
سورس: Pxhere (creative commons license)
وہ 6طرح کا پیٹ درد جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے
Jul 31, 2021 | 18:31:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) پیٹ درد کو عموماً لوگ نظر انداز کرتے ہیں اور گھر پر ہی اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب ایک ماہر ڈاکٹر نے اس حوالے سے متنبہ کر دیا ہے۔
دی سن کے مطابق برطانیہ کی ڈاکٹر سارا جرویس نے کہا ہے کہ 6طرح کا پیٹ درد ایسا ہوتا ہے کہ اسے کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی خطرناک بیماری کی علامت بھی ہو سکتا ہے اور یہ بیماری کینسر بھی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی شخص کو پیٹ میں درد رہتا ہے اوراس کے ساتھ اس کے پاخانے کے ساتھ خون بھی آتا ہے تو غالب امکان ہے کہ وہ شخص مقعد کے کینسر میں مبتلا ہے۔
ڈاکٹر سارا کا کہنا تھا کہ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت تیز پیٹ درد اٹھتا ہے تو یہ اپینڈکس یا معدے کے السر کی علامت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گردے میں پتھری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص پیٹ درد کے ساتھ خود کو بیمار بھی محسوس کر رہا ہے تواس کے معدے میں سنجیدہ نوعیت کا کوئی مسئلہ ہے۔ اس کا پتہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، اسے قبض یا ڈائریا لاحق ہے یا اس کا نظام انہضام ٹھیک کام نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر سارا نے بتایا کہ اگر کسی شخص کو مسلسل پیٹ درد لاحق ہے اوراس کا وزن بھی کم ہو رہا ہے تو غالب امکان ہے کہ وہ کینسر کا شکار ہے۔ اسی طرح پیٹ درد کے ساتھ بخار ہو تو یہ انفلیمیشن، فوڈ پوائزننگ، پتے میں انفیکشن، پیڑو کے پٹھوں کی انفیکشن وغیرہ کی علامت ہو سکتا ہے اور اگر آپ کو دائمی نوعیت کا پیٹ درد لاحق ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا معدہ ٹھیک سے خوراک ہضم نہیں کر رہا۔ آپ کو ذہنی دباﺅ لاحق ہے، آپ بہت زیادہ کیفین لے رہے ہیں یا رات کو بہت دیر سے کھانا کھا رہے ہیں۔
کراچی سمیت صوبہ بھر میں پھلوں کو مصنوعی طور پر پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ نامی زہریلے کیمیکل کااستعمال جاری رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ فوڈ اتھارٹی کے فوکل پرسن محفوظ قاضی کے مطابق مذکورہ کیمیکل کے استعمال پر دنیا بھر میں پابندی ہے، سندھ میں اس کے استعمال پر ستمبر 2019 سے مکمل پابندی ہے۔ مذکورہ کیمیکل انسانی صحت کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ ہے جس سے کینسر سمیت مختلف امراض ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
محفوظ قاضی نے ایکسپریس کو بتایا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی نے اپنے سائنٹیفک پینل کی سفارشات کی روشنی میں مذکورہ کیمیکل کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی اور اس کی جگہ ایتھیلن نامی کیمیکل استعمال کرنے کی اجازت دی تھی جو پھلوں کو مصنوعی طور پکانے کے لیے دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے، پاکستان میں ایتھیلن چین سے آتا ہے اور ملکی مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے.
واضح رہے کہ سندھ فوڈ اتھارٹی نے اپنے جاری کردہ ایک انتباہی نوٹس میں پھلوں کے بیوپاریوں کو متنبہ کیا ہے کہ پھلوں کو مصنوعی طور پر پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کا استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
مذکورہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ کیلشیم کاربائیڈ کے استعمال سے انسانوں میں اعصابی کمزوری اور جگر کے امراض ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ مذکورہ کیمیکل نظام انہظام کو بھی متاثر کرتا ہے، اس کا مسلسل استعمال کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دریں اثنا کراچی میں پھلوں کے بیوپاریوں کی تنظیم کے سربراہ زاہد اعوان نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پھلوں کو مصنوعی طور پر پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کااستعمال بہت حد تک کم ہوگیا ہے اوراب زیادہ تر ایتھیلن کا ہی استعمال ہوتاہے.
انھوں نے کہا کہ ایتھیلن بنے بنائے ساشوں کی شکل میں ملتی ہے اور کیلشیم کاربائیڈ کی طرح بیوپاریوں کو اس کے ساشے بنانے کے لیے مزدور رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
https://www.express.pk/story/2212619/9812/
دو تازہ ترین سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر ادھیر عمر کے افراد بھی گوشت خوری کم کرکے بالخصوص ہرے پتوں والی اور دیگر سبزیوں کو غذا میں شامل کریں تو اس سے دل کےدورے اور دیگر قلبی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
سن یاس(مینوپاز) کے بعد خواتین میں دل کے عارضے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور اس عمر میں خواتین سبزیوں کی عادت اختیار کرلیں تو اس سے دل کو توانا اور صحتمند رکھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہرینِ قلب پھلوں اور سبزیوں کو غذا میں شامل کرنے پر غیرمعمولی زور دیتے ہیں۔ ان میں مکمل اناج، سبزیاں، گری دار میووں، دالوں اور دیگر اجناس کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ تاہم سیر شدہ چکنائیوں، سرخ گوشت اور میٹھے مشروبات اور کھانوں سے پرہیز کامشورہ دیا ہے۔
منی سوٹا اسکول آف پبلک ہیلتھ کی روفیسر یونی چوئی نے 4946 افراد کو بھرتی کیا جن کی عمریں 18 سے 30 برس تھیں۔ اس وقت تمام افراد دل کے عارضے سے دور تھے اور 54 فیصد سفید اور سیاہ فام خواتین بھی شامل تھیں۔ 1985 سے شروع ہونے والا سروے 2015 تک کیا گیا جن میں کئی طرح کے ٹیسٹ بھی تھے۔ پھر شرکا سے کھانے پینے کی تفصیلات بھی معلوم کی گئیں۔
سروے سے معلوم ہوا کہ اگر پھلوں اور سبزیوں کا باقاعدہ استعمال کیا جائے تو اس سے دیگر افراد کے مقابلے میں بلڈ پریشر اور امراضِ قلب کا خطرہ 52 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
دوسرے مطالعے میں جو 20 سال تک جاری رہا اس میں دیکھا گیا کہ سبزیاں کھانے سے دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کا خطرہ 15 فیصد تک بھی کم ہوسکتا ہے۔ یہ تحقیق براؤن یونیورسٹی میں کی گئی ہے۔ اس میں برے کولیسٹرول پر بھی تحقیق کی گئی لیکن اس میں صرف ایسی خواتین شامل تھیں جو سن یاس سے گزرچکی تھیں۔ یہ تحقیق ڈاکٹر سِمن لائیو نے کی ہے جس میں 123000 خواتین شامل تھیں
https://www.express.pk/story/2212614/9812/
سائنس کے علم میں ایک عرصے سے یہ بات تھی کہ باقاعدہ ورزش سے خون کی نئی رگیں وجود پذیر ہوسکتی ہیں لیکن اس عمل کو طبی اور سائنسی لحاظ سے نہیں دیکھا گیا تھا۔ تاہم اب اس کے کچھ ثبوت چوہوں پر تجربات میں سامنے آئے ہیں۔
نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ورزش سے کئی اقسام کی نئی نسیں اور رگیں قدرےتیزی سے ظہورپذیر ہوتی ہیں۔ زیورخ میں واقع ای ٹی ایچ ایچ یونیورسٹی سے وابستہ ورزش کی ماہر پروفیسر کیٹرین ڈی بوک کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں ہرسال لاکھوں افراد کے اعضا محض اس وجہ سے بریدہ کئے جاتے ہیں کہ ان میں خون کا بہاؤ تھم جاتا ہے اور ایسے مریض ذیابیطس سے تعلق رکھتےہیں۔
ان کے مطابق نئی تحقیق کی بدولت خون کی رگوں کی افزائش اور پٹھوں میں ان کے کردار کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس طرح ہم بہت سے امراض کا علاج کرسکیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے افزائش شدہ انسانی خلیات اور چوہوں پر کئی تجربات کئے ہیں۔
پروفیسر کیٹرین اور ان کے ساتھیوں نے خون کی انتہائی باریک نالیوں پر ورزش کے اثرات جاننے کی کوشش کی ۔ ان کے پیشِ نظر خاص طور پر خون کی رگوں کی بیرونی دیواریں تھیں جو اینڈوتھیلیئل خلیات (سیلز) پرمشتمل ہوتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اینڈوتھیلیئل خلیات کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ان کی شناخت ایک خاص مالیکیول اے ٹی ایف فور سے ہوسکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جن خلیات میں اے ٹی ایف فور کی بہت کم مقدار ہو ان سے جو باریک نسیں بنتی ہیں وہ پٹھوں کے بے رنگ یا سفید ریشوں تک غذائی اجزا پہنچاتی ہیں۔ جبکہ اے ٹی ایف فور کی خاصی مقدار والی نسیں خون کی نالیوں کا حصہ ہوتی ہیں اور خون کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پھر انکشاف ہوا کہ ورزش سے اینڈوتھیلیئل خلیات میں اے ٹی ایف فور کو بڑھاتی ہیں اور حیرت انگیز طور پر یہ عمل خلوی تقسیم کے وقت ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح نت نئی باریک رگیں (کیپلریز) وجود میں آتی ہیں۔ لیکن ورزش کا کم اے ٹی ایف فور والے رگوں کے نظام پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ یہاں تک معلوم ہوا کہ جن اینڈوتھیلیئل خلیات میں اے ٹی ایف فور کوٹ کوٹ کر بھری ہو وہ ہمہ وقت نئی نسیں بنانے کے لیے تیار رہتے ہیں جسے سائنسدانوں نے ’اسٹینڈ بائے‘ اثر کا نام دیا ہے۔
اب اے ٹی ایف فور کو جانتے ہیں جو خلیے کے اندر ایک چوکیدار قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ اس کی بدولت ورزش کرتے ہی نئے پروٹین اور ڈی این اے بنتے ہیں اور خون کی نئی نالیں وجود میں آتی ہیں۔
اگرچہ چوہوں پر تحقیق ہی سے انسانی کھوج کے راستے کھلتےہیں لیکن اس مرحلے پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید انسانوں میں بھی یہ عمل پایا جاتا ہے۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ تیزدوڑنے والے کھلاڑیوں میں دیکھا گیا ہے کہ مسلسل دوڑنے سے ان کے دل میں مزید شریانیں اور رگیں بننے لگتی ہیں۔ تو آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش سے یہ عمل تیز ہوجاتا ہے۔ اس تحقیقی کی روداد سیل میٹابولزم میں شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2212156/9812/
مصنوعی دودھ میٹھا زہر ، بیچنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، لاہور ہائیکورٹ نے سخت فیصلہ سنا دیا
Aug 12, 2021 | 10:24:AM
لاہور( ڈیلی پاکستان آن لائن ) لاہور ہائیکورٹ نے مصنوعی دودھ فروخت کرنےو الے پانچ ملزموں کی درخواست ضمانت مسترد کردی ، تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ مصنوعی دودھ میٹھا زہر ہے ، بیچنے والے انسانیت کے دشمن ، ملک کیلئے بد نما دھبہ اور عدالت کی صوابدید کے حقدار نہیں ہیں ۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سہیل ناصر کی عدالت میں مصنوعی دودھ بیچنے کے الزام میں پانچ ملزموں کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی ، عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کردی ، تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں ملزموں نے مصنوعی دودھ فروخت کر کے معاشرے کے خلاف جرم کیا ، مصنوعی دودھ میٹھا زہر ہے جس میں ڈیٹرجنٹ ، صابن اور یوریا استعمال کیا جاتا ہے ، مصنوعی دودھ فوری موت کا سبب نہیں بنتا مگر انسانی جسم کو بیماریوں کا گھر بنا دیتا ہے ، مصنوعی دودھ آنکھوں میں سوجن ، جگر اور گردوں میں پیچیدگیوں کا سبب بنتاہے ، حاملہ خواتین ، دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے ، یہ دودھ معصوم بچوں کیلئے زہر قاتل ہے ۔
عدالت تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم مصنوعی دودھ بنا رہے تھے ، محض فیکٹری میں ملازمت کا دفاع نہیں لے سکتے ، چھاپے کے دوران ملزمان سے کوکنگ آئل ، دودھ پاؤڈر اور دیگر اشیاءبرآمد کی گئیں ، جرم قابل ضمانت ہونے کے باوجود ملزم ضمانت کے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتے ، عدالت نے اپنا صوابدیدی اختیار ہر کیس کی نوعیت کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے ۔
ملزم اللہ یار، عمر حیات، اکبر ، اختر حسین اور محمد اعظم نے ضمانت کیلئے رجوع کیا تھا، ملزمان پر عارف والا میں فیکٹری لگا کر مصنوعی دودھ بنانے کا الزام ہے ۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Aug-2021/1327446?fbclid=IwAR2DXmtsPHwUUxHXyQV1y6yoRniZHSb9BGHpbM2wDDPj3JVO4gzkA6Kbk_Q
امراضِ دماغ و اعصاب کے ماہرین کی عالمی نمائندہ تنظیم ’ ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی‘ کی جانب سے 2014ء سے عالمی سطح پر مختلف دماغی امراض کے بارے میں عوام میں آگہی و شعور اجاگر کرنے کی غرض سے پوری دنیا میں 22 جولائی کا دن بطور ’ عالمی یوم دماغ ‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔
امسال ’ عالمی یوم دماغ ‘ کے موقع پر جس دماغی و اعصابی بیماری کو عالمی دن کا مرکزی عنوان قرار دیا گیا ہے اسے ’’ ملٹی پل اسکلروسیس (Multiple Sclerosis) ‘‘ کہتے ہیں۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ ایک قدیم مرض ہے جو مرکزی اعصابی نظام ( دماغ ) پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ مرکزی اعصابی ( دماغی ) نظام کو معذور کر دینے والی بیماری ہے۔ یہ ایک سوزشی بیماری ہے جو عام طور پر 20-40 سال کی عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے۔ مرکزی اعصابی (دماغی ) نظام سے مراد دماغ ، پرمغز حصہ ، دفاعی پٹھے، ریڑھ کی ہڈی کے حرام مغز شامل ہیں۔
اس بیماری کے باعث ایک مریض کے تقریباً تمام ہی پہلو متاثر ہوتے ہیں۔ ’ عالمی فیڈریشن آف نیورولوجی ‘ کے مطابق دنیا بھر میں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص میں اس بیماری کی تشخیص ہو رہی ہے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس ‘‘ کا مرض عمومی طور پر خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا زیادہ مریضوں کا تعلق ٹھنڈے علاقوں سے ہے جن میں یورپ، شمالی امریکہ اور بالخصوص سکینڈیوین ممالک شامل ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی فہرست میں ہمارا ملک بھی شامل ہے جہاں اس مرض میں مبتلا افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
اگرچہ ’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ میں مبتلا افراد کی تعداد کے بارے میں پاکستان میں کسی بھی قسم کی کوئی تحقیق موجود نہیں ہے، مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اس مرض کے تشخیص شدہ مریضوں کی تعداد 50 ہزار ہے۔ قابل تشویس امر یہ ہے کہ تقریباً چوتھائی مریض پانچ سالوں کے اندر اندر شدید جسمانی معذوری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کا مرض دماغی خلیہ پر اثر انداز ہو کر جسم کے باقی حصوں میں خرابی پیدا کرتا ہے۔ بیماری لاحق ہوتے وقت دماغی خلیہ کے گرد تہہ جس کو Myelin Sheathکہتے ہیں، کی خرابی/ سوزش/ ورم کے باعث اعصابی نظام شدید متاثر ہو جاتا ہے جس کے باعث متاثرہ انسان میں مختلف علامات رونما ہو سکتی ہیں۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کی علامات
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کی ابتدائی علامات لازمی نہیں کہ ہر مریض میں یکساں ہوں، بعض اوقات یہ علاملات وقتی اورغیر واضح ہوتی ہیں۔ جس کے باعث اس مرض کی تشخیص کسی عام طبیب کے لیے مشکل عمل ہو سکتا ہے۔ اس بناء پر ماہر امراض دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) ہی سے رجوع کرنا مناسب ہے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کی علامات میں کمزوری، چیونٹی کا چلنا محسوس ہونا / سن ہونا ، جسم کا توازن برقرار نہ رکھنا ، عارضی بینائی کا نہ ہونا ، کلی یا جزوی دوہری چیزوں کا دکھائی دینا ، رعشہ ، پٹھوں میں اکڑاہٹ ، بولنے میں اچانک سے اٹکنا اور یادداشت میں خلل شامل ہیں ۔ بعض اوقات مریض پٹھوں کے سکڑ جانے / مڑ جانے کی شکایات بھی کرتا ہے، یا چہرے / جسم کے کسی حصے کے سُن ہو جانے کے مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے ۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کی چند ثابت شدہ علامات میں سے پیشاب کی بندش/مثانہ کی کمزوری اہم ہے۔ اسی طرح نظام ہضم کی خرابی خاص طور پر قبض بھی اہم علامت ہے۔ یہ علامات اکثر مرد مریضوں میں پائی جاتی ہیں۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کی تشخیص
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کی تشخیص کے لیے ماہر امراض دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) کی جانب سے متاثرہ انسان کا مکمل طبی معائنہ ازحد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طبی معائنے کی بنیاد پر ضروری تشخیصی ٹیسٹ جن میں بالخصوص MRI شامل ہے۔ اس کے ذریعے دماغ / ریڑھ کی ہڈی کی تصاویر سے مرض کی تشخیص میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر بینائی متاثر ہو تو آنکھوں کا ٹیسٹ جسے VEPکہتے ہیں ، بھی کیا جاتا ہے۔
ماہر امراض دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) کو چاہیے کہ علاج شروع کرنے سے قبل آنکھ ، جسمانی پٹھوں، اور حسی نظام (Sensory System)کا اچھی طرح معائنہ ضرور کر ے۔ اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور بھی تشخیص و علاج کے لیے ضرور مدنظر رکھے:
1۔ تھکاوٹ: زیادہ تر مریض بیماری کے دوران شدید تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
2۔ مثانے کی تکلیف: بار بار پیشاب آنا / حاجت ہونا /مثانہ مکمل طور پر خالی نہ ہونا یا خالی ہونے میں زیادہ وقت لگنا۔
3۔ سوچنے / سمجھنے کی صلاحیت کا متاثر ہونا (Cognition ) : یعنی سوچنے / سمجھنے کی صلاحیت کا متاثرہ ہونا ، اس عمل کو Cognitive Issuesکہتے ہیں۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کی اقسام
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کی تین اقسام ہیں۔
1۔ پی پی ایم ایس Primary Progressive Multiple Sclerosis (PPMS)
2۔ آر آر ایم ایس Relapse Remitting Multiple Sclerosis (RRMS)
3۔ ایس پی ایم ایس Secondary Progressive Multiple Sclerosis (SPMS)
PPMSکی قسم میں معذوری کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
RRMS بیماری کی سب سے عام قسم ہے۔ تقریباً85فیصد مریض ابتداء میں RRMS ہی ہوتے ہیں۔
SPMSکی قسم کی ابتدائی علامات RRMS جیسی ہوتی ہیں مگر ان میں مریض آہستہ آہستہ معذوری کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کے مرض کا سب سے سنجیدہ مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں مریض مختلف مرکزنفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماری کے مسلسل بڑھنے کے عمل کے دوران زیادہ تر اعصابی خلیات تباہ ہو جاتے ہیں اور جسمانی معذوری ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کرلیتی ہے۔
اس جسمانی معذوری کو جانچنے کے لیے اس کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
اس کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے نظام کو EDSS یعنی Expanded Disability Statusکہتے ہیں۔ یہ نظام جسمانی معذوری کی درجہ بندی کرتا ہے اور یہ درجہ بندی طبی معائنے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کا علاج
اس مرض کو علاج کے تناظر میں آپ ضدی مرض بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مرض کے علاج کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ مریض کا علاج بیماری کے عین مطابق کیا جائے ۔’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کے ہر مریض میں علامات عمومی طور پر مختلف ہوا کرتی ہیں ۔ اگر مناسب علاج نہ کروایا جائے تو بیماری بڑھ بھی سکتی ہے اور مکمل معذوری کا سبب تک بن سکتی ہے۔ اس مرض کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن حال میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کچھ ایسی ادویات دریافت کی جا چکی ہیں جن کی بدولت بیماری کے عمل کو سست کر نے کے ساتھ ساتھ اسے اچھی خاصی حد تک کم بھی کر دیتی ہیں۔
’ ملٹی پل اسکلروسیس‘ کے مریضوں کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ درست تشخیص کے بعد بیماری کے عمل کو بڑھنے سے روکنے کے لیے جہاںSymptomatic Treatment شروع کیا جائے وہیں Disease Modifying Therapies(بیماری میں ترمیم کرنے والا علاج) بھی اختیار کیا جائے۔ یہ مریض کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں بہت زیادہ مددگار ہو سکتا ہے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کے مریض کے لیے اہم مشورے
چونکہ ’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کا مرض ہمیشہ رہنے والا مرض ہے اس لیے مریض اور معالج کے درمیان دوستی و اعتماد کی فضاء قائم رہنی چاہیے۔ مریض کو چاہیے کہ مرض کی بڑھتی ہوئی علامات بالخصوص ایسی علامت جو کہ 24گھنٹے تک برقرار رہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے متعلق اپنے معالج کو لازمی آگاہ کرے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کے مریض کو چاہیے کہ وہ دھوپ اور سخت موسم سے بچے۔
اس کا علاج نہ صرف مہنگا بلکہ طویل مدتی ہوتا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے اس کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ ’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کے مریضوں کے لیے ادویات کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے۔
’’ ملٹی پل اسکلروسیس‘‘کے مریضوں کے لیے یہ امر نہایت اہم ہے کہ ان کے جسمانی ، جذباتی، معاشرتی اور روحانی پہلوؤں کا ٹھیک انداز میں خیال رکھا جائے تاکہ وہ صحت مند زندگی بسر کرنے کے لیے ایک مثبت نقطہ نظر اختیار کر سکیں۔
بحالی اعصاب (Rehabilitation) ’’ملٹی پل اسکلروسیس‘‘ کے مرض کے علاج میں ایک جامع حیثیت رکھتا ہے۔ مریض کے لیے بحالی اعصاب کا مقصد اس کی خود مختاری کی حوصلہ افزائی اور معیار زندگی کو بہتر کرنا شامل ہے۔ اس مرض کے علاج میں جہاں ادویات کا اہم کردار ہے، وہیں بحالی اعصاب کے لیے اقدامات مثلاً فزیوتھراپی، بولنے و نگلنے کی تھراپی، روزمرہ امور(آپشنل) تھراپی اور سائیکولوجیکل مشاورت کا بے انتہااہم کردار ہے۔
( ڈاکٹر عبدالمالک کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر امراضِ دماغ و اعصاب خدمات سرانجام دے رہے ہیں نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں۔ )
https://www.express.pk/story/2209596/9812/
کچی سبزیاں اور ان کے کرشماتی اثرات
11 August, 2021

تحریر : حکیم عمران فیاض
عجیب سی بات ہے کہ کچی سبزیاں ذوق و شوق سے کھانے والے اپنی اس عادت کا اعتراف کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ کچی سبزیوں کے بیش بہا فوائد کی وجہ سے اس کا اعتراف کرنے میں ہچکچانے کی کوئی بات نہیں۔ بیشک کچھ سبزیوں کو کچا کھانے میں ان کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا مگر صحت پر ان کے دیرپا اثرات رہتے ہیں، خاص طور پر یہ نظام ہاضمہ کے لیے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی مسلّمہ ہے کہ ہاضمہ ٹھیک ہوتا ہے تو صحت بھی ٹھیک رہتی ہے۔
کچی سبزیوں کے فوائد کہیں نہ کہیں ہمارے لاشعور میں ہوتے ہیں تبھی تو پْرتکلف دعوتوں اورمرغ مسلم والی محفلوں میں سلاد کے بغیر ضیافت ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ کچی سبزیوں کا سب سے بڑا فائدہ توبہرحال یہ ہے کہ انھیں ایسے ہی کھانے سے غذائیت ضائع نہیں ہوتی، جبکہ انہیں پکانے کے دوران اس بات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ آئیں جانتے ہیں کہ کونسی کچی سبزی کتنی فائدہ مند ہے۔
موسمی سلاد:سلاد ‘ پیاز ‘ ٹماٹر اور پودینہ کو کاٹ کر ان میں نمک اور سیاہ مرچ کا پائوڈر شامل کریں اور مناسب سمجھیں تو اس پر لیموں کا رس ڈا لیں‘ بہت لذیذ مرکب بن جائے گا۔
کھیرا :کھیرے کے باریک باریک قتلے کاٹ لیں‘ اس میں ابلے ہوئے آلو‘ ٹماٹر‘ سبز پودینہ شامل کرلیں اور نمک ومرچ سیاہ چھڑک کر اس میں لیموں کا رس حسب ذائقہ نچوڑ لیں‘ بہت خوش ذائقہ ہو گا کیونکہ ایسے لوازمات سے کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے اور جلد ہضم ہو جاتا ہے۔
مولی:مولی کو کدو کش کر لیا جائے پھر اس میں مولی کے پتے ‘ پیاز اور ٹماٹر کاٹ کر شامل کر لیں‘ اس پر نمک اور سیاہ مرچ پسی ہوئی ڈال کر کھائیں‘ بہت طاقتور اور ہاضم چیز ہے۔
ان اشیاء کو روٹی سے کھائیں اگر چاہیں تو ان میں بعض موسمی پھل بھی شامل کر لیں اگر کوئی آدمی دو تین ماہ کچی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کرے تو اس کے جسم میں غیر معمولی چستی، پھرتی اور طاقت رونما ہو جائے گی اور جسم کے اندر جس قدر زہریلے اور گندے مادے ہوں، نکل جائینگے اور تندرستی اور توانائی عود کر آئے گی۔
لیموں کی افادیت:اگر طبیعت بھاری ہو‘ متلاتی ہو تو صبح کے وقت ادرک کی ہلکی چائے بنا کر لیموں نچوڑ کر پئیں‘ بے حد فائدہ ہو گا۔ طبیعت کو فرحت ملے گی۔لیموں کا اچاربھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے ۔لیموں کی سکنجبین ایک بہترین مشروب ہے ۔ موسم برسات اور گرمیوں میں اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔سر میں خشکی ہو تو تل کے ایک پائو تیل میں چوتھائی حصہ لیموں کا عرق ملا کر چند دن تک بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح لگائیے‘ خشکی دورہو جائے گی۔ لیموں کا رس اور آملہ پیس کر بالوں کی جڑوں میں نہانے سے گھنٹہ پہلے لیپ کر لیں۔ اس عمل سے بال لمبے اور چمکیلے ہو جائیں گے۔یہ سرد تر ہے‘ حرارت کو تسکین دیتا ہے‘ طبیعت کی بد اعتدالی کو دور کر کے سکون پیدا کرتا ہے۔ پیاس بجھاتا ہے‘ مقوی معدہ ہے‘ قے کو بند‘ متلی کو دور کرتا ہے۔
کچی پیاز: کچی پیاز کھانے کے بھی بہت سے فوائد ہیں ۔ سلاد میں پیاز کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے ۔ اس کا جوشاندہ تقطیر البول میں نافع ہے۔ برسات کے موسم میں اس کا استعمال موسمی بیماریوں کیلئے بڑا مفید ہے۔ اس کا اچار کھانے سے ریاح کو بے حد فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ تلی کے ورم کا بڑا علاج ہے۔ غذا میں اس کے استعمال سے آنکھوں کی بیماریوں میں افاقہ ہوتا ہے۔ ہیضہ میں نافع ہے۔
لہسن: ایک اور اہم سبزی لہسن ہے جسے خام حالت میں کھانے سے دل کی شریانوں میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے۔پولیو ‘ آنتوں کے امراض ‘ جسمانی کیڑوں‘ امراض جلد‘ پھوڑے تبخیر ‘ نظام تنفس کی جراثیم زدگی اور فشار الدم جیسے امراض میں مفید ہے۔ یہ دماغی امراض ‘ دق اور سل کیلئے بھی مفید ہے۔ یہ پیشاب و حیض جاری کرتا اور آواز کو صاف کرتا ہے۔ امراض دمہ‘فالج‘ لقوہ اور رعشہ میں مفید ہے۔
ادرک :اس قیمتی شفاء بخش جڑ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی فرمایا ہے۔ اس کا طبی نام زنجبیل ہے۔ زنجبیل کو محرک ہاضم ‘ کاسر ریاح، افعال کی بنا پر ضعف اعصاب اور بلغمی عوارضات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
لیکن ساتھ ہی آئرن سے بھرپو ر چقندر کھانا بھی نہ بھولیے ، اس میں وٹامن سی بھی ہوتا ہے ، جو آپ کی آنتوں کو آئرن بہتر طور پر جذب کرنے میں مدد کرتاہے۔ اگر آپ کو کچے چقندر پسند نہیںتو ا س کے سلائس بنا کر تھوڑا سا نمک اور لیموں کا عرق چھڑک کرایک گھنٹے کیلئے رکھ دیں۔اور اس پر پالک کاٹ کر ڈال دیں۔ اس کے بعد کالی مرچ چھڑک کر تناول فرمائیں ، آپ یقیناً اچھا محسوس کریں گے۔
بند گوبھی اور ہری مرچ :یہ بھی ایک زبردست سبزی ہے۔ بند گوبھی بہت سارے وٹامن گروپس کا بہترین ذریعہ ہے اور قابل ہضم فائبر ز بھی فراہم کرتی ہے۔ ہری مرچ میں موجود وٹامن سی ، گوبھی سے حاصل ہونیو الے منرلز کو ہضم کرنے کے عمل میں تیزی لاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہری مرچ ذائقہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ آپ کو پوٹاشیم، مینگنیز اور دیگر وٹامنز بھی فراہم کرے گی۔
ٹماٹر: یہ قوت مدافعت بڑھانے والے وٹامنزسے بھرپور ہوتا ہے۔ٹماٹر اور شملہ مرچوں کے امتزاج میں پریسلے کے تازہ پتے ملا لیں،جو کیلشیم اور وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتے ہیں یا ا س کے متبادل کے طورپر تازہ دھنیا چھڑک لیں، جس میں اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیت ہوتی ہے اور یہ مرچوں سے حاصل شدہ وٹامنز کو مکمل بنا دیتاہے۔
گاجر:گاجر کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں وٹامن کثرت سے ہوتا ہے جو کہ آنکھوں کی صحت کیلئے بہت فائدہ مند ہے ۔گاجر بینائی بہتر کرتی ہے۔ اس کے ساتھ آپ مولی کے پتے اور ایواکاڈو کے سلائس بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مولی کی ہاضمہ بہتر کرنے کی قابلیت آپ کے جسم میں گاجر ہضم کرنے کے عمل کو تیز اور بہتر کرتی ہے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-11/2515
چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچے اپنے ابتدائی دور میں جو کچھ کھاتے ہیں وہ اجزا ان کے معدے اور آنتوں میں خردنامیوں (مائیکروبس)کی تشکیل کرتےہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اثرات پوری زندگی پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
بالفرض اگربچے ابتدائی عمر میں شکراور چکنائی بھری اشیا کھائیں تو ان کے معدے اور آنتوں کی حیاتیاتی کیفیت بدل جاتی ہے اور یوں اس کے اثرات پوری عمر تک جاری رہ سکتےہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ریورسائیڈ کے سائنسدانوں نے بتایا کہ ہمارے پیٹ میں موجود ہزاروں لاکھوں اقسام کے بیکٹیریا اور دیگر خردنامئے ہماری مجموعی صحت کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگر اوائل عمر میں ہی ان کی کیفیت تبدیل ہونے لگے تو اول بچے کی نشوونما پر اثر پڑتا ہے جس کے آثار زندگی بھر دیکھے جاسکتے ہیں۔
جامعہ کیلیفورنیا میں ارتقائی فعلیات کے ماہر تھیوڈور گارلینڈ کہتے ہیں کہ مغربی غذائیں ہمارے بچوں پر مضر اثر ڈال رہی ہیں اور عین اسی طرح کی غذائیں چوہوں کو دی گئیں جس میں چکنائی اور شکر کی بہتات تھی۔ اس کےبعد چوہوں کا مطالعہ کیا گیا اور ان کے معدے میں موجود خردنامیوں کا بغور مطالعہ کیا گیا۔
انسانی جسم میں لاتعداد اقسام کے طفیلیے(پیراسائٹ)، فنجائی، وائرس اور بیکٹیریا پائے جاتے ہیں اور ان کی اکثریت آنتوں اور معدے میں رہتی ہے۔ یہ غذا کےہاضمے، جسم کو بیماریوں سے روکنے، وٹامن کی جزوبدن بنانے اور دواؤں کی تاثیر میں اہم کردار ادا کرتےہیں۔
اسی طرح صحت بخش اور مضرِ صحت خردنامیے بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسم میں تمام اقسام کے خردنامیوں کا توازن ضروری ہوتا ہے۔ اس تجربے میں چوہوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ان میں سےایک گروہ کو تین ہفتے تک مغربی کم صحت بخش غذائیں دی گئیں۔
اس کے بعد تمام چوہوں کے گروہوں کو دوبارہ معمول کے کھانے دیئے گئے اور یہ یہ عمل 14 ہفتوں تک جاری رکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ جن چوہوں کو چکنی اور میٹھی غذائیں دی گئیں ان کے معدے اور آنتوں کے خردنامیوں کا توازن سب سے زیادہ بگڑگیا اور ان میں میوری بیکیولم انٹیسٹینیل نامی بیکٹیریا کی کم ترین مقدار تھی جو کاربوہائیڈریٹس کو سادہ اجزا میں توڑ کر ہضم کے قابل بناتی ہے۔
چوہے کی عمر کا موازنہ انسانی عمر سے کرتے ہوئے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر بچپن میں خراب نوعیت کی غذائیں کھائی جائیں تو اس کے دیرینہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2141708/9812/
سبز چائے اور کافی کے کئی فوائد سامنے آتے رہے ہیں اور اب یہ معلوم ہوا ہے کہ ان کا باقاعدہ استعمال دل کےدوسرے دورے یا فالج کے حملے کےبعد جلد موت کو بھی روک سکتا ہے۔
جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق اور تفصیلی سروے کے بعد معلوم ہوا ہے سبز چائے کا زیادہ استعمال فالج اور امراضِ قلب میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ فالج سے بچ جانے والے خواتین وحضرات اگر سبز چائے کی سات پیالیاں روز نوش کریں تو اس سے زندگی بڑھتی ہے۔ دورانِ مطالعہ ایسے لوگوں میں ہلاکت کی شرح 64 فیصد تک کم دیکھی گئی تھی، جبکہ چائے نہ پینے والوں میں یہ رحجان نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح دل کے ایک دورے کے بعد جن افراد نے سبز چائے کی اتنی ہی مقدار کو معمول بنایا ان میں موت یا دوسرے دورے کی شرح 53 فیصد تک کم تھی۔
لیکن ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ سبز چائے کے علاوہ کافی میں بھی یہی خاصیت پائی جاتی ہے۔ کافی نہ صرف دل کے مریضوں کو بحال رکھتی ہے بلکہ صحت مند افراد کو بھی دل کی بیماریوں سے دور رکھتی ہے۔ لیکن کافی فالج کے مریضوں پر کارگرثابت نہ ہوسکی۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کافی یا سبزچائے پینے سے عمر بڑھتی ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ فالج اور دل کے دورے کے بعد ان کا استعمال دوسرے حملے یا صحت کی مزید خرابی کو ٹال سکتا ہے۔
اوساکا یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہیرویاسو آئیسو نے چار فروری کو اپنی تحقیق شائع کرائی ہے جس میں 40 سے 79 سال کے 46 ہزار افراد کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان تمام افراد کو 20 سال تک نوٹ کیا گیا جن میں فالج سے گزرنے والے 478 اور دل کے پہلے دورے کو جھیل کر 1214 افراد زندہ تھے۔
اس عمل میں تمام شرکا سے غذا، ورزش، اور سبز چائے یا کافی کی عادات کے بارے میں پوچھا گیا تاہم 20 سال کے بعد کل 9253 خواتین و حضرات اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے روزانہ سبزچائے کے دو کپ کا معمول بنایا ان میں موت کا خطرہ 39 فیصد کم نوٹ کیا گیا اور جیسے جیسے اس کی مقدار بڑھائی گئی موت سے دوری کا گراف بھی بڑھتا گیا خواہ وہ فالج کا حملہ ہو یا دل کا عارضہ۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ سبزچائے اور کافی دونوں ہی دل اور فالج کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2140308/9812/
انگوروں میں قدرتی طور پر جلد کو جھلسنے سےبچانے اور جلد کے سرطان کو دور رکھنے والے کیمکل پائے جاتےہیں۔ اس بات کا انکشاف ایک سروے کے بعد ہوا ہے جس کی تفصیل جرنل آف امریکن ڈرماٹولوجی میں شائع ہوئی ہے۔
اس ضمن میں انسانوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر انگوروں کی مناسب مقدار کا استعمال جاری رکھا جائے تو دھوپ میں موجود بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) شعاعوں سے جھلسنے کا عمل کم ہوجاتا ہے اور خلوی سطح پر اس کے نقصانات بھی کم ہوسکتےہیں۔ خیال ہے کہ انگوروں میں قیمتی قدرتی مرکبات پولی فینولز اس کی وجہ ہیں۔
اس ضمن میں یونیورسٹی آف البامہ کے ماہر کریگ ایلمٹس نے 14 روز تک ڈھائی کپ انگوروں کا پاؤڈر مختلف رضاکاروں کو کھلایا۔ یہ لوگ دھوپ میں کام کاج کے عادی تھےاور اس دوران ان کے چہرے پر بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) شعاعوں کے نقصان کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ اسی طرح جلد کی ان شعاعوں کے خلاف مزاحمت کو بھی نوٹ کیا گیا۔ جلد کی طبی اصطلاح میں یہ عمل جلد کی سرخی کو ظاہر کرتا ہے۔
مطالعہ ختم ہونے کے دوہفتے بعد تمام شرکا کے جلد کی بایوپسی کی گئی اور اس پر غور کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جن افراد نے انگوروں کا سفوف استعمال کیا تھا دیگر کے مقابلے میں ڈی این اے کی سطح پر ان میں جھلسن اور ڈی این اے کی ٹوٹ پھوٹ بہت کم دیکھی گئی۔ اسی طرح حیرت انگیز طور پر جلد کے خلیات مردہ ہونے کی شرح کم تھی اور جلن کی وجہ بننے والے بایومارکر بھی بڑھنے نہ پائے۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انگور نہایت بنیادی سطح پر جلد کو دھوپ کے نقصان سے بچاتے ہیں اور یہ ایک جادوئی اثر ہے۔ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ انگوروں کا استعمال جلد کے کینسر کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جلد پر دھوپ پڑنے سے ہی جو نقصان ہوتا ہے اس سے کینسر کی بنیاد پڑجاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2139636/9812/
ہر عمل کا رد عمل پیدا ہونا ایک فطری امر ہے اور فطری اصولوں سے ہم گریزاں تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے اثرات سے بچ نہیں سکتے۔
ایک پروپیگنڈہ ہم تواتر سے سنتے رہتے ہیں کہ دیسی اور ہومیوادویات کے سائیڈ افیکٹس نہیں ہوتے جوکہ سراسر فطرت کے منافی بات ہے۔ہر وہ چیز جو اپنے اندر مزاج،خواس اور طبعی اثرات رکھتی ہے وہاپنے اچھے یا برے اثرات بہر صورت مرتب کرتی ہے۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر کھانا گنجائش سے زیادہ کھالیا جائے حتیٰ کہ پانی بھی ضرورت سے زائد پی لیا جائے تو طبیعت میں گرانی، اکتاہٹ اور بے چینی سی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کے برعکس ایک ایسا مرکب جو ادویاتی اصولوں پر تیار کیاگیا ہو،طبعی و طبی خصوصیات کا حامل بھی ہو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اثرات مرتب نہ کرے۔ مفید یا مضر بہر دو صورت وہ دوا لازمی طور پر اپنے اثرات پیدا کرتے ہوئے بدن میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔
لہٰذا ایک بات ذہن نشین کرنے کے لائق ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے اور پیتے ہیں وہ ہمارے جسم پر لازمی طور پر مفید یا مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہماری گزارش اتنی ہے کہ خواہ آپ دیسی دوا کھائیں یا ہومیو دوااستعمال کریں،کوئی گھریلو ٹوٹکہ استعمال کریں یا کوئی صدری نسخہ وہ آپ کے مزاج،طبیعت اور صحت پر اثرانداز ضرور ہوگا۔
سا ئی نس اور اس کی علامات
غذائی بد پرہیزی اور خورونوش کی غلط عادات کے نتیجے میں ایک تکلیف دہ مرض عام ہوتا جا رہا ہے جس میں ناک کے نتھنے بند، سر بھاری،گلا خراب، سانس لینے میں دقت، بعض اوقات بخاراور کھانسی کی شکایات بھی پیدا ہونے لگتی ہیں۔ان علامات کے نتیجے میں سامنے والی بیماری کو عام فہم زبان میں لوگ ڈسٹ الرجی اور جدید میڈیکل سائنس اسے سائی نس کا نام دیتی ہے۔ ناک اور حلق کے مابین ربط پیدا کرنے والے خم دار جوف(Sinuses) کہا جاتا ہے،انہی خم دار جوف یا Sinuses میں ورم کی کیفیت پیدا ہونے کو سائی نس کہا جاتاہے۔
اس مرض میں مبتلا فرد کو چھینکیں آنا،ناک اور آنکھوں سے پانی بہنا، سر درد کرنا اور بے سکونی کا سامنا رہتا ہے۔تیز خوشبو، گردو غبار، دھواں، تیز روشنی، مٹی کی سوندھ، پرانے کپڑوں کی ہمک، مقوی اور مرغن خوراک اور ٹھنڈے پانی سے فوری الرجی ہوکر چھینکیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔سائی نس کے مریضوں کے کانوں میں شور کی آوازیں، کان بند ہونا اور سر چکرانے جیسی علامات بھی عام ملتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق چھینکیں آنا کمزور قوت مدافعت کی نشان دہی بھی سمجھی جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں قوت مدافعت میں اضافہ کرنے سے بھی امراض کے حملے سے بچاجا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ان علامات کو ابتدا میں سنجیدگی کی نظر سے دیکھا ہی نہیں جاتا، اسے عام نزلہ وزکام سمجھ کرہی کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ نزلہ و زکام ایسے الفاظ ہیں جن سے ہر انسان صرف آشنا ہی نہیں بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور اس کی گرفت میں آچکا ہو گا۔ہمارے ہاں صحت کا مناسب شعورنہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نزلے و زکام کو معمولی بیماری سمجھ کر نظر انداز کرتی ہے۔
اگر کچھ لوگ اس طرف دھیان بھی دیں تو ایک جوشاندہ پی لینے یا پھر کوئی ایلوپیتھک گولی کھانے کو کافی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ مرض اتنا غیر ضرر بھی نہیں کہ ہم اس کے علاج پر خاص توجہ نہ دیں۔ طبی ماہرین کے نزدیک اگر نزلے کا بر وقت اور مناسب سدِ باب نہ کیا جائے تو یہ سائی نس جیسے تکلیف دہ مرض کو بدنِ انسانی پر مُسلط کرنے کا ذریعہ بن کر تن درستی اور صحت مندی کو کھا جاتا ہے۔
سائی نس یا الرجی میں عام طور پر ایسے افراد مبتلا دیکھے گئے ہیں جو مزاج کے لحاظ سے کافی حساس ہوتے ہیں اور ان کی حسیات کافی تیز ہوتی ہیں اور ہلکی سی چیز کو فوری محسوس کرتے ہوئے اس کا رد عمل دیتی ہیں۔ ایسے لوگ جو فاسٹ فوڈز، بریانی، بڑا گوشت،کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، تلی، بھنی، مرغن اور بادی وترش غذاؤں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں انہیں سائی نس لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔سائی نس لاحق ہونے کا اندیشہ ایسے افراد کو بھی رہتا ہے جن کے جگر پر چربیلے مواد جمع ہونے کا رجحان پایا جاتا ہو۔ دائمی نزلہ اور زکام بھی سائی نس کا سبب ہوسکتا ہے۔قبض کا مسلسل رہنا،میٹابولزم کا سست ہونا اور بدن میں بلغمی رطوبات غیر ضروری جمع ہونا بھی اس بیماری کا سبب ہوسکتا ہے۔
ناک بدن انسانی کا وہ عضو ہے جو جسم میں جانے والی آکسیجن کو فلٹر کرنے، گردو غبار کے ذرات اور دوسری آلائشوں سے پاک کر کے مکمل صاف و شفاف آکسیجن پھیپھڑوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ناک میں خالق نے جھلی کے ساتھ ساتھ بال بھی پیدا کیے ہیں تاکہ ہوا کی فلٹریشن کا مکمل بندوبست ہوسکے۔ناک کی جھلیوں میں سوزش ہونے سے سائی نس اور ناک بند ہونے کی کیفیت پیدا ہوکر تکلیف کا سبب بن جاتی ہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق ناک کی جھلی کی سوزش نزلے کا سبب بنتی ہے۔ ناک میں پیدا ہو جانے والی رسولی بھی بعض اوقات اس مرض کا باعث بن جاتی ہے ۔علاوہ ازیںطویل عرصے تک نزلہ وزکام کا رہنا ،نزلی مواد کا ناک کی جھلیوں میں جم جانا ، ناک کی جھلیوں کا بوجوہ سخت ہوجانا بھی سائی نس کا باعث بنتا ہے۔سائی نس میں مبتلا افراد کو سب سے پہلے اپنی طبعی حساسیت سے چھٹکارا پانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔حساسیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ترش ،ٹھنڈی اور تلی ہوئی اشیاء کے استعمال میں احتیاط برتی جائے۔
سائی نس کے عمومی اسباب
سائی نس میں مبتلا مریض اکثروبیشتر نزلے میں گرفتار رہتا ہے اور اسے جسم کا ٹوٹنا ،ہلکا بخار، ورمِ حلق،کانوں کے امراض پیدا ہونا،ناک کے افعال میں نقص واقع ہونا جیسے ناک کے نتھنے بند ہونا،ناک کے رستے سانس لینے میں دقت ہوناوغیرہ جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔اچانک موسمی تبدیلی بھی سائی نس کی علامات میںاضافے کا باعث بنتی ہیں۔مرطوب موسم سے گرم اور گرم آب و ہوا سے سرد جگہ جانے سے بھی چھینکیں آنا معمول کی بات آور ہے۔
گرم و خشک غذاؤں کا زیادہ استعمال،مرغن ،تلی اور بھْنی ہوئی اشیاء کاتواتر سے استعمال بھی اس بیما ری کو دعوت دیتا ہے۔علاوہ ازیں بڑا گوشت، بینگن، دال مسور ، چاول ،بریانی ،پلاؤ، چاکلیٹ،انڈا آملیٹ، بیکری مصنوعات،بازاری مشروبات اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں کوخوراک غیر ضروری شامل کرنا بھی سائی نس کا باعث بنتے ہیں۔ چائے ، کافی، قہوہ ،شراب اور سگریٹ نوشی بھی ناک کی جھلی کی سوزش کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
گرم کھانے کے ساتھ یخ ٹھنڈا پانی پینا،ٹھنڈا پانی پی کر گرما گرم چائے یا کافی و قہوہ وغیرہ کا استعمال کرنا ،زیادہ دیر تک سر دی میں ننگے سر پھرناعلاوہ ازیں موسمی تبدیلی کے مطابق اپنے معمولات میں تبدیلی نہ لانا بھی اس مرض کوحملے کی دعوت دیتا ہے۔ زیادہ ترش اشیاء مثلاََ اچار،لیمن، کا حد سے زیادہ استعمال، بلا ضرورت ہاضمولے اور چورن چٹنیوں کا کھانابھی نقصان کا سبب بنتا ہے۔
عمومی احتیاط
’ احتیاط بہتر ہے علاج سے‘ کے یونیورسل کلیے کو اپنا کر ہم خاطر خواہ حد تک سائی نس سمیت کئی دیگر مہلک اور موذی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ایسے افراد جنہیں سائی نس کی علامات کا سامنا ہو انہیں چاہیے کہ موسم کی تبدیلی کے مخصوص وقت سے چند روز قبل ہی موسمی غذاء، لباس اور طرزِ بود وباد اختیار کر لی جائے۔شہد قادرِ مطلق کی طرف سے ایک نعمتِ بے بہا سے کم نہیں اس میں حکیمِ کائنات نے کمال قوتِ شفاء یابی رکھی ہے۔
شہد کا باقاعدہ استعمال بدنِ انسانی میں بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت کو مضبوط کرتا ہے۔موسم کی مناسبت سے اس کا استعمال کیا جائے تو یہ ہمیں کئی خطرناک امراض کے حملوں سے بچائے رکھتا ہے۔ موسمِ سرما میں نیم گرم پانی میں ملا کر نہار منہ پینا بے شمار فوائد کا حامل ہو تا ہے۔
بچاؤ:۔سب سے پہلے تو جھلیوں میں جمی بلغمی رطوبات سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے چند پتیاں اسطوخودوس،تین عدد کالی مرچ اور ایک گرام ادرک پانی میں پکا کر بطور قہوہ پینا مفید ثابت ہوتا ہے۔مغز بادام 60گرام، کالی ہرڈ بھنی ہونی 30 گرام اور دیسی شکر 50 باہم مرکب بنا کر رات سوتے وقت ایک چمچ نیم گرم دودھ کے ساتھ کھانے سے چند دنوں میں ہی بلغم سے صفائی ہوجائے گی۔
مریض کے مزاج کو تبدیل کرنے کے لیے حب کبد نوشادری دو گولیاں دن میں تین بار لازمی کھلائیں۔
سہانجنے کے پتوں کو خشک کر کے بڑے سائز کے کیپسول بھر کر روزانہ دن میں دو بار ایک کیپسول استعمال کریں۔قوت مدافعت میں بھرپور اضافہ ہوکر سائی نس کی بیماری سے چھٹکارامل جائے گا۔مرچ سیاہ ،گوند کیکر اور ست ملٹھی ہموزن پیس کر چنے برابر گولیاں بنا لیں۔گلہ خراب کی صورت میں وقفے وقفے سے ایک گولی چوسیں۔علاوہ ازیں پان کے پتے کی منڈھلی کو چبانے سے بھی ورمِ حلق سے افاقہ نصیب ہوتا ہے۔
شربتِ توت سیاہ،لعوقِ سپستاں اور لعوقِ خیار شنبر بھی امراضِ حلق کا بہتری علاج ہیں۔ گرم پانی میں نمک اور شہد ملا کر تواتر سے غرارے کیے جائیں اور معدے کو تبخیر وتیزابیت سے پاک رکھا جائے تو بھی گلے کے امراض سے کافی حد تک بچاؤ رہتا ہے۔اسی طرح دار چینی کا قہوہ بنا کر پینا یا دار چینی کو دودھ میں پکا کر استعمال میں لانا زکام اور نزلہ سے محفوظ رکھتا ہے۔
غذا وپرہیز:۔سائی نس میں بند ناک بڑی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔نتھنے کھولنے کے لیے روغن زیتون سے روئی تر کر کے پہلے ایک نتھنے پھر دوسرے نتھنے میں کچھ دیر تک رکھنے سے سانس کی روانی بحال ہونے میں مدد ملتی ہے۔اسی طرح دو سے تین لونگ پانی میں پکا کر بھاپ لینے سے بھی ناک کے بند راست کھلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ناک کھولنے کے لیے خالص مشک سونگھنا بھی بہت فوائد کا حامل ہوتا ہے۔
جب تک سائی نس سے مکمل نجات نہ مل جائے تب تک تیز خوشبو، بد بو، دھویں، ٹھنڈی ہوا، تیز روشنی،مرغن و مقوی خوراک،ٹھنڈا پانی،چاول، بیگن، بڑا گوشت فاسٹ فوڈز، کولامشروبات، آئس کریم، چوکلیٹی مصنوعات،اچار،ترش اور بادی غذاؤں سے مکمل پرہیز رکھیں۔
دیسی مرغ ،پرندوں اور بکرے کے پائے کی تری نما یخنی پینا بھی سا ئی نس کی بیماری سے بچاتا ہے۔ ورزش لازمی کریں اور جو کس قدر ممکن ہو تازہ آب وہوا میں رہنے کی کوشش کی جائے۔سادہ اور قدرتی خوراک کا استعمال کیا جائے ،میدے سے بنی اشیاء، مصنوعی اور کیمیائی اجزاء سے تیار کردہ غذاؤں کو مکمل ترک کردینا ہی مفید ہوتا ہے۔پانی نیم گرم اور ابلا ہواہی پیا جانا چاہیے۔بیان کردہ خوراک وپرہیز اور معمولات پر عمل پیرا ہونے سے دو چار ہفتوں میں ہی سا ئی نس سے نجات میسر آجائے گی۔
https://www.express.pk/story/2141706/9812/
nyc
ReplyDelete