیکن اس میں ہیٹر، ایئرپیوریفائر، ایئرکنڈیشن، اسپیکر، لائٹ، یوایس بی، ایلیکسا اسسٹنٹ، الٹرا وائلٹ روشنی، ایئر فلٹر، بلو ٹوتھ آپشن، گھڑی اور الارم، ریموٹ کنٹرول، ایپ کنٹرول، ٹچ پینل، موبائل فون چارجر اور دیگر اہم خواص موجود ہیں۔
اس ایجاد کو ہیکسون اسمارٹ ایئرفین کا نام دیا گیا ہے جس کی چندہ مہم کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ انڈی گو گو پر تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ یہ ایک طرح کا غیر روایتی پنکھا ہے جسے بڑی مہارت سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ فیچر سمو دیے گئے ہیں جو ہماری روزمرہ ضروریات پورا کرتے ہیں۔
اپنے لاتعداد شاندار خواص کی بدولت اسے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی ویب سائٹ پر سراہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی چندہ مہم میں تیزی سے رقم دی گئی اور لوگوں نے اس ہرفن مولا شے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
پنکھا کسی اہم تبدیلی کے بغیر ایئرکنڈیشن بن جاتا ہے اور ہیٹر میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس میں نصب الٹروائلٹ روشنی چلانے سے اطراف کا ماحول مکمل طور پر جراثیم سے پاک ہوجاتا ہے جبکہ اس میں نصب تین طرح کے فلٹر ہوا کو صاف کرتے رہتے ہیں۔
اس میں نصب خاص کاربن فلٹر اعلیٰ ٹیکنالوجی کے تحت ڈیزائن کیے گئے ہیں اور وہ 99 فیصد سے زائد مضر ذرات کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں۔ اندر ایک طاقتور آئیونائزر نظام ہے جو بیکٹیریا اور جراثیم کو اپنے اندر جکڑ لیتا ہے۔ اس طرح ہیکسن پنکھے کی اطراف ہر طرح سے محفوظ اور پاک رہتی ہیں۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسے ہر طرح کے ٹیسٹ سے گزارا گیا ہے اور یہ پنکھا ہر موسم اور مقام کے لیے انتہائی موزوں بھی ہے۔ اپنے تمام خواص کے تحت اس کی قیمت کچھ زیادہ ہے جو 400 ڈالر کے لگ بھگ ہے اور پاکستانی روپوں میں 80 ہزار بنتی ہے۔
سان ڈیاگو: امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایف ڈی اے) نے ایک دلچسپ طبی ایجاد کی منظوری دیدی ہے جو وائرلیس اسٹیتھے اسکوپ ہے۔ تاہم اسے دیگر اہم امور کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’اسٹیمواسکوپ پرو‘ نامی یہ ایجاد ایک چھوٹی سی ڈبیا کی مانند ہے جو دیگر فالتو آوازوں کو ہٹاکر صرف دل کی دھڑکن، سانس کی آمدورفت اور دیگر پھیپھڑوں کے عارضے کی آواز سناسکتی ہے۔ وائرلیس کی بدولت اس کا سارا ڈیٹا اسمارٹ فون ایپ پر موصول ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے اور اسے بار بار دیکھا جاسکتا ہے۔
وائرلیس اسٹیتھواسکوپ کو دیگر بہت سے کاموں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حاملہ مائیں اسے اپنے پیٹ سے چپکا کر بچے کےدل کی دھڑکن بھی سن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ وائرلیس اسٹیھتواسکوپ کو اپنے بازو کی بڑی رگ سے چپکا کر اس کی جسمانی آواز بھی سن سکتے ہیں۔ بلیوٹوتھ ٹیکنالوجی کی بدولت تمام طبی آوازیں فون پر موصول ہوتی ہیں۔
یہاں تک کہ وائرلیس اسٹیتھواسکوپ پالتو جانوروں کے جسم سےلگا کر ان کے دل کی دھڑکن کو بھی نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ اس چھوٹے سے ڈبیا نما آلے کو درخت پر لگا کر اس کے اندر سے موصول ہونے والی آوازیں بھی محسوس کی جاسکتی ہیں۔
دوسری جانب کووڈ کے ماحول میں ڈاکٹرمریض کے قریب جانے سے گریز کرتے رہے اور اس صورتحال میں اسٹیمواسکوپ پرو ایک بہترین حل ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایجاد کا مستقبل بہت روشن ہے۔
اسٹیمو اسکوپ پرو کی تعارفی قیمت 180 ڈالر ہے جبکہ اگست 2022 سے اس کی فراہمی شروع ہوجائے گی۔
لندن: ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی دروغ گو شخص سے سوال و جواب کے علاوہ اسے ایک اور کام پر لگایا جائے تو اس سے جھوٹ پکڑنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران لوگوں سے مختلف کام کروانے سے ان کا جھوٹ پکڑنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سچائی بیان کرنے کے مقابلے میں جھوٹ بولنے میں بہت زیادہ دماغی قوت اور توانائی صرف ہوتی ہے اور اس دوران مشکوک شخص سے کوئی کام کروایا جائے تو وہ اسے ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتا۔
یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کی تحقیق نے بتایا ہے کہ بڑے بڑے جھوٹے افراد سے تفتیش کے دوران ایک اور کام کرایا جائے تو وہ اس میں ناکام رہتے ہیں یا توجہ کھو دیتے ہیں۔ جامعہ کی شعبہ نفسیات کے پروفیسر ایلڈرٹ رِج گزشتہ 15 برس سے جھوٹ پکڑنے والے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔
مثلاً تفتیش کے دوران کسی مرد یا عورت کو سات ہندسوں والا گاڑی کا رجسٹریشن نمبر دوہرانے کو کہا جائے تو اس سے جھوٹ پکڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پروفیسر ایلڈرٹ کہتے ہیں کہ اس طرح جھوٹ پکڑنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب جھوٹ بولنے والے شخص کو کسی طرح کا سچ بولنے کا موقع دیا جائے تو وہ جھوٹ اور سچ دونوں کو ہی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن اگر اسے یہ موقع نہ دیا جائے تو وہ سچ بولنے کے عمل کو نظرانداز کرنے لگتا ہے۔
تجرباتی طورپر 164 افراد کو شامل کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ خبروں میں آنے والے سماجی معاملات یا رحجانات کی تائید کریں یا اس کے مخالفت کریں۔ پھر انہیں تین ایسے موضوعات پر بات کرنے کے لیے کہا گیا جنہیں وہ اہم ترین سمجھتے ہیں۔
اب ان افراد کو جھوٹ اور سچ والے گروہوں میں بانٹا گیا۔ یعنی سچ بولنےوالے گروہ سے کہا گیا کہ وہ جس معاشرتی مسئلے پر سوچتے ہیں وہ درست انداز میں بیان کریں تاہم دوسرے گروہ سے کہا گیا کہ وہ جو کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں اس کا الٹ اور جھوٹ نقطہ نظرفراہم کریں۔
اب جھوٹے افراد کےگروہ کو تفتیش کے دوران اچانک پوچھا گیا کہ ان کی گاڑی کا سات عددی رجسٹریشن نمبر کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آدھے افراد اپنی کار کا نمبر بیان کرنے سے قاصر رہے کیونکہ وہ جھوٹ بولنے میں مصروف تھے اور دماغ وہاں لگا ہوا تھا۔ آخر میں ان سے کاغذ پر اپنی رائے لکھنے کو بھی کہا گیا۔
سچ بولنے والے افراد کی اکثریت نے اپنی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر دوہرایا۔ اس طرح معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دروغ گوئی پر اتر آئے تو سوال و جواب کے دوران اس کی ذات سے وابستہ سچ باتیں اگلوائی جائیں تو وہ انہیں بیان کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
اس طرح کسی بھی شخص کے جھوٹ پکڑنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2328495/508/
واشنگٹن: فربہ مرد و زن اپنی بڑھتی ہوئی توند سے پریشان رہتے ہیں اور اب جیب میں سما جانے والا الٹراساؤنڈ اسکینر ان کے بدن میں چربی کی مقدار بتاتا ہے اور ساتھ ہی ایک ایپ چکنائی گھلانے طریقے اور ورزش بھی بتاتی رہتی ہے۔
اسے حقیقی وقت میں تصویر کشی اور الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے چربی نوٹ کرنے والا دنیا کا پہلا دستی (پورٹیبل) آلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ ’انڈی گوگو‘ پر اس کی تشہیر جاری ہے۔ اسکینر کے نتائج براہِ راست اسمارٹ فون ایپ پر دیکھے جاسکتے ہیں اور یوں الگورتھم جسمانی چربی میں کمی یا اضافے کی خبر بھی دیتا رہتا ہے۔
ایپ یہ بھی بتاتا ہے کہ جسم کے کس مقام پر خالص چربی کی تہہ کتنی موٹی ہے۔ جو خواتین و حضرات چربی کم کرنے کے لیے ورزش، غذا اور علاج کے اثرات جاننا چاہتے ہیں تو مارووٹو زیڈ 1 سے بڑھ کر مددگارآلہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔

نتیجہ دو سیکنڈ میں
پیٹ اور اطراف کے چربی بھرے حصے پر آپ الٹراساؤنڈ جیل لگائیں اور آلے کو وہاں رکھ کر گھمائیں اور دو سیکنڈ میں چربی کی مقدار اسمارٹ فون پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اسے محفوظ رکھ کر آپ چربی کم کرنے کا موازنہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ورزش سے چربی میں کمی کو براہِ راست دیکھ کر وزن کم کرنے کی مزید تحریک پیدا ہوتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمپنی آپ کو وزن کم کرنے اور چربی گھٹانے کے کئی آسان اور قابلِ عمل طریقے بھی بتاتی ہے جو ایپ پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
اس آلے کی قیمت 140 سے 200 ڈالر کے درمیان ہے۔
https://www.express.pk/story/2328448/9812/
واشنگٹن: دل کی بے ترتیب دھڑکن (اردمیا) درست کرنے کے لئے دل کے قریب پیس میکر نصب کیا جاتا ہے جسے عرفِ عام میں ہم دل کی بیٹری بھی کہتے ہیں۔ اب امریکی ماہرین نے عارضی استعمال کا پیس میکر بنایا ہے جو اپنا کام مکمل کرنے کے بعد ازخود گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے ازخود تلف ہوجانے والے’بایوڈگریڈیبل‘ مادوں سے تیار کیا گیا ہے۔
نارتھ ویسٹرن اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے مشترکہ سائنسدانوں نے فی الحال ’عارضی پیس میکر‘ پر کچھ سینسر لگا کر اسے جلد پر بیرونی طور پر آزمایا ہے۔
بعض صورتحال مثلاً دل کی سرجری اور دیگر امور میں تھوڑی دیر کے لیے پیس میکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن اس کےلیے جراحی کرکے آلہ لگانا اور دوبارہ سینہ چیر کر اسے نکالنا قدرے تکلیف دہ اور خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔ اسی مسئلے کے تحت پیس میکر تیار کیا گیا ہے۔
اسے مکمل طور انسانی جسم کے موافق بنایا گیا ہے جو کسی قسم کی مشکل یا زہریلے اثرات کی وجہ نہیں بنتا۔ وجہ یہ ہے کہ روایتی پیس میکر کے لیے دھاتی تار درکار ہوتے ہیں لیکن جزوقتی پیس میکر میں کوئی تار استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اپنا کام کرتے ہوئے دل کی دھڑکن کو اعتدال پر رکھتا ہے اور کچھ ہفتوں بعد ایسے غائب ہوجاتا ہے کہ وہاں تھا ہی نہیں۔
جسمانی مائعات یعنی پانی وغیرہ اسے دھیرے دھیرے گھلاتے رہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اسے بعض مریضوں کی جلد پر چپکا کرآزمائش کی گئ ہے۔ بیرونی پیوند ایک جانب دل کی دھڑکن اور جسمانی درجہ حرارت نوٹ کرتا رہتا ہے بلکہ اپنی بجلی کا کچھ حصہ بدن کے پار وائرلیس کی صورت میں دل تک پہنچاتا ہے جس سے پیس میکر چلتا رہتا ہے۔
لیکن عارضی پیس میکر کو تجربہ گاہ میں لائے گئے انسانی قلب، چوہوں اور کتوں پر بھی آزمایا گیا ہے اور عین توقع کے مطابق نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کا ڈیٹا بھی ٹیبلٹ اور فون کی ایپ پر بھیجا جاسکتا ہے جسے ڈاکٹر نوٹ کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پیس میکر مستقل اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ امراضِ قلب والے نومولود بچوں، دل کے والو کی جاری اور یا بائی پاس کے مریضوں کو بھی کچھ دنوں یا ہفتون کے لیے پیس میکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایجاد ان کی سب سے بڑی ضرورت حل کرسکتی ہے۔
اگرچہ آزمائشی دائرہ محدود ہے تاہم اسے بڑے پیمانے پر پہلے جانوروں پرآزمایا جائے گا اوراسی کےبعد ہی انسانوں کی باری آسکے گی۔
https://www.express.pk/story/2327762/9812/
ڈنمارک: تمام والدین نومولود بچے کے دن رات رونے سے پریشان رہتے ہیں۔ روایتی تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچوں میں کے بے وجہ رونے کا سلسلہ چھٹے ہفتے میں بڑھنے لگتا ہے اور بارہویں ہفتے تک بتدریج اضافے کے بعد اس میں کچھ کمی ہوتی ہے لیکن ایک نئ وسیع تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہے۔
سال 1962 میں Crying curve کے نام سے اہم تحقیق سامنے آئی تھی جس خلاصہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ والدین اور ڈاکٹر اب اسے نارمل سمجھتے ہیں تاہم اب ڈنمارک یونیورسٹی کے سائنسداں آرنلٹ کونٹائن ورملنٹ اور ان کےساتھیوں نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ پر نوزائیدہ بچوں میں رونے کا کا گراف یہی رحجان ثابت کرتا ہے تاہم نومولود بارہویں ہفتے کے بعد بھی روتے رہتے ہیں اور اب روایتی تحقیق زیادہ درست نہیں رہی اور ہمیں نیا ماڈل بنانا ہوگا۔
اس ضمن میں 17 ممالک میں کئے گئے 57 مختلف سروے کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 7580 پیدائشی بچے شامل تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں میں رونے کا دورانیہ تین گھنٹے تک جاپہنچتا ہے جو والدین بالخصوص ماؤں کو پریشان کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے تین ماہ نہیں بلکہ 12 ماہ یا پورے سال بھی رونے دھونے کے شکار رہتے ہیں اور والدین بے بس ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کی روشنی میں 1962 والا روایتی ماڈل ناکافی ثابت ہوا ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں رونے کا سلسلہ 6 ہفتوں کی بجائے صرف 4 ہفتوں بعد شروع ہوسکتا ہے اور اس میں تیزی پیدا ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 17 سے 25 فیصد بچے رونے کے اس رحجان کے شکار ہوتے ہیں۔
اس ڈیٹا کی بنیاد پر ماہرین نے نومولود میں رونے کے دو ماڈل بنائے ہیں جو روایتی کرائنگ کرو کی نفی کرتا ہے۔ یعنی چار ہفتے بعد رونے میں اضافے کا ماڈل اور دوسرا ماڈل پیدائش کے پہلے ہفتے رونے کے ماڈل کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی ہے۔
ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ مختلف ممالک کے نومولود بچوں میں رونے کا رحجان بھی الگ الگ ہوسکتا ہے، مثلاً بھارت، میکسکو اور جنوبی کوریا کےبچے کم روتے ہیں جبکہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے بچے زیادہ دیر اشک بہاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2328421/9812/
طویل عرصے سے یہ مانا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ پینے سے بچوں کا IQ بڑھتا ہے اور حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس خیال کو تقویت بخشی ہے۔
نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ جو بچے 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک ماں کے دودھ پر رہتے ہیں، وہ چودہ برس کی عمر تک اُن بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر علمی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں جنہیں کم مدت تک یا ماں کا دودھ سرے سے پلایا ہی نہیں گیا۔
2000 سے 2002 کے درمیان 7،800 نومولود بچوں کو 14 سال تک مطالعے کیلئے رجسٹر کیا گیا تھا۔ ان میں سے 23 فیصد وہ بچے تھے جنہوں نے 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک ماں کا دودھ پیا۔
تمام بچوں کا 11,7,5 اور 14 سال کی عمر میں مخصوص زبانی اور علمی امتحان لیا گیا جس میں پایا گیا کہ وہ بچے جو پیدائش کے بعد 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک ماں کے دودھ پر رہے، انہوں نے مشق میں اُن بچوں کے مقابلے میں زیادہ اسکور حاصل کیے جنہیں ماں کا دودھ نہیں پلایا گیا۔
انگلینڈ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں مطالعے کی سرکردہ مصنف اور محقق، رینی پیریرا نے بتایا کہ وہ مائیں جو سماجی طور پر مضبوط پس منظر اور بہتر علمی صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں، وہ اپنے بچوں کو زیادہ عرصے تک دودھ پلاتی ہیں جس سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ ماں کا فہم اور اُس کے دودھ سے بچے پر پڑنے والے اثرات کے درمیان ایک ربط موجود ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ماں کے دودھ میں polyunsaturated fatty acids اور micro nutrients ہوتے ہیں جو دماغ کی نشوونما میں مدد دیتے ہیں۔ اس میں microRna بھی ہوتے ہیں جو دراصل جینیاتی کوڈ کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو دماغ کو بہتر انداز میں پروگرام کرنے، سمجھنے اور صحیح طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2328514/9812/
شاندار خبر، ٹیسلا کے بیٹری ریسرچ گروپ نے 100 سال تک چلنے والی بیٹری تیار کرلی
May 28, 2022 | 20:33:PM

سورس: Twitter/@Tesla
اوٹاوا(مانیٹرنگ ڈیسک) الیکٹرک کار ساز کمپنی ٹیسلا کے ’بیٹری ریسرچ گروپ‘ نے ڈلہوزی یونیورسٹی کے ماہرین کے ساتھ مل کرایک ایسی بیٹری تیار کر لی ہے جس کا لائف سائیکل حیران کن طور پر 100سال ہو گا۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق کینیڈا میں موجود ٹیسلا کے اس ریسرچ گروپ اور ڈلہوزی یونیورسٹی کی طرف سے جاری کیے گئے پیپر میں بتایا گیا ہے کہ اس بیٹری میں لیتھیئم کی بجائے ’نِکل‘ (Nickel)استعمال کیا جائے گا۔
پیپر میں بتایا گیا ہے کہ نِکل کی بنیاد پر بنائی جانے والی یہ بیٹری چارجنگ اور توانائی کی کثافت کے حوالے سے موجودہ لیتھیئم فیرم فاسفیٹ سیلزکی حامل بیٹری کے برابر ہو گی تاہم یہ 100سال تک ختم نہیں ہو گی۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم میں ڈلہوزی یونیورسٹی کینیڈا کے ماہر جیف ڈان بھی شامل ہیں جو دنیا میں بیٹری ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے ماہرین میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔
جیف ڈان اب تک لیتھیئم آئن بیٹریوں پر کام کرتے آ رہے تھے، یہ انہی کی محنت ہے جس کی بدولت لیتھیئم آئن بیٹریوں کی لائف میں اضافہ ہوا جو آج ہم استعمال کر رہے ہیں۔اس پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر نِکل کے استعمال سے بنائی گئی بیٹری کو اگر ہر بار 25ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر ری چارج کیا جائے گا تو اس کی لائف 100سال سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/28-May-2022/1444227?fbclid=IwAR1zJyTkjlJpLTMeSumQDjXq76NLy-awuVxRKmdCNt5gJ8huZNgMTeYkvwg
سوئزرلینڈ: جس طرح ویلڈنگ سے دھاتی ٹکڑے جوڑے جاتے ہیں عین اسی طرح گہرے زخم جوڑنے کی ایک نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جسے سرجری میں انقلابی قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرِ طبیعیات آسکر سائپولاٹو نے یہ ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض اقسام کی جراحی میں جسمانی مائع اور خون رِستے رہتے ہیں، جس سےمریض کو ہسپتال میں رکھنا ضروری ہوجاتا ہے جبکہ تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ بسااوقات پچیدگی بڑھنے سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
پھر جسم کے اندرونی مائعات کا مسلسل بہاؤ بدن کے دیگر عضو میں انفیکشن کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر آسکر نے اسے ’لیزر ٹشو ویلڈنگ‘ کا نام دیا ہے۔ اس میں حیاتیاتی طور پر موزوں (بایوکمپیٹیبل) مادے یعنی ایلبیومن اور خون کا ایک پروٹین شامل کیا ہے۔ اس میں ٹائٹانیئم الوئے (بھرت) کے بہت ہی باریک ذرات بھی ملائے گئے ہیں۔ ان سب چیزوں کو ایک مرہم میں ڈھالا گیا اور جب اس پر لیزر ڈال کر گرم کیا جاتا ہےجس سے کھلے زخم پر ایک مضبوط حفاظتی چادر سی بن جاتی ہے جو ایک مضبوط اسٹیکر کی طرح مکمل طور پر واٹر پروف بھی ہوتی ہے۔
اگرچہ سرجری میں اسٹیپل کا عمل بھی استعمال ہوتا ہے، زخم کے کنارے جلا کر انہیں بند کیا جاتا ہے اور فائبرن پروٹین کی پٹی بھی لگائی جاتی ہیں لیکن ان تدابیر میں کچھ نہ کچھ خامیاں اپنی جگہ موجود ہیں اور لیزرٹشو ویلڈنگ اس کا متبادل بن سکتی ہیں۔ فائبرن عمل میں خون کے لوتھڑے بن سکتے ہیں اور اسٹیپل کرنے کا عمل خون یا پیپ کے رساؤ کی وجہ بن سکتا ہے۔
آسکر کے مطابق زخم کی ویلڈنگ یا سولڈرنگ میں ناسور بھرنے والا مٹیریئل اوپر رکھا جاتا ہے اور اس سے ایک طرح کی مہر لگ جاتی ہے۔ زخم بندھ ہونے سے مندمل ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور ٹشو (بافت) کی افزائش بھی تیز ہوجاتی ہے۔
ماہرین نے اسے مستقبل کی ٹیکنالوجی قرار دیا ہے اور برطانیہ میں این ایچ سے وابستہ آنتوں کے سرجن شرلے چین کے مطابق یہ اندرونی رساؤ کو روکنے والی ایک ٹیکنالوجی ہے تاہم اس کا تصدیق انسانی آزمائش کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔
اپنے تمام خواص کے باوجود یہ ایک ایک پرامید طریقہ علاج ہے جس کی انسانی آزمائش اب بھی برسوں دور ہے
https://www.express.pk/story/2327268/9812/
یوٹاہ: اگرچہ یہ ایک فلمی کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سائنسداں مسلسل 25 برس سے کینسر ختم کرنے والے ایک سالمے (مالیکیول) کی تلاش میں تھے جو اب مل چکا ہے۔
پہلے پہل یہ سمندری مرجانی چٹانوں (کورال) میں دریافت ہوا تھا لیکن اسے مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا تھا۔ اب نہ صرف یہ دوبارہ ملا ہے بلکہ اسے نرم کورال کی بجائے تجربہ گاہ میں بھی تیار کرسکتے ہیں جسے سنتھے سز کا عمل کہا جاتا ہے۔
ہم عرصے سے جانتے ہیں کہ سمندروں میں شفاخانہ چھپا ہوسکتا ہے۔ پھر رنگ برنگے اور کئی اقسام کے مونگے شاندار کیمیائی اجزا بناتے ہیں جن میں ادویہ کی نئی دکان بلکہ کان ہوسکتی ہے۔ 1990 کے دوران گریٹ بیریئر ریف میں ’ایلیوتھیروبن‘ نامی سالمہ دریافت ہوا تھا۔ یہ سرطانی خلیات (سیلز) کو تباہ کرتا ہے اور کینسر روکتا ہے لیکن اس کی ساخت اور بناوٹ کے عمل سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔
ممتاز سائنسی جریدے نیچر کیمیکل بائیلوجی میں شامل رپورٹ میں جامعہ یوٹاہ کے پروفیسر ایرک شمٹ نے لکھا ہے کہ نہ صرف ’ایلیوتھیروبن‘ کا ماخذ نرم کورال معلوم کیا گیا ہے بلکہ اس کے جینیاتی خواص بھی دیکھے گئے ہیں۔
سائنسداں ایک عرصے سے ’ایلیوتھیروبن‘ کی جینیاتی ترکیب معلوم کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھ میں وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آیا خاص طرح کے نرم مونگے انہیں خود بناتے ہیں یا پھر ان سے چپکے چھوٹے پودے ڈائنوفلیجلیٹس یہ کیمیکل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اب بھی مرجانی چٹانوں سے ’ایلیوتھیروبن‘ کی اتنی مقدار نہیں نکالی جاسکتی جس سے دوا بنائی جاسکے یا محض تجربات ہی ممکن ہوں۔
ڈاکٹر ایرک اور ان کے محقق ساتھیوں نے اب معلوم کیا ہے کہ کورال کے قریبی رشتے دار پودے ’سمندری قلم‘ (سی پین)میں بھی ’ایلیوتھیروبن‘ کی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کا مکمل جینیاتی مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’ایلیوتھیروبن‘ سے ملتے جلتے کئی کیمیائی اجزا معلوم کئے گئے اور یوں انہیں ایک بیکٹیریا میں شامل کرکے اس کا جائزہ لیا گیا۔
اب جین کلسٹر کو ایک تبدیل شدہ ای کولائی بیکٹیریا میں رکھ کر اسے مصنوعی طور پر تیار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی گئ ہے۔ یعنی اگر قدرتی طور پر ’ایلیوتھیروبن‘ کی مقدار کم ہے تو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہم تجربہ گاہ میں اس کی خاطرخواہ مقدار بناسکتےہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر اور بالخصوص نرم مونگوں میں ہزاروں شفا بخش سالمات موجود ہوسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2327304/9812/
الینوئے: نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کا روبوٹ صرف نصف ملی میٹر جسامت رکھتا ہے۔ یہ کسی بجلی یا ہائیڈرالک نظام کے بغیر مڑتا ہے، بل کھاتا ہے، رینگتا اور چلتا ہے بلکہ چھلانگ بھی لگاسکتا ہے۔
یہ روبوٹ شکل یاد رکھنے والی (شیپ میموری) بھرت (الائے) سے تیار کیا گیا ہے اور اسے ریموٹ کنٹرول سے حرارت کی بدولت قابو کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جوں ہی حرارت پڑتی ہے روبوٹ اپنی پرانی شکل پر لوٹ آتے ہیں۔ پھر اس پر باریک شیشے کی ایک تہہ چڑھی ہوتی ہے جو حرارت ختم ہوتے ہی روبوٹ کو اپنی اصل شکل میں لوٹادیتی ہے۔
اب روبوٹ کو ایک اسکیننگ لیزر کی بدولت گرم کیا جاتا ہے۔ جب لیزر بہت ہی چھوٹے کیکڑا روبوٹ پر پڑتی ہے تو وہ تیزی سے پورے روبوٹ تک پھیل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک سیکنڈ میں 10 چکر تک آگے بڑھتا ہے۔ اسکیننگ لیزر کی سمت سے ہی روبوٹ کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ اگرآپ دائیں جانب اسکین کرتے ہیں تو روبوٹ دائیں چلے گا اور بائیں جانب لیزر ڈالنے پر بائیں جانب آگے بڑھتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روبوٹ ایک سیکنڈ میں اپنی جسامت کا نصف فاصلہ طے کرسکتا ہے۔

سب سے پہلے روبوٹ کے سارے حصے ہموار انداز میں بنائے گئے اور ان پر سبسٹریٹ لگا کر انہیں موڑا گیا۔ پھر ان پر شیشے کی ہلکی پرت لگائی گئی جو انہیں اپنی شکل یاد دلاتی ہے اور حرارت ہٹنے پر اسے پہلی والی شکل میں لے آتی ہے۔
اس کے مرکزی موجد پروفیسر جان اے راجرز کہتے ہیں کہ اپنی بہت باریک جسامت کی وجہ سے روبوٹ انسانی جسم میں جاکر کئی طبی کام کرسکتا ہے دوم اسے مائیکروفیبریکیشن میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2327232/508/
کولون: دنیا بھر میں اسکولوں اور اسپتالوں جیسے مقامات پر گاڑیوں کے ہارن بجانے پر پابندی ہوتی ہے تاکہ اسکول کے اندر موجود بچوں کے تعلیمی عمل اور اسپتال میں موجود مریضوں کے آرام میں خلل نہ آئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کارساز کمپنی فورڈ ان جگہوں کے اطراف میں آنے والی گاڑیوں کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے جو ان گاڑیوں کے ان مقامات کی حدود میں داخل ہوتے ہی خود بخود گاڑیوں کی رفتار کو محدود کر دیا کرے گی۔ فورڈ کی جانب سے یہ اقدام، حفاظتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی میں جیو فینسز کا استعمال کیا گیا ہے۔ جیو فینسنگ میں حقیقی دنیا کے جغرافیائی علاقوں کی ورچوئل حد بندی کی جاتی ہے، جس میں حدود سے آگے گزرنے پر متعلقہ سافٹ ویئر کا جوابی عمل سامنے آتا ہے۔
اس معاملے میں فورڈ انٹرنیٹ سے جڑی گاڑیوں کے مذکورہ مقامات میں داخل ہونے پر خود بخود رفتار کم ہوجانے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے۔
یہ مقامات اسکول، اسپتال یا خرید و فروخت کی جگہوں کے اطراف موجود ہوسکتے ہیں جہاں پر زیادہ تعداد میں پیدل افراد موجود ہوتے ہیں۔
فورڈ کا اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی سڑکوں پر لگے رفتار کے اشاروں کی ضرورت کو ختم کر سکتی ہے اور گاڑی چلانے والوں کو رفتار کے قوانین کی خلاف ورزیوں کے سبب ہونے والے جرمانوں سے بچا سکتی ہے۔
فورڈ یورپ کے سٹی انگیجمنٹ جرمنی کے مینیجر مائیکل ہوئین کا کہنا تھا کہ کنیکٹڈ وہیکل ٹیکنالوجی میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ روز مرّہ کی ڈرائیونگ کو آسان اور محفوظ بنائے، نہ صرف گاڑی میں بیٹھے شخص کے لیے بلکہ سب کے لیے۔
کارساز کمپنی فی الحال جرمنی کے شہر کولون میں اپنی ای-ٹرانزٹ وین کا استعمال کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کی آزمائش کر رہی ہے۔
شہر کے مرکز میں جیو فینسز کے لیے 30 کلو میٹر فی گھنٹے کے علاقے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر جگہوں پر 50 کلومیٹر فی گھنٹہ اور 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے مطابق گاڑی جب بھی جیو فینس کیے گئے علاقے میں داخل ہوتی ہے اس کی رفتار خود بخود کم ہوجاتی ہے۔ البتہ گاڑی کا ڈرائیور کسی بھی وقت اس سسٹم کو نظر انداز کر سکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2327256/508/
کیمبرج: سائنس دانوں نے ایک بیٹری نما ڈیوائس بنائی ہے جو چارجنگ کے عمل کے دوران اپنے اطراف میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرلیتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کی جانب بنائے جانے والے اس سُپر کیپیسیٹر کا سائز پانچ روپے کے سکّے کے برابر ہے اور اس کو کم لاگت والی پائیدار اشیاء جیسے کے ناریل کے خول اور سمندرکے پانی سے بنایا جا سکتا ہے۔
اس ایجاد کے متعلق یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس کو کاربن کشید کرنے والی ٹیکنالوجیز کو مزید باصلاحیت بنانے میں استعمال کیا جاسکے گا۔
ماحول سے کاربن کو علیحدہ کرنے والی موجودہ ٹیکنالوجی کے لیے بڑی مقدار میں توائی درکار ہوتی ہے اور ان پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔
یہ سُپر کیپیسیٹر دوبارہ چارج ہوجانے والی بیٹری کے جیسی ہے، لیکن چارج کو ذخیرہ کرنے اور چھوڑنے کے لیے کیمیکل ری ایکشن کا استعمال کرنے کے بجائے اس کا انحصار الیکٹروڈز کے درمیان الیکٹرونز کی حرکت پرہوتا ہے۔
یہ دو الیکٹروڈز سے بنا ہوتا ہے جس میں ایک پر مثبت جبکہ دوسرے پر منفی چارج ہوتا ہے۔
محققین نے متعدد تجربوں میں وقفے وقفے سے مثبت سے منفی پلیٹ کی جانب والٹیج چھوڑاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار کشید کی جاسکتی تھی۔
جس کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع کر کے یا تو دوبارہ استعمال کر لی جائے یا ضائع کر دی جائے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے یوسف حمید شعبہ کیمیا کے ڈاکٹر ایلگزینڈر فورس، جن کی رہنمائی میں یہ تحقیق کی گئی، کے مطابق یہ سُپر کیپیسیٹر موجودہ صنعتی معیار سے ممکنہ طور پر زیادہ مؤثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیپیسیٹر کا چارجنگ-ڈِس چارجنگ کا عمل ممکنہ طور پر موجودہ انڈسٹری میں استعمال کیے جانے والے امائن ہیٹنگ عمل سے کم توانائی کا استعمال کرتا ہے۔
نینو اسکیل میں شائع ہونے والی تحقیق کی شریک مصنفہ گریس میپ اسٹون کا کہنا تھا کہ یہ سُپر کیپیسیٹر اتنا چارج جمع نہیں کر سکتے جتنا بیٹریاں کر لیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان سُپر کیپیسیٹرز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کو بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء سستی اور کثیر مقدار میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محققین ایسی اشیاء کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جو بے کار ہوں، ان سے ماحول کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوں اور ان کو پھینکنے کی کم سے کم ضرورت پڑے۔ مثال کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی پر مبنی الیکٹرولائٹ میں حل ہوجاتی ہے، جو در حقیقت سمندر کا پانی ہے۔
محققین کو امید ہے کہ یہ نئی ڈیوائس موسمیاتی تغیر سے نمٹنے کے لیے مزید مدد دے سکتی ہے اور ہر سال ماحول میں خارج ہونے والی 35 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسئلے کے لیے فوری حل فراہم کر سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2326373/508/
بیجنگ: چین نے دنیا کا پہلا ایسا خودکار بحری بیڑہ بنایا ہے جس پر خودکار ڈرون، خودکار کشتیاں اور خودکار آبدوزیں ہیں۔ ابتدائی طور پراس کا مقصد تحقیق بتایا جارہا ہے لیکن خیال ہے کہ یہ دفاعی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوسکے گا۔
اسے ’زو ہے ین‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں 50 کے قریب خودکار ڈرون، کشتیاں اور چھوٹی آبدوزیں رکھی جاسکیں گی۔ اس بحری بیڑے کی لمبائی 290 فٹ ہے جو دنیا کا پہلا نیم خودکار ڈرون کیریئر ہے۔ یہ خودکار ڈرون اور کشتیاں لانچ کرسکتا ہے، ان سے رابطہ رکھے گا ۔ اس میں موجود آبدوزیں، کشتیاں اور فضائی ڈرون باہم مل کر ایک مشن انجام دے سکیں گے۔ تاہم چین نے کہا ہے کہ اسے نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

چین نے کہا ہے کہ یہ خودکار تو ہے لیکن اسے مصروف بندرگاہوں کے قریب نہیں رکھا جائے گا۔ اسے کھلے اور دوردراز پانیوں میں پہنچاکر ہی ریموٹ کنٹرول سے چلایا جائے گا۔ اس کے بعد بحری بیڑے کا خودکار نظام اپنا کام شروع کردے گا۔ یہاں خودکار انداز میں کشتیاں پانی میں اتریں گی اور ڈرون پرواز کریں گے۔

چینی حکام کے مطابق وہ سمندر، فضا اور پانی کی سطح جیسے تینوں مقامات پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں اور مخصوص مقاصد کے لیے تھری ڈی انداز میں سمندروں کا جائزہ لیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈرون کشتیوں اور آبدوزوں کو پانی میں اتارنے اور واپس جہاز تک لانے کا کام کریں گے جبکہ انسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔
چینی اکادمی برائے سائنس سے وابستہ ڈاکٹر ڈیک چین نے اسے ایک نئی ’سمندری نوع‘ یا بحری ایجاد قرار دیا ہے جو سمندری تحقیق کو نئی جہات سے روشناس کرائے گی۔ تاہم انہوں نے اسے اسے ’اوشن ریسرچ پلیٹ فارم‘ کا نام بھی دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2325843/508/
لاس اینجلس: تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مریض پر کینسر ختم کرنے والے تبدیل شدہ وائرس کی آزمائش شروع کی گئی ہے، توقع ہے کہ اس طرح کینسر کا نیا علاج سامنے آسکے گا۔
ماہرین نے ایک اونکولائٹک یا کینسر کُش وائرس جینیاتی سطح پر تبدیل کیا ہے اور اسے ایک دوا میں ملایا جسے CF33-hNIS کا نام دیا گیا ہے تاہم اس کا سادہ نام ویکسینیا بھی ہے۔
سی ایف 33 ایچ این آئی ایس خسرے کا تبدیلی شدہ وائرس ہے جو بیماری تو نہیں پیدا کرتا بلکہ سرطانوی خلیات میں گھس کر اپنی تعداد بڑھاتا ہے اور یہاں تک متاثرہ خلیے کو پھاڑ دیتا ہے۔ اب وائرس کے سینکڑوں ہزاروں نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں جو اینٹی جن کا کام کرتے ہوئے جسم کے اپنے دفاعی نظام کو متحرک کرکے اطراف کے کینسر خلیات پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یوں یہ دوطرح سے کام کرتا ہے۔
جانوروں پر انہیں آزما کر حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں لیکن اب تک کسی انسان پر آزمائش نہیں کی گئی تھی۔ اب لاس اینجلس کے سٹی آف ہوپ کینسر مرکز اور آسٹریلوی امیوجین کمپنی نے انسانوں پر پہلی آزمائش کا اعلان کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں 100 افراد پر اس طریقہ علاج کے محفوظ ہونے کا جائزہ لیا جائے گا۔ تاہم مرکزی سائنسداں ڈیننگ لی نے بتایا کہ اونکولائٹک خلیات سرطان کے خلاف جسم کا مدافعتی نظام بڑھاسکتےہیں اور بسااوقات امینوتھراپی سے بھی مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ سی ایف 33 ایچ این آئی ایس سے مریضوں کے معالجے میں مدد ملے گی۔
تجربے میں شامل تمام 100 افراد کے جسم میں سرطان کے ٹھوس اور بڑے پھوڑے ہیں جو پہلے دو معیاری علاج کراچکے ہیں۔ تمام مریضوں کے گوشت یا رگ میں براہِ راست کم شدت کی دوا کا ٹیکہ لگایا جائے گا۔ اس دوران ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تمام مریضوں کا معائنہ کرے گی۔
دوا میں شامل ’ہیومن سوڈیئم آیوڈائڈ سمپورٹر‘ یا ایچ این آئی ایس ایک طرح کا پروٹین ہے جو بدن میں جاکر وائرل کی بڑھتی تعداد، کینسر خلیات کی تباہی اور دیگر معمولات کی تصویر کشی میں مدد فراہم کرے گا۔
لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مریض پر دوا کے اثرات اور کسی طرح کے منفی خطرات کو معلوم کیا جائے جو سائنسدانوں کا اولین مقصد بھی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق دوا کی آزمائش دو سال تک جاری رہے گی۔
https://www.express.pk/story/2325816/9812/
ساؤ پاؤلو: برازیلی محققین نے پھلوں اور سبزیوں میں ایک ایسا مرکب دریافت کیا ہے جو جنوبی امریکا میں بکثرت پائے جانے والے زہریلے پِٹ وائپر سانپ کے زہر کو غیر مؤثر کر سکتا ہے۔
آن لائن ریپٹائل ڈیٹا کے مطابق بوتھراپس جیرارکا نامی یہ سانپ برازیل میں ہر سال اندازاً 26 ہزار لوگوں کو ڈستا ہے۔
برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو کے بیوٹانٹن انسٹیٹیوٹ میں کی جانے والی یہ تحقیق جو فرنٹیئرز اِن فارماکولوجی میں شائع ہوئی ہے، میں معلوم ہوا ہے کہ ریوٹِن نامی مرکب کا تبدیل شدہ ورژن سانپ کے کانٹنے کے اثر کو مؤخر کر سکتا ہے۔
تحقیق میں حاصل ہونے والے اس نتیجے کی بدولت انسداد بوتھراپِک سیرم سے اس زہریلے سانپ کے کاٹے کے علاج کو مدد مل سکتی ہے۔ ایسا ہونا نواحی علاقوں میں سانپ کے کاٹنے کے کیسز کو فوری طبی امداد دے گا جہاں طبی امداد کی فوری فراہمی ناممکن ہے۔
تحقیق کو کو آرڈینیٹ کرنے والے مارسیلو سینٹورو کا کہنا تھا کہ یہ سیرم سانپ کے کاٹے کے بنیادی اثر کا علاج کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طریقے سے ریوٹن سیرم کے متبادل کے طور پر نہیں بلکہ ایک معاون کے طور پر کام کرے گا اور زہر کے اثرات کو مؤخر کرتے ہوئے خون کے بہاؤ اور سوزش کو قابو کرے گا۔
https://www.express.pk/story/2324620/9812/
کیلیفورنیا: دنیا بھر میں کشتیوں کے نت نئے ڈیزائن سامنے آتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں ایک دلچسپ مکڑی نما ڈیزائن کی کشتی کیلیفورنیا کی مرین ایڈوانس روبوٹکس نے تیار کی ہے۔
مکڑی جیسی ٹانگوں والی ڈبلیو اے ایم وی کا پورا نام ’ویو ایڈاپٹو ماڈیولر ویسل‘ ہے جس کا پانچواں ماڈل پیش کیا گیا ہے۔ بدلتے ہوئے سمندری ماحول کے تحت اسپرنگ، ہائیڈرالک نظام اور کئی جوڑوں سے بنی ٹانگیں لمبی ہوجاتی ہیں جو اسے ہر طرح کے بپھرے ہوئے سمندر میں کام کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
اس کی متحرک کیفیت کا اندازہ ہوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تھوڑی سی جگہ پر 360 درجے پر گھوم سکتی ہے جو عام کشتیوں کے بس کی بات نہیں۔

اب لہروں کے لحاظ سے بدلنے والے نظام کی بات کی جائے تو اس میں کئی ماڈیول (حصے) اور انٹرفیس ہیں جو فوری طور پر پرپلشن سسٹم کو چلاتے ہیں، سینسر اور آلات کو دیکھتے ہوئے مشن کے لحاظ سے خود کو مرتب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری کشتی کو آسانی سے کھولا اور جوڑا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ کشتی کھول کر ایک شپنگ کنٹینر میں رکھی جاسکتی ہے۔

اگرچہ اسے انسان بھی چلاسکتا ہے لیکن یہ ریموٹ کنٹرول سے بھی قابو کی جاسکتی ہے۔ ڈبلیو وی اے ایم کے کئی ماڈل ہیں جن میں سب سے بڑا ماڈل 100 فٹ طویل ہے۔ اپنی بدلتی ہوئی کیفیت کی بنا پر کشتی کو کئی کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کمپنی کے مطابق اسے عسکری، تحقیقی، ہنگامی امداد سمیت کئی کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کی ڈبلیو وی اے ایم کا تصور طلباوطالبات کے ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا تھا جسے اب باقاعدہ ایک کمپنی کا نام دیدیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2324478/508/
بیجنگ: چینی ماہرین نے پانی میں تیرنے اور ہوا میں پرواز کرنے والا ایسا ڈرون بنایا ہے جس پر ایک چھوٹا ربر کا سکشن کپ لگا ہے جس کی بدولت وہ بڑے جانور سمیت کسی بھی جگہ پر مضبوطی سے چمٹ سکتے ہیں۔
اس طرح آبی ڈرون وھیل پر سوار ہوکر ان کی نگرانی کرسکتے ہیں یا خاموشی سے دشمن کی آبدوزوں سے بھی جڑسکتے ہیں۔ ڈرون کا سکشن پمپ ریمورا نامی مچھلی سے بنایا گیا ہے۔ یہ مچھلی بڑے جانوروں سے چمٹ جاتی ہے اور انہیں تنگ کرنے والے کیڑے مکوڑوں یا طفیلیوں کو کھاتی رہتی ہے اور اس کے بدلے مفت میں سواری کےمزے لیتی ہے۔ کارخانہ قدرت میں اس عمل کو ’ہم زیستگی‘ یا سمبوائیوسِس‘ کہا جاتا ہے۔
بیجنگ میں واقع بی ہینگ یونیورسٹی کے لائی وین کا روبوٹ نہ صرف پانی میں تیر سکتا بلکہ بڑے سمندری جاندار سےچمٹ جاتا ہے بلکہ یہ ہوا میں پرواز کے دوران بھی اڑنے والی شے سے چمٹ سکتا ہے۔ اس کےلیے ریمورا مچھلی کاسکشن نظام تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا گیا ہے۔ ربر پر مشتمل اس پیڈ کے تمام حصے جب ملتے ہیں تو وہ نمی سے بھرپور سکشن کپ کی طرح کام کرتے ہیں اور کسی بھی شے سے جڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن پانی میں ڈبکی لگانے کے لیے ماہرین نے کنگ فشر پرندے سے مدد لی ہے جو خاص انداز سے اپنے بازو سکیڑ کر گہرائی تک جاتا ہے اور شکار پکڑ کر لاتا ہے۔ عین اسی طرح ڈرون کی پنکھڑیاں بھی سکڑ کر بند ہوجاتی ہیں اور یوں وہ پانی میں تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔
اس کے بعد پانی سے فضا میں آنے کے لیے ڈرون کی پنکھڑیاں کھل جاتی ہیں اور وہ اس تیزی سے گھومتی ہیں کہ وہ پانی کو چھوڑ کر کامیابی سے فضا میں بلند ہوجاتا ہے اور پرواز کرتا رہتا ہے۔
تجربہ گاہ میں 40 سینٹی میٹر لمبے روبوٹ نے پانی میں جاکر اندر تیرتے تیزرفتار روبوٹ سے چپک جانے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد وہ الگ ہوگیا لیکن روبوٹ سے جڑنے کے بعد اس نے صرف 5 فیصد توانائی ہی حاصل کی۔ یہ روبوٹ بار بار ہوا میں اڑسکتا ہے اور بار بار پانی کے اندر جانے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔
مزید بہتری کے بعد اسے ڈھائی میٹر گہرائی میں آزمایا گیا ہے۔ اس کےبعد دھیرے دھیرے بیرونی کنٹرولر سے اس کا رابطہ کمزور دیکھا گیا ۔ اب ماہرین اس کے بہتر مواصلاتی نظام پر کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ مزید گہرائی تک کام کرسکے گا۔
کثیرالمقاصد ڈرون کو وائلڈ لائف سروے، سائنسی تحقیق، سمندری جانوروں کی بقا، جاسوسی اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر جی پی ایس نظام بھی نصب ہے۔
https://www.express.pk/story/2324077/508/
کولمبس، اوہایو: ہارٹ فیل کی صورت میں پھیپھڑے میں مائع جمع ہوتے رہتے ہیں اور آواز بھی بدل جاتی ہے۔ اب ایک ایپ کی بدولت آواز میں تبدیلی سے قبل ازوقت دل کی بگڑتی صورتحال سے خبردار ہوا جاسکتا ہے۔
یورپی سوسائٹی برائے کارڈیالوجی کی حالیہ کانفرنس میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اسے اوہایواسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ولیم ابراہم اوران کے ساتھیوں نے تیار کیا ہے۔ ایپ وقفے وقفے سے مریض کی آواز نوٹ کرکے اس میں چھپی تبدیلیاں نوٹ کرتی رہتی ہے۔
پھیپھڑوں میں مائع بھرنے سے آواز پراثر پڑتا ہےاوریوں ایپ وقت سے پہلے80 فیصد درستگی سے ہی ہارٹ فیل یا اس سے وابستہ کیفیت سے خبردار کردیتی ہے۔ اس طرح بروقت علاج ممکن ہوتا ہے اور مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
ہارٹ فیل ہونے کی کیفیت میں دل کے خون پمپ کرنے کی قوت دھیرے دھیرے متاثر ہوتی ہے اور یوں ایک گردے بھی مائع کشید نہیں کرپاتے۔ پھر یہ مائع ہاتھ ، پیروں اور آخرکار پھیپھڑوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ پھیپھڑوں میں تنگی پیدا ہوتی ہے اور سانس بھی گھٹنے لگتا ہے۔ مریض کو بار بار ہسپتال لے جانے کی نوبت پیش آتی ہے۔
ابتدائی طور پر ایپ کو کل 180 مریضوں پرآزمایا گیا ہے۔ سب سے پہلے اسمارٹ فون کے عام مائیک پر مریضوں نے پانچ پانچ جملے ادا کئے۔ مطالعے کے دوران ہر صبح ناشتے سے قبل مریضوں کوآواز ریکارڈ کی گئی اور دن میں بھی کئی مرتبہ ان کے جملے ریکارڈ کئے گئے جو ماہرین تک ہسپتالوں میں پہنچ رہے تھے۔
ماہرین نے آواز میں تبدیلی کو دیکھتے ہوئے نہایت کامیابی سے ان کے قلب کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو نوٹ کیا۔ یہاں تک کہ دل کی بگڑتی کیفیت سے 31 روز قبل ہی ایپ نے اس سے خبردار کردیا تھا۔
یوں 512 دنوں میں کل 39 افراد کو ہارٹ فیل کا عارضہ ہوگیا اور ایپ نے 80 فیصد درستگی سے اس کی پیشگوئی کی تھی۔
https://www.express.pk/story/2325344/9812/
گیلوے، آئرلینڈ: ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈیمینشیا کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکان سے متعلقہ عوامل ممکنہ طور پر عمر کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ڈیمینشیا ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں انسان کی دماغی صلاحیتیں جیسے کہ سوچنا، یادداشت وغیرہ ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
محققین کے مطابق تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج ماہرین کو کسی بھی شخص کے ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے متعلق درست پیشگوئی کرنے میں مدد دے سکیں گے اور ان کو طرزِ زندگی بدلنے کا مشورہ دینے کے قبل ہو سکیں گے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ 55 سال کی عمر کے قریب افراد جو ذیابیطس اور بلند فشار خون میں مبتلا تھے ان میں آئندہ 10 سالوں کے اندر ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ دیکھا گیا۔
جبکہ 65 سال کے قریب وہ لوگ جو دل کے مریض تھے ان میں ڈیمینشیا کے خطرات زیادہ تھے اور 70 کی دہائی میں موجود وہ لوگ جو ذیابیطس اور فالج میں مبتلا تھے ان کو بھی ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ تھا۔
تحقیق کے مطابق 80 سال کے وہ افراد جنہیں ذیابیطس تھی اور ماضی میں فالج سے بھی متاثر ہوئے تھے ان کو بھی ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ لاحق تھا۔
نیشنل یونیورسٹی آف آئرلینڈ کے ایمر مک گرا، جو تحقیق کے مصنف بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے ہم کسی بھی شخص کے مستقبل میں ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے متعلق صحیح پیشگوئی کر سکتے ہیں اور ان کو طرزِ زندگی کی تبدیلی کی تجویز دے سکتے ہیں تاکہ ڈیمینشیا کے جو خطرات ان کو لاحق ہیں ان کو کم کیا جاسکے۔
اس تحقیق میں محققین نے فارمنگہم ہارٹ اسٹڈی کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ فارمنگہم تحقیق اس وقت امریکا میں جاری ہے اور اس میں 55 سال کے قریب 4899 اور 2386 وہ افراد تھے جن کو ڈیمینشیا کی بیماری نہیں تھی اور80 سال کے وہ افراد جن کا ڈیٹا دستیاب تھا شامل ہیں۔
https://www.express.pk/story/2325027/9812/
ٹیکساس: ایک انجینیئر نے محض عام کاغذ، پرنٹر اور دھاتی پرت کی مدد سے ایک آلہ بنایا ہے جس سے 6 جی فون نیٹ ورک کے بعض سگنل سنے جاسکتے ہیں یا پھر ان میں خلل ڈالا جاسکتا ہے۔
رائس یونیورسٹی سے وابستہ انجینیئر زنبیل شیخانوف نے اسے ’میٹا سرفیس اِن دی مڈل‘ کا نام دیا ہے جو 6 جی وائرلیس نیٹ ورک کی ہائی فری کوئنسی امواج کو دوسری سمت میں بھیج سکتی ہیں جنہیں تکنیکی زبان میں ’پینسل بیم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ سان انتونیو میں کمپیوٹراور موبائل فون سیکیورٹی سے وابستہ ایک کانفرنس میں ہیکنگ کا عملی مظاہرہ بھی کریں گے۔
ایک اور ماہر ایڈورڈ نائٹلی نے بتایا کہ ان کا الہ جن فری کوئنسیوں کو ہیک کرسکتا ہے، ابھی وہ استعمال میں نہیں مگر مستقبل میں وہ ضرور استعمال ہوں گی۔ اس لیے ضروری ہےکہ مستقبل کے خدشات اور حفاظتی اقدامات کا پہلے ہی جائزہ لیا جائے۔
کاغذ اور دھاتی چادر سے بنائی جانے والی میٹاسرفیس دو صارفین کے درمیان 150 گیگا ہرٹز پینسل بیم کے کچھ حصے کا دوسری جانب رخ موڑسکتی ہیں۔
اگرچہ 150 گیگا ہرٹز وائرلیس نیٹ ورک فری کوئنسی ابھی استعمال نہیں ہورہیں لیکن توقع ہے کہ اگلے دس برسوں کو ان کا استعمال عام ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس سے قبل ازوقت خبردار کررہے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2323665/508/
واشنگٹن: سائنسدانوں نے برقی سینسر سے مزین ایسی اسمارٹ چوسنی بنائی ہے جو بدن میں پانی اور دیگر اجزا کی کمی سے خبردار کرسکتی ہے۔
نومولود بچوں میں پانی کی کمی معلوم کرنے کے لیے ان کے بدن میں بطورِ خاص سوڈیئم، کیلشیئم اور پوٹاشیئم اور دیگر نمکیات کی مقدار نوٹ کی جاتی ہے۔ انہیں مجموعی طور پر الیکٹرولائٹ ہی کہا جاتا ہے۔ روایتی انداز میں خون ٹیسٹ کی بدولت ہی الیکٹرولائٹ کی کمی معلوم کی جاتی ہے۔ اب اسمارٹ چوسنی کی بدولت کسی تکلیف کے بغیر ہی بچے میں پانی اور نمکیات کی کمی معلوم کی جاسکتی ہے
بالخصوص قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں میں قلتِ آب کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ خون کے ساتھ ساتھ انسانی تھوک میں بھی ان کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔
واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جونگ ہون کم نے عام چوسنی میں برقی سرکٹ اور سینسر لگائے ہیں۔ بچہ اسے چوستا ہے اور تو سینسر تھوک میں سوڈیئم اور پوٹاشیئم آئن کی مقدار درستگی سے معلوم کرتے ہیں۔ ماہرین نے اس کی کیلبریشن کے لیے کئی معیارات استعمال کئے ہیں۔ اس کا ڈیٹا بلیو ٹوتھ کے ذریعے ماں یا نگراں کے فون کی ایپ تک منتقل ہوجاتا ہے۔ ایپ اسکرین پر اس کی ساری معلومات ظاہر ہوجاتی ہیں۔
بچے کے لعاب سے پانی کی کمی بتانے والے نظام پہلے بھی بن چکے ہیں لیکن مہنگےاور وزنی ہونے کی بنا پر زیادہ مقبول نہ ہوسکے۔ جب ہسپتالوں میں نومولود بچوں پر اسمارٹ چوسنی آزمائی گئی تو اس نے عین روایتی خون ٹیسٹ کی طرح ہی درست اعدادوشمار ظاہر کئے۔ یعنی اسے دنیا بھر میں روایتی ٹیکنالوجی کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں اسمارٹ چوسنی کو مزید مؤثر، کم خرچ اور ری سائیکل ہونے کے قابل بنایا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2323684/9812/
لندن: برطانوی سائنسدانوں نے ایک دوا بنائی ہے جو آنکھوں میں موجود موتیا کو تلف کرسکتی ہے بصورتِ دیگر انہیں صرف جراحی کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔
موتیا کے مریض میں آنکھ کے عدسے کی پشت پر پروٹین کے گچھے جمع ہوجاتے ہیں اور بینائی متاثر ہوتے ہوتے ہیں چند فیصد تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ عمر کے ساتھ یہ کیفیت زیادہ بڑھتی ہے جس کے لیے آنکھ کا عدسہ نکال کر موتیا صاف کیا جاتا ہے اور اس کی جگہ مصنوعی (پلاسٹک) لینس لگادیا جاتا ہے۔
برطانیہ کی انجلیا رسکن یونیورسٹی نے 26 چوہے جمع کئے اور انہیں موتیا کا مریض بنایا۔ ان میں سے نو چوہوں کو کوئی دوا نہ دی گئی جبکہ بقیہ چوہوں کی آنکھ میں آکسیسٹیرول یا وی پی ون 001 نامی دوا ٹپکائی۔ معلوم ہوا کہ 61 فیصد چوہوں کے قدرتی عدسے (لینس) میں بہتری پیدا ہوئی اور 46 فیصد چوہوں کی آنکھ کے عدسوں میں دھندلاہٹ بھی کم ہوئی۔ اس طرح آکسیسٹیرول ون کی افادیت ثابت ہوئی ہے۔
جن چوہوں کے لینس میں بہتری پیدا ہوئی تھی انہیں فوکس کرنے اور مختلف جسامت کی اشیا دکھائی گئی تھیں۔
یہ تحقیق پروفیسر باربرا پیئرشائنیک اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ ان کے مطابق یہ دنیا کی پہلی دوا ہے اور تحقیق ہے جس سے موتیا میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مزید کامیابی کی صورت میں اسے موتیا کا بغیرآپریشن علاج قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب بھی یہ جراحی کی متبادل دوا نہیں ہے۔
تاہم غورطلب بات یہ ہے کہ اس سے بعض اقسام کے موتیا جلدی دور ہوسکتے ہیں یا کم ازکم موتیا بننے کے عمل کو کچھ دیر کے لیے سست ضرور کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2323723/9812/
واشنگٹن: امیریکن کینسر سوسائٹی اور امیریکن سوسائٹی آف کلینیکل اونکولوجسٹ کی جانب سے پیش کیے گئے تخمینے کے مطابق سال 2022 میں تقریباً 34 لاکھ امریکی جِلد کے سرطان میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
امریکی اداروں کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کی بڑی تعداد (33 لاکھ) میں باسل خلیے ہوں گے جبکہ دیگر (99 ہزار 780) افراد میلینوما کی زد میں ہوں گے۔
میلینوما کیا ہے؟
میلینوما جِلد کے سرطان کی ایک نایاب اور خطرناک قسم ہے۔ کینسر ماہرین کے اندازے کے مطابق میلینوما اس سال 7 ہزار 650 امریکیوں کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔
کُل اعتبار کے حساب سے تقریباً 20 فی صد امریکی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جِلد کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عورتوں کی نسبت مرد اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن خواتین عموماً مردوں کے مقابلے میں کم عمری میں اس بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں۔
جِلد کا سرطان جِلد کے رنگ کی تمیز کیے بغیر کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ امریکا میں جِلد کا کینسر، کینسر کی سب سے عام قسم ہے لیکن اس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ بیماری زیادہ تر الٹر وائلٹ شعاؤں کے زیادہ افشا ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، چاہے اس کا انکشاف سورج سے ہو یا کسی دوسرے مصنوعی ذریعے سے۔
الٹرا وائلٹ شعائیں جِلد کے خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، ایسے غیر معمولی خلیوں کا سبب بنتی ہیں جو ٹوٹتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں۔
جِلد کے سرطان کی قسم اور اسٹیج کے حساب سے اس کا علاج مختلف ہوتا ہے لیکن علاج کا عام طریقہ کار کینسر زدہ ٹِشوؤں کو کاٹ کر علیحدہ کردینا یا ٹِشو کو ختم کرنے کے لیے جما دینا ہے۔
تمام اقسام کی الٹرا وائلٹ شعاؤں کا انسانی جِلد پر پڑنا، جِلد کے سرطان تک لے جا سکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2323272/9812/
نئی دلی: نینو ٹیکنالوجی کے علوم اب ثمرآور ہورہے ہیں اور اب ایسے نینوبوٹ بنائے گئے ہیں جو حرارت کی مدد سے نہ صرف دانتوں کی صفائی کرسکیں گے بلکہ گہرائی تک جاکر مضر بیکٹیریا کو بھی تلف کرسکیں گے۔
وجہ یہ ہے کہ دانت بہت گہرائی تک پیوست ہوتے ہیں جہاں ان کی صفائی بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ اب انڈین انسٹٰی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کے سائنسدانوں نے ایسے نینوبوٹ بنائے ہیں جنہیں مقناطیسی قوت سے کسی بھی جگہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ وہ دانتوں کے گہرے مقام یعنی روٹ کینال تک پہنچ کر صفائی کرسکیں گے اور یوں دانتوں کو بچانا ممکن ہوگا۔
دانتوں کی گہرائی میں ایک مقام ’ڈینٹینل ٹیوبولز‘ کہلاتا ہے جو دانت کی گہرائی میں خردبینی راستے ہوتے ہیں۔ یہ دانتوں کی بیرونی خول سے پیچے تک موجود ہوتے ہیں۔ یہاں بیکٹیریا دانت کو گھلانے لگتے ہیں اور روٹ کینال تھراپی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بصورتِ دیگر انفیکشن پیدا ہوکر اسے مزید تباہ کن بنادیتا ہے۔ نینوبوٹس اس عمل کو روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈینٹینل ٹیبولز بہت ہی باریک ہوتی ہیں اوربافتوں کے اندر تک موجود ہوتی ہیں۔ روٹ کینال عمل میں دانت صاف کرکے وہاں موجود بیکٹیریا کو ہٹایا جاتا ہے۔ لیکن بعض انواع کے بیکٹیریا ہر علاج کو ناکام بنادیتے ہیں اور کچھ باقی بھی رہ جاتے ہیں۔
اس کے لیے بھارتی سائنسدانوں نے سلیکن ڈائی آکسائیڈ اور اس پر لوہے کی پرت چڑھا کر بہت چھوٹے روبوٹ بنائے ہیں۔ یہ روبوٹ 2000 مائیکرومیٹر گہرائی میں جاتے ہیں۔ باہر سے انہیں حرارت دی جاتی ہے اور وہ اپنے اطراف کے بیکٹیریا کو تلف کردیتے ہیں۔
فی الحال خارج شدہ دانتوں پر ان کی آزمائش کی گئی تو وہ ڈینٹینل ٹیوبولز کی گہرائی تک پہنچے اور بیکٹیریا کو تباہ و برباد کردیا۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد روبوٹ کو وہاں سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اس کےبعد چوہوں کے دانتوں پر ڈینٹسٹ نینوبوٹس کی آزمائش کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہوں پر تجربات کے بعد ایک تجارتی کمپنی بناکر دانت صاف کرنے والے نینوبوٹس کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2323291/9812/
نیویارک: تصویر میں انوکھے ڈیزائن والا ٹریساؤنڈ ون اسپیکر نمایاں ہے جو 360 درجے دائرے میں اعلی معیار کی آواز بکھیرتا ہے۔ اس طرح ایک ہی اسپیکر مکمل سراؤنڈ ساؤنڈ کا تجربہ فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب اس کی بیس بہت ہی شاندار ہے جو آپ کے گھر میں موسیقی اور آوازکو ایک نیا عنوان دیتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے تمام خواص کے باوجود اس کی جسامت بہت ہی چھوٹی ہے۔ اسے سالگرہ کی ٹوپی کی طرح بنایا گیا ہے جس کے اطراف باریک خانے یکساں انداز میں آواز خارج کرتے ہیں۔
ہائی فائی ساؤنڈ کے لیے ٹرے ساؤنڈ ون کو خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے اور اسے مکمل طور پر ہاتھ سے بنایا گیا ہے۔ لکڑی کے فریم کے اندر اس کی حساس برقیات کو رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب بلیوٹوتھ ٹیکنالوجی سےبھی کام کرتا ہے۔
آپ کمرے میں تنہا ہو یا پھر کوئی تقریب ہو، ٹرے ساؤنڈ ون ہرطرح کے ماحول کےتحت بنایا گیا ہے۔ اگر اسے کمرے کے کونے میں بھی رکھ دیا جائے تو اپنے ڈیزائن کی بنا پر یہ پورے کمرے میں ہرسو آواز بکھیرتا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ موسیقی کے مختلف نوٹس اور سازکی آواز کو یہ اس طرح خارج کرتا ہے کہ ہر قسم کی آواز یکساں انداز میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب باریک آوازیں خارج کرنے کے لیے اس میں خاص مقناطیسی ٹویٹر لگائے گئے ہیں۔
مکمل طور پر ہاتھ سے بنے اسپیکر کو ایک درجن سے زائد پرتوں سے تشکیل دیا گیا ہے اور اسے ایک ماہر فنکار نے ڈیزائن کیا ہے۔ ان سب کے باوجود ٹریساؤنڈ ون اسپیکر کی قیمت صرف 400 ڈالر ہے جو بہت کم ہے۔
https://www.express.pk/story/2323307/508/
کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں عالمی یومِ فشارِ خون یا ورلڈ ہائپرٹینشن ڈے منایا جارہا ہے۔ بلڈ پریشر کا مرض خاموش قاتل کہلاتا ہے اور یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
تاہم ورزش، تمباکو نوشی سے گریز، غذائی احتیاط اور بعض غذاؤں کو معمول کا حصہ بنا کر بلڈ پریشر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
’خاموش قاتل‘ کے نام سے جانی جانے والی یہ کیفیت دل کے دورے اور فالج کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بلند فشارِ خون گردوں اور آنکھوں کے لیے خوفناک امراض کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ایسے مریضوں کے اعدادوشمار کا شدید فقدان ہے۔ لیکن نیشنل ہیلتھ سروے کے 18 فیصد نوجوان اور 45 سال سے زائد عمر کے 33 فیصد افراد بلڈ پریشر کے کسی نہ کسی طرح کے عارضے میں گرفتار ہیں۔
تاہم تمباکونوشی، ورزش اور بعض غذائیں کسی دوا کے بغیر بھی بلڈ پریشر کم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
چقندر
اگر آپ شوگر کے مریض نہیں تو چقندر کا رس بلڈ پریشر کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ نارویئن ممالک میں لگ بھگ تین لاکھ افراد پر ایک سروے کیا گیا تھا۔ اس میں بلڈ پریشر کے ایسے مریضوں کا انتخاب کیا گیا جنہیں کسی قسم کی ذیابیطس لاحق نہ تھی۔
تمام شرکا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے ایک گروہ کو نظرانداز کیا گیا اور دوسرے کو روزانہ ایک کپ چقندر کا رس دیا گیا۔ دسویں دن ہی بلڈ پریشر کے مریضوں میں افاقہ دیکھا گیا اور ان میں دس سے بیس یونٹ بلڈ پریشر کم ہونے لگا۔
کیلا
کیلا پوٹاشیئم سے بھرپور ہوتا ہے۔ 100 گرام کیلے میں 358 ملی گرام پوٹاشیئم موجود ہوتی ہے۔ پوٹاشئیم کی خاصیت ہے کہ نہ صرف بلڈ پریشر کو اعتدال میں رکھتی ہے بلکہ بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کو بھی کم کرتی ہے۔ پوٹاشیئم ایک عنصر ہے جو خون کی رگوں کی اندرونی دیواروں کو پرسکون رکھتی ہے اور یوں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔
اس طرح بلڈ پریشر کی سطح کم ہوتی ہے۔
ٹماٹر
ماہرین کہتے ہیں کہ ٹماٹر کا ایک گلاس رس پینا بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی سب سے بہتر قدرتی دوا ہے۔
ہیلتھ لائن نامی مشہور ویب سائٹ کے مطابق اس سے فشارِ خون کو قابو میں آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ جاپانی ماہرین نے بعض افراد کو ایک سال تک روزانہ ٹماٹر کا ایک گلاس جوس پلایا جس میں نمک نہیں تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ بلڈ پریشر میں نمایاں کمی واقع ہوئی، کولیسٹرول کم ہوا اور یوں خون کی نالیوں میں پلاک بھرنے سے تنگی کا رحجان بھی کم ہوتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ٹماٹر میں کئی اقسام کے پولی فینولز اور دیگر مرکبات موجود ہوتےہیں۔
لہسن
برصغیرپاک و ہند میں عام استعمال کیا جانے والا لہسن ’جادوئی سبزی‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس میں موجود ایک کیمیکل ’الیسین‘ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے جو فشارِ خون کو قابو میں رکھتا ہے۔ اس لیے لہسن کولیسٹرول کم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ دوسری جانب یہ بلڈ پریشر بھی کم کرتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2323223/9812/
ایمسٹر ڈیم: کھانا کھاتے وقت شاید ہی ایسا ہوتا ہو کہ کھانے میں پلاسٹک کا چھوٹا ٹکڑا ملا ہو، ایسا ٹکڑا جس کے نوالے کے ساتھ پیٹ میں چلے جانے کا امکان ہو اور پھر وہاں بھی وہ نظام ہضم کی گرفت سے بچ کر فضلہ بن جانے کے بجائے آنتوں کے ذریعے خون میں شامل ہوگیا ہو، پھر پورے جسم میں گشت کرتا پھرے اور انسانی زندگی کو خطرے میں ڈال دے۔
پلاسٹک روز مرہ کی اشیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز بنتا جا رہا ہے۔ یہ وہ خطرناک دیو ہے جو ہماری حسین اور رنگین دنیا کے صحت افزا ماحول کو نگل رہا ہے لیکن شاید کسی نےسوچا بھی نہ ہوگا کہ پلاسٹک کسی طرح ہمارے جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے گھومتا پھرے گا اور جان جوکھوں میں ڈال دے گا۔
اور بات صرف یہاں تک ہی محدود رہتی تو بھی قابو کی جاسکتی ہے لیکن معاملہ ہوا میں تیرنے والے پلاسٹک کے مائکرو اسکوپک بٹس کا بھی ہے جنھیں ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل ہونے کی اجازت دیکر مہمان بناتے ہیں اور یوں نظام تنفس یا نظام ہاضمہ کے ذریعے پلاسٹک کے یہ ذرات پھیپھڑوں یا ٓآنتوں سے گزر کر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اس بات کا انکشاف ہالینڈ کے محققین نے سائنسی جریدے مارچ انوائرمنٹ انٹرنیشنل میں کیا۔ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر پھیپھڑوں یا آنتوں میں داخل ہونے والا پلاسٹک تکنیکی طور پر جسم میں داخل نہیں ہوتا بلکہ وہیں مدافعتی یا ہاضمے کا نظام اسے ختم کردیتے ہیں۔ پلاسٹک صرف اسی وقت جسم میں داخل ہوسکتا جب وہ کسی طرح خون میں شامل ہونے میں کامیاب ہوجائے۔
اس مقالے میں محققین کا کہنا تھا کہ انسانی خون کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی نے ہمیں حیران کردیا۔ خون میں پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پورے جسم میں گردش کرتے ہوئے کسی بھی حساس حصے جیسے دماغ یا دل تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں کسی شریان کو بلاک کرکے برین ہیمبرج یا دل کے دورے کا موجب بن سکتے ہیں۔
محققین کا مزید کہنا تھا کہ یہ چیز اس نئی دریافت کو تشویشناک بناتی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک جسم کے مختلف نظاموں میں سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پلاسٹک کے بٹس میں زہریلے کیمیکل بھی ہو سکتے ہیں جو ہمارے ہارمون اور تولیدی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ کچھ جنگلی حیات میں دیکھا گیا۔
تحقیقی ٹیم میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں خوردبینی پلاسٹک کے ذرات کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ انھیں صرف ایک خوردبین سے نہیں دیکھا جاسکتا لہذا ہم نے ایک کیمیائی نقطہ نظر لیا۔ ہم 22 بالغوں سے خون جمع کیا اور بڑے خلیات کو ہٹانے کے لیے نمونے پر کارروائی کی۔ اس سے ایک مائع رہ گیا۔ اس کے بعد 700 نینو میٹر (0.00003 انچ) سے بڑے ذرات کو فلٹر کیا۔
محققین نے انسانی خون کے نمونوں نے پولیمر کی تلاش کی جو پانچ مختلف قسم کے پلاسٹک بناتے ہیں۔ 17 لوگوں کے خون میں چار قسم کی پولیمر پائی گئیں۔
محققین کے مطابق ٹیسٹ شدہ خون کے ہر چار نمونوں میں سے ایک میں پولی تھیلین موجود تھا۔ یہ خاص طور پر عام پلاسٹک ہے جو شاپنگ بیگز اور بوتلوں سے لے کر کھلونے اور ٹکڑے ٹکڑے کی کوٹنگز تک مصنوعات کی بہت وسیع رینج میں استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح ٹرائل میں حصہ لینے والے نصف لوگوں کے خون میں پی ای ٹی بھی پائی گئی جو کپڑوں اور پلاسٹک کی بوتلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک تہائی سے زیادہ خون کے نمونوں میں پولیسٹیرین پائی گئی جو انسولیٹنگ فوم، کمپیوٹر کیسز، سائنسی لیب ویئر، پلاسٹک کے کانٹے اور بالوں کی کنگھی میں پایا جاتا ہے۔
محقیقن کے مطابق صرف ایک نمونے میں پولی میتھائل میتھکریلیٹ یا پی ایم ایم اے پایا گیا جو شفاف اور ہیٹ مولڈ پلاسٹک کے دانتوں کے کام میں استعمال ہوتا ہے۔ ٹیم نے خون کے نمونوں میں پولی پروپیلین کو بھی تلاش کیا لیکن وہ نہیں مل سکا۔
https://www.express.pk/story/2322813/9812/
برکلے، کیلیفورنیا: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آنتوں کے اندر مختلف مفید اور دوست بیکٹیریا کئی بیماریوں کی وجہ بننے دشمن بیکٹیریا کی توانائی حاصل کرکے انہیں تباہ کردیتے ہیں اور یوں ہم کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیویس، کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آنتوں میں پائے جانے والے دوست بیکٹیریا ’پروبایوٹکس‘ سالمونیلا جیسے خوفناک جراثیم کی مسابقت میں ان سے توانائی حاصل کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں امراض والے جراثیم مرنے لگتے ہیں۔
تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر میگن لیاؤ اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ اس تحقیق سے آنتوں میں مفید بیکٹیریا کو بڑھانے اور پروبایوٹکس پر مبنی ادویہ سے انفیکشن ختم کرنے میں بہت مدد مل سکے گی۔
تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے انسان دوست بیکٹیریا کے مجموعے کے کا مشاہدہ کیا۔ اس کے ساتھ انتہائی مضر اور آنتوں اور پیٹ کی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا ای کولائی اور سالمونیلا پر بھی تحقیق کی گئی۔
معلوم ہوا کہ کئی اقسام کے بیکٹیریا آنتوں میں پیدا ہونے والے نائٹریٹ سے توانائی لیتے ہیں۔ لیکن سالمونیلا جراثیم فیگوسائٹس سے توانائی لیتے ہیں جو ایک طرح سے امنیاتی خلیات ہوتے ہیں جو زخم اور متاثرہ بافتوں کو ٹھیک کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ایک خاص طریقہ کار کے تحت مفید بیکٹیریا نائٹریٹ حاصل کرکے بیماری پھیلانے والے ننھے دہشتگرد جراثیم کی توانائی کم کرتے ہیں اور یوں ہم کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس طرح علاج کے غذائی طریقے سامنے آسکیں گے جن میں ہم پورے نظامِ ہاضمہ میں مفید بیکٹیریا بڑھا کر کئی امراض سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اسی طرح بہت جلد مؤثر’پروبایوٹک تھراپی‘ بھی ممکن ہوسکے گی۔
https://www.express.pk/story/2322422/9812/
آسٹریلیا: آسٹریلوی ماہرین نے ازخود چارج ہونے والی ایسی بیٹری ٹیکنالوجی کا تصور پیش کیا ہے جو ہوا میں موجود آبی بخارات سے بجلی جمع کرتی رہتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سورج سے آنے والی توانائی کی آدھی مقدار سمندر اور دریاؤں میں پانی بھاپ بنانے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور نمی کی صورت ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ آسٹریلوی کمپنی ’اسٹریٹجک ایلمنٹس‘ اور یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز نے ایک لچکدار ازخود چارج ہونے والی بیٹری تیار کی ہے جو کئی چھوٹے آلات کو بجلی کی مناسب مقدار فراہم کرسکتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو ’توانائی کی روشنائی‘ یا انرجی انک کہا گیا ہے، جسے ماحول دوست اور محفوظ مٹیریئل سے بنایا گیا ہے۔ فی الحال اسے بدن پر پہنے جانے والے طبی آلات (ویئریبل) میں لگایا جاسکتا ہے جہاں جسمانی نمی سے بھی چارج جمع کیا جاسکتا ہے۔
بجلی بنانے والے تجرباتی سیل کے ایک جانب جب آبی بخارات یا نمی ہو تو H+ پروٹون خشک طرف منتقل ہوتے ہیں اور یوں چارج کی علیحدگی (سیپریشن) ہونے لگتی ہے۔
کاروباری راز کے تحت اس کی مزید تفصیل نہیں دی گئی ہے لیکن اتنا ضرور بتایا گیا ہے کہ اس میں گرافین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اسے گرافین آکسائیڈ پر مبنی موئسچر الیکٹرک جنریٹر ( ایم ای جی ایس) کا نام دیا گیا ہے۔ اس تحقیق کی تفصیلات نینوانرجی نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
نمی سے چارج ہونے والی اس بیٹری کو تجربہ گاہ میں آزمایا گیا ہے اور اس سے کیلکیولیٹر اور چھوٹے آلات چلائے گئے ہیں۔ تفصیلات کے تحت برقیروں (الیکٹروڈ) پر ایف ٹی او طرز کا شیشہ اور چاندی کا ملغوبہ فرافین آکسائیڈ سے بنی ایک باریک پرت پر لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پرت ہی سب سے سرگرم ہوتی ہے جسے فنکشنل لیئر کہا گیا ہے۔
آلے کے دونوں اطراف میں سے ایک پر نمی جمع ہوتی ہے تو دوسری خشک ہوتی ہے۔ فنکشنل لیئر جب تک خشک رہے وہاں کے پروٹون بھی غیرسرگرم رہتے ہیں۔ جیسے ہی دونوں طرف نمی کا توازن بدلتا ہے۔ اس سے آئیونائزیشن کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور فنکشل گروپ میں کاربوکسلِک ایسڈ COOH بنتا ہے اور مثبت چارج خارج ہوکر ہائیڈروجن آئن یا ہائیڈرونز بنتے ہیں۔
اب ہائیڈرون خشکی والے حصے تک جانے لگتے ہیں اور چارج کے بعد وولٹیج بننے لگتے ہیں۔ اس طرح نمی کی وجہ سے چارج جمع ہونے لگتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2322466/508/
لندن: دنیا بھر میں بظاہر تندرست پیدا ہونے والے بچے اچانک موت کے منہ میں چلے جاتے ہی جنہیں ’سڈن انفنٹ ڈیتھ سنڈروم‘ (ایس آئی ڈی ایس) کہا جاتا ہے۔ ایک عرصے تک اسے سمجھا نہیں گیا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہےکہ خون میں موجود ایک قسم کا انیزائم یا خامرہ اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جن بچوں کے اچانک موت ہوجاتی ہے ان کے خون میں ’بیوٹائری کولینسٹریز (بی سی ایچ ای) نامی انیزائم کی کمی ہوتی ہے۔
ان بچوں کی اچانک اموات کو ہم بے بی کوٹ یا جھولے کی موت بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ لکڑی کے چوکھٹے میں سوئے بچے صبح کو فوت شدہ ملتے ہیں۔ یہ تحقیق نیو ساؤتھ ویلز کے ڈاکٹر کیرمل ہیرنگٹن اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔
انہوں نے نومولود بچوں کے ایڑھی پر سوئی چبھوکر لئے گئے خون کے خشک نمونے دیکھے ۔ ان میں 655 بچے شامل تھے جن میں سے 26 بچے ایس آئی ڈی ایس سے فوت ہوئے تھے۔ جبکہ 41 بچے دیگر وجوہ کی وجہ سے لقمہ اجل بنے تھے۔
معلوم ہوا کہ موت کے شکار ہونے والے بچوں کے خون میں ایک اینزائم بی سی ایچ ای کی شرح کم تھی جو دماغ کے جاگنے میں مدد کرتا ہے۔ جب بچے منہ پر پڑے کمبل یا ناک دبنے سے سانس نہیں لے پاتے تو دماغ انہیں خبردار نہیں کرپاتا اور یوں وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔
خیال ہے کہ جن بچوں میں بی سی ایچ ای کی شرح کم ہوتی ہے ان میں اچانک موت کا خطرہ ڈیڑھ سے دوگنا بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی تحقیق ہے لیکن اس ضمن میں مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔
https://www.express.pk/story/2321906/9812/
لندن: سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے لگ بھگ 33 انسانی اعضا سے دس لاکھ مختلف خلیات کا تفصیلی ڈیٹا جمع کرکے اس کا اٹلس تیار کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس طرح صحت اور امراض کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔
ویلکم سینگر سینٹر سے وابستہ محقق ڈاکٹر سارہ ٹایخماں نے بتایا کہ ’ہیومن سیل اٹلس‘ کو انسانی جسم کا گوگل میپ کہا ہے۔ اس میں بافتوں (ٹشوز) کی راہداریوں پر موجود طرح طرح کے انسانی خلیات اور کارکردگی کو دیکھا جاسکتا ہے۔
آخری اضافے کے تحت 24 انسانی بافتوں اور اعضا سے مزید پانچ لاکھ خلیات کو شامل کیا گیا ہے جن میں دل، جلد، اور دیگر خلیات شامل ہیں۔ ان سب کی تفصیلات ’سائنس‘ نامی جرنل میں 13 مئی کو چار مقالوں میں شائع ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر 83 ممالک کے 2300 سائنسدانوں نے اس میں حصہ لیا ہے۔
اسے انسانی جینوم پروجیکٹ کا ہم پلہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس میں انسانی سرگرم جین کا پورا ڈرافٹ شامل ہے۔ منصوبے سے وابستہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسٹیفن کویک کہتے ہیں کہ ہم انسانی جینوم کو ہی زندگی کی اصل کتاب کہتے ہیں جو درست نہیں، ہرانسانی خلیہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور اسکا جائزہ لے کر ہم مختلف خلیات کے درمیان روابط، تندرستی، بیماری اور دیگر کیفیات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2321832/9812/
No comments:
Post a Comment