آٹا چینی بحران رپورٹ میں سلمان شہباز کا ذکر ::: میں نے 3 ارب سبسڈی لی ، ڈھائی ارب ن لیگ نے دیے"چینی بحران انکوائری رپورٹ ، جہانگیر ترین ::: جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور شریف برادران کی شوگر ملز سے ریکارڈ طلب - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Monday, 25 May 2020

آٹا چینی بحران رپورٹ میں سلمان شہباز کا ذکر ::: میں نے 3 ارب سبسڈی لی ، ڈھائی ارب ن لیگ نے دیے"چینی بحران انکوائری رپورٹ ، جہانگیر ترین ::: جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور شریف برادران کی شوگر ملز سے ریکارڈ طلب

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-23&edition=KCH&id=5192365_31769537

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان میں چینی بحران سےمتعلق انکوائری کمیشن کی حتمی رپورٹ سامنے آگئی جس میں حالیہ چینی کی قیمتیں بڑھنے کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دے دیا گیا اور چینی بحران تحقیقاتی کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کردی، وزیراعظم اور کابینہ نے انکوائری رپورٹ کو منظر عام پرلانے کی ہدایت کی ہے، رپورٹ میں بڑے حیران کن انکشافات ہیں،تمام پہلوں کا احاطہ کیا گیا، شوگر ملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتے ہیں، کس طرح کسانوں کو نقصان پہنچایا گیا؟کسانوں کو گنے کے وزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے، کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سے گنا خریدا جاتا ہے، وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، تاہم اب کی یہ بات سچ ہوگئی ہے، کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، کسان سے کٹوتی کے نام پرزیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں، کابینہ نے دیگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت دی، جبکہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔ کابینہ نے شہزاداکبر ذمہ داری سونپی ہے، عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی،ابھی کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا،کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرے گی ۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز اور معاون خصوصی شہباز گِل کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رپورٹ جاری کی اور کہا کہ وفاقی کابینہ نے چینی بحران کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا تھا، پاکستان کی تاریخ کا آج بہت اہم دن ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسی کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ ایسا کمیشن بنائے۔ان کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا جس کا وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کا حکم دیا۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اس تاریخ ساز دن پر ہمیں سراہنا چاہیے ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں،چینی بحران پر انکوائری کمیشن نے مفصل رپورٹ پیش کی اور بہت سارے سوالات ہیں۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے انکوائری رپورٹ کو پبلک کرنے کا اعلان کردیا، آج سے یہ انکوائری رپورٹ پبلک ہے۔رپورٹ میں بڑے حیران کن انکشافات ہیں، تمام پہلوں کا احاطہ کیا گیا، رپورٹ میں لکھا گیا کہ شوگر ملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کسانوں کو نقصان پہنچایا گیا، کسانوں کو گنے کے وزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے، کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سے گنا خریدا جاتا ہے،گنا کم قیمت پر خرید کر اس کی لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے، کٹوتی کی مد میں کسان کو قیمت کم ادا کی جاتی ہے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گاتاہم اب کی یہ بات سچ ہوگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت کا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق غیر منتخب رکن بھی اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ شوگر ملز مالکان کے بغیر ممکن نہیں ہے،چینی کی قیمت کے ساتھ ایک طرح کا جوا ہو رہا ہے، گنا کم پیسوں میں خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی گئی، کمیشن نے ریکوری کا بھی تعین کیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھنے کا بھی تعین کیا گیا ہے، شوگر ملز نے دو دو کھاتے بنا رکھے ہیں،ایک کھاتا سرکار کے لیے ہوتا ہے اور دوسرا سیٹھ کے لیے ہوتا ہے،بے نامی کسٹمرز کے نام پر سیل دکھائی گئی ہیں، بے نامی سیل پر ٹیکس چوری ہوتی ہے۔شہزاد اکبر نیکہا کہ تمام ملز نے کرشنگ کی صلاحیت کو بڑھایا ہوا ہے، ملز بغیر لائسنس کے اپنی کرشنگ کی صلاحیت کو نہیں بڑھا سکتیں۔انہوں نے کہا کہ شوگر ملز سیلز ٹیکس شامل کرکے لاگت لگاتے ہیں، سبسڈی کی مد میں کمیشن نے پانچ سال کا جائزہ لینا تھا،پاکستان میں تقریبا 25 فیصد گنا انڈر رپورٹڈ ہے، اس سے گنے پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا۔شہزاد گروپ نے کہا کہ مراد علی شاہ نے صرف اومنی گروپ کو فائدہ دینے کے لیے سبسڈی دی، 2019 میں وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی،پنجاب نے 2019 میں تین ارب روپے کی سبسڈی رکھی، چینی کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ کرکے 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے،سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا،پانچ سال میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، برامدات کی مد میں 58 فیصد چینی افغانستان جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا، ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے، وزیراعظم نے فوری طور پر رپورٹ پبلک کرنے کے احکامات دیے، کابینہ نے نظام کو فعال، اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری دی،کابینہ نے دیگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت دی، جبکہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کابینہ نے مجھے ذمہ داری سونپی ہے، عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی۔ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ابھی کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ی سی ایل) پر نہیں ڈالا گیا۔شہزاد اکبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرے گی۔

https://dailypakistan.com.pk/21-May-2020/1135544?fbclid=IwAR1abutRQ_e_tP6JJkHrY0fbJG

GLli5RcRBoiCig-mspPL-b6H7VeRTT44

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ چینی بحران انکوائری رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کسی کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے، آخری مرتبہ سندھ حکومت نے دسمبر 2017 میں شوگر ملز کو سبسڈی دی تھی، انکوائری کمیشن کو 2019 اور 2020 کے حوالے سے تحقیق کرنا تھی۔

تفصیلات کے مطابق چینی بحران انکوائری رپورٹ آنے کے بعد نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ کمیشن کی جس رپورٹ کا شہزاد اکبر نے بتایا جھوٹ پر مبنی ہے، آخری مرتبہ سندھ حکومت نے دسمبر 2017 میں شوگر ملز کو سبسڈی دی تھی۔مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن کو 2019 اور 2020 کے حوالے سے تحقیق کرنا تھی،2017 یا 18 سے متعلق تحقیقات تو ٹی او آرز میں نہیں تھی یہ شاید لوگوں کو بچانے کی کوشش ہے،اگر انکوائری کا مقصد سیاسی مخالفین کو پن پوائنٹ کرنا ہے تو ہمارا اعتراض ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری فوبیا ہوچکا ہے،جان بوجھ کر انکوائری کا دائرہ کار بڑھایا جارہا ہے تاکہ ذمہ داروں کی نشاندہی نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ چینی کی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت سندھ حکومت نے نہیں بلکہ وفاقی حکومت نے دی تھی، جس شخص نے مال کمایا ہے، ہتھکڑی لگادیں لیکن بتائیں تو کس نے ایکسپورٹ کی اجازت دی اور کس نے سبسڈی دی؟۔مرتضی وہاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام فیصلے ان کے کہنے پر کیے گئے جنہوں نے فائدہ اٹھایا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

https://dailypakistan.com.pk/21-May-2020/1135550?fbclid=IwAR1toquTDq7XZObe71PB66x7u5

9y03F9qCYiHphFFg4k98FTnqHGxsfWp4

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ میڈیا پہ سرکس میں اصل چینی چور وزیراعظم عمران خان اور بزدار کا ذکر تک نہیں، میڈیا پہ تماشہ لگا کر عمران خان کو این آر او دینے کی ناکام کوشش ہے،ایک اور جھوٹی پریس کانفرنس میں عمران خان کی چوری چھپانے کی تفصیل بیان کی گئی،تمام فیصلوں کی منظوری دینے والے وزیراعظم عمران خان،مشیر خزانہ حفیظ شیخ،وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اصل چینی چور ہیں، انہیں گرفتا رکیاجائے،رپورٹ پڑھنے کے بعد اور مشاورت کے ساتھ مسلم لیگ ن اگلے لاعمل کا فیصلہ کرے گی، پاکستان مسلم لیگ ن اتنی آسانی سے چینی چور وزیراعظم کو بھاگنے نہیں دے گی۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک بیان میں چینی بحران انکوائری رپورٹ پر اپنا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ میڈیا پہ تماشہ لگا کر عمران خان کو این آر او دینے کی ناکام کوشش ہے،میڈیا پہ سرکس میں اصل چینی چور وزیراعظم عمران خان اور بزدار کا ذکر تک نہیں۔انہوں نے کہاکہ ایک اور جھوٹی پریس کانفرنس میں عمران خان کی چوری چھپانے کی تفصیل بیان کی گئی،تمام فیصلوں کی منظوری دینے والے عمران خان، حفیظ شیخ، اسد عمر اور بزدار اصل چینی چور ہیں، انہیں گرفتا رکیاجائے۔سچ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے چینی برآمد کی اس وقت اجازت دی جب ملک میں چینی کی قلت تھی۔

 شاہدخاقان نے کہاکہ سچ یہ ہے کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت برھانے کی اجازت عمران خان اور ان کی کابینہ نے دی،سچ یہ ہے کہ عمران خان نے خود کو اور اپنی کابینہ کو بچانے کے لئے رپورٹ کا سرکس لگایا،عمران خان کو بچانے کے لئے ایف آئی اے اور حکومتی اختیار کا بدترین استعمال ہوا،رپورٹ پڑھنے کے بعد اور مشاورت کے ساتھ مسلم لیگ ن اگلے لاعمل کا فیصلہ کرے گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ ن اتنی آسانی سے چینی چور وزیراعظم کو بھاگنے نہیں دے گی۔

https://dailypakistan.com.pk/21-May-2020/1135545?fbclid=IwAR1zi849B_kGD9let_D69T6NNA

R2o9K7aufsNkI4V2DL9xlZJozt_8zYYQ4

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی شوگر مل کے بورڈ میں شامل نہیں ہیں ۔

اپنے ایک بیان میں رکن قومی اسمبلی مونس الہٰی نے کہا کہ وہ پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ نہ تو وہ کسی شوگر مل کے بورڈ میں شامل ہیں اور نہ ہی وہ کسی شوگر مل کا انتظامی عہدہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ شوگر کمیشن کی اس تجویز کے پر زور حامی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمت پر سٹے بازی  روکنے اور قیمت کنٹرول کرنے کیلئے نئی قانون سازی کی جائے ۔

خیال رہے کہ جمعرات کو شوگر کمیشن کے سربراہ واجد ضیا نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو جمع کرائی ہے۔ رپورٹ میں حالیہ چینی کی قیمتیں بڑھنے کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا گیا ہے اور چینی بحران تحقیقاتی کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے۔رپورٹ میں تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  شوگر ملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتی ہیں، گنے کے وزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے، کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سے گنا خریدا جاتا ہے۔

Daily Pakistan

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191013_73786181

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191014_96481128

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191016_75326311

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191015_95558080

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191019_13202503

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191011_52625573

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191000_28093531

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191009_73609965

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191010_24927767

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5190999_20450858

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191007_55594404

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5191006_41107342

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-05-22&edition=KCH&id=5190998_43527589

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107454593&Issue=NP_PEW&Date=20200522

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107454599&Issue=NP_PEW&Date=20200522

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2020/05/22052020/P1-ISB-020.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2020/05/22052020/P1-ISB-020.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/05/22052020/P1-LHR021.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/05/22052020/P1-LHR021.jpg

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ واجد ضیا نے انکوائری رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کردی۔

واجد ضیا نے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں 346 صفحات کی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں شوگر ملز مالکان کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں شوگر ملز مالکان پر ٹیکس چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔

نجی ٹی وی جیو نیوز نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ  رپورٹ میں شوگر ملز کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے بھی تفصیلات شامل ہیں جب کہ چینی کے بے نامی خریدواروں کا ذکر اور ای سی سی کے فیصلے سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کی اجازت کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق فرانزک آڈٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہےکہ چینی مافیا کی جانب سے سٹہ کیسےکھیلا گیا۔

https://dailypakistan.com.pk/21-May-2020/1135534?fbclid=IwAR32NIp_v6lENjfDAicyi08LaKIYXj

cRuy877O7ubczZuC_UTb8k3rDzPZg

وفاقی کابینہ نے چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کیسز نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں چینی بحران پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی، اجلاس میں کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے رپورٹ میں ذمہ قرار دیے جانے والوں کے خلاف کیسز نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ کابینہ نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون جلد نافذ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

شوگر ملز کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ؛ 

ذرائع کے مطابق کابینہ نے ٹیکس چوری میں ملوث شوگر ملز کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آٹا بحران رپورٹ پر بھی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کابینہ کا مفادات کے ٹکراؤ کا قانون فوری نافذ کرنے کا فیصلہ؛ 

ذرائع کے مطابق کابینہ ارکان نے کہا کہ حکومت میں شامل شخصیات کے کاروبار سے مفادات کا ٹکراؤ آتا ہے جس پر وزیر فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون نافذ کرنے کی تجویز دی، فخر امام کی تجویز پر کابینہ کا مفادات کے ٹکراؤ کا قانون فوری نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم کا کابینہ میں شامل مشیران اور معاونین خصوصی کو اثاثے ظاہر کرنے کا حکم؛

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں شامل مشیران اور معاونین خصوصی کو اثاثے ظاہر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمام مشیران اور معاونین خصوصی اپنے اثاثے فوری طور پر کابینہ ڈویژن میں ڈیکلیئر کریں۔

کمیشن کی رپورٹ؛

کمیشن کی رپورٹ میں ایس ای سی پی سمیت دیگر ریگولیٹرز کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، تحقیقاتی کمیشن نے 9 شوگر ملز کا آڈٹ کیا جب کہ مسابقتی کمیشن چینی کی قیمتیں ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہا، شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور نقصان پہنچایا، شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر گنا خریدا، ملز نے کسانوں سے کچی پرچیوں پر گنا خریدا۔

پاکستان کی سیاسی اور حکومتی تاریخ کا تاریخ ساز دن ہے، وزیر اطلاعات شبلی فراز 

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور حکومتی تاریخ کا تاریخ ساز دن ہے، وزیراعظم نے چینی بحران رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کروایا، اس ملک میں اس قسم کے بحران پہلے بھی آتے رہے ہیں، پہلے کمیشن بنتے تھے لیکن بات آگے نہیں بڑھتی تھی، ہم نے مافیاز کو بے نقاب کرنا ہے جس نے ملک میں غریب کا خون چوسا اور ملک کو نقصان پہنچایا، حکومت کا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔

جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں کوئی عوام کو لوٹ نہیں سکتا، شہباز گل

وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئٹ میں کہا کہ کابینہ اجلاس میں طے ہوگیا ہے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں کوئی عوام کو لوٹ نہیں سکتا، وہ وقت گیا جب وزیراعظم اور کابینہ مل کر غریب دشمن اقدامات کرتے تھے، سخت ترین دباؤ کے باوجود کپتان آج غریب کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہوا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چینی بحران کی رپورٹ پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے چینی اسکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل کیا تھا جس میں ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ شوگر مافیا کا تعلق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چینی اسکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل، ٹیکسوں کی مد میں اربوں کے فراڈ کا انکشاف

ملک میں چینی کے بحران پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی رپورٹ کے مطابق چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا اور انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتہ دار نے آٹا و چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔

https://www.express.pk/story/2043488/1/

وفاقی حکومت نے شوگر ملز مافیا کی ملک میں لوٹ مار کی سنسنی خیز تفصیلات سے پردہ اٹھادیا۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد حکومتی ٹیم نے چینی بحران کی رپورٹ پر طویل پریس کانفرنس کرتے ہوئے روشنی ڈالی کہ کس طرح شوگر ملز مافیا نے ملی بھگت سے عوام سے لوٹ مار کی اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم نے چینی بحران رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کروایا، ہم نے مافیاز کو بے نقاب کرنا ہے جس نے ملک میں غریب کا خون چوسا اور ملک کو نقصان پہنچایا۔

کسانوں کو شدید نقصان

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے، شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔

سستا گنا خرید کر مہنگی لاگت ظاہر کی گئی

شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، شوگر ملز نے2017-18 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، 2017-18 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمیشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔

چینی کی بے نامی فروخت دکھا کر ٹیکس چوری

شہزاد اکبر نے بتایا کہ اسی طرح 2018-19 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا، 2019-20 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، شوگر ملز نے2018-19 میں 12 اور 2019-20 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں، ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے، چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، شوگر ملوں نے غیر قانونی طور پر کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا۔

ایک روپیہ اضافے پر 5.2 ارب روپے منافع اور ٹیکس چوری

معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں اگر صرف ایک روپیہ اضافہ کرکے بھی 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے، پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا ان رپورٹڈ (غیر دستاویزی شکل میں) ہے جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا، پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی، ان شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔

سندھ حکومت کی اومنی گروپ کو سبسڈی

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر بے تحاشا فائدہ پہنچایا، شہبازشریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں، العربیہ میں کچی پرچی کارواج بہت ملا ہے اور اس نے کسانوں کو40کروڑ روپے کم دیےگئے، جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملز کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں، جہانگیرترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں، شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی۔

افغانستان کو برآمد کی گئی چینی مشکوک

معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان سے افغانستان کو برآمد کی گئی چینی مشکوک ہے، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمد ڈیٹا میں فرق آیا، ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن لے کر جاسکتے ہیں، لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ ایک ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے کر گئے ہیں، یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔

چینی بحران کے ذمہ دار نگراں ادارے

شہزاد اکبر نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دے دیا جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کین کمشنرز سے لیکر ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن،ایف بی آر، اسٹیٹ بنک سب نے غیر ذمہ داری دکھائی، وفاقی کابینہ نے دیگر ملوں کا بھی فرانزک آرڈر کرنے کی ہدایت دی اور ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔

https://www.express.pk/story/2043505/1/

حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے چینی بحران پر تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمشین کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔

جہانگیر ترین نےاپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پورا ٹیکس ادا کرتا ہوں اور خود پر لگے تمام الزامات کا جواب دے کر خود کو سچا ثابت کروں گا۔ میں اپنے تمام تر ٹیکسزایمانداری سے ادا کرتا ہوں مجھ پر کاروبار کے لئے دو طرح کے کھاتے بنانے کا الزام سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔

ان کا کہان تھا کہ پورا پاکستان جانتا ہے میں اپنے کسان کو گنے کی پوری قیمت ادا کرتا ہوں۔میں نے ہمیشہ دیانت داری سے کاروبار کیا ہے۔ پورا ٹیکس اداکرتا ہوں اور تمام الزامات کا جواب دوں گا۔ایف آئی اے رپورٹ میں مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندا ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: جہانگیرترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں، شہزاد اکبر

واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ برس چینی کی برآمد کے باعث پیدا ہونےو الے بحران کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ ہونے کے بعد اسے عام  کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں چینی کی برآمد پر حکومتی سبسڈی سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں حکومت کے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ جہانگیر ترین کا نام بھی شامل ہے۔

لاہور(ویب ڈیسک) ایف آئی اے نے چینی سکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل کرلیا ہے جس میں ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے چینی اسکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل کرلیا، جس کی رپورٹ آئندہ چند روز میں وزیر اعظم عمران خان کو بھی بھجوا دی جائے گی، رپورٹ میں شوگر مل انتظامیہ کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔

ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی اسکینڈل کی تحقیقات میں پہلی بار فرانزک اڈٹ کروایا گیا، جس میں بڑے بڑے انکشافات سامنے آئے ہیں، شوگر مافیا کا تعلق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے، یہ مافیا آج تک پالیسی ہی نہیں بنانے دے سکا، اسٹیٹ بینک اور مسابقتی کمیشن سمیت دیگر ادارے بھی ملوث ہیں، تحقیقات شروع ہوئی تو سب ایک ہوگئے، تحقیقاتی کمیشن کے کئی افسران کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی پیشکش بھی کی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مافیا کسانوں کا استحصال بھی کرتے ہیں، کسانوں سے گنا خریدنے کے بعد کئی کئی سال اربوں روپے کی ادائیگی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کسان مجبوری میں گنا فروخت کرتے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی بنانے کےعمل سے نکلنے والے بگاس پھوک شیرا، مولاسیسز اور گار کو فروخت کر کے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں، گنے سے چینی کے علاوہ دیگر بننے والی مصنوعات کو بیرون ممالک بھی فروخت کیا جاتا رہا ہے، شوگر مل مالکان نے بھی چینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس عمل کے دوران گنے سے بننے والی دیگر مصنوعات سے اربوں روپے کمائے لیکن ان اشیاءکی فروخت کا اکثر شوگر مل مالکان ریکارڈ ہی نہیں رکھتے، ان اشیاءکی فروخت پر ٹیکسوں کی مد میں اربوں کا فراڈ کیا جاتا ہے،فرانزک اڈٹ کے دوران شوگر مل مالکان کی جانب سے مختلف بینکوں میں ٹرپل اینٹریز بھی کی گئی جو ٹیکس چوری کی وجہ بنی۔ 

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مافیا تمام اخراجات نکال کر بھی فی کلو 10 سے 15 روپے کماتے ہیں، شوگر مافیا کو سبڈی دینے کی ضرورت نہیں، جتنی سبسڈی دی جاتی ہے اگر حکومت خود امپورٹ کرے تو سستی چینی پڑتی ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/20-May-2020/1135106?fbclid=IwAR1SNWCqcq5pcWpev_8pLOsh1

ARr8UvYa3YOBGp983TgC0Mj-dpksd8iuiY

اسلام آباد (ویب ڈیسک) حکومت نے شوگر انکوائری کمیشن کو رپورٹ مکمل کرنے کے لیے مزید 4 روز کی مہلت دے دی۔جیو نیوز کے مطابق شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ تیار ہے تاہم اسے مرتب کرنے کے لیے 4 دن دیے گئے ہیں۔چینل ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ملزکے فرانزک آڈٹ کی تکمیل کے بعد رپورٹ مرتب کرنے کا کام جاری ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کررہے ہیں جو 25 اپریل تک کرلیا جائے گا تاہم بعد ازاں کمیشن کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی جس کے بعد اسے 16 مئی کو پیش کرنا تھی۔

https://dailypakistan.com.pk/18-May-2020/1134260?fbclid=IwAR1n5s2CVBxl13uUPs_BIFEed

vKFN6Thqz9iqqhHYfYkBbYT8ahKjn00AU

 اسلام آباد (ویب ڈیسک) شوگر سکینڈل کی فارنزک رپورٹ کا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو انتطار ہے ، عوام بھی نام جاننا چاہتے ہیں جنہوں نے مبینہ طورپر فائدہ اٹھایا اور اب سینئر صحافی  ارشاد بھٹی نے لکھا کہ " اسد عمر نے نہ صرف 10لاکھ ٹن کے بجائے 11لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیدی، نہ صرف شوگر مافیا کو نواز شریف دور کے رکے ہوئے سبسڈی کے 2ارب بھی دلوا دیے بلکہ شوگر مافیا کو یہ آپشن بھی دیا کہ اگر وہ سبسڈی لینا چاہتے ہیں تو صوبوں سے لے لیں۔سائیں بزدار نے 5روپے 35پیسے فی کلو کے حساب سے 15شوگر ملوں کو 3ارب کی سبسڈی دیدی، اب اس پوری ایکسپورٹ، سبسڈی کہانی میں مبینہ طور پر رزاق داؤد، اسد عمر، عثمان بزدار، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت، جہانگیر ترین، شوگر مل مالکان، ای سی سی، وفاقی کابینہ ذمہ دار، کس پر کتنی ذمہ داری، یہ علیحدہ بحث، مگر یہ طے، جو ہوا، سب کی ملی بھگت سے ہوا"۔

روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں ارشاد بھٹی نے لکھا کہ  " یہ تو آپ کو معلوم، جب چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا، جب چینی غیر معمولی مہنگی کی گئی، جب چینی ایکسپورٹ، سبسڈی کے مشکوک معاملات سامنے آئے، تب وزیراعظم عمران خان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں 3رکنی انکوائری کمیشن بناکر تمام معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا، انکوائری کمیشن پہلی رپورٹ جمع کروا چکا، یہ رپورٹ پبلک بھی ہو چکی۔

اب تفصیلی رپورٹ بھی تیار، 2سو صفحات سے زائد یہ رپورٹ آج یا کل وزیراعظم کو پیش ہونیوالی، یہ بھی آپ کو معلوم، یہ 10شوگر ملوں کا پنج سالہ آڈٹ۔اب آ جائیے، اس تفصیلی رپورٹ پر، سنا جا رہا، ہوشربا انکشافات، جیسے شوگر مافیا کا چوری چھپے کسانوں سے بہت ہی سستا گنا لینا، جیسے ٹیکس بچانے، آمدنی چھپانے، زیادہ منافع کمانے، پیسہ بچانے کیلئے شوگر مافیا کے کچے، پکے رجسٹر، کچے، پکے اکاؤنٹ مطلب ڈبل کھاتے، ڈبل کھانچے، جیسے اربوں کی ٹیکس چوریاں، جیسے گھوسٹ سبسڈیاں، گھوسٹ ایکسپورٹ، اور تو اور، 90فیصد چینی کا بے نامی کاروبار ہو رہا، سنا جا رہا۔

گزرے 5سالوں میں شوگر مافیا کو 29ارب کی سبسڈی دی گئی، 22ارب سبسڈی پچھلی حکومتوں نے دی، ڈھائی ارب سبسڈی سائیں بزدار نے جبکہ ساڑھے چار ارب کی سبسڈی سندھ حکومت نے دی۔

اب آ جائیے، موجودہ حکومت کی چینی ایکسپورٹ، سبسڈی داستان پر، کہانی کچھ یوں، تحریک انصاف حکومت آئی، شوگر مافیا مبینہ طور پر رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سرپرستی میں سرگرم ہوا، رزاق داؤد ایکسپورٹ، سبسڈی سمری لائے، وزیر خزانہ اسد عمر نے سمری مسترد کر دی، شوگر مافیا نے ہمت نہ ہاری، رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سربراہی میں اپنی کوششیں جاری رکھیں، بالآخر یہ کوششیں کامیاب ہوئیں۔

اسد عمر نے نہ صرف 10لاکھ ٹن کے بجائے 11لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیدی، نہ صرف شوگر مافیا کو نواز شریف دور کے رکے ہوئے سبسڈی کے 2ارب بھی دلوا دیے بلکہ شوگر مافیا کو یہ آپشن بھی دیا کہ اگر وہ سبسڈی لینا چاہتے ہیں تو صوبوں سے لے لیں۔

اب وفاق سے ایکسپورٹ اجازت ملنے اور سبسڈی صوبوں سے لے لو کے بعد شوگر مافیا مبینہ طور پر رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سربراہی میں عثمان بزدار کے پاس جا پہنچا، اب ایک طرف جہانگیر ترین، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت اور شوگر مافیا ہو، سائیں بزدار کی مجال انکار کر سکیں، وہی ہوا، جو ہونا تھا۔

سائیں بزدار نے 5روپے 35پیسے فی کلو کے حساب سے 15شوگر ملوں کو 3ارب کی سبسڈی دیدی، اب اس پوری ایکسپورٹ، سبسڈی کہانی میں مبینہ طور پر رزاق داؤد، اسد عمر، عثمان بزدار، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت، جہانگیر ترین، شوگر مل مالکان، ای سی سی، وفاقی کابینہ ذمہ دار، کس پر کتنی ذمہ داری، یہ علیحدہ بحث، مگر یہ طے، جو ہوا، سب کی ملی بھگت سے ہوا۔

اب آ جائیے، اس بات پر کہ انکوائری کمیشن نے مراد علی شاہ کو کیوں بلایا، انکوائری کمیشن نے مراد علی شاہ کو خط لکھا کہ وہ پیش ہوں، پہلے سندھ سرکار نے یہ جواز گھڑا کہ چونکہ سندھ نے چینی ایکسپورٹ کی اجازت دی نہ سبسڈی کی، لہٰذا مراد علی شاہ کی پیش ہونے کی ضرورت ہی نہیں، جب بتایا گیا کہ سندھ سبسڈی دے چکا تو سندھ ایڈووکیٹ جنرل نے انکوائری کمیشن کو خط لکھ دیا کہ ایک تو کمیشن کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کو بلا سکے، دوسرا کمیشن 2019-20ء کا آڈ ٹ کر رہا اور سندھ حکومت نے ان سالوں میں سبسڈی نہیں دی۔

اس خط کے جواب میں انکوائری کمیشن نے وزیراعلیٰ سندھ کو جوابی خط لکھا کہ وزیراعظم کے بنائے کمیشن کے ٹی او آر کے تحت ہم آپ کو بلا سکتے ہیں، تبھی تو رزاق داؤد، اسد عمر، عثمان بزدار بھی پیش ہو چکے، دوسرا ہم 2سالوں کا نہیں 5سالہ آڈٹ کر رہے ہیں، گو کہ پھر بھی وزیراعلیٰ سندھ پیش نہیں ہوئے۔

لیکن سوال یہ، انکوائری کمیشن انہیں کیوں بلانا چاہتا تھا، اس کا جواب یہ، دسمبر 2017کو بحیثیت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 10روپے 70پیسے فی کلو چینی کے حساب سے 20ارب کی سبسڈی دی، اس سبسڈی کے بعد سندھ حکومت نے 9روپے 30پیسے فی کلو کے حساب سے مبینہ طور پر اپنی ملوں (اومنی، زرداری) کو مزید سبسڈی دیدی، اندازہ کریں، وفاق سے سبسڈی، پھر خود کو خود سبسڈی، یہ غیر قانونی سبسڈی کیوں دی گئی، یہی پوچھنے کیلئے کمیشن نے مراد علی شاہ کو بلایا۔

آپ کے علم میں یہ تو ہوگا ہی کہ جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ 35والیمز جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ آچکا کہ سندھ میں کس طرح بیمار صنعتی یونٹ سبسڈی، غریب کسان سبسڈی، گنا سبسڈی، ٹریکٹر سبسڈی کھا لی گئی، یہی جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ نے بتایا کہ کیسے سندھ اسمبلی، سندھ کابینہ سے قراردادیں پاس کروا کر زرداری، اومنی شوگر ملوں کے پاور پلانٹس کے بجلی ریٹس تبدیل کئے گئے، اپنی شوگر ملوں کو خود ہی سبسڈیاں دی گئیں۔

سنا جا رہا، اس شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ میں اور بھی بہت کہانیاں، دیکھتے ہیں، یہاں جاتے جاتے 3باتیں، پہلی بات، پاکستانی قوم ہر ماہ 50کروڑ کلو چینی کھا جائے، مطلب ہماری کھپت 6ارب کلو سالانہ چینی، اب شوگر مافیا مصنوعی چینی بحران پید ا کرکے جب 16روپے فی کلو چینی کی قیمت بڑھائے گا تو سالانہ کتنا کمائے گا، خود ہی حساب کتاب کر لیں، دوسری بات، شوگر انڈسٹری کتنا انکم ٹیکس دے، کتنا ٹیکس چوری کرے۔

تفصیلی رپورٹ آ لینے دیں، یہ کہانی سن کر آپ کے پاؤں سے زمین نکل جائے گی، تیسری بات، ہاؤس آف شریف کی ایک مل العریبیہ شوگر مل کا بھی آڈٹ ہوا، یہ مل حمزہ شہباز، سلمان شہباز، نصرت شہباز کی ملکیت، باقی شوگر ملوں کی طرح جب انہیں بھی یہ خط لکھا گیا کہ آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ پیش ہو تو انہوں نے اپنا وہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل بھیج دیا، جس نے انکوائری کمیشن میں آکر کہا۔

مجھے فنانس کا پتا نہ پروڈکشن کا، اکاؤنٹس کا پتا نہ آپریشن کا، مجھ سے کچھ انجینئرنگ کا پوچھنا تو پوچھ لیں، سمجھے، نہیں سمجھے، وہی شریفوں کا پرانا وتیرہ، خود کچھ بتانا نہیں، کوئی پوچھے تو مکر جانا"۔

https://dailypakistan.com.pk/18-May-2020/1134275?fbclid=IwAR1yzjvK3Ffgl1NmvPw0z2fliYd

abxdW6eOHSdy1wKI47BFZ5zEbhZRzAk

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/05/15052020/p1-lhr034.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/05/15052020/p1-lhr034.jpg

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چینی کے بحران پر بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو آج طلب کرلیا ہے, یادرہے کہ اسد عمر نے شاہد خاقان عباسی کے مطالبے پر  کہا تھا کہ  کمیشن سے درخواست ہے کے مجھے ضرور بلایا جائے، اگر سوال ہے تو مجھ سے پوچھا جائے، وزیراعظم سے نہیں اور اب کمیشن نے بلا لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ چینی بحران کے لیے ایف آئی اے کے تشکیل کیے گئے تحقیقاتی کمیشن نے اسد عمر کو آج صبح طلب کیا ہے اور انہوں نے بھی کمیشن کے سامنے پیش ہونے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔

اس سے قبل وفاقی وزیر نے بیان دیا تھا کہ چینی تحقیقاتی کمیشن وزیراعظم عمران خان کو نہیں لیکن مجھے ضرور بلائے۔ انہوں نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ نون لیگ کے رہنما شاہد خاقان نے مطالبہ کیا ہے کہ مجھے اور وزیراعظم عمران خان کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے بلاکر چینی برآمد کرنے کی اجازت کے فیصلے کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ کابینہ نے یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سفارش پر کیا تھا، اگر کوئی سوال ہے تو وزیراعظم سے نہیں بلکہ مجھ سے پوچھا جائے، کمیشن سے درخواست ہے کہ مجھے ضرور بلائے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور چیئرمین انکوائری کمیشن واجد ضیا کو خط لکھ کر آٹا اور چینی بحران کی تحقیقات میں مکمل تعاون و معاونت کی پیش کش کی تھی جسے قبول کرتے ہوئے کمیشن نے انہیں بلایا تھا۔

شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر تین روز قبل انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا چینی کی قیمتیں ای سی سی اور کابینہ کی وجہ سے بڑھیں جس کی ذمہ دار حکومت ہے، ہم نے کمیشن سے کہا ہے کہ وزیراعظم، ای سی سی اور کابینہ کے ممبران کو بلا کرپوچھا جائے کہ ایکسپورٹ کو روکا کیوں نہیں گیا۔

https://dailypakistan.com.pk/12-May-2020/1131698?fbclid=IwAR2LhRTB8rhc6v6YJBY6TAU3cA

Xi_AysPNmLtXapr9uv6p3z3Qqzj8nMwH0

 

 https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107427091&Issue=NP_PEW&Date=20200512

اسلام آباد (ویب ڈیسک) چینی اور آٹا سکینڈ ل کی تحقیقات چل رہی ہیں اور اس کی فارنزک رپورٹ کا انتظار کیا جارہاہے ، ایسے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ہونیوالی تحقیقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، سینئر صحافی و کالم نویس حامد میر بھی ماضی کی ایسی ہی ایک کہانی سامنے لے آئے جب نہ صرف چیئرمین نیب کو عہدے سے الگ ہونا پڑا بلکہ انکوائری رپورٹ بھی دب کر رہ گئی ۔

روزنامہ جنگ میں حامد میر نے لکھا کہ "زیادہ پرانی بات نہیں۔ شوگر اسکینڈل کی انکوائری شروع ہوئی تو کھلبلی مچ گئی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن والے وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے اور اُنہیں کہا کہ اگر انکوائری بند نہ ہوئی تو مارکیٹ سے چینی اٹھا لی جائے گی۔وزیراعظم بھاگے بھاگے صدر صاحب کے پاس پہنچے اور بتایا کہ اگر شوگر اسکینڈل کی انکوائری بند نہ ہوئی تو چینی مہنگی ہو جائیگی۔ صدر صاحب نے اس انکوائری پر شدید خفگی کا اظہار کیا اور پھر یہ انکوائری بند ہو گئی۔

کیا آپ کو سمجھ آ گئی کہ یہ خاکسار کون سی انکوائری کی بات کر رہا ہے؟ جی ہاں یہ انکوائری آج سے پندرہ سال قبل 2005میں شروع ہوئی تھی اور یہ ایف آئی اے نے نہیں بلکہ نیب نے شروع کی تھی۔ آپ کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ اُس وقت نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز تھے۔

اُن کی تایا زاد بہن کی شادی جنرل پرویز مشرف کے بیٹے سے ہوئی تھی لیکن شاہد عزیز لاہور کے کور کمانڈر اور چیف آف جنرل ااسٹاف اس رشتہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے بنے تھے۔ لاہور کے کور کمانڈر کی حیثیت سے اُنہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں ایک انکوائری شروع کرائی تو نیب کے چیئرمین نے اُن کی انکوائری شروع کر دی تھی۔

چیف آف جنرل ااسٹاف کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے فوجی اڈے امریکا کو دینے کی مخالفت کی تو کبھی پرویز مشرف کی اس خواہش کے سامنے ڈٹ گئے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ ایک دن جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ طارق عزیز نے چھ ستمبر کو لاہور میں گھوڑوں کی ریس کا اہتمام کیا ہے تم وہاں بطور چیف گیسٹ چلے جائو۔

لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے کہا، سر مجھے اس کام سے دور رکھیں مشرف نے کہا کہ یہ ریس قانون کے مطابق ہوتی ہے لیکن شاہد عزیز نے کہا کہ سر اچھا نہیں لگے گا کہ چھ ستمبر کے دن ایک کور کمانڈر جوئے کی ریس میں انعام بانٹ رہا ہو۔ کچھ ہی عرصے میں شاہد عزیز کو فوج سے ریٹائر کر کے نیب کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ شاہد عزیز سے میری پہلی ملاقات نیب ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کرنے جا رہے ہیں اور اُنہیں میڈیا کا تعاون درکار ہے۔

جب اُنہوں نے شوگر اسکینڈل کی انکوائری شروع کی تو ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہو گئے لیکن پھر ایک دن یہ ہوا کہ نیب نے اینٹی کرپشن ڈے منایا جس میں عبدالستار ایدھی اور شہزاد رائے بھی آئے۔

چیف گیسٹ وزیراعظم شوکت عزیز تھے لیکن اینٹی کرپشن ڈے پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب ایک کرپٹ اور نااہل ادارہ ہے جو حکومت کے باعزت ملازمین کو ذلیل کرتا ہے۔ آخر کار نیب نے ایک بیان جاری کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی انکوائری بند کر دی گئی ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ اس انکوائری سے چینی کی قیمت بڑھ جائے گی لیکن نیب اس موقف سے اتفاق نہیں کرتا۔ نیب کے اس بیان پر صدر مشرف کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید نے شاہد عزیز کیساتھ بڑی خفگی کا اظہار کیا۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں اس پندرہ سال پرانی انکوائری کا قصہ کیوں لیکر بیٹھ گیا ہوں؟ اس انکوائری کو بند کرانے کی داستان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں لکھ ڈالی تھی۔

یہ کتاب 2012ءمیں شائع ہوئی، اب کچھ عرصہ سے شاہد عزیز لاپتا ہیں۔ غیرملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وہ افغانستان یا شام میں کسی ڈرون حملے کا شکار ہو گئے لیکن اُنکے خاندان کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں شوگر اسکینڈل کے علاوہ آئل کمپنیوں کی انکوائری بند کرانے کی کہانی بھی لکھ ڈالی۔

یہ اکتوبر 2006ءکا قصہ ہے۔ مشرف نے آئل کمپنیوں کے خلاف انکوائری رپورٹ پر چیئرمین نیب کو اپنے دفتر بلایا اور غصے میں رپورٹ اُٹھا کر پرے پھینک دی۔ اس بدتمیزی پر شاہد عزیز اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ آپ کوئی دوسرا چیئرمین نیب ڈھونڈ لیں میں آپ کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔

جنرل مشرف بھی کھڑے ہو گئے اس سے پہلے کہ کچھ اور ہو جاتا جنرل حامد جاوید نے کہا، سر ہم کوئی حل نکالتے ہیں اور شاہد عزیز وہاں سے نکل آئے۔ شوگر اسکینڈل اور آئل کمپنیوں کے خلاف انکوائریوں کو بند کرانے میں وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ حامد جاوید اور چیئرمین سی بی آر عبداللہ یوسف نے اہم کردار ادا کیا۔

یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تو شاہد عزیز پر الزام لگایا گیا کہ وہ اس سازش میں شریک ہیں۔ شاہد عزیز کی جس رپورٹ پر مشرف ناراض ہوئے اُس میں لکھا تھا کہ آئل کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے پاکستانی عوام کو لوٹ رہی ہیں اور 81ارب روپے حکومت کے بھی کھا گئی ہیں۔

مشرف کے لئے شاہد عزیز کو نیب سے نکالنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا۔ حامد جاوید نے حل یہ نکالا کہ نیب کی انکوائری پر ڈاکٹر عشرت حسین کو اپنی رائے دینے کے لئے کہا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے نیب کی انکوائری سے اختلاف کر دیا اور شاہد عزیز کو خاموش کر دیا گیا۔شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 2007ءمیں مجھے صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر طارق عزیز نے صدر مشرف کا پیغام دیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کیخلاف تمام مقدمات بند کر دیے جائیں۔

پھر شاہد عزیز خرابی صحت کا بہانہ بنا کر دو ماہ کی چھٹی پر چلے گئے اور دو ماہ بعد گھر سے صدر کو استعفیٰ بھیج دیا۔ وہ شاہد عزیز جو پرویز مشرف جیسے طاقتور صدر کے سامنے سچی بات کہہ ڈالتا تھا وہ شوگر اسکینڈل اور آئل کمپنیوں کے خلاف اسیکنڈل کی انکوائری مکمل نہ کر سکا تو کیا 2020میں ایف آئی اے شوگر اسکینڈل کی انکوائری مکمل کر پائے گا؟

حکومت کے ایک پاور فل بیورو کریٹ کا کہنا ہے کہ پاور کمپنیوں کے خلاف انکوائری آگے نہیں چلے گی، شوگر اسکینڈل کی انکوائری کو نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان قوم سے وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ چینی اور آٹے گندم کے معاملے میں لوٹ مار کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔

اس معاملے میں اگر عمران خان نے یو ٹرن نہ لیا اور شوگر مافیا کے خلاف واقعی کارروائی شروع ہو گئی تو ایف آئی اے کی ساکھ میں بھی اضافہ ہو گا اور ایف آئی اے دراصل نیب کا متبادل بن کر سامنے آئے گی۔

نیب جہاں 2005ءمیں کھڑا تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ اس ادارے کو شاہد عزیز نہیں چلا سکے تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کیا چلائیں گے؟ آج کل مشرف دور کے کچھ پرانے چہرے ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ عید کے بعد نیب ٹارزن بننے والا ہے۔ ان صاحبان سے گزارش ہے کہ ٹارزن کوئی حقیقی نہیں افسانوی کردار تھا اور نیب کی اکثر کہانیاں بھی صرف افسانہ ہوتی ہیں۔

نیب کی طرف سے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف ایک پرانے افسانے کو دوبارہ حقیقت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن نیب سے یہ کام نہ ہو پائے گا۔ اب جو بھی کرنا ہے ایف آئی اے نے کرنا ہے اور ایف آئی اے یہ کام شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے ذریعہ کر سکتی ہے۔

اس انکوائری کے ذریعہ صرف جہانگیر ترین نہیں بلکہ شریف خاندان اور پیپلز پارٹی سے متعلقہ شخصیات کے علاوہ چوہدری برادران تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔

آنے والا دور نیب کا نہیں ایف آئی اے کا ہے لیکن اصل فیصلے ایف آئی اے کو نہیں عدالتوں کو کرنا ہیں اور ایف آئی اے کا اصل امتحان بھی تب شروع ہو گا جب وہ اپنی انکوائریوں کو عدالتوں میں سچا ثابت کر پائے گی۔کم از کم اصغر خان کیس میں تو ایف آئی اے ناکام ہو چکی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایف آئی اے بھی نیب کی طرح ٹارزن بن جائے"۔

https://dailypakistan.com.pk/11-May-2020/1131320?fbclid=IwAR26r-2sUjtNt0oSnZD7kEh-wvw1ofRnTvxAKTkBM2S8Ab3jLTMqbRlXEG0

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107422729&Issue=NP_PEW&Date=20200510

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو کچھ لیڈز ملی ہیں جس کی وجہ سے انہیں مزید وقت دیا گیا ہے۔

نجی ٹی وی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ جب کمیشن بنایا جارہا تھا تو اس وقت بھی وزارت داخلہ نے یہ کہا تھا کہ کام مکمل کرنے کیلئے زیادہ وقت درکار ہوگا۔کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ انہیں مزید 2 سے 3 لیڈز ملی ہیں جس کی وجہ سے انہیں مزید وقت درکار ہے۔ کابینہ  نے اسی وجہ سے کمیشن کو مزید وقت دیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کی تحقیقات ہورہی ہیں اور اس کا نتیجہ آئے گا تو کارروائی ہوگی کیونکہ بے وجہ تحقیقات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی کابینہ نے چینی بحران کا فرانزک آڈٹ تیار کرنے والے انکوائری کمیشن کو مزید 3 ہفتوں کا وقت دیا ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/28-Apr-2020/1126144?fbclid=IwAR3PeOxgTiRl1dpcxd5k-op6hCMZxNZDgNaEjzK5bpqMeFAxSlQVIomloNw

اسلام آباد (ویب ڈیسک) شوگر انکوائری کمیشن نے 50 ہزار ایسے غیر رجسٹرڈ خریداروں کا پتہ لگایا ہے جو اربوں روپے مالیت کے لین دین میں ملوث ہیں۔اس نئی صورتحال سے تحقیقات کاروں کو اصل مجرموں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے جنہوں نے چینی کی قیمتیں 23 سے 27 روپے فی کلوگرام بڑھا کر گزشتہ 16 ماہ کے دوران صارفین کی جیبوں سے اضافی 120 ارب روپے نکال لیے۔ نئی پیشرفت ا±س وقت سامنے آئی ہے جب کمیشن نے 362 ارب روپے مالیت کے مشکوک بے نامی لین دین کا سراغ لگایا۔

روزنامہ جنگ میں زاہد گشکوری نے لکھا کہ "یہ لین دین گزشتہ پانچ سال کے دوران 6 ملین میٹرک ٹن چینی کی فروخت کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے۔ کمیشن کی طرف سے 6 شوگر کمپنیوں کا فارنسک کرنے والی 9 آڈٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ 50 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کا پتہ لگایا گیا ہے۔ ان میں سے 40 ہزار نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔

ہمیں شک ہے کہ مل مالکان نے ایسا کرکے اربوں روپے کا ٹیکس ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان 9 شوگر ملوں کے سرور سے حاصل ہونے والے خصوصی ڈیٹا کا جائزہ لے رہے ہیں جن کے متعلق شک ہے کہ انہوں نے سیکڑوں بروکرز اور آڑھتیوں کے ذریعے کھاتوں کے بغیر ہی گنا خریدا ہے، اور نتیجتاً زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے مارکیٹ سپلائی میں ہیرا پھیری کی ہے ، حمزہ شوگر ملز لمیٹڈ نے 31 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی۔

ان میں سے 28 ہزار نے کبھی ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کیا۔ مرحوم حاجی نثار کے ملکیتی اس یونٹ کو 2017ءکے دوران وفاقی اور صوبائی حکومت سے 213 ملین روپے کی سبسڈی ملی۔ جہانگیر ترین کی ملکیت گروپ جے ڈبلیو ڈی نے 4 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 86 نے ایف بی آر میں اپنے ریٹرن داخل نہیں کیے۔

مسٹر ترین کی ملوں کو وفاقی و صوبائی حکومتوں سے 2017ءمیں اور 2019ءمیں چینی برآمد کرنے کیلئے فریٹ سپورٹ کی مد میں 2.3 ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ المعیز شوگر مل نے 1700 غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 75 ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

جہانگیر ترین کے کزن مسٹر شمیم خان اور ان کے بیٹے نعمان خان کو بھی وفاق سے اور ساتھ ہی پنجاب سے 2017ءاور 2019ءمیں مجموعی طور پر ایک ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ خصوصی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور ان کے بھائی سلمان شہباز کی العربیہ شوگر ملز نے 1289 غیر رجسٹرڈ شدہ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 1200 نے کبھی ٹیکس ہی نہیں دیا۔

وفاقی وزیر خسرو بختیار کی گھوٹکی میں قائم الائنس شوگر ملز نے 900 غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن مین سے 75 نے ٹیکس نہیں دیا۔ ہنزہ اول اور ہنزہ دوم شوگر ملز لمیٹڈ نے 1100 غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جب میں سے 117 فائلر نہیں تھے۔ دونوں ملوں کو وفاق اور پنجاب حکومت کی طرف سے 2017ءاور 2017ءمیں 429 ملین روپے کی سبسڈی ملی۔

چوہدری ادریس، چوہدری محمد سعید اور چوہدری وحید ان دونوں ملوں کے مالک ہیں۔ انکوائری کمیشن نے 3 ہزار بروکرز اور آڑھتیوں کی بھی شناخت کی ہے جنہوں نے مقامی شوگر مارکیٹ میں اجارہ داری کیلئے کام کیا اور ساتھ ہی مل مالکان کی مدد کرکے انہیں بھاری منافع کمانے میں مدد کی، یہ تمام رقم صارفین کی جیبوں سے نکالی گئی۔ اعداد و شمار کو ایک جگہ جمع کرنے کے کام پر مامور ایک عہدیدار نے جیو نیوز کو بتایا کہ ہم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 295 بروکرز کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں، ہماری تحقیقات میں بروکرز پر بھی توجہ مرکوز رکھی جا رہی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق لاہور کی اکبری منڈی اور بابر سینٹر اور کراچی کے جوڑیا بازار سے ہے، یہ لوگ چینی کی مقامی قیمتوں کے معاملے میں اجارہ داری کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ مل مالکان نے گزشتہ پانچ سال کے دوران براہِ راست کوئی ٹیکس (انکم ٹیکس) نہیں دیا جبکہ کچھ نے تو اپنے کاروبار میں خسارہ ظاہر کرتے ہوئے 7.8 ارب روپے کے ری فنڈز بھی حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن اس بات پر غور کر رہا ہے کہ زیادہ وقت حاصل کرکے مل مالکان کی جانب سے ٹیکس چوری کے معاملے کی بھی تحقیقات کی جائے، ان ملوں نے مجموعی طور پر 6.4 ملین میٹرک ٹن چینی کسی حساب کتاب (آﺅٹ آف ب±کس) فروخت کی اور بروکرز کے ساتھ مل کر صنعت کاروں نے ٹیکس ادا نہیں کیا بالخصوص سیلز ٹیکس نہیں دیا۔ تحقیقات کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مل مالکان اور بروکرز نے چکمہ دے کر گزشتہ پانچ سال کے دوران کھاتوں سے باہر (ٹیکس ادا کیے بغیر کی گئی فروخت) 33 ارب روپے کی چینی فروخت کی۔

رپورٹ کے مطابق اس حساب کو علیحدہ علیحدہ کرکے پیش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 2015-16ءکے دوران 4.9 ارب روپے کی 1.12 ملین میٹرک ٹن، 2016-17ءکے دوران 6.1 ارب روپے کی 1.55 ملین میٹرک ٹن، 2017-18ءکے دوران 5.9 ارب روپے کی 1.45 ملین میٹرک ٹن، 2018-19ءکے دوران 5 ارب روپے کی 1.15 ملین میٹرک ٹن جبکہ 2019-20ءکے دوران 11 ارب روپے کی 1.1 ملین میٹرک ٹن چینی فروخت کی گئی۔ ان شوگر ملوں نے مجموعی طور پر مقامی و بین الاقوامی مارکیٹس میں 905 ارب روپے کی چینی فروخت ی اور اس کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے گزشتہ تین سال کے دوران24.9 ارب روپے کی سبسڈی بھی وصول کی۔ 

مل مالکان نے مقامی مارکیٹ میں 709 ارب روپے کی چینی فروخت کی جبکہ برآمد کے ذریعے 196 ارب روپے کی چینی فروخت کی۔ گزشتہ چار سال کے دوران، ان ملوں نے ملک کی 38 فیصد شوگر مارکیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور 2017-18ءمیں 262 ارب روپے وصول کیے جب کہ 2019ءاور 2020ءمیں بالترتیب 335 ارب روپے اور 172 ارب روپے مقامی مارکیٹ میں چینی فروخت کرکے کمائے۔

باقی ماندہ 62 فیصد شوگر انڈسٹری کو کسی بھی طرح کی انکوائری یا فارنسک آڈٹ کا سامنا نہیں ہے۔ صرف 9 مل مالکان ایسے ہیں جنہیں شوگر کمیشن کے غیض و غضب کا سامنا ہے۔ کمیشن سے وابستہ کچھ افسران نے انٹرویو کے دوران جیو نیوز کو بتایا کہ تحقیقات کرنے والی ٹیموں کو ایسے تقریباً 36 ایسے بینک اکاﺅنٹس کا پتہ چلا ہے جو مختلف شوگر ملوں کے ملازمین کے نام پر کھلوائے گئے اور ان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 500 ارب روپے کا لین دین ہوا ہے۔

یہ سب بے نامی لین دین (ٹرانزیکشنز) ہے اور حکام کا دعویٰ ہے کہ آئندہ دنوں میں ہزاروں مزید مشکوک لین دین کا پتہ چل سکتا ہے۔ بظاہر ان ہی لین دین کے ذریعے مل مالکان نے بھاری نقد رقم کمائی ہے کیونکہ انہوں نے ممکنہ خریداروں کے ساتھ غیر تحریری معاہدے کرکے زیادہ منافع کمانے کیلئے ٹیکس چوری کیا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین نے شوگر کمیشن کے قیام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اخبار کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ کمیشن صرف ان ہی کی ملوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن ان کی ملوں پر توجہ دے رہا ہے، باقی لوگ جو پی ٹی آئی کا حصہ ہیں ان کی ملوں کیخلاف تحقیقات کیوں نہیں کی جا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 تاریخ کو رپورٹ آنا تھی، میں اس کے بعد فیصلہ کن لائحہ عمل اختیار کروں گا۔ تاہم، میں وزیراعظم عمران خان سے رابطے میں ہوں۔

انہوں نے سوال کیا کہ شوگر کمیشن کا ہدف کیا ہے اور اس کے کام کرنے کے شرائطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) کیا ہیں، صرف 9 شوگر ملوں کی اسکروٹنی کیوں ہو رہی ہے، 80 دیگر شوگر ملوں کا فارنسک آڈٹ کیوں نہیں ہو رہا اور اس مخصوص آڈٹ کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں۔ جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیٹی اور نہ ہی کمیشن نے مجھ سے رابطہ کرکے میرا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں کمیشن کی رپورٹ دیکھ کر ہی آگے کا فیصلہ کروں گا۔ میں نے پی ٹی آئی کا ساتھ ایک کاز کیلئے دیا تھا لیکن آج میں مایوس ہوں لیکن میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں کیونکہ اقتدار میں آنے کیلئے میں نے پارٹی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تمام ٹیکس ادا کیے ہیں۔

مزید لکھا گیا کہ خسرو بختیار کی ملوں کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ میں رپورٹ آنے تک کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کرنے کے معاملے پر انہوں نے   بتایا کہ یہ ایف بی آر کی کوتاہی ہے، مل مالکان کی نہیں۔انہوں نے کہا کہ میری شوگر ملوں نے کوئی بے نامی لین دین کیا ہے اور نہ ہی کھاتوں سے باہر چینی فروخت کی ہے۔ دوسری جانب شوگر مل مالکان نے ایف آئی اے کی انکوائری کو یکطرفہ اور پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے افسران کو اس شعبے کا تجربہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس معلومات۔ ذرائع کے مطابق، انہوں نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ گمراہ کن اندازوں پر مبنی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرنے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں شوگر بزنس وہ واحد بزنس ہے جس میں گنے کی قیمت کا تعین تو کیا جاتا ہے لیکن چینی کی قیمت فکس نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ جس عرصہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے اس میں چینی کی قلت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ فارورڈ ٹھیکوں کا سلسلہ پوری دنیا میں رائج ہے اور مل مالکان کا جوا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ رپورٹ میں یہ تو بتایا گیا تھا کہ کہ دسمبر 2018ءمیں چینی کی قیمت 51 روپے فی کلوگرام تھی لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ چینی 2017-18ءمیں تیار کی گئی تھی،مل مالکان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں انصاف نہ ملا تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جائیں گے"۔

https://dailypakistan.com.pk/27-Apr-2020/1125653?fbclid=IwAR1mQf1kpwGJRHnhScv9dyxLM

PZKw0Vo2RZejkKQC26fHpTBlyMtIgAnZ9U

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/25042020/p1-lhr022.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/25042020/p1-lhr022.jpg

لاہور (ویب ڈیسک) وفاقی حکومت نے جواد رفیق ملک کو صوبے کا نیا چیف سیکرٹری مقرر کرتے ہوئے نوٹی فیکشن جاری کر دیا ہے، اس قبل عہدے پر موجود  چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان نے آٹا چینی رپورٹ سے متعلق اہم ثبوت تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کئے، یہی وجہ ان کی تبدیلی کا باعث بنی۔

دنیا نیوز کے مطابق ذرائع کے مطابق سابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کا تبادلہ کرتے ہوئے ان کو سٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔ادھر ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر ترین سمیت متعدد افراد سے متعلق اہم ثبوت بھی انہوں نے فراہم کئے، یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کی اعلیٰ شخصیت کے علم میں لائے بغیر اپنی مرضی سے تعیناتی کرنے کے معاملات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

گزشتہ تین دن سے یہ معاملات چل رہے تھے کہ اعظم سلیمان کو تبدیل کیا جائے، گزشتہ روز ہونیوالی وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدا رکی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ جواد رفیق ملک کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کر دیا جائے۔دوسری جانب نئے چیف سیکرٹری پنجاب کی تعیناتی کے بعد انتظامی عہدوں پر پھر ایک بار تبدیلیاں آئیں گی، جواد رفیق ملک ماضی میں کمشنر لاہور، سیکرٹری صحت پنجاب بھی تعینات رہے، جواد رفیق ملک ن لیگ کے انتہائی قریبی افسروں میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اعظم سلیمان کوایک ہفتہ قبل یہ آگاہ کیا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ سے معاملات درست کر لیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

اعظم سلیمان کا کہنا تھا انہیں علم نہیں تھا کہ انہیں تبدیل کیا جارہا ہے ، میں وزیراعلیٰ کے احکامات مانتا رہا ہوں اور تبادلے سروس کا حصہ ہوتا ہے ، میں نے اپنے دور میں بہترین اور میرٹ پر فیصلے کئے ، میں تو خود حیران ہوں کہ مجھے کیوں تبدیل کردیا گیا۔خیال رہے کہ میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان نے نومبر 2019ء میں چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اعظم سلیمان ڈی ایم جی کے 14 ویں کامن سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ڈی سی او ڈی جی خان، ڈی سی او فیصل آباد، ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاہور، سیکرٹری آبپاشی، سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو اور بطور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی سروس کا ایک بڑا حصہ پنجاب میں گزرا ہے۔ وفاقی حکومت نے انھیں یوسف نسیم کھوکھر کی جگہ تعینات کیا تھا۔

https://dailypakistan.com.pk/24-Apr-2020/1124439?fbclid=IwAR3ePcTb0jTNs5LQI_q-PBAyeYkhjct1v-CMYbU-k-tCjlRJOzoccfmv8IM

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چینی  سکینڈل کی تحقیقات کیلئے تشکیل دیے گئے شوگر کمیشن کی جانب سے بااثر سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کی شوگر ملوں کے معاملات کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے جس سینئر عہدیدار کو تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، وہ ان لوگوں کا مخبر نکلا جن کیخلاف وہ تحقیقات کر رہا تھا۔ مذکورہ افسر کو ذمہ داری سے ہٹاتے ہوئے ملازمت سے معطل کر دیا گیا ہے۔

روزنامہ جنگ میں سینئر تحقیقاتی صحافی انصار عباسی نے لکھا "وزیراعظم عمران خان کو اس پیشرفت کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی انہیں متنبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے ایک ایسا سیاسی خاندان مشکلات پیدا کر سکتا ہے جس کا شوگر ملوں میں حصہ ہے۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ملازمت سے معطل کیا جانے والا افسر ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ہے۔

وہ نہ صرف کمیشن کی خفیہ معلومات شوگر مل مالکان کو فراہم کر رہا تھا بلکہ شوگر مل مالکان کو فائدہ پہنچانے کیلئے شوگر کمیشن کو غلط معلومات فراہم کرکے گمراہ بھی کر رہا تھا۔ یہ افسر شوگر کمیشن کی جانب سے تحقیقاتی مقاصد کیلئے قائم کی گئیں کئی ٹیموں میں سے ایک کا سربراہ تھا۔ ان ٹیموں میں سے ہر ایک کو مختلف کام اور ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کمیشن نے تحقیقات کاروں کی یہ ٹیمیں مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے گریڈ 19؍ اور 20؍ کے عہدیداروں کی سربراہی میں قائم کی تھیں۔

ان افسران کا تعلق ایف آئی اے، ایس ای سی پی، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ وغیرہ سے ہے۔ ایف آئی اے کا پکڑا جانے والا سینئر عہدیدار جس ٹیم کا سربراہ تھا؛ وہ ان شوگر ملوں کا فارنسک آڈٹ کر رہی تھی جو با اثر اور اثر رسوخ رکھنے والی کاروباری شخصیات ہیں۔ان میں سے ایک سیاسی خاندان بھی ہے جو موجودہ سیاسی منظرنامے میں اہمیت کا حامل ہے، اور یہی خاندان پی ٹی آئی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقات کے دوران، یہ معلوم ہوا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر کا کام معیار کے مطابق نہیں ہے جبکہ شوگر کمیشن کیلئے اہمیت کی حامل معلومات بھی افسر کی جانب سے فراہم نہیں کی جا رہیں۔

ایک مخصوص شوگر مل کے حوالے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کی ٹیم کا کام اور فراہم کردہ معلومات (فیڈ بیک) دیگر ٹیموں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے بالکل برعکس تھا۔ شک ہوا تو کمیشن نے کچھ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مدد حاصل کی جن کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے قابل بھروسہ نہیں اور وہ شوگر مل کو فائدہ پہنچانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

یہ الزام عائد کیا گیا کہ مذکورہ افسر کمیشن کے کام کاج کے حوالے سے شوگر مل مالکان کو خفیہ معلومات فراہم کر رہا ہے اور ساتھ ہی شوگر مل مالکان کو مشورے دے رہا ہے کہ شوگر کمیشن کو درکار معلومات کی فراہمی میں تاخیر اور لیت و لعل سے کام لیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افسر کا اپنا تعلق بھی سیاسی خاندان سے ہے اور اس کے قریبی رشتہ داروں کا تعلق پیپلز پارٹی سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ سے ہے۔

افسر کے ایک رشتہ دار نے 2014ء میں مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن الیکشن ہار گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر گجرات میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کی حیثیت سے کام کر چکا ہے"۔

https://dailypakistan.com.pk/22-Apr-2020/1123645?fbclid=IwAR2s2ssTn96bmHbcb89gRKxNs

shvN3XmbZ7xe5Afd1jGQzXghH-S4ysKofs

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )آٹا چینی بحران تحقیقاتی کمیشن نے تفتیش کیلئے مزید وقت مانگ لیاہے ۔

نجی ٹی وی دنیا نیوز نے ذرائع کے حوالے سے کہاہے کہ آٹا چینی بحران پر تحقیقات کرنے والی کمیشن کو انکوائری مکمل کرنے کیلئے مزید دو سے چار ہفتے کا وقت دیے جانے کاامکان ہے ، مزید وقت کمیشن کو رپورٹ سے ابہام دورکرنے کیلئے دیا جارہاہے ۔ کمیشن کی جانب سے رپورٹ مئی میں پیش کی جائے گی۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آٹا چینی بحران تحقیقات کا اعلان کیا تھا اور رپورٹ آنے پر اسے عوام کے سامنے لانے کا وعدہ کیا جسے انہوں نے کچھ عرصہ قبل رپورٹ پبلک کرتے ہوئے پورا کیا ۔رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار سمیت کئی اہم تین افراد کی جانب سے چینی پر دی جانے والی سبسڈی سے فائدہ اٹھانے کاانکشاف کیا گیا ۔

https://dailypakistan.com.pk/21-Apr-2020/1123261?fbclid=IwAR12rnzMIuAV21Uve1e2rDjsxsPa

BSG6QzptCVSmrmJszrifZMPEZ4yw47s

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)معاون خصوصی شہزاد اکبر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے گندم اورچینی کے معاملے پر مثال قائم کردی، فرانزک رپورٹ کو نہ صرف پبلک کیا جائے بلکہ اس پر ایکشن بھی لیا جائے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاست کاکام ایک ریگولیٹرکاہے، پولٹری مافیا نہیں اور بھی لوگ جن کیخلاف کام کرنے کی ضرورت ہے، مسابقتی کمیشن مافیاز کے خلاف مثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے، ہماری کوشش ہے کہ کارٹیلزکیخلاف مسابقتی کمیشن کو مثر بنایا جائے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نیگندم اورچینی کیمعاملیپرمثال قائم کردی، فرانزک رپورٹ کو نہ صرف پبلک کیا جائے بلکہ اس پر ایکشن بھی لیا جائے، ہم کسی کاروبارکانقصان نہیں چاہتے ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ ایک خاص تناسب گندم سیمحفوظ کی جاتی ہے، مارکیٹ میں صورتحال کیمطابق گندم دی جاتی ہے، وفاق اور پنجاب حکومت نے ذمہ دار کا مظاہرہ کیا گندم خریداری کے معاملے پرسندھ نے مجرمانہ غفلت برتی۔ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کیمطابق ملک میں گندم کی صورتحال کا ٹھیک اندازہ نہیں لگایا گیا، بغیر کابینہ کی اجازت میدہ برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ جو بھی مسائل ہوئے، وہ انتظامی نوعیت کیتھے، صرف پنجاب کیپرالزام کاسارابوجھ ڈالناٹھیک نہیں، گندم میں پنجاب کی نسبت چنددن پہلے ہی گندم جمع کرناشروع کردی جاتی ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/21-Apr-2020/1123264?fbclid=IwAR2RgJaE91B1hxMDJ86ZwLWoA

tlSlcr6hlaePAZg8f6c7Aegm17BrsddyIQ

 

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107372192&Issue=NP_PEW&Date=20200421

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین نے اپنی کمپنی کے پاورپراجیکٹس سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جہانگیرترین نے کہاکہ میری کمپنی کے پاورپراجیکٹس سے متعلق خبرسراسر غلط ہے، در حقیقت سینٹرل پاورپرچیزنگ ایجنسی نے ہمارے 3 ارب 90 کروڑ روپے کی کٹوتی کردی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کٹوتی کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے اور یہ کیس ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔

واضح رہے چینی کی بعد وزیراعظم عمران خان کو پیش کی گئی بجلی منافع جات رپورٹ میں بھی جہانگیر ترین گروپ کا ذکر ہے۔رپورٹ کے مطابق جہانگیرترین گروپ کے 2 پاور پلانٹس نے 3 ارب 85 کروڑ روپے اضافی منافع کمایا اور یہ منافع جہانگیر خان ترین کے جے ڈی ڈبلیوٹو اور تھری پاورپلانٹس نے کمایا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کے یہ پاور پلانٹس گنے کی پھوک سے بجلی بناتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہر یار کی آر وآئی کے ملز کے پاور پلانٹ نے ایک ارب روپے اضافی کمائے اور ان کا پاور پلانٹ بھی گنے کی پھوک سے بجلی بناتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز شریف گروپ کی چنیوٹ ملز کے ساتھ پاور پلانٹ نے ایک ارب 33 کروڑ اضافی کمائے۔

اسلام آباد(ویب ڈیسک) ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں 9رکنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق

، جہانگیر ترین کی 2 آئی پی پیز کو 5سال میں 3 اعشاریہ85 ارب روپے اضافی منافع حاصل کیا ہے۔ جب کہ خسرو بختیار کی فیملی نے تین سال میں 1 ارب روپے اضافی منافع حاصل کیا۔ تفصیلات کے مطابق، مخدوم خسرو بختیار کی فیملی نے گنے کی پھوک سے چلنے والے آئی پی پی کے ذریعے تین سال کے اندر 1 ارب روپے سے زیادہ منافع حاصل کیا ہے۔ ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں 9رکنی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیپرا نے گنے کی پھوک سے چلنے والے پاور پلانٹس کو 15 فیصد منافع کی اجازت دی تھی مگر حقیقت میں ان کی آمدنی 18.39 فیصد رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کے گنے کی پھوک سے چلنے والے پاور پلانٹس جے ڈی ڈبلیو 2 نے پانچ سال میں 2 اعشاریہ 05 ارب روپے اور جے ڈی ڈبلیو 3 نے 1 اعشاریہ 94 ارب روپے اضافی منافع کمایا ۔ جب کہ آر وائے کے شوگر ملز لمیٹڈ نے تین سال میں 1 ارب روپے اضافی منافع کمایا۔ جب کہ چنیوٹ پاور لمیٹڈ نے 1 اعشاریہ 33 ارب روپے اضافی منافع کمایا۔

https://dailypakistan.com.pk/19-Apr-2020/1122392?fbclid=IwAR3b9qgL5yOlA6fu6W32yxV09or-znLQ7IiS-SE8w2O4KyR2abigymElr_Q

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/19042020/P1-LHR019.jpg

Daily Roznama 92

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد 18 جنوری 2019 کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے اے کے ٹی شوگر ملز کی ایک درخواست منظور کی۔ اس درخواست میں گلف شوگر ملز کے تمام شیئرز جہانگیر ترین کی طرف سے خریدنے کا کہا گیا تھا۔

انگریزی روزنامے دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق گلف شوگر ملز کے مالکان نے اپنی یہ مل ساڑھے 11 ارب روپے میں جہانگیر ترین کو فروخت کی۔ شوگر ملز کی خریداری کیلئے کوئی منی ٹریل فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے نے اس کی تحقیقات کی ضرورت محسوس کی۔

سی طرح نوید شیخ نے اپنی امپیریل شوگر ملز بھی جہانگیر ترین کو فروخت کی، 4 جنوری 2019 کو امپیریل شوگر ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مل کی زمین، عمارت، پلانٹ، مشینری سمیت تمام اشیا فروخت کرنے کی منظوری دی۔ یہ مل ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے علاقے کرمانوالہ میں ہے۔ جہانگیر ترین نے یہ شوگر ملز ساڑھے 7 ارب روپے کے عوض خریدی۔

انڈسٹری کے اندر کا بھید رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں شوگر ملز خسارے میں چل رہی تھیں اس لیے انہوں نے بخوشی انہیں فروخت کردیا، کیونکہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان ملز کو منافع بخش کیسے بنانا ہے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں ایف آئی اے نے چینی کے بحران پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں جہانگیر ترین کے کردار پر انگلیاں اٹھائی  گئی ہیں۔ ایک تحقیقاتی کمیشن مختلف شوگر ملز کا آڈٹ کر رہا ہے جس کی رپورٹ 25 اپریل کو سامنے آئے گی۔ انکوائری کمیشن کی پہلی رپورٹ میں جہانگیر ترین کی مذکورہ بالا شوگر ملز کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔

https://dailypakistan.com.pk/16-Apr-2020/1121139?fbclid=IwAR1pPMXe02bRpPa1QvJUYIcSW6

w5XCFDg4aKO7jiOlnnTQ9luU7_k1RYlY

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/17042020/P1-Lhr-045.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/17042020/P1-Lhr-045.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/15042020/fp-lhe-040.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/15042020/fp-lhe-040.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/15042020/P6-Lhr-007.jpg

Daily Roznama 92

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے لندن پلان کے ذریعے جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ سے نا اہل کرایا، اب بھی کچھ بروکرز کو اٹھا کر انہیں  جہانگیر ترین اور سلیمان شہباز کے خلاف گواہی دینے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

نجی ٹی وی جی این این کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا کہ جس وقت سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نا اہلی کا کیس چل رہا تھا اسی وقت  لندن کے ہلٹن ہوٹل میں میٹنگ میں یہ طے پایا کہ کس طرح جہانگیر ترین کو نا اہل کرانا ہے۔

عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا کہ لندن کے ہوٹل میں ہونے والی میٹنگ میں پی ٹی آئی کے لوگ بھی  موجود  تھے۔ اس میٹنگ میں ایک بہت بڑا سرمایہ کار بھی شامل تھا، یہ اتنا فراخ دل آدمی ہے کہ اس کا کوئی دوست اگر اسے یہ کہے کہ اس نے مکان بنانا ہے تو یہ سرمایہ کار 4 سے 5 کروڑ ایسے ہی دے دیتا ہے۔ ایک شخص نے 4 جگہوں سے الیکشن لڑا جس پر 25 کروڑ روپے خرچ ہوئے، یہ بھی پتا چلانے کی ضرورت ہے کہ یہ پیسے کس نے دیے۔

عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا کہ ہلٹن ہوٹل کے 15 ویں فلور پر ہونے والی میٹنگ میں ایک صحافی کے ذریعے ایک ڈاکیومنٹ لیک کرائی گئی جس کی بنا پر جہانگیر ترین نا اہل ہوئے، اسی صحافی نے بعد میں یہ خبر بھی دی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت شوگر اور آٹا سکینڈل کا فرانزک آڈٹ جاری ہے، تحقیقاتی کمیٹیوں نے چینی کے کچھ بروکرز کو اٹھایا ہے اور ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور سلیمان شہباز کے خلاف گواہی دیں۔

https://dailypakistan.com.pk/13-Apr-2020/1119781?fbclid=IwAR0gOGWFbUncCei5XXmPl2rkA

fCZxvZaXIDqeyp3z9V7g6OpILA8_Rpny4Q

لاہور(ویب ڈیسک) شوگر ملز مافیا کے خلاف تحقیقات میں اربوں روپے ٹیکس چوری کے انکشافات بھی سامنے آگئے، شوگر ملز مالکان نے ڈبل اکاو¿نٹس کھول رکھے ہیں جن کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے، ایف آئی اے نے تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔تحقیقاتی کمیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کر رکھا ہے اب تک جہاں شوگر ملز مالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی سامنے آئی ہے حیران کن طور پر ٹیکس چوری کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں۔

ہر شوگر مل کا مالک کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث پایا گیا۔ یہ انکشاف ایف آئی اے کو اس وقت ہوا جب ان لوگوں کے ریکارڈ کو قبضے میں لے کر جانچ پڑتال کی گئی۔ تقریبا ہر مل مالک نے ایک ایکسٹرنل اور ایک انٹرنل اکائونٹ بنا رکھا ہے اور ان ڈبل اکائونٹس کے ذریعے بڑی مہارت کے ساتھ چینی بنانے اور اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے کے معاملات کو مینٹین کیا جارہا ہے۔

ایکسٹرنل اکائونٹ میں چینی کی فروخت لاکھوں روپے ظاہر کر کے اس پر ٹیکس دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں پروڈکشن اور خفیہ ڈیلروں کو فروخت کی جانے والی چینی کروڑوں اربوں روپے کی ہوتی ہے جس کا سارا ریکارڈ انٹرنل اکائونٹ میں رکھا جاتا ہے اور پھر یہ رقم مختلف بینک اکائونٹس میں منتقل کر دی جاتی ہے۔

جب تحقیقاتی کمیشن نے ایک مل مالک کے دونوں اکائونٹ چیک کیے تو معلوم ہوا کہ اصل میں ڈیلر کو 48 کروڑ روپے کی چینی فروخت کی گئی جبکہ ایکسٹرنل اکائونٹ میں ڈیلر کے پاس چینی صرف 36 لاکھ روپے کی ظاہر کی گئی۔ اس طرح اس مل مالک نے 47 کروڑ 64 لاکھ ظاہر نہیں کیے اور 48 کروڑ کے بجائے صرف 36 لاکھ روپے پر ٹیکس دیا اور یہ صرف ایک مل کی ایک دن کی انٹری تھی۔ اسی تناسب سے گزشتہ 5 برس کا حساب لگایا جائے تو رقم اربوں روپے میں چلی جاتی ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اب تک 89 شوگر ملوں کا ریکارڈ قبضہ میں لیا گیا ہے اور یہ سب شوگر ملیں (ن) لیگ،(ق) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت حساس اداروں کے ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ کے بااثر ترین افراد سے وابستہ افراد کی ملکیت ہیں اور اربوں روپے کے فراڈ کا سارا کھیل مل جل کر کھیلا جا رہا ہے،ملز مالکان کا تعلق انتہائی سیاسی حریف جماعتوں سے ہے مگر جب بات پیسہ کمانے اور مالی مفادات کی آتی ہے تو تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

افسر نے بتایا کہ پوری کوشش ہے کہ آئندہ ہفتے تک انکوائری مکمل کرکے رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کر دی جائے گی، شوگر ملز مالکان سے صرف ان کے پلانٹس کی پیداواری صلاحیت، اسٹاک اور خفیہ ڈیلروں کے اکائونٹس پر ٹیکس وصول کیا جائے تو وہ رقم سبسڈی سے بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔اس ضمن میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر پنجاب زون ون ڈاکٹر رضوان سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے بتایا کہ انکوائری چل رہی ہے ہم نے صرف ریکارڈ قبضہ میں لے کر تحقیقاتی کمیشن کو دیا ہے اس میں کیا نکلا کیا نہیں اس بارے میں کچھ پتا نہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/13-Apr-2020/1119701?fbclid=IwAR1UwSJ0zvz51iVFP4BC1VqssCA

JLSURIaa2nXcPTzcKh9wFobH1nHvChVw

Daily Express

اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر ولید اقبال نے 2013 کے الیکشن کے حوالے سے جہانگیر ترین کے بیان پر کہا کہ ان کی باتوں سے کچھ حد تک اتفاق اور کچھ اختلاف ہے۔

جیو نیوز کے پروگروام میں پی ٹی آئی رہنما سینیٹر ولید اقبال اور سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے جہانگیر ترین کے حالیہ بیان پر اظہار خیال کیا۔سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ جہانگیر ترین کے بیان سے کچھ حد تک اتفاق اور کچھ اختلاف ہے، ان کی یہ بات درست ہے کہ پنجاب میں کچھ حلقوں میں پانچویں پوزیشن بھی نہیں تھی، دھاندلی ہوئی لیکن کس حد تک اس پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر 2013 کے الیکشن میں دھاندلی نہ بھی ہوتی تو حکومت پھر بھی نہیں بنا سکتے تھے لیکن اپوزیشن کی بڑی پارٹی بن جاتے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا، عمران خان نے جن چار حلقوں میں دھاندلی کی بات کی وہاں الیکشن کالعدم ہوئے، جوڈیشل کمیشن میں 40 سے 50 سیٹیں مشکوک بنا دیتے تو پورے الیکشن کالعدم ہو جاتے۔سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ ٹکٹ اس کو ملے گا جو الیکشن جیت بھی سکتا ہو، سیاسی پارٹی الیکشن جیتنے کے لیے ہی بنائی جاتی ہے، ساری عمر جیت نہ سکیں تو کیا فائدہ۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ مشن پر سمجھوتہ نہ کریں تو فیصلوں میں تبدیلی کوئی برائی نہیں اس لیے دھرنا بالکل درست تھا، پی ٹی آئی نے اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کیا تھا مگر اپوزیشن نے 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا لیکن مو¿ثر احتجاج نہیں کر سکی۔

ادھر سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے اظہار خیال کیا کہ مئی 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی امیدواروں کا انتخاب بہت برا تھا، عمران خان نے ریویو کمیٹی کی رپورٹ کو سراہا لیکن عمل درآمد نہیں کیا، وہ پارٹی کے اہم عہدوں پر الیکشن کرانے پر تیار نہ ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے لوگوں کو بلینک ٹکٹس بھی دیئے، لوگوں کو شکایت تھی کہ عمران خان باتیں مان جاتے ہیں لیکن عمل درآمد نہیں کرتے، شنوائی نہیں ہوئی تو سوچا پی ٹی آئی میں رہنا وقت ضائع کرنا ہے۔تسنیم نورانی نے مزید کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کرپشن کے ٹھوس ثبوت کسی نے پیش نہیں کیے تھے، پی ٹی آئی حقیقی پارٹی الیکشن نہیں کرائے تو اس میں اور دیگر جماعتوں میں کوئی فرق نہیں۔واضح رہے کہ چند روز قبل تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر خان ترین نے ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ 2013 کے الیکشن تو ہم بری طرح ہارے تھے جب کہ 66 فیصد حلقوں میں پی ٹی آئی امیدواروں کو 20 فیصد ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔

https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2020/1119309?fbclid=IwAR2vGN6X9sT_UO3Qh14ZCpi20K

B4jipaBXs1ituUW1LVxs0YdvuAw2_R5Y

اسلام آباد(ویب ڈیسک) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور ان کی علیحدگی کے بعد تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ، اب سینئر کالم نویس اور معروف شاعر منصور آفاق نے بھی اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے ۔

روزنامہ جنگ میں انہوں نے لکھا ’’ ایک طرف سے کہا گیا :عمران خان پنجابی پٹھان ہیں مگر پختون پٹھانوں کے نرغے میں ہیں۔ جہانگیر ترین بھی پنجابی پٹھان ہیں۔ ذہین آدمی ہیں مگر پختون پٹھان اعظم خان زیادہ تیز ہیں۔ وہ عمران خان سے ترین کا فاصلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ کل تک بنی گالا کے معاملات بھی جہانگیر ترین دیکھتے تھے۔ اب نئے لوگ آ گئے ہیں۔ ویسے جہانگیر ترین کے سیکرٹری کا سگا بھائی انعام شاہ ابھی تک بنی گالہ کا انچارج ہے۔ جہانگیر ترین کے جانے بعد اسد عمر کے سوا کوئی اور پرانا دوست عمران خان کے قرب و جوار میں موجود نہیں۔ ایک مکالمہ جو سنا گیا۔

جہانگیر ترین سے کسی دوست نے پوچھا ’’اب آپ کیا کریں گے۔ ‘‘تو انہوں نے کہا۔ ’’ میں یہ سوچ رہا ہوں اب عمران کیا کرے گا‘‘۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جو طاقتیں عمران خان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے بھی جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک غیر ملکی ٹی وی نے بھی کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اختلافات کورونا وائرس کے حفاظتی انتظامات پر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

جہاں تک جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غلط ہیں، صریحاً جھوٹ ہیں۔ رپورٹ میں بھی ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے مگر میڈیا پر اسے بہت اچھالا گیا۔ 56کروڑ روپے کی جہانگیر ترین کے لئے کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں 23 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور صرف تین ارب ریبیٹ لیا۔ جس میں ڈھائی ارب نون لیگ کے دور میں لیا تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکن بھی جہانگیر ترین کے خلاف اپنے لیڈر کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں اور اس معاملے کو کسی سازش کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔

عمران خان کے گرد و نواح میں یہ شور ہے :نظام کی تبدیلی عمران خان کا ماٹو ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔ چاہے کوئی اپنا ہو یا پرایا۔ یہی عمران خان کے سچے ہونے کی گواہی ہے کہ اس نے اپنے گہرے دوست جہانگیر ترین کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ کوئی اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ واقعی عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں۔

سچ یہی ہے کہ اس وقت عمران خان حریفانہ کشمکش کا شکار ہیں۔ دونوں طرف سے ان پر دبائو ہے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کی خواہش ہے کہ عمران خان پچیس اپریل کو انہیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ جہانگیر ترین کے دوست چاہتے ہیں کہ کپتان کسی غیر جانب دار شخص سے پوری انکوائری کرائیں تاکہ جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی سازش سے پردہ اٹھ سکے۔ وہ لو گ جنہوں نے بے نامی چینی کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ انہیں سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں پیدا کرچکے ہیں۔

وہ جو صرف جہانگیر ترین کی ملوں کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں منہ کی کھائیں بلکہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے فارغ ہوں۔ جن میں سرِ فہرست ایک بیوروکریٹ کا نام ہے۔ اس کے اور جہانگیر ترین کے درمیان جھگڑا اُس دن ہوا جب جہانگیر ترین نے اسے کوئی کام کہا تو اُس نے جاکر عمران خان سے کہہ دیا کہ ’’پلیز مجھے بتائیے وزیر اعظم آپ ہیں یا جہانگیر ترین‘‘جس پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ اس وقت تو معاملہ عمران خان نے رفع دفع کرادیا۔

جہانگیر ترین کے حلقہ احباب کا خیال ہے کہ یہ بیورو کریٹ اس وقت تو خاموش ہو گیا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ کہتے ہیں اُس نے عمران خان کے ارد گرد صرف انہی کو رہنے دیا ہے جو اُس کی زبان بولتے ہیں۔ سو اس نے خود کچھ نہیں کہا مگر ادھر ادھر سے کہلواتا رہا۔ اداروں سے غلط رپورٹیں تیار کر کے عمران خان کو بھجواتا رہا۔

اسے کابینہ میں بھی کچھ لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ان میں علی زیدی، مراد سعید اور فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں۔ حالانکہ یہ تینوں وزیر سب سے بہتر کام کرنے والے وزیر ہیں اور عمران خان کے سچے جانثار ہیں۔

دوسری طرف جتنے آفیسر بڑے بڑے عہدوں پر کام کررہے ہیں وہ تمام اس بیورو کریٹ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے افسر نے مجھ سےکہا ’’جہاں تک اس بیورو کریٹ کی بات ہے تو وہ میرا لیڈر ہے‘‘ یعنی اس نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ میں وہی کچھ کروں گا جو وہ کہے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اُس افسر کو فردوس عاشق اعوان نے اس عہدہ پر لگوایا ہوا ہے اور اُس پر بہت اعتماد کرتی ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو بھی فارغ کردیا گیا تھا مگر انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان ابھی سچائی کی تلاش میں ہیں۔ شہزاد ارباب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کابینہ میں وہی جہانگیر ترین کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسد عمر پر بھی الزام لگایا کہ اس نے جہانگیر ترین کے خلاف عمران خان کے کان بھر ے ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔

یہاں تک بات درست ہے کہ جہانگیر ترین نے جب دیکھا کہ عمران خان اسد عمر کو ہٹانے پر تل گئے ہیں تو پھر انہوں نے عبدالحفیظ شیخ کا نام پیش کیا مگر انہوں نے خود اسد عمر کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ یہ بات اسد عمر بھی جانتے ہیں۔ اُن کے ساتھ اس موضوع پر میری بات بھی ہوئی تھی۔ اسد عمر کو ہٹوانے میں بے شک بہت سے لوگوں کا کردار تھا مگر سب سے زیادہ کردار اس میں بھی اسی بیورو کریٹ نے ادا کیا تھا۔

قصہ صرف اتنا تھا کہ جس انداز میں عمران خان اس کو مخاطب کرتے تھے اسد عمر بھی اُسے اسی انداز میں مخاطب کیا کرتا تھا۔ یہ بات نائب وزیر اعظم یعنی اس بیورو کریٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پی ٹی آئی کے تمام کارکنوں نے عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سارے معاملہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرکے کوئی فیصلہ کریں وگرنہ تحریک انصاف کو بھی شدید نقصان پہنچے گا اور تاریخ بھی آپ کو معاف نہیں کرے گی‘‘۔

https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2020/1119317?fbclid=IwAR1ar90Wb1pxB2j-1vjyAfG63HVChUjREWhhZiPt0Pc-Cgwer0ugDIa_0e0

اسلام آباد(ویب ڈیسک) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور ان کی علیحدگی کے بعد تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ، اب سینئر کالم نویس اور معروف شاعر منصور آفاق نے بھی اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے ۔

روزنامہ جنگ میں انہوں نے لکھا ’’ ایک طرف سے کہا گیا :عمران خان پنجابی پٹھان ہیں مگر پختون پٹھانوں کے نرغے میں ہیں۔ جہانگیر ترین بھی پنجابی پٹھان ہیں۔ ذہین آدمی ہیں مگر پختون پٹھان اعظم خان زیادہ تیز ہیں۔ وہ عمران خان سے ترین کا فاصلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ کل تک بنی گالا کے معاملات بھی جہانگیر ترین دیکھتے تھے۔ اب نئے لوگ آ گئے ہیں۔ ویسے جہانگیر ترین کے سیکرٹری کا سگا بھائی انعام شاہ ابھی تک بنی گالہ کا انچارج ہے۔ جہانگیر ترین کے جانے بعد اسد عمر کے سوا کوئی اور پرانا دوست عمران خان کے قرب و جوار میں موجود نہیں۔ ایک مکالمہ جو سنا گیا۔

جہانگیر ترین سے کسی دوست نے پوچھا ’’اب آپ کیا کریں گے۔ ‘‘تو انہوں نے کہا۔ ’’ میں یہ سوچ رہا ہوں اب عمران کیا کرے گا‘‘۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جو طاقتیں عمران خان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے بھی جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک غیر ملکی ٹی وی نے بھی کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اختلافات کورونا وائرس کے حفاظتی انتظامات پر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

جہاں تک جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غلط ہیں، صریحاً جھوٹ ہیں۔ رپورٹ میں بھی ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے مگر میڈیا پر اسے بہت اچھالا گیا۔ 56کروڑ روپے کی جہانگیر ترین کے لئے کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں 23 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور صرف تین ارب ریبیٹ لیا۔ جس میں ڈھائی ارب نون لیگ کے دور میں لیا تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکن بھی جہانگیر ترین کے خلاف اپنے لیڈر کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں اور اس معاملے کو کسی سازش کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔

عمران خان کے گرد و نواح میں یہ شور ہے :نظام کی تبدیلی عمران خان کا ماٹو ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔ چاہے کوئی اپنا ہو یا پرایا۔ یہی عمران خان کے سچے ہونے کی گواہی ہے کہ اس نے اپنے گہرے دوست جہانگیر ترین کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ کوئی اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ واقعی عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں۔

سچ یہی ہے کہ اس وقت عمران خان حریفانہ کشمکش کا شکار ہیں۔ دونوں طرف سے ان پر دبائو ہے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کی خواہش ہے کہ عمران خان پچیس اپریل کو انہیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ جہانگیر ترین کے دوست چاہتے ہیں کہ کپتان کسی غیر جانب دار شخص سے پوری انکوائری کرائیں تاکہ جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی سازش سے پردہ اٹھ سکے۔ وہ لو گ جنہوں نے بے نامی چینی کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ انہیں سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں پیدا کرچکے ہیں۔

وہ جو صرف جہانگیر ترین کی ملوں کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں منہ کی کھائیں بلکہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے فارغ ہوں۔ جن میں سرِ فہرست ایک بیوروکریٹ کا نام ہے۔ اس کے اور جہانگیر ترین کے درمیان جھگڑا اُس دن ہوا جب جہانگیر ترین نے اسے کوئی کام کہا تو اُس نے جاکر عمران خان سے کہہ دیا کہ ’’پلیز مجھے بتائیے وزیر اعظم آپ ہیں یا جہانگیر ترین‘‘جس پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ اس وقت تو معاملہ عمران خان نے رفع دفع کرادیا۔

جہانگیر ترین کے حلقہ احباب کا خیال ہے کہ یہ بیورو کریٹ اس وقت تو خاموش ہو گیا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ کہتے ہیں اُس نے عمران خان کے ارد گرد صرف انہی کو رہنے دیا ہے جو اُس کی زبان بولتے ہیں۔ سو اس نے خود کچھ نہیں کہا مگر ادھر ادھر سے کہلواتا رہا۔ اداروں سے غلط رپورٹیں تیار کر کے عمران خان کو بھجواتا رہا۔

اسے کابینہ میں بھی کچھ لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ان میں علی زیدی، مراد سعید اور فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں۔ حالانکہ یہ تینوں وزیر سب سے بہتر کام کرنے والے وزیر ہیں اور عمران خان کے سچے جانثار ہیں۔

دوسری طرف جتنے آفیسر بڑے بڑے عہدوں پر کام کررہے ہیں وہ تمام اس بیورو کریٹ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے افسر نے مجھ سےکہا ’’جہاں تک اس بیورو کریٹ کی بات ہے تو وہ میرا لیڈر ہے‘‘ یعنی اس نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ میں وہی کچھ کروں گا جو وہ کہے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اُس افسر کو فردوس عاشق اعوان نے اس عہدہ پر لگوایا ہوا ہے اور اُس پر بہت اعتماد کرتی ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو بھی فارغ کردیا گیا تھا مگر انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان ابھی سچائی کی تلاش میں ہیں۔ شہزاد ارباب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کابینہ میں وہی جہانگیر ترین کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسد عمر پر بھی الزام لگایا کہ اس نے جہانگیر ترین کے خلاف عمران خان کے کان بھر ے ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔

یہاں تک بات درست ہے کہ جہانگیر ترین نے جب دیکھا کہ عمران خان اسد عمر کو ہٹانے پر تل گئے ہیں تو پھر انہوں نے عبدالحفیظ شیخ کا نام پیش کیا مگر انہوں نے خود اسد عمر کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ یہ بات اسد عمر بھی جانتے ہیں۔ اُن کے ساتھ اس موضوع پر میری بات بھی ہوئی تھی۔ اسد عمر کو ہٹوانے میں بے شک بہت سے لوگوں کا کردار تھا مگر سب سے زیادہ کردار اس میں بھی اسی بیورو کریٹ نے ادا کیا تھا۔

قصہ صرف اتنا تھا کہ جس انداز میں عمران خان اس کو مخاطب کرتے تھے اسد عمر بھی اُسے اسی انداز میں مخاطب کیا کرتا تھا۔ یہ بات نائب وزیر اعظم یعنی اس بیورو کریٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پی ٹی آئی کے تمام کارکنوں نے عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سارے معاملہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرکے کوئی فیصلہ کریں وگرنہ تحریک انصاف کو بھی شدید نقصان پہنچے گا اور تاریخ بھی آپ کو معاف نہیں کرے گی‘‘۔

https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2020/1119317?fbclid=IwAR1ioiUMK5Wuvmjy3mgOnv28

OyOQQKCZpslgwf7_Lo3uKne88Dy5AiURdz4

اسلام آباد (ویب ڈیسک) شوگر سکینڈل کی رپورٹ آنے کے بعد کچھ عہدیداران کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑا ، اس کی فارنز ک رپورٹ 25 اپریل کو متوقع ہے لیکن ایسے میں ملوں کے آڈٹ کی بھی خبریں آئیں، اب سینئر صحافی رئووف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ آڈٹ صرف جہانگیر ترین کی ملکیتی ملوں کا کیا جارہاہے ،مخدوم بھائیوں اور چودھری برادران کی ملیں شامل نہیں۔

روزنامہ دنیا میں رئووف کلاسرا نے لکھا کہ’’ ہمارے ہاں کورونا کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اسی وقت جہانگیر ترین اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان نئی جنگ شروع ہوگئی ہے جس کے بعد میڈیا کا رخ بھی بدل گیا ہے۔ اب حکومت کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے طاقتور شوگر ملز مالکان نے اربوں روپے بنا لیے ۔ لوگوں کو اب احساس ہورہا ہے کہ اس قوم کی جیب سے ایک طرف سبسڈی کے نام پر چوبیس ارب روپے نکال کر مل مالکان کو دے دیے گیے‘ دوسری طرف ایکسپورٹ کی وجہ سے لوکل مارکیٹ میں قلت ہوئی اور قیمت سولہ روپے فی کلو بڑھا کر اربوں وہاں سے بھی کما لیے۔

اب حکومت نے کہا ہے کہ جن ملوں کو عوام کی جیب سے اربوں روپے ملے ہیں ان کا آڈٹ ہوگا۔ اس وقت ملک میں اسی شوگر ملیں ہیں جن میں سے نصف بڑے سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔وہی حکومت میں ہوتے ہیں اور وہی اپنی ملوں کو عوام کی جیب سے سبسڈی دلاتے ہیں۔ اب ان اسی ملوں میں سے صرف دس ملوں کا آڈٹ ہورہا ہے اور ان دس میں سے چھ جہانگیر ترین اور ان کے رشتہ دار کی ہیں۔

مزے کی بات ہے کہ شوگر انکوائری رپورٹ میں جن بڑے بڑے سیاستدانوں کے نام آئے تھے کہ انہوں نے بڑا ہاتھ مارا ‘ان میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کی ملیں بھی شامل ہیں ‘جن کے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم بخت نے وزیرخزانہ پنجاب کی حیثیت سے تین ارب کی سبسڈی ملوں کو دی‘ جس میں سے پچاس کروڑ روپے اپنے بھائی مخدوم شہریار کو دیے۔اس مل میں چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا بھی شیئر ہے۔ جب یہ فرانزک آڈٹ ہورہا ہے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ ان ملوں کا بھی ہوگا جو مخدوم بھائیوں اور چوہدریوں کی ہیں‘لیکن اب اچانک یہ خبر آئی ہے کہ مخدوم بھائیوں اور چوہدریوں کی ملوں کا آڈٹ نہیں ہورہا۔

آڈٹ صرف جہانگیر ترین اور ان کی عزیزوں کی ملوں کا ہورہا ہے۔ وہ بھی یقینا ہونا چاہیے‘ لیکن آڈٹ صرف دو شوگر گروپس کا کیوں؟ ان کا کیوں نہیں جنہوں نے چوبیس ارب روپے لیے؟ لیکن حیران کن طور پر ان چوبیس ارب روپے لینے والوں کے نام اس آڈٹ کا حصہ نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جس گروپ نے کروڑوں کی سبسڈی لی وہ نام بھی آڈٹ فہرست میں شامل نہیں۔ سب چھاپے ان دس ملوں پر مارے گئے ہیں جو جہانگیر ترین اور ان کے رشتہ داروں کی ہیں۔ دریشک فیملی نے بھی شوگر ایکسپورٹ کی‘ ان کا نام بھی غائب ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مخدوم‘ دریشک اور چوہدری کیسے اس انکوائری کے بعد آڈٹ سے بچ گئے اور مخدوموں کی ملوں کو اس آڈٹ سے نکالنے سے کیا میسج دیا جارہا ہے؟ اب تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ یہ کارروائی شوگر مافیا کی کمر توڑنے کے لیے تھی‘ اب پتہ چلا ہے کہ مخدوموں‘ دریشک اور چوہدریوں کو تو پہلے ہی مرحلے میں چھوڑ دیا گیا ۔ شاید اس کی وجہ سیاسی ہے۔

عمران خان صاحب لاکھ کہتے رہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے ‘مگر انہیں پنجاب میں مخدوموں اور چوہدیوں کو چھوڑنا پڑ گیا اور خان صاحب نے سمجھداری سے فوکس ترین کی ملوں پر رکھا ہے کیونکہ ترین کا حکومت پر کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہیں۔ جہانگیر ترین کا کوئی سیاسی ووٹ پارلیمنٹ یا کا بینہ میں نہیں اور ترین کے جانے سے وفاقی یا صوبائی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ‘ دوسری جانب خسرو بختیار اورصوبائی وزیر ہاشم بخت کے بھائی شہریار اور چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کی شوگر ملوں کا اس طرح فرانزک آڈٹ کرایا جاتا ہے جیسے ترین اور دیگر دس ملوں کا ہورہا ہے تو یقینا حکومت کیلئے بہت مسائل ہوسکتے تھے۔

خسرو بختیار وفاقی وزیر ہیں اور ان کا اپنا صوبہ محاذ گروپ تھا‘ اسی طرح بزدار صاحب کی حکومت چوہدری پرویز الٰہی کے کندھے پر کھڑی ہے۔ اب اگر مخدوموں اور چوہدریوں کی ملوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یہ عمران خان کی حکومت نہ سہی بزدار صاحب کی حکومت تو گرا ہی سکتے ہیں اور عمران خان صاحب کی حکومت کی رِٹ صرف اسلام آباد تک محدود کر سکتے ہیں‘لہٰذا مخدوموں اور چوہدریوں کی ملوں کو نہیں چھیڑا گیا‘ یہاں سیاسی مصلحت سے کام لیا گیا۔تاہم جب ایک گروپ‘ جس نے سبسڈی لی ‘اس کا آڈٹ ہورہا ہے اور ملوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں تو اس وقت دوسرے سیاسی گروپ کی ملوں کو چھوڑ دینا اس پورے عمل کو مشکوک کر دے گا۔ اس طرح انکوائری رپورٹ متنازعہ ہوجائے گی اور مل مالکان ایک دفعہ پھر بچ نکلیں گے۔ ترین کو اگر پکڑ بھی لیا گیا تو انہوں نے سیاسی انتقام کا نعرہ مار کر نکل جانا ہے کہ دیکھیں یہ سارا میلہ انہیں کو فکس کرنے کے لیے رچایا گیا تھا ‘ورنہ وہ بھی تو تھے جنہوں نے چوبیس ارب کی سبسڈی لی جن میں زرداری اور شریف بھی شامل تھے۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ ان چوبیس ارب والوں کا آڈٹ کیوں نہیں کیا گیا ؟صرف ایک ارب روپے لینے والوں کا کیوں؟سنا ہے کہ اس پر خاصا وقت لگ جاتا اور وزیراعظم صاحب ترین کو فکس کرنے کے لیے جلدی میں ہیں۔اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاںجو اچھا کام شروع کیا جائے تو اس کا مقصد بھی ملک کے لیٹروں کو کٹہر ے میں لا کر انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ صرف ان لوگوں کو سزا دینی ہوتی ہے جو گستاخی کر بیٹھیں۔مگرمخدوموں ‘ چوہدریوں اور چوبیس ارب روپے سبسڈی لینے والوں کو آڈٹ سے نکالنے کا فائدہ ترین گروپ کو ہی ہوگا۔اندازہ کریں پاکستانی آڈٹ بھی کتنا سیاسی طور پر سمجھدار ہے کہ مخدوموں‘ چوہدریوں اور دریشک کی ملوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں کہ کہیں حکومت خطرے میں نہ پڑجائے ۔

وہی لطیفہ یاد آگیا کہ جس ملک کے حکمران‘ بابوز‘ آڈٹ اور آڈیٹرز اتنے سمجھدار ہوں‘ سمجھ نہیں آتا اس ملک پر ایک سو ارب ڈالرز کا قرضہ کیسے چڑھ گیا‘‘۔

https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2020/1119325?fbclid=IwAR299IJwYbAB_LIgyAv1zPvMcf8h

BexoLo1W6ehPwCXlj8VHrH4Tn7-EFeU

 https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/12042020/p6-lhr018.jpg

Daily Roznama 92

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم کے حکم پر چینی افغانستان سمگل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا ۔چینی بحران میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے کی جانب ایک اور قدم، برآمد کے نام پر چینی افغانستان سمگل کرنیوالوں سے متعلق وزیراعظم کے حکم پر انکوائری کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔نجی نیوز چینل سما کے مطابق چینی بحران کے پردہ نشینوں کو بے نقاب کرنے کیلئے سربراہ انکوائری کمیشن واجد ضیاکو ٹاسک سونپا گیا ہے، شوگر ملز سے کتنی چینی نکلی اور کتنی برآمد ہوئی، فارنزک آڈٹ سے سب پتہ چل جائے گا۔

کابینہ اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک سمیت بعض وزرا نے 70 فیصد تک چینی افغانستان اسمگل کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا۔

https://dailypakistan.com.pk/10-Apr-2020/1118564?fbclid=IwAR1K9h3FbkitcDe6MsAmnRq1Qs

ca0T0al_ozevetRMR_FYSZ4LRU8aJO8N0

اسلام آباد (ویب ڈیسک) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین کو وزیراعظم عمران خان نے ذمہ داریوں سے الگ کر دیا اور اب سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا ہے کہ جہانگیر ترین نے  دھمکی دی ہے کہ میرے پاس ایک ایک چیز کا ثبوت ہے ، کس نے مجھ سے کتنے پیسے لیے یا کہاں کہاں خرچ کیے گئے ۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرا م میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کاکہناتھاکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اکثریت رہنما محتاط ہوگئے ہیں، چپ ہوگئے ہیں لیکن جہانگیر ترین نے کافی لوگوں کو میسج بھیجا ہے ، عمران خان صاحب نے بھی بھیجا ہے کہ میرے ساتھ فیصلہ کرو کہ میرے ساتھ ہو یا نہیں؟ اور ان کی طرف سے میسج گیا ہے کہ بچو! ایک ایک چیز کا ثبوت ہے میرے پاس، کس کس نے مجھ سے کتنے پیسے لیے، میں نے کہاں کہاں خرچ کیے اور کس کس نے کیاباتیں کی ہیں وہ بھی میرے پاس موجود ہیں۔

ڈاکٹرشاہد مسعود کاکہناتھاکہ بڑی بدمزگی ہورہی ہے اور ریاست متحمل ہی نہیں،آج آپ تصور کریں کہ جہانگیر ترین ٹائیگرفورس کو ہیڈ کررہے ہوتے اور شاہ محمود قریشی کی بھی حمایت ہوتی ،  میرا خیال تھا کہ یہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا ایک آدھ دن میں لیکن یہ بہت خراب ہورہا ہے، عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ ایک ہی دفعہ میں طے کروں، فارنزک ہورہی ہے،جہانگیر ترین صاحب نے بات کی کہ80 فیصد لوگ تو میں لایا ہوں،ادھر عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ پارٹی میری ہے تو اس میں یہ لے کر آیا، وہ کہتے ہیں آگے سے کہ میں واقعی نہیں لایا اور کیا انہوں نے میرے ساتھ بات نہیں کی تھی کہ سر ہمیں مشیر بنادیں، سر ہمیں پیسے دے دیں، یہ جو جیتنے والے کینڈیڈیٹس تھےان پر میرا تو مال لگا ہے ، میں نے تو پیسے کھلائے ہیں ،خان صاحب کو نہیں پتہ تھا جو میں لے کر آتا جارہا تھا، درمیان میں کچھ لوگوں نے پڑنے کی کوشش کی، کچھ معصوم سے لوگ تھے ،ان کو ادھر ادھر سے تھپڑ پڑے تو  جو درمیان میں پڑنے کی کوشش کررہے تھے وہ پیچھے ہٹ گئے،اکثریت چپ ہوگئے ہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/11-Apr-2020/1118907?fbclid=IwAR2Xjo9i70qhISB5E_7CRNEJM4p-zKCNkTjm7Nl82vfofJx7o00NjD36guA

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹورنے کیلئے شوگر ملز مالکان مختلف ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں ۔ شوگر ملز مالکان گندم ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر حکومت سے سبسڈی اور مراعات لیتے ہیں تاہم فوائد حاصل کرنے تک چینی کو ملک میں نامعلوم جگہ پر سٹور کرلیا جاتا ہے۔

جیسے ہی حکومتی مفادات موصول ہوجاتے ہیں چینی کو مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے۔

اس طرح کا ایک سکینڈل چارجنوری دوہزار سترہ میں بھی سامنے آیا تھا جب پشاور کے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن نے پانچ ہزار چارسو بیس میٹرک ٹن چینی کی برآمد کا ایک فراڈ سامنے لے آیا تھا۔ یہ چینی چارہزار آٹھ سو چھ تھیلوں میں پشاور کے رنگ روڈ پر واقع ایک غیر قانونی ویئر ہاوس میں ذخیرہ کی گئی تھی۔

اس رپورٹ کا تذکرہ آج بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کیاجارہاہے۔

اس واقعے کو کسٹم ٹوڈے نے بھی رپورٹ کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ چھ شوگر ملز جن میں جہانگیر ترین اور شریف خاندان کی ملز شامل تھیں نے باہم مل کر اس فراڈ میں حصہ لیا۔ اس رپورٹ کے مطابق فراڈ کرنے والی ان 6 ملز میں ایم ایس چودھری شوگر ملز لمیٹڈ، دی تھل انڈسٹری کارپوریشن لمیٹڈ ، ایم ایس باوانی شوگر ملز لمیٹڈ، ایم ایس حمزہ شوگر ملز لمیٹڈ، ایم ایس اشرف شوگر ملز لمیٹڈاور ایم ایس جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز شامل ہیں۔

انہی ملز نےسبسڈی حاصل کرنے کیلئے باہم  مل کر 4806تھیلے جعلی جی ڈیز کے ذریعے افغانستان بھیجنے کادعویٰ کیا، اسی دوران انہوں نے ایکسپورٹ کی مد میں مذکورہ مقدار کیلئےسرچارج %0.25 جبکہ ود ہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد کرالیا اور دس روپے فی کلو گرام  ایکسپورٹ سبسڈی حاصل کرلی ۔

رپورٹ کے مطابق کسٹم کی جانب سے غیر قانونی ویئر ہاوس سے پکڑے گئے  ان تھیلوں پر "برائے ایکسپورٹ ٹو افغانستان" کے الفاظ درج تھے تاہم حکومتی سبسڈی حاصل ہونے اور بیرون ملک بھجوانے کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے  بعد یہ  چینی مقامی مارکیٹ میں اصل نرخوں پر بیچ کر وہاں سے بھی منافع کمایا گیا جبکہ اس پر ٹیکس کی مد میں بھی بھاری رقم بچائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق اس فراڈ میں شوگر ملز نے شایان انٹرنیشنل  کسٹمز کلیئرنگ ایجنسی، ایم ایس ابرار کسٹمز ایجنسی طورخم، عبدالعزیز خان ، داود شاہ، نواب خان آف کسٹمز سٹیشن طورخم اور سٹاف ممبرز کے ساتھ مل کر اس فراڈ پر عملدرآمد یقینی بنایا۔ ان ایجنسیوں نے برآمدات کے حوالے سے تمام تر جعلی شواہد پیش کیے جس کے بعد سبسڈی کے حصول کی راہ ہموار ہوئی۔

https://dailypakistan.com.pk/11-Apr-2020/1118920?fbclid=IwAR0WoodMrpEBPW8knp-UZzgIDNr0D8G0AEDn9Jk7jgxCJ5H3aFv9UHWf-Pk

اسلام آباد (ویب دیسک) چینی بحران کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے اور مزید 50 افراد کو اس میں شامل تفتیش کرلیا گیا وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قائم تحقیقاتی کمیشن پہلے 192 افراد کے خلاف تحقیقات کر رہا تھا جو بے نامی طریقے سے چینی کا کاروبار کر رہے تھے، ان میں ڈرائیور اور نائب قاصد بھی شامل تھے۔اب کمیشن نے مزید 50 افراد کے اکاونٹس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سٹیٹ بینک کو ان افراد کی فہرست بھی دی گئی ہے اور پوچھا گیا ہے کہ ان کے اکاو¿نٹس کن کن بینکوں میں ہیں؟

بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اس سے قبل 192 لوگوں کے شناختی کارڈز کا ڈیٹا سٹیٹ بینک بھجوایا تھا جس میں تحقیقات ہوں گی کہ کس کس بینک میں بے نامی اکاو¿نٹس ہیں، یہ تحقیقات کی جائیں گی کہ پیسہ کہاں سےآیا اور اکاو¿نٹس کے پیچھے کون ہیں۔

جیو نیوز کے مطابق تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ چینی بے نامی اکاو¿نٹ کے ذریعہ بھی خریدی گئی اور 192 ایسے لوگ ہیں جو ٹرک ڈرائیور، نائب قاصد اور سیکیورٹی گارڈز ہیں جن کے نام پر چینی کا کاروبار ہورہا ہے جب کہ جن کے نام پر چینی خریدی گئی وہ لوگ بے روزگار ہیں۔

چینل ذرائع نے بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو گن مین کے طورپر کام کررہے تھے، اس کام کے لیے ان کے شناختی کارڈ استعمال کیے گئے۔ذرائع کے مطابق چینی خریدنے کے کاروبار میں 192 سے زیادہ لوگ ہوسکتے ہیں اور چینی کے کاروبار میں ملوث لوگ پہلے بھی ملازمین کے نام پر تجارت کرتے رہے ہیں، یہ پرانے کھلاڑی ہیں جو مالیوں، ڈرائیوروں کے نام پر کاروبار کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے حالیہ چینی اور آٹا بحران کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہےکہ چینی بحران سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کو ہوا۔وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ 25 اپریل کو اس حوالے فرانزک رپورٹ آنے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔دوسری جانب جہانگیر ترین نے رپورٹ کو سیاسی قرار دیتے ہوئے اپنے اوپر عائد الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/11-Apr-2020/1118891?fbclid=IwAR1F7JJUqyFu5IF1AQavp_CzIzq-53Y4wDChUGD1r9ZOBMwq1xRqDOp1vVI

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-11&edition=KCH&id=5136380_81554753

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107345217&Issue=NP_PEW&Date=20200411

اسلام آباد ( ویب ڈیسک) چینی اور آٹا سکینڈل کی رپورٹ سامنے آنےکے بعد جہانگیر خان ترین کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا پڑا اور اب سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ ماضی میں بھی عمران خان صاحب ، اور جہانگیر ترین الگ الگ پارٹیز کے پلیٹ فارمز سے اسمبلی پہنچے تھے لیکن عمران خان ان لوگوں کو مافیا سمجھتے تھے اور پھر اپنی پارٹی میں بھی شامل کرلیا، اگر ٹی وی چینل پر ترین کو دیکھتے تو ان سے پوچھا کرتے تھے کہ سنا ہے ،یہ بہت امیر آدمی ہے ، دیکھ لینا میں اس مافیا کو کلین بولڈ کردوں گا، آپ بھی ان لوگوں کو ٹی وی پر نہ بلایا کریں۔

روزنامہ جنگ میں انہوں نے لکھا کہ ’’  زیادہ پرانی بات نہیں۔ 2002 کے الیکشن میں عمران خان میانوالی اور جہانگیر ترین رحیم یار خان سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے۔ جہانگیر ترین مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر آئے تھے لیکن انہیں اُن کے سسرال نے کامیاب کرایا تھا کیونکہ اُن کے برادرِ نسبتی مخدوم احمد محمود بی اے کی ڈگری نہ ہونے کے باعث الیکشن نہ لڑ سکے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے تمام تر ریاستی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے نیب کے ذریعے پیپلز پارٹی میں ایک پیٹریاٹ گروپ بنایا اور اس گروپ کی مدد سے میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والا یہ پیٹریاٹ گروپ جمالی صاحب کی کابینہ میں آدھی سے زیادہ اہم وزارتیں لے اُڑا۔

جہانگیر ترین وزارت سے محروم رہے تو اُن کا زیادہ وقت لاہور میں گزرنے لگا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے اُنہیں اپنا مشیر بنا لیا کیونکہ اس سے پہلے وہ شہباز شریف کے ساتھ بھی ایک ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت میں کام کر چکے تھے۔ جمالی صاحب کی جگہ شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو جہانگیر ترین کو وزیر صنعت بنایا گیا۔ وزیر صنعت بننے سے پہلے وہ ایک شوگر مل کے مالک تھے۔

وزیر صنعت بننے کے بعد اُنہوں نے دو نئی شوگر ملیں قائم کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر بہت تنقید کرتے تھے اور جب کبھی جہانگیر ترین کو جیو نیوز کے ٹاک شو کیپٹل ٹاک میں دیکھتے تو مجھ سے پوچھتے، سنا ہے یہ بڑا امیر آدمی ہے؟ میں کہتا، ہاں سنا ہے بڑا امیر آدمی ہے، تو خان صاحب کہتے کہ یہ ایک مافیا ہے جس نے سیاست پر قبضہ کر رکھا ہے تم اس مافیا کو اپنے شو پر نہ بلایا کرو، تمہاری ساکھ خراب ہوتی ہے۔ میں جواب دیتا کہ جناب یہ ترین صاحب یا اُن کے کزن ہمایوں اختر خان کابینہ میں شامل ہیں، مجھے حکومتی نقطہ نظر کے لئے انہی لوگوں کو بلانا پڑتا ہے۔

خان صاحب اثبات میں سر ہلاتے اور کہتے کہ دیکھ لینا میں اس مافیا کو کلین بولڈ کر دوں گا۔ خان صاحب کی یہی باتیں سن کر بہت سے لوگ اُن کے دیوانے بن گئے۔2007میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر ہمیں ٹی وی اسکرین سے غائب کر دیا تو ہم سڑکوں پر آ گئے۔ روزانہ کیپٹل ٹاک کسی نہ کسی سڑک پر ہوتا جس میں عمران خان نئے پاکستان کی نوید دیتے اور نوجوان گلے پھاڑ پھاڑ کر عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے۔

2007کی وکلا تحریک نے عمران خان کی سیاست کو بڑی جلا بخشی لیکن 2008میں عمران خان کے ساتھ دھوکا ہو گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ پیپلز پارٹی بائیکاٹ میں شامل نہ تھی۔ آصف زرداری نے نواز شریف کو بائیکاٹ ختم کرنے پر راضی کر لیا اور عمران خان الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔

عمران خان پارلیمنٹ سے آئوٹ ہو گئے لیکن اُنہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پر تنقید شروع کر دی۔ وہ ایک تیسری سیاسی قوت بننے میں کامیاب ہو گئے۔ جنوری 2011میں جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو سنجیدہ حلقوں میں تحریک انصاف کی اہمیت بڑھنے لگی۔اکتوبر 2011میں تحریک انصاف نے مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے ایک بڑا جلسہ کیا تو ایک دن جہانگیر ترین نے مجھ سے پوچھا کہ تحریک انصاف کا کیا مستقبل ہے؟ ‘‘۔

انہوں نے لکھا کہ  ’’جہانگیر ترین مسلم لیگ (ق) سے مسلم لیگ فنکشنل میں آ چکے تھے اور با اثر سیاستدانوں کا ایک ہم خیال گروپ بنا کر تحریک انصاف پر قبضے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ میں نے اُنہیں نہیں بتایا کہ عمران خان نے مجھے اُن کے بارے میں کیا کہا تھا لیکن یہ ضرور کہا کہ تحریک انصاف آپ کے مزاج کی پارٹی نہیں۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ عمران خان بڑا محنتی ہے اُسے ڈائریکشن کی ضرورت ہے۔ دسمبر 2011میں جہانگیر ترین نے اویس لغاری، جمال لغاری، غلام سرور خان اور اسحاق خاکوانی وغیرہ کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ کچھ دن کے بعد امیر مقام کو تحریک انصاف میں لانے کے معاملے پر عمران خان اور اویس لغاری میں بحث ہو گئی۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے امیر مقام جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔ اویس لغاری نے سمجھانے کی کوشش کی۔ خان صاحب نے کہا تمہیں سیاست کا پتا نہیں۔ اویس لغاری نے کہا اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ایک بات کہوں۔ خان صاحب نے کہا، بالکل کہو۔ سردار فاروق احمد خان لغاری کے برخوردار نے کہا کہ آپ ایچی سن کالج میں میرے سینئر تھے۔

بڑے احترام سے عرض ہے کہ آپ کا دماغ کنکریٹ سے بھرا ہوا ہے، خدا حافظ۔ اویس لغاری تحریک انصاف چھوڑ گئے، جہانگیر ترین وہیں رہے۔ عمران خان نے اپنی پارٹی میں الیکشن کرایا تو جہانگیر ترین سیکرٹری جنرل بن گئے۔ پارٹی کے پرانے لوگوں نے اس الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کی تو عمران خان نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں انکوائری ٹربیونل بنا دیا۔ ٹربیونل کے سامنے گواہ اور ثبوت آ گئے کہ پارٹی الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور ووٹ خریدے گئے۔

ٹربیونل نے اپنے تحریری فیصلے میں جہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان اور نادر لغاری کو پارٹی سے خارج کرنے کی سفارش کی لیکن عمران خان نے اپنے ہی بنائے گئے اس ٹربیونل کی رپورٹ مسترد کر دی۔سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد کو اتنا خوار کیا گیا کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ گئے۔ 2017میں جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے وجیہ الدین احمد کو سچا ثابت کر دیا لیکن عمران خان نے جہانگیر ترین کو گلے لگائے رکھا۔ 2018میں عمران خان وزیراعظم بن گئے تو جہانگیر ترین نے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ڈپٹی پرائم منسٹر کا کردار ادا کرنے لگے۔

عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ذریعہ جہانگیر ترین کی سرکاری معاملات میں مداخلت بند کرانے کی کوشش کی تو دونوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ سب سے پہلے جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بی این پی (مینگل) کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں سے نکالا گیا اور پھر واجد ضیا رپورٹ کی روشنی میں اُن کے خلاف کارروائی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

واجد ضیا رپورٹ وہی کہہ رہی ہے جو وجیہ الدین احمد کہہ رہے تھے۔ آج دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو ماضی میں کسی حکمران نے نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جب جہانگیر ترین کے بارے میں یہی کچھ وجیہ الدین احمد نے کہا تو آپ نے کارروائی کیوں نہ کی؟ کیا جہانگیر ترین کو جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا، اب وہ کسی کام کا نہیں رہا؟‘‘

https://dailypakistan.com.pk/09-Apr-2020/1118099?fbclid=IwAR1Yt7N7FqOx9TyiMtbpf70CVZ

aDWUekcbcu59VKxnefo26zpWPRTwuxsmE

لاہور (ویب ڈیسک) جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ مجھے میری ملز کے ہونے والے آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں، کچھ چھپایا ہے نہ مجھے کچھ چھپانے کی ضرورت ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا جہاں سے بھی مخصوص ملز کے آڈٹ کا فیصلہ ہوا انھیں سامنے آ کر جواب دینا ہو گا، کمیشن کو بتانا ہو گا کہ صرف 9 شوگر ملز کو آڈٹ کیلئے سلیکٹ کرنے کا طریقہ کار کیا تھا ؟ کیا کمیشن سمجھتا ہے کہ 9 ملز کا آڈٹ کر کے وہ پاکستان میں موجود تمام 80 شوگر ملز کی حقیقت تک پہنچ جائے گا ؟

https://dailypakistan.com.pk/10-Apr-2020/1118536?fbclid=IwAR2RzL7BiRcnYYZMZ1rgcWzYyu

2EvPEJlo6Hg8Vg-B0Ivv2wCxZdSTUJ-co

اسلام آباد (ویب ڈیسک) آٹا اور چینی سکینڈل کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وفاقی سطح پر وزیراعظم عمران خان نے کچھ تبدیلیاں کیں اور پارٹی میں اہم سمجھی جانیوالی شخصیت جہانگیر ترین کو اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہونا پڑا، ایسے میں مختلف باتیں ہورہی ہیں، اب سینئر صحافی رئووف کلاسرا نے بھی اس پر قلم اٹھایا ہے ۔

روزنامہ دنیا میں انہوں نے لکھا کہ "جہانگیر ترین کے انٹرویوز سے لگتا ہے‘ انہیں احساس ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنی ساکھ بنانے کے لیے انہیں استعمال کرکے ڈمپ کیا ہے‘ حالانکہ انہوں نے تو خان کو وزیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوچنے کو تو عمران خان صاحب بھی سوچ سکتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے انہیں الٹا استعمال کیا اور وزیر اعظم بنانے تک جو انہوں نے وسائل خرچ کیے تھے وہ وزیر اعظم بنتے ہی سود سمیت وصول کر لیے ہیں۔

سیاست اس چیز کا نام ہے کون کب کس کو استعمال کرسکتا ہے اور جو جیتا ہے وہی سکندر؟ مجھے یوسف رضا گیلانی سے لندن میں اگست 2007 میں ہونے والی ملاقات یاد آئی۔ برسوں جنرل مشرف کی قید میں رہنے بعد پہلی دفعہ لندن آئے ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو نے پارٹی راہنمائوں کا اجلاس رحمن ملک کے گھر بلایا ہوا تھا۔ وہ جنرل مشرف سے خفیہ ڈیل کر رہی تھیں اور نئے الیکشن کے لیے تیاریاں بھی۔ گیلانی صاحب کا فون آیا: کہاں ہیں؟ میں ان دنوں ایک پاکستانی انگریزی اخبار کے لیے لندن سے رپورٹنگ کر رہا تھا۔ میں انہیں ملا‘ اور پھر ایجوویئر روڈ پر ہم نے پیدل چلنا شروع کیا۔

مجھے محسوس ہوا‘ وہ ڈپریس اور اداس ہیں۔ حیران ہوا کہ وہ رہائی پاکر لندن آئے ہیں‘ بینظیر بھٹو سے برسوں بعد مل رہے ہیں‘ انہیں خوش باش ہونا چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے جنرل مشرف کی جیل بھگت لی تھی لیکن پیپلز پارٹی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے تھے حالانکہ مشرف کے قریبی مشیر طارق عزیز انہیں جیل میں ملے تھے اور مشرف کو جوائن کرنے کے بدلے بڑی پیشکش بھی کی تھی۔ گیلانی صاحب ڈٹے رہے اور جیل بھگت لی۔ اب جب وہ آٹھ برس بعد بینظیر بھٹو سے مل رہے تھے تو ان کا خیال تھا وہ انہیں زیادہ اہمیت دیں گی‘ لیکن پارٹی اجلاس میں انہیں وہ اہمیت نہ ملی جس کی وہ اپنے تئیں توقع رکھتے تھے۔ شاید بی بی کے ذہن میں تھاکہ کہیں گیلانی کا قد مزید اونچا نہ ہو جائے‘ وہ پارٹی میں زیادہ اہمیت اختیار نہ کر جائیں اور کل کو ان سے کنٹرول ہی نہ ہوں۔

یہی رویہ بعد میں نواز شریف نے جاوید ہاشمی صاحب کے ساتھ روا رکھا جب وہ جدہ سے واپس لوٹے تو ایسا سلوک کیا کہ جاوید ہاشمی پارٹی چھوڑ گئے۔ آصف زرداری نے تو اختیارات ملتے ہی گیلانی صاحب کو وزیر اعظم بنا کر جنرل مشرف کی جیل بھگتنے کا ازالہ کر دیا‘ لیکن جاوید ہاشمی کو شریفوں نے عبرتناک مثال بنا دیا۔

خیر ایجوویئر روڈ پر چلتے ہوئے گیلانی صاحب کہنے لگے ''آج بینظیر بھٹو کو اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے پیر پگاڑا یاد آ گئے۔ جب آٹھ برس پہلے بینظیر بھٹو صاحبہ کو ملا تھا تو وہ اور تھیں۔ آج وہ بالکل مختلف بینظیر بھٹو تھیں۔ آج کے اجلاس میں دیکھا‘ انہیں پارٹی کے معاملات پر کتنی گرفت ہے۔ انہیں ہر بندے کا پتہ ہے کہ کب کس بندے کو کہاں استعمال کرنا ہے اور مرضی کے نتائج لینے ہیں... یہ جاننا سیاستدان کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کب کس بندے کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اگلے کو ہوا بھی نہ لگنے دے‘‘۔

اسی دوران مجھے ایجوویئر روڈ پر عربی کھجوروں کی ایک دکان نظر آئی۔ میں نے کہا‘ گیلانی صاحب! ٹھہریں عربی کھجوریں خریدنے دیں کہ مجھے بہت پسند ہیں۔

کھجوریں خرید کر باہر نکلا تو باہر شہباز شریف گزر رہے تھے ۔ گیلانی صاحب اور مجھے دیکھا تو رک گئے ۔ اچھے طریقے سے ملے۔ شہباز اور گیلانی کی ملاقات بھی آٹھ برس بعد ہورہی تھی۔ بس آگئی تو شہباز شریف اس پر بیٹھ گئے ۔ میں نے بات وہیں سے جوڑی تاکہ پتہ کروں بینظیر بھٹو سے ملنے کے بعد گیلانی صاحب کو پیرپگاڑا کیوں یاد آگئے تھے ؟ انہوں نے ایک کہانی سنانا شروع کی۔

1986میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے ۔ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ گیلانی اس وقت جونیجو حکومت میں ایک وزیر تھے ۔ آرمی چیف جنرل ضیاء ملک کے صدر تھے ۔ ایک دن گیلانی صاحب کو پیرپگاڑا نے بلایا اور کہا ‘برخوردار آپ سے ایک کام ہے ۔ گیلانی صاحب پیرپگاڑا کے رشتے دار بھی تھے ۔ (ان کے ایک بیٹے کی شادی پیرپگاڑا کی پوتی سے ہوئی ہے‘ کچھ برس پہلے )۔

پیرپگاڑا نے کہا‘ آپ پنجاب جائیں اور نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں‘ نواز شریف کو ہٹانا ہے ۔ گیلانی کچھ حیران ہوئے تو پگاڑا نے کہا‘ جی آپ جائیں‘ سب کی اجازت ہے ۔ ان کا اشارہ جنرل ضیاء کی طرف تھا۔

گیلانی خوشی خوشی لاہور پہنچے اور کام شروع کر دیا۔ بہت جلد یہ خبر لاہور میں پھیل گئی کہ نواز شریف سے بڑے ناراض ہوگئے ہیں۔ گیلانی نے ایک ایک ایم پی اے سے ملنا شروع کر دیا۔ سب ایم پی ایز نے نواز حکومت جاتے دیکھ کر اپنی سیٹیں اگلے سیٹ اپ میں پکی کرنے کیلئے ملتان کے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنی شروع کردی۔ ایک دن گیلانی صاحب کو اندازہ ہوا کہ اب ان کے پاس نمبرز پورے ہوگئے ہیں‘ جب چاہیں عدم اعتماد کی تحریک لا سکتے تھے ۔ انہوں نے گرو کو پیغام بھیجا: مرشد کام ہوگیا ‘ اب کیا حکم ہے ؟ مرشد نے جواب دیا: بتاتے ہیں۔

اسی شام پی ٹی وی کے خبرنامہ میں خبر چلی: پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے صدر جنرل ضیاء سے پنڈی میں ملاقات کی اور جنرل ضیاء نے نواز شریف کے لیے اپنی پوری حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن کر گیلانی صاحب کے پائوں تلے سے زمین سرک گئی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب اگلے دن اخبارات میں پیرپگاڑا کا بیان چھپا: نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھے ہم نے سی دیے ۔

مایوس گیلانی اسلام آباد پہنچے اور مرشد کے چرنوں کو چھوا اور پوچھا: گرو یہ آپ نے کیا کیا؟ میری تو سیاسی ساکھ تباہ ہوگئی ہے ۔ پگاڑا نے قہقہہ لگایا اور بولے: آپ درست سمجھے‘ ہم نے تمہاری ساکھ ہی تو استعمال کی ہے نواز شریف کو اوقات میں لانے کے لیے ۔گیلانی صاحب چونکے۔ پگاڑا بولے: جنرل ضیاء کو کچھ عرصے سے یہ خبریں مل رہی تھیں نواز شریف نجی محفلوں میں کہتا ہے کہ میں وزیراعلیٰ اپنی وجہ سے ہوں جنرل ضیاء کا کوئی کمال نہیں۔ ہم نے سوچا ذرا بتا دیتے ہیں وہ کس کی وجہ سے وزیراعلیٰ ہیں۔ میں نے تمہارا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تم جوان ہو، تمہاری ساکھ اچھی ہے ۔ تم سرائیکی علاقے سے ہو اور سرائیکی ایم پی ایز کو آسانی سے کھینچ سکتے تھے اور پھر ایک گدی بھی ہے‘ اوپر سے میرے رشتہ دار ہو اور میں جنرل ضیاء کے قریب سمجھا جاتا ہوں‘ سو تم پر سب نے جلدی بھروسہ کرنا تھا۔ یوں ہم نے تمہیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

گیلانی صدمے کی حالت میں مرشد کو دیکھتے رہے اور منہ سے صرف اتنا نکلا: گرو یہ بتا دیں ایک سیاستدان کب اس قابل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو استعمال کرے اور اسے پتہ ہی نہ لگنے دے ۔ پگاڑا بولے: تیس سال لگتے ہیں جب آپ یہ فن سیکھتے ہیں۔ گیلانی بولے بینظیر بھٹو کو بھی تیس برس اب ہوئے ہیں اور اب انہیں سب پتہ ہے ۔ جو کام پیرپگاڑا کے بقول سیاستدان تیس برس میں سیکھتا ہے وہ عمران خان صاحب نے بیس برس میں ہی سیکھ لیاہے۔ جہانگیر ترین کو ٹی وی انٹرویوز میں سن کر احساس ہورہا ہے کہ انہیں بھی خان نے استعمال کیا۔ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے دن رات ایک کیا۔ بندے توڑ کر پارٹی میں لائے اور خزانوں کا منہ کھول دیا۔ جہاز اڑائے ۔ اب پتہ چلا ہے کہ شوگر سکینڈل میں ایک کو قربانی دینی تھی۔ کلہاڑا ترین پر گرا۔ ترین حیران ہیں کہ خود عمران خان کابینہ نے ایکسپورٹ اور سبسڈی کی پہلے منظوری دی اور اسے کہا جائو ایکسپورٹ کرو‘ عثمان بزدار سے تین ارب لے لو۔ اب اچانک خود ہی عمران خان صاحب اپنے فیصلے کے خلاف تحقیقات کر کے ترین کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر عوام اور میڈیا سے داد بھی وصول کررہے ہیں۔

جہانگیر ترین کو سیاست میں صرف دس برس ہوئے اور عدالت سے خود کو نااہل بھی کرا بیٹھے جبکہ عمران کو سیاست میں بائیس برس ہوچکے ہیں۔ سیاست کی جو اعلیٰ ترین ڈگری لینے کے لیے پیرپگاڑا نے تیس سال رکھے تھے‘ وہ ڈگری عمران خان صاحب نے آٹھ برس پہلے لے لی ہے ۔ کچھ طالب علم جینئس ہوتے ہیں اور دو تین کلاسز کا اکٹھا امتحان دے کر آگے نکل جاتے ہیں۔ ترین صاحب کی بدقسمتی وہ نالائق اور عمران خان اس کھیل میں لائق نکلے۔پیرپگاڑاکہیں سگار سلگا کرمسکرا رہے ہوں گے کہ ایک اور ملتانی بکرابن گیا ہے"۔

https://dailypakistan.com.pk/10-Apr-2020/1118523?fbclid=IwAR3SHXTPZ8QDXrNIou664T6GtoM

LhXu4JrhyNCtb98GQOesQat220q-nTQE

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے کابینہ سے منظوری بعد میں لی سبسڈی پہلے دے دی، وزراکو تجویز بھی پڑھنے نہیں دی گئی اور بعد میں براہِ راست پرانی تاریخوں میں قانونی ضابطوں کی منظوری دے دی گئی۔

چینی کی برآمد پر 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے میں جلد بازی کی گئی۔ کابینہ کی جانب سے سبسڈی کی منظوری دیے جانے کے تین دن بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے یکم جنوری 2019کو پرانی تاریخوں میں ”کابینہ کے جائزے کے لیے ایک کیس“ کی منظوری دی۔

 دی نیوز کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی نے سرکاری دستاویزات کی روشنی میں انکشاف کیا ہے کہ سبسڈی کی منظوری دینے کامعاملہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے اتنا جلد بازی کا تھا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اجلاس کےاہم نکات موصول ہونے کا انتظار کیے بغیر انہوں نے اسلام آباد سے ملنے والی زبانی معلومات کے بعد اجلاس طلب کیااور بعد میں صوبائی محکموں کے درمیان مشاورتی عمل کا انتظار کیے بغیر اور اہم ترین فنانس ڈپارٹمنٹ کی رائے نظرانداز کرتے ہوئے، بزدار نے ایجنڈا سے ہٹ کر سبسڈی کا معاملہ20 دسمبر 2018 کو کابینہ میں پیش کرکے سب کو حیران کر دیا۔

 https://dailypakistan.com.pk/10-Apr-2020/1118554?fbclid=IwAR37bytxEoXBmQc41b6BMDN

uAmFDoASAtmKoopsqvZBY6uzeKAVjrDsoRk

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/10042020/p1-lhr023.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/10042020/p1-lhr023.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/10042020/p1-lhr002.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/10042020/p1-lhr002.jpg

لاہور(ویب ڈیسک) خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری اور وزیر اعظم عمران خان کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور جہانگیر خان ترین کے درمیان اختلافات کی بنیاد 2015 میں پڑی جب پرویز خٹک کے دور میں اعظم خان صوبہ کے چیف سیکرٹری کے عہدہ کے امیدوار تھےلیکن پٹرولیم کے ایک سابق سیکرٹری عابد سعید کو چیف سیکرٹری بنادیا گیا۔

روزنامہ جنگ کے ذرائع کے مطابق اعظم خان کا خیال تھا کہ انہیں جہانگیر ترین کی مخالفت کے باعث چیف سیکرٹری نہیں بنایا گیا حالانکہ عابد سعید پرویز خٹک کا انتخاب تھے۔تاہم اکتوبر 2017 میں جب چیف سیکریٹری عابد سعید کے عہدہ کی میعاد ختم ہو گئی تو بنی گالہ سے سپورٹ کے نتیجہ میں اعظم خان کو صوبہ کا چیف سیکر ٹری بنا دیا گیا۔

اس کے بعد کئی معاملات پر دونوں میں اختلافات سامنے آئے۔ان میں کے پی اکنامک زون کے چئیرمین غلام دستگیر کو ان کے عہدہ پر برقرار رکھنے کا معاملہ بھی تھا جنہیں ترین کی حمایت حاصل تھی لیکن اعظم خان کے دور میں انہیں ہٹا دیا گیا۔حالانکہ قبل ازیں صورتحال کو دیکھتے ہوئے قبل ازیں غلام دستگیر نے وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونے کی پیش کش کی تھی لیکن پرویز خٹک نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا، لیکن بالآخر انہیں اکنامک زون کے چیئرمین کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔

https://dailypakistan.com.pk/09-Apr-2020/1118096?fbclid=IwAR1tfEvJ7v21MnNNDvSkg43Gxu

wkt3sej0I9YvJgFJqAJMtm7qUGTq2iGMU

لاہور (ویب ڈیسک) شوگر اور آٹا سکینڈل کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اہم عہدوں پر کچھ تبدیلیاں کیں جبکہ کچھ ممکنہ ذمہ دار از خود بھی الگ ہوگئے ، اب اس کی حتمی رپورٹ 25 اپریل کو متوقع ہے جس کے بعد مزید اقدامات کی امید ہے ، لیکن پنجاب حکومت سے سبسڈی کس طرح منظور کروائی گئی تھی ، اب اس بارے میں سینئر تحقیقاتی صحافی انصار عباسی نے قلم اٹھایا ہے ۔

روزنامہ جنگ میں انہوں نے لکھا کہ ’’ ملک کی طاقتور شوگر انڈسٹری کو تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کا معاملہ پہلے ہی طے تھا اور پنجاب حکومت نے بس اس کی منظوری دینے کے معاملے میں ربڑ اسٹمپ کا کام کیا۔ دستاویزی شواہد اور پس منظر کے روابط سے کچھ سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور عثمان بزدار کی حکومت کی جانب سے دی گئی تین ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری میں کچھ ناقابل یقین حقائق بھی سامنے آتے ہیں۔ اُس وقت کے سیکریٹری پنجاب محکمہ خزانہ نے تین سمریوں میں سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی اور یہ سمریاں چیف سیکریٹری آفس میں زیر غور تھیں، اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 29؍ دسمبر 2018ء جو پہلی مرتبہ بہاولپور میں صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ کابینہ کے اجلاس کا ایجنڈا بھاری تھا لیکن اس میں چینی کی سبسڈی کا معاملہ شامل نہیں تھا۔

اجلاس کے دوران، وزیر خوراک نے حیران کن انداز سے ایجنڈا میں شوگر مل مالکان کیلئے تین ارب روپے کی سبسڈی کا معاملہ پیش کر دیا۔ کابینہ ارکان میں اجلاس سے قبل کوئی سمری تقسیم کی گئی اور نہ ہی اجلاس میں یہ سمری پیش کی گئی۔ سیکریٹری خزانہ پنجاب کیلئے یہ بات بھی انتہائی حیران کن تھی، وہ خود بھی اجلاس میں موجود تھے۔ سیکریٹری خزانہ نے تین سمریاں پیش کی تھیں جن میں سبسڈی کی مخالفت کی گئی تھی لیکن جس وقت یہ تینوں سمریاں حیران کن انداز سے چیف سیکریٹری کے دفتر میں زیر التوا تھیں اس وقت سیکریٹری خوراک نے سب باتوں کو نظرانداز کرکے ایجنڈا سے ہٹ کر یہ معاملہ صوبائی کابینہ کے روبرو پیش کر دیا۔ عموماً ایسی تمام سمریاں وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد ہی کابینہ میں پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں یہ فنانس ڈپارٹمنٹ کی یہ تینوں سمریاں وزیراعلیٰ کی میز تک نہ پہنچیں، چیف سیکریٹری کے دفتر میں زیر التواء رہیں، اور اسی دوران فوڈ ڈپارٹمنٹ نے براہِ راست کابینہ سے رابطہ کرکے چینی کی سبسڈی منظور کرائی۔

ایسا کرکے اس نے یہ بات یقینی بنائی کہ معاملہ کابینہ کے وزیروں کیلئے بھی حیران کن ہونا چاہئے۔ تاہم، کابینہ کے اجلاس کے اہم نکات (منٹس) سے معلوم ہوتا ہے کہ فوڈ ڈپارٹمنٹ اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی رائے یکساں تھی اور انہوں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ سبسڈی دی جائے گی۔ جس وقت سیکریٹری خزانہ کی تین سمریاں چیف سیکریٹری آفس میں زیر غور تھیں، اس وقت عثمان بزدار نے 6؍ دسمبر 2018ء کو اجلاس بلایا اور تین ار ب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کا اجلاس صرف پہلے سے کیے جا چکے فیصلے پر مہر لگانے کی ایک رسم تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 29؍ دسمبر 2018ء کو ہونے والے اجلاس کے اہم نکات بھی اس مبینہ اسکیم کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اہم نکات کے مطابق، سیکریٹری خوراک نے کابینہ کو چینی کی برآمد پر سبسڈی کے حوالے سے کابینہ کو بریفنگ دی۔

اجلاس وزیراعلیٰ کی زیر صدارت ہوا جس میں 4؍ دسمبر 2018ء کو ای سی سی کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے حوالے سے زبانی بریفنگ دی گئی۔ یہ طے کیا گیا کہ فریٹ سپورٹ /ایکسپورٹ کا ریٹ سبسڈی کے شیئر کے حساب (5.35؍ روپے فی کلوگرام) سے برقرار رکھی جائے گی جو 2017-18ء کے دوران پنجاب حکومت دے گی۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ ایکسپورٹ فریٹ /سبسڈی کا مجموعی حجم تین ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔ میٹنگ منٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکریٹری فوڈ نے کابینہ کمیٹی برائے چینی کے اجلاس (جس کی صدارت بھی بزدار نے کی تھی) کا حوالہ دیا، یہ اجلاس 17؍ دسمبر کو ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کے مشورے پر غور کیا اور طے کیا کہ پنجاب صوبے سے برآمد کی حد 0.572؍ ملین میٹرک ٹن (تین ارب روپے) تک محدود رکھی جائے۔

جب وزیر خوراک اور سیکریٹری خوراک کابینہ کو یہ بریفنگ دے رہے تھے تاکہ پہلے سے ہی سبسڈی دینے کیلئے کیا جانے والا فیصلہ پرسکون انداز سے آگے بڑھے، حیران و پریشان سیکریٹری خزانہ پنجاب نے خاموشی سے چیف سیکریٹری (جو وہاں اجلاس میں موجود تھے) سے رابطہ کیا اور اصرار کیا کہ جو رائے انہوں نے اپنی تین سمریوں میں پیش کی ہے وہی رائے انہیں یہاں اجلاس میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ چیف سیکریٹری نے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنی رائے پیش کریں۔ سیکریٹری خزانہ نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ چینی کی اضافی پیداوار کا معاملہ قومی نوعیت کا ہے اور وفاقی حکومت سبسڈی میں اپنا حصہ صوبوں کے ساتھ مل کر 50-50 کی بنیاد پر طے کرتا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے تازہ ترین اجلاس کا پنجاب کے مالیات پر منفی اثرات مرتب کرے گا کیونکہ وفاق کی طرف سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اس کے بعد یہ ہمیشہ کیلئے ایک مثال بن جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سبسڈی معاشی خرابی سمجھی جاتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کم از کم ایک ایسے موقع پر نہیں کرنا چاہئے جب حتمی طور پر مستفید ہونے والوں یعنی کسانوں پر پڑنے والے اثرات واضح نہ ہوں۔

انہوں نے صوبائی کابینہ کو مشورہ دیا کہ پالیسی کی تیاری کا حکم دیا جائے تاکہ سبسڈی کو بتدریج ختم کیا جا سکے کیونکہ یہ گندم کی طرح زیادہ استعمال جیسی چیز نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے سیکریٹری خزانہ کی رائے نظرانداز کر دی اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کی تجویز منظور کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وہ کابینہ کے اجلاس میں پہلے ہی دو مرتبہ توثیق کر چکے تھے۔ کابینہ کے دیگر ارکان کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ اجلاس کے دوران تجاویز پڑھ سکیں۔ کابینہ ارکان تک فنانس ڈپارٹمنٹ کی تین سمریاں بھی نہیں پہنچنے دی گئیں۔ نتیجتاً، کابینہ نے صرف مہر کا کام کیا اور وہی فیصلہ کیا جو پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے چینی کی سبسڈی کے حوالے سے ای سی سی کے فیصلے کے اہم نکات کا انتظار کیے بغیر ہی زبانی معلومات پر انحصار کیا اور چینی کے ایشو پر ای سی سی کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دو دن بعد ہی اپنا اجلاس طلب کر لیا۔ اگرچہ چینی کی سبسڈی کے معاملے پر سرکاری فائلوں میں عجیب اور باعث تشویش ہیرا پھیریوں کا اندازہ ہوتا ہے لیکن پنجاب کی بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ پہلے ہی جانتے تھے کہ عثمان بزدار کو یہ فیصلہ کرنے پر کون مجبور کر رہا ہے۔

گزشتہ منگل کو  ایف آئی اے کی شوگر سکینڈل کیس میں انکوائری کے حوالے سے ایک مجرمانہ حرکت نظرانداز کیے جانے کی بات کا ذکر کیا گیا تھا، خبر شائع ہوئی تھی کہ اس وقت کے وفاقی سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگا نے حساب کی بنیاد پر تجویز دی تھی کہ چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی سمری کی بنیاد پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور ساتھ ہی وفاقی کابینہ نے سیکریٹری تجارت کی سفارش منظور کی لیکن پنجاب حکومت نے آنکھیں بند کرکے تین ارب روپے کی سبسڈی دیدی۔ سیکریٹری تجارت کی تجویز کی روشنی میں پنجاب حکومت کی جانب سے شوگر مل مالکان کو سبسڈی دینا سنگین غفلت ہے۔ پنجاب حکومت نے 5؍ روپے 35؍ پیسے فی کلوگرام کے نرخ پر تین ارب روپے کی سبسڈی دی تاکہ چینی برآمد کی جا سکے۔ پنجاب حکومت ایک ایسے موقع پر چینی کی برآمد پر سبسڈی دے رہی تھی جب ملک کی مقامی منڈیوں میں اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا‘‘۔

https://dailypakistan.com.pk/09-Apr-2020/1118078?fbclid=IwAR1KbiDNKGZrgH17rKnBR95

vJiAmIW-cgpGROfNIDt2xOBnyiFgxAq8hOD8

 

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-09&edition=KCH&id=5133382_97019738

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2020/04/09042020/p6-isb002.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2020/04/09042020/p6-isb002.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/09042020/p5-lhr002.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/09042020/p5-lhr002.jpg

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )تحریک انصا ف کے رہنما جہا نگیر ترین نے کہا ہے کہ اسد عمرکو وزارت سے وزیراعظم عمران خان نے علیحدہ کیا ،یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے ۔نجی نیوز چینل سما کے پروگرام میں اینکر پرسن نے سوال کیا کہ 2013 میں آپ نے الیکشن ہارنا تھا کیونکہ گراﺅنڈ پر آپ کی موجودگی نہیں تھی ،تو پھر 2014 میں دھرنا لے کر کیوں آگئے تھے ؟اس پر جہانگیر ترین نے کہا ہم نے جو بھی پالیسی اختیار کی ،اس وجہ سے پارٹی میں میری مخالفت بنی کہ یہ سیاسی لوگوں کو کیوں لے کر آرہا ہے ،ہماری نظریاتی پارٹی ہے ،ہمیں نظریے پر لڑنا چاہیے ۔اینکر پرسن نے سوال کیا شاہ محمود قریشی ،شفقت محمود ،اسد عمر آپ کی مخالف لابی ہیں ،پارٹی کے ٹاپ لوگوں میں آپ کے ساتھ کون ہے ؟انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جو میرے دل میں ہوتا ہے بولتا ہوں ،جو پارٹی اور عمران خان کے لیے بہتر ہے وہ بولتا ہوں اورابھی بھی بولتا رہوں گا ۔میں نے وزیر اعظم کو مثال دی کہ ایک ایک موتی چن کر ہار بنانا پڑتا ہے ،جو وزیراعظم کے گلے میں پڑتا ہے کیونکہ یہ حلقوں کی سیاست ہے ،اگر یہاں پر صدارتی نظام ہوتا تو ہم کسی اور طرح سے ڈیل کرتے ،حلقوں کی اس سیاست کی وجہ سے ٹکٹوں کے معاملے پر بھی میری مخالفت تھی ،اللہ کا شکر ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن گئے اور پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بنی کیونکہ سب کہتے تھے کہ وفاقی حکومت جیت جاو گے لیکن پنجاب شریفوں سے نہیں لے سکتے ۔اینکر پرسن نے پوچھا اسد عمر کی وزارت کیوں گئی ؟اس پر انہوں نے کہا خان صاحب بہت عرصے سے دیکھ رہے تھے کہ وہ جو بھی فیصلے کرانا چاہتے تھے،ان پر عمل نہیں ہوتا تھا اس لیے انہوں نے وزارت سے الگ کردیا ،یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے ،آج بھی کابینہ میں ردو بدل کیا ہے ۔اینکر پرسن نے سوال کیا کہ اب آپ کا گروپ کھڈے لائن لگ گیا ہے ؟جہانگیر ترین نے جواب دیا اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ عمران خان کی صوابدید ہے ،وہ جس طرح چاہتے ہیںحکومت کو چلائیں ،میرے دل میں کوئی تلخی نہیں ،میں پہلے بھی ان کے ساتھ تھا اب بھی ان کے ساتھ ہوں ۔میں ایک مخلص آدمی ہوں ،میرے ساتھ کچھ غلط بھی ہو جائے تو میں کبھی غلط نہیں کروں گا ۔

لاہور(ویب ڈیسک) آٹا چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کیے جانیوالے غیر معمولی اقدامات اور تبدیلیوں کے بعد پنجاب اور وفاق میں جہانگیر ترین کے قریبی سمجھے جانیوالے وزرا، بیورو کریٹس اور تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیداروں کے حوالے سے بھی اہم تبدیلیوں کا امکان ہے۔اس حوالے سے اینٹی ترین لابی کی جانب سے وزیر اعظم پر دباو بڑھایا جارہا ہے جبکہ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ جہانگیر ترین کی جانب سے بنائے گئے309 ارب روپے مالیت کے وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام پر نظرثانی کر کے اس میں ترامیم کرائی جائیں۔

ایکسپریس نیوز کے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اور حکومت میں موجود جہانگیر ترین مخالف لابی نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی حلقوں کو تجویز دی ہے کہ جس طرح جہانگیر ترین نے لابنگ کر کے چینی ایکسپورٹ اور سبسڈی کے فیصلے کرائے، ویسے ہی انہوں نے اپنے چہیتے افراد کو اہم حکومتی عہدوں پر تعینات کرایا۔

https://dailypakistan.com.pk/08-Apr-2020/1117701?fbclid=IwAR2aTH0BIWoovZL5JYUL3U0

4pmkfbzFTTCD9o8cfuWprfwG-xgpGkQhTWkM

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) چینی اور گندم بحران کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے سیاسی منظرنامے میں ہلچل کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گنے کے کاشتکاروں کی مدد کے لیے اس شرط کے ساتھ رواں سال کے دوران زائد چینی برآمد کی اجازت دی تھی کہ ملک میں اجناس کی کمی نہیں ہوگی۔

نجی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ ان کی ہدایت پر حالیہ شوگر اور گندم کے بحران کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس جاری کی گئیں جبکہ انہوں نے گنے کے کاشتکاروں کی مدد کے لیے رواں مالی سال چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ گندم اور چینی بحران کی انکوائری رپورٹ عوامی سطح پر پیش کرنا وزیراعظم کے سیاسی وابستگی سے قطع نظر قیمتیں بڑھانے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کے فیصلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

تاہم قیمتوں میں اضافے اور اس کے بعد ہونے والے بحران کے مجرم کون ہیں اس حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ واضح ہونا باقی ہے اور اسی لے کیے وزیر اعظم نے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام چینی کی برآمد پر دی جانے والی سبسڈی کے فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر نامزد کیا گیا تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اصل غلطیوں پہلے شوگر کی برآمد کی دینا اور پھر سبسڈی دینا کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔

معاون خصوصی کی جانب سے یہ تسلیم کیا گیا کہ وفاقی کابینہ نے چینی کی برآمد کی منظوری دی تھی، حکومت پنجاب نے چینی پر دی جانے والی سبسڈی کی منظوری دی تھی۔فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس سال ملک میں 20 لاکھ ٹن زائد چینی ہے اور اسی وجہ سے شوگر ملز مالکان کاشتکاروں سے گنے کی خریداری سے گریزاں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کی پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے زائد چینی کی برآمد کی اجازت دی، اس شرط کے ساتھ کہ مقامی ضرورت کی صورت میں چینی برآمد نہیں کی جاسکتی۔واضح رہے کہ ملک میں چینی اور گندم کے حالیہ بحران سے متعلق دو رپورٹس منظر عام پر آئیں جس میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے اہم رکن جہانگیر ترین اور اتحادی جماعتوں کے رہنماو¿ں وفاقی وزیر برائے خوراک برائے تحفظ خسرو بختیار، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مونس الٰہی اور ان کے رشتہ داروں کے نام سامنے آئے جنہوں نے چینی کی برآمد میں غیر مناسب فائدہ اٹھایا۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے شوگر بحران سمیت (انکوائری کمیشن کے ممبروں) کو دھمکیاں دینے والے افراد کو متنبہ کیا کہ اگر وہ دھمکیاں دینے سے باز نہیں آتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وزیر اعظم نے دھمکیوں کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تھا یا نہیں۔ادھر اس رپورٹ کے بعد جہانگیر ترین کو پارٹی کی ٹاسک فورس کے دفتر سے ہٹادیا گیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق داو¿د کے خلاف کارروائی کی گئی اور ان سے صنعت و پیدار کے مشیر کا اضافی چارج لے لیا۔خیال رہے کہ اس سے قبل جہانگیر ترین ایسی کسی ٹاسک فورس کا سربراہ بننے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مراز شہزاد اکبر نے بتایا کہ چینی کے بحران سے متعلق انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شوگر کارٹیل نے خود ہی چینی کی درآمدی قیمت مقرر کی جو بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمت سے ہمیشہ زیادہ رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اب حکومت چینی کی قیمت خود طے کرے۔

https://dailypakistan.com.pk/08-Apr-2020/1117720?fbclid=IwAR2R8UQ8-78qr0dUVS3BoObjb4

3BdVtkmsRvzuyAEDGcpwke9FsGiR1q5KU

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم عمران خان نے آٹے اور چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ کو عوامی کر دیاہے جس میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام آ رہاہے تاہم اس ساری صورتحال میں عمران خان کے قریبی سمجھے جانے والے جہانگیر ترین نے اپنے خلاف سازش کا ذمہ دار پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو قرار دیاہے ۔

تفصیلات کے مطابق اعظم خان اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہیں اور وہ پاکستان ایڈمنسڑیٹیو سروس گروپ کے افسر ہیں۔ ضلع مردان کے علاقے رستم میں پیدا ہونے والے اعظم خان کا تعلق ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہے۔انہوں نے برن ہال کالج ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل کی اور سول سروس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد متعدد اہم پوزیشنز پر تعینات رہے۔ اپنی سروس کا زیادہ تر عرصہ اعظم خان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزارا جہاں وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیٹکل ایجنٹ بھی رہے اور پشاور کے کمشنر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔

اعظم خان پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختون خواہ میں پچھلے دور حکومت میں چیف سیکریٹری کے عہدے پر پہنچے جہاں صوبائی حکومت کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرنے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کی نظر انتخاب ان پر جا پڑی ۔عمران خان نے 2018 کے انتخابات میں وزیراعظم بننے کے فورا بعد کئی دوسرے سینیئر افسران کی موجودگی کے باجود اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیا جو پاکستان میں بیوروکریسی کا سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

دی نیوز کے سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی جانب سے اعظم خان پر تنقید کا جواز نہیں بنتا کیونکہ تمام فیصلے اصل میں وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اعظم خان کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ڈاکٹر سلمان خان ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے آئی بی کی انکوائری رپورٹس ان سے شئیر ہو جاتی ہیں۔تاہم اس تاثر کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

انصار عباسی کے مطابق وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات وفاقی وزرا بھی اس سے کم اثر رسوخ رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی رہنما اس عہدے کے حوالے سے شکی نظر آتے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اسی طاقت کے باعث وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔تاہم انصار عباسی کے مطابق پرنسپل سیکرٹری اپنا کوئی فیصلہ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا اور وہ اپنی طاقت وزیراعظم کے دفتر سے ہی اخذ کرتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی میں ابھی بھی اعظم خان کا اتنا اثر و رسوخ ہے کہ بعض حلقوں میں وہ وزیراعلی جتنے طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔وہ اپنے قریبی سرکاری افسران کا خیال رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اعظم خان کے ساتھ کام کرنے والے ایک سینیئر بیوروکریٹ کے مطابق اعظم خان اپنی خداداد صلاحیتوں اور دیانت داری کے باعث پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔

سینیئر کا کہنا تھا کہ اعظم خان بیوروکریسی کو سمجھتے ہیں اور معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔تاہم نیب کے مالم جبہ ریزورٹ لیز کیس میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اس کیس میں وہ نیب کے دفتر میں پیش بھی ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا اس سکینڈل سے کوئی تعلق اس لیے نہیں بنتا کہ متنازعہ ٹھیکہ دیے جانے کے بعد ان کی متعلقہ محکمے میں تعیناتی ہوئی تھی۔

https://dailypakistan.com.pk/08-Apr-2020/1117724?fbclid=IwAR3nZWbZmJpEB7iCP7CwOR_Ju

1eZaMXFU0kG83pFFMOWd0J0JV2HcLEZ9SY


https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-08&edition=KCH&id=5131992_27035768

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR016.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR016.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR006.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR006.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR024.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/08042020/P1-LHR024.jpg

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان تحریک انصاف کےسینئررہنماجہانگیرخان ترین نےکہاہےکہ میرے بارے میں غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،اگر میرے ساتھ کچھ غلط بھی ہو جائے تو میں غلطی کبھی نہیں کروں گا،تحریک انصاف میں آدھے لوگ میرے خلاف ہونے کی بنیادی وجہ آئڈیالوجی کا فرق ہے ،جو بات پارٹی اور عمران خان کے لئے بہتر ہوتی ہے وہ میں نے ہمیشہ کہی اور آئندہ بھی بولتا رہوں گا ، اسد عمر  اور آئی سی سی کے کسی ایک ممبر سے میں نےکبھی چینی کے کاروبار بارے بات نہیں کی،اسد عمر خود فیصلہ کرنے والے آدمی ہیں،ان پر کون اثر انداز ہو سکتا ہے؟اسد عمر کی وزارت خزانہ میری وجہ سے نہیں گئی،ایکسپورٹ کرنے سے پاکستان میں چینی کی شارٹیج کبھی نہیں ہوئی،تحقیقاتی  رپورٹ لکھنے والے لوگ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ہیں جنہیں مارکیٹ کا پتا ہی نہیں ہے۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سینئر صحافی ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے جہانگیر خان ترین نے کہا کہ میرے بارے میں غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،8فیصد گنا خود کاشت کرتا ہوں اور باقی92فیصد لوگوں سے خریدتا ہوں،کاٹن کی تحقیق کے لئے باہر کی کمپنیوں کو پاکستان لانا چاہئے،گنے کی قیمت ریگولیٹڈ ہے،حکومتیں گنے کی قیمتیں کہہ دیتی ہیں 180 یا 190روپے میں خریدیں،کوئی اور شعبہ نہیں ہے جہاں قیمت ریگولیٹڈ ہے،فلور ملز کو آپ نہیں کہتے کہ گندم آپ نے حکومت کی قیمت پر خریدنا ہے ،فلور ملز اپنی مرضی کی قیمت پر مارکیٹ سے گندم خریدتی ہیں،صرف گنے کے اوپر یہ پابندی ہے،میری تجویز بڑی سادہ ہے ،اس انڈسٹری کو فری کر دیں ،گنا اپنی مرضی سے خریدیں اور چینی اپنی مرضی سے بچیں،نہ کوئی آپ سے سبسڈی مانگے گا اور نہ ہی کچھ اور کہے گا ۔انہوں نے کہا کہ میں سیاست میں آنے سے دس سال پہلے سے چینی کے بزنس میں ہوں ،1992میں پہلی شوگر مل لگائی جبکہ 2002 میں سیاست میں آیا تھا،میری ملوں سے ملک کی بیس فیصد چینی بنتی ہے،آئی سی سی کے اجلاس میں شوگر ملز کا نمائندہ بٹھانے کی کبھی کوئی بات نہیں ہوئی جبکہ اسد عمر  اور آئی سی سی کے کسی ایک ممبر سے میں نےکبھی چینی کے کاروبار بارے بات نہیں ہوئی،میں ایک سمجھدار آدمی ہوں اور اپنے آپ کو بڑا محتاط رکھتا ہوں ،مارکیٹ میں چینی کا میرا بیس فیصد شیئر ضرور ہے،میری چھے ملیں ہیں لیکن اس ملک میں 74 اور بھی شوگر ملیں ہیں ،اُن سے بھی جا کر پوچھیں ،میں ایسوسی ایشن نہیں چلاتا ،ایسوسی ایشن چلانے والے آزاد لوگ ہیں جو الیکشن کے ذریعے آتے ہیں،اُن کو بھی ٹی وی پر بلا کر پوچھ لیں ،اس رپورٹ کی کوئی چیز میرے اوپر نہیں آ رہی،میں نےآج کین کمشنر سے پوچھا ہے ، ایک ملین ٹن کا صرف پنجاب میں سٹاک موجود تھا جبکہ دوسرے صوبوں میں ڈھائی تین لاکھ ٹن کا سٹاک موجود تھا،اس طرح جب سیزن شروع ہوا تو ون پوائنٹ تھری ملین کا سٹاک موجود تھا اور جب سیزن ختم ہوا تو پنجاب کے پاس ساڑھے چار لاکھ کا سٹاک موجود تھا  لہذا ایکسپورٹ کرنے سے پاکستان میں چینی کی شارٹیج کبھی نہیں ہوئی۔

جہانگیر خان ترین کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی  رپورٹ لکھنے والے لوگ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ہیں جنہیں مارکیٹ کا پتا ہی نہیں ہے،اس رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے،اس رپورٹ میں اُنہوں نے ایک ٹیبل بناتے ہوئے صرف یہ لکھ دیا ہے کہ ان لوگوں نے سبسڈی حاصل کی ،میرا نام میڈیا میں زیادہ فلیش ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سارے لوگ میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی کی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ پچھلے پانچ سال میں چینی پر ربیٹ دیا گیا ،اس رپورٹ میں ن لیگ کی حکومت کا بھی ذکر ہے،ن لیگ کی حکومت میں بھی ربیٹ دیا گیا ،میں نے ن لیگ کی حکومت میں ڈھائی ارب کا ربیٹ لیا جبکہ اپنی حکومت میں 56 کروڑ کا ربیٹ لیا ،میں نے پچھلے پانچ سال میں صرف ٹیکس کی مد میں 23 ارب روپیہ حکومت پاکستان کو ٹیکس دیا ہے،جتنے میرے بزنس کا سائز ہے اور جتنا میں ٹیکس دیتا ہوں اُس حساب سے یہ کچھ نہیں ہے،یہ پرافٹ نہیں ہوتا کیونکہ باہر چینی سستی بیچنی پڑتی ہے کیونکہ اس زمانے میں دنیا کی مارکیٹ ڈاؤن تھی اور ڈالر 104 روپے میں رکا ہوا تھا ،تو ربیٹ دیا جاتا ہے کہ آپ کو ایکسپورٹ قیمت کو مقامی مارکیٹ میں میچ کر دیں اس میں کوئی ایکسٹرا پرافٹ نہیں ہوتا۔

جہانگیر خان ترین نے کہا کہ پارٹی میں آدھے لوگ میرے خلاف ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے  کیونکہ آئڈیالوجی کا فرق ہے ،2013کے الیکشن ہوئےتو ہم بری طرح ہار گئے،دھاندلی ،دھاندلی کا ہم نے شور کیا اور دھاندلی ہوئی بھی مگر وہ صرف چند سیٹوں پر ہوئی،جس پر میں خان صاحب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ خان صاحب ہم نے اگلا الیکشن جیتنا ہے ،جس طرح ہم نے پچھلا الیکشن لڑا ہے اور لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں اگر 2018 کا الیکشن بھی اُسی طرح لڑا گیا تو پھر ہم نہیں جیت سکتے ، جس پر عمران خان نے کہا کہ مطلب کیا ہے تمہارا؟میں نے کہا کہ یہ پنجاب کا ڈیٹا ہے،2013 میں ہم جو پچاس فیصد سیٹیں ہارے اس میں ہم دوسرے نمبر پر بھی نہیں آئے،ہم ٹیبل پرہی نہیں تھے،تیسرے،چوتھےاور پانچویں نمبر پرتھے،66فیصد حلقے ایسے تھے جہاں ہم نے بیس فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے،اس کا مطلب کیا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے امیدوار غلط تھے ،ہم نے اپنے امیدوار تبدیل کرنے ہیں،پنجاب میں سیاسی خاندان ہیں ،جب تک ہم سیاسی خاندانوں کو لے کر نہیں آئیں گے آپ وزیر اعظم نہیں بن سکتے،میری اس بات سے پارٹی میں بہت بڑا  اختلاف ہوا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جہانگیر ترین پارٹی ٹیک اوور کرتا ہے اور اپنے بندے تحریک انصاف میں  لے آیا ہے حالانکہ وہ میرے اپنے لوگ نہیں ہیں سیاسی خاندانوں کے اہم افراد ہیں ۔جہانگیر خان ترین نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں 67 فیصد الیکٹڈ نشستیں جیتے جن میں سے 80 فیصد لوگ پولیٹیکل فیملیز سے ہیں اور وہ کتنے لوگ ہیں جو پولیٹیکل فیملیز سے بھی ہیں اور 2013 کے بعد پارٹی میں شامل ہوۓ وہ ساٹھ فیصد ہیں جن میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کو میں پارٹی میں لایا ۔پارٹی میں میری مخالفت کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

جہانگیر خان ترین نے کہا کہ جو میرے دل میں ہوتا ہے وہ میں ہمیشہ کھل کر بولتا ہوں،جو بات پارٹی اور عمران خان کے لئے بہتر ہوتی ہے وہ میں نے ہمیشہ بولی ہے اور آئندہ بھی بولتا رہوں گا ،میں نے خان صاحب کو مثال دی ہے کہ ایک ایک موتی چن کر ہمیں ہار بنانا پڑتا ہے جو وزیر اعظم کے گلے میں ڈلتا ہے،یہ حلقہ جاتی سیاست ہے ،اگر یہاں صدارتی نظام ہوتا تو پھر ہم کسی اور طریقے سے ڈیل کرتے۔ایک سوال کے جواب میں جہانگیر خان ترین نے کہا کہ اسد عمر کی وزارت خزانہ میری وجہ سے نہیں گئی،خان صاحب کافی عرصہ سے دیکھ رہے تھے کہ جو بھی اِن کو کہتے تھے وہ فیصلے نہیں کر رہے تھے،آج بھی کابینہ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ وزیر اعظم کی اپنی صوابدید ہے،وہ اپنی حکومت کو جس طرح چلانا چاہتے ہیں چلائیں ،میں پہلے بھی اُن کے ساتھ کھڑا تھا اورآئندہ بھی کھڑا رہوں گا ،میں ایک لائل آدمی ہوں ،اگر میرے ساتھ کچھ غلط بھی ہو جائے تو میں غلطی کبھی نہیں کروں گا،عمران خان کے ساتھ جو قریبی تعلق تھا وہ اب نہیں رہا، سچی بات ہے، مگر میں پھر بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔جہانگیر ترین نے وزیر اعظم سے دوری کی وجہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا اور کہا کہ ان کا 6 مہینے پہلے اعظم خان سے اختلاف شروع ہوگیا،اعظم خان سے اختلاف اصلاحات کے معاملے پر ہوا،میں نے خان صاحب کو کہا کہ ہم اس ملک کو تھوڑا سا تبدیل کرنے نہیں آئے بلکہ ٹرانسفارم کرنے آئے ہیں، وزیر اعظم نے میری اس بات سے اتفاق کیا اور پوچھا کہ ایسا کیسے ہوگا؟ میں نےوزیراعظم کو بتایا کہ ہم آپ کےانڈرایک اصلاحاتی کمیٹی بنائیں گے جو باضابطہ طور پر کام کرے گی،ہمیں بیوروکریسی کے چکر سے نکلنا پڑے گا، وزیر اعظم نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا لیکن اعظم خان نےکہا کہ حکومت تو ہم چلاتے ہیں،وزیر اعظم آفس میں سب کچھ میرے ذریعے ہوتا ہے، آپ متبادل پاور بنا رہے ہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116877?fbclid=IwAR1zmXcEl52B5TTvVTv9jDTQ

1FAtad_xRUyjsZ0gZ54Fz9rVCh3RjsfczQ4

لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری کے استعفے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری کی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے دو ملاقاتیں ہوئیں، وزیر اعلیٰ نے دوسری ملاقات میں استعفیٰ طلب کیا۔

روزنامہ جنگ کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے سمیع اللہ چودھری کی دو ملاقاتیں ہوئیں، پہلی ملاقات میں ایف آئی اے کی رپورٹ پر بات کی گئی جس کے بعد وزیراعلیٰ نے اسلام آباد بات کرنے کے بعد سمیع اللہ چودھری کو بلایا اور استعفیٰ طلب کرلیا۔سمیع اللہ چودھری کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں صرف محکمے میں اصلاحات نہ کرنے کا ذکر ہے، انہوں نے کوئی بے ایمانی نہیں کی، تاہم وزیراعلیٰ کے کہنے پر انہوں نے استعفیٰ دیا اور کہا کہ ان کا استعفیٰ رضاکارانہ بتایا جائے۔

https://dailypakistan.com.pk/07-Apr-2020/1117249?fbclid=IwAR1xUovPRtvm_nkKf6tbpQhrJn

q6Hjdyh3tqR2fBpWq3ryMHHSOIJ-5Sig

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-07&edition=KCH&id=5131310_86063944

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-07&edition=KCH&id=5131329_12876034

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107334995&Issue=NP_PEW&Date=20200407

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107334783&Issue=NP_PEW&Date=20200407

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/07042020/P1-Lhr-037.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/07042020/P1-Lhr-037.jpg

لاہور (ویب ڈیسک) مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری مونس الہیٰ نے کہا ہے کہ شوگر سکینڈل میں براہ راست کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔چودھری مونس الہیٰ نے ایف آئی اے ابتدائی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں سٹے بازوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جن ملوں میں چینی بک چکی ہے، اس کو جلد از جلد اٹھوایا جائے۔ اگرایسا نہ ہوا تو چینی کا مزید بحران آئے گا۔

انہوں نے تردید کی کہ رحیم یار خان شوگر مل کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، صرف بالواسطہ شیئر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق چینی کی قومی برآمدات میں رحیم یار خان شوگر مل کا حصہ صرف 3.14 فیصد ہے۔ رپورٹ کا خیر مقدم کرتا ہوں، امید ہے لوگ حقائق کو ذمہ داری سے پیش کریں گے۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116797?fbclid=IwAR2JmvzEEVw8x2ywxoWPyQI

WABEUScsqEVxdbqWWYCZd_bMQgpQMploPA

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی محمد مالک نے کہاہے کہ جب ساری چیزیں ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئیں ، تو ایک بڑے اہم آدمی نے وزیراعظم عمران خان کو کہا کہ میں آ پ کا خیرا خواہ ہوں لیکن میرا پیغام بڑا واضح ہے کہ” یہ چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہو جائے گی اور 120 روپے میں بھی نہیں ملے گی “۔وزیراعظم عمران خان بھی فاسٹ باولر ذہنیت والے ہیں اور جب انہیں دھمکی ملی تو پھر وہ بھی کھڑے ہو گئے کہ اب دیکھا جائے گا ۔

نجی ٹی وی ” ہم نیوز “ کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے سینئر صحافی محمد مالک نے دعویٰ کیاہے کہ جہانگیر ترین اور بہت سارے دوسرے لوگ 1985 سے اس کاروبا ر میں آئے ، انہوں نے ایک ایک ملز شروع کیں پھر یہ چھ چھ بن گئیں اور پھر ان کے ہم نے بلینز روپے دیکھے، یہ شائد ملک کا سب سے بڑا انڈسٹریل جگا ہے ، عمران خان نے بہت بڑا فیصلہ کیا لیکن اصل ٹیسٹ اب شروع ہو گا ، فرانز ہو گا ، اس کا دائرہ کار سب سے بڑی بات ہے ، اہم لو گ چاہے وہ خسرو بختیار ہوں یا پھر جہانگیر ترین ، جن کا اثرو رسوخ ہے ، ان پرعمران خان کیا کرتے ہیں ۔

محمد مالک نے بتایا کہ جب کمیٹی نے تحقیقات شروع کیں تو کمیٹی کے دو اراکین کو بڑے سخت الفاظ میں کہا گیا کہ آپ ایک حد تک جائیں اور اس سے آگے نہ جائیں ، بہر حال وہ کمیٹی کام کرتی گئی ، وزیراعظم عمران خان کے پاس یہ رپورٹ 14 تاریخ کو آ گئی تھی ، پھر یہ دباﺅ ڈالا گیا کہ بہت زیادہ اپنے لوگوں کے نام بھی آئیں گے ،آپ یا تو اس رپورٹ کو روک دیں اور جب فرانزک آڈٹ ہو جائے گا پھر اکھٹی رپورٹ جاری کیجیے گا۔

سینئر صحافی کا کہناتھا کہ خیال یہ تھا کہ فرانزک آڈٹ پورا نہیں ہو گا ،اس کو اور پھیلایا جائے گا کہ آپ دس پر نہیں، بیس ملوں پر آڈٹ کریں اور اس طرح یہ فرانزک آڈٹ ختم نہیں ہوگا ، پھر ایک غلطی ہو گئی ، جب ساری چیزیں ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئیں ، تو ایک بڑے اہم آدمی نے وزیراعظم عمران خان کو کہا کہ میں آ پ کا خیرا خواہ ہوں لیکن میرا پیغام بڑا واضح ہے کہ” یہ چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہو جائے گی اور 120 روپے میں بھی نہیں ملے گی “۔

محمد مالک کا کہناتھا کہ وزیراعظم عمران خان بھی فاسٹ باولر ذہنیت والے ہیں اور جب انہیں دھمکی ملی تو پھر وہ بھی کھڑے ہو گئے کہ اب دیکھا جائے گا ،اگرچہ پی ٹی آئی کے اندر سرکل یہ کہتے ہیں کہ یہ دو گروپس کی لڑائی ہو گئی ہے ،ایک گروپ جہانگیر ترین کا ہے اور دوسرا گروپ پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا ہے ، ان کی آپس میں بنتی نہیں ہے ، میرے خیال میں یہ جہانگیر ترین اور اعظم خان سے بڑی چیز ہے ، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116823?fbclid=IwAR32uojcZXjZOuhi230

n8YVRM8feG1UaAa0ZMcaEWHEGXCG-DdmFKwFZvnY

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )آٹا چینی بحران کی رپورٹ کے بعد پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔

نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے کہاہے کہ سمیع اللہ چوہدری نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی جو کہ پندرہ منٹ تک جاری رہی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔اپنے استعفے میں انہوں نے موقف اختیار کیاہے کہ جب سے ایف آئی اے کی رپورٹ آئی ہے اس پر مجھ سے بہت سے الزامات لگ رہے ہیں ، جب تک الزامات کلیئر نہیں ہوتے میں اس وقت کوئی حکومتی عہدہ نہیں لوں گا ،مجھ پر الزام ہے کہ محکمے کے ریفارمز نہیں کر سکا ۔

 https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116833?fbclid=IwAR1zNOAn1Fpl1JcGzXQtuI99A

DIMcPvAnkNckMV10zuMx39ld-ERum3jKQ

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 2019 میں سیکریٹری خوراک پنجاب رہنے والے موجودہ کمشنر ڈی جی خان نسیم صادق کو عہدے سے ہٹا دیاہے ۔

نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے انکوائری میں نام آنے پر عہدے سے استعفیٰ دیدیاہے اور کہاہے کہ الزامات کے ختم ہونے تک وہ کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھیں گے تاہم  ان کے بعد اب کمشنر ڈی جی خان نسیم صادق کو او ایس ڈی بنا دیا گیاہے ، وہ 2019 میں سیکریٹری خوراک رہے ہیں ، انہوں نے رضاکارانہ طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کو پیشکش کی تھی کہ وہ انہیں انکوائری مکمل ہونے تک عہدے سے ہٹا دیں جس پر عثمان بزدار نے عملدرآمد کر دیا ہے ۔ان کے علاوہ 2019 میں ڈائریکٹر فورڈ پنجاب رہنے والے ظفر اقبال کو بھی عہدے سے ہٹاتے ہوئے او ایس ڈی بنا دیا گیاہے ۔

یاد رہے کہ کچھ دیر قبل وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ سمیع اللہ چوہدری نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی جو کہ پندرہ منٹ تک جاری رہی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔اپنے استعفے میں انہوں نے موقف اختیار کیاہے کہ جب سے ایف آئی اے کی رپورٹ آئی ہے اس پر مجھ سے بہت سے الزامات لگ رہے ہیں ، جب تک الزامات کلیئر نہیں ہوتے میں اس وقت کوئی حکومتی عہدہ نہیں لوں گا ،مجھ پر الزام ہے کہ محکمے کے ریفارمز نہیں کر سکا ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے چینی آٹا بحران پر موصول ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کو عوام کیلئے جاری کر دیا ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116834?fbclid=IwAR0wnMX1XD2HROdMu-DlIbogYyup0gf0dVmiVmy6PMs1wesFZ_5tuKcIX9E

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے الزام عائد کیا ہے کہ چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ کے پیچھے وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا ہاتھ ہے۔

صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے آٹا اور چینی بحران کے حوالے سے رپورٹ کو سیاسی قرار دیا اور اس کا الزام وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری پر لگادیا۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ اعظم خان مسلسل وزیراعظم کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس رپورٹ کے پیچھے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے اہلکار ہمارے اسٹاف سے20 مارچ سے تحقیقات کررہے ہیں، ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں، کمیشن نے ذمے دار ٹھہرایا تو چیلنج کریں گے۔ ہمارا گروپ تحقیقاتی کمیٹی اور کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہے،کمیٹی کو چینی منہگی کرنے کی دھمکی دینے کی باتیں جھوٹ ہیں۔

اس سے قبل ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ  چینی پر انکوائری کمیشن تیزی کے ساتھ کام کر رہا ہے اور ان کی 3 شوگر ملز سمیت 10 ملوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ان سے جو بھی ریکارڈ مانگا جارہا ہے وہ مہیا کیا جارہا ہے، ہم نے کمیشن کو ہر چیز تک آزادانہ رسائی دی ہے یہاں تک کہ اپنے کمپیوٹر سرورز بھی ان کے حوالے کردیے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے ابھی تک صرف اس لیے کسی بھی چیز کو سِیل نہیں کیا گیا کیونکہ ہم تحقیقات میں مکمل تعاون کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس چھپانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116858?fbclid=IwAR32XKKQDOwMw3AZa8ItjvEHZAt-i3T-sKN6Dr17lLyWxOUoN0biEs_Hcn0

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے آٹا ، چینی بحران کی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد وفاقی کابینہ میں اہم تبدیلیاں کردیں۔

وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کرتے ہوئے بابراعوان کو پارلیمانی امورکامشیر جبکہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سیدفخرامام کووزیرنیشنل فوڈ سکیورٹی لگادیا۔ فخر امام کو خسرو بختیار کی جگہ یہ عہدہ دیا گیا ہے جبکہ خسرو بختیار کو اقتصادی  امور کا وزیر بنادیا گیا ہے۔ ان کے پیشرو حماد اظہر کو وزیر صنعت کا عہدہ دے دیا گیا ہے

وزیر اعظم نے اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول اور ایم کیوایم کےامین الحق کو وزیربرائےٹیلی کام مقررکردیا ہے۔ ہاشم پوپلزئی کوسیکرٹری نیشنل فوڈ کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔

نجی ٹی وی جیو نیوز نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا وفاقی کابینہ سے استعفیٰ بھی منظور کرلیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد ارباب کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116861?fbclid=IwAR1EwmZd4DiI2I4dtm8194PB75

vdyQNX4HhmbAz2IgJc42V-zJy6RPK0a90

 لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کا کہنا ہے کہ وہ مفادات کے ٹکراؤ کے پیش نظر کابینہ کے ان معاملات سے دور رہے ہیں جو چینی سے متعلق ہوتے تھے۔

وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت نے اپنے ایک بیان میں کہا " میں شوگر سیکٹرایکسپورٹ پر 3 بلین روپے کی سبسڈی کے معاملے میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے کردار کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ مفاد کے کسی بھی ممکنہ تصادم کے پیش نظر ، میں نے ہمیشہ چینی کے شعبے سے متعلق کسی بھی فیصلے سے دوری برقرار رکھی ہے۔ اس حقیقت سے حکومت اور میرے ساتھ کام کرنے والے سب ساتھی واقف ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ  29 دسمبر ، 2018 کو کابینہ کے اجلاس کی تفصیلا ت کے مطابق ، جس میں محکمہ خواراک بھی شامل تھا، محکمہ خزانہ کی طرف سے واضح طور پر یے موقف پیش کیا گیا کہ سبسڈی کو معیشت میں بگاڑ سمجھا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے۔ یہ آزاد اور غیر جانبدارانہ سوچ کا عکاس ہے جو کسی بھی اثر و رسوخ یا مفاداتی مفاد سے بالاتر ہے۔  کابینہ میں معاملات پر لمبی بحث کی جاتی ہے اور تمام متعلقہ افراد کے خیالات (اس معاملے میں محکمہ فوڈ) پیش کیے گئے جس پر کابینہ نے اس معاملے پر فیصلہ کیا۔

ہاشم جواں بخت نے کہا کہ یہ بھی بتانا اہم ہے کہ اس معاملےپر کابینہ کے اجلاس سے قبل دو اعلی سطحی اجلاس ہوئے تھے اور میں ان میں شریک نہیں ہوا تھا۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے میرے کردار کے متعلق حال ہی میں میڈیا حلقوں میں بہت سی بلاجواز قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان تفصیلات سے یہ ریکارڈ درست ہو سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ  کابینہ کے اجلاس کی تفصیلات رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت عوام کو دستییاب ہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116865?fbclid=IwAR19hKr74Bj3-3bM5pWi28uEcu

n3AM1FplYTrM_pMUAI7u25Gw5Xc9AEyXQ

https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-06&edition=KCH&id=5128881_71180705

ایف آئی اے نے جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور شریف برادران کی شوگر ملز سے ریکارڈ طلب کرلیا۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق آٹا وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر چینی بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرلیا ہے اور جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور شریف برادران کی شوگر ملز سے ریکارڈ طلب کرلیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ملز کو ریکارڈ جمع کرانے کے لیے مراسلے تحریر کیے گئے ہیں اور جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی ملز نے بہت سا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق  ایل سی کھلوانے کے متعلق بھی ریکارڈ طلب کیا گیا ہے، ریکارڈ کے متعلق اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی سے بھی تصدیق کرائی جائے گی۔

واضح رہے کہ چینی بحران پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ میں کئی نامور سیاسی خاندانوں کے نام سامنے آئے ہیں، اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، اور انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتہ دار نے آٹا و چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔

https://www.express.pk/story/2029539/1/

وفاقی کابینہ میں  ردوبدل کرکے ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کردی گئی ہے، جس کے تحت چیئرمین کشمیر کمیٹی سید فخرامام کو وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ بنادیاگیا ہے، خسروبختیار کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور ڈویژن مقرر کردیاگیا ہے جب کہ حماد اظہر کو وفاقی وزیر صنعت بنادیاگیا۔

ذرائع کے مطابق اعظم سواتی وفاقی وزیربرائے انسداد منشیات مقرر کیا ہے اور ارباب شہزاد کو مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ کے عہدہ سے ہٹادیا گیا ہے اور بابر اعوان مشیر برائے پارلیمانی امور بنا دیا گیا ہے، امین الحق وفاقی وزیر برائے ٹیلی کام مقرر کیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے، جب کہ وزیراعظم نے ہاشمی پوپلزئی کو سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے عہدہ سے ہٹادیا گیا گیا ہے اور عمرحمید سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی مقرر کئے گئے ہیں۔

https://www.express.pk/story/2029532/1/

تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کے کے سربراہ کے عہدہ سے ہٹاد یا گیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ بحران میں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین ہیں اور انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا ہے اور 25 اپریل کو انکوائری کمیٹی کی حتمی رپورٹ آ نےکے بعد ذمہ دران کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ چینی بحران پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے، ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں میں کئی نامور سیاسی خاندانوں کے نام شامل ہیں، اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، اور انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتہ دار نے آٹا و چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔

https://www.express.pk/story/2029526/1/

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-024.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-024.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-014.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-014.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-008.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/06042020/P1-Lhr-008.jpg

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے خود کو ٹاسک فورس برائے زراعت کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی خبر کو جھوٹا قرار دے دیا۔

جہانگیر ترین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ " ہیلو ہیلو، یہ خبر دی جارہی ہے کہ مجھے زراعت کی ٹاسک فورس کی چیئرمین شپ سے ہٹادیا گیا ہے ۔۔۔ میں کبھی بھی کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین نہیں رہا۔ کیا کوئی  بطور چیئرمین میری تقرری کا نوٹیفکیشن دکھاسکتا ہے؟ برائے مہربانی لوگو اپنے حقائق کو درست رکھو۔

خیال رہے کہ پنجاب حکومت کے سابق ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے  بتایا تھا کہ جہانگیر خان ترین کو وزیر اعظم کی زراعت کے اوپر قائم کی گئی ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹادیا گیا ہے۔ انہیں شوگر انکوائری  رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2020/1116856?fbclid=IwAR3uIvQP4nCsiGjfz0qv_b8WSGN

2QZPc473r0fQUkx1YuzoHu9wGRLuHJsE

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چینی بحران پر قائم کی گئی انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 6 گروپوں نے مل کر ایک مافیا کی شکل اختیار کر رکھی ہے اور یہ چینی کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 6 گروپوں کے پاس چینی کی مجموعی پیداوار کا 51 فیصد حصہ ہے  اوریہ آپس میں ہاتھ ملا کر مارکیٹ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔  چینی کی پیداوار پر چند لوگوں کا کنٹرول اور ان میں سے بھی زیادہ تر سیاسی بیک گراؤنڈ والے لوگ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پالیسی اور انتظامی معاملات پر کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

جہانگیر ترین کے گروپ کی 6 شوگر ملز چینی کی مجموعی ملکی  پیداوار  کا 19 اعشاریہ 97 فیصد پیدا کرتی ہیں۔ مخدوم خسرو بختیار کے رشتہ دار  مخدوم عمر شہریار کے " آر وائی کے" گروپ کی 6 شوگر ملز ہیں اور یہ 12 اعشاریہ 24 فیصد چینی پیدا کرتی ہیں۔ المعز گروپ کی 5 شوگر ملز 6 اعشاریہ 80 فیصد اور تاندلیانوالہ گروپ کی 3 شوگر ملز 4 اعشاریہ 90 فیصد چینی پیدا کرتی ہیں۔

سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی کے اومنی گروپ کی 10 شوگر ملز ہیں اور وہ 1 اعشاریہ 66 فیصد چینی پیدا کرتے ہیں، شریف فیملی کی 9 شوگر ملز 4 اعشاریہ 54 فیصد چینی پیدا کرتی ہیں۔

مذکورہ بالا 6 گروپوں کی 38 شوگر ملز چینی کی مجموعی پیداوار کا 51 اعشاریہ 10 فیصد پیدا کرتی ہیں جبکہ باقی 51 شوگر ملز 49 اعشاریہ 90 فیصد چینی پیدا کرتی ہیں۔

ان شوگر ملز نے اپنی تنظیم پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے۔ پنجاب میں 30 دسمبر 2019 سے یکم جنوی 2020 تک شوگر ملز نے ہڑتال کی۔ ہڑتال میں شریف خاندان کی 4، المعز گروپ کی 2، تاندلیانوالہ گروپ کی 2، آر وائی کے اور جے ڈی ڈبلیو گروپ کی ایک ایک شوگر ملز نے حصہ لیا۔  بعد ازاں یہ ہڑتال شوگر ملز ایسوسی ایشن کی کال پر ختم کردی گئی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کون سے گروپ مافیا کا حصہ ہیں اور کس طرح مشترکہ مفادات کیلئے کام کر رہے ہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/04-Apr-2020/1116072?fbclid=IwAR0JiUf9A57ezmgURL195TtkDI

TaDgQwYeoQ0sr1zZixm-Eg7zbAy4zxBk

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )  وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر چینی بحران کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کیلئے انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے  اپنی رپورٹ میں مافیا کو بے نقاب کردیا ہے، اس مافیا کی ہیرا پھیریوں کی مکمل تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو شوگز ملز کا فرانزک آڈٹ کرنے میں مصروف ہے اور 25 اپریل تک اپنی رپورٹ پیش کردے گا۔

چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر وزیر اعظم نے انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے جو چینی بحران کی ذمہ دار شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ کرنے میں مصروف ہے۔

پنجاب حکومت کے سابق ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے فرانزک آڈٹ کے حوالے سے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا "مبارک ہو پاکستان عمران خان نے آپ سے کیا ہوا ایک اور وعدہ پورا کیا۔  ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے ایک جاندار انکوائری کمیٹی بنائی اور پھر اس کی سفارشات کو من و عن تسلیم کیا اور ان پر عمل کیا۔ اور اب ان کو پبلک بھی کر رہی ہے۔ یہ وزیراعظم عمران خان کا آپ سے وعدہ تھا۔"

https://dailypakistan.com.pk/04-Apr-2020/1116074?fbclid=IwAR1Bf-So1hCnYdsTP_a-WJxu0oZfY4UTZtI4G7wDtPtWK0bl1ZfRml-Om0k

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ چینی بحران انکوائری کمیٹی نے ان کا موقف نہیں لیا اور یکطرفہ طور پر رپورٹ جاری کی ہے، انہیں 3 ارب کی سبسڈی ملی جس میں سے ڈھائی ارب روپے ن لیگ کے دور حکومت میں دیے گئے۔

نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ پچھلے 5 سال کے دوران انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی لی لیکن ان میں سے ڈھائی ارب روپے ن لیگ کے دور حکومت کا ہے۔ حکومت کی جانب سے شوگر ملز کو سبسڈی اس لیے دی گئی کیونکہ ملک میں ضرورت سے 20 لاکھ ٹن چینی زیادہ پیدا ہوگئی تھی، انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی کی قیمت کم ہوگئی تھی اور کوئی بھی چینی برآمد نہیں کرنا چاہتا تھا  اس لیے حکومت کو سبسڈی دینی پڑی۔

ہانگیر ترین نے بتایاکہ 2018 سے پہلے 2 سال کے دوران گنا زیادہ تھا جس کی وجہ سے شوگر ملز نے سستا گنا خریدا، ہماری حکومت نے کاشتکار کو گنے کا پورا ریٹ دلوایا اور ملز کو ن لیگ کی حکومت سے آدھی سبسڈی دی۔ اگر گنا 180 روپے خریدار جائے گا تو چینی کی قیمت بھی اسی حساب سے بنے گی۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ رپورٹ تیار کرتے وقت کسی نے بھی ہمارا موقف نہیں لیا،  اس پر آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا موقف لیا جائے کیونکہ رپورٹ میں کی گئی باتیں بالکل غلط ہیں۔ "میں وزیر اعظم سے مل کر شوگر ملز کی صفائی نہیں دوں گا بلکہ یہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کام ہے، انہوں نے عبدالرزاق داؤد سے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا ٹائم لے کر دیں ، ایسوسی ایشن والے وزیراعظم سے ملیں گے اور اپنے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔"

https://dailypakistan.com.pk/04-Apr-2020/1116078?fbclid=IwAR3GF9lcxsMqZa2pN2eYkX_XJd

AQ440DELmx0hXwzM_plY3AjNBGx7ilY

 اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ وعدے کے مطابق گندم اورچینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقاتی رپورٹ بغیر ردوبدل کے پبلک کردی،وزیراعظم نے کہاکہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن سے تفصیلی فرانزک رپورٹ کا انتظار کررہاہوں،کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد کارروائی ہوگی،رپورٹس آنے کے بعدکوئی بااثر لابی عوام کا پیسہ نہیں کھا سکے گی ۔

وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہاہے کہ وعدے کے مطابق گندم اورکی چینی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقاتی رپورٹ بغیر ردوبدل پبلک کردی،ایسی رپورٹ پبلک کرنے کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ 

 وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ سابقہ قیادت میں مفاد اورمصلحتوں کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے کی اخلاقی جرات نہیں تھی ،انہوں نے کہاکہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن سے تفصیلی فرانزک رپورٹ کا انتظار کررہاہوں،کمیشن کی رپورٹ 25 اپریل کو آئے گی ،کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد کارروائی ہوگی۔وزیراعظم نے کہاہے کہ رپورٹس آنے کے بعدکوئی بااثر لابی عوام کا پیسہ نہیں کھا سکے گی ۔

https://dailypakistan.com.pk/05-Apr-2020/1116415?fbclid=IwAR20QHelxE2dKThVvZGfVzkD2W

qUFqlsMQJc5vaAkXqNgW_1d2CPd1Taag

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) وزیراعظم عمران خان نے وعدے کے مطابق چینی بحران کے ذمہ دارن کا تعین کرنے والی تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک کر دیاہے ، رپورٹ پر حکومت گرنے اور سیاسی بحران کی دھمکیاں آئیں جبکہ تحقیقات کے دوران واجد ضیاءکو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور وزیراعظم عمران خان پر رپورٹ پبلک نہ کرنے کا دباﺅ بھی تھا ۔

نجی ٹی وی اے آر وائے نیوز کے مطابق رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پابندی کے باوجود پنجاب سے چینی ایکسپورٹ پر تین ارب روپے کی سبسڈی منظور کروائی گئی ، خسرو بختیار کے بھائی وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت نے سبسڈی منظور کروائی ،10 لاکھ ٹن ایکسپورٹ کی وجہ سے پاکستان میں چینی مہنگی ہوئی ، ایکسپورٹ سبسڈی سے چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے فی کلو ہوئی ۔گزشتہ پانچ سال میں چینی کی برآمد پر 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ، نواز دور میں 22 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جبکہ موجودہ دور حکومت میں تین ارب کی سبسڈی دی گئی ۔

وزیراعظم عمرا ن خان کی جانب سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ نے چھ گروپس کی لوٹ مار کا بھانڈا پھوڑ دیاہے ،جنہوں نے چینی ایکسپورٹ پر سبسڈی لی ہے اور کے علاوہ مہنگی چینی سے بھی مال بنایا۔رپورٹ کے مطابق

جہانگیر ترین کی شوگر ملوں نے چینی ایکسپورٹ سے 56 کروڑ 10 لاکھ روپے کمائے ، جہانگیر ترین کی شوگر ملز نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد ایکسپورٹ کیا ۔مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر ، مونس الہیٰ رحیم یار خان گروپ میں پارٹنر ہیں ، رحیم یار خان گروپ نے چینی ایکسپورٹ پر 45 کروڑ 20 لاکھ کی سبسڈی لی ، رحیم یار خان گروپ نے مجموعی سبسڈی کا 18 فیصد ایکسپورٹ کیا ،پانچ سال میں رحیم یار خان کے گروپ نے چینی کی سبسڈی سے چارارب روپے کمائے ۔

رپورٹ کے مطابق جے ڈبلیو شوگر ملز نے پیدوار کا 19 فیصد ایکسپورٹ کیا ، المعیزگروپ کے شمیم احمد نے چینی ایکسپورٹ پر 40 کروڑ 60 لاکھ سبسڈی لی ، ہنزہ شوگر ملز نے پیدوار کا 74 فیصد ایکسپورٹ کیا ، 40 کروڑ 98 لاکھ سبسڈی لی، حسین شوگر ملز نے 8 کروڑ 85 لاکھ ، شیخو شوگر ملز نے 5 کروڑ 68 لاکھ کی سبسڈی لی، پانچ سال میں جے ڈی ڈبلیو نے تین ارب ، ہنزہ نے دو ارب 80 کروڑ کی سبسڈی لی ،فاطمہ شوگر ملز نے پیدوار کا 68 فیصد ایکسپورٹ کیا ،24 کروڑ 83 لاکھ سبسڈی لی ،پانچ سال میں اومنی گروپ نے چینی ایکسپورٹ پر 90 کروڑ اسے زائد سبسڈی لی ۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حکومت گنے کے بڑے زمینداروں اور شوگر ملوں کے گٹھ جوڑ کا توڑ کرے ۔

https://dailypakistan.com.pk/05-Apr-2020/1116453?fbclid=IwAR3B25Fybr07YaVxvypvTuBGaMH

GMHEYu_FPimPLpLeOrFOMWKI4hmZNp8E

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-006.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-006.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-007.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-007.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-011.jpg

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2020/04/05042020/P1-Lhr-011.jpg

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107329362&Issue=NP_PEW&Date=20200405

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107329354&Issue=NP_PEW&Date=20200405

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1107329341&Issue=NP_PEW&Date=20200405

وزیراعظم کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ شہبازشریف آٹا،چینی بحران کی رپورٹ پربغلیں نہ بجائیں کیونکہ اس میں ان کے بیٹ؁س لمان شہباز کاذکربھی ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نےقوم سےوعدہ کیاتھاکہ دو نہیں ایک پاکستان بناؤں گا، آٹے،چینی بحران کی انکوائری رپورٹ کومنظرعام پرلاکروزیراعظم نےاپناوعدہ پوراکیا، گندم چینی رپورٹ میں جس جس کی نشاندہی ہے اس کیخلاف کارروائی ہوگی، تمام ذمے داران کوقانون کےکٹہرے میں لانےکافیصلہ کیاگیاہے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ رپورٹ میں سلمان شہبازکو1ارب 40کروڑروپےسبسڈی دینےکاذکربھی ہے، شہبازشریف آٹا،چینی بحران کی رپورٹ پربغلیں نہ بجائیں، دیکھتےہیں شہبازشریف سزادینےکیلئے کب اپنےبیٹےکوبلاتےہیں، رپورٹ میں شریف گروپ کی بدمعاشی بےنقاب ہوگئی ہے، چینی کی برآمدپرشریف خاندان نے 22ارب روپےکی سبسڈی لی۔

معاون خصوصی اطلاعات نے کہا کہ اس رپورٹ نے30 سال کےجاری کھیل کاپردہ چاک کردیاہے اور دوچیزیں واضح ہوگئیں، جوچینی برآمدہوئی اس سےطاقتور اوربااثر لوگوں نےفائدہ اٹھایا،چینی ،آٹےکامصنوعی بحران پیداکرکےعوام کی مشکلات میں اضافہ کیاگیا۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان نےخوداحتسابی کاعمل اپنی جماعت سےشروع کیاہے، انکوائری میں سامنےآنیوالےشواہدپرفرانزک کیلئے25اپریل کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، منافع خوری اورذخیرہ اندوزی کرنیوالوں پرکڑی نظررکھی جارہی ہے۔

https://www.express.pk/story/2029181/1/

 

 https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-05&edition=KCH&id=5128112_94612902

 https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2020-04-05&edition=KCH&id=5128137_79460812

1 comment:

  1. کیا آپ کو کسی ہٹ مین کی خدمات کی ضرورت ہے، کسی ایسے شخص کو غائب کرنے کے لیے جو آپ کو یا آپ کے خاندان کے کسی فرد کو نقصان پہنچاتا ہو، صاف کام کے لیے مجھ سے رابطہ کریں، ای میل hitlerpedro8@gmail.com

    ReplyDelete