لندن: سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس سے پتے کے سرطان کو بڑھنے اور جسم میں پھیلنے سے روکنا ممکن ہے۔
یہ دریافت لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کی ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج اس بیماری کے علاج کے لیے نئی راہیں استوار کرسکتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ GREM1 نامی ایک پروٹین پتے کینسر میں پائے جانے والے ایک قسم کے خلیوں کو قابو کرنے میں اہم ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق پروٹین کی سطح کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ان خلیوں کو مزید جارح بنانے کے لیے توانائی دے سکتی ہے یا اس عمل کو الٹ سکتی ہے۔
لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں کینسر اسٹیم سیل ٹیم کے رہنما پروفیسر ایکسیل بیہرین جو کہ تحقیق کے سینئر مصنف بھی ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم اور بنیادی دریافت ہے جو پتے کے سرطان کی علاج کے لیے نئی راہیں کھولے گی۔
تحقیق میں محققین نے یہ بتایا ہے کہ پتے کے سرطان کے خلیوں کو روکنا ممکن ہے اور ان خلیوں کو ایسی نہج تک لے جانا جہاں ان کا علاج آسانی سے کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ کینسر کے مرض سے بچنے والے مریضوں میں سب سے کم شرح پتے کے سرطان کے مریضوں کی ہے۔ سات فی صد سے کم افراد پانچ سال یا اس سے زیادہ اس بیماری میں زندہ رہ پاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2342622/9812/
میری لینڈ: کئی دہائیوں سے اپنے بازوؤں کی حس سے محروم معذور شخص کو دو روبوٹک بازو لگاکر انہیں براہِ راست انسانی دماغ سے جوڑدیا تو اس نے پہلی مرتبہ ایک ہاتھ میں چھری اور دوسرے میں کانٹا تھام کر پلیٹ میں رکھا کیک کھایا۔
میری لینڈ کے شہر لوریل میں واقع جان ہاپکنزاپلائیڈ فزکس لیبارٹری (اے پی ایل) کے سائنسدانوں نے 30 سال سے ہاتھوں اور انگلیوں کی حس سے محروم شخص کو دونوں اشیا تھامنے، کیک کو ایک جگہ سے کاٹنے، اس کا مناسب ٹکڑا اٹھانے اور منہ تک پہنچا کر کھانے کے قابل بنایا ہے۔ اس کام میں اسے 90 سیکنڈ سے بھی انجام دیا ہے۔
واضح رہے کہ مریض سوچتا رہا اور اسی لحاظ سے روبوٹ بازو چلتا رہا جس کی تفصیلات فرنٹیئرز ان نیوروبایوٹکس میں شائع ہوئی ہے۔ اس نظام میں ایک برین مشین الگورتھم اور دو روبوٹ بازو شامل تھے۔ دماغ سے آنے والے برقی سگنل کو پہلے احکامات میں بدلا گیا جسے روبوٹ بازو تک پہنچایا گیا۔

اس اختراع کی پشت پر 15 برس کی تحقیق شامل ہے جس میں نیوروسائنس، روبوٹکس، سافٹ ویئر اور الگورتھم جیسے اہم شعبے شامل ہیں۔ اس کی فنڈنگ امریکی دفاعی تحقیقی ادارے ڈارپا نے کی تھی جس میں دماغ اور مشین کے ملاپ پر نئی تحقیق سامنے آئی ہے جسے عام زبان میں ’برین مشین انٹرفیس‘ کہا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا سب سے اہم استعمال معذور افراد کی مدد ہے جو ایک دیرینہ خواب بھی ہے۔ تاہم اگلے مرحلے میں لمس سے محروم معذور افراد کو چھونے والی شے کا احساس دلانا ہے جس کے لیے جدید اور حساس سینسر کا کام جاری ہے۔
https://www.express.pk/story/2342073/9812/
کیمبرج: خون کو متاثر کرنے والی کینسر کی ایک مہلک قسم مائی لوئڈ لیوکیمیا ہے جو تیزی سے موت کی وجہ بنتی ہے۔ اب برازیل کے ایک مشہور درخت کی چھال سے ایک مرکب (کمپاؤنڈ) ملا ہے جو علاج میں کام آسکتا ہے۔
اب یہ مرکب آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک نئے طریقے سے اسے سرطان ذدہ حصوں میں آسانی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔ مائی لوئڈ لیوکیمیا میں خون میں بے شکل اور بے کار خلیات تیزی سے بنتے ہیں اور مریض چند برسوں میں ہی لقمہ اجل بن جاتا ہے۔
لاپاچو نامی درخت کے تنے میں ایک مرکب ملا ہے جسے ’بی ٹا لاپاچون‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ کینسر سیل کی پیداوار روک سکتا ہے لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ سرطانوی خلیات کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ اب کیمبرج کے ٹرینٹی ہال کالج سے وابستہ ڈاکٹر گونسیلو بربارڈس کہتے ہیں کہ ’ بہت سے قدرتی مرکبات کینسر ختم کرتے ہیں لیکن ان کا زہریلا پن صحتمند خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسی لیے استعمال کرنا ممکن نہیں۔
ماہرین نے اس مرکب کو کچھ بدل کر اس کے منفی اثرات قابو میں کئے ہیں۔ اس کے لیے دو ٹیکنالوجی سے مدد لی گئ ہے۔ ایک جانب تو کیمیکل شامل کرکے مرکب کے منفی اثرات سے محفوظ بنایا گا ہے جو کسی نقاب کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ ماسک تیزابی ماحول بناتا ہے جو خلیے کے اندرونی نظام جیسا ہوتا ہے۔
دوسری مرحلے میں ماہرین نے اس تبدیل شدہ مرکب بی ٹا لاپاچون کو ایک پروٹین (ایک قسم کی اینٹی باڈی) سے جوڑا جو کینسر خلیے کے اندر براہِ راست نفوذ کرجاتا ہے۔
یہ تحقیق نیچر کیمسٹری نامی جریدے میں شائع ہوئی ہےاور امید ہے کہ اس طرح علاج میں مدد مل سکے گی۔ ماہرین کے مطابق مائی لوئڈ لیوکیمیا کی شدید کیفیت کا ایک طاقتور بایو مارکر سی ڈی 33 ہے جو سرطانوی خلیات میں موجود ہوتا ہے۔ یہ نیا مرکب سی ڈی 33 سے چپک کر اس پر دوا ڈالتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2342543/9812/
لندن: سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ رچرڈ برینسن، ایلون مسک اور جیف بیزوس کی خلائی سیاحت، بحال ہونے والی اوزون کی تہہ کو خراب کر سکتی ہے۔
سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی نئی تحقیق میں اسپیس کرافٹ کے زمین سے خلاء میں جانے اور واپس آنے کے ایٹماسفیئر پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
یونیورسٹی کالج لندن، یونیورسٹی آف کیمبرج اور میساچوسیٹس اِنسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی مشترکہ تحقیق میں معلوم ہوا کہ اسپیس کرافٹ سے نکلنے والا دھواں زمین کے گرد موجود حفاظتی تہہ کو نقصان پہنچا رہا تھا اور یہ دوسرے ذرائع کی بہ نسبت 500 گُنا زیادہ حدت رکھتا تھا۔
یو سی ایل سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر الوئیس مارائس کا کہنا تھا کہ اسپیس کرافٹ کے اخراج کو ایئر کرافٹ اور زمین پر موجود اخراج دیگر ذرائع جیسا سمجھنا غلطی تھی۔
جیف بیزوس کی کمپنی بلیو اوریجن کے مطابق ان کے نیو شیپرڈ لانچ وہیکل کے BE-3PM انجن کا ایندھن انہتائی کارآمد اور صاف مائع آکسیجن اور ہائیڈروجن پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا پرواز کے دوران انجن سے جو فضلہ خارج ہوتا ہے وہ کاربن نہیں بلکہ آبی بخارات ہوتے ہیں۔
محققین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الحال اوزون کو پہنچنے والا نقصان معمولی ہے لیکن انہوں تیزی سے بڑھتی خلائی سیاحت کی انڈسٹری کے لیے قواعد کے اطلاق کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل کی مشکلات سے بچا جاسکے۔
خلائی سفر کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں نے 2019ء میں ہونے والے 103 راکٹ لانچز سمیت رچرڈ برینسن کی ورجن گلیکٹک، ایلون مسک کی اسپیس ایکس اور جیف بیزوس کی بلیو اوریجن کے خلائی سفر کے ڈیٹا کا معائنہ کیا۔
مطالعے میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ خلائی سیاحت کے صرف تین سال میں اضافی اخراج کی صورت میں دھوئیں کے سبب حرارت دُگنی ہوگئی تھی۔
https://www.express.pk/story/2342553/508/
بیجنگ: سرخ سیارے پر ایک دو نہیں بلکہ 1300 سے زائد چکر لگانے کے بعد چینی جہاز تیان وین اول نے پورے مریخ کی تصاویر کھینچی ہیں۔ اس نے پہلی مرتبہ وہاں کے قطبِ جنوبی کے عکس بھی لیے ہیں۔
اس کے لئے سائنسدانوں نے تیان وین اول کو مختلف سمتوں اور زاویوں میں مریخ کے گرد گھمایا اور ایک طرح سے پورے سیارے کو اسکین کرکے اس کی بلند معیاری تصاویر لی گئی ہیں۔

بدھ کے روز چینی خلائی ایجنسی نے سب سے پہلے مریخی قطبِ جنوبی کی تصویر جاری کی ہے اور اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں پانی کے ذخائرموجود ہوسکتے ہیں۔ تیان وین اول فروری 2021 کو مریخی مدار میں پہنچا تھا اور یہ چین کا پہلا مریخی مشن بھی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک روبوٹک گاڑی بھی مریخ پر اتاری گئی تھی۔

اس سے قبل 2018 میں یورپی خلائی ایجنسی کے ایک آربٹر نے کہا تھا کہ مریخ کے قطبِ جنوبی پر پانی کے وسیع ذخائر گویا بند پڑے ہیں۔ اس پر مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ شاید یہاں حیات کی کوئی شکل بھی موجود ہو، تاہم اب تک گمان یہی ہے کہ مریخ جنوبی قطب پر برف بھی ہوسکتی ہے۔
چینی خلائی جہاز نے 4000 کلومیٹر طویل ویلس میرینیرس کی تصاویر بھی لی ہیں جو ایک تنگ گھاٹی ہے اس کے علاوہ چھوٹے بڑے گڑھے بھی کیمرے میں محفوظ کئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2342606/508/
اسٹٹ گاٹ: ایک برقی مرسیڈیز بینز نے ایک چارج میں 1200 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر کے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا۔
ویژن EQXX نے جرمنی کے شہر اسٹٹ گاٹ سے برطانیہ کے شہر سِلوراسٹون تک کا سفر ریکارڈ 15 گھنٹے سے کم وقت میں طے کیا۔ اس برقی گاڑی نے یہ کارنامہ 100 کلو واٹ آور کی بیٹری کے ساتھ انجام دیا۔ یہ بیٹری پیک ٹیسلا کے ماڈل ایس میں بھی استعمال کی گئی ہے
مرسیڈیز کی کار نے ٹیسلا کی نسبت دُگنا فاصلہ جدید ایروڈائنامکس، استعمال کیے گئے کم وزن مواد اور بیٹری میں جدت کی وجہ سے طے کیا۔
ویژن EQXX کی جانب سے بنائے جانے والے اس ریکارڈ سے صرف ماہ قبل اس ہی گاڑی نے جرمنی سے جنوبی فرانس تک بغیر ری چارج کے 1000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔
دونوں سفرحقیقی ٹریفک کی موجودگی میں کیے گئے جبکہ حالیہ ٹرپ میں درجہ حرارت اور موٹر وے ٹریفک کی اضافی مشکلات کا سامنا بھی تھا۔
جرمنی تا برطانیہ 14.5 گھنٹے کی ڈرائیو کرنے والے مرسیڈیز کے ایڈم ایلسوپ کا کہنا تھا کہ اسٹٹ گاٹ سے سِلوراسٹون تک ایک چارج میں پہنچنا ٹیکنالوجی کے بہتر ہونے کا حقیقی ثبوت ہے۔
مرسیڈز بینز 2030 تک اپنی تمام گاڑیاں برقی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جبکہ آئل کمپنی ایکسون کے سی ای او کے مطابق 2040 تک فروخت ہونے والی تمام مسافر گاڑیوں کا برقی ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجانا متوقع ہے۔
https://www.express.pk/story/2342100/508/
ہانک کانگ: ڈیپ لرننگ الگورتھم پولٹری فارم میں جانوروں کی بہتری اور نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
مغربی ممالک کے پولٹری فارم میں مرغیوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اب ایک مصںوعی ذہانت پروگرام کے ذریعے مرغیوں کی آوازوں میں اضطراب یا کسی مرض کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
یہ تحقیق سٹی یونیورسٹی آف ہانک گانک کے ایلن مک ایلیگوٹ اور ان کےساتھیوں نے کی ہے۔
تجارتی فارموں میں تنصیب کے بعد سافٹ ویئر ماڈل نہ صرف جانوروں کی صدا سن سکے گا بلکہ خود سے سیکھتے ہوئے اپنے آپ کو بہتر بناتا ہے۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا اے آئی) پرمبنی پروگرام نہ صرف مرغیوں کی تکلیف میں کی گئی پکار سنے گا بلکہ یہ بھی شمار کرے گا کہ کس سمت سے کتنی مرغیاں کرب سے چیخ رہی ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی کوشش سے پنجرے سے آزاد (کیج فری) مرغیوں اور بطخوں والے فارم کی تحریک کامیاب ہوچکی ہے۔ دوسری جانب مویشیوں سے وابستہ فارم میں بھی ان کا فلاح پر زور دیا جارہا ہے۔
2020 میں دنیا بھر میں مرغیوں کی تعداد 33 ارب کے لگ بھگ تھیں ۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق اکثر ممالک میں مرغیاں اہم غذائی ضرورت کے باوجود نہایت بری حالت میں زندہ ہیں اور فارم میں ہلنے جلنے کی جگہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر وہ بھوکی اور پیاسی نہ بھی ہوں تب بھی ان کی پیداوار سے وابستہ بہت سے سنگین حالات پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ بیرونی عوامل کے تحت پریشان رہتی ہیں۔
مرغی کی پریشانی ظاہر کرنے والی آواز ’باریک اور مختصر مدت کی صدا‘ ہوتی ہے جسے دیکھ کر اس کی تندستی اور نشوونما کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک بڑے فارم میں ہزاروں لاکھوں پرندوں کی موجودگی میں انہیں سننا محال ہوتا ہے۔
سب سے پہلے سافٹ ویئر کو برائلر مرغی کے ایک فارم میں آزمایا گیا۔ اس سے قبل احتیاط سے مرغیوں کی پریشان کن صدائیں سنا کر اسے تربیت دی گئی تھی۔ اس سے الگورتھم سیکھتا رہا اور پس منظر کا شور کم کرنے کی تربیت بھی حاصل کی۔ یہاں تک کہ ایک مقام پر سافٹ ویئر نے بتایا کہ خوف اور پریشانی میں مرغی کی آواز کی فری کوئنسی کیا ہوسکتی ہے۔
اس طرح ایک فارم میں مرغیوں کی پریشانی کی صدا کو 85 فیصد درستگی سے سن لیا گیا۔ تاہم اب بھی اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ مرغیوں کو فارم میں چلنے پھرنے کی مناسب جگہ دی جائے۔ اس کے علاوہ گھاس کے ڈھیر رکھے جاسکتے ہیں تاکہ وہ اچھلنے اور کودنے میں بھی وقت گزار کر خوش ہوسکیں۔
https://www.express.pk/story/2342435/508/
نیپلز: ارتقائی حیاتیات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان اور زمین پر موجود دیگر جانداروں کے درمیان کچھ نا کچھ خصوصیات مشترک ہوتی ہیں۔
اب ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان اور آکٹوپس کے دماغ میں موجود ’جمپنگ جینز‘ مشترک ہوتے ہیں۔
انسان کے جینوم کے 45 فیصد سے زیادہ ٹرانسپوسن نامی کڑیوں سے بنتے ہیں۔ یہ ٹرانسپوسن وہ ’جمپنگ جینز‘ ہوتے ہیں جو جینوم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گڈمڈ ہوکر یا نقول بن کر حرکت کرسکتے ہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ’جمپنگ جینز‘ انسانوں کے علاوہ دو دیگر آکٹوپس کی اقسام میں فعال ہوتے ہیں، ایک قسم عام آکٹوپس کی اور دوسری قسم کیلیفورنین آکٹوپس کی ہے۔
ان جینز کا تعلق LINE خاندان سے ہوتا ہے یعنی لانگ انٹرسپرسڈ نیوکلیئر ایلیمنٹ، جو انسانی جینوم کی سیکڑوں نقول میں پائے جاتے ہیں۔
کئی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ LINE ٹرانسپوسن کا تعلق سیکھنے، یادداشت اور دیگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔
اٹلی کے ایک تحقیقی ادارے اسٹازیونے زُولوجیکا میں شعبہ حیاتیات کےڈائریکٹر گریزیانو فایورِٹو کا کہنا تھا کہ آکٹوپس کا دماغ فعالیت کے اعتبار سے انسانوں کے دماغ کی کئی خصوصیات سے مشابہ ہے۔
محققین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے آکٹوپس کے عمودی حصے میں سرگرمی کا ایک اشارہ دیکھا تو وہ اچھل پڑے۔ آکٹوپس کا عمودی حصہ دماغ کا ایک سانچہ ہوتا ہے جو سیکھنے اور سوچنے سمجھے کی صلاحیت کا مرکز ہوتا ہے، جیسے کہ انسانوں میں یہ ذمہ ہِپوکیمپس کے پاس ہوتا ہے۔
بی ایم سی بائیولوجی میں شائع ہونے والی یہ تحقیق محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے کیا جس میں دنیا بھر سے 20 سے زیادہ محققین شریک ہوئے۔
https://www.express.pk/story/2342150/509/
میسا چوسٹس: سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسے چھوٹے روبوٹک جگنو بنائے ہیں جو بمشکل ایک پیپر کلپ سے زیادہ وزن رکھتے ہیں اور جیسے ہی اڑتے ہیں چمکنے لگتے ہیں۔ ان روبوٹک جگنوؤں کو تلاش اور ریسکیو مشنز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایم آئی ٹی کے انجینئروں نے چھوٹے برقی روشنی کے ذرّات ان مصنوعی پٹھوں میں لگانے کا ایک نیا راستہ دریافت کیا ہے جس کے بعد یہ دورانِ پرواز رنگین روشنی نکال سکیں گے۔
محققین کے مطابق روبوٹ یہ روشنی ایک دوسرے سے رابطے کے لیے اور ایمرجنسی صورتحال میں مدد مانگنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ان روبوٹس کو کسی منہدم عمارت میں ریسکیو مشن پر بھیجا جائے اور کسی روبوٹ کو پھنسے ہوئے لوگ ملیں تو وہ روشنی کو استعمال کرتے ہوئے دیگر کو اشارہ دے کر مدد کے لیے پکار سکتا ہے۔
گزشتہ سال کے آخر میں ایم آئی ٹی کے محققین نے ایلاسٹومیٹر اور کاربن نینو ٹیوب الیکٹروڈ کی متبادل جہتوں کو ترتیب دے کر روبوٹک کیڑوں کے لیے مصنوعی پٹھے بنانے کا راستہ دریافت کیا تھا اور ان سطحوں کو لپیٹ کر نرم سلینڈر میں ڈال دیا گیا تھا۔
سلینڈر پر جب وولٹیج کا اطلاق کیا جاتا ہے تو الیکٹروڈ ایلاسٹومیٹر سے جڑ جاتے ہیں اور مکینکی نظام سے پھر روبوٹ کے پر پھڑپھڑاتے ہیں۔
پروں کو روشن کرنے کے لیے محققین نے اب برقی روشنی کرنے والے زِنک سلفیٹ کے ذرّات روبوٹ کے مصنوعی پٹھوں میں لگائے ہیں۔
زنک کے ذرّات جب بہت طاقتور اور ہائی فریکوئنسی کی برقی فیلڈ میں ہوتے ہیں تو یہ روشنی کے سب ایٹامک ذرّات خارج کرتے ہیں جن کو فوٹون کہا جاتا ہے۔
محققین کو معلوم ہوا کہ وہ ان مصنوعی پٹھوں میں طاقتور برقی فیلڈ بنانے کے لیے زیادہ وولٹیج استعمال اور پھر روبوٹ کو اعلیٰ فریکوئنسی پر چلا سکتے ہیں، جو ذرّات کے زیادہ روشنی کے ساتھ چمکنے کا سبب بن سکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2341731/508/
جنوبی افریقا: تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک دو نہیں بلکہ 64 ریڈیائی دوربینوں کی قوت ایک ساتھ ملائی گئی ہے۔ اس کا مقصد عمومی طور پر کائنات کے رازوں کو افشا کرنا، ارتقا کو سمجھنا ہے تو بالخصوص دور بہت دور موجود نیوٹرل (چارج کے بغیر) ہائیڈروجن گیس کا پتا لگانا ہے جو بہت ہی نحیف آثار رکھتی ہے۔
اس کاوش میں ممتاز ماہرینِ فلکیات کی ٹیم شامل ہے جنہوں نے جنوبی افریقہ میں واقع میرکاٹ دوربین کی 64 ڈشوں کو ایک کیا ہے۔ اسے ترقی دے کر دنیا کی سب سے بڑی ریڈیائی دوربین بنایا جائے گا جس ایس کے اے آبزوریٹری (ایس کے اے او) کا نام دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس کا پورا نام اسکوائر کلومیٹر ایرے آبزرویٹری ہے۔ اس منصوبے سے 20 ممالک کے 500 انجینیئر اور سینکڑوں ماہرین وابستہ ہیں۔ مختلف علاقوں میں 64 کے قریب ریڈیائی دوربینیں ہیں۔ اس کا اہم مقصد کائنات کی وسعت پر بڑے پیمانے پر تحقیق کرنا ہے۔ اس پیمانے پر بڑی کہکشاں بھی ایک نقطے کی مانند نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تاریک مادے اور خود کائنات میں ثقلی قوت پر تحقیق کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈیائی دوربینیں چونکہ ریڈیو امواج پر کام کرتی ہیں وہ 21 سینٹی میٹر طول موج (ویو لینتھ) کو دیکھ سکتی ہیں جو نیوٹرل ہائیڈروجن سے خارج ہوتا ہے۔ یہ عنصر کائنات میں عام ہے لیکن اس کا بصری مشاہدہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر ہم کائنات میں مادے کے تقسیم اور موجودگی پر ہم تحقیق کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب کائنات کے بعید ترین گوشوں میں موجود دوردراز علاقوں کے اجسام کو بھی ریڈیائی دوربینوں سے بلند معیاری عکس کے ساتھ دیکھا جاسکت اہے۔ اس کے لیے ہم عموماً انٹرفیرومیٹر لگاتے ہیں لیکن اس ٹیکنالوجی کی اپنی حدود ہیں اور یہ اتنا حساس نہیں ہوتا کہ خاطرخواہ کائناتی رازوں کو جاننے میں مدد دے سکے۔ اسی لیے اب 64 ڈشوں کو یکجا کیا گیا ہے جسے ماہرین نے ایک انقلابی سنگِ میل قرار دیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے کونیاتی تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ چار براعظموں پر موجود دیگر ریڈیائی رصدگاہوں نے بھی اس مشن میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ اس طرح سنگل ڈش ٹیکنالوجی نے اہم انکشافات بھی شروع کردیئے ہیں۔ ان میں میرکاٹ کے ریڈیائی اور اینگلو آسٹریلیئن ٹیلی اسکوپ کے بصری مشاہدات کو باہم ملایا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ریڈیائی دوربین کے ادغام سے ماہرین نے بہت بڑا کائناتی اسٹرکچر دریافت کیا ہے۔ اس طرح ایک سے زائد ریڈیائی دوربینوں کو باہم ملاکر یہ پہلی اہم دریافت سامنے آئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2341243/508/
کیلیفورنیا: سولک سائنس دانوں نے ایلوپیشیا (گنج پن) کے ایک عام علاج کے لیے ایک غیر متوقع مالیکیول دریافت کر لیا ہے۔ ایلوپیشیا ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان کا مدافعتی نظام اس کے اپنے بالوں کے غدود پر حملہ آور ہوجاتا ہے جس کے سبب بال گِر جاتے ہیں۔
نیچر امیونولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ریگولیٹری ٹی سیلز نامی مدافع خلیے کس طرح جِلد کے خلیوں کے ساتھ مل کر ایک ہارمون استعمال کرتے ہوئے بالوں کے نئے غدود بناتے ہیں اور بالوں کو بڑھاتے ہیں۔
سولک کے مرکز برائے امیونوبائیولوجی میں تعینات ایسوسی ایٹ پروفیسر یے ژینگ کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے ریگولیٹری ٹی سیلز کا مطالعہ کیا جا رہا تھا کہ کس طرح یہ آٹو امیون بیماریوں میں کثیر مدافعتی ردِ عمل کو کم کرتے ہیں۔
آٹو امیون بیماریاں وہ بیماریاں ہوتی ہیں جس میں جسم کا قدرتی مدافعتی نظام اپنے اور باہر سے آئے خلیوں کے درمیان تمیز نہیں کر پاتا ہے اور جسم کے اپنے خلیوں پر حملے کا سبب بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب سائنس دانوں نے ہارمونل سگنل اور بالوں کی نمو کے سبب کی نشان دہی کی ہے جو حقیقتاً بالوں کی نمو اور دوبارہ پیداوار کو فروغ دیتا ہے اور یہ مکمل طور پر مدافعتی ردِ عمل سے علیحدہ ہے۔
سائنس دانوں نے یہ تحقیق بالوں کے گرنے کا مطالعہ کرنے سے شروع نہیں کی تھی۔ سائنس دانوں کی دلچسپی ریگولیٹری ٹی سیلز اور گلوکورٹیسائڈ ہارمونز کے آٹو اِمیون بیماریوں میں کردار کے مطالعے میں تھی۔
سائنس دانوں نے پہلے اس چیز کی تحقیق کی کہ کس طرح یہ مدافعتی نظام متعدد نوعیت کے پٹھوں کے سخت ہونے میں عمل کرتے ہیں، جیسے کہ دمہ وغیرہ میں۔
سائنس دانوں نے یہ تجربہ گلوکورٹیسائڈ ہارمونز کے متحمل چوہوں اور ان چوہوں پر کیا جن میں یہ ہارمونز نہیں تھے اور ان کے بال اڑے ہوئے تھے۔
سربراہ مصنف کا کہنا تھا کہ دو ہفتوں بعد محققین نے ان چوہوں میں واضح فرق دیکھا، عام چوہوں کے بال اگ چکے تھے لیکن وہ چوہے جن میں گلوکورٹیسائڈ ہارمونز نہیں تھے بمشکل ہی بال دِکھ رہے تھے۔
https://www.express.pk/story/2341713/9812/
کینیڈا: انسانی دماغی کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اب دماغ کی مختلف لہروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے تھیٹا لہریں یا امواج انسانی جذبات کو باقاعدہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تھیٹا امواج کی وجہ سے ہی ہم شور کے ماحول میں توجہ سے کام کرتے ہیں، یا پھرمشکل سورتحال میں غصہ جذب کرتے ہیں اور انہیں سمجھ کر کئی طرح کی نئی تھراپی وضع کی جاسکتی ہیں۔
جامعہ مانٹریال کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اب تھیٹا امواج کے کئی دیگر پہلو سامنے آئے ہیں جنہیں جان کر ہم بے چینی، موڈ کے اتارچڑھاؤ اور بارڈرلائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر جیسے عارضوں کا علاج کرسکیں گے۔
مانٹریال یونیورسٹی کے پروفیسر مارک لیوئی اور ان کے شاگرد نے ثابت کیا ہے کہ دماغ کے ایک مخصوص حصے، ’فرنٹکل کارٹیکس‘ میں تھیٹا لہریں جذبات کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔ اس ضمن میں 24 افراد کا دماغی مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہو اکہ جذباتی اظہار اور اسے قابو کرنے کے عمل میں تھیٹا امواج کی سرگرمی قدرے بڑھ جاتی ہے۔ تاہم یہ تحقیق 2013 میں کی گئی تھی۔
تمام شرکا کو ایک ٹیسٹ سے گزارا گیا تھا جسے ’اکتسابی بازگشت‘ یعنی کوگنیٹو ری اپریزل کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں ایک صورتحال کی دوبارہ تشکیل کی جاتی ہے تاکہ مریض میں جذباتی اتار چڑھاؤ کو نوٹ کیا جاسکے۔ ماہرینِ کے پیشِ نظر یہ دیکھنا تھا کہ آیا کسطرح برقی اکتسابی عمل رونما ہوتا ہے اور اس میں تھیٹا امواج کا کردار کیا ہوسکتا ہے؟
سائنسدانوں نے اس ضمن میں 10 مرد اور 14 خواتین کی کھوپڑیوں پر الیکٹروڈ لگا کر انہیں پریشان کن تصاویر دکھائیں مثلاً ایک حملہ آور شخص کے ہاتھ میں خنجر تھا یا پھر ایک خونخوار کتے کو حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس دوران دماغی سرگرمیاں ای ای جی اور دیگر طریقوں سے نوٹ کی جاتی رہیں۔
اس دوران انہیں اپنے جذبات برقرار رکھنے، کم کرنے اور بڑھانے کے احکامات بھی دیئے جاتے رہے۔
اس دوران دماغی برقی سرگرمی کی لہروں کا بغور مطالعہ کیا جاتا رہا تو معلوم ہو کہ 4 سے 8 ہرٹز پر تھرتھرانے والی تھیٹا لہریں ہی زیادہ سرگرم تھیں۔ اس طرح جذٓباتی اتار چڑھاؤ میں تھیٹا امواج کا ایک اہم کردار سامنے آیا۔ اس تحقیق سے دماغ کا وہ گوشہ بھی سامنے آیا جہاں سے یہ امواج خارج ہوتی ہیں۔
لیکن ماہرین نے ایلفا امواج کو بھی دیکھا جو 8 سے 13 ہرٹز کے درمیان موجود ہوتی ہیں، اس طرح جذباتی سرگرمی میں ایلفا لہروں کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔
اس تحقیق سے ایک جانب تو انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب کئی نفسیاتی عوارض کے علاج کی راہیں ہموار ہوں گی۔
https://www.express.pk/story/2341577/9812/
یروشلم: تادیر جوان رہنا انسان کی ازلی خواہش ہے جس میں ایک اہم پیشرفت 20 برس کی مسلسل تحقیق کے بعد اسرائیل سے سامنے آئی ہے۔
اسرائیلی شہر حائفہ میں واقع ریمبام ہیلتھ کیئرکیمپس اور ٹیکنیون اسرائیل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے مسلسل دو عشروں تک غور و تحقیق کے بعد انسانوں کو کم ازکم بیرونی طور پر جوان رکھنے کا سائنسی طریقہ دریافت کیا ہے۔ اس ضمن میں چوہوں پر تجربات کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں جو انسانوں پر بھی قابلِ اطلاق ہیں تاہم مستقبل میں ان سےانسانی اعضا کو بھی جوان رکھنا ممکن ہوسکے گا۔
اس تحقیق میں کئی بین الاقوامی ماہرین بھی شامل ہیں جن کے کام کی تفصیلات سائنس ایڈوانسِس نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں بوڑھے چوہے کی جلد کا ایک ٹکڑا لیا گیا اور اس کی تمام پرتوں کی سالماتی (مالیکیولر) ساخت کو تبدیل کیا گیا ہے۔
اس ضمن میں جوان چوہوں کو لیا گیا جو’سیویئر کمبائنڈ امیونوڈیفشنسی ڈیزیز‘ (ایس سی آئی ڈی) کے شکار تھے۔ اس کیفیت میں بی اور ٹی لمفوسائٹس بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان چوہوں میں بوڑھے انسانوں کے خلیات شامل کیے گئے کیونکہ اہم ہدف انسانی جلد ہی تھی۔ ماہرین کی مسلسل کوشش سے نہ صرف جلد میں خون کی نئی رگیں بنیں بلکہ جگہ جگہ سے بدلی رنگت ٹھیک ہونے لگی اور عمر رسیدگی کے بایومارکر بھی کم ہوئے۔
بڑھاپے کا پلٹاؤ
بڑھاپے کو الٹا گیئر لگا کر جوانی کی طرف پلٹانا انسانوں کا ایک دیرینہ خواب رہا ہے۔ اس عمل کو سست کرکے خون سے لے کر اعضا تک کئی امراض اور خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ سالماتی کوششوں سے بھی عمر رسیدگی کو دور کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس ضمن میں جلد ایک بہترین تحقیقی مقام تھی کیونکہ دنیا بھر میں جلد کو جوان رکھنے پر کام ہو رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بڑھاپے کے آثار سب سے پہلے جلد پر ہی ظاہر ہوتے ہیں۔
اسی ٹیم نے پہلے بھی ایس سی آئی ڈی کے شکار جوان چوہوں میں بوڑھے افراد کی جلد شامل کی تھی اور افادیت ناپنے کے لیے ویسکولر اینڈوتھیلیئل گروتھ فیکٹر اے (وی ای جی ایف اے) کو ناپا تھا۔ یہ ایک طبی پیمانہ ہے جو تجربہ گاہ میں انسانی اعضا کی جوانی اور تازگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ انسانی جلد کے بوڑھے خلیات اور جلد میں جوانی کے آثار سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عمل درست سمت میں ایک قدم ہے اور کم ازکم ہم ایک تھراپی کے تحت انسانی جلد کو بڑھاپے کے اثرات سے بچاتے ہوئے دوبارہ جوان کرسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2341270/9812/
کیلیفورنیا: ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لوگ اپنی اخلاقی درستی کو ثابت کرنے کے لیے اکثر دوسرے افراد کو تکلیف دیتے ہیں ۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی اس تحقیق میں عدالتی نظام کے حوالے سے مضمرات موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ برے رویے کی سزا کے لیے جرمانہ یا قید شاید مؤثر حربہ نہ ہو جیسا کہ قانون ساز سمجھتے ہیں۔
تحقیق کے مصنف اور ریڈی اسکول میں اسسٹنٹ پروفیسر نفسیات دان تیج رائے کا کہنا تھا کہ اکثریتی مجرموں کے لیے نقصان کا سبب بننے کی صورت میں مشکلات کا سامنا کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر جنوری 6 کو کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے میں ملوث متعدد افراد کا ماننا ہے کہ ان سے انتخابات چُرائے گئے ہیں اور کانگریس کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے ان کے پاس اخلاقی جواز موجود ہے۔
رائے کا کہنا تھا کہ کئی لوگوں کو ان کے جرائم کے لیے جسمانی طور پر سزا دی جائے گی۔ جو چیز مبہم ہے وہ یہ کہ آیا ایسا کرنا انہیں دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے روکے گا یا نہیں۔
سائکولوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق میں 1500 شرکاء پر متعدد تجربے کیے گئے۔
تجربے میں شرکاء کو دوسروں کو سزا دینے کی مد میں مالی بونس ادا کیے گئے۔ لہٰذا جب انہیں ایسا کرنے کے لیے پیسے دیے گئے تو اس سے وہ سزا دینے کی جانب کم مائل ہوئے۔
رائے نے کہا مالی حصول شاید ان کے تصور کردہ اخلاقیات سے متصادم تھے۔ لوگ دوسروں کو سزا اس لیے دیتے ہیں تاکہ اپنی اچھائی دِکھا سکیں اور اس معاملے میں مالی ازالہ ممکنہ طور پر انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ ان کا ایسا کرنا انصاف کے بجائے لالچ پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجرمانہ اعمال کو روکنے کے لیے قانون سازوں کو سماجی دباؤ کو بھی قابو کرنا چاہیے۔
https://www.express.pk/story/2341687/9812/
نیویارک: غیر روایتی ذرائع توانائی میں جدید ترین اضافہ بیکٹیریا یا حیاتیاتی بیٹریوں کا ہوا ہے۔ اب تین کاغذی پرتوں پر مشتمل ایک بیکٹریر بیٹری تیار کی گئی ہے جو کسی دیکھ بھال کے بغیر ہفتوں بجلی بنا سکتی ہے۔
ہرپرت میں بیکٹیریا کی مختلف اقسام کو رکھ گیا ہے اور وہ بجلی بنانے کے لیے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ الیکٹران خارج کرتے ہیں۔
بنگھمٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سوئخوئن چوئی اور ان کے ساتھی ایک عرصے سے کاغذ پر بیکٹیریا سجا کر بجلی کی سعی کر رہے ہیں جس کا پھل آب ملنے لگا ہے۔ بیکٹیریا کو ماچس کی ڈبیا کی جسامت والے نظام یا کپڑوں پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا دھوپ کی موجودگی میں عملِ تنفس کے دوران بجلی بھی خارج کرتے ہیں اور ماحول سے اپنی غذا کشید کرتے رہتے ہیں جن میں لعاب اور پسینہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
لیکن یہ مشکل کام تھا جس کے لیے انسانی ہیماٹوپائیوٹک اسٹیم سیل کا گچھا لے کر اسے تبدیل کیا گیا اورایک نئی اسپیسر نِک ٹائی ٹیکنالوجی سے استعمال کی گئی۔ اوپر کی پرت میں ضیائی تالیف (فوٹو سنتھے سز) والے بیکٹیریا لیے گئے، یہ سورج سے توانائی بناتے ہیں اور نامیاتی سالمات (آرگینک مالیکیول) نیچے والے بیکٹیریا کو دیتے ہیں۔ درمیانی پرت کے بیکٹیریا کچھ کیمیائی اجزا بناتے ہیں جو آخری یا تیسری پرت تک جاتے ہیں اور یہاں بیکٹیریا صرف بجلی بناتے ہیں۔
پھر تین مربع سینٹی میٹرکی بایوبیکٹری نظام بنایا گیا۔ اس سے ہفتوں بجلی بنی جس کی معمولی مقدار دور دراز علاقوں میں چھوٹے سینسر کو چلاسکتی ہے۔ بجلی بڑھانے کے لیے بیٹری کی پرتیں اور جسامت بڑھائی جاسکتی ہیں۔
اگلے مرحلے میں مزید بہتر، واٹر پروف اور دیرپا بیٹریاں بنائی جائیں گی۔
https://www.express.pk/story/2340470/508/
مشی گن: اینیمیا یا خون میں فولاد کی کمی اس پروٹین کی ناکارگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو فولاد کو لاد کر سارے عضو تک پہنچاتا ہے۔ اب صنوبر کے درخت سے ملنے والا ایک سالمہ (مالیکیول) بعض اقسام کے اینیمیا میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ سالمہ نہ صرف جگر میں فولاد کے غیرمعمول ارتکاز کو کم کرسکتا ہے بلکہ خون کے سرخ خلیات اور اعضا تک ہیموگلوبن بھیجنے میں بھی مدد کرسکتا ہے۔
امریکا میں جامعہ مشی گن اور اٹلی کی موڈینا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ’ہینوکیٹیول‘ نامی ایک سالمہ دریافت کیا ہے جو شکستہ فیروپورٹن پروٹین کی جگہ لے کر فولاد کو ایک سے دوسرے مقام تک لے جاکر خون اور فولاد میں کمی کو پورا کرسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے اس ضمن میں چوہوں پرتجربات کئے تو اس کے امید افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ فولاد لے جانے والا فیروپورٹین پروٹین بعض جینیاتی کیفیات یا انفیکشن کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے اور یوں اینیمیا کا مستقل مرض لاحق ہوجاا ہے۔ جبکہ یہ فولاد جگر میں جمع ہوتارہتا ہے اور کئی امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
صنوبر کے درخت سے حاصل شدہ مالیکیول سے 2017 میں زیبرا فش میں اینیمیا کو بہتر بنایا گیا۔ بلاشبہ یہ نتائج حوصلہ افزا تھے جس کے بعد سائنسدانوں نے مزید تحقیق شروع کی۔
اس کے بعد ماہرین نے اینیمیا کے شکار چوہوں پر اسے آزمایا جس سے جگر کی حالت بہتر ہوئی اور خون کے سرخ خلیات کی پیداوار بڑھنا شروع ہوئی۔ اگرچہ یہ سوفیصد علاج تو نہیں لیکن اس کی افادیت بڑے پیمانے پر انسانی تجربات کے بعد ہی سامنے آسکیں گے۔
تاہم اب ماہرین ’ہینوکیٹیول‘ سالمے پر مزید تحقیقات کررہے ہیں تاکہ اس عمل کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔ تاہم کچھ انسانوں پر اس کی آزمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کئی اقسام کے اینیمیا کے شکار افراد میں اس سے افاقہ ہوسکتا ہے۔ دیگر ماہرین کے مطابق صنوبر کے درخت سے اس اہم مرض کو حل کرنے میں اہم پیشرفت ملے گی۔
https://www.express.pk/story/2340598/9812/
ایمسٹرڈیم: سائنس دانوں نے ایک ایسی ایٹمی لیزر تیار کی ہے جو ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے، یہ ایجاد اگلی جینریشن کی ٹیکنالوجی کے کمرشل استعمال کے نئے باب کھولے گی۔
یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے ایٹمی لیزر کے نظریے کے ایک ایسے مسئلے کو حل کرلیا جس نے 30 سالوں سے طبعیات دانوں کو الجھا کر رکھا تھا۔
عام آپٹیکل لیزر کے برعکس یہ ایٹمی لیزرایٹم کے بوز-آئنسٹائن کنڈینسیٹ (بی ای سی) نامی شے سے بنائی گئی ہے جو مادے کی شعائیں خارج کرتی ہیں۔
ان لیزرز کو بڑی مقدار میں توانائی اور اپنی حالت میں برقرار رہنے کے لیے انتہائی ٹھنڈے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فی الحال اس کو انتہائی قلیل مدت تک فعال رکھا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے سربراہ پروفیسر فلورین شریک کا کہنا تھا کہ پچھلے تجربوں میں ایٹموں کی بتدریج ٹھنڈک مکمل طور پر ایک ہی جگہ ہوئی تھی۔ اس سیٹ اپ میں محققین نے ایٹم کو ٹھنڈا کرنے کے عمل کو وقت کے بجائے مکان کے اعتبار سے پھیلایا گیا۔ آخر میں انتہائی ٹھنڈے ایٹم تجربے کے مرکز پر آئے جہاں بی ای سی میں ان کو مادے کی مربوط لہروں کی شکل دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ ایٹم استعمال کیے جارہے ہوتے ہیں، نئے ایٹم بی ای سی کو دوبارہ بھرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح سے یہ عمل جاری رہ سکتا ہے، ہمیشہ کے لیے۔
https://www.express.pk/story/2340094/508/
سِچوان: سائنس دانوں نے ایک مچھلی نما روبوٹ تیار کیا ہے جو پانی میں تیر کر مائیکرو پلاسٹک کو تیزی سے اکٹھا کرسکتا ہے۔
یہ چھوٹا سا مچھلی نما روبوٹ اپنے جسم اور دم کو ہلا کر پانی میں حرکت کرتا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سمندروں سے پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کی لمبائی آدھا انچ کے برابر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی دراڑوں اور ایسی جگہوں سے پلاسٹک کو اکٹھا کر سکتا ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
چین کی سِچوان یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی جانب سے بنائے جانے والے اس روبوٹ کی توانائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ نیئر انفراریڈ کی جھلکیوں سے حرکت کرتا ہے۔ ہمارے اطراف موجود روشنی نیئر انفراریڈ کا سب سے چھوٹا حصہ ہے۔
جب اس روبوٹ کی دم پر روشنی پڑتی ہے تو یہ پانی کی سطح سے نیچے کی جانب مڑ جاتی ہے اور جب روشنی پڑنا بند ہوتی ہے تو واپس اپنی جگہ پر آجاتی ہے، اس طرح روبوٹ پانی میں تیرتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔
محققین کے مطابق یہ روبوٹ اپنے سائز سے تین گُنا زیادہ کا فاصلہ ایک سیکنڈ میں طے کرسکتا ہے جو ایک سافٹ بحری روبوٹ کے لیے ریکارڈ ہے۔
جب یہ تیرتا ہے تو پولیسٹائرین مائیکرو پلاسٹکس اس کی سطح سے چپک جاتے ہیں اور یہ انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیتا ہے۔ یہ روبوٹ مستقبل میں سمندر سے اندازاً 24 ہزار ارب مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑوں کو نکالنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹیکساس: سائنسدانوں نے گرافین سے پرمشتمل ٹیٹو نما برقی اسٹیکر تیار کیا ہے جو طویل عرصے تک پہننے والے مریض کا فشارِ خون نوٹ کرکے بتاسکتا ہے۔
اس ای ٹیٹو نما اسٹیکر کو گرافین سے بنایا گیا ہے جو بلڈ پریشر کے متعلق مسلسل ڈیٹا فراہم کرسکتا ہے۔ اگرچہ بازو کے گرد لپیٹنے والی پٹی سے بلڈ پریشر لینا سب سے قابلِ اعتبار ہوتا ہے لیکن اس طرح صرف اسی وقت کی ریڈنگ حاصل ہوسکتی ہے۔ تاہم کئی مریض ایسے ہیں جن کا بلڈ پریشر بار بار معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
خون کے دباؤ پر مسلسل نظر رکھنے کے لیے فٹ بٹ، اور برقی گھڑیاں عام دستیاب ہیں لیکن اب بھی وہ نبض پر درست نظر رکھتی ہیں لیکن بلڈ پریشر کی درست ریڈنگ نہیں لے سکتیں۔ ماہرین ایک عرصے سے سادہ اور قابلِ اعتبار طریقے پر غورکرر ہے تھے جو اب گافین اسٹیکر کی صورت میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جلد پر چپکنے والے گرافین سینسر پر مشتمل ای ٹیٹو بنایا ہے ۔ یہ ہلکا پھلکا اور باریک ٹیٹو طویل عرصے تک جلد سے چپک سکتا ہے۔ اس کی اہم بات خون کا دباؤ ناپنے کا ایک بالکل نیا طریقہ ہے۔
اس طریقے میں سینسر کا ڈیٹا مشین لرننگ سے گزرتا ہے۔ سب سے پہلے سینسر سے جلد پر برقی سگنل بھیجے جاتے ہیں اور جلد کا ردِ عمل دیکھا جاتا ہے۔ طبی زبان میں اسے ’بایو امپیڈینس‘ کہتے ہیں جس سے بالراست طور پر بلڈ پریشر معلوم کیا جاسکتا ہے لیکن سافٹ ویئر کی مدد درکار ہوتی ہے۔
تجرباتی طور پر جب اسے کئی افراد کو لگایا گیا تو ایک ٹیٹو نے 300 منٹ تک بلڈ پریشر کامیابی سے نوٹ کیا گیا۔ اب انہیں مزید بہتر بناتے ہوئے تمام معیارات سے گزار کر مریضوں کے لئے مزید بہتر بنایا جائے گا۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ ایک گرافین ٹیٹو زیادہ لمبے عرصے تک کام کرسکے اور بلڈ پریشر کی درست پیمائش فراہم کرے۔
https://www.express.pk/story/2339517/
لندن: ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کینسر کی ایک دوا مستقبل میں دل کے دورے سے متاثر ہونے والے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کی جاسکے گی۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل میں چوہوں پر کیے جانے والے تجربوں میں یہ انکشاف ہوا کہ روزانہ کے ٹیکوں سے دل کا دورہ پڑنے کے بعد دل کو پہنچے والے ناقابلِ تلافی نقصان سے بچنے میں مدد ملی سکتی ہے۔
ایم ای کے اِنہیبیٹر نامی دوا نئی صحت مند خون کی شریانوں کی نشوونما بھی بڑھاتی ہے جو عموماً دل کے شدید دورے میں متاثر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہارٹ اٹیک میں دل کے پٹھے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
وہ مریض جنہیں عموماً خون کی شریانیں بند ہونے کی وجہ سے دل کا دورہ پڑتا ہے، ان کو حرکتِ قلب بند ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ خون کے بہاؤ میں کمی دل کے حصوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ دورہ پڑنے کے تھوڑی دیر بعد دوا دینے سے صحت مند خون کا بہاؤ برقرار رہ سکتا ہے اور اور یہ دل کو صحت مند رکھ سکتی ہے۔
جن چوہوں کو دل کے دورے کے بعد یہ دوا دی گئی ان میں 90 فی صد چوہے دو ہفتوں بعد بھی زندہ رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج انتہائی دلچسپ ہیں۔ محققین اس دوا کی کلینکل آزمائش آئندہ برس انسانوں پر شروع کرنا چاہتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2339460/9812/
کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے سانس کے ذریعے (ہیلی کوبیکٹر پائیلوری) یا ایچ پائیلوری کی تشخیص کا تیز ترین، سہل اور زیادہ مؤثر ٹیسٹ یوریا بریتھ (یوبی ٹی) انتہائی کم نرخوں پر متعارف کروا دیا ہے جس میں سانس کی بدولت انفیکشن شناخت کیا جاسکتا ہے۔
پہلے مرحلے میں ٹیسٹ کی سہولت ڈی یو ایچ ایس کی مرکزی لیبارٹری سمیت 51 مقامات پر دستیاب ہوگی، جبکہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان کے عوام بھی جلد ہی یہ ٹیسٹ کراسکیں گے جوان علاقوں میں 59 شاخوں کی صورت میں موجود ہیں۔
ٹیسٹ سے متعلق افتتاحی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان میں 80 فیصد آبادی ایچ پائیلوری سے متاثر ہے جس کے لیے مؤثر اور فوری نتائج کے حامل ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں تھی۔
ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ایچ پائیلوری کی بعض اقسام سے معدے کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور تاخیر سے تشخیص ہونے کے باعث ایچ پائیلوری کے انفیکشن سے معدے میں السر ہوجاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق چھوٹی آنت میں 90 فیصد سے زائد السر کی وجہ ایچ پائیلوری ہے اسی لیے اس کی تشخیص فوری اور سہل کرنے کی ضرورت تھی جبکہ یوریا بریتھ ٹیسٹ 98 فیصد مؤثر ہے۔
یوریا بریتھ ٹیسٹ میں استعمال مشین پوائنٹ آف کیئر (پی او سی ون) کی افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر کے علاوہ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زاہد اعظم، ڈائریکٹر کمرشل آپریشنز ڈاؤ لیب سلیم چوہان، چیف ایگزیکٹو آفیسر اوٹسوکا پاکستان حنیف ستار، بزنس یونٹ ہیڈ معین الرحمن، ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز طارق شاہد، پروڈکٹ مینیجر عمارہ ابوبکر، فیلڈ مینیجر سہیل حسین ودیگر بھی موجود تھے۔
پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس موقع پر کہا کہ ایچ پائیلوری کی تشخیص کے یوں تو ایک سے زائد طریقے موجود تھے جس میں خون اور فضلے کے ذریعے بھی اس کی تشخیص کی جاتی تھی۔ خون سے تشخیص کا طریقہ اب تقریباً غیر مؤثر ہوچکا ہے چونکہ پاکستان میں کھانے پینے کی عادات اور غیر صحت مند کھانے پینے کی اشیاء کے استعمال سے معدے کے امراض خصوصاً ایچ پائیلوری کے کیسز بڑھ رہے ہیں، اس لئے فوری تشخیص اور علاج ضروری ہے۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے اوٹسوکا پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حنیف ستار نے کہا کہ اوٹسوکا یوں تو نس کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہونے والی دوائیں بنانے کے حوالے سے معروف نام ہے، البتہ امراض کی تشخیص کی مشکلات کے پیشِ نظر اب مشینوں کی جانب بھی توجہ دی ہے اور دل کی شریانوں میں خون کی روانی میں رکاوٹ ختم کرنے کے لیے اسٹنٹ بھی متعارف کرائے ہیں۔
اس سے پہلے پی او سی ون مشین کے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ خون کے ذریعے ایچ پائیلوری کی تشخیص مؤثر نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ایک مرتبہ ایچ پائیلوری ہونے کے بعد علاج کے باوجود خون میں اس کے اثرات رہتے ہیں اس لیے خون کا ٹیسٹ اکثر مثبت آتا ہے اس کو ڈاکٹرز کی اصطلاح میں فالس پازیٹو کہا جاتا ہے۔ شرکا کو بتایا گیا کہ پی او سی ون مشین دنیا بھر میں 4065 مقامات پر نصب کی گئی ہے۔
پاکستان میں تمام بڑے شہروں میں نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز میں موجود ہے لیکن سرکاری شعبے میں پہلی مرتبہ پاکستان بھر میں ڈاؤ یونیورسٹی میں متعارف کروائی گئی ہے اس طریقے سے اس ٹیسٹ کی عام آ دمی تک پہنچ ممکن ہوجائے گی۔
انسانی فضلے کے ذریعے ایچ پائیلوری کی تشخیص مشکل اور غیر محفوظ ہے۔ نتائج کے حصول کے لئے 24 گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یوریا بریتھ ٹیسٹ سے 20 منٹ میں نتائج مل جاتے ہیں اور طریقہ بھی سادہ ہے جس میں صرف خالی بیگ میں سانس لینا پڑتا ہے کیونکہ ایچ پائیلوری انفیکشن میں جراثیم جسم میں موجود یوریا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کر دیتا ہے اور مشین آپ کے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ دکھاتی ہے۔
بریفنگ میں بتایاگیا کہ کئی دہائیوں سے ڈاکٹر زذہنی دباؤ، مرچ مصالحوں سے بھرپور کھانوں، تمباکو نوشی وغیرہ جیسی عادات کو معدے کے السر کی وجہ سمجھتے رہے لیکن 1982 میں سائنسی تحقیق میں ایچ پائیلوری کی دریافت سے پتہ چلا کہ معدے کے اکثر السر اس جرثومے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2339047/9812/
واشنگٹن: اب سے 44 برس قبل خلائے بسیط میں بھیجے جانے والے مشہور خلائی جہاز وائیجر اول اور دوم اب اپنی آخری ہچکی سے چند سال کی دوری پر رہ گئے ہیں اور ناسا کے ماہرین اس کے لیے تیار ہیں۔
1977ء میں 15 دن کی وقفوں سے دونوں خلائی جہازوں کو کیپ کناورل، امریکا سے خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اب تک انہیں زمین سے تاریخی دوری پر پہنچنے والے خلائی جہازوں کا اعزاز حاصل ہے۔ اہل زمین نے پہلی مرتبہ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کو قریب سے دیکھا اور قیمتی معلومات فراہم کی تھیں۔
اب وجہ یہ ہے کہ ایٹمی ایندھن پلوٹونیئم سے بجلی بنانے والا نظام اس قدرانحطاط پذیر ہوچکا ہے کہ اب جہازوں کے برقی آلات کو چلانا ممکن نہیں رہا اور غالب خیال ہے کہ 2025ء کے بعد یہ مکمل خاموش ہوجائے گا اور خود ناسا کے ماہرین اس کے لیے تیارہیں۔
اگرچہ اسے صرف پانچ برس تک کے لیے کارآمد بنایا گیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اب 44 سال بعد بھی یہ نظامِ شمسی کے کنارے سے سگنل اور تصاویر بھیج رہا ہے۔
اس ضمن میں ناسا کے ماہر ڈاکٹر رالف میک نٹ نے بتایا کہ یہ اپنی عمر سے 10 گنا زائد عرصے تک کام کرتا رہا ہے۔ اب اس کے نظام ایک ایک کرکے بند کیے جارہے ہیں۔ یعنی پر وائیجراول کے چار بڑے آلات میں سے ایک ہی چل رہا ہے اور وائجر دوم کے پانچ آلات ہی کارآمد رہ گئے ہیں۔
وائیجر اول 36 برس بعد نظامِ شمسی کے مشہور شمسی ہالے یعنی ہیلیواسفیئر سے گزرا اور تباہ ہوئے بغیر ہماری معلومات میں شاندار اضافہ کرگیا۔
وائیجر اول اس وقت زمین سے 23 ارب 30 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس دوری پر اس کا ایک سگنل زمین تک 20 گھنٹوں بعد پہنچتا ہے۔ وائیجر دوم اس وقت 12 ارب میل کے فاصلے پر ہے اور اس کے سگنل زمین تک 18 گھنٹے میں پہنچتے ہیں۔
ناسا کے مطابق ہم نے دونوں خلائی جہازوں کے کیمرے بند کردیئے ہیں کیونکہ تصاویر لینے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ ایک انتہائی تاریک مقام پر موجود ہیں۔
https://www.express.pk/story/2338462/508/
اسٹینفرڈ: انسانی جسم میں خاص مقامات تک دوا پہنچانے کے لیے لاکھ جتن کیے جارہے ہیں اور اب اس ضمن میں کاغذ موڑ کر دلچسپ اشکال بنانے والے جاپانی فن ’اوریگامی‘ کی طرز پر ایک روبوٹ بنایا گیا ہے جو رگوں میں دوڑتے ہوئے مخصوص مقام تک دوا پہنچا شفا بخش سکتا ہے۔
تجرباتی طور پر یہ زمین پر اور مختلف مائعات پر تیزی سے تیر سکتا ہے اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کئی برس سے اوریگامی طرز کے روبوٹ کی تیاری جاری ہے تاہم 7.8 ملی لیٹر جسامت والا یہ ملی روبوٹ خشکی پر بھی چل سکتا ہے اور اپنے اطراف میں مقناطیس سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کی خاص جیومیٹرائی شکل بھی اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے اور بہت جلد اسے انسانی جسم میں ادویہ پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا
نیچر کمیونی یکیشن میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ روبوٹ قدرے مختلف ہے جسے پولی پروپائلین کی باریک چادر سے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں ’کریسلنگ اوریگامی‘ تکنیک استعمال کی گئی ہے جس میں فولڈ شدہ تکونی اشکال کو اس طرح موڑا اور لپیٹا جاتا ہے کہ درمیان میں ایک گڑھا بن جاتا ہے اور پیندے میں انتہائی باریک مقناطیسی پلیٹ لگائی گئی ہے۔
اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود یہ پمپنگ کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی جسم میں دوا بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ روبوٹ گھماؤ (اسپننگ) کی وجہ سے ٹھوس اشیا جذب کرنے اور آگے پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ملی روبوٹ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے جسے ایک مردہ خنزیر پر آزمایا گیا تو یہ آنتوں تک پہنچا اور وہاں آزمائشی دوا بھی پہنچائی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے اینڈواسکوپی اور بایوپسی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2338503/9812/
ٹوکیو: ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹھ ماہ تک کے بچے بھی درست اور غلط کام کا ادراک رکھتے ہیں اور جب انہیں موقع ملتا ہے وہ اس کی سزا بھی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیرخوار بچے بھی اخلاقیات سے واقف ہوتے ہیں اور یوں معاشرتی اخلاق کی حس ہماری اندرونی جبلت میں موجود ہوتی ہے۔
اگرچہ انسان بگڑنے پرآجائے تو تاریخی غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے رحم دلی اور نیک طبعیت بھی مشہور ہے۔ اس ضمن میں جاپان کی اوساکا یونیورسٹی، اور اوٹسوما وومن یونیورسٹی نے دلچسپ تجربات سے ثابت کیا ہے کہ اخلاقی اقدار پیدائشی طور پر ہمارے دل و دماغ میں موجود ہوتے ہیں۔
اگرچہ چھوٹے بچے بول نہیں سکتے تو ان کے لیے ایک بہت سادہ ویڈیو گیم بنایا گیا۔ اس تجربے میں 8 ماہ کے 24 بچے لیے گئے۔ پہلے انہیں تربیت کے طور پر اسکرین پر دو چوکور ڈبے دکھائے جن پر آنکھیں بنی تھیں۔ بچوں کی آنکھوں کو بھی آئی ٹریسنگ ٹیکنالوجی سے دیکھا جارہا تھا۔ پھر اگر دو میں سے کسی ایک ڈبے پر بچے کی نگاہ کچھ دیر ٹھہرتی تو اس کے اوپر اسکرین سے ایک اور بڑا ڈبہ گرتا اور آنکھوں والے ڈبے کو پچکا دیتا تھا۔

اگلے مرحلے کا منظر کچھ پیچیدہ تھا۔ اس بار بچوں کو دکھایا گیا کہ آنکھوں والی ایک چوکور شکل کے ڈبے نے دوسے ڈبے کو خوامخواہ دبانا اور اسکرین کے کنارے تک دھکیلنا شروع کیا۔ بچے اس منظر کو دیکھتے رہے اور بار بار ایک ڈبے کی بدتمیزی کے بعد بچوں نے اپنا ردِ عمل طاہر کیا اور غلط کام کرنے والے ڈبے کو دیکھنا شروع کیا جس کے بعد نظر کو نوٹ کرنے والے سافٹ ویئر نے بدتمیز چوکور شکل پر اوپر سے ایک اور ڈبہ گراکر اسے پچکادیا۔ اس طرح بچوں نے غلط کام کرنے والے کو سزا دی۔
پورے تجربے میں 75 فیصد واقعات میں بچوں نے شرارتی ڈبے پر ایک اور چوکور شے گراکر انہیں سزا دی کیونکہ وہ غلط کام کررہے تھے۔ اسی عمل کو کئی اور طریقوں سے بھی آزمایا گیا اور یوں کئی مرتبہ بچوں نے شرارتی ڈبے کو سزا دی۔
اس تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ اخلاقی اقدار بالخصوص درست اور غلط کا ادراک ہماری جبلت میں موجود ہے جو ارتقائی عمل کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔
https://www.express.pk/story/2338549/508/
مانٹریال: ٓکاس بیل کی نسل کے پودے پر گوند بردار بیریوں میں موجود گوند کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ ان سے زخموں کو مندمل کرنے والا قدرتی مرہم بنایا جاسکتا ہے۔
اس پودے کو مسلٹو کہا جاتا ہے جو درختوں پر بطور طفیلیہ (پیراسائٹ) پیدا ہوتے ہیں اور اس چھوٹے سفید بیر اگتے ہیں۔ اس کے پھول کرسمس آرائش پر بھی کام آتے ہیں لیکن بیریوں میں موجود خاص گوند ’وِسکِن‘ کے نئے خواص دریافت ہوئے ہیں۔
جب پرندے یہ بیریاں کھاتے ہیں تو ان کے جسم پر بیج چپک جاتے ہیں جو مشکل سے ہی ہٹتے ہیں۔ اب مِک گِل یونیورسٹٰی کے پروفیسر میتھیو ہیرنگٹن نے جرمن ماہرین کے تعاون سے اس پر غور کیا تو اس میں باریک سہ ابعادی (تھری ڈائمینشنل) ساخت دکھائی دی۔
ماہرین نے اس کے ریشوں کو دھات، شیشے اور پلاسٹک پر لگایا تو وہ مضبوطی سے چپکے۔ پھرانکشاف ہوا کہ اگر اس گوند میں تھوڑٰی نمی بڑھائی جائے تو یہ پھیل جاتا ہے اور کمزورہوکر چپکنے کی صلاحیت کھودیتا ہے۔ ایک جانب تو اس کے چپکنے کی صلاحیت سامنے آئی تو دوسری جانب اس سے چھٹکارا پانے کا طریقہ بھی معلوم ہوا تو دوسری جانب یہ ہرطرح سے حیاتیاتی طور پر موزوں (بایو کمپیٹیبل) بھی ہے۔
اگلے مرحلے میں مسلٹو بیریوں کی گوند کو کچھ بدل کر جانوروں کے زخموں پر آزمایا گیا اور اس کی پتلی پرت کسی پٹی کی طرح زخم کے دونوں کناروں سے جڑگئی جس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ اگلے مرحلے میں اس پر مزید تحقیق کرکے اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2337949/9812/
ہیلسنکی، فن لیند: پہنی جانے والی ڈجیٹل اور الیکٹرونک طبی اشیا کی خبریں روزمرہ گردش کرتی رہتی ہیں لیکن اب فن لینڈ کے ماہرین نے ایک ایسا بے بی (جمپ) سوٹ بنایا ہے جو نہ صرف ان میں حرکات و سکنات (موٹر) کے انداز پر نظر رکھتا ہے بلکہ دماغی نشوونما کا خیال بھی رکھتا ہے۔
ہیلسنکی میں واقع بچوں کے ہسپتال کے ماہرین نے شیرخوار بچوں کی درست نشوونما کا پتا دینے والا ایک لباس بنایا ہے جسے ایم اے آئی جے یو یعنی موٹر اسیسمنٹ آف انفنٹس ود اے جمپ سوٹ کا نام دیاگیا ہے۔ اس میں کئی طرح کے حساس سینسر دیکھتے ہیں کہ بچے کی مختلف عضو کس طرح حرکت کررہے ہیں۔ اس طرح بچے کی دماغی نشوونما کا فوری طور پر اندازہ کرکےڈاکٹر طبی مداخلت کرسکتے ہیں۔
اس جمپ سوٹ کی بدولت 5 سے 19 ماہ تک کے بچوں کا جسمانی طبی جائزہ لیا جاسکتا ہے اور گھریلو ماحول میں خود والدین بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس کی تیاری میں پہلے نارمل بچوں کی سینکڑوں منٹ طویل ویڈیو بنائی گئی۔ اس میں ان کی نارمل حرکات اور نشوونما کی نشاندہی کی گئی۔ اس کے بعد سارا ڈیٹا ایک کمپیوٹر الگورتھم کے حوالے کیا گیا جس میں فی سیکنڈ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کا ریکارڈ دیکھا اور میچ کیا گیا۔ اس کے بعد ڈیپ لرننگ سے بھی مدد لی گئی۔

حیرت انگیز طور پر لباس نے بچوں کی نارمل اور معمول سے ہٹ کر حرکات و سکنات کو بہت درستگی سے نوٹ کیا۔ پھر اس بنیاد پر علاج کی تدابیر بھی وضع کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح بچے کی دماغی اور اعصابی نشوونما کا خیال رکھنے والا یہ ایک بہت اہم اختراعی طریقہ ہوگا۔
موٹر اور اعصابی کمزوری کے شکار بچوں کو شروع سے ہی بہت توجہ، علاج اور ورزش وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر یہ خامی شروع سے ہی معلوم کرلی جائے تو اس سے علاج میں بہت مدد ملے گی اور اس سے بچے کو فوری فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2337232/9812/
چاند پر پانی کی تصدیق ہوگئی
Jun 18, 2022 | 18:07:PM

بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) چینی سائنسدانوں نے چاند پر پانی کی تصدیق کر دی۔ ایکسپریس ٹربیون کے مطابق چینی اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں کی طرف سے چاند کی سطح پر چنگ اے 5نامی چاند گاڑی بھیجی گئی تھی جس کے جمع کردہ نمونوں سے چاند کی سطح پر ایچ ٹو او(H2O)یعنی پانی کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ چاند گاڑی دسمبر 2020ءمیں چاند کی سطح پر اتری تھی، جس نے چاند کی سطح سے1.7کلوگرام مٹی اور چٹانی ٹکڑوں کو جمع کیا اور چاند گاڑی میں موجود آلات کے ذریعے ہی اس مٹی اور چٹانی ٹکڑوں کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزئیے میں معلوم ہوا کہ چٹانی ٹکڑوں پر پانی کے لگ بھگ ’120پارٹس فی ملین‘ مالیکیولز موجود ہیں۔
کچھ چٹانی ٹکڑوں پر پانی کے مالیکیولز کی شرح 180پارٹس فی ملین بھی پائی گئی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹیلی سکوپ اور سٹیلائٹ کے ذریعے کیے گئے مشاہدوں سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ چاند پر پانی چٹانوں میں ہائیڈروکسل یا پھر ایچ ٹو او کی شکل میں پایا جاتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Jun-2022/1452443?fbclid=IwAR0Ui0WXJKuZ3I4fjaN3Q1oTC05xScWiJ7pYFJmOXronYEkhFpSB65uXD_c
ٹوکیو: نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کمپیوٹر ڈسپلے اور آنکھوں پر پہنے جانے والے ڈسپلے سے جو اعصابی و نفسیاتی تربیت دی جائے اس سے واقعی فائدہ ہوتا ہے اور ڈپریشن سمیت تناؤ کی شدت کم ہوتی ہے۔
اس سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ جب تک معالج سامنے نہ ہو تب تک اس کے فوائد بھرپور سامنے نہیں آتے۔
جاپان میں واقع توہوکا یونیورسٹی سے وابستہ ’عمررسیدگی تحقیقی مرکز‘ نے اس ضمن میں تحقیقی مقالہ انٹرنیشنل جرنل فار اینوائرمنٹ ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں شائع کرایا ہے۔
اگرچہ ورزش ہر ایک کے لیے مفید ہے لیکن ہر مریض اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا جن میں دل کے مریض اور ہسپتال کے بستر پر لیٹے افراد بھی شامل ہیں۔ اگر ان سے ورزش کرائی جائے تو الٹا صحت کے لیے مضر ہوسکتا ہے۔ تاہم اس موقع پر ’ایمرسو ورچوئل ریئلٹی (آئی وی آر) مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق فرسٹ پرسن کے طور پر کسی مجازی کردار یا اوتار کو ورزش کرتے ہوئے دیکھ کر خود دیکھنے والے پر بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے خواہ دیکھنے والا آرام سے ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔ لیکن اس سے بڑھ کر دماغی اور اکتسابی فوائد بھی سامنے آئے ہیں۔
اس کے بعد بالغ افراد میں باضابطہ طور پر اسے آزمایا گیا۔ ان میں ہر فرد کو ہفتے میں دو مرتبہ اور مسلسل چھ ہفتے تک 20 منٹ فی سیشن ورچوئل ورزش دکھائی گئی۔ بیٹھے بیٹھے بھی انہوں نے فرسٹ پرسن انداز میں ورزش دیکھی تو گمان کرنے لگے کہ وہ خود اس سرگرمی میں شریک ہے۔ یہ احساس دلانے کے لیے ورزش یا تربیتی سیشن کو بطورِ خاص اسی لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
مثلاً ایک ویڈیو میں ان کا نمائیندہ 30 منٹ تک 6 اعشاریہ 4 کلومیٹر دوڑا۔ اس تجربے سے پہلے اور بعد میں مصدقہ طریقے سے مریض میں نفسیاتی تناؤ کو نوٹ کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر مجازی سیشن کے بعد اصل مریض کے تناؤ میں کمی دیکھی گئی کہ گویا دیکھنے والے نے اصلی ورزش کی تھی۔
اس تحقیق سے ورچوئل ریئلٹی کی بدولت معالجے کی نئی راہ ہموار ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2337256/9812/
نیویارک: فالج کی صورت میں جریانِ خون کو روکنے کے لیے ایک باریک روبوٹ بنایا گیا ہے تو مقناطیسی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جانوروں پر جب اس کی آزمائش کی گئی تو 86 فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
نیچر کمیونکیشن میں شائع ایک مقالے میں پوردوا یونیورسٹی کے ہیوون لی اور ان کے ساتھیوں نے ایک خردبینی روبوٹ بنایاہے جو بالخصوص برین ہیمریج کی صورت میں جمع شدہ خون صاف کرسکتے ہیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ جب انہیں چھ سے سات جانوروں پر آزمایا گیا تو ان کے دماغ میں جما ہوا خون کامیابی سے صاف کرلیا گیا۔ ان میں کانٹے دار سہہ بھی شامل تھی۔
اس موقع پر ہیوون لی نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی فالج (اسٹروک) سے متاثر ہونے والے مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن بنتے ہوئے انہیں موت اور معذوری سے بچاسکتی ہے۔ دماغی رگ پھٹنے کی صورت میں جریانِ خون تیزی سے بڑھتا ہے اور مستقل معذوری یا موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔
فالج کی دو صورتیں ہیں جن میں ایک میں تو خون کا لوتھڑا کہیں پھنس کر دماغ کو خون اور آکسیجن کی فراہم رک جاتی ہے اور دوسری صورت میں خون کا دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس سے خون کی رگ پھٹ جاتی ہے اور دماغ میں خون جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
پہلی صورت میں خون پتلا کرنے کی دوا دی جاتی ہے جو کسی بھی طرح برین ہیمبرج میں استعمال نہیں ہوسکتی۔ ایسے مریضوں میں مرنے کا امکان 50 فیصد تک جاپہنچتا ہے اور اس کا کوئی مؤثر علاج اب تک ہمارے پاس موجود نہیں۔ بسا اوقات خون کا لوتھڑا گھلانے والی دوا ہی دی جاتی ہے۔
اس روبوٹ کو دور سے رہ کر مقناطیسی میدان سے چلایا جاسکتا ہے اور اس سے خون صاف کیا جاسکتا ہے۔ روبوٹ کسی قطب نما کی طرح گھومتا ہے اور یوں خون کے بہاؤ کا راستہ بناتا ہے۔ اگلے مرحلے میں اس کی ایف ڈی اے سے منظوری کی کوشش کی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2336779/9812/
پشاور: پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے تاریخی اعزاز حاصل کرلیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امراض قلب و گردوں کے مریضوں کو بنا کنٹراسٹ انجکشن انجیو پلاسٹی ممکن بنادی گئی۔
ترجمان پی آئی سی رفعت انجم کے مطابق ڈاکٹرز نے پہلی بار گردوں کے مرض میں مبتلا83 سالہ خاتون مریضہ کو بنا کنٹراسٹ انجکشن کے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کامیابی سے اسٹنٹ لگا دیا۔ انٹروینشل کارڈیالوجسٹ پی آئی سی ڈاکٹر قیصر علیم نے بتایا کہ انجیو گرافی اور اسٹنٹ لگانے کے دوران کنٹراسٹ دوائی کا استعمال لازمی ہوتا ہے۔ ایسے پروسیجرز کے دوران کنٹراسٹ انجکشن سے مریضوں کے گردے فیل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر قیصر علیم نے بتایا کہ گردوں کے پیچیدہ مریضوں کی انجیو گرافی،انجیو پلاسٹی اور بائی پاس کرنے سے ڈاکٹرز اکثر کتراتے ہیں ، تاہم پی آئی سی کے ماہرین ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم نے پہلی بار ملک میں یہ ممکن بنا ڈالا۔
https://www.express.pk/story/2336365/1/
میسا چوسٹس: ماہرینِ فلکیات نے زمین سے 33 نوری سال کے فاصلے پر ایک نیا متعدد سیاروں والا نظام دریافت کیا ہے۔
اس نظام میں، جو کہ اب دنیا کا سب سے قریبی سیاروی نظام ہے، دو سیارے HD 260655 نامی ایک ٹھنڈے ایم ڈوارف ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں۔
ایم ڈوارف ستارے ستاروں کی سب سے چھوٹی اور ٹھنڈی قسم ہے اور ہماری ملکی وے کہکشاں میں سب سے زیادہ یہی ستارے پائے جاتے ہیں۔
اس نظام اندر کی جانب موجود سیارہ اپنے مرکزی ستارے کے گرد 2.8 دنوں میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے اور یہ زمین سے 1.2 گُنا بڑا ہے اور معمولی سا زیادہ کثیف ہے۔ جبکہ باہر کی جانب موجود سیارہ HD 260655c ہر 5.7 دن میں اپنے ستارے کے گرد چکر مکمل کرتا ہے اور یہ زمین سے 1.5 گُنا بڑا ہے لیکن زمین کی نسبت کم کثیف ہے۔
بدقسمتی سے یہ سیارے زندگی کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ یہ سیارے اپنے مرکزی ستارے سے اتنی قربت پر گردش کرنے والے ان سیاروں کا درجہ حرارت اتنا بلند ہے کہ مائع پانی ان کی سطحوں پر نہیں رہ سکتا۔
چھوٹے مداروں کو دیکھتے ہوئے سائنس دانوں نے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اندرونی سیارے کا درجہ حرارت 436 ڈگری سیلسیئس جبکہ بیرونی سیارے کا درجہ حرارت 286 ڈگری سیلسیئس کے قریب ہے۔
تحقیق کے مرکزی سائنس دانوں میں سے ایک اور ایم آئی ٹی کے پوسٹ ڈاک مشیل کونیموٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس حد کو زندگی کے قابل ہونے سے باہر سمجھتے ہیں۔ سطح پر پانی کی موجودگی کے لیے یہ درجہ حرارت بہت گرم ہے۔
https://www.express.pk/story/2336644/508/
نیو یارک سٹی: ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ طرزِ زندگی میں تبدیلی سمیت وزن کم کرنے کی ادویات کے استعمال سے موٹاپے کا شکار افراد میں تین سے پانچ سال کے عرصے تک تقریباً 11 فی صد تک وزن میں کمی دیکھی گئی ہے۔
محققین کے مطابق وزن میں 10 فی صد سے زائد کمی صحت کے لیے بڑے فوائد رکھتی ہے۔
نیویارک کے وِیل کورنیل میڈیسن کے فیلو اور تحقیق کے مرکزی مصنف مائیکل اے وینٹراب کا کہنا تھا کہ اگر وزن کا کم ہونا جاری رہے تو ٹائپ 2 ذیا بیطس، امراضِ قلب اور دیگر امراض جن کا بنیادی سبب موٹاپا ہے میں ہونے والی میٹابولک خرابیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔
وِینڑاب کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسداد موٹاپا ادویات کے ساتھ طرزِ زندگی میں تبدیلی کے ساتھ وزن میں 10 فی صد سے زیادہ کمی جاسکتی ہے اور یہ کمی طویل مدت تک برقرار رہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق ڈاکٹروں کو مریضوں کے طویل مدت تک وزن میں کمی کے لیے کیے جانے علاج کو شکل دینے میں مدد دے گی۔
تحقیق میں ٹیم نے 428 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ پانچ سال تک جاری مطالعے میں شرکاء میں اوسطاً 10.7 فی صد وزن نوٹ کیا گیا۔
وینٹراب اور انکی ٹیم نے جورجیا میں منعقد ہونے والی سالانہ میٹنگ اینڈو 2022 میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے۔
واضح رہے محققین کی جانب سے استعمال کرائی گئی زیادہ تر ادوایت امریکا کی فیڈرل ڈرگ اتھارٹی سے منظور شدہ تھیں۔
https://www.express.pk/story/2335781/9812/
شیکاگو: ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہنسانے والی گیس فائبرومیالگیا نامی تکلیف کا علاج کرنے کا ایک نیا ممکنہ طریقہ ہو سکتا ہے۔
فائبرومیالگیا نامی اس تکلیف میں مریض کے پورے جسم میں درد، پٹھوں کا اکڑنا، نیند میں مشکل، سر میں درد اور ڈپریشن سمیت دیگر ذہنی مسائل میں مبتلا ہونا شامل ہے۔
تاہم اس حالت کا سبب کیا وجہ بنتی ہے یہ تاحال نامعلوم ہے۔ کئی معاملات میں فائبرومیالگیا کا سبب جسمانی و ذہنی دباؤ جیسے کہ انفیکشن، حادثہ یا کوئی صدمہ ہوسکتا ہے۔ اس حالت کا علاج مشکل ہوتا ہے کیوں کہ مریض اس کو مختلف طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔
اس تکلیف کے موجودہ علاج میں درد کش ادویات اور اینٹی ڈپریسنٹ شامل ہیں۔ لیکن اب محققین کا ماننا ہے کہ ہنسانے والی گیس بھی اس کے علاج کا ایک اور طریقہ ہوسکتا ہے۔ یہ گیس اپنے نشہ آور اثرات کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہے۔
عمومی طور پر یہ گیس دندان ساز استعمال کرتے ہیں۔ یہ گیس درد کو راحت پہنچانے والے قدرتی کیمکلز جیسے کہ ڈوپیمائن اور اینڈروفِنز کو خارج کرتی ہے اور غشی طاری کرتے ہوئے درد میں کمی لاتی ہے۔
امریکا کی یونیورسٹی آف شیکاگو میں کی جانے والی آزمائش میں محققین نے گلوٹیمیٹ کے بننے کے خلاف اس گیس کو استعمال کیا۔ گلوٹیمیٹ کا بننا تکلیف میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔
فائبرومیالگیا کے مریضوں میں اِنسولا کے مقام پر بڑے پیمانے پر گلوٹیمیٹ پائے گئے۔ یہ جگہ دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو درد اور جذبات کے عمل پذیر ہونے میں ملوث ہوتا ہے۔
50 کے قریب مریضوں نے ہنسانے کی گیس (نائٹرس آکسائیڈ) اور آکسیجن یا ایک فرضی دوا 60 منٹ تک سانس کے ذریعے اندر لی اور محققین نے اگلے چند ماہ تک اس کے درد، پریشانی، ڈپریشن اور مزاج پر اثرات پر نظر رکھی، تو ان مریضوں کی طبیعت میں بہتری نظر آئی۔
https://www.express.pk/story/2335821/9812/
نیویارک: ایک قدرے نئی الٹراساؤنڈ ٹیکنالوجی سے پروسٹیٹ کینسر کے علاج میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ فیز ٹو کی طبی آزمائش کے دوران مریضوں پر منفی ذیلی اثرات (سائیڈ افیکٹس) نہ ہونے کے برابر تھے۔
مین ہٹن میں واقع میموریئل سلون کیٹرنگ کینسر سینٹر (ایم ایس کے) سے وابستہ ماہرین نے ہائی انٹینسٹی فوکسڈ الٹراساؤنڈ (ایچ آئی ایف یو) تکنیک استعمال کی ہے جس سے کئی افراد کو فائدہ ہوا ہے۔ اس طریقے سے مریضوں میں پروسٹیٹ کینسر کے مزید پھیلاؤ کو روکنے اور سائیڈ افیکٹس کی کمی بھی سامنے آئی ہے۔
14 جون 2022 کو شائع تحقیق میں پروفیسر بیہفر ایہڈال اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ روایتی طریقہ علاج سے مریضوں میں جنسی مسائل کے ساتھ ساتھ پیشاب کا پورا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ لیکن ایچ آئی ایف یو میں ایسا نہیں ہوتا اور مریض ضمنی اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔
اس عمل میں مریض کو ایم آر آئی مشین میں رکھا جاتا ہے اور اسی عکس نگاری سے پروسٹٰیٹ سرطان کے مقام کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ پھر سرطانی جگہ پر فوکسڈ الٹراساؤنڈ ڈالی جاتی ہے۔ اس عمل میں سرطانی خلیات کو 70 درجے فیرن ہائٹ پر گرم کرکے انہیں تباہ کیا جاتا ہے۔ ایم آر آئی کی بدولت مختلف زاویوں سے انہیں تلف کیا جاتا ہے۔
اب تک کہا جاسکتا ہے کہ یہ عمل مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے کئی مریضوں پرآزمایا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2336121/9812/
کیمبرج: ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ گرم دماغ ہوتی ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیور بائیولوجی کی ایم آر سی لیبارٹری کے محققین کو ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ خواتین کا دماغ مردوں کی نسبت 0.4 ڈگری سیلسیئس زیادہ گرم ہوتا ہے۔
تحقیق میں محققین نے بتایا کہ دماغ کے زیادہ درجہ حرارت میں یہ فرق ممکنہ طور پر خواتین کے مخصوص ایام کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
جرنل برین میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے 20 سے 40 سال کے درمیان 40 رضا کاروں کا انتخاب کیا۔ مطالعے میں ایڈنبرگ کے رائل انفرمری میں ان رضاکاروں کے دماغوں کو ایک دن کے وقفے سے صبح، دوپہر اور شام کے آخر حصے میں اسکین کیا گیا۔
صحت مند انسانی دماغ کے درجہ حرارت کی پہلی چار جہتی تصویر بنانے والے محققین نے تحقیق میں دیکھا کہ انسانی دماغ کا اوسط درجہ حرارت جو پہلے 38.5 ڈگری سیلسیئس خیال کیا جاتا تھا اب اس سے زیادہ تھا۔لیکن دماغ کی ساخت کی گہرائی میں درجہ حرارت تواتر کے ساتھ 40 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ پایا گیا۔ مشاہدے میں آنے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت 40.9 ڈگری سیلسیئس تھا۔
جسم کے دوسرے کسی حصے میں اس درجہ حرارت کا ہونا عموماً بخار کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ دماغ کے صحت مند ہونے کی نشانی ہو سکتی ہے۔
سائنس دانوں نے تحقیق میں 20 برس سے زیادہ کے شرکاء میں درجہ حرارت میں اضافے کو بھی دیکھا۔ یہ اضافہ دماغ کے اندر کے حصے میں دیکھا گیا جہاں اوسط اضافہ 0.6 ڈگری سیلسیئس تھا۔
محققین کا خیال ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2335276/508/
لاس اینجس: اگرآپ زیورات ڈیزائن کرتے ہیں یا صنعت کے لیے پرزے ڈھالتے ہیں تو صنعتی معیارات کے ساتھ دنیا کا حساس اور درست ترین تھری ڈی اسکینر آپ کے لیے ہی تیار کیا گیا ہے۔
اسے ریووپوائنٹ تھری ڈی منی کا نام دیا گیا ہے جو 0.02 ملی میٹر درستگی سے باریک ترین اشیا کی درست ترین اسکیننگ کرکے اسے اسکرین پر تھری ڈی ماڈل میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح صرف 0.05 ملی میٹر دوری سے بھی یہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور دس فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے برق رفتاری سے کسی بھی ٹھوس شے کو اسکین کرسکتا ہے۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کا وزن صرف 160 گرام ہے اور یوں اسے تھامنا اور گھمانا بہت ہی آسان ہے۔ 2021 میں اسکینر کی روداد کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ پر چلائی گئی تھی۔ اس میں کئی لوگوں نے دلچسپی لے کر سرمایہ کاری کی تھی۔

اس اہم ٹیکنالوجی کی افادیت وہ ماہرین بخوبی جان سکتے ہیں جو تھری ڈی ماڈلنگ جیسا مشکل کام کرتے ہیں اور انہیں کوئی ماڈل یا نمونہ بنانے میں تھکادینے والی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں ڈیزائنر، انجینیئر، سائنسی محقق اور دیگر افراد شامل ہیں۔ پھر ریورس انجینیئرنگ کے لئے بھی تھری ڈی اسکیننگ بہت ضروری ہوتی ہے۔
دوسری جانب دانتوں کے ڈیزائن اور طبی آلات اور پیوند کے کے لئے بھی تھری ڈی ماڈلنگ لازمی ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ صرف منٹوں میں ایک پوری تھری ڈی دنیا بنائی جاسکتی ہے اور ماڈلنگ کا عمل دس گنا تیز بنایا جاسکتا ہے۔ اسکیننگ کے بعد ایپ میں موجود کوالٹی کنٹرول فیچر اس کی تمام خامیوں کو دور کرتا رہتا ہے۔ اسکیننگ کے لیے نیلی لائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کسی طرح بھی نقصان نہیں پہنچاتی۔
اسکیننگ کے لیے دستی اسٹیبلائزر غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے جو کسی بھی طرح دھندلاہٹ کی وجہ نہیں بنتا۔ اسے آسانی سے کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس پر مزید کام کرنے لئے ریوو اسٹوڈیو ایک سافٹ ویئر کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں موجود ٹولز اسکیننگ کے عمل کی مزید ایڈیٹنگ کرسکتے ہیں۔
اگست 2022 میں اسے دنیا بھر میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا اور اس کی قیمت 436 ڈالر رکھی گئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2335361/508/
سان ڈیاگو: پلاسٹک کا کچرا دنیا تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور یہ ان جگہوں پر بھی پایا گیا ہے جہاں باقی دنیا کی نسبت آبادی بہت کم ہوتی ہے جیسے کہ انٹارکٹیکا وغیرہ۔
ماحولیات کے لیے شدید خطرے کا باعث بننے والے اس عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے سائنس دان ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے نئے راستے تلاش کرتے ہوئے حتی الامکان کوششیں کر رہے ہیں۔
تاہم، سائنس دان اب اس بیکٹیریا پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں جو سمندر میں تیرتے پلاسٹک پر ہوتا ہے اور اینٹی بائیوٹکس کی فراہمی کا ایک نیا ذریعہ بن سکتا ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم نیشنل یونیورسٹی کے محققین نے سمندر میں تیرتے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر موجود اینٹی بائیوٹک بنانے والے پانچ بیکٹریا کو علیحدہ کیا اور ان کی متعدد بیکٹریل اہداف کے خلاف آزمائش کی۔
محققین نے دیکھا کہ یہ اینٹی بائیوٹکس عام بیکٹیریا کے ساتھ اینٹی بیکٹیریا کی مزاحمت کرنے والے سُپر بگ کے خلاف بھی مؤثر تھے۔ سپربگ بیماریاں پھیلانے والے ان بیکٹیریا کو کہتے ہیں جو بہت کم ادویہ سے ختم ہوتے ہیں اور ان کی ادویہ سے مزاحمت بڑھ کر جان لیوا ہوچکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50 سے 1 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے۔جس میں پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹکس تک شامل ہوتے ہیں۔
حیاتیات اس پلاسٹک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے لیے پورا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔
جہاں اس بات کے تحفظات ہیں کہ پلاسٹک کے اوپر اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بن سکتے ہیں وہیں کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو نئی اینٹی بائیوٹکس بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
یہ اینٹی بائیوٹکس مستقبل میں سپر بگ جیسے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2335303/508/
کیلیفورنیا: ایک سو سال سے زائد عرصے سے استعمال ہونے والے جادوئی دوا ایسپرین کا ایک اور فائدہ سامنے آیا ہے کہ یہ بڑی آنت کے سرطان کے خاتمے میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔
ایسپرین کینسر خلیات (سیل) کو بڑھنے سے روکتی ہے اور انہیں قدرتی طور پر اس عمل کی جانب دوبارہ دھکیلتی ہے جسے سیل ڈیتھ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی خلیہ اس عمل سے باہر ہوجائے تو بے ہنگم انداز میں رسولی بن جاتے ہیں اور سرطان کو بڑھاتے ہیں۔
اس عمل میں ایسپرین کا استعمال بالخصوص معدے اور آنتوں کے سرطان میں نہایت مثبت دیکھا گیا ہے جو سرطانی خلیات کے پھیلاؤ کو بھی روک سکتی ہے۔
جامعہ کیلیفورنیا سے وابستہ عوامی صحت کے ماہر ڈاکٹر ڈومینک ووڈرز نے کہا ہے کہ ’ایسپرین سرطانی خلیات کے ارتقا کو روکتی ہے اور انہیں کی شرح پیدائش اور موت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ ایک جانب یہ خلوی موت کو بڑھاتی ہے تو دوسری جانب سرطانی رسولیوں کو پھیلنے سے بھی روکتی ہے۔
تحقیق سے وابستہ ایک اور سائنسدان، نتالیہ کوماروفا کہتی ہیں کہ ایسپرین شاید ڈارون کے نظریہ ارتقا کی عین روشنی میں کام کرتے ہوئے سرطانی خلیات کو بدن کے لیے ناموزوں اور نقصاندہ بننے سے روکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالخصوص بڑی آنت کے سرطان کی رفتار سست ہوجاتی ہے جبکہ ابتداسے ہی خلیے کو سرطانی روپ بدلنے سے بھی باز رکھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسپرین کا کردار بہت دلچسپ ہے۔
اس ضمن میں جینیاتی کیفیت کے شکار کئی افراد کو بھرتی کیا گیا جو لنچ سنڈروم کے تحت کئی اقسام کے سرطان میں مبتلا ہوسکتے تھے۔ انہیں دوگروہوں میں بانٹ کر ایک کو دو برس تک روزانہ 600 ملی گرام ایسپرین دی گئی تو دو سال بعد معلوم ہوا کہ اس سے خصوصاً بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ 63 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ دیگر شواہد اور تحقیقات بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اس سے ایسپرین کے دیگر فوائد میں سے ایک اور فائدہ کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔
https://www.express.pk/story/2334855/9812/
نئی دہلی: انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ذیابیطس پر تحقیقی اداروں کے تعاون سے تھری ڈی پرنٹر پر ایسے جوتے بنائے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کے پیروں کی حفاظت کرتے ہوئے طبی مسائل کو روکتے ہیں۔
روایتی جوتوں کے برعکس ایسے سینڈل بنائے گئے ہیں جو ہر مریض کے پیر کی ساخت اور چلنے کے انداز کے تحت ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ اس طرح مریض کا پیر سیدھا رہتا ہے اور وہ چلتے وقت متوازن رہتا ہے۔ اس طرح زخم مندمل ہونے کا عمل بھی تیزتر ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کے پیر میں جب رگوں تک خون نہیں پہنچ پاتا تو وہ احساس کھونے لگتے ہیں۔ اس عمل کو طب کی زبان میں ’ڈائبیٹک پیرفرل نیوروپیتھی‘ کہا جاتا ہے۔ عام احساس کے تحت ہم پہلے ایڑھی زمین پر رکھتے ہیں لیکن پیر کے تلوے بے حس ہونے سے یہ ترتیب بگڑ جاتی ہے اور پیروں پر زخم، اور چوٹ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پھر ذیابیطس میں اس مقام کا زخم بہت مشکل سے درست ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پیر رکھنے اور اٹھانے کا انداز بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی جوتے اس عمل کے لیے کارآمد نہیں اور نئے جوتے اس مسئلے کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سینڈل نما جوتے کی شکل ایسے ڈھالی گئی ہے کہ جب ایک سانچے کے باہر غلط انداز میں قدم رکھا جاتا ہے تو دباؤ کے تحت اس کا مکینزم دوبارہ اصل شکل پر لوٹ کر پیر کو بھی ترتیب میں رکھتا ہے اور یوں چلنے کا انداز نارمل ہی رہتا ہے۔
تاہم ہر شخص کے وزن، پیر کی ساخت، چلنے کے انداز اور دباؤ کو دیکھتے ہوئے ہی جوتا بنایا جاتا ہے۔ اس طرح مریض کو چلنے میں بہت آسانی رہتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جوتوں کی تیاری بہت کم خرچ ہے کیونکہ اس میں ایکچوایٹر اور سینسر نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ماہرین نے اسے شکل یاد رکھنے والا جوتا قرار دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2335318/9812/
مشیگن: ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ درمیانی عمر کی وہ خواتین جن کے خون میں زہریلے ’فارایور کیمیکلز‘ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ان کے بلند فشار خون میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فارایور کیمیکلز کو PFAS کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کا پر اور پولی فلورو الکائل مرکبات۔
امیریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے جرنل ہائپرٹینشن میں پیر کو شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جن میں ان کیمیکلز کی مقدار زیادہ تھی ان کے کم مقدار کی متحمل خواتین کی نسبت بلند فشار خون میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
ہوائی جہاز کے ایندھن، آگ بجھانے والے فوم اور خارج ہونے والے صنعتی زہریلے مواد میں موجود یہ خطرناک مرکب دراصل کئی کیمیکلز کا مرکب ہوتا ہے جو متعدد گھریلو اشیاء میں پایا جاتا ہے جن میں نان اسٹک پین، واٹر پروف ملبوسات اور کاسمیٹکس شامل ہیں۔
یورنیوسٹی آف مشیگن کے اسکول آف ہیلتھ کے پوسٹ ڈاک فیلو نِنگ ڈنگ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ PFAS فار ایور کیمیکلز کے طور پر جانے جاتے ہیں کیوں کہ یہ ماحول میں کبھی ختم نہیں ہوتے اور پینے کے پانی، مٹی، ہوا، غذا اور ہماری روز مرّہ کی استعمال کی اشیاء کو آلودہ کرتے ہیں۔
ڈِنگ کا مزید کہنا تھا کہ بالخصوص خواتین ان کیمیکلز کا زیادہ آسان ہدف ہیں۔
ابھی تک سائنس دانوں نے اس ’فار ایور کیمیکلز‘ اور زیادہ کولیسٹرول، مختلف اقسام کے کینسر اور بلند فشار خون کے درمیان ممکنہ تعلق دِکھایا ہے۔
تازہ ترین تحقیق نے خواتین کو لاحق خطرات میں بلند فشار خون کا اضافہ کیا۔
https://www.express.pk/story/2335366/9812/
وِسکونسِن: امیریکن سوسائیٹی برائے میٹابولک اور بیریاٹرک سرجری کی سالانہ میٹنگ کے موقع پر پیش کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزن کم کروانے کے لیے کی جانے سرجری کے نتیجے میں موٹاپے کا شکار افراد میں کینسر لاحق ہونے کے خطرات تقریباً 50 فی صد تک کم ہوجاتے ہیں۔
امریکی ریاست وِسکونسِن میں قائم گُنڈرسن لوتھرن ہیلتھ کیئر سسٹم کے محققین نے 3776 موٹاپے کا شکار بالغ العمر افراد کا مطالعہ کیا۔ ان افراد میں سے 1620 افراد نے وزن گھٹانے کے لیے سرجری کا سہارا لیا۔
محققین کی جانب سے ان تمام افراد کا مطالعہ 10 سال سے زائد عرصے تک کیا تاکہ سرجری کرانے والے اور نہ کرانے والوں کے درمیان کینسر کی شرح کا موازنہ کیا جاسکے۔
تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا کہ وزن گھٹانے کی سرجری کا سرطان لاحق ہونے کے خطرات کم ہونے ہوجانے سے اہم تعلق تھا۔ موٹاپے کا شکار افراد کو کینسر لاحق ہونے کے خطرات دُگنے ہوتے ہیں جبکہ اس بات کے تین گُنا زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ ان کی موت اس بیماری سے واقع ہو، ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے وزن کم کرانے کی سرجری کرالی ہوتی ہے۔
بالخصوص وزن گھٹانے کی سرجری کا اہم تعلق چھاتی کے سرطان، گردوں کے سرطان، تھائرائیڈ کینسر، گائینیکولوجک کینسر، پھیپھڑوں کے کینسر اور دماغ کے کینسر کے امکانات میں کمی سے پایا گیا۔
تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر جیریڈ آر مِلر کے مطابق گزشتہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزن کم کرنے کی سرجری کا تعلق کنسر لاحق ہونے کے خطرات میں کمی سے ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزن کم کرنے کے لیے کرائی جانے والی سرجری کے ذریعے کینسر کے خطرات میں کمی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور موٹاپے کا شکار افراد کو کینسر کے خطرے سے دوچار سمجھنا چاہیئے۔
https://www.express.pk/story/2334516/9812/
واشنگٹن: اسپیئر یو اے وی نامی کمپنی نے ایک انوکھا ڈرون بنایا ہے جو سمندر کی گہرائی میں موجود آبدوز سے لانچ ہوتا ہے اور پہلے ہوا بند کیپسول میں سطح تک پہنچتا ہے اور وہاں سے پرواز کرکے آبدوز کے عملے کو فضا کی صورتحال سے آگاہ کرسکتا ہے۔
تمام تر خوبیوں کے باوجود آبدوز سمندر کے اوپر کی صورتحال جاننے سے قاصر رہتی ہیں جو کئی مرتبہ بہت خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ اب اسپیئر یو اے وی کمپنی نے کئی ڈرون بنائے ہیں جن میں نائنوکس 103 سب سے جدید ایجاد ہے۔ یہ آبدوز سے لانچ ہونے کے بعد 45 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے اور 10 کلومیٹر علاقے کی جاسوسی کرسکتا ہے۔
نائنوکس 103 کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خاموش ڈرون ہے جس کے تھرمل اور بصری اشارے بھی زیادہ واضح نہیں ہوتے۔ اس میں بصری انفراریڈ سینسر کے علاوہ ہدف کی نشاندہی کرنے والا خودکار نظام بھی موجود ہے جس میں مصنوعی ذہانت اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا مواصلاتی نظام بھی مکمل طور پر خفیہ بنایا گیا ہے۔
اسی کمپنی نے توپ کی نال سے فائر ہونے والے ڈرون بھی بنائے ہیں جو تیزی سے باہر نکل کر کھل جاتے ہیں اور اسی دوران پرواز کرنا شروع کردیتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2334756/508/
ٹوکیو: سائنسدانوں استعمال شدہ چائے کی پتی اور کافی کی باقیات سے ایک اہم کیمیکل ہائیڈروجن پرآکسائیڈ بنانے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا ہے۔ اسطرح بہت سہل اور ماحول دوست انداز میں یہ اہم کیمیکل بنایا جاسکے گا۔
ہائیڈروجن پرآکسائیڈ (H2O2) ایک مفید تجارتی کیمیکل ہے جسے کئی صنعتوں اور کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی انداز میں اسے بنانا مشکل اور مہنگا عمل ہوتا ہے جس کے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
ٹوکیویونیورسٹی آف سائنس اور نارا وومن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے چائے اور کافی کی باقیات میں خاص پولی فینولز کا انکشاف کیا ہے جنہیں تبدیل کرکے ہائیڈروجن پرآکسائیڈ میں بدلا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے چائے کی پتی اور کافی کی باقیات سے ہائیڈروجن پرآکسائیڈ تیار کی ہے جنہیں دوسری صورت میں پھینکا جاتا ہے یا بہت معمولی کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین نے کافی اور چائے کے بچے ہوئے کچرے کو سوڈیم فاسفیٹ کے عمل سے گزارا۔ پھر اسے انکیوبیٹر میں رکھا اور آؒخر میں اس پر سے آکسیجن گزاری گئی تو حاصل ہونے والا کیمیکل ہائیڈروجن پرآکسائیڈ تھا۔
دلچسپ بات یہ ہےکہ اس عمل سے بننےوالا ہائیڈروجن پرآکسائیڈ دیگر کیمیکل کی تیاری میں مددگار بنا۔ سائنسدانوں نے اس پر ایک خامرہ (اینزائم) شامل کیا تو وہ اسٹائرین کے مالیکیول سے ملک کر اسٹائرین آکسائیڈ میں بدل گیا۔ اسٹائرین آکسائیڈ کو دواسازی میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر چائے اور کافی سے تیار ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ماحول دوست اور ارزاں ہے۔ روایتی طریقے سے تیاری میں اس پر بہت خرچ آتا ہے اور بہت سارا ماحول دشمن فالتو مواد بھی پیدا ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ اس طرح ایک جانب تو چائے اور کافی کی باقیات کو ٹھکانہ لگانے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب سبزٹیکنالوجی سے ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کی بڑے پیمانے پر تیاری کی راہ کھلے گی۔
https://www.express.pk/story/2334892/508/
ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری، جامعہ کراچی کے ایک پی ایچ ڈی طالب علم دائم آصف راجہ نے حال ہی میں امریکن کیمیکل سوسائٹی کی ٹریول گرانٹ اور قطر کے شہر دوحہ میں امریکن کیمیکل سوسائٹی کے تحت منعقدہ ایک ریسرچ کانفرنس کے پوسٹر مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے ترجمان نے پیر کو کہا ہے کہ طالب علم دائم آصف ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹر عمران ملک کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ترجمان کے مطابق ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اس ہونہار طالب علم نے 250 پوسٹرز پریزینٹیشن کے درمیان تیسری پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ اس عالمی کانفرنس میں پوری دنیا سے 800 افراد شرکت کر رہے تھے۔ ترجمان کے مطابق امریکن کیمیکل سوسائٹی کی صدر اینجیلا کے ولسن نے کامیاب طالب علموں کو انعامات پیش کیے جبکہ اس موقع پر 2016 کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر فریزر اسٹوڈرٹ بھی موجود تھے۔
علی دائم کے پوسٹر کا عنوان ’پولی ایتھائلینیمائن، اسٹیبلائزڈ سلور نینو پارٹٰیکلز کو پرمیتھیزائن کے لیے بطور کیلوریمیٹرک ایسے‘ کا استعمال تھا۔
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے دائم آصف کو اُن کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی دراصل پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیت کا اعتراف ہے جبکہ آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی میں باصلاحیت اور قابل نوجوان اسکالروں کی موجودگی ادارے کے لیے قابلِ فخر ہے۔
شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون اور سرپرستِ اعلیٰ بین الاقوامی مرکز اور سابق وفاقی وزیر برائے سائینس اور ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے بھی ہونہار طالب علم کو اس کی میا بی پر مبارکباد دی ہے۔
https://www.express.pk/story/2335236/508/
ٹیکساس: اگرچہ سرطان کی کئی اقسام ہیں جن میں سے کچھ اب بھی دائرہ علاج سے باہر ہیں۔ اب ڈیلاس میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدانوں نے ایک بالکل نیا مالیکیول دریافت کیا ہے جو کئی طرح کے ایسے سرطان کا علاج کرسکتا ہے جو کسی طرح بھی دائرہ علاج میں نہیں آتے۔
نیچر کینسر میں شائع رپورٹ کے مطابق نیا سالمہ (مالیکیول) کئی طرح کی انتہائی لاعلاج سرطانی رسولیوں کو تیزی سے تلف کرتا ہے جن میں ٹرپل نگیٹیوو بریسٹ کینسر بھی شامل ہے۔ تاہم یہ تحقیق تجربہ گاہ میں رکھے انسانی سرطانی خلیات اور سرطان میں مبتلا چوہوں پر کی گئی ہے۔
شعبہ بایوکیمسٹری سے وابستہ ڈاکٹر جونگ مو آہن اور ان کے ساتھیوں نے کئی طرح کے مالیکیول ڈیزائن کرکے انہیں آزمایا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ’اسٹرکچر بیسڈ ریشنل ڈرگ ڈیزائن‘ کہلاتی ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر جونگ بریسٹ کینسر اور پروسٹیٹ کینسر تباہ کرنے والے مالیکیول بھی بنا چکے ہیں۔
اس مالیکیول کو ای آر ایکس 41 کا نام دیا گیا ہے جو بالخصوص بریسٹ کینسر کی ایک قسم ٹرپل نگیٹو چھاتی کے سرطان (ٹی این بی سی) کے خلاف مؤثر ثابت ہوا ہے۔ یہ کمپاؤنڈ (مرکب) تندرست خلیات کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ سرطانی خلیات کو صاف کرتا ہے خواہ وہ کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ٹرپل نگیٹو بریسٹ کینسر کا بھی دشمن ہے۔
تجرباتی طور پر چوہوں اور چوہیوں میں انسانی سرطان متعارف کرایا گیا جس کے سرطانی پھوڑوں کو ای آر ایکس 41 کی بدولت چھوٹا ہوتے دیکھا گیا ہے اور اس کے کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔
اگلے مرحلے میں ای آر ایکس 41 کے مزید تجربات کیے جائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2333927/9812/
بیجنگ: سائنس دانوں نے ایسی بیٹری تیار کی ہے جو نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت پر کام کرسکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین میں کیمیکل انجینیئرز کی جانب سے شائع کیے جانے والے مقالے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے لیتھیئم آئن بیٹریوں کو منفی 35 ڈگری سیلسیئس تک کے کم درجہ حرارت میں چلایا۔
اس اقسام کی بیٹریاں دو برقی طور پر چارجڈ پلیٹس کی ’پازیٹیو‘ جانب سے کام کرتی ہیں جہاں سے آئنز خارج نکلتے ہیں۔ یہ آئنز مثبت پلیٹ کی جانب سے الیکٹرولائٹ سے گزر کر منفی پلیٹ تک جاتے ہیں۔ جب بیٹری کو کہیں لگایا جاتا ہے تو آئن پلٹ کر اپنی جگہ پر واپس آجاتے ہیں۔
تاہم، کم درجہ حرارت میں آئن کو الیکٹرولائٹ سے گزرنے اور منفی پلیٹ تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں محققین نے بتایا کہ منفی پلیٹ میں عمومی طور پر استعمال ہونے والے گریفائٹ کو کوبالٹ کے مرکب سے بدل دیے جانے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اس مرکب کو انتہائی گرم درجہ حرارت پر گرم کرتے ہوئے سائنس دانوں نے اس کے ایٹموں کو ایک سپاٹ پلیٹ میں دبایا، اس کے باوجود اس مرکب میں گریفائٹ سے زیادہ سوراخ موجود تھے۔
زیادہ سوراخ ہونے کی وجہ سے لیتھیئم آئنز زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرتے ہیں۔
محققین نے تحقیق میں لکھا کہ کم درجہ حرارت کپیسیٹی لاس کے مسئلے کا حل کاربن اینوڈ کی سطح کے الیکٹرون کی ترتیب میں پوشیدہ تھا۔
جس کے نتیجے میں بیٹری نے انتہائی کم درجہ حرارت میں کام کیا اور اس کی طاقت چارجنگ اور ری چارجنگ میں 200 سائیکلز سے اوپر رہی۔
فی الحال یہ طریقہ کار چھوٹی بیٹریوں میں آزمایا گیا ہے۔ بڑی بیٹریوں میں اس کی آزمائش کی جانی ابھی باقی ہے۔
https://www.express.pk/story/2334010/508/
ٹوکیو: روبوٹ کے انسانوں کی طرح دنیا میں گھومنے پھرنے میں تو شاید وقت لگے لیکن سائنس دانوں نے ان مشینوں کو انسان کے جیسا قریب روپ دینے کے لیے انسان جیسی جِلد لگانے کے مقصد کی جانب ایک قدم اور بڑھا دیا ہے۔
اس پیش رفت میں روبوٹ کی انگلی کو صرف جِلد کی طرح کی ساخت ہی نہیں دی گئی بلکہ اسے پانی سے مدافعت کرنے اور خود سے ٹھیک ہونے کی خصوصیات بھی دی گئی ہیں۔
حتی الامکان انسانوں کی مشابہت رکھنے والے انسان نما روبوٹ عموماً صحت کے شعبے اور سروس انڈسٹری میں لوگوں کے ساتھ باہمی معاملات رکھتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کا انسان کی طرح ظاہر ہونا مواصلات میں بہتری اور ان کو مزید قابلِ قبول بنا سکتا ہے۔
جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو کے پروفیسر اور تحقیق کے مرکزی منصنف شوجی ٹیکوئیچی کا کہنا تھا کہ انگلی معمولی سی پسینہ آلود دِکھتی ہے، چوں کہ انگلی برقی موٹر سے چلائی جاتی ہے لہٰذا انگلی کی حرکت کے ساتھ حقیقی انگلی کی طرح کٹ کٹ کی آواز کا آنا کافی دلچسپ ہے۔
بہر کیف روبوٹس کے لیے سلیکون کی بنائی گئی یہ جلد انسان کے ظاہر کی تو نقل کرسکتی ہے لیکن اس میں انسانی جِلد کی باریکیاں نہیں ہیں جیسا کہ جھریوں کا ہونا اور یہ انسانی جِلد کی طرح کام بھی نہیں کرسکتیں۔
اس معاملے میں سب سے مشکل مرحلہ روبوٹ کو ڈھکنے کے لیے جلد کی پرتوں کا بنانا اور اس مشین کی غیر ہموار سطحوں پر ہمواری کے ساتھ لگانا ہے۔
پروفیسر ٹیکوئیچی کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے آپ کو ماہر ہاتھوں کی ضرورت ہوگی جو جِلد کی ان چادروں کو کاٹ سکیں اور لگا سکیں۔
https://www.express.pk/story/2333882/508/
آسٹریلیا: ہم جانتے ہیں کہ دل کے دورے کے مقابلے میں کارڈیئک اریسٹ قدرے خطرناک ہوتا ہے اور اس کی پیش بینی کرکے قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا میں امراضِ قلب کے مشہور ادارے وکٹر چینگ کاردیئک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے کارڈیئک اریسٹ کی اسکریننگ کرنے والا ایک نیا ٹیسٹ بنایا ہے۔
اس خطرناک صورتحال میں 10 میں سے 9 افراد فوری طور پر لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ ماہرین نے ایک برقی ٹیسٹ بنایا ہے جو فوری طور سیکڑوں ایسی جینیاتی تبدیلیاں نوٹ کرتا ہے جو پیدائشی یا کسی وجہ سے دل کے امراض کی وجہ بنتی ہیں یا پھر کارڈییئک اریسٹ جیسی خطرناک صورتحال پیدا کرسکتی ہیں۔
امریکن جرنل آف ہیومن جینیٹکس میں ڈاکٹر جیمی وینڈنبرگ اور ان کے ساتھیوں نے دومقالہ جات میں لکھا ہے کہ ہم دیکھتے ہی کہ نوجوان اور بظاہر تندرست افراد دل کے ہاتھوں فوری طور پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور اس کے دوستوں اور اہلِ خانہ پر غیریقینی صورتحال کا اثر رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جینیاتی تبدیلیاں اور خرابیاں نوٹ کرکے کارڈیئک اریسٹ کے خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔ اس سے مریض اپنی عادات بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ جینیاتی طور پر قلب کے لیے خطرناک رجحانات معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کارڈیئک اریسٹ کے شکار ہونے والے نصف افراد میں کسی طرح دل کی بے ترتیب دھڑکن موجود ہوتی ہے۔ یہ کیفیت پیدائشی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بعض جین اور پروٹین دل کی برقی سرگرمی کو متاثر کرسکتے ہیں اور یہ سلسلہ اچانک کارڈیئک اریسٹ تک جاتا ہے۔ اسی بنا پر ایک برقی چینل معلوم کیا گیا ہے جس کی جینیاتی تبدیلی پیدائشی طور پر دل کی بے ترتبیب دھڑکن بڑھاتی ہے۔
دوسری تحقیق میں سائنس دانوں کی اسی ٹیم نے کہا ہے کہ لگ بھگ 22 ہزار جینیاتی تبدیلیاں جلد یا بدیر کارڈیئک اریسٹ اور اچانک فوری موت کی وجہ بن سکتی ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے پانچ برس میں برقی اور جینیاتی ٹیسٹ عام ہوجائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2333396/9812/
اوکلاہوما سٹی: محققین نے ایک ایسا جیل تیار کیا ہے جسے چٹخی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کی ڈسکس میں انجکشن کی مدد سے ڈال کر کمر کے نچلے حصے میں تکلیف سے چھٹکارے میں مدد مل سکتی ہے۔
امریکی ریاست اوکلاہوما کے کلینیکل ریڈیولوجی کے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ 20 سے 69 برس کے درمیان 20 افراد میں اس علاج سے درد میں کمی دیکھنے میں آئی، جس کے بعد اس علاج میں اس تکلیف سے چھٹکارہ پانے کے امکانات دیکھے گئے۔ یہ افراد ڈسک کے ختم ہونے کی بیماری میں مبتلا تھے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا میں ہر سال تقریباً 6.5 کروڑ افراد کمر کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں مذکورہ بالا بیماری سرِ فہرست سبب ہے۔
فی الحال اس تکلیف کے لیے روایتی علاج پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس میں آرام، جسمانی تھیراپی اور کمر پر پٹے باندھنا شامل ہے۔
اس وقت تکلیف سے راحت کے لیے جیل سے جو علاج کیا جاتا ہے اس کے لیے جیل کو سرجری کر کے ڈالنا پڑتا ہے جو اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے۔ اس کے برعکس اس نئے علاج کے لیے صرف ایک انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ انہوں نے کولمبیا سے 20 افراد کا انتخاب کیا تاکہ کمر کے نچلے حصے میں دائمی تکلیف کا مطالعہ کیا جاسکے، ان تمام افراد نے درد کو رفع کرنے کے لیے روایتی طریقوں کا استعمال کیا لیکن وقتی آرام ملا۔
بعد میں آزمائش کے طور پر اس خصوصی جیل کو براہ راست ان کی کمر کے نچلے حصے کی ڈسکس میں ڈالا گیا۔ جیل ڈالنے سے قبل 65 ڈگری سیلسیئس پر گرم کیا گیا۔ بعد میں وہ جیل جسم کے درجہ حرارت پر ٹھنڈا ہو گیا اور ایک اِمپلانٹ کی صورت پختہ ہوگیا تاکہ اس حصے میں ڈسکس کو سہارا دے سکے۔
سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ پلاسٹکس سے بنا یہ جیل جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اطراف کے ٹشوز پر اب تک اس کا کوئی نقصان نہیں دیکھا گیا ہے۔
محققین کا یہ کہنا تھا کہ اس جیل کو وسیع پیمانے پر جاری کرنے سے قبل امریکا اور کینیڈا میں کی جانے والی اس آزمائشی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کا انتظار کرنا ضروری تھا۔
https://www.express.pk/story/2334071/9812/
پیرس: سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے مشترکہ طور پر انسانی لہو میں چھ ایسے بایومارکر دریافت کئے ہیں جو بائی پولر جیسے مریض کی شناخت کرسکتے ہیں۔ اس کاوش سے کروڑوں افراد مستفید ہوسکیں گے۔
مونٹ پولیئر یونیورسٹی ہسپتال، فرانس، سوئزرلینڈ کے نفسیاتی ہسپتال لیس ٹوئسس، اور جامعہ پٹس برگ کے سائنسدانوں نے ایک کمپنی ایلسی ڈیاگ کے تعاون سے معلوم کیا ہے کہ خون کا ٹیسٹ بائی پولر مرض کی شناخت کرسکتا ہے۔ اس کے تمام شواہد جریدے نیچر میں شائع ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں ڈپریشن کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 30 کروڑہے ان میں سے 40 فیصد تعداد کسی طرح بائی پولر کی شکار ہوسکتی ہے۔ اس کیفیت میں غمی خوشی کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ مایوسی کے دورے پڑتے ہیں اور اپنی ذات سے اعتبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریض کا رویہ کسی پیشگوئی کے قابل نہیں رہتا۔
لیکن اب تک اس کی شناخت میں دیر لگ رہی تھی جس سے خود مریض کی حالت بگڑتی جاتی ہے اور بسااوقات سات برس بعد ہھی مرض کی شناخت نہیں ہوپاتی اور مریض خود اہلِ خانہ کے لیے بھی پریشانی کی وجہ بن جاتے ہیں۔
یہ مرض کامیابی سے بائی پولر اور یونی پولر کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔ تاہم اس بلڈ ٹیسٹ میں اؔٓراین اے اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس کی درستگی 80 فیصد تک تک جاپہنچتی ہے۔ پھر چھ بایومارکر میں سے جتنے زیادہ موجود ہوں بائی پولر کا شبہ یقین میں ڈھلتا جاتا ہے۔
اس پورے منصوبے کو ایڈٹ بی کا نام دیا گیا ہے جس میں نجی کمپنی کے علاوہ کئی ممالک کی جامعات نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2333413/9812/
مانچسٹر: سائنس دانوں نے ایک ایسا بائیو ڈیگریڈ ایبل(حل پزیر) جیل تیار کیا ہے جو دل کو دورہ پڑنے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو صحیح کر سکے گا۔
کسی بھی چیز کے بائیو ڈیگریڈ ایبل ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ شے بیکٹیریا یا دیگر حیاتیاتی اجزا کی باعث ازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر کے ماہرین نے برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے تعاون سے ایک جیل تیار کیا ہے جس کو براہ راست دھڑکتے دل میں ڈالا جاسکتا ہے۔یہ جیل اندر ڈالے گئے خلیوں کو ایک جگہ رکھنے کا کام کرتا ہے تاکہ نئے ٹشو بن سکیں۔
ماضی میں جب دل بند ہونے کے خطرات کو کم کرنے کی بابت دل میں خلیوں کو ڈالا جاتا تھاتو صرف 1 فی صد خلیے اپنی جگہ پر باقی رہتے تھے۔
یہ جیل امائینو ایسڈز سے بنا ہے جس کو پیپٹائڈز کہا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو پروٹین بناتا ہے۔
یہ جیل دباؤ کے اندر مائع کی طرح رہتا ہے جو اس کو دل میں ڈالنے کی بہترین شکل ہوتی ہے اور پھر یہ پیپٹائڈز دوبارہ ترتیب میں آکر اس کو ٹھوس بناتے ہیں اور اس طریقے سے خلیے اپنی جگہ پر رہتے ہیں۔
کامیاب نتائج کے لیے اندر ڈالے گئے خلیوں کو نیا ٹشو بنانے کے لیے بہتر خون کا بہاؤ اہم ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی کامیابی ثابت کرنے کے لیے محققین نے یہ بتایا کہ یہ جیل دل کے عام سے ٹِشو کی نمو میں مدددے سکتا ہے۔
سائنس دانوں کی جانب سے اس مرہم کو صحت مند چوہوں پر بھی آزمایاگیا۔
https://www.express.pk/story/2332901/9812/
پینسلوانیا: سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ عین دماغی طور پر کام کرنے والی ایسی طاقتور آپٹیکل چپ بنائی ہے جو ایک سیکنڈ میں دو ارب تصاویر پروسیس کرسکتی ہے۔
جامعہ پنسلوانیا کے ماہرین نے اعصابی (نیورل) نیٹ ورک کی طرز پر یہ برقی چپ تیار کی ہے جو روایتی انداز کے برعکس کام کرتی ہے اور کسی بھی طرح سست نہیں ہوتی۔ اس کا نظام عین دماغی اور اعصابی نظام کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس میں موجود نوڈز دماغی خلیات یا نیورون کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ نیورل نیٹ ورک کی طرح ازخود سیکھتے رہتے ہیں اور اپنی کارکردگی بہتر بناتے رہتے ہیں۔ یعنی وہ تصاویر یا الفاظ کے مجموعے کے ڈیٹا سیٹ کو دیکھتے ہوئے سیکھتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ پروسیسنگ بہتر سے بہتر ہوتی رہتی ہے۔
اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ چپ کے اندر برقی سگنل کی بجائے روشنی ایک سے دوسرے مقام دوڑتی نظر آتی ہے جس کی بنا پر اسے آپٹیکل چپ کا نام دیا گیا ہے۔
تجرباتی طور پر9.3 مربع ملی میٹر ایک چپ بنائی گئی۔ پہلے مرحلے میں اسے ہاتھ سےلکھے گئے ایسے حروف شناخت کرنے کو کہا جو حروف تہجی سے ملتے جلتے تھے۔ ڈیٹا سیٹس پر ٹریننگ کے بعد چپ سے ان کی درجہ بندی کی گئی تو اس نے 93 فیصد درستگی سے ان کی دونوں اقسام کو شناخت کرلیا۔
ہر تصویر کو شناخت کرنے میں چپ کو صرف 0.57 نینو سیکنڈ لگے یعنی ایک سیکنڈ میں چپ پونے دوارب تصاویر دیکھ کر پروسیس کرسکتی ہے۔ اس حیرت انگیز ٹیکنالوجی کے روحِ رواں فیروز افلاطونی ہیں جنہوں نے بتایا کہ چپ روشنی کے جھماکوں پر کام کرتی ہے۔
چپ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں معلومات جزوقتی اسٹور نہیں ہوتی جو عموماً ریم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس طرح وقت اور توانائی کی بچت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چپ میں میموری موجود نہیں اور یہ عمل ایک طرح سے بہت محفوظ بھی ہے۔
اگلے مرحلے میں نیورل چپ پر مزید تجربات کئے جائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2332701/508/
نیویارک: امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے دوران کینسر کے علاج کے لیے تجرباتی دوا استعمال کرنے والے تمام مریض شفایاب ہو گئے، جسے ماہرین نے معجزہ قرار دیا ہے۔
نیویارک کے ایک کینسر سینٹر میں ہونے والی تحقیق کے دوران ریکٹل کینسر کے 18 مریضوں کو صرف تجرباتی طور پر ڈوسٹر الیماب نامی دوا 6 ماہ تک دی گئی، جس کے نتیجے میں حیرت انگیز طور پر تمام مریض شفایاب ہو گئے۔
میموریل سلون کیٹیرنگ سینٹر سے وابستہ ماہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تجربے کے دوران کینسر کے تمام مریض شفایاب ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے یہ کینسر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
واضح رہے کہ تجربے میں استعمال کی گئی دوا لینے سے قبل ریکٹل کینسر سے متاثرہ افراد کیموتھراپی، ریڈئیشن اور دیگر سرجریوں سے گزرے تھے، جن کے نتیجے میں انہیں کئی جسمانی تکالیف کا سامنا تھا، لیکن حالیہ تحقیق اور تجربے کے بعد انہیں اب مزید کسی قسم کے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کینسر کی ماہر ڈاکٹر ہانا سانوف نے بتایا کہ تجربے میں استعمال ہونے والی یہ ایمیونوتھراپی کی دوا ہے۔ اس قسم کی ادویہ کینسر کا خود شکار کرنے کے بجائے مریض کی قوت مدافعت سے یہ کام کرواتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2332535/9812/
میکسکو سٹی: ایک نوجوان خاتون اپنے خلیوں سے بنا تھری ڈی کان لگوانے والی دنیا کی پہلی انسان بن گئیں۔
میکسیکو سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ الیکسا کان کے ایک نایاب نقص کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں جس میں ان کے کان کا بیرون حصہ مکمل طور پر موجود نہیں تھا۔
ڈاکٹروں کو امید ہے کہ یہ ٹرانسپلانٹ طب کی دنیا ’مائیکروٹیا‘ میں مبتلا افراد کے لیے علاج سامنے لاکر انقلاب برپا کر دے گا۔
مائیکروٹیا ایک پیدائشی حالت ہوتی ہے جس میں ایک یا دونوں کانوں کے بیرونی حصے مکمل طور پر نہیں بنے ہوتے ، یہ حالت سماعت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
ڈکٹر ارٹورو بونِیلا نے الیکسا کا نامکمل جزوی کان سرجری ک ذریعے ہٹایا اور اس کو الیکسا کے سالم کان کے تھری ڈی اسکین کے ساتھ تھری ڈی بائیو تھیراپیوٹکس بھیجا۔
وہاں پہنچنے پر خاتون کے کونڈروسائٹس، وہ خلیے جو کارٹیلیج بناتے ہیں، ٹشو سے علیحدہ ہونے کے بعد ان اجزاء کے ساتھ مل کر اربوں خلیوں میں بدل گئے۔
ان خلیوں کو کولاجین پر مبنی بائیو سیاہی کے ساتھ ملایا گیا اور تھری ڈی بائیو پرنٹر میں سرنج کے ذریعے ڈال دیا گیا جس سے کان کا باہری حصہ بنایا گیا۔
اس اِمپلانٹ کے اطراف میں گھُل جانے والا خول موجود ہے جو ابتدائی سہارے کے لیے لگایا گیا ہے اور یہ وقت کے ساتھ مریض کے جسم کے اندر جذب ہوجائے گا۔
لگائے جانے والے اس تھری ڈی کان کے پرنٹ ہونے کے عمل میں 10 منٹ سے کم وقت لگا۔
ڈاکٹر بونِیلا کا کہنا تھا کہ اگر سب چیزیں منصوبے کے مطابق گئیں تو یہ طب کی دنیا میں انقلاب برپا کردے گا۔
https://www.express.pk/story/2331099/508/
ویانا: سائنس دانوں نے توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک نیا خیال پیش کیا ہے جو بلند و بالا عمارتوں کو بڑی بڑی بیٹریوں میں تبدیل کردے گا، یہ جدت شہری علاقوں میں توانائی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرنل انرجی میں چند دنوں قبل شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کششِ ثقل پر مبنی ایک نایاب خیال پیش کیا ہے جس میں بلند عمارتوں کی اٹھان اور عمودی قد کو توانائی کے ذخیرے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
لِفٹ انرجی اسٹوریج ٹیکنالوجی (Lest) نامی یہ خیال گِیلی ریت کے کنٹینروں کو یا دوسری زیادہ کثافت والی اشیاء کو اٹھا کر توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے۔
سائنس دانوں نے اس ٹیکنالوجی کے متعلق بتایا کہ Lest ذخیرے کی دو جگہوں کو جوڑتا ہے، جن میں سے ایک عمارت کے سب نچلے حصے میں جبکہ دوسرا حصہ اس ہی عمارت میں سب سے اوپر بنایا گیا تھا۔
عمارتوں میں نصب لفٹ جب نیچے سے اوپر جاتی ہیں تو توانائی، ذخیرہ کرنے والے کنٹینر کے اوپر اٹھنے کی وجہ سے ان میں مخفی توانائی کے طور پر ذخیرہ ہوجاتی ہے۔
پیش کردہ خیال میں، جب عمارت میں توانائی کی طلب کم تھی تو روبوٹوں نے لفٹ میں خوب وزن لادا اور عمارت کے اوپر کے حصے میں توانائی کو ذخیرہ کر لیا۔
محققین نے بتایا کہ کنٹینروں کو لفٹ میں لادنے یا اتارے جانے کا عمل خود کار ٹریلر نے انجام دیا جو اوپر یا نیچے بنائی گئی ذخیرہ کرنے والی جگہ سے کنٹینر نکال لیا کرتا تھا۔ یعنی ٹریلر لفٹ میں داخل ہوتا، اوپر یا نیچے جاتا، لفٹ سے باہر نکلتا اور ذخیرے کے مقامات پر کنٹینر کو رکھ دیتا۔
جب توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا، وزن کو لفٹ میں واپس رکھ کر نیچے بھیج دیا جاتا تاکہ مزید توانائی بنے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے اپلائیڈ سسٹمز انیلیسز کے محققین کے مطابق چونکہ لفٹ پہلے ہی عمارتوں میں لگی ہوئی ہیں اس لیے اس منصوبے میں کسی اضافی سرمایہ کاری یا جگہ کے مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
محققین کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 1 کروڑ 80 لاکھ لفٹ فعال ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد بغیر کسی کے کام کے وقت صرف کرتی ہے۔
چونکہ توانائی کے ذخیرہ ہونے کی مقدار کا تعلق عمارت کی بلندی پر منحصر ہے تو محققین کے اندازے کے مطابق برج خلیفہ جیسی عمارت ممکنہ طور پر 9 میگا واٹ آور سے 90 میگا واٹ آور تک توانائی ذخیرہ کر سکے گی۔
محققین نے تخمینہ لگایا کہ امریکا کی تمام بلند عمارتوں میں اگر مشترکہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو ممکنہ طور پر 6.5 گِیگا واٹ آور سے لے کر 65 گِیگا واٹ آور تک اور چین میں تقریباً 7.3 گِیگا واٹ آور سے لے کر 73 گِیگا واٹ آور تک توانائی ذخیرہ کی جاسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2330182/508/

No comments:
Post a Comment