سائینس ، ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز دنیا کی خبریں ، غذا ، ماحول اور رہن سہن سے صحت مند رہنے کے گر - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Friday, 9 July 2021

سائینس ، ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز دنیا کی خبریں ، غذا ، ماحول اور رہن سہن سے صحت مند رہنے کے گر



تمباکو نوشی سربالوں سے فارغ ہونے کی بڑی وجہ
 1 June, 2021


بیشتر افراد جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کے کینسر، دل کی شریانوں کے امراض اور نظام تنفس کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)مگر تمباکو نوشی کے منفی اثرات کا نتیجہ صرف پھیپھڑوں تک محدود نہیں بلکہ پورے جسم اس سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ ایک تحقیق میں بتایا گیاہے کہ تمباکو میں 7 ہزار سے زیادہ کیمیکلز ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم 69 کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔تمباکو نوشی کے متعدد نقصانات سے تو آپ واقف ہی ہوں گے مگر اس کا ایک اثر ایسا ہے جس کا علم بہت کم افراد کو ہے اور وہ ہے بالوں سے محرومی،یہ آپ کو گنجا کرسکتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-06-01/1831599


رات جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے والے افراد کی زندگی طویل ہوتی ہے ، تحقیق
 31 May, 2021

رات جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہو کر مناسب دورانیہ کی نیند لینے والے افراد کی زندگی طویل ہوتی ہے

اسلام آباد (اے پی پی) جرمن میگزین فروئنڈینن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ماہرین نے مناسب دورانیے کی نیند کو صحت مند رہنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ تحقیق کے دوران چار لاکھ افراد کے اعداد و شمار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ بلا شبہ مناسب دورانیہ کی نیند ہم سب کے لئے اہم ہے کیونکہ انسانی جسم پورے دن کی مصروفیت اور دبائو کے سبب جس تھکن کا شکار ہوتا ہے نیند نہ صرف اس تھکن کو دور کرتی ہے بلکہ اس دوران ہمارا جسم نئے دن کے چیلنجز کے لئے بھی خود کو تیار کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مناسب حد تک نیند اور پھر صبح جلد بیدار ہونے سے ہمارے جسم کی توانائی بحال ہو جاتی ہے ۔ جرمن میگزین فروئنڈینن میں شائع تحقیق کے مطابق رات کو دیر سے سونے والے افراد جلد موت کے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سرے یونیورسٹی اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کے دوران چار لاکھ افراد کی صحت کے اعداد وشمار کا 6.5 سال تک جائزہ لیا۔ جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد جو رات کو دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور پھر دن کو دیر تک سوئے رہتے ہیں وہ دیگر افراد کی نسبت موت کے 10 فیصد زائد خطرہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-05-31/1831279


سویڈن کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر آپ کے بھائی بہنوں کی تعداد زیادہ ہے یا بہن بھائیوں میں آپ کا دوسرا یا تیسرا نمبر ہے تو آپ کےلیے دل کی بیماریوں اور دیگر مسائل کا خطرہ بھی چھوٹے خاندان والوں سے زیادہ ہوسکتا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں 1932 سے 1960 کے درمیان پیدا ہونے والے 26 لاکھ 80 ہزار افراد کی زندگی اور صحت سے متعلق اعداد و شمار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ مطالعہ مجموعی طور پر 73 سال کا احاطہ کرتا ہے جس میں 13 لاکھ 60 ہزار مردوں اور 13 لاکھ 20 ہزار خواتین کی صحت کا جائزہ دو مرحلوں میں لیا گیا ہے جبکہ یہ تمام اعداد و شمار ’’ملٹی پل جنریشن رجسٹر‘‘ سے حاصل کیے گئے جو سویڈن میں عوامی صحت و زندگی سے متعلق تمام معلومات جمع رکھنے والا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے۔

ابتدائی مرحلے میں افراد کی عمر 30 سے 58 سال کے درمیان، جبکہ دوسرے مرحلے میں 55 سے 83 سال کے درمیان تھی۔

عادات و اطوار، مالی حیثیت، خاندانی امراض اور ایسے دیگر پہلوؤں کے ممکنہ اثرات کو خارج کرنے کے بعد مردوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ:
جن مردوں کا کوئی بہن بھائی نہیں تھا، ان کے مقابلے میں ایک سے دو بہن بھائیوں والے مردوں میں دل کی بیماریوں کا خطرہ کم تھا جبکہ چار یا زیادہ بہن بھائیوں والے مردوں کےلیے یہ خطرہ زیادہ تھا۔
علاوہ ازیں، ایک سے دو بہن بھائیوں والے مردوں میں دل یا دل سے متعلق کسی بھی بیماری سے مرنے کا خطرہ کم دیکھا گیا جبکہ تین یا زیادہ بہن بھائیوں والے مردوں کےلیے یہ خطرہ زیادہ تھا۔

خواتین کے بارے میں پتا چلا کہ:
جن خواتین کا کوئی بہن بھائی نہیں تھا، ان کی نسبت دو یا زیادہ بہن بھائیوں والی خواتین میں دل کی بیماریوں اور (ایسی کسی بھی بیماری سے) موت کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔
البتہ صرف ایک بہن یا بھائی والی خواتین میں امراضِ قلب اور ان سے موت کا خطرہ مجموعی طور پر بہت کم دیکھا گیا۔

اگرچہ یہ مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن اسے مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی طرح کے سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے جن کا تعلق خاندان میں افراد کی تعداد کے ساتھ ساتھ معاشرتی و تمدنی پس منظر اور پسِ پردہ حیاتیاتی نظاموں سے بھی ہے۔

ان تمام پہلوؤں کو جانچ کر ہی ہم پورے وثوق سے کسی خاندان میں لوگوں کی تعداد اور امراض کے بارے میں کچھ کہہ سکیں گے۔

یہ تحقیق ’’بی ایم جے اوپن‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2184516/9812/


وائی فائی ٹرانسمیٹر اور ریسیور اب ہرجگہ موجود ہیں۔ اب ایک خاص ٹیکنالوجی کی بدولت فالتو وائی فائی کو بجلی میں بدل کر ان سے چھوٹے آلات چلائے جاسکتے ہیں۔

وائی فائی میں ہم 2.4 گیگا ہرٹز ریڈیو فری کوئنسی استعمال کرتے ہیں اورکئی مقامات پر اس کے سگنل ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ اب ’اسپن ٹارک آسیلیٹر‘ (ایس ٹی او) جیسے منفرد اور چھوٹےآلے کی بدولت وائرلیس امواج کو بجلی میں بدلنا ممکن ہے۔ اس من میں نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سائنسدانوں نے تجرباتی طور پر ایک چھوٹی ایل ای ڈی روشن کرنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر انٹرنیٹ رابطے میں استعمال نہیں ہورہی تو وائی فائی ضائع ہورہی ہے۔ یہ ہرجگہ موجود ہے اور ہم کسی بیٹری کی بدولت اس سے چھوٹے برقی آلات چلاسکتے ہیں۔ اس طرح ماحول دوست توانائی کا ایک پہلو سامنے آیا ہے۔ گھروں اور شہروں میں چھوٹے سینسر اور اسمارٹ آلات اب وائی فائی سے چلانا ممکن ہے۔ اس طرح کمیونکیشن اور کمپیوٹنگ وغیرہ میں انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایس ٹی او نظام مائیکروویو خارج کرتے ہیں لیکن ان سے بجلی کی بہت کم مقدار ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک ساتھ بہت سارے ایس ٹی او نظاموں کو ملاکر ہم بجلی کی بڑی مقدار بناسکتے ہیں تاہم اس میں بھی کئی رکاوٹیں تھیں جنہیں سنگاپور کے سائنسدانوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

تجرباتی طور پر آٹھ ایس ٹی او نظاموں کو مرحلہ وار (سیریزمیں) جوڑا گیا ہے۔ اس طرح وائی فائی کو براہِ راست بجلی میں بدلا گیا۔ جسے کیپیسٹر میں بھیجا گیا اور ایک اعشاریہ چھ وولٹ کی ایل ای ڈی جلائی گئی۔ جب کیپیسٹر کو چھ مرتبہ چارج کیا گیا تو ایل ای ڈی ایک منٹ تک روشنی دیتی رہی۔

اگرچہ یہ ایک دلچسپ تجربہ ہے لیکن کئی برس بعد یہ ممکن ہوگا کہ ہم وائی فائی کے زیاں کو روکتے ہوئے اس سے بجلی کے آلات بناسکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2184305/508/


سائنسدانوں نے کائنات میں تاریک مادے کا اب تک سب سے بڑا نقشہ تیار کرلیا، ماہرینِ کونیات (کاسمولوجسٹ) کے مطابق کائنات میں مادے کی 80 فیصد مقدار تاریک مادے (ڈارک میٹر) پر مشتمل ہے جو عام مادے سے قدرے مختلف ہے اور اس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔

زمان ومکاں کی خمیدگی سے ماہرین نے بعید ترین کہکشاؤں سے زمین تک پہنچنے والی روشنی کو دیکھتے ہوئے یہ نقشہ بنایا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خلا میں بھاری اجسام یا مادہ روشنی کی شعاعوں کو خمیدہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے روشنی کی راہ میں ٹیڑھ اور رکاوٹ کی بنا پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ روشنی کی راہ میں کوئی ایسا مادہ موجود ہے جو اس پر اثرانداز ہورہا ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ان دیکھا مادہ پیش منظر میں بھی موجود ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں ڈارک انرجی سروے (ڈی ای ایس) نے ایک دو نہیں بلکہ قریب اور دور کی دس کروڑ کہکشاؤں کا مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے جائزہ لیا ہے۔ ماہرین نے ان کہکشاؤں کو دیکھنے کے عمل میں ان کی تبدیل شدہ شکل اور کھنچاؤ کا جائزہ بھی لیا ہے۔ اوپر کی تصویر میں آپ جنوبی نصف کرے میں اس تمام مادے کو دیکھ سکتے ہیں جو دکھائی دینے والی کہکشاؤں کے پیش منظر یعنی آگے کی جانب موجود ہے اور مجموعی طور پر یہ جنوبی نصف کرے کے آسمان کا 25 فیصد حصہ بناتا ہے۔

نائل نے کہا کہ اس ٹیم میں یونیورسٹی کالج لندن کے نائل جیفری بھی شامل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کائنات میں سیاہ مادے کا راج ہے اور ہم یہ جان کر حیران رہ گئے ہی کہ آخر یہ پوشیدہ مادہ کتنے وسیع رقبے پر موجود ہے۔ ’ہمارے نقشے میں اکثر مقامات پر تاریک مادہ نمایاں ہے۔ عین یہی شکل ہم نظرآنے والے مادے میں بھی دیکھتے ہیں یعنی جالوں کی بڑے گچھے ہیں جن میں بڑی بڑی خالی جگہیں ہیں،‘۔

ان کے مطابق کائناتی پیمانے پر تاریک مادے کو دیکھنے سے ہم کائنات کے بنیادی سوالات کے جوابات معلوم کرسکتے ہیں۔ ماہرینِ فلکیات ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ کائنات میں ہمیں دکھائی دینے والے مادے سے بہت زیادہ مادہ موجود ۔ ان میں تاریک توانائی اور تاریک مادہ ہمیشہ سے ہی پراسرار رہا ہے لیکن روشن کہکشاؤں کے رویوں سے ان کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کہکشاں ایک گچھے کی صورت میں ملی جلی دکھائی دیتی ہیں جو اس مجموعے میں قدرے تیزی سے حرکت کررہی ہیں۔

اس طرح رات کے وقت ہم صرف کہکشاؤں کی روشنی ہی دیکھ سکتے ہیں لیکن اطراف میں پھیلا تاریک اور ان دیکھا مادہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اگر دوردراز کہکشاں یا ستارے کی روشنی ہم تک آرہی ہے اور وہ ترچھی ہورہی ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی نادیدہ مادہ موجود ہے اور یہ عمل ’ثقلی عدسہ‘ یا گریویٹی لینسنگ کہلاتا ہے۔

ماہرین نے تین سال تاریک مادے کی تلاش اور نقشہ سازی کے بعد کہا ہے کہ یہ کائنات میں عین اسی طرح بکھرا ہوا ہے جنہیں کائنات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے جو آج بھی استعمال ہورہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2183487/508/


ہڈیوں کے بعض زخم اور چوٹیں اتنی پیچیدہ ہوتی ہیں کہ انہیں مندمل کرنا محال ہوجاتاہے۔ اب اس کا حل فطرت سے تلاش کیا گیا ہے جس میں مچھلی کے چھلکوں اور مینڈک کی کھال کو ہڈیوں کے علاج میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عموماً ران، کولہے اور ٹانگ کی ہڈیوں میں کسی بیماری، حادثے یا چوٹ کی وجہ سے خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لاپتہ ہونے والے ہڈی کے ٹکڑے کو جسم میں ہی افزائش کردہ ہڈی سے بھرا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل وقت طلب اور پیچیدہ ہوتا ہے۔

اب سنگاپور کی نینیانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے اسنیک ہیڈ مچھلی اور امریکی بل فراگ مینڈک سے اس مسئلے کا حل تلاش کیا ہے۔ انہوں نے مچھلی کے چھلکوں اور مینڈک کی کھال سے ایک مٹیریئل تیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں جانور اپنے گوشت کے لیے فارم میں پالے جارہے ہیں۔

پہلے انہوں نے مینڈک کی کھال کو تمام آلودگیوں سے پاک کیا اور اسے پیس کا گاڑھا محلول بنایا، پھر پانی ملاکر اس میں کولاجن پروٹین کو الگ کیا۔ دوسری جانب مچھلی کے چھلکوں سے کیلشیئم فاسفیٹ نکالا جو ہائیڈروکسی اے پیٹائڈ کہلاتا ہے۔ پھر دونوں کو خشک کرکے پیسا اور اس کا سفوف بنایا۔ آخر میں اس میں کولاجن کو شامل کیا۔

اس کے بعد سفوف کو سانچے میں ڈھال کر سہ جہتی (تھری ڈی) نفوذ پذیر مچان نما شکل دی گئی۔ اس مرحلے پر اس میں ہڈی بنانے والے اہم حیاتیاتی اجزا شامل کئے گئے۔ اب جیسے ہی مٹیریئل کو ہڈی پر ڈالا گیا تو ہڈی پیدا کرنے والے اجزا تیزی سے پروان چڑھے۔ یہ اجزا برابری اور ہموار انداز میں پھیل گئے۔

جانوروں پر آزمائش میں جسم کے امنیاتی نظام نے اسے قبول کرلیا اور یوں ایک بالکل انوکھا بایومیڈیکل مادہ ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2183580/9812/


ممتاز سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کے دفتر اور ذاتی اشیا لندن کے مشہور سائنس میوزیم میں رکھی گئی ہیں۔ اس ضمن میں کیمبرج یونیورسٹی لائبریری، حکومتِ برطانیہ اور سائنس میوزیم کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے۔ معاہدے کے بدلے ہاکنگ کی فیملی کے ٹیکس میں بھی تخفیف کی جائے گی۔

تاہم ہاکنگ کے بعض ذاتی خطوط اور اشیا کیمبرج لائبریری میں ہی رہیں گی جن میں بریف ہسٹری آف ٹائم نامی مشہور تصنیف کا پہلا مسودہ اور 1944 سے 2008 تک کے خطوط شامل ہیں۔ تاہم میوزیم میں ان کی وھیل چیئراور، سائنسی شرطیں جن پر ہاکنگ کے انگوٹھے کے نشانات ہیں، پی ایچ ڈی مقالہ اور میڈل بھی ہیں۔ واضح رہے کہ اس عظیم سائنسداں کی وفات 2018 میں 76 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ سمپسن سیریز کے دسویں سیزن میں اسٹیفن ہاکنگ کو دکھایا گیا تھا اور اس پر ایک ماڈل بنایا گیا تھا جسے اب عام افراد بھی دیکھ سکیں گے۔

لندن سائنس میوزیم سے وابستہ سرجان بلیچ فورڈ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ممتاز نظری طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ اسٹیفن ہاکنگ نے طبی قوانین کو غلط ثابت کرکے طویل زندگی پائی اور طبیعیات کے قوانین کو نئے سرے سے لکھ کرلاکھوں کروڑوں افراد کو دلوں کو تبدیل کیا۔

2017 میں کیمبرج یونیورسٹی لائبریری نے اسٹیفن ہاکنگ کے پی ایچ ڈی مقالے کو اسکین کرکے عام افراد کے لیے ویب سائٹ پر رکھا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ کو 22 برس کی عمر میں شدید معذور کرنے والی بیماری ’موٹرنیورون ڈیزیز‘ لاحق ہوئی تھی۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ محض چند برس ہی زندہ رہ سکیں گے لیکن نہ صرف ہاکنگ نے غیرمعمولی عمرپائی بلکہ انہوں نے نظری طبیعیات کے اہم پہلوؤں مثلاً بلیک ہول، سنگیولیرٹی اور کونیات کے ان گنت رازوں پرقابلِ قدر تحقیقی کام پیش کیا تھا۔
https://www.express.pk/story/2182994/508/


چین، مصنوعی سورج کے درجہ حرارت کا نیا عالمی ریکارڈ
 29 May, 2021

چینی سائنسدانوں نے مصنوعی سورج کے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا

ہیفئی (شنہوا) چینی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف پلازما فزکس کے مطابق فیوژن ری ایکٹر کے آزمائشی تجربے کے دوران پلازمہ 101سیکنڈ 12کروڑسینٹی گریڈ تک گرم رہا جبکہ 20 سیکنڈ کیلئے پلازمہ کادرجہ حرارت 16کروڑسینٹی گریڈکوچھوگیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-05-29/1830350


امریکی انجینئروں اور طبّی ماہرین نے مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے ایسا جدید و ذہین بیت الخلاء تیار کرلیا ہے جو رفع حاجت کے دوران ہی اپنے استعمال کرنے والے کے فضلے کا تجزیہ کرکے پیٹ اور آنتوں کی بیماریوں کا سراغ لگا سکتا ہے۔

ڈیوک یونیورسٹی، نارتھ کیرولائنا میں ایجاد کیے گئے اس اچھوتے بیت الخلاء کو ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ بھی کہا جارہا ہے کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے ایک ایسے خودکار نظام سے لیس ہے جو ٹھوس انسانی فضلے کی تصویر کھینچ کر فوری طور پر بتا سکتا ہے کہ ٹوائلٹ استعمال کرنے والے شخص کو پیٹ یا آنتوں کی کوئی بیماری ہے یا نہیں۔

بیماری کی صورت میں یہ اپنے صارف (استعمال کرنے والے) کو خبردار کردیتا ہے تاکہ وہ ڈاکٹر سے رابطہ کرے اور اپنا علاج کروائے۔

اسمارٹ ٹوائلٹ کے نظام کا انحصار مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے ایک الگورتھم پر ہے جسے ٹھوس انسانی فضلے کے ہزاروں نمونوں کی تصویریں دکھا کر اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ فضلے کو صرف ’’ایک نظر دیکھ کر‘‘ پیٹ یا آنتوں کی بیماری کا سراغ لگا سکے۔

ابتدائی تجربات میں اس الگورتھم نے پیٹ اور آنتوں کے امراض کی 86 فیصد تک درست نشاندہی کی جبکہ ٹھوس فضلے میں خون کی موجودگی کا پتا بھی 74 فیصد درستگی کے ساتھ لگایا۔

اگرچہ فی الحال یہ صرف ایک پروٹوٹائپ کی شکل میں ہے تاہم اسے ایجاد کرنے والے ماہرین موجودہ ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ کو اور بھی ذہین بنانا چاہتے ہیں۔

اس کےلیے وہ اسمارٹ ٹوائلٹ کے اگلے پروٹوٹائپ کو ٹھوس انسانی فضلے میں شامل حیاتی کیمیائی مادّے (بایوکیمیکلز) جانچ کر پیٹ کی بیماری کا پتا چلانے کے قابل بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔

یہ اضافہ نہ صرف اسمارٹ ٹوائلٹ کو مزید بہتر بنائے گا بلکہ اس کی کارکردگی میں بھی اضافہ کرے گا۔


https://www.express.pk/story/2182483/9812/


خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ چین کا تیار کردہ جدید ترین نیوی گیشن سسٹم ’بیدو‘ امریکی ساختہ ’گلوبل پوزیشننگ سسٹم‘ (جی پی ایس) کا متبادل بنتا جارہا ہے جس کا عوامی استعمال 2025 تک 156 ارب ڈالر مالیت تک جا پہنچے گا۔

گزشتہ روز بارہویں سالانہ چائنا سیٹلائٹ نیوی گیشن کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں چینی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کمیٹی کے چیئرمین، حہ یو بین نے بتایا کہ جولائی 2020 میں بیدو-3 عالمی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کے باضابطہ طور پر استعمال میں آنے کے بعد سے چین نے ابتدائی طور پر نیوی گیشن سسٹم کا انتظامی نظام قائم کیا اور دنیا بھر کے 120 سے زیادہ ممالک اور خطوں میں بیدو نظام متعارف کروایا جا چکا ہے۔

کووِڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد، بیدو نظام سے متعلق بین الاقوامی تعاون آن لائن جاری رہا اور بین الاقوامی معیار کی تنظیموں میں اس کی شمولیت کے عمل میں بھی تیزی آرہی ہے۔

رائٹرز کے مطابق، چین کی سیٹلائٹ نیوی گیشن انڈسٹری سالانہ 20 فیصد کی شرح سے پھیل رہی ہے جو بلاشبہ غیرمعمولی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت بھی 120 ممالک میں ’بیدو نیوی گیشن سسٹم‘ استعمال کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ چین کے ’بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘ میں 35 مصنوعی سیارچے شامل ہیں جو زمین پر رہنمائی کے حصول میں مدد دے سکتے ہیں۔ فی الحال عوام کےلیے اس نظام کی درستی 3.6 میٹر ہے جبکہ انکرپٹڈ سیٹلائٹ نیوی گیشن کےلیے یہ درستی 10 سینٹی میٹر تک لے جائی جاسکتی ہے۔

پنٹاگون کی ترجمان نے ایک اور ایسی ویڈیو کے درست ہونے کی تصدیق کردی ہے جس میں ایک گول اُڑن طشتری کو اُڑتے اُڑتے سمندر میں غائب ہوتے دکھایا گیا ہے۔

یہ ویڈیو چند روز پہلے پراسرار مظاہر کے مشہور امریکی کھوجی جیریمی کوربیل نے اپنے یوٹیوب چینل پر جاری کی تھی۔

ان کا دعوی تھا کہ یہ ویڈیو امریکی بحریہ کے جہاز ’’یو ایس ایس اوماہا‘‘ کے عملے نے 15 جولائی 2019 کی دوپہر 11 بجے کے آس پاس، سان ڈیاگو کے قریبی سمندر میں بنائی تھی۔

صرف 59 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں آسمان پر ایک نامعلوم گول چیز پرواز کرتی نظر آرہی ہے جو آہستہ آہستہ سطح سمندر کے قریب ہوتے ہوئے، بالآخر سمندر کی لہروں میں غائب ہوجاتی ہے۔

کوربیل کے مطابق، پراسرار گولے جیسی یہ ’’اُڑن طشتری‘‘ تقریباً چھ فٹ جتنی چوڑی تھی جبکہ اس کی پرواز کی رفتار 74 سے 254 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔

یہ تقریباً ایک گھنٹے تک پرواز کرتی رہی، یہاں تک کہ سمندری لہروں میں غائب ہوگئی۔ کوربیل کا کہنا ہے کہ امریکی بحریہ نے اس مقام پر سمندری تہہ میں بہت تلاش کیا لیکن انہیں اُڑن طشتری کا ملبہ یا باقیات نہیں مل سکیں۔

یہ خبریں بھی پڑھیے:

امریکی ویب سائٹ ’’دی ڈی بریف‘‘ نے اس بارے میں پنٹاگون کی ترجمان سوسن گوگ سے بذریعہ ای میل رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے بھی اس ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ درست ہے۔

اپنی ای میل میں سوسن گوگ نے یہ بھی لکھا کہ اس ویڈیو کو ’’نامعلوم آسمانی مظاہر‘‘ پر تحقیق کےلیے بنائی گئی ٹاسک فورس (یو اے پی ٹی ایف) نے بھی اپنی حالیہ تحقیقات میں شامل کرلیا ہے۔

سوسن گوگ نے اپنی ای میل میں یہ اعتراف بھی کیا کہ مذکورہ ویڈیو امریکی بحریہ کے ایک جہاز سے ہی بنائی گئی تھی، تاہم انہوں نے اس ویڈیو کے وقت اور مقام سمیت، دیگر تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ امریکی حکام کی جانب سے اُڑن طشتریاں دیکھے جانے کی تصدیق سے عوامی سطح پر یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ خلائی مخلوق کوئی افسانہ یا افواہ نہیں بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے جسے پوری طرح بیان نہیں کیا جارہا۔

اس کے علاوہ، پنٹاگون نے جون 2021 میں اُڑن طشتریوں/ نامعلوم آسمانی مظاہر سے متعلق ایک نئی رپورٹ جاری کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2182325/509/


متحدہ عرب امارات اور دبئی کے کئی علاقے اب بھی دنیا بھر میں کم ترین بارش برساتے ہیں۔ اب یہاں چھوٹے طیاروں سے بادلوں کو چارج کرکے بارش برسانے پر تجربات جاری ہیں۔

ان جہازوں کو کسی مجنیق یا غلیل جیسے نظام سے ہوا میں پھینکا جائے گا جو بادلوں میں جاکر بجلی چھوڑیں گے۔ اس طرح بادلوں میں موجود بارشوں کے چھوٹے بڑے قطرے چارج ہوجائیں گے اورشاید اس طرح وہ زمین کا رخ کرسکتے ہیں۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات میں 2017 سے اس کے تجربات جاری ہیں لیکن اب کینٹ یونیورسٹی کے سائنسداں اس پر غور کررہے ہیں۔ جامعہ سے وابستہ پروفیسر کیری نکول کہتی ہیں کہ اگرچہ بادلوں میں بجلی پہنچا کر بارش برسانے پر برسوں سے غور ہورہا ہے لیکن اس دعوے کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

امارات کے قومی ادارہ برائے موسمیات نے اس تحقیقی پروگرام کے لیے 15 لاکھ ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو تین برس تک جاری رہے گی۔ اولین تجربات کے لیے چار طیارے بنائے گئے جن میں سے ہر ایک کے بازو کی لمبائی دو میٹر ہے۔ یہ خودکار انداز یعنی آٹوپائلٹ کے تحت پرواز کرتے ہیں اور انہیں ایک منجنیق نما نظام سے دھکیلا جاتا ہے۔

کئی اقسام کے سینسر سے مرصع ایک طیارہ چالیس منٹ تک فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ اپنے جدید نظام کی بدولت یہ درجہ حرارت، ہوا کے دباؤ، بادلوں کے چارج اور نمی کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس کا سب سے اہم کام بادلوں میں کرنٹ دوڑانا ہے تاکہ وہ چارج سے بھرجائیں اورکسی طرح برسات شروع ہوجائے۔

اس سے قبل فن لینڈ اور برطانیہ میں بھی ان طیاروں کی آزمائش ہوچکی ہے جبکہ زمین پر رہتے ہوئے بادلوں پر تحقیق یو اے ای میں کی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات ایک تحقیقی جریدے، دی جرنل آف ایٹماسفیئرک اینڈ اوشیانِک ٹیکنالوجی میں بھی شائع ہوئی ہے۔

اس ضمن میں اولین تجربات موسمِ گرما کے عروج میں ہوں گے جس کا انتظار کیا جارہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2183097/508/


سائنسدان روزانہ ایک گلاس دودھ پینے کا حیران کن فائدہ سامنے لے آئے ، جان کر آپ آج سے ہی عادت بنا لیں گے
May 25, 2021 | 19:15:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) دودھ ایک بہترین غذا ہے جو بے شمار طبی فوائد کی حامل ہے۔ اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں روزانہ ایک گلاس دودھ پینے کا ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ جان کر آپ دودھ پینا اپنی عادت بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ ایک گلاس دودھ پینے سے ہارٹ اٹیک، دل کی دیگر بیماریوں اور سٹروک کا خطرہ 14فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ روزانہ دودھ پینے سے لوگوں میں کولیسٹرول کا لیول بھی کم رہتا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ویمل کیرانی نے بتایا ہے کہ ”ہم نے اس تحقیق میں 20لاکھ سے زائد امریکی اور برطانوی شہریوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ ان میں سے جن لوگوں میں ایک جینیاتی میوٹیشن پائی گئی جس کی وجہ سے لوگ زیادہ دودھ پینے کے قابل ہوتے ہیں، ان کودل کی بیماریاں اور سٹروک لاحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت 14فیصد تک کم پایا گیا۔ ان لوگوں میں دوران خون کی صحت دوسروں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر پائی گئی۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293563?fbclid=IwAR0SbE14WdjZaePvmX-xR0AnE8Lj5UMk_1FKESBKRNp6JPYWSEn1WhlEieM


بدبو دار پیشاب کس بیماری کی علامت ہے ؟ ماہر ڈاکٹر نے خبردار کر دیا
May 25, 2021 | 19:09:PM

سورس: TikTok/dromonimoh
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) پیشاب سے بدبو آنے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ ایک ماہر امریکی ڈاکٹر نے اس حوالے سے تفصیل بیان کر دی ہے۔ڈیلی سٹار کے مطابق ڈاکٹر اومون ایموئی نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ @dromonimohiپر بتایا ہے کہ پیشاب سے بدبو آنے کی کچھ معمولی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، جن میں جسم میں پانی کی کمی ہو جانا اور کوئی تیز بو والی چیز کھالینا وغیرہ شامل ہیں۔ تیز بو والی اشیاءکے علاوہ بھی کچھ کھانے ایسے ہیں جو پیشاب کی بدبو کا سبب بنتے ہیں۔

ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ان معمولی وجوہات کے علاوہ پیشاب سے بدبو آنا کچھ سنگین بیماریوں کی علامت بھی ہوتا ہے۔ اگرآپ کو ذیابیطس ہے یا لاحق ہونے والی ہے تو ایسی صورت میں بھی آپ کے پیشاب سے بدبو آنے کا امکان ہوتا ہے۔ پیشاب کی نالی میں انفیکشن، ہونا، جنسی عمل کے دوران لاحق ہونے والی انفیکشنزہونا، گردے میں پتھری ہوناوغیرہ بھی پیشاب میں بدبو کی وجہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین میں ہارمونز میں معمول کی تبدیلیاں بھی ان کے پیشاپ میں بدبو پیدا کر سکتی ہیں۔ بالخصوص حاملہ خواتین میں یہ مسئلہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کے پیشاب سے حد سے زیادہ بدبو آ رہی ہے اور کئی دن گزرنے پر بھی اس کی شدت کم نہیں ہوئی تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293557?fbclid=IwAR1qpopkwth1pM4OMOeaPLZZLIOde7TQh9LP6um3vJDX82ETe33P3NVOTG4


یادداشت متاثر کرنیوالے مرض ڈیمینشیا بارے نیا انکشاف
 25 May, 2021

بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی عوامل ہوسکتے ہیں

لندن(نیٹ نیوز)اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے ۔ تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں صورتوں میں لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے ۔ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مرد و خواتین میں بیماری لاحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے ۔یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے 5 لاکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-25/1828165


کیا آپ گھونگھوں کی غلاظت والی چکنائی سے بنے صابن سے منہ دھونا پسند کریں گے کیونکہ ایک فرانسیسی نوجوان نے ایسے صابنوں کی فروخت شروع کردی ہے۔

28 سالہ ڈامین ڈیسروشرنے گھونگھوں کی بڑی تعداد کو پالا ہوا ہے اور وہ اس کے گاڑھے لیس دار مادے سے بنے صابن گزشتہ برس دسمبر سے فروخت کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوریا اور چین میں خواتین گھونگھوں سے چہرے کا مساج کرواتی ہیں کیونکہ اس کی چپچپاہٹ جلد پر عمررسیدگی کے آثار روکتی ہے اور اسے شاداب بناتی ہے۔

ڈامین کہتے ہیں کہ ایک گھونگھے سے ایک وقت میں دو گرام تک سلائم ملتا ہے اور صابن کی ایک ٹکیہ بنانے کے لیے 40 گھونگھوں کا لیسدار مادہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس طرح 80 گرام سلائم کو صابونی اجزا میں ملاکر کئی ٹکیہ بنائی جاسکتی ہیں۔ بقول ڈامین اس کے لیے کئی گھونگھوں درکار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے 60 ہزار گھونگھے پال رکھے ہیں اور صرف 6 ہزار تو اپنے گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔

ان سے سلائم خارج کرنا بھی ایک عمل ہے وہ پہلے گھونگھوں کو سبزہ اور گوبھی وغیرہ کھلاتے ہیں اور بعد میں اسے انگلی سے چھوتے ہیں تو وہ ردِعمل میں اپنا گیلا لیس دارمادہ خارج کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح گھونگھوں کو کوئی گزند پہنچائے بغیر ان سے صابن کا خام مال لیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ مغرب میں اب تک گھونگھوں کی افادیت سامنے نہیں آئی ہے لیکن مشرقی ایشیا کے کئی ممالک مثلاً چین اور کوریا وغیرہ میں گھونگھوں کا مساج عام ہے اور اس کی چکنائی کو چہرے پر براہِ راست لگایا جاتا ہے۔ قدرت نے گھونگھے کو یہ چکنائی اس لیے دی ہے کہ وہ اپنے سخت خول میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے وقت کسی زخم کے شکار نہ ہوں۔
https://www.express.pk/story/2181768/509/


آسٹریا کے سائنسدانوں نے زندہ انسانی خلیوں پر مشتمل، ایک ایسا ننھا منا مصنوعی دل تیار کرلیا ہے جس کی جسامت دال کے ایک دانے جتنی ہے اور وہ دھڑکتا بھی ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی زندہ انسانی خلیات پر مشتمل، چھوٹے چھوٹے مصنوعی دل بنائے جاچکے ہیں لیکن مذکورہ پیش رفت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مصنوعی دل کے خلیوں نے اپنے آپ کو خود ہی ترتیب دے کر یہ شکل اختیار کی اور دھڑکنا بھی شروع کردیا۔

اس سے پہلے تک تجرباتی طور پر جتنے بھی مصنوعی دل سمیت جتنے بھی ننھے ننھے اعضاء بنائے گئے، ان میں زندہ خلیوں کو مطلوبہ ساخت والے حیاتی کیمیائی سانچوں (scaffolds) میں رکھ کر ان کی تعداد بڑھائی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ سانچے والی شکل اختیار کرلیتے جبکہ سانچہ تشکیل دینے والا مادّہ تحلیل ہو کر ختم ہوجاتا۔

آسٹریا کے ماہرین نے اس مقصد کےلیے ہر فن مولا ’’خلیاتِ ساق‘‘ (Stem Cells) استعمال کیے جبکہ کچھ مخصوص حیاتی کیمیائی تعاملات (بایوکیمیکل ری ایکشنز) سے استفادہ کیا گیا جنہیں ’’پاتھ ویز‘‘ کے تکنیکی نام سے جانا جاتا ہے۔


ان پاتھ ویز نے خلیاتِ ساق کو اس قابل بنایا کہ وہ تقسیم اور تبدیل ہو کر، ازخود ترتیب پائیں اور ننھے منے، دھڑکتے ہوئے دل میں تبدیل ہوسکیں۔

یہ طریقہ اس سے پہلے تجرباتی طور پر چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور دماغ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاچکا ہے۔

البتہ، حالیہ تجربات میں بطورِ خاص اُن پاتھ ویز کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے ذریعے خلیاتِ ساق میں تقسیم کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی واقع ہوتی ہے تاکہ وہ کسی خاص عضو کو فعال بنانے والے خلیوں میں بدل سکیں۔


واضح رہے کہ دل وہ پہلا انسانی عضو ہے جو حمل ٹھہرنے کے بعد نہ صرف وجود میں آتا ہے بلکہ اپنا کام بھی سب سے پہلے کرنا شروع کردیتا ہے۔

رحمِ مادر میں دل کی تشکیل 18ویں سے 19ویں دن میں شروع ہوجاتی ہے جو حمل کے تقریباً 22ویں ہفتے دھڑکنا اور خون پمپ کرنا بھی شروع کردیتا ہے۔

نوٹ: آسٹریائی ماہرین کی یہ تحقیق ریسرچ جرنل ’’سیل‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2181650/508/


طویل عرصے سے نابینا شخص کو جینیاتی تبدیلی اور بصریات (آپٹکس) کی مدد سے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ جزوی طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس پورے عمل کو آپٹوجینیٹکس کا نام دیا گیا ہے جس میں بصارت کے ذمے دار خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا جاتا ہے۔

فرانسیسی کمپنی ’جین سائٹ بائیلوجِکس‘ نے اپنے ابتدائی نتائج سائنسی جریدے نیچر میں شائع کرائے ہیں۔ اس میں دنیا کے پہلے شخص کی تفصیل بتائی گئی ہے جوآپٹوجینیٹکس کے علاج سے گزرا ہے اور مکمل طور پر نابینا شخص تجربہ گاہ میں کئی آلات دیکھ کران کی شناخت کرسکتا ہے۔ ’ہم انسانی آپٹوجینیٹکس پر اپنی پہلی تحقیق پیش کرنے پر بہت خوش ہیں،‘ منصوبے میں شریک ایڈ بوئڈن نے بتایا جو میساچیوسیٹس انسٹٰی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔

اگرچہ آپٹوجینیٹکس تجربہ گاہ میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے کیونکہ اس کی بدولت دماغی خلیات کو کچھ اس طرح بدلا جاتا ہے کہ وہ روشنی کے ردِ عمل میں سگنل خارج کرتے ہیں۔ جانوروں پر کی گئی تحقیق سے اس کے کئی فوائد اور دریافتیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن انسانون پر اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دماغ کے اندر مخصوص روشنی پہنچانے کے لیے اعلیٰ فائبر آپٹکس ٹیکنالوجی اور پیچیدہ جراحی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

آنکھ کے کئی عارضوں کا علاج آپٹوجینیٹکس سے کیا جاسکتا ہے اور ایسی ہی ایک بیماری ’ریٹی نائٹس پگمینٹوسا‘ ہے۔ یہ ایک موروثی کیفیت ہے جس میں ریٹینا متاثر ہوتا ہے اور روشنی محسوس کرنے والے خلیات ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب جین سائٹ کے طریقہ علاج میں آنکھ میں روشنی محسوس کرنے والی پرت کے نیچے اعصابی خلیات میں الجی میں پایا جانے والا ایک جین بھی داخل کیا گیا۔ اس کی خاصیت ہے کہ جب اس پر نارنجی رنگ کی روشنی ڈالی جاتی ہے تو بصری خلیات سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے مریض کو ایک خاص قسم کی عینک پہنائی گئی جس میں کیمرے اور پروسیسر لگے تھے اور وہ عام روشنی کو نارنجی بنارہے تھے۔

دنیا میں سے سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو 58 سالہ فرانسیسی پر آزمایا گیا ہے ۔ اب وہ زیبرا کراسنگ دیکھ سکتا ہے۔ فون اور فرنیچر وغیرہ میں تمیز کرسکتا ہے اور تجربہ گاہ میں کئی اشیا کو شمار کرسکتا ہے۔ لیکن توقع ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بصارت مزید بہتر ہوتی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2181854/9812/


پاکستان نے ’پاک ویک‘ کے نام سے پاکستان کی پہلی ویکسین تیار کرلی ہے جو کورونا وائرس کے خلاف تاثیر رکھتی ہے۔ ویکسین کی تیاری میں چینی کمپنی کین سائنو بایو سے مدد لی گئی ہے۔ اس ضمن میں ویکسین سازی کے تمام معیارات پر سختی سے عمل کیا گیا ہے اور کوالٹی کنٹرول کو برقرار رکھا گیا ہے۔

مقامی طور پر ویکسین کی تیاری سے کووڈ 19 کو قابو پانے کے لیے پاکستان کو دیگر ممالک پر انحصار سے نجات مل سکے گی۔

اس سال فروری میں چین کی جانب سے عطیہ کردہ ویکسین کے بعد ملک بھر میں ویکسینیشن کا عمل جاری ہے۔ اس ضمن میں پہلے صحت سے وابستہ ڈاکٹر اور دیگر عملے کو ویکسین لگائی گئ تھیں جس کے بعد بزرگ شہریوں اور اب 300 سال سے زائد درمیانی عمر کے پاکستانیوں کی ویکسینیشن جاری ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اب تک ملک میں 50 لاکھ افراد ویکسین لگواچکے ہیں۔

’ این آئی ایچ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ) واراس کی لیڈرشپ اس ضمن میں مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اکسیر انداز میں کین سائنو بایو انکارپوریٹڈ، چین کی مدد سے کین سائنو ویکسین بنائی ہے،‘ وزیرِاعظم کے خصوصی معاون برائے صحت، ڈاکٹر فیصل سلطان نے اپنی ٹویٹ میں کہا۔

ڈاکٹر فیصل کے مطابق ویکسین نے تمام سخت معیارات اور ٹیسٹ کے مراحل کو پاس کرلیا ہے جو ویکسین سپلائی لائن کی مسلسل فراہمی میں ایک اہم سنگِ میل بھی ہے۔

وزارتِ صحت کے ایک افسر کے مطابق ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے معاہدے کی رو سے این آئی ایچ ہر ماہ ویکسین کی 30 لاکھ خوراکیں تیار کرے گا ۔ اس ضمن میں پہلی کھیپ ماہِ رواں کے آخر تک دستیاب ہوسکے گی۔

اس ضمن میں ماہرین کو خاص تربیت فراہم کی گئی ہے جو این آئی ایچ کے پلانٹ میں کین سائنو ویکسین کی کھیپ تیار کریں گے۔
https://www.express.pk/story/2181857/9812/


فیس بک سے دوری دماغ اور جسم کیلئے فائدہ مند :تحقیق
 24 May, 2021

فیس بک سے دوری دماغ اور جسم کیلئے فائدہ مند ہے ۔ ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کو صرف چار ہفتے کیلئے بند کر دینا لوگوں کی دماغی صحت میں نہایت اہم تبدیلی لا سکتا ہے

اسلام آباد (اے پی پی)نیویارک یونیورسٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کی سوشل میڈیا کے انسانی ذہن پر اثرات کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مطابق روزانہ 15 منٹ سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں کے مقابلہ میں ایسے صارفین جنہوں نے فیس بک مکمل طور پر بند کر دی تھی ان کی سماجی سرگرمیاں پہلے سے بہتر پائی گئیں اور ان کا دوسرے لوگوں سے ملنے جلنے میں اضافہ ہو گیا تھا جبکہ پہلے کی نسبت وہ اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں سے ملنا زیادہ پسند کرنے لگے تھے ۔ تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا سے دوری کے نتیجہ میں ان کی جسمانی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔ دوسری جانب ایسے افراد حالات حاضرہ سے کم باخبر پائے گئے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-24/1827541


آلو بخارا بے شمار جسمانی فائدے پہنچانے کا سبب
 24 May, 2021

رواں سیزن کا پھل آلو بخارا اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے ، اور بے شمار جسمانی فائدے پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ آلو بخارا کا استعمال ہارٹ اٹیک، فالج اور غشی کا خطرہ کم کرتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ یہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے لہٰذا بالوں کی نشوونما اور جلد کی خوبصورتی کیلئے بہترین ہے جبکہ یہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی ہے اور جسم میں خون کی کمی بھی دور کرتا ہے ۔ آلو بخارا معدے اور نظام ہاضمہ کو درست رکھتا ہے جبکہ یہ یرقان، ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس کے پتے ناریل کے تیل میں ایک گھنٹہ دھوپ میں رکھیں، اس کے بعد اس تیل کو بالوں میں لگائیں بالوں کے متعدد مسائل جیسے خشکی، بال جھڑنا، بے رونقی وغیرہ کا خاتمہ ہوگا اور بال لمبے اور گھنے ہوں گے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-24/1827544


ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہری پتیوں والی سبزیوں کا ایک کپ روزانہ کھانے سے دل کے امراض کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

ایڈتھ کووان یونیورسٹی میں تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پالک، سلاد اور دیگر پتوں والی سبزیاں نائٹریٹ سے بھرپور ہوتی ہیں۔ روزانہ ان سبزیوں کا ایک کپ ضرور کھانا چاہیے کیونکہ اس سے دل کو تقویت ملتی ہے، بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور خون میں شکر کی مقدار بھی اپنی حد میں رہ سکتی ہے۔

اس سے قبل ہم نائٹریٹ سے بھرپور چقندر کے خواص بیان کرچکے ہیں۔ نائٹریٹ کی بنا پر چقندر کا رس بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتا ہے اور دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے۔ اسی بنا پر ہری سبزیاں بھی کسی سے کم نہیں ۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ سبزپتوں والی غذاؤں کی سلاد دن میں ایک مرتبہ ضرور کھانی چاہیے۔

اس ضمن میں ڈنمارک سے 50 ہزار افراد کا غذائی ڈیٹا جمع کیا گیا اور اسے 23 سال تک نوٹ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جو افراد بہت شوق سے سبزیاں کھا رہے تھے ان میں ڈھائی یونٹ بلؑڈ پریشر کم دیکھا گیا یعنی امراضِ قلب کا خطرہ 12 سے 25 فیصد تک کم دیکھا گیا تھا۔

سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ روزانہ ایک کپ کچی یا نصف کپ پکی ہوئی سبزیاں کھانے سے امراضِ قلب کے خطرات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دل کی شریانوں کے مرض میں 26 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ سبزیاں کھانے سے ہارٹ فیل اور فالج سے بچاؤ میں بھی مدد ملتی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ان سبزیوں کی اسموتھی یا جوس بھی یکساں طور پر فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2181446/9812/


جاپانی سائنسدانوں نے پھلوں اور سبزیوں کی باقیات کو ایسے مضبوط مادّوں میں تبدیل کیا ہے جن سے اینٹیں بھی بنائی جاسکتی ہیں جو کھانے کے قابل ہوتی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق، یونیورسٹی آف ٹوکیو کے پروفیسر ڈاکٹر یووا ساکائی اور ان کے ساتھیوں نے پھلوں اور سبزیوں کے کچرے میں سمندری گھاس ملانے کے بعد، ایک خاص عمل سے گزار کر سخت اور مضبوط مادّوں میں تبدیل کیا جو کھانے کے قابل بھی ہیں۔

واضح رہے کہ پھلوں اور سبزیوں کی باقیات کو بازیافت (ری سائیکل) کرکے مختلف مادّوں میں بدلنا کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ اس پیش رفت میں نیا پن یہ ہے کہ مذکورہ تعمیراتی مادّے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ خوردنی (کھائے جانے کے قابل) بھی ہیں۔

لکڑی کے برادے سے تعمیراتی مادّے (بلڈنگ مٹیریلز) بنانے کی بنیادی تکنیک کو جاپانی ماہرین نے گوبھی کے پتّوں اور کینو، موسمبی، پیاز، میٹھے کدّو اور کیلے کے چھلکوں پر آزمایا۔

اس مقصد کےلیے پہلے ان پتّوں اور چھلکوں کو ویکیوم میں خشک کرنے کے بعد انتہائی باریک ذرّات والے سفوف میں تبدیل کیا گیا۔

پھر اِن میں پانی کے علاوہ کچھ اور اجزاء شامل کرکے انہیں بلند درجہ حرارت پر سانچے میں دبایا گیا۔

اس طرح انہیں مختلف الاقسام مادّے حاصل ہوئے جن میں سے بعض کی مضبوطی کنکریٹ سے بھی زیادہ تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ اتنی مضبوطی کے باوجود، یہ تمام مادّے کھائے جانے کے قابل تھے۔

ان میں سب سے مضبوط مادّہ ’’چینی گوبھی‘‘ کہلانے والی سبزی کے پتّوں سے بنایا گیا، جس کی مضبوطی روایتی کنکریٹ کے مقابلے میں بھی تین گنا زیادہ دیکھی گئی۔

یہ اور ان جیسے تجربات کا اصل مقصد ماحول دوست تعمیراتی مادّوں کی تیاری ہے جو پائیدار ہونے کے علاوہ اتنے مضبوط بھی ہوں کہ روایتی تعمیراتی مواد کی جگہ لے سکیں۔

نوٹ: اس بارے میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کی ویب سائٹ پر ایک عدد پریس ریلیز موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس تحقیق کی تفصیلات ’’سوسائٹی آف مٹیریلز سائنس‘‘ کے 70ویں سالانہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی جو بہت جلد جاپان میں منعقد کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2182511/508/


جاپان کی ’نپن پیپر انڈسٹریز کمپنی‘ ایک منفرد تحقیقی منصوبے پر کام کررہی ہے جس کے تحت لکڑی کا برادہ استعمال کرتے ہوئے ایسی طاقتور بیٹریاں بنائی جائیں گی جو موجودہ بیٹریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بجلی ذخیرہ کرسکیں گی اور زیادہ پائیدار بھی ہوں گی۔

ان بیٹریوں میں ’’سیلولوز نینوفائبر‘‘ استعمال کیا جائے گا جسے بنانے کےلیے استعمال شدہ لکڑی اور لکڑی کے برادے میں شامل ’’سیلولوز‘‘ نامی مادّہ الگ کرکے اسے نینومیٹر پیمانے جتنے مختصر و باریک ٹکڑوں میں توڑا جاتا ہے۔

نپن پیپر انڈسٹریز کے مطابق، لکڑی کے برادے سے ’’سپر کپیسٹرز‘‘ بنائے جائیں گے ماحول دوست ہونے کے علاوہ بجلی ذخیرہ کرنے اور خارج کرنے (چارج/ ڈسچارج) میں بھی موجودہ بیٹریوں سے کہیں بہتر ہوں گے۔

واضح رہے کہ ’’سپر کپیسٹرز‘‘ عملاً بیٹریاں ہی ہوتی ہیں جن کے اندر بجلی ذخیرہ کرنے کی غیرمعمولی گنجائش ہوتی ہے۔

لکڑی کے برادے سے بنی انقلابی بیٹریاں/ سپر کپیسٹرز تیزی سے چارج اور ڈسچارج ہوسکیں گی، ان کی عمر بھی طویل ہوگی جبکہ ان میں موجود سیلولوز نینوفائبرز بھی لمبے عرصے تک قابلِ استعمال حالت میں رہیں گے۔

تازہ ترین پیش رفت میں نپن پیپر انڈسٹریز کی تحقیقی ٹیم نے سیلولوز نینوفائبرز کو بہت زیادہ بجلی ذخیرہ کرنے کے قابل بنایا ہے۔

اس سے پہلے سیلولوز نینوفائبرز میں بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت خاصی کم تھی جو سپر کپیسٹر/ بیٹری میں اس کے اطلاق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی تھی۔

لکڑی کے برادے والی بیٹری پر آہستگی سے لیکن مسلسل کام جاری ہے۔ نپن پیپر انڈسٹریز کا کہنا ہے کہ سیلولوز نینوفائبرز والی بیٹریوں کا اوّلین مظاہرہ اوساکا میں منعقدہ ’’ورلڈ ایکسپو 2025‘‘ میں کیا جائے گا۔

اس کے بعد، لگ بھگ 2030 تک یہ بیٹریاں تجارتی پیمانے پر فروخت کےلیے پیش کردی جائیں گی۔
https://www.express.pk/story/2182061/508/


ایک عرصے سے فاقے کے فوائد بتاتے رہے ہیں اور اس ضمن میں اب انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کا بہت ذکر ہورہا ہے۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے طویل مدتی حافظہ بھی بہتر ہوتا ہے۔

کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے چوہوں پر بعض تجربات کرکے بتایا کہ ہے کہ کس طرح فاقہ ان میں طویل نوعیت کی یادداشت اور عمررسیدگی سے ہونے والے اعصابی نقصانات کا ازالہ کرتا ہے۔ جدید تحقیق سے فاقے، روزے اور ڈائٹنگ کے کئی فوائد سامنے آئے ہیں جن کی فہرست بڑی طویل ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے معدے کے خردنامئے تندرست رہتے ہیں، سرطان کے علاج میں مدد ملتی ہے اور جسم سے زہریلے پروٹین کی صفائی میں مدد ملتی ہے جو الزائیمر کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی فاقہ کشی خلوی سطح پر مائٹوکونڈریائی مرمت سے بڑھاپے کو بھی روکتی ہے۔

نئے تجربات میں ماہرین نے چوہیا کو تین گروہ میں بانٹا۔ ان میں سے ایک کو معمول کی غذا، دوسرے گروہ کو محدود کیلوری والی غذا دی گئی اور تیسرے گروہ کو انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے گزارا گیا یعنی ایک دن بھوکا رکھ کر انہیں دوسرے دن کھانا دیا جاتا رہا تھا۔

تین ماہ کے بعد فاقے سے گزرنے والے گروہ کی طویل مدتی یادداشت بہتردیکھی گئی۔ ماہرین نے دیکھا کہ ان می کلوتھو نامی جین کی سرگرمی بڑھ گئی جسے عمر سے وابستہ جین کہا جاتا ہے۔ یہ عمر بڑھاتا ہے اور ساتھ ہی دماغ میں نئے اعصابی خلیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یادداشت بڑھانے میں مدد کرسکتا ہے۔

کنگز کالج سے وابستہ سائنسداں ڈاکٹر سینڈرین ٹورے کے مطابق یہ امر حیرت انگیز ہے کہ فاقے بالغ افراد میں بھی نئے اعصابی خلیات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں کلوتھو جین یا پروٹین غیرمعمولی کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے بہت ہی غیرمعمولی فوائد سامنے آئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2182233/9812/


امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر شدید اور ناقابلِ علاج گٹھیا کے مریضوں کو مدافعتی نظام کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا کے ساتھ ساتھ گٹھیا کی ایک دوا ’کرسٹیکسا‘ بھی دی جائے تو انہیں فائدہ ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ خون میں یورک ایسڈ بڑھنے کی وجہ گٹھیا کا مرض لاحق ہوتا ہے جس کا سب سے نمایاں اثر جوڑوں میں سختی، درد اور سوجن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

ویسے تو گٹھیا کی کئی دوائیں موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کےلیے ’کرسٹیکسا‘ (Krystexxa) نامی دوا تجویز کی جاتی ہے جو خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرتے ہوئے مریض کو آرام پہنچاتی ہے۔ تاہم بیماری سے بچانے والے قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کا ردِعمل اس دوا کی کارکردگی متاثر کرتے ہوئے اس میں کمی کردیتا ہے۔

اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر پوجا کھنّہ اور ان کے ساتھیوں نے گٹھیا سے شدید متاثرہ مریضوں پر ’کرسٹیکسا‘ کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم کا ردِعمل کم کرنے والی ایک دوا بھی آزمانے کا فیصلہ کیا۔

محدود پیمانے کی اس تحقیق میں اوسطاً 55 سال کے ایسے 32 مریض بطور رضاکار شریک کیے گئے جو شدید گٹھیا میں مبتلا تھے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’آرتھرائٹس اینڈ ریومیٹولوجی‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 ہفتے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ان مریضوں کو ایک خاص ترتیب سے کرسٹیکسا اور امیون سسٹم کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا ’ایم ایم ایف‘ دی گئیں۔

مطالعے کے اختتام پر 68 فیصد مریضوں کے خون میں نہ صرف یورک ایسڈ نمایاں طور پر کم ہوگیا بلکہ گٹھیا کے باعث ہونے والی شدید تکلیف بھی بہت کم رہ گئی۔

ڈاکٹر پوجا کہتی ہیں کہ نئی ادویہ کی تلاش ایک طویل اور وقت طلب معاملہ ہے جس میں دس سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔

ایسے میں پہلے سے منظور شدہ مختلف دواؤں کو ایک ساتھ ملا کر استعمال کرنے کی حکمتِ عملی بھی کم خرچ پر اور کم وقت میں بہتر نتائج دے سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2181051/9812/



اللہ اکبر کے ذکر سے متاثر ہوکر جاپانی ڈاکٹر نے اسلام قبول کرلیا
May 23, 2021 | 11:14:AM

لاہور (ویب ڈیسک) اللہ اکبر کے ذکر سے متاثر ہوکر قدیم تھراپی کے ماہر جاپانی ڈاکٹر نے اسلام قبول کرلیا اور پاکستان میں رہ کر پٹھوں اور رگوں کے مرض میں مبتلا افراد کے علاج کو اپنا مشن بنالیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈاکٹر شوتارو ٹاکائی کا تعلق جاپان کے شہر ٹوکیو سے ہے، وہ قدیم جاپانی تھراپی کے ذریعے جوڑوں اور پٹھوں کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں ،انہوں نے اللہ کے ذکر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا ہے اور اب پاکستان میں ہی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں، ان کا اسلامی نام علی رکھا گیا ہے۔

جاپانی ڈاکٹرعلی نے بتایا کہ وہ جس مخصوص آلے سے تھراپی کرتے ہیں اسے سی ایس 60 کہا جاتا ہے ، یہ ایک لٹو کی طرح ہے جو ان کے ایک انجنیئر دوست نے تیار کیا تھا، اس کی خاصیت یہ ہے کہ انسانی جسم میں آکسائیٹ کی موجودگی کی تشخیص کرتا ہے اور جاپان میں اس طریقہ علاج کو سرکاری سطح پرتسلیم کیا جاتا ہے تاہم ڈاکٹرعلی خود روحانی طریقہ علاج سے کافی متاثرہیں۔

جاپانی ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے کندھے میں کافی درد رہتا تھا، جاپان میں ان کے ایک پاکستانی دوست مقصود نے انہیں سید بابر بخاری سے متعلق بتایا جو ان کے دوست تھے جو اللہ اکبر کا ذکر کرکے علاج کرتے ہیں، انہوں نے ٹیلی فون پر میری ان سے بات کروائی ، بابر بخاری نے مجھے اللہ اکبر کا ذکر کرنے کا کہا اور صرف 5 منٹ میں میرا کندھے کا درد ختم ہوگیا جو میرے لیے حیرت انگیزتھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ یہاں پاکستان آگئے، بابر بخاری سے ملے اور اسلام قبول کرلیا۔
https://dailypakistan.com.pk/23-May-2021/1292578?fbclid=IwAR1Rx5ZCqJ-F7lvz-HyKyymyCZGRaKv-kPh4leYt10REwJV11mGlNEVycok


ایلن مسک نے ٹیسلا گاڑیوں میں راکٹ کی طاقت ڈالنے کا فیصلہ کرلیا
May 22, 2021 | 19:08:PM

سورس: Instagram/elonmusk
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ایلن مسک ٹیسلا اور سپیس ایکس کے بانی ہیں۔ ٹیسلا الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے جبکہ سپیس ایکس راکٹ اور خلائی جہاز بنا رہی ہے۔ اب ایلن مسک نے ٹیسلا کی الیکٹرک کار کو سپیس ایکس کا ’تڑکا‘ لگا کر ایسا ماڈل تیار کرنے کا اعلان کردیا ہے کہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ایلن مسک نے کہا ہے کہ ٹیسلا روڈسٹر میں ’سپیس ایکس پیکیج‘ بھی شامل کیا جا رہا ہے، جس سے گاڑی کی رفتار میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔ یہ گاڑی صفر سے 60میل (تقریباًساڑھے 96کلومیٹر) فی گھنٹہ کی رفتار محض 1.1سیکنڈ میں پکڑنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی۔سپیس ایکس پیکیج کے ذریعے اس گاڑی کو اسی طرح طاقت ملے گی جیسے ایک راکٹ کو ایندھن سے ملتی ہے۔

ایلن مسک نے دنیا کو یہ خوشخبری ایک ٹویٹ کی شکل میں سنائی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فیچر ٹیسلا روڈسٹر کی اگلی جنریشن میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ایلن مسک کی طرف سے ٹیسلا گاڑیوں میں سپیس ایکس پیکیج شامل کرنے کا اعلان 2018ءمیں کیا گیا تھا، جسے اب عملی شکل ملنے جا رہی ہے اور جلد سپیس ایکس پیکیج کی حامل ٹیسلا گاڑیاں دستیاب ہوں گی۔ ایلن مسک نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ”سپیس ایکس راکٹ تھرسٹر آپشن پیکیج کے ساتھ آنے والی گاڑیاں محفوظ ہوں گی مگر یہ رفتار کی انتہائی نوعیت ہو گی جو ایسے لوگوں کے لیے مناسب نہیں ہو گی جو طبی عارضوں کا شکار ہیں۔ یہ ایک ’ہارڈ کور رولر کوسٹر‘ کی طرح کا تجربہ ہو گا۔“
https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292250?fbclid=IwAR0Bl81voYaA9-kAD4NxDZuMRmQYE3zwF7hboPJ8cJVQKL8-nATC2XsJeRQ


چینی خلائی گاڑی نے مریخ کی سطح پر چلنا شروع کردیا
 23 May, 2021

مریخ کی سطح پر اترنے والی چینی خلائی گاڑی نے سرخ سیارے پر چلنا شروع کر دیا

بیجنگ (اے پی) چین کی نیشنل سپیس ایڈمنسٹریشن کے مطابق شمسی توانائی سے چلنے والی خلائی گاڑی رات 10 بجکر 40 منٹ پر مریخ کی سطح پر اتری۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-05-23/1827346


چاول کی ہائبرڈاقسام متعارف کرنیوالے چینی سائنسدان چل بسے
 23 May, 2021

زیادہ پیداواری صلاحیت کے حامل چاولوں کی اقسام متعارف کرانے پر ‘فادر آف ہائبرڈ رائس’ کا خطاب پانے والے چینی سائنسدان یوان لونگ پنگ چل بسے

بیجنگ(دنیا مانیٹرنگ)ان کی عمر 91 برس تھی۔ انہوں نے 1970 کی دہائی میں ہائبرڈ چاولوں کی مختلف اقسام متعارف کرائیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-05-23/1827347


بلڈ پریشر میں کمی کرنے میں مددگار طریقوں بارے جانئے
 22 May, 2021

بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر بے حد عام ہوتا جارہا ہے تاہم ایسے کچھ طریقے ہیں جن کے ذریعے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)ورزش ہائی بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لانے کیلئے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے ۔ اگر آپ پہلے سے ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں تو غذا میں نمک کا استعمال کم کردیں۔پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں جیسے سبز پتوں والی سبزیاں، ٹماٹر، آلو، شکر قندی، تربوز، خربوزے ، کیلے ، مالٹے ، خوبانی، دودھ، دہی، مچھلی، گریاں اور بیج کا استعمال بلڈ پریشر کا خطرہ کم کرتی ہیں۔تناؤ بلڈ پریشر کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔میٹھے مشروبات کا کم استعمال بلڈ پریشر میں کمی لاتا ہے جن لوگوں کو کیلشیئم کی کمی کا سامنا ہوتا ہے ان میں اکثر ہائی بلڈ پریشر عام ہوتا ہے ۔ کیلشیئم سپلیمنٹس تو بلڈ پریشر میں کمی نہیں لاتیں مگر اس جز سے بھرپور غذائیں ضرور مفید ثابت ہوتی ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-22/1826639


جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے ہے کہ بعض وٹامن اور غذائی اجزا زخم بھرنے کے عمل کو تیز کرسکتےہیں۔ لیکن ذیابیطس اور امراضِ قلب اور بعض اقسام کے سرطان اس ضمن میں رکاوٹ بن سکتےہیں۔

اسی طرح سرجری اور گہرے زخموں کے بعد بعض سبزیوں، غذائی اجزا اورمعدنیات سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں کئی تحقیق مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں جن پر ماہرینِ غذائیات نے بحث بھی کی ہیں۔ تحقیق کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ کچھ اقسام کے زخم ایسے ہوتے ہیں جن میں عام غذا کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ اس کے ثبوت روایتی طب اور حکمت میں بھی ملتےہیں جو سالہا سال کے تجربات سے مستحکم ہوئے ہیں۔

اسی طرح کا ایک طبی مشروب جیوون بھی ہے جو زخموں کو مندمل کرنے کے لیے پیا اور پلایا جاتا ہے۔ اس طرح ہم زخم بھرنے میں غذا کے طبی استعمالات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ گوشت، دالوں اور خشک میوہ جات میں پایا جانے والا ایک اہم جزو ارگینائن ہے جو دورانِ خون بڑھاتا ہے اور پروٹین فراہم کرتا ہے۔ خون کی روانی بڑھنے سے غذائی اجزا بھی زخم پر جمع ہوتے ہیں اسے مندمل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔

اسی طرح مچھلی، پالک، مرغ گوشت، لوبیا اور گوبھی وغیرہ میں گلوٹامائن کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ امنیاتی نظام کو طاقت دے کر نئے ٹشوز کو بڑھاتا ہے۔ اسی طرح کولاجن والی غذائیں بھی زخم بھرنے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ زنک، وٹامن سی، ای اور بی 12 وغیرہ زخم بھرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2180796/9812/


امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر شدید اور ناقابلِ علاج گٹھیا کے مریضوں کو مدافعتی نظام کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا کے ساتھ ساتھ گٹھیا کی ایک دوا ’کرسٹیکسا‘ بھی دی جائے تو انہیں فائدہ ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ خون میں یورک ایسڈ بڑھنے کی وجہ گٹھیا کا مرض لاحق ہوتا ہے جس کا سب سے نمایاں اثر جوڑوں میں سختی، درد اور سوجن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

ویسے تو گٹھیا کی کئی دوائیں موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کےلیے ’کرسٹیکسا‘ (Krystexxa) نامی دوا تجویز کی جاتی ہے جو خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرتے ہوئے مریض کو آرام پہنچاتی ہے۔ تاہم بیماری سے بچانے والے قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کا ردِعمل اس دوا کی کارکردگی متاثر کرتے ہوئے اس میں کمی کردیتا ہے۔

اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر پوجا کھنّہ اور ان کے ساتھیوں نے گٹھیا سے شدید متاثرہ مریضوں پر ’کرسٹیکسا‘ کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم کا ردِعمل کم کرنے والی ایک دوا بھی آزمانے کا فیصلہ کیا۔

محدود پیمانے کی اس تحقیق میں اوسطاً 55 سال کے ایسے 32 مریض بطور رضاکار شریک کیے گئے جو شدید گٹھیا میں مبتلا تھے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’آرتھرائٹس اینڈ ریومیٹولوجی‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 ہفتے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ان مریضوں کو ایک خاص ترتیب سے کرسٹیکسا اور امیون سسٹم کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا ’ایم ایم ایف‘ دی گئیں۔

مطالعے کے اختتام پر 68 فیصد مریضوں کے خون میں نہ صرف یورک ایسڈ نمایاں طور پر کم ہوگیا بلکہ گٹھیا کے باعث ہونے والی شدید تکلیف بھی بہت کم رہ گئی۔

ڈاکٹر پوجا کہتی ہیں کہ نئی ادویہ کی تلاش ایک طویل اور وقت طلب معاملہ ہے جس میں دس سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔

ایسے میں پہلے سے منظور شدہ مختلف دواؤں کو ایک ساتھ ملا کر استعمال کرنے کی حکمتِ عملی بھی کم خرچ پر اور کم وقت میں بہتر نتائج دے سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2181051/9812/


اگر آپ کا دل چاہتا تو اب اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں پر کم خرچ اور برق رفتار اضافی انگوٹھا پہن سکتے ہیں جس کے لیے کسی سرجری کی ضرورت بھی نہیں۔

اضافی روبوٹک انگوٹھے کو کنٹرول کرنے کے لیے پیر کے انگوٹھے اور کلائی پر خاص قسم کے سینسر لگائے گئے تھے جو وائرلیس رابطے کی بدولت انگوٹھے کو عین حقیقی عضو کی طرح ہی حرکت میں لاتے ہیں۔ اگرچہ یہ برائے فروخت نہیں کیونکہ اس کا مقصد اضافی انگوٹھے کے انسانی دماغ پر اثرات کا جائزہ لینا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے ڈینیئل کلوڈ اور ان کے ساتھیوں نے 36 رضا کاروں کو مصنوعی انگوٹھا لگایا جو کلائی پر پٹے کی صورت میں باندھا گیا تھا اور مشینی انگوٹھا چھوٹی انگلی کے ساتھ حقیقی انگوٹھے کی مخالف سمت نصب کیا گیا تھا۔

جن افراد کو انگوٹھا پہنایا گیا تھا وہ سیدھے ہاتھ والے تھے اور انہوں نے اسی ہاتھ پر پہنا جسے وہ زیادہ استعمال کرتے تھے۔ پانچ روز تک شرکا کو تجربہ گاہ اور حقیقی صورتحال میں مشینی انگوٹھے کا استعمال کرایا گیا ۔

پاؤں کے انگوٹھے کے سگنل وائرلیس رابطے کے ذریعے کلائی پر بندھے ریسیور تک پہنچے اور وہاں سے انہوں نے تیسرے انگوٹھے کو کنٹرول کیا۔ اس طرح معذور افراد بھی اپنے پیر کا انگوٹھا ہلا کر انگوٹھے کو ہر سمت میں گھمانے کے ساتھ ساتھ اس سے چھوٹی اشیا کو بھی گرفت کرسکتے ہیں۔

ڈینیئل کلوڈ کہتے ہیں کہ ان تجربات کا مقصد یہ تھا کہ ہم جان سکیں کہ آخر انسانی جسم کے ممکنات کیا کچھ ہوسکتے ہیں اور کس طرح سے وہ اشیا کو مختلف انداز سے گرفت کرسکتے ہیں۔ اس کا دلچسپ احوال ویڈیو میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک انگوٹھے کے اضافے سے اب ایک ہی ہاتھ سے کیل چھیلا جاسکتا ہے، چائے میں چینی ملانے کا چمچہ ہلایا جاسکتا ہے اورایک ہی ہاتھ سے کتابوں کے اوراق پلٹے جاسکتے ہیں۔

تجرباتی طور پر تمام شرکا نے روزانہ تین گھنٹے تک انگوٹھے کا استعمال کیا ۔ اس دوران کئی افراد کے دماغ کا جائزہ ایم آر آئی کے ذریعے کیا گیا۔ اسی طرح تجربات سے پہلے اور بعد میں بھی دماغی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھا گیا۔

ہمارا دماغ ہر انگلی کو یکساں سمجھتے ہوئے اسے کنٹرول کرتا ہے۔ پھر ایک انگلی مڑنے سے دوسری انگلی کا سگنل بھی جاتا ہے۔ جب ایک ہفتے بعد شرکا کو بلایا گیا تو 12 خواتین و حضرات کے دماغ میں یہ اثر کمزور دیکھا گیا۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اضافی انگوٹھا پہننے سے دماغی سرکٹ میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے مشینی انگوٹھے کا استعمال بڑھا ویسے ویسے عوام اس کے عادی ہوتے چلے گئے اور بڑی مہارت سے اشیا تھامنے لگے۔
https://www.express.pk/story/2180278/508/


چامرز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، سویڈن کے سائنسدان ایک اچھوتے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس کے ذریعے سیمنٹ سے بنی اینٹوں کو بجلی ذخیرہ کرنے والی بیٹریوں میں تبدیل کیا جاسکے گا۔

اس مقصد کےلیے سیمنٹ اور بجری ملا کر اینٹیں بناتے وقت ان میں چھوٹے کاربن ریشوں (شارٹ کاربن فائبرز) کی تھوڑی سی مقدار بھی شامل کردی جاتی ہے تاکہ اینٹوں میں سے بجلی گزر سکے جبکہ ان کی مضبوطی بھی متاثر نہ ہو۔

اسی کے ساتھ ان اینٹوں میں کاربن فائبر سے بنائی گئی، دو طرح کی جالیاں (meshes) بھی شامل کردی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جالی پر لوہے کی پرت چڑھی ہوتی ہے اور وہ بیٹری اینوڈ کا کام کرتی ہے جبکہ دوسری جالی پر نکل دھات کا ملمع ہوتا ہے جو کیتھوڈ کا کردار ادا کرتی ہے۔

چھوٹے کاربن ریشوں اور کیتھوڈ/ اینوڈ کی شمولیت سے بننے والی اینٹ اس قابل ہوجاتی ہے کہ اپنے اندر بجلی ذخیرہ کرسکے (یعنی چارج ہوسکے) اور ضرورت پڑنے پر اس بجلی کو خارج بھی کرسکے (یعنی ڈسچارج ہوسکے)۔

بظاہر سادہ اور آسان دکھائی دینے والا یہ ڈیزائن بھی ایک طویل تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں ماہرین کو متعدد بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنی موجودہ حالت میں یہ ’’اینٹ بیٹریاں‘‘ اپنے ہر مربع میٹر رقبے میں 7 واٹ گھنٹہ کی کثافت سے بجلی ذخیرہ کرسکتی ہیں۔ موجودہ کمرشل بیٹریوں کے مقابلے میں توانائی کی یہ کثافت ابھی بہت کم ہے لیکن ماضی میں اسی نوعیت کی کنکریٹ بیٹریوں سے دس گنا زیادہ ہے۔

البتہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک مکان یا فلیٹ کی تعمیر میں ہزاروں اور لاکھوں اینٹوں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ان تمام اینٹوں میں بجلی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت بھی ہزاروں واٹ گھنٹہ ہوسکتی ہے جو پورے گھر کو ایک بہت بڑی بیٹری میں تبدیل کرسکتی ہے۔

یہ اینٹیں چارج کرنے کےلیے شمسی توانائی یا پھر تاروں کے ذریعے پہنچائی جانے والی بجلی استعمال کی جاسکتی ہے جس کا انحصار درپیش حالات و سہولیات پر ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں، دُور دراز علاقوں میں موبائل کمیونی کیشن ٹاورز اور اسٹریٹ لائٹس کےلیے بھی اسی طرح کی اینٹیں استعمال کی جاسکیں گی۔ غرض کہ کنکریٹ بیٹریوں کے ممکنہ اطلاق کا ایک وسیع میدان ہمارے سامنے ہے۔

بلاشبہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن کنکریٹ/ اینٹ بیٹری فی الحال ایک ابتدائی تجربہ ہے جسے تعمیرات میں استعمال کے قابل ہونے کےلیے کئی خامیوں سے پاک کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے ان اینٹوں میں بجلی کی کثافت بڑھانا ضروری ہے جبکہ دوسری جانب اینٹ کو بیٹری میں بدلنے والے مادّوں کو بھی ایک لمبے عرصے تک چارج/ ڈسچارج کے قابل ہونا چاہیے۔

اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو تو اینٹوں میں موجود مادّہ ناکارہ ہوجانے پر اسے نکال باہر کرنے اور اس کی جگہ نیا مواد بھرنے سہولت ہونا بھی لازمی ہے ورنہ عام بیٹریوں کی طرح یہ اینٹیں بھی صرف چند ماہ یا چند سال بعد ہی بجلی بنانے کے قابل نہیں رہیں گی اور ان پر خرچ کی گئی اضافی رقم بھی ضائع ہوجائے گی۔

اوپن ایکسیس ریسرچ جرنل ’’بلڈنگز‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کنکریٹ بیٹری ایجاد کرنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ وہ موجودہ ڈیزائن کی خامیاں دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہیں امید ہے کہ وہ چند سال میں مزید بہتر اور تجارتی پیمانے پر قابلِ استعمال کنکریٹ بیٹریاں بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2179719/508/


پاکستان سمیت چھاتی کے سرطان سے دنیا بھر میں اموات اور خواتین کی تکالیف میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس ضمن میں اسپین کے ماہرین نے ایک کم خرچ اور مؤثر بایو سینسر بنایا ہے جو بہت پہلے ہی اس مرض کی نشاندہی کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں کینسر کے قومی مرکز، بایو میڈیکل ریسرچ سینٹر اور کلینک ڈی ویلنسیا کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کئی برس تک تحقیق کی ہے۔

بریسٹ کینسر کی بروقت شناخت سے علاج میں آسانی اور اموات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں میمو گرافی ایک بہتر ٹیکنالوجی ہے تاہم اس ٹیسٹ کی اپنی حدود ہیں یعنی ایک جانب تو اشعاع (ریڈی ایشن) کا خطرہ رہتا ہے تو دوسری جانب یہ کم حساس ہوتا ہے۔

پھر اگر چھاتی کی بافتیں سخت ہوں تو میمو گراف بہت اندر کی خبر نہیں دے سکتا۔ اس ضمن میں کینسر کی ابتدائی شناخت کے دیگر طریقوں کی ضرورت ایک عرصے سے ہی محسوس کی جارہی تھی۔

بایو سینسر مائع (لیکوِڈ) بایوپسی کی طرز پر کام کرتا ہے۔ اس میں خون کا ٹیسٹ کینسر کی موجودگی کا پتا دے سکتا ہے۔ صرف 30 سے 60 منٹ میں یہ نتیجہ فراہم کرتا ہے اور استعمال میں آسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کم خرچ بھی ہے جو خون کے پلازمہ میں سرطانی خلیات کی شناخت کرتا ہے۔

نینو پورس ایلیومینا جیسے نینو مٹیریئل سے بنا بایو سینسر miR-99a-5p مائیکرو آر این اے کی شناخت کرسکتا ہے جو بریسٹ کینسر کی وجہ بنتا ہے۔ اگرچہ اس کے ٹیسٹ موجود ہیں لیکن وہ بہت مہنگے اور پیچیدہ ہیں۔

بایو سینسر کے خردبینی سوراخ (نینو پورس) پر ایک طرح کی حیاتیاتی ڈائی روڈامائن ڈالی جاتی ہے جسے اولیگو نیوکلیوٹائڈ سے مہربند کردیا جاتا ہے۔ جیسے ہی پلازمہ اس پر ڈالا جاتا ہے تو miR-99a-5p کی موجودگی میں روشنائی یا ڈائی خارج ہوتی ہے۔ اس سے معلوم چل جاتا ہے کہ کسی کو چھاتی کا سرطان لاحق ہے یا پھر وہ تندرست ہے۔

دیگر اداروں نے بھی اس اہم طریقے کو سراہا ہے اور اگلے مرحلے میں انسانوں پر اس کی آزمائش کی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2180308/9812/


انسانی بصارت اور موتیا کے ممتاز ماہرین نے کہا ہے کہ بہت جلد موتیا (کیٹریکٹ) کے لیے جراحی کی ضرورت نہیں رہے گی اور عام ادویہ سے ان کا علاج ممکن ہوسکتا ہے۔

موتیا کے عارضے میں آنکھ میں دھیرے دھیرے مائع جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اور آنکھ تک پہنچنے والی روشنی کو روک لیتا ہے۔ اس طرح شدید دھندلاہٹ بہت حد تک معمولات پر متاثر ہوتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کرایا جائے تو یہ نابینا پن کی وجہ بھی بن سکتے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اندھے پن کے نصف واقعات کی وجہ موتیا کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔

اس کا واحد علاج جراحی ہے جس میں آنکھ کے اوپر قدرتی لینس نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینس لگایا جاتا ہے۔ اب برطانیہ اینجلیا رسکن یونیورسٹی (اے آریو)، کے ماہرین نے دیگر سائنسدانوں کے تعاون سے ایک تحقیق شائع کرائی ہے۔ انہوں نے طویل تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ایک طرح کا پروٹین ’ایکوپورِن‘ آنکھ کے لینس میں پانی کی راہ ہموار کرتا ہے اور لینس متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے اور آخرکار موتیا بننا شروع ہوجاتا ہے۔

سائنسدانوں نے انسانی آنکھ کے لینس کا دس سال تک مشاہدہ کیا ہے۔ یہ تحقیق دنیا کے طاقتور ترین ذراتی تجربہ گاہ ایس اسپرنگ ایٹ نامی سنکروٹرون میں کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سنکروٹرون طاقتور ذراتی اسراع گر (ایسیلیریٹر) ہوتا ہے جو طاقتورایکس رے شعاعیں خارج کرتا ہے۔ اس طرح الیکٹران کو روشنی کی رفتار کے قریب حرکت دی جاسکتی ہے۔ ایکسرے کی بدولت آنکھ کے بصری خواص کو بہت تفصیل سے سمجھا جاسکتا ہے۔

اس طرح انسانی آنکھ کے لینس کی نشوونما اور بڑھوتری کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے ایکواپورن نامی پروٹین کے کردار کو واضح کیا ہے۔ پھرتحقیق بتاتی ہے کہ نینو ذرات سے کسی جراحی کے بغیر ہی موتیا کا علاج ممکن ہوسکتا ہے اور اس ضمن میں بعض اجزا کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت موتیا بننے کے عمل اور لینس کی بناوٹ کو سمجھا گیا ہے اور امید ہے کہ اس طرح ہم عام دواؤں سے موتیا کا علاج کرسکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2179923/9812/


پہلے امریکی ایٹم بم کے تجربے کی جگہ سے ایسی چیز دریافت کے سائنسدان بھی چکرا کر رہ گئے
May 20, 2021 | 19:55:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) 76سال قبل 16جولائی 1945ءکے روز امریکی فوج نے ریاست نیو میکسیکو کے صحرا میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا تھا۔ اس جگہ ایٹم بم صحرا میں زمین کی گہرائی میں چلایا گیا تھا جہاں سے اب ماہرین ارضیات نے ایسی چیز دریافت کر لی ہے کہ سائنسدان بھی چکرا کر رہ گئے ہیں۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ایٹمی تجربے کی اس جگہ سے ماہرین ارضیات نے ایک کرسٹل دریافت کیا ہے، یہ کرسٹل اس نوعیت کا ہے جو اب تک صرف خلاءسے زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب ہی پر پایا جاتا رہا ہے۔ اس سے پہلے کبھی اس نوعیت کا کرسٹل زمین میں سے نہیں نکلا۔

رپورٹ کے مطابق 16جولائی 1945ءکو صبح 5بج کر 29منٹ پر لاس ایلاموس سے جنوب میں 210میل کے فاصلے پر نیومیکسیکو کے صحرا میں یہ ایٹمی تجربہ کیا گیا تھا، اس پراجیکٹ کو ’Trinity‘ کا خفیہ نام دیا گیا تھا۔یہاں چلائے گئے بم کا نام ’Gadget‘ تھا۔یہ دھماکہ اتنا طاقتوراور تباہ کن تھا کہ صحرا کی ریت، دھاتیں اور سبزہ پگھل کر یکجان ہو گئے تھے اور ایک مادے کی سی شکل اختیار کر لی تھی جسے ’Trinitite‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسی مادے کے ساتھ اب اس جگہ سے کواسی کرسٹل (Quasicrystal)دریافت ہوا ہے جو اس سے قبل ’Khatyrka‘ نامی شہابیوں سے ملتا رہا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/20-May-2021/1291437?fbclid=IwAR0MMUMk5fwWGYGr207tWZ3vKvmu12Ba98-_Cjyvbgc3plf-IwH6q_6reuk


سیارہ مشتری پر خفیہ جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف لیکن وہاں پر کونسی مخلوق ہوسکتی ہے؟ سائنسدانوں نے امکان ظاہر کردیا
May 19, 2021 | 18:31:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جب ہم زمین کے علاوہ کسی سیارے پر زندگی کے مفروضے پر بات کرتے ہیں تو سردست مریخ کا نام ذہن میں آتا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے مریخ کے علاوہ بھی ایک ایسے سیارے کا پتا چلا لیا ہے جس پر ممکنہ طور پر زندگی ہو سکتی ہے۔

ڈیلی سٹار کے مطابق یہ مشتری سیارے کا چاند ہے جس کی سطح پر سائنسدانوں نے خفیہ جھیلوں کے موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ مشتری کے اس چاند پر ممکنہ طور پر خلائی مخلوق موجود ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مشتری کے اس چاند کا نام ’یوروپا‘ (Europa) ہے جو ہماری زمین سے 50کروڑ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ یوروپا کا سائز ہمارے اپنے چاند سے قدرے چھوٹا ہے، مگر اس کی سطح کے متعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس پر برف جمی ہوئی ہے اور اس جمی ہوئی برف کے نیچے جھیلیں اور سمندر ہو سکتے ہیں۔اس طرح کی منجمد جھیلیں ہماری زمین پر انٹارکٹکا کی برفانی سطح کے نیچے بھی پائی جاتی ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یوروپا پر ممکنہ طور پر وہ تمام اجزاءموجود ہیں جو ایکوسسٹم کی افزائش کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ چنانچہ مریخ کے علاوہ یہ دوسرا سیارہ ہے جس پر زندگی ممکن ہو سکتی ہے اوریہ امکان بھی ہے کہ یوروپا پر پہلے ہی کسی طرح کی زندگی موجود ہو۔
https://dailypakistan.com.pk/19-May-2021/1290955?fbclid=IwAR2i-zWPOLmjgeLSETD2oMbX5LvZDVSnE1K-TSRzvY7RGM2Q9ScI6_hsYnM


گوگل نے گزشتہ برس اپنی سالانہ ڈویلپر کانفرنس منسوخ کردی تھی لیکن اس سال منعقدہ سادہ کانفرنس میں اس نے کئی اہم ٹیکنالوجیز اور سہولیات کا تعارف پیش کیا ہے جو کسی بھی وقت ہمارے سامنے آسکتی ہیں۔

ان میں سے چند اہم سہولیات اور ٹیکنالوجی کا تعارف پیش کیا جارہا ہے
تھری ڈی ورچوئل کانفرنس

گوگل نے کہا ہے کہ وہ ایک نئے ویڈیو چیٹ سسٹم پر کام کررہا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کو تھری ڈی (سہ ابعادی) انداز میں دیکھ سکیں گے اور گفتگو مزید حقیقی بن جائے گی۔ اسے ’اسٹارلائن‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں ویڈیو چیٹ بہت حقیقی دکھائی دے گی۔

عالمی وبا کے بعد ویڈیو کانفرنسنگ اور زوم جیسے پلیٹ فارم خاصے مقبول ہوئے ہیں لیکن اسی طرح زوم سے اکتاہٹ کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ یہ جلد پیش ہوجائے گی لیکن یاد رہے کہ اسٹارلائن کے لیے ایک سے زائد کیمرے درکار ہوں گے۔

ریموٹ ورک کے نئے ٹولز

گزشتہ 14 ماہ سے ریموٹ ورک اور گھر سے کام کی غیرمعمولی بازگشت سنی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی ٹولز موجود ہیں لیکن اب بھی بہت سی سہولیات درکار ہیں۔ اسی ضرورت کے تحت گوگل نے کئی ایک ٹولز پیش کئے ہیں جو کام کو آسان بناتے ہیں۔ ان میں ایک اسمارٹ کینوس ہے جو ایک طرح کا پروجیکٹ میجنمنٹ پلیٹ فارم ہے۔ اس پر ایک سے زائد افراد منسلک ہوکر ایک پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسمارٹ کینوس کی مدد سے کسی پروجیکٹ پر کام کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ پیشرفت سے بھی آگہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گوگل میٹ کو جلد ہی گوگل ڈاکیومنٹس سے جوڑا جائے اس طرح گفتگو کے ساتھ ساتھ دستاویز کا تبادلہ بھی کیا جاسکے گا۔ اس طرح گفتگو کے ٹرانسکرپٹ اور تراجم بھی دیکھے جاسکتے ہیں جس کی سہولت گوگل پر پہلے سے ہی موجود ہے۔

اینڈروئڈ 12

گوگل نے اینڈروئڈ 12 آپریٹنگ سسٹم میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ اسے گوگل نے اپنی تاریخ میں سب سے بڑا ڈیزائن چینج کہا ہے۔ اوپر ایک روشنی دی گئی ہے جو بتاتی ہے کہ کونسی ایپ کیمرہ اور مائیک استعمال کررہی ہے یعنی پرائیویسی کو بہت بہتر بنایا گیا ہے۔

اس طرح اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سوفیصد درست لوکیشن ظاہر نہ ہو بلکہ اطرافی موجودگی کا اظہار ہو تو اس کا آپشن بھی شامل کیا گیا ہے۔

اے آئی اور جلد کا سرطان

اب گوگل اے آئی ایپ کی بدولت، ناخن، بالوں اور جلد کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ کاسمیٹکس اور بناؤ سنگھار کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ تاہم اس نے یورپ میں طبی ایپ کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا ہے۔ یعنی اگر جلد کا سرطان لاحق ہوجائے تو بہت حد تک یہ ایپ اس کی پیشگوئی کرسکتی ہے۔

اس کے علاوہ گوگل نے اپنے پلیٹ فارم سے مختلف زبانوں کی شمولیت اور بہتری، اے آئی فوٹو البم اور دیگر سہولیات بھی پیش کی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2179905/508/


امریکی اور چینی سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کے بعد ایک ایسا بلڈ ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو تپِ دِق (ٹی بی) کی علامات ظاہر ہونے سے مہینوں پہلے ہی اس کی تشخیص کرلیتا ہے۔

یہ ٹیسٹ چھوٹے بڑے بچوں میں بھی ٹی بی کا پتا لگا سکتا ہے جبکہ روایتی طریقوں سے یہ تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے۔

تشخیصی مشکلات کے باعث بچوں میں ٹی بی کا علم اکثر اسی وقت ہو پاتا ہے جب اس بیماری کے جراثیم اپنا اثر دکھا کر اچھا خاصا نقصان پہنچا چکے ہوتے ہیں۔ نئے ٹیسٹ نے یہ مسئلہ بخوبی حل کردیا ہے۔

اس ٹیسٹ کے ذریعے خون میں ’’سی ایف پی 10‘‘ کہلانے والے ایک پروٹین کی مقدار معلوم کی جاتی ہے۔ اس پروٹین کی بڑی مقدار ٹی بی جراثیم (مائیکوبیکٹیریئم ٹیوبرکیولوسس) سے خارج ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے۔

ماس اسپیکٹروسکوپی کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے خون کی معمولی مقدار سے بہت ابتدائی مرحلے پر ٹی بی کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’بی ایم سی میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، جب اس ٹیسٹ سے بچوں کے محفوظ شدہ خون کے 519 نمونوں کو جانچا گیا تو اس کی کارکردگی 100 فیصد درست رہی۔

یہی نہیں بلکہ مزید آزمائشوں میں اس ٹیسٹ کے ذریعے ایسے 83.7 فیصد بچوں میں بھی ٹی بی کی تشخیص ہوئی جن میں بہترین روایتی ٹیسٹ بھی ٹی بی کا پتا چلانے میں ناکام رہے تھے۔ ان بچوں میں لگ بھگ 60 ہفتے بعد ٹی بی کی علامات ظاہر ہوئیں۔

اب سائنسدان اس بلڈ ٹیسٹ کےلیے ایک مختصر اور کم خرچ آلہ تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ درو دراز اور پسماندہ علاقوں میں بھی ٹی بی کی بہتر تشخیصی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

واضح رہے کہ ٹی بی کا شمار دنیا کی 10 سب سے زیادہ ہلاکت خیز بیماریوں میں بھی ہوتا ہے جبکہ یہ بیماری 2020 میں 16 لاکھ 60 ہزار انسانی جانیں لے چکی ہے۔

2019 میں ٹی بی سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ تھی جن میں 56 لاکھ مرد، 32 لاکھ خواتین اور 12 لاکھ بچے شامل تھے۔
https://www.express.pk/story/2179749/9812/


ہفتے میں 55گھنٹے سے زائد کام جان لیوا ہوسکتا ہے
 19 May, 2021

ایک ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زائد گھنٹے کام کرنا ہلاکت کا باعث ہوسکتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)عالمی ادارہ صحت کی نئی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہوئے ۔ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور سٹروک ہے جبکہ کام کے طویل اوقات سے ہونے والی اموات جنوبی مشرقی ایشیا اور مغربی پیسیفک ریجن کے افراد کی ہوئیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ہفتے میں 35 سے 40 گھنٹے کام کرنے والوں کے مقابلے میں 55 گھنٹے یا اس سے زائد کام کرنے والوں میں سٹروک کا خطرہ 35 فیصد اور دل کے امراض کا خطرہ 17 فیصد زیادہ ہوتا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق طویل کام کے اوقات کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں تین چوتھائی افراد اوسط یا بڑی عمر کے تھے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-19/1825356


تصویر میں لڑکی کے ماتھے پر چپکے ہوئے آلے کو اس کے موجد نے ’’تیسری آنکھ‘‘ کا نام دیا ہے کیونکہ یہ اپنے پہننے والے کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اسمارٹ فون پر نظریں جمائے رکھتے ہوئے، راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے بھی باخبر رہے۔

یہ دلچسپ آلہ جنوبی کوریا کے انڈسٹریل ڈیزائنر مِنووک پائنگ نے ایجاد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون آج ہماری روزمرہ زندگی کا ایک ایسا حصہ بن چکا ہے جس سے ہم چلتے پھرتے ہوئے بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔

تاہم اسمارٹ فون اسکرین پر نظریں جمائے رکھتے ہوئے چلنے پھرنے میں حادثات کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کےلیے پائنگ نے یہ ’’تیسری آنکھ‘‘ ایجاد کی ہے۔

ایک چھوٹے سی سی ٹی وی کیمرے کی طرح دکھائی دینے والا یہ آلہ اصل میں اپنے اندر کئی صلاحیتیں سموئے ہوئے ہے جبکہ اسے ’’ٹیکے‘‘ کی مانند، ایک خاص گوند والے پیوند کے ذریعے ماتھے پر چپکایا جاتا ہے۔

یہ تیسری آنکھ ایک شفاف پلاسٹک کے خول میں بند ہے جس کے اندر ایک چھوٹا اسپیکر، ایک جائیرو اسکوپک سینسر اور ایک عدد سونار (آواز کی لہروں سے رہنمائی کرنے والا آلہ) نصب ہے۔

جائیرو اسکوپ سینسر کو جیسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آلے کو پہننے والے نے اپنا سر جھکا دیا ہے تو وہ فوری طور پر تیسری کا ڈھکنا ہٹا دیتا ہے اور اس میں موجود سونار اپنے سامنے موجود علاقے پر (الٹراساؤنڈ لہروں کی مدد سے) نظر رکھنا شروع کردیتا ہے۔

سونار کو جیسے ہی راستے میں کسی رکاوٹ کا پتا چلتا ہے، وہ فوری طور پر ایک اسپیکر سے گھنٹی جیسی آواز نکال کر اپنے پہننے والے کو خبردار کرتا ہے کہ سامنے کوئی رکاوٹ آرہی ہے۔

پائنگ کا کہنا ہے کہ جس طرح موبائل ٹیکنالوجیز ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں، ان کے پیشِ نظر یہ ایجاد مستقبل کی ایک جھلک ہے کیونکہ آنے والے برسوں میں ایسی کئی ایجادات سامنے آتی چلی جائیں گی۔
https://www.express.pk/story/2179612/509/


سائنسی تحقیق سے ثات ہوا ہے کہ گائے کی ڈکاروں اور گوبر سے میتھین کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے جو ایک ماحول دشمن گرین ہاؤس گیس ہے۔ اب ایک غذائی سپلیمنٹ سے میتھین کو کم کرکے اسے بطور میتھین کریڈٹ فروخت کرنے پر غور ہورہا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد گائے ہیں ، وہ دنیا میں انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والی میتھین کی 10 فیصد مقدار خارج کرتی ہیں۔ اسی لیے برطانوی کمپنی موٹرال نے لہسن اور کھٹے پھلوں سے گائے کی غذا بنائی ہے جسے معمول کے چارے میں ملایا جاتا ہے اس طرح گائے سے میتھین کا اخراج کم ہوجاتا ہے جو ایک سال میں فی گائے ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرسکتا ہے۔

اب یہ کمپنی میتھین کی اس بچت کو بطور کاربن کریڈٹس استعمال کرے گی یعنی انہیں ایسی کمپنیوں کو رقم کے عیوض فروخت کیا جاسکتا ہے جو فضا میں میتھین کا غیرمعمولی اخراج کرتی ہیں۔ اس کی منظوری ویرا نامی کمپنی نے بھی دیدی ہے۔ اس کا منافع فارم کے مالکان اور کسانوں کو بھی دیا جائے گا کیونکہ وہی انہیں استعمال کرتا ہے۔

برطانیہ کے شمال مغرب میں واقع بریڈس فارم نے اس کریڈٹس پروگرام کو شروع کرتے ہوئے اپنی 440 گایوں کو میتھین گھٹانے والی سپلیمنٹ کھلانا شروع کردی ہے۔ یہ سپلیمنٹ پیٹ میں جاکر ان خردنامیوں کو ختم کرتی ہے جو میتھین کی وجہ بنتے ہیں۔ گھاس کھانے اور اسے ہضم کرنے کے عمل میں گائے کے پیٹ میں میتھین پیدا ہوتی ہے جو گائے کے گوبر میں رچ بس جاتی ہے اور ڈکاروں سے بھی خارج ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس غذا سے دودھ کی پیداوار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

موٹرال نے ازراہِ تفنن میتھین کریڈٹس کو گائے کریڈٹس کا نام بھی دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2179387/509/


گوگل نے مصنوعی ذہانت سے لیس ایک نیا ٹول متعارف کروا دیا ہے، جس سے جلدی امراض میں مبتلا افراد میں بیماری کی تشخیص میں مدد ملے گی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹیکنالوجی جائنٹ گوگل نے جلد، بال، ناخن کے امراض کی تشخیص کے لیے’ ڈرماٹولوجی اسسٹ ٹول‘ بنا لیا ہے۔ جلدی کینسر کے ایک ماہر کا اس ٹول کے بارے میں کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی جدت ڈاکٹروں کو مریضوں کے زیادہ بہترعلاج کا اہل بنا رہی ہے۔

یہ ٹول آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے مریض کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی تصویر کی جانچ کرکے استعمال کنندہ کے جلدی امراض کی تشخیص میں مدد دیتا ہے۔ گوگل کی جانب سے اس ٹول کی آزمائش مکمل کی جاچکی ہے اور اس سال کے آخر میں ہونےوالی سالانہ ڈیولپر کانفرنس میں اسے لانچ کیا جائے گا۔

گوگل کا کہنا ہے کہ ’ ڈرماٹولوجی اسسٹ ٹول‘ مصنوعی ذہانت کی بدولت جلد کی 288 کیفیت کی شناخت کرسکتا ہے۔ تاہم اسے طبی شناخت اور علاج کے متبادل کے طور پر ڈیزائن نہیں کیا گیا ہے۔ اس ٹول کو ڈیولپ کرنے میں تین سال کا عرصہ لگا اور تجرباتی طور پر جلدی کیفیت کی تتشخیص کے لیے 65 ہزار تصاویر کا ڈیٹا استعمال کیا گیا۔ جس میں جلد کی ہرکیفیت، شیڈز اور ٹون والی تصاویر بھی شامل تھی۔

تصویر اپ لوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ مریض کو آن لائن سوالات کے جواب دینے بھی ضروری ہیں۔ گوگل کا کہنا ہے کہ اس کے سرچ انجن پر سالانہ تقریبا 10 ارب لوگ جلد، بال اور ناخن کے مسائل کو سرچ کرتے ہیں۔

امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اتھارٹی ( ایف ڈی اے) کی جانب سے ڈرماٹولوجی اسسٹ کو تاحال امریکا میں استعمال کی کلیرینس نہیں دی گئی ہے ۔تاہم ایف ڈی اے نے پھیپھڑوں کے کینسر کی شناخت میں مدد دینے والے اسی نوعیت کے برطانوی ٹول کو استعمال کی منظوری دے دی ہے۔
https://www.express.pk/story/2179807/508/


ایک عرصے سے ماہرین اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ روزانہ دس ہزار قدم چلنے سے انسان صحتمند رہتا ہے اور عمر بڑھتی ہے لیکن اب ایک اور اندازہ کہتا ہے کہ اس ضمن میں 4400 قدم بھی اتنے ہی مفید ثابت ہوسکتےہیں۔

1965 میں جاپانی ماہرین نے یہ کہا تھا کہ تندرست رہنے اور طویل عمر کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ دس ہزار قدم پیدل چلاجائے جو 8 کلومیٹر کے برابر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں لیکن تیزرفتار زندگی اور وقت کی کمی سے یہ امر محال بھی ہے۔ اب ہارورڈ میڈیکل اسکول اور یونیورسٹی آف ہارٹفورڈ شائر کے ماہرین نے کہا ہے کہ روزانہ 4400 قدم چل کر بھی طبی فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ لیکن ان کا مؤقف ہے کہ 4400 سے زائد قدم چلنے پر فوائد بڑھ جاتے ہیں۔

اب بھی ماہرین واکنگ یا تیزقدمی کو صحت کے لیے انتہائی موزوں قرار دیتے ہوئے اسے امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر دماغی امراض کے خلاف ایک ڈھال قراردیتے ہیں۔ اگر کوئی دو گھنٹے تک پیدل چلے تو وہ دس ہزار قدموں کے برابر ہوگی لیکن 4400 قدم کا ہدف صرف 53 منٹ میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم روزانہ اپنی صحت کے لیے ایک گھنٹہ ضرور نکالیں۔

یونیورسٹی آف ہارٹ فورڈ شائر کی سائنسداں لنڈسے باٹمز کہتی ہیں کہ 1965 میں ایک جاپانی کمپنی نے قدم پیما (پیڈومیٹر) بنایا تھا جسے فروخت کرنے کےلیے کہا گیا کہ روزانہ دس ہزار قدم چلنا صحت مند عمل ہے۔ یہ تصور بہت مقبول ہوا لیکن اب اگر یہ اہداف حاصل نہ ہوسکیں توکم ازکم 4400 قدم چلنے کو ہی اپنا معمول بنایا جائے جس سے بہت سے طبی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

اگر اس سے کم چلتے ہیں تو جسم کا میٹابولزم درست انداز میں کام نہیں کرتا جس سے موٹاپا، عارضہ قلب اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ پھر روزانہ کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے سے بھی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے جس سے قبل ازوقت موت کا خطرہ 59 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ طویل نشت کے منفی اثرات کو پیدل چل کر زائل کیا جائے۔
https://www.express.pk/story/2179433/9812/


آسٹریلوی اور چینی ماہرین نے مشترکہ طور پر تحقیق کرتے ہوئے ایک ایسی دوا ایجاد کرلی ہے جو آنے والے برسوں میں موٹاپے کا مؤثر ترین علاج ثابت ہوسکتی ہے۔

چوہوں پر تجربات کے دوران اس دوا نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چکنائی میں نمایاں طور پر کمی کی۔

ماہرین کے مطابق، یہ دوا ’’نیوروپیپٹائیڈ وائی‘‘ (این پی وائی) کو کام کرنے سے روکتی ہے جس کی وجہ سے چربی گھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے اور موٹاپے میں کمی واقع ہوتی ہے۔

بتاتے چلیں کہ ’’این پی وائی‘‘ (NPY) کہلانے والا پیپٹائیڈ ہمارے مرکزی اعصابی نظام سے خارج ہوتا ہے اور کئی طرح کے جسمانی افعال میں کردار ادا کرتا ہے۔

علاوہ ازیں، اگر جسم میں ’’این پی وائی‘‘ کی مقدار بڑھ جائے تو اس سے بھوک زیادہ لگتی ہے جو خوب کھانا کھانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔ اسی کے ساتھ ساتھ خلیوں میں چربی گھل کر کم ہونے کا عمل سست پڑ جاتا ہے جو موٹاپے میں اضافے کی وجہ بنتا ہے۔

اس کے برعکس ’’این پی وائی‘‘ کی کم مقدار، بھوک میں کمی کا باعث بنتی ہے جبکہ اس سے خلوی چربی گھل کر ختم ہونے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔

’’این پی وائی‘‘ ایک خاص پروٹین ’’وائی ون‘‘ (Y1) سے منسلک ہو کر اپنا کام کرتا ہے اور خلیے پر اثرانداز ہوتا ہے۔

سائنسدانوں نے ایک ایسی دوا ایجاد کی جو ’’این پی وائی‘‘ کو ’’وائی ون‘‘ سے جُڑنے نہیں دیتی۔ انہیں امید تھی کہ اپنی اسی کارگزاری کی وجہ سے یہ دوا چربی اور موٹاپا ختم کرنے میں بھی مفید ثابت ہوگی۔

ابتدائی طور پر اس دوا کی آزمائش چوہوں پر کی گئی جنہیں سات ہفتوں تک روزانہ چکنائی سے بھرپور غذا کھلائی گئی۔

آزمائش کی غرض سے ان چوہوں کے دو گروپ بنائے گئے: ایک کو چکنائی والی غذا کے ساتھ ساتھ یہ دوا بھی دی جاتی رہی جبکہ دوسرے گروپ کو یہ دوا نہیں دی گئی۔

سات ہفتوں کے بعد معلوم ہوا کہ چکنائی سے بھرپور غذا کے ساتھ دوا لینے والے چوہوں کے وزن میں اضافہ، دوسرے گروپ والے چوہوں کی نسبت 40 فیصد کم رہا۔

ان تجربات کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ اس دوا کا اثر صرف چکنائی والے خلیوں تک محدود رہا جبکہ دیگر جسمانی خلیے اس سے متاثر نہیں ہوئے۔

اگرچہ یہ تجربات بہت امید افزاء ہیں لیکن فی الحال یہ ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ اگلے مرحلے میں اس دوا کو چربی والے انسانی خلیوں پر آزمایا جائے گا اور کامیابی کی صورت میں اس کی محدود پیمانے پر انسانی آزمائشیں شروع کی جائیں گی۔

اگر سب کچھ ٹھیک رہا اور ہماری توقعات کے مطابق ہوا تو امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ آٹھ سے دس سال میں ہمارے پاس ایک ایسی دوا موجود ہوگی جو موٹاپے میں نمایاں کمی لائے گی لیکن اس کے منفی اثرات بھی کم سے کم ہوں گے۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیل ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2179228/9812/


جاپانی سائنسدانوں نے جانوروں پر تجربات میں دریافت کیا ہے کہ بعض جانور اپنے پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ اپنی آنتوں سے بھی سانس لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ جبکہ انہیں امید ہے کہ یہی تدبیر انسانی جان بچانے میں بھی کارآمد ہوسکے گی۔

ان تجربات کے دوران سؤروں اور چوہوں میں پھیپھڑوں کی خراب کارکردگی کا ازالہ کرنے کےلیے آکسیجن گیس یا پھر آکسیجن سے بھرپور مائع، مقعد کے راستے ان کی آنتوں تک پہنچایا۔

آنتوں کی جھلی سے یہ آکسیجن خون میں شامل ہوگئی جس سے ان جانوروں میں آکسیجن کی کمی پوری ہوگئی اور ان کی جان بچ گئی۔

جاپان کی کئی جامعات اور تحقیقی مراکز سے وابستہ ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق سے جہاں یہ دریافت ہوا کہ بعض جانور اپنی آنتوں سے بھی سانس لیتے ہیں، وہیں یہ امکان بھی سامنے آیا ہے کہ اس طریقے کو انسانی جان بچانے کے ایک متبادل طریقے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ سانس لینے کا مقصد ہمارے خون میں آکسیجن شامل کرنا ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ شدید بیمار افراد اس حالت میں نہیں ہوتے کہ وینٹی لیٹر استعمال کرسکیں یا پھر وینٹی لیٹر اُن کےلیے مناسب نہیں ہوتا۔

ایسی صورت میں ’’متبادل راستے‘‘ سے خون میں آکسیجن کی شمولیت ان کی جان بچانے میں بہت مدد کرسکتی ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’میڈ‘‘ (Med) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے ایک مرکزی مصنف اور ٹوکیو میڈیکل اینڈ ڈینٹل یونیورسٹی کے ڈاکٹر تاکانوری تاکیبے کا کہنا ہے کہ اس طرح کا مصنوعی تنفس بطورِ خاص نمونیا یا ’’اے آر ڈی ایس‘‘ (ARDS) جیسی بیماریوں سے شدید متاثر افراد کی جان بچانے میں اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان کیفیات میں پھیپھڑوں کےلیے ہوا کی آکسیجن جذب کرنا ممکن نہیں رہتا۔

اب ان سائنسدانوں کا منصوبہ ہے کہ طبّی تحقیق و ترقی کے مرکزی جاپانی ادارے کے تعاون سے یہی طریقہ محدود پیمانے پر، انسانوں پر بھی آزمایا جائے؛ اور کامیابی کی صورت میں اس کی طبّی آزمائشیں (کلینیکل ٹرائلز) شروع کردی جائیں۔

تاہم انسانوں کےلیے مقعد کے راستے آنتوں تک آکسیجن گیس پہنچانا مفید نہیں ہوگا بلکہ یہ کام آکسیجن سے بھرپور مائع سے لیا جائے گا، جس کی بعض اقسام پہلے ہی انسانی استعمال کےلیے مفید قرار دی جاچکی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2178853/9812/


مریم پٹی کا مقصد زخم پر دوا برقرار رکھنا اور اسے انفیکشن سے بچانا ہوتا ہے۔ اب ایک اسمارٹ پٹی کی بدولت زخم پر کسی بھی قسم کے انفیکشن اور جراثیم کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف روڈ آئی لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک اسمارٹ پٹی بنائی ہے جو کسی بھی جراثیم سے متاثر ہونے یا انفیکشن کی صورت میں روشنی خارج کرتی ہے۔ اسے کئی اشکال اور جسامت میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

ناسور، ذیابیطس کے زخم اور کسی وجہ سے شدید انفیکشن کی صورت میں پٹی کو بار بار کھول کر دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت تکلیف دہ اور پریشان کن ہوسکتا ہے۔ اسی لیے کاربن نینوٹیوب سے بنی ایک باریک جھلی بنائی گئی ہے۔ اسے ڈریسنگ پالیمر کے عام ریشوں کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ اس طرح نینوٹیوب زخم کے اندر نہیں گھستی لیکن وہ زخم سے بہت دور نہیں رہتیں اور کیمیکل یا مائع کا اخراج کرتی رہتی ہیں۔

زخم خراب ہونے یا انفیکشن کی صورت میں خارج ہونے والا ایک مشہور کیمیکل ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ہے جو جراثیم (بیکٹیریا وغیرہ) کی صورت میں خون کے سفید خلیات سے خارج ہوتا ہے۔ جب کاربن نینوٹیوب پر روشنی ڈالی جائے تو یہ کیمیکل رنگ بدل لیتا ہے۔ اس کے لیے ایک چھوٹا سا آلہ براہِ راست بینڈیج کے اوپر رکھا جاتا ہے اور نیچے سے پٹی دمکنے لگتی ہے۔ اس کی اطلاع کسی اسمارٹ فون تک بھی پہنچائی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے پر محمد معین سیفی نے اہم کام کیا ہے جو یونیورسٹی کے سابق طالبعلم بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ ہماری ایجاد زخم کے انفیکشن کو ابتدا میں ہی بھانپ لیتی ہے۔ اس طرح اینٹی بایوٹکس کے اندھا دھند استعمال کی ضرورت نہیں رہتی اور یہاں تک اعضا کو کاٹنے سے بھی بچاجاسکتا ہے۔ اس طرح یہ دیرینہ ناسور اور ذیابیطس کے زخم کے انتظام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

پہلے اسے تجربہ گاہ میں تیارکردہ خلیات پر آزمایا جائے گا اور اس کے بعد چوہوں پر اس کی آزمائش کی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2179009/9812/


گرمی کی شدت سے بچانے والے صحت بخش مشروبات
 18 May, 2021

غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کئے گئے چند ایسے مشروبات ہیں جن کے استعمال سے شدید گرمی کے دوران بھی خود کو تروتازہ اور توانا رکھا جا سکتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)ماہرین کے مطابق ہر انسان کو گرمیوں کے آغاز سے ہی سادہ پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیے ، اس دوران زیادہ میٹھے اور پروسیسڈ، ڈبے کے مشروبات سے پرہیز کریں۔گرمیوں میں روزانہ 2 گلاس لیموں پانی کا استعمال لازمی کریں۔ لسی تاثیر میں ٹھنڈی اور ذود ہضم مشروب ہے ، دہی اور دودھ کی مدد سے میٹھی یا نمکین لسی بنا کر فریج میں رکھ دیں اور باہر سے آنے والے ہر فرد کو پیش کریں اور بچوں کو بھی وقتاً فوقتاً پلائیں۔موسمی پھل کیری کا شربت گرمیوں میں جسم کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔گرمیوں میں روزانہ دن میں 2 سے 3 مرتبہ ناریل پانی پینا چاہیے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-18/1824609


سائنس دانوں نے کائی کوفوڈ سپلیمنٹ میں استعمال کرنے کے بعد اس کا ایک اور ماحولیاتی استعمال تلاش کرلیا ہے۔

سائنس جریدے ایڈوانسڈ فنکشنل میٹریلز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق نیدر لینڈ کی یونیورسٹی آف راکیسٹر کے محقیقین نے کائی سے مظبوط ، لچک دار اور دیدہ زیب ڈیزائن والا کپڑا تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔

اس تحقیق میں شامل ریسرچر سری کانتھ بالا سبرا مینیئن کا کہنا ہے کہ کائی سے بنے لباس مستقبل میں فیشن کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سہہ جہتی پرنٹنگ جاندار فنکشنل مادوں کی بناوٹ کے لیےایک طاقت ور ٹیکنالوجی ہے۔ اور اس جان دار مادے کے ماحولیاتی اور انسانوں کے لیے بننے والی ایپلی کیشنز کے لیے بہت امکانات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے کائی کو فوٹو سینتھیسز(ضیائی تالیف، وہ عمل جس میں سبز پودے شمسی توانائی استعمال کر کے اسے مخفی کیمیائی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں) مادے میں پرنٹ کرنے کے لیے تھری ڈی پرنٹر اور نئی بایو پرنٹنگ تیکنک استعمال کی۔

فوٹو سینتھیسز مادے کو تخلیق کرنےکے لیے ہم نے بے جان بیکٹریل سیلولوز(پو دوں کے خلیوں کی دیواروں میں موجود نشاستہ) سے آغاز کیا۔ بیکڑیل سیلولوز ایک نامیاتی مادہ ہے جو کہ بیکٹریا کی جانب سے پیدا اور خارج کیا جاتا ہے، بیکٹریل سیلولوز میں لچک، سختی، مظبوطی اور اپنی شکل میں رہنے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔

ریسرچر نے بیکٹریل سیلولوز کو بطور کپڑا اورخرد بینی کائی ( مائیکرو الجی) کو بطور روشنائی استعمال کیا اور پرنٹنگ کے لیے نئی بایو پرنٹنگ تیکنک کا استعمال کرتے ہوئے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے جاندار کائی کو بیکٹریل سیلولوز پر پرنٹ کیا۔

خردبینی کائی اور بے جان بیکٹیریل سیلولوز کے ملاپ کے نتیجے میں ایک ایسا انوکھا مادہ بنا جو کہ کائی کا فوٹو سینتھیسز معیاراور بیکٹریل سیلولوز کی مظبوطی رکھتا ہے، یہ مادہ سخت، لچک دار ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست، بایو گریڈایبل اور بنانے میں سادہ ہے۔

محقیقین کا کہنا ہے کہ اس مادے سے نہ صرف کپڑے، بلکہ مصنوعی پتے، فوٹو سینتھیسز کھال بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ کائی سے بننے والے کپڑوں سے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں کمی آئے گی جب کہ اسے عام کپڑوں کی طرح بار بار دھونے کی ضرورت بھی نہیں پیش آئے گی جس سے پانی کی بچت بھی ہوگی۔

یاد رہے کہ کائی کے کپڑے بنانےکے لیے ماضی میں بھی کئی تجربات کیے جاچکے ہیں تاہم ان کی کپڑوں کی پائیداری کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2179373/509/


چین کو خلا میں اہم کامیابی مل گئی ،مریخ پر اپنا ربورٹ اتار دیا
May 15, 2021 | 23:12:PM

بیجنگ(ڈیلی پاکستان آن لائن )چین کا ’ڑوررونگ‘نامی ربورٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گیا ،ربورٹ نے مریخ کے نصف کرّہ شمالی میں موجود ایک وسیع میدانی علاقے یوٹوپیا پلینیٹیا پر لینڈ کیا۔برطانوی نشریاتی ادرے بی بی سی کے مطابق اب تک صرف امریکہ نے ہی مریخ پر کامیابی سے لینڈ کرنے میں ملکہ حاصل کیا تھا۔ یہ کوشش کرنے والے دیگر تمام ممالک کے لینڈرز یا تو کریش کر گئے یا پھر سطح پر اترنے کے فوراً بعد ہی ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

چینی سرکاری میڈیا نے قومی خلائی انتظامیہ کے حوالے سے ہفتے کے روز بتایا کہ یہ خلائی گاڑی کامیابی کے ساتھ مریخ کی سطح پر اتار دی گئی ہے،اس خلائی گاڑی نے بحفاظت اترنے کے لیے ایک حفاظتی کیپسول، ایک پیراشوٹ اور ایک راکٹ پلیٹ فارم کا استعمال کیا،اسے اپنے سولر پینلز پھیلانے اور زمین پر سگنل واپس بھیجنے میں 17 منٹ لگے۔

ڑورونگ کا مطلب آگ کا خدا ہے۔ چینی انجینئرز کو سگنلز پہنچنے میں تاخیر سے بھی نمٹنا تھا۔ مریخ اس وقت ہم سے 32 کروڑ کلومیٹر دور ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں سے بھیجا گیا ریڈیو سگنل زمین پر پہنچنے میں تقریباً 18 منٹ لگتے ہیں۔سائنسدانوں کو توقع ہے کہ وہ اس روور سے 90 مریخی دنوں تک کام لے سکتے ہیں جس دوران یہ وہاں کی زمینی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ مریخ کا ایک دن 24 گھنٹوں اور 39 منٹ کا ہوتا ہےاس روور پر ایک لیزر موجود ہے جس سے یہ وہاں موجود پتھروں کی کیمیائی ساخت کا پتا لگا سکتا ہے جبکہ اس پر ایک ریڈار ہے جس کا کام زیر سطح پانی تلاش کرنا ہے۔

یوٹوپیا پلینیٹیا وہی خطہ ہے جہاں پر ناسا نے سنہ 1976 میں اپنا وائیکنگ ٹو مشن اتارا تھا۔یہ تین ہزار کلومیٹر پر پھیلا ایک وسیع و عریض علاقہ ہے اور کچھ ثبوت ہیں کہ یہ کسی زمانے میں سمندر ہوا کرتا تھا۔سیٹلائٹس کی لی گئی تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کی گہرائی میں بڑی مقدار میں برف موجود ہے۔

امریکہ کے خلائی ادارے ناسا میں ہیڈ آف سائنس تھامس زربوچن نے چین کو مبارک باد دی اور کہا میں عالمی سائنسی برادری کے ہمراہ پرامید ہوں کہ اس مشن کے ذریعے سرخ سیارے کے بارے میں انسانی علم میں اضافہ ہوگا۔روسی خلائی ایجنسی روس کوسموس نے کہا کہ یہ کامیابی مستقبل میں روس اور چین کے خلائی شعبے میں تعاون کے لیے اچھا شگون ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/15-May-2021/1289226?fbclid=IwAR35v1uIQ4oqG-WjffkrCejc5lGzCRAo0HVX1t9JV6vN5IfqG_w3Hmpahx4


بہت جلد لوگ اپنے مردہ رشتہ داروں سے بھی ’بات‘ کرسکیں گے، حیرت انگیز ٹیکنالوجی تیار کرلی گئی
Jan 08, 2021 | 19:13:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) مائیکروسافٹ کے ماہرین نے ایک ایسی حیران کن ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے مردہ رشتہ داروں کے ساتھ گفتگو کر سکیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق یہ ’گھوسٹ بوٹ‘ (Ghostbot) ایپلی کیشن ہے جو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے مرنے والوں کی آڈیوز، ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے ان کے الفاظ کو سمجھے گی اور انہی کی طرح گفتگوکرے گی۔

رپورٹ کے مطابق یہ ایپلی کیشن ایمازون الیگزا اور گوگل نیسٹ کے ساتھ استعمال کی جا سکے گی۔ یہ صرف آواز ہی نہیں بلکہ مرنے والی کی ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے اس کی شکل و صورت کو سمجھ کر اس کا ’ٹو ڈی‘ یا ’تھری ڈی‘ ماڈل بھی بنائے گی اور ایسے لگے گا جیسے وہ آدمی سکرین میں واقعی آپ کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے لوگ اپنے مرنے والوں سے جو بھی بات کریں گے وہ اس کا جواب دے گا۔مائیکروسافٹ نے اس حیران کن ایجاد کی سندحق ایجاد حاصل کرنے کے لیے درخواست دے دی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Jan-2021/1234349?fbclid=IwAR1--PkfOeVzEdGHlzOt7bJ4WCaJH4HB3PtA95pDPhBz_jHjFOIz7xpiyIc


روزانہ آدھا چمچ زیتون کا تیل پینے سے آپ کے جسم میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ تازہ تحقیق میں سائنسدانوں کا انکشاف جان کر آپ بھی سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے
Mar 06, 2020 | 19:08:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) زیتون کے تیل کے کئی طبی فوائد ہم جانتے ہیں اور اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کا ایک اور ایسا فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ اسے اپنی خوراک کا باقاعدہ حصہ بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ روزانہ صرف آدھ چمچ زیتون کا تیل پینے سے انسان کو ہارٹ اٹیک آنے کا خطرہ 20فیصد کم ہو جاتا ہے۔ مقدار اگر اس سے بڑھا لی جائے تو یہ حیران کن فائدہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 1لاکھ لوگوں کی کھانے پینے کی عادات کی 24سال تک نگرانی کی اور ان کی صحت پر مختلف اشیاءکے اثرات کا جائزہ لیتے رہے۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ جتنا زیادہ زیتون کا تیل استعمال کرتے رہے انہیں دل کی بیماریاں اتنی ہی کم لاحق ہوئیں۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر مارٹا گواش فیری کا کہنا تھا کہ ”زیتون کے تیل میںایک فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جس کا نام ’اولیئک ایسڈ ہے۔ یہ انفلیمیشن کو کم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو دل کی بیماریوں سمیت دیگر کئی عارضے لاحق ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/06-Mar-2020/1102975?fbclid=IwAR232QUBuamkYdQUCMXiFF7Bt9P1lGMlwX40MTagZIOcq9yBjL4tqSc4iMM


سائنسدانوں نے چہرے سے جھریاں ختم کرنے والا پھل دریافت کرلیا
May 16, 2021 | 19:08:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) چہرے کی جھریاں ختم کرنے والی اینٹی ایجنگ ادویات تو بہت دستیاب ہیں لیکن اب سائنسدانوں نے ایک ایسا پھل دریافت کر لیا ہے جسے استعمال کرکے آپ چہرے کی جھریوں سے نجات پا سکتے ہیں اور اپنی جلد کو دیرپا جوان رکھ سکتے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق اس پھل کا نام ’فنگرلائمز‘ (Finger Limes)ہے جو لیموں کی طرح کاایک پھل ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وٹامن سی کی کثافت بہت زیادہ ہے۔ وٹامن سی بلیو بیری میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور فنگرلائمز میں یہ بلیو بیری سے 44گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وٹامن سی چونکہ جلد کو تروتازہ رکھنے اور چہرے کو جھریوں سے بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے چنانچہ اس پھل کا استعمال لوگوں کو ان مسائل سے نجات دلانے میں انتہائی مفید ثابت ہو گا۔ فنگرلائمز میں میں 9مختلف اقسام کے وٹامن ای پائے جاتے ہیں اور اس کے گودا ہیرے کی طرح چمکتا ہے جس کی وجہ سے اسے ’پھلوںکا نگینہ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ پھل بنیادی طور پر آسٹریلوی ریاست کوئنزلینڈ میں پایا جاتا ہے، جس کے خواص سائنسدانوں نے اب دریافت کیے ہیں۔ اس پھل کے ذریعے کئی کریمیں بھی بنائی جا رہی ہیں جن کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ ایسی ہی ایک کریم ’کیویئر لائم‘ ہے۔ یہ کریم جب متعارف کروائی گئی تو اس قدر مقبول ہوئی کہ ایک وقت میں 13ہزار لوگ ویٹنگ لسٹ میں تھے جو یہ کریم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289607?fbclid=IwAR05SVvslJszf4UNHV4fcPJ7eZM-rg_KSUHduHbjgC_9neKxNN9IaNaH-HE


جنسی صحت اور موٹاپے میں گہرا تعلق سامنے آگیا
May 16, 2021 | 20:08:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے کے بے شمار نقصانات سائنسدان اپنی تحقیقات میں بتا چکے ہیں اور اب ایک ماہر نے موٹاپے اور جنسی صحت کے درمیان گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف برمنگھم کے ماہر ڈاکٹر عابد تہرانی کا کہنا ہے کہ موٹاپا کئی حوالوں سے لوگوں کی جنسی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا اور ازدواجی زندگی کو تباہ کرتا ہے۔ موٹاپے کے شکار مردوخواتین میں ایک طرف جنسی خواہش بہت کم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں اولاد ہونے کا امکان بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔

ایک اور ماہر اینی ہینڈرسن کا کہنا ہے کہ موٹاپا خواتین میں حیض کے بے قاعدگی، پولی سسٹک اوورین سنڈروم، افزائش نسل کے مسائل اور دیگر کئی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ تھرش (Thrush)ایک ایسی بیماری ہے جو ہر 4میں سے 3خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور لاحق ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر موٹاپے کی شکار خواتین ہی کو لاحق ہوتی ہے اور ان کی جنسی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ موٹاپے کا مردوخواتین کی جنسی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان کی جنسی زندگی بتدریج تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ازدواجی تعلق ختم ہونے کا امکان بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289613?fbclid=IwAR2R6X8KlQFZ2xxUYI3hV4Ya1aUPSQFApdODkytjbKI96-gQf7p_NBQ6uVQ


کینو کا جوس پینے سے پہلے اسے فریزر میں رکھیں تو آپ کے جسم میں یہ حیرت انگیز تبدیلی آتی ہے
May 16, 2021 | 20:46:PM

میڈرڈ(مانیٹرنگ ڈیسک) کینو کے جوس کے بے شمار طبی فوائد ہیں لیکن اب اسے پینے سے پہلے فریزر میں رکھنے کے متعلق متعلق سائنسدانوں نے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ”اگر ہم کینو کے جوس کو پینے سے پہلے فریزرمیں رکھ کر برف بنائیں اور پھر اسے مائع حالت میں لا کر استعمال کریں تو اس کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے اور ہمارے جسم کی اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور وہ زیادہ موثر طریقے سے ہمارے جسم کینسر اور دل کی بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

سپین کی یونیورسٹی آف سیوائیل کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ”جب ہم کینو کے جوس کو فریزر میں رکھ کر منجمد کر دیتے ہیں تو اس کے صحت بخش اجزاءٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیںجنہیں ہضم کرکے جزو بدن بنانا ہمارے جسم کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ان اجزاءکو کیروٹینائیڈز کہا جاتا ہے۔ انہیں ہمارا جسم وٹامن اے میں تبدیل کر سکتا ہے اور ان میں کینسر کے خلاف مدافعت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔“تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پاﺅلا ماپیلی کا کہنا تھا کہ ”کیروٹینائیڈز نامی یہ اجزاءکینسر کے علاوہ انفلیمیشن کو روکتے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہم دل کی بیماریوں سمیت دیگر کئی عارضوں سے محفوظ رہتے ہیں اور ہمیں سٹروک آنے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289615?fbclid=IwAR2QQpnTm0apvr_VrnafQdPI2_pK-X--EQxUvar0L2z8RohCor9j4HQk2T4


ایک بڑی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی عمر میں پھلوں اور سبزیوں کا استعمال ذہنی تناؤ(اسٹریس) اور ڈپریشن کو کم کرسکتا ہے۔

آسٹریلیا کی ایڈتھ کووان یونیورسٹی (ای سی یو) نے ایک دلچسپ سروے میں 8600 افراد کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں 25 سے لے کر 91 برس تک افراد شامل تھے۔ تمام شرکا کا ڈیٹا بیس آسٹریلیئن ڈائبیٹیس، آبیسٹی اینڈ لائف اسٹائل (آس ڈائب) سے لیا گیا تھا جسے بیکر ہارٹ اینڈ ڈائبیٹس سینٹر نے جمع کیا تھا۔

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر روزانہ 470 گرام پھل اور سبزیاں کھائی جائیں تو اس سے 230 گرام پھل و سبزیاں کھانے والوں کے مقابلے میں ذہنی تناؤ میں دس فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی روزانہ کم سے کم 400 گرام پھل و سبزی کھانے کو ایک معیار قرار دیا ہے۔

تحقیق کے سربراہ سائمن ریڈاولی اور ان کے رفقا نے کہا ہے کہ سبزیوں ، پھل اور دماغی صحت کے درمیان ایک اہم تعلق پایا جاتا ہے۔ اس لیے دونوں غذائیں دماغی و نفسیاتی صحت میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں ڈپریشن اور ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب یہ حال ہے کہ ہر دس میں سے کم ازکم ایک فرد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں گرفتار ہے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ ہم کبھی نہ کبھی دماغی الجھاؤ اور اسٹریس کے شکار ہوجاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ مستقل جاری رہے تو دیرینہ عارضہ بن کربہت سے مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ کیفیت بلڈ پریشر کو بڑھاتی ہے، دل کی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے اور ذیابیطس میں بھی مبتلا کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دماغ کو جسم کا صدرمقام سمجھتے ہوئے اسے تناؤ سمیت ہر قسم کے عارضوں سے بچانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کی واحد تحقیق ہے جس میں 25 سے 90 سال تک کے افراد پر پھلوں اور سبزیوں کے مثبت ذہنی اثرات سامنے آئے ہیں۔ اس طرح پھلوں کی افادیت ہر عمر اور جنس کے انسانوں پر ثابت ہوئی ہے۔

لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر پھلوں اور سبزیوں میں ایسے کیا خواص ہیں جو اسٹریس گھٹاتے ہیں؟ اس پر مزید تحقیق ہورہی ہیں لیکن خیال ہے کہ بعض اینٹی آکسیڈنٹس، وٹامن، معدنیات اور فلے وونوئڈؑز مشترکہ طور پرجسم کی اندرونی سوزش کم کرتےہیں۔ اس سے دماغ کو سکون ملتا ہے اور افعال بہتر رہتےہیں۔ مجموعی طور پر پھل اور سبزیاں ہمارے مزاج و موڈ کو بہتر بناتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2177736/9812/


ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ میٹھے مشروبات اور سافٹ ڈرنکس کی بہتات بالخصوص خواتین میں آنتوں اور معدے کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے۔

اگر بالغ خواتین روزانہ ایک یا دو میٹھے مشروبات استعمال کریں تو اس سے کولوریکٹل یعنی آنتوں کا سرطان حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اگر خواتین یہ عادت ترک کردیں اور کافی، کم چکنائی والے دودھ اور مکمل دودھ کا استعمال بڑھائیں تو اس سے سرطان کے خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین 13 سے 18 برس تک سافٹ ڈرنک کی رسیا ہوں ان میں آگے چل کر سرطان کا خطرہ 32 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اس طرح وہ 50 برس کی عمر تک پہنچ کرمعدے اورآنتوں کے کینسر میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔

لیکن ایک اور تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ 1990 کے عشرے میں پیدا ہونے والی خواتین میں اس کا خطرہ یوں بھی زیادہ ہے کہ کم ازکم امریکا میں سافٹ ڈرنک کا رحجان عروج پرتھا اور اب ایسی خواتین کینسر کی شکار بھی ہورہی ہیں۔ ماہرین نے اس ضمن میں انرجی ڈرنکس، فروٹ ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس اور اسپورٹس ڈرنکس سے بھی خبردار کیا ہے کیونکہ یہ امریکی اور مغربی کھانوں کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔

ماہرین نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس ضمن میں انرجی ڈرنکس نیا بھیس بدل کر سامنے آئی ہیں اور صرف امریکہ میں ہی 1997 سے 2001 کے درمیان انرجی ڈرنکس کے استعمال میں 135 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس اہم سروے میں 116,430 امریکی خواتین نرسوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی عمریں 25 سے 42 برس اس وقت تھیں جب انہیں 1989 میں پہلی مرتبہ رجسٹرکیا گیا تھا۔ ہر چار برس بعد تمام خواتین سے کھانے اور پینے کے معمولات پر سوالات کئے گئے تھے۔ 41 ہزار خواتین نے بتایا کہ جب ان کی عمریں 13 سے 18 برس تھیں تو انہوں نے روزانہ ایک سے دو مرتبہ میٹھے مشروبات نوش کئے تھے۔

24 سالہ سروے میں 109 خواتین کو آنتوں کا سرطان لاحق ہوگیا اور اس وقت تک وہ 50 برس تک نہیں پہنچی تھیں۔ اس کی شماریاتی تصدیق کرکے کہا جاسکتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی میٹھے مشروبات آگے چل کر خواتین میں آنتوں اور معدے کے سرطان کی وجہ بن سکتےہیں۔
https://www.express.pk/story/2177124/9812/


اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ اگر آپ تندرست رہنا چاہتے ہیں تو باقاعدگی سے پارک ضرور جائیں۔ یہ تحقیق اب باقاعدہ طور پر شائع ہوچکی ہے۔

تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ شہروں کے رہائشی جیسے ہی پارک اور باغ وغیرہ میں جاتے ہیں وہاں موجود سبزہ انہیں جسمانی ورزش پر اکساتا ہے اور پرسکون وسرسبز ماحول دل و دماغ پر مثبت نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس تحقیق کے مصنف رائے ریم کہتے ہیں کہ شہری آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پارک اور سرسبز مقامات میں وقت ضرور گزارے۔ شہری منصوبہ بندی میں پارک کو کلیدی اہمیت دینا بہت ضروری ہے۔

شہروں میں درخت سایہ دیتے ہیں، پرندوں اور زرخیزی پھیلانے والے کیڑوں کا گھر ہوتے ہیں اور برسات کا پانی جذب کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں کئی عشروں کا عوامی صحت کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے جس میں شہروں میں پارکوں کے فوائد کی فہرست بنائی گئی ہے۔ بچے اور بڑے پارک میں کھیلتے ہیں، چہل قدمی اور تیزقدمی کرتےہیں، سائیکلنگ کرتے ہیں اور کئی طرح کے کھیل کھیلتے ہیں۔ اس ضمن میں سائنسدانوں نے ایک مکمل ماڈل بھی بنایا ہے۔

ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ فطری اور سبز مقامات پر وقت گزارنے کے طبعی، نفسیاتی اور روحانی اثرات بھی ہوتےہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے امریکہ اور یورپ میں نیچرل کیپٹل پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے جس میں شہری منصوبہ بندی میں شہری جنگل، پارک اور باغات پر زور دیا جارہا ہے۔

تحقیق میں شامل ایک اور سائنسداں گریچن ڈیلی نے کہا کہ فطری مقامات پر رہنے سے توجہ، ارتکاز، یادداشت، خوشی اور زندگی کے دیگر پہلو روشن ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ باغات ایسے ہارمون پیدا کرتے ہیں کہ جو کینسر اور ڈپریشن سے بچاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2176832/9812/


ولندیزی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گٹھیا کی ابتدائی علامات اور گٹھیا کا تعلق ہمارے منہ میں دو اقسام کے جرثوموں کی زیادہ تعداد سے ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی اسی نوعیت کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گٹھیا کے مریضوں میں منہ اور پیٹ کے بیکٹیریا، دوسرے صحت مند افراد سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔

اسی تحقیق کو آگے بڑھانے کےلیے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی، ہالینڈ کے طبّی ماہرین نے 150 رضاکار بھرتی کیے جن میں سے 50 بالکل صحت مند تھے، 50 میں گٹھیا کی ابتدائی علامات نمودار ہوچکی تھیں لیکن ابھی وہ اس مرض کا شکار نہیں ہوئے تھے، جبکہ باقی 50 رضاکار گٹھیا کے مریض تھے۔

تمام رضاکاروں کے منہ سے لعابِ دہن کے نمونے لے کر ان میں جرثوموں (بیکٹیریا) کی اقسام اور مقدار کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ گٹھیا کی علامات والے افراد اور گٹھیا میں مبتلا مریض، دونوں کے لعابِ دہن میں ’’پریووٹیلا‘‘ (Prevotella) اور ’’ویلونیلا‘‘ (Veillonella) قسم کے جرثوموں کی مقدار، صحت مند افراد کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔

بیکٹیریا کی یہ دونوں اقسام جلن اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گٹھیا کے مریض اور اس کی علامات والے افراد کی زبان کے گرد بھی ویلونیلا جرثومے بہت بڑی تعداد میں کسی تہہ کی مانند موجود تھے۔

اس تحقیق سے اگرچہ گٹھیا اور منہ میں پائے جانے والے بیکٹیریا کے درمیان تعلق مزید واضح ہوا ہے لیکن اب بھی پریووٹیلا اور ویلونیلا جرثوموں کو گٹھیا کی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس مقصد کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اگر آئندہ تحقیق میں یہ بات بھی ثابت ہوگئی تو پھر صرف لعابِ دہن (تھُوک) میں جرثوموں کی جانچ پڑتال کرکے جہاں دوسری بیماریوں کی تشخیص ممکن ہوگی، وہیں کسی فرد کے گٹھیا میں مبتلا ہونے کے امکانات و خدشات کا بروقت پتا چلایا جاسکے گا۔

گٹھیا کی بروقت یا قبل از وقت تشخیص سے اس بیماری کا علاج بھی زیادہ بہتر طور پر کیا جاسکے گا۔

نوٹ: یہ تحقیق آن لائن ریسرچ جرنل ’’آرتھرائٹس اینڈ رہیومیٹولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2176667/9812/


پہلی مرتبہ گردن سے نیچے تک مکمل طور پر معذور شخص نے اپنے دماغ سے اسکرین پر جملے لکھے جو طبی تاریخ میں ایک بہت نمایاں کامیابی ہے۔

سائنسدانوں نے بال سے باریک دو الیکٹروڈ سینسر مریض کے دماغ کے بائیں جانب لگائے اور اس سے کہا کہ وہ اپنے دماغ میں جملے اس طرح لکھے جیسے عام لوگ ہاتھ سے کاغذ پر تحریر لکھتےہیں۔ اسے ’مائنڈ رائٹنگ‘ یا دماغی تحریر کا نام دیا گیا ہے۔

نو برس سے معذور 65 سالہ شخص سے کہا گیا کہ وہ اپنے ذہن میں کاغذ اور قلم کا تصور کرے۔ اس دوران دماغ میں تصور کرنے کا سارا عمل سینسر نے نوٹ کیا۔ اس میں تحریر کے گھماؤ اور بناوٹ کو ایک الگورتھم نے پڑھا اور وہ سامنے اسکرین پر ٹیکسٹ کی صورت میں نمودار ہوتا رہا۔

یہ تجربہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کیا ہے اور ان کے مطابق دماغی تحریر کا عمل عام فون پر ٹیکسٹ لکھنے سے بھی تیزرفتارہے۔ اگرچہ لکھنے کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے اور ہاتھوں کی حرکات میں لاکھوں نیورون (عصبی خلیات) سرگرم ہوسکتےہیں۔ تاہم انہوں نے صرف 200 اہم عصبی خلیات کوہی تختہ مشق بنایا جس کا ڈیٹا مصنوعی ذہانت کے ایک سافٹ ویئر تک بھیجا گیا اور اس کا نتیجہ اسکرین پر ظاہر ہوتا رہا۔

اس طرح معذور شخص نے ایک منٹ میں 18 الفاظ کامیابی سے لکھے جو اس سے قبل بنائے گئے تمام نظاموں سے دوگنا تیز ہیں۔ اس طرح یہ ایجاد دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ایسے افراد کو آواز فراہم کرسکے گی جو فالج یا کسی حادثے کے بعد کچھ بھی کہنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔

اگرچہ ایسے کئی نظام پہلے بھی بنائے گئے ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی خامی اور سست روی شامل تھی۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے صرف اس نظام پر مسلسل دوبرس تک محنت اور تحقیق کی ہے۔ تاہم یہ گروہ کئی برسوں سے دماغ اور کمپیوٹر کے ملاپ اور اطلاقات پر کام کرتا رہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2177721/508/


اسے آپ کشتی کہہ سکتے ہیں اورطیارہ بھی قرار دے سکتے ہیں جو بجلی سے پرواز کرنے والا اب تک سب سے تیزرفتار سمندری بحری جہاز ہے۔

بوسٹن کی ریجنٹ نامی کمپنی کے مطابق سی گلائیڈر 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے۔ اب تک تیار کی جانے والے برقی طیارے کے مقابلے میں یہ دوگنا تیزرفتار ہے۔ لیکن یہ نہ بھولیے گا کہ یہ ایک کشتی بھی ہے۔

ریجنٹ کمپنی نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ان کی ’نئی برقی سواری کے لیے اب تک 465 ملین ڈالر کے آرڈر مل چکے ہیں۔ سی گلایئڈر طیاروں جیسا متحرک اور برق رفتار ہے جبکہ اس میں پرتعیش کشتی جیسی سہولیات موجود ہیں۔ یوں پہلی مرتبہ اڑن کشتی مناسب قیمت پر فراہم کی جارہی ہے ۔ توقع ہے کہ اس سے بحری نقل و حمل میں انقلاب آجائے گا۔‘

اس سواری کو گراؤنڈ افیکٹ وھیکل ( جی ای وی) کا نام دیا گیا ہے۔ اپنی ڈیزائن کے تحت یہ پانی سے گویا لگ کر پرواز کرتا ہے۔ اس طرح پانی کی سطح اور ہوائی دباؤ کے درمیان ایک گدا سا بن جاتا ہے جس سے طیارے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔

اگرچہ جی ای وی کا پہلا تصور 1960 کے عشرے میں پیش کیا گیا تھا۔ پہلے روس نے ایکرانوپلین بنایا جو 600 ٹن وزن لے کر 310 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک اڑ سکتا تھا۔ اس کے بعد سنگاپور نے ایئرفش نامی سمندری طیارہ بنایا ۔ تاہم ریجنٹ کا سی گلائیڈر بہت جدت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے ۔ سب سے اہم شے اس کا برقی پروپلشن سسٹم ہے جس میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

یہ بہت آسانی سے ٹیک آف اور لینڈنگ کرتا ہے جس کی بنا پر دنیا کی بڑی فضائی کمپنیوں کی جانب سے بھی آرڈر ملنا شروع ہوگئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2177418/508/


بالخصوص غریب ممالک میں موبائل ریفریجریٹر کی غیرمعمولی ضرورت پڑتی ہے۔ ویکسین کی کولڈ چین کے لیے بھی موبائل ریفریجریٹر بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اب شمسی توانائی سے چلنے والا ایک انقلابی ریفریجریٹر بنایا گیا ہے جو انٹرنیٹ کراؤڈ فنڈنگ پر سرِ فہرست ہے۔

گوسن چلیسٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر کام کرتا ہے۔ اس میں دو خانے بنے ہیں جو منفی چار درجے سینٹی گریڈ تک کی گہری ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔ اپنے خواص کی بنا پر یہ مکمل طور پر آؤٹ ڈور فریج ہے جسے لے کر کہیں بھی جایا جاسکتا ہے۔

45 لیٹر گنجائش والا یہ موبائل فریج منفی 20 تک بھی ٹھنڈک پیدا کرسکتا ہے لیکن کسی برف کے بغیر کیونکہ اس کی طاقتور بیٹری ایئرکنڈیشننگ نظام پر کام کرتی ہے۔ طاقتور بیٹری اتنی توانائی جمع کرلیتی ہے جو کسی دھوپ کے بغیر اسے 10 گھنٹے تک سرگرم رکھ سکتی ہے۔

اس میں بوتل کھولنے کا اوپنر، اٹھانے کی اسٹریپس، اندرونی روشنی، 12 وولٹ کا بیک اپ پاور اور ٹھنڈک کے دو اہم خانے بنائے گئے ہیں۔ ایک جانب فریج ہے اور دوسری جانب فریزر ہے جس میں برف کا نام و نشان موجود نہیں ۔ اس طرح اشیا منجمند ہونے سے محفوظ رہتی ہیں۔ برف کی نمی سے محفوظ اشیا کو آپ فوری طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

برف نہ ہونے کی وجہ سے اس میں غیرمعمولی گنجائش موجود ہے اور درجہ حرارت کو ٹچ اسکرین سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس میں سافٹ ڈرنکس کے 60 ڈبے، سبزیاں، پھل، گوشت، کھانے، ادویہ اور دیگر سامان رکھا جاسکتا ہے۔ اگر فضا ابرآلود ہوتو اسے براہِ راست اے سی پاور سے بھی چارج کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اضافی رقم خرچ کرکے پاوربینک خریدا جاسکتا ہے۔

اس ایجاد کی تعارفی قیمت 1150 ڈالر رکھی گئی ہے جس کی فروخت اس سال جولائی سے شروع ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2177093/508/


آلودہ پانی کی تلفی یا صفائی ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اب واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے گندے پانی کی صفائی کرنے والا ایسا ٹریٹمنٹ پلانٹ بنایا ہے جو پانی صاف کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی بناسکتا ہے۔

سینٹ لوئی میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی میں ماحولیاتی انجینیئرنگ کے پروفیسر زین جیسن کے مطابق آلودہ پانی نامیاتی ہوتے ہیں اور ان سے توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب آلودہ پانی کو صاف کرکے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا بنایا ہوا نظام آلودہ پانی صاف کرتے دوران بجلی بھی تیارکرسکتا ہے۔ اس کی تفصیلات جرنل فار اینوائرمینٹل سائنس میں شائع ہوئی ہے۔

اس سے قبل ہم فالتو فضلے سے بایوگیس کامیابی سے تیارکرتے رہے ہیں اور نکاسی آب کے پانی سے بجلی بنانے کے طریقے وضع ہوچکے ہیں لیکن ان میں پانی مکمل صاف نہیں ہوپاتا۔

اس کے لیے پروفیسر جیسن نے اپنی تجربہ گاہ میں دو طریقوں پر کام کیا ہے۔ ان کا نظام ایک جانب پانی فلٹر کرتا ہے اور دوسری جانب توانائی بناتا ہے۔ اس طرح ایک خردنامیاتی (مائیکروبیکٹیریئل) الیکٹروکیمیکل سسٹم بنایاہے۔ عام طور پر یہ مائیکروبیئل فیول سیل کی طرح کام کرتا ہے۔

اس میں بیکٹیریا سے چلنے والی ایک بیٹری ہے جس میں زندہ بیکٹیریا رکھے جاسکتے ہیں جو عمل انگیز کے طور پر کام کرتے ہوئے برقی کیمیائی طرز پر کام کرتے ہیں۔ روایتی فیول سیل میں یہی کام پلاٹینم کرتا ہے۔ اس سے قبل الیکٹروڈ (برقیروں) پر زندہ بیکٹیریا رکھےجاتے رہے تھے۔ جب آلودہ پانی اینوڈ سے گزرتا ہے تو بیکٹیریا گندے پانی میں موجود نامیاتی مادوں کو جذب کرکے بدلے میں الیکٹرون خارج کرتا ہے اور بجلی کی معمولی مقدار بننے لگتی ہے۔

تاہم یہ نظام اس سے قدرے مختلف ہے جس کا اینوڈ ایک موصل (کنڈکٹر) کاربنی کپڑے سے بنایا گیا ہے۔ ایک جانب تو یہ پرت اور بیکٹیریا مل کر 80 سے 90 فیصد گندگی فلٹر کرتے ہیں تو دوسری جانب سے صاف پانی برآمد ہوتا ہے لیکن جو پینے کے قابل تو نہیں ہوتا لیکن اس ’سرمئی پانی‘ کو زراعت اور فلش میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سائنسدانوں نے کئی اقسام کے بیکٹیریا استعمال کئے جو صفر آکسیجن میں بھی زندہ رہ سکتے تھے۔ کیونکہ آکسیجن کی موجودگی میں الیکٹران آکسیجن منتقل ہوجاتے ہیں اور الیکٹروڈ تک نہیں پہنچ پاتے۔

اگرچہ پروٹوٹائپ سے بہت ذیادہ بجلی نہیں بنائی جاسکتی لیکن امریکا میں تین سے پانچ فیصد بجلی واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ نئی ٹیکنالوجی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
https://www.express.pk/story/2176815/508/


سمندروں کی گہرائی میں کام کرنے والے ’ریموٹلی آپریٹڈ وھیکل‘ یا آر او وی کو عموماً آبی تحقیق میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن تار کی وجہ سے ان انڈرواٹرڈرون کی کارکردگی محدود ہوجاتی ہے۔ ہائیڈرومیا ایکس رے دنیا کا پہلا ڈرون ہے جو تار کے بغیر کام کرتا ہے اور روشنی استعمال کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پانی میں ریڈیائی امواج سفر نہیں کرتیں اور اسی بنا پر انہیں ایک طویل تار سے باندھا جاتا ہے جس سے ہدایات اور بسا اوقات بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم بعض جدید آر او ویز کے اندر ہی بیٹری بھی نصب ہوتی ہیں جو انہیں پانی میں آگے بڑھانے والے سسٹم کو قوت فراہم کرتی ہیں۔

لیکن زیرِ آب کسی بھی ڈرون کے لیے طویل تار بہت بھاری ہوسکتا ہے۔ یہ کشتی میں بڑی جگہ گھیرتا ہے پھر پانی کے اندر پودوں اور دیگر اشیا سے بھی الجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سوئزرلینڈ کی کمپنی کا تیار کردہ ہائیڈرومیا آر او وی مکمل طور پر بے تار ہے۔

ہائیڈرومیا کو کنٹرول کرنے کےلیے جو نظام بنایا گیا ہے اسے لیوما کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں روشنی کے جھماکوں کی صورت میں پانی کے اندر معلومات بھیجی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ عمل بہت مفید ثابت ہوا اور اسے آر او وی کا حصہ بنایا گیا۔

لیوما نظام 470 نینومیٹر کی نیلی روشنی کے جھماکے دو آپٹیکل موڈیم کے درمیان بھیجتا رہتا ہے۔ ایک موڈیم آر او وی پر لگایا گیا ہے جبکہ ایک پانی کے اوپر کسی مناسب جگہ نصب کیا جاتا ہے۔ اس طرح دس میگا بٹس کا ڈیٹا ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ زیرِ آب ڈرون پر نصب کیمرے کی ایچ ڈی ویڈیو کو کسی تعطل کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔

تاہم اس وقت روشنی سے رابطہ صرف 50 میٹر گہرائی تک ہی ممکن ہے۔ اس سے نیچے روشنی کی رسائی کمزور ہوجاتی ہے اور پانی میں دھندلاہٹ بڑھ جاتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اس نظام کی افادیت 100 میٹر گہرائی تک بڑھانے پر تحقیق کی جارہی ہے۔

یہ ڈرون سات کلوگرام وزنی اور اس کی لمبائی 70 سینٹی میٹر ہے جبکہ چھ ڈگری پر یہ آسانی سے کام کرسکتا ہے جس میں سات تھرسٹر نصب ہیں۔ تاہم اب تک اس کی قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے
https://www.express.pk/story/2178560/508/


عالمی ادارہ صحت اور محنت کشوں کی عالمی تنظیم کی ایک مشترکہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ روزانہ 9 گھنٹے یعنی ہفتے میں 55 گھنٹے یا زیادہ دورانیے کی ملازمت سے دل کے دورے یا فالج کے باعث موت کا خطرہ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔

یہ اوقاتِ ملازمت اور صحت میں باہمی تعلق پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا عالمی تحقیقی مطالعہ ہے جس کے نتائج تحقیقی مجلے ’’اینوائرونمٹ انٹرنیشنل‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ تحقیق میں دو منظم ریویوز اور میٹا تجزیوں سے استفادہ کیا گیا جبکہ امراضِ قلب سے متعلق 37 اور فالج کے بارے میں 22 جامع مطالعات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا۔

مجموعی طور پر اِن 59 مطالعات میں 16 لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔

اس تحقیق کےلیے 1970 سے 2018 کے دوران 154 ممالک میں کیے گئے 2300 سے زائد سرویز کا احاطہ کیا گیا ہے جو عالمی، علاقائی اور قومی سطح کے تھے۔

تجزیئے سے معلوم ہوا ہے کہ 2016 میں فالج سے 3 لاکھ 98 ہزار اموات جبکہ امراضِ قلب سے 3 لاکھ 47 ہزار اموات کی وجہ ملازمت کے طویل اوقات تھے۔

سال 2000 کے مقابلے میں فالج سے اموات کی یہ شرح 19 فیصد زیادہ، جبکہ امراضِ قلب سے اموات کی شرح 42 فیصد زیادہ تھی جو بلاشبہ تشویشناک ہے۔

یہی نہیں بلکہ مردوں میں 72 فیصد اموات کا سبب کام کا مسلسل دباؤ اور زیادہ اوقات تھے جبکہ مرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق مغربی بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں سے دیکھا گیا۔

اوقاتِ ملازمت میں زیادتی کے باعث مرنے والوں کی عمریں 60 سے 79 سال کے درمیان تھیں جبکہ انہوں نے 45 سے 74 سال کی عمر کے درمیان ہفتے میں 55 گھنٹے یا زیادہ دیر تک کام کیا تھا۔

اس تحقیق کی روشنی میں عالمی ادارہ صحت نے تجویز کیا ہے کہ ملازمین پر کام کا دباؤ کم کرتے ہوئے ملازمت کے اوقات کم کیے جائیں اور اداروں میں ملازمین کو اوور ٹائم کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
https://www.express.pk/story/2178912/9812/


بسا اوقات بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) ادویہ سے بھی قابو میں نہیں آتا۔ اب الٹراساؤنڈ کی بدولت اس نوعیت کے بلڈ پریشر کے علاج میں نمایاں کامیابی ملی ہے۔

کولمییا یونیورسٹی سے وابستہ ویگلوس کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے ماہرین نے گردے کے قریب اعصاب پر الٹراساؤنڈ کی لہریں ڈالی گئیں تو ان مریضوں کے فِشارِ خون میں کمی واقع ہوئی۔ واضح رہے کہ یہ مریض تمام دوائیں استعمال کرچکے تھے بلکہ انہیں ملا کر کھارہے تھے لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا۔

اس عمل کو رینل ڈینورویشن کہتے ہیں جس کی آزمائش کے بعد دو ماہ میں دن کا بلڈ پریشر 8 پوائنٹس تک کم ہوگیا جبکہ فرضی دوا کھانے والوں میں صرف تین فیصد کمی دیکھی گئی۔ جبکہ الٹراساؤنڈ سے رات کے وقت بلڈ پریشر میں 8.3 پوائنٹس کمی دیکھی گئی اور فرضی دوا والوں میں یہ شرح صرف 1.8 پوائنٹس ہی تھی۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ 8 پوائنٹ بلڈ پریشر میں کمی کو طویل عرصے تک برقرار رکھا جائے تو فالج اور دل کے دورے کے خطرات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح الٹراساؤنڈ سے علاج کا طریقہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ طبی تحقیقات کو ریڈیئنس ایچ ٹی این ٹرائیو کا نام دیا گیا ہے جس کی تفصیلات 16 مئی کو امریکن کالج آف کارڈیالوجی کانفرنس میں پیش کی گئی ہیں۔

اگرچہ یہ ابھی ایک تجرباتی معالجہ ہے جسے ایف ڈی اے نے منظور نہیں کیا ہے۔ تاہم مختلف ہسپتالوں میں اسے بطور طبی آزمائش کے پیش کیا جارہا ہے۔ اب اگلے پانچ برس تک تمام مریضوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ دنیا بھر میں 66 فیصد افراد بلڈ پریشر کو ادویہ سے کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ ایک تہائی افراد پر ادویہ کے اثرات نہیں پڑتے یا وہ کسی مضر سائیڈ افیکٹ میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ بلڈ پریشر کو قابو کرنے میں گردوں کا غیرمعمولی کردار ہوتا ہے۔ گردے خون میں پانی شامل کرتے ہیں جن کی کمی بیشی بلڈ پریشر میں کمی اور اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ اب الٹراساؤنڈ سے گردے کو سرگرم کرکے اس کے سگنل کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل میں رینل آرٹری ( گردے کی شہ رگ) میں تارکے ذریعے الٹراساؤنڈ نظام گردے تک پہنچایا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ رینل ڈینرویشن کا طریقہ ہرقسم کی ادویہ کے مقابلے میں بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2178528/9812/


بعض بچے بہت ہی سرگرم ہوتے ہیں اور کہیں بھی اپنی توجہ مبذول نہیں رکھ سکتے، لیکن اس کیفیت کو یوگا اور سانس کی مشقوں سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

بعض بچے غیرمعمولی طور پر سرگرم (ہاپئرایکٹو) ہوتے ہیں اور وہ بہت جلد اپنی توجہ کھودیتے ہیں خواہ کھیل ہو، غذا ہو یا تعلیم۔ اس کی شدید کیفیت کو ایک مرض اے ڈی ایچ ڈی (اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپرایکٹویٹی ڈس آرڈر) کہا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو اب خصوصی کلاسوں میں یوگا اور سانس کی مشقیں کرائی گئی ہیں جن سے ان کی طبعیت میں سکون اور توجہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

روس میں واقع اورل فیڈرل یونیورسٹی نے یہ تجربات کئے ہیں اور اس کی تحقیقات جرنل آف بائیلوجیکل سائیکائٹری میں شائع کرائی ہیں۔ اس میں 6 سے 7 برس کے ایسے 16 بچے شامل تھے جو اے ڈی ایچ ڈی کے شدید عارضے کے شکار تھے۔ یہ بچے اپنے والدین کے لیے بھی بہت پریشانی کی وجہ بن رہے تھے۔

جامعہ میں دماغ اوراعصابیات کی تجربہ گاہ کے ماہر ڈاکٹر سرگائی کائسلیف کہتے ہیں کہ اے ڈی ایچ ڈی والے بچوں میں دماغی سرگرمیوں کو معمول پر رکھنے والا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس سے وہ انتشار کے شکار ہوتے ہیں اور بار بار ایک سے دوسری جانب متوجہ ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں نے بچوں کو ایک جماعت کی صورت میں بٹھایا اور انہیں گہرے سانس کی مشقیں کرائی گئیں۔ اس سے دماغ میں آکسیجن اور خون کا بہاؤ بہتر ہوا اور اعصابی سکون ملا۔ اس کے علاوہ یوگا سے جسمانی تناؤ کم کرکے سکون میں لایا گیا تو بچوں پر اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔

اس دوران طبی اور نفسیاتی ماہرین نے بھی بچوں کا جائزہ لیا۔ ان ورزشوں کا فرق بھی فوری طور پر دیکھا گیا ۔ کچھ بچوں نے ایک سال تک یوگا اور سانس کی مشقیں کیں تو ازخود وہ گہرے سانس کے عادی ہوگئے اور ان میں توجہ بہتر ہوئی ، فکری انتشار کم ہوا اور ان کے والدین نے بھی سکون کا سانس لیا۔

اس ضمن میں روسی نفسیاتی معالج اینا ثمینووچ نے تمام مشقوں کو مرتب کیا ہے۔ ان کے خیال میں یوگا اور سانس کی مشقوں سے اے ڈی ایچ ڈی کو کم کرنے میں غیرمعمولی مدد مل سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2177904/9812/


جرمن ماہرین نے ایک دلچسپ تحقیقی سروے میں کہا ہے کہ انسانی آواز کی لوچ، گہرائی، اتار چڑھاؤ اور پچ میں اس کی شخصیت کے بہت سے راز پوشیدہ ہوسکتےہیں۔

یونیورسٹی آف گوئٹنجن کے سائنسدانوں نے 2000 سے زائد افراد پر تحقیق کے بعد کہا ہے کہ آپ کی آواز میں شخصیت کے کچھ پہلو ضرور ہوسکتے ہیں۔ مثلاً دھیمی پِچ والی (گہری اور دھیمی) آواز کے لوگ دوسروں پر اثر ڈالنے والے، جلد گھلنے ملنے والے اور یہاں تک کہ جزوقتی جنسی روابط میں دلچسپی رکھنے والے ہوسکتےہیں۔ یہ تحقیق بہ یک وقت مرد و خواتین پر لاگو کی جاسکتی ہے۔

جرنل آف ریسرچ ان پرسنیلٹی میں شائع رپورٹ کے مطابق چار مختلف ممالک سے ہزاروں افراد کی آواز کے نمونے لیے گئے اور ان سے تفصیلی سوالنامے بھروائے گئے۔ اس کےبعد سافٹ ویئر کے ذریعے آواز کی مختلف کیفیات کا جائزہ لیا گیا۔ سوالات میں شرکا کے جنسی رحجان، روزمرہ برتاؤ اور شرمیلی یا بے باک شخصیت کے متعلق پوچھا گیا۔

تحقیقی سروے کی نگراں ڈاکٹر جولیا اسٹرن کہتی ہیں کہ ہم فون پر کسی سے بات کرتے ہیں تو آواز سن کر کسی کی عمر، جنس یہاں تک کہ اداسی اور خوشی کا اندازہ بھی لگاسکتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ آیا آواز سے انسان کے دیگر راز بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ ہماری تحقیق اگرچہ ابتدائی مراحل میں ہے لیکن یہ درست ہے کہ آواز میں شخصی معلومات کا خزانہ ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2177474/9812/


نابینا افرادکو رکاوٹوں سے بچانے کیلئے سمارٹ شوز تیار
 17 May, 2021

سائنسدانوں نے اندھے اور جزوی طور پر نابینا افراد کیلئے سمارٹ جوتے تیار کرلئے ہیں

ویانا (نیٹ نیوز)جو ان کو راستوں میں آنے والی متعدد رکاوٹوں سے بچانے میں مدد دیں گے ، ایک جوتے کی قیمت 2 ہزار 700پاؤنڈ ہے ۔ان جوتوں کو اننو میک کہا جاتا ہے ،جن میں کچھ مخصوص جدید آلات نصب کئے گئے ہیں اور اس میں یو ایس بی چارجز بھی شامل ہیں۔ہر جوتے کے سامنے الٹراسونک سینسر لگے ہیں جو راستے میں رکاوٹوں کے قریب آنے پر اطلاع دیتے ہیں، یہ جوتے پہن کر چلنے والا فرد جیسے جیسے کسی رکاوٹ کے قریب ہورہا ہوتا ہے ، جوتے کی وائبریشن میں تیزی آتی جاتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-17/1823904


کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ معروف نیورو سرجن نے سب سے کام کا مشورہ دے دیا
May 16, 2021 | 21:37:PM

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن)پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور معروف نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا ہے کہ کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کی بیماریوں سے متعلق پایاجانےوالا تاثردرست نہیں،اِن مسائل سے بچنےکےلئےروزانہ کی بنیادپرورزش کومعمول بناناچاہیے،بیٹھنے کےانداز سےلےکروزن کم کرنااوردیگراحتیاطی تدابیر بھی اہمیت کی حامل ہیں،دو مہروں کے درمیان پایا جانے والا قدرتی مادہ کم ہوجانے سے ڈسک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کے لئے مناسب دوائیوں اور باقاعدہ تشخیص کی ضرورت ہے جبکہ پی آئی این ایس میں کیے جانے والے آپریشن کسی بھی لحاظ سے کسی بھی جدید ملک سے کم نہیں ۔

میڈیکل طلباء کو لیکچر کے دوران پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے واضح کیا کہ زیادہ تر مریضوں میں کمر درد کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی اور 90فیصد مریض فزیو تھراپی اور معمولی دوائیوں سے وقت کے ساتھ خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں، البتہ مہروں کے درمیان پائے جانے والے مسائل کے باعث اگر درد کمر سے نکل کر گھٹنوں اور پاؤں تک جائے تو پھر ایم آر آئی اور دیگر متعلقہ ٹیسٹوں کے ذریعے مناسب تشخیص کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ مریضوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں،سپائنل سرجری میں انتہائی جدید طریقے متعارف ہو چکے ہیں جن میں کم سے کم 2cmسائز کاکٹ (سوراخ)کر کے کیمروں اور جدید مشینری سے آپریشن عمل میں لایا جاتا ہے ۔اُنہوں نے واضح کیا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں جدید اینڈو سکوپک اور دیگر مشینری سے روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کیے جا رہے ہیں جن میں ڈسک کے مریض بھی شامل ہیں اور ماہانہ ایک سو سے زائد مریضوں کے آپریشن مکمل طور پر مفت ہوتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا فنکشن گاڑی کے رنگ پسٹن کی طرح ہے جو وقت کے ساتھ خراب ہو جاتے ہیں، ایسے مریضوں کو وزن اٹھانے ،چلنے پھرنے اور ایک دم سے جھکنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

نیورو سرجن خالد محمود کا کہنا تھا کہ تیراکی انتہائی بہترین ورزش ہے جو کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کیلئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے، کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کو خوفزدہ ہونے کی بجائے باقاعدہ علاج معالجے اور ضرورت پڑنے پر آپریشن کا ضرور آپشن لینا چاہیے کیونکہ اب کنویشنل سرجری بھی بہت بہتر ہو چکی ہے ، ایسے مریض جنہیں آپریشن کی ضرورت نہیں وہ فزیو تھراپی اور 6ہفتے کے بیڈ ریسٹ سے بہتر ہو سکتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289623?fbclid=IwAR3vv0kKSqrv44OPw90WV7TfL9GhtSKXpH5fPJXJbffE8pOQwUA7jl0eSHs


ورزش کے بغیر وزن کم کرنے کے حیرت انگیز طریقے
May 16, 2021 | 19:04:PM

لاہور (ویب ڈیسک) ماہرین صحت وزن کم کرنے کے بے شمار طریقے بتاتے ہین جن میں مختلف قسم کی ورزشیں اور فاقہ کشی کی تراکیب شامل ہوتی ہے۔ ہم نیوز کی رپورٹ کے مطابق وزن کم کرنے کیلئے ورزش کرنا سب سے بہترین عمل ہے لیکن کچھ ایسی تدبیریں بھی ہیں جس کے لیے پسینہ بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔وزن کم کرنے کیلئے جتنے بھی طریقے بتائے جاتے ہیں ان میں ورزش کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن اگر آپ ورزش سے نفرت کرتے ہو تو کیا ہوگا؟

ذیل میں ہم ایسے طریقوں کا ذکر کریں گے جن پر عمل کر کے وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مدھم روشنی اور کم شور میں کھانا کھائیں

ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ زیادہ روشنیوں اور شور والے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں وہ ایسے لوگوں کی نسبت زیادہ خوراک استعمال کرتے ہیں جو پرسکون اور مدھم روشنی میں کھانا کھاتے ہیں۔

کاجو کے حیرت انگیز طبی فوائد

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روشنی مدھم رکھنے سے کھانے کی رفتار کم رہتی ہے اور کھانا ڈھنڈا ہونے سے ہم جلدی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھنڈے کھانے کی نسبت گرم کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے جو موٹاپے کا سبب ہے۔

چھوٹے برتن کا استعمال

عام طور پر جو پلیٹس کھانے کیلیے استعمال کی جاتی ہیں ان کا سائز11 یا 12 انچ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر پلیٹ کا سائز کم کر کے 10 یا نو انچ کر دیا جائے تو ہم اپنی خوراک میں 23 فئصد کمی لا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم اپنی چمچ کا سائز بھی کم کر لیں تو خوراک میں 14 فیصد مزید کمی لائی جاسکتی۔

دماغ کو سمجھائیں

اس ترکیب کا استعمال ہر کسی کے لیے ممکن نہیں اور نہ یہ ہر کسی کے لیے مفید ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کھانے سے پہلے دماغ کو پیغام دیں کہ مجھے بھوک نہیں لیکن میں پھر بھی کھانا کھاو¿ں گا اور ایسا کرنے سے ایک میں 1.6 پاونڈ وزن کم کیا جا سکتا ہے۔

ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ عمر، قد اور وزن کا حساب لگائے بغیر ہی خود کو صحت مند سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے وزن کے متعلق قریبی دوستوں سے مشورہ کرنا چاہیے اور ان کے کہنے پر ایک بار وزن ضرور کریں۔وزن کرنے سے موٹا کم کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی لیکن اس کے بعد احتیاطی تدابیر اپنا کر وزن کو بڑھنے سے مزید روکا جاسکتا ہے۔

کھانے کا حساب رکھیں

عمر، قد اور وزن میں توازن رکھنے کیلئے ضروری ہے آپ اپنی خوراک کا حساب رکھیں جس سے آپ کیلوریزکے متعلق صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بلاشبہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن اپنے کھانے کا حساب رکھنے سے خوراک میں توازن قائم کرنا آسان رہتا ہے۔

نیند پوری کریں

نیند میں کمی سے دماغ ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے جو بھوک میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق وزن کم کرنے نیند پوری کرنا جم جانے سے زیادہ ضروری ہے۔ نیند کے دورانیے کو ورزش کے ساتھ متصادم نہیں ہونا چاہیے۔طبی تحقیق کے مطابق ہر انسان کو روزانہ 8 گھنٹے کی نیند لینی چاہیے تا کہ بھوک اور پیاس کے احساس کو کنٹرول کرنے کے ذمے دار ہارمونز کا نظام درست رہے۔

بھرپور ناشتہ

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ پیٹ بھر کر اور اپنی مرضی کی خوراک استعمال کریں بلکہ پروٹین سے بھرپور ناشتہ کرنا چاہیے جو سارا دن بھوک کنٹرول کرنے میں مدد کرے۔ ناشتے میں انڈے ، دہی یا مونگ پھلی کے مکھن کا استعمال کریں۔ کھانے میں تین گھنٹے سے زیادہ وقفہ نہ دیں اور ہمیشہ تھوڑا تھوڑا کھائیں۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289606?fbclid=IwAR0_OdNpJUZAmKz3v4fnbUtoz1GWPhydvMBdL9VY8uCxSX6HGl_tXJDgFME


کورونا نے عام افراد کو بہت سارے نئے الفاظ، بہت سارے نئے طبی آلات سے متعارف کروایا جس میں ایک چھوٹا مگر نہایت اہم طبی آلہ ’ پلس آکسی میٹر‘ بھی ہے۔

کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار کی حیثیت رکھنے والا یہ آلہ اب دنیا بھر کے بیشتر گھروں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس آلے سے سیچوریشن( خون میں آکسیجن کی سطح) کے ساتھ ساتھ نبض کی رفتار، بلڈ پریشر کو کہیں بھی کسی بھی وقت چیک کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس آلے کے غلط استعمال سے آپ کی پریشانی میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے خصوصا جب آپ کورونا کے مریض کی سیچوریشن چیک کر رہے ہوں اور میٹر اسے 99 یا 95 کی جگہ 89 یا 85 ظاہر کرے تو یہ مریض کے تیمار داروں کی ڈوریں لگوا سکتا ہے۔

پلس آکسی میٹر کا درست استعمال آپ کو بلا وجہ کی ذہنی کوفت سے بچا سکتا ہے، زیر نظر مضمون میں دی گئی معلومات کی بنیاد پر آپ پلس آکسی میٹر کے صحیح استعمال میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

1۔ سیچوریشن چیک کرنے سے کم از کم دس منٹ پہلے مریض کے جسم کر آرام دہ حالت میں لائیں۔

2۔ پلس آکسی میٹر کو شہادت یا درمیانی انگلی پراس طرح پہنیں کہ اس کا سینسر ناخن سے اوپر براہ راست جلد سے مَس ہو۔ آکسی میٹر کو کبھی بھی ناخن پر نہیں پہنیں.

3۔ آکسی میٹر کو متوازن رکھیں اور حرکت نہیں کریں. میٹر انگلی پر ڈگمگانا نہیں چاہیئے۔ جب تک میٹر اپنی پیمائش مکمل نہیں کر لیتا اس وقت تک حرکت نہ کریں۔۔ پُرسکون رہتے ہوئے آکسی میٹر کی ریڈنگز کو مستحکم ہونے دیں، ابتدائی ریڈنگز کو نظر انداز کردیں۔

اگر آپ کو صحت کے مسائل درپیش ہپں تو اپنی سیچوریشن ( جو کہ آکسی میٹر میں SPO2 سے ظاہر ہوتی ہے) کو دن میں تین مرتبہ ریکارڈ کریں۔ عموما 95 تک سیچوریشن کو نارمل تصور کیا جاتا ہے، تاہم اگر آپ کی سیچوریشن 92 سے نیچے پہنچ جائے تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
https://www.express.pk/story/2176379/9812/


اگرچہ شفاف اور ماحول دوست لکڑی پر ایک عرصے سے کام جاری ہے لیکن اس ضمن میں اب نارنجی کے چھلکے سے شفاف لکڑی بنائی گئی ہے جو کئی مرتبہ بازیافت (ری سائیکل) کی جاسکتی ہے۔

سویڈن میں واقع کے ٹی ایچ رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کئی برس سے اس پر تحقیق کررہے ہیں۔ اب اسے نارنجی کے چھلکے سے حاصل پالیمر کی بدولت مزید مضبوط بنایا گیا ہے۔ یعنی شفاف لکڑی کو اب ہر قسم کی تعمیرات میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں شفاف لکڑی سورج کو روشنی کو اندر آنے دیتی ہے۔

پہلے لکڑی سے لائگنِن نامی مادہ نکالا جاتا ہے جو روشنی جذب کرتا ہے۔ اب لکڑی سے لائگنِن نکالنے کے بعد وہ شفاف ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں جابجا سوراخ ابھرآتے ہیں۔ یہاں ایسے مادے کی ضرورت پیش آتی ہے جو ان خالی سوراخوں کو بھر کر شفاف لکڑی کو مضبوط بناسکے اور روشنی کو بھی آرپارگزرنے دے۔

اگلے مرحلے میں کے ٹی ایچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے نارنجی کے چھلکے سے لائمونین ایکرائلیٹ نکالا جس کے نتائج ایڈوانسڈ سائنس میں شائع کئے ہیں۔ اس طرح لکڑی شفاف اورمضبوط ہوگئی جس سے روشنی گزرسکتی ہے جو ایک بہت اچھی پیشرفت بھی ہے۔

اس طرح 1.2 ملی میٹر کا لکڑی والا شیشہ اپنے اندر سے 90 فیصد روشنی گزرنے دیتا ہے۔ اس کے برخلاف دیگر شفاف لکڑیوں سے مشکل سے 30 سے 50 فیصد روشنی ہی گزرپاتی ہے۔ اس کی مضبوطی اور لچک تمام معیارات پر پوری اترتی ہے جسے صنعتوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شفاف لکڑی کی تیاری میں ماحول دوست کیمیکل استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ خام مال بھی مکمل طور پر حیاتیاتی اور اپنی نوعیت میں سبز ہے۔ اس طرح یہ ایک بہترین ایجاد بھی ہے۔

لیکن شفاف لکڑی کے استعمال یہاں ختم نہیں ہوتے بلکہ انہیں حرارت جذب کرنے، روشنی خارج کرنے والے شیشوں اور یہاں تک کہ لکڑی کے لیزر کی صورت میں ڈھالا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2176468/508/


کسی دماغی مرض، فالج یا دیگر قسم کی معذوری میں مبتلا افراد اب اپنے کان سے کمپیوٹر اور ٹیبلٹ کنٹرول کرسکتے ہیں۔

اے ایل ایس اور دیگر امراض کے شکار خواتین و حضرات کے لیے کان کے اندر سماجانے والا ایک چھوٹا سا آلہ بنایا گیا ہے جسے ’ایئرسوئچ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ ایک قسم کے ماؤس کا کام کرتے ہوئے انہیں کمپیوٹر پرہرطرح کا کنٹرول فراہم کرسکتا ہے۔

ایئرسوئچ دماغ کے اندرموجود ایک چھوٹے سے عضو، ٹٰینسرٹمپنی کے ذریعے کام کرتا ہے۔ اس کی بدولت کمپیوٹرکو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کا پروٹوٹائپ سلیکن سے بنایا گیا ہے اور اس میں ایک بہت باریک کیمرہ نصب ہے اور جب پہننے والا شعوری طور پر کان کے اندردباؤ ڈالتا ہے تو کیمرہ اس حرکات کو نوٹ کرتا ہے اس کی ہدایات کمپیوٹرتک پہنچتی ہے۔

اس آلے کو باتھ یونیورسٹی کی ڈجیٹل لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔

اس طرح کے سگنل آن اسکرین کی بورڈ تک پہنچتے ہیں اور کانوں کی اندرونی کِلک سے مختلف حروف منتخب کئے جاسکتے ہیں۔ یہ آلہ نِک گومپرز نے ایجاد کیا ہے جس کی بدولت کان سے کمپیوٹر کنٹرول کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ مشہور سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کی عینک میں انفراریڈ کیمرہ نصب تھا اور وہ اپنی ٹھوڑی کی جنبش سے کمپیوٹر اورآواز خارج کرنے والی مشین کو کنٹرول کیا کرتا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ شدید اے ایل ایس کے مرض میں مبتلا افراد بھی کان کے اندرونی حصےپردباؤ ڈال سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ جسم کا سب سے چھوٹا عضو ارادی طور پر کنٹرول کرسکتے ہیں جو کان کے اندر موجود ہوتا ہے۔

ابتدائی تجربات میں اس آلے سے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2176433/9812/


مریخ پر موجود مچھر اور کیڑوں کی آوازیں ریکارڈ ،آڈیوجاری
 9 May, 2021

امریکی خلائی ادارے ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر کی آزمائشی پرواز کے دوران ریکارڈ کی گئی آوازوں کی آڈیو جاری کردی

واشنگٹن(نیٹ نیوز)میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی خلائی ادارے کا کہنا ہے کہ انجینیوٹی ہیلی کاپٹر کی ریکارڈ شدہ آڈیو مچھر اور کیڑوں کی آوازیں ہیں۔سائنس دانوں نے یہ بھی کہا کہ منی ہیلی کاپٹر کے پروں کے شور کی وجہ سے ان آوازوں کو سننا مشکل تھا ۔واضح رہے کہ ناسا نے یہ آڈیو 30 اپریل کو چوتھی آزمائشی پرواز کے دوران ریکارڈ کی تھی، جس کے ساتھ ہی چوتھی آزمائشی پرواز کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوگیا جب کہ اگلے مرحلے میں چٹانوں کی تلاش کی جائے گی
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-09/1821065


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108334748&Issue=NP_PEW&Date=20210509


اگرچہ یہ بہت چھوٹے ہیں لیکن سائنسدانوں نے ہوا میں ہولوگرافک تصاویر کو حرکت دے کر اسے ترقی دی ہے۔ تجرباتی طور پر اسٹاروار فلم کی طرح سرخ اور سبز تلواروں کے ہولوگرام ہوا میں لہرائے گئے ہیں اور یہ حرکت کرنے والے پہلے ہولوگرام بھی ہیں۔

برگھم ینگ یونیورسٹی (بی وائے یو) کے سائنسدانوں نے اس سے پہلے ہوا میں فوٹون کی بوچھاڑ بھی پیدا کی تھی جسے عام افراد کسی آلے کے بغیر باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ بی وائے یو میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کے پروفیسر ڈین اسمالے کہتے ہیں کہ یہ حقیقی ہولوگرام ہیں جو ہر رخ سے مختلف دکھائی دیتےہیں۔

اس تحقیق کو بین الاقوامی طور پر غیرمعمولی قرار دیا گیا ہے جس میں تین سال کی محنت لگی ہے۔ اس میں کسی اسکرین کے بغیر، ہوا میں آزادانہ تیرنے والے مناظر اور ہولوگرام دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہیں آپٹیکل ٹریپ ڈسپلے کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے لیزر سے ہوا میں ایک ذرہ قابو کیا جاتا ہے اور لیزر کی مدد سے اسے حرکت دی جاتی ہے۔ اس طرح لیزر کا روشن راستہ بن جاتا ہے۔ اس ایجاد کو روشنی بنانے والا تھری ڈی پرنٹر بھی کہا جاسکتا ہے۔

اگلے مرحلے میں یہ گروپ ہوا میں سادہ اینی میشن کا عملی مظاہرہ کرے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان ہولوگرام سے کھیلیں گے اور اس سے سیکھیں گے۔ اگرچہ تھری ڈی اشیا دیکھنے کے لیے ہم اسکرین کو دیکھتے ہیں لیکن اس بار ہوا میں تھری ڈی اشکال دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ تجرباتی طور پر ہولوگرافک چھڑی کو انسانی انگلی سے اوپر دکھایا گا ہے جو انگلی کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی ہے۔ اگرچہ یہ ابھی بہت چھوٹے ڈسپلے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہوا میں بڑے ہولوگرافک ڈسپلے بھی بنائے جاسکیں گے
https://www.express.pk/story/2175753/508/


پی یو ایم اے ، اینٹی باڈیزروکنے والا نیا مرض دریافت
 8 May, 2021

گزشتہ 20 برس میں ہم ہزاروں نئے امراض دریافت کرچکے ہیں اور اب چلڈرن ہسپتال آف فلاڈیلفیا کے ڈاکٹروں نے ایک بچے میں نئی بیماری کا پتا لگایا ہے

فلاڈیلفیا(نیٹ نیوز)گزشتہ 20 برس میں ہم ہزاروں نئے امراض دریافت کرچکے ہیں اور اب چلڈرن ہسپتال آف فلاڈیلفیا کے ڈاکٹروں نے ایک بچے میں نئی بیماری کا پتا لگایا ہے جس کے تحت اس کے جسم میں اینٹی باڈیز اجزا نہیں بن رہے تھے ۔ہسپتال میں سات ماہ کا ایک بچہ لایا گیا تھا جسے کان کا انفیکشن، چہرے پر سرخ دھبے اور مستقل تھکاوٹ کے آثار تھے ۔ لیوک کا مکمل جینیاتی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لیوک کا بدن بی سیلز اور اینٹی باڈیز نہیں بنارہا تھا۔ ہسپتال اور یونیورسٹی کے کئی سائنسدان ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور بچے پر مکمل تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بی لمفوسائٹس کے بغیر پیدا ہوا ہے ۔ یہ خلیات اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایس پی آئی ون نامی جین میں بہت تبدیلی تھی۔اگلے مرحلے میں لیوک کے بھائی کی ہڈیوں کا گودا لے کراسے لیوک میں منتقل کیا گیا اور اب وہ تندرست ہوچکا ہے
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-08/1820280


امپیریل کالج لندن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 74 سال پرانی ایک اینٹی بایوٹک آج کے نئے اور سخت جان جرثوموں (بیکٹیریا) کے خلاف بھی مؤثر ہے جس کی وجہ شاید اس کا وہ منفرد انداز ہے جس سے یہ کسی بھی جرثومے کو ہلاک کرتی ہے۔

واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرثوموں میں ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے کئی بیماریوں کا علاج بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

طبّی ماہرین کو خطرہ ہے کہ اگر جرثوموں میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت اسی طرح بڑھتی رہی تو اگلے چند سال میں بیشتر بیماریوں کا علاج ناممکن ہوجائے گا۔

اسی سوچ کے تحت ماہرین نہ صرف نئی سے نئی اینٹی بایوٹکس ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ پرانی اور متروکہ تدابیر بھی ایک بار پھر آزمانے میں مصروف ہیں۔

تازہ مطالعے میں جس دوا پر تحقیق کی گئی ہے اس کا نام ’’کولسٹین‘‘ (colistin) ہے جو 1947 سے جراثیم کے علاج میں آخری حربے کے طور پر استعمال کی جارہی ہے تاہم آج اس کا استعمال بہت کم رہ گیا ہے اور اسے بہت ہی کم مواقع پر تجویز کیا جاتا ہے۔

بتاتے چلیں کہ کسی بھی جرثومے کے گرد دو جھلیاں ہوتی ہیں جو اسے محفوظ بناتی ہیں۔ کولسٹین کسی تیز دھار بھالے کی طرح ان دونوں جھلیوں کو پھاڑ کر جراثیم کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے خلاف جرثوموں میں اب تک کوئی مزاحمت پیدا نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن اس تدبیر کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ تب ہی استعمال کی جاتی ہے جب دوسری تمام اینٹی بایوٹکس ناکارہ ثابت ہوجائیں۔ البتہ، ایسی صورت میں بھی بہت زیادہ احتیاط برتنا ہوتی ہے۔

امپیریل کالج لندن میں تجربات کے دوران کولسٹین کو مختلف نئے اور سخت جان جرثوموں کے خلاف آزمایا گیا، جو ایک بار پھر ماہرین کی توقعات پر پوری اتری۔

تاہم اس بار ماہرین کا مقصد اضافی طور پر یہ بھی جاننا تھا کہ کولسٹین آخر کس طرح عمل کرتی ہے کہ بیکٹیریا کی دونوں حفاظتی جھلیوں کے پرخچے اُڑا دیتی ہے۔

اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے تو اسی انداز کو دوسری اینٹی بایوٹکس میں پیدا کرکے ان کی اثر پذیری بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

تازہ تحقیق سے اتنا تو پتا چل گیا ہے کہ کولسٹین کسی جرثومے کی دونوں جھلیوں کو یکساں انداز سے پھاڑتی ہے لیکن ابھی اس عمل کی مزید جزئیات کا تعین کرنا باقی ہے، جس کے بعد اس تکنیک کو دوسری اینٹی بایوٹکس کی از سرِ نو تیاری میں بھی آزمایا جائے گا۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’ای لائف‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2175613/9812/


آئی بی ایم نے دنیا کے باریک ترین ٹرانسسٹرز والا مائیکروپروسیسر تیار کرلیا ہے جس میں ہر ٹرانسسٹر کی چوڑائی 2 نینومیٹر، یعنی ڈی این اے سے بھی زیادہ باریک ہے۔

اس قدر باریک ٹرانسسٹرز کی بدولت جو مائیکروپروسیسر تیار ہوا ہے اس میں عام انسانی ناخن جتنی جسامت پر 50 ارب ٹرانسسٹرز سمو دیئے گئے ہیں جو بلاشبہ ایک ریکارڈ ہے۔

آئی بی ایم کا یہ نیا مائیکروپروسیسر جسے فی الحال کوئی باقاعدہ نام نہیں دیا گیا ہے، کارکردگی میں موجودہ مائیکروپروسیسرز کے مقابلے میں 45 فیصد بہتر ہونے کے علاوہ 75 فیصد تک بجلی کی بچت بھی کرے گا۔

واضح رہے کہ اس وقت اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ سے لے کر کمپیوٹرز تک میں استعمال ہونے والے عام مائیکروپروسیسرز/ مائیکروچپس میں ٹرانسسٹرز کی انفرادی چوڑائی 7 نینومیٹر ہوتی ہے جبکہ 5 نینومیٹر ٹرانسسٹرز کی تیاری بھی محدود پیمانے پر شروع کی جاچکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی قوانین ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ایک خاص حد سے مختصر ٹرانسسٹرز والے مائیکروپروسیسرز/ مائیکروچپس تیار کرسکیں۔

اب تک تجرباتی طور پر 2.5 نینومیٹر چوڑے ٹرانسسٹرز والی چپس بھی تیار کی جاچکی ہیں جبکہ خیال کیا جارہا تھا کہ اگر اس سے زیادہ باریک ٹرانسسٹرز والی چپ بنائی گئیں تو وہ قدرتی قوانین ہی کی وجہ سے اپنا کام درست طور پر کرنے کے قابل نہیں ہوں گی۔

تاہم آئی بی ایم نے 2 نینومیٹر چپس تیار کرکے یہ خیال غلط ثابت کردیا ہے۔

جلد ہی ان مائیکروچپس/ مائیکروپروسیسرز کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کردی جائے گی لیکن صارفین کےلیے ان چپس سے تیار کردہ مصنوعات 2023 تک دستیاب ہونے کی توقع ہے۔
https://www.express.pk/story/2175599/508/


تھری ڈی پرنٹر کی آمد سے مصنوعات سازی کا انقلاب آگیا ہے اور اب چوک میٹ ٹو نامی تھری ڈی پرنٹر سے آپ گھر بیٹھے عین کارخانوں میں تیار کردہ چاکلیٹ بناکر اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

چوک میٹ ٹو آپ کو بنے بنائے ڈیزائن بھی فراہم کرتا ہے جن کی بدولت آپ اپنے خوبصورت انداز میں تیارکردہ چاکلیٹ سے لوگوں کو حیران کرسکتےہیں۔ چوک میٹ ٹو بنانے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مشین پر غیرمعمولی محنت کی ہے اور اب وہ بہت نفاست اور باریکی سے ڈیزائن بناسکتی ہے۔

یہ مشین سفید، ڈارک، دودھ والی اور شوگرفری چاکلیٹ بھی بناسکتی ہے۔ انتہائی ہموار اور خوبصورت انداز میں اس سے چاکلیٹ کے بہترین نمونے بنائے جاسکتے ہیں۔ کمپنی نے کہا ہے کہ بار بار ان کے نئے پرنٹر خریدنے کی ضرورت نہیں رہتی بس ایک مرتبہ خریدی گئی مشین کو کئی مرتبہ اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح چوک میٹ ٹو ماحول دوست ہے اور جیب پر بھی ہلکا رہتا ہے۔

کمپنی سوئزرلینڈ کی تیارکردہ چاکلیٹ اسٹکس بطور خام مال فراہم کرتی ہے۔ اسے استعمال کے لحاظ سے اس میں مختلف اشیا کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ مشین تہہ در تہہ چاکلیٹ سازی کرتی ہے اور ایک سینٹی میٹر پرت بنانے میں 15 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس طرح ایک گھنٹے میں چھوٹی چاکلیٹ کے 30 ٹکڑے تیار کئے جاسکتے ہیں۔

لیکن چاکلیٹ چھاپنے سے پہلے تمام ہدایات کا پڑھنا اور جاننا ضروری ہے۔ کمپیوٹرایڈڈ ڈیزائن (کیڈ) کی بدولت آپ کئی ڈیزائن اور اشکال کی چاکلیٹ بناسکتےہیں۔ ان میں حروف، الفاظ اور ڈیزائن شامل ہیں۔
https://www.express.pk/story/2175688/509/


گزشتہ 20 برس میں ہم ہزاروں نئے امراض دریافت کرچکے ہیں اور اب چلڈرن ہسپتال آف فلاڈیلفیا (سی ایچ او پی) کے ڈاکٹروں نے ایک بچے میں نئی بیماری کا پتا لگایا ہے جس کے تحت اس کے جسم میں اینٹی باڈیز(ضدِ حیوی) اجزا نہیں بن رہے تھے۔

ہسپتال میں سات ماہ کا ایک بچہ لایا گیا تھا جسے کان کا انفیکشن، چہرے پر سرخ دھبے اور مستقل تھکاوٹ کے آثار تھے۔ ڈاکٹروں نے لیوک نامی بچے کا مفصل جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس کے جسم میں کوئی اینٹی باڈیز موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ کیفیت ایکس لنکڈ ایگامیگلوبیولائیمیا جیسی تھی جو بچوں میں دریافت ہوچکا ہے۔ پہلےان کا خیال اسی جانب گیا لیکن مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ لیوک اس مرض کا شکارنہیں ہے۔

اس کے بعد لیوک کا مکمل جینیاتی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لیوک کا بدن بی سیلز اور اینٹی باڈیز نہیں بنارہا تھا۔ اس طرح وہ ہرطرح کے انفیکشن کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس مرض کو PU.1 Mutated agammaglobulinemia کا نام دیا گیا ہے۔ اب اسے مختصراً پی یو۔ایم اے پکارا گیا ہے۔

اس کے بعد ہسپتال اور یونیورسٹی کے کئی سائنسداں ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور بچے پر مکمل تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بی لمفوسائٹس کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ یہ خلیات اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایس پی آئی ون نامی جین میں بہت تبدیلی تھی۔

اگلے مرحلے میں لیوک کے بھائی کی ہڈیوں کا گودا لےکراسے لیوک میں منتقل کیا گیا اور اب وہ تندرست ہوچکا ہے۔ اگرچہ یہ ایک نئی نایاب بیماری ہے لیکن اس کا علاج بھی سامنے آگیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2175356/9812/


طبی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ نمک کا زائد استعمال جسم کے فوجی (امنیاتی) خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نمک مائٹوکونڈریائی افعال پر اثرانداز ہوکر نہ صرف امنیاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ جسمانی سوزش کو بھی بڑھاتے ہیں۔

اس سے قبل نمک اور امراضِ قلب ہر مفصل تحقیق ہوچکی ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نمک کی زیادتی بلڈ پریشرکوبڑھاتی ہے۔ چند برس قبل خون میں سوڈیئم کی زیادتی سے ایک قسم کے امنیاتی خلیات مونوسائٹس کا بگاڑ بھی دیکھا گیا تھا۔

اب ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ نمک کا غیرمعمولی استعمال امنیاتی خلیات میں مائٹوکونڈریائی سرگرمیوں کو کزور کرتا ہے۔ مائٹوکونڈریا ہر خلیے میں پایا جاتا ہے اور انہیں خلیاتی بجلی گھر بھی کہا جاتا ہے۔

اس طرح امنیاتی خلیات توانائی سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے بدن کی امراض سے لڑنے کی صلاحیت شدید متاثرہوسکتی ہے۔

تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کے انتہائی باریک سالمات بھی ایک اینزائم کو روکتے ہیں جو مائٹوکونڈریا پراثر انداز ہوتےہیں۔ اس ضمن میں رضاکاروں کو ایک پیزا کھلایا گیا جس میں اوسط دس گرام نمک موجود ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کے خون کے نمونے بھی لیے گئے تھے۔

تمام افراد کے خون کے نمونوں میں دیکھا گیا کہ مائٹوکونڈریا سرگرمی سست پڑچکی تھی۔ تاہم آٹھ گھنٹے بعد یہ کیفیت نارمل ہوگئی اور مائٹوکونڈریائی سرگرمی بہتر ہوگئی۔ لیکن یاد رہے کہ نمک کا مسلسل استعمال اس عمل کو قدرے دیر تک برقرار رکھ سکتا ہے۔

اگرچہ یہ ابتدائی تحقیقات ہیں لیکن نمک کا یہ نیا نقصان کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
https://www.express.pk/story/2174666/9812/


حاملہ خواتین کی چاہت ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کے بچے کی پیدائش کا درست وقت معلوم ہوسکے۔ اگرچہ اس ضمن میں بہترین ڈاکٹر اپنے تجربے کی روشنی میں اندازہ لگاتے ہیں لیکن اس میں بہت فرق پڑسکتا ہے۔ لیکن اب ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے ننھے مہمان کی دنیا میں آمد کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر اینا اسٹیلزر نے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس میں بچے سے حاصل ہونے والے ان سگنلوں کو جائزہ لیا جاتا ہے جو ماں کے جسم کو موصول ہوتے ہیں۔ اب اسے ناپنے کے لیے سائنسدانوں نے خون کا ایک ٹیسٹ وضع کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی آزمائش بھی کی جاچکی ہے۔

پروفیسر اینا کی ٹیم نے 53 حاملہ خواتین کے خون کے ٹیسٹ لیے جن کے حمل پورے ہونے میں اندازاً 100 دن باقی تھے۔ خون کے یہ ٹیسٹ ایک سے تین مرتبہ لیے گئے تھے۔ اس تحقیق میں خون میں موجود 5000 بایوکیمیکل کا جائزہ لیا گیا۔ پھر خواتین کے خون میں امنیاتی خلیات کے 2000 ٹیسٹ بھی لئے گئے تھے۔

بچے کی پیدائش سے دوسے چار ہفتوں قبل نوٹ کیا گیا کہ خواتین کے ہارمون میں یکدم تبدیلی پیدا ہوئی اور امنیاتی خلیات کی سوزش میں کمی ہوئی۔ یہ تبدیلی خون کی کیمیکل میں بھی دیکھی گئی جو بلڈ ٹیسٹ سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح بلڈ ٹیسٹ کا جو ماڈل بنایا گیا اس میں 45 بایومارکرز شامل کئے گئے ہیں اور انہیں مزید دس خواتین پر آزمایا گیا۔ اس طرح جو نتائج سامنے آئے وہ ان کی اصل تاریخ سے 17 روز پہلے اور بعد کی تاریخ کو ظاہر کررہے تھے۔
https://www.express.pk/story/2175304/9812/


ایک وقت تھا کہ جب یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگیوں کے لیے بینکوں کے باہر لمبی قطاریں لگا کرتی تھی، لیکن آب آپ جب چاہیں گھر بیٹھے کچھ ہی دیر میں اپنے بینک سے متعلق سارے کام آن لائن نمٹا سکتے ہیں لیکن…

آن لائن بینکنگ نے ہماری زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بینک اکاؤنٹ میں رکھی رقم کوغیر محفوظ بھی بنادیا ہے۔ اگر آپ نے تھوڑی سی لاپرواہی، کوتاہی کی توتاک میں بیٹھے ہیکرز چند ہی لمحوں میں آپ کو بھاری رقم سے محروم کرسکتے ہیں۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں آگر آپ آن لائن بینکنگ استعمال کرتے ہیں تو محض کچھ احتیاطی تدابیر آپ کو ہیکرز اور فراڈی افراد کی دھوکہ دہی سے محفوط رکھ سکتی ہیں۔

ذیل میں کچھ ایسی بڑی غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے ہیکرز کو آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔

آن لائن بینکنگ کے لیے عوامی وائی فائی کا استعمال

ہم میں سے بہت سے لوگ مفت وائی فائی کے چکر میں رہتے ہیں، کچھ لوگ تو بڑے شاپنگ مال میں مفت وائی فائی کے لیے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں، لیکن مفت وائی فائی آپ کے نجی ڈیٹا، سوشل میڈیا کے لیے تو نقصان دہ ہے ہی لیکن یہ چند سوروپے کی بچت آپ کو بینک میں موجود بھاری رقوم سے محروم کر سکتی ہے۔ کبھی بھی بینک کی آن لائن ٹرانزیکشنز کے لیے عوامی مقامات( شاپنگ مالز، ریسٹورینٹ، اسپتال، تفریح گاہوں) پر موجود مفت وائی فائی کو استعمال نہیں کریں، کیوں عموما یہ غیر محفوظ ہوتے ہیں اور ہیکرز وائرس پر مشتمل سافٹ ویئر آپ کے سسٹم میں داخل کرکے آپ کے بینک کی تفصیلات چرا سکتے ہیں۔

عوامی مقامات پر لگے چارجنگ بوتھ پر موبائل چارج کرنا

ہمیشہ اپنی چارجنگ کیبل ساتھ رکھیں اور اسی کی مدد سے عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشن پر اپنے موبائل کو چارج کریں۔ ہیکرز جوس جیکنگ (ایک اصطلاح جس میں ہیکرزیوایس بی کیبل سے موبائل کا ڈیٹا چراتے ہیں) کے ذریعے آپ کے موبائل فون میں موجود معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

گوگل یا ایپل اسٹور کے علاوہ کسی اور جگہ سے موبائل ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنا

موبائل ایپلی کیشن کو ہمیشہ گوگل یا ایپل کے اسٹور سے ہی ڈاؤن لوڈ کریں۔ غیر مستند جگہ سے ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنا آپ کے اسمارٹ فون اور اس میں موجود ڈیٹا کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

اینڈرائیڈ اور آئی فون کی سیکیورٹی اپ ڈیٹ کو نظر انداز کرنا

اپنے اسمارٹ فون پر سیکورٹی اپ ڈیٹ کو کبھی نظر انداز نہیں کریں، سافٹ ویئر اپ ڈیٹ سے آپ کے فون میں موجود بگس اور دیگر ایشوز کے حل کے علاوہ سائبر حملے کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔ آپریٹنگ سسٹم میں نئے سیکیورٹی پیچز سے ہیکرز کے لیے آپ کے ڈیٹا تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔

بینک اورادائیگیوں سے متعلق ای میل اورمیسیجز پر کلک کرنا

کبھی بھی ای میل، مسیجز یا فون کالز پر اپنی نجی معلومات فراہم نہ کریں۔ اگر آپ کے براؤزر میں بینک کی ویب سائٹ کے لنک پر تالا یا سیکیور ظاہر نہیں ہورہا ہو تواس وقت تک اپنی آئی ڈی، پاس ورڈ یا دیگر نجی معلومات فراہم نہ کریں۔ اور نہ ہی سوشل میڈیا یا ایس ایم ایس پر اپنی نجی معلومات جیسے کہ والدہ کا نام، پن نمبر، کارڈ نمبر یا کارڈ کی پشت پر دیا گیا تین ہندسوں پر مشتمل سیکیورٹی کوڈ کسی کو نہ دیں۔

آسان پاس ورڈ رکھنا

عموما لوگ یاد رکھنے کی وجہ سے بینک کی ایپلی کیشن کا لاگ ان پاس ورڈ بہت آسان رکھ لیتے ہیں۔ بینک کی ایپلی کیشن کا پاس ورڈ کبھی آسان نہیں رکھیں۔ آپ کا پاسورڈ ایک اسمال، ایک کیپٹل، نمبر، علامات( مثلا Mk6595#$) پر مشتمل ہونا چاہیے. اپنے پاس ورڈ کو باقاعدگی سے ہر تین چار ماہ بعد تبدیل بھی کرتے رہیئے۔

موبائل ایپلی کیشنز کو غیر ضروری پرمیشنز دینا

کسی بھی ایپ کو فون کے ڈیٹا ( تصاویر، ویڈیوز، ایس ایم ایس، ای میل، کیمرے اور کانٹیکٹ ) تک رسائی دینے سے پہلے اچھی طرح پڑھ لیں، کسی بھی ایپلی کیشن کو زیادہ نجی معلومات کی اجازت آپ کے لیے ہیکنگ کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2174995/508/


وہ غذائیں جو امراض قلب کا خطرہ کم کرسکتی ہیں
 6 May, 2021

آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال دل کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے

سڈنی(نیٹ نیوز)آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال دل کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے ۔ایڈتھ کووان یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں جیسے سبز پتوں والی سبزیوں اور چقندر کی زیادہ مقدار غذا کا حصہ بناتے ہیں، ان کا بلڈ پریشر کس حد تک کم ہوتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسی غذاؤں کی شناخت ضروری ہے جو امراض قلب کی روک تھام کرسکتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ روزانہ ایک کپ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کو کھانے سے لوگ دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس طرح کی غذا سے امراض قلب کی اس قسم کا خطرہ 26 فیصد تک کم ہوجاتا ہے جس سے ٹانگوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جبکہ ہارٹ اٹیک، فالج اور ہارٹ فیلیئر جیسے امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-06/1819330


مچھلی کے تیل کے کیپسول سے نقصان بھی ہوسکتا ہے ؟
 5 May, 2021

مچھلی کے تیل اور چکنائی کو انسانی جسم کیلئے نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے اور اس کیلئے اس کے کیپسول بھی بازار میں دستیاب ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)تاہم اب ماہرین نے اس کا نقصان بھی دریافت کرلیا ہے ۔حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل یا اومیگا تھری کیپسول ایسے افراد میں دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی لانے کا باعث بن سکتے ہیں جن کے خون میں چکنائی یا لپڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ۔یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت مچھلی کے تیل کے سپلمنٹس ہر جگہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دستیاب ہیں۔ تحقیقی رپورٹس میں ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ سپلمنٹس پلیسبو کے مقابلے میں دھڑکن کی بے ترتیبی کے عارضے کا خطرہ 1.37 گنا بڑھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹرائل میں عندیہ دیا گیا تھا کہ یہ سپلمنٹ دل کی شریانوں کیلئے مفید ہے مگر ان کی فروخت ڈاکٹروں کے نسخے پر ہونی چاہئے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-05/1819224


حجراسود:جدید تکنیک سے بنائی گئی تصاویر منظر عام پر
5 May, 2021

7گھنٹے تک عکس بندی ، تصاویر اکٹھا کرنے میں تقریباً 50 گھنٹے لگے
ریاض( مانیٹرنگ ڈیسک)خانہ کعبہ کے جنوب مشرقی حصے پر موجود مقدس پتھر حجراسود کی ایسی تصاویر پہلی مرتبہ منظر عام پر لائی گئی ہیں جو فوٹوگرافی کی جدید ترین تکنیک کے ذریعے بنائی گئی ہیں۔سعودی عرب میں موجود مسلمانوں کی دو مقدس مساجد مسجد نبوی ؐ اور مسجد الحرام کے امور کی نگرانی کرنے والے ادارے رئاسۃ شؤون الحرمین کے ٹوئٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹس سے ایسی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جنھیں اب تک حجراسود کی انتہائی باریک بینی سے بنائی گئی تصاویر میں شمار کیا جا رہا ہے ۔رئاسۃ شؤون الحرمین کے مطابق ‘فوکس سٹیک پینورما’ نامی فوٹوگرافی تکنیک کے ذریعے بنائی گئی ان تصاویر کی سات گھنٹے تک عکس بندی کی گئی اور ان تصاویر کو اکٹھا کرنے میں تقریباً 50 گھنٹوں کا وقت لگا ہے ۔اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف تصاویر کو جوڑ کر ایک انتہائی مستند تصویر بنائی جاتی ہے جس کی کوالٹی بہترین ہوتی ہے اور اس کے ذریعے تصویر کی باریکیوں پر بھی بخوبی نظر ڈالی جا سکتی ہے ۔اس پتھر کی وضع انڈے جیسی ہے جس میں کالے اور سرخ رنگ کا خوبصورت امتزاج ہے ۔ اس کا قطر تقریباً 30 سینٹی میٹر ہے اور یہ خانہ کعبہ کے جنوب مشرقی کونے پر دیوار کے ساتھ رکھا ہے ۔ان تصاویر کے سوشل میڈیا پر شیئر ہوتے ہی اکثر صارفین نے اس پتھر کی خوبصورتی کے حوالے سے تبصرے کیے ، کسی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اب میں حجر اسود کو سپر ریزولوشن میں دیکھ سکتا ہوں۔اس پتھر سے جڑی تاریخ دراصل مذہب اسلام سے بھی زیادہ قدیم ہے ۔ روایات کے مطابق یہ پتھر اس وقت جنت سے اتارا گیا تھا جب حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑ ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے اور انھیں تعمیر مکمل کرنے کے لیے ایک پتھر کی ضرورت تھی۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-05-05/1819175


دنیا کا پہلا ریموٹ کنٹرول بحری جہازجلدسفر پر روانہ ہوگا
 5 May, 2021

مائی فلاور نامی اس بحری جہاز کو انسان نہیں بلکہ روبوٹ کپتان چلائے گا جہاز شمسی توانائی سے چلے گا،رواں ماہ برطانیہ سے امریکا کیلئے روانہ ہوگا

لندن(اے پی پی)دنیا کا پہلا ریموٹ کنٹرول بحری جہازمائی فلاور 400 جلد ہی بحر اوقیانوس سے اپنے سفر پر روانہ ہوگا۔ اس ریموٹ کنٹرول بحری جہاز کو کوئی انسان نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت سے تیار ایک روبوٹ کپتان چلائے گا۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق مائی فلاور400 اس ماہ کے وسط میں انگلینڈ کے پلائی موتھ سے امریکی ریاست میساچوسٹس پہنچے گا۔ اس جہاز کا سفر تقریباً 3000 میل ہوگا۔ یہ جہاز شمسی توانائی پرکام کرے گا۔ اس کا مقصد سمندر میں ماحول کے بارے میں سائنسی معلومات جمع کرنا ہے ۔ یہ جہاز جدید کیمروں اور راڈار کے جدید نظام سے آراستہ ہے ۔برطانیہ میں ایک ٹیم چوبیس گھنٹے جہاز کی نگرانی کرے گی۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-05-05/1819197


ایک حیرت انگیز مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ باقاعدہ سے ضدِ سوزش ادویہ مثلاً اسپرین کھانے والے بوڑھے افراد فضائی آلودگی کے جز وقتی منفی اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا مطالعہ ہے جو ایک ہزار سفید فام بزرگوں پر کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج بہت حیران کن ہیں۔ امریکا میں بوسٹن کے علاقے کے باسیوں میں یہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فضائی آلودگی میں موجود کاربن اور دیگر خطرناک ذرات سانس لینے میں دقت پیدا کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ذرات دماغ پراثرانداز ہوکر اکتسابی اور ذہنی صلاحیتوں مثلاً یادداشت وغیرہ کو متاثر کرتے ہیں۔

اگرچہ سائنس داں اسپرین اور دماغی مثبت اثرات کے درمیان کوئی براہِ راست تعلق دریافت نہیں کرسکے تاہم مطالعے میں شامل جن افراد نے اندرونی سوزش (انفلیمیشن) دور کرنے والی غیر ایسٹرائیڈ ادویہ (این ایس اے آئی ڈی ) استعمال کیں انہوں نے دیگر کے مقابلے میں یادداشت، ارتکازِ توجہ اور ہدایت پر عمل کرنے کے تمام ٹیسٹ میں غیرمعمولی بہتری دکھائی۔

اپنی رپورٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی سے بھرپور ماحول میں رہنے والے بالخصوص بزرگوں میں اکتسابی صلاحیت پر جزوقتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسپرین اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دماغی سوزش اور جلن میں کمی ہوجائے تو اس سے دماغ کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔

دوسری جانب سائنسی لحاظ سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ آلودہ ہوا کے ذرات اگر مستقل موجود رہیں تو وہ دماغ کو نقصان پہنچاتےہیں۔ اس تحقیق سے وابستہ پروفیسر اینڈریا بیکریلی کہتی ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ بزرگ ازخود اینٹی انفلیمٹری دوائیں کھانا شروع کردیں بلکہ وہ اپنے معالجین کے مشوروں پر ہی عمل کریں۔ دریں اثنا انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پرزور دیا۔
https://www.express.pk/story/2174585/9812/


سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ کے ماہرین نے انتہائی باریک اور برفیلی سوئیوں پر مشتمل ایک ایسا پیوند تیار کرلیا ہے جس کی سوئیاں کھال میں سرایت کرنے کے بعد پگھل جائیں گی اور ان سے خارج ہونے والی دوا، خون میں شامل ہوجائے گی۔

ابتدائی تجربات میں اس پیوند کے اندر زندہ خلیے بند کرکے جسم میں پہنچائے گئے۔ اس کے اگلے اور زیادہ عملی نمونوں میں خلیوں کی جگہ مختلف دوائیں بھری جائیں گی۔

واضح رہے کہ انتہائی باریک اور چھوٹی چھوٹی سوئیوں والے ان پیوندوں کو ’’مائیکرو نِیڈل پَیچ‘‘ کہا جاتا ہے جو مستقبل قریب میں مروجہ انجکشن کا بہتر اور ’’بے تکلیف‘‘ متبادل بھی قرار دیئے جارہے ہیں۔

منجمد اور برفیلے پیوند، جنہیں اسی مناسبت سے ’’کرایو مائیکرو نِیڈل پَیچ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اسی میدان میں ایک نئی اختراع ہیں۔

کسی بھی دوسرے مائیکرو نِیڈل پَیچ کی طرح، اس برفیلے پیوند میں بھی صرف ایک ملی میٹر لمبی اور ایک ملی میٹر چوڑی سوئیوں کو ایک سطح پر ترتیب سے جمایا گیا ہے۔

ہر برفیلی سوئی کے اندر کوئی دوا یا پھر زندہ خلیے بھرے ہوں گے جنہیں خصوصی انتظامات کے ذریعے اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ شدید سردی میں بھی اپنی درست اور کارآمد حالت برقرار رکھیں۔

باریک سوئیوں والا یہ برفیلا پیوند اب تک کے تجربات میں سرطان زدہ چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔

اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’کرایو مائیکرو نِیڈل پَیچ‘‘ میں خلیات اور ادویہ کے علاوہ پروٹینز، پیپٹائیڈز، ایم آر این اے، ڈی این اے اور ویکسینز تک محفوظ کرکے جسم کے اندر تک پہنچائی جاسکیں گی۔

نوٹ: اس اختراع کی تفصیل ’’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2174493/9812/


برازیلی سائنسدانوں نے ساؤ پالو کے جنگلات سے خوبصورت لیکن زہریلے مینڈک کی ایک نئی نوع دریافت کرلی ہے جس کی جسامت انگلی کی پور سے بھی آدھی ہے۔

نئے دریافت ہونے والے مینڈک کا تعلق ’’براکیائی سیفالس‘‘ جنس سے ہے جس میں مینڈکوں کی کچھ اور اقسام بھی شامل ہیں۔ البتہ یہ تمام کی تمام انواع ساؤ پالو کے اسی جنگل میں صرف 1700 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہی پائی جاتی ہیں۔

مینڈک کی نودریافتہ نوع، جسے ’’براکیائی سیفالس روٹنبرگائی‘‘ (Brachycephalus rotenbergae) کا نام دیا گیا ہے، اسی جنگل میں پائی جاتی ہے۔

اس کی شوخ زرد رنگت اسے پیلے اور نمی والے پتوں کے درمیان چھپنے میں مدد دیتی ہے کیونکہ یہ عام طور پر جنگل کی زمین میں ہی چھوٹے چھوٹے بل بنا کر رہتا ہے۔

مینڈک کی اس نئی قسم کو شناخت کرنے کےلیے ماہرین کی ٹیم نے اس کی ظاہری ساخت، رنگت، ہڈیوں کی ساخت، آواز اور جینیاتی خصوصیات تک کو آپس میں مربوط کرکے جائزہ لیا۔

براکیائی سیفالس روٹنبرگائی مینڈک کی عمومی رنگت اتنی شوخ زرد ہوتی ہے کہ نارنجی (اورنج) کی طرح لگتی ہے۔ اس کا جسم مضبوط، سر چوڑا اور ناک والا حصہ چپٹا ہوتا ہے۔

اس نوع کے بالغ نر مینڈکوں کی لمبائی 1.35 سے 1.6 سینٹی میٹر تک، جبکہ بالغ مینڈکیوں کی لمبائی 1.6 سے 1.8 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔

اتنی مختصر جسامت ہونے کے باوجود، حملہ آور کا سامنا ہونے پر یہ مینڈک اونچی آواز میں ٹراتے ہیں لیکن اگر حملہ آور اپنی پیش رفت جاری رکھتے ہوئے قریب پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ اپنا زہر اس پر پھینک دیتے ہیں جس سے کھال میں شدید جلن پیدا ہوتی ہے جو حملہ آور کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتی ہے۔

تاہم اگر حملہ آور بے حد سخت جان ہو تو پھر یہ اپنی جان بچانے کےلیے وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔

نوٹ: اس دریافت کی تکنیکی تفصیل آن لائن ریسرچ جرنل ’’پبلک لائبریری آف سائنس ون‘‘ (PLoS ONE) کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2174423/508/


جامعہ نوٹنگھم کے ماہرین نے اپنی نوعیت کا امیجنگ سینسر بنایا ہے جو انسانی جسم میں جاکر خلیاتی سطح پر پوری ساخت کا تفصیلی تھری ڈی (سہ جہتی) ماڈل بناتا ہے۔ انسانی بال سے بھی باریک اس سینسر کا سرا آواز (الٹراسانک) امواج اور لیزر خلیاتی سطح تک پھینکتا ہے اور تصاویر دیکھ کر ہم کسی جگہ کے ابھار دیکھ کر کینسر کی موجودگی یا عدم موجودگی کا اندازہ لگاسکتےہیں۔

اس طرح یہ دنیا کا پہلا فائبرآپٹک الٹراسونک نظام ہے جسے معیاری اینڈواسکوپک آلات کےساتھ ملاکر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب تک ہم کسی اینڈواسکوپ سے خلوی سطح کو دیکھ نہیں پائے تھے۔ دوسری جانب کسی مقام کو روشن کرنے والے کیمیکلز کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ تاہم نیا نظام ان سب کے بغیر کام کرسکتا ہے۔

چونکہ یہ نظام نینوپیمانے پر کام کرتا ہے اس لیے بہت تفصیل سے بدن کے اندر کے سرطان کی خبر لی جاسکتی ہے۔ تصویری سینسرمیں لیزرکے دوجوڑے ہیں اورآواز کی بلند فری کوئنسی اس کی دھاتی نوک سے خارج ہوتی ۔ آواز کے جھماکوں کو فونون کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے فونون اطراف کے ٹشوز میں پھینکے جاتے ہیں۔ آواز اندرونی ٹشوز سے ٹکرا کر بکھر جاتے ہیں اور یہاں لیزر سامنے آکر ایک سہ جہتی تصویر بناتی ہے۔ اسے دیکھ کر ماہرین جسم کے اندر کی تبدیلیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

دوسری جانب تصویر میں کسی ابھار کی سختی اور نرمی کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے جو کینسر کی نشاندہی کرسکتی ہے۔ یہ پورا نظام ایک واحد آپٹیکل فائبر سے جوڑا جاسکتا ہے اور اسی سے کام لیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2174285/9812/


جرمنی اور امریکا میں ہونے والی دو الگ الگ تحقیقات میں ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر پورا دن کچھ نہ کھانے کے بعد ڈائٹنگ شروع کی جائے تو اس کے فوائد بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔

عام تاثر کے برعکس، طبّی اصطلاح میں ’’ڈائٹنگ‘‘ کا مطلب کھانا پینا چھوڑ دینا نہیں، بلکہ صحت سے متعلق کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کےلیے کچھ خاص غذائیں استعمال کرنا (اور کچھ مخصوص معمولات اختیار کرنا) ہے۔ موٹاپا اور وزن کم کرنا بھی ڈائٹنگ کے انہی مقاصد میں سے ایک ہے۔

جرمنی میں 71 رضاکاروں پر کی گئی تحقیق میں بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی ڈائٹنگ ’’ڈیش‘‘ (DASH) سے پہلے 14 گھنٹے کچھ نہ کھانے کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا۔

تین مہینے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں تقریباً نصف رضاکاروں کو ’’ڈیش‘‘ سے پہلے، پانچ دن تک صبح کا ناشتہ اور اس کے بعد رات کا کھانا ہی دیا گیا جبکہ اس دوران انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ (البتہ انہیں پانی پینے کی اجازت تھی۔) باقی کے تقریباً نصف رضاکاروں کو ’’پنج روزہ فاقہ کشی‘‘ کے بغیر ہی ’’ڈیش ڈائٹنگ‘‘ شروع کروا دی گئی۔

تحقیق کے اختتام پر معلوم ہوا کہ پانچ دن تک صبح سے شام تک کچھ بھی نہ کھانے والے رضاکاروں میں پیٹ کے جرثوموں کا مجموعہ (مائیکروبایوم) کچھ اس طرح سے تبدیل ہوا کہ اس سے ڈیش ڈائٹنگ کا فائدہ بہت زیادہ اور نمایاں ہوگیا۔

اسی نوعیت کی دوسری تحقیق یونیورسٹی آف ٹیکساس، سان انتونیو میں چوہوں پر کی گئی جنہیں مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے ایسے ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا کیا گیا تھا کہ جس سے ان میں فالج کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔

جن چوہوں کی غذا معمول کے مطابق جاری رکھی گئی، تحقیق کے اختتام پر ان کےلیے فالج کا خطرہ جوں کا توں موجود تھا لیکن جن چوہوں کےلیے ایک دن فاقہ اور ایک دن کھانے کا معمول رکھا گیا، اُن میں ہائی بلڈ پریشر اس حد تک کنٹرول میں آگیا کہ فالج کا خطرہ بھی بہت کم رہ گیا۔

ان چوہوں میں بھی پیٹ کے جرثوموں کا مجموعہ اس انداز سے تبدیل ہوا کہ اس نے بلڈ پریشر کم کرنے میں غذا کی افادیت کئی گنا بہتر بنا دی اور اس طرح صحت کو زبردست فائدہ پہنچایا۔

بالترتیب ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ اور ’’سرکولیشن ریسرچ‘‘ کے تازہ شماروں میں آن لائن شائع ہونے والی ان تحقیقات سے یہ بات یقینی طور پر طے ہوگئی ہے کہ فاقہ کرنے کی وجہ سے پیٹ کے جرثوموں (بیکٹیریا) میں کچھ ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو بلڈ پریشر سمیت، مجموعی صحت پر اچھے اثرات ڈالتی ہیں۔ لیکن یہ بیکٹیریا کس طرح ان اثرات کو جنم دیتے ہیں؟ یہ جاننے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
https://www.express.pk/story/2174113/9812/


پاکستانی اور فِن لینڈ کے ماہرین کی ٹیم نے دودھ ، دہی، خمیری مشروم اور دیگر غذاؤں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا اور خمیری اجزا، پروبایوٹک کو جینیاتی تبدیلی سے گزارے بغیر ایک نئی قسم تیار کی ہے جو اب بہ آسانی دودھ کا حصہ بن کر بالخصوص بچوں اور دیگر افراد کو بہتر صحت فراہم کرسکتی ہے۔

پروبایوٹک کی ایک مشہور قسم ’لیکٹی کیسی بیکیلس رامنوسِس جی جی‘ کو مختصراً ایل جی جی کہا جاتا ہے۔ یہ بہت مفید ہے لیکن دودھ کے کاربوہائیڈریٹس اسے تباہ کردیتے ہیں اور یوں بچوں کو نہیں دیئے جاسکتے اور انہیں مصنوعی طور پر دودھ میں ملایا جاتا ہے۔

اگر یہ دودھ کا حصہ بن جائے تو شیرخوار بچوں کے کئی ہاضماتی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل ایل جی جی کو دودھ میں شامل کرنے کے جینیاتی طریقے اپنائے گئے جن میں کامیابی نہیں مل سکی۔

اب فِن لینڈ کی جامعہ ہیلسنکی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ (نبجی) کے سائنسدانوں نے کسی جینیاتی تبدیلی کے بغیر ایل جی جی کو دودھ میں ملانے اور پروان چڑھانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔

اس عمل کو ’کنجیوگیشن‘ کہتے ہیں جس میں ایک بیکٹیریئم کے خواص دوسرے بیکٹیریا میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اس عمل میں پہلے وہ چھلے دار ڈی این اے (پلازمِڈ) کی نقل دوسرے بیکٹیریئم میں بنائی جاتی ہے۔ اس طرح ایک خردنامئے کے خواص دوسرے میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔

اس طرح اب ممکن ہوا ہے کہ اسے کسی بھی ڈیری مصنوعات میں شروع سے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پیداواری سطح تک ہی ان ایل جی جی کی آبادی اچھی خاصی بڑھ جاتی ہے اور بعد ازاں اسے مصنوعی طور پر شامل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔

ایل جی جی کی یہ نئی قسم بچوں کے معدے میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس طرح ماں کے دودھ میں موجود لیکٹوس اور کیسائن سے ان کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح ایل جی جی لیکٹک ایسڈ بڑھاتا ہے جو بچوں کو کئی بیماریوں سے بچاسکتا ہے۔

یہ تحقیق اپلائیڈ اینڈ مائیکروبائیلوجی جرنل میں شائع ہوئی ہے جس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ کی پروبایوٹک لیبارٹری سے وابستہ پروفیسر نذر حسین، محمد طارق اور ارسلان زیدی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماہرین یہاں تک کہہ رہے کہ ایل جی جی کو ڈیری میں شامل کرنے کا طریقہ نہ صرف بچوں کے کئی امراض کو ختم کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے بلکہ پروبایوٹک تھراپی کا مؤثر طریقہ بھی سامنے آئے گا۔
https://www.express.pk/story/2173918/9812/


سیب کا سرکہ غذا کو بیکٹیریا سے پاک کرنے کیلئے موثر
 3 May, 2021

سیب کا سرکہ تیزابیت کے باعث کچھ جراثیموں کا خاتمہ کرتا ہے ، یہ غذا میں بہترین کام کرکے اسے بیکٹیریا سے صاف کرتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)تاہم یہ سرکہ کسی خراش یا زخم کی صفائی کیلئے زیادہ اچھا نہیں بلکہ اس میں موجود تیزابیت سے جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اگر بالوں کی خشکی کا سامنا ہے تو بھی سیب کا سرکہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ایسے شواہد تو موجود نہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ سرکہ بالوں میں بیکٹریا یا فنگس کا خاتمہ کرتا ہے ، تاہم اس سے سر دھونا خشکی کے مسئلے کو کم کرسکتا ہے ۔کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ سرکہ دانتوں کی سفیدی بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے لیکن استعمال احتیاط سے کرنا ہوگا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-03/1818100


گاڑیوں کے پرزوں سے بنا بلوچستان یونیورسٹی کا ’’بولانی‘‘
 3 May, 2021

ٹیکنالوجی کے جدید دور میں روبوٹس بنانا اب کوئی نئی بات نہیں مگر ٹیکنالوجی سے نابلد اور کوئٹہ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے طالب علم عزیز شاہوانی اور مختیار رودینی کیلئے یہ بہت بڑاکارنامہ ہے

کوئٹہ (نیٹ نیوز)گاڑیوں کے پرزوں کو جوڑ کر بنایاگیا بولانی نام کا یہ روبوٹ سکیورٹی سمیت مختلف مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتاہے ۔عزیز اورمختیار کا کہناہے کہ ہم اس روبوٹ پر مزید کام کررہے ہیں ،یہ روبوٹ باتیں بھی کرے گا اور لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی دیاکرے گا،یہ انسانوں کی طرح قدم بھی اٹھائے گا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-03/1818096


روزانہ آدھا چمچ زیتون کا تیل پینے سے آپ کے جسم میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ تازہ تحقیق میں سائنسدانوں کا انکشاف جان کر آپ بھی سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے
Mar 06, 2020 | 19:08:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) زیتون کے تیل کے کئی طبی فوائد ہم جانتے ہیں اور اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کا ایک اور ایسا فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ اسے اپنی خوراک کا باقاعدہ حصہ بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ روزانہ صرف آدھ چمچ زیتون کا تیل پینے سے انسان کو ہارٹ اٹیک آنے کا خطرہ 20فیصد کم ہو جاتا ہے۔ مقدار اگر اس سے بڑھا لی جائے تو یہ حیران کن فائدہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 1لاکھ لوگوں کی کھانے پینے کی عادات کی 24سال تک نگرانی کی اور ان کی صحت پر مختلف اشیاءکے اثرات کا جائزہ لیتے رہے۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ جتنا زیادہ زیتون کا تیل استعمال کرتے رہے انہیں دل کی بیماریاں اتنی ہی کم لاحق ہوئیں۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر مارٹا گواش فیری کا کہنا تھا کہ ”زیتون کے تیل میںایک فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جس کا نام ’اولیئک ایسڈ ہے۔ یہ انفلیمیشن کو کم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو دل کی بیماریوں سمیت دیگر کئی عارضے لاحق ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/06-Mar-2020/1102975?fbclid=IwAR3EvelwGV7unLiMTpw_Zs7pxXMOFvZJXDvCCBm6ocF2erNW6aaupNbYcQc


اگرچہ ہم ہوا میں پرواز کرنے والی پتنگوں سے بجلی بنانے کا تجربہ کرچکے ہیں لیکن عین اسی اصول پر ایک پتنگ نما پیراک آلے کا تجربہ کیا جارہا ہے جو سمندری لہروں کے بل پر بجلی تیار کرسکےگا۔

اسے مینٹا سسٹمز کا نام دیا گیا ہے جو نہ صرف سمندر بلکہ دریاؤں کی لہروں سے بھی پانی بناسکتا ہے۔ کیلیفورنیا کے ایس آر آئی انٹرنیشنل کمپنی نے اس کا پروٹوٹائپ (اولین نمونہ) ڈیزائن کیا ہے۔ اس ضمن میں 42 لاکھ ڈالر کی رقم بھی دی گئی ہے جس کے تحت اگلے تین سال تک جامعہ کیلیفورنیا برکلے کے تعاون سے مزید تحقیق کی جائے گی۔

اس پورے منصوبے کو بہت دلچسپ نام دیا گیا ہے۔ ’سب مرین ہائیڈروکائنٹیک اینڈ ریورائن کلومیگاواٹ سسٹمز ( شارکس) نامی یہ منصوبہ اب زوروشور سے جاری ہے۔

اس کا دل و دماغ پالیمر کمپوزٹ فوم سے بنی پتنگ ہے جس کی شکل ہوبہو مینٹا رے مچھلی سے ملتی ہے۔ یہ پتنگ ایک تار سے جڑی ہوتی ہے اور اس کا اگلا سرا سمندری فرش یا دریا کے اس حصے پر کھونٹے کی طرح نصب ہوتا ہے جہاں پانی کی تیز لہریں بن رہی ہوتی ہیں۔ تار کا سرا برقی موٹر اور ایک جنریٹر سے جوڑا جاتا ہے۔

پانی میں اس کا زاویہ کچھ ایسے رکھا جائے گا کہ یہ بہاؤ کی پوری قوت اس پر پڑے یعنی اسے نشیب کی جانب لگایا جائے گا۔ اس طرح تار کھلتا چلاجاتا ہے اور جنریٹر کو گھماتا ہے۔ یہ جنریٹر بجلی بناکر اسے ایک بیٹری میں جمع رکھتا ہے یا براہِ راست مرکزی گرڈ نظام تک منتقل کردیتا ہے۔

جب تار پورا کھل جاتا ہے تو ریل والی موٹر اسے دوبارہ کھینچتی ہے اور پھر یہ دوبارہ بجلی بنانے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس طرح مسلسل یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح نظری طور پر ایک پتنگ سے 20 میگا واٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے۔

اس سے قبل زیرِآب ٹربائن اور دیگر آلات پر کام ہوچکا ہے۔ ان کے مقابلے میں مینتا بہت ارزاں اور تنصیب میں آسان ہے۔ اگر کہیں جنگلی حیات موجود ہوتو اسے آسانی سے لپیٹ کر ایک جگہ رکھا جاسکتا ہے۔ پھر اپنے کم وزن کی بنا پر یہ آبی حیات کے لیے بہت نقصاندہ بھی نہیں ہوتی۔
https://www.express.pk/story/2173876/508/


اس وقت جبکہ دنیا کے چند ایک ملکوں میں ہی ’’5 جی‘‘ موبائل سروس شروع کی گئی ہے، ماہرین نے کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کو ’’6 جی‘‘ اور اس سے بھی آگے تک پہنچانے کےلیے کمر باندھ لی ہے۔

اب جاپان اور آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ’’6 جی‘‘ کمیونی کیشن کےلیے ملٹی پلیکسر چپ بنا لی ہے جسے بالکل خالص سلیکان سے تیار کیا گیا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر ’5 جی‘ کے ذریعے 20 گیگابٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا کمیونی کیشن ممکن ہے تو ’6 جی‘ کنکشن کی متوقع رفتار اس سے بھی 50 گنا زیادہ یعنی 1,000 گیگابٹس (ایک ٹیرابِٹس) فی سیکنڈ ہوگی۔

ڈیٹا کمیونی کیشن میں ’’ملٹی پلیکسر‘‘ خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ سگنلوں کو بہت تیزی سے تقسیم کرنے اور منظم طور پر ایک ساتھ جوڑنے کا کام کرتے ہوئے تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر میں سہولت پیدا کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈیلیڈز اسکول آف الیکٹریکل انجینئرنگ، آسٹریلیا اور اوساکا یونیورسٹی گریجویٹ اسکول آف انجینئرنگ سائنس کے ماہرین کی یہ مشترکہ تحقیق ریسرچ جرنل ’’آپٹیکا‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔

ریسرچ پیپر کے مطابق، اگلی نسل کے ملٹی پلیکسر کا یہ پروٹوٹائپ ٹیراہرٹز رینج میں 300 گیگاہرٹز بینڈ پر ڈیٹا کمیونی کیشن کا کام کرتا ہے۔

اپنی اسی خوبی کی بنا پر یہ ملٹی پلیکسر بہت مختصر بھی ہے جو ’’6 جی‘‘ اور اس سے بھی اگلی نسلوں کی ڈیٹا کمیونی کیشن کو حقیقت کا رُوپ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

غیرمعمولی طور پر تیز رفتار ڈیٹا کمیونی کیشن/ ڈیٹا ٹرانسفر کو یقینی بنانے کےلیے یہ چپ ’’آپٹیکل ٹنلنگ‘‘ کے عمل سے استفادہ کرتی ہے۔

اپنے سادہ ڈیزائن کے ساتھ، چار چینلوں والا یہ ملٹی پلیکسر 48 گیگابٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کرسکتا ہے جو ’’8 کے‘‘ کوالٹی والی بھاری بھرکم ویڈیو کی اسٹریمنگ کےلیے بہت کافی ہے۔

اس چپ کو بنانے والے ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے زمانے میں ’’اشیاء کا انٹرنیٹ‘‘ (اِنٹرنیٹ آف تھنگس/ آئی او ٹی) ساری دنیا پر چھا چکا ہوگا جس کی وجہ سے آج کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ ڈیٹا اِدھر سے اُدھر منتقل ہورہا ہوگا۔

یہی وہ وقت ہوگا جب فائیو جی ٹیکنالوجی ناکافی پڑنا شروع ہوجائے گی اور ہمیں اس سے بھی تیز رفتار ڈیٹا کمیونی کیشن کی ضرورت ہوگی۔

یہ ملٹی پلیکسر چپ اور اس نوعیت کے دیگر آلات، جو فی الحال تجرباتی مرحلے پر ہیں، اس وقت کی ضرورت پوری کرنے میں ہمارے کام آئیں گے۔
https://www.express.pk/story/2173128/508/


بھر میں کووڈ 19 وبا کی وجہ سے اب باغوں سے پھل اتارنے والوں کی بھی قلت ہوچکی ہے۔ بالخصوص نیوزی لینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں چیری، کیوی اور سیب وغیرہ اتارنے کے لیے بیرونِ ممالک سے بھی افرادی قوت بلائی جاتی ہے تاہم اب یہ مشکل ایک روبوٹ نے حل کردی ہے۔

یہ روبوٹ سات سیکنڈ میں ایک سیب پیڑ سے الگ کرتا ہے اور اسے خراب بھی نہیں کرتا۔ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے شعبہ مکینکل اینڈ ایئرو اسپیس انجینئرنگ کے ماہرین نے طاقتور کیمروں اور ڈیپ لرننگ الگورتھم کی مدد سے یہ روبوٹ بنایا ہے جو پیڑ پر پھلوں کو شناخت کرتا ہے اور روبوٹ کو بتاتا ہے کہ پھل کو کہاں سے توڑنا ہے۔

کورونا وبا سے آسٹریلیا کی فصلوں پر مزدوروں کی شدید قلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب غلہ بانی، جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے اور فصلوں پر دوا چھڑکنے والے ڈرون عام استعمال ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹرابیری جیسے نازک پھل اتارنے والے روبوٹ بھی بنائے جاچکے ہیں۔

روبوٹ کی سب سے اہم شے وہ نظام ہے جو پھل توڑتا ہے اور یہ ہوا کے دباؤ (نیومیٹک) کے تحت کام کرتا ہے۔ اس میں چار انگلیاں اور ہوا کھینچنے والا (سکشن) پمپ لگا ہے۔ اس سے پھل کھینچ کر قریب لایا جاتا ہے اور انگلیاں اسے تھام لیتی ہیں۔ 85 فیصد حالات میں روبوٹ بالکل درست انداز میں سیب توڑسکتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق روبوٹ چارفٹ کی دوری سے 90 فیصد پھلوں کو پہچان سکتا ہے خواہ کیسا ہی موسم اور روشنی کیوں نہ ہو۔ پورا نظام 200 ملی سیکنڈز سے بھی کم وقفے میں سیب کو پہچان لیتا ہے۔ اب اس سال باقاعدہ طور پر اسے سیبوں کے باغات میں آزمایا جائے گا۔ روبوٹ کی جانب سے پھل خراب کرنے کی شرح 6 فیصد سے بھی کم ہے۔
https://www.express.pk/story/2172366/508/


امریکی ماہرین نے پلاسٹک کو ایندھن میں بدلنے کا ایک ایسا نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جو نہ صرف ہر قسم کے ڈھیٹ سے ڈھیٹ پلاسٹک کےلیے کارآمد ہے بلکہ خاصے کم درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے توانائی بھی بہت کم استعمال کرتا ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں ڈیلاویئر یونیورسٹی کے ماہرین کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے پلاسٹک کی آلودگی سے چھٹکارا پانے کےلیے ایک مؤثر اور ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ قسم کے ایک نئے طریقے کے بارے میں بتایا ہے۔

یہ نیا طریقہ پلاسٹک کی اُن اقسام کو بھی آسانی سے ایندھن میں تبدیل کرسکتا ہے جن کی بازیافتگی (ری سائیکلنگ) بے حد مشکل اور تقریباً ناممکن سمجھی جاتی ہے۔ ابتدائی تجربات کے دوران اس طریقے سے پلاسٹک کی 85 فیصد مقدار کو ڈیزل، جیٹ اور پیٹرول کے آمیزے میں تبدیل کیا گیا۔

یاد رہے کہ آج کے دور میں پلاسٹک کا شمار آلودگی کے بڑے مسائل میں ہوتا ہے کیونکہ اسے بنانا آسان ہے لیکن تلف کرکے ماحول سے ختم کرنا بے حد مشکل ہے۔

اب تک پلاسٹک کے لمبے لمبے سالمات (پولیمرز) کو چھوٹے چھوٹے اور بے ضرر سالموں میں تبدیل کرنے کے بہت سے طریقے سامنے آچکے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر یا تو بے حد سست رفتار ہیں یا پھر انہیں شدید گرمی (بلند درجہ حرارت) اور دباؤ کی صورت میں بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔

نیا طریقہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں ایک ساتھ دو عمل انگیز (کیٹالسٹس) یعنی پلاٹینم اور زیولائٹ ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں جو خاصے کم درجہ حرارت (تقریباً 225 ڈگری سینٹی گریڈ) اور شدید دباؤ پر کسی بھی قسم کے پلاسٹک کو ایندھن میں بدل دیتے ہیں۔

اس طرح یہ طریقہ پلاسٹک بازیافتگی (ری سائیکلنگ) کے دوسرے موجودہ تجرباتی طریقوں کے مقابلے میں بہت کم خرچ بھی ہے۔

اگرچہ ڈیلاویئر یونیورسٹی کے ماہرین اس طریقے کو پیٹنٹ بھی کرواچکے ہیں اور آئندہ 5 سے 10 سال میں اسے تجارتی پیمانے تک پہنچانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں لیکن فی الحال اس میں ایک بڑی خامی ہے جسے دور کرنا بہت ضروری ہے۔

وہ خامی یہ ہے کہ اس طریقے میں پلاسٹک کو ایندھن میں بدلنے کےلیے بہت زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ 150 لیٹر پانی استعمال کرنے کے بعد ہی اس طریقے کے تحت 3.8 لیٹر گیسولین/ پیٹرول حاصل ہوتا ہے۔

البتہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس خامی کو دور کرنے پر بھی کام جاری رکھا ہوا ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی یہ مسئلہ حل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2172645/508/


کئی دہائیوں سے جاری ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر بچپن میں بچوں کو فضائی اور ٹریفک آلودگی کا غیرمعمولی سامنا ہو تو لڑکپن اور جوانی میں اس سے دماغ شدید متاثر ہوسکتا ہے۔

برطانیہ میں کی گئی اس تحقیق میں بطورِ خاص نائٹروجن آکسائیڈ کا ذکر کیا گیا ہے جو گاڑیوں سے دھویں کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سے قبل فضائی آلودگی اور دماغی صحت کے درمیان تعلق دریافت ہوچکا ہے لیکن نئی تحقیق اسے مزید اہم بناتی ہے۔ اس کی تفصیل جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کی 28 اپریل کی اشاعت میں چھپی ہے۔

بچپن یا لڑکپن میں نائٹروجن میں گھرے افراد 18 برس کی عمر میں کئی طرح کے دماغی امراض اور عارضوں کے شکار ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان بچوں میں دماغی عارضوں کی ابتدائی علامات نمودار ہوں۔ ڈیوک یونیورسٹی میں طبی نفسیات کے طالبعلم آرون ریوبن نے یہ تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کے باہر کی آلودگی آگے چل کر کئی نفسیاتی امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔

فضائی آلودگی اس وقت ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے۔ گاڑیوں اور کارخانوں کی آلودگی کا ذمے دار رکازی ایندھن ہوتا ہے جو ہمیں بری طرح متاثر کررہا ہے اور اب اس کے دیرینہ منفی اثرات بھی سامنے آچکے ہیں۔

اس مطالعے میں 2000 جڑواں بچوں کو شامل کیا گیا جنہوں نے 1994ء سے 1995ء میں جنم لیا تھا۔ ان تمام بچوں کا بلوغت تک جائزہ لیا گیا جو کم سے کم 18 برس کا عرصہ بنتا ہے۔ اس دوران ان کی خوراک، رہن سہن اور بالخصوص آلودہ فضا میں رہائش کو نوٹ کیا گیا۔

اس میں بالخصوص نائٹروجن آکسائیڈ اور پی ایم 2.5 ذرات کو نوٹ کیا گیا۔ یہ آلودگی ان بچوں کے گھروں کے آس پاس موجود تھی۔ اس ضمن میں بطورِ خاص دس سے اٹھارہ برس کے بچوں کو نوٹ کیا گیا۔ جبکہ فضائی ڈیٹا امپیریئل کالج، محکمہ موسمیات اور یوکے روڈ ٹریفک انوینٹری سے لیا گیا ہے۔

اس تحقیق میں 22 فیصد بچے ایسی جگہ رہ رہے تھے جہاں اقوامِ متحدہ کی تجویز کردہ نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار 84 فیصد زائد تھی اور پی ایم 2.5 ذرات کی موجودگی بھی غیرمعمولی تھی۔ برطانیہ اور ڈیوک یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں 22 فیصد بچوں میں حیرت انگیز منفی رجحانات دیکھے گئے جو دماغی امراض کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

18 برس کی عمر تک یہ بچے شراب نوشی، تمباکو نوشی، توجہ میں کمی یا توجہ کے انتشار، ڈپریشن، بے چینی، پی ٹی ایس ڈی، دباؤ اور تناؤ، بسیار خوری کے عارضے اور فکری انتشار میں مبتلا تھے۔ یہ تمام عوامل سائیکو پیتھولوجی فیکٹر یا مختصراً پی فیکٹر کہلاتے ہیں۔

پی فیکٹر کو ان کے اسکور کی بنا پر ناپا جاتا ہے اور اس کی شدت بیان کی جاتی ہے۔ بعض بچوں کے نفسیاتی عارضوں کی تصدیق ان کے پڑوسیوں نے بھی کی۔

اگرچہ اس پر مزید تحقیق کی جائے گی لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہمیں تندرست مستقبل درکار ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنے اطراف سے فضائی آلودگی کو کم سے کم کریں۔
https://www.express.pk/story/2172424/9812/


قیمتی فصلوں پر اگ آنے والی خودرو جھاڑیاں ان کے لیے شدید نقصان دہ ہوتی ہیں۔ انہیں دستی طور پر تلاش کرکے صاف کرنا بہت وقت طلب اور مشکل کام ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اب ایک روبوٹ بنایا گیا ہے جو صرف ایک گھنٹے میں ایک لاکھ بوٹیاں اور جھاڑیاں اکھاڑ پھینکتا ہے۔

کاربن روبوٹکس نامی کمپنی نے یہ خودکار مشین بنائی ہے جو بلند معیاری کمپیوٹر وژن اور طاقتور لیزر کی مدد سے فصلوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے فی گھنٹہ ہزاروں سے ایک لاکھ تک جھاڑیاں صاف کرسکتا ہے جو ایک مؤثر ویڈ کنٹرول فراہم کرتا ہے۔

کھیت کی فالتو بوٹیوں اور گھاس پھوس کو دستی طور پر اکھاڑنا محال ہوتا ہے جبکہ دواؤں کی بدولت تلف کرنے سے اصل اناج کو نقصان ہوتا ہے اور خرچ بڑھ جاتا ہے۔ اب ایک روبوٹ یہ کام بہتر انداز میں انجام دے سکتا ہے۔

چار پہیوں والا یہ روبوٹس جی پی ایس، کمپیوٹر وژن اور لیزر کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس میں اعلیٰ معیار کے کیمرے لگے ہیں اور کلاؤڈ سپر کمپیوٹر کی مدد سے تصاویر میں سے مضر بوٹیوں کو پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد روبوٹ پر لگی 150 واٹ فی کس کی آٹھ مشینیں لگی ہیں جو ایک گھنٹے میں ایک لاکھ جڑی بوٹیوں کو بھسم کردیتی ہیں۔

یہ روبوٹ 24 گھنٹے ڈیزل پر کام کرسکتا ہے اور ایک دن میں 15 سے 20 ایکڑ زمین صاف کرسکتا ہے۔ اپنی ٹیکنالوجی کی بدولت اطراف کی قیمتی مٹی خراب نہیں کرتا اور اس کی خرد حیاتیات کا بھی خیال رکھتے ہوئے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔

اے آئی اور دیگر ٹیکنالوجیوں کا یہ شاہکار 2018ء سے کسانوں کی مدد کررہا ہے لیکن اب اس میں جدید ٹیکنالوجی کا اضافہ کیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2171997/508/


ماہرین نے کلائی پر باندھی جانے والی ایک پٹی بنائی ہے جو فی الحال جسمانی حرارت سے ایک ایل ای ڈی روشن کرسکتی ہے

کلائی پٹی تھرمو الیکٹرک جنریٹر(ٹی ای جی) اصول کے تحت کام کرتے ہوئے بجلی بناتی ہے۔ مستقبل میں یہی ٹیکنالوجی اسمارٹ واچ اور پہنے جانے والے ہلکے پھلکے آلات کو بجلی فراہم کرے گی اور بیٹریوں کی ضرورت ختم ہوسکتی ہے۔

چین میں واقع ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر چیان زینگ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ایجاد کی ہے۔ چیان کہتے ہیں کہ اس ایجاد سے بیٹری کے مسائل اور بجلی کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ چیان زینگ مسلسل 15 برس سے ٹی ای جی ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔

اگرچہ ٹی ای جی بہت سخت اور ٹھوس شکل کے ہوتے ہیں لیکن چیان کہتے ہیں کہ انہوں نے میگنیشیئم اور بسمتھ سے تیار ایک پٹی کو پولی یوریتھین سے بنایا ہے اور تمام الیکٹروڈ لچک دار بنائے ہیں۔ اس طرح یہ پوری پٹی نرم اور لچک دار ہوچکی ہے اور انسانی کلائی پر گھما کر پہنی جاسکتی ہے۔

ٹی ای جی کا اصول بہت سادہ ہوتا ہے یعنی ایسے آلات دو مقامات پر درجہ حرارت میں تبدیلی سے برقی رو پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ پٹی جسمانی درجہ حرارت اور کمرے کی گرمی کے فرق سے بجلی بناتی ہے۔ یہ پٹی بہترین حالت میں بجلی فی مربع سینٹی میٹر 20 مائیکرو واٹ بجلی تیار کرتی ہے۔ بجلی کی یہ مقدار ایک ایل ای ڈی روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس پٹی کو انسانی ہاتھ پر دس ہزار مرتبہ کھولا اور بند کیا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اس کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ پہننے والوں نے بھی کسی الجھن اور پریشانی کا ذکر نہیں کیا لیکن اگر ٹی ای جی پٹی کی موٹائی کو بڑھادیا جائے تو اس سے بجلی کی مقدار بھی بڑھ سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کی افادیت مزید بڑھانے پر غور کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2173265/508/


اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک بیرونی ڈھانچہ بنایا ہے جسے پہن کر عمر رسیدہ افراد کے چلنے کی رفتار 40 فیصد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔

اگرچہ اسے بیرونی ڈھانچہ یا ایکسو اسکیلیٹن کہا جاتا ہے لیکن ہم اسے مشینی ٹخنہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ٹخنے سے لے کر پنڈلی تک کو گھیرتا ہے اور بوڑھے لوگوں کا مددگار بن سکتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے افراد کے چلنے کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ عمومی کمزوری اور گھٹنے کے عضلات کی ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے۔۔ اب نیا نظام مشقت کا کچھ بوجھ خود اٹھاتا ہے اور جوتا پہننے پر پنڈلی کے آگے کی ہڈی کو سہارا دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ اپنے چلنے کی رفتار بھی ازخود سیٹ کرسکتے ہیں۔

تجربہ گاہ میں اسے ایک دوڑنے والے بیلٹ (ٹریڈمل) پر آزمایا گیا جہاں بیرونی ڈھانچے کو ایک تار سے بجلی دی گئی اور اس کی پشت پر کمپیوٹر الگورتھم کام کررہا تھا۔ جیسے ہی پہننے والا چلتا ہے ایکسو اسکیلیٹن مشینی پنڈلی کی طرح کام کرتے ہوئے ایڑھی کو آگے کرتا ہے اور انگلیوں کو نیچے لاتا ہے۔ اس سے پہننے والے کی رفتار 40 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔

پہلے مرحلے پراسے دس تندرست رضاکاروں پر آزمایا گیا۔ عام جوتوں میں انہیں پانچ مختلف انداز میں چلایا گیا۔ ٹریڈ مل پر الگورتھم پر چلایا گیا اور 150 قدم کو نوٹ کیا گیا تو رضاکاروں کی رفتار 40 فیصد زائد دیکھی گئی۔ اگلے مرحلے میں اس نمونے کو مختصر، آرام دہ اور تجارتی فروخت کے لیے تیار کیا جائے
https://www.express.pk/story/2173234/9812/


رات کو جرابیں پہن کر سونے کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا
Apr 30, 2021 | 17:59:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) رات کو جرابوں سمیت سونا معیوب قرار دیا جاتا ہے لیکن اب ایک امریکی ڈاکٹر نے جرابیں پہن کر سونے کا ایک حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ڈاکٹر جیسیکا اینڈریڈ نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بتایا ہے کہ جرابیں پہن کر سونے سے نیند کا معیار بہت بہتر ہو سکتا ہے، کیونکہ جرابیں جسم کا درجہ حرارت مستحکم رکھنے میں مدددیتی ہیں۔

ڈاکٹر جیسیکا کا کہنا تھا کہ جو لوگ جرابیں پہن کربستر میں جاتے ہیں، دوسروں کی نسبت انہیں جلدی نیند آ جاتی ہے۔ جرابیں پہن کر سونے سے پیروں کی طرف خون کا بہاﺅ زیادہ ہوتا ہے، جس کے سبب جلد سے حرارت خارج ہوتی ہے اور جسم کے نچلے حصے کا درجہ حرارت کم رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جلد اور پرسکون نیند آتی ہے۔

ڈاکٹر جیسیکا کی اس بات پر یونیورسٹی آف ساﺅتھ آسٹریلیا کے ڈاکٹر الیکس ایگوسٹینی کا کہنا تھا کہ ”یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ڈاکٹر جیسیکا نے بتا دی۔ اگر آپ ایسے شخص ہیں جس کے پاﺅں جرابیں پہننے سے گرم ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں دوران نیند جرابیں آپ کے لیے بے سکونی کا سبب بنیں گی۔ ہر شخص کو اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے بہتر نیند کے حصول کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ضروری نہیں کہ ایک ہی طریقہ تمام لوگوں کے لیے مو¿ثر ثابت ہو۔“
مزی
https://dailypakistan.com.pk/30-Apr-2021/1283569?fbclid=IwAR2L5mqyxEBtO8FXc1xd_xxYjKFHDGh91WTzxzYbah66qVf4sWtEcWjuo7o


چاند پر پہلے انسانی مشن اپالو الیون کے خلاباز مائیکل کولنز انتقال کر گئے
Apr 30, 2021 | 15:54:PM

واشنگٹن (ویب ڈیسک) چاند پر پہلے انسانی مشن اپالو الیون کےعملے میں شامل خلاباز مائیکل کولنز انتقال کرگئے۔

کولنز کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے، ان کی عمر 90 برس تھی۔ 1969 میں چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ایلڈرن کی چہل قدمی کے وقت کولنز چاند کے مدار میں تھے، مشن پر جانے والے خلابازوں میں سے زندہ رہنے والے ایلڈرن نے اپنی ساتھی کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کی خواہش کے مطابق ان کے کارنامے کا جشن منانا چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/30-Apr-2021/1283545?fbclid=IwAR1Ff9lSAjFHlBNM82bxJYEiUy1aNFSJUhpPGvbvn9o_Oy5_dYJSG7burMw


چاند کے دھبے دراصل کیا ہیں،تحقیق میں حیران کن دعویٰ
 29 April, 2021

خلائی تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ چاند کے غیر متوقع حصے پر مشتبہ طور پر پانی کے ذخائر بڑے پیمانے پر موجود ہیں

نیویارک(نیٹ نیوز)ماہرین نے بتایا کہ یہ پانی مائع نہیں بلکہ منجمد برف کی صورت میں ہے ، جو ایک خاص حصے کے پاس موجود ہے اور اس کے قریب پہنچنا بہت مشکل مرحلہ ہے ۔ ناسا ماہرین کا ماننا تھا کہ چاند پر نظر آنے والے دھبے دراصل وہ گڑھے ہیں، جن میں پانی موجود ہوسکتا ہے ، جو درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ سے متاثر بھی ہوتا ہوگا۔ دو یونیورسٹیوں نے مطالعہ مکمل کرنے کے بعد اس کے نتائج جاری کئے ، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاند کے سخت اور اُن حصوں میں منجمد پانی ہے جہاں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔ دونوں یونیورسٹیز نے اپنی تحقیقات ناسا کو ارسال کردی ہیں، جس پر غور کرنے کے بعد عالمی ماہرین اسے منظور یا مسترد کرینگے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-29/1815975


نیم گرم پانی سے روزہ افطار کرنے کے حیرت انگیز فوائد
 29 April, 2021

نیم گرم پانی کے استعمال سے صحت میں اضافہ، جسمانی اعضاء فعال اور بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے

لاہور(نیٹ نیوز)گرم پانی دل کی شریانوں اور جسم میں موجود خون کی تنگ رگوں کو کشادہ کرتا ہے جس سے دوران خون بہتر ہوتا ہے اور متوازن بلڈ پریشر کے سبب جسمانی اعضاء کی کارکادگی بہتر ہوتی ہے ۔ گرم پانی سے روزہ افطار کرنے کی صورت میں وزن میں کمی سے لے کر دل، گردوں اور پھیپھڑوں کی صحت میں اضافہ اور جِلد صاف، خوبصورت ہوتی ہے ، انسان خود کو چاق و چوبند اور توانا محسوس کرتا ہے ، طبیعت کا بوجھل پن منٹوں میں غائب ہو جاتا ہے ۔نیم گرم پانی سے روزہ افطار کرنے کی صورت میں انسانی جسم کے اندرونی اعضا فوراً فعال ہو جاتے ہیں اور جسم میں موجود مضر صحت مادوں کو بھی خارج ہونے میں مدد ملتی ہے ۔ بڑی اور چھوٹی آنتوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-29/1815977


چینی خلائی اسٹیشن ’’تیانگونگ 3‘‘ کا اہم ترین اور مرکزی حصہ (کور ماڈیول) آج رات کامیابی سے اپنے مدار میں پہنچایا جاچکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق 29 اپریل کی رات 11 بجکر 11 منٹ پر چین کی وین چھانگ اسپیس لانچ سائٹ سے چینی خلائی اسٹیشن کا مرکزی ماڈیول کامیابی سے لانچ کیا گیا جسے چین کی جانب سے خلائی مشن کے نئے دور میں کامیابی کا اعلان قرار دیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ اب تک زمین کے گرد مدار میں کئی چھوٹی موٹی تجربہ گاہیں بھیجی جاچکی ہیں لیکن صحیح معنوں بڑے خلائی اسٹیشنوں کی تعداد صرف 2 رہی ہے: سابق سوویت یونین کا ’’میر‘‘ اور امریکی قیادت میں ’’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘‘ (آئی ایس ایس)۔ اس طرح چین وہ تیسرا ملک ہوگا جو تنِ تنہا ایک بڑا خلائی اسٹیشن زمین کے گرد مدار میں پہنچائے گا۔

چینی خلائی اسٹیشن کے مرکزی ماڈیول کا نام ’’تیانہے‘‘ رکھا گیا ہے جس کی مجموعی لمبائی 16.6 میٹر، قطر 4.2 میٹر اور ٹیک آف کے وقت وزن 22.5 ٹن ہے۔

یہ مستقبل میں خلائی اسٹیشن کے انتظام اور کنٹرول کا مرکزی حصہ ہے جس میں تین خلانورد سائنسی تحقیق کےلیے طویل عرصے تک قیام کرسکیں گے۔

’’تیانہے‘‘ کے خلاء میں پہنچ جانے کے بعد خلائی اسٹیشن کےلیے نئی ٹیکنالوجیز، مثلاً روبوٹ بازو، کی جانچ پڑتال اور توثیق کی جائے گی۔

اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا تو آئندہ ماہ چینی خلانورد اس ماڈیول تک بھیجے جائیں گے جو اس کے باہر کئی طرح کی اہم سرگرمیاں انجام دیں گے۔

چینی خلائی اسٹیشن کے تعمیراتی منصوبے کے مطابق 2021 سے 2022 کے دوران 11 خلائی پروازوں کے ذریعے ’’تیانگونگ 3‘‘ کے دیگر ماڈیولز، ضروری ساز و سامان اور عملہ وغیرہ بھیجے جائیں گے۔

2022 تک مدار میں اپنی تکمیل مکمل کرنے کے بعد، چین کا یہ خلائی اسٹیشن مسلسل پندرہ سال تک مقررہ مدار میں رہتے ہوئے کام کرسکےگا۔


امریکی جریدے ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے مطابق ’’تیانگونگ 3‘‘ میں سائنسی تجربات کےلیے اندرونی طور پر 14 الماریاں نصب کی جائیں گی جبکہ بیرونی حصے میں 50 ایسے مقامات (ایکسٹرنل ڈاکنگ پوائنٹس) مخصوص ہوں گے جہاں خلائی تحقیق سے متعلق آلات منسلک کیے جاسکیں گے۔

خلائی تحقیق کے چینی ادارے نے ’’تیانگونگ 3‘‘ میں انجام دینے کےلیے تقریباً 100 تجربات ابھی سے منتخب کرلیے ہیں جن میں 9 بین الاقوامی خلائی تحقیقی تجربات بھی شامل ہیں۔
https://www.express.pk/story/2172637/508/


فیس بک اور گوگل دھوکہ دہی کے واقعات سامنے آنے کے بعد بھی اپنے پلیٹ فارمز سے آن لائن اسکیم (مالیاتی دھوکہ دہی پر مبنی جعلی اسکیموں) کے اشتہارات ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔

اس بات کا انکشاف صارفین کے تحفظ کےلیے کام کرنے والے برطانوی کنزیومر واچ ڈاگ ’’وِچ؟‘‘ (?Which) نے ایک حالیہ سروے کے بعد کیا ہے، جس کے مطابق فراڈ سے متاثرہ افراد کی شکایات کے بعد بھی گوگل اور فیس بک پر یہ اشتہارات جوں کے توں دکھائی دے رہے ہیں۔

سروے کے مطابق، رپورٹ کیے گئے ’’دو نمبر‘‘ اشتہارات میں گوگل 34 فیصد، جبکہ فیس بک 26 فیصد کو ہٹانے میں ناکام رہا۔ اس کے برعکس ان دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے دھوکہ دہی پر مبنی اشتہارات کو ہٹا دیا ہے جو اب ان کے پلیٹ فارمز پر ممنوع ہیں۔

سروے میں شامل 15 فیصد افراد آن لائن دھوکہ دہی کے اشتہارات کا شکار ہوئے اور انہیں رپورٹ بھی کیا۔ ان میں سے 27 فیصد فیس بک اور 19 فیصد گوگل پر تھے۔ جبکہ 43 فیصد نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کو ٹیکنالوجی کمپنیوں کو رپورٹ نہیں کیا۔

فیس بُک پر آن لائن فراڈ کی شکایت نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ جبکہ گوگل پر دھوکہ دہی کا شکار ہونے والے افراد کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس اسکیم/ scam (دھوکہ دہی) کی شکایت کیسے کی جائے، کیوں کہ گوگل کا رپورٹنگ کا طریقہ کار بہت پیچیدہ اور غیر واضح ہے۔

?Which کے لیے کام کرنے والے صارفین کے حقوق کے ماہر ایڈم فرنچ کا کہنا ہے کہ یہ آن لائن پلیٹ فارمز کی بے عملی ہے کہ جعلی اشتہارات کی رپورٹ کیے جانے کے بعد بھی مشتہرین دھوکہ دہی پر مبنی نئے اشتہارات لگا دیتے ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ دھوکہ دہی پر مبنی مواد کو ممکنہ شکار کے پاس پہنچنے سے قبل ہی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ آن لائن پلیٹ فارمز کی قانونی ذمے داری ہے کہ وہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے مواد کو شناخت کرکے اپنی ویب سائٹس سے ہٹائیں اور حکومت کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب فیس بک کے نمائندے کا کہنا ہے کہ فیس بک پر جعل سازی اور دھوکہ دہی پر مبنی سرگرمیوں کی قطعی اجازت نہیں ہے اور انہوں نے?Which کی جانب سے رپورٹ کیے گئے بہت سارے پیجز کے خلاف ایکشن لیا ہے۔ جب کہ گوگل کا کہنا ہے کہ وہ پالیسیوں کی خلاف ورزی پر 3 ارب 10 کروڑ اشتہارات پر پابندی لگا کر انہیں اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹا چکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2171876/508/


چاند پر پہلے انسانی مشن اپالو11کے خلاباز کولنز انتقال کر گئے
جمعه 30 اپریل 2021ء

واشنگٹن (این این آئی، نیٹ نیوز)چاند پر پہنچنے والے پہلے انسانی مشن اپولو 11 کے تیسرے خلاباز مائیکل کولنز انتقال کر گئے ۔ 90 سالہ کولنزکینسر کے عارضے میں مبتلا تھے ۔1969 کو جب اپولو 11 مشن چاند کی سطح پر پہنچا تھا تو نیل آرم سٹرونگ اور بز الڈرین چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسانوں میں سے تھے جبکہ اس وقت انکے ساتھی اور معاون فلائٹ پائلٹ کولنز خلائی گاڑی ایگل کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور مدار میں موجود تھے ۔بعد ازاں انہیں نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔انہوں نے خلاکے موضوع پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔
https://www.roznama92news.com/%DA%86%D8%A7%D9%86%D8%AF-%D9%BE%D8%B1%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%84%D9%8811%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%D9%88%D9%84%D9%86%D8%B2-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%B1-%DA%AF%DB%92


سائنسدانوں نے مکڑی کی انتہائی زہریلی قسم دریافت کر لی، عمر اتنی کہ یقین نہ آئے
Apr 27, 2021 | 21:08:P

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ میں سائنسدانوں نے مکڑی کی ایک انتہائی زہریلی قسم دریافت کر لی ہے جس کی عمر حیران کن طور پر 20سال تک ہوتی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق مکڑی کی یہ نئی قسم امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں دریافت ہوئی ہے۔ اس قسم کی مکڑیاں چمکدار سیاہ رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ پہلے سے پائی جانے والی ترن تلا قسم کی مکڑی کی طرح ہیں مگر اس سے کہیں زیادہ زہریلی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس قسم کی مکڑیوں کی ٹانگیں بھی عام مکڑیوں کی نسبت بہت زیادہ لمبی ہیں اور سائز بھی بڑا ہے۔ اس قسم کی نر مکڑی کا سائز ایک پاﺅنڈ کے سکے کے برابر ہوتا ہے، جبکہ مادہ دو سے تین گنا بڑی ہوتی ہے۔ اس قسم کو سائنسدانوں کی طرف سےUmmidiaکا نام دیا گیا ہے۔زو میامی کنزرویشن کے سربراہ فرینک ریجلے کا کہنا ہے کہ ”اس قسم کی مکڑیاں دو دہائیوں تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ ان کے جالے بل نما ہوتے ہیں اور لگ بھگ تمام عمر انہی جالوں میں شکار کا انتظار کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/27-Apr-2021/1282236?fbclid=IwAR2-rvhTExC4nQoO_hN1SCpTNIdOT9pf5MudR7urvnLhkxRrPUHzguEl3-I


چائنا نیشنل اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چینی خلائی اسٹیشن ’’تیانگونگ 3‘‘ کے ساتھ ایک طاقتور خلائی دوربین بھی ہوگی جو کسی بھی طور پر امریکا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ سے کم نہیں ہوگی۔

یہ دوربین جسے ’’چائنیز اسپیس اسٹیشن ٹیلی اسکوپ‘‘ (سی ایس ایس ٹی) کا نام دیا گیا ہے، آسمانوں کی اتنی ہی تفصیلی تصاویر لے سکے گی کہ جتنی ہبل خلائی دوربین سے ممکن ہے، تاہم اس کے مقابلے میں یہ 300 گنا وسیع منظر کا احاطہ کرسکے گی۔

سی ایس ایس ٹی اپنے مشن کے پہلے دس سال میں 40 فیصد آسمان کا مشاہدہ کرے گی جبکہ اسے چینی خلائی اسٹیشن کے ساتھ ’’عارضی‘‘ طور پر منسلک کیا جائے گا جسے بعد میں ضرورت پڑنے پر الگ کرکے آزادانہ حیثیت سے کسی دوسرے مدار میں بھیجا جاسکے گا۔

بتاتے چلیں کہ ’’تیانگونگ 3‘‘ میں 7 سے 8 افراد پر مشتمل عملے کی گنجائش ہوگی۔

’’اسپیس ڈاٹ کام‘‘ کے مطابق، سی ایس ایس ٹی کو خلائی اسٹیشن سے الگ کرنے کے بعد بھی کسی قریبی مدار میں رکھا جائے گا تاکہ خلائی اسٹیشن کے عملے کو وقفے وقفے سے اس کی مرمت اور دیکھ بھال میں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
https://www.express.pk/story/2171744/508/


ماں کے دودھ کی غیرمعمولی فوائد کی فہرست بہت طویل ہے اوراب معلوم ہوا ہے کہ شیرِمادر پرگزارا کرنے والے بچے دیگر کے مقابلے میں ذہین ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان میں اعصابی اکتسابی (نیوروکوگنیٹوو) صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

جامعہ روچیسٹر میڈیکل سینٹر(یوآرایم سی) اور ڈیل مونٹی انسٹی ٹیوٹ آف نیوروسائنس سے وابستہ ماہرین نے نو اور دس دن کے بچوں کے ہزاروں ٹیسٹ کئے ہیں۔ جب ان کا موازنہ ماں کا دودھ نہ پینے والے بچوں سے کیا گیا تو ان کے نتائج اور اسکور بہت اچھے برآمد ہوئے۔

ڈینیئل ایڈن لوپیز اس رپورٹ کے مرکزی مصنف ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ماں کے دودھ کے مثبت نتائج چند ماہ میں ہی سامنے آجاتے ہیں۔ فرنٹیئرزان پبلک ہیلتھ میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق ماؤں کے لیے غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے تاکہ بچوں کو دودھ پلانے کا رحجان پروان چڑھایا جاسکے۔

اسی تحقیق سے وابستہ ہیلے مارٹِن کہتی ہیں کہ ماں اگر بچے کو دودھ پلائے تو یہ دونوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی شیرِ مادر پلانے کا فیصلہ کرلیا جائے۔ اس طرح تیزرفتار ماحول اور دفاتر وغیرہ میں ماں کی جانب سے دودھ پلانے کے رحجان کو پروان چڑھانا بہت ضروری ہے۔ ماہرین نے زور دے کر کہا کہ اس عمل میں ہرقسم کی رکاوٹ کو دورکرنا ضروری ہے۔

اس تحقیق میں نواوردس دن کے 9 ہزار بچوں کو شامل کیا گیا ۔ اس میں بچوں کے درمیان چھاتی کا دودھ پینے اور نہ پینے والے بچوں کے نیوروکوگنیٹوو ٹیسٹ کئے گئے اور ان کا اسکور نوٹ کیا گیا۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بچہ جتنے عرصے تک ماں کا دودھ پیئے گا اس کے اتنے ہی فوائد حاصل ہوں گے۔

ان میں وہ بچے سب سے بہتر رہے جنہوں نے 12 ماہ تک ماں کا دودھ پیا تھا۔ سات سے بارہ ماہ کے بچوں کا دماغی ٹیسٹ کم دیکھا گیا اور چھ ماہ تک دودھ پینے والے بچوں کی دماغی سرگرمی اس سے کم تھی۔ لیکن جب ان کا موازنہ دودھ نہ پینے والے بچوں سے کیا گیا تو وہ ہر صورت میں ان سے آگے رہے۔ یعنی ان کی دماغی سرگرمی بہترین دیکھی گئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2172077/9812/


ماں کے پیٹ میں موجود بچے کب خوش ہوتے ہیں؟ تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے دلچسپ انکشاف کردیا
Apr 26, 2021 | 18:14:PM

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) پیدائش کے بعد بچے لاڈ پیار پر خوش ہوتے اور مسکراتے ہیں مگر اب سائنسدانوں نے ماں کے پیٹ میں پرورش پاتے بچوں کے متعلق بھی ایسا ہی حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔

میل آن لائن کے مطابق نئی تحقیق کے نتائج میں یونیورسٹی آف ڈنڈی (Dundee)کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجو دبچوں سے جب ان کی ماں مخاطب ہوتی اور ان سے لاڈ پیا رکی باتیں کرتی ہے تو وہ بچے بھی اس پر خوش ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے اور اس پر ماں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


روپورٹ کے مطابق ماہرین نے یہ حیران کن بات ان خواتین کے پیٹ میں پرورش پاتے بچوں کے متعلق کہی ہے جن کے حمل 25سے 33ہفتے کے درمیان ہوتے ہیں۔ ماہرین نے اس تحقیق میں درجنوں خواتین کے پیٹ میں موجود بچوں کے ہائی ریزولوشن الٹراساﺅنڈز کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ماں مسلسل دو منٹ تک اپنے پیٹ میں موجود بچے سے بات کرے تو وہ بچہ دوسروں کی نسبت زیادہ منہ کھولنے لگتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ گفتگو کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ایمیزے نیگی کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب مائیں اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کو تھپتھپاتی ہیں تو پیٹ میں موجود بچے اس کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی آتی دیکھی گئی ہے۔اس کے برعکس جو خواتین اپنے پیٹ کو نہیں تھپتپھاتی تھیں ان کے بچے زیادہ خاموش اور بے حرکت پائے گئے۔“
https://dailypakistan.com.pk/26-Apr-2021/1281744?fbclid=IwAR0ZVu23710BWfU54QixbdtCtWhta1UCfqkZAPNsjqYbyyIu6P73z3Bwn04


ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دیوارِ چین کی مضبوطی کا راز شاید چاول میں پوشیدہ ہے کیونکہ تحقیق کے بعد چاول میں موجود نشاستہ اور اس کے اہم اجزا اس دیوار کی اینٹوں سے ملے ہیں۔

2300 سال قبل تعمیر کی گئی دیوارِ چین کی لمبائی 13 ہزار میل ہے جسے ایک غیرمعمولی شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ اس میں مِنگ بادشاہت کا تعمیر کردہ حصہ آج تک بہترین حالت میں ہے جس کی کل لمبائی 5000 کلومیٹر سے زائد ہے۔ مِنگ بادشاہت کے عہد میں پکے ہوئے گیلے چاول اور لیموں کا پانی استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے آثار اب اس اینٹوں میں ملے ہیں۔ بعض حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان اینٹوں کے گارے میں چاول کا آٹا بھی ملایا گیا تھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی راج اور ماہرین چاول کی مضبوطی اور تعمیرات میں اس کے استعمال کے قائل تھے اور اسی بنا پر ان کی بڑی مقدار دیوارِ چین میں ملائی جاتی رہی تھی۔

اس ضمن میں زیجیانگ یونیورسٹی کے سائنسداں بن جیان زینڈ نے تحقیق کی ہے۔ انہوں نے اینٹوں کو الیکٹرون خردبین اور دیگر آلات سے دیکھا گیا تو ان میں امائلوپیکٹن کے آثار ملے ہیں۔ امائلوپیکٹن سیمنٹ اور گارے کو مضبوطی سے جوڑے رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے چینی بادشاہ اس کی افادیت سے واقف تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح چاول کے آٹے یا اس کے اجزا کو اینٹوں اور سیمنٹ میں ملاکر مضبوط تعمیرات تیار کی جاسکتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2172096/509/


جدید سائنس سے وزن گٹھانے والے آپریشن اور دماغ کے اندرونی دباؤ کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا ہے۔ اس سرجری سے دماغ کا اندرونی دباؤ کم ہوسکتا ہے۔

جامعہ برمنگھم اور این ایچ ایس فاؤنڈیشن کی مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر وزن گٹھانے والی سرجری کی جائے تو ایسے لوگوں کے دماغ کے اندر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ طب کی زبان میں اسے ’آئیڈوپیتھک انٹراکرینیئل ہائپرٹینشن (آئی آئی ایچ) کہتے ہیں۔ اس کیفیت میں سر بھاری رہتا ہے، اس میں درد ہوتا ہے اور آئی آئی ایچ کی شدید کیفیت مستقل نابیناپن کا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔

دماغی کا اندرونی دباؤ عموماً ایسی موٹی خواتین کو متاثر کرتا ہے جن کی عمریں 25 سے 36 برس تک ہوسکتی ہے۔ وزن بڑھنے سے آئی آئی ایچ دوبارہ لوٹ آتا ہے۔ لیکن جیسے ہی خواتین سرجری سے وزن گھٹاتی ہیں ان میں آئی آئی ایچ لوٹنے کی شرح تین سے پندرہ فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔ لیکن دو سے پانچ سال میں وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے اور اس سے دماغی پریشر میں اضافے کا خطرہ پھر سر اٹھاتا ہے۔

اپنی نوعیت کی اس پہلے طبی مطالعے میں بیریاٹرک سرجری اور وزن کم کرنے کے ایک سالہ پروگرام کے دماغی اندرونی دباؤ پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) نے 6 ایسی خواتین کو شامل کیا جن کی اوسط عمر 32 سال تھی۔ ان میں سے نصف کا وزن سرجری سے کم کیا گیا جبکہ نصف نے 12 ماہ کا وزن گھٹانے والا پروگرام منتخب کیا۔ اس پورے عرصے میں خواتین کے اندرونی دماغی دباؤ کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

معلوم ہوا کہ جن خواتین نے سرجری کرائی ان کا وزن 23 کلوگرام تک کم ہوا لیکن وزن گھٹانے والے پروگرام کا فائدہ کم ہوا اور صرف چند کلوگرام (دو کلوگرام) وزن ہی کم ہوا۔ جو خواتین آپریشن سے گزریں ان کے دماغی دباؤ میں 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پہلی مرتبہ سرجری سے وزن میں غیرمعمولی کمی سے دماغی پریشر میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح آئی آئی ایچ کیفیت ختم کرنے کے لیے وزن گھٹانے کا نسخہ اکسیر ثابت ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2171661/9812/


ایک تجربے کیلئے کئی ہفتے غار میں گزارنے والے افراد
 27 April, 2021

فرانس میں ایک ایسے تجربے کو مکمل کرلیا گیا جس میں ایک غار میں 15 افراد کو زیرزمین 40 دن تک رکھ کر یہ دیکھا گیا کہ گھڑیوں، دن کی روشنی اور باہری تعلق کے بغیر انسانوں کا وقت کا فہم کس حد تک متاثر ہوتا ہے

پیرس(نیٹ نیوز)ہیومین اڈاپشن انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان اس پراجیکٹ کی قیادت کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تجربے سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی کہ رہائش کے حالات اور ماحول میں ڈرامائی تبدیلی میں انسان کس حد تک مطابقت پیدا کرسکتے ہیں۔ غار میں رہنے والے افراد میں وقت کا فہم ختم ہوگیا تھا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے سائنسدانوں کے اس مشترکہ پراجیکٹ میں شامل 15افراد کے نیند کی عادات، سماجی رابطوں اور رویوں کی مانیٹرنگ سنسرز کے ذریعے کی گئی۔افراد کی حیاتیاتی گھڑی کی مانیٹرنگ بھی کی گئی۔لوگوں نے دنوں کا تعین گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ سونے کے سائیکل سے کیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-27/1815087


آج کے تیز رفتار دور میں ہمیں فون چارج رکھنا پڑتا ہے اور حال یہ ہے کہ ہمہ وقت فون چارجر یا پاوربینک ساتھ رکھنا پڑتا ہے لیکن اب ہاتھ میں پہنا جانے والا ایک کڑا پاور بینک اور چارجر کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے جسے ’’کے نیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بالخصوص سفر کے دوران فون چارج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اسی مشکل کے پیشِ نظر ہاتھوں میں پہنا جانے والا ایک خوشنما کڑا بنایا گیا ہے جو پاوربینک کا کام دیتا ہے۔ اس کے برخلاف روایتی پاور بینک بھاری بھرکم اور تاروں سے بھرے ہوتے ہیں جبکہ کے نیکٹ ایک پاکٹ چارجر کا کام کرتا ہے۔

اس کڑے کی بدولت بجلی کے پلگ، تاروں اور جارچر وغیرہ سے خلاصی مل جاتی ہے۔ کے نیکٹ ایک دھاتی کڑا ہے جو پانچ رنگوں اور تین سائز میں دستیاب ہے۔ اس چارجر کو ایک زیور کی طرح کلائی پر پہنا جاسکتا ہے۔ یہ کڑا آئی فون اور آئی پیڈ کے تمام ماڈل کے لیے کارآمد ہے۔ کے نیکٹ کی گنجائش 2000 ایم اے ایچ ہے۔
https://www.express.pk/story/2171500/508/


مریخ پر ناسا کے ’انجینیٹی‘ ہیلی کاپٹر کی پروازوں کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے، جس کے تحت تیسری اور حالیہ ترین پرواز بھی کامیابی سے مکمل ہوگئی ہے۔

جیٹ پروپلشن لیبارٹری، ناسا کے مطابق تیسری پرواز میں ’انجینیٹی‘ ہیلی کاپٹر 5 میٹر (16 فٹ) کی بلندی تک پہنچا۔ اپنی دوسری پرواز میں بھی یہ اتنی ہی اونچائی تک پہنچا تھا۔

البتہ، پاکستانی وقت کے مطابق 25 اور 26 اپریل 2021 کی درمیانی رات ہونے والی اس تجرباتی پرواز میں ’انجینیٹی‘ نے اضافی طور پر 50 میٹر (164 فٹ) کا فاصلہ بھی طے کیا، جس کے بعد وہ اسی جگہ آکر واپس اتر گیا کہ جہاں سے اُس نے اُڑان بھری تھی۔

اس پرواز کے دوران انجینیٹی کی رفتار 2 میٹر فی سیکنڈ (7.2 کلومیٹر فی گھنٹہ) رہی جو بلاشبہ خاصی تیز قرار دی جاسکتی ہے۔

جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے یوٹیوب پر انجینیٹی ہیلی کاپٹر کی تیسری تجرباتی پرواز کی ویڈیو بھی جاری کردی ہے جو ایک منٹ 16 سیکنڈ کی ہے۔

مریخ پر موجود گاڑی ’پرسیویرینس روور‘ کے ’ماسٹ کیم زی‘ سے بنائی گئی اس ویڈیو میں انجینیٹی ہیلی کاپٹر کو دائیں جانب پرواز کرکے کیمرے کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے، اور کچھ دیر بعد واپس آکر اترتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ خبریں بھی پڑھیے:

اس دوران انجینیٹی ہیلی کاپٹر پر نصب کیمرے سے بھی ارد گرد کی کچھ تصویریں کھینچی گئی ہیں جن میں سے کچھ جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے اپنی پریس ریلیز میں بھی شامل کی ہیں۔

آنے والے دنوں میں مزید آزمائشی پروازوں کے ذریعے انجینیٹی ہیلی کاپٹر کی کارکردگی کے بارے میں مزید اطمینان کرنے کے بعد اس کا مشن آگے بڑھاتے ہوئے مریخ کے وسیع تر علاقے کا جائزہ لیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2171452/508/


اب کسی بھی اسمارٹ فون پر ایک بٹن جتنا لینس لگا کر اسے طاقتور خردبین میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ حیرت انگیز ایجاد 2018ء سے زیرِ تحقیق تھی اور اب اسے باقاعدہ فروخت کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔

اسے آئی مائیکرو کیو ٹو کا نام دیا گیا ہے جو اس سے قبل کئی دیگر ناموں سے پیش ہوتی رہی ہے۔ ڈیسک ٹاپ خردبین کے برخلاف اس میں دھندلاہٹ کی شرح بہت کم ہے جبکہ آپ ایک مائیکرون تک کی تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح طاقتور لینس کسی بھی شے کو 800 گنا بڑا کرکے دکھاتا ہے۔ اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیسک ٹاپ خردبین کے مقابلے میں اس کی قیمت ایک فیصد ہے۔

یہ ایک بلند وضاحتی خردبینی لینس ہے جس سے گھریلو مکھی کے منہ اور اس کی تفصیلات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ بطورِ خاص اسے کم دھندلاہٹ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے عکس بہت شفاف حاصل ہوتے ہیں لیکن ہر قسم کے اسمارٹ فون کے لیے دھندلاہٹ ختم کرنا کچھ آسان نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے سائنس اور فزکس کی تگڑم لڑائی گئی ہے۔ اس میں ڈجیٹل، الیکٹرانک اور آپٹیکل یعنی تمام اقسام کی میگنی فکیشن اور زوم کو استعمال کیا گیا ہے۔

اس خردبین کا وزن نصف گرام ہے اور موٹائی سوا تین ملی میٹر ہے۔ اسے ایک کارڈ پر چسپاں کرکے رکھا گیا ہے تاکہ اسے اپنے والٹ میں ڈھونڈنا آسان ہو کیونکہ ناخن کے برابر یہ اہم ایجاد آسانی سے اوجھل ہوسکتی ہے۔

اپنی ڈیزائننگ کی وجہ سے یہ کسی بھی کیمرے کے لینس سے بآسانی چپک سکتی ہے۔ اسے بنانے والوں نے اپنی خردبین کو کئی اقسام کے اسمارٹ فون سے جوڑا ہے۔

اب اس کارآمد ایجاد کی قیمت بھی جان لیں جو صرف 39 ڈالرہے اور اس کی خریداری اور دنیا بھر میں ترسیل شروع ہوچکی ہے۔
https://www.express.pk/story/2171294/508/


امراضِ قلب کے ماہرین کی سب سے بڑی تنظیم ’’امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ دل کی بیماریوں کے خدشات کا تعین کرنے میں صرف ’بی ایم آئی‘ کافی نہیں بلکہ کمر کی چوڑائی یعنی ظاہری موٹاپے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

واضح رہے کہ بی ایم آئی یعنی ’’باڈی ماس انڈیکس‘‘ (BMI) کسی شخص کے وزن کو اس کے قد (لمبائی) کے مربع پر تقسیم کرکے معلوم کیا جاتا ہے۔

اگر بی ایم آئی 25 سے 29.9 کے درمیان ہو تو ایسے کو ’’زائد وزن‘‘ (اوور ویٹ) کہا جاتا ہے جبکہ 30 یا زیادہ بی ایم آئی والے افراد کا شمارے ’’موٹے لوگوں‘‘ (obese) میں کیا جاتا ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے تازہ ترین ’’سائنسی بیان‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کئی سال سے ہونے والے مشاہدات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ بی ایم آئی کم کرنے کے باوجود، جن لوگ اپنا پیٹ کم نہیں کرپائے، ان کی اکثریت کےلیے دل کی بیماریوں کے خطرات بدستور موجود رہے۔

اس کے برعکس جنہوں نے پیٹ کم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بی ایم آئی میں کمی کی (چاہے اس کےلیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا ہو) ان افراد میں دل اور شریانوں کی بیماریوں کے خطرات بھی نمایاں طور پر کم ہوئے۔

طبّی ویب سائٹ ’’ہیلتھ لائن‘‘ پر شائع ہونے والی ایک تازہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ بی ایم آئی ہماری صحت کا ایک بہتر پیمانہ ضرور ہے لیکن پیٹ کا گھیر یعنی ’’ظاہری موٹاپا‘‘ ایک ایسا پہلو ہے جو اس میں شامل نہیں؛ اور جس کی وجہ سے یہ ہمیں صحت کی مکمل صورتِ حال نہیں بتاتا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ پیٹ اور ارد گرد چربی کی مسلسل زیادتی، امراضِ قلب کے خدشے کو جوں کا توں رکھتی ہے جبکہ اسے کم کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2171718/9812/


ورزش کے حیرت انگیز فوائد جن پر سائنس اپنی مہر ثبت کرچکی
 27 April, 2021

ہم ورزش کے وہ سات حیرت انگیز فوائد بیان کریں گے جن پر جدید سائنس اپنی مہر ثبت کرچکی ہے

لندن(نیٹ نیوز)تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔ ورزش سے اعصابی لچک میں اضافہ ہوتا ہے ۔ باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچاتی ہے ۔اگرچہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے ۔ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کرسکتی ہے ۔ ورزش جسم کے قدرتی دفاعی نظام کو طاقتور بناکر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتی ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے ۔ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ورزش سے ہمارے جسم میں بیکٹیریا کی تندرست مقدار برقرار رہتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-27/1815096


موٹاپا عارضہ قلب کی بڑی وجہ قرار،محققین کا انکشاف
 26 April, 2021

امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد میں عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں

واشنگٹن(نیٹ نیوز)یہ بات تو واضح ہے کہ موٹاپا مختلف بیماریوں کا مسکن ہوتا ہے ، لیکن حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ موٹے پیٹ والے افراد دل کی بیماریوں میں دوسرے افراد کی نسبت زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ موٹاپے کا شکار افراد کے جسم کے وسطی حصے میں زیادہ چربی ہوتی ہے جو بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتی ہے ۔ امریکی محققین نے امید ظاہر کی ہے ڈاکٹرز جب امراض قلب کے مریضوں کے خطرے کا اندازہ لگائیں گے وہ پیٹ کی چربی اور بی ایم آئی کی پیمائش کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے ۔ تحقیق میں اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ بڑے پیٹ کا وزن آپ کو دل کی بیماری کے زیادہ خطرہ میں ڈال سکتا ہے ، جس میں دل کا دورہ پڑنے اور فالج بھی شامل ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-26/1814671


پالک کے استعمال سے صحت پر حیرت انگیز طبی فوائد جانئے
 26 April, 2021

پالک کے استعمال سے صحت پر بے شمار طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)غذائی ماہرین کے مطابق ایک کپ پکی ہوئی پالک میں 41 کیلوریز پائی جاتی ہیں جبکہ کچی پالک میں 7 کیلوریز موجود ہوتی ہیں، پالک میں وٹامن ‘اے ’ اور ‘کے ’ کی بھی غیر معمولی مقدار پائی جاتی ہے جو کہ انسانی صحت کیلئے ناگزیر ہیں۔اس کے علاوہ پالک میں مختلف منرلز اور وٹامن میں میگنیز، فولیٹ، میگنیشیم، آئرن، کاپر، وٹامن بی2، وٹامن بی6، وٹامن ای، کیلشیم ، پوٹاشیم ، وٹامن سی، پانی کی وافر مقدار، پروٹین، کاربوہائڈریٹس، شوگر اور بڑی تعداد میں فائبر موجود ہوتا ہے ۔پالک میں وافر مقدار میں پایا جانے والا کیلشیم ہڈیوں کو فریکچر ہونے سے بچاتا ہے ، وٹامن اے ، وٹامن سی، فائبر، فولک ایسڈ بڑی آنت اور چھاتی کے کینسر کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔پالک خون میں پروٹین کی نقصان دہ سطح کو کم کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-26/1814673


خود سے باتیں کرکے بہتر فیصلہ کرنے والا روبوٹ
 26 April, 2021

ماہرین نے روبوٹ میں تبدیلی کرکے اسے خودکلامی کے قابل بنایا جس کی بدولت وہ انسانوں سے بہتر رابطہ کرکے اپنے فیصلے بھی بہتر بناسکتا ہے

اٹلی(نیٹ نیوز)21 اپریل کو اس تحقیق کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر روبوٹ کی سوچ کو سنا جائے تو وہ انسانوں کیلئے قدرے بھروسہ مند بن سکتے ہیں۔ اس طرح انسان دوست روبوٹ کے ارادوں اور فیصلوں سے آگہی مل سکتی ہے ۔اٹلی کی جامعہ پالرمو کے اینٹونیو شیلا کا خیال ہے کہ روبوٹ کو عام افراد سے رابطہ کرنے والا ہونا چاہیے ناکہ وہ صرف انجینئر اور سائنسدان سے ہی بات کرے ۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مشہور مددگار انسان نما روبوٹ پیپرکا انتخاب کیا ہے اور اسے خودکلامی سے سوچنے والا بنایا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روبوٹ جو کچھ سوچتا ہے اسے آپ سن سکتے ہیں۔ اب یہ روبوٹ ہر معاملے پر خود سے بات کرتا ہے اور بہتر فیصلے کی جانب بڑھتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-26/1814681


شریک حیات کیساتھ چہل قدمی سے گریز کرنا فائدہ مند
 26 April, 2021

تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شریک حیات کے ساتھ چہل قدمی کرنے کی عادت اس کے طبی فوائد کو گھٹانے کا باعث بنتی ہے

لاہور(نیٹ نیوز)امریکا کی پورڈیو یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب ایک جوڑا اکٹھا چہل قدمی کرتا ہے تو ان کے چلنے کی رفتار اکیلے چہل قدمی کرنے کے مقابلے میں کافی سست ہوتی ہے ، بالخصوص اگر انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہوں۔ خیال رہے کہ تیز چہل قدمی کی عادت دل کی صحت کو بہتر بنانے ، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن میں کمی جیسے فوائد کا باعث بنتی ہے ۔محققین کیمطابق چہل قدمی کے دوران اپنی رفتار کو کسی دوسرے فرد کیلئے کم کرنے سے طبی فوائد گھٹ جاتے ہیں۔ سست رفتاری سے چلنے سے 40 سال سے زائد عمر کے افراد میں بڑھاپے کے سفر کی تیزی کا اشارہ ملتا ہے جبکہ اس عمر میں تیز چہل قدمی کرنے والوں کے دماغ اور جسم زیادہ جوان ہوتے ہیں۔

اسمارٹ فون نے زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ اسمارٹ فون کاایک فیچر ٹرانسلیشن کا ہے جس کے لیے لوگ بہت سی تھرڈ پارٹی ایپلی کیشن استعمال کرتے ہیں۔

بیرون ملک کاروباری بات چیت کرنے والے یا فری لانسرزکو سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسلیشن( ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ) کا پیش آتا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اسمارٹ فون میں ٹرانسلیشن کا ایسا بہترین ٹول موجود ہے، جوبہت ہی آسانی سے مختلف زبانوں میں آنے والے پیغام کا مطلوبہ زبان میں ترجمہ کر دیتا ہے

اینڈرائیڈ اور ایپل آئی فون صارفین کی بڑی تعداد کی بورڈ گوگل کا ’جی بورڈ‘ یا پھر مائیکروسافٹ کا ’سوئفٹ کی‘ استعمال کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جی بورڈ ٹرانسلیشن فنکشن اینڈرائیڈ اور آئی او ایس دونوں ڈیوائسز پر یکساں کام کرتا ہے۔ اگرچہ سوئفٹ کی اینڈرائیڈ اور ایپل آئی فون دونوں آپریٹنگ سسٹمز پر کام کرتا ہے لیکن اس کا ٹرانسلیشن کا فیچر صرف اینڈرائیڈ صارفین کے لیے دستیاب ہے۔

اینڈرائیڈ فون پر پر اپنے پیغامات کا ترجمہ کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟

1۔ اگر آپ کے پاس پہلے سے جی بورڈ نہیں تو گوگل پلے اسٹور سے اسے انسٹال کرلیں۔

2۔ سیٹنگ کو اوپن کریں، ’ Keyboard & input method‘ یا ’ Languages & input‘ سرچ کریں

3۔ مینیج کی بورڈز پر کلک کرکے جی بورڈ کو ڈیفالٹ کی بورڈ بنائیں۔

4۔ اب اپنا میسج باکس کھولیں، جب آپ جی بورڈ پر ٹائپ کریں گےتو کیز کے اوپر آپ کو ٹرانسلیشن کا آئیکون نظر آئے گا۔

5۔ اس آئیکون پر کلک کرکے ٹرانسلیشن موڈ آن کردیں

6۔ اپنی مطلوبہ ان پُٹ اور آؤٹ پُٹ زبانوں کو منتخب کریں، جو پیغام بھیجنا ہے اُسے ٹائپ کریں اور ٹرانسلیٹ میسج پر کلک کردیں۔

7۔ ترجمہ شدہ پیغام میسج کے خانے میں نظر آئے گا۔ آپ چاہیں تو اسے آگے بھیج دیں یا اس میں ترمیم کرلیں۔

8۔ اسی طرح جب آپ کو کسی دوسری زبان میں پیغام موصول ہو تو مطلوبہ پیغام کو کاپی کرکے ٹرانسلیشن باکس میں پیسٹ کرنا ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2171130/508/


اکستان نے مائیکروپراسیسرز کی 500ارب ڈالر سے زائد کی گلوبل مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ملک کا پہلا مائیکرو پراسیسر ڈیزائن کرلیا ہے۔

گوگل کے اشتراک سے اوپن سورس ٹیکنالوجیز کو بروئے کارلاتے ہوئے 2 سسٹم آن چپ مائکرو پراسیسرز سوئیٹزرلینڈ میں واقع عالمی ادارے کے تشکیل کردہ اوپن اسٹینڈرڈ انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکٹ RISC-V پر مشتمل ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں پاکستان کی خود انحصاری کی جانب اہم پیش رفت ہے۔

یہ مائیکروپراسیسر پاکستان کی آئی ٹی انجینئرنگ کے تدریسی ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پاکستان کی پہلی مائکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجیز پر ہونے والی تحقیق کا نتیجہ ہے اور پی ایچ ڈی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کی نگرانی میں انڈر گریجویٹ طلبہ نے ڈیزائن کیے ہیں۔ پاکستان میں ڈیزائن کیے گئے یہ مائیکرو پراسیسرز گوگل کے ایک فنڈڈ پروگرام کے تحت ڈیزائن کیے گئے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیزائن ہونے والے 40 اوپن سروس پراسیسرز میں منتخب کیے گئے جو آئندہ ماہ تک چپ کی شکل میں تیار ہوکر پاکستان آجائیں گے اور پاکستان کے پہلے RISC-V مائیکرو پراسیسر ہوں گے۔ اس پراسیسر کو براق کا نام دیا گیا ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے ایک کو ابتداء اور دوسرے کو غازی کا نام دیا گیا ہے یہ پراسیسرز انٹرنیٹ آف تھنگز پر مشتمل سلوشنز کے لیے کار آمد ہوں گے اور مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے طریقوں سے انسانی زندگی آسان بنانے والی برقی مصنوعات، گاڑیوں اور مشینوں میں نصب کیے جاسکیں گے۔

کراچی کے ڈاکٹر علی احمد انصاری

پاکستان میں پہلے مائیکروپراسیسرز کی تیاری کا سہرا کراچی کے نوجوان آئی ٹی ماہر ڈاکٹر علی احمد انصاری کے سر ہے جنہوں نے دنیا کے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرنے کے مواقع ٹھکراتے ہوئے پاکستان آکر اپنی صلاحیتیں ملک و قوم کے لیے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔

ڈاکٹر علی احمد انصاری نے سندھ ٹیکنیکل بورڈ سے ریڈیو الیکٹرانکس میں صوبہ بھر میں میٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی، ڈی جے سائنس کالج سے پری انجینئنرنگ کرکے این ای ڈی کا رخ کیا جہاں الیکٹرانکس ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی ای الیکٹرانکس کرنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ پر جنوبی کوریا سے الیکٹرانکس اور کمیونی کیشن انجینئرنگ میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ ڈاکٹر علی احمد انصاری ہیلتھ کیئر ایڈوانس سائنس پر تحقیق کے عالمی ادارے Elsevier کے ایڈوائزری پینل کا حصہ ہیں، انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران دو ایجادات اپنے نام کیں اور ٹی وی ایل ایس آئی اور ٹی سی اے ایس جیسی فیلڈز میں ان کے تحقیقی مقابلے عالمی جریدوں کا حصہ بنے۔ انہیں یورپ کے بہترین ٹیلنٹ انویسٹمنٹ کمپنی انٹرپرنیورز فرسٹ کے کو ہورٹ ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا اور برطانیہ نے انہیں گلوبل ٹیلنٹ قرار دیتے ہوئے برطانیہ کا ویزا جاری کیا۔

نئے باب کا آغاز

سیمی کنڈکٹر یا مائیکروپراسیسرز کی عالمی مارکیٹ کا حجم 500ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو آئندہ پانچ سال میں دگنا ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ سے پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز کے لیے اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے کے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز مائکروپراسیسرز کی ویری فکیشن اور ڈیزائننگ کے ذریعے مائکرو پراسیسرز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو خدمات فراہم کرتے ہوئے ماہانہ 3 سے 6لاکھ روپے معاوضہ حاصل کرسکیں گے تاہم آئی ٹی انجینئرز میں یہ پشہ ورانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مکمل ایکو سسٹم کی تشکیل اور موثر ٹولز کے ذریعے تربیت کی فراہمی ناگزیر ہے جس کا آغاز عثمان انسٹی ٹیوٹ کی مائیکرو الیکٹرانکس ریسرچ لیبارٹری میں کیا جاچکا ہے۔

مائیکرو پراسیسرز کی تیاری سرمایہ طلب صنعت

مائیکرو پراسیسرز کی مینوفیکچرنگ ایک کثیر سرمایہ طلب صنعت ہے اس کے برعکس پاکستان کے لیے ”فیب لیس ماڈل“ زیادہ موزوں ہے جس میں سافٹ ویئر انجینئرز مائیکرو پراسیسرز کی ویریفکیشن اور ڈیزائننگ کرتے ہیں، پاکستان میں مائکروپراسیسرز ڈیزائننگ اور ویری فکیشن کی افرادی مہارت عام ہونے کے بعد دنیا کی مائکروپراسیسرز بنانے والی کمپنیاں پاکستان کا رخ کرسکتی ہیں۔ مائیکرو پراسیسرز کی فیب لیس ماڈل مینوفیکچرنگ ہارڈ ویئر ڈیوائسز اور سیمی کنڈکٹر چپس کی ڈیزائننگ اور فروخت کا وہ طریقہ ہے جس کے تحت مائیکرو پراسیسرز ڈیزائن سیمی کنڈکٹر مینوفیکچررز کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں فاؤنڈری کہا جاتا ہے۔ عموماً فیب لیس کمپنیاں ایپل، ایچ پی، ڈیل اور فیس بک وغیرہ کی اپنی فاؤنڈری یا فیبریکیشن فیسلیٹی نہیں ہے یہ تمام کمپنیاں عالمی لیڈر کا درجہ رکھنے والی تائیوان کی فیکبریکیشن سروس کمپنی ٹی ایس ایم سی اور کوریا کی سام سنگ جیسی کمپنیوں سے استفادہ کرتی ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے بھی یہی طریقہ موزوں ہوگا۔

دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب

دنیا بھر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال گھریلو سطح پر بھی عام ہورہا ہے اب اسمارٹ برقی آلات بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسمارٹ فون سے آپریٹ ہونے والے ایئر کنڈیشنز، مائیکرو ویو اور کنیکٹیڈ ریفریجریٹرز عام ہوچکے ہیں، اسمارٹ ہوم کا تصورگھروں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے محفوظ اور بجلی کے استعمال کے لحاظ سے کفایت بخش بنارہا ہے جبکہ آٹو انڈسٹری میں بھی اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز عام ہورہی ہیں۔ جدید سینسرز سے لیس گاڑیاں مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ یہ تمام اسمارٹ آلات اور مشینری مائکرو پراسیسرز کے بغیر ادھورے ہیں اس لیے دنیا بھر میں مائیکرو پراسیسرز کی طلب بڑھ رہی ہے تاہم اس کے ساتھ سائبر سیکیوریٹی کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں گھروں کے آلات میں نصب مائکرو پراسیسرز کب کسے ڈیٹا ارسال کررہے ہیں کوئی نہیں جانتا اس لیے بیرون ملک سے درآمد ہونیو الے مائکروپراسیسرز جو پاکستان میں استعمال ہورہے ہیں پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں اس لحاظ سے پاکستان میں مقامی سطح پر مائکروپراسیسرز کی ڈیزائننگ سے پاکستان کی ڈیجیٹل سیکیوریٹی کو یقینی بنانے میں مدد ملیگی اس لحاظ سے اس پیش رفت کو پاکستان کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں خود کفالت اور داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کی جانب اہم قدم قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

آئی ٹی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ

ڈاکٹر علی احمد انصاری کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے تاہم ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اکیڈمیا اور انڈسٹری میں گہرے اشتراک عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اکیڈمیا کہتی ہے کہ پاکستان میں انڈسٹری نہیں ہے جبکہ انڈسٹری اکیڈمیا پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں آئی ٹی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اس بداعتمادی کے دائرے کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کے طریقے کو بھی تبدیل کرنا ہوگا پاکستان میں روزمرہ زندگی کے مسائل پر مبنی تدریسی طریقے کو فروغ دینا ہوگا اور کورسز کو نتیجہ خیز بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں عالمی سطح پر اوپن سروس پلیٹ فارمز اہم کردار ادا کررہے ہیں ہمیں اپنے طلبہ کو جلد سے جلد ان اوپن سروس ٹیکنالوجیز سے منسلک کرنا ہوگا۔ انہوں نے مستقبل کے انجینئنرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک انجینئر کو مسئلے کا حل فراہم کرنیو الی سوچ اختیار کرنا چاہیے ایک انجینئر کسی مسئل کو انجینئرنگ کے اصولوں پر پرکھتے ہوئے جتنا وقت اس کے حل کے لیے دے گا اتنا ہی اس کا کریئر مضبوط ہوگا خواہ انجینئرز اپنی کمپنی بناکر کام کریں یا کسی دوسری کمپنی میں کام کریں انہیں ہمیشہ مسئلے کو حل کرنے کی اپروچ اختیار کرنا ہوگی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔ انجینئنرز خود کو ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس یا کمپیوٹر تک ہی محدود نہ کریں کیونکہ اب تمام شعبہ باہم منسلک ہوچکے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2171079/1/


دنیا کی کوئی خوراک اور بہترین ٹانک بھی ورزش کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ورزش کے دل و دماغ اور پورے جسم پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس خبر میں ہم ورزش کے وہ سات حیرت انگیز فوائد بیان کریں گے جن پر جدید سائنس اپنی مہر ثبت کرچکی ہے۔

ایک دفعہ ورزش سے اکتساب میں بہتری!

ورزش اور دماغ کا گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکھنے کے عمل یعنی اکتساب (لرننگ) کو مضبوط کرتی ہے۔ ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔

2019 میں بھی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی نے ایک تحقیق کے بعد کہا تھا کہ صرف ایک مرتبہ ورزش کے بعد بھی دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ خون کی بہتر فراہمی اور نیورونز کے درمیان بہتر روابط ہوتے ہیں۔

دماغی لچک میں اضافہ

ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ورزش سے اعصابی لچک (نیوروپلاسٹی سِٹی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں دماغی خلیات (نیورون) کی وائرنگ اور ترتیب بدلتی رہتی ہے۔ یہ عمل سیکھنے اور نئے ہنر کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔ دماغی لچک کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ دماغ لچک بڑھانے کے لیے کونسی ورزش موزوں ترین ہے۔ سائنسداںوں کے مطابق ہائی انٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ (ایچ آئی آئی ٹی) ورزش اگر 20 منٹ تک کی جائے تو اس سے دماغی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔

ورزش دماغی انحطاط کو روکتی ہے

ہم جانتے ہیں کہ عمرکے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت متاثرہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار معمول سے زائد ہوجائے تو ڈیمنشیا، الزائیمر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچاتی ہے۔

ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ورزش کی عادت یادداشت متاثر ہونے کے عمل کو کم کرسکتی ہے۔ 2019 میں جامعہ ایکسیٹر کے سائنسدانوں نے دو لاکھ بالغ افراد کا جائزہ لیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورزش سے ڈیمنشیا کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہوسکتا ہے خواہ اس کا جینیاتی امکان ہی کیوں نہ موجود ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کو بالکل ترک کیا جائے اور مناسب غذا کھائی جائے۔

دماغی تناؤ بھگائے اور دماغ بڑھائے

اگرچہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو اوائل عمر سے جسمانی مشقت سے گزارا جائے۔

اگر آپ مستقل ذہنی تناؤ سے گزررہے ہیں تو ایئروبک ورزش اس میں بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن جامعہ کیلیفورنیا، ریورسائیڈ کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں کو ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود اور ورزش کی عادت ڈالی جائے تو آگے چل کر اس کے بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے بچے جوان ہوکر ڈپریشن کے شکار کم کم ہوتے ہیں اور ان کا دماغ بھی وسیع ہوجاتا ہے۔

ورزش نابینا پن کو روکے

پوری دنیا میں بڑھاپے کے ساتھ ساتھ اے ایم ڈی ( ایج ریلیٹڈ میکیولر ڈی جنریشن) کا مرض عام ہے۔ اس میں بصارت ناقابلِ تلافی رفتار سے کم ہوتی رہتی ہے اور اندھے پن کی وجہ بھی بنتی ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف ورجینیا نے چوہوں کو دو گروہ میں تقسیم کیا۔ ایک کو گھومتے پہیئے پر ورزش کرائی گئی اور دوسرے کو ایسی کوئی ورزش نہیں گرائی گئی۔ چار ہفتے بعد لیزر سے دونوں گروہوں کی آنکھیں ٹیسٹ کی گئیں۔

معلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش آنکھوں کی بصارت کی بہت بڑی محافظ بھی ہے۔

امنیاتی نظام کی مضبوطی اور سرطان سے دوری

ورزش جسم کے قدرتی دفاعی(امنیاتی) نظام کو طاقتور بناکر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتی ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔

یہ طے ہوچکا ہے کہ ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹابولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں جو دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔ سویڈن کے مشہور کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ نے جانوروں پر تجربات کئے اور بتایا کہ ورزش ٹی سیلز کو قوت دے کر کینسر سے لڑنے کے قابل بناتی ہے۔

ورزش اور پیٹ کے مفید بیکٹیریا

ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے نظام کو طبی اصطلاح میں’ مائیکروبائم‘ کہتے ہیں۔ ورزش کی عادت جسم میں مائیکروبائم کی مقدار برقرار رکھتی ہے اور ہمارے جسم بیکٹیریا کی تندرست مقدار برقرار رہتی ہے۔

2017 میں جامعہ الینوائے کے ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ورزش سے پیٹ میں تندرست بیکٹیریا کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے چوہوں اور انسانوں پرتجربات کئے ۔ ورزش سے پہلے اور بعد میں چوہوں کے فضلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ورزش بیکٹیریا کے تناسب کو درست رکھتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2171226/9812/


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/04/26042021/P6-Lhr-002.jpg


کھمبیاں یا مشروم کے متعلق گزشتہ دنوں اچھی خبر یہ تھی کہ یہ دماغ کو تندرست رکھتے ہیں اور اب انکشاف ہوا ہے کہ ان کا باقاعدہ استعمال سرطان کی کئی اقسام کے حملے سے بچاجاسکتا ہے۔

اسی لیے ماہرین سلاد اور دیگر کھانوں میں مشروم کی بہتات پرزور دے رہے ہیں کیونکہ اس سے کینسر کے خطرات 45 فیصد تک کم ہوسکتے ہیں۔ یہ تحقیق پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی ہے جو 16 مارچ کو ’ایڈوانسس ان نیوٹریشن‘ کے جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

اس کے لیے 1966 سے 2020 تک کینسر پر شائع ہونے والی 17 اہم تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں 19500 مریضوں کا ڈیٹا شامل ہے۔ ماہرین نے کینسر اور مشروم خوری کے درمیان تعلق کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشروم وٹامن، غذائی اجزا اور کئی اقسام کے اینٹٰی آکسیڈنٹس پائے جاتےہیں اور یہ سب ملکر کینسر کو روکتے ہیں۔ سفید بٹن والے، کریمینی اور پورٹابیلو مشروم میں ایک مفید امائنو ایسڈ ’ایرگوتھائیونائن‘ بھرپور ہوتا ہے۔

اب جن افراد نے ان تین اقسام کے مشروم کھائے ان میں کینسر کا خطرہ بہت کم تھا۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ روزانہ 18 گرام مشروم کھائے جائیں جو ایک چوتھائی کپ کے برابر ہوتے ہیں۔ ان میں سرطان سے بچانے والا جادوئی عنصر ’ایرگوتھائیونائن‘ ہی ہے۔

پنسلوانیہ اسٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ جان رچی کہتے ہیں کہ اس ضمن میں ہم مزید تحقیقات کریں گے کہ آخر ’ایرگوتھائیونائن‘ کس طرح کینسر سے بتاتا ہے لیکن یہ بات طے ہوچکی ہے کہ مشروم سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں اسے کھانے والوں میں کینسر کا خطرہ 40 سے 45 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2170487/9812/


مطلب پرستی، بغض اور مخاصمت صرف ہم انسانوں تک ہی محدود نہیں ۔ پہلے یہ یہ سیاہ جذبات، بوزنوں (پرائمیٹس) میں دریافت ہوچکتے ہیں اور اب سمندر کی ذہین ترین مخلوق ڈولفن میں اس رویے کا انکشاف ہوا ہے۔

ویسے تو ڈولفن ہمیشہ مسکراتی رہتی ہے لیکن ان میں منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ مغربی آسٹریلیا میں شارک بے کے مقام پر سائنسدانوں نے بعض تجربات کے بعد کہا ہے کہ یہ سمندری ممالیہ بھی آپس میں بغض و عداوت رکھتے ہیں۔

سائنسدانوں نے نوٹ کیا کہ بوٹل نوز ڈولفن کے نر اپنے انہی ’ساتھیوں‘ کی پکار پر توجہ دیتے ہیں جو ماضی میں انہیں بچانے یا مدد کے لئے آئے ہوں ۔ جب کہ مدد نہ کرنے والے ڈولفن گروہ کی پکار پر وہ کان نہیں دھرتے اور نظرانداز کردیتےہیں۔

برسٹل یونیوررسٹٰی نے اسے’اتحادی نیٹ ورک‘ قرار دیا ہے جو نر ڈولفن کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ عین سماجی رویے کی طرح ڈولفن کے غول ملکر شکار کرتے ہیں یا پھر مل کر ایک دوسرے کی شکاریوں سے حفاظت کرتے ہیں۔ یہ تحقیقی ہفت روزہ جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق کی سربراہ اسٹیفنی کنگ کہتی ہیں کہ ڈولفن سماجی جانوروں کی طرح اپنی ہم انواع میں تعلقات کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ عین اسی طرح ہم بھی اپنے ہم جنسوں کی ایسے ہی درجہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ ’انسانوں سے ہٹ کر بوٹل نوز ڈولفن میں اتحاد اور تعاون کا بہت پیچیدہ نظام ہوا ہے جسے ہم سمجھنا چاہتے تھے،‘ ڈاکٹر اسٹیفنی نےکہا۔

ڈولفن یاد رکھتی ہیں کہ کس نے ان کی مدد کی تھی اور اس کے جواب میں انہیں کس کے کام آنا ہے۔ پھر اپنی مخصوص سیٹی نما پکار سے یہ ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں کیونکہ ہر ڈولفن کی مخصوص آواز زندگی بھر یکساں رہتی ہیں۔ اسی لیے مشکل میں ڈولفن کا ایک گروہ دوسروں کو بلاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2170473/509/


یورپی ماہرین کی ایک کثیر قومی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ ادھیڑ عمری میں روزانہ چھ گھنٹے سے کم نیند لینے والوں کو بڑھاپے میں دماغی خلیات کے تیزی سے خاتمے یعنی ’’ڈیمنشیا‘‘ کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اب تک کم نیند کا شریانوں، دل اور دماغ کی مختلف بیماریوں سے واضح تعلق سامنے آچکا ہے۔

35 سال جاری رہنے والی مذکورہ تحقیق 1985 میں شروع کی گئی جس میں برطانیہ، ہالینڈ، فرانس اور فن لینڈ کے ماہرین شریک ہیں۔

اس تحقیق میں 35 سے 55 سال کے تقریباً دس ہزار رضاکار بھرتی کیے گئے۔ پہلے مرحلے میں 25 سال تک ان رضاکاروں میں سونے جاگنے کے معمولات اور صحت کا محتاط جائزہ لیا گیا، جس کے بعد مزید دس سال تک یہ مطالعہ جاری رکھا گیا۔

مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جو لوگ ادھیڑ عمری میں خراب اور ادھوری نیند کا مسلسل شکار رہتے ہیں، ان کی بڑی تعداد بڑھاپا شروع ہونے پر ہی ڈیمنشیا میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، روزانہ چھ گھنٹے سے کم نیند لینے والے افراد میں دماغ تیزی سے ختم ہونے (ڈیمنشیا) کا خطرہ زیادہ نمایاں، یعنی معمول کی نیند لینے والوں کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تھا۔

واضح رہے کہ ڈیمنشیا کوئی ایک بیماری نہیں بلکہ دماغی خلیوں کے تیزی سے مرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مختلف دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا مجموعی نام ہے۔

اس نوعیت کی بیماریاں بہت آہستگی اور خاموشی سے اپنی پیشرفت جاری رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان کے اثرات نمایاں ہونے میں بعض مرتبہ دس سے پندرہ سال تک لگ جاتے ہیں۔

البتہ، ان اثرات کے ظاہر ہوجانے کے بعد اکثر مریض کے پاس زیادہ وقت نہیں بچتا اور وہ چند سال بعد ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

مذکورہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ادھوری/ خراب نیند اور ڈیمنشیا میں تعلق کسی شخص کی رنگت، نسل اور جغرافیائی تعلق پر بالکل بھی انحصار نہیں کرتا۔
https://www.express.pk/story/2170357/9812/


امریکی سائنس دانوں نے ملیریا کے علاج میں اہم پیش رفت کرلی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہےکہ تجرباتی طور پر اس ویکسین کی اثر پذیری 77 فیصد تک ہے

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے اس نئی ملیریا ویکسین R21/Matrix-M ویکسین کومغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے 450 بچوں پر استعمال کیا گیا، جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے نظر آئے۔ اور اس خطے میں سالانہ لاکھوں بچوں کی وجہ ہلاکت بننے والی مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی بیماریوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔

اس ویکسین کوایجاد کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایڈریا ہل جو کہ کووڈ-19 کی آسٹرا زینیکا بنانے والی ٹیم کا حصہ تھے، کا کہنا ہے کہ تجربے کے آخری مرحلے میں ہم ساڑھے تین سال میں افریقی ممالک کے 4 ہزار800 بچوں کو ویکسینیشن کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ویکسین کے تجرباتی نتائج بہت شاندار اور توقع سےاچھے رہے ہیں۔ کیوں کہ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق ویکسین کی اثرپذیری 75 فیصد ہونی چاہیے اور پہلی بار ہم نے ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ معیار سے بلند نتائج دیے ہیں۔

یاد رہے کہ ملیریا ہر سال لاکھوں انسانوں کو متاثر اور چار لاکھ سے زائد افراد کو موت سے ہم کنار کردیتا ہے، جن میں اکثریت افریقا کے غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے شیر خوار اور بڑے بچوں کی ہے۔ دنیا بھر کے سائنس دان کئی دہائیوں سے ملیریا سے تحفظ کی موثر ترین ویکسین ایجاد کرنے پر کام کررہے ہیں اور اب تک صرف جی ایس کے کمپنی کی ویکسین Mosquirix کو کئی سالوں کے کلینیکل ٹرائلز کے بعدلائسنس جاری کیا گیا ہے، تاہم اس ویکسین کی اثر پذیری بھی 30 فیصد تک ہے۔
https://www.express.pk/story/2170792/9812/


چیونٹیاں آپس میں جڑ کر دوسروں کو گرنے سے بچاتی ہیں
 25 April, 2021

چیونٹیاں شاندار سماجی جان دار ہیں، یہ اپنی ذمہ داریاں بانٹ کر کام کرتی ہیں

فرینکفرٹ (نیٹ نیوز)اور یک جان ہوکر غذا کو ذخیرہ گاہ تک پہنچانے کیلئے سپلائی چین بناتی ہیں۔ گھرسازی میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ ان میں فوجی چیونٹیاں بھی ہیں جو مل کر ایک طرح کا مچان بناتی ہیں تاکہ لڑکھڑاتی چیونٹیوں کو گرنے سے محفوظ رکھا جاسکے ۔جرمنی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق جب چیونٹیوں کو پھسل کر گرنے کا ڈر ہوتا ہے وہ فوری طور پرایک دوسرے سے جڑ کر بڑاسٹرکچر بناتی ہیں اور اس میں اہم شے چیونٹیوں کا تیزباہمی رابطہ ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-25/1814190


امریکی فرم نے جھوٹ پکڑنے والی نئی مشین متعارف کرا دی
 23 April, 2021

امریکی ٹیکنالوجی فرم نے 90 فیصد تک جھوٹ اور سچ کا درست تعین کرنے والی مشین متعارف کرا دی

واشنگٹن(آئی این پی )یہ مشین آنکھ کی پتلیوں کی حرکت ریکارڈ کرکے سچ اور جھوٹ کا 90 فیصد تک درست تعین کر سکے گی۔ ٹیکنالوجی فرم کے چیئرمین کے مطابق آئی ڈیٹکٹ ٹیکنالوجی دل کی دھڑکن، سانس لینے یا پھر پسینہ آنے کا جائزہ لینے والی مشینوں سے یکسر مختلف ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-04-23/1813125


فروٹ چاٹ میں کون سے پھل شامل نہیں کرنے چاہئیں
 23 April, 2021

افطار کا فروٹ چاٹ سے آغاز کرنے سے انسان خود کو تروتازہ اور توانا محسوس کرتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)ایک کپ فروٹ چاٹ کھانے سے فائبر سمیت وٹامنز اور منرلز کی بھرپور مقدار حاصل ہوتی ہے ۔فروٹ چاٹ کھانے کے فوائد تو اَن گنت ہیں مگر اس بات کا دھیان رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ اسے بناتے وقت کوئی غلطی تو نہیں کی جارہی ہے ؟ کیوں کہ کچھ پھلوں کا ایک ساتھ استعمال صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ غذائی ماہرین کی جانب سے تربوز کو فروٹ چاٹ میں شامل کرنے سے منع کیا جاتا ہے ۔ اگر دسترخوان پر لسی یا دودھ سے بنی کوئی اور غذا بھی موجود ہے تو اس دن کیلے کا استعمال فروٹ چاٹ میں نہ کریں، ایسا کرنے سے پیٹ خراب اور طبیعت گھنٹوں بوجھل ہو سکتی ہے ۔ فروٹ چاٹ کا ذائقہ بڑھانے کیلئے کریم کا استعمال کیا جا سکتا ہے مگر فروٹ چاٹ میں اس دوران لیموں کا رس شامل نہ کریں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-23/1812934


گرمی اور پانی سے ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار کرلیاگیا
 25 April, 2021

سائنسدانوں نے طویل تحقیق و تجربات کے بعد ایسے پلاسٹک کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے

لاہور(نیٹ نیوز)جو گرمی اور پانی کی موجودگی میں چند ہفتوں کے دوران ختم ہو جاتا ہے ۔ایک عالمی سائنسی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا تیار کردہ پلاسٹک اس لئے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ناکارہ اور خراب ہوجانے والے پلاسٹک کے اندر ہی وہ جراثیم داخل کئے ہیں جو استعمال کے بعد اسے کھا کر ختم کردیتے ہیں۔ واضح رہے کہ پلاسٹک ہمیشہ کے لئے اپنی جگہ برقرار رہتا تھا اور ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بنتا تھا تاہم اس پلاسٹک سے یہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-25/1814187


امریکا کے ’’نیشنل یو ایف او رپورٹنگ سینٹر‘‘ نے بتایا ہے کہ پچھلے سال امریکا میں اُڑن طشتریاں دیکھنے کے 7,263 واقعات رپورٹ کیے گئے جو امریکی تاریخ میں کسی بھی سال کے دوران رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ واقعات ہیں۔

ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ 2020 کے دوران امریکا میں روزانہ تقریباً 20 اُڑن طشتریاں دیکھی گئیں۔ یہ تعداد 2019ء میں دکھائی دینے والی 6,277 طشتریوں کے مقابلے میں بھی تقریباً ایک ہزار زیادہ تھی۔

واضح رہے کہ ساری دنیا میں امریکا وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اُڑن طشتریاں دیکھی جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حالیہ چند برسوں کے دوران امریکیوں کو دکھائی دینے والی اُڑن طشتریوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2010ء میں یہ تعداد 4809 پر تھی جو 50 فیصد اضافے کے ساتھ، پچھلے سال 7263 ہوگئی ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ برس صرف نیویارک شہر میں 300 سے زیادہ اُڑن طشتریاں دیکھنے کی خبریں موصول ہوئیں جو کسی بھی دوسرے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔


2020ء میں زیادہ اُڑن طشتریاں دیکھے جانے کی ایک وضاحت یہ بھی کی جارہی ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے امریکی زیادہ وقت تک اپنے اپنے گھروں میں بند اور فارغ رہنے پر مجبور تھے۔ اسی فراغت میں انہوں نے وقت گزاری کےلیے آسمان کے نظارے لیے اور رات کی تاریکی میں دکھائی دینے والے قدرتی مظاہر کو اُڑن طشتریاں سمجھ بیٹھے۔

دوسری وضاحت کے مطابق، امریکا میں نجی اداروں نے ماضی کی نسبت راکٹوں کی پروازیں بڑھا دی ہیں جبکہ ’’اسٹار لنک‘‘ نے سیکڑوں مصنوعی سیارچے خلا میں بھیجے ہیں جو سورج کی روشنی زمین کی طرف منعکس کرتے ہیں تو رات کے اندھیرے میں کسی پراسرار اُڑن طشتری کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

آئندہ برسوں میں یہ سلسلہ اور بھی شدت اختیار کرے گا، جس کے نتیجے میں امریکیوں کو آج سے کہیں زیادہ اُڑن طشتریاں دکھائی دے سکتی ہیں لہذا گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔

ویسے بھی اب خود امریکی فوج نے اُڑن طشتریوں کی خبریں جمع کرنے کےلیے باقاعدہ ادارہ بھی قائم کردیا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ شاید خلائی مخلوق کے معاملے میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور موجود ہے۔
https://www.express.pk/story/2169585/509/


برطانوی طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ نشہ آور ’جادوئی کھمبی‘ میں پایا جانے والا اہم ترین جزو ’سائیلوسائبین‘ ڈپریشن کے علاج میں موجودہ دواؤں جتنا ہی مفید اور مؤثر ہے۔

تفصیلات کے مطابق، امپیریل کالج لندن میں شدید ڈپریشن کے 59 مریضوں میں سائیلوسائبین اور ڈپریشن کی ایک مروجہ دوا ’’ایسیٹالوپرام‘‘ (لیگزاپرو) کے اثرات کا موازنہ کیا گیا۔

چھ ہفتے تک جاری رہنے والے ان تجربات میں نصف مریضوں کو معمول کے مطابق لیگزاپرو کی گولیاں کھلائی گئیں جبکہ اس پورے عرصے میں باقی کے نصف مریضوں کو سائیلوسائبین کی صرف دو خوراکیں ہی دی گئیں۔


روزانہ ایک گولی (دس ملی گرام) لیگزاپرو لینے والے مریضوں اور چھ ہفتے میں دو مرتبہ سائیلوسائبین کی خوراک لینے والے مریضوں کے ڈپریشن میں یکساں افاقہ ہوا۔


نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں سائیلوسائبین کے مفید اثرات کے بارے میں بتانے کے بعد ڈاکٹر کارہارٹ ہیرس اور ان کے ساتھیوں نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ان تجربات کے نتائج بے حد امید افزاء ہیں لیکن اب بھی ڈپریشن کے علاج میں سائیلوسائیبین کی افادیت حتمی طور پر ثابت کرنے کےلیے مزید تفصیلی اور محتاط آزمائشوں کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد ہی سائیلوسائبین کو ڈپریشن کے علاج میں باقاعدہ استعمال کروانے کا فیصلہ کیا جاسکے گا
https://www.express.pk/story/2169618/9812/


ہم جانتے ہیں کہ پلاسٹک ہزاروں برس تک تلف نہیں ہوتا اور اس کے باریک ٹکڑے ماحول میں برقرار رہتےہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات پھیپھڑوں کی گہرائی تک پہنچ رہے ہیں اور وہاں خلیات کو تبدیل بھی کررہے ہیں۔

آلودگیوں میں اب مائیکروپلاسٹک سرِ فہرست ہیں، جو سمندر، خشکی اور ہوا میں تباہی پھیلارہے ہیں۔ اس ضمن میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی (ایف ایس یو) نے پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں سے گھل کرخارج ہونے والے باریک ذرات کا ماحولیاتی جائزہ لیا ہے۔ یہ ذرات ایورسٹ پہاڑ، قطبین اور انسانی فضلے میں بھی ملے ہیں۔

اب دنیا بھر میں مائیکروپلاسٹک اور انسانی اثرات پر تحقیق ہورہی ہے۔ اس سے قبل سائنس بتاچکی ہے کہ پلاسٹک سازی میں استعمال ہونے والے کیمیکل دماغی خلیات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اب اس ضمن میں ایف ایس یو نے تجربہ گاہی تحقیق میں بتایا ہے کہ پلاسٹک کے خردبینی ذرات انسانی پھیپھڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

سائنسدانوں ںے پیٹریائی ڈش میں انسانی پھیپھڑوں کے خلیات رکھے اور تصور کیا کہ اس طرح ہم سانس کے ذریعے باریک پلاسٹک پھیپھڑوں میں اتاررہے ہیں۔ انہوںن ے پولی اسٹائرین کے چند ذرات انسانی پھیپھڑوں کے خلیات (سیلز) پر رکھے تو چند دن بعد عجیب ماجرا دیکھا۔

انہوں نے دیکھا کہ پلاسٹک کے ذرات نے ایک جانب تو پھیپھڑوں کے خلیات کی ظاہری شکل تبدیل کردی اور خلیات کا استحالہ یعنی میٹابولزم بھی سست پڑنے لگا۔ اگرچہ پلاسٹک سے خلیات مرے نہیں لیکن وہ نارمل نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ دیکھا گیا کہ پھیپھڑے کے خلیات ایک دوسرے سے دور جانے لگے۔ پہلے وہ کسی چادر کی طرح قریب قریب تھے لیکن پلاسٹک کے ذرات نے ان کے درمیان وقفہ پیدا کردیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ پلاسٹک کے ذرات نے خلیات کو ایک دائرے کی شکل میں گھیرلیا۔

تجربے سے وابستہ کیرسٹین گڈمین نے کہا کہ صرف 24 گھنٹے بعد ہی پلاسٹک نے خلیات کو گھیرنا شروع کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پلاسٹک پہلے سے متاثرہ افراد میں سانس کی بیماریاں پیدا کرسکتا ہے یا نہیں؟

ماہرین نے کہا کہ اگرچہ وہ خردبینی پلاسٹک کے انسانی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرنا چاہتے تاہم یہ ضروری ہے کہ سانس کے مریضوں اور نشوونما سے گزرتے ہوئے بچوں پر ان کے منفی اثرات کا بھرپور جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بھرپور تحقیق پر زور دیا۔
https://www.express.pk/story/2170066/9812/


سائنس دانوں نے ایک بہت عام پیڑ (شرب) سے کینسر کے خلاف مؤثر مرکب (کمپاؤنڈ) حاصل کیا جو اس سے قبل دواسازی کے سانچے میں ڈھل نہیں پارہا تھا

پوردوا یونیورسٹی اور اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بہتات میں اگنے والے جیٹروفا کرکاس سے ایک نیا مرکب نکالا ہے جو ایسے کینسر پروٹین کو لگام دیتا ہے جو اس سے قبل کسی بھی دوا سے قابو نہیں آرہا تھا۔

ہم جانتے ہیں کہ کینسر کے مرض میں خلیات مرتے نہیں بلکہ گچھے اور رسولی کی صورت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بدن کے دوسرے حصے میں پھیلتے جاتے ہیں۔ اپنی تعداد بڑھانے کے لیے کینسر کے خلیات دیگر صحت مند خلیات کے ڈی این اے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

بعض اقسام، مثلاً دماغ، چھاتی، آنت، پھیپھڑے اور جگر کے کینسر میں بی آر اے ٹی ون یا BRAT1 نامی پروٹین ہی ڈی این اے کے تباہی اور مرمت کے تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس پروٹین کا علاج کرکے ان اقسام کے کینسر کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی کہ اب تک اس پروٹین پر اثرکرنے والی کوئی دوا نہیں بنائی جاسکی ہے۔

اس دریافت کے اہم سائنسداں پروفیسر منگجائی ڈائی نے کہا کہ ’جہاں تک کینسر خلیات کو مارنے اور انہیں دوسرے مقام تک روکنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے مرکبات ہیں لیکن بی آر اے ٹی ون کو روکنے والا کوئی ادویاتی مرکب ہمارے پاس نہ تھا،‘

جیٹروفا کرکاس امریکا بھر میں عام پایا جاتا ہے جو اس سے قبل بایوفیول کی تیاری میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس پیڑ سے ’کرکیوسونس‘ نامی کئی مرکبات حاصل ہوئے ہیں۔ اپنی ساخت کی بنا پر یہ دیگر مرکبات سے بہت مختلف ہیں اور ان میں کئی طرح کی حیاتیاتی سرگرمیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ توقع ہے کینسر کے خلاف لڑائی میں نئے ہتھیار اسی پیڑ سے حاصل ہوسکیں گے۔

اگلے مرحلے میں سائنسدانوں نے کرکیوسون اے، بی، سی اور ڈی کو تجربہ گاہ میں بریسٹ کینسر کے خلیات پرآزمایا۔ اس میں کرکیوسون ڈی بہت مؤثر دیکھا گیا جس نے سرطانی رسولی کو چھوٹا کردیا۔ جب اسے ایک دوا ایٹوپوسائڈ کے ساتھ ملاکر استعمال کیا گیا تو مزید اچھا نتیجہ نکلا۔ واضح رہے کہ یہ دوا بریسٹ کینسر میں عام استعمال ہوتی ہے اور ایف ڈی اے سے منظورشدہ بھی ہے۔

لیکن فی الحال ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ جیٹروفا کی جڑوں سے کرکیوسون ڈی کو نکالنا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت ساری جڑوں سے اس کی معمولی مقدار ہی نکل پاتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے تجربہ گاہ میں تالیف (سنتھے سائز) کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سائنسداں پرامید ہیں کہ اس طرح مرکب کی قدرے خاص حالت مل سکے گی لیکن ان حوصلہ افزا نتائج کے بعد ماہرین کو ابھی مزید کوہِ تحقیق عبور کرنا ہوں گے۔
https://www.express.pk/story/2169732/9812/


مریخ پر پہلا ہیلی کاپٹر اُڑانے کے بعد، ناسا نے اس سرخ سیارے کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن بنانے کا سب سے پہلا تجربہ بھی کامیابی سے مکمل کرلیا ہے۔

یہ تجربہ مریخی گاڑی ’’پرسیویرینس روور‘‘ پر نصب خصوصی آلے ’’موکسی‘‘ (MOXIE) کے ذریعے انجام دیا گیا۔

’’موکسی‘‘ کا پورا نام ’’مارس آکسیجن اِن سیٹو ریسورس یوٹیلائزیشن ایکسپیریمنٹ‘‘ ہے؛ یعنی ایک ایسا آلہ جو مریخ پر دستیاب مقامی وسائل استعمال کرتے ہوئے اور وہیں رہتے ہوئے، آکسیجن تیار کرسکے۔

واضح رہے کہ مریخ کی فضا ہماری زمینی ہوا کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے جو تقریباً 95 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہر سالمے (مالیکیول) میں ایک کاربن ایٹم کے ساتھ آکسیجن کے دو ایٹم جڑے ہوتے ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے آکسیجن حاصل کی جاسکتی ہے۔

’’موکسی‘‘ ابتدائی نوعیت کا مختصر تجرباتی آلہ ہے جس کا مقصد مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے مؤثر طور پر آکسیجن الگ کرنے والی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کرنا (ٹیکنالوجی ڈیمانسٹریشن) ہے۔

اس مرحلے میں کامیابی کے بعد، ان ہی اصولوں پر کام کرنے والے بڑے آلات بنا کر مریخ پر بھیجے جائیں گے۔

یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھاتے ہوئے، بالآخر اتنی بڑی مشینیں مریخ تک پہنچائی جائیں گی جو کم از کم چار انسانوں کےلیے سال بھر کی آکسیجن تیار کرنے کے قابل ہوں گی۔

ڈبل روٹیاں سینکنے والے گھریلو ٹوسٹر جتنے ’’موکسی‘‘ نے پہلے دو گھنٹے تک خود کو آہستہ آہستہ گرم کیا اور اپنا اندرونی درجہ حرارت 1470 ڈگری فیرن ہائیٹ (800 ڈگری سینٹی گریڈ) تک پہنچا دیا۔

پھر اس نے مریخ کی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) جذب کرکے آکسیجن بنانا شروع کی اور تقریباً ایک گھنٹے میں 5.37 گرام آکسیجن تیار کرلی، جو کسی خلا نور کے 10 منٹ تک سانس لینے کےلیے کافی ہوگی۔

موزوں ترین حالات میں ’’موکسی‘‘ ایک گھنٹے میں 10 گرام تک آکسیجن بنا سکتا ہے۔

ناسا ’’اسپیس ٹیکنالوجی مشن ڈائریکٹوریٹ‘‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر جم روئٹر نے اس تجربے کو مریخ پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن بنانے کے ضمن میں ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مریخ پر انسانی بستیاں بسانے کا خواب حقیقت سے قریب دکھائی دینے لگا ہے۔

روئٹر کے مطابق، چار انسانوں کو مریخ تک پہنچانے کےلیے 55 ہزار پاؤنڈ راکٹ ایندھن درکار ہوگا، جس میں 15 ہزار پاؤنڈ آکسیجن شامل ہوگی۔ یہ سب کا سب زمین سے دستیاب ہوگا اور راستے میں ہی ختم ہوجائے گا۔

البتہ، خلانوردوں کے مریخ پر ایک سال تک رہنے کےلیے تقریباً ایک میٹرک ٹن (1000 کلوگرام) آکسیجن کی ضرورت ہوگی جسے زمین سے مریخ تک بحفاظت پہنچانے میں پورے منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ جائے گی۔

تاہم یہی آکسیجن اگر مریخ پر موجود کسی مشین یا آلے سے تیار کرلی جائے تو نہ صرف وسائل کی بچت ہوگی بلکہ یہ حل پائیدار بھی ثابت ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2169981/508/


6گھنٹے کی نیند پوری نہ کرنے کا وہ نقصان کہ جان کر کوئی بھی خوفزدہ رہ جائے
Apr 21, 2021 | 17:57:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) نیند کی کمی مجموعی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کا ڈیمنشا سے ایسا گہرا تعلق بتا دیا ہے کہ سن کر کم نیند لینے والے خوفزدہ رہ جائیں۔

میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف پیرس کے سائنسدانوں نے تحقیقاتی نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے روزانہ 6گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں ان کو ڈیمنشا کی بیماری لاحق ہونے کا خطرہ 30فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 50سے 70سال کی عمر کے 8ہزار سے زائد برطانوی شہریوں پر تجربات کیے۔ ان لوگوں کی گزشتہ 25سال کے دوران نیند کے دورانیے کی نگرانی کی گئی اور ان میں ڈیمنشا کے امکانات کا اس سے موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے گئے۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ سیورینی سیبیا کا کہنا تھا کہ ”ادھیڑ عمری میں دماغی صحت کے حوالے سے نیند کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ہماری تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ 6گھنٹے سے کم نیند ادھیڑ عمری میں جا کر دماغی صحت سے متعلق بیماریوں کا سبب بنتی ہے، جن میں ڈیمنشا بھی شامل ہے۔ آیا نیند بہتر بنانے سے ڈیمنشا سے بچا جا سکتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/21-Apr-2021/1279637?fbclid=IwAR0JZA5aon7NUiL3AjP06FgZ8fttk8Hd8623KbT9U24Tph7cTsBOpUbZTuQ


کم نیند لینے والے افراد نسیان مرض کا شکار ہوسکتے ہیں
 22 April, 2021


طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کم نیند لینے والے افراد نسیان کے مرض کا شکار ہوسکتے ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)یورپی ملک فرانس کی یونیورسٹی آف پیرس میں ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کم دورانیے کی نیند لینا نسیان کی بیماری کا سبب بنتا ہے ۔نسیان بھولنے یا یادداشت کی کمزوری کا مرض ہے ، اس بیماری کے شکار افراد میں یادداشت، سوچ بچار اور رویوں میں تبدیلی کی نمایاں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مریض میں پہلی تبدیلی اسکی نزدیکی یاداشت میں کمی اور روز مرہ کے کاموں کی ادائیگی میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی الجھاؤ اور شخصیت میں بدلاؤ بھی شامل ہے ۔تحقیق کے مطابق روزانہ 6 گھنٹوں سے کم نیند کرنے والے لوگوں میں درمیانی عمر نسیان کی بیماری جنم لی سکتی ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مقررہ نیند لینا انسان کے جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کیلئے مفید ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-22/1812451


دہی کے صحت پر حیرت انگیز طبی فوائد بارے جانئے
 22 April, 2021


گُڈ بیکٹیریاز یعنی انسانی صحت کیلئے ناگزیر مثبت بیکٹیریاز سے بھرپور دہی کو طبی ماہرین کی جانب سے صحت کیلئے ایک خزانہ قرار دیا جاتا ہے ،دہی میں چکنائی اور کیلوریز انتہائی کم مقدار میں پائی جاتی ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)ایک کپ دہی میں صرف 120کیلوریز ہوتی ہیں، دہی میں دیگر ضروری غذائی اجزا جیسے کہ پروٹین بھی پایا جاتا ہے جسے انسانی پٹھوں کی نشوونما کیلئے انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔دہی کے 100 گرام مقدار میں ہزاروں گُڈ بیکٹیریاز کیساتھ 59 کیلوریز، 0.4فیصد گرام فیٹ، 5ملے گرام کولیسٹرول، 36 ملی گرام سو ڈیم، 141ملی گرام پوٹاشیم ، 3.2 گرام شوگر، 11 فیصد کیلشیم ، 13 فیصد کوبالامین، 5 فیصد وٹامن بی 6 او 2 فیصد میگنیشیم پایا جاتا ہے ۔ جو افراد ورزش کرتے ہیں اُن کے متاثرہ پٹھوں کے علاج اور نشوونما کیلئے دہی لازم غذا ہے ۔امراض قلب کیلئے دہی بہترین ہے ۔دہی جسم میں کولیسٹرول لیول متوازن سطح پر لاتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-22/1812454


سائنسدانوں نے ہڈیوں کی مرمت و افزائش اور خون کی نالیوں کو بڑھانے والا ایک نیا حیاتیاتی مٹیریئل تیار کیا ہے جو ہڈیوں کی پیچیدہ چوٹوں اور خرابیوں کو دور کرسکے گا۔

ڈبلن میں واقع آرسی ایس آئی یونیورسٹی آف میڈیسن اینڈ ہیلتھ سائنسس کے سائنسدانوں نے اس سے پہلے معلوم کیا تھا کہ ایک طرح کے جین ’پلے سینٹل گروتھ فیکٹر‘ (پی جی ایف) کو سرگرم کرکے ہڈیوں کی تیز بڑھوتری اور خون کی نئی نالیوں کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔

یہ عمل قدرتی انداز میں ہوتا ہے ۔ اس کے لیے بایومٹیریئل پہلے پی جی ایف کی زائد مقدارخارج کرتا ہے جس سے خون کی نالیاں تشکیل پاتی ہیں۔ اس کے بعد باقاعدگی سے کم خوراک پہنچائی جاتی ہیں جس سے ہڈیوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ جب طبی آزمائش (ٹرائلز) سے پہلے تجربہ گاہ میں غور کیا گیا تو اس اہم مادے نے نہ صرف ہڈیوں کے بڑی ٹوٹ پھوٹ کو درست کیا بلکہ ان میں خون کی رگوں کی افزائش بھی شروع کردی۔

’ تاہم انسانی آزمائش سے پہلے ہم مزید تحقیق کریں گے۔ کامیابی کی صورت میں ایسے لاکھوں کروڑوں مریضوں کو فائدہ ہوسکے گا جو پیچیدہ کیفیات میں گرفتار ہیں اور اس طرح روایتی طریقہ علاج کے سے بھی بہتر علاج سامنے آسکے گا،‘ پروفیسر فرگل وبرائین نے بتایا۔

انہوں نے کہا نیا بایومٹیریئل افزائشی طریقہ علاج (ری جنریٹو میڈیسن) اس ضمن میں معالجے کی بالکل نئی راہ ہموار کرے گا۔ اس کے بعد یہ مٹیریئل کرکری ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کی مرمت اور علاج میں استعمال ہوسکے گا۔ ماہرین نے اس نئی ٹیکنالوجی کو مکینوبائیلوجی کا نام دیا ہے۔ اس میں ایک ہی مٹیریئل سے رگوں اور ہڈیوں کی افزائش ممکن ہوئی ہے جو ایک بہت عمدہ پہلو ہے۔

واضح رہے کہ ہڈیوں کے بڑے مسائل اور نقائص میں ان کی افزائش اب بھی ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور توقع ہے کہ مکینو بائیلوجی اس کی راہ ہموار ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2169336/9812/


ذہنی و جسمانی صحت سے متعلق اب تک کی سب سے بڑی تحقیق سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ ذہنی صحت اچھی ہو تو نہ صرف جسمانی صحت اچھی رہتی ہے بلکہ زندگی بھی طویل ہوسکتی ہے

آسٹریلیا میں کی گئی اس تحقیق کےلیے ماضی میں ذہنی و جسمانی صحت سے متعلق 420 مطالعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جن میں مجموعی طور پر 53 ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے تھے۔

اس تحقیق سے جہاں اچھی ذہنی و جسمانی صحت میں تعلق ایک بار پھر ثابت ہوا، وہاں کئی ایسی اہم تدابیر کی نشاندہی بھی ہوئی جنہیں اختیار کرکے اچھی دماغی صحت کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اگرچہ ان تدابیر کی فہرست خاصی طویل ہے تاہم ان میں ’’مائنڈ فلنیس‘‘ اور ’’مثبت نفسیاتی تدابیر‘‘ (PPIs) سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

بنیادی طور پر ان دونوں اقسام کے طریقوں/ تدابیر سے دماغ اور اعصاب کو مضبوط بنایا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کسی ناگہانی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر وہ زیادہ متاثر نہ ہوں اور یوں نفسیاتی امراض سے بھی محفوظ رہا جاسکے۔ یہی چیز جسمانی صحت پر بھی اچھا اثر ڈالتی ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مثبت سوچ اور مثبت طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے بیماری کو خود سے دور رکھا جائے تو وہ بیماری میں مبتلا ہو کر نفسیاتی علاج معالجہ کروانے سے کہیں بہتر ہے۔

البتہ انہوں نے تجویز کیا ہے کہ ذہنی صحت بہتر بنانے کےلیے کسی ایک طریقے کو حرفِ آخر نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ لوگوں کو مختلف طریقے آزما کر اپنے لیے موزوں ترین اور مؤثر ترین تدابیر کا انتخاب کرنا چاہیے۔

اس تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر ہیومین بیہیویئر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہی
https://www.express.pk/story/2169185/9812/


ذہنی و جسمانی صحت سے متعلق اب تک کی سب سے بڑی تحقیق سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ ذہنی صحت اچھی ہو تو نہ صرف جسمانی صحت اچھی رہتی ہے بلکہ زندگی بھی طویل ہوسکتی ہے۔

آسٹریلیا میں کی گئی اس تحقیق کےلیے ماضی میں ذہنی و جسمانی صحت سے متعلق 420 مطالعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جن میں مجموعی طور پر 53 ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے تھے۔

اس تحقیق سے جہاں اچھی ذہنی و جسمانی صحت میں تعلق ایک بار پھر ثابت ہوا، وہاں کئی ایسی اہم تدابیر کی نشاندہی بھی ہوئی جنہیں اختیار کرکے اچھی دماغی صحت کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اگرچہ ان تدابیر کی فہرست خاصی طویل ہے تاہم ان میں ’’مائنڈ فلنیس‘‘ اور ’’مثبت نفسیاتی تدابیر‘‘ (PPIs) سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

بنیادی طور پر ان دونوں اقسام کے طریقوں/ تدابیر سے دماغ اور اعصاب کو مضبوط بنایا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کسی ناگہانی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر وہ زیادہ متاثر نہ ہوں اور یوں نفسیاتی امراض سے بھی محفوظ رہا جاسکے۔ یہی چیز جسمانی صحت پر بھی اچھا اثر ڈالتی ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مثبت سوچ اور مثبت طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے بیماری کو خود سے دور رکھا جائے تو وہ بیماری میں مبتلا ہو کر نفسیاتی علاج معالجہ کروانے سے کہیں بہتر ہے۔

البتہ انہوں نے تجویز کیا ہے کہ ذہنی صحت بہتر بنانے کےلیے کسی ایک طریقے کو حرفِ آخر نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ لوگوں کو مختلف طریقے آزما کر اپنے لیے موزوں ترین اور مؤثر ترین تدابیر کا انتخاب کرنا چاہیے۔

اس تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر ہیومین بیہیویئر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2169185/9812/



اس ضمن میں آڈیو ساز کمپنی افلورتھمِک اور ڈیجیٹل انسانوں پر کام کرنے والی کمپنی یونیک نے مشترکہ طور پر یہ ویب سائٹ تیار کی ہے جہاں آئن اسٹائن آپ سے عین اپنی ہی آواز میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔

اس طرح بہت اصلی دکھائی دینے والے آئن اسٹائن س سے اس طرح بات کی جاسکتی ہے کہ گویا وہ ماہرِ طبیعیات حقیقی انداز میں ہمارے سامنے بیٹھا ہے۔ اس میں آئن اسٹائن پلک جھپکاتے ہیں، مسکراتے ہیں اور چہرے پر اصل انسانوں کی طرح تاثرات کے حامل ہیں۔

اس کی تفصیلی وژول ٹیکنالوجی کے ساتھ معلومات کا ایک پورا انجن ہے جو اسے حقیقی بناتا ہے۔ پھر آپ آئن اسٹائن کی اصل آواز کے ساتھ اسے سن کر مزید حیران رہ جائیں گے۔ اس کے لیے آئن اسٹائن کی گفتگو کی تمام آڈیو فائلز کو ڈیٹا بیس میں شامل کرکے مشینی آواز کو تربیت دی گئی ہے جو ہوبہو آئن اسٹائن کی آواز نکالتی ہے۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آڈیو فائل کا معیار بہت خراب تھا اور اسی وجہ سے مشین سے آئن اسٹائن کی نئی آواز بنائی گئی ہے جو بہت حد تک آس کی آواز سے مشابہہ ہے۔

اس طرح آئن اسٹائن آپ سے بہت دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے علم سے آپ کو آگاہ کرتےہیں۔ گفتگو کرتے ہوئے آئن اسٹائن کے چہرے کے خدوخال بہت حقیقی نظر آتے ہیں۔ یہاں آپ ان سے کسی پرسنل اسسٹنٹ یا چیٹ بوٹ کی طرح گفتگو کرسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2169333/508/


لیاری یونیورسٹی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے طلبہ نے بصارت سے محروم افراد کی مشکل آسان کرتے ہوئے دنیا کی کم قیمت ڈیجیٹل اسٹک متعارف کرادی ہے۔

لیاری یونیورسٹی کے طلباء کی ٹیم نے اپنے سپروائزر ڈاکٹر شفیق اعوان کی زیر نگرانی جدید چھڑی صرف تین ہزار روپے کی لاگت سے تیار کی ہے جو موبائل ایپلی کیشن سے منسلک ہے۔ یہ ایپلی کیشن نابینا افراد کو اردو کے علاوہ انگریزی، سندھی پنجابی میں راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے آواز کے ذریعے آگاہ کرتی ہے اور دیگر کسی بھی زبان کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ بصارت سے محروم افرد صرف ایک بٹن دباکر اپنے اہل خانہ یا دوستوں کو اپنی لوکیشن سے آگاہ کرسکتے ہیں۔

بصارت سے محروم افراد کے لیے جادو کی چھڑی تیار کرنے والے نوجوانوں کی ٹیم میں شہزاد غلام مصطفیٰ، شہزاد منیر اور محمد حمزہ علی شامل ہیں جن کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہے اور انہوں نے اپنے بی ایس آئی ٹی کے فائنل پراجیکٹ کے طور پر یہ چھڑی تیار کی ہے جس کی موبائل ایپلی کیشن بھی خود ڈویلپ کی گئی ہے۔

شہزاد غلام مصطفی نے بتایا کہ کرونا کی وباء کے دوران جہاں تعلیمی ادارے بند تھے ہم نے اپنے سپروائزر ڈاکٹر شفیق اعوان کی نگرانی میں تین ماہ کی مدت میں یہ ایپلی کیشن اور اسٹک تیار کی، جو چار جدید الٹراسانک سینسرز پر مشتمل ہے، اسٹک کو ایک مرتبہ چارجنگ کے بعد ایک ہفتہ تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔

شہزاد غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ اسٹک کو کمرشل بنیادوں پر تیار کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم مالی وسائل آڑے آرہے ہیں، اگر حکومتی سطح پر اس پراجیکٹ کی سرپرستی کی جائے اور کمپونینٹس کی درآمد میں مدد فراہم کی جائے تو وہ بصارت سے محروم افراد کو یہ اسٹک صرف ایک ہزار روپے میں تیار کرکے دے سکتے ہیں ، یہ اسٹک ایکسپورٹ کرکے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اس اسٹک کی افادیت کو مزید بڑھانے کے لیے اس کو اپ گریڈ کررہے ہیں جلد ہی اس اسٹک میں کیمرا بھی نصب کیا جائے گا جو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے بصارت سے محروم افراد کو ان کے اردگر موجود اشیاء یا افراد کی شناخت کرکے آگاہ کریگی کہ سامنے سے ٹرک، کار سائیکل یا کوئی فرد آرہا ہے اسی طرح گوگل میپ کے ذریعے مطلوبہ مقام تک پہنچنے میں بھی رہنمائی فراہم کی جائیگی۔

شہزاد غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ اگلا ورژن ایک جدید عینک پر مشتمل ہوگا جس میں کیمرا اور سینسرز نصب کیے جائیں گے۔ جادو کی اس چھڑی کو اپ گریڈ کرنے کے لیے الٹراسانک سینسرز کی جگہ جدید لیزر سینسرز استعمال ہوں گے جن کی رینج اور ایکوریسی زیادہ ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2169608/508/


چودھویں کا چاند ہر کسی کو پسند لیکن اس کا مردوں کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے سائنسدانوں کا ایسا انکشاف کہ ہر کوئی دنگ رہ جائے
Apr 19, 2021 | 17:26:PM

دوحہ(مانیٹرنگ ڈیسک) مرد ’چودھویں کے چاند‘ کو پسند بھی بہت کرتے ہیں مگر یہی چودھویں کا چاند ان کی زندگی میں بے سکونی اور بے خوابی جیسے عوامل کا سبب بھی بنتا ہے۔ اب اس حوالے سے تیونس اور قطر کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے تحقیقاتی نتائج میں بتایا ہے کہ پورا چاند مردوں میں ذہنی دباﺅ اور بے خوابی کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پورا چاند مردوں میں جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹرون اور کورٹیسول نامی ہارمون کے لیول کو متاثر کرتا ہے۔

یہ دونوں ہارمونز مردوں میں کئی طرح کے جسمانی افعال کو منظم کرتے اور حتمی نتیجے کے طور پر اسے فرحت و شادمانی اور ذہنی سکون جیسے عوامل سے نوازتے ہیں تاہم پورا چاند مردوں کے جسم میں ان ہارمونز کی مقدار کم کر دیتا ہے جس سے وہ ذہنی دباﺅ اور بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسدانوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شمسی تابکاری، جو چاند کے ذریعے منعکس ہو کر آتی ہے، وہ مردوں کی دماغی سرگرمیوں کو تبدیل کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ذہنی تناﺅ اور اور بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں
https://dailypakistan.com.pk/19-Apr-2021/1278761?fbclid=IwAR1fX7QdV-AREXa61KTolxCwUTkw5rEWZo2sg1WCNE7q24r3odvfx7v63SA


فوٹو شاپ اور پی ڈی ایف کے شریک موجدچل بسے
منگل 20 اپریل 2021ء

واشنگٹن( نیٹ نیوز) امریکہ کی بڑی سافٹ ویئر کمپنی ایڈوبی انکارپوریٹڈ کے شریک موجد چارلزچک گیشکی81کی عمر میں چل بسے ۔ انہوں نے پورٹیبل ڈاکیومنٹ فارمیٹ (پی ڈی ایف) کی تیاری میں مدد کی تھی۔چارلز گیشکی کی پہلی اہم پروڈکٹ ایڈوبی پوسٹ سکرپٹ تھی جس نے ٹیکسٹ اور تصاویر کاغذ پر چھاپنے میں انقلابی پیش رفت کا آغاز کیا اور ڈیسک ٹاپ پبلشنگ میں انقلاب کی شروعات ہوئی۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گیشکی خلیج سان فرانسسکو کے نواحی علاقے لاس الٹس میں رہائش پذیر تھے ، وہ گزشتہ روز حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال کرگئے ۔کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر شنتنونرائن نے کمپنی کے ملازمین کو کی گئی ای میل میں کہا ہے کہ یہ پوری ایڈوبی برادری اور ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے بڑا نقصان ہے ۔ گیشکی کی اہلیہ 78سالہ نینسی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ دنیا کا خوش قسمت ترین شخص کہتے تھے ۔
https://www.roznama92news.com/%D9%88-%D9%BE-%D9%88%D8%B1-%DB%8C-%DB%8C-%DB%8C


ایک طویل تحقیق کے بعد دنیا کا سفید ترین پینٹ بنایا گیا ہے جو ایک جانب تو سورج کی 98 فیصد روشنی منعکس کرتا ہے اور ساتھ ہی زیریں سرخ (انفراریڈ) شعاعوں کو بھی لوٹاتا ہے۔

یہ روغن دیواروں اور عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دیگر پینٹ کے مقابلے میں یہ سطح کو ساڑھے چار درجے سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا رکھ سکتا ہے خواہ دھوپ کتنی کی ہی شدید کیوں نہ ہو۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ایک سے دو برس میں یہ پینٹ بازار میں فروخت ہوسکے گا۔

اگرچہ ہم صدیوں سے گھروں کی چھتوں کو سفید کرکے گھر کو ٹھنڈا رکھ رہے ہیں۔ اب دنیا بھر میں عالمی حدت کے تناظر میں ہم جدید عمارتوں پر بھی سفید رنگ کرکے عمارتوں کو ٹھنڈا رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ اب بھی دھوپ منعکس کرنے والے بہت سے پینٹ عام دستیاب ہیں لیکن وہ صرف 80 سے 90 فیصد روشنی ہی منعکس کرتے ہیں اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کو لوٹانے کی بجائے جذب کرلیتے ہیں۔

تاہم یہ نیا پینٹ زیریں سرخ روشنی منعکس کرکے ایئرکنڈیشننگ کی ضرورت کم کرسکتا ہے اور اس سے کاربن کے اخراج پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسے پوردوا یونیورسٹی کے پروفیسر ژائلِن روان اور ان کے ساتھیوں نے بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کا سفید ترین پینٹ ہے اور دھوپ کو پلٹانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔

پروفیسر ژائلن کے مطابق صرف 93 مربع میٹر پر روغن پھیر کر 10 کلوواٹ کے برابر ٹھنڈک پیدا کی جاسکتی ہے جو اچھے ایئرکنڈؑیشنر کے مقابلے میں بھی بہت بہتر ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا خاص مٹیریئل بیریئم سلفیٹ ہے۔

پینٹ میں موجود رنگ دار ذرات کی جسامت بھی مختلف ہے۔ سائنس دانوں نے لگ بھگ 100 مختلف مٹیریئلز کی آزمائش کے بعد سب سے بہترین امیدوار کا انتخاب کیا ہے جو بیریئم سلفیٹ ہے۔
https://www.express.pk/story/2168463/508/


سائنسدانوں نے جان لیوا گیسوں کے اخراج سے خبردار کرنے والا ایک نظام بنایا ہے جو کان کنی اور سوریج لائنوں کے علاوہ جنگوں میں فوجیوں کی جان بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔

کارخانوں اور بوائلر سے بھی بسااوقات کاربن مونوآکسائیڈ اور امونیا سمیت کئی گیسوں کا حادثاتی اخراج ہوتا ہے۔ اب ایک دستی سینسر کو جسم پر ویئرایبل کی صورت میں پہنا جاسکتا ہے جسے جنوبی کوریا کی پوہانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( پوسٹیک) نے تیار کیا ہے۔

پاکستان سمیت کئی ممالک میں کانکن کانوں یا مین ہول کی گیس کی باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں پوسٹیک کے پروفیسر جنسک رو اور ان کے ساتھیوں نے ہاتھوں میں پہنا جانے والے ہولوگرام سینسر بنایا ہے جو خطرناک گیسوں پر فوری خبردار کرتا ہے۔

انہوں نے گیس ری ایکٹو لکوئیڈ کرسٹل آپٹیکل ماڈیولیٹر بنایا ہے جو فوری طور پر ایک ہولوگرام کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جسے الارم بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس ایجاد کی تفصیل جرنل آف سائنس ایڈوانسس کی سات اپریل 2021 میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ سینسر تیل کے کنوؤں، گیس پلانٹس اور ایسے ہی دیگر خطرناک مقامات پر زندگی بچانے میں معاون ہوگا۔

اگرچہ گیس شناخت کرنے والے کمرشل سینسر دستیاب ہیں لیکن انہیں لے کر چلا نہیں جاسکتا ہے، وہ استعمال میں مشکل ہیں اور اپنے نتائج بہت دیر میں ظاہر کرتے ہیں۔ اب اس مسئلے کے حل میں ’میٹاسرفیس‘ استعمال کی ہے جو بصری دھوکوں میں اشیا کو غائب کرنے میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں روشنی کا ریفریکٹوو انڈیکس کچھ اسطرح قابو کیا جاتا ہے کہ دو طرفہ ہولوگرام یا تھری ڈی ویڈیو یا عکس حاصل ہوتا ہے۔

اسی طرح دستی آلے کی میٹاسرفیس پر ہولوگرام گیس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے ہی زہریلی گیس سینسر پر پڑتی ہے لیکوئڈ کرسٹل مالیکیول کی ترتیب بدلنے ہولوگرام تشکیل پاتا ہے۔ سب سے پہلے اس پر آئسوپروپائل الکحل کو آزمایا گیا جو خطرناک گیس ہے اور معدے اور سردرد، غنودگی ، یہاں تک کہ لیوکیمیا کی وجہ بھی بنتی ہے۔ سینسر نے اسے ایک منٹ میں شناخت کرلیا خواہ اس کی مقدار 200 حصے فی دس لاکھ تھی اور اس کی اطلاع ہولوگرام پر ظاہر ہوئی۔

یہ پورا نظام نینو کمپوزٹنگ پر بنایا گیا ہے جسے لچکدار پرت پر بنایا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زہریلی گیسوں کی شناخت میں یہ ایک مؤثر آلہ ثابت ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2168928/508/


ہر گزرتے سال پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مون سون کی بارشیں شدید ہوتی جارہی ہیں۔ اب ایک نئے ماڈل کی بدولت بالخصوص ایشیائی مون سون کی شدت ایک سال قبل معلوم کرتے ہوئے بہت حد تک اس کی درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

یہ ماڈل ایشیائی موسمِ گرما کے مون سون اور ممکنہ سائیکلون کی قابلِ اعتبار پیشگوئی بھی کرسکتا ہے اور وہ بھی بارہ مہینے قبل اس سے آگاہ کرسکتا ہے۔ اس دوران عوام اور حکومتوں کوتباہ کن موسموں کی تیاری کا مناسب وقت مل سکے گا۔

جاپان کے محکمہ موسمیات سے وابستہ یوہائی تاکایا اور ان کے ساتھیوں نے آب و ہوا کی پیشگوئی کرنے والا ایک بالکل نیا ماڈل بنایا ہے جس میں تاریخی اور تازہ ترین موسمیاتی اعداد وشمار، اس سے وابستہ ڈیٹا کے ساتھ ساتھ بحروبر میں درجہ حرارت کی تبدیلی اور دیگر فضائی کیفیاتی اتارچڑھاؤ کا احوال بھی شامل ہے۔ اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ماڈل بتاسکتا ہے کہ کب اور کیسے ایل نینو سدرن آسیلیشن رونما ہوگا اور کس شدت کا ہوگا

یوہائی نے بتایا کہ ’ ایل نینو کے عمل میں بحرِ ہند خزاں سے سردیوں تک گرم رہتا ہے اور اگلی گرمیوں تک یہی کیفیت برقرار رہے گی۔‘

اس طرح بحرِ ہند کی گرمی ایشیا کے مون سون پر غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس ماڈل میں 1980ء سے 2016ء کے درمیان بھی سمندر اور موسمیاتی ڈیٹا جمع کرکے شامل کیا گیا ہے۔ ایک سال کا ڈیٹا شامل کرنے کے بعد ماڈل بتاتا ہے کہ اگلے برس مون سون کا برساتی موسم کیسا گزرے گا۔ علاوہ ازیں ماڈل سمندری درجہ حرارت، علاقائی بارش اور ویسٹرن نارتھ پیسیفک مون سون جیسی کیفیات کی پیش بینی بھی ممکن ہے۔

کلائمٹ ماڈل میں پیشگوئی شدہ اور حقیقی مون سون کی ویلیو اگر ایک ہے تو یہ درست ترین پیشگوئی ہوگی۔ اس ماڈل سے جب جنوب مشرتی ایشیا کے درجہ حرارت کی پیشگوئی کی گئی تو اس کا اسکور 0.75 تھا۔ دوسری جانب جدید ترین موسمیاتی ماڈل بھی صرف چھ ماہ کی پیشگوئی کرسکتے ہیں تاہم یہ ماڈل ایک سال پہلے ہی بتاسکتا ہے کہ موسم کا مزاج کیسا ہوگا؟

پروفیسر یوہائی تاکایا کہتے ہیں کہ ایشیائی ممالک میں گرمیوں کی لہر نے بہت تباہی مچائی ہے اور اگر ہم ان کی پیشگوئی پہلے کرسکیں تو بہت سی جانوں کو بچانا ممکن ہوسکے گا اور مالی نقصان سے بھی بچنا ممکن ہوگا۔

پاکستان میں 2010ء کی غضب ناک بارشوں اور سیلاب کے غم اب بھی تازہ ہیں۔ اس واقعے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور 40 فیصد پاکستانی رقبہ کئی روز پانی میں ڈوبا رہا تھا۔ اگر کسی ماڈل سے ہم ایک سال قبل موسمیاتی شدت محسوس کرسکیں تو اس سے بہتر کوئی اور تدبیر نہیں ہوسکے گی۔
https://www.express.pk/story/2167743/508/


وٹامن ڈی کے متعلق ایک اور خبر آئی ہے کہ اس کی کمی بالخصوص عمررسیدہ افراد کے پٹھوں کو کمزور کرسکتی ہے۔ اسی لیے اب وٹامن ڈی کو انسانی جسم کے لیے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے

ہم جانتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی کمی سے سردی کا اثر سخت ہوجاتا ہے، جلد کی رنگت اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ اب یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ وٹامن ڈی کووڈ 19 سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سورج کی روشنی والا یہ وٹامن کئی طرح سے ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔

اب خبر یہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی عمررسیدہ افراد کے پٹھوں کے افعال، صلاحیت اور ان میں چوٹ کے بعد بحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگرچہ سورج کی دھوپ میں موجود الٹراوائلٹ روشنی کی موجودگی میں ہمارا جسم وٹامن ڈی بناتی ہے لیکن بہت سی غذا اور سپلیمنٹس سے بھی وٹامن ڈی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان غذاؤں میں چکنائی والی مچھلی، انڈے کی زردی، پنیر اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

پاکستان میں آبادی کی بڑی تعداد بالخصوص خواتین وٹامن ڈی کی شکار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں کیونکہ صرف امریکا میں ہی 40 فیصد افراد وٹامن ڈی کی کمی کے شکار ہیں۔ یہ رحجان عمررسیدہ افراد میں نمایاں ہیں۔ تاہم وٹامن ڈی پر نئی تحقیق کے لیے چوہوں کا انتخاب کیا ہے جو انسانوں سے قریب ہوتے ہیں۔ چوہوں پر کی گئی تحقیقات اور نتائج کا اطلاق انسانوں پر کیا جاسکتا ہے۔

اس مطالعے میں چوہوں کے خون اور بافتوں (ٹشوز) کے نمونے لیے گئے تاکہ وٹامن ڈی اور کیلشیئم کی مقدار کو ناپا جاسکے۔ اس طرح چوہوں میں پٹھوں میں موجود مائٹوکونڈریا کے افعال کا جائزہ لیا گیا۔

تین ماہ تک چوہوں کو وٹامن ڈی سے خالی غذا تین ماہ تک کھلائی گئی۔ ماہرین نے دیکھا کہ اس طرح ان کے پٹھے کمزور ہونے لگے اور ان کے افعال پر بھی اثر پڑنے لگا۔ دوسری جانب پٹھوں میں موجود مائٹوکونڈریائی افعال میں 37 فیصد واقع ہوئی۔ لیکن پٹھوں کے حجم اور مائٹوکونڈریا کی مقدار میں کوئی کمی نوٹ نہیں ہوئی۔

لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ وٹامن ڈی مائٹوکونڈریائی افعال شدید متاثر ہوئے۔ مائٹوکونڈریا خلیات کا ایندھن خانہ کہلاتا ہے اور پٹھوں کے لیے توانائی بناتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی سے پٹھوں کی کارکردگی یہاں تک متاثر ہوتی ہے کہ اس سے سارکوپینیا کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

آسٹریلیا میں گارون انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ کے پروفیسر اینڈریو فلپ نے اس تحقیق کے بعد کہا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ڈھانچے سے جڑے پٹھوں میں آکسیڈیٹوو اسٹریس کی وجہ بنتے ہیں اور اس کے مضر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق اور اس کے نتائج جرنل آف اینڈوکرائنولوجی میں شائع ہوئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2168481/9812/


امریکہ : کینسر کی روک تھام کیلئے ویکسین کا ابتدائی ٹرائل کامیاب
اتوار 18 اپریل 2021ء

واشنگٹن(این این آئی) امریکہ میں کینسر کی روک تھام کیلئے ایک ویکسین کا ابتدائی ٹرائل کامیاب ثابت ہوا ہے ۔محققین کے مطابق پرسنلائزڈ ویکسینز سے مریضوں کے مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکہ کے مائونٹ سینائی ہسپتال کے محققین نے ٹرائل کے نتائج امریکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کے سالانہ اجلاس میں پیش کئے ۔اس ویکسین پی جی وی001کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 13 مریضوں کو شامل کیا گیا جو ٹھوس رسولی کے شکار تھے ۔ ٹرائل کے اختتام پر چارمریضوں میں بیماری کے آثار ختم ہوگئے تھے اور انہیں مزید کوئی اور تھراپی بھی نہیں دی گئی جبکہ چارایسے مریض تھے جو زندہ تھے مگر انہیں تھراپی دی جارہی تھی جبکہ تین افراد ہلاک ہوگئے ۔محققین نے بتایا کہ اگرچہ کینسر کے علاج میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیشتر مریض ٹھوس کلینیکل ردعمل کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پرسنلائزڈ ویکسینز سے مریضوں کے مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ماہرین نے پی جی وی 001 نامی ویکسین کو تیار کیا جو ایک قسم کے امینو ایسڈ پر مشتمل ہے ، جو مریضوں کو ابتدائی علاج کے ساتھ دی گئی۔جن 13 مریضوں کو ویکسینز دی گئی ان میں سے 6 میں سر اور گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ 3 میں خون کے سفید خلیات، 2 میں پھیپھڑوں، ایک میں بریسٹ اور ایک میں مثانے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔11 مریضوں کو ویکسین کی 10 خوراکیں دی گئیں جبکہ 2 مریضوں کو کم از کم 8 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔محققین نے بتایا کہ ویکسین سے صرف 50 فیصد مریضوں کو معمولی مضر اثرات کا سامنا ہوا، یعنی 4 میں انجکشن کے مقام پر الرجی ری ایکشن ہوا جبکہ ایک فرد کو ہلکا بخار ہوگیا۔ان افراد میں ویکسین کے اثرات کا تجزیہ اوسطا 880 دنوں تک کیا گیا جس دوران 4 مریضوں میں کینسر کے شواہد ختم ہوگئے اور انہیں مزید تھراپی کی ضرورت نہیں رہی۔ان میں سے ایک مریض پھیپھڑوں کے سٹیج 3 کینسر کا مریض تھا، ایک میں بریسٹ کینسر کی چوتھی سٹیج جبکہ ایک مثانے کے سٹیج 2 کینسر اور ایک خون کے کینسر کا مریض تھا۔ٹرائل میں شامل 4 مریض اب بھی زندہ ہیں اور مختلف اقسام کی تھراپی کے عمل سے گزر رہے ہیں، جبکہ 3 کا انتقال ہوگیا، جن میں سے 2 میں کینسر پھر لوٹ آیا تھا۔
https://www.roznama92news.com/امریکہ-کینسر-کی-رو-کامیاب


جرمن طالب علموں نے ایک ویب کیم بنایا ہے جو ہوبہو انسانی آنکھ سے مشابہ ہے اور یہ دائیں اور بائیں دیکھتا ہے۔ آئی کیم نامی یہ ویب کیم درحقیقت جامعات کے طالب علموں نے بطور ایک تحقیقی پروجیکٹ تیار کیا ہے۔

آئی کیم میں انسانی آنکھ کے پپوٹے، بھنویں، پلکیں اور دیگر تفصیلات موجود ہیں جو اسے انتہائی حقیقی بناتی ہیں۔ سارلینڈ یونیورسٹی سے وابستہ مارک ٹیسیئر اور ان کے ساتھیوں نے یہ ویب کیم اپنی ’ہیومن کمپیوٹر انٹرایکشن لیب‘ میں تیار کیا ہے۔ اس سے قبل وہ مصنوعی انسانی جلد والی فون کیسنگ اور اسمارٹ فون سے جڑی مصنوعی انسانی انگلی بناچکے ہیں۔ ان دونوں ایجادات پر بہت بحث بھی ہوئی ہے۔

مارک کے مطابق اکثر دفعہ ہم ویب کیم کی جانب دیکھتے بھی نہیں لیکن اس آنکھ نما آئی کیم کو دیکھ کر ہمیں اپنی پرائیویسی اور خود کو ہمہ وقت دیکھنے کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے ۔ بس اپنی ایجاد سے ہم لوگوں کو یہی احساس دلانا چاہتے ہیں۔ ’اگرچہ ویب کیم ہمیں مستقل دیکھتے رہتے ہیں لیکن انسانی آنکھ نما ویب کیم ہمیں ’دیکھنے‘ کے ساتھ ساتھ وہ آنکھ بھی ہے جو خوشی، غم، تعجب ، دلچسپی اور بے زاری کا احساس بھی دلاتا ہے۔

آئی کیم میں انسانی آنکھ کا ڈلہ اور پتلی چار طرح کی حرکات کرسکتی ہے۔ اسے تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا ہے۔ اس میں سلیکن سے رنگ دیا گیا ہے اور اصل انسانی بالوں سے بنی بھنویں بنائی گئی ہیں۔ اس میں ایک چھوٹا سا کیمرہ بھی نصب ہے اور پوری آنکھ چھ موٹروں کی مدد سے حرکت کرتی ہے۔

آئی کیم کا تار کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی یو ایس بی پورٹ سے نصب ہوتا ہے اور یہ فوری طور پر آن ہوجاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2167319/509/


انڈیاناپولس:
امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے چار سال تحقیق کے بعد خون میں ایسے مادّے دریافت کیے ہیں جو ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسی خطرناک نفسیاتی بیماریوں کی واضح علامت ہوتے ہیں۔ ان مادّوں یعنی ’’بایومارکرز‘‘ کی بنیاد پر وہ بلڈ ٹیسٹ بھی وضع کرچکے ہیں جو فی الحال تجرباتی مراحل پر ہے۔

تفصیلات کے مطابق، انڈیانا یونیورسٹی میں نفسیاتی معالج اور اعصابیات کے ماہر، ڈاکٹر الیگزینڈر بی نکولس کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے چار سال پہلے شروع ہونے والی تحقیق میں 1600 سے زائد ایسے مطالعات کا تجزیہ کیا جن میں کسی خاص ذہنی یا نفسیاتی بیماری سے متعلق مادّوں (بایومارکرز) کی خون میں موجودگی کی نشاندہی ہوئی تھی۔

اس کھوج میں اُن پر ایسے 26 بایومارکرز کا انکشاف ہوا جو ڈپریشن، بائی پولر ڈِس آرڈر (ڈپریشن سے ملتی جلتی ایک اور بیماری) اور دیوانگی سے تعلق رکھتے ہیں اور خون میں پائے جاتے ہیں۔

مزید تحقیق کے بعد ان میں سے بھی صرف 12 بایومارکرز ایسے رہ گئے جنہیں پورے اعتماد سے ڈپریشن، بائی پولر ڈِس آرڈر اور دیوانگی (مینیا) کی تشخیص میں استعمال کیا جاسکتا تھا۔

اگلے مرحلے میں ان بایومارکرز سے وابستہ جین دریافت کرنے کے علاوہ ایک بلڈ ٹیسٹ بھی وضع کیا گیا جس کے ذریعے بطورِ خاص ڈپریشن اور بائی پولر ڈِس آرڈر کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر الیگزینڈر کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے دوران صرف بایومارکرز ہی کی نشاندہی نہیں ہوئی بلکہ ممکنہ طور پر ایسی دوائیں بھی سامنے آئی ہیں جو آج کل ڈپریشن یا اس جیسے دوسرے نفسیاتی امراض و کیفیات کے علاج میں استعمال تو نہیں کی جاتیں لیکن شاید ان کے استعمال سے مریضوں کو افاقہ ضرور ہوسکتا ہے۔

یہ ٹیسٹ کب تک عوام کےلیے دستیاب ہوگا؟ اس بارے میں ڈاکٹر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ اس کےلیے بڑے پیمانے پر آزمائشوں کی ضرورت ہے تاکہ نفسیاتی معالجین اس بلڈ ٹیسٹ کو موجودہ تشخیصی طریقوں کے متبادل کی حیثیت سے قبول کرلیں اور یہ رائج بھی ہوسکے۔

نوٹ: اس تحقیق کی مکمل تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’مالیکیولر سائکیاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2167988/9812/


اوکی ناوا:
کیڑے مکوڑوں کے جاپانی ماہرین نے اوکیناوا اور تائیوان کے جنگلات میں بڑی جسامت والے کنکھجورے کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو پانی کے علاوہ خشکی پر بھی رہ سکتی ہے، یعنی اس کا شمار ’’جل تھلیوں‘‘ (amphibians) قسم کے جانوروں میں ہوتا ہے۔

یہ دریافت ٹوکیو یونیورسٹی اور ہوسی یونیورسٹی کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی ہے۔

اس کا سائنسی نام Scolopendra alcyona ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس کا تعلق بڑی جسامت والے کنکھجوروں کی جنس ’’اسکولوپینڈرا‘‘ (Scolopendra) سے ہے جبکہ اس کی نوع ’’ایلسایونا‘‘ (alcyona) ہے۔

گزشتہ 143 سال میں یہ جاپان سے دریافت ہونے والا پہلا نیا کنکھجورا بھی ہے جس کی لمبائی 200 ملی میٹر (20 سینٹی میٹر) اور موٹائی 20 ملی میٹر (2 سینٹی میٹر) جتنی ہے۔ اسے جاپان میں ’’رایوکو‘‘ جزائر کے سلسلے میں واقعات جنگلات سے دریافت کیا گیا ہے۔

بتاتے چلیں کہ کنکھجوروں کی جنس ’’اسکولوپینڈرا‘‘ کی اب تک تقریباً 100 انواع دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے بیشتر منطقہ حارہ کے جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود، اب تک جاپان اور تائیوان کے جنگلات میں ان کنکھجوروں کی صرف پانچ اقسام ہی دریافت ہوسکی ہیں۔

اسکولوپینڈرا بڑی جسامت کے خطرناک کنکھجورے ہوتے ہیں جو بعض اوقات اپنے سے بڑی جسامت والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

ان کی بیشتر اقسام بھربھری مٹی میں بل بنا کر رہتی ہیں جبکہ نئی دریافت ہونے والی نوع سمیت، صرف تین اقسام ہی ایسی ہی جو بیک وقت خشکی اور پانی میں رہنے کے قابل ہیں۔

اس دریافت کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’زُوٹیکسا‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔


اوکی ناوا:
کیڑے مکوڑوں کے جاپانی ماہرین نے اوکیناوا اور تائیوان کے جنگلات میں بڑی جسامت والے کنکھجورے کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو پانی کے علاوہ خشکی پر بھی رہ سکتی ہے، یعنی اس کا شمار ’’جل تھلیوں‘‘ (amphibians) قسم کے جانوروں میں ہوتا ہے۔

یہ دریافت ٹوکیو یونیورسٹی اور ہوسی یونیورسٹی کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی ہے۔

اس کا سائنسی نام Scolopendra alcyona ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس کا تعلق بڑی جسامت والے کنکھجوروں کی جنس ’’اسکولوپینڈرا‘‘ (Scolopendra) سے ہے جبکہ اس کی نوع ’’ایلسایونا‘‘ (alcyona) ہے۔

گزشتہ 143 سال میں یہ جاپان سے دریافت ہونے والا پہلا نیا کنکھجورا بھی ہے جس کی لمبائی 200 ملی میٹر (20 سینٹی میٹر) اور موٹائی 20 ملی میٹر (2 سینٹی میٹر) جتنی ہے۔ اسے جاپان میں ’’رایوکو‘‘ جزائر کے سلسلے میں واقعات جنگلات سے دریافت کیا گیا ہے۔

بتاتے چلیں کہ کنکھجوروں کی جنس ’’اسکولوپینڈرا‘‘ کی اب تک تقریباً 100 انواع دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے بیشتر منطقہ حارہ کے جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود، اب تک جاپان اور تائیوان کے جنگلات میں ان کنکھجوروں کی صرف پانچ اقسام ہی دریافت ہوسکی ہیں۔

اسکولوپینڈرا بڑی جسامت کے خطرناک کنکھجورے ہوتے ہیں جو بعض اوقات اپنے سے بڑی جسامت والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

ان کی بیشتر اقسام بھربھری مٹی میں بل بنا کر رہتی ہیں جبکہ نئی دریافت ہونے والی نوع سمیت، صرف تین اقسام ہی ایسی ہی جو بیک وقت خشکی اور پانی میں رہنے کے قابل ہیں۔

اس دریافت کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’زُوٹیکسا‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
Daily Express , Dated :18-04-21


چینی اور امریکی سائنسدانوں نے ایک مشترکہ تجربے کے دوران ایسے زندہ جنین (ایمبریو) تیار کیے ہیں جو انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیوں پر مشتمل ہیں۔

اگرچہ سائنسی لحاظ سے یہ ایک اہم کامیابی ہے لیکن انتہائی متنازعہ بھی ہے کیونکہ یہی تحقیق مزید آگے بڑھا کر ’آدھا بندر، آدھا انسان‘ جیسے عجیب الخلقت جانور تیار کیے جاسکیں گے۔

واضح رہے کہ انسانوں اور حیوانوں کے خلیات میں ملاپ کی کوششیں کم از کم پچھلے بیس سال سے جاری ہیں جن میں سؤر اور بھیڑ کے خلیوں کو انسانی خلیات سے ملایا جاچکا ہے۔

طبّی نقطہ نگاہ سے یہ کوششیں ’’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘‘ (Xenotransplantation) کا حصہ ہیں، جس کا مقصد کسی جانور کے جسم میں انسانی اعضاء ’’اُگا کر‘‘ دوبارہ اسی شخص میں پیوند کرنا ہے۔

زینوٹرانسپلانٹیشن میں کامیابی کی بدولت یہ ممکن ہوجائے گا کہ ایک انسان کے جسمانی خلیات کسی جانور میں داخل کرکے مطلوبہ عضو کی ہوبہو اور جیتی جاگتی نقل اس جانور میں ’’کاشت‘‘ کرلی جائے، جسے واپس اسی انسان کے جسم میں پیوند کردیا جائے۔

اس طرح متاثرہ افراد کےلیے عطیہ کردہ اعضاء اور ان سے وابستہ دیگر مسائل بھی ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

بھیڑ اور سؤر کے مقابلے میں انسان اور بندر میں مماثلت خاصی زیادہ ہے۔ اسی بناء پر سائنسدانوں کے سامنے سوال تھا کہ اگر انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیے آپس میں ملادیئے جائیں تو کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے نشوونما حاصل کر پائیں گے؟

یہ جاننے کےلیے چینی صوبے ینان کی کنمنگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سالک انسٹی ٹیوٹ فار بایولاجیکل اسٹڈیز کے ماہرین نے یہ اہم تحقیق مشترکہ طور پر انجام دی ہے۔

انسان اور بندر کا مخلوطہ (ہائبرڈ) بنانے کےلیے مکاک بندروں کے جنین (ایمبریو) لیے گئے جو ’’بلاسٹوسسٹ‘‘ مرحلے پر تھے، یعنی وہ مرحلہ کہ جس میں جنین صرف چند خلیوں والی ایک کھوکھلی گیند کی شکل میں ہوتا ہے۔

مکاک بندر کے بلاسٹوسسٹ میں انتہائی بنیادی اور ’’ہر فن مولا‘‘ قسم کے انسانی خلیاتِ ساق (stem cells) داخل کیے گئے، جو تقسیم در تقسیم اور تفریق در تفریق کے مرحلوں سے گزر کر کسی بھی عضو کے خلیات میں بدلنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’سیل‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ان تجربات میں بندر کے ہر بلاسٹوسسٹ میں 25 انسانی خلیاتِ ساق (hEPSCs) داخل کیے گئے۔

فلوریسنٹ ٹیگنگ کی مدد سے سائنسدانوں نے بندر اور انسان کے خلیوں میں ملاپ کے بعد ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھی۔ انہیں معلوم ہوا کہ ابتدائی طور پر بندر کے 132 جنین اور انسانی خلیات بڑی کامیابی سے آپس میں مربوط ہوگئے۔

ان میں سے 103 مخلوط جنین دس دن بعد تک زندہ رہے اور نشوونما کے مراحل طے کرتے رہے۔

البتہ، اس مرحلے کے بعد یہ مخلوط جنین زیادہ تیزی سے ختم ہونے لگے، یہاں تک کہ 19ویں روز تک صرف 3 مخلوط جنین ہی زندہ بچ پائے۔

تاہم، تجربے کی حدود/ تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ جنین بھی تلف کردیئے گئے۔

مزید تفصیلات کے مطابق، یہ تجربات چین میں کیے گئے کیونکہ ایسے حساس تجربات کی سہولیات امریکا کی نسبت چین میں کہیں بہتر ہیں جبکہ چینی سائنسداں بھی اس معاملے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔

اس تجربے میں شریک ماہرین کا کہنا ہے کہ بندروں اور انسانوں کے خلیوں میں ملاپ، پچھلے تجربات کے مقابلے میں کہیں بہتر رہا۔

جینیاتی تجزیوں کی تکنیکوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نشوونما پاتے دوران اس مخلوط جنین میں خلیوں کے مابین رابطے کے انداز بھی بدل چکے تھے۔
https://www.express.pk/story/2167573/508/


ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا کا پہلا اسمارٹ فون تیار کیا ہے جوبطورِ خاص بچوں کے لیے مفید ہے۔ اسے نووس کا نام دیا گیا ہے۔

ایک ہی وقت میں یہ اسمارٹ فون، اسمارٹ واچ اور مصنوعی ذہانت والا اسپیکر بن جاتا ہے۔ یہ فورجی نیٹ ورک کو سپورٹ کرتا ہے جبکہ ویڈیوکال، آڈیو کال، اسمارٹ میسجنگ کی سہولت موجود ہے۔ بچوں کے لیے ڈیزائن کردہ اس فون میں والدین کی جانب سے لگائے جانے والے لاک اور پابندیوں کی سہولت موجود ہے اور اس فون کو تلاش کرنے کے لیے کئی آپشن دیئے گئے ہیں۔

نووس بچوں کو ورزش کی ترغیب دیتا ہے اور کسی بھی مدد کی صورت میں وہ صرف ایک بٹن دبا کر والدین کو مدد کے لیے پکار سکتے ہیں۔ روایتی اسمارٹ فون بچوں کے حوالے نہیں کئے جاسکتے کیونکہ وہ غیراخلاقی مواد دیکھ سکتے ہیں اور ویڈیو بھی بناسکتےہیں۔ اس کے علاوہ بڑا اسکرین انہیں ٹی وی کی طرح کی لت لگاسکتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسے چھوٹے ہاتھوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہےاور اس کی بیٹری روایتی فون کے مقابلے میں تین گنا زیادہ کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو پوڈ میں لگا کر یہ اے آئی اسپیکر اور گوگل اسسٹنٹ کا کام بھی کرتا ہے۔ اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فون کھولئے اور اس کا اسکرین نکال لیجئے ۔ اس کے بعد پٹہ باندھ کر اسے اسمارٹ واچ میں تبدیل کردیں۔

اس کا خاص نظام ہروقت بچے کی لوکیشن نوٹ کرتا رہتا ہے اور اگر بچہ کسی غیر آگاہ راستے پر چل پڑے تو اس کی اطلاع والدین کو بھی دیتا ہے۔ اس کا اسکرین چھوٹا اور ٹچ کے قابل نہیں اور اسی بنا نووس کی قیمت 199 ڈالر رکھی گئی ہے۔ اگر بچہ واچ میں لگا بٹن تین مرتبہ دبادے تو وہ مدد یعنی ایس او ایس کا پیغام بن کر والدین تک پہنچ جائے گا۔

اس کے علاوہ نووس میں لاتعداد سہولیات موجود ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
https://www.express.pk/story/2167385/508/


اگر آپ کے گھر میں بزرگ ہیں تو انہیں گھریلو کام کاج کرنے دیں کیونکہ اس سے ان کی دماغی صحت بہتر رہ سکتی ہے۔

ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر بزرگ افراد اپنے گھریلو کاموں کو دلجمعی سے انجام دیں تو ان کا دماغی حجم بڑھاپے کے باوجود برقرار رہ سکتا ہے اور یہی دماغی صحت ، یادداشت اور ذہنی افعال کی وجہ بھی ہوتا ہے۔

’سائنسداں پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ورزش سے دماغ پر مثبت اثرات ہوتے ہیں لیکن ہماری تحقیق نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا ہے کہ گھریلو امور کی انجام دہی کے دماغ پر یہی اثرات مرتب ہوتے ہیں،‘ مطالعے کے سربراہ نواہ کوبلنسکی نے بتایا جو رے کریسٹ روٹمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں فزیالوجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ بظاہرغیراہم گھریلوسرگرمیاں بھی بوڑھے خواتین و حضرات میں ڈیمنشیا اور دماغی انحطاط روکنے کے طریقے کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

بی ایم سی جرنل میں شائع اس رپورٹ میں 66 ایسے بوڑھے افراد کو شامل کیا گیا جو دماغی طور پر تندرست تھے۔ انہیں تین مرتبہ ہسپتال بلایا گیا جہاں ان کی صحت، دماغی ساختی تصویر کشی اور ان کی اکتسابی و ذہنی صلاحیت (کوگنیشن) کو نوٹ کیا گیا۔

اس دوران تمام شرکا سے گھریلو امور کے بارے میں بھی پوچھا گیا جن میں صفائی، کھانا پکانا، ڈسٹنگ، برتن اور کپڑے دھونے، باغبانی، مرمت اور بچوں کی نگرانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے جنہوں نے زیادہ وقت گزارا ان کے دماغ کا حجم دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ اسی طرح دماغ کے ایک اہم گوشے ہیپوکیمپس میں بہتر سرگرمی نوٹ کی گئی جو یادداشت اور سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ بوڑھے افراد اپنی دماغی صحت کے لیے گھریلو امور میں اپنا اہم کردار ادا کریں کیونکہ یہ ان کے دماغ کے لیے بہت مفید عمل ہے۔
https://www.express.pk/story/2167814/9812/


جدید برقیات کی بدولت اب صرف دال کے دانے جتنا آلہ بنایا گیا ہے جو جسم کی گہرائی میں جاکر وہاں آکسیجن کی مقدار نوٹ کرسکتا ہے۔ اس کی بدولت منتقل کردہ جسمانی اعضا کی کارکردگی اور صحت کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل ہم مقناطیسی گمک کی طیف نگاری (میگنیٹک ریزوننس امیجنگ) کو استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اس سے چند سینٹی میٹر گہری بافتوں میں ہی جھانک کر وہاں آکسیجن کا احوال دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اب نئے سینسر سے بدن کی مزید گہرائی تک کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، برکلے کے سائنسدانوں نے بہیر بوٹی کیڑے جتنا ایک وائرلیس سینسر بنایا ہے جسے ’اعصابی گرد‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حقیقی وقت میں اعصابی سگنل اور پٹھوں کی کارکردگی نوٹ کرتا ہے۔ یہ عضلات کی برقی سرگرمی میں اتار چڑھاؤ کو نوٹ کرکے اس کی معلومات الٹراساؤنڈ کی صورت میں جسم سے باہر موجود ایک آلے کو بھیجتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت جلد یہ پٹھوں کے درد اور مرگی وغیرہ کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

اس کی لمبائی ساڑھے چار ملی میٹر اور چوڑائی صرف تین ملی میٹر ہے جسے آکسیجن ناپنے والی ایک باریک پرت پر چپکایا جاتا ہے۔ اس نظام میں ایک خردبینی ایل ای ڈی اور آپٹیکل فلٹر بھی شامل ہے جو اطراف کے ٹشوز (بافتوں) میں آکسیجن کی مقدار نوٹ کرتا ہے۔

اب یہاں پیزوالیکٹرک (داب برق) کرسٹل برقی سگنلوں کو الٹراساؤنڈ امواج بناتا ہے اور بیرونی آلے تک بھیجتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جسم کی گہرائی میں مختلف کیفیات معلوم کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پر کام کرنے والے پروفیسر مائیکل مہاربز کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سمجھداری سے اسمارٹ انٹی گریٹڈ سرکٹ بنایا ہے جو بدن کی گہرائی میں جاکر ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔

اسے بھیڑ بکریوں پر آزمایا گیا ہے اور اسے نومولود بچوں کی جان بچانے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پیدائشی بچوں کو آکسیجن کی درست مقدار دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرجری کے بعد پیوند کی کیفیت، سرطانی رسولی کے جائزے اور ریڈی ایشن کے بعد اس کی کیفیت معلوم کرنے میں بھی یہ بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے مزید بہتر بنا کر اسے جسم میں پہنچانے کا نظام مؤثر اور بہتر بنایا جائے گا۔ معمولی تبدیلی کے بعد جسم میں تیزابیت، شکر، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایچ وغیرہ ناپنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2167347/9812/


موٹاپا کم کرنے کے طریقے
Apr 15, 2021 | 18:21:

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)موٹاپے سے نجات کے لیے لوگ کڑی ڈائٹنگ شروع کر دیتے ہیں جس سے موٹاپا تو کسی طور کم ہو جاتا ہے لیکن کمزوری اور دیگر نقصانات جھیلنے پڑ جاتے ہیں اور جب فاقہ کشی سے ذرا ہاتھ کھینچا تو موٹاپا بھی واپس آنے لگتا ہے۔ اب ایک بھارتی ماہر غذائیات نے صحت مندی کے ساتھ موٹاپا کم کرنے کا آسان طریقہ بتادیا ہے۔ ویب سائٹ healthshots.com کے مطابق پارول ملہوترا بہل نامی اس خاتون ماہر غذائیات نے بتایا ہے کہ موٹاپے سے نجات کے لیے سب سے پہلے اپنی خوراک میں شامل نظر آنے اور نظر نہ آنے والی دونوں قسم کی شوگر کو کم کریں۔ نظر نہ آنے والی شوگر کا پتا چلانے کے لیے کھانے کی اشیاءکے لیبل بغور پڑھیں۔ ان پر براہ رست شوگر نہیں لکھا ہوتا بلکہ سکروز، گلوکوز، ہنی، فرکٹوز و دیگر نام لکھے ہوتے ہیں جو درحقیقت شوگر ہی ہے۔


پارول ملہوترا نے دوسرا حربہ یہ بتایا کہ اپنی خوراک میں سے ریفائنڈ گرینز (سفید آٹا اور میدہ)کم کریں۔ اس کے بجائے دلیہ، باجرا، جوار اور دیگر ہول گرینز کا استعمال کریں۔ تیسرے نمبر پر اپنی خوراک میں پروٹین کی مقدار پوری رکھیں۔ آپ کی خوراک میں شامل تمام کیلوریز کا 30فیصد پروٹین سے آنا چاہیے۔ اس کے لیے انڈے، مرغی اور مچھلی کا گوشت، سویا اور اس کی مصنوعات، ڈیری مصنوعات اور خشک میوہ جات وغیرہ استعمال کریں۔

پارول ملہوترا نے بتایا کہ موٹاپا کم کرنے کے خواہش مندوں کو چوتھے نمبر پر اپنی خوراک میں صحت مندانہ قدرتی چکنائی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ پانچویں نمبر پر اپنی خوراک میں ایسی اشیاءکا اضافہ کریں جو فائبر اور سرکے کی حامل ہوں۔ چھٹے نمبر پر فاقہ کرنے کی مشق کریں لیکن مسلسل فاقے کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے کریں اور اسے اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنا لیں۔ساتویں نمبر پر لوگوں کو ذہنی پریشانی اور نیند کو بھی منظم کرنا چاہیے۔ یہ موٹاپے سے نجات کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ اس کے لیے یوگا او ورزش وغیرہ کو معمول بنائیں۔پارول ملہوترا کا کہنا تھا کہ ان 7طریقوں پر عمل کرکے آپ صحت مندی کے ساتھ موٹاپا کم کر سکتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/15-Apr-2021/1277054?fbclid=IwAR0Hs3a3cbi6VixlfOVNYr-AIpS6Yc7hGC1il4VbNY5XZCiieZKZxpBEPdM


واشنگٹن ڈی سی:
امریکا کی ایک اسٹارٹ اپ کمپنی ایپیرس انکارپوریٹڈ نے ’’لیونیڈاس‘‘ کے نام سے ایک دفاعی نظام تیار کیا ہے جو حملہ آور ڈرونز کو طاقتور مائیکروویوز کی مدد سے فضا میں ہی تباہ کرسکتا ہے۔

لیونیڈاس نظام کا بنیادی اصول وہی ہے جس پر گھروں میں عام استعمال ہونے والے مائیکروویو اوون تیزی سے کھانا گرم کرتے ہیں۔

البتہ اس سے خارج ہونے والی مائیکروویوز، گھریلو اوون کے مقابلے میں کئی گنا طاقتور اور مرکوز ہوتی ہیں جو کسی ڈرون کے برقی آلات کو پلک جھپکتے میں بھون کر ڈرون کو تباہ کر ڈالتی ہیں۔

لیونیڈاس کا موجودہ پروٹوٹائپ خاصا بڑا ہے جو کسی چھوٹے ٹرک/ لوڈر گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ ایپیرس میں اسی ہتھیار کے ایک مختصر ڈیزائن پر بھی کام کیا جارہا ہے جسے ایک سپاہی بھی بہ آسانی اٹھا سکے گا۔

خبروں کے مطابق، ایپیرس کمپنی اب تک اسٹارٹ اپ فنڈنگ کی مد میں 7 کروڑ (70 ملین) ڈالر سے زائد کی رقم جمع کرچکی ہے جبکہ امریکا کے کسی ’’نامعلوم‘‘ سرکاری ادارے کے سامنے لیونیڈاس نظام کا عملی مظاہرہ بھی کرچکی ہے۔

چند ماہ پہلے کیے گئے اس مظاہرے میں لیونیڈاس نظام نے 66 ڈرونز تباہ کیے جو فضا میں اُڑ رہے تھے؛ جبکہ اس دوران بعض مرتبہ ایک ہی وار میں کئی ڈرونز ایک ساتھ تباہ کر ڈالے۔

لیونیڈاس میں سالڈ اسٹیٹ گیلیئم نائٹرائیڈ ایمیٹرز لگے ہیں، جیسے کہ فائیو جی مواصلاتی آلات میں استعمال ہوتے ہیں۔

بتاتے چلیں کہ طاقتور مائیکروویوز پیدا کرنا اگرچہ ایک مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل کام ان مائیکروویوز کو مطلوبہ سمت میں درست طور پر مرکوز رکھنا ہے کیونکہ اگر یہ لہریں اپنے ہدف سے چُوک کر اِدھر اُدھر ہوگئیں تو آس پاس بجلی کی تنصیبات اور عام استعمال کے آلات کو بھی تباہ کرسکتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2167182/508/


ہارورڈ: کئی تحقیقات کے بعد اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں بھی کہہ رہے کہ بچوں کو بات بات پر مارنے سے گریز کریں کیونکہ یہ رویہ ان میں ڈپریشن، بے چینی، رویے میں تبدیلی اور یہاں تک کہ کسی لت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو مارنا ان کے دماغ پر عین اسی طرح اثرڈالتا ہے جس طرح شدید نوعیت کا تشدد یا زیادتی اثرانداز ہوتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر کیٹی مک لافلن اور جان لوئب نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنا اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے، علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے لیکن اس میں 147 ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا جو اسکول یا گھر میں مار کے شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (پی ایف سی) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین نے والدین اور اساتذہ سے گزارش کی ہے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سر پر مارنے سے گریز کریں۔

بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور جوانی تک اس کے اثرات برقرار رہتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2166952/9812/


اونٹوں کو ’ایکسیڈنٹ‘ سے بچانے کیلئے چین کا سنجیدہ قدم
 15 April, 2021

چینی حکام نے ڈنہوانگ شہر میں منگشا پہاڑ اور کریسنٹ سپرنگ کے مقامات پر اونٹوں کیلئے دنیا کے پہلے ٹریفک سگنل نصب کر دئیے ہیں

بیجنگ(نیٹ نیوز)مذکورہ علاقہ تفریح کیلئے مقبول ہے اور سیاح یہاں اونٹوں پر بہت شوق سے سواری کرتے ہیں، ٹریفک سگنل کی تنصیب کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہاں اونٹوں کے ٹکراؤ سے بچا جا سکے ۔یہ سگنل بھی دوسرے عام ٹریفک سگنلز کی طرح جب سبز ہوں گے تو اونٹ سڑک پار کریں گے اور سرخ ہوں گے تو اونٹ رُک جائیں گے ۔واضح رہے کہ منگشا ماؤنٹین کو ‘گاتے ریت کے ٹیلے ’ بھی کہا جاتا ہے ، کیوں کہ یہاں جب تیز ہوا چلتی ہے تو ریت کے ٹیلوں سے گانے یا ڈرم بجانے جیسی آوازیں آتی ہیں۔یاد رہے کہ رواں برس فروری میں دبئی پولیس نے ایک نوجوان کو ایک قیمتی نسل کے اونٹ کا بچہ چرانے کے جرم میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تھا ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-15/1808937


شورکی آلودگی پودوں کیلئے نقصان دہ ہے :ماہرین
 15 April, 2021

ماہرین نباتات نے شور کی آلودگی کو درختوں کی تعداد اور پودوں کے تنوع کیلئے خطرہ قرار دے دیا

پیرس (اے ایف پی) ماہرین نے نیو میکسیکو میں درختوں پر شور کے اثرات کی ریسرچ کے بعد اپنی سٹڈی میں کہا کہ پھولدار پودوں میں بیج بننے کا باعث بننے والے حشرات اور بیجوں کو پھیلانے والے پرندوں نے شور والے ان مقامات پر آنا چھوڑ دیا جس سے مختلف پودوں میں بیجوں کی پیداوار 75 فیصد تک کم ہو گئی ۔ ماہرین کے مطابق شور میں کمی حشرات اور پرندوں کی واپسی کا باعث بن سکتی ہے جس سے بیجوں کی پیداوار بھی معمول پر آ جائے گی۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-04-15/1808981


بلیوں کو گھروں میں بہ طور پالتو جانور پالنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بھی بہت عام ہے۔ امرا پرشین بلی پالتے ہیں تو غریب افراد گلی محلوں میں گھومنے والی بلی کے لیے گھر میں ہی ایک کونا مختص کردیتے ہیں۔

بلی ایک ایسا بن بلایا مہمان ہے جو پالتو نہ ہوتے ہوئے بھی آپ کے گھر میں ہر وقت براجمان رہتا ہے۔ اورجانوروں سے محبت کرنے والا کوئی بھی فرد اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ موہنی سی صورت والے اس معصوم جانور کو بیماریوں کے پھیلائو کا ذمے دار قرار دیا جائے۔ بلیوں اور ان کے بالوں سے الرجی کی باتیں تو زبان زدو عام ہیں، لیکن نئی امریکی تحقیق نے بلی کو سنگین دماغی عارضے کا ممکنہ محرک بھی قرار دے دیا ہے۔

امریکی ادارے’سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن‘کےاعداد و شمار کے مطابق تقریبا 4 کروڑ امریکیوں کے دماغ میں ایک پیرا سائٹ (طفیلیہ) Toxoplasma gondii پرورش پا رہا ہے جو کہ انسانوں میں برین کینسر اور سِکروفیرینا(مالیخولیا) کا سبب ہے۔

اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر روبرٹزکی کا کہنا ہے کہ یہ طفیلیا پالتو بلیوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ امریکن کینسر سوساسائٹی کی تحقیق کے مطابق

ہم نے اس طرف جانب ٹاکسو پلازموسس (ایک قِسم کا اعصابی نِظام کا عارضہ جو ریشوں میں یک کیسہ طفیلیوں کی کثرت کے سبب پیدا ہو جاتا ہے) کی وجہ سے توجہ دی، کیوں کہ اس بیماری کا سبب ٹاکسو پلازما نامی طفیلیا ہے، جو کہ درج بالا طفیلیے کے متوازی انسانی دماغ میں پرورش پاتے ہوئے برین کینسر یا رسولی بننے کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ دو مختلف مطالعوں سے ان دونوں طفیلیوں کے درمیان واضح ربط ظاہر ہوتا ہے ۔ لیکن اس اسٹدی سے ان پیراسائٹس اور دماغ کے کینسر کے درمیان ربط کے ٹھوس شواہد ابھی تک نہیں مل سکے ہیں، جس کے لیے مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال کوپن ہیگن یونیورسٹی کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ بلی کے پیشاب میں پایا جانے وال طفیلیہ Toxoplasma gondii عموما بےضرر ہوتا ہے، لیکن کچے گوشت کی بدولت یہ انسانوں میں منقتل ہوکر انہیں مالیخولیا (دماغی بیماری) میں مبتلا کرسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2166870/9812/


یورپی یونین نے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر پابندی کے لیے قانون سازی کرلی ہے۔ جس کے تحت نگرانی کے لیے چہرے کی شناخت اور انسانی طرز عمل میں تبدیلی لانے والے مصنوعی ذہانت کے الگوریتھم پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی آفیشل پبلی کیشنز سے افشا ہونے والی نہایت وسعت کے حامل ان مجوزہ قوانین میں آرٹیفیشل اینٹلی جنس (مصنوعی ذہانت)کو ہائی رسک قرار دیتے ہوئے سخت قوانین بنانے کا عہد کیا گیا ہے۔ جس میں پولیس اور ان کی بھرتی میں استعمال ہونے والا الگورتھم (حِساب و شُمار کا عمل یا اِس کے قواعد خصوصاً کمپیوٹر کے ذریعے مسائل کا حل) بھی شامل ہے۔

ٹیکنالوجی کو کور کرنے والی برطانوی صحافی میلیسا ہیکیلا نے بھی اپنی ٹوئٹ میں یورپین کمیشن کے افشا ہونے والے قوانین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن یورپ میں ہائی رسک آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا خواہش مند ہے۔

یورپی یونین کی ان تجاویز کو ٹیکنالوجی کے ماہرین نے غیر واضح اور خامیوں پر مبنی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے ان مجوزہ قوانین کے تحت ٖفوج اور عام آدمیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے نظام میں استعمال ہونے والی مصنوعی ذہانت کو استثنی حاصل ہوگا۔

مجوزہ قوانین کے تحت مصنوعی ذہانت کاعوامی رائے عامہ، فیصلوں اور انسانی طرزعمل پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال یا ڈیزائن کرنا، جن سے کسی فرد کی رائے تبدیل ہواور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹمز کےعمومی انداز میں بلا امتیاز نگرانی کے لیے استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی۔

یورپی یونین کے لیک ہونے والے 80 صفحات کے ان مجوزہ قوانین نے ٹوئٹر پر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے ۔ یورپین پالیسی اینالسٹ ڈینیئل لیفر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’ ہم کیسے اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ کسی نقصان پہنچا ہے ؟ یا اس کی جانچ کون کرے گا؟
https://www.express.pk/story/2166930/508/


سوشل میڈیا پر پچھلے ایک سال سے اُڑن طشتریوں سے متعلق وائرل ہونے والی ویڈیو اور چند تصاویر کے بارے میں پنٹاگون نے اعتراف کیا ہے کہ وہ واقعی اصلی ہیں جنہیں کسی نے جعلسازی کرکے نہیں بنایا ہے۔

یہ ویڈیو اور تصاویر ’’مسٹری وائر ڈاٹ کام‘‘ کے سینئر صحافی نیپ نے پچھلے چند سال کے دوران وقفے وقفے سے جاری کی ہیں جبکہ ویڈیو جاری کرنے والے صاحب جیریمی کوربیل ہیں جو ’’ایکسٹرا آرڈینری بیلیفس ڈاٹ کام‘‘ نامی ویب سائٹ کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔

امریکی نیوز ویب سائٹ ’’دی بلیک والٹ‘‘ کی ایک ای میل کے جواب میں پنٹاگون کی ترجمان سوزین گوخ نے لکھا کہ وہ ویڈیو واقعی میں اصلی ہے جو پچھلے سال امریکی بحریہ کے ایک اہلکار نے (غالباً نائٹ وژن کیمرے کی مدد سے) بنائی تھی۔

اس ویڈیو میں سبز رنگ کا پس منظر ہے (جیسا کہ نائٹ وژن میں عام ہوتا ہے) جو رات کے آسمان کو ظاہر کررہا ہے جبکہ اس میں چمکدار اور سفید رنگت والی ایک مثلث نما (اہرامِ مصر جیسی) کوئی چیز اُڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

ویڈیو کی طرح تصاویر میں بھی الگ الگ شکلوں والی کچھ چمک دار لیکن نامعلوم ’’اُڑن اشیاء‘‘ دیکھی جاسکتی ہیں۔

پنٹاگون کی ترجمان نے اپنی ای میل میں لکھا: ’’میں ان تصویروں اور ویڈیوز کے حوالے سے تصدیق کرسکتی ہوں کہ یہ امریکی بحریہ کے اہلکار نے لی تھیں۔ یو اے پی ٹاسک فورس نے ان واقعات کو اپنے جاری تجزیات میں شامل کرلیا ہے۔‘‘

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اُڑن طشتری (UFO) کو پچھلے چند سال سے ’’ان آئیڈنٹی فائیڈ ایریئل فینومینا‘‘ (UAP) بھی کہا جانے لگا ہے۔

اُڑن طشتریوں اور ایسے ہی دوسرے ناقابلِ فہم فضائی مشاہدات کو طویل عرصے تک نظر انداز کرنے کے بعد، بالآخر امریکی محکمہ دفاع (ڈی او ڈی) نے گزشتہ سال اگست میں ’’یو اے پی ٹاسک فورس‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ منصوبہ شروع کردیا ہے جس کا مقصد ان ہی واقعات کی کھوج کرتے ہوئے اصل حقیقت تک پہنچنا ہے۔

پنٹاگون کی ترجمان نے اپنی ای میل میں اس ویڈیو اور تصویروں کے درست ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن مزید تفصیلات بتانے سے گریز بھی کیا ہے: ’’جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، کارروائیوں کا تحفظ برقرار رکھنے اور دشمنوں کےلیے ممکنہ طور پر مفید معلومات افشا ہونے سے بچنے کےلیے، محکمہ دفاع ایسے کسی بھی واقعے سے متعلق مشاہدے یا تجزیئے کی تفصیلات پر عوام کے سامنے کوئی بات نہیں کرتا جو ’غیر شناخت شدہ ہوائی مظہر‘ (UAP) ہو اور جو ہمارے (امریکا کے) تربیتی علاقوں اور باضابطہ فضائی حدود میں رونما ہوا ہو۔‘‘

آسان الفاظ میں اس پیچیدہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ اُڑتی ہوئی نامعلوم چیزوں/ اُڑن طشتریوں پر امریکی فوج والے جو اور جیسی بھی تحقیق کررہے ہیں، اس کے بارے میں عام لوگوں کو کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔

پنٹاگون کی ترجمان نے یہ بھی بتانے سے انکار کردیا کہ ویڈیو اور تصاویر میں جو ’’نامعلوم‘‘ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں، کیا وہ اب تک نامعلوم ہیں یا ان کے بارے میں کچھ اور بھی پتا چلا ہے: ’’جو کچھ میں آپ کو بتا چکی ہوں، اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں،‘‘ ترجمان پنٹاگون نے اپنی ای میل میں لکھا۔

ان خبروں کے بعد سے دنیا بھر میں خلائی مخلوق پر یقین رکھنے والوں کے جوش و خروش میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2167221/509/


لندن:
ٹیکنالوجی کی بدولت اب مختصر اور ٹیکنالوجی سے بھرپور ایسے آلات تیار کئے جارہے ہیں جو آپ کے کئی امور کو آسان بناسکتےہیں۔ ایسی ہی ایک ایجاد اسکین مائرا ہے جس کی بدولت آسانی سے کسی بھی شے کی تھری ڈی اسکیننگ منٹوں میں کرکے اس کے ماڈل بنائے جاسکتےہیں۔

اب فون پر ایک چھوٹا سا آلہ لگا کر کسی بھی شے کارنگین تھری ڈی ماڈل بنایا جاسکتا ہے۔ مائرااسکین کا یہ دوسرا ماڈل ہے جس میں بہت بہتری کی گئی ہے۔ لیکن یہ آلہ اتنا سادہ ہے کہ یقین نہیں آتا کہ اس سے پیچیدہ اور تفصیلی تھری ڈی اسکیننگ کی جاسکتی ہے۔ یہ آئی فون کے فیس آئی ڈی سے بھی بہتر کام کرتا ہے۔ لیکن فیس آئی ڈی میں بہت سی خامیاں بھی ہوتی ہیں۔

فی الحال یہ آئی فون ماڈلز پر کام کرتا ہے کیونکہ یہ فیس آئی ڈی فیچر پر کام کرتا ہے اور بہترین تھری ڈی ماڈل کشید کرتا ہے۔ اسکین مائرہ کی بدولت آپ اسکرین دیکھ کر اسکیننگ کرسکتے ہیں۔ اس طرح بہت اچھے اسکین حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

اسکین مائرا ایک سادہ آئینہ ہے جس کی بدولت تھری ڈی ماڈلنگ کی جاسکتی ہے۔ مائرااسکین کمپنی کا مشورہ ہے کہ اسکیننگ میں آپ ای ایم تھری ڈی ایپ استعمال کیجئے جس کے بہتر نتائج حاصل ہوسکتےہیں۔ یہ ایپ اسٹور پر دستیاب ہے اور آئی فون اور آئی پیڈ پر آسانی سے چل سکتی ہے۔

اس کی بدولت آپ اسنیپ چیٹ لینس، اے آر تصاویر اور تھری ڈی پرنٹر کے لیے ڈیزائن بھی بناسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2166622/508/


جرمنی:
سائنسدانوں ںے تحقیق کے بعد کہا ہے کہ پلاسٹک سازی میں استعمال ہونے والے دو عام کیمیکل دماغ کو بہت شدید نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

پلاسٹک کی تھیلیاں ہوں یا بوتلیں ان میں بی پی اے اور بی پی ایس عام استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں بسفینول اے کو بی پی اے اور بسفینول ایس کو بی پی ایس کہاجاتا ہے۔ ایک عرصے سے ان دونوں کیمیائی اجزا کے مضر اثرات پر بحث ہوتی رہی ہے لیکن حالیہ تحقیق سے بی پی اے اور بی پی ایس کے انسانی دماغی خلیات پر مضر اثرات ریکارڈ ہوئے ہیں اور شاید یہ منفی اثرات بہت دیر تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

بی پی اے کئی عشروں سے غذا، مشروبات اور دیگر اشیا کی پیکنگ میں استعمال ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اینڈوکرائن غدود کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ سرطان کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ اس کے بعد بی پی اے سے پاک پلاسٹک سازی کا دور شروع ہوا لیکن کہیں کہیں اس سے پلاسٹک بن رہے ہیں۔

پھر بی پی اے کی جگہ بسفینول ایس یا بی پی ایس کو پلاسٹک سازی میں متعارف کرایا گیا اور بعض تحقیقات اسے محفوظ قرار دیتی ہیں۔ لیکن اب ایک سال تک چوہوں پر کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ خود بی پی ایس والے پلاسٹک بھی کم نقصاندہ نہیں ۔ یہ جین کی سرگرمی کو متاثرکرتے ہیں، ماں کے پیٹ میں بچوں کی دماغی خرابی کی وجہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ نشوونما کو متاثر کرتے ہوئے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس ضمن میں پہلے ایک گولڈ فش پر تحقیق کی گئی جو ایک ماہ تک بی پی اے اور بی پی ایس والے ماحول میں رکھی گئی تھی۔ یہ تحقیقی بائے ریوتھ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں مچھلی کے دماغ کا الیکٹروفزیالوجیکل جائزہ لیا گیا تھا۔ اس میں مچھلی کے دو بڑے دماغی خلیات پر غور کیا گیا جو موتھنر سیل کہلاتے ہیں اور اسے کئی طرح کے احساس اور شکار سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔

ماہرین نے نوٹ کیا کہ پلاسٹ کے یہ اجزا مچھلی کے پورے اعصابی نظام کو متاثر کررہے ہیں۔ تحقیق سے وابستہ ایلسبتھ شرمر کہتی ہیں کہ مچھلیوں میں آہستہ آہستہ یہ نقصان رونما ہوا اور ایک ماہ میں اس کی واضح علامات سامنے آئیں۔ خیال ہے کہ عین اسی طرح بی پی ایس انسانوں کو بھی متاثرکرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ بالغ انسان کے دماغ پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔

سائنسدانوں نے زور دیا ہے کہ پلاسٹک صنعت پی بی ایس کی جگہ کوئی نیا متبادل کیمیکل استعمال کرے کیونکہ یہ انسانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2166580/9812/


ایڑیوں کے دردسے نجات کا طریقہ
Apr 13, 2021 | 17:59:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) عمر رسیدہ لوگوں، بالخصوص خواتین میں ایڑیوں کا درد بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس عارضے کو ’ہیل سپر سنڈروم‘ (Heel spur syndrome)بھی کہا جاتا ہے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ماہر ڈاکٹر مارٹن سکیور نے اب اس درد سے نجات کا طریقہ لوگوں کو بتا دیا ہے۔

میل آن لائن کے مطابق ڈاکٹر مارٹن کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ درد ایڑی کے اندر یا اس کے پیچھے ہوتا ہے جہاں پنڈلی سے ایڑی تک آنے والا طاقتور پٹھا ایڑی کی ہڈی سے جڑتا ہے۔ کئی بار یہ درد ایڑی کے اطراف میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ ایڑی کے اندر ہو تو اسے Plantar Fasciitisکہا جاتا ہے اور ایڑی کا یہی درد سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تاہم اگر درد ایڑی کے پیچھے ہو تو اسے Achilles Tendinitisکا نام دیا جاتا ہے۔


ڈاکٹر مارٹن کا کہنا تھا کہ ”ایڑی کے نیچے والا درد عام طور پر زیادہ دباﺅ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس سے پاﺅں کی بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ان میں اکڑن پیدا ہو جاتی ہے۔ ایڑی کے پیچھے ہونے والا درد پنڈلی سے ایڑی تک آنے والے پٹھے کو پہنچنے والی کسی چوٹ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی اس درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ درد لاحق ہے انہیں ایسے فٹنگ والے جوتے پہننے چاہئیں جو پیروں کو سپورٹ فراہم کریں۔ اس کے علاوہ انہیں جسمانی سرگرمی کے اعتبار سے درست جوتوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ورزش سے قبل پٹھوں کو سکریچ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ جتنا ہو سکے آرام کریں اور بوقت ضرورت ایڑی کو اٹھا کر چلیں، روزانہ دوبار دس سے پندہ منٹ تک برف کی ٹکور کریں۔ عام درد کش ادویات کا استعمال کریں۔اگر ان تدابیر کے بعد بھی درددوسے تین ہفتے تک برقرار رہتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/13-Apr-2021/1276184?fbclid=IwAR3XNgJ-FPgvNghvk1YQoxvehIcqmtCVjsRmFYiUdiSiaDdXtdI0KRiiniQ


کراچی:
اب سے لگ بھگ 25 کروڑ 20 لاکھ سال قبل زمین پر جان داروں کی بڑی تعداد فنا ہوگئی تھی جسے پرمیئن ٹرائیسک ماس ایکسٹنشن (پی ٹی ایم ای) کہا جاتا ہے۔ اب اس کے تازہ ثبوت پاکستان اور چین سے ملے ہیں۔

زمین کی کروڑوں سال کی حیاتیاتی تاریخ میں کئی ادوار ایسے آئے ہیں جب کرہِ ارض پر حیات کی بڑی اقسام ناپیدگی کے قریب پہنچ گئی تھی۔ یہ عمل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیرمعمولی اخراج کی وجہ سے ہوا تھا اور خیال ہے کہ اس طرح معمول سے 6 گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوئی۔

اب سے لگ بھگ 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای میں سمندر کی 90 فیصد انواع اور خشکی پر ریڑھ کی ہڈیوں والی 70 فیصد انواع قصہ پارینہ ہوگئی تھیں اور عین اتنی پرانی چٹانوں میں مختلف جانوروں کے فوسلز(رکازات) ملتے ہیں۔

جس مقام پر اس کے آثار ملتے ہیں انہیں ارضیات داں پرمیئن ٹرائسک باؤنڈری کہتے ہیں۔ اس موقع پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت کئی گیسوں کا غیرمعمولی اخراج ہوا نتیجے میں شدید گرمی بڑھی اور جاندار حال سے بے حال ہوکر مرنے لگے۔

اگرچہ ارضیاتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ثبوت تو ملے ہیں لیکن اس کے اخراج کا مستقل سلسلہ نہیں مل سکا تھا جو اب چین اور پاکستان سے ریکارڈ ہوا ہے۔ چینی جامعہ برائے ارضیاتی علوم، مونٹ کلیئر اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کے سائنس دانوں نے اس سلسلے میں اپنی نئی تحقیق پیش کی ہے جو ہفت روزہ جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔

ماہرین اس ڈرامائی صورتحال کو اپنی زبان میں ’عظیم موت‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے پودوں، مٹی اور دیگر سمندری اجسام میں کاربن تھری اور کاربن 13 آئسوٹوپس کا سراغ لگایا ہے۔

اس طرح چار مختلف ادوار اور مقامات میں پاکستان اور چین شامل ہیں جہاں عین 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای کے دوران کاربن آئسوٹوپس کا غیرمعمولی اخراج ملا ہے اور اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ شاید اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج معمول سے چھ گنا تھا۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ چونکہ حرارت پیدا کرنے والی گرین ہاؤس گیس ہے اور اسی وجہ سے بہت تیزی سے زمینی درجہ حرارت بڑھا تھا۔ خیال ہے کہ سمندری درجہ حرارت اوسط سے 10 درجے سینٹی گریڈ بڑھا اور زمینی اوسط درجہ حرارت بھی 35 درجہ سینٹی گریڈ تک جاپہنچا تھا۔

پھر یاد رہے کہ پی ٹی ایم ای کا سلسلہ کم سے کم پانچ لاکھ سال تک برقرار رہا اور اس طرح انواع کی بڑی تعداد تیزی سے دم توڑ گئی تھی۔
https://www.express.pk/story/2166332/508/


لندن:
فطرت کے کارخانے میں کئی کیڑے، پتنگے اور جاندار خود کو بچانے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں اور پنک انڈروِنگ پتنگے کا کیڑا (کیٹرپِلر) کسی شکاری کو دیکھ کر اپنا جسم سکیڑلیتا ہے اور چہرے کو بڑا کرلیتا ہے۔ اس طرح سے اس کی آنکھیں بڑی اور واضح دکھائی دیتی ہیں اور چہرے کے نقوش بڑے دانتوں کی طرح دکھائی دیتےہیں۔

نایاب گلابی انڈروِنگ پروانہ (موتھ) برطانیہ، کوئنزلینڈ اور نیوگنی میں پایا جاتا ہے۔ یہ گلے سڑے پھلوں کو کھاتا ہے اور اس کے پر کے نیچے گلابی دھاریاں ہوتی ہیں۔ اپنے رنگ کی وجہ سے بہت سے شکاری اس پر رال ٹپکاسکتے ہیں۔ لیکن اس کا کیڑا شروع میں کتھئی رنگ کا ہوتا ہے۔ بڑا ہونے پر اس کے چہرے پر دو بڑے گہرے دھبے نمودار ہوجاتے ہیں۔ اور روشن پیلی دھاریاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ بڑے دھبے خوفناک آنکھوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں اور سفید دھاریوں کی دو قطاریں نوکیلے دانتوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔

اس کیڑے کو بڑے سر والا کیٹرپِلر بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس کا اصلی سر نہیں بلکہ خطرے کے وقت وہ اپنے سر کو کھینچ کر بڑا کرلیتا ہے۔ اس کا سر گویا ایک کھوپڑی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور بڑی آنکھوں پر خوفناک دانتوں کا گمان ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح جو بڑا کیڑا یا جانور اسے نوالہ بناتا ہے وہ خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

اس طرح فطرت میں روپ دھار کر خود کو بچانے والی یہ ایک بہترین مثال ہے۔ اس سے قبل ہم پتے نما کیڑوں، سانپ کا چہرہ بنانے والے کیٹرپلر اور دیگر ایسے ہی جانوروں کو قدرتی انداز میں دیکھ چکے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2166265/509/


ٹوکیو:
یونیورسٹی آف سوکوبا کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر باقاعدہ ورزش کی جائے اور وزن کم کیا جائے تو اس سے جگر کی بظاہر عام لیکن خطرناک بیماری ’نان الکوحلک فیٹی لیور‘ بیماری میں کمی کی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ ورزش جگر کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

دنیا میں چوتھائی سے زائد آبادی ’نان الکوحلک فیٹی لیور ڈیزیز (این اے ایف ایل ڈٰی) کی شکار ہے لیکن یہ کیفیت آگے چل کرجگر کی مزید بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ جگر فیل بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح ورزش اس کیفیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

صرف جاپان میں ہی درمیانی عمر کے 41 فیصد افراد این اے ایف ایل ڈی میں مبتلا ہے۔ اس کے لیے سوکوبا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پروفیسر جیونیکی شودا نے این اے ایف ایل ڈی میں مبتلا کئی افراد کو غذائی پلان دیا اور انہیں ورزش بھی کروائی۔ اس میں جگر کے کئی عوامل مثلاً ایڈائپوز ٹشو میں کمی، پٹھوں کی قوت، جلن اور آکسیڈیٹوو اسٹریس اور خاص جینز (این آر ایف ٹو) کی سرگرمی کو نوٹ کیا گیا۔

انکشاف ہوا کہ ورزش سے ایک جانب تو پٹھے مضبوط ہوئے اور بڑی حد تک بدن کی چربی میں کمی واقع ہوئی۔ اس طرح جگر اسٹیٹوسِس یں 9 فیصد، جگر کی سختی میں قریباً 7 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ایک قسم کے لیور فائبروسِس میں 16 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

ورزش کی بدولت جگر کے کئی مفید کیمیکل بڑھے اور جگر کو سرگرم رکھنے والے کیوپفر خلیات میں بھی اضافہ ہوا۔ پروفیسر جیونیکی شودا کہتے ہیں کہ ورزش کے جگر پر فوائد بالکل واضح ہیں۔ یہ این اے ایف ایل ڈی کی کیفیت میں فائبروسِس اور لیور اسٹیٹوسِس کو روکتی ہے۔

لیکن ماہرین کا مشورہ ہے کہ بہتر فوائد کے لیے ضروری ہے کہ سخت یا درمیانی شدت کی ورزش کی جائے جس کے فوائد جلد ہی سامنے آنے لگتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2166311/9812/


سٹرابیری کے صحت پر حیرت انگیز فوائد جانئے
 13 April, 2021

سٹرابیری کے استعمال سے دل سمیت مجموعی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)ماہرین کے مطابق اس میں موجود مختلف ایسڈک خصوصیات اور فلیونوائیڈز مل کر مضبوط اینٹی آکسیڈنٹ فراہم کرتے ہیں جو کہ دل کیلئے مفید قرار دئیے جاتے ہیں ۔سٹرابیری وٹامن سی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ، وٹامن سی جسمانی دفاعی نظام کو مضبوط اور طاقت ور بناتا ہے ۔سٹرابیری کے استعمال سے نہ صرف انسان کی قوت مدافعت بڑھتی ہے بلکہ سٹرابیری کا استعمال ہارٹ اٹیک کے خدشات کو بھی دور کرتا ہے ۔سٹرابیری کا استعمال خواتین کے جسم میں نسوانی ہارمون کی سطح بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں خواتین کے چہرے پر اضافی بالوں جیسی شکایت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔سٹرابیری جوڑوں کے درد کے مریضوں کیلئے بہت مفید ہے ۔سٹرابیری کھانے سے کینسر جیسے مہلک بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-13/1807841


دماغ میں الیکٹرانک چپ لگنے سے بندویڈیوگیم کھیلنے لگا
 12 April, 2021

امریکا کی ارب پتی کاروباری شخصیت ایلن مسک کی کمپنی نے بندر کے دماغ میں الیکٹرانک چپ لگا کر اسے ویڈیو گیم کھیلنا سکھا دیا

واشنگٹن (نیٹ نیوز) کمپنی نے جلد انسانوں پر بھی تجربات کا اعلان کردیا ہے ۔ایلن مسک نے ایک پیغام میں کہا کہ کامیاب تجربات کے بعد ایسی پراڈکٹ جلد لائی جائے گی جو فالج زدہ افراد کے لئے سمارٹ فون استعمال کرنا ممکن بنا سکے گی۔اس حیرت انگیز تجربے پر سوشل میڈیا صارفین حیران ہیں اور تبصروں میں مصروف ہیں ۔ایک صارف کا کہناتھاکہ یہ انتہائی مفید ایجاد ہے اور آنے والے وقت میں ایک بڑے انقلاب کا باعث ہوگی ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-12/1807503


پنسلوانیا:
بدلتے ہوئے ماحول کا نفسیاتی دباؤ، روزگار کا دباؤ، گھریلو ذمے داریاں اور معاشرتی امور ملکر خواتین کی صحت پر برا اثر ڈال رہے ہیں اور وہ امراضِ قلب بالخصوص کارڈیو ویسکیولر بیماریوں کی شکار ہورہی ہیں۔

یہ مطالعہ ڈریکسل یونیورسٹی میں واقع ڈورنسائف اسکول آف پبلک ہیلتھ کے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ اس مطالعے میں ملازمت اور معاشرتی دباؤ کا بطورِ خاص مطالعہ کیا ہے۔ یعنی معاشرتی رابطے اور رشتے نبھانے کا کرب اور کام کی پریشانی مجموعی طور پر دوہری چوٹ کا کام کرتی ہیں اور اس طرح خواتین میں دیگر کے مقابلے میں دل کا مریض بننے کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہ تحقیق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ شریکِ حیات کی موت، طلاق و علیحدگی، گھر یا سسرالیوں کے طعنے تشنے، سماجی دباؤ جیسے نفسیاتی عوامل انفرادی طور پر خواتین کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دفتر کا زہریلا ماحول، کام کا دباؤ، ناانصافی اور دیگر مسائل خواتین کو مزید مایوسی اور بیماری کی جانب دھکیلتے ہیں۔ یہ کیفیات الگ الگ 9 سے لے کر 12 فیصد تک دل کی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

اس مطالعے میں 80 ہزار سے زائد خواتین کا جائزہ لیا گیا جو سن یاس (مینوپاز) سے گزرچکی تھیں۔ ان سب کا 1991 سے 2015 تک جائزہ لیا گیا ہے۔ وقفے وقفے سے ان خواتین میں معاشرتی نفسیاتی دباؤ، بالخصوص ملازمت کا تناؤ دیکھا گیا اور دیگر معاشرتی عوامل کا جائزہ بھی لیا گیا۔

پورے مطالعے کے 14 برس میں 5 فیصد خواتین دل کی مریضہ بن چکی تھیں۔ ان میں تمام عوامل کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ معاشی اور ملازمتی دباؤ کا اس بیماری میں 12 فیصد کردار ہے یعنی یہ عوامل مرض کے امکان کو 12 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔ معاشرتی دباؤ کا کردار 9 فیصد دیکھا گیا۔

امریکہ میں خون کی رگوں کے امراض اموات کی بڑی وجہ ہیں۔ اس میں دل کی بڑی نالیاں سکڑ جاتی ہیں یا بند ہوجاتی ہیں اور خون دل تک آکسیجن اور خون نہیں پہنچ پاتا۔ تاہم اس پہلو کی پرانی تحقیقات سے بھی تصدیق ہوتی ہیں جن میں ملازمتی دباؤ کو خواتین کے لیے بہت نقصاندہ بتایا گیا تھا۔

ماہرین نے خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو وہ کام کے دباؤ اور معاشرتی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
https://www.express.pk/story/2165981/9812/


بلیوتوٹھ اور پنکھے والاسمارٹ فیس ماسک مارکیٹ میں آگیا
 11 April, 2021

کورونا وائرس کی وبا کے بعد فیس ماسک کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے

نیویارک (نیٹ نیوز)دنیا کی معروف کمپنیوں اور برانڈز نے دیدہ زیب، سمارٹ اور مہنگے ترین فیس ماسک متعارف کرائے تاہم اب ایک امریکی کمپنی نے ’’سپرماسک ‘‘ نامی ایک منفرد فیس ماسک متعارف کرایاہے جس میں تین پنکھے اور ایسے ڈیجیٹل فلٹرز نصب ہیں جو ہوا کو سانس کے لئے صاف بنانے میں مددگار ہیں۔سپر ماسک میں جہاں پنکھے نصب ہیں وہیں اس میں بلیوٹوتھ، ہیڈفون اور مائیکرو فون کی سہولت بھی ہے اور فیس ماسک کے مذکورہ تمام فیچرز بیٹری کی مدد سے کام کرتے ہیں۔سپر ماسک کی بیٹری 7 گھنٹے تک کام کرتی ہے اور اس میں ہوا کو صاف بنانے والے فلٹرز کو 30 دن بعد تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے ،اس کی قیمت 50ہزارروپے پاکستانی ہے ۔ سپر ماسک کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اسے سوشل میڈیا پر بھی خاص اہمیت حاصل ہوگئی 
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-11/1806672


بھارتی کسان نے ایک درخت پر300قسم کے آم اگا دئیے
 11 April, 2021

بھارت کے شہر ملیح آباد کے 81 سالہ کسان حاجی کلیم اللہ خان کو ’’آم آدمی‘‘کہاجانے لگاہے

لکھنو(نیٹ نیوز)کیونکہ انہوں نے آم کے ایک درخت پر بیک وقت 300 الگ الگ اقسام کے آم اُگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ۔حاجی کلیم اللہ خان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 7اقسام کے آم دینے والا ایک درخت وہ 1957 میں اس وقت اُگا چکے تھے جب وہ خود 17 سال کے تھے اور ساتویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد اپنے باغ میں آموں کی کاشت سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوچکے تھے ،بدقسمتی سے وہ درخت سیلاب کی نذر ہوگیا،300اقسام والے آم کے درخت کی کل عمر 100سال سے زیادہ ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-11/1806673


فرانس میں خوبانی کے درختوں کے درمیان جلتی موم بتیاں
 11 April, 2021

فرانس میں خوبانی کے لگ بھگ 17 سو درختوں کے درمیان موم بتیاں جلائی گئیں

پیرس (نیٹ نیوز)جن کا مقصد کہرے کا مقابلہ کرناتھا کیونکہ کہرا خوبانی کے درخت کے لئے بے حد نقصان دہ ہوتاہے ۔سعودی نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فرانس میں کسانوں نے لگ بھگ 1700خوبانی کے درختوں کے درمیان موم بتیاں روشن کردیں ،دیکھنے کو یہ مسحور کن نظارہ کسی دورقدیم کی پہاڑی بستی کا محسوس ہوتاہے تاہم ان موم بتیوں کو جلانے کا مقصدخوبانی کے درختوں کو کہرے سے بچانا تھا کیونکہ کہرے سے گزشتہ برس کسانوں کو بڑا مالی نقصان ہواتھا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-11/1806674


پانی کیساتھ ساتھ سڑکوں پر چلنے والی فرانسیسی ’’روڈ بوٹ ‘‘
 11 April, 2021

فرانس میں بحری ٹیکنالوجی سے لیس روڈ بوٹ سڑک پر چلتے چلتے پانی میں اتار دی جاتی ہے اور یہ تیرنے لگتی ہے

پیرس (نیٹ نیوز)سعودی نیوزویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فرانس میں بنائی گئی یہ روڈ بوٹ بحری ٹیکنالوجی سے لیس ہے کیونکہ درحقیقت یہ ایک کشتی ہے جسے تیارکرتے ہوئے روڈ ٹیکنالوجی کابھی خیال رکھاگیاہے ،اس میں سیٹ بیلٹ ،ہیڈ لائٹ،بریک سروس اورتین لینڈ نگ گیئر موجودہیں ۔اس میں موجود ایروناٹیکل ٹیکنالوجی اسے روڈ سے سیدھا سمندر میں اترانے کیلئے مددگار ہے ،یعنی آپ سڑکوں پر گھومتے پھرتے سمندر میں آسانی سے اترسکتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-11/1806675


اپنی ٹانگوں سے سانس لینے والا حیرت انگیز جانور’’ٹرائیلو بائٹس‘‘
 11 April, 2021

امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کروڑوں سال قبل سمندروں میں عام پائے جانے والے جانور ’’ٹرائیلوبائٹس‘‘اپنی ٹانگوں سے آکسیجن جذب کرتے تھے

لاس اینجلس (نیٹ نیوز)یعنی سانس لیتے تھے ۔آج سے تقریباً 57 کروڑ سال پہلے ظہور پذیر ہونے والے یہ جانور ایک لمبے عرصے تک سمندروں میں حکمران رہے اور لگ بھگ 27 کروڑ سال پہلے معدوم ہوگئے ۔ٹرائیلوبائٹس نہ صرف اپنی اقسام بلکہ تعداد کے اعتبار سے بھی اتنے زیادہ تھے کہ آج بھی رکازی ریکارڈ میں سب سے زیادہ ان ہی کی باقیات ملتی ہیں جن میں سے اکثر انتہائی محفوظ اور مکمل حالت میں ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-11/1806677


کیلیفورنیا:
خلائی سیاحت کی مشہور امریکی کمپنی ’’ورجن گیلکٹک‘‘ نے اپنے جدید ترین تجارتی خلائی جہاز ’’وی ایس ایس امیجن‘‘ کی اوّلین تفصیلات اور تصاویر جاری کردی ہیں۔

کمپنی کے مطابق ’’وی ایس ایس امیجن‘‘ بہت جلد مسافروں کو لے کر پروازیں شروع کردے گا اور مکمل طور پر آپریشنل ہونے کے بعد سالانہ 400 خلائی پروازوں کے ذریعے تقریباً 5,000 افراد کو ’’نچلی خلائی حدود‘‘ کی سیر کرا سکے گا۔

اگرچہ اس کا ڈیزائن، ورجن گیلکٹک کے پچھلے خلائی جہاز ’’اسپیس شپ ٹو‘‘ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں لیکن بیرونی طور پر یہ بہت زیادہ چمک دار ہے اور یوں لگتا ہے جیسے اسے چاندی سے بنایا گیا ہو۔

اپنے پیشرو خلائی جہاز کی طرح ’’وی ایس ایس امیجن‘‘ کو بھی ایک بڑے طیارے کی پیٹھ پر سوار کرکے تقریباً 45000 فٹ کی بلندی تک پہنچایا جائے گا، جہاں پہنچ کر یہ اپنے انجن اسٹارٹ کرے گا اور 100 کلومیٹر جتنی اونچائی تک جا پہنچے گا۔

ورجن گیلکٹک کی پریس ریلیز میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ایسی ایک پرواز سے خلاء تک پہنچنے کا ’’ٹکٹ‘‘ کتنے کا ہوگا لیکن امید ظاہر کی ہے کہ خلائی سفر کے ہزاروں شائقین اس خلائی جہاز سے اپنے شوق کی تسکین کرسکیں گے۔

اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ وی ایس ایس امیجن کی زمینی آزمائشیں جاری ہیں تاکہ امریکی ادارہ برائے ہوابازی (ایف اے اے) سے اس کی پرواز کےلیے اجازت حاصل کی جاسکے۔

واضح رہے کہ ایسے طیاروں کا واحد مقصد صرف خلائی سفر کو آسان بنانا نہیں بلکہ اسی نوعیت کے بڑے اور جدید قسم کے مسافر بردار طیارے دنیا میں ایک سے دوسرے ملک تک سفر کو بھی آج کے مقابلے میں بہت ہی کم وقت میں مکمل کرنے کے قابل ہوں گے۔
https://www.express.pk/story/2165158/508/


آکسفورڈ:
برطانوی غذائی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ جلدی جلدی کھاتے ہیں وہ اتنی ہی تیزی سے موٹے بھی ہوتے ہیں۔

اگرچہ اس دریافت میں بجائے خود کوئی نئی بات نہیں لیکن اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تیز رفتاری سے کھانا کھانے والے جلد ہی موٹے کیوں ہوجاتے ہیں۔

جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو ہمارے جسم کو اس غذا کے پیٹ میں پہنچنے کا احساس تھوڑی دیر سے ہوتا ہے۔

یوں ہماری بھوک آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے، مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے جسے ہم ’’پیٹ بھرنے کا احساس‘‘ (fullness) بھی کہتے ہیں۔

تیزی سے کھانا کھانے والوں کو عام طور پر جب تک پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا ہے، تب تک وہ اپنی جسمانی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کھاچکے ہوتے ہیں۔

یہی اضافی غذا ان کا وزن بڑھانے اور انہیں موٹاپے میں مبتلا کرنے کی وجہ بن جاتی ہے۔

بعض سابقہ مفروضوں کے مطابق، دسترخوان پر ساتھ کھانے والوں (مثلاً بہن بھائیوں اور ساتھ کام کرنے والوں) کی زیادہ تعداد بھی تیزی سے کھانا کھانے کی وجہ بنتی ہے جو بالخصوص بچپن میں بار بار دوہرائے جانے کے نتیجے میں عادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

تاہم مذکورہ تحقیق سے دسترخوان پر بہن بھائیوں/ رفقائے کار کی تعداد کھانا کھانے کی رفتار میں کوئی واضح تعلق سامنے نہیں آسکا کیونکہ بہت سے لوگ اکیلے میں بھی تیزی سے کھاتے ہیں اور اتنی ہی رفتار سے اپنا وزن بھی بڑھاتے ہیں۔

وجہ چاہے کچھ بھی ہو، لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ کھانے کے دو نوالوں کے درمیان اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ پہلا نوالہ حلق سے معدے میں پہنچنے کا احساس پیدا کرے۔

اس سے نہ صرف کھانے کی مقدار کنٹرول میں رہے گی بلکہ آگے چل کر وزن بڑھنے اور موٹاپے میں مبتلا ہونے کا عمل بھی قابو سے باہر نہیں ہوگا۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’کلینیکل اوبیسیٹی‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2165128/9812/


برلن:
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ گوریلے ’’بس یونہی‘‘ اپنا سینہ نہیں پیٹتے بلکہ اس کے ذریعے وہ دوسرے گوریلوں اور ’’گوریلیوں‘‘ کو کچھ مخصوص پیغامات دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈھول کی طرح چھاتی پیٹنے کا عمل نر گوریلوں میں ہی دیکھا گیا ہے۔

لیکن وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ جاننے کےلیے جرمنی، اسپین اور امریکا کے ماہرینِ حیاتیات نے پہاڑی گوریلوں (Gorilla beringei beringei) پر تحقیق کی جو وسطی افریقہ کے گھنے پہاڑی جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

تفصیلی اور محتاط مشاہدے کے بعد ماہرین کو دو اہم باتیں معلوم ہوئیں:
نر گوریلے مخصوص انداز میں سینہ پیٹ کر دوسرے نر گوریلوں کو اپنی جسامت (قد کاٹھ) کے بارے میں بتاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، چھوٹے قد والے گوریلے زیادہ شدت سے سینہ پیٹتے ہیں جبکہ بڑی جسامت، اونچے قد اور مضبوط جسم والے گوریلوں میں سینہ پیٹنے کی شدت خاصی کم ہوتی ہے۔
نر گوریلے کے سینہ پیٹنے کی یہی آواز جب مادہ گوریلا تک پہنچتی ہے تو اسے سن کر وہ نسل خیزی کےلیے اس نر گوریلے سے ملاپ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ مادہ گوریلائیں عام طور پر بڑے اور مضبوط جسم والے گوریلے کو اپنا ’’جیون ساتھی‘‘ بناتی ہیں جبکہ چھوٹے اور کمزور گوریلوں کو ماداؤں کی تلاش، ملاپ اور نسل خیزی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پہاڑی گوریلے چونکہ گھنے جنگلات میں رہتے ہیں جہاں ان کی آبادی بھی خاصی کم اور پھیلی ہوتی ہے، لہذا ایسے میں چھاتی پیٹنے کی آواز ان گوریلوں میں باہمی رابطے کا کام بھی کرتی ہے۔

اس تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2165143/509/


اوسلو:
اگر آپ ساحل پر جاتے ہیں تو وہاں پلاسٹک کے ڈھیر کو دیکھ کر فوراً خیال آتا ہے کہ اسے کیسے صاف کیا جائے؟ دوسری جانب غصہ بھی آتا ہے کہ آخریہ نہ ختم ہونے والی بلا یہاں کیسے پہنچی ہے؟

اب ناروے کی یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹٰیکنالوجی (این ٹی این یو) نے ایک ایپ تیار کی ہے جو بتاسکتی ہے کہ یہ کچرہ آخر کہاں سے آیا ہے؟ اس ایپ کو استعمال کرکے ساحل پر چہل قدمی کرنے والے عام افراد بھی کچرے کی تصویر لے کر اس کے جی پی ایس محددات (کوآرڈینیٹس) کے ساتھ اسے ایپ کے ڈیٹا بیس میں بھیج سکتے ہیں۔

جوں ہی آپ پلاسٹک سے بنی کسی شے کی تصویر لیتے ہیں، ایپ ڈیٹا بیس سے پہچان لیتی ہے کہ یہ کونسی شے ہے۔ اس کے بعد وہ پانی کی لہروں، موسمیاتی کیفیات اور سمندری بہاؤ (کرنٹس) کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ آخر پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کہاں سے آیا ہے۔ اس طرح ایک محتاط اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس سمندری راہ سے ساحل تک پہنچا ہے۔

سائنسداں کے مطابق کم ازکم ناروے میں اس ایپ کی بدولت متعلقہ اداروں مثلاً بلدیاتی محکموں کو بھی خبردار کیا جائے گا تاکہ آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ والی جگہوں کی صفائی ہنگامی بنیادوں پر کی جائے گی۔

ابتدائی طور پر یہ ایپ 100 افراد آزمائیں گے۔ انہیں سمندری کچرہ اٹھانے کے منصوبے کے تحت ساحلوں پر بالخصوص پلاسٹک کے کوڑے کی نشاندہی کا کام سونپا جائے گا۔ تاہم اسے اگلے موسمِ بہار میں آزمایا جائے گا۔ ایپ بنانے والی خاتون ماہر کرسٹینا ہیلوِک کہتی ہیں کہ ’ کوڑے کو صاف کرنا عموماً اس وقت تک مفید نہیں ہوتا جب تک اس پلاسٹک کا سراغ نہ لگایا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بہتر فوائد کے لیے فوری طور پر اس مقام کا پتہ لگایا جائے جہاں سے پلاسٹک آیا ہے۔‘

اگلے مرحلے میں اس ایپ کو دنیا کے دیگر ممالک تک وسیع کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
https://www.express.pk/story/2165213/508/


نیویارک:
اسمارٹ فون ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن ہر جگہ دیوار پر لگے پلگ نہیں ملتے۔ اس کا حل دنیا کے سب سے چھوٹے میکانکی چارجر کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو آپ کی چین یا اپنی جیب میں رکھ سکتےہیں۔

یہ چھوٹا سا چارجر انسانی قوت سے چلتا ہے اس میں لگی چابی گھمائیں اور مشینی توانائی بجلی میں تبدیل ہوتی جائے گی۔ اس طرح فون چارج ہوتا رہے گا۔ یہ ایجاد ایسے لوگوں کے لیے موزوں ہے جو کسی دوردراز علاقوں پر ہائیکنگ یا دیگر کام کرتے ہیں۔ ان میں ارضیات داں سے لے کر وائلڈ لائف کے ماہر بھی ہوسکتے ہیں۔

اس طرح یہ چارجر ہمیشہ دستیاب رہتا ہے اورآزادانہ طور پر اشیا کو چارج کرسکتا ہے۔ اس طرح آپ کو فون کرنا ہوگا، کسی کو پیغام بھیجنا ہو، ٹارچ جلانی ہو یا پھر دوستوں کو اپنی موجودگی ظاہر کرنا ہو تو یہ چارجر ان تمام مسائل کا حل ہے۔

چابی گھماتے ہی یہ 100 سے 30 ایم اے کرنٹ دیتا ہے تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ کرنٹ کی اتنی مقدار میں سے کچھ نہ کچھ ضائع ضرور ہوسکتی ہے۔ اس جارچر کو ناؤ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلی مرتبہ 25 جنوری 2021 کو تیار کیا گیا جسے اب کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ پر رکھا گیا ہے۔

خاص ڈیزائن کی بنیاد پر اسے تھامنا اور استعمال کرنا بہت آسان ہے جبکہ اسے ایمرجنسی میں چارجنگ آلہ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر فون بالکل ختم ہوگیا ہو تو صرف چند منٹ کی چارجنگ سے فون زندہ ہوجاتا ہے۔ اس میں لگ چار طرح کے کیبل سے انتخاب کرکے آپ موزوں کیبل فون میں لگاسکتےہیں۔ لیکن اب بھی اس کی خاص بات یہ ہے کہ اب تک بنایا جانے والا یہ دنیا کا سب سے چھوٹا میکانکی فون چارجر بھی ہے۔

کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ کے مطابق اس کی قیمت 34 یورو رکھی گئی ہے جو 6200 کے لگ بھگ ہے۔
https://www.express.pk/story/2165260/508/


کیلیفورنیا:
ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کو ورزش اور مناسب غذا دی جائے تو ان کی دماغی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔لیکن اس کے فوائد جوانی میں سامنے آتے ہیں اور وہ ڈپریشن اور دماغی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں۔

اگرچہ دنیا بھر کے ماہرین بچوں کی صحتمند غذا اور مناسب ورزش پر زور دیتے ہیں لیکن اس ضمن میں تحقیق پہلی مرتبہ کی

گئی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریورسائیڈ کے سائنسدانوں نے چوہوں پر اس کے تجربات کئے ہیں جس کا اطلاق انسانوں پر کیا جاسکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غذا اور ورزش کے کم سنی کے اثرات پوری زندگی برقرار رہتے ہیں۔

اس تحقیق سے وابستہ ڈاکٹریٹ کے طالبعلم مارسل کیڈنے کہتے ہیں کہ ماہرین غذا اور ورزش کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں لیکن ہم نے اسے پہلی مرتبہ ایک ساتھ دیکھا ہے اور اس کے اثرات پر غور کیا ہے۔

اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ابتدائی زندگی مٰں ورزش سے جو کچھ اثرات ہوتے ہیں ان میں سب سے پہلے دماغی تناؤ اور ڈپریشن شامل ہے۔ بچپن کی ورزش سے دماغ کا حجم بڑھتا ہے اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر انہیں جنک فوڈ کے نام پر میٹھا اور مرغن غذائیں دی جائیں تو پوری زندگی وہ اس کے عادی بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ تحقیقات جرنل آف فزیالوجی اینڈ بیہیویئر میں شائع ہوئی ہیں۔ اس تجربے میں چوہوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں ورزش والے، بغیر ورزش والے، معیاری اور صحتمند غذا کھانے والے اور مغربی صحت دشمن غذا کھانے والےچوہے شامل تھے۔

تین ہفتوں تک چاروں گروہوں کے یہی معمولات رکھے گئے کہ وہ جنسی طور پر سرگرمی کی عمر تک جاپہنچے۔ اس کے بعد آٹھ ہفتے تک تمام معمولات ترک کردیئے گئے۔ پھر اس کے بعد ان کے برتاؤ، جسمانی ہارمون اور ورزش کی عادتوں کا جائزہ لیا گیا۔

جن چوہوں نے شکر اور چکنائی زیادہ کھائی تھی ان کی آنتوں کے بیکٹٰیریا یکسر بدلے ہوئے تھے۔ اس طرح خراب غذا کے مضر اثرات جوانی تک برقرار رہے۔ ابتدائی دور میں ورزش کرنے والے چوہوں لیپٹن کی زائد مقدار دیکھی گئی جو کم کھانے اور کم چربی کی وجہ بنتی ہے۔

یہ تحقیق کورونا وبا کے تناظر میں یوں اہم ہے کہ دنیا بھر کے بچے گھروں تک محدود ہیں اور سائنسدانوں نے گھر میں بھی ان کی ورزش پر زور دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2165291/9812/


ویتنام:
ویتنامی اور اسرائیلی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ جگنو خود کو چمگادڑوں سے بچانے کےلیے ایک مخصوص انداز میں آواز کی ایسی لہریں خارج کرتے ہیں جنہیں انسانی کان نہیں سن سکتے۔

آواز کی ان لہروں کی فریکوینسی (تعدد) اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی کان کےلیے ناقابلِ سماعت ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر ہم انہیں ’’بالاصوتی‘‘ (الٹراسونک) لہریں بھی کہتے ہیں۔

جگنوؤں سے خارج ہونے والی یہ الٹراسونک لہریں اتنی منظم ہوتی ہیں کہ سائنسدان انہیں ’’الٹرسونک موسیقی کی ڈھال‘‘ قرار دینے پر مجبور ہوگئے ہیں، جو انہیں چمگادڑوں کا شکار بننے سے بچاتی ہے۔

اس اتفاقیہ دریافت میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ جگنو اپنے پروں کو تیزی سے پھڑپھڑا کر یہ الٹراسونک لہریں پیدا کرتے ہیں لیکن خود انہیں سن نہیں سکتے۔

البتہ یہ آوازیں نابینا چمگادڑوں کے تیز کانوں تک پہنچ کر انہیں قریب ہی کسی ’’خطرناک چیز‘‘ کے موجود ہونے کا احساس دلاتی ہیں اور وہ جگنوؤں کی طرف نہیں بڑھتیں۔

تل ابیب یونیورسٹی، اسرائیل اور ویتنام اکیڈمی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے یہ دریافت ویتنامی جنگلات میں ایک مشترکہ تحقیق کے دوران اتفاقیہ کی تھی۔

بعد ازاں جگنوؤں کی چار اقسام (انواع) پر تجربہ گاہ میں محتاط مشاہدات سے بھی اس دریافت کی تصدیق ہوئی، جس کی تفصیلات انہوں نے ’’آئی سائنس‘‘ نامی آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع کروائی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2164541/509/


ابوظہبی:
شاید وہ دن دور نہیں جب انسولین کا ٹیکہ لگانے سے نجات مل جائے گی کیونکہ تجرباتی طور پر ایک گولی بنائی گئی ہے جو خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھنے پر ازخود انسولین خارج کرسکے گی۔

ابوظہبی میں واقع نیویارک یونیورسٹی نے ایک کیپسول بنایا ہے جو پیٹ کے تیزابی ماحول میں سلامت رہتے ہوئے ضرورت کے وقت ہی خون میں انسولین خارج کرتا ہے۔ منہ سے کھایا جانے والا یہ کیپسول منہ، ہاضماتی نلی اور معدے میں گھلنے سے محفوظ رہتا ہے۔

فی الحال خون میں شکر کی مقدار کو معمول پر رکھنے کے لیے کروڑوں مریض روزانہ جلد میں انسولین کے انجیکشن لگاتے ہیں جو ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مریض اس سے کتراتے بھی ہیں۔ اگرچہ تجرباتی طور پر کیپسول تو بنایا گیا ہے لیکن یہ عمل آساں نہ تھا۔ انسولین کا سالمہ (مالیکیول) بہت حساس ہوتا ہے اور پیٹ میں پہنچتے ہی فوراً اپنی تاثیر کھودیتا ہے۔ اس لئے انسولین کو اچھی طرح پیک کرنے کی ضرورت پڑی تاکہ وہ آنتوں کی راہ سے گزرکر بھی سلامت رہے۔

کھائے جانے والے انسولین کیپسول کو این سی او ایف کا نام دیا گیا جس کا مطلب ’گیسٹرو ریسسٹنٹ امائن لنکڈ کوویلنٹ آرگینک فریم ورک نینو پارٹیکلز ہے۔ این سی او ایف ازخود خون میں شکر کی مقدار نوٹ کرتا ہے۔ اس کا عمل بہت سادہ ہے یعنی گلوکوز کے سالمات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ این سی او ایف میں سماجاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب خون میں شکر بڑھ جائے تو کیپسول کے اندر نینوذرات پر دباؤ پڑتا ہے۔ یہ نینو ذرات طبعی طور پر کھل جاتے ہیں اور اندر کی انسولین خارج ہوجاتی ہے۔ اب جیسے ہی خون میں گلوکوز کی مقدار معمول پر آتی ہےانسولین کا اخراج رک جاتا ہے۔

جب ذیابیطس کے مریض چوہوں پر ان کی آزمائش کی گئی تو دو نینوذرات والے این سی او ایف لینے کے دو گھنٹے بعد ان کے خون میں گلوکوز کی مقدار معمول پر آگئی۔

اس سے قبل ایچ ڈی وی ون اور اورامیڈ جیسی دو کھانے والی ذیابیطسی دوائیں بن چکی ہیں لیکن این سی او ایف ان دونوں کے مقابلے میں قدرے مؤثر اور خودکار ہے۔ تاہم اس کیپسول کی ایجاد انسانی آزمائش سے کئی برس دور ہے۔
https://www.express.pk/story/2164713/9812/


ایکسیٹر:
برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ لال چقندر کا رس ہمارے جسم میں خون کے بہاؤ اور دماغی صلاحیتوں کو بہتر بناتا ہے، لیکن منہ میں موجود صحت بخش جراثیم اس کام میں سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔

بتاتے چلیں کہ اب تک پیٹ میں پائے جانے والے مفید اور مضر، دونوں طرح کے جرثوموں (بیکٹیریا) پر خاصی تحقیق ہوچکی ہے لیکن منہ کے جرثوموں نقصاندہ پہلوؤں ہی کا جائزہ لیا گیا ہے جبکہ ان کی افادیت ہمارے لیے بڑی حد تک نامعلوم ہے۔

یہ جاننے کےلیے ایکسیٹر یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے 70 سے 80 سال کے تیس رضاکار کو تحقیق میں شریک کیا۔

ان میں سے نصف بزرگوں کو دس دن تک روزانہ سرخ چقندر (بِیٹ رُوٹ) کے خالص اور اصلی رس کا تقریباً ایک گلاس پلایا جبکہ باقی نصف بزرگوں کو پلائے گئے رس میں سے اس کے اہم غذائی اجزاء الگ کیے جاچکے تھے، تاہم وہ دیکھنے میں سرخ چقندر کے اصل رس جیسا ہی لگتا تھا۔

دس دن گزرنے کے بعد جب ان تمام بزرگوں کے دل، رگوں اور دماغ کی صحت کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ سرخ چقندر کا اصل اور خالص رس پینے والے بزرگوں میں رگوں کے اندر خون کا بہاؤ بہتر تھا جس کا دل کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑ رہا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِن بزرگوں کی دماغی صحت بھی نمایاں طور پر بہتر رہی۔

اسی تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ منہ میں پائے جانے والے مفید جراثیم، چقندر میں وافر مقدار میں موجود غیر نامیاتی نائٹریٹ مرکبات کو نائٹرک ایسڈ میں تبدیل کرتے ہیں جو نہ صرف ہمارے دل اور خون کی رگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ دماغی و اکتسابی صلاحیتوں کےلیے بھی بہت مفید ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’ریڈوکس بائیالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ مقالے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے منہ کے جرثوموں کی افادیت واضح ہوئی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر سرخ چقندر سے کوئی طبّی مسئلہ نہ ہو تو بزرگ افراد اس کے خالص رس کا صرف ایک گلاس روزانہ پی کر اپنے دل و دماغ کی صحت بہتر رکھ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2164188/9812/


کوئنز لینڈ:
انسانی بال میں موجود قدرتی اجزا کی بنا پر اب ایسے سولر(شمسی) سیلوں کو مضبوط اور بہتر بنایا جاسکتا ہے جو روایتی سلیکان سیل کے مقابلے میں زیادہ بجلی خارج کرتے ہیں۔ انہیں پرووسکائٹ شمسی سیل کہا جاتا ہے۔

گزشتہ عشرے سے میں روایتی مونوکرسٹلائن سلیکان شمسی سیل کی بجائے پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی افادیت سامنے آئی ہے۔ لیکن پرووسکائٹ شمسی سیل بہت نازک اور غیرپائیدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک پرووسکائٹ شمسی سیل تجارتی پیمانے پر تیار نہیں کیے جاسکے ہیں۔ لیکن اب انسانی بالوں میں اس کا حل سامنے آیا ہے۔

اس سے قبل یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے سائنسداں انسانی بال سے اخذ کردہ اجزا سے اوایل ای ڈی بناتے رہے ہیں۔ اب پرووسکائٹ شمسی سیلوں میں انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانی بال میں کاربن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو روشنی خارج کرنے والے انجینیئرنگ نظاموں کےلیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ پہلے انسانی بالوں کو 240 درجے سینٹی گریڈ پر جلایا گیا تاکہ وہ مزید سادہ اجزا میں تقسیم ہوجائیں اور ان سے نائٹروجن اور کاربن کو الگ کرلیا جائے۔

اب کوئنز یونیورسٹی کی ٹیم نے انسانی بالوں سے کاربن نینو ڈاٹس حاصل کیے ہیں اور انہیں شمسی سیلوں پر لگایا ہے۔ انہوں نے شمسی سیلوں پر اس کی باریک تہہ چڑھائی جو ایک لہردار صورت اختیار کرگئی۔ لیکن اسی پرت نے سولر سیل کو مضبوطی اور تحفظ فراہم کیا۔

پروفیسر ہونگشیا وینگ نے کہا کہ اس طرح کی پرت ایک حفاظتی دیوار کی طرح کام کرتی ہے جو پرووسکائٹ کو نمی اور دیگر ماحولیاتی اثر سے بچا کر اس کی ٹوٹ پھوٹ کو روکتی ہے۔ سائنسدانوں نے دیکھا کہ انسانی بال سے بنے کاربن نینوڈاٹس سے نہ صرف پرووسکائٹ شمسی سیل مضبوط ہوئے بلکہ دھوپ سے بجلی بنانے میں ان کی افادیت بھی بڑھ گئی۔

اس طرح وہ دن دور نہیں جب حجام کی دکان سے جمع شدہ بال شمسی سیل کی تیاری میں عام استعمال ہونے لگیں گے۔ انسانی بالوں سے اگلی نسل کے مؤثر شمسی سیل بنانا ممکن ہوں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 20 برس سے پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی تیاری میں ان کی نزاکت ہی مرکزی رکاوٹ تھی۔

توقع ہے کہ اگر یہ تدبیر کارگر رہتی ہے تو نہایت مؤثر پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی تجارتی پیمانے پر تیاری کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
https://www.express.pk/story/2164789/508/


جنیوا:
32 سالہ پاکستانی نوجوان سائنسداں ڈاکٹر محمد صمید اور ان کے ساتھیوں کے اہم کام کے اعتراف میں بین االاقوامی ہفت روزہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ نے ان کے غیرمعمولی تجربے کو اپنے تازہ سرورق پر شائع کیا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد صمید اس وقت یورپی مرکز برائے نیوکلیائی طبیعیات (سینٹر فار یوروپیئن نیوکلیئر فزکس یا ’سرن‘) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سرن میں واقع ’اینٹی ہائیڈروجن لیزر فزکس ایپریٹس‘ یا ایلفا میں اینٹی ہائیڈروجن ذرات کو لیزر کی مدد سے سرد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل لیزر کو ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) سرد کرنے کےلیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

اگرچہ 40 برس قبل لیزر کی مدد سے عام مادے پر مشتمل ایٹموں کو سرد کرنے کا تصور پیش کیا گیا لیکن اسے ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) یا ضدِ ذرات (اینٹی پارٹیکلز) کو سرد کرنے کےلیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اب ڈاکٹر صمید اور ان کی ٹیم نے یہ کام کیا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد صمید نے کہا کہ اسکولوں کی سطح تک ہمیں ایٹم کےبارے میں یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ مزید ذیلی ذرات یعنی الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ’لیکن گہرائی میں دیکھیں تو الیکٹرون بنیادی ذرات کے خاندان لیپٹون سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ پروٹون اور نیوٹرون اس زمرے میں شامل نہیں اور یہ ذرات کوارکس اور گلووآنز سے تشکیل پاتے ہیں۔ پھر کوارکس کی بھی چھ ذیلی اقسام ہیں۔‘‘

1928 میں ممتاز ماہرِ طبیعیات پال ڈیراک نے نظری طور پر ضدِ مادہ (اینٹی میٹر) کی پیش گوئی کی تھی اور اینٹی الیکٹرون کا تصور پیش کیا، جس کا تجرباتی ثبوت صرف چار سال بعد ہی ہمارے سامنے آگیا۔ پھر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ضدِ ذرات آخر کس طرح سفر کرتے ہیں۔ ایک ذرے اور ضد ذرے کی کمیت تو یکساں ہوتی ہے لیکن دونوں پر ایک دوسرے کے مخالف چارج مختلف ہوتا ہے۔ اب اگر الیکٹرون کو مقناطیسی میدان میں رکھا جائے تو وہ جس سمت میں مڑے گا جبکہ پوزیٹرون (اینٹی الیکٹرون) مقناطیسی میدان کی موجودگی میں اس سے مخالف سمت میں مڑے گا۔

پھر نظری شہادتیں اور مساواتیں بتاتی ہیں کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کے ظہور کے ساتھ ہی اینٹی میٹر کی یکساں مقداریں پیدا ہوئی ہوں گی لیکن یہ اینٹی میٹر اب کہاں ہے؟ اور کائنات میں عام مادہ (میٹر) اتنی بڑی مقدار میں کیوں موجود ہے؟ یہ سوالات وہ ہیں جن پر غور کیا جارہا ہے۔

ایک مفروضہ تو یہ ہے کہ ضدِ مادہ میں ایک ایسی نامعلوم خاصیت ہے جو اسے عام مادے میں ڈھالتی ہے۔ اب اسی بات پر غور کےلیے گزشتہ 30 سے 40 برس کے دوران تجربہ گاہوں میں اینٹی میٹر کی معمولی مقدار بنا کر اس پر مختلف تجربات کئے جارہے ہٰیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر صمید کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اینٹی ہائیڈروجن کا انتخاب

اس کےلیے ڈاکٹر صمید نے سرن کی ایلفا تجربہ گاہ میں عام ہائیڈروجن ایٹم کا مخالف ذرہ منتخب کیا جو کہ سادہ ترین اینٹی ایٹم بھی ہے۔ یہ بات کہنا آسان ہے کہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایںٹی پروٹون کے گرد گھومتے ہوئے اینٹی الیکٹرون پر مبنی اینٹی ہائیڈروجن ایٹم بنا بھی لیا جائے تو اسے عام مادے سے دور رکھنا دردِ سر ہوتا ہے۔ یعنی جوں ہی ضدِ مادہ عام مادے سے ملے گا وہ فنا ہوجائے گا۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر خلائی سفر میں آپ کی ملاقات (بالفرض) ایسے شخص سے ہوتی ہے جو ضدِ مادہ سے بنا ہے اور جوں ہی آپ اس سے ہاتھ ملائیں گے، دونوں ہاتھ چھوتے ہی آپ اور وہ شخص ’’فنا‘‘ ہوجائیں گے اور گیما شعاعوں میں تبدیل ہوکر بکھر جائیں گے!

یہی وجہ ہے کہ حساس برقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) میدان میں چند اینٹی ہائیڈروجن ایٹموں کو رکھا گیا۔ پہلے 2017 میں انہوں نے اینٹی ہائیڈروجن (ایٹم) کو لیزر کے مدد سے سرد کیا تھا۔ یعنی اس کی تھرتھراہٹ کو کم سے کم کیا تھا۔ اب دوبارہ یہ تجربہ کیا گیا ہے جس میں لیزر کی بدولت اینٹی ہائیڈروجن کی حرکات کو کم کیا گیا ہے۔ طبیعیات کی زبان میں یہ عمل ٹھنڈا کرنا یا ’کولنگ‘ کہلاتا ہے۔

اسے ایک اور مثال سے سمجھیے کہ ابلتے ہوئے پانی میں ایٹم اور سالمات (مالیکیولز) بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں اور یہی عمل ان کی گرمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ برف میں سالمات اور ایٹموں کی حرکت یا تھرتھراہٹ کم ہوجاتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ پانی ٹھوس اور سرد ہوچکا ہے۔

اب لیزر کے ذریعے اینٹی ہائیڈروجن سرد کرنے کے بعد اینٹی میٹر کے بارے میں ہمارے علم اور تجربے میں بیش بہا اضافہ ہوسکے گا۔ اپنی کامیابی کے متعلق ڈاکٹر محمد صمید نے بتایا کہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے والدین نے انہیں بہترین تعلیم دلوائی اور اے لیول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کورنل یونیورسٹی کی اسکالرشپ پر طبیعیات میں مزید تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد انہوں ںے سرن میں موسمِ سرما کی انٹرن شپ حاصل کی اور یہاں اپنی صلاحیتوں کے بنا پر اس کی ایلفا لیب سے وابستہ ہوگئے۔
https://www.express.pk/story/2164272/508/


روزانہ دو لیٹر پانی پینے سے جسم میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ آسٹریلوی ماہر نے واضح کردیا
Apr 06, 2021 | 18:54:PM

کنبرا(مانیٹرنگ ڈیسک) ہمیں روزانہ کتنا پانی پینا چاہیے؟ اس حوالے سے ایک طویل بحث جاری ہے اور اب ایک آسٹریلوی ماہر نے لوگوں کو روزانہ 2سے 3لیٹر پانی پینے کا مشورہ دے دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سڈنی کی رہائشی ڈاکٹر ڈیشا فیلڈر نامی اس ماہر کا کہنا ہے کہ ”دو سے تین لیٹر روزانہ پانی پینے سے ہمارے گردے ہائیڈریٹ رہتے ہیں، ہمارا نظام انہضام اور مقصد کی صحت بہتر ہوتی ہے، جلد تروتازہ رہتی ہے اور ہمیں تھکاوٹ نہیں ہوتی۔“

ڈاکٹر ڈیشا کا کہنا ہے کہ ”ہم چائے اور کافی وغیرہ پینے کی وجہ سے بہت سارے پانی کا نقصان کرتے ہیں۔ اگر ہم روزانہ کم از کم 2لیٹر پانی پئیں تو اس سے ہمارے جسم سے زہریلے مادے خارج ہونے میں بھی مدد ملتی ہے جو ہماری صحت کے لیے کئی پہلوﺅں سے انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزانہ کم از کم دو لیٹر پانی پینے سے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ بھی طاقتور ہوتا ہے اورکام پر توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ “
https://dailypakistan.com.pk/06-Apr-2021/1273198?fbclid=IwAR0v7WW8XTlTHSxYTa6X4zBIql2h3UJz8Y0pe9SNz9SGjc7k6QJ-7q_iBAg


لندن:
ایک نئی تحقیق میں بڑھاپے پر مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ عمررسیدگی کوئی مسلسل عمل نہیں بلکہ حیاتیاتی طور پر اس کے تین ادوار ہیں جنہیں آپ بڑھاپے کو بڑھانے والے ’گیئر‘ کہہ سکتےہیں۔

2019 میں کی گئی ایک طویل تحقیق میں خون کے 4000 مختلف ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن سے معلومات ہوا ہے کہ حیاتیاتی بڑھاپے (بایولاجیکل ایجنگ) کا ظہور 34، 60 اور 78 سال کی عمر میں یک لخت ایک نیا روپ لیتا ہے۔ اس طرح بڑھاپے کی رفتار پوری عمر یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں تیزی اور تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

اس تحقیق سے بڑھاپے کے جسمانی اثرات، اعضا کے متاثر ہونے اور الزائیمر یا امراضِ قلب کو سمجھنے اور علاج میں مدد بھی حاصل ہوگی۔ اس مطالعے میں پروٹیومکس کا علم استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت خون میں پروٹین کی مقدار اور معیار دیکھے جاتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ خون میں مختلف پروٹین کی مقدار سے حیاتیاتی عمررسیدگی کا بہتر اندازہ ممکن ہے۔ اس عمل میں خون میں پروٹین کی مقدار یا پروٹیوم کو دیکھا جاسکتا ہے جو بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ گچھوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو کبھی خاص شکل میں ڈھل جاتے ہیں، لیکن یہ عمر کے تین مختلف حصوں میں زیادہ ہوتا ہے جنہیں بڑھاپے کی تین لہریں کہا جاسکتا ہے۔

اس عمل میں 18 سے 95 برس کے 4263 افراد کے خون کا پلازمہ لیا گیا اور ان میں 3000 مختلف قسم کے پروٹین دیکھے گئے۔ ان میں سے 1379 پروٹین عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں جو بڑھاپے کی ایک بہتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح 34، 60 اور 78 برس کی عمر میں سب سے زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

اگرچہ ماہرین اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آخر بعض مریضوں کے اندرونی اعضا مثلاً جگر وغیرہ دیگر اعضا کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد و خواتین میں بڑھاپے کی رفتار یکساں نہیں ہوتی۔
https://www.express.pk/story/2163823/9812/


واشنگٹن:
جو لوگ سول انجینئرنگ اور دیگر ڈیزائننگ میں پیمائشوں کےلیے مختلف آلات اور اسکیل رکھتے ہیں، اب ان کےلیے ’’میزور‘‘ ایک خوشخبری بن کر ابھرا ہے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کےمصداق اب میزور ڈیجیٹل ٹول ہر طرح کی پیمائش کرسکتا ہے۔

اس کی مدد سے آپ فلور پلان اور دیگر اشیا کی پیمائش کرسکتے ہیں۔ جس طرح کمپیوٹر ماؤس کا پہیہ ہوتا ہے، عین اسی طرح میزور کے اوپر ایک وِہیل لگا ہے۔ بس اسے کسی بھی جگہ گھماتے رہیے اور ڈیجیٹل میٹر اس کی پیمائش کرتا رہے گا۔ اگر آپ خمیدہ اشیا مثلاً انڈے، چوڑی یا کسی ڈیزائن کو ناپنا چاہیں تو میزور اس کام کو آسانی سے انجام دے سکتا ہے۔

دوسری جانب اس میں لیزر کی بدولت کسی بھی جگہ کا فاصلہ ناپنے کی سہولت بھی موجود ہے، یعنی لیزر پھینکیے؛ اور یہ 82 میٹر تک کی دوری سے بھی درست پیمائش کرسکتا ہے۔ تعمیرات میں ہم بلبلے والے اسکیل استعمال کرتے ہیں اور میزور یہ کام بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے۔

ایک مرتبہ چارج کرنے پرمیزور ایک ماہ تک کام کرسکتا ہے اور اس کی بدولت آپ خمیدہ گلدان سے لے کر کسی بوتل کا ناپ بھی معلوم کرسکتے ہیں۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ پیمائش کے بعد یہ کسی بھی شکل کے خدوخال ایک ڈرائنگ کی صورت میں بناتا ہے جنہیں کسی بھی پلیٹ فارم پر امپورٹ کرکے ایڈٹ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ساری معلومات آپ میزور ایپ پر بھی جمع کرسکتے ہیں۔

میزور اتنا چھوٹا ہے کہ بہ آسانی جیب میں سما سکتا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے چھوٹا ’’2 ڈی لیزر روم اسکینر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بس اسے آن کیجیے، یہ پورے کمرے کا اسکین کرسکتا ہے۔ میزور ٹیکنالوجی ابھی کراؤڈ فنڈنگ سے گزررہی ہے اور اس آلے کی قیمت 129 ڈالر رکھی گئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2163894/508/


واشگٹن:
کورونا وبا کے دوران ٹیلی میڈیسن ٹٰیکنالوجی پر بہت کام ہوا ہے۔ اب واشنگٹن یونیورسٹی نے ایک ویڈیو ٹیکنالوجی وضع کی ہے جو حقیقی وقت میں ویڈیو میں موجود شخص کے سانس اور نبض کی رفتار بہت درستگی سے معلوم کرسکتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ 8 اپریل کی اے سی ایم کانفرنس برائے صحت، انٹرفیس اور اکتساب میں کیا جائے گا۔

یہ ٹیکنالوجی چہرے کو دیکھتے ہوئے دونوں اہم طبی علامات کو نوٹ کرتی ہے۔ اب توقع ہے کہ اس طرح سے ٹیلی میڈیسن کو فروغ ملے گا۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ڈاکٹریٹ کے طالبعلم، ژن لائی نے کہا کہ مشین لرننگ تصاویر کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اب اس کی بدولت چہرے کو دیکھ کر فعلیاتی اور جسمانی کیفیات کا انکشاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہر شخص اپنی طبع میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے پورے نظام کو تیزی سے تبدیل ہونے والا ہونا چاہیے تاکہ وہ ہرشخص کی جسمانی تبدیلیوں کو پرکھا جاسکے خواہ وہ کسی بھی ماحول اور پس منظر میں موجود ہو۔

ویڈیو میں شخصی پرائیوسی کا خیال رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا ڈیٹا کلاؤڈ کی بجائے فون تک ہی محدود رہتا ہے۔ چہرے پر روشنی اور سائے کی تبدیلی سے مشین لرننگ کا عمل خون کے بہاؤ اور سانس کے اتارچڑھاؤ کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ اسے اصل ویڈیو اور لوگوں کی تصاویر پر تربیت دی گئی ہے۔ ساتھ میں سانس اور نبض کو آلات کے ذریعے نوٹ کیا گیا اور ویڈیو کے ساتھ ان کو ملایا گیا۔

سافٹ ویئر نے تھوڑی ہی دنوں بعد خود کو اس قابل کرلیا کہ وہ چلتے پھرتے لوگوں کی ویڈیوز سے بھی انکی سانس اور نبض کی رفتار نوٹ کرنے کے قابل ہوگیا ۔ لیکن بعض ڈیٹا سیٹس پر اس کی کارکردگی بہتر رہی جبکہ دیگر ڈیٹاسیٹس پر کارکردگی بہتر نہیں رہی اور یہ عمل مشین لرننگ میں ’اوورفٹنگ‘ کہلاتا ہے۔

اس کے بعد مشین کو انفرادی شخص کے حوالے سے تربیت دی گئی جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ تاہم سیاہ فام افراد کے لیے اسے مزید تربیت کی ضرورت ہے۔ تاہم اسمارٹ فون ویڈیو سے بھی اس سے سانس اور نبض کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2162202/9812/


بیجنگ: باسی کھانے، پھل، سبزیوں اور جان لیوا اعصابی گیسوں کی منٹوں میں شناخت کرنے والا ایک دستی قلم بنایا گیا ہے جس کی نِب ان گیسوں کی موجودگی میں رنگ بدلتی ہے۔

بالخصوص جنگوں یا حملوں میں اعصابی ایجنٹ گیس استعمال کی جاتی ہے جن کی بو اور رنگت نہیں ہوتی۔ اسی طرح کھانے پینے کی بہت سی اشیا خراب ہونے پر بھی گیس کے بخارات خارج کرتی ہیں جنہیں ہم سونگھ نہیں سکتے۔

اس پین کو چین مین شینزن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز نے کئی اداروں کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ اس کا اولین نمونہ (پروٹوٹائپ) دیکھنے میں سرنج کی طرح لگتا ہے اور بہت کم خرچ اور مؤثر بھی ہے۔ یہ اپنے خواص کی بنا پر مضر کیمیکل کی انتہائی معمولی مقدار بھی نوٹ کرسکتا ہے۔

اس طرح کے سینسر عام طور پر ایگریگیشن انڈیوسڈ ایمیشن فلوروجین (ایل ای جینس) استعمال کرتے ہیں اور مضر کیمیکل ان سے چپکنے کے بعد ایک طرح کی رنگ دار روشنی خارج کرنے لگتے ہیں لیکن اب سے قبل یہ سارے نظام مائعات (لیکوئیڈ) پر مبنی تھے۔

اب ژی جیاؤ، پینگفانگ زینگ، ہیاتو فینگ، بین زونگ ٹینگ اور دیگر ساتھیوں نے ایل ای جینس کو ٹھوس شکل دی ہے اور اسے ایک سوئی کی نوک پر لگایا ہے۔ جیسے ہی کوئی گیس خارج ہوتی ہے یا کسی غذا کے سڑنے سے بخارات نکلتے ہیں اس کا سرا روشن ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد دو عدد پروٹوٹائپ پین بنائے گئے جن میں سے ایک ڈی ایتھائل کلوروفاسفائیٹ (ڈی سی پی) نامی زہریلی گیس کی شناخت کرسکتا ہے جبکہ دوسرا امائن سینسر ہے۔ دونوں نصف گھنٹے میں رنگ بدل کر زہریلی گیس کی موجودگی ظاہر کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد مزید تحقیق کرکے امائن شناخت کرنے والے سینسر کا دورانیہ پانچ منٹ تک لایا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ مچھلی معمولی بھی پرانی ہوگی تو امائن سینسر اسے فوری طور پر شناخت کرلے گا۔ اگلے مرحلے میں مختلف کھانوں کی خرابی نوٹ کرنے والے مختلف سینسر تیار کیے جائیں گے۔
https://www.express.pk/story/2161679/9812/


پنسلوانیا:
جب بھی کوئی چھوٹا متحرک روبوٹ تیار کیا جاتا ہے، اس میں بیٹری کا مسئلہ ضرور آڑے آتا ہے کیونکہ بھاری بیٹریاں اس کی کارکردگی متاثر کرتی ہیں۔ اب ایک ایسا روبوٹ بنایا گیا ہے جو باقاعدہ کسی دماغ سے عاری ہے اور دھات کھا کر توانائی بناتا ہے۔

پنسلوانیا یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ کے جیمز پائکل اور ان کے ساتھیوں نے بغیر بیٹری کا روبوٹ بنایا ہے۔ یہ روبوٹ ’اینوائرونمنٹلی کنٹرولڈ وولٹیج‘ یا ای سی وی طریقے سے توانائی بناتا ہے۔ اس میں کیمیائی بندوں کے ٹوٹنے اور بننے سے بجلی بنتی ہے۔ جوں ہی یہ دھاتی سطح کو چھوتا ہے، اس میں موجود ای سی وی اطراف کی ہوا کوآکسیڈیشن کے عمل سے گزارتا ہے اور آزاد الیکٹرون روبوٹ کو بجلی دیتے ہیں۔

ریسرچ جرنل ’’ایڈوانسڈ انٹیلی جنٹ سسٹمز‘‘ میں شائع تحقیق کے مطابق، یہ روبوٹ کسی کمپیوٹر کے بغیر اپنے ماحول میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے پہیے ای سی وی سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس میں ایسا نظام ہے کہ یہ خود دھاتی راہ پر چل پڑتا ہے اور اسے چاٹتا ہوا اپنی توانائی بناتا رہتا ہے۔

روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ کسی مرکزی دماغ یا پروسیسر نہ ہونے کے باوجود یہ کام کرسکتا ہے۔ اس سے قبل ہم قدرت کے کارخانے میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح بیکٹیریا ’کیموٹوکسِس‘ عمل سے ازخود اپنی غذا کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔ اسی طرز پر ای سی وی روبوٹ بنایا گیا ہے۔

فی الحال یہ روبوٹ المونیئم کی پتری سے بنائے ہوئے راستے پر چلتا جاتا ہے اور ای سی وی بجلی بناتا رہتا ہے۔ روبوٹ کسی زبان کی طرح ایلمونیئم کو چاٹتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سادہ ایجاد بہت سی تبدیلیوں کی بنیاد بن سکے گی۔ ایسے روبوٹ بیٹریوں سے بے نیاز ہوکر بہت مشکل ماحول میں اپنے کام سرانجام دے سکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2162964/508/


واشنگٹن:
اینڈرائیڈ فون نے جہاں ایک طرف آسانیاں پیدا کردی ہے تو دوسری جانب فیچر فون سے اینڈرائڈ پر منتقل ہونے والے صارفین کے لیے یہ کبھی کبھی درد سر بن جاتا ہے۔ مستقل نوٹیفیکیشن، اسکرین کی روشنی کم زیادہ ہونا اور اپنی مطلوبہ ایپلی کیشن کی تلاش صارف کودق کردیتی ہے۔

بلاٹ ویئر ایپس

تقریبا ہراسمارٹ میں تیار کنندہ کی جانب سے کچھ ایپلی کیشن پہلے سے ہی انسٹال ہوتی ہیں اور آپ انہیں ان انسٹال بھی نہیں کر سکتے۔ ان ایپس کو ’بلاٹ ویئرایپس‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کا فون چاہے کسی ان برانڈڈ کمپنی کا ہو یا سام سنگ، گوگل یا ون پلس کا، یہ بلاٹ ویئر ایپس تقریبا ہر برانڈ کے اسمارٹ فون میں پائی جاتی ہیں۔

اگر آپ کے موبائل میں بھی ایسی ایپس موجود ہیں تو یا تو آپ انہیں ان انسٹال کردیں یا پھرآپ سیٹنگ میں جا کر ’فورس اسٹاپ ‘ کردیں۔ فورس اسٹاپ کی وجہ سے یہ ایپلی کیشن نہ ہی آپ کی بیٹری خرچ کرے گی اور نہ ہی آپ کا ڈیٹا۔

آٹو برائٹنیس بند کردیں

کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے اسمارٹ فون کی اسکرین کبھی ہلکی اور کبھی بہت زیادہ روشن ہوجاتی ہے۔ یہ فون میں موجود ایک فیچر آٹو برائٹنیس کی بدولت ہے۔

نئے ماڈلز میں اسے adaptive برائٹنیس کا نام دیا گیا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ فیچر بہت مفید ہے، لیکن اسکرین کی بدلتی ہوئی روشنی صارف کو الجھن میں مبتلا کردیتی ہے۔ آٹو برائٹنیس بند کرنے کے لیےتصویر میں دی گئی ہدایات پرعمل کریں۔

ڈارک موڈ آن کریں

آپ میں سے کتنے ایسے لوگ ہے جو صبح اٹھتے ہی ایک آنکھ میچ کر اپنے موبائل پر موجود نوٹیفیکیشن دیکھتے ہیں؟ لیکن اینڈرائیڈ نے اپنے نئے ورژن میں صارفین کے اس مسلے کا حل ’ ڈارک موڈ‘ کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ آپ سیٹنگ مینیو میں جاکر’ ڈارک موڈ‘ فیچر کو مستقل آن بھی کرسکتے ہیں اور مخصوص وقت کے لیے بھی۔

اگر آپ کے فون میں اینڈرائیڈ کا پرانا ورژن ہے تب بھی اینڈرائیڈ میسجز، جی میل، واٹس ایپ، گوگل ڈرائیو، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، آؤٹ لک پر آپ ڈارک موڈ آن کر سکتے ہیں۔

ڈو نوٹ ڈسٹرب

اسمارٹ فونز کا ایک اہم فیچر نوٹیفیکشن کا بھی ہے، لیکن اگر رات کے 3 بجے کوئی آپ کو ای میل کرتا ہے، یا سوشل میڈیا پر آپ کی کسی پوسٹ یا تصویر پر تبصرہ کرتا ہے تو اس نوٹی فیکیشن کی آواز سے آپ کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

اگر آپ اسمارٹ فون کی دخل اندازی کے بنا نیند پوری کرنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ فیچر یقینا آپ کے لیے ہی دیا گیا ہے۔ اسے آپ اپنی ترجیحات کے مطابق بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔ کہ کس ایپ کا نوٹی فیکیشن ملنا چاہیے اور کس کا نہیں۔

بیٹری کا وقت بڑھائیں

بیٹری اسمارٹ فون کی شہہ رگ ہے، بیٹری ختم سمجھیں آپ کا دنیا سے مواصلاتی رابطہ ختم۔ موبائل کی اسکرین سب سے زیادہ بیٹری خرچ کرتی ہے۔ اگر آپ اسمارٹ طریقے سے اپنی ڈسپلے سیٹنگ کریں تو پھر آپ اپنے فون کو زیادہ دیر تک استعمال کر سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2163324/508/


لندن:
کوئن میری یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اطراف سے انسانوں اور جانوروں کا ڈی این اے کشید کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس محتاط عمل میں چونکہ اطراف کی ہوا اور ماحول سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے، اسے انوائرمینٹل ڈی این اے یا مختصراً ’ای ڈی این اے‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کی سالماتی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلزبتھ کلیئر نے کہا ہے اس طرح ہم پانی، مٹی اور دیگر مقامات سے بھی ڈی این اے اخذ کرسکتے ہیں جس کے بہت سے استعمالات بھی ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی تالاب یا دریائی حصے میں ڈی این اے کی آزمائش سے وہاں موجود مچھلیوں کی اقسام معلوم کی جاسکتی ہیں۔

اگرچہ اس سے قبل مٹی اور پانی سے مختلف انواع اور اقسام کے جانوروں کے ڈی این اے نکالے گئے ہیں لیکن ہوا کے لیے ای ڈی این اے کی آزمائش نہیں کی گئی تھی۔ اس ضمن میں کوئن میری یونیورسٹی کی تحقیق دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔

اس کے لیے انہوں نے ایک قسم کے بے بال والے نابینا چوہوں (نیکڈ مول ریٹس) کو ایک کمرہ نما فارم میں ایک برس تک رکھا تاہم اس میں سائنسدانوں کی آمدورفت جاری رہی تھی۔ یہاں ہوا کے فلٹر بھی لگے تھے جس سے ہوا کے نمونے جمع کیے گئے اور مرکزی کمرے کے اندر سے بھی ہوا کے نمونے حاصل کیے گئے۔ چونکہ یہ چوہے لمبے بلوں میں رہتے ہیں اس لیے ایک بل پر لگائے فلٹر سے بھی ہوا جمع کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرنگ نما بل کی ہوا اور خود کمرے کی ہوا میں چوہوں کے ڈی این اے نوٹ کیے گئے اور اس طرح ہوا سے ڈی این اے نکالنے کا پہلا کامیاب تجربہ دنیا میں رپورٹ ہوگیا۔

غیر متوقع طور پر ہوا کے اندر انسانی ڈی این اے بھی دیکھا گیا اور یہ ایک حیرت انگیز امر ہے۔ ماہرین پہلے اسے ایک طرح کی آلودگی قرار دیتے رہے لیکن اصل میں یہ تحقیق کا ایک نیا دور بھی ہے۔

لیکن ذرا سوچیے کہ اگر کسی بند کمرے سے انسانی ڈی این اے نکالا جائے تو جرم اور واقعات کی تحقیق کو ایک نیا رخ مل سکے گا۔ اس طرح ماضی کے راز افشاں کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس طرح قدیم ڈی این اے کی شناخت اور دیگر پہلوؤں سے آثارِ قدیمہ اور بشریات کے علم میں بھی مدد ملے گی۔

ڈاکٹر ایلزبتھ اس سے قبل جوہڑ اور تالاب میں ڈی این اے کی نشاندہی اور درجہ بندی پر خاصا کام کرچکی تھیں۔ اسی تجربے نے انہیں ہوا سے ڈی این اے کے اخراج پر مائل کیا۔ اس کے لیے انہوں نے خاص فلٹر بنائے اور ڈی این اے جمع کرنے والا ایک نظام ترتیب دیا۔
https://www.express.pk/story/2161757/508/


سنگاپور:
پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں تین برس تک جاری ایک مطالعے کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق اگر لیڈی ہیلتھ ورکر یا کمیونٹی ورکر کو شہری عوام کو بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کا شعور فراہم کرے تو اس کے بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کم خرچ انداز میں نہ صرف دیگر خوف ناک امراض سے بچنا ممکن ہوگا بلکہ اس سے لاکھوں کروڑوں روپے کی بچت بھی ہوسکتی ہے۔

لینسٹ میں شائع ایک رپورٹ میں ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول سنگاپور کی جانب سے ’کنٹرول آف بلڈ پریشر اینڈ اٹینیوایشن، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا (سی او بی آر اے (کوبرا) پی بی ایس) پروگرام جاری کیا گیا ہے۔

پاکستان میں یہ پروگرام آغا خان یونیورسٹی کے تعاون سے 2016ء سے 2019ء کے درمیان مکمل کیا گیا۔ اس طرح تینوں ممالک میں لیڈی ہیلتھ ورکر یا کمیونٹی ہیلتھ ورکر کو شہریوں کے بلڈ پریشر نوٹ کرنے اور ان کے انتظام کی تربیت دی گئی ورنہ عام حالات میں وہ ماں اور بچے کی صحت پر ہی توجہ کرتے ہیں۔

ان ہیلتھ ورکرز نے لوگوں کو بلڈ پریشر بڑھنے کے نقصانات، صحت مند غذا اورورزش اور ڈاکٹروں تک رسائی میں مدد دی۔ اس طرح بہت کم خرچ انداز میں آبادی کے بڑے حصے کو بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مدد دی گئی۔ ڈیوک این یو ایس سے وابستہ پروفیسر تزئین جعفر نے بتایا کہ ’اس مطالعے کا مقصد بیماری کی روک تھام اور اس پر ہونے والے اخراجات میں کمی ہے۔‘ اس تحقیق سے صحت کو نقصان پہنچانے والے بہت سے عوامل کی روک تھام کرنی ہے۔

اس عمل میں تین سال تک پورے مطالعے کے اخراجات نوٹ کیے گئے اور اسے دیگرغریب یا ترقی پذیرممالک پر لاگو کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ پھر بلڈ پریشر قابو کرکے فالج اور امراضِ قلب کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہیلتھ ورکروں کی مدد سے بلڈ پریشر کی بلا کو قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اندازہ لگایا گیا کہ پہلے سال فی شخص (مریض) کی معاونت اور مدد پر پاکستان اور بنگلہ دیش میں سوا دس ڈالر اور سری لنکا میں دس ڈالر اور بیالیس سینٹ خرچ کیے گئے۔ اگلے پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ اخراجات مزید کم ہوئے تاہم سری لنکا میں کچھ بڑھ گئے۔

اس مطالعے کے کم ترین اخراجات کو دیکھتے ہوئے اسے ترقی پذیر ممالک پر لاگو کیا جاسکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سال بہ سال قیمت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پھر کوبرا پی بی ایس بنگلہ دیش کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ بڑھتا ہوا بلڈ پریشر دیگر ممالک کی طرح وہاں امراضِ قلب، فالج اور گردے ناکارہ بننے کے بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔

اس پروگرام میں شامل آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر امتیاز جہاں کہتی ہیں کہ پاکستان میں 45 برس سے زائد کا ہر تیسرا فرد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے اور اس خاموش قاتل مرض کو قابو کرکے دل کی بیماریوں اور دیگر امراض کو روکا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2163471/9812/


واشنگٹن:
امریکا میں ایک وسیع مطالعے کے بعد سائنسدانوں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غذائی مصنوعات کو لمبے عرصے تک محفوظ بنانے والا ایک عام کیمیائی مادّہ، انسان کے قدرتی دفاعی نظام کو نقصان پہنچا کر انہیں بیماریوں کے خلاف کمزور کرسکتا ہے۔

اس مادّے کا نام ’’ٹرٹ بیوٹائل ہائیڈروکینون‘‘ (TBHQ) ہے جس کی بہت معمولی مقدار تقریباً ہر اُس غذائی مصنوعہ (فوڈ پروڈکٹ) میں موجود ہوتی ہے جسے لمبے عرصے تک محفوظ رکھنا مقصود ہوتا ہے۔

قدرتی غذاؤں میں شامل کیے گئے مصنوعی مادّوں کے ہماری صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟ یہ جاننے کےلیے ’’اینوائرونمنٹل ورکنگ گروپ‘‘ (ای ڈبلیو ایچ) کے ماہرین نے ایسے 63 مادّوں کا جائزہ لیا جو 2018 سے 2020 کے دوران امریکا میں زیادہ فروخت ہونے والی دس غذائی مصنوعات میں شامل تھے۔

ان 63 مادّوں میں ’’ٹی بی ایچ کیو‘‘ کے انسانی امنیاتی نظام (امیون سسٹم) پر ممکنہ منفی اثرات خاصے نمایاں انداز میں سامنے آئے ہیں۔

امنیاتی نظام ہی وہ قدرتی دفاعی نظام ہے جو ہر وقت، بہت خاموشی سے بیماریوں کے خلاف لڑتا رہتا ہے اور یوں ہمیں اکثر اوقات بیماریوں سے بچائے رکھتا ہے۔

تاہم اگر اس نظام کو نقصان پہنچ جائے یا اس میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو وہ صحت کے متعدد مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

بہت سے عام کیمیکلز (کیمیائی مرکبات) ہمارے امنیاتی نظام میں خرابیاں پیدا کرتے ہیں جنہیں مجموعی طور پر ’’امنیاتی زہر آلودگی‘‘ (امیونو ٹاکسی سٹی) کہا جاتا ہے۔

ان خرابیوں کے نتیجے میں عارضی یا مستقل طور پر مختلف مسائل جنم لے سکتے ہیں؛ جیسے کہ حد سے زیادہ حساسیت، طویل مدتی سوزش/ درد، امنیاتی نظام میں بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کم ہوجانا، اور امیون سسٹم کا خود اپنے ہی جسم کے پٹھوں کو نقصان پہنچانا وغیرہ۔

تحقیقی مجلّے ’’انٹرنیشنل جرنل آف اینوائرونمنٹل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں ٹی بی ایچ کیو اور امنیاتی زہر آلودگی میں مضبوط تعلق سامنے آیا ہے، بالخصوص امیون سسٹم کمزور ہونے کے حوالے سے۔

اسی تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا امریکا میں غذا و ادویہ کے مرکزی ادارے ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ کو مشورہ ہے کہ غذائی مصنوعات کی تیاری اور پیکنگ میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادّوں پر امنیاتی زہر آلودگی کی مناسبت سے نظرِ ثانی کی جائے تاکہ ان کےلیے نئی حفاظتی مقداروں یا ممکنہ پابندیوں کا تعین کیا جاسکے۔
https://www.express.pk/story/2163315/9812/


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108247555&Issue=NP_PEW&Date=20210405



اسپین:
ماں کے دودھ کے اسرار ہر سال منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ شیرِ مادر میں موجود بعض کیمیکل بچے کی آنتوں کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں اور وہ ابتدا میں ہی آنتوں کو صحت کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔

ان میں ایک بیٹین نامی امائنوایسڈ بہت اہم ہوتا ہے جو طویل مدت کے لیے بچے کی استحالہ جاتی تندرستی برقرار رکھتا ہے اور نومولود کی آنتوں میں مفید بیکٹیریا پروان چڑھاتی ہیں۔

بارسلونا میں واقع سانت ہوآن ڈیو چلڈرن ہسپتال کے چارلس لیرن بچوں میں موٹاپے پر تحقیق کررہے تھے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ فارمولہ دودھ بچوں کو موٹاپے کی جانب دھکیلتا ہے جبکہ ماں کا دودھ مفید ثابت ہوتا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے امریکہ میں یہ اس تحقیق کو آگے بڑھایا اور 34 ماں اور بچے کو مطالعے میں شامل کیا۔ تمام بچے صرف ماں کا دودھ ہی پی رہے تھے۔ ان تمام بچوں میں کسی قسم کی فربہی اور موٹاپا دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس کے بعد انہوں نے چوہوں اور اس کے بچوں پر تجربات کئے اور انہیں دو گروہوں میں بانٹا۔ ایک گروہ کی ماؤں کو 10 فیصد اضافی بیٹین دیا گیا جو ماں کے دودھ سے بچے میں منتقل ہوا۔ چھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ جن بچوں کے جسم میں اضافی بیٹین گیا دیگر کے مقابلے میں ان کا وزن دس فیصد کم تھا۔

اس طرح معلوم ہوا کہ بیٹین بچوں کی درست نشوونما تو کرتا ہے لیکن انہیں بے ہنگم انداز میں موٹا نہیں ہونے دیتا۔ اس کے علاوہ چوہوں کے بچوں کی آنتوں میں انتہائی مفید اور صحت مند بیکٹیریا کی بہتات دیکھی گئی جنہیں آکرمینسیا کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری تصدیق اسپین میں 109 بچوں اور ان کی ماؤں میں ہوئی جب بچوں نے بیٹین والا دودھ پیا تو ان کی آنتوں میں بھی آکرمینسیا دیکھا گیا۔ اس کا مظاہرہ 12 ماہ تک نوٹ کیا گیا۔ اگر یہ بیکٹیریا بچوں میں کم ہوجائے تو وہ موٹاپے کی جانب بڑھتے ہیں اور دیگر بیماریوں کے شکار ہوسکتےہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ موٹاپے کو دور کرنے والی ایک قسم کی غذائی تدبیر ’میڈیٹرینیئن ڈائٹ‘ میں بھی بیٹین پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ امائنوایسڈ معدے کو درست رکھتا ہے، موٹاپے کو روکتا ہے اور انسان کو تندرست رکھتا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بیٹین بچے اور بڑوں دونوں کے لیے یکساں مفید ہے۔
https://www.express.pk/story/2162991/9812/


پیساڈینا، کیلیفورنیا:
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’’ناسا‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ ’’پرسیویرینس روور‘‘ کے ساتھ مریخ پر اتارا گیا ہیلی کاپٹر ’’انجینیٹی‘‘ اپنی پہلی اُڑان بھرنے کےلیے تیار ہے۔

البتہ یہ پہلی پرواز 11 اپریل سے پہلے ممکن نہیں ہوگی کیونکہ تب تک مریخ کے مخصوص حالات میں انجینیٹی (Ingenuity) کا مختلف تکنیکی اور حفاظتی پہلوؤں سے حتمی جائزہ لیا جائے گا۔

اگر یہ پرواز کامیاب رہی تو انجینیٹی وہ پہلا ہیلی کاپٹر ہوگا جو مریخ کی فضاؤں میں پرواز کرے گا۔

واضح رہے کہ پرسیویرینس روور اور انجینیٹی، دونوں ہی مریخ پر پہنچنے والے تازہ ترین مشن ’’مارس 2020‘‘ کے اہم ترین حصے ہیں۔ اس مشن کا مقصد مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار کی تلاش ہے۔

پرسیویرینس روور (Perseverance rover) چھ پہیوں والی گاڑی ہے جو مریخ کی سطح پر گھوم پھر کر اپنا کام کر رہی ہے۔

انجینیٹی ہیلی کاپٹر کو اسی روور کے نچلے حصے میں محفوظ کرکے بند کیا گیا تھا، جو کچھ روز پہلے ہی اس سے الگ ہو کر مریخ کی سطح پر اُتر چکا ہے۔

پرواز نہیں آساں…

انجینیٹی کےلیے مریخ کی فضاؤں میں اُڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ مریخ کا کرہ ہوائی، ہمارے زمینی کرہ ہوائی کے مقابلے میں 10 گنا ہلکا ہے جبکہ وہاں کی کششِ ثقل بھی زمینی کشش سے 3 گنا کم ہے۔

اگرچہ انجینیٹی کو بالخصوص مریخی ماحول مدِنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے لیکن مریخ پر، حقیقی حالات میں ہی اس کی اصل کارکردگی کا پتا چل سکے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ناسا کے ماہرین، انجینیٹی کی پرواز سے متعلق ہر ممکن احتیاط برت رہے ہیں۔

یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ اگر مریخ پر انجینیٹی کی پرواز کامیاب ہوگئی تو خلائی تحقیق کے میدان میں یہ انسانیت کا ایک اور بڑا قدم ہوگا۔

انجینیٹی کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے ’’ناسا جے پی ایل‘‘ (جیٹ پروپلشن لیبارٹری) نے بتایا ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر، پرسیویرینس روور کے ’’پیٹ‘‘ سے 4 انچ (10 سینٹی میٹر) نیچے، مریخ کی سطح پر کامیابی سے اُتر چکا ہے۔ اس کا اگلا سنگِ مِیل، مریخ کی رات کو برداشت کرنا ہوگا۔

رات کے وقت مریخ کا ماحول انتہائی سرد ہوجاتا ہے اور وہاں کا درجہ حرارت منفی 90 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرسکتا ہے۔ لہٰذا یہ جاننا ضروری ہے کہ شدید سرد ماحول میں انجینیٹی کے آلات اور حفاظتی انتظامات درست طور پر کام کررہے ہیں یا نہیں۔

پرواز سمیت دوسرے کاموں کےلیے انجینیٹی میں ایک بیٹری نصب ہے جو صرف 237 گرام وزنی ہے اور 350 واٹ تک بجلی فراہم کرسکتی ہے۔

بیٹری چارج کرنے کےلیے انجینیٹی میں شمسی پینل نصب ہیں، تاہم اس بیٹری کو پہلی بار پرسیویرینس روور کے ذریعے مکمل چارج کیا گیا ہے۔

جیٹ پروپلشن لیبارٹری، ناسا میں ’’مارس ہیلی کاپٹر پروجیکٹ‘‘ (انجینیٹی) کے چیف انجینئر باب بالارام کے مطابق، ان کی ٹیم آئندہ چند دنوں میں اس ہیلی کاپٹر کے شمسی پینل کی جانچ پڑتال کرکے اطمینان کرے گی کہ وہ صحیح طور پر کام کررہا ہے۔

علاوہ ازیں، شمسی پینل سے انجینیٹی کی بیٹری چارج کرکے، پرواز سے پہلے، اس کی موٹروں اور حساسیوں (سینسرز) کی بھی حتمی آزمائش کی جائے گی تاکہ ان کے بھی درست کام کرنے کی یقین دہانی ہوسکے۔

ان تمام مراحل کے بعد ہی انجینیٹی اپنی پہلی آزمائشی پرواز کرے گا، جس میں وہ تقریباً 3 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے اوپر اٹھتے ہوئے 10 فٹ کی بلندی تک پہنچے گا اور لگ بھگ 30 سیکنڈ تک ہوا میں معلق رہنے کے بعد آہستگی سے مریخ کی سطح پر واپس اتر جائے گا۔

پرواز کے دوران وہ اپنے ارد گرد کی ہائی ریزولیوشن تصویریں بھی کھینچے گا۔

اگلے ایک ماہ میں یہ مزید پانچ پروازیں کرے گا جو بتدریج مشکل بنائی جائیں گی۔ ان آزمائشی پروازوں سے حاصل ہونے والے نتائج دیکھ کر ہی ناسا کے ماہرین یہ فیصلہ کریں گے کہ انجینیٹی سے مریخ پر مزید کیا کام لیا جاسکتا ہے۔

کچھ ’انجینیٹی‘ کے بارے میں

یہ ہلکا پھلکا ’’چھوٹا مریخی ہیلی کاپٹر‘‘ صرف 1.8 کلوگرام وزنی ہے جس کے چوکور ڈبے جیسے مرکزی حصے کی لمبائی 7.7 انچ، چوڑائی 6.4 انچ، اور موٹائی 5.4 انچ ہے۔

مریخی سطح پر اُترنے (لینڈنگ) کےلیے اس کی چار ہلکی پھلکی لیکن مضبوط ٹانگیں ہیں جو کاربن فائبر ٹیوبز سے تیار کی گئی ہیں۔ ان کی لمبائی 15.1 انچ ہے۔

انجینیٹی میں اوپر تلے دو پنکھے (روٹرز) نصب ہیں جن میں سے ہر ایک کی چوڑائی 4 فٹ ہے۔

اس کی 273 گرام وزنی بیٹری 350 واٹ تک بجلی پیدا کرسکتی ہے جسے چارج کرنے کےلیے انجینیٹی میں سب سے اوپر ایک شمسی پینل نصب ہے۔
https://www.express.pk/story/2163246/508/


موسم گرما میں سونف کے کرشماتی فوائد بارے جانئے
 5 April, 2021

سونف کو ہم اپنی غذا میں شامل کرکے گرمی کی شدت کو توڑ سکتے ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)ماہرین کا ماننا ہے کہ سونف کے شربت کا استعمال انسانی جسم میں موجود ہارمونل توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے ، اس میں سیلینیم اور زنک جیسے اہم معدنیات پائے جاتے ہیں، سونف کی اینٹی سپاسموڈک خصوصیات ماہواری کے درد کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد کرتی ہے ۔سونف کی چائے ناصرف گرمی کو دور کرتی بلکہ ہاضمہ بھی بہتر کرتی ہے ۔سونف کا پانی گیس کے مسائل حل کرتا ہے جبکہ ہاضمہ دار بھی ہوتا ہے ۔ آپ اپنی مجموعی صحت کو بہتر بنانے کیلئے اپنے دن کا آغاز سونف کے پانی سے کرسکتے ہیں۔ہم سونف کا پاؤڈر بھی مختلف کھانوں اور مشروبات میں شامل کرکے ان کا مزہ دوبالا کرسکتے ہیں جبکہ کھانے کے بعد سونف کو چبانے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔ اس سے متلی اور منہ کا ذائقہ بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-05/1803747


ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے ؟
 5 April, 2021

طبی ماہرین نے وضاحت کی ہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے

لاہور(نیٹ نیوز)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خون دینے سے بلڈ شوگر لیول متاثر ہوتا ہے ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول نارمل ہو اور جو لوگ انسولین لگاتے ہیں وہ عطیہ نہیں دے سکتے ، تاہم عام دوائیاں کھانے والے شوگر مریض خون عطیہ کر سکتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس میٹابولزم کا مرض ہے ، اس سے مریض کا جسم متاثر ہوتا ہے ، خون نہیں، یہ ذہن میں رہے کہ اگر مریض کو دل یا گردوں کی بیماری نہیں ہے تو وہ خون دے سکتا ہے ۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص کو خون کا عطیہ دینا چاہیے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-05/1803751


سڈنی(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کہا جاتا ہے، اور اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ محض کہنے کی بات نہیں بلکہ واقعی بہت بڑی حقیقت ہے۔ یہ دین فطرت جہاں ہمیں فکر و عرفان سے روشناس کرواتا ہے وہیں زندگی کے روزمرہ اعمال کی تربیت بھی دیتا ہے۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے لئے جسم کی دیگر صفائی کے علاوہ زیر ناف بالوں کی صفائی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ان بالوں کی صفائی سے غفلت برتنا مغربی معاشرے میں اس قدر عام پایا جاتا ہے کہ گویا اس کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق میں اب اس ضمن میں کچھ ایسے انکشافات کردئیے گئے ہیں کہ اہل مغرب کو بھی زیر ناف بالوں کی صفائی کے متعلق مذہبی احکامات کی خوب سمجھ آنے لگی ہے۔


اخبار ”ڈیلی میل“کے مطابق یونیورسٹی آف سڈنی کے سائنسدان ڈاکٹر کیمرون ویب کا کہنا ہے کہ حالیہ تحقیقات میں پتہ چلا کہ مغربی ممالک میں بے شمار ایسے لوگ ہیں کہ جو زیر ناف بالوں میں جوﺅں اور پسوﺅں کے مرض میں مبتلاءہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ Tinder پر کئے گئے ایک سروے کے مطابق اس ایک ویب سائٹ کے ساڑھے سات لاکھ صارفین اس بیماری کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر کیمرون کا کہنا ہے کہ یہ جوئیں اور پسو عام جوﺅں کی نسبت بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور عموماً اس بیماری میں مبتلا شخص کو ان کی موجودگی کا مکمل طور پر ادراک بھی نہیں ہوتا۔


بیماری کی صورت میں متاثرہ جگہ پر خارش محسوس ہوتی ہے، جبکہ اگر جلد کو بغور دیکھا جائے تو اس پر نیلے رنگ کے دھبے نظر آتے ہیں۔ اگر زیر جامے کو بغور دیکھا جائے تو اس پر خون کے ننھے نشانات نظر آسکتے ہیں، جبکہ زیر جامے میں سیاہ پاﺅڈر جیسی چیز بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر کیمرون نے مزید بتایا کہ زیر ناف بالوں میں پائی جانے والی ان جوﺅں کی جسامت محض ڈیڑھ ملی میٹر ہوتی ہے، اور ایک جوں ایک ماہ میں تقریباً 30 انڈے دیتی ہے۔ چونکہ متاثرہ حصوں کا درجہ حرارت قدرے زیادہ ہوتا ہے اور نم ماحول بھی دستیاب ہوتا ہے لہٰذا ان جوﺅں کی خوب پھیلاﺅ ہوتا ہے۔ڈاکٹر کیمرون نے بتایا کہ اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے، اور وہ یہ کہ زیر ناف بالوں کی باقاعدگی سے صفائی کی جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جن لوگوں کے زیر ناف بالوں میں یہ جوئیں پیدا ہو جائیں، ان کی بغلوں، سینے اور حتیٰ کہ چہرے کے بال بھی ان سے محفوظ نہیں رہتے۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Oct-2020/1193435?fbclid=IwAR3BSTtdUgST24pHVDxDRO4D089p7OOBUdyGUSvKuR5R-f6Rdd7Vr9647PE


کہا جاتا ہے کہ جنگ کے مقاصد اور فریق کبھی بھی نہیں بدلتے۔

یعنی جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے تب سے ہی ہماری زمین پر ہونے والی ہر جنگ کے فریق انسان اور صرف انسان ہی رہے ہیں۔ نیز اپنے سے کم تر قوم کی سر زمین پر قبضہ کرنا، اپنی غیرمعمولی طاقت کا اظہار کرنا اور جارحیت سے دوسری قوم کو اپنے زیرنگیں لاکر مفتوح قوم کے زرخیز وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کی خواہش ہی جنگ کے بنیادی مقاصد میں کل بھی شامل تھی اور آج بھی شامل ہے، اور گمانِ غالب ہے آئندہ بھی ان ہی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے جنگ وجدال کے میدان سجائے جاتے رہیں گے۔

مگر جنگ میں ایک شئے ضرور ایسی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وہ ہے ہتھیار۔ جی ہاں! جنگی ہتھیار جنگ کی بنیادی کلید سمجھے جاتے ہیں اور اس چابی کی مدد سے ہی جنگوں میں فتوحات کے مشکل و ناقابلِ تسخیر باب وا کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہہ جنگیں دنیا کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن کسی غیرمعمولی ہتھیار کی ایجاد اور اُس کے بروقت استعمال سے بعض اوقات جنگ کا اپنا نقشہ بھی مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دست بدست جنگ کرنے والی فاتح اقوام کا سامنا جب تیروتلوار جیسے ہتھیاروں سے ہوا تو وہ مفتوح ہوگئیں۔

نیز تلوار چلانے والی قوم بندوق اور بارود استعمال کرنے والے حریفوں کے مقابل آئیں تو، شکست اُن کا مقدر ٹھہری، جب کہ توپ و تفنگ کے ماہر، بم برساتے ہوئے اُڑتے جہاز وں کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ حد تو یہ ہے کہ بحری اور فضائی طاقت پر نازاں اقوام پر جب دو ایٹمی ہتھیار چلائے گئے تو انہوں نے بھی حریف کے سامنے سپر ڈالنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی ۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں پوری طرح سے حق بہ جانب ہیں کہ جنگیں لڑتے ضرور انسان ہی ہیں لیکن جیت ہمیشہ ہتھیاروں کی ہوتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ایسے جدید اور سائنس فکشن ہتھیاروں کا اجمالی تذکرہ پیش خدمت ہے جن کے متعلق ماہرین عسکریات کو گمان ہے کہ شاید اِن میں سے کوئی ہتھیار مستقبل قریب میں ’’ہتھیاروں کی دوڑ‘‘ کا نیا فاتح قرار پائے۔

٭مائکرو ڈرون(Micro Drone)
ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ میل مخفف ہے ’’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘‘ کا۔

ویسے تو ڈرون کی ایجاد مخصوص جنگی مقاصد، جیسے فضائی جاسوسی یا نگرانی کے لیے ہی کی گئی تھی، لیکن بعدازآں ڈرون میں اے جی ایم ہیل قسم کے میزائل نصب کرکے اِسے باقاعدہ ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کردیا گیا۔ آج کل ا یک جدید ڈرون اپنے ساتھ 2 لیزر گائیڈڈ میزائل اور 350 کلو گرام بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ ڈرون کے بالکل سامنے (Front) دو کیمرے لگے ہوتے ہیں جو راستے کا تعین کرتے ہیں۔ ڈرون کے دونوں پروں (wings) کے درمیان نیچے کی جانب (Multi Spectrum Target System) لینز (کیمرا) ہوتا ہے جو ڈرون کو زمین پر موجود ہدف بالکل صاف دیکھنے کی صلاحیت مہیا کرتا ہے۔ نیز ڈرون اپنے ہدف کو بہت قریب سے (Zoom In) اور دور سے (Zoom Out) کرکے بھی دیکھ سکتا ہے۔

اس میں بیم لیزر نصب ہوتی ہے جو کہ نشانہ ٹھیک باندھ کر میزائل کو ٹارگٹ کی جانب روانہ کرتی ہے۔ ڈرون کو ریڈار سسٹم سے شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے کیوںکہ اس کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جنگی ڈرون صرف ایک بغیر پائلٹ کا جہاز نہیں بلکہ یہ پورا ایک نظام ہوتا ہے، جس میں کم ازکم چار ڈرونز، ایک کنٹرول اسٹیشن اور ایک سیٹیلائٹ سسٹم سے منسلک کرنے والا خاص حصہ ہوتا ہے۔ ایک ڈرون سسٹم کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔ پینٹاگون اور سی آئی اے1980کے اوائل سے ہی جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر تے آرہے ہیں۔ 1990 میں سی آئی اے کو ابراہام کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ ابراہام کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہو گیا۔ ڈرون1990 تک مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور باالآخر1995 میں پہلی مرتبہ سی آئی اے نے بلقان کی جنگ میں ڈرون کو عملی طور پر استعمال کرنے کا مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ ڈرون کئی اقسام کے ہوتے ہیں لیکن بطور ایک جنگی ہتھیار، مائیکرو ڈرون (Micro Drone) سب سے زیادہ مہلک اور کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ مائیکرو ڈرون جسامت میں اتنا چھوٹا ہو تا ہے کہ یہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر بھی بہ آسانی لینڈ کر سکتا ہے۔ اسے کنٹرولر پیڈ اور موبائل فون یا بیک وقت دونوں سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ 40 فٹ بلندی تک ویڈیو اور تصویر بھی بناسکتا ہے۔ نیز اس کو استعمال کرنے کے لیے کسی عسکری تربیت یا مخصوص عمر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں مائیکروڈرون ہمہ وقت محفوظ، پائے دار اور استحکام کے ساتھ اُڑان بھر سکتا ہے۔ اس میں 720 ایچ ڈی گرافکس کا کیمرا نصب ہوتا ہے جو 360 ڈگری تک گھوم سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مائیکرو ڈرن کو فیصلہ کن جنگی ہتھیار میں بدلنے کے لیے دھماکا خیز مواد سے لیس کیا جا چکا ہے۔ یعنی اَب چھوٹے ہتھیاروں والے مسلح ڈرون بنائے جارہے ہیں، جنہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن وہ جب چاہیں دشمن کی فوج میں گھس کر تباہی مچا سکتے ہیں۔

جنوری 2017 میں، پینٹاگون نے اعلان کیا تھا کہ اس نے چھوٹے دھماکاخیز ہتھیاروں سے لیس 103 مائکرو ڈرون کے گروپ کا کام یابی سے تجربہ کیا ہے۔ اس مائیکرو ڈرون سسٹم میں شامل ہر ایک ڈرون کی لمبائی صرف 16 سینٹی میٹر (6 انچ) ہے۔ مگر یہ مائیکروڈرون مصنوعی ذہانت سے بھی لیس ہیں، جس کی وجہ سے یہ خود مختار مائیکروڈرون اپنی مرضی سے بھی حریف کی تباہی کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔

٭ اعصاب شکن ہتھیار
چین کے سائنس دانوں نے مائیکرو ویو ٹیکنالوجی کی مدد سے مبینہ طور پر ایسا غیرمہلک ہتھیار بنالیا ہے جو انسانی اعصاب پر حملہ کرکے اسے مفلوج کردیتا ہے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجنیئر نے کچھ عرصہ قبل ایک غیرملکی جریدے کو بتایا تھا کہ اس پراجیکٹ کا نام ’’مائیکرو ویو ایکٹیو ڈینائل سسٹم‘‘ رکھا گیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا پہلا استعمال صرف ایک شخص کے مخصوص جسمانی حصے پر کیا جا سکتا ہے اور دوئم یہ کہ اس کا نشانہ وسیع آبادی کو بھی بنایا جاسکتاہے۔‘‘ چین کے محققین کے مطابق اس ہتھیار سے انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی زخم یا کوئی مستقل تکلیف نہیں ہوتی، بس یہ تھوڑی دیر کے لیے متاثرہ شخص کے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے ۔ یہ نظام کسی بھی گاڑی میں نصب ہو سکتا ہے اور اس ہتھیار کو ممکنہ طور پر مقامی پولیس اور چین کے ساحلی گارڈ استعمال کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی زمینی اور بحری کارروائیوں کے لیے مساوی طور پر کارآمد ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چین اس سے قبل 2014 میں اسی ٹیکنالوجی کے تحت پولی ڈبلیو ون نام کا میزائل بنا چکا ہے۔

راکٹوں سے داغے جانے والے یہ اعصاب شکن ہتھیار بلاتفریق فوجیوں اور عام شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم روس نے بھی سرن، وی ایکس یا نوویچوک جیسے خفیہ اعصاب شکن بنانے میں خاطرخواہ کام یابی حاصل کرلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روس میں بنایا گیایہ اعصاب شکن ہتھیارچند برس قبل برطانیہ میں ایک خفیہ جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن روس کا موقف ہے کہ یہ فقط ایک الزام ہے اور اس کی جانب سے ابھی تک کسی بھی اعصاب شکن ہتھیار کا عملی استعمال نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ اعصاب شکن ہتھیار جو جسم کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرکے اسے درست انداز میں کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں کا زیادہ مقدار میں استعمال کردیا جائے گو اس کے نتیجے میں متاثرہ شخص پر فوری طور پر تشنج کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے یا دل کی دھڑکن بند ہونے کے نتیجے میں وہ ہلاک بھی ہوسکتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اعصاب شکن ہتھیار زیادہ تر بے رنگ مائع کیشکل میں ہوتے ہیں، جن میں یا تو بو بالکل بھی نہیں ہوتی یا ہلکی سی خوش بو ہوتی ہے۔

اعصاب شکن ہتھیار کے بخارات فضا میں شامل ہوکر انسانی جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو سکتے ہیں۔ نیز آنکھوں اور جلد کے ذریعے جذب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مادے جسم کی سطح پر ٹھہرسکتے ہیں۔ تاہم انہیں دھویا جا سکتا ہے۔ دراصل اعصاب شکن ہتھیار سے نکلنے والا مادہ عام جسمانی افعال کو بے ترتیب کردیتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کی ناک بہنا شروع ہوجاتی ہے، پُتلیاں سکڑنے لگتی ہیں، متلی اور خفقان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، بینائی متاثر ہونے لگتی ہے، جسمانی افعال بے قابو ہوجاتے ہیں اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ اعصاب شکن مادے کی زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کی صورت میں اینٹھن یا تشنج کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے ہوشی یا موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ نیز اعصاب اور نظامِ تنفس بے کار ہونے پر متاثرہ افراد ایک سے دس منٹ میں ہلاک بھی ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اِن اعصاب شکن ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بے حد آسان ہوتا ہے، جب کہ انہیں بموں، میزائل اور راکٹوں کی مدد سے بھی دوردراز علاقوں میں حملے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک غیرمصدقہ خبر کے مطابق گذشتہ برس ملائشیا کے ایئرپورٹ پر حملہ آوروں نے شمالی کوریا کے راہ نما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی، کم جانگ نیم کے چہرے پر وی ایکس مادہ مل کر اُنہیں قتل کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ1930 میں ایک جرمن سویلین سائنس داں نے فصلوں کے لیے طاقتور کیڑے مار دوا تیار کرتے ہوئے حادثاتی طور پر پہلا اعصاب شکن مادہ دریافت کیا تھا۔ اس سے فصلی کیڑے مکوڑے تو ہلاک ہوگئے، تاہم یہ جانوروں اور انسانوں کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا تھا۔ نیز جرمن فوج نے دوسری جنگ عظیم میں سارین گیس بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرکے بڑی تعداد میں اعصاب شکن ہتھیار تیار کیے تھے، مگر جرمنی کی فوج کو انہیں جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا موقع میسر نہ آسکا۔

اعصاب شکن ہتھیار بنانے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی عضلات کو پرسکون بنانے والی دوائیں، مثلاً ایٹروپین اور پریلی ڈوکسیم کلورائیڈ کے ذریعے اعصاب شکن ہتھیار کا توڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل بعض ممالک کی جانب سے سرحدوں پر تعینات فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد کے سامان میں عموماً ایسے خودکار ٹیکے بھی فراہم کیے جاتے ہیں جنہیں وہ اعصاب شکن ہتھیاروں کا حملہ ہونے کی صورت میں بطور علاج ازخود بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اعصاب شکن ہتھیاروں کے حملے کے چند ہی منٹ یا گھنٹوں کے اندر فوری طور پر ان ٹیکوں کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر اعصاب شکن ہتھیار کے مضر اثرات سے بچ پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

٭ غیرمرئی پوشاک (Invisibile Uniform)
ہوسکتا ہے کہ ہماری قارئین کی اکثریت معترض ہو کہ ہم نے غیرمرئی پوشاک یعنی نہ دکھائی دینے والے لباس کو بھی جنگی ہتھیار کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، حالاںکہ غیرمرئی یونیفارم کو اپنی ساخت میں کسی بھی دوسرے فرد کے لیے تباہ کن یا ہلاکت خیز ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ غیرمرئی لباس کی تیاری کرنے والے ادارے اِسے تجارتی مقصد کے بجائے، جنگی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کررہے ہیں اور اِس یونیفارم کو مختلف ممالک اپنی افواج کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری انتہائی رازداری کے ساتھ کی جارہی ہے، اس لیے یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ اَب تک کون کون سے ممالک اپنی افواج کے لیے اِس غیرمرئی لباس کا بندوبست کرچکے ہیں، مگر کچھ عرصہ قبل عالمی ذرائع ابلاغ پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن نامی کینیڈا کی ایک کمپنی نے کام یابی کے ساتھ وسیع پیمانے پر نہ دکھائی دینے والی فوجی یونیفارم تیار کرنا شروع کردی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس یونیفارم کو پہننے والا مکمل طور پر دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہوسکتا ہے۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس کمپنی کے ساتھ ایک طویل المدتی معاہدہ بھی کرلیا ہے، جس کی مطابق یہ ادارہ اگلے کئی برسوں تک صرف امریکی افواج کے لیے غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری کرے گا۔ باقی آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایسی غیرمرئی فوج اپنے حریفوں کے لیے کس قدر خطرناک اور مہلک ثابت ہوسکتی ہے، جسے میدانِ جنگ میں ملاحظہ نہ کیا جاسکے۔

اَب تک پوشیدہ لباس کا خیال سائنس فکشن فلموں تک ہی محدود تھا لیکن کچھ بعید نہیں آنے والی ایام میں ہم غیرمرئی فوجی یونیفارم میں ملبوس افواج کے لڑنے کی بریکنگ خبر سماعت فرمائیں۔

دوسری جانب سائنس داں غیرمرئی فوجی یونیفارم سے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے جنگ میں استعمال ہونے والے مختلف ہتھیاروں کو بھی غیرمرئی یا اَن دیکھا بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اور کچھ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ کام یاب بھی ہوچکے ہوں۔ لیکن شاید ہمیں ابھی خبر نہ ہو۔ یعنی صرف سپاہی نہیں بلکہ جنگی ٹینکس، بحری جہاز وغیرہ تک کے لیے ایسا پینٹ، مواد، شیٹ یا پینل تیار کرلیا جائے کہ جس کے پیچھے موجود آنے والی ہر شئے اوجھل ہوجائے۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں جنگی ہتھیاروں کو چھپانے کے لیے صرف میٹومیٹریلز ہی تو تیار کرنا ہے، جس کی مدد سے الٹرا وائلٹ، اورکٹ اور شارٹ ویو اورکٹ موڑی جاسکیں ۔

واضح رہے کہ ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے پیٹنٹ کی صورت میں کوانٹم اسٹیلتھ (روشنی موڑنے والا مواد) دوسری صورت میں انویسٹیبل پوش کے نام سے تیار کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ہائپر اسٹیلتھ بائیو ٹیکنالوجی کے چیف ایگزیکٹوگائی کرمرکے مطابق ’’ہمارا تیار کردہ پینٹ روشنی کو اس طرح سے موڑدیتا ہے کہ صرف پس منظر ہی دکھائی دیتا ہے۔‘‘

یعنی پینٹ کے نیچے والی شئے دیکھی نہیں جاسکتی۔ کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک گھنٹے کی ویڈیو بھی موجود ہے، جس میں مختلف اشیاء کو غیرمرئی یا اَن دیکھا کرنے کا عملی مظاہر ہ بھی دکھایا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ چھپایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مختلف چیزوں کو نظروں سے مکمل طور پر اوجھل کرنے سے متعلق یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، کیوںکہ اس سے قبل انسانی نظروں سے غائب کرنے کے لیے اب تک جو لباس تیار کیے گئے تھے وہ دو اطراف سے چیزوں کو نظروں سے چھپا سکتے تھے، جس کی وجہ سے چھپی ہوئی اشیاء کا ایک سایہ سا بہرحال باقی رہ جاتا تھا، جس کا مخصوص آلات کی مدد سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اَب یہ پہلا موقع ہے کہ ماہرین نے مختلف چیزوں کو تین سمتوں سے اوجھل کرنے میں کام یابی بھی حاصل کرلی ہے۔

٭ ہائپر سونک میزائل (Hypersonic Missiles)
سادہ لفظوں میں آپ آواز کی رفتار سے تیز فاصلہ طے کرنے والے میزائل کو ہائپر سونک میزائل کہہ سکتے ہیں۔ دراصل آواز ایک گھنٹے میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اسے سائنسی زبان میں ایک ’’ماخ‘‘(Mach) کہا جاتا ہے۔ اس لیے سپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے جتنے گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے، اس کے ماخ کے آگے وہی عدد لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ کا مطلب ہوا کہ مذکورہ میزائل ماخ 4 ہے۔

لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ازحد ضروری ہے کہ تیکنیکی لحاظ سے ایک ہائپر سونک میزائل صرف اس وقت ہی ہائپر سونک کے درجے پر فائز ہوسکتا ہے، جب اس کی رفتار ’’ماخ5‘‘ سے زیادہ ہو۔ ہائپر سونک میزائل دورِجدید کے موثر اور مہلک ترین ہتھیاروں میں شمار کیا جاتا ہے، کیوںکہ ان میزائلوں کی رفتار، نقل و حرکت اور بلندی پر چلنے کی وجہ سے کسی بھی ریڈار کے لیے ان کو پہچاننا اور روک پانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔

ایک چھوٹے سے چھوٹا ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے کم ازکم 5 گنا زیادہ رفتار پر چلتا ہے، جو تقریباً 6200 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار بنتی ہے، جب کہ ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والے عالمی اداروں کے مطابق اکثر ہائپرسونک میزائل 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ جدید ترین مسافر طیاروں کے اُڑنے کی رفتار سے بھی 25 گنا زیادہ رفتار ہے۔

واضح ر رہے کہ ہائپر سونک میزائل بنانے کی دوڑ میں چین اور روس اپنے حریفوں کے مقابلے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں۔ حالاںکہ امریکا کے پاس ماخ7 سے لے کر ماخ 15 تک کے سپر سونک میزائل کثرت سے موجود ہیں، لیکن چین ماخ 17 کی رفتار سے مار کرنے والا ہائپر سونک بیلسٹک نیوکلیئر میزائل ’’ڈی ایف 17‘‘ بھی گذشتہ برس متعارف کرواچکا ہے۔ اس سپرسونک میزائل کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نصب کردہ تمام میزائل شکن شیلڈز کو توڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض سنیئر امریکی حکام تو یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہائپر سپر سونک میزائل‘‘ نصب کرنے کی دوڑ میں چین امریکا سے بہت آگے نکل چکا ہے اور اَب ہمارے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔‘‘

دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے تیزرفتار بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل روس نے تیارکیا ہے، جو آواز کی رفتار سے بھی ستائیس گنا یعنی ’’ماخ 27 ‘‘ کی تیزرفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے کسی بھی دوسرے براعظم میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکنے والا یہ میزائل واقعی اپنی طرز کا انتہائی جدید ترین اور منفرد ہتھیار ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے ’’ایون گارڈ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل‘‘ کو ٹیکنالوجی کے میدان میں گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ ویسا ہی کارنامہ ہے جیسے سوویت یونین نے 1957ء میں پہلا سیٹیلائٹ فضا میں روانہ کر کے انجام دیا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں ایون گارڈ کو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے ہمراہ بھی داغا جاسکتا ہے اور یہ عام نیوکلیئر میزائل کی مانند روانہ ہونے کے بعد متعین کردہ راستے ہی پر چلتا ہے۔ ایون گارڈ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے فضا میں غیرمعمولی نوعیت کی قلابازیاں بھی کھا سکتا ہے اور اس کا سراغ لگانا کم و بیش ناممکن ہی ہے۔ نیز یہ دو میگاٹن وزن کا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔ علاوہ ازیں اس ہائپرسونک میزائل کی تیاری میں ایسا مواد استعمال کیا گیا ہے جس کی بدولت یہ 2000 سینٹی گریڈ یعنی (3632 فارن ہائٹ) کی تپش بھی برداشت کرسکتا ہے۔

٭ دماغ سے چلنے والے ہتھیار
(Mind-Controlled Weapons)
اگر آپ مشہور و معروف ہالی وڈ فلم ’’آئرن مین‘‘ دیکھ چکے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ سمجھ پانا، قطعی دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ کیسے انسانی دماغ سے ہتھیار استعمال کیے جاسکتے ہیں؟ یعنی انسانی دماغ کو کسی بھی ہتھیار، گاڑی، جہاز اور میزائل کے ساتھ منسلک کرکے اُنہیں سوچ اور خیال کی مدد سے روبوٹ کی مانند استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دماغ سے چلنے والے ہتھیار کا حصول انسان کا برسوں پرانا خواب رہا ہے، مگر دورِجدید میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے یہ خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور امریکا، روس اور چین سمیت کئی ممالک مختلف ہتھیاروں کو دماغ سے استعمال کرنے میں کام یابی حاصل کرچکے ہیں۔ امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے ماہرین ایک ایسے خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس کی بدولت مستقبل قریب میں تمام امریکی افواج اپنے عسکری سامان اور اسلحے کو دماغ سے کنٹرول کرسکیں گے۔

دل چسپ با ت یہ ہے کہ نت نئے فوجی منصوبوں پر کام کرنے والی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے ایسے افراد کی بھرتی بھی شروع کردی ہے جو نان سرجیکل نیوروٹیکنالوجی (این تھری) کے منصوبے میں دماغ سے مشینیں کنٹرول کرنے کے وسیع پیمانے پر سائنسی تجربات کے لیے اپنی خدمات فراہم کریں گے۔

ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے گذشتہ برس انٹرنیٹ پر باقاعدہ ایک اشتہار شائع کیا تھا، جس میں دماغی انٹرفیس کے منصوبوں میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں، تاکہ دماغی سرگرمی سے جنگیں لڑنے کے عملی تجربات کرکے اس حوالے سے حتمی ایجادات کی جاسکیں۔ ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی کے منتظمین کا خیال ہے کہ بہت جلد جنگی طیارے، ڈرون، سائبر ڈیفنس اور دیگر جنگی آلات دماغ سے کنٹرول کیے جاسکیں گے۔

اس مقصد کے لیے مذکورہ ایجنسی میں ایک نیا شعبہ بایالوجیکل ٹیکنالوجیز کے نام سے قائم کردیا گیا ہے۔ اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایل مونڈی کہتے ہیں کہ ’’جنگ کو جسم سے کنٹرول کرنے کے مقابلے دماغی لہروں سے قابو کرنے کا تجربہ بہت وسیع، ہمہ گیر اور اَن گنت فوائد سے بھرپور ہوسکتا ہے، کیوںکہ اس طرح دماغ کا استعمال اگلی جنگوں میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یوں جان لیں کہ دماغی لہروں پر مشتمل انٹرفیس کے ذریعے ایک زخمی سپاہی بھی صحت مند فوجی کی طرح جنگ لڑنے کا اہل بن سکتا ہے۔‘‘
https://www.express.pk/story/2159411/508/


کیا انسان میں سانپ جیسا زہریلا ہونے کی صلاحیت ہے
 3 April, 2021

اکثر ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں انسان کو سانپ کا روپ دھارتے ہوئے دکھایا جاتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)اکثر ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں انسان کو سانپ کا روپ دھارتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ، اس حوالے سے ایک ویب سائٹ نے جدید سائنس کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسان کے اندر بھی مخصوص حالات میں زہریلا بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔ جاپان کی اوکیناوا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دان اور تحقیق کے شریک مصنف اگنیش باروا نے لائیو سائنس کو بتایا کہ ‘بنیادی طور پر انسان کے اندر (زہر بنانے کے ) تمام ضروری اجزا موجود ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق زہر انہی غدودوں میں پیدا ہوتا ہے جن کے اندر انسانوں میں منہ کا لعاب تیار ہوتا ہے ۔ جو جانور لعاب تیار کر سکتے ہیں، ان کے اندر ممکنہ طور پر زہر تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔سائنسی جریدے پی این اے ایس میں شائع تحقیق کے مطابق بعض ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں انسان اور دوسرے ممالیہ جانور زہریلا لعاب پیدا کر سکتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-03/1802678


خبردار!موسم گرما میں یہ کھانے ہرگز نہ کھائیں
 3 April, 2021

گرمی کے موسم میں اکثر لوگوں کو سر درد، جسمانی خشکی اور دیگر سنگین بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)گرمی کے موسم میں اکثر لوگوں کو سر درد، جسمانی خشکی اور دیگر سنگین بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کھانے کی پرہیزی سے ممکنہ طور پر ہم ان امراض سے بچ سکتے ہیں۔ دن کے آغاز میں چائے اور کافی سے پرہیز کریں۔چکنائی سے بھرپور اشیا گرمی میں غیرصحت بخش ہوتی ہیں۔ دہی، پنیر اور مکھن وغیرہ کے استعمال سے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ماسم گرما میں خشک پھلوں کا استعمال ہرگز نہ کریں ۔ ہمارے ہاں عموماً کھانوں میں الائچی، دارچینی، کالی مرچ اور لونگ جیسے مصالحے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن گرمی میں یہ آپ کیلئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ موسم کی گرمی اور اوپر سے گوشت یہ دونوں مل کر انسان کے جسمانی درجہ حرارت پر سنگین اثرات مرتب کرتے ہیں۔موسم گرما میں تھکاؤٹ، اپھارہ اور مایوسی جیسی کیفیت سے بچنا چاہتے ہیں تو کھانے کی مصنوعی اشیا کا استعمال روک دیں جن میں چٹنی اور سلاد نمایاں ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-03/1802673


واشنگٹن۔:
ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ نے امریکی فوج کو 21ارب 90 کروڑ ڈالر مالیت کے جدید آگمینٹڈ ریئلیٹی سیٹ فراہم کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔

ہولولینس سے مزین یہ ہیڈ سیٹ استعمال کنندہ کو اس کے اپنے حقیقی ماحول میں پھیلے ہولوگرام کو دیکھنے کا اہل بناتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت مائیکروسافٹ امریکا میں تیار ہونے والے ایک لاکھ بیس ہزار ہیڈ سیٹ کو اگلے دس سالوں میں پینٹاگون کو فراہم کرے گی۔ کمپنی کے مطابق ان ہیڈ سیٹ کی بدولت فوجیوں کو زیادہ محفوظ اورکارکردگی کوزیادہ موثر کیا جاسکے گا۔

آگمینٹڈ ریئلیٹی کیا ہے ؟

آگمینٹڈ ریئلیٹی ورچوئل ریئلٹی سے مختلف ہے، ورچوئل رئیلٹی کے برعکس یہ مکمل طور پر نئے ماحول میں تبدیل کرنے کے بجائے استعمال کنندہ کی پہلے سے موجود حد نظر میں گرافکس شامل کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں استعمال کنندہ ’ہیڈ اپ ڈسپلے‘یا ’ ہولوگراف‘دیکھ سکتا ہے جس سے پہلے سے نظر آنے والی معلومات میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

مائیکروسافٹ اپنی پراڈکٹ ہولولینس کو تجارتی بنیادوں پر ساڑھے ہزار ڈالر فی ہیڈ سیٹ کے حساب سےفروخت کر رہی ہے اور آرکٹیکچر فرمز، اسپتال، جامعات، کار سازادارے اور ناسا پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ مائیکروسافٹ نے 2018 میں امریکی فوج کے ساتھ ہولولینس کے فوجی گریڈ ورژن’انٹی گریٹڈ ویژیول آگمنٹیشن سسٹم ‘ پر کام کیا تھا۔ اس معاہدے پر مائیکروسافٹ کے ملازمین نے کمپنی کے خلاف معاہدے کی منسوخی اورمائیکروسافٹ کوہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ڈیولپ کرنے سے روکنے کے لیے عدالت میں پٹیشن دائر کی تھی۔
https://www.express.pk/story/2161701/508/


بوسٹن:
امریکی سائنسدانوں نے پالک کے پتے استعمال کرتے ہوئے مصنوعی گوشت بنانے کی ایک نئی ٹیکنالوجی پیش کی ہے جو ممکنہ طور پر زیادہ بہتر اور ماحول دوست ثابت ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ مصنوعی گوشت پر گزشتہ 70 سال سے تحقیق ہورہی ہے جبکہ اس وقت بھی دنیا بھر میں درجن بھر سے زیادہ تجربہ گاہیں اور اسٹارٹ اپ کمپنیاں مصنوعی گوشت کی پیداوار و معیار بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یہ بھی بتاتے چلیں کہ گوشت میں کئی طرح کی پروٹین وافر پائی جاتی ہے جو اسے انسانی غذا کےلیے اہم ترین بناتی ہے۔ اسی بناء پر ’’متوازن غذا‘‘ میں گوشت بھی لازماً شامل رکھا جاتا ہے۔

تاہم گوشت کے حصول کےلیے زیادہ جانور پالنے سے ماحول بھی زیادہ آلودہ ہورہا ہے جبکہ ان پالتو جانوروں کی اپنی غذائی ضروریات بھی ایک الگ مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔

یہ اور اسی طرح کے متعدد مسائل حل کرنے کےلیے تجربہ گاہوں میں مصنوعی گوشت تیار کیا جارہا ہے۔ لیکن اب تک ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جو مصنوعی گوشت کی بڑے پیمانے پر، اور ماحول دوست انداز میں تیاری کو ممکن بنا سکے۔

دوسری جانب مصنوعی گوشت کے ذائقے اور ظاہری شکل و صورت کو اصل ’’قدرتی گوشت‘‘ جیسا رکھنا بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

یہ تمام نکات مدنظر رکھتے ہوئے بوسٹن کالج کے سائنسدانوں نے پالک کے پتّوں میں مصنوعی گوشت ’اگانے‘ کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔

تجربات کے دوران انہوں نے تین مختلف اقسام کی گایوں سے گوشت بنانے والے خلیات علیحدہ کرکے ان کی افزائش پیٹری ڈش میں کی۔

ساتھ ہی ساتھ پالک کے پتوں کو اندرونی طور پر خلیوں سے خالی کردیا گیا، جس کے بعد ان میں صرف جھلی اور کھوکھلی رگیں باقی رہ گئیں۔

اگلے مرحلے میں گایوں کے خلیات کو پالک کے ’’کھوکھلے پتوں‘‘ میں داخل کرکے سازگار حالات فراہم کیے گئے۔

14 دن گزرنے کے بعد گایوں کے خلیات نے تقسیم در تقسیم ہو کر اپنی تعداد بڑھانی شروع کردی؛ اور چند دن بعد پالک کے کھوکھلے پتے، مصنوعی گوشت سے بھر چکے تھے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’فوڈ بایوسائنسز‘‘ کے تازہ شمارے میں بوسٹن یونیورسٹی کے گلین گاڈت اور ان کے ساتھیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے حالیہ تجربات کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ پالک کے پتوں میں مصنوعی گوشت کی افزائش ممکن ہے۔

آئندہ تجربات میں وہ اس عمل کو تیز رفتار بنا کر مصنوعی گوشت کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ دیگر جانوروں کے خلیات اور دوسری سبزیوں کے پتّوں کو آزمانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2161609/508/


میساچیوسٹس:
ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ اعصابی تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کی سرگرمیوں کو قابو کرکے گنج پن کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ یہ دریافت چوہوں پر تحقیق سے ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں میں پایا جانے والا یہ ہارمون، متعلقہ انسانی ہارمون سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔

اسی لیے انہیں انسانوں میں بھی ویسے ہی نتائج کی بھرپور امید ہے جیسے چوہوں پر تحقیق سے حاصل ہوئے ہیں۔

سائنسدانوں کی اسی ٹیم نے گزشتہ سال دریافت کیا تھا کہ اعصابی نظام کے مسلسل تناؤ میں مبتلا رہنے کی وجہ سے بالوں کی رنگت اور نشوونما سے تعلق رکھنے والے خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔

یہ خبریں بھی پڑھیے:

اس ضمن میں ’’نورایڈرینالین‘‘ نامی ایک نیورو ٹرانسمیٹر/ ہارمون کی زائد مقدار کے اخراج کو ممکنہ ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

البتہ، تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چوہوں میں اعصابی تناؤ سے خصوصی تعلق رکھنے والا ہارمون ’’کورٹیکو اسٹیرون‘‘ ہی بال سفید ہونے اور بال جھڑنے کی وجہ بنتا ہے۔

کورٹیکو اسٹیرون، جو ’’کوروٹیسول‘‘ نامی انسانی ہارمون کا حیوانی قائم مقام بھی ہے، ’’جی اے ایس سکس‘‘ (Gas6) کہلانے والے ایک جین کے اظہار میں رکاوٹ ڈال ہے۔ یہی وہ جین بالوں کے خلیاتِ ساق کی نشوونما درست رکھنے میں اہم ترین مددگار بھی ہے۔

اگلے مرحلے میں یہی تحقیقات انسانی ہارمون ’’کورٹیسول‘‘ پر کرتے ہوئے، بالوں کی سفیدی اور گنج پن کا علاج کرنے کےلیے ’’ہارمون تھراپی‘‘ پر کام آگے بڑھایا جائے گا۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2161559/9812/


گوگل نے کوکیز کی جگہ ’FLoC‘ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹیکنالوجی جائنٹ گوگل نے اپنے ویب براؤزر ’کروم ‘ میں تھرڈ پارٹی کوکیز سپورٹ کے خاتمے پر کام شروع کردیا ہے۔ رواں سال کے اختتام تک کروم براؤزر اشتہاری نیٹ ورکس کو آپ کی مشینز ( کمپیوٹرز، اسمارٹ فون، ٹیبلیٹس ) میں ٹریکنگ کوڈز داخل کرنے کی اجازت ختم کردے گا۔

واضح رہے کہ جب آپ کسی اشتہاری نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہیں تو انہی کوڈز کی بدولت آپ کے وزٹ کو فالو کیا جاتا ہے۔

بلا مبالغہ گوگل دنیا کا سب سے بڑا اشتہاری نیٹ ورک رکھتا ہے اور بہ ظاہر تھرڈ پارٹی کوکیز کا خاتمہ انتہائی پرسنالائزڈ انٹرنیٹ بیسڈ اشتہار کاری کا خاتمہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘ کہ مصداق گوگل کا یہ فیصلہ ڈیجیٹل اشتہاری کاری میں اس کی اجارہ داری کو مزید مضبوط کرے گا۔

گوگل جلد ہی اپنے نئے ٹارگیٹڈ ایڈورٹائزمنٹ سسٹم کو متعارف کروا رہا ہے۔ فیڈریٹڈ لرننگ آف کوہورٹ ( Federated Learning of Cohorts) اس سسٹم کو آنے والے چند ماہ میں ہی کروم میں ضم کردیا جائے گا، جس کا مقصدآپ کے مالیاتی مفادات کو زیادہ تحفظ فراہم کرنا ہے۔

گوگل کے مطابق اس نئے نظام کے تحت کوہورٹ (یکساں شناخت کی وجہ سے استعمال کنندگان کا ایک گروپ) کی تقسیم براؤزر کے اندر ہوگی، ویب سائٹس صارف سے صرف یہ بات پوچھنے کی اہل ہوگی کہ آپ کا براؤزر کس کوہورٹ سے تعلق رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر، اگر آپ موبائل سے متعلق بہت ساری ویب سائٹس وزٹ کرتے ہیں توآپ کو اس کوہورٹ میں شامل کیا جائے گا، صارف کو اس کی براؤزنگ کی بنیاد پرایک فلوک کوہورٹ آئی ڈی مختص کی جائے گی۔

گوگل آپ کے کروم لاگ ان کو آپ کی شمولیت کی پہلی شرط کے طور پر استعمال کرے گا۔ اور اگر آپ نے تھرڈ پارٹی کوکیز کو بلاک کردیا ہے تو پھر آپ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق کروم کے اس نئے فیچر اور صا رف کی پرائیویسی کو لاحق تحفظات کو سامنے آنے میں مزید وقت درکار ہے۔
https://www.express.pk/story/2161605/508/


جارجیا:
دکانوں اور اسٹور میں سجی رنگ برنگی ٹافیاں اور مشروبات بچوں کو اپنی طرف لبھاتی ہیں اور وہی ان کے دماغ کی دشمن بھی ہوسکتی ہیں۔

بچے اندھا دھند میٹھا کھاتے ہیں جس سے وہ موٹاپے اور دل کی بیماریوں کے شکار ہوسکتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس سے ان کی دماغی صلاحیت بالخصوص یادداشت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔

یہ تحقیق جارجیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ انہوں نے اس کے اہم تجربات چوہوں پر کئے ہیں۔ چونکہ فعلیاتی طور پر چوہے انسانوں کے قریب ہوتے ہیں اور ان پر تحقیق کا اطلاق انسانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جب نوجوان اور بچے چوہوں کو ضرورت سے زائد شکر دی گئی تو نہ صرف اسی عمر میں ان کی یادداشت اور دماغی صلاحیت متاثر ہوئی بلکہ اس کے اثرات جوانی میں بھی دیکھے گئے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ آنتوں میں بیکٹیریا کی کیفیات بدل جاتی ہیں جس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے۔

تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ شکر کھانے سے معدے اور آنتوں میں پیرابیکٹیریوٹوئڈز قسم کے بیکٹیریا کی تعداد غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔ اس سے معدے میں تندرست جرثوموں کا تناسب و توازن بگڑجاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا دماغی سرگرمی کو متاثر کرسکتا ہے۔

اس لیے ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں میں شکر کی مقدار دس فیصد بھی کم کردی جائے تو اس سے بھی یادداشت اور دماغ کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بالخصوص 9 سے 18 سال تک کی عمر کے بچے اور نوجوانوں حد سے زیادہ چینی بدن میں اتاررہے ہیں جس کی وجہ انرجی ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس اور دیگر میٹھے مشروبات ہیں۔
https://www.express.pk/story/2161391/9812/


بالوں کی سفیدی روکنے کا آسان علاج اور مفید مشورے
 1 April, 2021

انسان کے بال عموماً 35 سال کی عمر کے بعد تقریباً سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)لیکن اس کا آغاز نوجوانی میں بھی ممکن ہے ۔اس حوالے سے اے ڈاکٹر بتول اشرف نے سفید بالوں کے علاج کیلئے سستا اور آسان طریقہ بیان کیا۔ڈاکٹر بتول اشرف نے بتایا کہ بالوں کی سفیدی روکنے کیلئے زنک کا ستعمال بہت ضروری ہے یہ زنک ہمیں مچھلی آم آلوچے سے وافر مقدار میں ملتا ہے ، اس کے علاوہ بیر میں بھی زنک کی کافی مقدار ہوتی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کے بال اگر سفید ہونے لگیں تو انہیں زنک کا سیرپ پلانا چاہیے ، دس سال سے زائد عمر کے بچوں کو دن میں ایک بار ایک چائے کا چمچ پلاسکتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق صحت مند بالوں کیلئے وٹامن ای لازمی ہے مگر چینی اس وٹامن کے جذب ہونے کے عمل کو روک دیتی ہے ، چینی کا استعمال کم کرکے بالوں کو سفید ہونے سے روکا جاسکتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-01/1801805


طالب علم نے نابینا افراد کیلئے منفرد ٹوپی تیار کرلی
 1 April, 2021

لاہور کے طالب علم نے نابینا افراد کیلئے منفرد ٹوپی تیار کرلی

لاہور(نیٹ نیوز)لاہور سے تعلق رکھنے والے سائنس کے طالب علم محمد احمد نے نابینا افراد کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی ٹوپی تیار کی ہے جو نابینا افراد کو اردگرد موجود چیزوں کا احساس دلائے گی اور وہ اس کی مدد سے بغیر چھٹری کے چل سکیں گے ۔نوجوان نے ٹوپی میں دو سینسر لگائے ہیں جو ڈھائی میٹر میں آنے والی کسی بھی چیز سے نابینا شخص کو وائبریشن کے ذریعے آگاہ کرے گا کہ کچھ ہی فاصلے پر رکاوٹ ہے ۔محمد احمد نے بتایا کہ اس میں دو موڈز ہیں، پہلا اگر اس کو وائبریش موڈ پر رکھا ہے اگر دائیں طرف رکاوٹ ہوگی تو دائیاں سینسر وائبریٹ کرے گا اور اگر بائیں طرف ہوگی تو بائیاں سینسر وائبریٹ ہوگا اور اگر سامنے ہوگی رکاوٹ تو دونوں سینسر وائبرئٹ ہوں گے ، اس سے پتہ چل سکے گا کہ کس طرف رکاوٹ ہے اور حادثوں سے بچا جاسکے گا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-01/1801809


سائنسدانوں نے دانتوں کو ٹھنڈا لگنے کی وجہ ڈھونڈلی
 28 March, 2021

برطانوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بات کا پتا چلا لیا ہے کہ برف کھانے یا ٹھنڈے مشروبات پینے سے کچھ لوگوں کے دانتوں کا درد کیوں بڑھ جاتا ہے

لندن(نیٹ نیوز)انہوں نے حساس دانتوں میں ایسے خلیوں اور سگنلز کا پتا چلایا ہے جن سے درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے ، دانتوں کا درد بڑھ جاتا ہے اور دماغ کو جھٹکے لگتے ہیں۔ایسے افراد جن کے دانت خراب ہو رہے ہوتے ہیں انہیں اس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے ۔یہ تحقیق نئے علاج کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے ، جن میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال ، دانتوں میں بھرائی یاچیونگم چبانا شامل ہے ۔اس تحقیق کی اہم محقق پروفیسر کیتھرینا زمرمن کاکہناہے کہ دانتوں کو ٹھنڈا لگنے سے دروہونے کی وجہ ٹی آر پی سی 5 نامی خلیے ہیں ،نئی تحقیق کے بعد اس درد کا علاج آسان ہوجائیگا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-28/1799689


لائپزگ، جرمنی:
امنیاتی نظام کو بیدار کرکے دماغی سرطان کو روکنے والی ویکسین نے پہلا طبی مرحلہ (فیز ون کلینکل ٹرائل) کامیابی سے پاس کرلیا ہے۔

امیونوتھراپی کی بنیاد پر تیارکردہ یہ ویکسین دماغ کے خلیات کو امنیاتی طور پر اس قابل کرتی ہےکہ وہ عام خلیات کو جیسے ہی تبدیل کرکے سرطانی روپ دھارتا ہوا دیکھتے ہیں اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

معروف طبی جریدے نیچر میں اس تحقیق کے تازہ نتائج ظاہر ہوئے ہیں اور پہلے مرحلے میں کامیابی سے اس کی افادیت اور محفوظ ہونا ثابت ہوگیا ہے۔ اب دوسرا طبی (کلینکل فیزٹو) مرحلہ شروع کیا جائےگا۔ لیکن واضح رہے کہ دماغ کے گلائیل خلیات میں جنم لینے والے سرطان گلائیوما کئی اقسام کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض 70 فیصد تک تندرست خلیات جیسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ پورے دماغ میں پھیل جاتے ہیں اور انہیں جراحی سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کم شدت کے گلائیوما (متاثرہ سرطانی خلیات) کی 70 فیصد تعداد میں صرف ایک جین کی تبدیلی یا خرابی سے یہ کینسر شروع ہوتا ہے۔ اس جین کو ’آئسوکائٹریٹ ڈی ہائیڈروجینیس ون‘ یعنی آئی ڈی ایچ ون کہا جاتا ہے۔

جرمن ماہر مائیکل پلیٹن اور ان کے ساتھیوں نے یہ ویکسین کئی برس کی محنت سے تیار کی ہے۔ یہ ویکسین آئی ڈی ایچ ون کو نشانہ بناتی ہے۔ اور گلائیوما کی صورت میں نیو ایپٹوپس نامی پروٹین کی پیداوار کو روکتی ہے۔ 2015 کے لگ بھگ اسے جانوروں پر آزمایا گیا تھا۔

اس عمل میں 33 مریضوں کو شامل کیا گیا جو آئی ڈی ایچ ون گلائیوما سے متاثر تھے اور اس ویکسین کا نام آئی ڈی ایچ ون ہی رکھا گیا ہے۔ ویکسین کے بعد 93 فیصد مریضوں پر امنیاتی ردِ عمل پیدا ہوا اور آئی ڈی ایچ ون تبدیلی کو نشانہ بنانے لگا۔ دوسری جانب امنیاتی ٹی سیل بھی سرگرم ہوئے اور تین سالہ تحقیق کے دوران 84 فیصد افراد زندہ رہے حالانکہ دماغی سرطان 12 سے 20 ماہ میں مریض کو ہلاک کرڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی مریضوں کا امنیاتی نظام تین سال بعد بھی ویسا ہی طاقتور رہا۔
https://www.express.pk/story/2158831/9812/


جنیوا:
ذرّاتی طبیعیات کے سب سے بڑے بین الاقوامی مرکز ’سرن‘ میں تقریباً 900 سائنسدانوں کی عالمی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہیں ’شاید‘ ایک ایسے نئے بنیادی ذرّے کے شواہد ملے ہیں جو ’ممکنہ طور پر‘ کسی ’پانچویں قوت‘ کا نمائندہ بھی ہوسکتا ہے۔

یہ شواہد انہیں سرن میں نصب ’لارج ہیڈرون کولائیڈر بیوٹی‘ (LHCb) نامی ذرّاتی اسراع گر (پارٹیکل ایکسلریٹر) میں 2011 سے 2018 کے دوران کئی تجربات سے جمع ہونے والے ڈیٹا کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد حاصل ہوئے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ’لیپٹوکوارک‘ (Leptoquark) نامی اس ذرّے کے حق میں ملنے والی شہادتیں ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ انہیں پورے اعتماد سے اس نئے بنیادی ذرّے کی ’دریافت‘ قرار دیا جاسکے۔

لیپٹوکوارک کی تازہ شہادتیں اگرچہ اتنی مضبوط ہیں کہ ان کے غلط ہونے کا امکان صرف 0.1 فیصد (1000 میں سے 1 جتنا) ہے، لیکن طبیعیات (فزکس) میں نئی شہادتوں/ ثبوتوں کو ’دریافت‘ (discovery) قرار دینے کےلیے ان کے غلط ہونے کا امکان 35 لاکھ میں صرف ایک، یعنی 0.00002857142 فیصد، یا اس سے بھی کم ہونا چاہیے۔

بتاتے چلیں کہ اب تک ہم کائنات میں چار بنیادی قوتوں سے واقف ہیں جنہیں ہم نے بالترتیب قوتِ ثقل (گریویٹی)، برقناطیسی قوت (الیکٹرو میگنیٹک فورس)، کمزور نیوکلیائی قوت (وِیک نیوکلیئر فورس) اور مضبوط نیوکلیائی قوت (اسٹرونگ نیوکلیئر فورس) کے نام دے رکھے ہیں۔

قوتِ ثقل کو چھوڑ کر، باقی کی تینوں کائناتی قوتوں آپس میں یکجا کرنے کےلیے ’’اسٹینڈرڈ ماڈل‘‘ کے نام سے ایک نظری (تھیوریٹیکل) فریم ورک تقریباً 50 سال سے موجود ہے جو ان گنت تجربات و مشاہدات سے تصدیق کے بعد ذرّاتی طبیعیات میں ایک مستند نظریئے کا مقام بھی حاصل کرچکا ہے۔

البتہ، سائنسدانوں کی اکثریت متفق ہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل صرف ایک ’’کام چلاؤ‘‘ نظریہ ہے جس میں بنیادی نوعیت کی بہت سی خامیاں ہیں جنہیں دور کرکے اس نظریئے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

لیپٹوکوارک کی حالیہ شہادتوں کا تعلق ’’بیوٹی کوارک‘‘ نامی ایک بنیادی ذرّے سے ہے جو نہایت اعلی توانائی (ہائی انرجی) کے ماحول میں وجود پذیر ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے تقریباً 700 ارب ویں حصے میں ٹوٹ پھوٹ کر، یعنی انحطاط پذیر (decay) ہو کر الیکٹرون، میوآن اور ان کے ضد ذرّات (اینٹی پارٹیکلز) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اسٹینڈرڈ ماڈل کے مطابق، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے تقریباً یکساں تعداد میں الیکٹرون اور میوآن بننے چاہئیں۔ یہی وہ بات ہے جسے ماہرین ’لیپٹون آفاقیت‘ (Lepton Universality) کہتے ہیں۔

تاہم ’ایل ایچ سی بی‘ میں زبردست توانائی پر ’پروٹون بوچھاڑوں‘ میں تصادم سے بننے والے بیوٹی کوارکس کے انحطاط سے الیکٹرونوں کی تعداد، میوآنز سے زیادہ دیکھی گئی۔

یہ شواہد پہلی بار 2014 میں سامنے آئے تھے لیکن تب اسٹینڈرڈ ماڈل سے مطابقت نہ رکھنے والی ان شہادتوں کے غلط ہونے کا امکان ایک فیصد (1%) تھا۔

تازہ شہادتیں، جنہیں گزشتہ دنوں ’’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘‘ کی ویب سائٹ پر رپورٹ کرنے کے بعد ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ میں اشاعت کےلیے بھیج دیا گیا ہے، پہلے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ مضبوط ہیں؛ لیکن ان کی حتمی تصدیق کےلیے ’’ایک آنچ کی کسر‘‘ ابھی باقی ہے، جسے پورا ہونے میں شاید مزید کچھ سال لگ جائیں۔

’ایل ایچ سی بی‘ میں مزید تجربات کی تیاریاں جاری ہیں جو اس سال شروع ہو کر مزید کچھ سال تک وقفے وقفے سے جاری رہیں گے۔ نئے تجربات میں بطورِ خاص ’لیپٹوکوارک‘ کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے حتمی امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔

البتہ، فی الحال ہم موجودہ شہادتوں کو امید افزا ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن ’دریافت‘ قرار نہیں دے سکتے۔

ماہرین کے نزدیک، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے نسبتاً زیادہ تعداد میں الیکٹرون بننے کی وجہ ’لیپٹوکوارک‘ نامی ایک بنیادی ذرہ ہے جس کی پیش گوئی تو بہت پہلے سے موجود ہے لیکن اب تک ہم اسے دریافت نہیں پائے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2159649/508/


اگرچہ ماحول دوست پلاسٹک بنانے کے کئی طریقے زیرِ غور ہیں لیکن محض لکڑی کے برادے سے ایسا بایو پلاسٹک بنایا گیا ہے جو تین ماہ کے اندر گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور عام پلاسٹک کی طرح ہزاروں برس تک ماحول میں موجود نہیں رہتا۔

پلاسٹک اس وقت ماحول، انسانی صحت اور جنگلی حیات کے اولین دشمنوں میں شامل ہیں۔ ان کے باریک ٹکڑے اب ہمارے جسم میں پہنچ رہے ہیں۔ سمندروں اور دریاؤں کو یہ آلودہ کرکے جنگلی حیات کو ہلاک کررہے ہیں اور صاف مٹی کو آلودہ بنارہے ہیں۔ اسی لیے پوری دنیا میں کئی تجربہ گاہیں ماحول دوست پلاسٹک پر کام کررہی ہیں جس میں جزوی کامیابی ملی ہے۔

اس سے قبل انڈے کے خول، پودوں اور بعض دیگر اجزا سے بایو پلاسٹک بنائے گئے ہیں لیکن تجارتی پیمانے پر ان کی تیاری کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ اب امریکہ کہ مشہور ییل یونیورسٹی میں لکڑی کے کارخانوں میں بننے والے سفوف نما بُرادے کو نامیاتی پالیمر اور سیلیولوز کے ملاپ سے ایک گاڑھے محلول میں بدلا ۔ اسے ہائیڈروجن بانڈنگ سے گزار کر اسے میں نینوپیمانےکے ریشوں کو آپس میں بنا ہے۔ اس طرح بایوپلاسٹک بنا جسے روایتی پلاسٹک کے سامنے آزمایا گیا ہے۔

یہ پلاسٹک مضبوط بھی ہے اور لچکدار بھی۔ جب اسے مٹی میں دفنایا گیاتو دو ہفتے بعد چٹخنے لگا اور تین ماہ میں مکمل طور پر غائب ہوگیا۔ اس میں بھاری مائع بھرا گیا اور سامان اٹھانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا۔

اس سے قبل جو بھی بایوپلاسٹک بنائے گئے وہ نہایت کمزور اور غیرلچکدار تھے۔ اسی بنا پر لکڑی کے چورے سے بنا یہ نیا سبزپلاسٹک بہت اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب اسے بنانے کا طریقہ بہت سادہ اور کم خرچ بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گھلنے کے عمل کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب پلاسٹک مائع بننے لگتا ہے اور دوبارہ شروعات کی طرح گاڑھے محلول میں ڈھل جاتا ہے۔ اس لمحے اسے دوبارہ صاف کرکے پلاسٹک میں بدلا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب یہ حیاتیاتی طور پر تلف ہوتا ہے اور بازیافت (ری سائیکل) بھی کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2160880/508/


آنکھوں کو جسم کی کھڑکی کہا جاتا ہے اور اسی لیے کسی مشین الگورتھم سے آنکھوں کی حرکات کو نوٹ کیا جائے تو ناقابلِ یقین معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

صرف ایک اچھے ایچ ڈی کیمرے کی مدد سے بھی آنکھوں کی ویڈیو جب کسی الگورتھم سے گزاری جائے تو اس شخص کی عادات، صحت، جنس، جذبات و احساسات، منشیات وغیرہ کے استعمال، نسل، قومیت، شخصی دلچسپی اور رحجانات ، مہارت اور صلاحیت، کا احوال لیا جاسکتا ہے۔

2020 میں سائنسدانوں نے دنیا بھر میں آنکھوں کی حرکات اور ٹریکنگ پر شائع ڈیٹا کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔ جس سے یہ اہم حقائق سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف آنکھوں کو ہی دیکھ کر نفسیاتی اور دماغی امراض مثلاً آٹزم کی ایک قسم، اے ڈی ایچ ڈی، اوسی ڈی اور پارکنسن سمیت کئی امراض کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

اس عمل میں آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت، پتلیوں کا سکڑاؤ اور پھیلاؤ، پلک جھپکنے کی رفتار، نگاہ جمانے اور پھیرنے کو بغور دیکھا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ آنکھوں کی پتلی کے ڈیزائن فنگرپرنٹس کی طرح مخصوص ہوتے ہیں۔ اسی طرح دماغی بوجھ کا اظہار بھی آنکھیں کرسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ آنکھیں دماغ سے خارج ہونے والے ڈوپامائن ہارمون کا انکشاف پر کرسکتی ہے۔

یہ تحقیق برلن یونیورسٹی کے جیکب لیون، فلوریان میولر، اور آٹو ہانس مارٹن نے کی ہے۔ 6 مارچ کو شائع ہونے والے اس تحقیقی مقالے کو اب تک 75 ہزار مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2160853/9812/


کراچی ۔: ماہرین صحت اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنی کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ ایٹمی طاقت اور اسلامی دنیا کا اہم ترین ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں صحت کے شعبے میں ہونے والی ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستانی اداروں کو مقامی طور پر ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لئے بھی دوسرے ممالک میں ہونے والی تحقیق پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ نوجوان تحقیق کاروں اور میڈیکل کے طلبا کو ریسرچ کرنے کے لیے ریسرچ فورم قائم کر رہے ہیں جس کے تحت ڈیڑھ سال کے لیے محققین کو انفرادی طور دو لاکھ روپے تک فراہم کیے جائیں گے تاکہ مقامی طور پر ریسرچ کلچر کو فروغ دیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنی کے عہدے داروں نے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقامی فارماسوٹیکل کمپنی اور پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے تحت قائم ہونے والے “فارم ایوو ریسرچ فورم” پاکستان کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، ماہرین صحت اور تحقیق کاروں پر مشتمل ہوگا جو کہ نوجوان ریسرچرز کو صحت کے شعبے میں تحقیق کے لیے مالی معاونت اور مدد فراہم کرے گا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے ایڈیٹر شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میں طبی تحقیق کرنے والےمحققین کی شدید کمی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونے والی تحقیق کا معیار بھی کافی پست ہے۔ ان حالات میں فارم ایوو ریسرچ فورم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ صحت کے شعبے میں نوجوان تحقیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں تحقیق کرنے کے لئے مطلوبہ فنڈز اور اور ماحول فراہم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھر سے ماہرین صحت بشمول ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پروفیسر جہاں آرا عین الدین، قومی ادارہ برائے امراض قلب سے وابستہ پروفیسر طاہر صغیر، آغا خان یونیورسٹی کے سابق پروفیسر انور علی صدیقی، خیبر پختونخوا سے پروفیسر اختر شیریں، پروفیسر طیبہ وسیم سمیت دیگر ماہرین پر مشتمل فورم بنایا ہے جو کہ نوجوان تحقیق کاروں اور ریسرچرز ز کو مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فورم کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے پر فارم ایوو لمیٹڈ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ صحت کے شعبے میں بہتری کے لئے پیش پیش رہتی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ نئی تحقیق اور علاج کے نئے اور جدید طریقوں کے حصول لیے گزشتہ بیس سالوں سے جدوجہد کر رہا ہے، ان کا ادارہ ملک میں تحقیق کے فروغ کے لیے نہ صرف مالی معاونت فراہم کرے گا بلکہ ان کی کوشش ہوگی کہ ملک کی ہر میڈیکل یونیورسٹی اور کالج میں ریسرچ سینٹر قائم کیے جائیں، تقریب سے پروفیسر جہاں آرا، پروفیسر طاہر صغیر، پروفیسر انور صدیقی، ڈاکٹر مسعود جاوید اور ہارون قاسم سمیت ملک بھر سے ماہرین صحت نے خطاب کیا۔
https://www.express.pk/story/2160950/9812/


کولاراڈو:
امریکی جامعات نے کئی مطالعوں (اسٹڈیز) کا تجزیاتی سروے کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے قدرتی ماحول کی آوازیں صحت پر اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔

کارلٹن، مشی گن اسٹیٹ اور کولاراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی نے امریکی قومی پارک سروس کے تعاون سے بتایا ہے کہ فطری آوازیں نہ صرف کانوں کو بھلی لگتی ہیں بلکہ انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

اسی طرح گھنےدرختوں کے درمیان چہل قدمی سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے بلکہ دماغ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ اسی مناسبت سے سائنسدانوں نے 36 شائع شدہ تحقیقی مقالوں اور مطالعات کا مابعد مطالعہ (میٹا اسٹڈی) کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے شاعر اور ادیب فطری آوازوں سے محظوظ ہوتے رہے ہیں جبکہ ہسپتال اور تجربہ گاہ میں بھی لوگوں پر قدرتی آوازوں کے تجربات کئے گئے ہیں۔

ایک تجربے میں بہت سے مریضوں کو امریکہ کے 66 نیشنل پارکس کی 251 آوازیں سنائی گئیں تو مریضوں کے درد میں کمی، موڈ میں بہتری، مثبت سوچ میں اضافہ، اور ڈپریشن کم ہوئی۔ ان میں بہتے جھرنے کی آواز سب سے زیادہ مفید رہی اور پرندوں کی دل آویز چہچہاہٹ سننے سے ذہنی تناؤ اور الجھن میں کمی واقع ہوئی۔

اس تحقیق کو صوتی آلودگی کا الٹ بھی کہا جاسکتا ہے یعنی جس طرح ٹریفک، کارخانوں اور مشینوں کی بے ہنگم آوازیں انسان کو چڑچڑا بنارہی ہیں عین اسی طرح فطرت کی نرم آوازیں انسانوں کو سکون بخشتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2158058/9812/


لندن:
برطانیہ نے بیسویں صدی کے ممتاز ریاضی داں، کمپیوٹرسائنس، فلسفے اور کرپٹولوجی کے ماہر ایل ٹیورنگ کی یاد میں 50 پاؤنڈ کا یادگاری نوٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہےجو 23 جون یعنی ٹیورنگ کی سالگرہ پر جاری کیا جائے گا۔

ایلن ٹیورنگ کا کام بہت بنیادی نوعیت کا ہے انہوں نے مصنوعی ذہانت کے لئے مشہورِ زمانہ ٹیورنگ ٹیسٹ وضع کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں انہوں نے اینگما مشین تیار کی تھی جس نے جرمن بحریہ کی خفیہ پیغام رسانی کا راز فاش کیا تھا اور کئی جانوں کو بچانا ممکن ہوا تھا۔ اسی جینیئس نے جامعہ مانچسٹرمیں بھی اولین کمپیوٹر کی تیاری کا بنیادی کام کیا تھا۔

1912 میں جنم لینے والے ایلن میتھیسن ٹیورنگ نے صرف 24 برس کی عمر میں کمپیوٹنگ نمبر کی بنیادوں پر کام کیا اور ملک کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ اس نوٹ میں ٹیورنگ کی تصویر کے ساتھ 1936 میں لکھے تحقیقی مقالے اور آٹومیٹک کمپیوٹنگ انجن کا ماڈل بھی نمایاں ہے۔ پلاسٹک کے اس نوٹ پر ٹیورنگ کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ تاہم کہا جارہا ہے کہ اس نوٹ پر بعض تصاویر، اشکال اور اعداد معمے کے صورت میں بھی پیش کئے گئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2158851/509/


نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) خشک انگور، جو کشمش کے نام سے جانے جاتے ہیں، ہماری صحت کے لیے ایسے فوائد کے حامل ہیں کہ سن کر ہر کوئی انہیں اپنی روزمرہ خوراک کا حصہ بنا لے۔

ویب سائٹ healthshots.com کے مطابق ووکھردت ہسپتال ممبئی کی ماہرغذائیات امرین شیخ کا کہنا ہے کہ کشمش نظام انہضام کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے اور قبض کا خاتمہ کرکے پاخانے کو آسان بناتی ہے۔ جو لوگ اپنا وزن بڑھانا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی کشمش بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں فرکٹوز اور گلوکوز وافر مقدار میں ہوتے ہیں اور یہ توانائی سے بھرپور ہوتی ہے چنانچہ اسے کھانے سے وزن بڑھتا ہے۔


امرین شیخ کا کہنا ہے کہ ”کشمش کینسر سے محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے اور بلڈ پریشر کو بھی مستحکم رکھتی ہے۔ کشمش کھانے سے قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور جسم میں انفلیمیشن بہت کم ہوتی ہے اور جوڑوں کے دائمی درد جیسے عارضوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔یہ نیند کا معیار بہتر بنانے اور اس میں سکون لانے کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

چند دانے کشمش روزانہ کھانے سے آپ کے نیند سے متعلق تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔یہ ذہنی دباﺅ، ڈپریشن اور دماغی صحت کے لیے دیگر کئی حوالوں سے بھی فائدہ مند ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-Mar-2021/1267889?fbclid=IwAR37PvBSCHnzHe6ok2fHyV1Y0-KVQbIt5Z2372NRdjv1UplMKlvRr8W5xBA


ہیلسنکی:
فن لینڈ میں ایک طویل تحقیق کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ دیر تک ٹی وی، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ پر کارٹون فلمیں وغیرہ دیکھنے والے چھوٹے بچے صرف پانچ سال کی عمر میں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ تحقیق ہیلسنکی سینٹرل ہاسپٹل میں بچوں کی نفسیاتی معالج، ڈاکٹر جولیا پاوونن کی سربراہی میں 2011 سے 2017 تک کی گئی۔

اس دوران 18 ماہ (ڈیڑھ سال) سے پانچ سال کے 699 بچوں میں ٹی وی، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے روزانہ استعمال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ یہ آلات ان بچوں کے مزاج پر کیسے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ 18 ماہ کے 23 فیصد بچے، جبکہ پانچ سال عمر کے 95 فیصد بچے روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ان آلات کے سامنے گزارتے ہیں؛ جو عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے۔

بتاتے چلیں کہ عالمی ادارہ صحت نے بچوں کےلیے ٹی وی، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ دیکھنے (اسکرین ٹائم) کی زیادہ سے زیادہ روزانہ حد ایک گھنٹہ (60 منٹ) مقرر کی ہے۔

18 ماہ کی عمر میں بچوں کا روزانہ اوسط اسکرین ٹائم 32 منٹ تھا، جو پانچ سال کی عمر تک بڑھتے بڑھتے 114 منٹ (تقریباً 2 گھنٹے) روزانہ پر پہنچ گیا۔

ان کے برعکس وہ بچے جو ٹی وی، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ پر روزانہ گھنٹوں ویڈیو گیم کھیلنے کے عادی تھے، ان میں ایسے کوئی نفسیاتی مسائل سامنے نہیں آئے۔

ماہرین نے دریافت کیا کہ کارٹون فلمیں وغیرہ دیکھنے کےلیے ٹی وی، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے والے بچوں میں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل واضح طور پر دیکھے گئے۔ مثلاً:

بدمزاجی، خوف، اضطراب اور ڈپریشن جیسے جذباتی مسائل؛

برتاؤ کے مسائل، جیسے کہ مخالفانہ رویہ، بات بات پر جھگڑا کرنا اور غصے پر قابو پانے میں شدید مشکل وغیرہ؛ اور

توجہ کے مسائل، بالخصوص ردِعمل والا مزاج، بیک وقت کئی طرح کے خیالات میں الجھے رہنا اور توجہ مرکوز کرنے میں پریشانی۔

یہ دریافت اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے بچوں اور بڑوں میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ استعمال کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’بی ایم جے اوپن‘‘ کی ویب سائٹ پر چند روز پہلے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ڈاکٹر پاوونن اور ان کے ساتھیوں نے ہر خاص و عام کو مشورہ دیا ہے کہ بطورِ خاص چھوٹی عمر کے بچوں کو ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ اسکرین کے سامنے زیادہ دیر بیٹھنے نہ دیں بلکہ انہیں دوسری مصروفیات کے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ وہ چھوٹی عمر میں نفسیاتی مسائل سے محفوظ رہیں۔
https://www.express.pk/story/2158758/9812/


کوئنز لینڈ:
سمندر کی گہرائی میں زمینی حدود کی نقشہ سازی کے دوران بعد غرقاب شدہ براعظم ’زی لینیڈیا‘ کے مزید حدود کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ جنوبی بحرالکاہل میں نیو کیلیڈونیا کورال ریف (مرجانی چٹانوں) اور ایک بہت بڑے ارضی ٹکڑے پر مشتمل ہے۔

خیال ہے کہ یہ سات کروڑ نوے لاکھ برس سے لے کر اٹھ کروڑ تیس لاکھ برس قبل تمام برِاعظموں کے مجموعے گونڈوانا سے الگ ہوگیا تھا۔ اس کا مجموعی رقبہ 50 لاکھ مربع کلومیٹر ہے اور خرد براعظم مڈغاسکر سے چھ گنا بڑا ہے۔ اسے 2017 میں براعظم کا درجہ دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ماہرین اس کی حدود کو سمجھ رہے ہیں جس کی 94 فیصد مقدار زیرآب ہے۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے سائنسدانوں نے مسلسل 28 روز تک زیرِ آب گاڑی میں اس کا نقشہ بنایا ہے جو جو لگ بھگ 37000 مربع کلومیٹر ہے۔ تاہم مقناطیسی اور بصری تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کے خدوخال بہت پیچیدہ ہیں اور شاید یہاں مزید خرد براعظم بھی دفن بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سب گونڈوانا سے ہی ٹوٹ کر الگ ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں کی طرح گونڈوانا جنوبی امریکہ، افریقہ، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، زیلینڈیا، عرب اور برصغیر پر مشتمل تھا۔ تاہم یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو 2030 تک جاری رہے گا اور اس کی تحقیق عوامی سطح پربیان کی جائیں گی۔
https://www.express.pk/story/2158892/508/


حیدرآباد دکن:
عالمی خلائی اسٹیشن سے دریافت ہونے والے ایک نئے جرثومے کا نام برصغیر پاک و ہند کے مشہور طبّی ماہر، حکیم اجمل خان کے نام پر رکھنے کی تجویز دے دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ’’ناسا‘‘ کے ماہرین نے 2011 سے 2016 تک عالمی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں مختلف مقامات سے جراثیم (بیکٹیریا) کی چار اقسام حاصل کی تھیں جنہیں مزید تحقیق کےلیے زمین پر لایا گیا۔

بتاتے چلیں کہ یہ خلائی اسٹیشن 408 کلومیٹر بلندی پر رہتے ہوئے زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے۔

امریکی اور ہندوستانی ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے ان جراثیم کا تفصیلی جینیاتی تجزیہ کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے بتایا ہے کہ ان میں سے صرف ایک جرثومہ ایسا ہے جس کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں، جبکہ باقی تین بیکٹیریا پہلی بار دریافت ہوئے ہیں۔

بیکٹیریا کی یہ چاروں اقسام ’’میتھائیلو بیکٹیریاسیائی‘‘ (Methylobacteriaceae) نامی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس کے مختلف ارکان مٹی اور تازہ پانی میں عام پائے جاتے ہیں؛ اور پودوں کی نشوونما سے لے کر انہیں بیماریوں سے بچانے تک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آسان الفاظ میں، یہ جراثیم زرعی لحاظ سے بہت مفید ہیں۔

خلائی اسٹیشن سے ان بیکٹیریا کا ملنا کوئی عجیب و غریب بات نہیں کیونکہ خلانور پچھلے کئی سال سے خلا کے بے وزن ماحول میں چھوٹے پیمانے پر مختلف فصلیں اگاتے آرہے ہیں۔

نئے دریافت ہونے والے تینوں جرثوموں کو ابتدائی طور پر IF7SW-B2T، IIF1SW-B5 اور IIF4SW-B5 کے عارضی نام دیئے گئے۔

بھارتی ماہرین نے آن لائن ریسرچ جرنل ’’فرنٹیئرز اِن بائیالوجی‘‘ میں اس دریافت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ مذکورہ نودریافتہ جرثوموں میں سے IF7SW-B2T کو حکیم اجمل خان مرحوم کے نام پر Methylobacterium ajmalii کا باضابطہ نام دیا جائے۔

انہیں توقع ہے کہ حکیم اجمل خان کی طبّی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ماہرین کو بھی اس نام پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔


حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے حکیم اجمل خان سے دیرینہ تعلقات تھے۔

1920 کے عشرے میں ڈاکٹر صدیقی جرمنی سے پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ ان دنوں جنگِ عظیم کے باعث جرمنی میں شدید مالی بحران پیدا ہوگیا۔ ان حالات میں حکیم اجمل خان ہر ماہ پابندی سے نوجوان سلیم الزماں صدیقی کو 400 روپے بھجواتے رہ، یہاں تک کہ ان کا پی ایچ ڈی مکمل ہوگیا اور وہ ہندوستان واپس آگئے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اس احسان کا اعتراف اپنے آخری وقت تک کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے مختلف امراض کے علاج میں دریافت کی گئی دواؤں کے نام بھی حکیم اجمل خان کے نام پر رکھے۔

ان میں سے بلڈ پریشر کی ایک دوا ’’اجملین‘‘ بطورِ خاص زیادہ مشہور ہوئی۔
https://www.express.pk/story/2158343/9812/


میلبورن:
ہرے پتوں والی سبزیوں کے لاتعداد فوائد ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے مسلز(پٹھوں) کو بڑھانا اور مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہرے پتوں والی سبزیوں کا باقاعدہ استعمال شروع کردیں۔

ایڈتھ کووان یونیورسٹی (ای سی یو) کے سائنسدانوں نے جرنل آف نیوٹریشن میں شائع رپورٹ میں اپنے سروے کی تحقیقات پیش کی ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیوں میں نائٹریٹ کی بہتات ہوتی ہے جو بالخصوص نچلے دھڑ کے پٹھوں کو مضبوط کرتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ پٹھے کمزور ہوجائیں تو نہ صرف چلنے پھرنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ گر کر چوٹ لگنے اور ہڈیوں کے فریکچر کے واقعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

میلبورن میں واقع بیکرہارٹ اینڈ ڈائبیٹس انسٹی ٹیوٹ نے 3759افراد کا 12 سال تک مطالعہ کیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن افراد کے جسم میں نائٹریٹ کی مقدار ذیادہ رہی، دیگر افراد کےمقابلے میں ان کے پٹھے گیارہ فیصد زائد مضبوط تھے اور وہ دیگر سے چار فیصد تیزی سے چل پھر سکتے تھے۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ غذا انسانی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس طرح کسی ورزش کے بغیر پٹھوں کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اب اگرہرے پتوں کے ساتھ ورزش یا وزن اٹھائے جائیں تو اس کے مزید فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق بزرگ افراد کو اپنی خوراک میں سبز پتوں والی غذا کو بڑھانے کی ضرورت ہے جن میں پالک، سلاد اور چقندر بھی شامل ہیں۔

لیکن سبزپتوں والی سبزیاں دل کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ خون کی چھوٹی بڑی رگوں کو ہموار اور پرسکون رکھتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2158495/9812/


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا میں کئی ایسی سنگین مگر نایاب بیماریاں ہیں کہ جن کا سراغ ڈاکٹر بھی جلد نہیں لگا پاتے۔ بظاہر یہ بیماریاں کسی ٹیسٹ کی پکڑ میں نہیں آتیں لیکن مریض کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں۔ اب اس امریکی لڑکی کی مثال ہی لیجیے، جو بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئی کہ اس کے لیے اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا لگ بھگ ناممکن ہو گیا اور جنسی تعلق کے دوران اس کا جسم مفلوج ہونے لگا لیکن سالہا سال تک ڈاکٹر اس کی بیماری کا سراغ نہ لگا پائے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق 21سالہ ایما میکس ویل نامی اس لڑکی کا تعلق امریکی ریاست نیو ہیمپشائر سے ہے جس کا کہنا ہے کہ جب اسے 13سال کی عمر میں پہلی بار حیض آئے، اس کی یہ بیماری اسی وقت شروع ہو گئی تھی۔


اسے ماہواری کے دوران حد سے زیادہ خون بہنے، جسم کے پھلاﺅ، پٹھوں کے کھنچاﺅ، شدید تکلیف اور تھکاوٹ کا سامنا رہتا۔ جب اس نے جنسی تعلق قائم کیا تو یہ بھی اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ رہتا اور اس دوران اس کا جسم مفلوج ہو جاتا۔ سالہا سال تک ڈاکٹر اس کے ٹیسٹ اور سکین کرتے رہے لیکن ہر بار اسے صحت مند قرار دے کر گھر بھیج دیتے۔ بالآخر گزشتہ سال اس میں اینڈومیٹریوسس نامی بیماری کی تشخیص ہوئی، جس میں رحم کے ٹشوز سے مشابہہ پٹھے فیلوپین ٹیوبز اور دیگر اعضاءمیں بننا شروع ہو جاتے ہیں اور مریض خاتون کے لیے حیض کے دن اور جنسی تعلق کو انتہائی تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔


ایما کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال تشخیص کے بعد ڈاکٹروں نے میری سرجری کی اور یہ اضافی پٹھے جسم سے نکال دیئے۔ قبل ازیں سالوں تک میں جب بھی ڈاکٹر کے پاس گئی مجھے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ ’تمہاری علامات تمہاری جنس کا حصہ ہیں اور ہر عورت کو ان کا سامنا رہتا ہے۔‘ میں ڈاکٹروں کو جب تکلیف کی شدت بتاتی تو وہ جھلا کر کہتے کہ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ تم ہم سے زیادہ نہیں جانتیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/24-Mar-2021/1267448?fbclid=IwAR3Ziz9cFX2xMARqbjS1uOFriJq8evpvTzHfA2iSahTzcYrOjXTWvbnCV7s


یو ای ٹی کا کیلے کے تنوں سے کپڑا بنانے کا اعلان
 24 March, 2021

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور نے کیلے کے تنوں سے کپڑا بنانے کا اعلان کردیا ہے

لاہور(اپنے سٹاف رپورٹر سے ) وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو استعمال شدہ کپڑوں اور کیلے کے تنوں سے دھاگہ بنانے کے عمل پرتحقیق کا ہدف دیا ہے ، اس حوالے سے خصوصی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ۔تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں کپڑے کی مانگ میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور نے یو ای ٹی لاہور ، فیصل آباد کیمپس کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے چیئرمین ٹیکسٹائل ڈاکٹر محسن ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر اور بی ایس سی ٹیکسٹائل فائنل ایئر کے طلبہ عمار ، فرحان ، انشا، عبید اللہ ، علی اور احمد معین پر مشتمل خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے ۔ یو ای ٹی کے محققین کیلے کے ریشے کو کاٹن اور سوت کیساتھ ملا کر ایک نئی قسم کا دھاگہ تیار کریں گے ، یہ ٹیکنالوجی خالصتاً پاکستان کی ہوگی اور اس پر میڈ ان پاکستان کا لوگو لگایا جائے گا ۔ مزید برآں یو ای ٹی کے محققین استعمال شدہ کپڑے کو ری سائیکل کرنے کے منصوبے پر بھی کام کریں گے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-03-24/1797724


ہانگ کانگ:
انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک روبوٹ، مشہور مصوراور سافٹ ویئر کےملاپ سے فنِ مصوری کے شاہکار تخلیق کئے گئے ہیں جواب نیلام کئے جائیں گے۔

یہ پینٹنگز مشہور خاتون روبوٹ صوفیہ نے تیار کی ہیں جن کی تیاری میں انسانی مصور نے بھی مدد کی ہے۔ ہانگ کانگ کی ہینسن روبوٹکس ہیومونائڈ کمپنی نے اس ڈجیٹل مصوری کو نان فنجیبل ٹوکن ( این ایف ٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ این ایف ٹی ڈجیٹل نوادرات کا ایک نیا رحجان ہے جسے بلاک چین کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے اور ان کی نقل نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح ایف ایف ٹی کی خریداری کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور لوگ اس میں سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں۔

تاہم اس کی تیاری میں انسانی فن کار اور مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا بھی کردار ہے۔ واضح رہے کہ صوفیہ روبوٹ بات بھی کرتی ہے اور اس نے اپنی مصوری پر رائے بھی دی ہے۔

’ مجھے امید ہے کہ لوگ انسانوں کی مدد سے تیار کردہ میرے کام کو سراہیں گے اور میں مزید نئے طریقوں سے اس کام میں شریک رہوں گی،‘ صوفیہ نے اسٹوڈیو میں اپنی مخصوص میکانکی آواز میں بتایا جو 2016 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ اب انہوں نے اطالوی مصور اینڈریا بوناسیٹو کے تعاون سے کئی تصاویر بنائی ہیں جن میں ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک کا پورٹریٹ بھی شامل ہے۔

اس عمل کے لیے روبوٹ نے اینڈریا کے سارے کام کو دیکھا اس کی تاریخ کو پرکھا اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسانی فنکار کی نقل کرتے ہوئے تصاویر بنائی ہیں۔ روبوٹ نے ایک فن پارے پر کئی مرتبہ کام کیا جسے روبوٹ کمپنی کے خالق نے فنکارانہ تخلیق کا ایک نیا ارتقائی عمل کہا ہے۔

صوفیہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مصوری میں جینیاتی الگورتھم اور کمپیوٹیشنل تخلیقی عمل استعمال کیا ہے۔ ’ یوں ایسے خدوخال بنے ہیں جو اس دنیا میں پہلے ممکن نہ تھے۔ میں سمجھتی ہوں کی مشینیں بھی تخلیقی کام کرسکتی ہیں،‘ صوفیہ نے بتایا۔

اس میں 12 سیکنڈ کی ایم پی فور فائل ہے جس میں وہ اینڈریا کے کام کو پیش کیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے ہاتھوں میں ڈجیٹل قلم لے کر شاہکار تخلیق کئے ہیں۔ اس کی پینٹنگ خریدنے والے سے صوفیہ بات کریں گی اور اس کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی تصویر میں اس کے خدوخال کا حتمی اضافہ کریں گی۔
https://www.express.pk/story/2158076/509/


ٹوکیو:
جاپانی ماہرین نے ایک تجربے کے بعد کہا ہے کہ فون اور ٹیبلٹ پر ٹائپنگ کے مقابلے پر کاغذ پر لکھنے کا عمل یادداشت پر قدرے گہرا اثر ڈالتا ہے کیونکہ عملِ تحریر پیچیدہ، انوکھا اور حسی لحاظ سے بھرپور ہوتا ہے۔

جامعہ ٹوکیو کے پروفیسر کونیوشی سیکائی کہتے ہیں کہ برقی دستاویز کے مقابلے میں کاغذ پر قلم سے لکھنے کا عمل بہت پیچیدہ ہے اور اس سے لکھی معلومات یادداشت کو مضبوط بناتی ہے۔ وہ دماغی ماہر ہیں اور انہوں نے رضاکاروں کی مدد سے اس تصور کو واضح کیا ہے۔

اس تجربے میں ڈجیٹل پین (اسٹائلس) سے ای پلیٹ فارم اور ٹیبلٹ پر لکھوایا گیا اور کچھ افراد نے کاغذ پر قلم دوڑایا۔ دیکھا گیا کہ ٹیبلٹ وغیرہ پر لکھتے وقت قوت نہیں لگتی اور اسے بند کرتے ہی تحریر غائب ہوجاتی ہے۔ جبکہ کاغذ پر پین سے لکھنے پر ایک احساس ہوتا ہے، قوت لگتی ہے اور الفاظ اپنے انداز سے لکھے جاسکتے ہیں۔ اب ماہرین کا مشورہ ہے کہ تعلیم گاہوں میں کاغذی نوٹ بک ساتھ رکھیں کیونکہ لکھنے سے یادداشت کا عمل گہرا اور مؤثر ہوجاتا ہے۔

اس مطالعے میں 48 ایسے طلبا و طالبات شریک تھے جن کی عمریں 18 سے 29 برس تھیں جس میں انہوں نے کرداروں کے درمیان ایک فرضی گفتگو کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس کہانی کے کرداروں نے کلاس کے اوقات، اپنے کام اور مصروفیات کے 14 حوالے بھی شامل تھے۔

اس کے بعد رضاکاروں کو یادداشت، کاغذ یا ٹیبلٹ پر لکھنے کے انتخاب، عمر، جنس اور دیگر عوامل کی بنا پر تین گروہوں میں بانٹا گیا۔ اس کے بعد ٹیبلٹ، بڑے اسمارٹ فون اور کاغذی نوٹ بک پر مختلف لوگوں کو فرضی واقعات اور مصروفیات کو عین اسی طرح لکھنے کو کہا جیسا کہ ہم عام زندگی نوٹ کرتے ہیں۔

اس کے ایک گھنٹے بعد ان سے مختلف اسائنمنٹ، ان کی مرحلہ وار تارخ اور دیگر سوالات پوچھے گئے۔ اس دوران تمام افراد کو ایم آرآئی اسکینر سے گزارا گیا جس سے دماغ میں خون کے بہاؤ کو نوٹ کیا جاتا رہا جسے فنکشنل ایم آر آئی کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں جو کاغذ پر لکھ رہے تھے ان کے دماغ میں سرگرمی تیز دیکھی گئی اور انہوں نے صرف 11 منٹ میں تمام باتوں کے جوابات دیئے جبکہ ٹیبلٹ والوں کو یہی جوابات دینے میں 14 منٹ لگے۔ اسمارٹ فون والوں نے اس سے بھی دیر میں جواب دیا یعنی 16 منٹ میں جوابات لکھے۔

اس طرح لکھنے کے عمل میں دماغ میں یادداشت کا حصہ ہیپوکیمپس بھی قدرے سرگرم دیکھا گیا جو کاغذ پر تحریر کی صورت میں زیادہ واضح تھا۔
https://www.express.pk/story/2157728/9812/


سلیکان ویلی:
آئی بی ایم میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے ’’پروجیکٹ ڈیبیٹر‘‘ کے نام سے ایسا خودکار نظام تیار کرلیا ہے جو انسان سے تقریری مقابلہ کرسکتا ہے۔

اگرچہ اب تک کے تجربات میں یہ تقریری مقابلوں میں یہ کسی ماہر انسانی مقرر کو شکست تو نہیں دے سکا ہے لیکن اسے بنانے والوں کو امید ہے کہ کچھ عرصے کی مسلسل تربیت کے بعد ایسا بھی ممکن ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ اس نظام پر گزشتہ کئی سال سے کام جاری ہے جبکہ اس کا پہلا عوامی مظاہرہ 2019 میں کیا گیا تھا۔

اس نظام کی مزید تربیت کرکے بہتر بنانے کےلیے ماہرین نے ’’آرگیومنٹ مائننگ‘‘ سے استفادہ کیا، جو ’’نیچرل لینگویج پروسیسنگ‘‘ میں تحقیق کا ایک ذیلی شعبہ ہے۔

آرگیومنٹ مائننگ میں مصنوعی ذہانت (AI) والا کوئی نظام اِدھر اُدھر منتشر معلومات کو یکجا کرتا ہے اور ان کے درمیان ’’منطقی تعلق‘‘ کا پتا لگاتا ہے۔

تحقیقی مجلّے ’’نیچر‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع شدہ مقالے کے مطابق، پروجیکٹ ڈیبیٹر کو 40 کروڑ خبروں کے ذریعے تربیت دے کر اس قابل بنایا گیا ہے کہ یہ 100 مختلف موضوعات پر انسان سے بحث یا تقریری مقابلہ کرسکتا ہے۔

اگرچہ ’’پروجیکٹ ڈیبیٹر‘‘ اب تک اس قابل تو نہیں ہوا ہے کہ کسی ماہر انسانی مقرر کا مقابلہ کرسکے لیکن اس کا مشاہدہ کرنے والے بیشتر افراد (انسانوں) نے مختلف بحثوں کے دوران پروجیکٹ ڈیبیٹر کو اچھے نمبر دیتے ہوئے اس کی کارکردگی کو ’’خاصی مناسب‘‘ قرار دیا ہے۔

اس خودکار نظام کو تخلیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروجیکٹ ڈیبیٹر کی کارکردگی اور بھی بہتر ہوگی۔

انہیں امید ہے کہ یہ نظام آئندہ چند سال بعد تقریری مقابلوں میں بھی انسان کو شکست دینے کے قابل ہوجائے گا۔

بتاتے چلیں کہ کمپیوٹر سائنس میں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا شعبہ ویسے تو لگ بھگ پچھلے 70 سال سے وجود رکھتا ہے لیکن حالیہ 30 برسوں کے دوران اس کی ترقی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

آج زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت نہ صرف انسانوں کی مدد کررہی ہے بلکہ کئی طرح کے مقابلوں میں اپنے مدمقابل انسانوں کو شکست بھی دے چکی ہے۔

یہی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت اپنے بڑھتے ہوئے معاشی و معاشرتی اثرات کی وجہ سے آج اخلاقیات اور سماجیات کا ایک اہم موضوعِ بھی بحث بن چکی ہے۔
https://www.express.pk/story/2158383/508/


میڈرڈ:
اسپین کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر ورزش سے آدھا گھنٹہ پہلے چائے، کافی یا کیفین والی کوئی دوسری غذا استعمال کرلی جائے تو ورزش کے دوران جسم کی چربی گھلنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ کافی اور چائے کے علاوہ چاکلیٹ، کولا مشروبات اور انرجی ڈرنکس میں بھی کیفین کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف گریناڈا (جامعہ غرناطہ) کے ماہرین نے اوسطاً 32 سال کے 15 رضاکاروں کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتائج اخذ کیے ہیں۔

ان تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ صبح کی نسبت شام کے وقت ورزش کرنے سے چربی گھلنے کے یہ اثرات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف، فرانسسکو ہوزے امارو گاہیتے کا کہنا ہے کہ چربی تیزی سے کم کرنے کےلیے صبح کے وقت اور خالی پیٹ ورزش کرنے کا مشورہ عام دیا جاتا ہے لیکن اس خیال کی سائنسی بنیادیں کمزور ہیں۔

اس خیال کے برعکس، گاہیتے اور ان کے ساتھیوں کو مشاہدہ ہوا کہ شام کے وقت، کیفین استعمال کرنے کے آدھے گھنٹے بعد ورزش کرنے والے رضاکاروں کی جسمانی چربی گھلنے کی رفتار صبح کے وقت خالی پیٹ وہی ورزش کرنے والوں کے مقابلے میں دگنی تھی۔

اس تحقیق کی تفصیلات ’’جرنل آف دی انٹرنیشنل سوسائٹی آف اسپورٹس نیوٹریشن‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2158433/9812/


روزانہ دو لونگ کھانے کے فوائد
 22 March, 2021

خصوصی ایڈیشن     تحریر : انیلا ثمن

لونگ ایک خشک کلی ہوتی ہے جو اصل میں اپنے درخت کی ادھ کھُلی کلی ہے۔یہ گرم آب و ہوا کا سدا بہار درخت ہے۔جس کی اونچائی4.5میٹر سے لے کر 9میٹر تک جاتی ہے۔اس کا تنا سیدھا،پتے نوکیلے،بیضوی لمبے،چکنے اور خوشبو دار ہوتے ہیں۔اگر لونگ کی کلی کو توڑا نہ جائے تو یہ بے رنگ پھولوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔تاہم سرخ رنگ کی یہ کلیاں کھلنے سے پہلے ہی توڑ لی جاتی ہیں۔خشک ہونے کے بعد یہ گہرے برائون رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

لونگ کے غذائی اجزاء: لونگ میں بھی دیگر مصالحوں کی طرح غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں،جو بے حد کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ قدرت نے ایک چھوٹی سی لونگ میں بے شمار غذائی اجزاء چھپا رکھے ہیں۔100گرام لونگ کی غذائیت کی مقدار اس طرح سے ہے۔اس میں 430گرام کیلوریز، 5.4گرام نمی،57.5کاربو ہائیڈریٹس ، 15.5 گرام چکنائی،6.3گرام پروٹین ، 13.2 گرام دولاٹائل آئل اور اس کے علاوہ چند مزید اشیاء جیسے فولاد،سوڈیم ،پوٹاشیم، وٹامنز بی ٹو،بی ون،نیا سین، وٹامن سی اور اے شامل ہیں۔ لونگ کی تاثیر گرم اور تیز بھی ہوتی ہے،لیکن اپنے غذائی اجزاء کے باعث یہ بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔یہ نہ صرف کھانوں کی شان بڑھاتی ہے بلکہ ان کے ذائقے کو دوبالا بھی کرتی ہے۔

لونگ کے طبعی فوائد: لونگ سے کئی امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔لونگ دانتوں کے امراض سے لے کر جسم کے دیگر کئی امراض میں بھی شفاء بخش ہے۔ایران اور چین میں اسے قوت باہ کا محرک قرار دیا جاتا ہے۔کھانے میں لونگ کے استعمال سے معدے سے ریاح خارج ہونے میں مدد ملتی ہے۔قدیم معالج لونگ کو بے شمار امراض کے علاج کیلئے استعمال کرتے تھے۔ آیورویدک طریقہ علاج میں لونگ کا جوشاندہ، تیل اور سفوف خون کی گردش کے استحکام اور درجہ حرارت برقرار رکھنے کیلئے استعمال کروایا جاتا ہے۔سر درد کیلئے لونگ کا زسفوف، نمک اور دودھ کے ساتھ ملا کر ماتھے پر لیپ کر لینا فائدے مند ہوتا ہے۔کھانسی کے لیے ایک لونگ نمک کے ساتھ چبا کر نگل لینے سے کھانسی میں آرا م اور گلے کی تکلیف میں افاقہ ہو جاتا ہے۔دمہ کی تکالیف کے ازالے کیلئے چھ لونگ ایک گلاس میں ڈال کر اُبال لیں۔ اس جوشاندے میں ایک چمچ شہد شامل کر کے دن میں تین بار پئیں۔

کھانوں میں خوشبو کیلئے لونگ بھون کر استعمال کی جاتی ہے۔یہ بھوک بڑھانے کے علاوہ نزلے کو روکتی ہے اور دماغ کو بھی طاقت دیتی ہے۔ لونگ اور ہلدی کا سفوف انڈے کی سفیدی میں ملا کر کیل مہاسوں پر لگانے سے مہاسے نکلنا بند ہو جاتے ہیں۔

دانتوں کے درد اور منہ کی تمام تکالیف، مسوڑھوں سے خون آنا اور بادی کیلئے لونگ چبانا مفید ہے۔ لونگ کا تیل منجن کی طرح دانتوں پر ملنے سے آرام ملتا ہے۔لونگ رفع حاجت کے مسئلے میں استعمال کی جانے والی چیزوں کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے سے پیٹ کی تمام تکالیف رفع ہو جاتی ہیں۔بد ہضمی،قے اور اپھارہ کی صورت میں چند قطرے لونگ کا تیل پینے سے افاقہ ہو جاتا ہے۔ کھانے میں لونگ کے استعمال سے معدے سے ریاح خارج ہونے میں مدد ملتی ہے۔لونگ کو بطور دافع، ریاح، خوشبو اور محرک کے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بادی اور ضعف معدہ کے علاج کیلئے اکسیر ہے اور بہت سکون دیتی ہے۔

لونگ کا تیل: لونگ کا تیل بھی بے حد مفید اور کار آمد ہے۔یہ مختلف مرحلوں سے گزر کر حاصل کیا جاتا ہے۔اس کے اندر بڑی مقدار میں فنیول پائی جاتی ہے،جو اعلیٰ درجے کی اینٹی سیپٹک ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ہزار برسوں سے دانتوں کے درد،سانس کی بد بو اور دانتوں کے انفیکشن کو دور کر نے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے پرفیوم اور باتھ سالٹ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

لونگ کا تیل تھوڑے سے شہد اور لہسن کے ساتھ ملا کر لینے سے کھانسی میں آرام آ جاتا ہے۔ لونگ کا تیل جوڑوں کے درد کیلئے بے حد مفید ہے۔جوڑوں کے درد،گٹھیا اور اعصابی درد میں لونگ کا تیل لے کر مالش کرنے سے افاقہ ہو جاتا ہے۔لونگ کا تیل جلد کیلئے مفید اور بہترین غذا ہے۔اس کی مالش سے جلد صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ اگر کان میں درد کی شکایت ہو تو ایک چمچ تیل میں دو لونگیں ڈال کر پکائیں اور ٹھنڈا کر کے کان میں ڈال لینے سے آرام آ جائے گا
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-03-22/1188


یوٹاہ:
سمندر دنیا کے 70 فیصد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اب دنیا میں تحفظ کے حامل سمندری علاقوں کے مفصل نقشے سے انکشاف ہوا ہے کہ اگرسمندروں کی حفاظت کی جائے تو اس سے نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں بلکہ عالمی غذا کی فراہمی اور حیاتیاتی تنوع کا بحران بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔

اس اہم سروے کی تفصیلات ایک تحقیقی مقالے میں شائع ہوئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سمندروں کا سختی سے تحفظ کیا جائے تو صحتمند خوراک کی مسلسل فراہمی یقینی ہوجائے گی، سمندری جانوروں کے مسکن اور ان کی بقا کو فروغ ملے گا اور شاید موسمیاتی تبدیلیوں کا قدرتی حل بھی برآمد ہوسکے گا۔

ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے سمندروں میں خاص مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ اگر ان کی کڑی نگرانی اور حفاظت کی جائے تو 80 فیصد سمندری حیات کو تحفظ ملے گا، ماہی گیری کی تعداد میں 80 لاکھ میٹرک ٹن کا اضافہ ہوگا، اور سمندری فرش کی ٹرالنگ روکنے سے ایک ارب ٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہوجائے گا۔ کیونکہ سمندری فرش پر ماہی گیری کا یہ طریقہ نہایت خطرناک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹرالنگ کا عمل نہ صرف سمندری حیاتیات کےلیے تباہ کن ہے بلکہ اس سے سمندروں میں سالانہ کروڑوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندری پانیوں میں گھل رہی ہے۔ اس تحقیق کے اہم رکن پروفیسر اینرک سیلا کہتے ہیں کہ اس وقت عالمی بحر کے صرف سات فیصد رقبے کو تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے تمام ممالک پر زور دے کر کہا کہ 2030 تک سمندروں کے 30 فیصد حصے کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے۔

اپنی تحقیق میں انہوں نے سمندری ڈیٹا اور الگورتھم کی مدد سے کہا ہے کہ عالمی سطح پر یہ کام ممکن ہے اور اس میں تمام شریک کو ایک میزپربیٹھنا ہوگا کیونکہ سمندروں کا تحفظ ہر حال میں انسانوں کو ان گنت فوائد فراہم کرسکتا ہے۔

اس تحقیق میں بین الاقوامی ماہرین نے اہم کردار ادا کیا ہے جس میں محض نقشے کی بجائے ایک پورا منصوبہ (فریم ورک) کہا جاسکتا ہے جو ایک تہائی سمندری علاقوں کی سخت نگرانی اور تحفظ پر زور دیتا ہے کیونکہ سمندر کے یہ مقامات خود کی مرمت اور بحالی کے شاندار خواص رکھتے ہیں۔

ان علاقوں کو ایم پی اے یا میرین پروٹیکٹڈ ایریا کہا جاتا ہے جہاں ماہی گیری پر پابندی عائد کرکے بہت سے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح پورا ماحول اور مسکن دھیرے دھیرے بحال ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب رپورٹ میں سمندری فرش کی ٹرالنگ کو انتہائی تباہ کن قرار دیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2157690/508/


کسی انسان یا چیز کو چھونے پر بجلی کا جھٹکا لگنے بارے جانئے
 22 March, 2021

کیا آپ کو کبھی کسی فرد یا کسی عام سی چیز کو چھونے پر ہلکے سے بجلی کے جھٹکے کے تجربے کا سامنا ہوا ہے ؟

لاہور(نیٹ نیوز)درحقیقت ہمارے ارگرد ہر چیز ایٹمز سے بنی ہوتی ہے اور ان میں انسانی جسم بھی شامل ہے ، یہ ایٹمز پروٹون، الیکٹرون اور نیوٹرون کا امتزاج ہوتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک میں بالترتیب پازیٹو، نیگٹو یا نیوٹرل چارج ہوتا ہے ، اگرچہ ایٹمز میں ان تینوں ذرات کی تعداد متوازن ہوتی ہے ، تاہم الیکٹرونز ہر وقت ایک سے دوسری جگہ سفر کرتے رہتے ہیں۔یعنی وہ فرنیچر سے ہمارے ملبوسات میں منتقل ہوسکتے ہیں اور وہاں سے ہاتھ ملانے پر کسی دوسرے فرد کو بجلی کا ایک ہلکا سے جھٹکا دے سکتے ہیں۔ ایسا تجربہ سرد موسم میں زیادہ ہوسکتا ہے یا ایسی جگہوں پر جہاں موسم خشک اور سرد ہو، کیونکہ ہوا میں زیادہ نمی قدرتی کنڈکٹر کا کام کرتی ہے اور اس طرح کے ہلکے برقی رو کی روک تھام کرتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-22/1796561


ویتنام:
اگر آپ تصویر میں دکھائی دینے والے اس ’جانور‘ کو ننھا منا سنہری کچھوا سمجھ رہے ہیں تو اپنی غلط فہمی دور کرلیجیے کیونکہ اصل میں یہ ایک قسم کا بھنورا ہے۔

یہ شمال مشرقی ہندوستان، ویتنام، انڈونیشیا، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار اور چین سمیت کئی جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں میں پایا جاتا ہے۔

کچھوے سے ظاہری مشابہت کی وجہ سے اس کا نام بھی ’’گولڈن ٹوٹوئیز بِیٹل‘‘ (سنہری کچھوا بھنورا) رکھا گیا ہے۔

ویسے تو اس کی بہت سی اقسام ہیں جن کی رنگت سرخ اور بھوری ہوتی ہے تاہم لیکن ایک نوع Aspidimorpha sanctaecrucis اپنے چمک دار سنہری رنگ کی وجہ سے ’’سنہری کچھوا بھنورا‘‘ کے نام پر پوری اترتی ہے۔ تصویر میں بھی ایسا ہی ایک بھنورا دکھایا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اس بھنورے کی زیادہ سے زیادہ لمبائی صرف 14 ملی میٹر (نصف انچ سے کچھ زیادہ) ہوسکتی ہے جبکہ یہ گھنے بارانی جنگلات میں درختوں کے پتوں پر رہتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس بھنورے کا جسم سنہرا ہوتا ہے جس کے ارد گرد سخت اور شفاف پروں کا خول ہوتا ہے جو اسے پرندوں اور بڑے کیڑوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2157508/509/


اترخت:
ہالینڈ کے سائنسدانوں نے تجربہ گاہ میں پہلی بار وہ غدود ’کاشت‘ کیے ہیں جو آنکھوں میں آنسو پیدا کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ آنکھوں میں آنسوؤں کا بنتے رہنا اور وقفے وقفے سے خارج ہونا ہماری صحت کےلیے بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے ہماری آنکھیں مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں بلکہ آنکھوں کی صفائی بھی ہوتی رہتی ہے۔

ہالینڈ کی ’’دی رائل نیدرلینڈز اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز‘‘ کی سرپرستی میں کی گئی اس تحقیق میں سب سے پہلے جینیاتی انجینئرنگ کی جدید ترین ٹیکنالوجی ’کرسپر‘ (CRISPR) سے استفادہ کرتے ہوئے وہ جین شناخت کیے گئے جو انسانوں اور چوہوں کی آنکھوں میں آنسو پیدا کرنے والے غدود میں اہم ترین حیثیت رکھتے ہیں۔

بعد ازاں ہر فن مولا خلیے، یعنی ’’خلیاتِ ساق‘‘ (stem cells) استعمال کرتے ہوئے پیٹری ڈش میں آنسو بنانے والے مخصوص خلیات تخلیق کرکے انہیں غدود کی شکل میں کامیابی سے یکجا کیا گیا۔

تجربہ گاہ کے ماحول میں ان غدود نے ٹھیک ویسے ہی آنسو بہائے جیسے قدرتی آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں۔

فی الحال یہ ابتدائی نوعیت کے تجربات ہیں جن کا مقصد آنکھوں میں آنسو پیدا کرنے والے غدود کے کام کو باریک بینی سے سمجھنا ہے۔

تاہم مستقبل میں ماہرین اسی طریقے پر آنسو بنانے والے ایسے غدود تیار کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جنہیں خشک آنکھوں کی بیماری میں مبتلا مریضوں میں پیوند کیا جاسکے گا۔

البتہ یہ منزل ابھی بہت دور ہے جس کا انحصار آئندہ تجربات میں کامیابیوں پر ہے۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’سیل پریس‘‘ کے ریسرچ جرنل ’’اسٹیم سیل‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2157538/508/


کیلی فورنیا:
فیس بک نے کہا ہے کہ اس نے کلائی پر باندھے جانے والا ایک پہناوا (ویئرایبل) بنایا ہے جو دماغی سگنل پڑھ کر آگمینٹڈ ریئلٹی کے ماحول میں آپ کو مختلف سہولیات فراہم کرسکتا ہے۔

اس طرح آئی پوڈ جیسا نظام پہن کر دماغی سگنلوں کو پڑھا جاسکتا ہے اور جب آپ کسی منظر میں کوئی ڈجیٹل شے دیکھتے ہیں تو صرف دماغی طور پر سوچنے سے ہی اسے ایک سے دوسری جگہ لے جاسکتے ہیں۔ ڈجیٹل پٹا الیکٹرومائیوگرافی (ای ایم جی) استعمال کرتے ہوئے دماغ سے ہاتھوں تک پہنچنے والے حرکتی (موٹر) اعصاب کو پڑھتا ہے۔

اب تک اس آلے کو کوئی نام نہیں دیا گیا ہے لیکن اس کی بدولت آگمینٹڈ ریئلٹی کی معلومات یا اجزا کو انگلی کے اشارے یا محض سوچنے سے ہی ایک سے دوسری جگہ حرکت دینا ممکن ہوگا۔

آگمینٹڈ ریئلٹی کو یوں سمجھئے کہ آپ ایک مخصوص عینک سے حقیقی منظر کو دیکھ رہے ہیں اور اس میں ڈجیٹل معلومات شامل ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال پوکے مون گیم ہے جو حقیقی مقامات پر ڈجیٹل پوکے مون کردار دکھاتا ہے۔اسی طرح آگمینٹڈ ریئلٹی کسی بھی جگہ اور منظر میں مزید معلومات اور پہلوؤں کا اضافہ کرسکتی ہے۔

تاہم اسے گوگل گلاس، یا کسی ہیڈ اپ ڈسپلے کے ساتھ ہی استعمال کیا جاسکے گا اور فیس بک کے خیال میں ڈجیٹل کنگن اس ضمن میں بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ ٹیکنالوجی فیس بک کی ریئلٹی لیبس میں اب تک تحقیق اور مزید تصدیق کے مراحل میں سے گزررہی ہے۔ اس پر کئی برس سے تحقیق جاری ہے۔

اسی برس نو مارچ میں فیس بک نے خود فیس بک گلاس (عینک) کا اعلان کیا تھا جو آگمینٹڈ ریئلٹی میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ مخصوص دستانے اور دیگر آلات پر تحقیق کے لیے بھی غیرمعمولی رقم خرچ کی گئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2157376/508/


سان فرانسسكو: سفید بٹن نما مشروم میں بعض کیمیائی اجزا کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ بالخصوص پروسٹیٹ کینسر کی رفتار کو بہت سست کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔


عالمی اینڈوکرائن سوسائٹی کی مجازی کانفرنس میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں اور یہ تحقیقات چوہوں پر کی گئی ہیں۔ ’اینڈروجینس ایک طرح کے مردانہ جنسی ہارمون ہوتے ہیں جو پروسٹیٹ کینسر کے خلیات کو بڑھاتے ہیں۔ یہ اینڈروجن ریسپٹر سے جڑ کر اسے سرگرم کردیتے ہیں،‘ ژیائی چیانگ وانگ نے بتایا جو اس تحقیق کے سربراہ اور بیک مین ریسرچ انسٹی ٹٰیوٹ آف سٹی آف ہوپ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وائٹ بٹن مشروم اینڈروجن ریسپٹر کے عمل کو روکتے ہیں۔

اس سے قبل سائنسدانوں نے سفید مشروم کے پاؤڈر ایسے مریضوں کو کھلایا جن میں پروسٹیٹ کینسر کا دوسرا حملہ ہوا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاؤڈر نے پروسٹیٹ کینسر کو بڑھانے والے اینٹی جین (پی ایس اے) کو کم کیا جس کے ثبوت خون میں ان کی کمی سے ظاہر ہوئے۔ اس قدرتی علاج کا کوئی مضر اثر بھی سامنے نہیں آیا۔ اب اس پورے عمل کو مزید سمجھنے کا آغاز کیا گیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق صرف چھ روز تک مشروم کا سفوف دینے سے چوہوں میں پی ایس اے کی سطح بہت کم ہوگئی اوراس کے نتائج بہت واضح ہیں۔
https://www.express.pk/story/2157379/9812/


افراد کے صحت مند ہونے کی نشاندہی کرنے والی علامات
 21 March, 2021

صحت کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا جاتا ہے ، لیکن یہ کیسے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص صحت مند ہے یا نہیں؟

لاہور(نیٹ نیوز)یہاں وہ علامات بتائی جارہی ہیں جو کسی فرد کے صحت مند ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔سب سے پہلی نشانی ہے بھوک لگنے پر کھانا اور اعتدال میں کھانا، اپنے جسم کی سنیں اور سمجھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ اگر ایسا کرپاتے ہیں تو اچھی صحت آپ کے ہاتھ میں ہی ہے ۔اگر آپ لفٹ کی جگہ سیڑھیوں کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ اچھی جسمانی ساخت رکھتے ہیں، اگر آپ مختلف جذبات کے حامل ہیں تو بھی آپ صحت مند ہیں، ایک تحقیق کے مطابق کبھی کبھار غصہ کرنا ایک عام چیز ہے ، اداسی بھی نارمل ہے جبکہ چڑچڑا پن اور مایوسی محسوس کرنا بھی غیرمعمولی نہیں۔ یہ تمام جذبات اچھی ذہنی صحت کی نشانی ہیں۔ایک اور علامت یہ بھی ہے کہ بستر پر فوراً لیٹتے ہی نہ سویا جائے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-21/1795797


کیلیفورنیا:
امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ گائے بھینسوں کے چارے میں سمندری گھاس کی تھوڑی سی مقدار شامل کردی جائے تو ان سے میتھین گیس کے اخراج میں 82 فیصد تک کمی ہوجاتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس (یو سی ڈی) میں کی گئی اس تحقیق کے دوران 21 پالتو گایوں کے روزانہ چارے میں سرخ سمندری گھاس (Asparagopsis taxiformis) کی تھوڑی سی مقدار شامل کی گئی۔

بتاتے چلیں کہ سرخ سمندری گھاس کی یہی قسم پاکستانی ساحلی پٹی پر بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔

اس کے بعد خصوصی آلات کے ذریعے دن میں چار مرتبہ ان کی ڈکاروں سے خارج ہونے والی میتھین گیس کی مقدار معلوم کی گئی۔

پانچ ماہ تک جاری رہنے والے ان تجربات سے معلوم ہوا کہ جن گایوں نے معمول کے چارے کے ساتھ روزانہ صرف 80 گرام سرخ سمندری گھاس کھائی تھی، ان کی ڈکاروں سے میتھین کا اخراج 82 فیصد تک کم ہوا تھا جبکہ ان سے حاصل ہونے والے دودھ اور گوشت کے ذائقے اور غذائیت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سرخ سمندری گھاس کے اجزاء، مویشیوں کے معدے میں ان خامروں کو کام کرنے سے روکتے ہیں جو میتھین کے اخراج کی وجہ بنتے ہیں۔

قبل ازیں یہی تحقیق امریکی اور آسٹریلوی سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کی تھی، تاہم اس کا دورانیہ صرف 15 دن رہا تھا۔ موجودہ تحقیق میں یہ مدت بڑھا کر 5 ماہ کرتے ہوئے سرخ سمندری گھاس کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اگرچہ فضا میں میتھین کا اخراج کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 25 گنا زیادہ حرارت جذب کرتی ہے۔

یعنی فضا میں ایک ٹن میتھین سے ماحول کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ اتنا ہوتا ہے کہ جیسے 25 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کردی گئی ہو۔

بعض تحقیقات میں 20 سالہ اثرات کی بنیاد پر یہاں تک کہا گیا ہے کہ میتھین گیس میں ماحول کو گرمانے کی صلاحیت، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 84 گنا زیادہ ہے۔

فضائی میتھین کے حالیہ اضافے میں انسانی سرگرمیوں کا کردار سب سے نمایاں ہے جس کا 37 فیصد حصہ پالتو مویشیوں، بالخصوص گائے بھینسوں کی ڈکاروں اور ریاح سے فضا میں شامل ہوتا ہے۔

یہ تجربات اگرچہ امید افزا ہیں لیکن سرخ سمندری گھاس کی بڑے پیمانے پر کاشت اور دور دراز مقامات تک محفوظ منتقلی جیسے امور پر اب بھی کام ہونا باقی ہے۔ اگلے مرحلے میں ان ہی نکات پر تحقیق کی جائے گی۔

اس تحقیق کی تفصیل آن لائن ریسرچ جرنل ’’پی ایل او ایس ون‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2156918/508/


سان فرانسسکو:
امریکی سائنسدانوں نے ایک طویل مطالعے کے بعد دریافت کیا ہے کہ جو لوگ اپنی جوانی میں اچھی اور صحت مند عادتیں اپناتے ہیں، بڑھاپے میں ان کا دماغ بھی چاق و چوبند اور توانا رہتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو میں پروفیسر ڈاکٹر کرسٹین یافی کی نگرانی میں اس مطالعے میں چار طویل مدتی تحقیقی منصوبوں میں حاصل شدہ اعداد و شمار سے استفادہ کیا گیا۔

ان تحقیقات میں مجموعی طور پر 15 ہزار بالغ افراد شریک تھے جبکہ تحقیقات کے آغاز پر ان کی عمر 18 سے 30 سال اور 45 سے 95 سال کے درمیان تھی۔

اس مطالعے میں جوانی کے دوران ناقص غذا، سگریٹ نوشی اور آرام پسندی جیسی عادتوں کا ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں خراب ذہنی صلاحیتوں سے بہت واضح تعلق سامنے آیا۔

جوانی میں موٹاپے، خون میں شکر کی زیادہ مقدار (ہائی بلڈ شوگر) اور ہائی بلڈ پریشر جیسی علامات کو بھی بعد کی عمر میں ذہنی تنزلی میں اوسطاً دگنے اضافے سے مربوط دیکھا گیا۔

ڈاکٹر کرسٹین اور ان کے ساتھیوں نے جوانی میں معمول سے زیادہ وزن/ موٹاپے کو ادھیڑ عمری میں دماغی تکالیف کا اہم ترین خطرہ قرار دیا ہے۔

البتہ جوانی میں زیادہ کولیسٹرول اور بڑھاپے میں ذہنی تنزلی کے درمیان تعلق سامنے نہیں آیا۔

اس تحقیق کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’نیورولوجی‘‘ کی ویب سائٹ پر 17 مارچ کے روز شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2156582/9812/


گردے کی بیماریوں سے بچاؤ کیلئے مفید سبزیاں
 20 March, 2021

گردے انسانی جسم کا اہم عضو ہیں، ماہرین صحت کے نزدیک گردوں کیلئے صحت بخش غذا اپنانا ہی گردوں کے صحیح طرح کام کرنے کا عمل جاری رکھنے کا بہترین طریقہ ہے

لاہور(نیٹ نیوز)درج ذیل غذائی اشیا کھانے سے گردوں کا عمل بھرپور بنایا جا سکتا ہے ۔گوبھی کو فولک ایسڈ اور ریشے کا اچھا ذریعہ شمار کیا جاتا ہے جو گردوں کیلئے مفید ہے ۔ بند گوبھی گردے کی صحت کے واسطے ایک بہترین غذا شمار ہوتی ہے ۔ لہسن میں گردے کے مریضوں کیلئے مفید ہے ۔گردے کیلئے صحت بخش غذاؤں میں پیاز بھی شامل ہے ۔چقندر گردے کی کارکردگی اچھی بنانے میں کام آتے ہیں۔ مولی حیران کن طور پر گردے کی صحت کیلئے نہایت مفید ہے ۔ باقاعدگی کے ساتھ کھیرا کھانا انسانی جسم میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں کھیرے سے گردے میں موجود چھوٹی پتھریاں بھی گھل کر ختم ہو سکتی ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-20/1795183


لیمور پھلوں کی خوشبو 50فٹ سے سونگھ لیتے ہیں:تحقیق
 20 March, 2021

لیمور اگرچہ بوزنوں کی نسل سے ہوتے ہیں لیکن وہ پھلوں کی خوشبو سونگھنے میں غیر معمولی طور پر چالاک ہوتے ہیں

فلوریڈا(نیٹ نیوز)لیمور اگرچہ بوزنوں کی نسل سے ہوتے ہیں لیکن وہ پھلوں کی خوشبو سونگھنے میں غیر معمولی طور پر چالاک ہوتے ہیں، اب تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ 50 فٹ کی دوری سے پھلوں کی خوشبو محسوس کرلیتے ہیں۔فلوریڈا میں واقع لیمور فاؤنڈیشن نے ایک تجربے کے بعد بتایا کہ انہوں نے ایک ڈبے میں خربوزے چھپا کر رکھے تھے جسے لیمور نے ڈھونڈ نکالا لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوتا ہے جب پھل کی بو لے کر ہوا کا رخ ان کی طرف پہنچ رہا ہو۔اس تجربے کی روحِ رواں، مالیکیولر پیتھوبیالوجی کی پروفیسر ایلینا کننگھم کہتی ہیں کہ پہلی مرتبہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بوزنے بہت دور سے مخصوص بو سونگھ سکتے ہیں، اگرچہ یہ خاصیت کئی جانوروں میں پائی جاتی ہیں لیکن لیمور پر اس سے قبل تحقیق نہیں ہوئی تھی۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-20/179518


گاڑی چلاتے ہوئے بار بار نیند آنا، علاج کیسے کیا جائے ؟
 19 March, 2021

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی ڈرائیونگ کے دوران نیند آنے سے خوفناک ٹریفک حادثات میں کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں

ریاض(نیٹ نیوز)اس حوالے سے ایک سعودی میگزین میں ڈاکٹر سعد الشریف نے ڈرائیونگ کے دوران آنکھ لگنے کے متعدد اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور اس سے بچاؤ کا طریقہ بیان کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دن کے وقت اونگھنے کے بہت سارے اسباب ہیں، ان میں نمایاں ترین رات کو دیر تک جاگنا، رات کے وقت کی بھرپور نیند نہ لینا، نیند میں انتشار، ذہنی اور اعصابی پریشانی اور بعض خصوصی ادویات کا استعمال ہے ۔ڈاکٹر سعد الشریف نے کہا کہ اس کیلئے ضروری ہے کہ رت جگے سے پرہیز کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ نیند کے معمولات درست کیے جائیں، رات کے وقت معقول نیند کا اہتمام کیا جائے ، دن کے وقت اونگھ کا باعث بننے والے صحت کے مسائل کا مؤثر علاج کیا جائے
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-19/1794769


پنسلوانیا:
پوری زندگی ایک سر میں ایک چوٹ بھی لگ جائے تو خدشہ ہے کہ وہ بھول و نسیان کے عام مرض ڈیمنشیا کو بڑھاسکتی ہے۔

پینسلوانیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اکثر دماغی چوٹوں کے طویل اثرات کو خاطر میں نہیں لیا جاتا۔ تاہم اب عسکری اور دیگر طبی ڈیٹابس پر مبنی ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک دماغی چوٹ بھی ڈیمنشیا کو بڑھا سکتی ہیں اور اس میں سیاہ فام اور سفید فام کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

جامعہ میں دماغی علوم کی معاون پروفیسر اینڈریا ایل سی شنائیڈر کہتی ہیں کہ جتنی دماغی چوٹیں لگیں گی ڈیمنشیا کا خطرہ بھی اسی تناسب سے بڑھتا جائے گا تاہم اس کے اثرات بہت بعد میں نمودار ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جس سے ہم بچ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوٹ جتنی شدید ہوگی ، مرض کا خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے۔

گاڑی، موٹرسائیکل کے حادثات اور کھیلتے وقت گرنے سے ہم سب چوٹ کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ صرف امریکہ میں ہی دو کروڑ تیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں زندگی میں کم ازکم ایک دماغی چوٹ ضرور لگی ہے۔ تاہم اب اس ضمن میں ایک طویل سروے کیا گیا ہے۔

الزائیمر اینڈ ڈیمنشیا نامی جرنل کی تازہ اشاعت میں کہا گیا ہے کہ اگر زندگی میں سر پر ایک شدید چوٹ لگ جائے تو اس سے ڈیمنشیا کا خظرہ 1.25 گنا بڑھے گا۔ دو مرتبہ چوٹ پر امکان 9.5 فیصد تک جاپہنچے گا۔ اس سروے میں شامل افراد کی اوسط عمر 54 برس تھی۔ جن میں خواتین، مرد، سفید فام اور سیاہ فام افراد شامل تھے۔ مسلسل 25 سال تک ان تمام افراد کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے جن میں چھ مرتبہ ملاقات اور لاتعداد مرتبہ فون پر رابطہ تھا۔ ساتھ ہی ہسپتال کےریکارڈ سے ان کی دماغی چوٹوں کی شدت بھی معلوم کی گئیْ

تاہم تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خواتین اور سیاہ فام افراد میں دماغی چوٹ ڈیمنشیا کو زیادہ قریب کرسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2156313/9812/


فلوریڈا:
لیمور اگرچہ بوزنوں کی نسل سے ہوتے ہیں لیکن وہ پھلوں کی خوشبو سونگھنے میں غیر معمولی طور پر چالاک ہوتےہیں، اب تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ 50 فٹ کی دوری سے پھلوں کی خوشبو محسوس کرلیتے ہیں۔

فلوریڈا میں واقع لیمور فاؤنڈیشن نے ایک تجربے کے بعد بتایا کہ انہوں نے ایک ڈبے میں خربوزے چھپا کر رکھے تھے جسے لیمور نے ڈھونڈ نکالا لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوتا ہے جب پھل کی بو لے کر ہوا کا رخ ان کی طرف پہنچ رہا ہو۔

اس تجربے کی روحِ رواں، مالیکیولر پیتھوبائیلوجی کی پروفیسر ایلینا کننگھم کہتی ہیں کہ پہلی مرتبہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بوزنے (پرائمیٹس) بہت دور سے مخصوص بو سونگھ سکتے ہیں، اگرچہ یہ خاصیت کئی جانوروں میں پائی جاتی ہیں لیکن لیمور پر اس سے قبل تحقیق نہیں ہوئی تھی۔

پٹیوں والی دموں کے مالک لیمور گھنے جنگلات میں رہتے ہوئے کئی طرح کے پھل اور پتے کھاتے ہیں۔ گھنے جنگلات میں وہ دور تک نہیں دیکھ سکتے اور اسی بنا پر ان میں سونگھنے کی حس بیدار ہوئی ہے۔ اس کی مزید تصدیق کے لیے ایک دلچسپ تجربہ کیا گیا ہے۔

اس کے لیے گھنے جنگل میں لیمور کی راہ گزر پر 13 اور 56 فٹ کے فاصلے پر پکے ہوئے خربوزوں اور جعلی خربوزوں کے ڈبے رکھے گئے تھے لیکن انہیں چھپایا گیا تھا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جیسے ہی ہوا کے ساتھ خربوزوں کی خوشبو کا جھونکا آیا وہ اسی سمت پر روانہ ہوئے۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھے اور بو کی شدت کو محسوس کرنے لگے۔

ماہرین نے دیکھا کہ جس جگہ سے خربوزے لے جائے گئے تھے وہاں بھی جانور کچھ دیر مڑے، رکے اور پھر اصل بو کی جانب بڑھے۔ اس طرح ان میں سونگھنے کی حس بہت غیرمعمولی دیکھی گئی ہے۔ آخر کار وہ 56 فٹ دور رکھی خربوزوں کی پیٹی تک پہنچ گئے لیکن جعلی خربوزوں پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

یہ واقعہ یوں بھی حیران کن ہے کہ جنگل میں بہت سے بوئیں اور خوشبوئیں ہوتی ہیں اور اس کے باوجود لیمور بڑی آسانی سے خربوزوں تک جا پہنچے۔
https://www.express.pk/story/2155890/509/


نیویارک:
آج سے اربوں سال قبل برقی شراروں نے زمین پر فاسفورس کی مقدار بڑھائی تھی جس سے حیات کےلیے ابتدائی سامان پیدا ہوا تھا۔

ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کڑکتی ہوئی بجلی سے زمین پر زندگی کے لیے لازمی اجزا بکھیرے تھے اور اس کے بعد حیات پیچیدہ ہوتی چلی گئی تھی۔ یہ تحقیق ییل یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے طالبعلم بنجامن ہیس نے کی ہے جو ان کی پی ایچ ڈی مقالے کا مرکزی حصہ بھی ہے۔

بنجامن ہیس کہتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے فاسفورس ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن اربوں سال تک یہ زمین پر عام دستیاب نہ تھا اور زمین کی غیرحل پذیر معدنیات میں کہیں پھنسا ہوا تھا۔ اس تحقیق میں ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ آخر ایسا کب اور کیونکر ہوا جب زمین پر فاسفورس مفید اور قابلِ عمل بنا اور یوں اس نے زندگی کے بنیادی ترین اجز مثلاً ڈی این اے ، آر این اے اور دیگر حیاتی سالمات کی بنیادی اینٹ کا روپ دھارا۔

پہلے انہوں نے شرائبرسائٹ نامی مخصوص شہابی پتھروں پر غور کیا جس میں فاسفورس موجود ہوتی ہے۔ زمین پر یہ پتھر گرتے رہے ہیں اور ان کے تصادم سے عین ممکن تھا کہ زندگی ابتدائی حالت میں جاگ اٹھے۔ لیکن یہ نظریہ یوں فٹ نہیں بیٹھتا کہ کرہِ ارض پر ساڑھے تین سے ساڑھے چار ارب سال کے درمیان اولین زندگی یا اس کے بنیادی اجزا بنے لیکن اس عرصے میں شہابیوں کا تصادم بہت ہی کم ہوچکا تھا۔

لیکن انہی شرائبرسائٹ شہابیوں میں فاسفورس کا ایک اور مقام دریافت کیا جو ’فلگرائٹس‘ کہلاتے ہیں اور ایک قسم کا شیشہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ شیشے بھی اس وقت بنتے ہیں جب آسمانی بجلی کا زوردار عمل ہو تاہم ان میں فاسفورس حل پذیر (سولیوبل) صورت میں ہوتا ہے۔

اس کے بعد ایک کمپیوٹر ماڈل بنایا گیا تو معلوم ہوا کہ قدیم زمین پر سال میں ایک سے پانچ ارب مرتبہ زوردار بجلی کڑکتی تھی اور ان میں سے دس کروڑ سے ایک ارب مرتبہ بجلی زمین پر ضرور گری ہوگی۔ اس طرح شہابیوں میں پھنسی فاسفورس آزاد ہوکر اس قابل ہوئی کہ اولین حیاتیاتی کیمیکل بناسکے۔

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شاید بجلی کے شراروں نے فاسفورس کی راہ ہموار کی اور اس سے زندگی کی ابتدائی شکل کا ظہور ہوا تھا۔
https://www.express.pk/story/2156333/508/


نوجوانی میں موٹاپے کا شکار رہنے والوں کیلئے بری خبر، سائنسدانوں نے تشویشناک انکشاف کردیا
Mar 18, 2021 | 19:51

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) نوجوانی میں موٹاپے کا شکار رہنے والے لوگوں کو سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں انتہائی افسوسناک خبر سنا دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سین فرانسسکو کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جو مردوخواتین عمر کی 20اور 30کی دہائی میں موٹاپے کا شکار رہتے ہیں، ان کی دماغی صحت اس سے متاثر ہوتی ہے اور آئندہ زندگی میں جا کر انہیں یادداشت سے متعلق مسائل کا زیادہ سامنا کرناپڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 15ہزار لوگوں کے طبی ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور اسی موضوع پر ہونے والی کئی تحقیقات کے نتائج سے استفادہ کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اور ماہر نیورالوجسٹ کرسٹین یافی کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق کے نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نوجوانی میں موٹاپے کا شکار رہنے والے لوگ آئندہ زندگی میں جا کر بلڈپریشرکے عارضے اور دل کی بیماریوں کا بھی زیادہ شکار رہتے ہیں۔


اس تحقیق سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نوجوانی میں انسان کی صحت کا ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں اس کی ذہنی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ بڑھتی عمر میں دماغ کو مضبوط رکھنا اور ڈیمینشا جیسی بیماریوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں انہیں نوجوانی میں خود کو موٹاپے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔“
https://dailypakistan.com.pk/18-Mar-2021/1264953?fbclid=IwAR0B6g9DiMQWdWBkt2nV7xZ-6lGTnDdrSSj_Png80yIFUwEe9FNQmYLWfu8


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) گوگل کی طرف سے ’نیسٹ حب‘ کی نئی جنریشن متعارف کروا دی گئی ہے جس میں حیران کن طور پر لوگوں کی نیند کی نگرانی کرنے کے فیچرز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق گوگل ہیلتھ مارکیٹ میں بھی اپنے پاﺅں پھیلا رہی ہے اور نیسٹ حب میں ان نئے فیچرز کو شامل کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان فیچرز کے ذریعے گوگل لوگوں کی نیند کے پیٹرن اور دوران نیند سانس لینے کے طریقے کی نگرانی کرے گا اور انہیں مختلف نوعیت کی تحقیقات میں بروئے کار لایا جائے گا۔


رپورٹ کے مطابق نیسٹ حب کی نئی جنریشن میں ایسے سنسرز لگائے گئے ہیں جو دوران نیند آدمی کی حرکت اور سانس وغیرہ کی نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں 7انچ کی ایک سکرین شامل کی گئی ہے اور گوگل کا ’وائس اسسٹنٹ‘ بھی مہیا کیا گیا ہے۔ اس نئے نیسٹ حب کی قیمت 100ڈالر (تقریباً ساڑھے 15ہزار روپے) رکھی گئی 
https://dailypakistan.com.pk/17-Mar-2021/1264468?fbclid=IwAR3h_S-TREyruAuuAwtWNCgOqN7sRcU680APEOKCZWiYPIyWQqTHuwS3rzI


پیرس(مانیٹرنگ ڈیسک) ماحولیاتی آلودگی کئی حوالوں سے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے اور اب فرانسیسی ماہرین نے بچوں کے جنسی اعضاءکے لیے اس کے ایک ایسے نقصان کا انکشاف کر دیا ہے کہ ہر سننے والا پریشان رہ جائے۔پبلک ہیلتھ فرانس کے ماہرین نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے لڑکوں کے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہونے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے خصیے اپنی اصل جگہ پر نہیں ہوتے۔ماہرین نے بتایا ہے کہ 2002سے 2014ءکے دوران فرانس میں 89ہزار 382ایسے لڑکے پیدا ہوئے، جن کے خصیے پیدائش کے وقت خصیوں کی تھیلی میں موجود نہیں تھے۔


ماہرین کے مطابق مذکورہ عرصے میں اس عارضے میں مبتلا لڑکوں کی شرح میں 36فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عارضے کا نام ’Cryptorchidism‘ ہے جس میں مبتلا لڑکے کے خصیے پیدائشی طور پر اپنی اصل جگہ پر نہیں ہوتے تاہم ابتدائی سالوں میں ہی زیادہ تر لڑکوں میں یہ عارضہ خودبخود ٹھیک ہو جاتا ہے اور خصیے اپنی اصل جگہ پر آ جاتے ہیں تاہم یہ عارضہ طویل مدت کے لیے بھی انہیں لاحق رہ سکتا ہے ۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ جوایلی لی موئیل نے اس عارضے کی شرح میں تیزی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایسے علاقوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو زیادہ لاحق ہو رہا ہے جہاں دھاتی کام ہوتا ہے، کان کنی ہوتی ہے یا زرعی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں ان بچوں کے کلسٹرز پائے گئے ہیں۔ فرانس میں اس وقت 24ایسے کلسٹر موجود ہیں، جہاں اس عارضے کے شکار لڑکوں کی شرح پیدائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/17-Mar-2021/1264466?fbclid=IwAR36TrLKEflnqt9kHelSd89EqaKll7uIg5lBDgTvl0OGKY63HulcoyChSfo


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں مردوں اور مردانہ طاقت کے درمیان ایک ایسے دلچسپ تعلق کا انکشاف کر دیا ہے کہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق چین اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نفسیات نے اپنی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا ہے کہ جن مردوں میں مردانہ جنسی ہارمون ’ٹیسٹاسٹرون‘ کی مقدار زیادہ ہو، وہ زیادہ خودغرض ہوتے ہیں اور دوسروں کے فائدے کی بجائے اپنے فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے مردوں کو دو آپشنز میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔ ان میں سے ایک آپشن خودغرضی پر مبنی تھا جبکہ دوسرے آپشن میں دوسروں کا بھی فائدہ تھا۔ آپشن منتخب کرنے سے پہلے ماہرین نے جن مردوں کو ٹیسٹاسٹرون کے انجکشن لگائے تھے ان میں سے واضح اکثریت نے اس آپشن کو منتخب کیا جو خودغرضی پر مبنی تھا۔ اس آپشن کو منتخب کرتے ہوئے ماہرین آلات کے ذریعے ان مردوں کے دماغوں کی سرگرمی کا مشاہدہ کرتے رہے۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اورشن ژن یونیورسٹی کی پروفیسر جیان شن شوا نے بتایا کہ جن مردوں میں ٹیسٹاسٹرون کا لیول زیادہ تھا ان کے دماغ کا ’ٹیمپوروپیریٹل جنکشن‘ (Temporoparietal Junction)نامی حصہ کم متحرک ہوا۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو دوسروں کی فلاح سے متعلق سوچ اور افعال کو پراسیس کرتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-Mar-2021/1264120?fbclid=IwAR1Wcpgkgx_rC2RDa4H1QCx5nUX_7hfgpVkGuQ1nB3DV5m06S2nJaoMRe18


سینٹ پیٹرزبرگ:
روس کی آئی ٹی ایم او یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایسے لیبل ایجاد کرلیے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن انہیں ایک خاص اسکینر کی مدد سے دیکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔

آج کل ’’نقالوں سے ہوشیار‘‘ کرنے والے ہولوگرافک اسٹیکرز اور لیبلز بہت عام ہوچکے ہیں لیکن وہ سب کے سب دکھائی دیتے ہیں۔

لہٰذا کوئی بھی جعلساز انہیں دیکھ کر ان کی ہوبہو نقل تیار کرکے صارفین کو دھوکا دے کر اصل کمپنی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

’’نادیدہ‘‘ لیبل تیار کرنے کےلیے ماہرین نے سلیکان پر مشتمل انتہائی باریک فلم استعمال کی، جو بالکل شفاف ہوتی ہے۔

اگلے مرحلے پر اس فلم میں باریک باریک چھید کردیئے گئے جن میں سے چند سوراخوں کے اندر، ایک خاص ترتیب سے، اربیئم نامی ایک نایاب عنصر کے ذرّات بھر دیئے گئے جبکہ باقی سوراخ خالی رکھے گئے۔

اس طرح ایک غیر مرئی لیبل تیار ہوگیا۔

اس لیبل پر ایک مخصوص نظام سے منسلک اسکینر کے ذریعے لیزر ڈالی جاتی ہے جس سے ان سوراخوں میں موجود اربیئم کے ذرّات ایک منفرد رنگ سے روشن ہوجاتے ہیں۔

یوں ایک شناختی نمونہ (پیٹرن) بن جاتا ہے جس کے فوری اور خودکار موازنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا تعلق کس کمپنی سے ہے۔

لیبل چونکہ غیر مرئی ہوتا ہے اور صرف مخصوص لیزر ڈالنے پر ہی دکھائی دیتا ہے، لہذا جعلسازوں کےلیے بھی اس کی نقل تیار کرنا بہت مشکل ثابت ہوگا۔

اس ایجاد کی تفصیل آن لائن ریسرچ جرنل ’’ایڈوانسڈ مٹیریلز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2155851/509/


ٹوکیو:
گزشتہ 70 برس سے خلا میں جانے والے راکٹ، ناکارہ سیٹلائٹ اور دیگرخلائی حادثات سے اتنا خلائی کاٹھ کباڑ جمع ہوچکا ہے کہ وہ زمین کے گرد مسلسل مدار میں خطرناک انداز میں گردش کررہا ہے اور اب اسے تلف کرنے کے لیے جاپان نے ایک سیٹلائٹ بنایا ہے جو 20 مارچ کو خلا میں بھیجا جائے گا۔

ایسٹرواسکیل کمپنی کے سیٹلائٹ کا نام ’ اینڈ آف لائف سروسز(ایلسا ڈی)‘ رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مدار میں گردش کرتا ہوا کوڑا کرکٹ نہ صرف مزید خلائی مشن کے لیے ایک رکاوٹ بن چکا ہے بلکہ اس کی زد میں آنے والا خلائی اسٹیشن بھی کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ خلائی کچرے کے لاکھوں کروڑوں ٹکڑے مدار میں بہت تیزی سے سفر کرتے ہیں اور وہ باہر موجود خلانورد کو بھی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

حقیقت میں یہ سیٹلایٹ دو حصوں میں تقسیم ہے یعنی ایک چھوٹا سیٹلائٹ ہے اور ایک بڑا سیٹلائٹ جسے ’چیزر‘ کہا گیا ہے۔ چھوٹے سیٹلائٹ میں ایک مقناطیسی پلیٹ لگی ہے جس کے ذریعے وہ بڑے سیٹلائٹ سے الگ ہوسکتا ہے اور جڑ سکتا ہے۔ لیکن پہلے سیٹلائٹ جوڑے کو کئی ٹیسٹ سے گزارا جائے گا۔

پہلے مدار میں رہتے ہوئے چھوٹا سیٹلائٹ الگ ہوگا اور بڑا سیٹلائٹ اسے دوبارہ پکڑے گا۔ دوسرے ٹیسٹ میں بڑا سیٹلائٹ چھوٹے کو راہ سے دور ہٹائے گا اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے ہوئے اس کا پیچھا کرکے اسے دوبارہ جوڑے گا۔ ان دونوں کی کامیابی کی صورت میں اب چھوٹا سیٹلائٹ کئی سو میٹر دور جائے گا اور بڑا سیٹلائٹ اسے تلاش کرکے اس سے دوبارہ جڑے گا۔ یہ سارے ٹیسٹ خود کار انداز میں ہوں گے جس میں انسانی مداخلت نہ ہوگی۔

ایسٹرواسکیل کمپنی کے مطابق اس سے قبل ایسا خلائی تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔ تجربے کے خاتمے پر دونوں سیٹلائٹ زمین کا رخ کریں گے۔ خلا سے فضا میں پہنچیں گے اور اس کی رگڑ اور حدت سے جل کر راکھ ہوجائیں گے۔

اگلے مرحلے میں یہی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا جائے گا اور اپنے تجربات کی روشنی میں ناکارہ سیٹلائٹ یا خلائی کوڑے کے بڑے ٹکڑے کو چپکا کر بڑے سیٹلائٹ تک دھکیلے گا۔ اس طرح ایک وقت میں ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو مدار سے نکال کر زمین پر دھکیلا جائے گا۔ اگرچہ یہ محنت طلب اور صبرآزما کام ہے لیکن خلائی کچرے کو صاف کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔

پھر بعض ممالک خود چاہتے ہیں کہ ان کا ناکارہ یا مدت پوری کرنے والا سیٹلائٹ کسی طرح مدار بدر کردیا جائے۔ انہی ممالک کے اخراجات سے یہ کمپنی آگے کام کرے گی اور خلائی کچرے کو ٹھکانے لگائے گی۔
https://www.express.pk/story/2155883/508/


ڈرہم ، نارتھ کیرولینا:
طبی اور نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر دفاتر اور کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کو اسکول کے بچوں کی طرح ’آدھی چھٹی ‘ دی جائے تو اس سے ان کا تناؤ کم ہوتا ہے اور کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

ایک تحقیق میں انہیں ’مائیکروبریک‘ یا خرد وقفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی ہے کہ صبح کے وقت اٹھنے کے ساتھ جو کسل مندی اور سستی ہوتی ہے وہ پورے دن ملازموں کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ادارے اپنے ملازموں کو دن میں کسی بھی وقت مختصر چھٹی دیدیں تو اس سے بہت فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

مائیکروبریک کا مطلب یہ ہے کہ کام کے 8 گھنٹوں میں کسی بھی وقت رضاکارانہ طور پر ملازم کو کام سے الگ کرکے کچھ وقت بغیر کام کے گزارنے دیا جائے۔ اس میں ہلکا پھلکا کھانا، لوگوں سے بات کرنے کی اجازت، معمے حل کرنے یا موسیقی سننے جیسے امور شامل ہیں۔

نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی میں نفسیات کی ماہر صوفیہ چو کہتی ہیں کہ اگر وقت پر پانچ منٹ کا وقفہ بھی دیدیا جائے تو اس کے بہت فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ کسی بھی ادارے کے بہترین مفاد میں ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو دن میں ایک یا دومرتبہ کام سے ہٹا کر ان کے تفریحی کام کرنے دیں۔ اس سے ان کی توانائی اور صلاحیتیں پورا دن برقرار رہتی ہیں،‘ صوفیہ نے کہا۔

اس ضمن میں پہلے امریکہ میں 98 افراد کو شامل کیا گیا ۔ انہیں دس مسلسل دس روز تک دن میں روزانہ دو سوالنامے بھرنے کے لیے دئیے گئے۔ ایک سروے صبح میں کیا گیا اور دوسرا دن ختم ہونے کے بعد کیا گیا۔ دوسری تحقیق جنوبی کوریا میں کی گئی جس میں 222 افراد سے پانچ روز تک سروے کیا گیا۔ اس میں صبح، ظہرانے (لنچ) اور دن کے اختتام پر رائے مانگی گئی تھی۔

سوالنامے میں نیند کا دورانیہ اور معیار، تھکن کی کیفیت اور مختلف احساسات کے بارے میں پوچھا گیا۔ مسلسل پانچ اور دس روز تک اس کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ مسلسل کئی روز تک کام پر آنے والے والے افراد نے صبح دفتر آتے ہیں تھکاوٹ اور بے چینی کا اعتراف کیا۔ لیکن جب دوسری مرتبہ انہیں کام میں وقفہ دیا گیا تو انہوں نے کام کے معیار اور اپنی طبیعیت میں بہتری کا اعتراف کیا۔

ڈاکٹر صوفیہ کے مطابق کام کے دوران چھوٹے چھوٹے وقفے ملازموں کی توانائی بڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں اور انہیں اداروں میں رائج کیا جانا چاہیئے۔
https://www.express.pk/story/2155572/9812/


زیورخ:
سوئٹزرلینڈ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ زیادہ میٹھا کھانے والوں میں جگر کی چکنائی بھی دگنی ہوجاتی ہے جس سے مستقبل میں انہیں صحت کے کئی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

جگر عام حالات میں غذائی چکنائی کے علاوہ پروٹین اور کاربوہائیڈریٹس کو توڑنے کے علاوہ مختلف الاقسام چکنائیاں بناتا بھی ہے جن میں کولیسٹرول بھی شامل ہے۔

شکر کا زیادہ استعمال جگر کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے اور اس سے چکنائی کی پیداوار میں اضافہ کردیتا ہے۔

واضح رہے کہ عام شکر (سکروز) دو طرح کی شکریات یعنی ’’گلوکوز‘‘ اور فرکٹوز‘‘ پر مشتمل ہوتی ہے۔

ماضی میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوچکا ہے کہ فرکٹوز کی زیادتی سے جگر میں چکنائی کو توڑنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور، اس کے برعکس، وہ اپنے اندر چکنائی کا ذخیرہ کرنے لگتا ہے۔

یہی تحقیق آگے بڑھاتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں زیورخ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جگر پر فرکٹوز کے اثرات جاننے کےلیے مطالعہ کیا۔

اس مطالعے کےلیے 18 سے 30 سال کے 94 صحت مند لڑکے/ آدمی بھرتی کیے گئے جنہیں 4 گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔

ان میں سے تین گروپوں کو چند دن تک روزانہ فرکٹوز، گلوکوز اور سکروز کی تقریباً 80 گرام مقدار استعمال کرائی گئی جو مشروبات (بالعموم سافٹ ڈرنک) میں حل تھی۔ (کولا سافٹ ڈرنک کے دو ڈبوں میں 710 ملی لیٹر مشروب ہوتا ہے جبکہ شکر کی مقدار 80 گرام کے لگ بھگ ہوتی ہے۔)

چوتھے یعنی ’’کنٹرول گروپ‘‘ میں شکر کا محفوظ اور صحت مند استعمال جاری رکھا گیا۔

ہر گروپ میں شامل رضاکاروں کو پابند بنایا گیا کہ وہ پورے مطالعے کے دوران، 7 ہفتوں تک، روزانہ کم از کم 25 منٹ کی جسمانی مشقت/ ورزش کرتے رہیں۔

مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ روزانہ صرف 80 گرام اضافی شکر (بشمول فرکٹوز اور گلوکوز) استعمال کرنے والوں کے جگر میں چربی کی مقدار، محتاط انداز سے شکر لینے والوں کے مقابلے میں دگنی تھی؛ حالانکہ وہ روزانہ 25 منٹ یا زیادہ وقت تک جسمانی مشقت/ ورزش بھی کررہے تھے۔

نتائج کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ اگر غذا میں شکر کی مقدار کم کردی جائے تب بھی زیادہ شکر استعمال کرنے کے منفی اثرات لمبے عرصے تک برقرار رہتے ہیں۔

آن لائن تحقیقی مجلے ’’جرنل آف ہیپاٹولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں میٹھے کا شوق رکھنے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ شکر کے استعمال میں تھوڑا سا اضافہ بھی شدید اور دور رس اثرات کو جنم دیتا ہے جن سے چھٹکارا پانا مشکل ہوسکتا ہے۔

بتاتے چلیں کہ امریکن ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق مردوں کو روزانہ زیادہ سے زیادہ 37.5 گرام اضافی شکر استعمال کرنی چاہیے جبکہ خواتین کےلیے یہ مقدار 25 گرام یومیہ ہے۔
https://www.express.pk/story/2155833/9812/


زمانہ طالب علمی اور پھر ڈاکٹر بننے کے بعد اور ابھی تک ٹی بی کی بیماری اور اس کی ہلاکت خیزی ہم دیکھتے، محسوس کرتے آئے ہیں۔

ہم بار بار عزم کرتے ہیں کہ ٹی بی کا خاتمہ بھی ہوجائے، جیسا کہ چیچک کی بیماری کا خاتمہ ہوگیا ، پولیو میں کمی آگئی، لیکن ٹی بی ایسی بلا ہے جس کی مکمل بیخ کنی ابھی تک نہیں ہوسکی۔ ہر بار جب ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ٹی بی خاتمے کے قریب ہے، یہ بیماری نئی آب و تاب کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔

آئیے ذرا دیکھیں کہ ہم سب مل کر اس کے خاتمے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

ہر سال ٹی بی کا عالمی دن 24 مارچ کو منایا جاتا ہے تا کہ ٹی بی کے بارے میں آگہی کو فروغ دیا جائے اور ٹی بی سے معاشرتی، معاشی اور صحت پر پڑنے والے مسائل کا جائزہ لیا جائے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ٹی بی نہ صرف ایک قابلِ علاج مرض ہے بلکہ اِس سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔

ٹی بی کا عالمی دن منانے کا آغاز 1882 میں ہوا، جب رابرٹ کوکس(Robert Koch)نے اِس بیماری کے جرثومے (Mycobacterium tuberculosis) کو دریافت کیا، جس سے اِس بیماری کی تشخیص اور علاج کے راستے کھل گئے۔ اسی کے نام پر اس بیماری کا نام (Koch’s) ہے۔ ٹی بی کا شمار اب بھی مہلک بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ہر روز4000 افراد اس کی وجہ سے زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں اور تقریباً 28000 افراد اس کا شکار ہو تے ہیں۔ عالمی سطح پر اِس بیماری کے تدارک کی کوششوں کی وجہ سے 2000 ء سے اب تک 63 ملین جانیں بچائی جا چکی ہیں۔

وقت کا پہیہ رواں دواں: اِس سال 2021 کے ٹی بی کے عالمی دن کا مرکزی خیال “The Clock Is Ticking” ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ٹی بی کو ختم کرنے کےEnd TB Strategy کے ارادوں کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے عالمی سطح کے رہنماؤں کے پاس اب بہت کم وقت ہے۔ خاص طور پر حالیہ کووڈ 19 کی وبا کے پس منظر میں کہ جس نے ٹی بی ختم کرنے کے پروگرام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وقت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ العصر میں اللہ جل شانہ فرما رہے ہیں: زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے، مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔

یہ وقت ہے اپنے اردوں کی تکمیل کا اور یہ وقت ہے ٹی بی کو ختم کرنے کا۔

ٹی بی کے عالمی دن پر عالمی ادارہ صحت سب کو یاد دلا رہاہے کہ ٹی بی کو ختم کرنے میں سب اپنی کوششوں کو تیز کریں تا کہ ایس ڈی جی (Sustainable Development Goals)کے ہدف مکمل کرسکیں۔ پاکستان میں 2025 تک ٹی بی کی شرح میں 50 فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں ٹی بی کی صورت حال:پاکستان میں ہر سال تقریباً5 لاکھ افراد ٹی بی سے متاثر ہوتے ہیں، جس میں تقریباً ایک تہائی علاج کے لیے کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور ان کے ذریعے یہ مرض پھیلتا رہتا ہے۔ دنیا کے30 ممالک جہاں ٹی بی سب سے زیادہ ہے، ان میں پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔ آبادی کے حساب سے پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ اِس کے علاوہ 3800 ایچ آئی وی (HIV) پازیٹو بھی ٹی بی کا شکار ہیں۔

جو عوامل اِس میں کارفرما ہیں، ان میں غربت، غذائی کمی، جہالت، گنجان آبادی، غلط عقائد، ایچ آئی وی/ایڈز کے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد، تنگ و تاریک گھر وغیرہ شامل ہیں۔ معاشرے کے پس ماندہ طبقات، خواجہ سرا اور میل سیکس ورکرز کمیونٹی کا ٹی بی سے متاثر ہونے کا رجحان زیادہ ہے۔ ٹی بی5 سے 15 سال تک کے بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی تحقیق 2012 کے مطابق پوری دنیا میں74000 بچے ہر سال ٹی بی سے جان کھو بیٹھتے ہیں اور ہر سال نصف ملین ٹی بی کے نئے مریض بچے سامنے آتے ہیں۔

ٹی بی کے حوالے سے اہم اعدادو شمار:ٹی بی کی شرح(Incidence of tuberculosis) ہر ایک لاکھ افراد میں ایک سو اکیاسی ہوتی ہے، اور ان میں 50فیصدABFکا نتیجہ مثبت ہوتا ہے، یعنی ان کے تھوک میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔

سال2018 ء میںتین لاکھ69ہزار548 ٹی بی کے مریض تشخیص ہوئے، اِن میں22 فیصد فوری تشخیصی ٹیسٹ کے ذریعے، 20 فیصد میںایچ آئی وی(HIV) پازیٹو،80 فیصد میں پھیپھڑوں کی ٹی بی،48 فیصد میں ٹی بی کے جراثیم کا ثبوت،13فیصد بچے،42 فیصدخواتین اور 45 فیصدمرد ہیں۔

اموات: پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے پانچ لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں، جن میں تقریباً 70ہزار مریض موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ٹی بی کا مرض کیا ہے؟: ٹی بی (tuberculosis) کو عام طور پر تپ دق بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک قدیم اور متعدی مرض ہے، یعنی یہ ایک سے دوسرے کو لگنے والامرض ہے۔ یہ ایک جرثومہ مائیکو بیکٹیریم ٹیوبرکلوسس (mycobacterium tuberculosis) سے ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ ٹی بی پھیپھڑوں کی ٹی بی عام ہے۔ مگر یہ جسم کے کسی بھی حصے یا عضو میں ہو سکتی ہے، جیسے ہڈیوں کی ٹی بی، دماغ کی ٹی بی، گردوں یا آنتوں کی ٹی بی یا عورتوں میں بچہ دانی کی ٹی بی وغیرہ۔

یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے؟:یہ ایک متعدی مرض ہے اور مریض کے کھانسنے اور چھینکنے سے ٹی بی کے جراثیم ہوا کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ بچے عام طور پر مرض پھیلانے کا سبب نہیں بنتے۔

ٹی بی کی تشخیص کے لیے کیا کرنا چاہیے؟:یاد رکھیے! کوئی بھی پرانی (دو ہفتے سے زیادہ)کھانسی یا بلاوجہ کمزوری اور وزن کا گھٹنا اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ ٹی بی کی تشخیص کے ٹیسٹ کروائے جائیں۔ اس کے علاوہ کھانسی میں بلغم کا آنا اور بلغم میں خون کا آنا، روزانہ رات کے وقت بخار کا ہونا، بھوک کا نہ لگنا، گلے کی سوجن یا غدود کا بڑھنا یہ سب علامات ایسی ہیں کہ انسان کو خبردار ہوجانا چاہیے اور کسی اچھے معالج سے رجوع کرنا چاہیے تا کہ ٹیسٹ کے ذریعے اس کی تصدیق ہو سکے۔

ٹی بی کی تشخیص لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ درج ذیل ٹیسٹ عام طور پر کروائے جاتے ہیں:

(1) خون کا ٹیسٹ ۔(2)اسکن ٹیسٹ (Mantoux skin test)۔ (3)سینے کا ایکسرے۔ (4)دوسرے ٹیسٹ بمطابق دوسرے اعضا کی ٹی بی۔

بچوں میں ٹی بی کی تشخیص ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس سے بچوں میں ٹی بی یا تو تشخیص نہیں ہوپاتی یا ضرور ت سے زیادہ تشخیص ہو جاتی ہے، اسے آسان بنانے کے لیے پاکستان پیڈیا ٹرک ایسوسی ایشن(PPA)نے اسکورنگ سسٹم بنایا ہے۔

ٹی بی سے متعلق اہم ہدایات:

٭ٹی بی کا مرض100 فیصد قابل علاج ہے۔٭علامات کی صورت میں فوری طور پر اچھے معالج سے رجوع کریں۔٭حکومت کی طرف سے مفت تشخیص اور علاج کی سہولت موجود ہے۔

٭اپنے قریبی مرکز صحت سے رجوع کریں۔٭گھبرانے کی ضرورت نہیں، عالمی ادارہ صحت کا بنایا ہوا طریقہ علاج (DOTS) موجود ہے، جس میں کسی ذمہ دار فرد (معاون علاج)کی زیرنگرانی 6ماہ تک مسلسل بلاناغہ ٹی بی کی فراہم کردہ مفت ادویات استعمال کی جائیں۔ یہ ذمہ دار فرد، گھر کا کوئی فرد، محلے کا کوئی رضاکار یا کوئی ہیلتھ ورکر بھی ہوسکتا ہے۔

٭ملک بھر میں 5000سے زائد سرکاری مراکز صحت اور پرائیوٹ کلینک/ ہسپتال پر ٹی بی کی دوائیں مفت دستیاب ہیں۔٭ٹی بی کے علاج کی مدت بڑھ بھی سکتی ہے، اس کا انحصار اس پر ہے کہ بیماری کی نوعیت کیا ہے اور کس عضو کی ٹی بی ہے۔

٭نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام نے ٹی بی کی مفت تشخیص اور علاج کو یقینی بنانے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال، دیہی مرکز صحت اور بنیادی مرکزی صحت میں ٹی بی کے مراکز رکھے ہیں۔

٭ٹی بی کا علاج ادھورا نہ چھوڑا جائے، ورنہ نہ صرف مرض کی پیچیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے بلکہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ دواوں کا اثر ختم ہو جائے اور عام ٹی بی ، ایم ڈی آر ٹی بی (Multidrug-resistant TB) میں بدل جائے۔

٭ٹی بی کے علاج کے دوران میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے۔٭ٹی بی کے مریض کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھیں۔ اس کا حوصلہ بڑھاتے رہیں اور اس کے ساتھ خراب رویہ نہ رکھیں۔

ٹی بی کا مکمل خاتمہ کیسے؟:ٹی بی کے مکمل خاتمے کے لیے ہم سب کو میدان میں اترنا پڑے گا۔اس کے لیے درج ذیل نکات بہت اہم ہیں:

٭عوام میں ٹی بی کا شعور بیدار کریں۔ ٭ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ منفی رویوں کو دور کریں۔ ٭ٹی بی کی علامات، تشخیص اور علاج کے بارے میں عوامی آگہی پیدا کریں۔

٭ٹی بی کے مریض کھانستے، چھینکتے وقت منہ پر رومال رکھ لیں۔ زیادہ سے زیادہ ماسک کا استعمال کریں، جب لوگوں کے ساتھ ہوں۔ ٭جگہ جگہ تھوکنے سے گریز کریں۔٭ٹی بی کا علاج مکمل کریں، ادھورا نہ چھوڑیں۔٭بچوں کو ٹی بی سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ (BCG) لگوانا نہ بھولیں۔ ٭جسم میں بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھائیں۔ ابلا ہوا پانی اور صاف و صحت بخش غذا کا استعمال کریں۔ بازار کی گندی چیزیں کھانے سے پرہیز کریں۔
https://www.express.pk/story/2155933/9812/


آرتھرائٹس کی کئی اقسام ہیں مگر ریوماٹائیڈ آرتھرائٹس واحد قسم ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کی خرابی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔


اس قسم کے امراض میں ہمارا اپنا مدافعتی نظام اپنے ہی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے اور جب اپنا نظام اپنے جسم کو نقصان پہنچانے لگے تو اس کو آٹو امیون کہتے ہیں۔ ان امراض میں مدافعتی نظام اپنے ہی حصوں، خلیوں اور دیگر چیزوں کو بیرونی جراثیم سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔

ریوماٹائیڈ آرتھرائٹس بھی ایک آٹو امیون بیماری ہے۔ جس میں ہمارا مدافعتی نظام ہی ہاتھوں کی انگلیوں، کلائی اور گھٹنوں اور دیگر جوڑوں کو نقصان پہچانے لگتا ہے جس سے ان میں انفیکشن کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو درد، اکڑاہٹ اور سوزش کا باعث بنتا ہے۔ بعض بیماریاں وقت کے ساتھ جنم لیتی ہیں اور اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہیں کہ ان کا علاج بھی ممکن نہیں رہتا یا بہت مشکل ہوتا ہے۔

گھٹنوں اور جوڑوں کا مرض بھی اسی قسم کی بیماری ہے جو آج کل بہت عام ہوگئی ہے۔ ہزاروں مریض دن اور رات اس کی اذیت سے گزر رہے ہیں ۔ موسم کی تبدیلی کے اثرات ان پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ خاص طور پر سردیوں کا موسم ایسے افراد کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔

مردوں کی نسبت خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں اور بعض خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد جوڑوں اور گھٹنوں کے درد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی جسم میں موجود جوڑ، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور زندگی کے تمام کام انجام دینے کے لیے بہت ضروری ہیں۔اگر ان میں کمزوری آجائے یا وہ کام کرنا چھوڑ دیں تو زندگی دوسروں کی محتاج ہو کر رہ جاتی ہے۔

گھٹنوں اور جوڑوں کے امراض کی کیا علامات اور وجوہات ہیں ، اس کے بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے اور ایسی صورت میں مریض کو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیں۔ یہ جاننا بھی بہت ہی ضروری ہے تاکہ ان کو اپنا کر تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکے۔

گھٹنوں اور جوڑوں کے درد کی وجوہات

ماہرین کے مطابق اس بیماری کی کوئی خاص وجہ اب تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ بعض ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے سائنس دان انھیں اس بیماری کا موجب قرار دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1۔ یہ مرض اگر ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی یا خاندان کے قریبی رشتے داروں میں موجود ہو تو امکان بہت بڑھ جاتے ہیں۔2۔ جسم میں کیلشیم کی کمی، نیند نہ آنا اور جسمانی کمزوری بھی اس کی ایک وجہ ہے۔3۔ جسم میں قوت مدافعت کا کم یا ختم ہونا، گھٹنوں اور جوڑوں کے درد کی بڑی وجہ تصور کی جاتی ہے۔4۔ جوڑوں کی بیماری کو گٹھیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں جسم میں اپنے ہی جسم کے خلاف کام کرنے والے خلیے پائے جاتے ہیں اس بیماری میں ہڈیوں کے اندر موجود جھلی متاثر ہوتی ہے جسے میڈیکل کی زبان میں (Synoium) کہتے ہیں۔5۔ یورک ایسڈ کا بڑھنا:جسم میں یورک ایسڈ کا بڑھنا جوڑوں اور گھٹنوں کے درد کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔6۔ جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بھی ان بیماریوں کی بڑی وجہ ہے۔

7۔ نشہ آور ادویات اور کثرت شراب نوشی بھی جسم کی ہڈیوں کو متاثر کرتی ہیں جس میں گھٹنوں اور جوڑوں کا درد قابل ذکر ہے۔ 8۔ خون میں کیلشیم اور پوٹاشیم کی بڑھتی ہوئی مقدار بھی اس بیماری کو جنم دیتی ہے۔9۔نمونیہ: موٹاپا اور قبض بھی گھٹنوں اور جوڑوں کے درد کا ایک سبب ہیں۔10۔ ناقص غذا کا استعمال: جس طرح آج کل کیمیکل وغیرہ ڈال کر سبزیوں کو اُگایا جاتا ہے اور وقت سے پہلے انڈے سے چوزے نکلنا اور پھر مختلف کیمیکل کھلا کر چوزے کو مرغی بنا دینا۔ پھلوں کو جلدی پکانا یہ سب چیزیں بھی انسانی جسم اور اس کے جوڑوں پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔11۔ رہن سہن:اب انسانوں نے زیادہ پیدل چلنا، ورزش کرنا چھوڑ دیا۔ جس سے موٹاپا بڑھ رہا ہے اور اسی کی وجہ سے بھی جوڑوں اور گھٹنوں کا درد پیدا ہو رہا ہے۔

گھٹنوںاور جوڑوں کے درد کی علامات

1۔جسم کی کمزوری، ٭۔ بار بار تھکاوٹ کا احساس۔ ٭۔ سانس کا پھولنا۔

2۔بخار کا ہلکا ہلکا مستقل رہنا اور خاص طور پر ٹانسلز کا بڑھنا اور ان میں سوجن کا ہونا۔3۔بچے کی پیدائش کے بعد خوراک میں بے احتیاطی کرنا جو عام طور پر خواتین کرتی ہیں۔4۔ پیشاب کا بار بار آنا ، رک رک کر آنا ، پیشاب میں سوزش یا جلن کا ہونا۔5۔ نزلے کا مستقل رہنا اور حلق میں گرنا۔6۔چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف۔7۔ذیابیطس(شوگر) کا ہونا8۔ زیادتی عمر، دراصل عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیاں بھی کمزور ہونے لگتی ہیں جس کا باعث جوڑوں کا درد لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتا ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر گھٹنوں پر ہوتا ہے۔

احتیاط اور علاج

1۔ روزمرہ کی خوراک میں چاول کا زیادہ استعمال نہ کریں۔2۔باہر کے کھانے سے احتیاط کریں۔3۔فاسٹ فوڈ کا استعمال کم کریں کیوں کہ بہ ظاہر تو فاسٹ فوڈ صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا زیادہ استعمال بیماری کا سبب بنتا ہے۔4۔خوراک میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو لیس دار ہوں۔ جیسے ماش کی دال، بھنڈی، اروی اور پائے وغیرہ۔5۔پانی میں زیادہ وقت نہ گزاریں، خاص طور پر خواتین جو برتن اور کپڑے دھونے میں زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں۔6۔ موسم سرما میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے گھٹنوں اور جوڑوں پر گرم پٹی یا کوئی گرم کپڑا باندھ کر رکھیں۔7۔ بادی چیزوں سے پرہیز کریں۔ جوڑوں پر مالش کرنے کی عادت ڈالیں۔8۔ ورزش کو معمول بنائیں لیکن اگر ورزش کرنے سے تکلیف بڑھنے لگے تو اپنے ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں۔9۔ ایسی غذائیں کھانے سے پرہیز کریں جو جسم میں یورک ایسڈ کے بڑھنے کا سبب بنتی ہوں۔

گھٹنوں کے درد سے نجات پانے کے گھریلو ٹوٹکے

1۔سکائی۔ ہڈیوں کا درد دور کرنے کا سب سے پرانا اور آزمودہ طریقہ درد والی جگہ کی سکائی کرنا ہے۔ کسی ٹھنڈی چیز جیسے برف سے۔ گھٹنوں کی سکائی کرنے سے اسی جگہ نسوں میں خون کی روانی کم ہو جاتی ہے جس سے سوجن کم ہو جاتی ہے اور درد بھی کم ہو جاتا ہے۔ایک مٹھی برف کی کیوب لے کر اس کو پتلے تولیے میں لپیٹ لیں اور اس سے سکائی کریں۔ درد والی جگہ 10 سے 20 منٹ سکائی کریں، اس عمل کو دن میں 2 سے 3 مرتبہ دہرائیں۔2۔ سرکہ : دو کپ پانی میں دو چھوٹے چمچ سرکہ شامل کرکے اس کو دن بھر میں تھوڑا تھوڑا کرکے پئیں۔3۔ پانی کے ٹب میں گرم پانی ڈال کر اس میں ایک یا دو کپ سرکے کے شامل کریں اس میں 30 منٹ تک گھٹنوں کو بھگو کر رکھیں۔

4۔ زیتون کے تیل کو سرکہ کے ساتھ ہم وزن ملا کر اس سے گھٹنوں پر مساج کریں۔5۔ ادرک: ادرک کا ایک چھوٹا ٹکڑا لے کر اسے ایک کپ پانی میں 10 منٹ کے لیے ابال لیں۔ اسی چائے کو چھان کر اس میں تھوڑا سا شہد اور لیموں کے چند قطرے ڈال کر اس چائے کو دن میں 2 سے 3 مرتبہ پئیں نیز ادرک کے تیل سے گھٹنوں کی مالش کریں۔6۔ ہلدی: ایک چھوٹا چمچہ پسی ہوئی ادرک اور ایک چھوٹا چمچہ ہلدی ایک کپ پانی میں ڈال کر 10 منٹ کے لیے ابالیں اور چھان کر تھوڑا سا شہد شامل کریں۔ اس سیال کو دن میں 2 بار استعمال کریں۔7۔ لیموں: ایک سے دو لیموں لے کر انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں پھر ململ کے کپڑے میں باندھ دیں اس پوٹلی کو تل کے گرم تیل میں تھوڑی دیر کے لیے بھگو دیں، پھر گھٹنوں پر رکھ کر 10 سے 15 منٹ کے لیے چھوڑ دیں۔ روزانہ صبح گرم پانی میں لیموں کا عرق ڈال کر نہار منھ پئیں۔

جوڑوں کے درد کا ہومیوپیتھک علاج

1۔رسٹاکس(RTUS-Tox): درد کی وجہ سے بے چینی اور ہلتے جلتے رہنے کی خواہش، مریض آرام سے نہیں لیٹ سکتا۔ پسینے کی حالت میں جب کہ جسم گرم ہو۔ سرد اور مرطوب ہوا لگ جانے سے جوڑوں کا درد شروع ہو جانا۔ پہلی حرکت ضرور تکلیف دیتی ہے۔ مگر بعدازاں چلنے پھرنے سے اور حرکت سے سکون ملتا ہے گرمی سے آرام سردی سے تکلیف کا بڑھنا۔2۔ برائی اوینا (BRYONIA): جوڑ سوجے ہوئے اور سرخ۔ حرکت سے تکلیف کا بڑھنا اول نمبر کی علامت ہے چپ چاپ پڑے رہنے سے سکون۔ 3۔ کاسٹیکم۔Causticum: سرد خشک ہوا لگنے سے جوڑوں میں درد اعضا کھنچ کر بدوضع ہوجاتے ہیں۔ گرمی سے آرام۔4۔ لیڈم پال ۔ (LEDUM): یہ چھوٹے چھوٹے جوڑوں کی خصوصی دوا ہے۔

دردہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب چلتا ہے۔ بستر کی گرمی سے درد میں شدت آجاتی ہے۔5۔پلسٹیلا۔PULSATILA: چلتا پھرتا درد خاص طور پر پلسٹیلا کو طلب کرتا ہے۔ گرمی سے تکلیف کا بڑھنا، سردی سے آرام اور شام کو علامات کی زیادتی پلسٹیلا کی تصدیق کرنے والی علامت ہے۔6۔کالچیکم۔ COLCHICUM: کھانے کی بُو تک سے شدید نفرت، کھانے کے خیال سے بھی متلی اور قے اس دوا میں جوڑوں کے درد کے ساتھ انتہائی کمزوری اور شام کو تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔

تمام دوائیں ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق استعمال کریں۔
https://www.express.pk/story/2155959/9812/


اگرچہ حالیہ برسوں میں سائنس کی دنیا میں بہت ترقی ہوئی ہے لیکن ابھی تک ہمارے لیے ہمارا دماغ ایک پراسرار اور پیچیدہ عضو ہے، جس میں پوشیدہ رازوں کو ابھی افشا ہونا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی دماغ کے بارے میں جتنا جانتے ہیں، اس کا سہرا فاکندو مینز جیسے ماہرین کے سر جاتا ہے، جن کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو دماغ کے بارے میں بہت علم رکھتے ہیں۔


ارجنٹائن میں پیدا ہونے والے فاکندو مینز نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے علومِ سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جو کہ سائنس کی دنیا میں اعلیٰ ترین تحقیق کرنے والے شخص کو عطا کی جاتی ہے۔فاکندو مینز بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور کئی ایسے ٹی وی پروگراموں میں شرکت کر چکے ہیں جن میں عام لوگوں کو دماغی یا نیورو سائنس کے شعبے میں جدید ترین تحقیق سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب کا نام ’ مستقبل کا دماغ‘ ہے ۔

اس کتاب میں دماغ پر جدید ٹیکنالوجی کے اثرات، نیورو ایتھِکس (مطالعہ دماغ کی اخلاقیات) اور معاشرتی مسائل کے حل میں سائنس کے کردار کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ایک آن لائن کانفرنس کے دوران فاکندو مینز سے گفتگو کا موقع ملا تو ہم نے ان کے سامنے چند سوالات رکھے۔

دماغ میں ایسی خاص بات کیا ہے؟

کئی دیگر خصوصیات کے علاوہ، جو چیز دماغ کو ایک حیران کن عضو بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہمارے جسم کا وہ واحد عضو ہے جو اپنی وضاحت خود کرتا ہے۔ ہم سانس لینے سے لے کر یہ انٹرویو پڑھنے یا کسی فلسسفیانہ سوال کا جواب تلاش کرنے تک جو بھی عمل کرتے ہیں، ان سب کے پیچھے ہمارا دماغ ہی کارفرما ہوتا ہے۔ دماغ ہماری کائنات کی سب سے پیچیدہ اور حیران کن چیز ہے۔ اور ہمارے دماغ میں پائے جانے والے خلیوں یا نیورونز کی تعداد کہکشاں میں موجود ستاروں سے بھی زیادہ ہے۔

دماغ کے بارے میں ہم جانتے کتنا ہیں؟

دماغ کے بارے میں ہمارے علم میں جس قدر اضافہ گزشتہ چند عشروں میں ہوا ہے اتنا پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ہم نے دِکھایا ہے کہ یہ عمومی تصور غلط ہے کہ ہمارے دماغ میں پائی جانے والی یادیں کسی ایک ڈبے میں پڑی ہوتی ہیں، بلکہ ہماری یاد اصل میں وہ آخری چیز ہوتی ہے جو ہمیں یاد رہ جاتی ہے۔ اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں نیورون ساری زندگی پیدا ہوتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جب ہم بالغ ہو جاتے ہیں تب بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ اب ہم اپنے اندر پائے جانے والے ہمدردی کے جذبات کو بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور یہ بھی سمجھنے لگ گئے ہیں کہ دماغ اور زبان کے درمیان کیا تعلق ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے جذبات میں دماغ کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ ہمارے ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے میں دماغی خلیوں یا نیورونز کے سرکٹ کیسے کام کرتے ہیں۔

گزشتہ برسوں میں ہم نے نفسیاتی اور دماغ کے امراض کی جلد تشخیص میں بھی بہت ترقی کر لی ہے اور ہمارے اس علم میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ ہم کوئی چیز سیکھتے کیسے ہیں۔ دماغ کے بارے میں ہمارے علم سے نہ صرف ہم افراد کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں بلکہ اس سے معاشرے کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔

دماغ کے بارے میں مزید دریافت کیا ہوگی اور ہمیں اس کا کب پتہ چلے گا؟

ہم نے یہ تو سمجھ لیا ہے کہ دماغ میں کوئی خاص عمل کیسے ہوتا ہے، لیکن ابھی تک ہمارے پاس ایسا کوئی سائنسی نظریہ یا تھیوری نہیں ہے جو یہ بتا سکے کے دماغ روز مرہ یا عموماً کیسے کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نیا علم نئے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ یہ سوال ہم خود اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا ہم کبھی دماغ کی پہیلیوں کو پوری طرح سمجھ پائیں گے۔

کیا دماغ ایک مکمل مشین ہے؟

میں دماغ کے حوالے سے بہترین مشین جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتا، میں اس کی پیچیدگی اور اس چیز کی بات کرتا ہوں کہ دماغ میں کیا کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ زندگی بھر ہمارا دماغ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ اصل میں ایک لچکدار عضو ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے دماغ کے اعصابی نظام میں اس صلاحیت کو وہ نئی تبدیلیوں کے مطابق خود ڈھال لیتا ہے۔ اس صلاحیت کو نیرو پلاسٹی سِٹی کہا جاتا ہے۔ اس صلاحیت کے طفیل ارد گرد کے ماحول میں تبدیلیوں کے جواب میں ہمارے دماغ کے خلیے یا نیورونز نہ صرف آپس میں نئے کنکشن یا ربط بنا لیتے ہیں بلکہ نیورونز نئے انداز سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں ہمارے تجربات ہمارے دماغ کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہی وہ بڑی صلاحیت ہے جس کی بدولت وقت گزرنے کے ساتھ بطور انسان ہم میں ارتقا ہوتا رہا ہے اور انسان خود کو ارد گرد کے ماحول کے مطابق تبدیل کرتا رہا ہے۔

آپ کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ’مستقبل کا دماغ’ ہے، آنے والے کل میں دماغ کیسا ہو گا؟

اپنی ساخت کے اعتبار سے دماغ آئندہ کئی صدیوں تک تبدیل نہیں ہوگا۔ تاہم، جس قسم کی نئی ٹیکنالوجی سامنے آ رہی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید مستقبل میں ہمارے دماغ پر جینیاتی ردوبدل یا جینیٹک انجنیئرنگ کے اثرات زیادہ ہو جائیں گے اور بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے امکانات سے ہماری دماغی صلاحیتیں بھی وسیع ہو جائیں گی۔ آج ہم مصنوعی انتتخاب یا آرٹیفشل سلیکشن کے ذریعے اپنے جینز میں ردوبدل کر سکتے ہیں اور یوں اپنی جسمانی یا بائیولوجیکل خصوصیات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہم مصنوعی ریشے یا ٹِشوز بھی بنا سکتے ہیں، جیسے پلاسٹک سے جلد بنانا اور آنکھ کے مصنوعی پردے یا ریٹینا بنانا۔

اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہم آئندہ چند صدیوں میں ایسے نِیورل ٹِشوز بھی بنانے لگیں جو ہمارے دماغ میں موجود ہوتے ہیں یا قدرتی طور پر پائے جانے والے دماغی ریشوں کو مرمت کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اس سے ڈیمنشیا اور اس جیسے دیگر دماغی امراض کا علاج دریافت کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد ہم اپنا دماغ استعمال کرنا چھوڑ دیں گے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

نہیں، بالکل نہیں۔ کوئی بھی مشین ہمارے دماغ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ہمارا دماغ ڈیٹا پروسیسر سے بڑی چیز ہے۔ آپ تصور کریں کے ہمارا سوشل برین یا معاشرتی دماغ کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ ہمارا دماغ یہ کیسے سمجھ جاتا ہے کہ دوسرے انسان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، یوں ہم دوسرے انسان کا درد سمجھ جاتے ہیں اور ہمارا دماغ دوسرے شخص کے درد کے ردعمل میں کیا کرتا ہے۔ ہمدردی، ایثار اور تعاون ایسی صلاحیتیں ہیں جو کسی مشین میں نہیں ہو سکتیں، اور یہی صلاحیتیں انسانی زندگی کی بنیاد ہیں۔ ہمیں یہ بالکل نہیں بھُولنا چاہیے کہ ہم بنیادی طور پر ایک معاشرتی مخلوق ہیں۔

انسانی دماغ کے ارتقا میں لاکھوں سال لگے ہیں۔ کیا ہم مصنوعی ذہانت یا کسی دوسری جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ارتقا کے اس سفر کو پلٹ سکتے ہیں؟

بالکل، ہمارا دماغ صدیوں میں ہونے والے ارتقا کی پیداوار ہے کیونکہ دماغ کی سطح پر تبدیلی ہزار ہا سال میں آتی ہے۔ اگر ہم اپنی ارتقاعی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ دو لاکھ برسوں میں ہمارے دماغ کے خدوخال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس لیے یہ سوچنا مشکل ہو گا کہ اگلی چند صدیوں میں دماغ کی ساخت میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ اور نہ ہی ارتقا کا عمل الٹا چلنا شروع کر دے گا کیونکہ کوئی چیز یاد رکھنے یا چھوٹا موٹا حساب کرنے کے لیے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ کام کرتا ہے جبکہ دیگر کاموں کے لیے ہمیں زیادہ دماغ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں پھر بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کر کے اپنے دماغ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر دماغ پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں تو اس سے ہماری صحت اور دماغ دونوں متاثر ہوتے ہیں۔

ہم کیا ہیں، دماغ یا جذبات کا مجموعہ؟

یہ بہت اچھا سوال ہے۔ ہم دماغ اور جذبات دونوں ہیں کیونکہ یہ مختلف چیزیں نہیں۔ ہمارے دماغ میں جذبات کا بھی ایک مقام ہے اور یہی جذبات ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبات ہماری یادوں پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان چیزوں کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں جن کے اثرات ہم پر گہرے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہر شخص کو یاد ہے کہ وہ 11 ستمبر 2001 کے دن اس وقت کیا کر رہا تھا جب نیویارک میں ٹِون ٹاورز (ورلڈ ٹریڈ سینٹر) پر حملہ ہوا تھا، لیکن کسی شخص کو یہ یاد نہیں کہ وہ گیارہ ستمبر سے ایک دن پہلے کیا کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ جذبات ہمارے فیصلہ کرنے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے اندر دو قسم کے نظام موجود ہوتے ہیں۔ ایک نظام وہ جو خود بخود کام کرتا ہے اور تیز کام کرتا ہے۔ یہ نظام ہمارے ارتقا کی دین ہے۔ اور دوسرا نظام وہ ہے جو آہستہ اور عقلی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ فیصلہ سازی میں ہماری رہنمائی جذبات ہی کرتے ہیں، اور عقل عموماً وہ وضاحت ہوتی ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے مذکورہ فیصلہ کیوں کیا۔

ہمارے دماغ پر کورونا وائرس کی وبا کیسے اثرانداز ہو رہی ہے؟

یہ وبا ہمارے دماغ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہم پر دباؤ بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ہمارے معمولات مکمل طور پر درہم برہم ہو چکے ہیں، ہم خوفزدہ ہیں اور اپنے پیاروں سے دور ہو گئے ہیں۔ وبا کے دنوں میں وہ کام نہ کر سکنا جس کے ہم عادی ہیں، اور وہ کام کرنا جس کے ہم عادی نہیں ہیں، اس کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال کے نتیجے میں معاشی بے چینی پیدا ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہم شدید معاشرتی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اور اس سے نفسیاتی امراض کا خطرہ بڑہ گیا ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ اگر آپ بہت عرصے کے لیے دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہیں تو اس سے آپ پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس یا کسی حادثے کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جذباتی طور پر تھک جاتے ہیں، آپ پریشانی، نیند کی کمی، بے چینی، اکتاہٹ اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ چیز بہت اہم ہے کہ ہم صحت مندانہ سرگرمیاں جاری رکھیں مثلاً رات کو اچھی نیند سونا، صحت افزا خوراک کھانا اور تمباکو، شراب اور منشیات سے پرہیز کرنا۔

جہاں تک ممکن ہو ہمیں ایک معمول پر عمل کرنا چاہیے، وقت پر سوئیں، جاگیں، کام کریں، پڑھائی کریں اور ورزش بھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رشتوں کو مضبوط بنائیں کیونکہ یہی وہ رشتے ہیں جو ہمیں ایک معمول کا احساس دلاتے ہیں اور ہمیں دوسروں کو یہ بتانے میں مدد کرتے ہیں کہ ہم کیسا محسوس کر رہے ہیں۔

ان دنوں کئی ممالک میں ایک دوسرے سے بالمشافہ ملنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہیے کہ خود پر رحم کریں۔ کئی ماہ سے جاری اس وبا کہ بعد ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری کارکردگی، توجہ اور توانائی ویسی ہی ہونی چاہیے جیسی وبا سے پہلے تھی۔ ( بشکریہ بی بی سی )
https://www.express.pk/story/2150369/508/


سویڈن:
ہماری انگلیوں پر نشانات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چیزوں پر گرفت کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ارتقائی عمل کے تحت ایسا ہی ہوا ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ انہی میں ان اعصاب کے سرے ہوتے ہیں جو ہمارے لمس کو اتنا حساس بناتے ہیں کہ ہم معمولی گرمی، ٹھنڈک، نرمی اور سختی محسوس کرلیتے ہیں۔

سویڈن کی اومیا یونیورسٹی کی سائنسداں ڈاکٹر اویا جیروکا کہتی ہیں کہ فنگرپرنٹ ہمیں ہروہ معلومات کی تفصیل دیتے ہیں جو چھونے کے عمل سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جیروکا نے بتایا کہ اس سے قبل عام تاثر یہی تھا کہ نشاناتِ انگشت کسی شے کو تھامنے کے لیے ارتقائی عمل سے پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً اس کے ابھار اور ڈیزائن ہماری انگلیوں سے قلم پھسلنے سے روکتے ہیں۔ لیکن دیگر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ یہ چھونے کے احساس کو مزید بہتر اور مؤثر بناتے ہیں۔

جیروکا کہتی ہیں کہ بعض افراد کی انگلیوں کے پوروں میں اعلیٰ درجے کی حساسیت ہوتی ہے اور ان پر کئی تجربات کے باوجود بھی کوئی واضح جواب نہیں مل سکا ہے۔ اسی فکر کے تحت انہوں نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔

سوانہوں نے 20 سے 30 سال کی چھ خواتین اور چھ مردوں کو پر ایک تجربہ کیا۔ ان سب کو باری باری دندان ساز کی مخصوص کرسی پر بٹھایا۔ ان کے ہاتھوں کو ایک جگہ سیدھا رکھا گیا۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے ریگ مال جیسا کاغذ لیا جس پر چھوٹے اور ہموار ابھار تھے۔ ہر ابھار نصف ملی میٹر بلند تھا اور اب کاغذ کو مختلف رفتار اور مختلف سمتوں یں انگلیوں کے سروں پر رگڑا گیا۔ اس دوران ہر اعصابی خلیے کی برقی سرگرمی کو نوٹ کیا گیا ۔ یہ ریکارڈنگ ہر شریک کے اوپری بازو پر لگے ٹنگسٹن کے حامل الیکٹروڈ سے نوٹ کی گئی تھی۔

اس تحقیق سے پورے عمل، معلومات اور ڈیٹا کا ایک نقشہ بنایا گیا۔ آخرکار معلوم ہوا کہ حساس ترین علاقہ فنگر پرنٹس میں ہی موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دماغ چھونے کا حساس ترین احساس فنگرپرنٹس سے ہی لیتا ہےاور اسی جگہ اعصابی ریشوں کے سرے بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر اومیا کہتی ہیں کہ اس تحقیق کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نشاناتِ انگشت کے دیگر اور استعمالات نہیں ہیں۔ یہ اشیا کو تھامنے میں مدد دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی حساسیت سے بھی بھرپور ہیں۔
https://www.express.pk/story/2155544/508/


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ موٹاپے کا شکار ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں بلکہ آپ کی ماں کا قصور ہے کیونکہ نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ دوران حمل اگر ماں غیرصحت مندانہ خوارک کھائے تو اس کے ہاں پیدا ہونے والے بچے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔میل آن لائن کے مطابق اس تحقیق میں بریگھم اینڈ ویمنز ہسپتال بوسٹن کے سائنسدانوں نے ڈیڑھ ہزار خواتین کی دوران حمل خوراک کا جائزہ لیا اور ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں موٹاپے کے ساتھ اس کا موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے


تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ مونتھے ڈریزی کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ایسی اشیاءجو انفلیمیشن پیدا کرتی ہیں، اگر خواتین دوران حمل کھائیں تو ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے موٹاپے کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ خواتین جواپنی خوراک میں سبزی اور پھلوں کا زیادہ استعمال کرتی ہیں، ان کے بچے موٹاپے کے لحاظ سے سب سے زیادہ صحت مند رہتے ہیں اور ان کا باڈی میس انڈیکس اعتدال میں رہتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-Mar-2021/1264118?fbclid=IwAR3p_Xd_uVScqEbjiQvfKardy8n8c7h4bRqGaASAtLAdKWEE-Xb9q_A7sVk


اسٹاک ہوم:
اس وائلن کا نام ’’بلیک برڈ‘‘ ہے جسے سویڈن کے مشہور مجسمہ ساز لارس ویدنفاک نے ایک خاص طرح کے آتش فشانی پتھر سے بنایا ہے۔ البتہ یہ صرف آرائشی چیز نہیں بلکہ اسے بجا کر مدھر موسیقی بھی بکھیری جاسکتی ہے۔

خبروں کے مطابق، ویدنفاک کو پتھر سے وائلن بنانے کا خیال 1980 کے عشرے میں اس وقت آیا جب سنگ تراشی کے دوران ہتھوڑے اور چھینی کی پتھر سے ٹکرا کر پیدا ہونے والی کچھ مسحور کن آوازیں انہیں موسیقی جیسی محسوس ہوئیں۔

تاہم اس خیال کو عملی شکل دینے میں انہیں کئی سال لگ گئے کیونکہ وہ ایک ایسا ’’پتھریلا وائلن‘‘ بنانا چاہتے تھے جو صرف سجاوٹ کےلیے نہ ہو بلکہ اسے لکڑی والے عام وائلن کی طرح بجایا بھی جاسکے۔

واضح رہے کہ وائلن بجانے کےلیے اس کا درمیانی کھوکھلا حصہ یعنی ’’ساؤنڈ باکس‘‘ سب سے اہم ہوتا ہے؛ اور ویدنفاک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اسی ساؤنڈ باکس کو پتھر سے تراشنا تھا۔

کئی سال کی ناکام کوششوں کے بعد، آخرکار 1990 میں انہیں ’’ڈایابیس‘‘ نامی ایک نرم آتشیں پتھر کا بڑا ٹکڑا مل گیا جو اُن کے آنجہانی دادا کی قبر سے دورانِ مرمت و تزئین برآمد ہوا تھا۔

لیکن پتھریلا وائلن بنانے کےلیے یہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔ تاہم جلد ہی انہیں وسطی سویڈن میں ’’ہاریئے دلان‘‘ صوبے سے ایک اور نرم آتش فشانی پتھر مل گیا۔

انہوں نے اس پتھر پر بڑی احتیاط سے کام شروع کیا جو 1992 میں مکمل ہوا۔

ساؤنڈ باکس کے علاوہ بھی اس وائلن کے بیشتر حصے پتھر سے ہی تراشے گئے ہیں لیکن اس کا وزن صرف 4.4 پاؤنڈ (2 کلوگرام) ہے کیونکہ اس میں ساؤنڈ باکس کی دیواروں کی موٹائی صرف 2.3 ملی میٹر ہے۔

اسی بناء پر یہ بالکل کسی لکڑی والے وائلن کی طرح بجایا بھی جاسکتا ہے:

گزشتہ 29 سال کے دوران کئی کنسرٹس میں اسے بجایا بھی جاچکا ہے جبکہ سویڈن کے ایک موسیقار نے خاص اسی وائلن کےلیے ایک دھن بھی تخلیق کی ہے؛ تاہم موسیقی کے بعض شائقین کا کہنا ہے کہ ’’بلیک برڈ‘‘ کی آواز، عام وائلن کے مقابلے میں ’’خوفناک‘‘ ہے۔
https://www.express.pk/story/2154919/509/


ماسکو:
روسی سائنسدانوں نے دنیا کی سب سے بڑی زیرِ آب دروربین پانی میں اتاری ہے جو اب تک ہماری معلومات کے مطابق سب سے چھوٹے کائناتی ذرات نیوٹرائنو پر تحقیق کرے گی۔

روس کی مشہور جھیل بیکل کے پانیوں میں 750 تا 1300 میٹر گہرائی میں کائناتی دوربین ڈبوئی گئی ہے جسے ’بیکل گیگاٹن وولیم ڈٹیکٹر یا جی وی ڈی ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح دوربین کو جھیل بیکل کے کنارے سے چار کلومیٹر دور اتاراگیا ہے۔

یہ دوربین ایک طرح کی رصدگاہ (آبزرویٹری) ہے جو ڈوریوں اور خمیدہ شیشوں اورفولاد سے بنی ہے۔ واضح رہے کہ جھیل منجمند تھی اور اس میں سوراخ کرکے رصدگاہ جھیل میں ڈالی گئی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ کائناتی ذرات نیوٹرائنو کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نصف مکعب کلومیٹر پر پھیلی ہوئی دوربین فضائی آلودگی سے دور رہ کر ان ذرات کی شناخت اور تحقیق کرے گی۔ روس میں جوائنٹ انسٹی ٹیوٹ فار نیوکلیئر ریسرچ کے سائنسداں دمیتری نوموف کہتے ہیں کہ اگلے چند برسوں میں دوربین کو مزید ایک مکعب کلومیٹر تک وسعت دی جائے گی۔

واضح رہے کہ جھیل بیکل دنیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی گہری اور شفاف جھیل ہے۔ یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی لیے نیوٹرائنو رصدگاہ کے لیے ایک شاندار جگہ بھی ہے۔ توقع ہے کہ اس رصدگاہ سے نیوٹرائنو ذرات کو سمجھنے اور ان پر تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔
https://www.express.pk/story/2155185/508/


برازیل:
طبی سائنس میں انقلابی تبدیلی کے باوجود ملیریا اب بھی کئی خطوں میں دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اب ایک منٹ میں تنائج دکھانے والا نیا ٹیسٹ اپنی افادیت اور تاثیر میں روایتی ٹیسٹ سے بھی آگے نکل چکا ہے۔

اس ٹیسٹ آلے کا نام گزیل رکھا گیا ہے جو درست ترین، کم قیمت اور استعمال میں بھی آسان ہے۔ اس کی بیٹری ایک مرتبہ چارجنگ پر پورے دن کام کرتی رہتی ہے اور بالخصوص غریب اور کم وسائل کے علاقوں کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک منٹ میں نتائج فراہم کرنے والا یہ نظام روایتی اور مصدقہ ٹیسٹ سے کئی گنا تیز اور بہتر بھی ہے۔

برازیل میں بڑے پیمانے پر اس کی اس کی آزمائش کی گئی ہے اور اس نے ریپڈ ڈائگناسٹک ٹیسٹ ( آر ڈی ٹی) کو بھی مات دیدیا ہے۔ یہاں تک کہ خردبینی طریقے سے پلازموڈیئم وائیوویکس (پی وائیویکس) کی شناخت کے مقابلے میں یہ ایک بہت مؤثر طریقہ ہے۔ اس کی تفصیلات ملیریا جرنل کی 12 مارچ کے جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔

اس ضمن میں دوہرے ان دیکھے(ڈبل بلائنڈ) مطالعے میں 300 افراد پر گزیل کی آزمائش کی گئی ہے اور بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ برازیل کے اس علاقے میں پی وائیویکس ملیریا سے متاثر ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔

اس تحقیق میں شامل ماہر ، ڈاکٹر مارکس لیسرڈا کہتے ہیں کہ پی وائیویکس بہت سے ٹیسٹ سے شناخت نہیں ہوپاتا اور تباہی پھیلاتا رہتا ہے۔ اس میں علامات بار بار نمودار ہوتی رہتی ہیں اور انفیکشن مزید پھیلتا رہتا ہے۔ اب گزیل ٹیسٹ سے ہم ملیریا کے خاتمے اور اس کی شناخت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

پی وائیویکس ملیریا کئی ممالک میں عام ہے لیکن ملیریا کی دوسری قسم پی فیلکی پیرم سے کم ہلاکت خیز ہے تاہم یہ بھی شدید انفیکشن کی صورت میں موت کی وجہ بن سکتا ہے۔

آپٹیکل مائیکرواسکوپی کے مقابلے میں یہ ٹیسٹ 92 فیصد زائد مؤثر ہے ۔ اس طرح آرٹی ڈی طریقے سے 100 میں سے ملیریا کے 16 کیس شناخٹ سے چوک گئے جبکہ گزیل نے 100 میں سے صرف 4 کیسوں کی شناخت نہ کی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس ٹیسٹ کے لیے کسی کولڈؑ چین کی ضرورت نہیں رہتی اور یوں یہ فوری طور پر روایتی ٹیسٹ کی جگہ لے سکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2155201/9812/


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/03/16032021/P3-Lhr-014.jpg


کیلیفورنیا:
مائیکروسافٹ نے خبردار کیا ہے کہ ہیکروں کا ایک گروہ ’ایکسچینج ای میل سرورز‘ پر حملہ کرکے وائرس یعنی میل ویئر پھیلارہے ہیں جن میں عام وائرس، ٹروجن ہارس، اسپائی ویئر اور تاوان لینے والے رینسم ویئر تک شامل ہیں۔ اس کی وجہ سے ہزاروں ای میل سرور خطرناک حملوں کی زد میں ہیں۔

جمعرات کو مائیکروسافٹ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس میل ویئر کو ڈیئرکرائے یا ڈوجہ کرِپٹ کا نام دیا گیا ہے اور چینی ہیکرز کا ایک گروہ جس کا نام ’ہیفنیئم‘ ہے وہ ان سرور کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھارہا ہے۔ کمپنی کے مطابق ہیفنیئم وہ بنیادی گروہ ہے جونظام میں موجود بنیادی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے باوجود دو مزید گروہ ایسے ہیں جو ایکسچینج سرورز کو نشانہ بنارہے ہیں۔

رینسم ویئر کے ماہر مائیکل جیلسپائی کہتے ہیں کہ امریکا، کینیڈا اورآسٹریلیا کے کئی سرور ڈیئرکرائےوائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے مائیکروسافٹ کو انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی ’گِٹ ہب‘ میں ہیکرز کی چھیڑ چھاڑ محسوس ہوئی اور اس کی رپورٹ بھی شائع کرائی ہے۔ ایک اور کمپنی نے 82 ہزار سرورز میں ایسی کمزوریاں اور زدپذیری کو نوٹ کیا ہے جو معاملے کو مزید مشکل بنارہی ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں اور صحت کے نظام سے وابستہ سیکڑوں ویب سائٹس اور سرورز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

تاہم ڈیٹا چراکر یا کسی اور طریقے سے تاوان مانگنے کا کوئی واقعہ اب تک سامنے نہیں آیا۔
https://www.express.pk/story/2154760/508/


کیلی فورنیا:
گوگل کو ’’انکوگنیٹو موڈ‘‘ یعنی پوشیدہ رہ کر سرچنگ کے آپشن کا فائدہ اُٹھا کر سرفنگ کرنے والے صارفین کو ٹریک کرنے پر 5 بلین ڈالر کے ہرجانے کا سامنا ہوسکتا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں تین صارفین نے گوگل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گوگل انہیں اُس وقت بھی خفیہ طور پر ٹریک کرتا ہے اور ڈیٹا جمع کرتا ہے جب وہ انکوگنیٹو آپشن یعنی پوشیدہ رک کر سرچنگ کا آپشن استعمال کر رہے ہوتے ہیں یا صارفین کے اپنے طور پر پرائیویسی سیٹ کرنے کے باوجود گوگل ٹریکنگ جاری رکھتا ہے۔

صارفین نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا تھا کہ گوگل کا پرائیوٹ ڈیٹا ٹریکنگ بزنس ہے جو صارفین کی جانب سے پرائیویسی سیٹنگ سخت کرنے یا کروم میں پوشیدگی کا طریقہ استعمال کرنے کے باوجود نجی معلومات اور دیگر براؤزرز تک رسائی حاصل کرکے ڈیٹا جمع کرتا رہتا ہے۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ضلعی جج نے اس مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ گوگل نے صارفین کو پیشگی مطلع نہیں کیا تھا کہ وہ انگوگنیٹو موڈ میں بھی صارفین کا مبینہ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ملوث ہے جس پر گوگل کو سخت قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو کہ 5 بلین ڈالر تک کے ہرجانے کا بھی ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب گوگل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انکوگنیٹو کا مطلب پوشیدہ نہیں ہے اور موڈ کے استعمال کے ساتھ بھی صارف کی سرگرمیاں اُن ویب سائٹس پر بھی نظر آسکتی ہے جو وہ دیکھتے ہیں جب کہ کسی بھی تیسرے فریق کے تجزیات یا اشتہارات کی خدمات وزٹ کردہ ویب سائٹ استعمال کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ گوگل نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ تیسری پارٹی سے باخبر رہنے والے کوکیز کو مرحلہ وار بنا رہے ہیں اور وہ کوکیز کو کسی ایسی جگہ سے تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جو ناگوار ہوسکتا ہے حالانکہ اس سے کمپنی کے اشتہاری کاروبار پر اثر پڑے گا۔
https://www.express.pk/story/2154687/508/


ڈنمارک:
ہم جانتے ہیں کہ درختوں کے اندر بننے والے دائروں سے نہ صرف ان کی عمر معلوم کی جاسکتی ہے بلکہ وہ موسمیاتی احوال بھی بیان کرتے ہیں۔ لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ سینگ والی وھیل کی ایک قسم ناروھیل کا سینگ اپنے اندر بہت سے ماحولیاتی راز رکھتا ہے۔

کسی درخت کے دائروں کی مانند، ناروھیل کے سینگ پر ہر سال ایک دائرہ نموپذیر ہوتا ہے اور اس کے جائزے سے نہ صرف اس کی غذا، عادات اور دیگر عوامل کا پتا ملتا ہے بلکہ اطراف کے ماحول کا ادراک بھی کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی نے دس جانوروں کے سینگ دیکھے ہیں جو شکاریوں کےہاتھوں پہلے ہی مارے جاچکے تھے۔ واضح رہے کہ جسے ہم سینگ قرار دیتے ہیں وہ نر وھیل کا لمبا دانت ہوتا ہے جو سینگ کی صورت میں چہرے سے باہر دکھائی دیتا ہے۔

وھیل کے سینگوں کی لمبائی 150 سے 240 سینٹی میٹر تھی اور تمام سینگوں کو لمبائی کے لحاظ سے درمیان سے چیرا گیا اور اس کے اندر خدوخال یا دائروں کا جائزہ لیا گیا۔ اس میں ایک جانب پارہ (مرکری) موجود تھاتو دوسری جانب ہردائرے میں کاربن اور نائٹروجن کے مستحکم ہم جا (اسٹیبل آئسوٹوپس) بھی موجود تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ آیا وھیل کھلے سمندر میں تھیں یا برفانی ساحلوں کے قریب ہی کہیں رہ رہی تھیں۔

سینگوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ اسے 1990 سے 2000 تک وھیل کو برف کی کمی کا سامنا تھا اور اس تناظر میں اس نے غذائی عادات بھی تبدیل کی تھیں۔ ان تفصیلات پر ماہرین نے کہا ہے کہ وھیل پر اس انوکھی تحقیق سے ان کی خوراک، بقا اور دیگر عادات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2154696/508/


نیویارک:
دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچوں کی بڑی تعداد پیدائشی طور پر کسی نہ کسی نوعیت کےعارضہ قلب کے شکار ہوتی ہیں۔ اب ایک جین کا انکشاف ہوا ہے جس میں خرابی اس کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔

فاسفولائپیز ڈی ون (مختصراْ پی ایل ڈی ون) ایک اہم جین ہے جس میں خرابی یا متاثر ہونے سے دل کے دائیں جانب موجود والوو متاثر ہوتا ہے اور بچوں میں ایک طرح کا مرض پیدا ہوجاتا ہے جسے’نیونیٹل کارڈیو میوپیتھی‘ کہتے ہیں۔

جرنل آف کلینکل انویسٹی گیشن کے مطابق بچوں میں پیدائشی طور پر جتنے نقائص ہوتے ہیں، ان میں 33 فیصد کا تعلق قلبی خرابیوں سے ہوتا ہے۔ ان میں دل کے خانے یعنی والوو کی خرابی سرِفہرست ہوتی ہے۔

اسٹونی بروک یونیورسٹی کے رینے ساں اسکول کے پروفیسر مائیکل فرومان اور ان کے ساتھی گزشتہ 25 برس سے پی ایل ڈی ون پر تحقیق اور اس کی کلوننگ کررہے ہیں۔ اب انہوں نے معلوم کیا ہے کہ اگر اس جین میں کوئی خرابی ہوجائے تو اس کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا دل اور اس کے والوو متاثر ہوسکتے ہیں۔

پی ایل ڈی ون ایک اینزائم (خامرے) کی طرح کام کرتا ہے اور یہ سگنل خارج کرتا ہے کہ کس طرح خلیات مختلف ہارمون کی صورت میں برتاؤ کرتے ہیں۔ اسی طرح اعضا کی تشکیل ہوتی ہے۔ گزشتہ 25 برس کی تحقیق کے بعد اب اس جین کا بچوں میں قلبی بیماریوں کے تعلق کا انکشاف ہوا ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے پی ایل ڈی ون جین متاثر ہونے سے دائیں جانب موجود دل کا والوو اور وینٹریکل متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ جین دل کی تشکیل اور نشوونما پر اثرا انداز ہوسکتا ہے۔

لیکن یہ حقائق 2700 کے قریب دل کے مریض نومولود بچوں پر تحقیق میں سامنے آئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بعض بچوں میں یہ جین والدین سے منتقل ہوا تھا اور ماں کے پیٹ میں ہی دل کی نشوونما پر اثرانداز ہوا تھا جس میں مدتِ حمل کا ساتواں ہفتہ بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2154671/9812/


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/03/15032021/P6-Lhr-041.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/03/15032021/P6-Lhr-032.jpg


چائے کا کپ جسے چائے پینے کے بعد کھایا جاسکتا ہے

بھارتی نوجوانوں نے ایسا کپ تیار کرلیا جس میں چائے پینے کے بعد اسے کھایا جاسکتا ہے

ممبئی (نیٹ نیوز)اسے بسکٹ کپ کا نام دیا گیا ہے ۔بھارتی شہر کولہاپور سے تعلق رکھنے والے 3 نوجوانوں نے کچرے میں کمی اور آلودگی پر قابو پانے کیلئے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے ، تینوں دوستوں نے چائے کا ایسا کپ تیار کیا ہے جسے کھایا بھی جاسکتا ہے ۔ بسکٹ اور دیگر اجزا پر مشتمل اس کپ سے چائے پینے کے بعد اسے کھایا جاسکتا ہے ۔ان نوجوانوں نے ایڈیبل کٹلری کے نام سے ایک برانڈ قائم کیا ہے جس میں وہ ایسے برتن تیار کرتے ہیں جنہیں کھایا جاسکے ، تاکہ ڈسپوزیبل کپوں اور پلیٹوں سے ہونے والے کچرے میں کمی کی جاسکے ۔اگر کوئی کپ نہیں کھانا چاہتا تو اسے جانوروں کو کھلایا جاسکتا ہے یوں یہ کچرا پھیلانے کا سبب نہیں بنے گا
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-14/1792278


جنوب مشرقی ایشیا سے سنہرے رنگ کے بھونرے دریافت

بھارتی محکمہ جنگلات کے افسر سشانتا نندا نے ٹو ئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں سنہرے بھونرے دکھائے گئے ہیں

لاہور(نیٹ نیوز)انٹرنیٹ پر شیئر ہونے والی 17 سیکنڈز کی ویڈیو میں ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی طرح چمکتے ہوئے زندہ بھونرے تھے جو پنجوں کی مدد سے چل بھی رہے تھے ۔انہوں نے لکھا کہ ‘جنوب مشرقی ایشیا سے سنہرے رنگ کے بھونرے دریافت ہوئے ہیں’۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر صارفین حیران رہ گئے ، ایک صارف نے لکھا کہ یہ کیڑے مکوڑے بالکل سونے کی طرح نظر آرہے ہیں۔سنہرے بھونرے کو انگریزی میں کریسومیلیڈی جبکہ سائنسی زبان میں چارڈوٹیلا سیکس پنٹاٹا کہا جاتا ہے ، ان کا تعلق پتوں میں رہنے والے بھونرے کی فیملی سے ہی ہوتا ہے ۔ان بھونرے کو رنگت اور چمک کی وجہ سے کئی علاقوں میں‘سونے کا کھٹمل’ بھی کہا جاتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-13/1791474


آڈیو کیسٹ کے موجد انجینئر لو اوٹینس انتقال کر گئے
شائقین موسیقی کیلئے آڈیو کیسٹ ایجاد کرنے والے انجینئر لو اوٹینس انتقال کرگئے

ایمسٹرڈیم (اے پی پی)ترجمان فلپس کمپنی کے مطابق انجینئر لو اوٹینس کا انتقال ہالینڈ میں واقع ان کے آبائی شہر ڈوئزیل میں ہوا، ان کی عمر 94 برس تھی۔ لواوٹینس فلپس نے 1963 میں الیکٹرانکس کے میلے میں پہلی کیسٹ پیش کی ، سی ڈی کی ایجاد انہی کی ٹیم کے حصے میں آئی تھی۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-03-13/


نیویارک:
دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ہیڈ فون اور ایئرفون صرف آواز سننے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم اب ایک چپ کا اضافہ کرکے انہیں نہایت کارآمد سینسر میں بدلا جاسکتا ہے۔

رٹگرز یونیورسٹی کے انجینیئروں نے انتہائی کم خرچ اور آسان چِپ بنائی ہے جو ہیڈفون کو سینسر بنادیتی ہےاور اس کی ریڈنگ اسمارٹ فون پر آسکتی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ سینسر بڑا ہے لیکن اسے مزید حساس اور چھوٹا بنایا جاسکتا ہے جس پر کام جاری ہے۔ اس ایجاد کو ’ہیڈفائی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس طرح دنیا بھر میں استعمال ہونے والے لاکھوں کروڑوں ہیڈفونز کو کارآمد سینسر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک چپ کے اضافے سے ہیڈفون دل کی دھڑکن ناپنے، جائرواسکوپ، اسراع پیما (ایسیلرومیٹر) ، مائیکروفون اور دیگرآلات کا کام کرسکتے ہیں۔

اس ایجاد کے تحت تین ڈالر سے لے کر 15 ہزار ڈالر تک کے ہیڈفون استعمال کئے گئے۔ اس کے بعد ہیڈفائی نے 97 سے 99.5 تک درستگی سے یوزر کو شناخت کیا۔ 96 سے 99 فیصد صحت سے دل کی دھڑکن گننے اور 99 فیصد ہی حرکات و سکنات کو کامیابی سے نوٹ کیا۔

اگرچہ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس چپ کی بدولت دنیا بھر میں ایک انقلاب آسکتا ہے کیونکہ ہیڈفون ہر جگہ موجود ہیں اور دل کے مریض بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
https://www.express.pk/story/2154008/508/


چین:
اس سے قبل ہم ڈائنوسار یا ان کے انڈوں کے رکازات (فاسل) دیکھ چکے ہیں لیکن چین میں پہلی مرتبہ ایسی ہڈیاں ملی ہیں جن سے لگتا ہے کہ مادہ ڈائنوسار انڈوں پر بیٹھی ہے، اس کا نر قریبی موجود ہے اور انڈوں کے اندر موجود بچے بھی فاسل کی صورت میں دکھائی دئیے ہیں۔

چین کے جنوب میں واقع صوبہ جیانکشی میں پرندہ نما ڈائنوسار، اووی ریپٹوروسارس کے بالغ کا جزوی ڈھانچہ ملا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ گویا انڈوں پر بیٹھی ہے کیونکہ اس کے پاس 24 انڈے ملے ہیں جن میں بعض بچوں کی ہڈیاں بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ ڈائنوسار اور پرندوں میں بہت فرق ہے اور بعض ڈائنوسار کے جسم پر پرندہ نما آثار پائے جاتے تھے۔

’اووی ریپٹوروسارس‘ زمین پر ساڑھے چھ کروڑ سے پندرہ کروڑ سال قبل زمین پر پائے جاتے تھے اور اب نودریافت شدہ رکاز سات کروڑ سال قدیم ہیں۔ اس سے معلوم ہوا ہے شاید یہ پرندہ نما ڈائنوسار تھا کیونکہ دیگر اقسام کے ڈائنوسار اپنے انڈے دے کر وہاں سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں لیکن پرندہ نما ڈائنوساراپنے پرندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور سیتے رہتے ہیں۔

اس جگہ آکسیجن کے آئسوٹوپ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ انڈے اتنی حرارت میں سینکے گئے تھے جو پرندوں کے جسم کے نیچے ہی موجود ہوتی ہے۔ دونوں نر اور مادہ کے پیٹ سے باریک کنکر بھی ملے ہیں جو شاید انہوں نے کھانا ہضم کرنے کے لیے جانتے ہوئے نگلے تھے۔
https://www.express.pk/story/2153943/508/


انٹرنیٹ پر اجارہ داری بدعت جلد ختم ہوگی : ٹم برنرز
هفته 13 مارچ 2021ء

واشنگٹن(این این آئی )انٹرنیٹ کے موجد ٹم برنرز لی نے کورنا کی عالمی وبا کے بعد انٹرنیٹ کی نوجوانوں تک رسائی کو ممکن بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد اس وقت انٹرنیٹ سے محروم ہے ، انٹرنیٹ پر اجارہ داری کی بدعت جلد ختم ہو جائیگی، ورلڈ وائڈ ویب ایجاد کی 32ویں سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والے خط میں ٹم برنرز لی نے کہا کہ نوجوانوں کا اثر و رسوخ آن لائن نیٹ ورکس کے علاوہ ان کی کمیونٹی میں بھی محسوس کیا جاتا ہے ، لیکن نوجوانوں کی بڑی تعداد کو انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کے باعث اپنی قابلیت اور خیالات شیئر کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔انٹرنیٹ کے بانی ٹم برنرز نے کہا کہ نوجوانوں کی ایک تہائی آبادی کو انٹرنیٹ تک بالکل رسائی حاصل نہیں ، کئی نوجوان ایسے ہیں جو انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے ڈیوائسز یا مؤثر کنکشن نہ ہونے کے باعث ویب سائٹس کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ٹم برنرز نے کہا کہ 2 ارب 20 کروڑ نوجوانوں کے پاس انٹرنیٹ کا پائیدار کنکشن ہی موجود نہیں ۔
https://www.roznama92news.com/%D8%A7%D9%86%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%AC%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%AF-%D8%A8%D8%B1%D9%86%D8%B1%D8%B2


تانبے کے برتن استعمال کرنے کے فائدے

پرانے وقتوں میں مٹی کے برتنوں کے ساتھ تابنے کے برتنوں کا استعمال ہر گھر میں کیا جاتا تھا اور مشرقی روایات کے مطابق یہ برتن گھروں میں سجا کر رکھے جاتے تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا ان کی جگہ شیشے، پلاسٹک اور چینی کے برتنوں نے لے لی۔

تابنہ ایک ایسی دھات ہے جس کا استعمال ہمارے معاشرے میں قدیم زمانے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد تابنے سے بنے برتنوں میں کھانا کھایا کرتے تھے، لیکن اب دور جدید میں ہم نے نئے متبادل تلاش کرلیے ہیں۔

بدقسمتی سے جدید دورمیں استعمال ہونے والے ان برتنوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے ناقص میٹریل کی وجہ سے صحت انسانی پر مضر اثرات پڑتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

تانبے کی برتن میں کھانا پکانا یا اس کے برتن میں پانی کو محفوظ رکھنے کا رواج قدیم زمانے سے جاری ہے لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کے ان برتنوں کا استعمال لوگوں کو کئی امراض سے دور رکھتا ہے۔

تابنے میں ایک قسم کا مائیکرو نیوٹرینٹ پایا جاتا ہے جو متعدد جسمانی کارگردگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ کھانا پکانے کے لیے ہم اپنے باورچی خانے میں تانبے سے لے کر پیتل اور اسٹیل سے لے کر مٹی کے برتنوں کا استعمال کرتے ہیں۔

انسان نے پہلے مٹی سے بنے ہوئے برتنوں کا استعمال کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے نئی چیزوں کٓا تجربہ کیا اور اب گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم کھانا پکانے کے لیے اسٹیل، ایلومینیم، تانبے، شیشہ، سیرامک یہاں تک کہ پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا بنانے کا تجربہ بھی کرچکے ہیں لیکن تانبے کی برتن کو استعمال کرنے کے الگ ہی فائدے ہیں۔

تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانا :

قدیم زمانے میں تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانے کو ترجیح دی جاتی تھی اور اسے جائیداد کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ زمانہ قدیم میں کانوں سے تانبے کو دریافت کیا گیا تھا، اگر تاریخ کی جانب رخ کریں تو بر صغیر میں واقع کھیتری تابنے کے کان میں صدیوں سے تانبے کو دریافت کیا جاتا رہا ہے۔

تانبہ گرمی کا اچھا موصل ہے کیونکہ کھانا پکانے کے دوران یہ آسانی سے درجہ حرارت کو کنٹرول کرلیتا ہے۔ تانبے کا استعمال تھوڑی مقدار میں کرنا ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، تاہم اس کا زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

آلودہ پانی یا خراب خوراک کے ذریعہ حاصل ہونے والے تانبے سے ‘کاپر ٹاکسیسیٹی ‘ ہوسکتی ہے۔ کچھ جینیاتی امراض جیسے ‘ولسن ڈیزیز’ بھی کاپر ٹاکسیسی کا باعث بن سکتی ہے جو اسہال، سردرد، گردے کی خرابی، خون کی الٹی، آنکھوں کی پتلیوں کا رنگ بدل جانے ٓجیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔
اس لئے، تانبے یا پیتل کے بنے برتنوں کے اوپر کوئی اور دھات لگادی جاتی ہے، جو تانبے کو براہ راست کھانے کے ساتھ آمیزش سے روکتی ہے۔

جب ہم اس برتن پر زیادہ کھانا پکانے لگتے ہیں تو برتن پر لگی دوسری دھات کی کوٹنگ دھیرے دھیرے تحلیل ہوجاتی ہے، خاص طور تیزابیت والے کھانے یا طویل وقت تک کھانا پکانا یا اسٹور کرنے سے بھی یہ کوٹنگ تحلیل ہوجاتی ہے۔

پہلے تانبے کے برتن کے اوپر ٹن یا نکل دھات کی کوٹنگ کی جاتی تھی۔ پیتل یا تانبے کے برتنوں میں کھانا پکانا مناسب نہیں ہے کیونکہ کھانے میں موجود نمک یا آیوڈین آسانی سے تانبے کے ساتھ مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے کھانے میں زیادہ تانبے کی مقدار شامل ہوجاتی ہے۔

پیتل کی پلیٹ میں کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا ہے لیکن پیتل کے برتن میں کھانا پکانا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تانبے کی کمی کی وجہ سے ہونے والی جسمانی امراض مندرجہ ذیل ہیں۔

تھکاوٹ اور کمزوری، ہڈیوں کا کمزور ہونا، حافظہ کا کمزور ہونا، چلنے میں پریشانی ہونا، سردی محسوس ہونا، جلد کا زرد پڑنا، بالوں کا سفید ہونا، آنکھوں کی روشنی میں کمی۔

تانبے کے برتن کھانے بیکٹیریا کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جسم کے لئے 100 ملی گرام سے بھی کم تانبے کافی ہیں، جو آپ معمولی خوراک سے حاصل کرسکتے ہیں۔

جگر تانبے کی تحویل کا مرکز ہے۔ یہ جسم میں ریڈ بلڈ سیل کو بڑھاتا ہے، تانبے ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے، تانبا جسم میں خون کی روانی کو متوازی رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ میں اس سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام بھی قدرے مضبوط ہوتا ہے تانبا آئرن کو جذب کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ https://thenewscloudonline.blogspot.com/2021/03/blog-post_171.html


انقرہ:
ترکی کے ایک سائنسداں نے بورون آکسائیڈ گیس کی بدولت بڑی آنت کے سرطان جیسے پیچیدہ اور مشکل مرض کے معالجے میں اہم پیش رفت حاصل کی ہے۔

پروفیسراوزگر البوز نے اپنے تجربات میں بورون آکسائیڈ کو استعمال کیا ہے جس سے کینسر کے خلیات بطورِ خاص تباہ ہوتے ہیں جبکہ اطراف کے تندرست خلیات کو زیادہ نقصانات نہیں ہوتا۔ اس ضمن نے ڈاکٹر اوزگر نے انقرہ اور دیگر ہسپتالوں کےمریضوں پر بھی بعض تجربات کئے ہیں۔ تاہم انسانوں سے قبل انہوں نے جانوروں پر اس کےوسیع تجربات کئے ۔ انہوں نے ترکی کے مشہور ڈاکٹرعبدالرحمان یارسلان مرکز برائے سرطان کے مریضوں پر بھی اپنی اختراع آزمائی ہے۔

کئی اقسام کے کینسر میں رسولی نکالنے کے بعد بھی کینسر کے خلیات اندر ہی موجود رہتے ہیں اور دوبارہ مرض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اسی خدشے نے خود ڈاکٹر اوزگر کو بھی پریشان کئے رکھا اور اب انہوں نے بورون آکسائیڈ کے انجیکشن کو سرطانی خلیات کے خاتمے کے لیے استعمال کیا ہے۔

ڈاکٹر اوزگر کہتے ہیں کہ بورون میں کئی اشیا کے ساتھ ملاپ کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بورون آکسائیڈ پانی جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صرف ترکی میں ہی دنیا بھر میں بورون کے 75 فیصد ذخائر موجود ہیں اور یہ معدن کئی جگہوں پر استعمال کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے بڑی آنت کے سرطان میں بورون آکسائیڈ کو کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بورون آکسائیڈ کے سرطانی خلیات اور صحتمند خلیات پر الگ الگ اثرات دیکھے ہیں اور بعد میں چمکدار خردبینی (فلوریسنس مائیکرواسکوپی) میں بھی ان کی تصدیق کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بورون آکسائیڈ سرطانی خلیات کی بڑی تعداد کو تیزی سے مارڈؑالتی ہے جبکہ صحتمند خلیات کو بہت کم نقصان ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2153463/9812/


واشنگٹن:
اب تک ہم اسپیکروں سے آواز اور موسیقی ہی سنتے رہے ہیں لیکن اب ایک ایسا اسپیکر بنایا گیا ہے جس کےسامنے بیٹھنے سے وہ دل کی بے ترتیب دھڑکن (ارِدمیا) نوٹ کرسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن ایک اسمارٹ اسپیکر بنایا ہے جو مشین لرننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی شخص سے جڑے بغیر اس کے دل کی دھڑکن سن سکتا ہے اور اس میں کسی قسم کی ترتیب یا بے ترتیبی کو نوٹ کرسکتا ہے۔ اس طرح ابتدائی درجے میں ہی دل کی مختلف بیماریوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ ابتدائی آزمائش میں یہ اسپیکر بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کی ٹیم نے ہر ایک کے دل کی دھڑکن میں کمی بیشی اور بے قاعدگی کو نوٹ کرنے والا نظام ایسے مریضوں کے لیے بنایا ہے جنہیں بالخصوص گہری نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اسپیکر کسی قلبی بے قاعدگی کو نوٹ کرکے فوری طور پر اس کی خبر ڈاکٹر کو بھی دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہارٹ بیٹ (دل کی دھڑکن) اور ہارٹ ردم یعنی دل کے دھڑکنوں کے درمیان وقفوں میں کمی بیشی دونوں الگ الگ معاملات ہیں۔ اس ضمن میں ہارٹ ردم بہت اہمیت رکھتی ہے۔

اسپیکر کے خالق ڈاکٹر ارون شریدھر کہتے ہیں کہ دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی فالج اور دیگر خطرناک امراج کی وجہ بنتی ہے۔ لیکن اس کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے اور اب نہایت کم خرچ میں اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ اسمارٹ اسپیکر کو گھر میں استعمال کرکے دل کے مریضوں کو اموات اور پیچیدہ صورتحال سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس کے لیے مریض کو اسپیکر سے دو فٹ سے کم دوری پر بٹھایا جاتا ہے اور حساس اسپیکر کمرے میں ایسی آواز بکھیرتا ہے جسے سنا نہیں جاسکتا۔ یہ آواز مریض کے دل اور سینے سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے اور بتاتی ہے کہ دل کی دھڑکن کیسی ہے اور دو دھڑکنوں کے درمیان وقفہ برابر ہے یا تبدیل ہورہا ہے۔ اس طرح سے بہت درستگی سے دل کی دھڑکن کا تفصیلی احوال سامنے آجاتا ہے۔

ابتدائی آزمائش میں اسے دل کے 24 مریضوں اور 26 تندرست افراد پرآزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اس نظام نے 12300 دھڑکنوں کو نوٹ کیا اور دھڑکن کے درمیان 28 ملی سیکنڈ کے فرق کو بھی کامیابی سے نوٹ کیا ۔ اگلے مرحلے میں اس نظام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2153121/9812/


اونٹاریو:
امراضِ قلب میں مبتلا یا فالج کے خطرے میں گھرے خواتین و حضرات اگر ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کھائیں تو اس سے دل کو توانا رکھنے کے ساتھ ساتھ امراضِ قلب کو بہت حد تک روکا جاسکتا ہے۔

دنیا کے 60 ممالک میں لاکھوں افراد پر کئے گئے مطالعے کے بعد اس حقیقت کے مزید ثبوت ملے ہیں کہ اگر تیل والی (آئلی) مچھلیوں کو ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ کھایا جائے تو یہ دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہوتی ہیں اور فالج سے بھی بچاتی ہیں۔

تیل بردارمچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ وسیع مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اب مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق کا میٹا اینالسِس کے ذریعے جائزہ لیا گیا ہے۔

تحقیق میں شامل سائنسداں اینڈریو مینٹے نے کہا ہے کہ مچھلی دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

شمالی امریکا، چین، جاپان اور یورپ میں 192000 افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا جن میں 52 ہزار دل کے مریض بھی شامل تھے۔ ان میں سے جن افراد نے ہفتے میں کم سے کم دومرتبہ مچھلی کا استعمال کیا ان کا دل تندرست اور توانا دیکھا گیا۔ اسی طرح مچھلی کھانے والوں میں فالج سے متاثر ہونے کے خطرات بھی کم دیکھے گئے۔
https://www.express.pk/story/2152696/9812/


ٹوکیو:
ایک قسم کا سمندری گھونگھا یا سی سلگ خطرے کی صورت میں اپنا سر خود کاٹ لیتا ہے اور پھر اس سر سے پورا جسم اگالیتا ہے۔

سمندر میں گھونگھوں سے مشابہہ جانور بکثرت ملتے ہیں جنہیں سی سلگ کہا جاتا ہے۔ جاپانی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ’سی سلگ‘ کی دو اہم اقسام ایسی ہیں جو خطرے کے وقت اپنا سر کاٹ دیتے ہیں اور وہ زندہ رہتا ہے۔ بریدہ سرغذا کھاتا ہے اور دھیرے دھیرے گردن کے نیچے سے پورا دھڑاعضا اور دیگر نظام تشکیل پاتا ہے اور ایک نیا سی سلگ بن جاتا ہے۔ اس پر سر پرانا اور دھڑ نیا ہوجاتا ہے۔

سرقلم ہونے کے بعد بھی سی وہ کھاتا ہے، حرکت کرتا ہے اور فضلہ بھی خارج کرتا ہے۔ اس کے دو سے تین ہفتے بعد جانور کا دل اور اس سے وابستہ نظام سمیت پورا جسم بن جاتا ہے۔ جبکہ بغیر سر کا دھڑ بھی کئی ماہ تک زندہ رہتا ہے۔ اس کا دل دھڑکتا رہتا ہے۔ لیکن جسم اپنا سر نہیں بناپاتا اور آخرکار گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے۔

جاپان کی نارا وومن یونیورسٹی کے سائنسداں سایاکا مائٹو اور ان کے ساتھیوں نے یہ حساس تجربات کئے ہیں۔ ان کے مطابق سر میں دماغ اور دانت سمیت قلبی خلیات پائے جاتے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ خلیات ایک پورا جسم تشکیل دیتے ہیں۔

مائٹو نے تجربہ گاہ میں سی سلگ کی ایک قسم کو پالا جسے ’سیکوگلوسان‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے مجبور کیا کہ گھونگھا اپنا سر خود اتارے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے سلگ کی گردن کے پاس خاص نشانات تھے جو انہیں گردن توڑنے میں مدد دیتے ہیں۔

پھر6 گھونگھوں کی گردن پر دھیرے سے باریک دھاگہ باندھا گیا تو سب نے ایک ہی دن میں اپنا سر کاٹ ڈالا۔ سرالگ ہونے کے بعد الجی کھانے لگے اور ماہرین نے دیکھا کہ سرمیں موجود غدود کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دے رہے تھے۔ تجربہ گاہ میں 160 سی سلگ رکھے گئے تھے جو دوسال کے اندر طبعی موت مرگئے۔

تجربہ گاہ میں پالے گئے 15 میں سے 5 اور ماحول سے پکڑے گئے 145 جنگلی سلگ میں سے تین نے اپنے سر کاٹ ڈالے۔ 39 جانوروں نے اپنے جسم کے مختلف اعضا اور پیروں کو الگ کردیا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عام چھپکلی خطرے کی صورت میں دم الگ کردیتی ہے اور دیگر جانور بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس عمل کو آٹوٹومائز کہا جاتا ہے۔ تاہم سی سلگ کا معاملہ بہت انوکھا اور مختلف ہے کیونکہ وہ اپنا سر ہی نکال دیتےہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جب سلگ کے جسم میں کوئی طفیلیہ (پیراسائٹ) پہنچ جائے تو وہ اپنے بیمار بدن سے جان چھڑالیتے ہیں۔ ان طفیلیوں کو سیپوپوڈز کہا جاتا ہے۔ اگر سی سلگ اس سے جان نہ چھڑائیں تو وہ خود موت کے شکار ہوسکتے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
https://www.express.pk/story/2152639/509/


لندن:
دنیا کے گنجان آبادی والے شہروں میں دھواں خارج کرنے والی گاڑیاں فٹ پاتھ سے گزرنے والے بچوں اور بوڑھوں کو بھی متاثر کررہی ہیں۔ اس کا حل ایک ایسی خمیدہ دیوار کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو گاڑیوں کے زہریلے اخراج کو فٹ پاتھ تک آنے سے روکتی ہیں اور روڈ کی آلودگی سڑک تک ہی محدود رہتی ہے۔

لندن میں واقع امپیریئل کالج کے ڈاکٹر ٹِلی کولنز نے پہلے گاڑیوں کے اخراج کا ہوائی بہاؤ یا ایئرفلو کا بغور مطالعہ کیا اور اس کے بعد ایک خاص قسم کی دیوار تجویز کی جو فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑی کی جائے گی۔ اس پر آنے والا دھواں اور آلودگی فٹ پاتھ پر نہیں پہنچیں گے بلکہ مڑی ہوئی دیوار کے ساتھ ٹکرا کر دوبارہ سڑک تک ہی محدود رہیں گے۔

اس طرح فٹ پاتھ پر سفر کرنے والی بالخصوص خواتین، بچے اور بوڑھے زہریلے دھویں سے بہت حد تک بچ سکیں گے۔ اس طرح کے مسائل ترقی پذیر ممالک میں عام ہیں جہاں سواریاں معمول سے زیادہ آلودگی پھیلاتی ہیں اور فٹ پاتھوں پر عوام کا ہجوم موجود رہتا ہے۔ دوسری جانب اسکول میں موجود بچے بھی اسی آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں اور بیمار ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر ٹلی کے مطابق چند فٹ کی بلندی پر آلودہ ہوا کی بوچھاڑ بہت زیادہ ہوتی ہے جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے جو خمیدہ دیوار بنائی ہے وہ آلودگی کے ساتھ ساتھ شور کو بھی کم کرسکتی ہےاور انہیں شہر میں سبز انفراسٹرکچر کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے آزمائشی دیوار بنا کر اس کے حوصلہ افزا نتائج بھی حاصل کئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2152772/508/


اونٹاریو:
امراضِ قلب میں مبتلا یا فالج کے خطرے میں گھرے خواتین و حضرات اگر ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کھائیں تو اس سے دل کو توانا رکھنے کے ساتھ ساتھ امراضِ قلب کو بہت حد تک روکا جاسکتا ہے۔

دنیا کے 60 ممالک میں لاکھوں افراد پر کئے گئے مطالعے کے بعد اس حقیقت کے مزید ثبوت ملے ہیں کہ اگر تیل والی (آئلی) مچھلیوں کو ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ کھایا جائے تو یہ دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہوتی ہیں اور فالج سے بھی بچاتی ہیں۔

تیل بردارمچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ وسیع مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اب مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق کا میٹا اینالسِس کے ذریعے جائزہ لیا گیا ہے۔

تحقیق میں شامل سائنسداں اینڈریو مینٹے نے کہا ہے کہ مچھلی دل کے مریضوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

شمالی امریکا، چین، جاپان اور یورپ میں 192000 افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا جن میں 52 ہزار دل کے مریض بھی شامل تھے۔ ان میں سے جن افراد نے ہفتے میں کم سے کم دومرتبہ مچھلی کا استعمال کیا ان کا دل تندرست اور توانا دیکھا گیا۔ اسی طرح مچھلی کھانے والوں میں فالج سے متاثر ہونے کے خطرات بھی کم دیکھے گئے۔
https://www.express.pk/story/2152696/9812/


ٹوکیو:
ہمارے گھروں میں تل اور ان کا تیل عام استعمال کیا جاتا ہے۔ اب جاپانی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ تل کھانے اور اس کے تیل میں موجود اجزا الزائیمر اور پارکنسن جیسے ہولناک امراض کے حملے کو روکتے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ تلوں میں قدرتی طور پرموجود ایک اہم جزو ’سیسمنول‘ دماغی خلیات (نیورون) اور اس سے خارج ہونے والے نیوروٹرانسمیٹر کیمیکل ڈوپامائن کی سطح کر صحتمند حالت پر رکھتا ہے۔ یہ دونوں معاملات بگڑجائیں تو تو پارکنسن کا مرض قدم جمانے لگتا ہے۔

اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ابتدائی تجربات بہت حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب وہ بہت جلد مریضوں پر آزمائش کا سوچ رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ’سیسمنول‘ خلیات کو تباہ کرنے والی آکسیڈیٹوو اسٹریس کو روکتا ہے۔ تلوں کا یہ جزو ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز(آراوایس) اوراینٹی آکسیڈنٹس کے اخراج کو بھی باقاعدہ بڑھاتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑجائے تو پارکنسن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔

لاعلاج پارکنسن کے مریض توازن نہیں رکھ پاتے، ان کی حرکات متاثر ہوتی ہیں اور بولنے میں بھی دقت محسوس کرتے ہیں۔ مرض کی شدت بڑھتی جاتی ہے ہر دن خراب سے خراب تر ہوتا جاتا ہے۔ اس موقع پر تل کا تیل ایک بہترین دوا بن کر سامنے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلوں کا چھلکا خود تل کے مقابلے میں ذیادہ ’سیسمنول‘ رکھتا ہے۔

تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ ’سیسمنول‘ اعصاب کو تباہ ہونے سے روکتا ہے اور آکسیڈیٹواسٹریس پیدا کرنے والے کئی اہم پروٹین کو بھی اس سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح ہم اس ننھے منے مزیدار تل کو دماغ کا محافظ کہہ سکتےہیں۔
https://www.express.pk/story/2152733/9812/


ورجینیا:
والدین لاکھ نظرانداز کریں لیکن نوعمروں اور دیگر بچے ڈپریشن اور مایوسی کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کیفیت کو مکمل طور پر فاصلاتی مدد فراہم کرنے والے ایک مخصوص کمپیوٹرپروگرام سے دور کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے جس کے حوصلہ افزا کامیابی ملی ہے۔

فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی کے تحت چارلس شمٹ کالج آف سائنس کے سائنسدانوں نے ایک کمپیوٹر پروگرام کو استعمال کرتے ہوئے بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں میں منفی خیالات کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے ساتھ 8 سے 12 برس کے بچوں میں اداسی، بے چینی، آپے سے باہر ہونے اور دیگر کیفیات کا دماغی ای ای جی سے بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

نفسیات دانوں کے مطابق اس عمر کے بچوں میں سماجی معلومات کے ساتھ ساتھ جذباتی، نفسیاتی اور دیگر کیفیات جنم لیتی ہیں اور وہ اس عمر میں کئی عوارض کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کی شرح امریکہ سمیت کئی ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ اس کی تفصیلات اپلائیڈ نیوروسائیکولوجی ، چائلڈ نامی تحقیق جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔

بچوں کو کمپیوٹر پروگرام پر نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کی تربیت دی گئی جو انہوں نے گھربیٹھے اپنے کمپیوٹر پر انجام دیں۔ اس میں نفسیاتی طور پر انہبٹری کنٹرول کو نوٹ کیا گیا جو انسانی جذبات اور احساسات کو بیان کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگراسے روکا جائے تو بے چینی اور اداسی جنم لیتی ہے۔ پھرکورونا وبا نے بھی ہمارے بچوں کو چڑچڑا بنادیا ہے۔

ماہرین نے تین مختلف پروگراموں کے ذریعے چار ہفتے تک بچوں 16 سیشن میں تربیت فراہم کی۔ اس میں اکتساب، جذبات، آئی کیو سے متعلق کچھ پروگرام تھے جبکہ بچوں کے دماغ میں ای ای جی کی پیمائش بھی کئی گئی۔ کورس کے خاتمے پر کئی
بچوں میں اداسی اور ڈپریشن میں کمی واقع ہوئی۔
https://www.express.pk/story/2152676/9812/


ڈائیٹنگ ذہنی صحت کے لیے مثبت قرار:نئی تحقیق

ایک نئی ریسرچ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آ ئی ہے کہ مثبت غذا اور متحرک طرز زندگی مرد و خواتین کی ذہنی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے

لاہور(نیٹ نیوز)بنگھمٹن یونیورسٹی آف نیویارک کی ریسرچ کیمطابق ڈائیٹنگ سے مجموعی صحت سمیت ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسی غذا ذہنی صحت کیلئے دوا کا کردار ادا کرتی ہے ۔محققین کے مطابق یہ سائنسی تحقیق سے تصدیق شدہ بات ہے کہ اچھی غذا بہتر ذہنی صحت کی ضامن ہے جبکہ مضر صحت غذا انسانی جسم سمیت ذہنی بیماریوں کا بھی سبب بنتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق جو مرد 29 سال کی عمر سے قبل کیفین کا زیادہ استعمال کر رہے تھے ان میں ہم عمر کی خواتین کے مقابلے میں غصہ، ڈپریشن اور اضطراب زیادہ پایا گیا تھا، ماہرین کے مطابق جو بالغ افراد غیر متحرک زندگی اور مضر صحت غذا کا استعمال کرتے ہیں اُن میں ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-10/1789970


چین اور روس کا چاندپر مشترکہ خلائی سٹیشن بنانیکا اعلان

روس اور چین نے چاندپر خلائی سٹیشن کی مشترکہ تعمیر کیلئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کر دیئے ماسکو (اے ایف پی) روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کی طرف سے جاری بیان کے مطابق قمری خلائی سٹیشن کو بطور تجربہ گاہ چاند کے مدار یا سطح پر تعمیر کیا جائیگا، اسے عالمی پارٹنرز کے علاوہ دیگر دلچسپی رکھنے والے ممالک بھی استعمال کر سکیں گے
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-03-10/1790163


کوپن ہیگن(مانیٹرنگ ڈیسک) باڈی بلڈنگ کے شوقین مرد گاہے شارٹ کٹ کے طور پر سٹیرائیڈز کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور اپنی صحت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ اب ڈنمارک کے سائنسدانوںنے نئی تحقیق میں سٹیرائیڈز کا ایک اور انتہائی سنگین نقصان بھی بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق کوپن ہیگن کے ادارے ریگشوسپیٹالے کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جو مرد مسلز بنانے کے لیے سٹیرائیڈز کا استعمال کرتے ہیں ان کی مردانہ طاقت طویل مدت کے لیے متاثر ہونے کا سنگین خطرہ ہوتا ہے۔ اینابولک سٹیرائیڈز بنیادی طور پر سنتھیٹک ڈرگز ہیں جو مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹرون کے اثرات کی نقالی کرتی ہیں، چنانچہ یہ مردوں کی جنسی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔


رپورٹ کے مطابق سٹیرائیڈز کی زیادہ مقدار لینے والے مرد وں میں جنسی تحریک کم ہو جاتی ہے، عضو مخصوصہ کی ایستادگی کمزور پڑ جاتی ہے اور ان میں سپرمز کی تعداد بھی کم ہو جاتی ہے۔ سٹیرائیڈز چھوڑنے کے کئی سال بعد تک ان کے مردوں کی جنسی صحت پرپڑنے والے یہ منفی اثرات برقرار رہتے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جان جے راسموسین کا کہنا تھا کہ ہماری اس تحقیق میں کئی ایسے مرد بھی شامل تھے جو 32ماہ پہلے سٹیرائیڈز چھوڑ چکے تھے لیکن ان کو مذکورہ جنسی عارضے تاحال لاحق تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Mar-2021/1261429?fbclid=IwAR0YwzqYg6hbQyMOm9XJZiYc8xvw4_0oigo2-mUrdgn3hBji4m1DCNsEebc


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)صارفین کی آنکھوں کو موبائل فون اور کمپیوٹر کی سکرینوں کی روشنی سے پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لیے ایپلی کیشنز اپنے ’ڈارک ورژن‘ متعارف کرا رہی ہیں۔ فیس بک کی طرف سے ’فیس بک ویب سائٹ‘ اور فیس بک لائٹ ایپ پر پہلے ہی ڈارک موڈ مہیا کیا جا چکا تھا اور اب یہ فیس بک کی اینڈرائیڈ اور آئی او ایس ایپس کے لیے بھی دیا جا رہا ہے، جس کا فیس بک صارفین کو طویل عرصے سے انتظار تھا۔

انڈیاٹائمز کے مطابق جو صارفین فیس بک کے ڈارک موڈ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں انہیں سب سے پہلے گوگل پلے سٹور یا ایپل ایپ سٹور میں جا کر اپنی فیس بک ایپلی کیشن کو ’اپ ڈیٹ‘ کرنا ہو گا۔ ایپ کو اپ ڈیٹ کرنے کے بعد سیٹنگز میں جائیں جہاں آپ کو ’ڈارک موڈ‘ کا آپشن نظر آ جائے گا۔ اسے آپ وہاں سے ’آن‘ یا ’آف‘ کر سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق یہ فیچر تاحال تمام دنیا کے صارفین کے لیے میسر نہیں ہے۔ فی الحال اسے مخصوص ممالک میں متعارف کرایا گیا ہے اور بتدریج اسے دیگر ممالک میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Mar-2021/1260522?fbclid=IwAR0Nu2DMhUJZ7xTvAQ6nxVMo1Q2_ljWsozYoyYnMT25ta3y1NeHi1ygkoo0


اوٹاوا(مانیٹرنگ ڈیسک) مچھلی بے شمار طبی فوائد کی حامل خوراک ہے اور اب کینیڈین سائنسدانوں نے اس کا ایک اور حیران کن فائدہ بتا دیا ہے ۔ میل آن لائن کے مطابق کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 158ممالک کے ایک لاکھ 90ہزار لوگوں کے طبی ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد نتائج میں بتایا ہے کہ ہفتے میں صرف دو بار(175گرام) مچھلی کھانے سے آدمی کی دل کی بیماریوں کے سبب موت ہونے کا خطرہ 20فیصد کم ہو جاتا ہے۔

اس لوگوں کے طبی ڈیٹا کے تجزیہ میں معلوم ہوا کہ جو لوگ ہفتے میں دو بار مچھلی کھاتے تھے ان میں اچانک موت ہونے کا خطرہ 21فیصد، مجموعی طور پر شرح اموات 18فیصد اور ہارٹ اٹیک سے موت کا خطرہ 16فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو یہ فوائد مچھلی میں پائے جانے والے اومیگا تھری ایسڈز کی بدولت حاصل ہوتے ہیں جو کہ دل کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔یہ بلڈپریشر کو مستحکم رکھتے اور سٹروک، ہارٹ اٹیک اور بڑھتی عمر میں ڈیمنشا جیسے امراض سے بچاتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Mar-2021/1260987?fbclid=IwAR17BKp7HC2FSGLUKSDe16z1FpYzeYHjB5Q0fCdcJTeM3np_WEt1Ti-VvY8


ہالینڈ:
کورونا وبا کو ایک سال سے زیادہ ہوگیا اور اب دنیا بھر میں پلاسٹک کے ساتھ ساتھ چہروں پر پہنے جانے والے ماسک کا ڈھیر خشکی اورپانی کو آلودہ کررہا ہے۔ لیکن اب ہالینڈ کی ایک خاتون نے ایسا ڈسپوزیبل فیس ماسک بنایا ہے جسے استعمال کے بعد پھینکنے کی بجائے مٹی میں دبادیں تو وہاں پھول اگ آئیں گے۔

ہالینڈ کی مشہورمصور ماریانہ ڈی گروٹ پونز، الترخت شہر میں اپنا اسٹوڈیو رکھتی ہیں۔ اور انہوں نے ایسا فیس ماسک بنایا ہے جس کا مٹیریئل زمین میں دبانے کے بعد تیزی سے گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر موجود پھولوں کے بیج باہر نکل آتے ہیں اور یوں اگرمناسب ماحول اور مٹی مل جائے تو وہاں پھول اگنے لگتے ہیں۔

ماریانہ اپنی ڈیزائننگ اور پینٹنگ میں بھی ماحول کا خیال رکھتی ہیں۔ ان کے روغن زہریلے اجزا سے پاک ہیں اور وہ کینوس کا کاغذ بھی بازیافت (ری سائیکل) شدہ اجزا سے حاصل کرتی ہیں۔ اب انہوں نے کاغذ کے پھوگ میں بعض ریشے ملاکر کووڈ 19 ماسک بنایا ہے۔ اس طرح یہ مکمل طور پر بایوڈیگریڈیبل ہے۔ دوسری جانب انہوں نے ماسک کی تہہ کے اندر پھولوں کے باریک بیج بچھادیئےہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے ماسک کی ڈوریاں کسی مصنوعی مٹیریئیل کی بجائے بھیڑ کی اون سے تیار کی ہیں جو مکمل طور پر ماحول دوست ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ماسک کے اوپر جو روشنائی لگائی ہے وہ بھی مکمل طور پر ماحول دوست ہے۔

اس ماسک کو انہوں نے میری بی بلوم کا نام دیا ہے جو ہالینڈ کے علاوہ جرمنی میں دستیاب ہے۔ بہت جلد دنیا کے دیگر علاقوں تک بھی یہ ماسک فروخت کے لئے دستیاب ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2151939/508/


کیلفورنیا: سبز اور سیاہ چائے میں پہلے سے موجود دو کیمیائی اجزا کے معلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (یوسی ایل) ، اِرون کے سائنسدانوں نےکہا ہے کہ دونوں طرح کی چائے میں ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو خون کی رگوں میں آئن چینل پروٹین کو سرگرم کرکے نسوں اور رگوں کو آرام کی صورت میں رکھتے ہیں اور اس طرح بلڈ پریشر بڑھنے کو روکتے ہیں۔

اس طرح بلڈ پریشرمعمول پر رکھنے والی نئی ادویہ کی تیاری کی راہیں بھی کھلیں گی۔ یو سی ایل میں فزیالوجی کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر جیفرے ایبٹ اور ان کی ساتھی کیٹلن ریڈفورڈ، نے کہا ہے کہ چائے میں کیٹاچِن قسم کے دو عدد فلے وینوئڈ پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک خون کی نالیوں میں موجود ’کے سی این کیو فائیو‘ نامی آئن چینل کو سرگرم کرتا ہے۔ یہ پروٹین ہموار پٹھوں کے اندر بکثرت ہوتا ہے جہاں خون کی چھوٹی بڑی رگیں بھی موجود ہوتی ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ چائے کے مخصوص اجزا ، ’کے سی این کیو فائیو‘ چینل کو تیزی سے کھولتے ہیں۔ اس طرح رگیں سکڑتی نہیں اور خون کا بہاؤ ہموار انداز میں جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چینل کو سرگرم کرکے بلڈ پریشر میں اضافے کو قابو کیا جاسکتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ شاید چائے کے یہ دونوں اجزا خون کی رگوں کو اس لحاظ تک بہتر رکھتےہیں کہ اس سے مرگی اور دماغی امراض میں کمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا اصرار ہے کہ سیاہ چائے میں دودھ یا پاؤڈر نہ ڈالا جائے بلکہ اسے قہوے کی طرح ہی استعمال کیا جائے۔
https://www.express.pk/story/2152354/9812/


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108176978&Issue=NP_PEW&Date=20210309


کراچی سے نیویارک کا فاصلہ 3گھنٹے میں طے کرنیوالا طیارہ
سپر سونک طیارہ تیار کیا جارہا ہے جو لندن سے نیویارک کا فاصلہ محض 90 منٹ میں طے کرسکے گا

لاہور(نیٹ نیوز)اس طیارے کو بنانے والی کمپنی نے بتایا کہ سپائیک ایس 512 سپرسونک جیٹ میں 18 مسافر سفر کرسکیں گے ، جن کیلئے بیڈ اور کھانے کا ایریا بھی ہوگا جبکہ فلیٹ سکرین ٹی وی بھی طیارے کا حصہ ہوں گے ۔مگر اس طیارے میں کوئی کیبن ونڈو نہیں ہوگی تاکہ ایندھن کی بچت ہوسکے ۔سپائیک ایرو سپیس کے بانی اور سی ای او وک کاچوریا نے بتایا کہ اگرچہ پرواز سستی نہیں ہوگی مگر بتدریج اس کی قیمت دیگر کمپنیوں کے بزنس کلاس ٹکٹوں کے برابر آجائے گی۔آغاز میں اس طیارے کی رفتار 1975 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی، تاہم کمپنی کو توقع ہے کہ ایک دہائی میں یہ رفتار 3951 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھ جائے گی، اس طرح یہ کراچی سے نیویارک کا فاصلہ 3 گھنٹے میں طے کرسکے گا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-09/1789422


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108175587&Issue=NP_PEW&Date=20210308


ابو ظہبی:
رنگ اندھے (کلربلائنڈنیس) میں مبتلا افراد کبھی آسمان بھورا دیکھتے ہیں یا گھاس سرمئی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس کمی کو دور کرنے کے لیے اب گلابی رنگ کے کانٹیکٹ لینس بنائے گئے ہیں جو کئی طرح کی کلربلائنڈنیس کا ازالہ کرسکتی ہے۔

اگرچہ مخصوص رنگوں والی عینک پہننے سے یہ کیفیت کم ہوسکتی ہے لیکن وہ دھندلی بصارت کو کسی طرح بھی درست نہیں کرسکتی۔ دوسری جانب رنگدار عدسے صرف سرخ کلربلائنڈنیس کو ہی درست کرسکتے ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات اور برطانوی ماہرین نے سونے کے نینوذرات سے بنے کانٹیکٹ لینس تیار کئے ہیں جن کا رنگ ہلکا گلابی ہے۔

اے سی ایس نینو نامی جرنل میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ابوظہبی میں واقع خلیفہ یونیورسٹی کے احمد صالح اور ان کے ساتھیوں نے برطانوی جامعہ کے اشتراک سے یہ لینس بنایا گیا ہے۔ پوری دنیا میں 8 فیصد مردوں اور 0.5 خواتین میں پیدائشی طور پر کلربلائنڈنیس موجود ہوتی ہے۔

اس مرض میں مبتلا اکثر افراد سرخ سبز رنگوں کو نہ پہچاننے کے عارضے میں مبتلا ہوتےہیں۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے احمد صالح اور حیدربٹ نے سونے کے انتہائی باریک نینوذرات پر مبنی لینس بنائے ہیں جو روشنی کو فلٹر کرتے ہیں اور بعض رنگوں کو درست کرکے بصارت تک پہنچاتے ہیں۔ یہ لینس ایک عرصے سے رنگدار شیشے بنانے میں استعمال ہورہے ہیں۔

اس کے لیے40 نینومیٹر تک کے نینوذرات کو ہائیڈروجل بھرے پالیمر میں یکساں طور پر شامل کیا گیا ہے جس سے لینس ہلکے گلابی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ 520 سے 580 نینومیٹر کی روشنی فلٹر کرتے ہیں۔ انہیں پہننے پر آنکھوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اگلے مرحلے میں انہیں مریضوں کو لگا کر ان کا تجزیہ کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2151923/9812/


کراچی:
پنک پاکستان کی جانب سے بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض سے آگاہی کے لیے ایک ایپ متعارف کرائی گئی ہے جس میں مرض سے متعلق اہم معلومات، ماہرین کا پینل اور مفت علاج کی سہولت موجود ہے۔

خواتین میں بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی بروقت تشخیص کامیاب علاج کی ضمانت ہے لیکن اکثر خواتین کو اس مرض سے مکمل آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔


بریسٹ کینسر بھی کینسر کی دیگر اقسام کی طرح ایک بیماری ہی ہے لیکن معاشرے میں اس کے بارے میں بات کرنے کو شجر ممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے اور کئی خواتین شرم یا جھجھک کے باعث بیماری سے متعلق کسی کو نہیں بتاتیں، یہاں تک کہ یہ مرض آخری اسٹیج تک پہنچ جاتا ہے۔

اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے خواتین کی صحت اور بالخصوص کینسر پر کام کرنے والے ’ دی پنک پاکستان‘ نے بریسٹ کینسر سے متعلق اپنی نوعیت کی ایک منفرد ایپلی کیشن متعارف کرائی ہے جو پاکستان کے طول و ارض میں رہنے والی خواتین کو نہ صرف مرض سے آگاہی بلکہ مفت علاج کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔

اس حوالے سے پنک پاکستان کی صدر ڈاکٹر زبیدہ قاضی کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر سے صحت یابی کے لیے سب سے اہم بات مرض کی بروقت تشخیص ہے اس لیے ہماری پہلی ترجیح مریضوں کو بنیادی معلومات فراہم کرنا اور ازخود معائنہ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہے۔

انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کے مطابق پاکستان میں صرف گزشتہ برس 25 ہزار 928 خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی جب کہ 13 ہزار 725 خواتین اس موذی مرض سے زندگی کی بازی ہار گئیں۔

یہ ایپ مقامی زبانوں میں دستیاب ہونے کی وجہ سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے مفید ہے اور سب سے خاص بات یہ کہ ایپ خواتین کو بریسٹ کینسر کی ازخود تشخیص یا طریقہ کار سے اگاہی دیتی ہے۔

ان سادہ اور آسان طریقوں سے خواتین اپنا معائنہ خود کرکے بریسٹ کینسر کی تشخیص کسی لیبارٹری یا اسپتال جائے بغیر گھر ہی پر کرسکتی ہیں۔

بریسٹ کینسر کی از خود تشخیص

بریسٹ کینسر کی اولین علامات گٹھلیوں کا بننا ہے جس کی بروقت تشخیص کے لیے ایپ میں سادہ اور آسان طریقوں کو مقامی زبانوں میں پیش کیا گیا ہے جس دیکھ کر ازخود تشخیص کی جاسکتی ہے۔

ماہر معالجین سے رابطہ

بریسٹ کینسر کی تشخیص کے بعد اہم مرحلہ ماہر معالجین سے علاج کرانا ہے۔ ’پنک پاکستان‘ کے پاس قابل اور تجربہ کار بریسٹ اسپیشلسٹ موجود ہیں جن کی مفت خدمات صارفین کو پیش کی جائیں گی۔

مریضوں کے درمیان گفتگو کا فورم

اس ایپ میں صحت یاب مریضوں اور نئے مریضوں کے لیے ’’ڈسکشن فورم‘‘ بھی ہے جہاں صحت یاب مریض اپنے تجربے سے نئے مریضوں کو آگاہ کرتے ہیں جو نئے مریضوں کی حوصلہ افزائی اور مرض سے متعلق براہ راست معلومات کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے۔

ایپ صوبائی زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ایپ کی منفرد بات اس کا صوبائی زبانوں میں دستیاب ہونا ہے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ پاکستان کے تمام علاقوں میں رہنے والی خواتین کے لیے یکساں طور پر کارآمد ہے۔

ایپ گوگل اسٹور سے انسٹال کی جاسکتی ہے۔
Pink Pakistan – Apps on Google Play
http://www.express.pk/story/2151824/9812/


لندن:
پوری دنیا میں تیزی سے وائرل ہونے والی تصویر میں تین بڑے بحری جہاز اور کروز شپس کو پانی کی حد سے اوپر ہوا میں معلق دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ منظر ڈیون میں واقع پینٹن ساحل پر دیکھا گیا ہے جس میں سارا احوال ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ اسے ایک خوبصورت پوسٹر تصویر قرار دی جاسکتی ہے۔ اس میں گمان ہوتا ہے کہ گویا سمندری جہاز ہوا میں اڑرہے ہیں یا معلق ہیں۔

ماہرین کے مطابق اسے سمندری سراب جیسا بصری دھوکا کہا جاتا ہے جسے تکنیکی طور پر ’فاٹا مورگانا‘ کہا جاتا ہے۔ فاٹامورگانا میں جب سورج کی حدت سے سمندر یا زمین کے اوپر کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو اس فرق سے روشنی کی شعاعیں مڑ جاتی ہیں اور ریگستان میں پانی نما شے یا سمندر پر کشتیاں ہوا میں معلق دکھائی دیتی ہیں۔

اس عمل میں سرد ہوا کی تہہ پر گرم ہوا موجود ہوتی ہے اور بحری جہاز سے آنے والی روشنی ترچھی ہوجاتی ہے اور بحری جہاز افق پر بلند نظر آتا ہے۔ تصویر میں آگے کی جانب موجود سمندری پرندوں نے اس منظر کو مزید حقیقی اور خوبصورت بنادیا ہے۔

بعض افراد کے مطابق کووڈ 19 کی وبا میں برطانیہ میں سمندری جہازوں کی آمدورفت روک دی گئی ہے اور شاید یہ تمام جہاز سمندر میں لنگر ڈالے موجود ہیں۔

ایسی ہی ایک اور تصویر گزشتہ برس لی گئی تھی جس میں ابرڈین شائر کے ساحلوں پر ایک سرخ رنگ کا سمندری جہاز ہوا میں معلق دکھائی دے رہا ہے۔
Daily Express , Dated : 07-Mar-21


لمبے کانوں والے جنگلی چوہے ’’جربوا‘‘ کا ہاتھی سے مقابلہ

جانوروں میں افریقی ہاتھیوں کے کان سب سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں تاہم جانوروں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بتایا ہے

لاہور(نیٹ نیوز)جانوروں میں افریقی ہاتھیوں کے کان سب سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں تاہم جانوروں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ ہاتھی کے علاوہ ایک اور جانور ہے جس کے قدرتی طور پر بڑے کان ہوتے ہیں۔ جنگلی چوہا ’’جربوا‘‘ کرہ ارض کا وہ دوسرا جانور ہے جس کے چہرہ اگر چار انچ کا ہوا تو اُس کے کان ڈیڑھ سے دو انچ کے قریب ہوتے ہیں۔ اس کے کانوں کی لمبائی اُس کے جسم کے حساب سے 40سے 50 فیصد تک ہوتی ہے جبکہ ہاتھیوں کے کان اُن کے جسم کے حساب سے 17 فیصد لمبے ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر جربوا کو ہاتھی سے بڑے کانوں والا جانور قرار دیا جاسکتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-07/1788422


بڈاپسٹ(مانیٹرنگ ڈیسک) ٹیبلٹس اور سمارٹ فونز بچوں کی ذہنی صحت پر کس قدر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں، اس حوالے سے سائنسدان کئی تحقیقات میں متنبہ کر چکے ہیں تاہم اب ہنگری کے سائنسدانوں نے ٹیبلٹس اور سمارٹ فونز کا بچوں کے لیے ایک حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ٹیبلٹس اور سمارٹ فونز کا استعمال بچوں کے دماغ کو یکسر تبدیل کر رہا ہے اور وہ چیزوں کو زیادہ باریکی سے دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر رہے ہیں۔

یوتووس لورینڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں سینکڑوں بچوںں پر تجربات کیے۔ انہوں نے بچوں کو ایک ہی تصویر دو مختلف سائز میں دکھائی۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو بچے موبائل فونز کا کم استعمال کرتے تھے انہوں نے پہلے بڑی تصویر دیکھی اور پھر اس میں چھوٹی تفصیلات پر غور کرنا شروع کیا۔ ان کے برعکس جو بچے کثرت سے فون استعمال کرتے تھے انہوں نے بڑی تصویر پر غور ہی نہیں کیا اور ابتداءسے ہی تصویر کی جزیات پر غور کرنا شروع کیا۔


تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ویرونیکا کونوک کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ سمارٹ فونز کا استعمال بچوں کے دماغ کو چھوٹی چیزوں کو پراسیس کرنے کے حوالے سے تیز تر بنا رہا ہے۔ ایسے بچے جو سمارٹ فونز زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ اشیاءپر زیادہ توجہ مرکوز کرتے اور انہیں زیادہ باریکی سے دیکھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں سمارٹ فون کا استعمال بچوں کی تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو ابھار رہا ہے۔تاہم بچوں میں سمارٹ فونز کے استعمال کا یہ فائدہ ان کی سماجی زندگی اور تخلیقانہ سوچ کی قیمت پر مل رہا ہے، کیونکہ ہماری تحقیق میں یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ سمارٹ فون زیادہ استعمال کرنے والے بچے زیادہ تنہاءرہتے ہیں اور ان میں تخلیقی سوچ کا بھی فقدان ہوتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/06-Mar-2021/1259671?


جماعت نہم کے ایک طالبعلم نے واٹس ایپ طرز کی ایک ایپ تیار کی ہے جس میں بہت سارے آپشن بھی موجود ہیں۔

فیڈرل بی ایریا کے رہائشی سید نبیل حیدر جعفری اس وقت نویں جماعت کے طالبعلم ہیں اور اور انہوں نے اپنی ایپ کا نام ایف ایف میٹنگ رکھا ہے۔ اس ایپ کو پانچ فروری کو گوگل ایپ پلیٹ فارم پر رکھا ہے جس کے ورژن ون کو ان تک سینکڑوں افراد ڈاؤن لوڈ کرچکے ہیں۔ چھ مارچ کے 12 بجے تک ایپ کو 180 سے زائد فائیو اسٹار مل چکے ہیں۔ تاہم نبیل نے کہا ہے کہ اس کی ایپ ایک لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ ہوچکی ہے۔

کراچی میں واقع ملک گیر فلاحی تنظیم کے روح رواں ظفرعباس نے اس ہونہار نوجوان نبیل کی ایک ویڈیو بنائی ہے۔ اس میں نبیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی ایپ اینڈ ٹو اینڈ اینکرپٹڈ ہے اور اس میں بصارت میں کمزور افراد کے لیے رنگوں اور فونٹ بڑھانے کا آپشن بھی موجود ہے۔اسی طرح کلربلائنڈ لوگوں کے لیے بھی رنگوں کا ایسا انتخاب رکھا گیا ہے جو وہ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

نبیل نے بتایا کہ وہ ان کا گھر شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اور انہوں نےرقم جمع کرکے دس ہزار روپے میں ایک لیپ ٹاپ خریدا اور اس پر ایف ایف (فرینڈز اینڈ فیملی) میٹنگ ایپ سازی کا آغاز کیا۔ اب تین سال کی محنت کے بعد یہ ایپ تیار ہوچکی ہے۔

نبیل کے مطابق وہ ساتویں جماعت سے اس ایپ پر محنت کررہے ہیں جس میں ویڈیو کالنگ اور وائس کالنگ کی سہولت موجود ہے۔ اس ایپ میں بہت سارے چینلز ہیں اور آپ اپنی سہولت کے حساب سے چینل بناسکتےہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس ایپ میں دو لاکھ لوگوں تک کا گروپ بنایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ایک پیغام پانچ سے چھ لاکھ لوگوں تک بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیکرٹ چیٹ کا آپشن بھی موجود ہے جس میں خود کار ڈیلیشن کا آپشن بھی موجود ہے۔

نبیل نے جے ڈی سی کی ویڈیو میں کہا ہے کہ انہیں ایک ایپل لیپ ٹاپ درکار ہے تاکہ وہ کوڈنگ کرکے ایف ایف میٹنگ کا ایپل ورژن بناسکیں۔ اس پر جے ڈی سی کے ظفرعباس نے انہیں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ نبیل نے کہا کہ ایک سال میں ایپ کا ایپل ورژن بنالیں گے۔
https://www.express.pk/story/2151264/508/


نارتھ کیرولینا:
پوری دنیا میں پیشاب کی نالی کا انفیکشن (یوٹی آئی) عام ہے اور یہ شدید تکلیف دہ کیفیت بار بار حملہ آور ہوتی ہے لیکن اب پہلی مرتبہ ایک ویکسین سے اس کیفیت کو روکا جاسکتا ہے۔

یہ ویکسین براہِ راست مثانے میں لگائی جاسکتی ہے۔ اندر جاکر یہ ان تمام بیکٹیریا کو روکتی ہے جو یوٹی آئی کی وجہ بنتے ہیں۔ بالخصوص خواتین میں یہ مرض بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہی اس کی زیادہ شکار بھی ہوتی ہیں اور بار بار اس کا نوالہ بنتی ہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین کی تیارکردہ ویکسین کی رپورٹ نیشنل اکیڈمی آف سائنسِس میں شائع ہوئی ہے۔ جامعہ کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ پیتھالوجی کے پروفیسر سومن ابراہم نے یہ ویکسین بنائی ہے۔ اگرچہ یوٹی آئی کو روکنے والی بہت سی ویکسین بنائی جاتی رہی ہیں لیکن یہ ویکسین ان سے بہت مؤثر ہے۔

ڈاکٹر سومن کے مطابق امریکہ سمیت کئی ممالک میں انتہائی تکلیف دہ یوٹی آئی عام ہے۔ ان کی ویکسین مثانے میں جاکر ان تمام بچے کچھے بیکٹیریا ختم کرتی ہیں جو پیشاب کی نالی میں جلن اور تکلیف کی وجہ بنتے ہیں۔ اس طرح ایک ویکسین اس مرض کے متعدد حملے کو بھی روک سکتی ہے۔

چوہوں پر کئے گئے تجربات کی بدولت معلوم ہوا ہے کہ نئی ویکسین مثانے کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ مسلسل ان بیکٹیریا سے لڑتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین براہِ راست مثانے میں پہنچائی جاتی ہے۔ اس طرح مثانہ یو ٹی آئی کی وجہ بننے والے ای کولائی بیکٹیریا کا صفایا کرتا ہے اور انہیں دوبارہ جمع ہونے سے روکتا ہے۔

ڈیوک یونیورسٹی کی ٹیم کا اصرار ہے کہ اس ویکسین کے تمام اجزا انسانوں کے لیے بے ضرر ہیں اور چوہوں پر اس کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم جلد ہی انسانوں پر اس نئی ویکسین کی آزمائش شروع کی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2150776/9812/


سان فرانسسكو:
واٹس ایپ نے ڈیسک ٹاپ کے لیے آڈیو اور ویڈیو کال کی سہولت پیش کردی ہے۔ چار ماہ قبل دسمبر میں واٹس ایپ کے بی ٹا ورژن میں اس کی آزمائش کی گئی تھی۔ اب یہ سہولت بتدریج پوری دنیا کے لیے پیش کردی گئی ہے۔

اس طرح لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ سے اپنے دوستوں کو ویڈیو اور آڈیو کال کی جاسکتی ہے جس کے لیے فون کی ایپ کو جاری رکھنا ہوگا اور ویب ورژن سے ڈیسک ٹاپ استعمال کیا جاسکے گا۔ یہ سہولت میک اور ونڈوز دونوں کے لیے موجود ہے۔

واٹس ایپ کے مطابق تین چار ماہ تک اس عمل کو آزمائش سے گزارا گیا ہے۔ اس کے تمام نقائص دور کرکے دیگر آپشن کو بہتر بنایا گیا ہے اور اب یہ سہولت آپ کے پاس ہے کہ آپ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتےہیں۔ اس طرح کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے آپ اوپر کی ونڈو میں آڈیو اور ویڈیو کال کرسکتےہیں اور اپنے دوستوں سے بات کرسکتے ہیں۔

تاہم یہ خیال رہے کہ ایک وقت میں ایک فرد کو ہی آڈیو یا ویڈیو کال کی جاسکتی ہے۔ واٹس ایپ کے مطابق گروپ ویڈیو یا آڈیو کال کا آپشن فی الحال پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن جلد ہی یہ سہولت بھی پیش کردی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2150846/508/


سارہ سٹیورٹ لاس انجلیز میں قائم ایک چھوٹے سے میکسیکن ریستوران میں داخل ہوتی ہیں اور سینڈوچ کی ایک قسم ’ٹورٹا‘ کا آرڈر دیتی ہیں۔

رقم کی ادائیگی کے لیے وہ کیشیئر کے کاؤنٹر پر لگی ایک سکرین پر اپنے چہرے کا عکس دکھاتی ہیں۔ ٹِپ دینے کے لیے وہ جلدی سے سکرین کے سامنے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتی ہیں۔ یوں کھانے کے عوض ادائیگی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔

اس پورے عمل میں پانچ سیکنڈ سے کم لگے ہیں اور یہ تمام عمل ’ کانٹیکٹ لیس‘ یعنی بغیر کسی چیز کو چھوئے مکمل ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ سارہ سٹیورٹ کو نہ تو اپنا موبائل فون اپنے پاس رکھنا پڑا اور نہ ہی کسی بینک کا کارڈ۔ اور نہ ہی کسی اور قسم کی شناخت کی چیز۔ ادائیگی کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے انھیں اپنا پن نمبر بھی نہیں ڈالنا پڑا۔ تو جناب چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی کرنے والی مستقبل کی دنیا میں آپ کا خوش آمدید۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ کسی سائنس فکشن فلم کا سین لگے لیکن چین کے مختلف شہروں میں اس طرح کی ادائیگیاں دن میں لاکھوں مرتبہ پہلے ہی ہو رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو اب امریکہ اور دوسرے ممالک جیسے ڈنمارک اور نائجیریا میں متعارف بھی کرایا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم سب آیندہ چند برسوں میں اس کا استعمال کر پائیں گے؟ اور کیا اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے دوران ہمیں ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی کے معاملات کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے؟

18 سالہ یونیورسٹی کی طالبہ سارہ سٹیورٹ کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ٹیکنالوجی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ لوگ اس طرح کے استعمال کے بارے میں دوسری مرتبہ نہیں سوچتے۔ ہمارے فون ہمارے چہرے پڑھتے ہیں اور ہمارے چہرے پہلے ہی انٹرنیٹ پر موجود ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتی کہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ تیز رفتار ہے، زیادہ آسان ہے اور محفوظ ہے۔۔۔ اور آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنا فون یا کارڈز گھر پر چھوڑ آئے ہیں۔‘

وہ امریکی ٹیک سٹارٹ ایپ ’پاپ آئی ڈی‘ کے ذریعے چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ آپ اس کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے چہرے کی تصویر اپ لوڈ کر کے سائن اپ کرتے ہیں، جو فرم کے ’ کلاؤڈ بیسڈ سسٹم ‘ میں محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بعد آپ اپنے اکاؤنٹ کو اپنے بینک کارڈ سے لنک کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ ٹپ دینے کے لیے پاپ آئی ٹی کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ ہاتھ کے چند اشارے ہیں۔ سٹیورٹ نے اوپر کے طرف انگوٹھے کے نشان کو 10 فیصد ٹپ کے لیے، انگلیوں کے ذریعے وکٹری یا امن کے نشان کو 15 فیصد اور شاکا یا ’مجھے کال کرو‘ کے نشان کو 20 فیصد پر سیٹ کیا ہوا ہے۔

پاپ آئی ڈی کا دفتر لاس اینجلس میں ہے اور اب امریکہ کے مختلف شہروں میں تقریباً 70 ریستوراں اور کیفے اسے استعمال کر رہے، خاص طور پر ویسٹ کوسٹ پر۔ پاپ آئی ڈی کے چیف ایگزیکٹیو جان ملر کہتے ہیں کہ ’ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ادائیگی کے لیے اپنا چہرہ استعمال کرنا اپنا فون استعمال کرنے سے مختلف نہیں ہے۔ یہ صرف اپنی شناخت کا ایک اور طریقہ ہے۔ (سیل کے وقت لی گئی ڈیجیٹل) تصویر کو فوری طور پر ختم کر دیا جاتا ہے، اور ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا۔‘

بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی کرنے سے زیادہ محفوظ ہے کیونکہ فون جی پی ایس کے ذریعہ ہر وقت آپ کی لوکیشن کا سراغ لگا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاپ آئی ڈی اصل تصاویر کو نہیں بلکہ چہرے کے منفرد ویکٹرز یعنی خطِ حامل کے ریاضیاتی نقشے محفوظ کرتا ہے۔

آج کل پاپ آئی ڈی کے استعمال کے لیے عارضی طور پر اپنا فیس ماسک نیچے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا نظام اپ ڈیٹ کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایسا نہ کرنے پڑے۔

یہاں سے کچھ سات ہزار میل دور چین کے شہر گوانگزو میں ایک اور طالب علم کے ذہن میں چہرے کے ذریعے ادائیگی کی ٹیکنالوجی ہے۔ لنگ (جو اپنا اصلی نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں) کا کہنا ہے کہ ان کی سن یات سین یونیورسٹی کے رہائشی بلاک میں وینڈنگ مشین سے کھانا خریدنے کا اب یہی واحد طریقہ ہے۔

لاس انجلیز میں بیٹھی سارہ کے برعکس، لنگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے اتنی خوش نہیں ہیں۔ ان کو تشویش ہے کہ اس سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے اور وہ اسی وجہ سے اسے استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ٹیک جوار بھاٹا کی طرح ہے اور ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ اس کی مخالف سمت تیر سکیں۔ لیکن میں پھر بھی ایک قسم کا مؤقف اختیار کیے ہوئے ہوں، اور جب تک ہو سکے اس پر قائم رہوں گی۔‘ اگر سمجھا جائے کہ ٹیکنالوجی واقعی ایک جوار یا اونچی لہر ہے تو پھر چین میں چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کی ٹیکنالوجی کا رول آؤٹ واقعی ایک سونامی سے کم نہیں۔

چین میں تقریباً 98 فیصد موبائل کے ذریعے ادائیگیاں صرف دو ایپس سے کی جاتی ہیں۔ ایک ہے علی پے (جو علی بابا کی ملکیت ہے) اور دوسری ہے وی چیٹ پے۔ اور یہ دونوں ہی ملک بھر میں چہرے کی شناخت کے نظام کو لانے کی دوڑ میں مصروف عمل ہیں۔

علی پے تین سالوں میں اس پر تین ارب یوآن (42 کروڑ ڈالر) خرچ کرے گا اور چینی سرکاری میڈیا کے مطابق اگلے سال تک 76 کروڑ افراد چہرے کی شناخت کی ادائیگی کا نظام استعمال کریں گے۔

صوبہ ہینان کے لویانگ وکیشنل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وینگ بینگ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس میں تیزی لائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین میں کووڈ کے تجربے نے لوگوں کو چہرے کی شناخت کے نظام میں لانے کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ سافٹ ویئر اور کیمرے کا نظام اتنے اعلی درجے کا ہے کہ اس کے ساتھ چالاکی کرنا ناممکن ہے، جیسا کہ کسی کی تصویر چوری کر لینا۔ یہ ٹیکنالوجی جڑواں بچوں کے درمیان بھی فرق کر سکتی ہے۔

لیکن کیا باقی دنیا میں بھی یہ ٹیکنالوجی آ جائے گی؟ بینکنگ اور مستقبل میں ادائیگی کے نظام کے ماہر بریٹ کنگ کا خیال ہے کہ اگر حکومتیں اسے روکنے کا فیصلہ نہیں کرتیں تو ایسا ضرور ہو گا۔ بینکنگ 4.0 نامی کتاب کے مصنف بریٹ کنگ کہتے ہیں کہ آپ کے چہرے کی صحیح پیمائش اور خصوصیات دراصل آپ کے اکاؤنٹ کے پاس ورڈز سے زیادہ محفوظ ہیں۔ فیشل پیمنٹ بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل شناختی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔۔۔ میں پرائیویسی (رازداری) کے بارے میں خدشات کو سمجھتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حفاظت اور سلامتی کے لیے (چہرے پر مبنی) ڈیجیٹل شناخت کا ڈھانچہ ناگزیر ہے۔ (ڈیجیٹل) ادائیگیاں، لین دین اور سروسز ہماری زندگی اور ہماری دنیا کا زیادہ سے زیادہ حصہ بن گئی ہیں، اور اس کے لیے یقیناً بائیومیٹرکس کی ضرورت ہو گی، کیونکہ پاس ورڈز اتنے محفوظ نہیں ہیں۔‘

بریٹ کنگ نے مزید کہا کہ ایپل فون کے بہت سارے صارفین اپنے ہینڈ سیٹس تک رسائی کے لیے چہرے کی شناخت والی ٹیکنالوجی خوشی خوشی استعمال کر رہے ہیں اور چہرے کی ادائیگی کا نظام اسی کی ہی توسیع ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ شاید امریکی ریگولیٹرز اس ٹیکنالوجی پر غور کریں۔ کیونکہ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب چہرے کی شناخت کے نظام کے بارے میں تشویش بڑھی ہے۔

امریکی کانگریس میں کچھ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ اس سال ایک بل کو دوبارہ پیش کیا جائے تاکہ اس ٹیکنالوجی کو روکا جائے جسے ایف بی آئی جیسے وفاقی ادارے مشتبہ ملزمان کی شناخت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسے خدشات بھی ہیں کہ اویغر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی شناخت کے لیے چین میں چہرے کی شناخت کا نظام استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاپ آئی ڈی کے جان ملر کا کہنا ہے کہ وہ کارڈ کی ادائیگی کرنے والی اہم کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی کو ایپل پے اور گوگل پے جیسی موبائل فون ایپس کو نظرانداز کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ فون پر انحصار کرنا نہیں چاہتے، کیونکہ ایپل ایک ایسی کمپنی ہے جو انھیں دھمکا سکتی ہے۔ لہذا ادائیگی کے نظام کو براہ راست کارڈ سے چہرے پر منتقل کرنے کا خیال انھیں بہت دلکش دکھائی دیتا ہے۔‘

اس کے باوجود ملر تسلیم کرتے ہیں کہ چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی ایک ایسا خیال ہے جسے کچھ لوگ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ ’آبادی کا ایک طبقہ اسے کبھی نہیں اپنائے گا، اس سے قطع نظر کہ آپ فون سے اس کا موازنہ کرنے کے حوالے سے اس میں کتنی ہی منطق ڈال دیں۔ کیونکہ ان کے لیے یہ صرف ایک نفسیاتی (مسئلہ) ہے۔‘
( بشکریہ بی بی سی )
https://www.express.pk/story/2141725/508/


لاہور:
پنجاب کے ضلع حافظ آباد کا علاقہ پنڈی بھٹیاں میں کلر اورشورزدہ اراضی کو قابل کاشت بنانے کے لئے پاکستانی زرعی ماہر کا تیار کردہ نامیاتی مائع استعمال کیا گیا ہے جس سے 100 سال سے بنجراورکلرزدہ زمین کی حالت ہی بدل گئی ہے۔

پنجاب میں کلراور شورزدہ رقبہ 37 لاکھ 14 ہزارایکڑ سے زائد ہے اوراس میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، تحقیقاتی ادارہ شورہ زدہ اراضیات کئی دہائیوں سے ان ایسی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کی کوشش میں لگا ہے۔ تحقیقاتی مرکز کے پرنسپل سائنسدان غلام عباس ونڈ نے بتایا کہ اس وقت کلراور شورزدہ اراضیات کو قابل کاشت بنانے کے لئے جپسم اور تیزاب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جپشم اورتیزاب کا انتخاب زمین میں نمک کی مقدار کو دیکھ کرکیاجاتا ہے ۔ اہم اس طریقہ سے اراضی کوقابل کاشت بنانے میں کافی عرصہ درکارہوتا ہے اور پھر یہ عمل مسلسل کرنا پڑتا ہے۔ اب یہاں جو نامیاتی مائع استعمال کیا گیا ہے اس کے حیرت انگیز نتائج آئے ہیں، استعمال کے صرف پانچ دن بعد ہی زمین میں کینچوے بننا شروع ہوگئے ہیں اور زمین نے پانی جذب کرنا شروع کردیا ہے۔

تحقیقاتی ادارہ شورزدہ اراضیات کے آفتاب احمدشیخ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اس وقت ان کا ادارہ کلراورشورزدہ اراضیات کوقابل کاشت بنانے کے لئے تسلیم شدہ طریقہ ہی استعمال کررہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں پانی کی کمی، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت ، طویل عرصہ تک زمینوں کوکاشت نہ کرنے سے کلراورشورہ زدہ اراضی کارقبہ بڑھ رہا ہے جوکہ تشویش ناک ہے۔

آفتاب احمد شیخ کہتے ہیں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سید بابربخاری نے جو نامیاتی لیکیوئیڈ فارمولاتیارکیا ہے اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں، اب ہم اس مٹی کا لیبارٹری میں تجزیہ بھی کریں تاکہ یہ دیکھاجاسکے کہ مٹی کے اجزامیں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ایک انقلاب ہوگا

پنڈی بھٹیاں کے جس علاقے میں اس فارمولے کواستعمال کیا گیا ہے وہاں اب گندم کاشت کی گئی ہے جبکہ اس کھیت کے ساتھ ہی کلراورشورہ زدہ وسیع وعریض رقبہ موجود ہے جس پر سفید کلرکی تہہ جمی نظرآتی ہے۔

نامیاتی مائع فارمول اتیار کرنے والے سید بابربخاری نے بتایا کہ اس فارمولے سے ریتیلی اور پتھریلی زمینوں پربھی مختلف باغات کی کاشت کی جاچکی ہے جب کہ اس سے فصلوں کی مجموعی پیداوار اور صحت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس نامیاتی مائع کو پانی میں شامل کرکے زمین کو سیراب کیا جاتا ہے، چند ہی دن میں اس زمین میں کینچوے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو کلرزدہ مٹی کو کھاتے اور پھر جو مادہ خارج کرتے ہیں اس سے زمین مستقل طور پر زرخیز ہوجاتی ہے۔ ایک ایکڑ کے لئے دو لیٹر مائع استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مائع سمندری زرعی بوٹیوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے استعمال سے فصلوں میں کیمیائی کھادوں اور زہروں کے استعمال کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے جب کہ یہ روایتی کھادوں اور زہروں کے مقابلے میں انتہائی سستا بھی ہے۔

سید بابر بخاری کے مطابق حکومت اگراس فارمولے کوتسلیم کرلیتی ہے تولاکھوں ایکڑرقبے کوقابل کاشت بنایاجاسکتا ہے جس سے ملک میں بیروزگاری اورغربت کا خاتمہ ہوگا اورزرعی پیداوارمیں بھی اضافہ ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2149970/1/


نیوزی لینڈ:
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے نیوزی لینڈ کے ساحلوں کے قریب گہرے پانی میں تین نئی اقسام کی شارک دیکھی ہیں جو اندھیرے میں چمکتی ہیں۔

ان میں سے کائٹ فن شارک بھی شامل جسے کرہِ ارض پر دمکنے والے سب سے بڑے فقاریئے (ورٹیبریٹ) کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ یہ شارک چھ فٹ کے قریب تک بڑی ہوسکتی ہے جو 180 سینٹی میٹر کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ بلیک بیری لینٹرن شارک اور سدرن لینٹرن شارک میں بھی چمک دیکھی گئی ہے۔

اگرچہ سائنسداں پہلے بھی ان تمام انواع سے واقف تھے لیکن کسی نے بھی ان شارک میں چمک نوٹ نہیں کی تھی۔ یہ مظہر حیاتیاتی دمک یا بایو لیومنیسیئنس کہلاتا ہے۔ ہم جگنوؤں، جیلی فش اور دیگر بہت سے جانداروں میں یہ مظہر دیکھتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام شارک کے پیٹ کا نچلے حصے دمکتے ہیں۔ یہ خاصیت انہیں حملہ آوروں سے بچاتی ہیں۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ حیاتی کیمیائی روشنی شارک کے پیٹ پر موجود ہزاروں ایسے خلیات سے خارج ہوتی ہے جو رات میں روشنی خارج کرتے ہیں۔ ان خلیات کو فوٹوفورس کہا جاتا ہے جو اس کی جلد پر جابجا موجود ہوتے ہیں۔

جن مقامات پر یہ تمام شارکس ملی ہیں وہ میسوپلیجِک زون کہلاتا ہے جو سمندر میں 200 سے 1000 میٹر گہرا ہوتا ہے اور یہاں چھپنے کی جگہ کم کم ہوتی ہے اسی وجہ سے شارک نے چمکنے دمکنے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔

اس تحقیق میں نیوزی لینڈ کے قومی آبی و فضائی انسٹی ٹیوٹ اور بیلجیئم کی کیتھولِک یونیورسٹ نے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2150677/509/


ٹوکیو:
عموماً پیدائشی بچوں کی اکثریت کسی نہ کسی درجے کے یرقان (جونڈائس) کی شکار ہوجاتی ہے۔ اب فوری طور پر تشخیص کے لیے استعمال میں آسان آلہ بنایا گیا ہے۔ ساتھ یہ نظام بچوں کی دیگر جسمانی کیفیات پر بھی نظررکھتا ہے۔ اس آلے کو پہنا جاسکتا ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا ویئرایبل بھی ہے۔

پیدائشی بچوں کی اکثریت کے خون میں بلِی ریوبن کی سطح بڑھنے سے بچے کی رنگت پیلی پڑجاتی ہے۔ معاملہ بگڑنے پر بچے کی جان پر بھی بن آتی ہے اور عموماً دماغ متاثر ہوتا ہے۔ اگرپیدائشی بچے کو یرقان ہوجائے تو دھوپ میں بٹھانے یا پھر نیلی روشنی سے جسم کا بلی ریوبِن بکھرجاتا ہے اور پیشاب کے راستے خارج ہوجاتا ہے۔

لیکن نیلی روشنی کی درست مقداربرقراررکھنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ اسی لیے اب اس آلے سے بلی ریوبن کی ہمہ وقت درست پیمائش کی جاسکتی ہے۔ دنیا کے پہلے پہنے جانے والے سینسر کی بدولت خون میں آکسیجن کی مقدار اور نبض بھی ناپی جاسکتی ہے۔

یوکوہاما نیشنل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہیروکی اوٹا نے یہ آلہ بنایا ہے جس کی تفصیل تین مارچ کو شائع کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں آنکھ کھولنے والے 60 سے 80 فیصد بچوں کو یرقان لاحق ہوتا ہے۔ اس درجے پر یرقان پر نظررکھنا اور علاج کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح فوٹوتھراپی اور علاج آسان ہوجاتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے میٹرنٹی ہوم میں بلی ریوبینو میٹرز استعمال ہوتے ہیں لیکن اب تک ایسا کوئی آلہ نہیں بن سکا جو ایک وقت میں خون میں آکسیجن اور بچے کی نبض دونوں کو نوٹ کرسکتا ہے۔ اس طرح یہ نیا نظام بہت ہی مؤثر ہے۔ یہ آلہ ایک پٹی کی مانند ہے جسے بچے کے سر پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک خاص لینس بچے کے سر میں روشنی کی بوچھاڑ کرتا ہے اور واپس آنے والی روشنی سے خون میں موجود یرقانی مادے کی پیمائش کرتا رہتا ہے۔

اگرچہ اس وقت یہ ایک قدرے دبیز اور موٹا سینسر ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے مزید پتلا اور پہننے میں آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر اسے 50 ننھے منوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2150757/508/


امریکی سائنسدانوں نے تجربات کے دوران چوہوں کے جگر پر الٹراساؤنڈ کی لہریں مرکوز کرکے ان میں موٹاپا کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اگر یہی تدبیر انسانوں میں بھی مؤثر ثابت ہوئی تو امید ہے کہ آئندہ چند سال میں انسانی موٹاپا ختم کرنے کا ایک ایسا نیا طریقہ ہمارے پاس ہوگا جس میں دوا اور آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

تجربات کے پہلے مرحلے میں سائنسدانوں نے چوہوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا: ایک گروہ کو آٹھ ہفتوں تک روزانہ صحت بخش غذا دی گئی جبکہ دوسرے گروہ کو اس عرصے میں چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور، مغربی طرز کی غذا کھلائی گئی۔

توقعات کے مطابق، ان آٹھ ہفتوں میں چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذا کھانے والے چوہوں کی جسمانی چربی اور وزن میں صحت بخش غذا لینے والے چوہوں کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا۔

اگلے مرحلے میں ان تمام چوہوں کو، ان کی سابقہ غذا جاری رکھتے ہوئے، دو مختلف گروہوں میں بانٹا گیا: ایک گروہ کے جگر پر روزانہ مرکوز الٹراساؤنڈ لہریں (pFUS) ڈالی گئیں جبکہ دوسرے گروہ میں شامل چوہوں کے جگر پر کوئی اور سی بے ضرر شعاعوں کی بوچھاڑ کی گئی۔

یہ مرحلہ بھی آٹھ ہفتے تک جاری رہا۔

صحت بخش غذا لینے والے چوہوں سمیت، روزانہ بے ضرر شعاعوں کا سامنا کرنے والے چوہوں کی صحت کا معاملہ ویسا ہی رہا جیسا پہلے تھا۔

البتہ چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذا کے ساتھ ساتھ مرکوز الٹراساؤنڈ لہروں کی روزانہ ’’خوراک‘‘ لینے والے چوہوں میں وزن اور چربی بڑھنے کا سلسلہ خاصی حد تک قابو میں آگیا۔

وہ کم کھانے لگے، ان میں پیٹ پر کم چربی جمع ہوئی جبکہ ان میں وزن بڑھنے کی رفتار بھی کم ہوگئی۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خون میں چربی اور موٹاپے سے تعلق رکھنے والے بعض مخصوص مرکبات کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی۔

واضح رہے کہ ماضی میں بعض تحقیقات سے یہ معلوم ہوا تھا کہ جگر پر الٹراساؤنڈ لہریں مرکوز کرنے سے جگر میں موٹاپا اور چربی کم کرنے والی خصوصی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔

نیویارک میں واقع ’’فائنسٹائن انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل ریسرچ‘‘ اور ’’جی ای ریسرچ‘‘ کے ماہرین نے انہی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے چوہوں پر ابتدائی تجربات کیے جو بہت کامیاب ثابت ہوئے۔

اس تجربے اور نتائج کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2151065/9812/


چینی سائنسدانوں نے سمندر کی انتہائی گہرائی میں تحقیق کےلیے ایسا خودکار روبوٹ تیار کرلیا ہے جو بہت نرم ہونے کے علاوہ آزادانہ انداز میں تیر بھی سکتا ہے۔

حالیہ تجربات کے دوران اس روبوٹ کو سمندر کے سب سے گہرے مقام ’’ماریانا ٹرینچ‘‘ میں تیرا کر آزمایا گیا ہے۔ یہ مقام 10,900 میٹر (تقریباً 11 ہزار میٹر) گہرائی میں واقع ہے۔ قبل ازیں ابتدائی تجربات میں اسے بحیرہ جنوبی چین کی 3,224 میٹر گہرائی میں کامیابی سے تیرایا گیا تھا۔

بتاتے چلیں کہ ہم جیسے جیسے سمندر کی گہرائی میں اترتے جاتے ہیں، ویسے ویسے پانی کا دباؤ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ماریانا ٹرینچ کی گہرائی میں یہ زمینی سطح پر ہوا کے دباؤ (کرہ ہوائی کے معیاری دباؤ) سے 1,071 گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ جس پر انسان تو کیا، سطح زمین پر رہنے والا کوئی بھی جانور زندہ نہیں رہ سکتا۔

اس کے باوجود، اب تک کی چند ایک تحقیقی مہمات کے دوران سمندر کی ان گہرائیوں میں کئی طرح کے جاندار دریافت ہوچکے ہیں جو سطح زمین پر پائے جانے والے جانوروں اور پودوں کے مقابلے میں خاصے مختلف بھی ہیں۔

واضح رہے کہ سمندر کی اتھاہ و تاریک گہرائیوں تک پہنچنے کےلیے خصوصی اور مہنگی مشینوں (بالخصوص آبدوزوں اور روبوٹس) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی بناء پر یہ زمین کے اُن مقامات میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہم آج تک بہت کم جان پائے ہیں۔

البتہ، سمندر کی اِنہی گہرائیوں میں پائی جانے والی جیلی فش اور ان جیسے دوسرے جانوروں میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہوتا لیکن، نرم اور لجلجا جسم رکھنے والے یہ جانور، اس شدید دباؤ پر نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ اِدھر سے اُدھر تیرتے بھی پھرتے ہیں۔

چینی شہر ہانگ ژُو میں شی جیانگ یونیورسٹی کے تائیفینگ لی اور ان کے ساتھیوں سمندری گہرائی میں پائی جانے والی ’’گھونگھا مچھلی‘‘ (اسنیل فش) سے متاثر ہو کر ایک نرم روبوٹ ایجاد کیا ہے۔

یہ ’’نرم روبوٹ‘‘ اس لیے بھی ہے کیونکہ اس کے تمام برقی آلات، جن کا تعلق حرکت اور رہنمائی کے نظاموں سے ہے، نرم سلیکون (silicone) خول میں بند کیے گئے ہیں جو ماریانا ٹرینچ جیسی غیرمعمولی گہرائی میں بھی زبردست دباؤ بہت آرام سے برداشت کرسکتا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ اس روبوٹ میں توانائی (بجلی) کا سارا نظام اس کے اندر ہی موجود ہے۔ اس سے پہلے تک سمندری گہرائی میں جانے کےلیے جتنے بھی روبوٹ تیار کیے گئے تھے، وہ موٹی اور لمبی کیبل (تار) کے ذریعے اپنی مرکزی آبدوز سے منسلک رہتے تھے؛ اور توانائی بھی اسی سے حاصل کرتے تھے۔

یہی نہیں بلکہ یہ ’’نرم روبوٹ‘‘ کسی گھونگھا مچھلی کی طرح اپنے پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے آزادای سے تیرتا ہے اور اپنی مرکزی آبدوز سے بہت دور تک جاسکتا ہے۔

اوپر دی گئی مختصر ویڈیو کلپ ماریانا ٹرینچ کے مقام پر اس روبوٹ کی آزمائش سے متعلق ہے جس میں اسے اپنے ’’پر‘‘ پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس طرح یہ سمندری گہرائی میں کھوج کو پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر انداز میں انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ’’نرم روبوٹس‘‘ کا سب سے پہلا ماڈل یا ’’پروٹوٹائپ‘‘ ہے جسے مستقبل میں مزید بہتر بنانے کےلیے اور بھی زیادہ نرم اور ہلکے پھلکے مادّے استعمال کیے جائیں گے جبکہ حرکت پذیری اور ذہانت جیسی خصوصیات میں اضافہ کرتے ہوئے، ہر طرح کے مختلف ماحول میں کھوج کرنے کے قابل بھی بنایا جائے گا۔

اس ایجاد کی مکمل تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2150139/508/


کسان سے لے کر خریدار تک کسی بھی پھل کی تازگی کی تصدیق ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ لیکن اب جاپان میں شائبورا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایس آئی ٹی) نے بالخصوص آم کی تازگی معلوم کرنے کا جدید ترین سسٹم تیار کیا ہے۔

اس عمل میں پھل کو چھوئے اور نقصان پہنچائے بغیر اس کی نرمی کا جائزہ لیا جاتا ہے جو آم میں تازگی ناپنے کا ایک اہم طریقہ ہوتا ہے۔ جبکہ آم میں سختی کچے پن اور مزید نرمی اس کے پرانے ہونے کی علامت ہوتی ہے۔

لیکن پیکنگ سے گزرنے والے سینکڑوں، ہزاروں آموں میں سے ہر ایک کی نرمی یا سختی ناپنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے لیزر اور پلازما کی شاک ویوز (صدماتی امواج) کو استعمال کیا جاسکتا ہے جو بہت تیزی سے ہزاروں بلکہ لاکھوں پھلوں کی تازگی کی تصدیق یا تردید کرسکتی ہے۔

اس عمل میں نظام کا کوئی حصہ پھلوں کو نہیں چھوتا بلکہ لیزر سے آموں کی سطح پر پلازمہ کا ایک بلبلہ بن جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ بلبلہ پھیلتا ہے تو صدماتی امواج پیدا ہوکر پورے پھل پر پھیل جاتی ہیں۔ اب یہاں ایک آلہ لیزر ڈوپلر وائبرومیٹر ( ایل ڈی وی) ارتعاشات سے بتاتا ہے کہ پھل کتنا نرم ہے یا کس درجے پر سخت ہے۔

اس سے قبل ایس آئی ٹی کو سیب اور ایواکیڈو پر آزمایا گیا ہے لیکن آموں جیسے پھلوں کے لیے ان کا استعمال قدرے مشکل تھا۔ اب ماہرین نے تازہ آموں کی تصدیق کے لیے ایک خاص قسم کی امواج کا انتخاب کیا ہے جسے ریلی ویوز کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے تازہ آموں کی تصدیق بہت آسان ہوجائے گی اور چند منٹوں میں ہزاروں آموں کا جائزہ لینا ممکن ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2149794/508/


واشنگٹن:
مشروم اگرچہ انتہائی اہم غذائی اجزا سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن انہیں مجموعی طور پر شدید نظرانداز کیا گیا ہے۔ اب ایک مطالعے میں ان کے مزید فوائد سامنے آنے کے بعد امکان ہے کہ امریکی محکمہ غذائیات اسے باقاعدہ طور پر روزمرہ کھانوں میں شامل کرنے کی سفارش کردے گا۔

فروری 2021 میں فوڈ اینڈ نیوٹریشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ زراعت (یو ایس ڈی اے) اب اس پر غور کررہی ہے کہ مشروم کو باقاعدہ طور پر روزمرہ خوراک کا حصہ بنادیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کئی اقسام کے ایسے خردغذائی اجزا (مائیکرونیوٹریئنٹس) ہیں جو مشروم کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ دوسری جانب مشروم میں کیلوریز نہ ہونے کے برابر ہیں، سوڈیم کم کم ہے اور مضرچکنائیوں کی مقدار بہت ہی معمولی ہوتی ہیں۔

اس ضمن میں ڈاکٹر وکٹر فلگونی اور ڈاکٹر سنجیو اگروال نے مسلسل پانچ برس ( 2015 تا 2020) تک مشروم کے غذائی اجزا پر تحقیق کی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ 84 گرام مشروم کھانے سے امریکی صحت بخش غذاؤں اور میڈی ٹرینیئن طرز کی غذا کے اکثر تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔

اگر پانچ عدد سفید مشروم کھالیے جائیں تو 84 گرام کی شرط پوری ہوجاتی ہے اور پوٹاشیئم سے لے کر وٹامن بی کی تمام اقسام کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اس میں تانبا، سلینیئم، رائبوفلے وِن، نیاسن، اور دیگر اہم اجزا کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے۔

اگرسفید، کریمنی اور پورٹابیلا مشروم کو ایک ایک کے تناسب سے کھایا جائے تو اس سے بھی بہت سے اہم غذائی اجزا کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

اس سے قبل مشروم کو الزائیمر اور دیگر امراض کے تدارک میں بھی نہایت مفید قرار دیا جاتا رہا ہے۔ پنسلوانیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس پر تحقیق کی ہے اور عمررسیدہ افراد کو روزانہ پانچ عدد چھوٹے مشروم کھانے کا کہا ہے تاکہ وہ دماغی اور نفسیاتی صحت کر برقرار رکھ سکیں۔
https://www.express.pk/story/2149837/


ٹوکیو(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ اور جاپان نے زمین کے ماحول کا ایک ماڈل بنا کر یہاں زندگی کے خاتمے کے متعلق ایک حیران کن پیش گوئی کر دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق امریکی و جاپانی سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق میں بنائے گئے اس ماڈل سے معلوم ہوا ہے کہ 1ارب سال بعد ہماری زمین پر آکسیجن کا لیول اس قدر کم ہو جائے گا کہ یہاں بیشتر زندگی ختم ہو جائے گی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی چمک زمین کی سطح کے درجہ حرارت اور پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis)کے عمل کو متاثر کرے گی، جس سے ایک طرف زمین کا درجہ حرارت بہت بڑھ جائے گا اور دوسرے آکسیجن کا لیول انتہائی کم ہو جائے گا۔ تاہم یہ دونوں کام ہونے میں کم و بیش 1ارب سال کا عرصہ لگے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہماری اس تحقیق کے نتائج سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ ہمیں کتنی دیر میں کسی اور ایسے سیارے کی تلاش کر لینی چاہیے جہاں زندگی ممکن ہو۔ اگر تب تک ایسا کوئی سیارہ نہ ملا تو انسانیت نابود ہو جائے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Mar-2021/1257826?fbclid=IwAR3nAZkiDsUt5fl2BrSrJI0JGyc5zpJXzgPqlmpdtXub8qtkYDuPuv1SG5Q


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کہا جاتا ہے کہ ہمیں صحت مند رہنے اور طویل عمر پانے کے لیے روزانہ سبزیوں اور پھلوں کے پانچ پورشن کھانے چاہئیں تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ان پانچ پورشنز کے متعلق ایک تنبیہ کر دی ہے ورنہ ان پانچ پورشنز کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ میل آن لائن کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے دنیا بھر سے 20لاکھ لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کرکے نتائج میں بتایا ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کے پانچ پورشن روزانہ کھانا صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے مگر یہ تبھی فائدہ مند ہو گااور آپ طویل عمر پا سکیں گے جب ان میں ایک خاص تناسب رکھا جائے گا اور کچھ مخصوص سبزیاں وغیرہ ان میں شامل نہیں ہوں گی۔


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روزانہ 2پورشن پھل اور 3پورشن سبزیاں ہونی چاہئیں۔ سبزیوں میں نشاستے کی حامل سبزیاں، مٹر وغیرہ، اور آلوﺅں کا اس حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح پھلوں کے جوس کا بھی طویل العمری کے حوالے سے کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔ اس کی بجائے پھل کھانا قبل از وقت موت کے خطرے میں کمی لاتا ہے۔امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے جریدے کیلکولیشن میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ پھلوں کے 2اور نشاستے کے بغیر سبزیوں کے 3پورشن کھانے سے انسان کو دل کی بیماریاں اور کینسر لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور وہ طویل عمر پاتا ہے۔واضح رہے کہ ایک پورشن کا وزن سائنسدانوں نے 80گرام بتایا ہے، جو آم یا سیب کی دو بڑی قاشوں یا ایک گاجر کے برابر ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Mar-2021/1257830?fbclid=IwAR0-nRjvg9gML39Ag2GAfX2VQDNWYoh38w9FSyk2ZHH4r_fLco0qOkWUqdA


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کا خوف تاحال اس قدر ہے کہ ایک حالیہ سروے میں59فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ وہ جراثیموں اور وائرسز کے خوف سے مستقبل میں لوگوں کو ملتے ہوئے انہیں گلے نہیں لگائیں گے، بوسہ نہیں دیں گے اور حتیٰ کہ ہاتھ بھی نہیں ملائیں گے۔ تاہم ماہرین نے ایک نئی تحقیق میں بغل گیر ہونے کا ایسا فائدہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ لوگ بھی وائرس کے خوف کو ایک طرف رکھتے ہوئے لوگوں سے گلے مل کر ہی انہیں خوش آمدید کہا کریں گے۔ میل آن لائن کے مطابق ماہرین نے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ گلے ملنے سے لوگوں کو کئی طرح کی بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے اور ایسے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ طویل زندگی پاتے ہیں۔


یونیورسٹی آف لندن اور یونیورسٹی آف گولڈزسمتھس کے ماہرین نے اس مشترکہ تحقیق میں 112ممالک کے 40ہزار لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مائیکل بینیسی کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جن لوگوں کو دوسروں کے جسم کا لمس جتنا زیادہ ملتا ہے، ان کی صحت اتنی ہی بہتر ہوتی ہے اور ان میں تنہائی کا احساس اتنا ہی کم ہوتا ہے جو ان کی جسمانی و ذہنی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ تحقیق میں شامل جو لوگ دوسرے سے ملاقات کرتے انہیں گلے ملتے تھے ان میں بلڈپریشر مستحکم پایا گیا۔ اس کے علاوہ ان میں ذہنی پریشانی بھی بہت کم تھی اور ایسے لوگوں کو تکلیف کا احساس بھی کم ہوتا تھا۔اس کے مدافعتی نظام کے لیے بھی فوائد سامنے آئے، جس کے نتیجے میں لوگ کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور نتیجتاً دوسروں سے زیادہ طویل عمر پاتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/02-Mar-2021/1257827?fbclid=IwAR23CPKmuqee2xYJIJxlDUh8CbqbiUgQUP6wOL-siTuDPI1qhqtqbL9


دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اور دلچسپ تجربہ کیا گیا ہے جس میں مردہ ٹڈے کے کان کو استعمال کرتے ہوئے ایک روبوٹ کو سماعت کے قابل بنایا گیا ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس دلچسپ تجربے میں ٹڈے کا کان باقاعدہ روبوٹ سے جوڑا ہے جہاں سماعت کے برقی سگنل روبوٹ تک پہنچے اور اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے۔

اس کے بہت دلچسپ نتائج برآمد ہوئے جب کسی نے ایک تالی بجائی تو پہلے وہ جانور کے کان تک پہنچی اور اس کے برقی سگنل روبوٹ تک گئے تووہ آگے کی جانب بڑھا اور دو تالی بجانے پر الٹی جانب حرکت کرنے لگا۔ اس میں کئی اداروں کے سائنسدانوں اور انجینیئروں نے تحقیق کی ہے جس کی تفصیل سینسرز نامی جرنل میں چھپی ہے۔

اس کا مقصد حیاتیاتی نظام کو الیکٹرانکس سے جوڑنا تھا۔ اس طرح مردہ ٹڈے کی حس کو روبوٹ کی سماعت میں بدلا گیا۔ تکنیکی طور پر یہ تجربہ قدرے آسان تھا کیونکہ خوشبو سونگھنے کا عمل برقی طور پر انجام دینا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے سماعتی نظام پر غور کیا گیا ہے۔

اس طرح کسی مائیکروفون کی بجائے اصلی کیڑے کے کان کو آواز سننے کے لیے استعمال کیا گیا لیکن اگلے مرحلے میں انہیں برقی سگنل کی شکل دی گئی جسے روبوٹ کےنظام نے باقاعدہ طور پر سنا۔ لیکن یہ کام بہت مشکل تھا۔ سب سے پہلے ٹڈے جیسے کیڑے کے کان کو باریکی سے الگ کرنا ایک بہت مشکل کام تھا۔ پھر اسے الگ کرنے کے بعد زندہ رکھتے ہوئے سماعت کے لیے تیار کرنا الگ دردِ سر تھا۔ آخری مرحلے میں ہوا کے ارتعاشات (جس سے ہم سنتے ہیں) کو برقی سگنل میں تبدیل کرکے روبوٹ تک پہنچانا اس سے بھی مشکل تھا۔

اس تجربے میں ’چپ پر کان‘ نامی ایک آلہ بھی بنایا گیا جس پر کان کو ایک مائیکروچپ پر چپکاکر زندہ رکھا گیا تھا۔ اس عمل میں کان کو آکسیجن اور غذائی اجزا بھی فراہم کئے جاتے رہے۔ جبکہ کان کے نیچے برقی سرکٹ نے سننے کا عمل کو بڑھایا اور روبوٹ تک پہنچایا۔
https://www.express.pk/story/2149834/508/


ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پوری دنیا میں بالخصوص نوجوانوں کی نیند کی بربادی کی اہم وجہ اسمارٹ فون ہیں جو بستر میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔

منگل کو فرنٹیئرزان سائیکائٹری میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کنگز کالج لندن کے 1043 طلبا و طالبات کا سروے شائع ہوا ہے۔ اس میں آن لائن اور شخصی طور پر ان میں اسمارٹ فون استعمال کے عادات اور نیند کے معیار پر بات کی گئی تھی۔

دس سوالات سے ایک معیار اخذ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ طالبعلم اسمارٹ فون کی کتنے عادی ہیں۔ اس پیمانے پر 40 فیصد افراد اسمارٹ فون کی شدید لت میں مبتلا پائے گئے۔ یہ اعدادوشمار پہلے کے مشاہدات کے عین مطابق بھی تھی۔

ان میں سے کئی افراد نے کہا کہ وہ رات ایک بجے کے بعد تک اسمارٹ فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے بے خوابی کا خطرہ تین گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ جن جن طلباوطالبات نے اسمارٹ فون رات دیر تک استعمال کرنے کا اعتراف کیا ان میں نیند کا مسئلہ سب سے شدید دیکھا گیا۔ ان کی نیند کا دورانیہ بہت خراب تھا۔ وہ نیند کم لیتے تھے اور دن بھر تھکاوٹ کی شکایت بھی کرتے رہے۔

اس تحقیق پر جان ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کےڈاکٹر وسیوولوڈ پولوسکی کہتے ہیں کہ بستر پر جانے سے ایک گھنٹے قبل لیپ ٹاپ، فون اور ٹیبلٹ وغیرہ بند کردیجئے۔ انہیں کسی بھی حالت میں بستر پر نہ لے جائیں۔ ڈاکٹر پولوسکی کے مطابق فون کی ایل ای ڈی روشنی جسم میں میلاٹونِن کی مقدار کم کرتے ہیں۔ یہ ہارمون ہمیں سلانے کا اہم کام کرتا ہے۔ اگر’نیند کا یہ ہارمون‘ اچھی مقدار میں بنے گا تو پرسکون نیند کا حامل ہوگا۔

دوسری جانب ماہرین نے اسمارٹ فون کی لت کو سگریٹ نوشی سے بھی خوفناک قرار دیا ہے۔ ماہرین کے اصرار ہے کہ اسمارٹ فون کے استعمال کو ایک وبا کا درجہ دیا جائے تو دنیا بھر میں نوجوانوں کی نیند اور صحت برباد کررہا ہے۔ ڈاکٹروں نے اسمارٹ فون کے استعمال کو ایک طبی عارضہ کہا ہے جو بہت خطرناک ہوسکتا ہے اور اسے نوموفوبیا کا نام دیا گیا ہے۔

اسمارٹ فون سے دور کیسے رہیں؟

ماہرین نے اسمارٹ فون کی لت کم کرنے کے بعض طریقے بیان کئے ہیں جو اس کیفیت سے نکلنے میں مددگار ہوسکتے ہیں:

1: پہلے دن میں کئی مرتبہ فون بند کرنے کی عادت اختیار کیجئے اور اس کے بعد رات کو فون بند کرنا آسان ہوجائے گا۔

2: اگر ممکن ہو تو فیس بک اور ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا ایپس کو فون سے ہٹادیں اور صرف ڈیسک ٹاپ سے ہی دیکھیں۔

3: گھروالوں سے بات کریں، لمبی ڈرائیو پر جائیں، بچوں کی تربیت میں دلچسپی لیجئے۔

4: رات کے وقت موبائل فون کا اسکرین بلیک اینڈ وائٹ کردیجئے کیونکہ اس سے بوریت ہوتی ہے اور کشش کم ہوجاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2149734/9812/


گزشتہ ہفتے صرف دس سیکنڈ کا ویڈیو کِلپ 66 لاکھ ڈالر کی خطیررقم میں فروخت ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے میامی میں آرٹ کے نمونے جمع کرنے والے ایک شوقین پیبلو روڈریگز فریل نے 67 ہزار ڈالر میں خریدا تھا جو انہوں نے منافع پر بیچا ہے۔

اس ویڈیو کو ایک ڈجیٹل آرٹسٹ مائیک ونکل مان نے تیار کیا تھا جو بیپل کے نام سے مشہور ہیں۔ اس ویڈیو کی تصدیق بلاک چین کےذریعے کی گئی تھی جو ایک طرح کے ڈجیٹل دستخط کے ساتھ بنائی گئی ہے۔ اس پربلاک چین مہر سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ بیپل کی تخلیق ہے۔

دس سیکنڈ کی ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کے بعد ایک دیونما عفریت کی صورت میں دکھایا گیا ہے جس کی اطراف سے لوگ لاپرواہ ہوکر گزررہے ہیں۔

اگر یہ بات اب بھی سمجھ نہیں آئی تو سمجھئے کہ یہ انٹرنیٹ پر کرپٹوکرنسی اور بلاک چین کی طرح کا ایک نیا رحجان ہے جسے نان فنجیبل ٹوکن یا این ایف ٹی کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح کسی مشہور شخص کا آٹوگراف اصلی یا جعلی ہوسکتا ہے عین اسی طرح مصوروں کی پینٹنگ بھی اصلی یا جعلی ہوسکتی ہے۔ اب این ایف ٹی کا حقیقی تخلیق کار بلاک چین کے ذریعے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔

پوری دنیا میں وبا کے دوران این ایف ٹی کا رحجان پروان چڑھا ہے اور لوگوں نے اسے ڈجیٹل اثاثوں کی مانند سمجھتے ہوئےاس کی خریدوفروخت کا کام شروع کردیا ہے۔ چونکہ ڈجیٹل آرٹسٹ اپنی تخلیق میں بلاک چین عنصر شامل کرتا ہے اسی لیے اس کے جعلی ہونے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ یعنی بلاک چین سے گزرنے والی ہرشے کی آن لائن تصدیق آسانی سے ہوسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 67 ہزار ڈالر یعنی 10720000 پاکستانی روپوں میں خریدی گئی صرف دس سیکنڈ کی ویڈیو اب 66 لاکھ ڈالر یعنی ایک ارب روپے سے زائد میں فروخت ہوئی ہے۔ پیبلو روڈریگز نے بتایا کہ وہ اس ویڈیو کی پشت پر موجود ڈجیٹل فنکار کے کام سے واقف ہیں اور انہوں نے اس کی اصل ڈجیٹل تخلیق کو خریدا تھا۔

نان فنجیبل ٹوکن کو ڈجیٹل دنیا میں ایسی چیزوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کی نقل نہیں بنائی جاسکتی اور وہ ایک سے دوسرے مالک کو منتقل ہوسکتی ہیں۔ ڈجیٹل اشیا کی قدر ڈالراور سونے جیسی نہیں بلکہ تاریخی نوادر جیسی ہے جو پوری دنیا میں ایک ہی ہوتے ہیں۔ ان میں مونا لیزا کی پینٹنگ ایک اچھی مثال ہیں۔

اب این ایف ٹی کی خریدوفروخت کے لیے کئی پلیٹ فارم موجود ہیں جن میں اوپن سی نامی ویب سائٹ بھی شامل ہے۔ یہاں اب لاکھوں کروڑوں ڈالر کی خریدوفروخت ہر ماہ ہورہی ہے۔ اب کرسٹیز جیسے روایتی اور مشہور نیلام گھروں نے این ایف ٹی کا کاروبار شروع کردیا ہے۔ اس میں پیبل کی ہی ایک تصویر ہے جو 5000 تصاویر کا مجموعہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رقم کی ادائیگی کرپٹوکرنسی میں بھی کی جاسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2149779/509/



کیلیفورنیا:
گزشتہ سال کورونا وبا کے دوران پوری دنیا میں بالخصوص بچوں کی بڑی تعداد نے یوٹیوب کا رخ کیا جہاں انہوں نے تعلیمی، تفریحی اور دیگر ویڈیوز سے استفادہ کیا۔ لیکن ساتھ ہی والدین نے یوٹیوب سے یہ شکایت بھی کی ہے کہ ان کے بچے ایسی ویڈیوز بھی دیکھتے ہیں جو ان کے لیے مناسب نہیں ہوتیں۔

اگرچہ اس کے لیے یوٹیوب کِڈز کی ایپ موجود ہے۔ لیکن بچے بڑے ہونے پر خود یوٹیوبر بھی بن جاتے ہیں اور ان کی دلچسپی کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ اب اس تناظر میں بھی ہر ویڈیو ان کے لیے مناسب نہیں ہوتی۔ اسی کمی کے پیشِ نظر یوٹیوب انتظامیہ نے نئے آپشن پیش کئے ہیں۔

اب نئے آپشن کی بدولت خود والدین بھی اپنے بچے کی یوٹیوب سرگرمیوں سے جڑ کر ان پر نظررکھ سکتے ہیں۔ یوٹیوب نے اپنے بلاگ پر ان کی تفصیلات کچھ یوں بیان کی ہیں:

’ گزشتہ برس پوری دنیا سے والدین اور ماہرین نے نوعمر اور نوعمر سے بھی چھوٹے بچوں کے لیے ویڈیو آپشن پر رائے دی ہے۔ اسی لیے ہم بی ٹا سروس پیش کررہے ہیں جس کی بدولت وہ ایک نگراں گوگل اکاؤنٹ سے ان کی سرگرمیوں پر نظررکھ سکیں گے۔ اس میں والدین کانٹینٹ سیٹنگزاورویڈیو کی حدود متعین کرسکیں گے۔ اس کے تحت والدین اپنی رائے بھی دے سکیں گے جس کی روشنی میں یوٹیوب سروس کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔‘

اب اس آپشن کی بدولت والدین تین اہم درجوں میں سے کسی ایک منتخب کرسکیں گے۔

ایکسپلور:

اس آپشن میں یوٹیوب کِڈز سے قدرے اوپر کی ویڈیوز موجود ہیں جو نو برس یا اس سے کچھ زائد عمر کے بچوں کے لیے ہیں۔ ان میں وی لاگز، تدریسی ویڈیوز، گیمنگ، موسیقی، تعلیمی اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔

ایکسپلور مور:

اس میں عمر کی حد 13 برس یا اس سے کچھ زائد ہے جن میں لائیواسٹریمز بھی شامل ہیں۔

موسٹ آف یوٹیوب:

اس کی بدولت آپ تمام ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں لیکن صرف وہ نہیں دیکھ پائیں گے جن پر 18 سال کی حد لاگو ہوتی ہیں۔ ان میں حساس موضوعات بھی شامل ہیں۔

یوٹیوب کے مطابق اس طرح بچے ایپ خرید نہیں سکیں گے جو ترقی یافتہ ممالک میں ایک عام رحجان ہے۔ دوسری جانب والدین کے پاس کئی طرح کے کنٹرول ہوں گے۔ ان آپشن کو وقت کے ساتھ مزید بہتر بھی کیا جاسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2149410/508/


ہارورڈ:
سبزیوں اور پھل کے لاتعداد فوائد ہم جان چکے ہیں۔ اب خبر یہ ہے کہ اگر روزانہ دو مرتبہ پھلوں اور تین مرتبہ سبزیوں کی عادت اپنالی جائے تو اس سے امراض کو بھگانے اور عمربڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے جریدے ’سرکیولیشن‘ میں شائع ایک رپورٹ میں پوری دنیا سے 20 لاکھ افراد کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق سبزیاں اور پھل کھانے سے کینسر، بلڈ پریشر، امراضِ قلب اور ذیابیطس جیسے خطرناک امراض کو ٹالا جاسکتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے اہم رکن ہارورڈ میڈیکل اسکول اور برگہام اینڈ ویمن ہاسپٹل سے وابستہ پروفیسر ڈونگ وینگ کہتے ہیں کہ اس سے قبل ماہرین سبزیاں اور پھل کھانے پر زور دیتے آئے ہیں لیکن اب غیرمعمولی وسیع تحقیق سے ان دونوں کی درست مقدار معلوم کرنے میں مدد ملی ہے۔

اس ضمن میں طبی عملے اور نرسنگ سے وابستہ ایک لاکھ افراد کا 30 برس تک جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 29 مختلف ممالک میں ہونے والے 26 مطالعات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس سروے میں لگ بھگ 19 لاکھ افراد کا ڈیٹا پڑھا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 20 لاکھ افراد کی غذائی عادات اور انہیں لاحق امراض کا جائزہ لیا گیا ہے۔

سائنسدانوں نے کہا ہے کہ روزانہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں پانچ مرتبہ پھل کھانا مفید ہے اور اس سے زائد مرتبہ کھانے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ اس میں تین مرتبہ سبزیاں اور دو مرتبہ پھلوں کو شامل کیا جائے۔

شماریاتی اعتبار سے کہیں تو پھل اور سبزیوں کا استعمال امراض سے 13 فیصد بچاتا ہے اور بے وقت موت کو ٹال سکتا ہے۔ اسی طرح امراضِ قلب کا خطرہ 12 فیصد اور کینسر سے مرنے کے کی شرح میں 10 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔ پھل اور سبزی خوری میں سب سے زیادہ فائدہ سانس کے امراض میں ہوتا ہے یعنی ان کا باقاعدہ استعمال سانس کے امراض اور سی او پی ڈی جیسی بیماری کا خطرہ 35 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔

لیکن ماہرین نے کہا ہے کہ آلو، مٹر، مکئی اور صرف پھلوں کے رس کے استعمال سے کوئی خاص فوائد حاصل نہیں ہوتے۔ البتہ سبزپتوں والی اجناس، پالک، اور رس دار پھلوں کا استعمال بھی بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔https://www.express.pk/story/2149494/9812/


میونخ:
جرمن ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد فطر لعابی یا ’’سلائم مولڈ‘‘ کہلانے والے یک خلوی جاندار کی ایک قسم میں یادداشت اور ذہانت کا راز دریافت کرلیا ہے۔

اس جاندار کا مکمل سائنسی نام ’’فائیسارم پولی سیفالم‘‘ (Physarum polycephalum) ہے جو بیک وقت جانوروں، پودوں اور پھپھوند (فنگس) کی درمیانی چیز کا درجہ رکھتا ہے۔

سلائم مولڈ کا ہر خلیہ صرف چند سینٹی میٹر سے لے کر کئی میٹر جتنا بڑا ہوسکتا ہے؛ جس کا انحصار اس کی قسم پر ہوتا ہے۔

تاہم سائنسدانوں کےلیے سلائم مولڈ کی سب سے حیرت انگیز خاصیت اس میں ’’یادداشت اور ذہانت‘‘ کی موجودگی ہے، حالانکہ نہ تو اس میں دماغ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اعصابی نظام۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں ہونے والے مشاہدات سے ثابت ہوچکا ہے کہ سلائم مولڈ نہ صرف ماضی کے واقعات کو ’’یاد‘‘ رکھتا ہے بلکہ انہیں مدِنظر رکھ کر ’’ذہانت‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے آئندہ فیصلے بھی کرتا ہے۔

بعض تجربات کے دوران سلائم مولڈ نے بڑی کامیابی سے بھول بھلیاں میں مختصر ترین راستہ تلاش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ’’دنیا کا ذہین ترین یک خلوی جاندار‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

البتہ یادداشت اور ذہانت، دونوں کےلیے دماغ اور اعصابی نظام لازمی سمجھا جاتا ہے لیکن ’’فطر لعابی‘‘ نے اس حوالے سے ماہرین کو حیرت زدہ کیا ہوا ہے۔

سلائم مولڈ میں یادداشت اور ذہانت کیوں ہوتی ہیں؟ یہ جاننے کےلیے ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ (ٹی یو ایم) اور ’’میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ڈائنامکس اینڈ سیلف آرگنائزیشن‘‘ (ایم پی آئی – ڈی ایس) کی دو خاتون سائنس دانوں نے کچھ سال پہلے تحقیق شروع کی۔

ڈاکٹر مرنا کریمر پروفیسر کیرن آلم نے کئی تجربات اور مشاہدات کے بعد دریافت کیا ہے کہ سلائم مولڈ کی باریک نالیوں والے نیٹ ورک جیسی ساخت ہی اس کی یادداشت اور ذہانت کی ذمہ دار ہے۔

سلائم مولڈ ایک ایسا منفرد یک خلوی جاندار ہے جو ان گنت حصوں میں بٹا ہوتا ہے جبکہ اس کا ہر حصہ باریک نلکیوں جیسے ایک نیٹ ورک کے ذریعے باقی تمام حصوں سے جڑا ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ صرف اور صرف ایک ہی خلوی جھلی (سیل میمبرین) کے اندر ہوتا ہے؛ اور یہی وہ خاصیت ہے جو سلائم مولڈ کو ’’یک خلوی جاندار‘‘ (ایک خلیے والا جاندار) بناتی ہے۔

ان دونوں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ سلائم مولڈ اپنی کسی بھی کیفیت، راستے یا ارد گرد کی صورتِ حال سے متعلق معلومات کو محفوظ کرنے کےلیے اپنے اسی ’’نالی دار نیٹ ورک‘‘ کو ایک مخصوص شکل میں لاتا ہے۔

مستقبل میں اپنی اسی ’’یادداشت‘‘ کو استعمال کرتے ہوئے یہ نئے حالات کے تحت مختلف حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے اور ’’ذہانت‘‘ کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔

مطلب یہ کہ بدلے ہوئے حالات میں نئی تدابیر اختیار کرتا ہے اور ان کے مؤثر ہونے پر انہیں بھی اپنی یادداشت کا حصہ بنا لیتا ہے۔

اس تحقیق سے جہاں یہ معلوم ہوا ہے کہ سلائم مولڈ کوئی بھی دماغ یا اعصابی نظام نہ ہوتے ہوئے بھی یادداشت و ذہانت کا حامل ہوسکتا ہے، وہیں یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ شاید ہمیں جانداروں میں یادداشتوں کے ذخیرے اور ذہانت کے بارے میں اپنی موجودہ معلومات پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کی تفصیلات ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ امریکا کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2149345/508/



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2021/03/02032021/P6-ISB-048.jpg


ڈنمارک:
ایک بین الاقوامی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کے پلاسٹک سے بنے کھلونوں میں مضر کیمیکل کا استعمال ہوتا ہے جو کینسر کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

معروف طبی جریدے سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کے پلاسٹک کے کھلونوں میں 100 سے زائد مضر کیمیکل پائے گئے ہیں جو بچوں کی صحت کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

تحقیق کے دوران بچوں کے پلاسٹک کے کھلونوں میں استعمال ہونے والے سخت ، نرم ، اور جھاگ والے 419 کیمیکلز ملے جن میں سے 126 میں ایسے مادّوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو ممکنہ طور پر کینسر یا غیر کینسر اثرات کے ذریعہ بچوں کی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ڈنمارک کے محقق ڈاکٹر پیٹر فانٹکے کا کہنا ہے کہ ان مضر کیمیکلز میں 31 پلاسٹائزر، 18 شعلے کو بڑھوا دینے والے، اور 8 نقصان دہ خوشبو والے کیمیکل بھی شامل ہیں اور کئی ممالک میں ان کھلونوں میں کیمیکل کے استعمال کے روک تھام کا مؤثر نظام موجود نہیں۔

اس تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ پلاسٹک کے کھلونوں پر اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کا نام لکھا ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی مضر خوراک پر نظر رکھنے والے ادارے کی طرح ایک ادارہ پلاسٹک کی تیاری میں مضر کیمیکل کے استعمال کو روکنے کے لیے بھی ہونا چاہیئے۔
https://www.express.pk/story/2149376/9812/


نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غذا میں شوگر یا قدرتی مٹھاس کا بھی زیادہ استعمال قوت مدافعت کمزور بنا کر متعدد بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے

کراچی(این این آئی)طبی و غذائی ماہرین کے مطابق قدرتی مٹھاس، شوگر یعنی کہ فرکٹوز زیادہ تر میٹھے مشروبات، میٹھے کھانوں، پروسیسڈ غذاؤں میں پایا جاتا ہے ، ان غذاؤں کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف اور بیماریوں سے بچانے والا نظام قوت مدافعت کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان متعدد بیماریوں میں گِھر جاتا ہے ۔لندن کے صحت عامہ سے متعلق جریدے جرنل آف نیچر کمیونیکیشن کی رپورٹ کیمطابق پروسیسڈ سمیت قدرتی میٹھی غذاؤں میں بھی پائے جانے والا جز فرکٹوز انسانی صحت کیلئے نہایت مضر ہے ، اس کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں موٹاپے ، ذیابطیس ٹائپ ٹو، جگر کے متاثر اور بڑھ جانے کے خدشات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-02/1786005


امریکی طبی محققین نے خبردار کیا ہے کہ سفید ڈبل روٹی اور پاستا (میکرونی) کی زیادتی امراض قلب کو دعوت دینے کے مترادف ہے

اوٹاوا(نیٹ نیوز)کینیڈا میں ہونے والی تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ وائٹ بریڈ، پاستا اور دیگر خالص زرعی اجناس کا وافر استعمال جلد اموات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ادھر یو ایس فُل گرین کونسل کا کہنا ہے کہ اناج کی صفائی کے نتیجے میں اناج میں سے ایک چوتھائی پروٹین زائل ہو جاتا ہے ، اس کے علاوہ نصف سے لے کر دو تہائی غذائی عناصر برباد ہو جاتے ہیں۔ میک ماسٹر یونیورسٹی کے تحقیقی مطالعے میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے ایک دن میں صاف اور چھنے ہوئے اناج کے 7 سے زیادہ ٹکڑے کھائے ان میں جلد اموات کا تناسب 27 فی صد بڑھ گیا، ان میں امراض قلب کا تناسب 33 فی صد اور فالج کے حملے کا امکان 47 فی صد زیادہ ہوتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-03-01/1785486


انسانی ڈھانچے میں بالکل نئی قسم کا خلیہ دریافت ہوا ہے۔ اسے سمجھتے ہوئے ہم گٹھیا، جوڑوں کے درد، ہڈیوں کی بریدگی اور دیگر بیماریوں کو نہ صرف بہتر طور پر سمجھ سکیں گے بلکہ ان کے علاج کی نئی راہ بھی ہموار ہوگی۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے ماہرین نے خردبین سے انسانی ڈھانچوں کا ایک ایک حصہ دیکھا ہے۔ انہوں نے اس کاوش میں ہڈیوں میں موجود ایک خلیہ (سیل) دیکھا ہے جس سے سائنس اب تک ناواقف تھی۔ یہ خلیہ کئی طرح کے جین کھولتا اور بند کرتا ہے یعنی جینیاتی سطح تک سرگرم ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق سے ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کوجاننے اور اسے روکنے کے عمل کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی جن میں سرِ فہرست گٹھیا (اوسٹیوپوروسِس) کا مرض شامل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہیں کہ استخوانی فطری نشوونما میں خلیات پرانی ہڈیوں کو بریدہ کرتے ہیں اور نئی ہڈیوں کی افزائش ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ توازن بگڑ جائے تو ہڈیاں نرم پڑجاتی ہیں اور کئی مرض لاحق ہوجاتے ہیں جن میں گٹھیا سرِ فہرست ہے۔

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے ڈاکٹر مچیل مک ڈونلڈ اوران کے ساتھیوں نے ایک زندہ ہڈی کے ٹشوز کو خردبین سے بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کے مخصوص خلیات اوسٹیوکلاسٹس مزید چھوٹے خلیات میں منقسم ہیں۔ یہ ایک بالکل نئی بات تھی۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ خلیات مرکر بھی ری سائیکل ہوجاتے ہیں اور دوبارہ ٹوٹ کر اور جڑ کر اپنی زندگی بڑھاتے ہیں۔

سائنسدانوں کو خون اور ہڈیوں کے گودے میں بھی اسی طرح کے نئے خلیات ملے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ہڈیوں میں فاضل پرزوں کی طرح چھپے رہتے ہیں۔ دریافت کے بعد ماہرین نے ان کا آر این اے پڑھا ہے اور جینیاتی سطح پر اس کے راز کھولے ہیں۔

ان میں بعض نئے جین ایسے ملے ہیں جو اوسٹیوکلاسٹس کو سرگرم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ پھر جب خلیات کو دوبارہ جڑتا دیکھا گیا تو ماہرین نے اسے بالکل نیا خلیہ قرار دیا ہے اور انہیں ’اوسٹیومارفس‘ کا نام دیا ہے۔ یہ نام پاور رینجرز کے ایک کردار کے نام پر دیا گیا ہے۔

اگلے مرحلے میں امپیریئل کالج لندن کے ماہرین نے جب اس خلیے کے اندر 40 جین خاموش کرادیئے تو معلوم ہوا کہ ان میں سے 17 جین ہڈیوں کی مضبوطی، بڑھوتری اور جسامت میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔ اس طرح نودریافت خلیہ ہڈیوں کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اب اس پر مزید تحقیق کے بعد ہڈیوں کے کئی امراض کا علاج معلوم کیا جاسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2149049/9812/


امریکی کمپنی ’آربٹل اسمبلی کارپوریشن‘ نے زمین کے گرد مدار میں ایک بہت بڑے پہیے جیسے خلائی اسٹیشن کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے جو اپنے محور پر چکر لگاتے دوران مصنوعی کششِ ثقل (آرٹی فیشل گریویٹی) بھی پیدا کرے گا۔

واضح رہے کہ میلوں پر پھیلے ہوئے دیوقامت پہیوں جیسے خلائی اڈوں کا تصور کم از کم 70 سال سے سائنس فکشن فلموں میں پیش کیا جارہا ہے۔

اس طرح کے تصوراتی خلائی اسٹیشن اپنے محور (axis) کے گرد چکر لگاتے ہیں جس سے ان کے بیرونی کناروں پر مرکز گریز قوت (سینٹری فیوگل فورس) پیدا ہوتی ہے جو اسٹیشن پر موجود ہر چیز کو باہر کی طرف دھکیلتی ہے۔

اس طرح سائنس فکشن فلموں کے خلائی اسٹیشنوں میں، جناتی ٹیوبوں جیسے بیرونی کناروں کے اندر، مصنوعی کششِ ثقل پیدا کی جاتی ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں انسانوں والی بستیاں آباد دکھائی جاتی ہیں۔

آربٹل اسمبلی کارپوریشن کا منصوبہ اسی خیال کو حقیقت کا جامہ پہنانے سے متعلق ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اس مجوزہ خلائی اسٹیشن کو ’’وائیجر کلاس اسپیس اسٹیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی تعمیر کا آغاز 2025 سے بتدریج کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر مزید دس سے پندرہ سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔

اسٹیشن کا تعمیراتی سامان خلاء میں پہنچانے کےلیے ’’کم خرچ خلائی پروازوں‘‘ سے استفادہ کیا جائے گا جبکہ اس سامان کو ٹکڑا ٹکڑا کرکے جوڑ کر خلائی اسٹیشن بنانے کا سارا کام خاص طرح کے خودکار روبوٹس انجام دیں گے جنہیں مختصراً ’’اسٹار‘‘ (STAR) کا نام دیا گیا ہے۔

وائیجر کلاس اسپیس اسٹیشن کے پہلے پروٹوٹائپ کا پہیہ ’’صرف‘‘ 200 فٹ چوڑا ہوگا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے گا کہ سطح زمین جیسی مصنوعی کششِ ثقل پیدا کرنے اور مکمل جسامت والا خلائی اسٹیشن کتنا بڑا ہونا چاہیے۔

آربٹل اسمبلی کارپوریشن کا منصوبہ ایک ایسا خلائی اسٹیشن بنانے کا ہے جس میں 400 افراد کی گنجائش ہو اور جہاں رہنے کےلیے مقامات کے علاوہ کھیل کود اور دیگر تفریحات کی جگہیں بھی موجود ہوں۔

سرِدست اس کی لاگت اور ممکنہ تاریخِ تکمیل کے بارے میں صرف اندازے ہی پیش کیے گئے ہیں تاہم ابتدائی فنڈنگ کے مد میں یہ ادارہ اس منصوبے کےلیے دس لاکھ ڈالر ضرور جمع کرچکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2149244/5


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے لوگوں کے دماغ کی ’رئیل ٹائم‘ مانیٹرنگ کے ذریعے ان کی بزدلی ختم کرنے اور انہیں بہادر بنانے کا حیران کن طریقہ دریافت کر لیا۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں کی تیار کردہ یہ تکنیک انسانی دماغ کے افعال کو تبدیل کرکے اس میں اعتماد پیدا کرنے اور خوف ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک ذہنی صدمات سے لاحق ہونے والے نفسیاتی عارضوں (Post traumatic stress disorder) کا علاج ثابت ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جاپان کے ایڈوانسڈ ٹیلی کمیونی کیشنز ریسرچ انسٹیٹیوٹ انٹرنیشنل کے سائنسدانوں نے اپنی تیار کردہ اس تکنیک کو ’ڈی کوڈڈ نیوروفیڈ بیک‘ (Decoded Neurofeedback)کا نام دیا ہے۔ انہوں نے اس کے ذریعے ’ایف ایم آر آئی‘ سکینر پر لوگوں کے دماغ کی ’رئیل ٹائم‘ سرگرمی کو مانیٹر کرنے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا ہے اور اس پر مزید تجربات جاری ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/26-Feb-2021/1256084?fbclid=IwAR3VdPr6_GhY8sG22jE0f4kMEMRKhTlThyCjBrBH4QAWanN5w-4QfbS7ynU


نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی سائنسدانوں نے کاکروچ کے دودھ کے ایسے فوائد دریافت کر لیے ہیں کہ جان کر لوگ گائے اور بھینس کے دودھ کو بھول جائیں گے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق بھارتی شہر بنگلور کے انسٹیٹیوٹ آف سٹیم سیل بائیولوجی اینڈ ری جنریٹو میڈیسن کے سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ مادہ کاکروچ اپنے جسم سے جو زردی مائل دودھ نکالتی ہے وہ گائے اور بھینس کے دودھ سے زیادہ مفید اور غذائی اجزاءسے بھرپور ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ لیونارڈو چیواس کا کہنا تھا کہ ”لال بیگ کے دودھ میں پروٹین، ضروری امائنو ایسڈز، لحمیات اور شوگر کی مناسب مقدار موجود ہوتی ہے جو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔اس دودھ میں پروٹین اس قدر پائے جاتے ہیں کہ اپنی افادیت کے پیش نظر مستقبل میں ’سپرفوڈ‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔“سوشل میڈیا پر بھارتی سائنسدانوں کی اس تحقیق کا کافی ٹھٹھہ لگایا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ ”میں نہیں جانتا کہ کاکروچ کا دودھ کیسا ہوتا ہے لیکن ایمانداری سے، اگر یہ دودھ مجھے لافانی بھی بنا دے تو میں پھر بھی اسے نہیں پیوں گا۔“
https://dailypakistan.com.pk/26-Feb-2021/1256088?fbclid=IwAR0ZR3ibJJX2uV4v9_BvbqQLhikCyfQCL26jj1pZnWESm-ZvkLH__vUsEGg


کوریا (رضا شاہ) حالیہ دور میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی طلب میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان میں آگ لگنے کے واقعات بھی دیکھے جارہے تھے۔تحقیقات کے مطابق بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں آگ لگنے کے زیادہ تر واقعات کی اصل وجہ بیٹریاں تھی کیونکہ ان میں لیکوڈ الیکٹرولائٹ کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب بجلی سے چلنے والی ان گاڑیوں میں لیکوئڈ الیکٹرولائٹ کا نعم البدل سالڈ الیکٹرولائٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔

کوریا الیکٹرو ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں موجود NUST پاکستان کے صدارتی گولڈ میڈلسٹ ریسرچ سکالر مکرم علی قریشی نے ڈاکٹر "ہا یون چھل" کے زیرنگرانی سستا اور معیاری سالڈ الیکٹرولائٹ تیارکرلیا ہے جو کہ رپورٹس کے مطابق دنیا کا سب سے سستا ترین اور کمرشلی بہترین کوالٹی کا ہے امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی بیٹریوں میں یہ ٹیکنالوجی بہت زیادہ استعمال کی جائے گی کوریا میں موجود تمام پاکستانی کمیونیٹی، سٹوڈنٹس اور سکالرز اپنے ہم وطن کی اس کامیابی پر بہت ناز کر
https://dailypakistan.com.pk/26-Feb-2021/1256085?fbclid=IwAR3pX2-pxMt9QB4PhCR1B-OEP820



ٹوکیو:
جاپانی سائنسدانوں نے ریشم کے کیڑوں کی غذا میں تبدیلی کرکے ان سے حاصل ہونے والے ریشم کو معمول سے دگنا مضبوط بنا لیا ہے۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’مٹیریلز اینڈ ڈیزائن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ماہرین نے ریشم کے کیڑوں کی غذا میں تجرباتی طور پر ’’سیلولوز نینوفائبر‘‘ (CNF) نامی مادّہ شامل کیا۔

ویسے تو ’’سی این ایف‘‘ کئی پودوں کے علاوہ لکڑی کی باقیات میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن توہوکو یونیورسٹی، جاپان کے ماہرین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ نینو سیلولوز فائبرز کو ریشم کے کیڑوں کی غذا میں کچھ ایسے شامل کیا جائے کہ ان سے بننے والا ریشم بھی زیادہ بہتر، پائیدار اور مضبوط ہو۔

قدرتی طور پر ریشم کے کیڑے شہتوت کے پتے کھا کر ریشم بناتے ہیں۔ تاہم تجارتی پیمانے پر پالے گئے ریشم کے کیڑوں کو کچھ مختلف غذا دی جاتی ہے جس کا انحصار ان سے حاصل ہونے والے ریشم کے معیار اور مطلوبہ خصوصیات پر ہوتا ہے۔

توہوکو یونیورسٹی، میاگی کے ماہرین سیلولوز نینوفائبرز کو ریشم کے کیڑوں کی تجارتی غذا میں شامل کیا۔

انہیں معلوم ہوا کہ ریشم کے جن کیڑوں کی غذا میں سیلولوز نینوفائبرز شامل تھے، ان سے حاصل شدہ ریشم ایسے کیڑوں کے مقابلے میں دگنا مضبوط تھا جو شہتوت کے پتے کھاتے ہیں۔

یہ کامیابی اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ ریشم کا استعمال کپڑوں کی تیاری کے علاوہ سرجری اور بیجوں کے غلاف بنانے سمیت، کئی طرح کے کاموں میں ہورہا ہے۔

جاپانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کامیابی ادھوری ہے کیونکہ ان کا مقصد ایسے ریشم کی تیاری ہے جو پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ فولاد سے 5 گنا زیادہ مضبوط بھی ہو۔
https://www.express.pk/story/2148608/508/



لندن:
برطانیہ میں کی گئی ایک دلچسپ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ کسی بھی سوال کا فوری اور بلا جھجھک جواب دیتے ہیں، اکثر اوقات انہیں سچا سمجھا جاتا ہے اور ان کی بات بھی درست قرار دی جاتی ہے۔

اس کے برعکس وہ لوگ جو کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ دیر سوچتے ہیں اور آہستگی سے، ٹھہر ٹھہر کر جواب دیتے ہیں، انہیں ناقابلِ بھروسہ، بے ایمان اور جھوٹا سمجھا جاتا ہے۔

یہ نتیجہ جیمس کُک یونیورسٹی، برطانیہ کے ڈاکٹر ژیانو اور ڈاکٹر ڈیمنگ وانگ نے برطانیہ، امریکا اور فرانس میں 7,565 رضاکاروں پر 14 مختلف نفسیاتی تجربات کے بعد اخذ کیا ہے۔

ایسے ہر تجربے میں پہلے ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں کسی شخص کو سوال کرتے اور دوسرے کو جواب دیتے دکھایا گیا تھا۔ جواب دینے والے نے تیزی سے اور ٹھہر ٹھہر کر، دونوں انداز میں سوال کا جواب دیا۔ ہر ویڈیو کے بعد رضاکاروں سے مختلف سوالات کیے گئے۔

ان تمام تجربات کا مقصد ’’سوال کرنے والے کے اعتماد‘‘ اور ’’جواب دینے والی کی پھرتی‘‘ کے درمیان تعلق معلوم کرنا تھا۔

رضاکاروں کی بڑی اکثریت نے تیزی سے جواب دینے والوں کو قابلِ بھروسہ اور دیانتدار قرار دیا۔

اس سے قطع نظر کہ کوئی شخص سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، اگر اس نے تیزی سے اور بلا جھجھک کسی سوال کا جواب دیا ہے تو عوام کی اکثریت اسے ’’سچا‘‘ ہی سمجھے گی۔

اگرچہ ملازمت کے انٹرویو میں کسی امیدوار کے فوری جوابات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ متعلقہ موضوع یا موضوعات پر زیادہ مہارت رکھتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں تیزی سے جواب دینا والا ہی سچا یا درست ہو۔

بعض مرتبہ کسی سوال کا درست اور نپا تلا جواب دینے کےلیے خاصی سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دوران یادداشت میں معلومات کو ترتیب دینے سے لے کر موزوں ترین الفاظ کا جامہ پہنانے تک، جواب دینے والے کو خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔

سماجی نقطہ نگاہ سے اس تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ جواب دینے والے کی بات صحیح ہے یا غلط، بلکہ جواب دیئے جانے کی رفتار کو بنیاد بناتے ہوئے رائے قائم کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ اندازِ فکر خاصی حد تک غلط ہے لیکن بہرحال یہ انسانی فطرت سے متعلق ایک حقیقت بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’جرنل آف پرسنیلٹی اینڈ سوشل سائیکولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2147791/508/



کیلیفورنیا:
گوگل نے عالمی سمندروں کے فرش پر بچھی ہزاروں کلومیٹر طویل انٹرنیٹ کیبل کو کامیابی سے زلزلہ پیما کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ہزاروں کلومیٹر طویل رقبے پر پھیلے ہوئے تارکو زلزلہ پیما بنایا جاسکتا ہے۔

بحرالکاہل کے تہہ میں گوگل نے جدید ترین انٹرنیٹ کیبل کچھ عرصے قبل ہی بچھائی تھی۔ سمندری لہروں کی ہلچل اور دیگر تبدیلیوں کی وجہ سے یہ بہت درستگی سے زلزلوں کی پیمائش کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر زونگ وین زان اور گوگل کے ماہرین نے ٹریفک ڈیٹا، کیبل کی حرکات اور دباؤ کو استعمال کرتے ہوئے سمندری طوفان اور زلزلوں کو شناخت کیا ہے۔

صرف نو ماہ کے دوران کیبل نے 30 سمندری طوفانوں اور 20 کے قریب زلزلوں کو کامیابی سے شناخت کیا ہے۔ سارے زلزلوں کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5 تھی جو زمین پر عمارتیں ڈھانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ لیکن جون 2020 میں میکسکو کے قریب 7.4 ریکٹر اسکیل کا زلزلہ بھی نوٹ کیا گیا تھا ۔ خدشہ تھا کہ یہ سونامی پیدا کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

فرانس میں زلزلے کے ایک ماہر اینتھونی سلاڈن کہتے ہیں کہ سمندری فرش پر زلزلہ ناپنے والے آلات رکھنا محنت طلب، وقت طلب اور مشکل کام ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ کیبل کو استعمال کرنا بہت عمدہ کاوش ہے۔

اس سے قبل سائنسدانوں نے فائبر آپٹک کیبل پر ارضیاتی سینسر لگائے تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ کیبل کے دونوں کناروں پر لیزر ڈٹیکٹر لگائے جائیں جو ایک مشکل امر ہے لیکن انٹرنیٹ کیبل کی مدد سے زلزلوں کی پیمائش کے لیے کسی نئے آلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2147944/508/


پیسا، اٹلی:
چھوٹے اور رنگ برنگی روشنیوں والے ڈرون کے کرتب تماشے اب عام ہوچکےہیں۔ ایسے ڈرون بار بار بجلی مانگتے ہیں اور اب اٹلی کے انجینیئروں نے ایک ساتھ بہت سارے کواڈکاپٹرز جارچ کرنے والی چادر تیار کی ہے۔

اسے فلائنگ ڈرون بلینکٹ کا نام دیا گیا ہے جسے اطالوی کمپنی کارلو راٹی ایسوشیاٹی نے ڈرون ساز کمپنی فلائی فائر کے تعاون سے بنایا ہے۔ اس میں سے ہر ایک چادر کو سمیٹا اور ایک بیگ میں رکھا جاسکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انہیں کھول کر دوبارہ زمین پر بچھایا جاسکتا ہے۔ ایک وقت میں 16 کواڈ کاپٹرز بہت آسانی سے اس پر چارج کئے جاسکتے ہیں اور تمام ڈرونز ایک ہی پاور سپلائی سے چارج ہوسکتے ہیں۔

اگر ڈرون زیادہ ہے تو ایک ، دو ، تین یا اس سے زائد چادر ایک ساتھ جوڑ کر لاتعداد ڈرون کو ان پر بٹھایا جاسکتا ہے ۔ اس طرح ایک وقت میں دس ہزار ڈرون کو چارج کرنا ممکن ہے۔ ہر ڈرون 45 درجے زاویے پر گھومتا ہے اورچارجنگ کےلیے دوبارہ 45 درجے پر ہی چادر پر اترتا ہے۔

اس کا خاص ڈیزائن روشنی دینے والے ڈرون کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ڈرون ایک ساتھ فضا میں اڑتے ہیں اور طرح طرح کی خوبصورت ڈیزائن بناتے ہیں۔ انہیں لائٹ شوز اور اشتہار کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کھیل تماشوں سے ہٹ کر اب بہت سارے ڈرون نقشہ سازی، فصلوں کی دیکھ بھال اور دیگرامور میں بھی استعمال ہورہے ۔ ڈرون چادر اس ضمن میں بھی یکساں طور پر مفید ثابت ہوسکتی ہے
https://www.express.pk/story/2147094/508/



نیو یارک:
اکثر کہا جاتا ہے کہ انڈے کھانے سے کولیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث ہائی بلڈ پریشر اور دل کی مختلف بیماریوں کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن اب تک ہونے والی سنجیدہ سائنسی تحقیقات سے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ’’میڈیکل نیوز ٹوڈے‘‘ نامی ویب سائٹ پر زیا شیرل کی ایک تحریر میں کیا گیا ہے جس میں انڈوں اور کولیسٹرول میں باہمی تعلق کے حوالے سے گزشتہ کئی سال میں ہونے والی درجنوں طبی تحقیقات کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ان تمام تحقیقات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انڈے کھانے سے اکثر لوگوں کے خون میں کولیسٹرول پر، یا ان کی مجموعی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

واضح رہے کہ کولیسٹرول کی دو اقسام ’’لو ڈینسٹی لائپوپروٹین‘‘ (ایل ڈی ایل) اور ’’ہائی ڈینسٹی لائپوپروٹین‘‘ (ایچ ڈی ایل) ہیں۔

ان میں سے ’’ایل ڈی ایل‘‘ کو مضر کولیسٹرول کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خون کی رگوں میں جم کر ان میں تنگی پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔ یہی چیز ہائی بلڈ پریشر سے امراضِ قلب تک، کئی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔

تاہم گزشتہ کئی سال کے دوران کی گئی درجنوں طبّی تحقیقات سے یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ انڈے کھانے کی وجہ سے ایل ڈی ایل بڑھا ہو۔

اس مضمون کی مصنفہ نے قارئین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی غذا میں انڈوں کا متوازن استعمال جاری رکھ سکتے ہیں۔ البتہ، اگر وہ سبزیجاتی (ویگن) یعنی ’’شاکاہاری‘‘ غذا استعمال کرتے ہیں تو کسی غذائی ماہر کے مشورے سے اپنے لیے متبادل غذا کا انتخاب کریں۔
https://www.express.pk/story/2148623/9812/


واشنگٹن:
ورزش کے لاتعداد فوائد سامنے آچکے ہیں اور اب جامعہ واشنگٹن سے تازہ خبر یہ ہے کہ ورزش سے مگرین کے دورے کم ہوسکتے ہیں اور ان کی شدت میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل ورزش اور مگرین کے درمیان تعلق دریافت ہوچکا ہے لیکن اس پر مہرِ تصدیق مزید گہری ہوئی ہے۔ ورزش، ذہنی تناؤ، ڈپریشن، نیند کی کمی اور دیگر عوارض کا بھی خاتمہ کرتی ہے۔ اب جامعہ واشنگٹن کے ڈاکٹر میسن ڈائس کہتے ہیں: ’’اگرچہ یہ پیچیدہ معاملہ ہے لیکن ورزش سے ڈوپامائن، نوریپائن فرائن، سیروٹونِن جیسے اہم نیوروٹرانسمیٹر اور کیمیکلز کا اخراج بڑھتا ہے۔ اس سے موڈ اچھا ہوتا، طبعیت ہشاش بشاش ہوتی ہے؛ لیکن سب سے بڑھ کر دردِ سر میں کمی واقع ہوتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر میسن کے مطابق، ورزش قلب اور فشارِ خون (بلڈ پریشر) کو بہتر رکھتی ہے لیکن اس سے مگرین بھی قابو میں رہتا ہے۔ اس کی تصدیق کےلیے 4600 افراد کو تحقیق میں شامل کیا گیا۔ ان میں سے 75 فیصد افراد کو ایک ماہ میں مگرین کے 15 یا اس سے زائد دورے پڑتے تھے اور بقیہ 25 فیصد لوگوں کو 14 یا اس سے کم تعداد میں مگرین کا شدید درد ہوتا ہے۔

شرکاء سے ہفتے میں ورزش کے معمولات معلوم کیے گئے جن میں سائیکل چلانا، دوڑنا، یا تیز قدمی سے چہل قدمی شامل تھی۔ اب شرکاء کو پانچ گروہوں میں بانٹا گیا۔ ایک گروہ نے بالکل ورزش نہیں کی اور دیگر گروہوں کو زیادہ سے زیادہ 150 منٹ فی ہفتہ کی عالمی مجوزہ ورزش کرائی گئی۔

جنہوں نے ورزش بالکل نہیں کی، ان میں 47 فیصد افراد کو ڈپریشن، 39 فیصد کو بے چینی (اینزائٹی) اور 77 فیصد کو نیند کے مسائل تھے۔ لیکن جنہوں نے ورزش کی، ان میں بے چینی کی شرح 28 فیصد اور نیند کے مسائل 61 فیصد تھی۔

اس سے صاف ظاہر ہوا کہ ورزش گھبراہٹ، بے چینی، ڈپریشن، نیند میں کمی کے ساتھ ساتھ دردِ سر کی شدت بھی کم کرتی ہے۔

ہزاروں افراد پر کیے گئے اس سروے کے بعد ماہرین نے مگرین کے مریضوں کو ورزش کا مشورہ دیا ہے جو ان کےلیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2147906/9812/


لندن:
امریکی اور برطانوی سائنسدانوں نے ایک عالمی تحقیق کے بعد انسانی آنتوں میں 142,809 ’فیج وائرس‘ دریافت کیے ہیں جن میں سے کم از کم 50 فیصد اس سے پہلے ہمارے لیے بالکل نامعلوم تھے۔

اس تحقیق کےلیے 6 براعظموں کے 28 ممالک سے انسانی آنتوں سے خردبینی اجسام کے 28,060 مجموعے (مائیکروبایومز) حاصل کرکے ان کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ ’بیکٹیریوفیج‘ (bacteriophage) یا ’فیج‘ (phage) ایسے وائرس ہوتے ہیں جو ایک خلیے والے جانداروں، بالخصوص جراثیم (بیکٹیریا) پر حملہ کرتے ہیں اور ان کی جینیاتی مشینری پر قبضہ کرکے انہیں اپنی نقل در نقل تیار کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں فیج وائرسوں کی تعداد دس کھرب کھرب ارب (10 کی قوت نما 31) تک ہوسکتی ہے کیونکہ اب تک کم و بیش ہر جاندار کے ہر قسم کے خلیوں کے ساتھ سیکڑوں کی تعداد میں فیج وائرسوں کو دیکھا جاچکا ہے۔

برطانیہ میں واقع ’یورپین بایوانفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ‘ اور ’ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ‘ کے تعاون و اشتراک سے ہونے والی اس تحقیق کا مقصد انسانی آنتوں اور پیٹ کے نظام کو بہتر طور پر سمجھنا ہے کیونکہ انسانی بیماریوں کی بھاری اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی طور پر ہماری آنتوں اور پیٹ سے ہوتا ہے۔

معدے اور آنتوں میں خردبینی اجسام کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ ان میں جراثیم اور ’فیج‘ دونوں شامل ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنتوں میں بیکٹیریوفیج اور جرثوموں کے درمیان مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے جس کا اثر ہماری صحت پر براہِ راست پڑتا ہے۔

آنتوں میں پائے جانے والے فیج وائرسوں کے بارے میں جان کر نہ صرف کئی امراض کی تشخیص بہتر بنائی جاسکے گی بلکہ علاج کی نئی راہیں بھی ہموار ہوں گی۔

اس مقصد کےلیے آنتوں میں پائے جانے والے فیج وائرسوں کا ڈیٹابیس ’’گٹ فیج ڈیٹابیس‘‘ (جی پی ڈی) کے عنوان سے بنا دیا گیا ہے جس میں مذکورہ تمام وائرس بھی شامل ہیں۔

یہ تحقیق آن لائن ریسرچ جرنل ’’سیل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جسے مفت میں ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2147808/9812/


کراچی:
اکثر لوگ اپنے ناخنوں کو دانتوں سے کترتے ہیں اور لاکھ کوشش کے باوجود ان کی یہ عادت نہیں جاتی۔

لیکن بعض تدابیر اختیار کرکے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ عادت اکثر بچپن میں لاحق ہوتی ہے اور عمر بھر جاری رہ سکتی ہے۔ اسے طبی زبان میں اونیکوفیجیا کہتے ہیں جو بظاہر بے ضرر لگتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات بہت ہیں اور یہ آپ کو بیمار بھی کرسکتی ہے۔

لیکن آخر ہم اپنے ناخن کیوں چباتے ہیں؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

ماہرین نے طبی اور نفسیاتی بنیادوں پر ناخن چبانے کی یہ وجوہ بیان کی ہیں:

بے چینی، ذہنی تناؤ اور اداسی وغیرہ میں ناخن کھانے کی عادت پڑجاتی ہے کیونکہ اس سے انسان خود کو مصروف سمجھتا ہے۔

بسا اوقات بہت مصروفیت اور ارتکاز کی وجہ سے بھی لوگ بے دھیانی میں ناخن چبانے لگ جاتے ہیں۔

بعض افراد ناخن چبانے سے وقتی طور پر بے چینی میں آرام اور جزوقتی سکون پاتے ہیں۔

بسا اوقات ناخن چبانے کی عادت بعض دماغی امراض مثلاً اے ڈی ایچ ڈی، ڈپریسو ڈس آرڈر، او سی ڈی، گھبراہٹ اور بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔

لیکن آخر اس عادت سے چھٹکارا کیوں ضروری ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناخن کترنے کا عمل ان کے نیچے کے ٹشوز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

دوم ناخن بری طرح مجروح ہوجاتے ہیں اور ابنارمل لگنے لگتے ہیں۔ پھر انگلیوں کے جراثیم اور بیکٹیریا منہ میں جانے لگتے ہیں یہاں تک کہ ناخنوں میں فنگس لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگر ناخن کا کوئی حصہ پیٹ میں چلاجائے تو اس سے معدے اور آنتوں کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن چند عادات کو اپنا کر اس سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔

ناخن چھوٹے رکھیں

ناخن کترنے سے جان چھڑانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بڑھنے پر انہیں کٹر سے تراش دیا جائے اور اس سے بہت افاقہ ہوتا ہے۔

خواتین نیل پالش لگائیں

نیل پالش لگا کر رکھیں۔ اس کے بعد جب جب ناخن کتریں گی آپ کو نیل پالش کی کڑواہٹ محسوس ہوگی اور اس عادت کو ترک کرنے میں مدد ملے گی۔

تجزیہ کیجئے

آپ اپنا تجزیہ کیجئے کہ آخر آپ ناخن کیوں کترتی ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کے بعد عادتِ بد سے جان چھڑانے میں مدد مل سکتی ہے۔

عادت کو عادت سے بدلیں

اگر مسلسل ناخن کترنے کی عادت ہے تو آپ کوئی اور عادت اپنائیں۔ منہ میں سونف رکھ کر چباتے رہیں یا پھر چیونگم کی عادت اختیار کیجئے۔
https://www.express.pk/story/2147526/9812/


الینوئے:
امریکا میں کی گئی ایک وسیع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وزن میں صرف 5 فیصد کمی کرکے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق کےلیے تقریباً 24 ہزار مختلف النسل امریکیوں کی صحت سے متعلق اعداد و شمار استعمال کیے گئے جو 2001 سے 2016 کے دوران، دو بڑے مطالعات کے دوران جمع کیے گئے تھے۔

’’میسا‘‘ (MESA) اور ’’نینز‘‘ (NHANES) کے عنوان سے یہ دونوں مطالعات بالترتیب 1999 اور 2000 میں شروع ہوئے، جو آج تک جاری ہیں۔

مذکورہ تحقیق میں جہاں یہ معلوم ہوا کہ زائد الوزن (اوور ویٹ) اور موٹے افراد کے ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے، وہی یہ بھی پتا چلا جو لوگ اپنا وزن صرف 5 فیصد کم کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی بڑی تعداد ذیابیطس سے محفوظ رہی۔

واضح رہے کہ موٹاپے کو ذیابیطس سمیت درجنوں امراض کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پچھلے کئی سال سے طبّی ماہرین مسلسل زور دے رہے ہیں کہ روزانہ بیس سے پچیس منٹ پیدل چل کر، مناسب ورزش کرکے، متوازن غذا استعمال کرکے، اور دوسری صحت بخش عادتیں اپنا کر موٹاپے کے ساتھ ساتھ ایسی کئی بیماریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے جو موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔

تازہ تحقیق سے اس ضمن میں وزن کم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر ہوئی ہے۔

’’موٹاپے کی وجہ سے ذیابیطس کے بوجھ کی شدت جان کر ہم حیران رہ گئے۔ ذیابیطس کے نئے مریضوں میں ایک تہائی سے نصف تک میں اس بیماری کی وجہ موٹاپا دیکھا گیا ہے،‘‘ ڈاکٹر سعدیہ ایس خان نے کہا، جو الینوئے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فائنبرگ اسکول آف میڈیسن میں اسسٹنٹ پروفیسر اور مذکورہ تحقیق کی مرکزی ماہر بھی ہیں۔

اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکا میں ذیابیطس کے اکثر مریضوں کا تعلق متوسط اور غریب طبقے سے ہے جسے کم تر درجے کی طبّی سہولیات میسر ہیں جبکہ وہ غیر صحت بخش ماحول میں رہ رہے ہیں۔

یہ امریکی معاشرے کے وہ طبقات ہیں جو غیر ہسپانوی سیاہ فام اور میکسیکن نسلوں پر مشتمل ہیں؛ اور اسی وجہ سے انہیں ہمیشہ امریکا میں نسلی تعصب کا سامنا رہتا ہے۔

’’جرنل آف امریکن ہیلتھ ایسوسی ایشن‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس تحقیق میں جہاں صحت بخش غذائیں اور عادات اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، وہیں سماجی ناہمواری اور نسلی تعصبات کو بھی عوامی صحت کےلیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔https://www.express.pk/story/2147339/981


الینوئے:
امریکا میں کی گئی ایک وسیع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وزن میں صرف 5 فیصد کمی کرکے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق کےلیے تقریباً 24 ہزار مختلف النسل امریکیوں کی صحت سے متعلق اعداد و شمار استعمال کیے گئے جو 2001 سے 2016 کے دوران، دو بڑے مطالعات کے دوران جمع کیے گئے تھے۔

’’میسا‘‘ (MESA) اور ’’نینز‘‘ (NHANES) کے عنوان سے یہ دونوں مطالعات بالترتیب 1999 اور 2000 میں شروع ہوئے، جو آج تک جاری ہیں۔

مذکورہ تحقیق میں جہاں یہ معلوم ہوا کہ زائد الوزن (اوور ویٹ) اور موٹے افراد کے ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے، وہی یہ بھی پتا چلا جو لوگ اپنا وزن صرف 5 فیصد کم کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی بڑی تعداد ذیابیطس سے محفوظ رہی۔

واضح رہے کہ موٹاپے کو ذیابیطس سمیت درجنوں امراض کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔

پچھلے کئی سال سے طبّی ماہرین مسلسل زور دے رہے ہیں کہ روزانہ بیس سے پچیس منٹ پیدل چل کر، مناسب ورزش کرکے، متوازن غذا استعمال کرکے، اور دوسری صحت بخش عادتیں اپنا کر موٹاپے کے ساتھ ساتھ ایسی کئی بیماریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے جو موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔

تازہ تحقیق سے اس ضمن میں وزن کم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر ہوئی ہے۔

’’موٹاپے کی وجہ سے ذیابیطس کے بوجھ کی شدت جان کر ہم حیران رہ گئے۔ ذیابیطس کے نئے مریضوں میں ایک تہائی سے نصف تک میں اس بیماری کی وجہ موٹاپا دیکھا گیا ہے،‘‘ ڈاکٹر سعدیہ ایس خان نے کہا، جو الینوئے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فائنبرگ اسکول آف میڈیسن میں اسسٹنٹ پروفیسر اور مذکورہ تحقیق کی مرکزی ماہر بھی ہیں۔

اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکا میں ذیابیطس کے اکثر مریضوں کا تعلق متوسط اور غریب طبقے سے ہے جسے کم تر درجے کی طبّی سہولیات میسر ہیں جبکہ وہ غیر صحت بخش ماحول میں رہ رہے ہیں۔

یہ امریکی معاشرے کے وہ طبقات ہیں جو غیر ہسپانوی سیاہ فام اور میکسیکن نسلوں پر مشتمل ہیں؛ اور اسی وجہ سے انہیں ہمیشہ امریکا میں نسلی تعصب کا سامنا رہتا ہے۔

’’جرنل آف امریکن ہیلتھ ایسوسی ایشن‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس تحقیق میں جہاں صحت بخش غذائیں اور عادات اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، وہیں سماجی ناہمواری اور نسلی تعصبات کو بھی عوامی صحت کےلیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2147339/9812/


بادام کا آٹا گھروں میں کھانے پکانے کی ترکیبوں اور دکانوں میں موجود مختلف اشیاء میں پایا جاتا ہے۔

بادام کا آٹا کیا ہے ؟؟
بادام کا آٹا ناقابل بیان حد تک متوازن ہے۔ بادام کا آٹا آپ کے بلڈ شوگر کے لئے بہترین ہے۔ بادام کا آٹا گلاٹین فری ہے۔ بادام کا آٹا ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
بیکنگ اور باورچی خانے میں بادام کے آٹے کا استعمال کیسے کریں؟
کیا بادام کا آٹا صحت افزا ہوتا ہے؟

ماہرین غذائیات کے مطابق ، بادام کا آٹا روایتی گندم کے آٹے سے زیادہ صحت کے فوائد فراہم کرتاہے۔ اس مضمون میں بادام کے آٹے کے صحت سے متعلق فوائد کو دریافت کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیا یہ دیگر اقسام کے آٹے کا بہتر متبادل ثابت ہوسکتا ہے؟
بادام کا آٹا ان دنوں بہت زیادہ مقبول ہورہاہے۔ ہر چیز میں اسے شامل کیا جارہاہے، چاہے آپ کے کچن میں تیار ہونے والی مصنوعات ہوں یا پھر بازار میں فروخت ہونے والی۔کیکس میں بھی استعمال ہوتا ہے اور

بسکٹس میں بھی۔حتیٰ کہ بعض دوسری مصنوعات میں بھی۔ بادام کا آٹا کچے یا پکے باداموں سے بنایا جاتا ہے۔ اس عمل میں بادام کا آٹا بادام کے چھلکے سمیت (بلانچڈ بادام ) سے بنایا جاتا ہے، انھیں نہایت عمدگی سے پیسا جاتا ہے۔ آپ انھیں گھر میں بھی پیس سکتے ہیں۔

عام سفید آٹے میں عام طور پر بیکڈ اشیا ، روٹی، ناشتے اور کھانے میں استعمال ہونے والے بہت سے اہم غذائی اجزاء کی کمی ہوتی ہے ، جن میں فائبر، اینٹی آکسیڈینٹس، وٹامنز اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ بادام کا آٹا گلوٹین سے پاک ہے ، لہذا یہ ان لوگوں کے لئے ایک اچھی چیز ہے جن میں سیلیک بیماری کی علامتیں ہوتی ہیں یا جن لوگوں کو گلوٹین سے مسئلہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اینٹی آکسیڈنٹس بادام کے چھلکوں میں ہوتے ہیں، اس لئے انھیں چھلکوں سمیت پیسیں۔

لیکن کیا واقعی بادام کا آٹا صحت مند ہے؟
بادام ایک صحت بخش گری دار میوے میں سے ایک ہے جسے آپ کھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر ، وہ ایک بہترین غذا ہے جو آپ قلبی بیماری کی روک تھام میں مددگار ہوتی ہے۔ وہ پودوں پر مبنی مونوسسریٹڈ چربی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں ، جو ایل ڈی ایل (خراب) کولیسٹرول اور مجموعی کولیسٹرول کو کم کرنے اور ایچ ڈی ایل (اچھے) کولیسٹرول کو بڑھانے کے لئے پائے گئے ہیں۔

بادام میں میگنیشیم ہوتا ہے۔یہ آپ کے جسم میں بہت سارے عوامل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں بہتر کردار ادا کرتا ہے، اسی طرح انسولین کی کم مزاحمت اور کم بلڈ پریشر سمیت متعدد فوائد فراہم کرتا ہے۔

بادام کی ایک اونس میں تقریباً 80 ملی گرام میگنیشیم ہوتا ہے ، جو بالغوں کے لئے تجویز کردہ روزانہ خوراک کا 20 فیصد ہوتا ہے۔ اوپن ہارٹ میں ہونے والی بعض تحقیق سے پتا چلا ہے کہ میگنیشیم کی کمی کئی قلبی امراض سے وابستہ ہے ، جس میں ہائی بلڈ پریشر ، کارڈیومیوپیتھی ، کارڈیک اریٹیمیا ، اور ایٹروسکلروسیس شامل ہیں۔

بادام کے آٹے میں خالص کاربس کم ہوتے ہیں۔ صرف 4 گرام کاربوہائیڈریٹ باداموں کے ایک چوتھائیکپ میں ہوتے ہیں۔ سفید آٹا کے متبادل کے طور پر بادام کا آٹا خون میں شوگر کو متوازن کرنے ، مجموعی طور پر کاربوہائیڈریٹ کی مقدار کو کم کرنے ، اور پروٹین اور فائبر کی مقدار میں اضافہ کرنے کی ایک بہترین تدبیر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2020ء کے جریدے ’ نیوٹرینٹ ‘ میں ہونے والی ایک تحقیق میںکم کاربوہائیڈریٹ والی غذا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ذیابیطس کے مریضوں کو بادام استعمال کروا کے اور پھر استعمال نہ کروا کے دیکھا گیا، ان کی دونوں حالتوں میں واضح فرق پایا گیا ۔

نتائج نے ظاہر کیا کہ جن لوگوں نے بادام کو اپنی کاربوہائیڈریٹ غذا میں شامل کیا، ان میں ان لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر گلیسیمک کنٹرول تھا جو بادام کے بغیر کاربوہائیڈریٹ غذا کھاتے تھے۔ محققین کا خیال ہے کہ وٹامن ای کے اضافی خصوصیت کے سبب بلڈ شوگر کو متوازن کرنے کیلئے بادام ایک اضافی مددگار ہوتے ہیں۔

بادام وٹامن ای کا بہترین ذریعہ
بادام وٹامن ای کا ایک بہترین غذائی ذریعہ ہیں جو ایک طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ ہے اور ایک ضروری وٹامن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی غذا میں اس اہم غذائی اجزاء کو اپنے کھانوں میں استعمال کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ، بالغ لوگوں کی بہت بڑی تعداد وٹامن ای کی اوسط ضروریات کو بھی پورا نہیں کرتے ہیں۔

آپ کی غذا میں کافی مقدار میں وٹامن ای کا نہ ہونا آپ کی صحت پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔ قومی انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے مطابق ، وٹامن ای آپ کی شریانوں اور خون کے ٹکڑوں میں بلاک کی تشکیل کو روک سکتا ہے۔ مطالعات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وٹامن ای کورونری دل کی بیماری سے بچنے ، کینسر کی بعض اقسام کے خطرات کو کم کرنے اور موتیا کی بیماری کے خطرے کو بھی کم کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

بادام کا ایک اونس آٹا آپ کو وٹامن ای،میگنشئیم اور فائبر کی اچھی مقدار فراہم کرتا ہے۔اگر آپ کم کارب آٹا ڈھونڈ رہے ہیں تو بادام کا آٹا ایک بہترین انتخاب ہے۔
https://www.express.pk/story/2147599/9812/


خوبصورتی خون سے ہوتی ہے اورخوبصورتی کا سب سے بڑا ذریعہ تن درستی و توانائی بنتی ہے۔ جب بدن میں خون کی مناسب افزائش ہوتی ہے تو گال کا لال ہونا گلاب کو بھی شرمادیتا ہے۔

خون کی وافرافزائش متوازن،معیاری اور ملاوٹ سے پاک خوراک کے استعمال سے ہی ممکن ہوپاتی ہے۔ہمارے جسم کی تمام تر توانائیوں، رعنائیوں ،خلیات،عضلات،بافتوں اور اعضاء کے افعال واعمال اور مختلف نظاموں کی بہتر کار کردگی کا انحصار خون پر ہی ہوتا ہے۔

بدن انسانی کی جلد کی چمک ودمک، ملائمت، نرماہٹ،تازگی، شگفتگی اور خوبصورتی کا سب سے برا سبب خون میں سرخ ذرات (ہیموگلوبن) کی مطلوبہ مقدار کا پایا جانا ہوتا ہے۔ہیموگلوبن فولادی اجزاء اور ایک خاص قسم کی پروٹین کے مرکب سے تشکیل پانے والا مادہ ہے جو خون کے ساتھ مل کر پور ے جسم انسانی میںآکسیجن کی ترسیل کا کام سر انجام دیتا ہے۔ ہمارے بدن کو درکار ہیمو گلوبن ہم اپنی روز مرہ خوراک سے حاصل کرتے ہیں جسے عرف عام میں فولاد بھی کہاجاتا ہے۔فولاد کو جزو بدن بنانے کے لیے فولک ایسڈ کا خوراک میں شامل ہونا بھی ماہرین لازمی قرار دیتے ہیں۔

ایک صحت مند جسم میں پانچ سے چھ لیٹرخون پایا جاتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی کا54 فیصد خون کی کمی کاشکار ہے اور یہ عارضہ مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق فولاد دماغی چستی کو قائم رکھنے اور اکتاہٹ و اکساہٹ اور تھکاوٹ دور کرنے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ انسان کو چڑ چڑے پن سے نجات دلاتا ہے۔ خوف، بزدلی اور کاہلی کے احساس سے بچا تا ہے۔ہر حال میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کی ہمت اور جرات سے کام کرناسکھاتا ہے۔

خون کی کمی کی علامات

کسی بھی صحت مند جسم میںخون کی کمی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ مبتلا کے بدن میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کی مناسب رسد نہیں ہو پارہی۔ جسم میں آکسیجن کی کمی سے سانس پھولنا، تھکاوٹ کا احساس بڑھ جانا ، مزاج میں چڑاچڑا پن در آنا، بالوں کے مسائل ،بال گرنا، بالوں میں روکھا پن پیدا ہونا، ڈپریشن کی علامات کا ظاہر ہونا، سر چکرانا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا، گھبراہٹ، بلا وجہ خوف،سینے پر بوجھ محسوس ہونا اور جلد کی رنگت زردی مائل ہونا جیسے علامات رونما ہونے لگتی ہیں۔

خون کی کمی کا شکار فرد بلا وجہ اداس،بد مزاج اورچڑچڑا ساہوجاتا ہے۔تھوڑا ساکام کرے،تیز قدموں کے ساتھ چلے یا سیڑھیاں وغیرہ چڑھے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے۔ ہر وقت تھکاوٹ، اکتاہت اور بیزاری کا احساس لیے ہوتا ہے۔ جسم میں خون کی کمی لاحق ہونے سے سانس لینے میں دشواری اور سینے پر بوجھ پڑنا جیسی علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔بیٹھ کر اٹھتے وقت سر چکرانا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا ساچھا جانے کی کیفیت بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔کمی خون کی سب سے بڑی اور واضح علامت جلد ، ناخن اور آنکھوں کا زرد ہونا ہے۔

خون کی کمی کے اسباب

طبی ماہرین کے مطابق بدنِ انسانی کی تمام تر بیماریوں کا سب سے بڑا سبب خون میں سرخ ذرات جسے ہیمو گلوبین کہا جاتا ہے کی کمی بنتا ہے۔کیونکہ ہمارے بدن میں ہیمو گلوبین آکسیجن کی مناسب رسد وترسیل کو متوازن کرنے کا اہم فریضہ سرانجام دیتی ہے۔جوں جوں ہمارے خون میں آکسیجن انٹیک لیول کم ہوتا جاتا ہے توں توں ہمارا بدن مختلف بیماریوںکے نرغے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

انسانی جسم میں خون کی کمی واقع ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں،جن میں معدے کی خرابی جگر کی کارکردگی متاثر ہونے ،دائمی قبض، خونی بواسیر، چوٹ لگنے سے اخراج خون ہونا، دوران حمل،اور متوازن خوراک کا استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔

جب غذا مناسب طریقے سے ہضم نہیں ہوپاتی تو بدن کو فولادی عنصر کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی جس کے باعث کمی خون کی علامات سامنے آنے لگتی ہیں۔اسی طرح مسلسل قبض رہنے سے انتڑیاں غذائی اجزاء کشید کر کے خون میں شامل کرنے سے قاصر ہوجاتی ہیں، نتیجے کے طور پر خون میں فولاد کی قلت واقع ہوکر بدن متاثر ہونے لگتا ہے۔

جگر چونکہ پورے بدن کو غذائی اجزاء پہنچانے پر مامور ہوتا ہے،جگر کی کارکردگی متاثر ہونے سے بھی پورا بدن متاثر ہو کر کمزوری میں گرفتار ہوجاتا ہے۔جگر کمزور ہونے کے سبب صفراء کی افزائش بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ، صفراء بڑھنے سے بھی خون کی مقدار میں کمی پیدا ہوکر جلد کی رنگت زرد دکھائی دینے لگتی ہے۔

حاملہ خواتین میں خون کی کمی اس لیے بھی رونما ہوتی ہے کہ جسم کے اندر جسم کی پرورش ہونے سے حاملہ کو معمول سے ہٹ کر فولاد کی زیادہ مقدار درکار ہوتی ہے، جب حاملہ خواتین کو متوازن، معیاری اور توانائی سے بھرپور غذائیںمیسر نہیں آتیں تو وہ خون کی کمی کے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ قلت خون کا مریض جسمانی کمزوری میں مبتلا ہوجاتا ہے، بھوک ختم ہوجاتی ہے اور سانس پھولنے لگتی ہے، پاؤں پر سوجن کے آثار بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

فولاد کا حصول

غذائی ماہرین کے مطابق قدرتی غذائیں ہمارے بدن کی آئرن کی ضرورت کو قدرتی انداز میں پورا کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔فولادی اجزاء سے لبریز قدرتی غذائیں ہر موسم میں وافر پائی جاتی ہیں۔حکیم کائنات نے ہماری بدنی ضروریات پورا کرنے کے لیے لاتعداد غذائیں پیدا کر رکھی ہیں جو ہر موسم میں ہمیں ہماری بدنی ضروریات پورا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

دالیں، سرخ مولی، ساگ، سبز پتوں والی سبزیاں، سلاد کے پتے، پالک، سویا بین، گاجر، ٹماٹر، کدو، انار، تربوز، جاپانی پھل، سیب، امرود، انگور، آلو، آلو بخارا، انڈے کی زردی، گوشت، کلیجی، اسٹابری، خوبانی، کیلا، شہتوت، املوک، انجیر، بادام، سیاہ چنے، جامن، کشمش اور کھجور فولاد حاصل کرنے کے قدرتی ذرائع مانے جاتے ہیں۔

طلوع آفتاب کے وقت سورج کی شعاؤں میں چہل قدمی اور ورزش سے بھی خون میں آکسیجن شامل ہونے سے سرخ ذرات میں اضافہ ہوتا ہے۔ گاجر، مولی، ٹماٹر، سیب، امرود اور سلاد کے پتے بطور سلاد کھانے کے ساتھ بسہولت استعمال کیے جا سکتے ہیں۔انار،تربوز،جاپانی پھل اور آلو بخار اکسی وقت بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ کلیجی اور بڑا گوشت کولیسٹرول کا سبب بھی بن سکتے ہیںلہٰذا استعمال سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ لازمی کرلیں۔

خون کی کمی سے بچاؤ

خون کی کمی سے بچنے کے لیے قلت خون پیدا کرنے والے اسباب اور عوامل سے بچا جانا بے حد ضروری ہے۔ ایسی تمام غذائیں جن کے استعمال سے معدہ کمزور یا معدے کی کارکردگی میں نقص پیدا ہو ان سے پرہیز لازم ہے۔فاسٹ فوڈز، میدے سے بنی اشیاء،فروزن فوڈز، کولا مشروبات، بیکری مصنوعات،آئس کریم، چوکلیٹس، چکنائیاں، مٹھائیاں،مرغن،بادی اور ثقیل خوراک معدے اور انتڑیوں کو متاثر کرتی ہیں،ان کا استعمال جس قدر ممکن ہوسکے کم سے کم ہی کیا جائے۔ کیمیائی اجزاء پر مشتمل خوراک جیسے برائلر، چینی، ٹی وائٹنر، بناسپتی، پکانے کے تیل، بازار ی پسے ہوئے مسالہ جات، مصنوعی مشروبات اورفارمولا دودھ وغیرہ سے بھی حتی المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔

روز مرہ خوراک میںریشے دار غذائی اجزاء جیسے، دلیہ، موسمی پھل،خزک میوہ جات، سبزیاں اور ترکاریاںبکثرت شامل کی جائیں۔چینی کی جگہ شکر اور گڑ استعمال کرنے کو ترجیح دی جائے۔ بناسپتی اور کوکنگ آئل کی جگہ سرسوں، زیتون،السی اور تلوں کا تیل پکانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ قبض جیسے موذی مرض سے فوری چھٹکارا پانے کی کوشش کی جائے،اسی طرح خونی بواسیر سے نجات پانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ قبض اور بواسیر کے امراض سے بچنے کے لیے ورزش اور متحرک زندگی ضروری ہے۔گاہے بگاہے سنا مکی، گلاب اور ادرک کا قہوہ استعمال کرتے رہنے سے پیٹ کے منجملہ امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

خون کی کمی دور کرنے کے گھریلو طریقے

انار دانہ ایک چمچ، آلو بخارے دو عدد اور زرشک شیریں آدھی چمچ، تینوں کو رات بھر ایک گلاس پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ شربت بناکر استعمال کریں۔ ہفتہ عشرہ استعمال کرنے سے ہی جسم کی رنگت سرخ وسفید اور جسمانی توانائیاں بحال ہونے لگیں گی۔

6 عد د کیلے باریک کاٹ کر رات کو ابلے ہوئے آدھا کلو دودھ میں ڈال کر محفوظ کرلیں۔ صبح خالی پیٹ اچھی طرح باہم ملا کر استعمال کریں۔ چند دنوں میں ہی چہرے کی رونق دوبالا اور بدنی توانائی بھی خوب بڑھ جائے گی۔

رات سوتے وقت ایک چمچ سیاہ چنے پانی میں بھگو کر صبح خالی پیٹ چنے کھا کر پانی پینے سے بھی فولادی کمی دور ہوتی ہے۔

15 عدد مغز بادام،ایک چمچ کشمش عرق گلاب میںبھگو کر صبح نہار منہ بادام اور کشمش کھا کر عرق گلاب پی لیا جائے تو چند روزہ استعمال سے ہی خون کی کمی دور ہوکر جسم طاقت ور وتوانا ہوجاتا ہے۔

گاجر، انار اور سیب کا مرکب جوس روزانہ پینے سے بھی خون کی کمی کا خاتمہ ہوتا ہے۔سیب، گاجر،آملہ اور بہی کا مربہ کھانے سے بھی خون کی کمی دور ہوتی ہے۔یاد رکھیں! متوازن معیاری اور ملاوٹ سے پاک خوراک کا استعمال ہمیں ہمیشہ خون کی کمی سمیت تمام امراض سے بچانے کا سب سے بڑا اور موئثر ذریعہ ہے۔ہماری ان معروضات پر عمل پیرا ہوکر آپ چند دنوں میں ہی ایک صحت مند، تن درست وتوانا اور بھرپور زندگی سے محظوظ ہوسکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2147594/9812/


ظہبی:
متحدہ عرب امارات کی ’جامعہ خلیفہ‘ میں سائنسدانوں نے ایسا ہولوگرام اسٹیکر تیار کرلیا ہے جسے کھا کر ہضم بھی جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران مختلف ’’اصلی مصنوعات‘‘ کی شناخت میں اسٹیکر جیسے ’’تھری ڈی ہولوگرامز‘‘ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ان کی قیمت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔

اب تک کاغذ، لکڑی اور پلاسٹک پر ہولوگرامز چھاپنے میں کامیابی حاصل کی جاچکی ہے، تاہم کھانے پینے کی چیزوں میں صرف چاکلیٹ پر ہولوگرام بنانے میں ہی نہایت محدود کامیابی مل سکی ہے۔

انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، جامعہ خلیفہ کے ڈاکٹر بدرالقطان اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حیدر بٹ کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے کورن سیرپ اور وینیلا میں پانی ملا کر ایسے ہولوگرام تیار کیے ہیں جنہیں کھانے پینے کی کسی بھی چیز (مثلاً پھل) پر بھی نقش کیا جاسکے گا اور آرام سے کھایا بھی جاسکے گا۔

اس ’’خوردنی‘‘ (کھائے جانے کے قابل) ہولوگرام کی تیاری میں نینو ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید لیزر تکنیکوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، تاہم اسے آخری شکل دینے سے ذرا پہلے خاص طرح کے سیاہ رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ سب سے آخری مرحلے میں لیزر نقش کاری (لیزر ایچنگ) کے دوران یہ سیاہ رنگ بھی مکمل طور پر ختم کردیا جاتا ہے لیکن اب ماہرین یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسے بھی کسی فوڈ گریڈ کلر (کھائے جانے کے قابل رنگ) سے بدل دیا جائے تاکہ یہ خوردنی ہولوگرام اور بھی بہتر ہوسکے۔

اس طرح کے خوردنی ہولوگرامز نہ صرف اصل غذائی مصنوعات کو شناخت کرنے میں مدد دیں گے بلکہ ان کے تازہ یا خراب ہونے کا پتا بھی دے سکیں گے۔

اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس نینو‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

اضافی طور پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر حیدر بٹ کا تعلق کشمیری نژاد برطانوی خاندان سے ہے۔

ڈاکٹر بٹ اس سے پہلے گلوکوز محسوس کرنے والے کونٹیکٹ لینس، کلر بلائنڈ افراد کےلیے کونٹیکٹ لینس اور کاربن نینوٹیوب ہولوگرامز جیسی اہم ایجادات کرچکے ہیں۔

کیمبرج اور برمنگھم یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر حیدر بٹ 2017 سے جامعہ خلیفہ کا حصہ ہیں۔
https://www.express.pk/story/2147402/508/

ڈنمارک میں 30 لاکھ خاندانوں کو بجلی کی فراہمی کے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے جو ایک وسیع و عریض مصنوعی جزیرے پر تعمیر کیا جائے گا۔


اپنی نوعیت کا دنیا کا یہ پہلا ’ توانائی جزیرہ‘ فٹ بال کے اٹھارہ میدانوں کے برابر ہوگا لیکن امید یہ کی جا رہی ہے اس کی وسعت میں تین گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس جزیرے پر 200 دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائین لگائے جائیں گے۔ یہ ڈنمارک کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور اس پر 34 ارب ڈالر خرچ ہونے کا تخمینہ ہے۔

یہ جزیرہ جو ساحل سے اسی کلو میٹر کے فاصلے پر سمندر میں تعمیر کیا جائے گا اس کا نصف حصہ حکومت کی ملکیت ہو گا جبکہ نصف حصے کی مالک پرائیوٹ کمپنیاں ہوں گی۔ بجلی پیدا کرنے والے اس انوکھے منصوبے سے صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات کو ہی پورا نہیں کیا جائے گا بلکہ ہمسایہ ملکوں کو بھی بجلی فروخت کی جائے گی۔

ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے پروفیسر جیکب اوسٹرگارڈ نے بتایا کہ ابھی ان ملکوں کی فہرست تیار نہیں کی گئی لیکن اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں برطانیہ بھی شامل ہو سکتا اور اس کے علاوہ ہالینڈ اور جرمنی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ڈنمارک کے کلائمیٹ ایکٹ کے تحت سنہ 1990 میں اس بات کا عزم کیا گیا تھا کہ کاربن کے اخراج کو سنہ 2030 تک 70 فیصد کم کر دیا جائے گا اور سنہ 2050 تک ملک مکمل طور پر کاربن کے اخراج سے پاک ہو جائے گا۔ گزشتہ دسمبر کو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ ڈنمارک شمالی بحیرہ اوقیانوس میں تیل اور گیس کی تلاش کا تمام کام بند کر رہا ہے۔ ملک کے توانائی کے وزیر ڈین ہرگنشین کا کہنا ہے کہ ان کا ملک دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے۔

پروفیسر اوسٹر گارڈ نے کہا کہ ’ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ یہ ڈنمارک کی ونڈ ٹربائین کی صنعت کا ایک بڑا قدم ہے۔ ہم خشکی پر ونڈ ٹربائین لگانے میں سب سے آگے تھے۔ اس کے بعد ہم نے ساحل سمندر اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائین لگائے اور اب ہم توانائی کا جزیرہ تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ لہذا اس سے ڈنمارک کی بجلی پیدا کرنے کی صنعت میں سب سے آگے رہے گا۔‘

ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم گرین گروپ ڈاسک انرجی نے کہا ہے کہ ’ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہے ہے لیکن اْس نے اِس بارے میں شک کا اظہار کیا کہ یہ منصوبہ 2033 تک میں شروع ہو سکے گا۔ ڈنمارک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ سابق وزیر توانائی رامس ہیلوگ پیٹرسن نے کہا کہ توانائی کا جزیرہ بنانے کا خیال انقلابی ہے اور اس پر اب وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسے اب حقیقت کا روپ دیا جائے۔

ڈنمارک سے مشرق میں ایک قدر چھوٹے توانائی کی جزیرہ بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بیلجیئم اور ہالینڈ کو بجلی فراہم کرنے کے معاہدات کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ نومبر میں یورپی یونین نے اعلان کیا تھا کہ سمندری ہواؤں سے بجلی کی پیداوار سنہ 2050 تک 25 گنا تک بڑھا دی جائے گی اور سنہ 2030 تک اس میں پانچ گنا اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت توانائی کے متادل ذرائع سے یورپی یونین کی ایک تہائی توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

ڈنمارک کی طرف سے توانائی کے جزیرے کی جگہ کو فی الوقت خفیہ رکھا گیا ہے لیکن یہ بات عام ہے کہ اس کو شمالی بحریہ اوقیانوس میں ڈنمارک کے ساحل سے 80 کلو میٹر کی دوری پر تعمیر کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2141690/508/


لاہور:
پاکستانی زرعی ماہرین نے آرگینک لیکویڈ فارمولے سے ایسی گندم تیار کی ہے جس میں گلوٹن کی مقدارمعمول سے کم جبکہ اس میں وٹامن ای اورپروٹین بھی شامل ہے۔

پاکستان میں روایتی طریقے سے کاشت کی جانے والی گندم میں گلوٹن کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی بیماریاں پیداہوتی ہیں تاہم پاکستانی زرعی ماہرین نے آرگینک لیکوئڈ فارمولااستعمال کرکے ایسی گندم تیار کی ہے جس کے آٹے میں گلوٹن کی مقدار کم ہے جبکہ پاکستان میں پہلی بار گندم میں قدرتی طورپر وٹامن کی مقدار بھی شامل ہے۔

زرعی ماہر سید بابرعلی بخاری نے بتایا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے چاول اور گندم سمیت مختلف سبزیوں اور باغات پر آرگینک لیکویڈ فارمولے کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اس کے استعمال سے زمین میں کینچوے پیدا ہوتے ہیں جو زمین کی پیداواری صلاحیت اورفصل کی غذائیت بڑھاتے ہیں۔ گندم کے آٹے کو پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ اندسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) میں ٹیسٹ کروایا گیا ہے اور ان کی رپورٹ کے مطابق اس گندم اورآٹے میں گلوٹن کی مقدار 10 فیصد تک آئی ہے جو کہ عام گندم میں 14 فیصد تک ہوتی ہے۔ اسی طرح فیٹ کی مقدار ایک فیصد، پروٹین 13 اعشاریہ 72 فیصد، فائبر ایک اعشاریہ 20 فیصد، وٹامن اعشاریہ 78 فیصد اور کاربوہائیڈرریٹ کی مقدار 73 اعشاریہ 68 فیصد ہے۔

بابرعلی بخاری نے بتایا کہ پوری دنیا میں گندم میں وٹامن ای نہیں ہوتا، آٹے میں اضافی طورپرشامل کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں کاشت کی جانیوالی گندم میں وٹامن ای قدرتی طور پرموجود ہے، دو روٹیوں میں وٹامن ای کی مقدار آدھ پاؤ مچھلی میں موجود وٹامن ای کے برابرہے۔ جو شخص دن میں تین باراس آٹے سے تیار روٹی کھائے گا وہ معدے کی بیماریوں سے موٹاپے، بلڈپریشر سے محفوظ رہے گا جبکہ نظام انضہام بھی بہترہوگا۔ سید بابرعلی بخاری کہتے ہیں یہ اس آٹے کی قیمت عام آٹے کی قیمت کے برابرہی ہوگی اور غریب آدمی آسانی سے خریدسکے گا

پاکستان میں پہلی بار گلوٹن کی کم مقداراوروٹامن ای والے آٹے سے بیکری مصنوعات بھی تیار کی جائیں گی، لاہور سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت فیصل محمود نے بتایا کہ ہم نے اس آٹے سے تجرباتی طور پربریڈ،کیک رس، پیزا اورشوارما بریڈ تیار کی ہیں اوران کومختلف لیبارٹریزمیں چیک بھی کروایا ہے ، جو مارکیٹ میں موجود آٹے سے تیار کی جانیوالی دیگر بیکری مصنوعات کے مقابلے میں انتہائی فائدہ مند ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس آٹے سے تیارکی گئی روٹی اور بیکری مصنوعات کا ایک سوسے زائد افراد کو کھلا کر تجربہ کیا گیا ہے ،اس کے استعمال سے ان کے معدے کی تکالیف کم ہوئی ہیں اورموٹاپے میں بھی کمی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ چند ہفتوں میں بیکری مصنوعات کی کمرشل بنیادوں پر تیاری شروع ہوجائے گی۔

لاہورکے ایک نجی اسپتال کے سینئرڈاکٹر کیپٹن(ر) خالد پرویز نے بتایا کہ انہوں نےعام گندم میں گلوٹن کی مقدارزیادہ ہونے کی وجہ سے کئی افراد کو روٹی ہضم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔اگر اس آٹے میں گلوٹن کی مقدار کم ہے اور وٹامن ای بھی شامل ہے تو پھر یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے، پیٹ اورمعدے کی بیماریوں کا شکار کئی افراد صرف یہ روٹی استعمال کرنے سے بیماریوں سے بچ سکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2137945/1/


آن لائن کلاسوں کی وجہ سے اب موبائل فون کا استعمال بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کافی ضروری ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر گھروں میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے بہ جائے ’اسمارٹ فون‘ پر ہی کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔۔

نوجوانوں کی نسبت چھوٹے بچوں میں موبائل فون تک رسائی اور ’آن لائن‘ کلاسوں کی وجہ سے ہر وقت موبائل کا استعمال ایک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

ان دنوں آن لائن کلاسوں سے پہلے یا اس کے بعد ویڈیو گیم کھیلنے یا دیگر مشاغل کی ایپس کے استعمال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، چوں کہ کلاس کے بچوں کے وٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں، اس لیے بچے اپنی عمر کے دوستوں کو غیر ضروری پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کے انتظار میں اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی برباد کر نے لگے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ غیر مناسب ویب سایٹ ہیں، جو اب چھے سے 13 سال کے بچوں کی پہنچ میں آگئی ہیں اور یہ خطرناک دنیا انگلی کی ایک ’جُنبش‘ کے فاصلے پر ہے، جو معصوم ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

گویا ایک ایسا مہلک ہتھیار بچے کے ہاتھ میں آ چکا ہے، جو ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی نشوونما کو بدترین نقصان پہنچا سکتا ہے اور والدین چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے بچے کو اس ناگہانی آفت سے نہیں بچا سکتے اور نہ ہی وہ ہر وقت ان پر نگران رہ سکتے ہیں، کیوں کہ آن لائن کلاسوں کی وجہ سے بچوں کو یہ جواز مل چکا ہے کہ وہ نہ صرف موبائل رکھ سکتے ہیں، بلکہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات آن لائن کلاسوں کا وقت، پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا، اچانک شروع ہونے والی کلاسوں میں والدین بچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، جس کی وجہ سے بچوں کی موبائل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر باخبر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں، لہٰذا آج کا بچہ بے خوف ہو کر موبائل کا آزادانہ استعمال کر رہا ہے اور اب آپ انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا وقت ہے موبائل دیکھنے کا؟ یا کیا ہر وقت موبائل لیے بیٹھے ہو؟ کیوں کہ بچہ آپ کو بہت آسانی سے یہ کہہ کر لاجواب کر دے گا کہ آن لائن کلاسوں کا وقت ہونے والا ہے، یا وٹس ایپ گروپ سے اسکول کا اسائمنٹ بنا رہا ہے، لہٰذا پہلے کی طرح اب موبائل پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔۔۔

اس صورت حال میں اپنے بچوں کو ویڈیو گیم سے لے کر سائبر کرائم کے چنگل سے بچانے کے لیے والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔ چناں چہ اسی خطرے کے پیش نظر سوفٹ وئیر کمپنیاں موبائل کی مانیٹرنگ ایپس تیار کر رہی ہیں، جو بچے کی آن لائن سرگرمیوں کے بارے میں والدین کو فوراً الرٹ جاری کرتی ہیں، جن کے بارے میں جاننا آج کے والدین کے لیے بے حد ضروری ہے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ایپس بہ آسانی گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں

ٹریک اِٹ ایپ (Trackit app)

اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اسے کتنا وقت ہو چکا ہے۔ اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفیکیشن بھی موصول ہو جاتا ہے۔

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل جان کاری، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

دی ٹرتھ اسپائی ایپ (The Truth spay app)

اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دست یاب یہ اینڈرائڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ بچے کے اینڈرائڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔

چلڈرن ٹریکنگ

یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔

فامی سیف ایپ ) (Fami Safe app

فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے، یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2140783/508/

انڈونیشیا میں انسانی شکل والی شارک مچھلی، ویڈیو وائرل

انڈونیشیا میں مچھیرے کے ہاتھ ایسی شارک مچھلی لگ گئی جس کا انسان نما چہرہ ہے

جکارتہ(نیٹ نیوز)انسانی چہرے سے مشابہہ شارک مچھلی انڈونیشیا میں ایک مچھیرے کے پاس دیکھی گئی جس کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے ۔اصل ماجرا یہ ہے کہ ٹینگرا نامی صوبے میں عبداللہ نورن مچھیرے کے جال میں ایک بڑی مادہ شارک مچھلی پھنسی جو حاملہ تھی، شہری نے مچھلی کا پیٹ چیرا تو اس میں سے تین بچے برآمد ہوئے ۔تینوں میں سے دو عام شارک مچھلیوں کی طرح تھے لیکن ایک بچے کی شکل انسان نما لگی جس کی دو بڑی اور گول مٹول آنکھیں ہیں، مچھلی کا منہ اور تھوڑی بھی انسانوں سے ملتی جلتی ہے ۔عبداللہ نورن نے اس نایاب مچھلی کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ مچھیرے کا کہنا ہے کہ مچھلی کے بچے کو خریدنے کیلئے بہت لوگوں نے خواہش ظاہر کی لیکن میں نے انکار کردیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-02-25/1783421


گھنٹے سونے والے نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی بہتر:ماہرین

طبی ماہرین نے کہا ہے کہ 7 گھنٹے سونے والے نوجوان 9 گھنٹے سونے والوں کی نسبت بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں

کراچی(این این آئی)امریکی جریدے میں برمنگھم یو نیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے شائع ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیند کے دورانیے کے طلباکی تعلیم اور صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ماہرین نے پرائمری اور ثانوی جماعت کے 1724 طلباپر تحقیق کی جس کے مطابق 7 گھنٹے سونے والے 13 سے 19 سال والے طالب علم 9 گھنٹے سونے والے طالب علموں کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سکول کے طالب علموں کو نیند کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ 10 سال کی عمر والوں کو 9 سے ساڑھے 9 گھنٹے ، 12 سال والوں کو 8 سے ساڑھے 8 گھنٹے اور 16 سال کی عمر والے طالب علموں کو 7 گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-02-25/1783425


کھانا پکانے کی ویڈیوز دیکھنے کے نقصان بارے جانئے

سماجی رابطے کی مختلف سائٹس پر مزیدار کھانا پکانے کی اشتہا انگیز ویڈیوز دیکھنا ایک عام بات ہے

لندن(نیٹ نیوز)تاہم اب ایسی ویڈیوز دیکھنے کا نقصان سامنے آگیا۔حال ہی میں انگلینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کھانا پکانے کی ویڈیوز دیکھنے سے اشتہا میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم زیادہ کھاتے ہیں جس کا نتیجہ موٹاپے کی صورت میں نکلتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان ویڈیوز سے کچھ سیکھ کر ہم کچھ پکاتے ہیں یا نہیں، لیکن مجموعی طور پر ہم زیادہ کھانے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موٹاپے میں کمی کے خواہشمند افراد کھانے سے قبل اگر کوئی (کھانے سے ) غیر متعلق اور توجہ بھٹکانے والا کام کریں تو ان کی اشتہا میں کمی ہوسکتی ہے ۔ کھانا پکانے کی ویڈیوز دیکھنے کے شوقین افراد اگر صحت مند کھانا بنانے کی ویڈیوز دیکھیں تو یہ ان کی صحت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-02-25/1783426


پیساڈینا، کیلیفورنیا:
حالیہ ترین امریکی خلائی کھوجی ’’پریزروینس‘‘ نے جب مریخ پر اترنے کےلیے اپنا پیراشوٹ کھولا تو سفید اور سرخ رنگ کے اس پیراشوٹ میں ناسا کی طرف سے ایک ’خفیہ پیغام‘ بھی درج تھا۔

تفصیلات کے مطابق، امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’’ناسا‘‘ نے کچھ روز قبل مریخ پر اپنے خلائی مشن ’’پریزروینس‘‘ کے اُترنے کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کرنے کے بعد اعلان کیا کہ مریخ پر کھلنے والے پیراشوٹ میں ایک ’خفیہ پیغام‘ بھی ہے۔


اسی کے ساتھ عوام کو دعوت دی گئی کہ وہ اس خفیہ پیغام کو تلاش کریں اور پڑھنے کی کوشش کریں۔

حیرت انگیز طور پر، صرف چھ گھنٹے بعد ہی فرانس سے ایک ٹوئٹر صارف اور سافٹ ویئر انجینئر نے یہ خفیہ پیغام نہ صرف پڑھ لیا بلکہ اس کی وضاحت بھی اپنی ٹویٹ میں شیئر کرا دی:


یہ دراصل امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کی 1899 میں کی گئی ایک تقریر سے لیا گیا جملہ ہے جو پچھلے کئی برسوں سے ناسا کی مشہور ’’جیٹ پروپلشن لیبارٹری‘‘ کا نعرہ بھی ہے:

Dare Mighty Things

(عظیم کاموں کی ہمت کرو!)

پریزروینس پروجیکٹ کے چیف انجینئر، ایڈم اسٹیلٹزنر نے اس ’’درست جواب‘‘ کی تصدیق کرتے ہوئے کچھ اضافی وضاحت بھی کی۔

تصویر میں پریزروینس کا پیراشوٹ کھلا ہوا ہے جس میں سفید اور سرخ رنگ کی لکیریں نمایاں ہیں جو پیراشوٹ کے مرکز سے نکل کر باہر تک جارہی ہیں۔

ان بظاہر بے ترتیب لکیروں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دراصل یہ چار ہم مرکز دائرے ہیں جبکہ ہر دائرے میں سرخ و سفید رنگ ایک مخصوص انداز (پیٹرن) لیے ہوئے ہیں۔

ناسا کا خفیہ پیغام بھی اسی ترتیب میں پوشیدہ ہے جو ’’ایسکی‘‘ (ASCII) یعنی ’’امریکن اسٹینڈرڈ کوڈ فار انفارمیشن انٹرچینج‘‘ فارمیٹ کو ظاہر کرتی ہے۔

سب سے اندرونی دائرے میں DARE لکھا ہے؛ اس سے باہر والے، دوسرے دائرے میں MIGHTY لکھا ہے؛ پھر تیسرے دائرے میں THINGS لکھا ہے؛ جبکہ سب سے باہر والے، یعنی چوتھے دائرے میں جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے صدر دفتر (ہیڈ کوارٹرز) کا مقام درج ہے جو اس کے ’’گلوبل پوزیشننگ سسٹم‘‘ (جی پی ایس) کوآرڈی نیٹس کو ظاہر کرتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2147365/508/


کراچی:
بظاہر معمولی سی دکھائی دینے والی اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں ہر سفید نقطہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے… اتنا بڑا کہ ایسے ہر بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا سے 50 ارب گنا تک زیادہ ہوسکتی ہے۔ یعنی اس تصویر میں ہر نقطہ ایک ’’سپر میسیو بلیک ہول‘‘ ہے!

یہ تصویر یورپی ماہرینِ فلکیات کی ایک وسیع ٹیم نے کئی سال محنت کے بعد تیار کی ہے جسے بنانے کےلیے انتہائی کم تعدد (low frequency) والی ریڈیو لہروں کے علاوہ سپر کمپیوٹر کی زبردست طاقت بھی استعمال کی گئی ہے۔

اگر آپ اب بھی اس تصویر کو معمولی سمجھ رہے ہیں تو اس کامیابی کا پس منظر سمجھنا آپ کےلیے ضروری ہوگا۔
ریڈیو کھڑکی اور کم تعدد والی لہریں

واقعہ یہ ہے کہ زمین کے گرد لپٹا ہوا ’’کرہ رواں‘‘ (آئنو اسفیئر) کسی فلٹر کا کام کرتے ہوئے صرف 5 میگا ہرٹز سے 30 گیگا ہرٹز (30,000 میگا ہرٹز) فریکوینسی کی ریڈیو لہروں ہی کو زمینی سطح تک پہنچنے دیتا ہے۔ سائنس کی زبان میں اسے ’’ریڈیو کھڑکی‘‘ (ریڈیو ونڈو) کہا جاتا ہے۔

تاہم جب یہ لہریں کرہ ہوائی (ایٹموسفیئر) سے گزرتی ہیں تو اِن میں انتشار پیدا ہوتا ہے جس کا انحصار اُس وقت اور مقام پر کرہ ہوائی کی کیفیت پر ہوتا ہے۔

کم فریکوئنسی والی لہروں کےلیے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے جس کے باعث ان کے ذریعے اب تک آسمان کی ریڈیو تصاویر حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔

اگرچہ بڑے بڑے ڈش انٹینا جیسی زمینی ریڈیو دوربینیں پچھلے پچاس سال سے اُن آسمانی مناظر کی عکاسی کر رہی ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، لیکن اس کےلیے وہ زیادہ فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں سے ہی استفادہ کرتی ہیں۔

یورپ کا ’’لوفار‘‘ منصوبہ

100 میگا ہرٹز اور اس سے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کے ذریعے آسمان کی تصویر کشی کےلیے فی الحال صرف ایک ہی بڑا منصوبہ ’’لو فریکوئنسی ایرے‘‘ (LOFAR) ہے جس کے 20 ہزار سے زائد ’’ڈائی پول ریڈیو انٹینا‘‘ پورے یورپ میں 52 مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ویسے متبادل طور پر اس منصوبے کو ’’انٹرنیشنل لوفار ٹیلی اسکوپ‘‘ (ILT) بھی کہا جاتا ہے۔

یہ منصوبہ 2010 میں شروع ہوا اور فروری 2021 میں (یعنی اسی سال) مکمل ہو کر رُو بہ عمل ہوا ہے۔

مجموعی طور پر یہ تمام ڈائی پول ریڈیو انٹینا آپس میں مل کر ’’لوفار‘‘ کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے آسمان کی انتہائی وسیع اور تفصیلی تصویر بنا سکے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں کہ جتنی آسانی سے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔

بلیک ہول اور ’’آخری چیخ‘‘

سادہ الفاظ میں بات کریں تو کسی بھی بلیک ہول کی کششِ ثقل (گریویٹی) اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ مادّہ تو کیا، روشنی بھی وہاں سے فرار نہیں ہوسکتی۔

خوش قسمتی سے بلیک ہول کی یہ ’’ناقابلِ فرار‘‘ کشش اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے یعنی ’’واقعاتی افق‘‘ (ایونٹ ہورائزن) تک محدود ہوتی ہے۔

کوئی بھی چیز (مثلاً گیس اور گرد وغیرہ) جیسے جیسے بلیک ہول کے قریب پہنچتی ہے، ویسے ویسے اس پر بلیک ہول کی کششِ ثقل کا اثر بھی بڑھتا جاتا ہے اور وہ مزید تیزی سے، چکر لگاتی ہوئی، بلیک ہول سے اور بھی نزدیک ہونے لگتی ہے… یہاں تک کہ وہ واقعاتی اُفق پر پہنچ جاتی ہے۔

تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس چیز کی رفتار اور توانائی، دونوں ہی بہت زیادہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ واقعاتی اُفق کو عبور کرتے ہی وہ چیز خود تو بلیک ہول کے اندر غائب ہوجاتی ہے لیکن ٹھیک اسی مرحلے پر وہ زبردست توانائی بھی خارج کرتی ہے جس کا کچھ حصہ واقعاتی اُفق سے ’’ذرا باہر‘‘ ہونے کی وجہ سے بیرونی خلاء میں فرار ہوجاتا ہے۔

بلیک ہول سے فرار ہونے والی یہ توانائی ایکسریز سے لے کر ریڈیو لہروں تک، کئی طرح کی برقی مقناطیسی لہروں کی شکل میں ہوتی ہے جس کا مخصوص انداز اس مقام پر بلیک ہول کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔

سائنس داں اسے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی ’’آخری چیخ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اب تک جتنے بھی بلیک ہولز دریافت کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب اسی بنیاد پر دریافت ہوئے ہیں۔

’’لوفار‘‘ منصوبے کے تحت، بلیک ہول سے فرار ہونے والی ایسی ہی کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لیکن…
خصوصی الگورتھم اور سپر کمپیوٹر

… لیکن اِن لہروں میں انتشار اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں آسمان کی ’’ریڈیو تصویر‘‘ بنانے میں استعمال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ حل کرنے کےلیے کمپیوٹر پروگرامرز/ سافٹ ویئر بنانے والوں سے مدد لی گئی جنہوں نے ان منتشر ریڈیو لہروں کو واضح اور صاف ستھرے عکس میں تبدیل کرنے کےلیے خاص طرح کے الگورتھم اور سافٹ ویئر تیار کیے۔

’’لوفار‘‘ سے مسلسل 256 گھنٹے (10 دن اور 16 گھنٹے) تک آسمان کا مشاہدہ کرکے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہریں جمع کی گئیں۔ یہ ڈیٹا اتنا زیادہ تھا کہ اسے نہ تو کسی عام ہارڈ ڈسک پر محفوظ کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی کسی عام کمپیوٹر پر درست کرکے صاف ستھرے عکس میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔

لہٰذا، اس مقصد کےلیے زیادہ گنجائش والی ہارڈ ڈسکس کے علاوہ، اس تمام ڈیٹا کی پروسیسنگ کےلیے سپر کمپیوٹر استعمال کیا گیا۔

اس طرح، آخرکار، انتہائی کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے شمالی آسمان کے صرف 4 فیصد حصے کی ایک بھرپور، جامع اور صاف ستھری تصویر حاصل کی گئی جس میں ایک ساتھ 25 ہزار کے لگ بھگ عظیم و جسیم بلیک ہول یعنی ’’سپر میسیو بلیک ہولز‘‘ موجود ہیں۔
ابھی تو ’’پاؤڑی‘‘ شروع ہوئی ہے!

یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ 2019 میں ’’لائیگو‘‘ سے ’’بلیک ہول کے سائے کی اوّلین تصویر‘‘ کی طرح یہ تصویر بھی بہت غیرمعمولی ہے کیونکہ یہ صرف ایک تصویر نہیں بلکہ انسانی ذہانت، مہارت اور برسوں کی محنت کا نچوڑ ہے جس کی بدولت ’’ریڈیو فلکیات‘‘ اپنی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔


اس کے باوجود، یہ ’’لوفار‘‘ کی صرف پہلی کامیابی ہے کیونکہ یہی منصوبہ اگر ایک طرف کرہ رواں (آئنو اسفیئر) کو بہتر طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا تو دوسری جانب اس سے مستقبل میں فلکیات کے میدان میں نئی (اور شاید غیر متوقع) دریافتیں بھی متوقع ہیں۔

50 میگا ہرٹز سے کم فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کی مدد سے ہم کہکشاؤں، کہکشانی مرکزوں، چھوٹے بڑے بلیک ہولز، کہکشانی جھرمٹوں اور دوسرے آسمانی اجسام کو ایک بالکل نئے انداز سے دیکھ سکیں گے۔

بہرحال، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آنے والے برسوں میں ’’لوفار‘‘ اور اس جیسے دوسرے زمینی و آسمانی تحقیقی منصوبے ہمارے لیے اور کون کونسی حیرت سامانیاں لاتے ہیں۔

تب تک سائنس دانوں کو اُن کا کام کرنے دیتے ہیں اور ہم ’’پاؤڑی‘‘ میں لگے رہتے ہیں۔

نوٹ: اس تحقیق اور مذکورہ تصویر کے بارے میں تحقیقی مقالہ ’’ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے۔
https://www.express.pk/story/2146886/508/


ہیوسٹن، ٹیکساس:
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’’ناسا‘‘ نے 19 فروری کو مریخ پر اُترنے والے اپنے کھوجی ’’مارس پریزروینس روور‘‘ کی ویڈیو کے علاوہ مریخ کا وسیع منظر نامہ (پینوراما) اور وہ ’’مریخی آوازیں‘‘ آن لائن جاری کردی ہیں جو اس کھوجی کے آلات نے وہاں سے ریکارڈ کی ہیں۔

ویڈیو میں ’’پریزروینس‘‘ کو کئی کلومیٹر اونچائی سے مریخی سطح پر اُترتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ منظر واقعتاً ایسا ہے کہ جسے دیکھ کر آپ کو اپنے دل کی دھڑکنیں رکتی ہوئی محسوس ہوں گی۔

مریخ کا وسیع منظر نامہ یعنی ’’پینوراما‘‘ کئی تصویروں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ یہ دراصل پریزروینس روور کے گرد ایک دائرے کی شکل میں پھیلا ہوا منظر ہے جس کی تمام تصویریں اس کھوجی پر نصب طاقتور کیمرے نے 360 درجے کے زاویئے تک گردش کرکے کھینچی ہیں۔


یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ’’مارس پینوراما‘‘ (مریخ کا وسیع منظر نامہ) آج ناسا کی روایات میں شامل ہوچکا ہے۔ اسی طرح کا پہلا ’’مارس پینوراما‘‘ 1997 میں ’’پاتھ فائنڈر‘‘ مشن کے مریخ پر اُترنے کے بعد، اس کے کیمرے سے کھینچی گئی تصویروں کو یکجا کرکے بنایا گیا تھا۔

پریزروینس مارس پینوراما کچھ ایسا ہے:

البتہ، اس بار پینوراما کی ایک پوری ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے:

ان کے ساتھ ساتھ ناسا کی جانب سے ’’ساؤنڈ کلاؤڈ‘‘ پر وہ تازہ ترین آوازیں بھی جاری کی گئی ہیں جو پریزروینس کے مائیکروفونز نے مریخ سے ’’سنی‘‘ اور ریکارڈ کی ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں بھی ہمیں مریخ کی اور آوازیں سننے کو ملیں گی۔
https://www.express.pk/story/2146921/508/


ایمٹروفِک لیٹرل سِکلوریسِس یا اے ایل ایس کا مرض دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے انسان حرکات و سکنات اور بولنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام موٹرنیورون ڈیزیز بھی ہے جو اب تک لاعلاج بیماری تھا لیکن اب ایک نئے مرکب (کمپاؤنڈ) سے ہمیں امید کی نئی کرن ملی ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دنیا کا پہلا مرکب دریافت کیا ہے جو حرکت کی وجہ بننے والے اعصابی خلیات (نیورونز) کی خرابی کو روکتا ہے۔ اعصاب متاثر ہونے سے اے ایل ایس کا مرض شدت اختیار کرتا ہے اور دھیرے دھیرے مریض جامد ہوکر موت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے۔

اے ایل ایس میں جسمانی حرکات قابو کرنے والے تمام اعصاب تنزلی کے شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں ٹھیک کرنے کی کوئی دوا یا علاج اب تک ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس ضمن میں جامعہ کے شریک پروفیسر ہینڈے اوزنلر کہتے ہیں کہ ’ ہم نے پہلا مرکب دریافت کیا ہے جوبیمار ہونے والے اوپری موٹرنیورون کو تندرست کرسکتا ہے۔ یہ تحقیق اب شائع بھی ہوچکی ہے۔

این یو 9 نامی ایک مرکب تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے۔ یہ اہم خلیات کی تشکیل کے دوران غلط قسم کی پروٹین فولڈنگ کو کم کرتا ہے۔ یہ مرکب ایک تو بے ضرر اور غیرزہریلا ہے اور دوسری جانب دماغ اور خون کی رکاوٹ (بلڈ برین بیریئر) عبور کرسکتا ہے۔

این یو 9 دو طرح سے کام کرتی ہے یعنی پروٹین کی غلط فولڈنگ کو روکتی ہے اور پروٹین کو لہو کے لوتھڑے بننے سے باز رکھتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب پروٹین درست انداز میں مرتب نہیں ہوتے تو وہ زہریلے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح انسانی دماغ میں یہ شدید نقصان کی وجہ بنت ہیں۔ اس طرح ٹی ڈی پی 43 پروٹین کو متاثر کرتے ہیں۔ اے ایل ایس کے 90 فیصد معاملات میں ٹی ڈی پی 43 پروٹین متاثرہوتا ہے اور اعصابی تنزلی کی وجہ بنتا ہے۔

اس کیمیکل کوچوہوں پر استعمال کیا گیا تو ان میں متاثرہ نیورون دوبارہ صحتمند ہونے لگے اور اس کا اظہار چوہوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ تحقیق کے اگل مرحلے میں اس کیمیکل کے مزید پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2147079/9812/


دوحہ، قطر:
قطر فاؤنڈیشن اور حماد بن خلیفہ یونیورسٹی کے اشتراک سے عرب دنیا میں اس وقت موجود مختلف گروہوں کا سب سے بڑا جینیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس کی تفصیلات ہفت روزہ نیچر میں شائع ہوئی ہیں جس میں قطر فاؤنڈیشن اور حماد بن خلیفہ یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مطالعے میں 6000 سے زائد افراد کا مکمل جینیاتی ڈرافٹ بنایا گیا ہے جو مختلف گروہوں اور قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد کا جائزہ لینا اور ان میں ممکنہ جینیاتی خطرات اور کمزوریوں کو تلاش کرنا ہے۔ اس طرح اب سے پہلے عرب آبادی کا اتنا وسیع جینیاتی مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا تاہم اس میں قطری قبائل اور گروہوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ تحقیق میں طبی لحاظ سے اہم 45 معاملات کو بطورِ خاص مدِ نظر رکھا گیا ہے جو کسی بیماری یا دیگر نقائص سے وابستہ ہوسکتے ہیں۔

اس طرح قطر عرب دنیا کا پہلا ملک بھی بن گیا ہے جس نے بڑے پیمانے پر اپنے قومی جینوم منصوبے کا آغاز کردیا ہے۔ اس ضم میں قطری بایوبینک میں مرکزی ڈیٹا بیس بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس طرح ہرلحاظ سے اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحقیق بھی ہے۔

قطری حکام نے کہا ہے کہ یہ تمام معلومات خفیہ رکھنے کی بجائے عوام الناس کے سامنے پیش کی جائیں گی تاکہ لوگ اس پر مزید تحقیق اور گفتگو کرسکیں۔ ابتدائی رپورٹ میں قدرتی طور پر ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کو الگ سے بیان کیا گیا ہے۔ مطالعے میں 300 ایسے جینیاتی اشارے ملے ہیں جو بار بار قطری آبادی میں سامنے آتے رہے اور پھر قطر فاؤنڈیشن کے بایو بینک سے ان کی مزید تصدیق بھی کی گئی ہے۔ قطری حکام نے کہا ہے کہ اس منصوبے کو جاری رکھتے ہوئے نہ صرف امراض کے تناظر میں دیکھا جاسکے گا بلکہ عرب دنیا سے مخصوص طریقہ علاج کی راہ بھی ہموار ہوگی
https://www.express.pk/story/2147127/9812/


لندن:
زمینی مٹی اور اس کے اجزا ہر سال تین کروڑ 80 لاکھ ٹن کے لگ بھگ انسانی فضلہ فلٹر کرتی ہے اور اگر اسے صاف کرنے کے تجارتی پلانٹ لگائے جائیں تو ان پر کھربوں روپے خرچ کرنا ہوں گے۔

برطانیہ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ایلیسن پارکر اور ان کے ساتھیوں نے افریقہ، ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ کے 48 شہروں کے بیت الخلا کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے یہ اندازہ لگایا ہےکہ یہاں انسانی فضلے اور پیشاب کی کتنی مقدار براہِ راست مٹی میں جاتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے مشاہدات، انٹرویو اور براہِ راست فیلڈ رپورٹس کا سہارا لیا ہے۔

انہوں نے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں فضلہ سیوریج پائپ کی بجائے وہیں رہ جاتا ہے جن میں گڑھے والے لیٹرین اور سیپٹک ٹینک وغیرہ شامل ہیں۔ ان جگہوں پر رفع حاجت کے لیے زمین میں گڑھے کھودے جاتے ہیں یا پھر ٹینک وغیرہ میں اسے جمع کیا جاتا ہے۔

انہوں نے غور کیا کہ پٹ لیٹرین اور سیپٹک ٹینک کا آلودہ مائع ، زیرِ زمین پانی میں ملنے سے پہلے فلٹر ہوجاتا ہے۔ اس میں ہماری زمین کی مٹی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن شہروں میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ کیونکہ اول تو وہاں آبادی کی وجہ سے آلودہ پانی کی بہت بڑی مقدار انڈیلی جاتی ہے ، دوم وہاں واٹرٹیبل بہت ہی کم گہرائی پر ہوتا ہے۔ اس طرح بڑے شہروں میں پانی فلٹر نہیں ہوپاتا اور وہ زیرِ زمین پانی یعنی بورنگ سے حاصل شدہ پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔

دنیا بھر میں غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں لگ بھگ 90 کروڑ افراد اپنے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے یہی طریقہ استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح اندازہ ہے کہ قریباً چارکروڑ ٹن انسانی فضلہ صرف مٹی ہی صاف کرتی ہے اور اسے فلٹر کرکے نیچے جانے دیتی ہے۔

لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ پاک وہند سمیت دنیا میں چار ارب کی آبادی کو فضلے اورنکاسی آب کی سہولیات دستیاب نہیں اور اس کے نتیجنے میں خطرناک امراض پھیل رہے ہیں۔ اس طرح لگ بھگ ہرسال 8 لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ تاہم اگرچہ دریاؤں میں جانے سے یہ فضلہ اپنی خطرناک تاثیر کم ضرور کردیتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔

اسی مناسبت سے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ہر فرد کو نکاسی آب کی مناسب سہولیات فراہم کی جانی چاہیئں جو خود انسانوں اور اس کرہ ارض کے لیے بہت ضروری ہے۔
https://www.express.pk/story/2146655/508/


نیویارک:
کسی خاص بیماری اور حادثوں کے بعد تباہ شدہ عضلات اور پٹھوں کو دوبارہ خاص شکلوں میں نموپذیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ایک نئی امید افزا طریقہ سامنے آیا ہے جسے ’ڈائریکٹ سیل ری پروگرامنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

جب گوشت کے خلیات کو ری پروگرام کیا جائے تو وہ ایک خاص ترتیب میں جمع ہوسکتے ہیں اور پیوند کاری کے بعد وہ کمزور یا تباہ شدہ گوشت کے ٹکڑوں یعنی مسلز کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ اس کے کامیاب تجربات چوہوں پر کئے گئے ہیں۔

اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس سے انسانی امراض کو کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ اس سے قبل جلد کے خلیات کو انسولین بنانے والے بی ٹا سیلز میں تبدیل کرنے کا طریقہ وضع کیا گیا تھا۔ اسی طرح بدن کے ساختی خلیات کو دھڑکتے ہوئے خلیات میں بدل کر دل کے مردہ حصوں کی جگہ لگانے میں بھی کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

شدید حادثوں اور رسولی نکالنے کی صورت میں گوشت کا بڑا حصہ بھی باہر نکل آتا ہے اور اس جگہ کو پرکرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ اس طرح پٹھوں کا زیاں ہوتا ہے وہ جگہیں کمزور پڑتی جاتی ہیں۔

سائنسدانوں نے ڈائریکٹ سیل ری پروگرامنگ کی بدولت ایک قسم کے خلیات کو دوبارہ انڈیوسڈ پلوری پوٹنٹ اسٹیٹ میں لائے بغیر دوسری قسم کے خلیات میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس سے ٹشوز کو جوڑنے والے فائبروبلاسٹس کی ایک پرت بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس میں بعض اجزا ملاکر خاص قسم کے آئی ایم پی سی خلیات میں بدلا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد حیاتیاتی طور پر موافق پولی ایسٹر شامل کرکے انہیں جہاں چاہیں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اسی تدبیر سے تجربہ گاہ میں

حقیقی پٹھوں کی طرح کی بافتیں (ٹشوز) بنائے گئے ہیں۔ اس کے بعد چوہوں میں ان کی آزمائش کی گئی ہے۔ پٹھوں سے محروم چوہوں میں جب انہیں لگایا گیا تو ان کے خاص پٹھے تشکیل پذیر ہوئے ۔ ان سب کامیابیوں کے بعد اب بھی انسانی آزمائش میں کچھ برس لگ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2146652/9812/


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ کی ایک کمپنی نے ایسا انڈرویئر متعارف کروا دیا ہے جسے آپ دھوئے بغیر مہینوں پہن سکتے ہیں۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق امریکی ریاست منیسوٹا کی اس کمپنی کا نام ’ہرکلیون‘ ہے جس نے ’کریبی‘ (Kribi) کے نام سے یہ انڈرویئر متعارف کروایا ہے جس کے متعلق کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا ’صاف ستھرا ترین‘ انڈرویئر ہے جسے آپ دنوں اور ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں بغیر دھوئے پہن سکتے ہیں اور اس سے بدبوپھر بھی نہیں آئے گی۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ انڈرویئر ’ہرک فائبر‘ نامی کپڑے سے بنایا گیا ہے۔ یہ کپڑا بانس، یوکلپٹس، بیچ ووڈ (Beechwood) اور تانبے سے بنایا جاتا ہے۔ اس کپڑے سے بنا انڈرویئر خودبخود بیکٹیریا کو ختم کرتا رہتا ہے اور طویل عرصے تک صاف ستھرا رہتا ہے اور اس سے بدبو نہیں آتی۔واضح رہے کہ یہ کمپنی اس سے قبل ایسی ٹی شرٹس، جرابیں اور بیڈ شیٹس بھی بنا چکی ہے جو طویل عرصے تک دھوئے بغیر استعمال کی جا سکتی ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-Feb-2021/1254316?fbclid=IwAR2IKzoyANcY8qnj5FJa8S3VzC9iEiPJdphpEOns4oJph2z0QRgUmy6Regs


جرمنی میں فرانہافر انسٹی ٹیوٹ نے ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کےلیے ٹوتھ پیسٹ جیسا سرمئی ’’پاور پیسٹ‘‘ ایجاد کرلیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ روایتی لیتھیم بیٹری کے مقابلے میں دس گنا زیادہ توانائی ذخیرہ کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے آپس میں ملنے سے پانی بنتا ہے اور توانائی خارج ہوتی ہے جسے بجلی میں تبدیل کرکے مختلف کام لیے جاسکتے ہیں۔

دنیا کے بیشتر ’’ایندھنی ذخیرہ خانے‘‘ (فیول سیلز) اسی اصول پر کام کرتے ہیں لیکن ان میں ہائیڈروجن کو خصوصی سلنڈروں میں، کرہ ہوائی سے 700 گنا زیادہ دباؤ پر محفوظ رکھنا پڑتا ہے جو نہ صرف بہت مشکل بلکہ انتہائی مہنگا سودا بھی ہے۔

ڈریسڈن، جرمنی میں ’’فرانہافر انسٹی ٹیوٹ فار مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی اینڈ ایڈوانسڈ مٹیریلز‘‘ کے ماہرین نے ’’پاور پیسٹ‘‘ کی شکل میں یہ مسئلہ حل کیا ہے۔

پاور پیسٹ کو عام دباؤ اور درجہ حرارت پر بہ آسانی محفوظ کیا جاسکتا ہے، جس کی بدولت یہ بڑی گاڑیوں کے علاوہ آلودگی سے پاک موٹرسائیکلوں تک میں استعمال ہونے کے قابل ہے۔

علاوہ ازیں، یہ 250 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی تک کو برداشت کرتے ہوئے قابلِ استعمال حالت میں رہ سکتا ہے۔

یہ بنیادی طور پر ’’میگنیشیم ہائیڈرائیڈ‘‘ کہلانے والا ایک کیمیائی مرکب ہے جسے 350 ڈگری سینٹی گریڈ، اور کرہ ہوائی سے 5 تا 6 گنا زیادہ دباؤ پر (ہائیڈروجن اور میگنیشیم کو آپس میں ملا کر) تیار کیا جاتا ہے۔

آخری مرحلے پر اس میں ایک دھاتی نمک اور ’’ایسٹر‘‘ نامی ایک نامیاتی مرکب (آرگینک کیمیکل) شامل کرکے اسے سرمئی ٹوتھ پیسٹ جیسی حتمی شکل دی جاتی ہے۔

پاور پیسٹ سے توانائی حاصل کرنے کےلیے ایک خاص نظام کے تحت اسے ایک چیمبر (خانے) میں پہنچا کر پانی کے ساتھ اس کا کیمیائی تعامل (کیمیکل ری ایکشن) کروایا جاتا ہے جس سے ہائیڈروجن گیس خارج ہوتی ہے۔

یہاں سے یہ ہائیڈروجن گیس ایک فیول سیل میں پہنچا دی جاتی ہے جہاں اسے آکسیجن کے ساتھ ملا کر پانی بنایا جاتا ہے جس سے حرارت کی شکل میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ پھر اسی حرارت کو بجلی میں تبدیل کرکے استعمال کرلیا جاتا ہے۔

اب تک پاور پیسٹ کو تجرباتی طور پر چھوٹی موٹرسائیکلیں چلانے میں استعمال کیا جاچکا ہے۔

فرانہافر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اس سال کے اختتام تک پاور پیسٹ کی تجارتی پیداوار شروع کردی جائے گی اور یہ سلنڈروں کی شکل میں دستیاب ہوگا، جو موجودہ پیٹرول پمپس پر رکھوائے جائیں گے۔

پاور پیسٹ سلنڈر خالی ہونے پر اسے پیٹرول پمپ جا کر واپس کیا جاسکے گا اور اس کے بدلے ’’بھرا ہوا‘‘ سلنڈر خریدا جاسکے گا۔

اگرچہ فرانہافر انسٹی ٹیوٹ نے صاف ستھری توانائی کے حوالے سے ’’پاور پیسٹ‘‘ کو ایک انقلابی پیشرفت قرار دیا ہے لیکن بعض مبصرین کو اس دعوے پر اعتراض بھی ہے۔

مثلاً امریکی ویب سائٹ ’’نیو اٹلس‘‘ کی ایک خبر میں اعتراض کیا گیا ہے کہ پاور پیسٹ کی تیاری پر کتنی توانائی صرف ہوگی اور کتنے اخراجات آئیں گے؟ اس بارے میں فرانہافر انسٹی ٹیوٹ نے کچھ نہیں بتایا۔

علاوہ ازیں، اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ میگنیشیم ہائیڈرائیڈ، ایسٹر اور دھاتی نمک کی تیاری سے خارج ہونے والی آلودگی پر کیسے قابو پایا جائے گا؛ جبکہ یہ معاملہ بھی واضح نہیں کہ استعمال شدہ پاور پیسٹ کو کس طرح تلف کیا جائے گا؟

تمام اعتراضات ایک طرف، لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ہائیڈروجن کو محفوظ کرنے کا عمل آسان بنانے میں ’’پاور پیسٹ‘‘ کا تصور بلاشبہ ایک اچھوتی اور منفرد پیشرفت ہے۔
https://www.express.pk/story/2145333/508/


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا کے امیر ترین آدمی ایلن مسک کی کمپنی ٹیسلا الیکٹرک گاڑیاں بناتی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس کی گاڑیاں 100فیصد کاربن فری ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہیں بنتیں۔ ٹیسلا گاڑیوں کی یہی ایک خوبی ان کی مقبولیت کا سبب بنی تاہم اب گیس کی ایک ایسی قسم مارکیٹ میں آنے جا رہی ہے کہ ٹیسلا کی الیکٹرک گاڑیوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی کیونکہ یہ گیس بھی 100فیصد کاربن فری ہو گی اور پھر اس گیس پر گاڑی ٹیسلا کی نسبت زیادہ سفر بھی طے کرے گی۔

میل آن لائن کے مطابق مائع گیس کی اس نئی قسم کو ’نیلی گیس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ٹیسلا گاڑی ایک بار بیٹری ری چارج کرنے پر 250میل سفر کرتی ہے، جبکہ اس نیلی گیس پر ایک بار ٹینک بھروانے پر گاڑی 300میل سفر طے کر سکے گی۔رپورٹ کے مطابق اس نیلے پٹرول کو ’ٹیسلا کلر‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد ٹیسلا کاروں یا دیگر مہنگی الیکٹرک گاڑیوں کی ضرورت ہی نہیںرہے گی۔تاہم اس نیلے پٹرول کی ایک ہی خامی ہے کہ ابھی یہ تیاری کے ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے مارکیٹ میں آنے میں وقت لگے گا، تب تک ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Feb-2021/1253007?fbclid=IwAR1kPOjtz3CzrUfD7s20Unl95L0o5pqStfXK9BlnafsttOgapFs1AWB5cz4


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ویڈیو گیمز کھیلنے کی عادت کے متعلق عام تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے لیکن اب نئی تحقیق میں اس کے برعکس ایک حیران کن دعویٰ کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق سائنسدانوں نے اس نئی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ ایسے سست الوجود لڑکے جو ورزش نہیں کرتے اور ویڈیو گیمز بہت زیادہ کھیلتے ہیں، ان کو آئندہ زندگی میں جا کر ڈپریشن لاحق ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ جو لڑکے روزانہ کی بنیاد پر ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، اس سے ان کو ذہنی صحت کے حوالے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔


یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں نے ویڈیو گیمز کھیلنے کا لڑکوں کے لیے تو یہ فائدہ بتایا لیکن ساتھ ہی لڑکیوں کے لیے بری خبر سنائی کہ جو لڑکیاں سکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارتی ہیں انہیں ڈپریشن لاحق ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بالخصوص ایسی لڑکیاں جو سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ کرتی ہیں، وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس طویل مدتی تحقیق میں سائنسدانوں نے 11سے 12سال کی عمر کے ہزاروں لڑکے لڑکیوں پر تجربات کیے۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Feb-2021/1253015?fbclid=IwAR1s2wIkg3bgmy2tpiFPbm2le-ddiCDp0cEY9WcQ6NpkensBxWxbBUndG7o


جاپانی سائنسدانوں کی سٹیم سیل کی بدولت گنج پن دور کرنے میں اہم پیشرفت


ٹوکیو:(روزنامہ دنیا) جاپانی سائنس دانوں نے بالوں کی افزائش کے مسلسل دور یعنی بال اگنے اور اس کے بعد جڑ کٹ کر دوبارہ اگنے کی جینیاتی وجہ جاننے اور اسے ممکن بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس تحقیق کو گنج پن کے خاتمے یا ایک حد تک علاج میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے ۔ ا ماہرین نے انسانی جسم میں ایک طرح کے بنیادی خلیات یعنی سٹیم سیل کے اندر ایک ایسا کیمیکل یا جزو دریافت کیا ہے جسے آئی ٹی جی بی ٹا فائیو کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ بائیومارکر بالوں کی افزائش کے تین اہم مراحل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی مدد سے جانوروں میں گنج پن دور کرنے میں قریباً 80 فیصد کامیابی حاصل کی گئی ہے ۔

انسانی بال 3 مراحل میں اگتے ہیں جن میں اینا جین کا مرحلہ بالوں کی بھرپور بڑھوتوی کے سبب سب سے اہم ہے، اگر یہ مرحلہ ختم ہو جائے تو بال کیٹا جن مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جس میں بال کمزور ہونے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیلوجن کا مرحلہ آتا ہے جب بال ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں۔ گنج پن کے شکار افراد میں ٹیلوجن کے بعد بال اینا جن کے مرحلے میں داخل نہیں ہوتے یعنی ٹوٹ کر گرنے کے بعد دوبارہ نہیں اگتے۔ سائنسی ماہرین نے سٹیم سیل میں پائے جانے والے ایک کیمیکل آئی ٹی جی بی فائیو کو تبدیل کر کے بالوں کی کھال میں داخل کر دیا گیا جس کے جانوروں میں بہت اچھے اثرات دیکھے گئے ہیں، نیا طریقہ انسانوں پر بھی جلد آزمانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunyaheadline/Technology/588686_1


بھنگ سے جراثیم کش کپڑا تیار،مارکیٹ میں جلد دستیا ب ہوگ

فیصل آباد: (روزنامہ دنیا) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے بھنگ سے جراثیم کش کپڑا تیار کرلیا ہے جو ملک میں کپاس کی کمی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ماہرین نے بھنگ سے ایسا منفرد کپڑا تیار کیا ہے جو سستا تو ہوگا، ساتھ ہی ساتھ جراثیم کش بھی ہوگا اوربہت جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں5ہزار سے زائد ادویات میں بھنگ کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بھنگ کے تیل کا بھی ادویات میں استعمال ہوتا ہے اوراب بھنگ سے دھاگہ بناکر اسے کپڑے کی شکل دینے کا کامیاب تجربہ کیاگیاہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunyaheadline/WeirdNews/589124_1



اسپین کی غرناطہ (گریناڈا) یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اگر کسی صحتمند شخص کی گردن کے مختلف حصوں میں چربی جمع ہورہی ہے تو اس کا تعلق امراضِ قلب سے ہوسکتا ہے یا پھر اسے امراضِ قلب کا پیش خیمہ کہا جاسکتا ہے۔

جامعہ کی تحقیق بتاتی ہے بظاہر صحت مند بالغ افراد کی گردن میں لحمیات کی بڑی ہوئی مقدار یا تو اندرونی سوزش کی وجہ بنتی ہے یا پھراس کا تعلق انفلیمیشن سے ہوتا ہے۔ اسی طرح چربی کی زائد مقدار کو دیکھ کر ہم اسے امراضِ قلب کے ایک پیمانے کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

طب کی زبان میں جسم میں ایک خاص قسم کی بافت (ٹشوز) وسکیرل ایڈیپوز ہوتے ہیں اور وہ دل کی کیفیات میں خرابی کی وجہ بن سکت ہیں۔ اس کے علاوہ اندرونی جسمانی سوزش سے بھی ان کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اب عام قسم کی چربی کے اجتماع کو بھی طبی لحاظ سے دیکھا گیا ہے۔

غرناطہ یونیورسٹی کی ڈاکٹر ماریہ ہوزے اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ ہم ٹھوڑی اور گردن کے گہرے گوشوں میں جمع غیرمعمولی چربی کا تعلق دل کے امراض سے جوڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ تحقیق گردن کے سرطانی پھوڑوں پر تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے لیکن ڈاکٹر ماریہ نے اسے بطورِ خاص ایک نئے زاویے سے دل کے امراض کے حوالے سے دیکھا ہے۔

اس پر تحقیق کرنے والے ایک اور ماہر ڈاکٹر جوناتھن روئز نے کمپیوٹرٹوموگرافی سے کئی افراد کی گردن کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ گردن کے مختلف مقامات پر جمع چربی کا جائزہ لیا ہے۔ بالخصوص مردوں کی گردن میں جمع چربی کا تعلق دل کے افعال سے جوڑا گیا ہے اور اس ضمن میں واضح شواہد ملے ہیں۔

گردن کی چربی سے بالغان میں ایسے بایومارکر بھی دیکھے گئے ہیں جو دل کی متوقع یا مستقبل میں ممکنہ بیماری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2144713/9812/


چار سے چھ سال کے بچوں کی قلبی اور پھیپھڑوں (کارڈیوو رسپائریٹری) صحت ان میں بہتر تعلیمی کارکردگی کی وجہ ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر اس عمر کے بچے اپنی ہم عمروں کے مقابلے میں زیادہ دور تک چل پاتے ہیں تو وہ اکتساب اور تعلیمی صلاحیت میں ان سے بہتر کارکردگی دکھاسکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف الینوائے اربانا شمپین کے ڈاکٹر شیلبی کائی اور ڈاکٹر نیمن خان نے کہا ہے کہ چھوٹے بچوں، قبل ازبلوغت، نوعمر اور نوجوان بچوں میں ورزش اور دماغی صلاحیت پر بہت تحقیق ہوچکی ہے۔ اس سے قبل ایئروبک ورزشوں اور بہتر اکتساب میں تعلق ثابت ہوچکا ہے۔

اب انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر 4 سے 6 برس تک کے بہت چھوٹے بچوں میں بھی اگر تنفسی قلبی مضبوطی ہو اور وہ اس ضمن میں چلنے اور دوڑنے والے ایک ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دماغ کا حجم بڑا ہے جس میں نیورون (اعصابی خلیات) دیگر کے مقابلے میں زیادہ روابط رکھتے ہیں۔

سائنسدانوں نے دنیا بھر کے والدین پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو اپنے بچوں کو باہر نہیں نکالتے اور انہیں بھاگنے دوڑنے کا وقت نہیں دیتے۔ والدین نہیں جانتے کہ گھر پر ٹی وی اور ٹیبلٹ دکھاکر بچوں کو وہ کس جانب دھکیل رہے ہیں۔ اگر بہت چھوٹے بچے بھی ورزش سے دور ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔

سائنس بتاتی ہے کہ اکتساب، سیکھنے اور جاننے کا عمل بچوں کی اوائل عمری میں ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر انہیں چلنے، دوڑنے اور سخت کھیل کا عادی بنایا جائے تو اس کے مثبت ذہنی اثرات پوری زندگی پر حاوی رہتے ہیں۔

ماہرین نے بچوں کے لئے چھ منٹ کا تدریسی ٹیسٹ بنایا جس میں ارتکاز (فوکس) اور دماغی لچک (فلیکسبلٹی) کو بطورِ خاص مدِ نظر رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد 33 بچوں کو ای ای جی کیپ پہنا کر ان میں سماعت اور اس پر ردِ عمل کا ٹیسٹ لیا گیا۔ ای ای جی ٹیسٹ سے بچوں کے ارتکاز کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق سے بچوں میں کارڈیورسپائریٹری صحت اور دماغی صلاحیت کا جائزہ لیا گیا اور جن بچوں میں ورزش اور دوڑنے کی عادت تھی انہوں نے ہر قسم کے ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی دکھائی۔
https://www.express.pk/story/2145100/9812/



بین الاقوامی جینیات دانوں کی ٹیم نے کئی برس کی محنت سے دنیا کے قدیم ترین میمتھ کے ڈی این اے کو نکالا ہے اور ڈی این اے کے کئی ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مکمل جینیاتی سلسلہ (سیکوینس)مرتب کیا ہے۔

سات سے بارہ لاکھ سال قبل سائبیریا کے علاقے میں گھومنے پھرنے والے بالوں بھرے تین قدیم ہاتھیوں، میمتھ کے دانتوں سے یہ ڈی این اے نکالا گیا ہے۔ ان سب میں ڈی این اے کے نامکمل ٹکڑے تھے تاہم بعد میں انہی سے ایک مکمل ڈی این اے مرتب کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ایک گھوڑے سے اخذ کردہ ڈی این اے کو قدیم قرار دیا گیا تھا جو قریباً ساڑھے پانچ سے سات لاکھ اسی ہزار سال پہلے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔

سویڈن میں قدیم جینیات کے ماہر لوَڈالین کہتے ہیں کہ یہ بہت پرانا ڈی این اے ہے۔ بالوں بھرے اصلی میمتھ درحقیقت آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوئے تھے اور آخرکار اب سے چار ہزار سال قبل صفحہ ہستی سے مِٹ گئے تھے۔ لیکن ماہرین نے بالوں بھرے ان عفریت کے جد کا ڈی این اے تلاش کیا اور وہ بھی برفانی علاقوں میں ہی رہتے تھے۔ انہیں اسٹیپ میمتھ کہتے ہیں جو 15 لاکھ سال قبل شمالی امریکہ پہنچے تھے۔

تحقیقی ٹیم نے سات لاکھ سال کے ایک ، اور دس لاکھ سال کے دو میمتھ ک دانتوں سے ڈی این اے نکالا اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑنے کا تھکادینے والا کام شروع کیا کیونکہ کسی بھی دانت سے مکمل ڈی این اے نہیں مل سکا تھا۔ یہ تمام جانور مستقل برف میں دبے تھے اور اسی وجہ سے ان کے دانتوں کی جڑ میں گوشت اور خون محفوظ رہ گیا تھا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ سائبیریا میں میمتھ کی ایک قسم نہیں بلکہ کم ازکم دو اقسام کے میمتھ زندگی گزاررہے تھے۔ اس طرح اب میمتھ کی دو طرح کی جینیاتی سلسلے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ آخر کسطرح میمتھ ایک مقام سے دوسرے مقام اور براعظم تک پہنچے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسٹیپ میمتھ اور بالوں والے میمتھ کے ملاپ سے ایک نئی قسم کے میمتھ نے جنم لیا جن کے آثار شمالی امریکہ سے ملے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2145044/508/



دنیا میں مکڑیوں کی اکثر اقسام ایک طرح کے ہی جالے بناتی ہے لیکن اب ایک مکڑی میں خاص کیفیت دریافت ہوئی ہے جس میں وہ مختلف جگہوں پر مختلف انداز کے جالے بُنتی ہے۔

کوکوس جزائر پر پائی جانے والی ایک مکڑی ’وینڈلگارڈا گالاپاجینسس‘ پانی میں الگ، ہوا میں مختلف اور خشکی پر اس سے جدا جالا بُنتی ہے۔ اب تک یہ اعزاز مکڑی کی اسی قسم کو حاصل ہوا ہے کہ یہ مختلف جگہوں پر مختلف اندز میں اپنا گھر بناتی ہے۔

وسطی امریکا سے 550 کلومیٹر دور کوکوس جزائر واقع ہے جہاں مختلف جالے بنانے والی یہ مکڑی عام پائی جاتی ہے۔ زمین پر رہتے ہوئے یہ ایک سیدھے رسے کی طرح کا جال بناتی ہے جس کے کناروں کو قریبی پتوں اور شاخوں سے باندھ دیتی ہے۔ جب یہ زمین پر ہو تو بہت حیرت انگیز’زمینی‘ جالا بنتی ہے جس میں یہ افقی جالا بناتی ہے اور اسے انہیں عمودی تاروں سے زمین پر جوڑے رکھتی ہے۔ تالاب اور پانی میں یہ زمینی جالے کی طرح کا جالا بناتی ہے لیکن اس کے عمودی دھاگوں کو پانی کی سطح پر لاکر جوڑتی ہے۔

کیلیفورنیا اکیڈمی آف سائنسِس کے ڈارکو کوٹوروس نے اس مکڑی کو دیکھا ہے انہوں نے 142 مختلف مکڑیوں کا جینیاتی تجزیہ بھی کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تمام مکڑیاں ایک ہی نوع سے تعلق رکھتی ہیں اور 20 لاکھ سال قبل ان جزائر پر ہوا کےذریعے پہنچی ہوں گی۔

دو ملی میٹر بڑی مکڑی جب لاکھوں سال بعد اس جزیرے پر پہنچی تو اس نے ہر جگہ اپنے ڈیرے ڈالے۔ پھر اس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بنانے کے گر بھی سیکھ لئے اور پانی، خشکی اور ہوا میں جالا بنانے کے نئے انداز اور طریقے ڈھونڈ نکالے۔
https://www.express.pk/story/2144675/509/


فلوریڈا: پلازموڈیئم فلکیپرم سے پھیلنے والا ملیریا بہت شدید اور جان لیوا ہوتا ہے۔ اس طرح کے مرض کے لیے اب ایک سمندری گھونگھےکے زہر پر تحقیق سے اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنےآئے ہیں۔

بعض ملیریا طفیلیوں (پیراسائٹس) مارنے والی دواؤں سے بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہر سال شدید ملیریا 50 کروڑ لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور چار لاکھ افراد کی جان لیتا ہے۔

سمندروں میں عام پائے جانے والے ایک گھونگھے کونس نکس کے زہر کو ملیریا کے علاج کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی کے شمٹ کالج اور دیگر اداروں نے کہا ہے کہ سمندری گھونگھوں کے زہر سے ملیریا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔

یہ زہر اینٹی ایڈھیسن یا بلاک ایڈ تھراپی کے خواص رکھتا ہے اور اس کی بنا پر ملیریا کے خلاف مؤثر ادویہ بنائی جاسکتی ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل آف پروٹیومکس میں شائع ہوئے ہیں۔ سمندری گھونگھے کا زہر ملیریا کی وجہ بننے والے پروٹین اور پروٹین پولی سیکرائیڈز عمل کو توڑتا ہے۔ اس طرح ملیریا کے زور کو کم کیا جاسکتا ہے۔

طب کی زبان میں سمندری گھونگھوں کا زہر ’کونوٹوکسن‘ کہلاتا ہے۔ لیکن توقع ہے کہ ان سے ایڈز اور کووڈ 19 جیسے امراض کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بلاک ایج تھراپی پر عمل کرتے ہوئے ان سے دوسری بیماریوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق کے سربراہ پروفیسر اینڈریو اولینیکوف کہتے ہیں کہ گھونگھے کے زہر سالماتی طور پر مستحکم، مختصر، حل پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں رگ میں لگائے جانے والے انجیکشن کے ذریعے بدن میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ توقع ہےکہ سمندر کے اس جانور سے انسانوں کے علاج اور بقا کی ایک نئی راہ ہموار ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2145595/9812/


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108135675&Issue=NP_PEW&Date=20210220


سٹاک ہوم(مانیٹرنگ ڈیسک) بعض لوگوں کو سردی زیادہ کیوں نہیں لگتی؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس سوال کا حیران کن جواب دے دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اوسطاً ہر پانچ میں سے ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جسے سردی بہت کم لگتی ہے۔ اس کی وجہ ان لوگوں میں ایک خاص قسم کی میوٹیشن کا ہونا ہے۔ ان لوگوں میں a-actinin-3نامی پروٹین موجود نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے انہیں سردی نہیں لگتی۔

رپورٹ کے مطابق یہ پروٹین فاسٹ ٹوِچ فائبرز (Fast-twitch fibres)میں پایا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں سویڈن کے کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے سینکڑوں لوگوں کو 14ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈے پانی میں بیٹھنے کو کہا اور ان کے پٹھوں کو جانچتے رہے۔ جن لوگوں میں مذکورہ پروٹین نہیں تھا ان میں سے 70فیصد اس قدرٹھنڈے پانی کو آرام سے برداشت کر گئے۔ جن لوگوں میں یہ پروٹین موجود تھا ان میں سے صرف 30فیصد اتنے ٹھنڈے پانی کو برداشت کر سکے۔اس تحقیق میں شامل لوگوں کی عمریں 18سے 40سال کے درمیان تھیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیکن ویسٹربلیڈ کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ سردی لگنے میںa-actinin-3نامی پروٹین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ 
https://dailypakistan.com.pk/18-Feb-2021/1252542?fbclid=IwAR2wfh2wFYxeDp069LETdsJ4vFzhnE5sTSAoLATmT0KXY4C1G0GzbmhBrjE


رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے انسانی خلیے کے اندر کی ساخت اس تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں تھی۔ قبل ازیں سائنسدان مائیکروسکوپس کے ذریعے خلیوں کا سٹیٹک امیج دیکھ سکتے تھے جس میں زیادہ تفصیل نہیں ہوتی تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کی رکن اور یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی پروفیسر ڈاکٹر ایلس پائن کا کہنا ہے کہ پورے ڈی این اے مالیکیول کے سٹرکچر کو دیکھنا ایک چیلنج تھا جو بالآخر ہم نے پورا کر لیا۔اس اختراعی کامیابی سے مختلف امراض کی جین تھراپی کی تیاری میں بہت مدد ملے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Feb-2021/1252552?fbclid=IwAR1yyPQZ9w9DTZrS7MN74htxLGMROYmh_HtBqxmpS6nfhu8hSVVdbVSrvQ4


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) کتے انسانوں کی ٹانگوں کے درمیانی حصے کو کیوں سونگھتے ہیں؟ ایک برطانوی ڈاکٹر نے اس سوال کا حیران کن جواب دے دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق سرجن ڈاکٹر کرن راج نے ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں بتایا ہے کہ کتے انسان کے جسم کے اس حصے کو سونگھ کر اس کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ انسان کی بغلوں اور ٹانگوں کے درمیانی حصے سے ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں جو انسان کے متعلق بہت سی معلومات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کیمیکلز کو فیرومونز کہا جاتا ہے۔ کتے دراصل انہی فیرومونز کوسونگھ رہے ہوتے ہیں۔


ان فیرومونز کے ذریعے انسان کی جنس، عمر اور موڈوغیرہ کا پتا چلتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے جنسی تعلق قائم کیا ہے یا نہیں اور مادہ کے حیض کے دن چل رہے ہیں یا نہیں۔چنانچہ جب کتا آپ کے جسم کے اس حصے کو سونگھ رہا ہوتا ہے تو درحقیقت وہ آپ کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر راج کا کہنا تھا کہ ان فیرومونز کو سونگھنے کی صلاحیت ہم انسانوں میں بھی ہوا کرتی تھی۔ ہمارے آباﺅاجداد بھی جسم کے اس مخصوص حصے کو سونگھ کر مذکورہ معلومات حاصل کیا کرتے تھے تاہم ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے ہم نے اس صلاحیت کا استعمال ترک کر دیا۔ اب بھی یہ حس ہمارے اندر موجود ہے لیکن اب کارآمد نہیں رہی۔
https://dailypakistan.com.pk/17-Feb-2021/1252085?fbclid=IwAR2F3JzGH1c3ILj4IgGPPaMHJK7bJ9AH45Hy9KkOpJ293VXsx7b-8f1GECM


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) نوعمری میں کثرت سے پارٹی کرنے اور دل کی بیماریوں کے درمیان سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ایسے خطرناک تعلق کا انکشاف کر دیا ہے کہ سن کر نوجوان پارٹی میں جانے سے خوف کھانے لگیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق امریکہ کی لوئزیانا سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 10لاکھ سے زائد لوگوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ نوعمری میں ’ہارڈ پارٹی‘ (پارٹی میں حد سے زیادہ رقص کرنا، غیرصحت مندانہ کھانے کھانا اور سگریٹ و شراب نوشی وغیرہ)کرنے سے دل کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ 9گنا تک بڑھ جاتا ہے اور قبل از وقت موت کا خطرہ سر پر منڈلانے لگتا ہے۔


اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 10لاکھ سے زائد امریکی شہریوں کے عمر کی 20اور 30کی دہائی میں پارٹی کرنے کے معمول اور آئندہ زندگی میں انہیں لاحق ہونے والی دل کی بیماریوں کے کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ عمر کی بیس اور تیس کی دہائی میں ہارڈ پارٹی کرتے رہے انہیں بڑھتی عمر میں دل کی بیماریاں9گنا زیادہ لاحق ہوئیں اور ان میں قبل از وقت موت کی شرح بھی کئی گنا زیادہ پائی گئی۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی وائن کا کہنا تھا کہ خواتین میں ہارڈ پارٹی کے یہ نقصانات مردوں سے کہیں زیادہ پائے گئے
Daily Pakistan ,Dated:17-02-21


لندن:
فضائی آلودگی کا ایک نیا ہولناک پہلو سامنے آیا ہے کہ یہ بالخصوص ادھیڑ عمر اور بوڑھے افراد کی بصارت چھین سکتی ہے۔

ایک طویل سروے سے معلوم ہوا ہے کہ آلودہ ہوا میں پائے جانے والے باریک ذرات دھیرے دھیرے آنکھوں کو نقصان پہنچا کر اس ناقابلِ تلافی کیفیت تک لے آتے ہیں جسے ’میکیولرڈی جنریشن‘ (ایم ڈی) کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں مستقل نابینا پن بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

برطانیہ اور امریکہ کی مختلف جامعات اور سائنسی اداروں کی ایک ٹیم نے 2006 سے اب تک 116,000 افراد کا مطالعہ کیا ہے۔ ان میں مختلف عمروں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام افراد سے کہا گیا کہ اگرڈاکٹر ان کی آنکھوں میں میکیولر ڈی جنریشن مرض تشخیص کریں تو وہ فوراً اس کی اطلاع دیں۔ تاہم اس دوران 52 ہزار سے زائد افراد کی آنکھوں کا مسلسل معائنہ بھی کیا گیا جن میں ان کے ریٹینا کی موٹائی میں کمی بیشی اور نظر کا معائنہ بھی کیا جاتا رہا۔

واضح رہے کہ میکیولرڈی جنریشن عمررسیدہ افراد میں مستقل نابینا پن کا ایک مرض ہے جس میں آنکھوں کی پشت پر خون کی باریک رگیں رسنے لگتی ہیں اور اور ان میں چربی اور پروٹین کے باریک لوتھڑے جمع ہونے لگتے ہیں۔

اس صبرآزما مطالعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ فضائی آلودگی والی جگہوں پر ایک عرصے تک رہ رہے تھے انہوں نے خود بتایا کہ وہ ایم ڈی کے شکار ہوئے ہیں۔ اس طرح ایک لاکھ سے زائد افراد پر تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی کے ذرات دھیرے دھیرے آنکھوں میں آکسیجن کا نفوذ کم کردیتے ہیں۔

پھر سب سے بڑھ کر فضا میں موجود گرد، دھویں اور کہر جیسی آلودگیوں کے پی ایم 2.5 (ڈھائی مائیکرومیٹر باریک) ذرات سب سے ذیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ایک جانب تو یہ آنکھوں کو متاثرکررہے ہیں تو دوسری جانب یہ سانس کی نالی سے پھیپھڑوں اور قلب کو بھی متاثر کررہے ہیں۔

تاہم ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے شہروں اور ممالک سے فضائی آلودگی پر قابو پائیں تو صحت کے ان مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جاسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2144243/9812/


پیرس (ڈیلی پاکستان آن لائن )غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ فرانسیسی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے خبر دار کیاہے کہ 5g دوران پرواز طیاروں کے آلات کو متاثر کر سکتا ہے جو کہ بلندی پر کام کرتے ہیں ۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کے مطابق فرانسیسی سول ایوی ایشن کی جانب سے مشورہ دیا گیا ہے کہ دوران پرواز فائیو جی موبائل فونز کو بند کر دینا چاہیے ، فائیو جی موبائل فونز کے استعمال سے طیاروں کی پرواز میں مداخلت کا مسئلہ ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بلندی پرواز کو جانچنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ ایجنسی کے مطابق فائیو جی موبائل فونز کے استعمال سے ان آلات کی کارکردگی میں بھی خلل آسکتا ہے جو کہ لینڈنگ کے دوران انتہائی اہم ہوتے ہیں
https://dailypakistan.com.pk/17-Feb-2021/1252026?fbclid=IwAR2LTGDxuFPLai0gmxxDLGVOrbsx8e3tbo7-K6kt218K-89jqLtrTn8RNxU


برلن(مانیٹرنگ ڈیسک) کہتے ہیں کہ روزانہ ایک سیب ڈاکٹر کو آپ سے دور رکھ سکتا ہے۔ اب جرمنی کے سائنسدانوں نے بھی نئی تحقیق میں اس مقولے کی تصدیق کر دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق اس تحقیق کے نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ سیب میں ایسے کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو دماغی افعال کو بہتر بناتے اور الزیمرز ڈیزیز (Alzheimer's disease) جیسی اعصابی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

جرمنی کے شہر بون میں واقع جرمن سنٹر فار نیوروڈی جنریٹو ڈیزیز(German Centre for Neurodegenerative Diseases)کے سائنسدانوں نے مزید بتایا کہ ”سیب میں پائے جانے والے کیمیکلز دماغ میں نئے نیورانز کی پیداوار اور بڑھوتری کا سبب بنتے ہیں، جس سے آدمی کی سیکھنے ، سمجھنے اور یادداشت کی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔ “ رپورٹ کے مطابق یہ فوائد سیب کے چھلکے اور گودے دونوں میں پائے گئے تاہم تحقیق میں جوس کی شکل میں سیب کو استعمال کرنے کا ایسا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔
https://dailypakistan.com.pk/13-Feb-2021/1250349?fbclid=IwAR3c8qh2yZBlPxPcn2uWtSL71Ko8Tyd31TaP0CYJbMuWLG27KOLpPYudspE


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ازدواجی رشتے میں ایک فریق کا ہمہ وقت ویڈیوگیمز کھیلتے رہنا یقینا لڑائی کا موجب بن سکتا ہے تاہم اب ایک تحقیقاتی سروے میں کچھ ایسی ویڈیو گیمزکے بارے میں بتا دیا گیا ہے جنہیں کھیلنا ازدواجی تعلق کے لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔میل آن لائن کے مطابق آن لائن پوکر فورم ’کارڈز چیٹ‘ کی طرف سے کروائے گئے اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں معلوم ہوا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں سب سے زیادہ لڑائیاں کال آف ڈیوٹی، فیفا، فورٹ نائٹ اور فٹ بال منیجرنامی گیمز کھیلنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔


اس سروے میں 1ہزار جوڑوں سے سوالات پوچھے گئے جن میں سے ہر چار میں سے ایک نے کہا کہ گیمز کھیلنے کی وجہ سے ہفتے میں ایک سے دوبار اس کی اپنے شریک حیات سے لڑائی ہوتی ہے۔ ہر پچاس میں سے ایک نے کہا کہ ان کی ویڈیو گیمز کی وجہ سے روزانہ لڑائی ہوتی ہے۔ ان میں سے 12فیصد کا کہنا تھا کہ ویڈیو گیمز کی وجہ سے ان کی سال میں 150سے 200بار لڑائی ہوتی ہے
https://dailypakistan.com.pk/11-Feb-2021/1249437?fbclid=IwAR3OkfCwGnclExGlPkTBf7F7_gXgp1VkeKhCEymdpdILDD9Grh6e_xeHYMk


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) میڈیٹرینین ڈائٹ (Mediterranean Diet)وزن کم کرنے کے لیے آزمودہ ڈائٹ ہے، جس کے دیگر بے شمار طبی فوائد بھی تحقیقات میں سامنے آ چکے ہیں۔ اب سائنسدانوں نے دماغ کے متعلق اس خوراک کا ایک حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق شکاگو کے رش یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نوجوانی میں میڈیٹرینین ڈائٹ کھانے والے افراد کا دماغ بڑھتی عمر میں دوسرے لوگوں کو نسبت کہیں زیادہ نوجوان رہتا ہے اور جو لوگ اس ڈائٹ کے دوران پیزا اور برگر جیسے مغربی کھانے کھاتے ہیں ان کی دماغ صحت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 1993ءسے 2012ءکے درمیان 65سال سے زائد عمر کے 5ہزار لوگوں کی خوراک اور ذہنی صحت پر اس کے اثرات کی نگرانی کی اور نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ میڈیٹرینین ڈائٹ کے پابند رہے ان کے دماغ 6سال تک زیادہ نوجوان رہے۔ ان کے برعکس جو لوگ پیزے اور برگر جیسی مغربی غذائیں کھاتے رہے ان کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوئے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پوجا اگروال کا کہنا تھا کہ ”میڈیٹرینین ڈائٹ جس کا بڑا حصہ پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے، انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ تاہم جب اس کے ساتھ سرخ گوشت، برگر، پیزا، مٹھائی وغیرہ جیسی چیزیں کھائی جائیں تو میڈیٹرینین ڈائٹ کے فوائد غارت ہو جاتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/11-Feb-2021/1249434?fbclid=IwAR1HqdW_hkm60Ibaf8rSkE4htUuxYy_yLQ4tu3ULsdWWNueYPKdF7vTk6QQ


ک) موٹاپے سے نجات اس لیے بھی ناممکن ہے کہ سخت ڈائٹنگ اور کڑی ورزش سے کم کیا گیا وزن خوراک کی معمولی بے احتیاطی سے دوبارہ واپس آ جاتا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں شوگر کی ایک ایسی دوا کے متعلق بتا دیا ہے جسے کھا کر موٹاپے سے بھی باآسانی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق اس دوا اوزیمپک (Ozempic)اور رائبلسس(Rybelsus)کے ناموں سے مارکیٹ میں موجود ہے اور دوسری قسم کی ذیابیطس کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔

اپنی تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ یہ دوا ہفتے میں ایک بار کھانے سے بھوک ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور آدمی بہت کم کھانا کھانے لگتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا وزن تیزی سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔موٹاپے کے خاتمے کے لیے سائنسدانوں نے اس دوا کے تجربات 2ہزار سے زائد لوگوں پر کیے، جن کے نتائج بہت حوصلہ افزاءرہے۔ ان میں سے ایک تہائی لوگوں کے وزن کا پانچواں حصہ جبکہ 75فیصد لوگوں کے وزن کا دسواں حصہ کم ہو گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ دوا موٹاپے کے حوالے سے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ لوگ بھی اپنا وزن کم کر سکتے ہیں جن کا موٹاپا سرجری کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا۔
https://dailypakistan.com.pk/11-Feb-2021/1249432?fbclid=IwAR2SRVYAXANJjXpTbBu4ZEZ_IsgnhrWFIWVgDM8l1Gs8pZsdBiXnT8xsdlo


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) مردوخواتین کو اپنے محبوب کی کون سی چیز سب سے زیادہ بری لگتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ بددل ہو کر رشتہ ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں؟ نئے تحقیقاتی سروے میں ماہرین نے اس سوال کا دلچسپ جواب دے دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ماہرین نے 2ہزار لوگوں پر مشتمل اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ ’زیرجامے‘ وہ چیز ہیں جن کے متعلق برا انتخاب یا ان کی خراب حالت پارٹنرز کو سب سے زیادہ بری لگتی ہے۔

اس سروے میں سب سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ ان کے پارٹنر کے میلے کچیلے اور بدبودار زیرجامے انہیں سب سے زیادہ برے لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کا اپنے پارٹنر سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مردوخواتین نے سائز سے بڑی پینٹ اور خراب حال جوتوں کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز قرار دیا جو انہیں اپنے پارٹنرز میں بری لگتی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ورجینی موئیل کا کہنا تھا کہ ”لوگ اپنے زیرجاموں کے انتخاب پر ہی سب سے کم توجہ دیتے ہیں حالانکہ ہماری تحقیق میں یہی آپ کے شریک حیات کے دل میں اپنی کی محبت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ “
https://dailypakistan.com.pk/12-Feb-2021/1249915?fbclid=IwAR3lRdx5iUtg0eo7lFwXw9wCPZxcXedHL5sp1cnrOkzhCOmLJqwtig9xnoY


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک)برطانوی ماہرین نے نئی تحقیق میں لوگوں کی شہادت اور انگوٹھی کی انگلیوں کی لمبائی میں فرق اوران کی ماﺅں کی آمدنی کے درمیان انتہائی دلچسپ تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سوانسی یونیورسٹی کے ماہرین نے اڑھائی لاکھ لوگوں پر کیے گئے اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ جن لوگوں کی انگوٹھی والی انگلی شہادت کی انگلی سے زیادہ لمبی ہو، وہ امیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ماﺅں کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے برعکس جن کی شہادت والی انگلی انگوٹھی والی انگلی سے لمبی ہو ، وہ غریب خاندان سے ہوتے ہیں اور ان کی ماﺅں کی آمدنی کم ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی۔


تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر جان میننگ کا کہنا تھا کہ شہادت اور انگوٹھی والی انگلیوں کی لمبائی میں فرق انسان کے جسم میں زنانہ اور مردانہ جنسی ہارمونز کے لیول پر منحصر ہوتا ہے۔ جس شخص میں مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹرون کا لیول زیادہ ہو، اس کی انگوٹھی والی انگلی لمبی ہوتی ہے۔ا س کے برعکس جس شخص میں زنانہ جنسی ہارمون ایسٹروجن زیادہ ہو اس کی شہادت والی انگلی زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان انگلیوں کی لمبائی کا فرق انسان کی شخصیت پر کئی پہلوﺅں سے اثرانداز ہوتا ہے۔ کورونا وائرس بھی ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوا جن کی شہادت والی انگلی انگوٹھی والی انگلی سے زیادہ لمبی تھی۔ برطانیہ، بلغاریہ اور سپین سمیت 10ایسے یورپی ملک تھے جہاں مردوں کی عموماً انگوٹھی والی انگلی چھوٹی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں کورونا وائرس سے اموات 30فیصد زیادہ ہوئیں۔اس کے برعکس سنگاپور، ملائیشیاءاور روس سمیت دیگر کئی ممالک جہاں مردوں کی انگوٹھی والی انگلی عموماً بڑی ہوتی ہے وہاں کورونا وائرس سے شرح اموات 30فیصد کم رہی۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2021/1248987?fbclid=IwAR1yuOFjNQA9N-FI4RQjIGBEbsz9aJqfAfN_zea0N0LxAC3HLz9xb9rKjhk


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کی وباءآنے کے بعد سے ہینڈ سینی ٹائزرز کے استعمال میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے اس اضافے کے متعلق انتہائی تشویشناک بات کہہ دی ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ہینڈ سینی ٹائزرز نے کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے میں تو اہم کردار ادا کیا لیکن اس کا حد سے زیادہ استعمال مستقبل میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہینڈ سینی ٹائزرز کا زیادہ استعمال انہیں اور دیگر جراثیم کش دواﺅں کو بے اثر بنا سکتا ہے کیونکہ اس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے جراثیم اور بیکٹیریا میں اس کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ سمانتھا مک کیرلی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی اس تحقیق میں کچھ ایسے جراثیموں اور بیکٹیریا کا سراغ لگایا ہے جو ہینڈ سینی ٹائزر اور دیگر جراثیم کش دواﺅں کے خلاف اپنے اندر بتدریج مزاحمت پیدا کر رہے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2021/1249003?fbclid=IwAR3DnuR105UiegJA9_9x5PHB2j0CL4AeG104GkOpoWUhLM34KHOFdp9S15Y


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) استعمال شدہ ٹی بیگ لوگ پھینک دیا کرتے ہیں لیکن اب ایک خاتون نے ان کا ایسابہترین مصرف بتا دیا ہے کہ جان کر لوگ انہیں پھینکنے کی بجائے سنبھال کر رکھنے لگیں گے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق لنزے نامی اس خاتون نے اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر بتایا ہے کہ استعمال شدہ ٹی بیگ برتنوں کو چمکانے کے لیے بہترین چیز ہیں۔

لنزے کا کہنا تھا کہ ایسے برتن جو کھانا پکانے کی وجہ سے بہت زیادہ خراب ہو چکے ہوں اور کسی طور صاف نہ ہو رہے ہوں ان میں گرم پانی ڈالیں اور اس پانی میں استعمال شدہ ٹی بیگ ڈال کر 15منٹ کے لیے رکھ دیں۔ اتنے وقت کے بعد جب آپ برتن سے پانی گرائیں گے تو آدھا برتن پہلے ہی صاف ہو چکا ہو گا جبکہ باقی معمولی رگڑنے سے صاف ہو جائے گا
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2021/1249004?fbclid=IwAR0wiMBij2jojB0y5i15rYPJKkGRrPb_999BfUa1EuMH6QNYZHMXx8nTBO4


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا آپ کا ہم سفر آپ کے ساتھ تعلق ختم کرنے والا ہے؟ برطانیہ کی معروف باڈی لینگوئج کی ماہر جوڈی جیمز نے اس سوال کا قبل از وقت جواب معلوم کرنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق جوڈی جیمز کا کہنا ہے کہ جب آپ کا شریک حیات آپ کو چھوڑنے کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے تو اس کے روئیے میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر آپ اس کے مزاج، روئیے اور عادات پر بغور نظر رکھیں تو باآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اب آپ کا پارٹنر زیادہ دیر آپ کے ساتھ نہیں رہے گا۔ایسا شخص بیٹھے ہوئے اپنے پاﺅں کو تسلسل کے ساتھ زمین پر پٹخنے لگتا ہے،اپنی ظاہری شکل و صورت پر معمول سے زیادہ توجہ دینے لگتا ہے، اپنے فون کو بار بار دیکھنے لگتا ہے، اپنے دوستوں اور فیملی کے ساتھ زیادہ گفتگو کرنے لگتا ہے وغیرہ۔


جوڈی کا کہنا تھا کہ ”جو شخص اپنے پارٹنر سے تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے ایک طرح کے تذبذب اور کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے جو اس کے چہرے اور روئیے سے عیاں ہوتی ہے۔ چونکہ کسی بھی صورت پارٹنر سے تعلق ختم کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے چنانچہ ایسے آدمی کے چہرے سے یہ تکلیف بھی جھلک رہی ہوتی ہے اور وہ اس تکلیف اور بے قراری پر قابو پانے اور خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ “ جوڈی کا مزید کہنا تھا کہ ”ایسی صورتحال میں آنکھیں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو شخص اپنے پارٹنر سے تعلق ختم کرنے کا سوچ رہا ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے آنکھیں چرانے لگتا ہے۔ وہ اس سے بات کرتے ہوئے نیچے کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے یا آپ سے بات کرتے ہوئے خود کو چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف رکھنے لگتا ہے۔ اور کچھ نہ ہو تو وہ خود کو موبائل فون پر ہی مصروف کر لیتا ہے تاکہ اسے آپ کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔“
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2021/1248998?fbclid=IwAR0ED_IRi0rPvFrmh-JXuptZToscbYn90T6rcGbzSdcYrJ_II87N7J5Uizs


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جنسی عمل میں منہ کے استعمال کی لت بھی مغربی معاشرے میں عام ہو چکی ہے جس کے متعلق اب ایک ڈینٹسٹ نے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق اس ڈینٹنسٹ نے ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں بتایا ہے کہ وہ صرف لوگوں کے دانتوں کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ آیا وہ اس قبیح عادت کا شکار ہے یا نہیں، کیونکہ جو لوگ اس بد عادت میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے تالو پر مخصوص طرح کے نشانات پڑ جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ”ان نشانات کو ’Palatal Petechia‘ کہا جاتا ہے۔تاہم یہ نشانات ان لوگوں کے منہ میں بنتے ہیں جو اس قبیح لت میں بری طرح مبتلا ہوں اور بہت زیادہ یہ حرکت کر چکے ہوں۔“ڈینٹسٹ کی یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور کمنٹس میں بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ اب انہیں ڈینٹسٹ کے پاس جاتے بھی شرم آئے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2021/1249000?fbclid=IwAR2YkhggtidWia_wHfNzfuAkK1reu9kON68RIExqBm1p94Xq4442riX4Gt0


پیرس(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں لوگوں کے جھوٹ پکڑنے کا ایک آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سوربون یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو وہ معمول کی نسبت زیادہ آہستہ بولتا ہے اور الفاظ کے درمیان میں وہ زیادہ زور نہیں ڈالتے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے کئی لہجوں اور مبنی آوازیں ریکارڈ کیں اور کچھ لوگوں کو سنائیں اور انہیں ان میں سے سچ اور جھوٹ بولنے والوں میں تمیز کرنے کو کہا۔ رضاکاروں نے ان لوگوں کو جھوٹا قرار دیا جن آہستہ بول رہے تھے اور الفاظ کے درمیان میں ان کی آواز کی شدت کم تھی۔نتائج میں تحقیقاتی ٹیم کا کہنا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو دیانت دار اور سچا آدمی سمجھیں تو آپ زیادہ تیز بولیں اور الفاظ کے درمیان میں آواز میں شدت زیادہ رکھیں اور آخر میں آواز کی شدت میں کمی لائیں۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Feb-2021/1248558?fbclid=IwAR1ofLouHDT37haAGoRKJ_Hmbfx2mCjhlafPAuoFGCywdZuu2zF70L0boY4


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) شہروں میں رات کے وقت سٹریٹ لائٹس کی روشنی جگمگ کیے رہتی ہے۔ یہ روشنی رات کے وقت سفر کرنے والوں کے لیے تو فائدہ مند ہوتی ہے لیکن امریکی سائنسدانو نے نئی تحقیق میں اس کا ایک انتہائی سنگین نقصان بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق امریکہ کے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے 4لاکھ 64ہزار سے زائد لوگوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ سٹریٹ لائٹس کی روشنی کی زد میں رہتے ہیں ان کو مختلف اقسام کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ اس روشنی سے دور رہنے والوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ روشنی بالخصوص خواتین کے لیے چھاتی کے کینسر کے حوالے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

ابوظہبی:
گزشتہ برس زمین سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے امریکا، چین اور متحدہ عرب امارات کے خلائی جہازوں میں سب سے پہلے امارات کا خلائی جہاز مریخ کے مدار پر پہنچ رہا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ برس جولائی میں ایک دوسرے سے صرف کچھ دن کے فرق سے اپنے سفر کا آٓغاز کرنے والے خلائی جہاز کروڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد مریخ کے مدار کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

تینوں خلائی جہازوں میں سے متحدہ عرب امارات کا خلائی جہاز سب سے پہلے آج کسی وقت مریخ کے مدار تک پہنچ جائے گا جب کہ چین کا خلائی جہاز کو اب بھی مزید ایک دن لگے گا اسی طرح ناسا کا خلائی جہاز سب سے آخر میں یعنی 18 فروری کو پہنچے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات جو مریخ پر پہنچنے کی دوڑ میں سب سے نیا ہے اب سب سے پہلے مریخ پر پہنچ رہا ہے۔ چین نے 2011 میں بھی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا تھا جب کہ امریکا اس پہلے بھی معرکہ سر کر چکا ہے۔

متحدہ عرب مارات میں اس تاریخی لمحے کو دیکھنے اور محفوظ کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ اماراتی مریخ مشن کے پروجیکٹ مینیجر عمران شریف کا کہنا ہے کہ ہم پُر جوش ہیں لیکن کچھ ڈرے ہوئے بھی ہیں۔

جہاں مریخ کے مدار تک پہنچنے لے لیے تین خلائی گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی ہے وہیں اس وقت مریخ کے مدار پر مجموعی طور پر 6 خلائی گاڑیاں موجود ہیں یعنی اب بھی 3 امریکی، 2 یورپی اور ایک بھارتی خلائی گاڑی مدار پر زیر گردش ہیں۔ واضح رہے کہ مریخ پر کامیابی سے لینڈنگ کرنے والا واحد ملک امریکا ہے اور اب بھی مریخ کی سطح پر 2 امریکی خلائی جہاز فعال حالت میں موجود ہیں
https://www.express.pk/story/2141132/10/


اوٹاوا(مانیٹرنگ ڈیسک) مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹرون کی حامل ایک دوا مردوں کی جنسی تحریک کو بڑھانے کا کام کرتی ہے لیکن اب سائنسدانوں نے اس دوا کا ایک اور حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق نئی تحقیق میں کینیڈا کے شہر مونٹریال کی مکگل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ یہ دوا مردوں میں دوسری قسم کی ذیابیطس کے خطرے کو بھی 40فیصد تک کم کردیتی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ”یہ دوا مردوں میں ٹیسٹاسٹرون کا لیول بڑھا دیتی ہے جس سے ان کی جنسی تحریک میں اور افزائش نسل کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے تاہم ٹیسٹاسٹرون لیول بڑھنے سے ان کے جسم کی کچھ چربی بھی پٹھوں میں تبدیل ہو جاتی ہے جس سے ان کو دوسری قسم کی ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ہر تین ماہ بعد اس دوا کی ایک خوراک لینا دوسری قسم کی ذیابیطس کے خطرے کو 40فیصد سے زائد کم کر دیتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/09-Feb-2021/1248559?fbclid=IwAR3DWESdL3snmS5y0Qn67UdsSycrV5j_VoeYYL89QtBB9zoDomXT7feQg2w


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری آنکھوں کے نچلے پپوٹوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں؟ آخر ان سوراخوں کا مصرف کیا ہے؟ انٹرنیٹ پر ایک آدمی نے اس سوال کا ایسا جواب دیا ہے کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ویب سائٹ ’Reddit‘ پر اس آدمی نے بتایا ہے کہ نچلے پپوٹوں کے اندرونی طرف موجود یہ چھوٹے چھوٹے سوراخ درحقیقت آنسوﺅں کی نکاسی کا کام کرتے ہیں۔

صارف نے بتایاکہ جب ہم روتے ہیں تو کچھ آنسو آنکھوں سے نکل کر ہمارے رخساروں پر بہہ جاتے ہیں لیکن کچھ آنسو آنکھ کے اندر ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ آنسو ان سوراخوں کے ذریعے آنکھ سے نکلتے ہیں۔ ان سوراخوں کو طبی زبان میں lacrimal punctaکہا جاتا ہے۔یہ سوراخ آنکھوں سے ناک میں کھلتے ہیں، چنانچہ آنکھوں میں رہ جانے والے کچھ آنسو ان سوراخوں کے ذریعے ناک کے راستے جسم سے باہر نکل جاتے ہیں
https://dailypakistan.com.pk/08-Feb-2021/1248094?fbclid=IwAR2hR_oOOHdHFS9X2oUBHPEOsutfyxdRul_jN68cB-ZSSCUUqUa5P0iAnIs


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/02/08022021/P6-Lhr-060.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/02/08022021/P6-Lhr-054.jpg


واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن ) کھانوں میں زیادہ مصالحوں کے استعمال کے انسانی صحت پر اثرات سے متعلق ایک تحقیق ہوئی ہے جس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ مصالحے کھانے والے افراد کی جنسی خواہشات بھی بڑھ جاتی ہیں ۔امریکی (sauce)کے ایک برانڈ نے رائے شماری کے ذریعے ایک سروے کیا جس میں امریکی افراد سے ان کی شخصیت سے متعلق بہت سے سوالات پوچھے گئے اور پھر ان سے پوچھا کہ وہ کتنا مصالحے دار کھانا پسند کرتے ہیں ۔
اس تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ زیادہ مصالحے دار کھانا پسند کرتے ہیںان کی جنسی خواہشات کم مصالحے دار کھانا کھانے والوں سے دوگنی ہوتی ہے ۔تحقیق کے مطابق ان لوگوں کو خطروں کے کھیلوں میں زیادہ مزہ آتا ہے ،ایسے لوگوں کو رولر کوسٹر رائڈ پر بیٹھنا ،اونچی آواز میں میوزک سننا اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانا ،سکائی ڈائیونگ ،دریاوں میں کشتی چلانا ،سمندروں میں تیراکی کرنے جیسے خطرناک کھیل اچھے لگتے ہیں ۔اس کے علاوہ زیادہ مصالحے دار کھانے پسند کرنے والوں کو سوشل زندگی ،زیادہ باتیں کرنا او رنئے لوگوں سے ملنابھی اچھا لگتا ہے
https://dailypakistan.com.pk/07-Feb-2021/1247669?fbclid=IwAR2KQuU_2GYwdAD-Ti2rpH1og7GO_qtTos7V9DKM08GddUivT6xnO5bNbyc


ماسکو(این این آئی) روس نے جدید بلٹ پروف فوجی لباس کی تیاری کا منصوبہ بنایا ہے ۔دفاعی ادارہ کے مطابق جدید بکتر بند لباس جنگ میں سپاہیوں کوسپر ہیومن بنا دے گا، روس کے سرکاری دفاعی ادارے ’’روستیک‘‘ نے اعلان کیا ہے۔ کہ وہ دنیا کا جدید ترین فوجی لباس تیار کرے گا جو اتنا مضبوط ہوگا کہ اگر طاقتور مشین گن سے بھی اس پر گولیاں برسائی جائیں تو اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ واضح رہے کہ 0.50 کیلیبر مشین گن (جسے ’’ففٹی کیلبر مشین گن‘‘ بھی کہا جاتا ہے ) دنیا کی طاقتور مشین گنوں میں شمار ہوتی ہے ۔ ’’روستیک‘‘ کی پریس ریلیز میں اسی مشین گن کا حوالہ دیا گیا ہے ۔یہ لباس، جسے صحیح معنوں میں ’’فوجی زرہ بکتر‘‘ کہنا چاہئیے ، روس میں ’’سوتنک‘‘کے عنوان سے تیار ہونے والے فوجی لباس کی ’’چوتھی نسل‘‘ ہے جس میں موجودہ یعنی ’’تیسری نسل‘‘ کی خوبیاں اور بھی بہتر بنائی جائیں گی۔’’سوتنک کومبیٹ آرمر‘‘ کی تیسری نسل جدید ترین فوجی آلات کے علاوہ نائٹ وڑن (اندھیرے میں دیکھنے کا نظام)، واٹر فلٹر اور اندرونی مواصلاتی نظام سے لیس ہے جبکہ یہ لباس 7.62 ملی میٹر کیلیبر والی رائفل کی گولیاں برداشت کرسکتا ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’’سوتنک‘‘ کی اگلی (چوتھی) نسل کے لباس میں یہی بلٹ پروف خاصیت واضح طور پر بہتر بنائی جائیں گی۔ یعنی چھوٹی موٹی پستول اور رائفل کے علاوہ طاقتور مشین گن سے فائر ہونے والی گولیاں تک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔امریکی ویب سائٹ ’’ٹاسک اینڈ پرپز‘‘ نے اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں روس کے مذکورہ فوجی لباس کو پیدل دستوں (انفینٹری) کے لیے ’’مستقبل سے ہم آہنگ‘‘ اور متاثر کن ایجاد بھی قرار دیا ہے ۔روستیک کے مطابق ’’سوتنک‘‘ کی اگلی نسل 2035 تک روسی فوج کے سپرد کردی جائے گی۔ اگرچہ سوتنک کی موجودہ (تیسری) نسل کے لباس کی گزشتہ جمعے کو روس میں باقاعدہ رونمائی کی جاچکی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کب تک روسی فوجیوں کے استعمال میں آنا شروع ہوگا۔دوسری جانب ایک اور امریکی ویب سائٹ ’’فیوچر اِزم‘‘ نے جدید ترین ’’سوتنک‘‘ کو ایک ایسا فوجی لباس قرار دیا ہے جو سپاہیوں کو دورانِ جنگ ’’فوق انسان‘‘ (سپر ہیومن) صلاحیتوں سے مالا مال کردے گا۔یہ بات یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ حالیہ چند برسوں کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ بہت تواتر سے چین اور روس میں ہونے والی عسکری تحقیق و ترقی (ملٹری ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ) کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خبریں شائع کررہے ہیں اور اس حوالے سے افواہوں تک کو حقیقت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔یہ تقریباً وہی انداز ہے جو ماضی کی ’’سرد جنگ‘‘ (کولڈ وار) کے زمانے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں اختیار کیا جاتا تھا۔
https://www.roznama92news.com/%D8%B1%D9%88%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D8%A8%D9%84%D9%B9-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81--%D9%81%D9%88%D8%AC%DB%8C-%D9%84%D8%A8%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81


سیکرامینٹو (ڈیلی پاکستان آن لائن) ٹیسلا کے سابق چیف انجینئر پیٹر رالنسن نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے تیز رفتار اور ایک بار کی چارجنگ سے طویل فاصلہ طے کرنے والی الیکٹر ک کار تیار کی ہے۔

فوربز کے مطابق لوسڈ موٹرز کے چیف ایگزیکٹو اور ایلن مسک کی ٹیسلا کے سابق چیف انجینئر پیٹر رالنسن کے مطابق انہوں نے لوسڈ ایئر کے نام سے الیکٹرک کار ڈیزائن کی ہے جس کی قیمت ایک لاکھ 69 ہزار ڈالر (2 کروڑ 70 لاکھ 50 ہزار روپے) ہوگی۔

یہ اس کمپنی کی پہلی کار ہوگی جو رواں سال فروخت کیلئے پیش کی جائے گی، یہ کار ایک بار چارجنگ سے 517 میل (832 کلومیٹر) تک فاصلہ طے کرسکتی ہے، یہ گاڑی صرف دو سیکنڈز میں ہی صفر سے 60 میل (ساڑھے 96 کلومیٹر) کی رفتار پکڑ سکتی ہے جو ٹیسلا کے ماڈل ایس سے زیادہ تیز ہے۔


پیٹر رالنسن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے 2012 میں ٹیسلا کیلئے ماڈل ایس ڈیزائن کیا تھا تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا لیکن اس کار نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا، اب کی بار بھی ان کے کام پر کسی کو بھروسہ نہیں ہو رہا لیکن وہ ایک بار پھر انقلاب برپا کرنے جا رہے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Feb-2021/1246758?fbclid=IwAR1pYa5e8e4L7r7QErP1x0JsWWLbDRzHr2JmjjLXi5xerwN85b5a08QxrdU


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) وائٹ بریڈ، ریفائنڈ سیرئیلز اور پاستے کے شوقین افراد کو سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ایک بری خبر سنا دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے نئی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ بہت زیادہ وائٹ بریڈ، ریفائنڈ سیرئیلز اور اور پاستہ کھانے سے دل کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتاہے۔ایسے لوگوں کو ہارٹ اٹیک اور سٹروک دیگر افراد کی نسبت زیادہ اآنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 1لاکھ 37ہزار لوگوں پر تجربات کیے ہیں۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ وائٹ بریڈ اور پاستہ جتنا زیادہ کھاتے تھے ان میں ہائی بلڈپریشر کا عارضہ بھی اتنا ہی زیادہ پایا گیا۔ تحقیق میں سفید چاولوں کا ایسا کوئی نقصان سامنے نہیں آیا حالانکہ سفید چاولوں کو بھی ’ریفائنڈ گرین‘ (Refined Grain)ہی خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے اشیاءریفائنڈ سیرئیلز یا گرینز کے زمرے میں آتی ہیں، وہ تمام دل اور دوران خون کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ پائی گئیں۔
https://dailypakistan.com.pk/04-Feb-2021/1246394?fbclid=IwAR3q6dt9fpUNNnFBsBV1O7l8hvF3IVKrmX45WTkHIQQO1csbA2CYZ6x4H0g

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا آپ کا ہم سفر آپ کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس سوال کا جواب جاننے کا حیران کن طریقہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف ٹیکساس کے تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہم سفر کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے تو اس کی روزمرہ گفتگو میں الفاظ کاچناﺅ تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ کچھ مخصوص الفاظ زیادہ بولنے لگتا ہے۔ ایسا شخص جو الفاظ زیادہ بولنا شروع کر دیتا ہے ان میں’میں‘ اور ’ہم‘ شامل ہیں۔

سائنسدانوں نے اس تحقیق میں سوشل پلیٹ فارمRedditپر 6ہزار 800صارفین کی پوسٹس کی کئی ماہ تک نگرانی کی اور پوسٹس میں ان کے استعمال کردہ الفاظ کے تغیر اور ان کے رومانوی تعلق کا باہم تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرتے رہے۔ نتائج میں انہوں نے بتایا کہ جب کوئی شخص اپنے پارٹنرکے ساتھ تعلق ختم کرتا ہے تو اس سے تین ماہ قبل ہی اس کی زبان میں تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ ’میں‘ اور ’ہم‘ جیسے الفاظ زیادہ بولنے لگتا ہے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ سارا سراج کا کہنا تھا کہ ” ’میں‘اور ’ہم‘ کے الفاظ ڈپریشن اور دکھ کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص یہ الفاظ زیادہ بولنا شروع کر دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا ذہن کوئی تکلیف دہ فیصلہ کرنے کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور دکھ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے پارٹنر کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے متعلق سوچنے والا شخص ’میں‘ اور ’ہم‘ کا استعمال زیادہ کرنے لگتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/02-Feb-2021/1245508?fbclid=IwAR2x3cC69oYMWD0hUKRZ_A20l3gntTgVXwHgL6UT6MDueUs2JgzFTYGj_r8


کوپن ہیگن(مانیٹرنگ ڈیسک) کاسمیٹکس مصنوعات میں پائے جانے والے کیمیکلز کے متعلق سائنسدانوں نے انتہائی تشویشناک خبر سناتے ہوئے خواتین کوتنبیہ کر دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ڈینش کنزیومر کونسل اور کیمپین گروپ CHEMکے ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں کاسمیٹکس کی 28مصنوعات کے ٹیسٹ کیے، جن میں سے 20میں ایسے خطرناک کیمیکلز پائے گئے جو انسانوں میں ہارمونز کے توازن کو بگاڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ ایسے تباہ کن اجزاءبھی پائے گئے جو ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان خطرناک اجزاءمیں ethylhexyl methoxycinnamateبھی شامل ہے جو سمندرمیں جا کر ’کورل ریفس‘ کو نقصان پہنچاتا ہے۔تحقیقاتی نتائج کے مطابق کاسمیٹکس اشیاءمیں اینڈوکرین ڈسرپٹر نامی کیمیکل بھی پایا جاتا ہے جو انسانوں میں ہارمونز لیول کو بگاڑتا اور کئی طرح کے عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ان مصنوعات میں ایسے بھی کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو الرجک ری ایکشن کا سبب بنتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Feb-2021/1245512?fbclid=IwAR2RMSTyD1UpasPWPLyPiFY79K9llo0JTXn5uTrv6mpLMduqoMaCOg_gziE


ریاض:
سعودی عرب میں وزارت توانائی اور ڈیٹا اینڈ آرٹیفشل انٹیلیجنس اتھارٹی کے درمیان ایم او یو پر دستخط کے بعد جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئے سینٹر کا افتتاح کیا گیا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق ریاض میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس سینٹر کا افتتاح کردیا گیا ہے، جس کا مقصد قومی انرجی ترجیحات کا فروغ، علم میں فائدے کے لیے مصنوعی ذہانت کی تیاری، توانائی کے شعبے کے تجربات کو جمع کرنے اور انرجی کے حوالے سے اسٹریٹجک شراکت داروں کی رہنمائی کرنا ہے۔

سینٹر کے افتتاح سے قبل وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان اور سعودی ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ بن شرف الغامدی نے ایم او یو پر دستخط کیے جس میں مملکت کی مصنوعی ذہانت میں صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا گیا ہے۔

اس موقع پر وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ یہ سینٹر 2030 تک 15 ہزار سے زائد ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین تیار کرے گا جب کہ مصنوعی ذہانت میں جدید تحقیق اور ترقیاتی کوششوں کو فروغ دینے میں مدد کرنا اسی سینٹر کی ذمہ داری ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2137609/10/


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) حمل کے دوران خواتین کو کس پوزیشن میں سونا چاہیے؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیدھا سونے کے متعلق حاملہ خواتین کو خبردار بھی کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ حمل کے آخری تین ماہ کے دوران خواتین کاسیدھا، پشت پر سونا بچے کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور ان کا حمل ضائع بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس پوزیشن میں سونے سے بچے کو خون کی فراہمی بہت کم ہو جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 22حاملہ خواتین پر تجربات کیے۔ انہوں نے ان خواتین کو 20سے 25منٹ تک پشت کے بل ایم آر آئی مشین میں لیٹنے کو کہا۔ صرف اتنا وقت پشت کے بل لیٹنے سے ان کے پیٹ میں پرورش پاتے بچے کو خون کی فراہمی پہلو کے بل لیٹنے کی نسبت 11.2فیصد کم ہو گئی تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر اینا ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ خواتین کو حمل کے آخری تین ماہ کے دوران پہلو کے بل سونا چاہیے۔ یہ بچے کی صحت کے لیے بہترین پوزیشن ہے جس میں بچے کو ’ناف کی نالی‘ کے ذریعے خون کی فراہمی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کی نشوونما بہترین طریقے سے ہوتی ہے
https://dailypakistan.com.pk/01-Feb-2021/1245048?fbclid=IwAR0vi5UaHiTLeRXR9zGZDPPsPG7e23Hvqa7byyy_h-w7MjWa2LTKpKO_PIU


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ناروے کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں خوراک کے انتخاب اور انگلیوں کی لمبائی کے درمیان ایک انتہائی دلچسپ تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ناروے کی یونیورسٹی آف ایڈر کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شہادت کی انگلی اور انگوٹھی والی انگلی کی لمبائی میں فرق آدمی کے خوراک کے انتخاب پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ جس آدمی کی انگوٹھی والی انگلی شہادت والی انگلی سے لمبی ہو وہ برگر اور دیگرایسی چیزیں زیادہ کھاتا ہے جن سے ’مردانگی‘ جھلکتی ہو۔ اس کے برعکس جس آدمی کی شہادت والی انگلی انگوٹھی والی انگلی سے لمبی ہو وہ سلاد جیسی ’زنانہ‘ اشیاءکی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔


سائنسدانوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جس آدمی کو ماں کے پیٹ میں مردانہ جنسی ہارمون ’ٹیسٹاسٹرون‘ زیادہ ملتا ہے اس کی انگوٹھی والی انگلی شہادت والی انگلی سے لمبی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خصائل او رعادات بھی زیادہ مردانہ ہوتی ہیں۔ وہ برگر، سٹیکس، فل فیٹ کوک وغیرہ پسند کرتا ہے جبکہ جن کی شہادت والی انگلی لمبی ہو وہ سلاد اور ڈائٹ کوک وغیرہ جیسی اشیاءپسند کرتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر توبیاس اوٹربرنگ کا کہنا تھا کہ ”ہماری اس تحقیق سے واضح شواہد میسر آئے ہیں کہ جنسی ہارمونز کا لیول ہماری خوراک کے متعلق پسند و ناپسند پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے
https://dailypakistan.com.pk/01-Feb-2021/1245047?fbclid=IwAR2aNqDz8yJovtrMsAQed7XkqzZ8KMvwcE0T5PBe2IErhglsKxy5hOI7Rks


روم(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والا لاک ڈاﺅن اولاد سے محروم جوڑوں کے لیے ایک خوشخبری کا سبب بن گیا۔ سائنسدان اس کی وجہ سے اولاد کے حصول کا ایک انتہائی آسان اور سستا نسخہ بتانے میں کامیاب ہو گئے۔ میل آن لائن کے مطابق اٹلی کی یونیورسٹی آف موڈینا کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ”میاں بیوی کا زیادہ جنسی تعلق قائم کرناان کی اولاد کے حصول کی کوشش کو آسان بنا سکتا ہے۔“

سائنسدانوں کی اس بات کی بنیاد لاک ڈاﺅن کے دوران کئی بے اولاد جوڑوں پر کی جانے والی تحقیق میں۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 431ایسے جوڑوں کی نگرانی کی جو لاک ڈاﺅن سے قبل اولاد پانے کے لیے علاج کروا رہے تھے۔ لاک ڈاﺅن کے سبب ان کا علاج رک گیا تاہم اس دوران مسلسل گھر میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے وہ پہلے سے بہت زیادہ جنسی تعلق قائم کرنے لگے جس سے ان میں سے 8فیصد خواتین علاج بند ہوجانے کے باوجود قدرتی طریقے سے حاملہ ہو گئیں۔

منی لانڈرنگ ، اثاثہ جات کیس، حمزہ شہبازنے ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت دائر کردی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر شینا لیویس کاکہنا تھا کہ ہماری تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ جنسی تعلق میں اضافہ کسی بھی جوڑے کے اولاد پانے کے امکان میں اضافہ کر دیتا ہے۔ ایسے جوڑے جنہیں اولاد کے حصول میں مشکل کا سامنا ہے اور وہ علاج کروا رہے ہیں۔ اگر وہ ہفتے میں تین سے چار بار جنسی تعلق قائم کرنے تو ان کے حاملہ ہونے کا امکان بہت بڑھ سکتا ہے
https://dailypakistan.com.pk/01-Feb-2021/1245050?fbclid=IwAR1e1-dzfLEUzKb9JRYh5RdvoyNh3XSrpL3qcjkvvnXfrs2VkDT3Nbh2idw


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)کچھ مرد بہت جارح مزاج ہوتے ہیں، جن کے متعلق امریکی ماہرین نے نئی تحقیق میں ایک دلچسپ انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کی ڈوک یونیورسٹی کے ماہرین نے 18سے 56سال کی عمر کے400سے زائد مردوں پرکی گئی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ جن مردوں کا مردانگی کے متعلق احساس کمزور ہوتا ہے، وہ دوسروں کی نسبت زیادہ جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔ ایسے مرد سمجھتے ہیں کہ مردانگی کا اظہار کرنے کے لیے ان کا جارح مزاج ہونا ضروری ہے۔

ماہر نفسیات اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈم سٹینالینڈ کا کہنا تھا کہ ”سب سے زیادہ جارح مزاج مرد 18سے 29سال کے ایج گروپ میں پائے گئے۔ 30سے 37سال کی عمر کے مردوں میں جارح مزاج کم اور 38سال یا اس سے زائد عمر کے مردوں میں بہت کم پائی گئی۔“ایڈم کا کہنا تھا کہ ”یہ بات واضح ہے کہ نوجوان مرد اپنی مردانگی کو درپیش خطرات کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اس احساس کے زیراثر جارح مزاجی پر مجبور ہوجاتے ہیں تاکہ دوسروں کو اپنی مردانگی کا احساس دلا سکیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/30-Jan-2021/1244249?fbclid=IwAR2EErPY6hUkna7qjsJ_mbabtpdpeby0VFJqcYhJ3n6jlIg6K3h-DlNsafY


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) واٹس ایپ پر ایک پیغام کے ذریعے لوگوں کے فون ہیک کیے جانے کا انکشاف سامنے آ گیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ہیکنگ کی یہ واردات اینڈرائیڈ سمارٹ فونز پر ہو رہی ہے۔ ہیکرز کی طرف سے واٹس ایپ پر صارفین کو ایک لنک بھیجا جاتا ہے جس میں انہیں ’گوگل پلے سٹور‘ سے ایک ایپلی کیشن ڈاﺅن لوڈ کرنے کو کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ اس ایپلی کیشن کو اپنے فون میں انسٹال کرکے ایک فون جیت سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جو صارفین فوج کے لالچ میں اس ایپلی کیشن کو انسٹال کرتے ہیں، ہیکرز کو ان کے فون کا کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔ واٹس ایپ پر بھیجا جانے والا یہ لنک ’ہواوے موبائل‘ (Huawei Mobile)نامی ایک ایپلی کیشن تک لے کر جاتا ہے، تاہم یہ ایک جعلی ایپلی کیشن ہے جس کا چینی موبائل فون ساز کمپنی ’ہواوے‘کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ واٹس ایپ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں صارفین کو اس پیغام سے متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”صارفین کو ایپلی کیشنز براہ راست گوگل پلے سٹور سے ڈاﺅن لوڈ کرنی چاہئیں، کسی لنک کے ذریعے کوئی بھی ایپلی کیشن ڈاﺅن لوڈ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/30-Jan-2021/1244248?fbclid=IwAR2gl1tPn1DzqK5AR2LAA_9uKX4VQ8ZbCVzUy9NRVnmfolcZgtRQH3Oc7wU


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) چینی سمارٹ فون ساز کمپنی ’شیاﺅمی‘ نے ایسی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے ذریعے صارفین بغیر تار کے اپنے موبائل فونز ری چارج کر سکیں گے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق اس نئی چارجنگ ٹیکنالوجی کو ’می ایئر چارج‘ (Mi Air Charge)کا نام دیا گیا ہے، جس کے ذریعے موبائل فونز ’وائی فائی‘ کی طرح فاصلے سے ہی چارج ہو سکیں گے۔شیاﺅمی کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں پہلی بار موبائل فون چارجنگ کو 100فیصد وائرلیس بنانے جا رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے 5واٹ ریموٹ چارجنگ 5میٹر کے فاصلے تک بغیر کسی تار کے ممکن ہو سکے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/30-Jan-2021/1244259?fbclid=IwAR0G7-JXr6mpsVGVQi7wQ1Q0_okfDfRKL_FCdInnJI5FsJR3eOBtUcqM0f4


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی تحقیق کاروں نے نئی تحقیق میں چاند اور ہماری نیند کے درمیان ایک انتہائی دلچسپ تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف واشنگٹن کے تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ چاند ہماری نیند پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ 29.5دن کے قمری مہینے میں چاند کے ساتھ ساتھ ہماری نیند گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ نتائج میں تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ چودھویں تاریخ کو چاند کے پورا ہونے سے پہلے کے دنوں میں لوگ بہت دیر سے سوتے ہیں اور پورے قمری مہینے میں ان دنوں میں سب سے کم نیند لیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دیہی علاقوں کے رہائشیوں اور شہری علاقوں کے کالج سٹوڈنٹس پر تجربات کیے ہیں۔ نتائج میں مزید بتایا گیا ہے کہ نئے چاند سے پہلے کے چند دنوں میں لوگ پورے قمری مہینے میں سب سے زیادہ جلدی بستر میں جاتے اور طویل نیند لیتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہوراشیو ڈیلا کا کہنا تھا کہ ”جس طرح پورے قمری مہینے میں چاند کی مختلف اشکال ہوتی ہیں جو اس کے ایک پورے چکر کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح قمری مہینے کے لحاظ سے ہماری نیند کا بھی ایک ’اتار چڑھاﺅ‘ ہے۔ تاہم ہماری نیند پر چاند کے یہ اثرات ان آبادیوں میں زیادہ واضح ہوتے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے۔ بجلی ہماری نیند پر چاند کے ان اثرات کو بہت کم کر دیتی ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2021/1243350?fbclid=IwAR07cfA2N1k0TZkDf6oel03LrlZi2lvB77bnPjY1jBOxw98EaYZ93alzXhY


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک امریکی ماڈل کو سالہا سال سے چہرے کے دانوں کا مسئلہ درپیش تھا اور ہر علاج ان سے نجات دلانے میں ناکام ثابت ہو گیا جس کے بعد اس نوجوان ماڈل نے ایسے قدرتی طریقے سے ان دانوں کا علاج کر لیا کہ اب اس کی جلد صاف و شفاف ہو چکی ہے اور اس نے یہ طریقہ دنیا کو بھی بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق 29سالہ مایا میکفیرسن نامی اس ماڈل کا تعلق امریکی ریاست ہوائی کے شہر ماﺅی سے ہے، جس کے چہرے پر 14سال کی عمر میں دانے نکلنے شروع ہوئے اور 27سال کی عمر میں جا کر ان سے کہیں نجات حاصل ہوئی۔ سکول میں سب اس کا مذاق اڑاتے تھے اور ان دانوں کی وجہ سے اسے ’پیزے جیسے چہرے والی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق مایا کاکہنا ہے کہ ان تمام سالوں میں اس نے ہر حربہ آزمایا۔ ڈاکٹروں سے علاج کرایا، باقاعدگی سے فیشل کرواتی رہی، اس مقصد کے لیے بنی کاسمیٹکس اشیاءاستعمال کرتی رہی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ پھر اس نے آخری حربے کے طور پر اپنی خوراک میں کڑی تبدیلیاں کیں اور مراقبہ شروع کردیا۔ مایا کا کہنا تھا کہ ”میں نے اپنی خوراک میں سب سے بڑی تبدیلی یہ کی کہ اپنی خوراک میں زیادہ تر پودوں سے حاصل ہونے والی اشیاءشامل کر لیں۔ اس کے ساتھ میں نے ذہنی تناﺅ اور ڈپریشن سے نجات کے لیے مراقبے کا سہارا لینا شروع کر دیا اور غوروفکر کرنے لگی۔اس کے علاوہ میں نے ذہنی تناﺅ کے خاتمے کے لیے یوگا اور بریتھ ورک (Breathwork)بھی شروع کر دیا۔ میں پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک کے ساتھ ہفتے میں دو سے تین بار مچھلی کھاتی تھی تاکہ اومیگا تھری وٹامنز حاصل کر سکوں۔ لائف سٹائل میں کی گئی ان تبدیلیوں سے کچھ ہی عرصے میں میری جلد بالکل صاف ہو گئی۔ اب میرا اس بات پر یقین پختہ ہو گیا ہے کہ اگر آپ اپنی جلد میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے معدے اور دماغ میں تبدیلی لانی ہو گی۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2021/1243356?fbclid=IwAR0qCY_dXxWNSOqbN8Jt9qOa2qlRELHZMYnhliQkhtT-sfAdOAP-NW5foH0


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سکاٹ لینڈ کی انڈنبرا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں دلچسپ انکشاف کردیا ہے کہ نوجوان لوگوں کو بھی عہد جوانی میں بڑھاپے کے لمحات کا تجربہ ہوتا ہے اور وہ بھی عمر رسیدہ لوگوں کی طرح گاہے اشیاءکہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔اس تحقیق میں ماہرین نے 124صحت مند لوگوں پر تجربات کیے جن کی عمریں 18سے 59سال کے درمیان تھیں۔

نتائج میں معلوم ہوا کہ نوجوان لوگ بھی بڑھتی عمر کے لوگوں کی طرح ہی کار کی چابیاں اور دیگر چیزیں رکھ کر بھولتے ہیں۔ نوجوانوں میں آدھے سے زیادہ لوگوں کو گفتگو کرتے وقت گاہے درست لفظ تلاش کرنے میں بھی دقت کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ”یادداشت کا کم ہونا ڈیمنشا کی پہلی علامات میں سے ایک ہے لیکن یادداشت کی ایسی کمزوری جو کسی بیماری کا پیش خیمہ ہو، اس میں مبتلا آدمی کو یہ ہی یاد نہیں رہتا کہ وہ کوئی چیز بھول چکا ہے۔ ایسے لوگوں اور صحت مند لوگوں کے بھولنے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ صحت مند آدمی کو یہ یاد رہتا ہے کہ وہ فلاں چیز کہیں بھول گیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ لورا مک رائٹر کا کہنا تھا کہ ”لوگ چیزیں رکھ کر بھول جانے سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں ڈیمنشا وغیرہ لاحق ہونے والے ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ عادت صحت مند لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اوسط 27سال عمر کے صحت مند لوگ ہفتے میں ایک بار کمرے میں داخل ہو کر یہ ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ کمرے میں کیوں آئے تھے۔ ان میں سے 40فیصد لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار اپنا فون گم کر بیٹھتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2021/1243351?fbclid=IwAR0N3VkWK_dTg1T_LzlA6_TJ0I_TtXurCxph74vYdVQafheXIKQsrdQ8Px8


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک نوجوان برطانوی لڑکی نے اپنے سنہری بالوں کا رنگ سیاہ کر لیا، جس سے اس کے ساتھ لوگوں کے رویئے میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق لندن کی رہائشی 27سالہ جوڈی ویسٹن نامی یہ لڑکی ڈی جے ہے۔ وہ معروف ٹی وی شو ’رِچ کڈز گہ سکنٹ‘ (Rich Kids Go Skint)میں بھی شرکت کر چکی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ جب اس کے بال سنہرے تھے تو وہ اکثر قطار توڑ کر آگے کھڑی ہو جایا کرتی تھی، لوگ اس کے لیے دروازہ کھولا کرتے تھے اور بارز میں اسے مفت مشروب ملاکرتے تھے۔ بالوں کا سیاہ رنگ کرنے سے یہ تمام مراعات اچانک ختم ہو گئیں۔

جوڈی کا کہنا تھا کہ ”جب سے میں نے اپنے بالوں کا رنگ سیاہ کیا ہے مجھے قطاروں میں طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور اب میرے لیے کوئی درواز بھی نہیں کھولتا۔ یہاں تک کہ اب مجھے مختلف قسم کے مرد میری طرف راغب ہوتے ہیں۔ پہلے مرد مجھے مختلف کاموں میں مدد کی پیشکش کرتے تھے لیکن اب کوئی میری مدد کو نہیں آتا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا رویہ بھی میرے ساتھ مختلف ہو چکا ہے۔ سنہری بالوں کے ساتھ خواتین کا سلوک میرے ساتھ بہت بہتر ہوتا تھا لیکن اب میرے خیال میں وہ مجھے زیادہ ’جج‘ کرنے لگی ہیں۔ اب زیادہ تر لڑکیاں مجھے کم عقل اور بے وقوف خیال کرنے لگی ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2021/1243363?fbclid=IwAR3OnMZt3eYx9NPD8AHVUj_DwO88R9FrjOT9eidZZ-48NsPMSD-x8nr_wzw


(مانیٹرنگ ڈیسک) انسان میں آخر خطرات مول لینے کی خو کیوں پائی جاتی ہے؟ سائنسدانوں نے بالآخر اس سوال کا جواب تلاش کر لیا۔ میل آن لائن کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف زیورخ کے سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے اس حصے کا سراغ لگا لیا ہے جس کا تعلق انسان کی خطرات مول لینے کی عادت سے ہے۔ اس تحقیق میں یونیورسٹی کے نیورالوجی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 25ہزار لوگوں کے دماغوں کا تجزیہ کیا۔

اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ دماغ کے مختلف حصوں کی خصوصیات بھی یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ دماغ کے خوشی کے ہارمونز ڈوپامین وغیرہ کو کنٹرول کرنے والے حصے اور یادداشت والے حصے کی خصوصیات بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھیں۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ درحقیقت خطرات مول لینے کا ذمہ دار دماغ کا کوئی ایک حصہ نہیں ہے بلکہ دماغ کے کئی حصے مل کر خطرات مول لینے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں خوشی کے ہارمونز کو کنٹرول کرنے والا، یادداشت والا اور دیگر حصے شامل ہیں۔

کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ لینے طیارہ کل روانہ ہو گا تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر گوئیخن ایڈوگن کا کہنا تھا کہ دماغ کے ’سیری بیلم‘ نامی حصے کا بھی خطرات مول لینے میں اہم کردار ہوتا ہے جو بنیادی طور پر فیصلہ سازی کے عمل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ہماری تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں کے دماغوں کے ان حصوں میں ’گرے مادہ‘ کم ہوتا ہے وہ زیادہ خطرات مول لیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو سگریٹ اور شراب زیادہ پیتے ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ کے ان حصوں میں یہ مادہ زیادہ ہو وہ سگریٹا ور شراب نوشی سے دور رہتے ہیں
https://dailypakistan.com.pk/29-Jan-2021/1243787?fbclid=IwAR04PrXVwR4OE87ft3p533cGIucKHi_J57Uh03xA6N4lj1vnFmQN-7BUAHA


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) 455کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرکے ’دی ٹواٹیرا‘ نامی گاڑی نے دنیا کی تیزترین سپرکار کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں اس گاڑی کو امریکی شہر لاس ویگاس میں کے مضافات میں دوڑایا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ گاڑی 532کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچی تاہم یہ دعویٰ مشکوک قرار پایا۔

اس دعوے کے مشکوک ہونے کے باعث ایس ایس سی کی طرف سے 17جنوری کو گاڑی کی رفتار کا دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا۔ اس نئے ٹیسٹ میں گاڑی کو دو بار دوڑایا گیا اور اس کی رفتار اوسطاً455کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچی۔رفتار میں اس کمی کے باوجود یہ گاڑی دنیا کی تیز ترین گاڑی قرار پائی ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز سویڈن کی ’Koenigsegg Agera RS‘ کے پاس تھا جس کی رفتار 447کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ٹواٹیرا 1ہزار 750ہارس پاور طاقت کی حامل ہے جس کی قیمت 19لاکھ ڈالر (تقریباً ساڑھے30کروڑ روپے) ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Jan-2021/1243362?fbclid=IwAR2ycPVejKDRu6rltLQL00kEPIwhFa9MCxbi8uPVdvFTBAAHj7eFJwfgJhc


کراچی:
ہجوم کو منشتر کرنے کےلیے واٹر کینن سے پانی کی تیز بوچھاڑ مارنا ایک عام سی بات ہے لیکن ایک مچھلی ایسی بھی ہے جو پانی کی تیز بوچھاڑ سے نشانہ باندھ کر، کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔

ویسے تو اس مچھلی کا سائنسی نام Toxotes jaculatrix لیکن یہ ’تیر انداز مچھلی‘ (آرچر فش) کے نام سے مشہور ہے۔

شکار کرنے کےلیے یہ منہ میں پانی بھر کر اپنا سر، پانی کی سطح سے باہر نکالتی ہے اور شکار تلاش کرتی ہے۔

جونہی اسے قریب میں کوئی کیڑا مکوڑا دکھائی دیتا ہے، یہ نشانہ باندھ کر اپنے منہ میں بھرے ہوئے پانی کو ایک تیز دھار کی شکل میں اس پر پھینکتی ہے۔

یہ پانی کسی نوکیلے اور تیز رفتار تیر کی طرح شکار پر پڑتا ہے اور اسے گرا دیتا ہے۔ شکار کے پانی میں گرتے ہی یہ مچھلی اسے اپنا نوالہ بنا لیتی ہے۔

ویسے تو اس مچھلی کی بیشتر اقسام بہت چھوٹی یعنی 5 سے 7 انچ جتنی لمبی ہوتی ہیں لیکن اس میں پانی کی بوچھاڑ سے نشانہ لگانے کی قدرتی صلاحیت واقعی حیرت انگیز ہے۔

جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں سمندری ساحلوں پر مینگرووز کے جنگلات مشہور ہیں۔ ’تیر انداز مچھلی‘ (آرچر فش) کی تمام اقسام ان ہی جنگلات کے قریب، کم گہرے سمندر میں پائی جاتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2136243/509/



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/01/29012021/bp-lhe-029.jpg


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/01/29012021/bp-lhe-026.jpg


https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-01-30&edition=KCH&id=5496972_15759125


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/01/28012021/p6-lhe-053.jpg


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) گالیاں دینا ہر ایک کی نظر میں انتہائی معیوب بات ہے لیکن اب سائنسدانوں نے اس بدعادت کے متعلق ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ میل آن لائن کے مطابق میساچوسٹس کالج آف لبرل آرٹس کے تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ گالیاں دینے کے کئی فوائد بھی ہیں۔ گالیاں دینا کسی کے ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہونے کی نشانی ہوتا ہے اور گالیاں دینے والا شخص ایسی ’سپرپاورز‘ کا مالک ہوتا ہے جو اسے زیادہ سے زیادہ تکلیف جھیل جانے میں مدد دیتی ہیں۔

تحقیقاتی نتائج میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گالیاں دینا ایمانداری کی بھی علامت ہوتا ہے کیونکہ اس سے سچے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ بدزبانی دائیں دماغ کے اس حصے کو متحرک کرتی ہے جسے ’تخلیقی دماغ‘ کہا جاتا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور نفسیات کے پروفیسر ٹموتھی جے کا کہنا تھا کہ ”گالیاں دینے کے فوائد بے شمار ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل کوئی گالیوں کے فوائد سے آگاہ نہیں تھا۔ گالیوں کے کچھ ایسے شاندار فوائد بھی ہیں کہ جنہیں ہم انقلابی فوائد کہہ سکتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/27-Jan-2021/1242881?fbclid=IwAR3r2oV10cPUqmwrOMp0r5TPBRbj34_jIULLeqCn3KWSLfgq7vRVl4NbSEE


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جدید میڈیکل سائنس نے ایک اور معجزہ کر دکھایا۔ سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلی بار نابینا آدمی کی آنکھوں میں مصنوعی کورنیا ٹرانسپلانٹ کر کے اسے دوبارہ دیکھنے کے قابل بنا دیا۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق مصنوعی کورنیا کا تحفہ پانے والے اس 78سالہ آدمی کا نام جمال فورانی ہے جس کی بینائی 10سال قبل کورنیئل بیماری کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔ یہ طریقہ علاج اسرائیلی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر جیلڈ لیتوین نے ایجاد کیا ہے جو کورنیٹ ویژن (CorNeat Vision)کے چیف میڈیکل آفیسر بھی ہیں۔

اس مصنوعی کورنیا کو ’KPro‘ کا نام دیا گیا ہے جو ’نان ڈی گریڈ ایبل سنتھیٹک نینو ٹشو‘ ہے۔ اسے سرجری کے ذریعے آنکھ میں پپوٹے اور سکلیرا (Sclera)کے درمیان واقع جھلی کے نیچے رکھا جاتا ہے۔جمال فورانی کی یہ تاریخی سرجری پروفیسر ایریت بہار نے کی، جو اسرائیل کے رابن میڈیکل سنٹر کے شعبہ آپتھالمولجی کے سربراہ ہیں۔اس کامیاب آپریشن کے بعد پروفیسر لیتوین کا کہنا تھا کہ ”سالہا سال کی مشقت کے بعد ہم نے اپنے ایک ساتھی کو کامیابی کے ساتھ یہ مصنوعی کورنیا ایک انسان کی آنکھوں میں ٹرانسپلانٹ کرتے ہوئے دیکھا اور اگلے ہی روز اس انسان کی آنکھوں کی بینائی واپس آ گئی۔ یہ ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا جسے دیکھ کر کمرے میں موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا جو ہم نے عبور کیا۔“
https://dailypakistan.com.pk/26-Jan-2021/1242429?fbclid=IwAR1GXEYvc414qEnPsFbzVihJZGevWj5tYxI1yeNv_8kbSR88OZgRWzLluHA


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) گنجا پن دور کرنے کے لیے امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا انوکھا علاج ڈھونڈ نکالا ہے کہ سن کر ہی مرد ناک بند کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ میل آن لائن کے مطابق یہ علاج ایک صحت مند آدمی کی مقعد کے بیکٹیریا کا مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کرنا ہے۔ امریکی کی کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا دریافت کردہ یہ طریقہ علاج آٹو امیون میں بگاڑ کے سبب لاحق ہونے والی بیماری ’ایلوپیشیا‘ کا علاج ہے جس میں مردوں کے بال گر جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے سائنسدان اس طریقہ علاج کے کلینیکل ٹرائیلز کر رہے ہیں جن کے حیران کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

بھارتی فاسٹ باؤلرز پر جملے کس نے کسے؟تحقیقاتی ٹیم کا ایسا فیصلہ کہ بھارتی آگ بگولہ ہوجائیں رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے جن لوگوں پر تجربات کیے ان میں ایک 38سالہ مریض بھی تھا جسے 10سال قبل ایلوپیشیا کا عارضہ لاحق ہوا اور ا س کے پورے جسم کے بال جھڑ گئے۔ جب ایک صحت مند آدمی کے پاخانہ اس کے جسم میں داخل کیا گیا تو چند ہفتوں میں ہی اس کے پورے جسم کے بال واپس اگنا شروع ہو گئے اور اب اس کے علاج کو 3سال گزر چکے ہیں اور اس کے جسم کے بال صحت مندی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فینٹن کا کہنا تھا کہ اس طریقہ علاج کے تجربات اور صحت مند مریضوں پر اس کے اثرات کی نگرانی 2023ءتک کی جائے گی اور پھر اس کے حتمی نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا۔
https://dailypakistan.com.pk/26-Jan-2021/1242417?fbclid=IwAR0Jk9RQI187B7ode7ugbXmakXfFzNxfz465XHLC81iww9zLjPbKNmvv7Mg


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) دوپہر کے وقت قیلولہ کرنا بھی سنت نبوی ﷺ ہے اور اب جدید سائنس نے بھی اس کا ایک ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ اس سنت نبویﷺ پر بے ساختہ سبحان اللہ پکار اٹھیں گے۔میل آن لائن کے مطابق چینی سائنسدانوں نے اپنی نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ دوپہر کے وقت قیلولہ انسان کی دماغی کارکردگی کو بڑھاتا، یادداشت کو تیز کرتا اور اسے ڈیمنشیا جیسی ذہنی و اعصابی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے بیجنگ، شنگھائی اور ژیان کے رہائشی 2400سے زائد شہریوں کی خوراک اور دوپہر کے وقت قیلولے کی عادت کا جائزہ لیا اور ان کی دماغی صحت کے ساتھ اس کا موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے۔ان شہریوں کی عمریں 60سال یا اس سے زائد تھیں۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ دوپہر کے وقت قیلولہ کرنے کے عادی تھے ان کی دماغی صحت دوسروں کی نسبت کئی گنا بہتر اور یادداشت تیز تھی۔ان لوگوں میں شعور کی حالت بھی دوسروں کی نسبت بہت بہتر تھی اور یہ دوسروں کی نسبت زیادہ روانی کے ساتھ بول سکتے تھے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جن ژن لی کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق میں شامل 60فیصد لوگ دوپہرکے کھانے کے بعد سونے کے عادی تھے۔ یہ لوگ 30سے 90منٹ کی نیند لیتے تھے۔ ان میں واضح اکثریت اوسطاً63منٹ سوتی تھی اور یہی وہ لوگ تھے جن کے دماغ اپنے دیگر ہم عمر لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ تیز اور طاقتور تھے اور ان کو ڈیمنشا اور دیگر ایسی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ سب سے کم تھا۔“
https://dailypakistan.com.pk/26-Jan-2021/1242418?fbclid=IwAR2cwSAyqCvvVVE1Sc-rv2GwbtRzj8o4WPMBoX9STRHuxrCe805qZo1aSOo


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) میاں بیوی کی وہ کون سی عادات اور روئیے ہیں جو ان میں علیحدگی کے امکان میں اضافہ کرتے ہیں؟ بحث و مباحثے کی ویب سائٹ Redditپرگزشتہ دنوں یہ سوال ایک صارف کی طرف سے کیا گیا جس پر کئی ماہرین نے جوابات دیئے اور ہتک، تحکم پسندی اور استحصال سمیت کئی چیزوں کو شادی شدہ جوڑوں کی ازدواجی زندگی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ میل آن لائن کے مطابق ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ ”جب میاں بیوی میں سے ایک شخص اپنی پسند و ناپسند کو معتبر گردانے اور دوسرے کی ترجیحات کی پروا نہ کرے، اس وقت ان کے ازدواجی تعلق کا خاتمہ قریب ہوتا ہے۔“

ایک اور ماہر نے لکھا کہ ”جب میاں بیوی میں سے ایک شخص دوسرے کو تبدیل کرنے پر تلا ہو اور خود اپنی جگہ سے نہ ہلے، ایسی صورت میں ان کا تعلق خطرے میں پڑ جاتا ہے اور گاہے نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے لوگ خود کو درست اور اپنے پارٹنر کو غلط خیال کر رہے ہوتے ہیں۔ “ایک ماہر نے بتایا کہ ”میاں بیوی میں سے کسی ایک کا یا سسرالیوں کا تحکم پسند ہونا اور میاں بیوی میں سے کسی ایک کی طرف سے دوسرے کی ہتک کیے جانا دو ایسے عوامل ہیں جو ازدواجی تعلق کے لیے زہرقاتل ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال کا نتیجہ اکثر اوقات طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔“ماہرین کے مطابق ایک شریک حیات کا دوسرے کی بات توجہ سے نہ سننا، جارح مزاج ہونا، برے ناموں سے پکارنا، جسمانی تشدد کرنا، ایک دوسرے سے اتنا لاتعلق ہو جانا کہ جیسے دونوں میں محبت کا رشتہ کبھی رہا ہی نہ ہو، وغیرہ بھی ایسے عوامل ہیں جو ازدواجی تعلق پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/27-Jan-2021/1242878?fbclid=IwAR2TtUr7KAswL3Eum9VPbo8zC1fJIsW94qXdM_xmsf1HEcTGaQxFaYZTRjI


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سوشل میڈیا نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کس طریقے سے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین نے نئی تحقیق میں پریشان کن انکشافات کر دیئے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق ماہرین نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں کی ذہنی صحت میں تیزی سے گراوٹ کا سبب بن رہا ہے اور ان میں خوداعتمادی کو تباہ کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کا یہ منفی اثر سب سے زیادہ 14سے17سال عمر کی لڑکیوں پر پڑ رہا ہے اور وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین نے 5ہزار نوجوان لڑکے لڑکیوں پر کیے گئے اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ ”سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے لڑکیوں میں اپنی ظاہری شکل و صورت سے عدم اطمینان کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 11سال کی لڑکیوں میں یہ شرح 15فیصد اور 14سال کی لڑکیوں میں 29فیصد بڑھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا 14سے 17سال عمر کی لڑکیوں میں خوداعتمادی کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ لڑکوں میں یہ نقصان ’ٹین ایج‘ کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے سوشل میڈیا لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی خوداعتمادی کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/27-Jan-2021/1242879?fbclid=IwAR3Qvk3XYvyGYDZ8jOSqoyHxKbIUCp3D7BayMS7iWmiHdrCVLJ8ft1ukkjg


کوپن ہیگن(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ کا بچہ رات کو بستر میں پیشاب کرتا ہے تو یہ اس بچے کا نہیں بلکہ آپ کا قصور ہے کیونکہ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ثابت کر دیا ہے کہ بچے کی بستر میں پیشاب کرنے کی عادت اسے ماں باپ سے وراثت میں ملتی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 4ہزار بچوں پر کی جانے والی اس تحقیق میں ان جینز کا سراغ لگا لیا ہے جو بچوں کی رات کوبستر میں پیشاب کرنے کی عادت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور یہ جینز انہیں وراثت میں ملتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر جینی ہواریگارڈ کرسٹینسن کا کہنا تھا کہ ”یہ جینز دماغ کو رات کے وقت پیشاب کی پیداوار کم کرنے کی صلاحیت دینے اور ہمارے مثانے کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ جینز بچوں میں خودفکری کی بیماری ’اے ڈی ایچ ڈی‘ کے خطرے میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہماری تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جوبچے رات کو بستر میں پیشاب کرتے ہیں ان میں سے اکثر اے ڈی ایچ ڈی نامی اس بیماری کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-Jan-2021/1240548?fbclid=IwAR3nH7bsHxgTUmQIyccc2-M_XypPYl_DuHt8mqlX8QwfD3tyITlzRmgYuXY


میڈرڈ(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک خیال پایا جاتا ہے کہ لوگ موٹاپے کا شکار ہونے کے باوجود بھی صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں تاہم سپین کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس خیال کو یکسر غلط قرار دیتے ہوئے ورزش کے دل کی صحت کے لیے حیران کن فوائد بیان کر دیئے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق میڈرڈ میں واقع یورپین یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 5لاکھ 27ہزار 662بالغ افراد کی ورزش کی عادت، موٹاپا اور ان کی دل کی صحت کا باہم موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپے کے شکار لوگوں کو دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ ان دبلے پتلے لوگوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے جو بالکل بھی ورزش نہیں کرتے۔

بھارتی ہیکر نے یونیوسٹی آف صوابی کی آفیشل ویب سائٹ ہیک کرلی تحقیق کے نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جو لوگ ورزش کرتے ہوں مگر موٹاپے کا شکار ہوں انہیں ورزش نہ کرنے والے دبلے پتلے لوگوں کی نسبت ہائی کولیسٹرول کا عارضہ لاحق ہونے کا خطرہ دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد کو ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ 4گنا اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 5گنا زیادہ ہوتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر الیجنڈرو لوسیا کا کہنا تھا کہ ورزش نہ صرف لوگوں میں ہارٹ اٹیک اور سٹروک کے خطرے کو حیران کن حد تک کم کرتی ہے بلکہ باقاعدگی سے ورزش کرنا ہائپرٹینشن اور دیگر کئی عارضوں سے بھی بچاتا ہے

https://dailypakistan.com.pk/22-Jan-2021/1240543?fbclid=IwAR2njiBb0FFv92p_WY94zmdpeZlESeAsomZbCJ1gerpRigT_wbqrVuceYDE



https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-01-23&edition=KCH&id=5488596_16983842



https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-01-22&edition=KCH&id=5487301_71645372


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں گھریلو کام کاج کا ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر مرد بھی گھر کے کاموں میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹانے کی ضد کریں گے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف بیلفاسٹ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ گھریلو کام کاج کرنے سے انسان کی جسمانی و ذہنی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو خواتین گھر میں فارغ بیٹھنے کی بجائے زیادہ وقت کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اس سے انہیں ورزش سے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر لینڈرو گریشا کا کہنا تھا کہ ”جن خواتین کے پاس باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ورزش کے فوائد گھر کے کام کاج سے بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ہماری تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں کہ متحرک زندگی گزارنے والے مردوخواتین کی جسمانی و ذہنی صحت فارغ بیٹھ کر زیادہ وقت گزارنے والوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ میں بالغ افراد کو نصیحت کروں گی کہ وہ فارغ بیٹھنے کی عادت جس قدر کم کر سکتے ہوں کریں اور ایک متحرک طرز زندگی اپنائیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/19-Jan-2021/1239147?fbclid=IwAR3wBMNrtYZjTKf6-bcgFytyqf3iRNnDKM-g4EQELFuQjS7Nj5YmM1mX7kc


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے مردانہ کمزوری سے نجات دلانے والا غبارہ ایجاد کر لیا۔ میل آن لائن کے مطابق یہ انتہائی چھوٹے سائز کا غبارہ مرد کے خون میں رکاوٹ دور کرکے اس میں عضو مخصوصہ کی ایستادگی کا مسئلہ دور کرتا ہے۔ اس میں ہوا نہ بھری ہو تو اس کا سائز چاول کے ایک دانے جتنا ہوتا ہے اور اسے مریض کی ’پوڈینٹل آرٹری‘ میں جلد کے راستے انجیکٹ کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پوڈینٹل آرٹری کے ذریعے ہی مردانہ جنسی اعضاءکو خون کی فراہمی ہوتی ہے۔ اگر اس میں خون میں رکاوٹ آ جائے تو مردوںکو عضو مخصوصہ کی ایستادگی کا مسئلہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس خون کی اس ورید میں جا کر اس میں موجود رکاوٹ کو ختم کر دے گی اور مردوں کو اس مسئلے سے نجات مل جائے گی۔ یہ غبارہ ’لائیو ایکسرے امیج‘ کے ذریعے پوڈینٹل آرٹری تک پہنچایا جائے گا اور اس میں ہوا بھر کر اسے پھلایاجائے گا اور خون میں رکاوٹ ختم ہونے کے بعد اس کی ہوا نکال کر اسے واپس جسم سے باہر نکال دیا جائے گا
https://dailypakistan.com.pk/19-Jan-2021/1239145?fbclid=IwAR0EqU57I2UyLr-juLc867g3PUsMfHogGUWpEPq2_uJnIsgTCYcSObBLy9I


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) تلی ہوئی چیزیں بہت سوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں لیکن سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ان کا ایک ایسا سنگین نقصان بتا دیا ہے کہ سن کر کوئی تلی ہوئی چیزوں کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔ میل آن لائن کے مطابق چین کی شین ژن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جو لوگ تلی ہوئی چیزیں بہت زیادہ کھاتے ہیں ان کو دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ 37فیصد بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کوسٹروک اور دل کی دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ 22سے 28فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔

10لاکھ سے زائد لوگوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ تلی ہوئی چیزوں اور دل کے دورے کے درمیان تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہفتے میں صرف 114گرام اضافی تلی ہوئی چیز کھانے سے دل کے دورے کا خطرہ 12فیصد بڑھ جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہناتھا کہ ”تلی ہوئی چیزوں میں خطرناک ٹرانس فیٹی ایسڈز اور نمکین اجزاءبہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں ڈائٹری فیٹ (Dietary fat)بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تلی ہوئی چیزوں میں کئی ایسے دیگر عوامل بھی ہیں جو ہارٹ اٹیک اور دل کی دیگر بیماریوں کے خطرے میں اضافہ کرتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Jan-2021/1239148?fbclid=IwAR0I2ffTXgc1BcYPCB6rGHX8KO7LILMmgc_2LEanqabVBSzDMdGdhvestsw


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی لیکن سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کے برعکس انکشاف کر ڈالا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے تحقیق کاروں نے 17لاکھ 25ہزار 994امریکی شہریوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ کوئی شخص جتنا امیر ہوتا جاتا ہے ان کا خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے امیر ہونے کی کوئی حد نہیں ہے، بلکہ پہلے کی نسبت کسی بھی حد تک مالی حالت بہتر ہونا اسی قدر خوشی کے حصول کا سبب بنتا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر میتھیو کلنگزورتھ کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد میسر آئے ہیں کہ آمدنی اور خوشی میں اضافہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ جوں جوں کسی شخص کی آمدنی بڑھتی جاتی ہے، اس کی خوشی کا لیول بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔قبل ازیں ایک تحقیق میں بتایاگیا تھا کہ 75ہزار ڈالر سالانہ آمدنی تک پہنچ کر ہی آدمی کی خوشی کا لیول بڑھنا شروع ہوتا ہے لیکن ہماری تحقیق میں یہ نتائج غلط ثابت ہوئے ہیں۔ درحقیقت آمدنی میں کسی بھی حد تک اضافہ اسی قدر خوشی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/19-Jan-2021/1239144?fbclid=IwAR3CCo_OwAf6U896VSw7Fif515lcUYKm1Piv2msh0F0vw5CUBtpV8ggGOxU


ریاض (ڈیلی پاکستان آن لائن) سعودی عرب نے ’دمام 7‘ کے نام سے دنیا کا دسواں طاقتور ترین سپر کمپیوٹر لانچ کردیا۔

سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو نے سعودی ٹیلی کام کمپنی (ایس ٹی سی) کے ساتھ مل کر منگل کو اعلان کیا کہ انہوں نے دنیا کا دسواں طاقتور ترین سپر کمپیوٹر بنالیا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق ’دمام 7‘ کے ذریعے آرامکو کو تحقیق اور تلاش کے کاموں میں مدد ملے گی، یہ کمپنی کی ڈیجیٹلائزیشن کی طرف اہم قدم ہے۔ ’دمام 7‘ سپر کمپیوٹر الظہران ٹیکنو ویلی میں ایس ٹی سی کی ذیلی کمپنی سولیوشنز کے ساتھ مل کر بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ پیکارڈ انٹرپرائزز کی ذیلی کمپنی ہیولٹ کا بھی اس میں تعاون شامل رہا ہے۔

منگل 19 جنوری 2021 کو لانچ ہونے والے سعودی عرب کے دمام 7 کے بعد مملکت کے پاس موجود سپر کمپیوٹرز کی تعداد پانچ ہوگئی ہے۔ سپر کمپیوٹرز کے معاملے میں چین 214 کمپیوٹرز کے ساتھ پہلے، امریکہ 113 کے ساتھ دوسرے اور 34 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ جاپان تیسرے نمبر پر ہے، دنیا کا سب سے طاقتور سپر کمپیوٹر بھی جاپان کا ’فوگاکو‘ ہے جو 2020 میں لانچ کیا گیا تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/20-Jan-2021/1239193?fbclid=IwAR22YXCaapSKbvadfv-0WyUtXRi0PgVPCPOREGb-NYw5i6p0QJfR3_4IJyY


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) عمر کے ساتھ ساتھ انسان کے دماغی خلیوں کی تعدادا کم ہوتی جاتی ہے اورا س کا دماغ سکڑتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی سیکھنے اور یادداشت جیسی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور اس کو الزیمرز جیسی ذہنی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جاتا ہے تاہم برطانیہ کے نیورو سائنسدان ڈاکٹر سنجے گپتا نے اب کچھ ایسی غذائی اشیاءبتا دی ہیں جنہیں معمول کی خوراک کا حصہ بنا کر آپ اپنے دماغ کو تادیر جوان رکھ سکتے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق ڈاکٹر سنجے گپتا نے اس ڈائٹ کو ’شارپ ڈائٹ‘ (Sharp Diet)کا نام دیا ہے جس میں ہر طرح کے پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شارٹ ڈائٹ میں اخروٹ، زیتون کا تیل، سٹرابیری، پالک ، گاجر، ٹماٹر، ادرک، ہلدی، لہسن، مچھلی، انڈا، چقندر، دالیں اور دیگر چیزیں شامل ہیں جنہیں دماغی صحت کے حوالے سے ’سپرفوڈز‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دماغی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند اشیاءہیں۔ ڈاکٹر سنجے گپتا کا کہنا تھا کہ دماغ کو جوان رکھنے کے لیے آپ کو سپلیمنٹس کی بجائے اصلی غذائی اشیاءکھانی چاہئیں۔ جو لوگ روزانہ 7رنگ کے پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں ان کی دماغی صحت بڑھتی عمر میں بھی قابل رشک رہتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/20-Jan-2021/1239599?fbclid=IwAR1h-xKg2TbxmTk-f85a7PVIUNriZNNxzShgeVLXsJKHFWhUhm4xnw9sZl4


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) چینی سائنسدان عمر میں اضافے کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے ایک اہم سنگ میل پر پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے چوہوں کی عمر میں اضافے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے ۔ میل آن لائن کے مطابق چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف زوالوجی کے سائنسدانوں کی اس ٹیم نے ایک ایسی ’جین تھراپی‘ تیار کی ہے جس کے ذریعے چوہوں میں عمر رسیدگی کا عمل سست ہو گیا اور ان کی عمر میں ایک چوتھائی سے زائد اضافہ ہو گیا۔

رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس تحقیق میں ایک طاقتور جین ایڈیٹنگ ٹول استعمال کیا جسے CRISPR-Cas9 کہا جاتا ہے۔ اس ٹول کے ذریعے انہوں نے چوہوں میں ’کے اے ٹی 7‘ نامی ایک جین کو غیر متحرک کر دیا۔ کے اے ٹی 7نامی یہ جین خلیوں کے عمر رسیدہ ہونے کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے چنانچہ اس کے غیرمتحرک ہونے سے چوہوں کے خلیوں میں عمر رسیدگی کا عمل سست ہو گیا اور ان کی عمر25فیصد بڑھ گئی۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ یہی تجربہ انسانوں پر بھی کریں گے۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jan-2021/1240103?fbclid=IwAR0swC4LrYwuTRgp443avQfXnYXrqws8LHnVu-8gkEeSoJFhbpkk8YDMK8s


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ کی ’ڈرہیم یونیورسٹی‘ کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں’روحوں کی آوازیں‘ سننے کے متعلق حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق سائنسدانوں نے اس تحقیقاتی سروے میں ایسے سینکڑوں لوگوں سے سوالات پوچھے جن کا دعویٰ تھا کہ انہیں مردوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ان لوگوں میں سے 44.6فیصد نے کہا کہ انہیں روزانہ ہی مرنے والوں کی روحوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ان میں سے بھی 65.1فیصد نے بتایا کہ انہیں یہ آوازیں اپنے سر کے اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جبکہ 31.7فیصد کا کا کہنا تھا کہ روحوں کی یہ آوازیں انہیں اردگرد سے آتی محسوس ہوتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان لوگوں میں سے اکثر نے اعتراف کیا کہ انہیں روحوں کی آواز سننے کا پہلا تجربہ 21سے 22سال کی عمر میں ہوا۔ ان لوگوں میں ایک قدر مشترک یہ پائی گئی کہ یہ لوگ جب کسی سوچ میں غرق ہو جائیں یا کام میں مگن ہو جائیں تو اپنے اردگرد سے بے خبر ہو جاتے ہیںاور انہیں اپنے اطراف میں موجود چیزوں، سرگرمیوں اور لوگوں کا احساس ہی نہیں رہتا۔روحوں کی آوازیں کیسے سنائی دے سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سائنسدانوں نے بتایا کہ سائنس کے اعتبار سے روحانیت ایک مذہبی تحریک ہے جس کا تصور یہ ہے کہ روحیں انسانی جسم میں رہتی ہیں اور موت کے بعد بھی روحیں موجود رہتی ہیں اور کسی روحانی وسیلے کے ذریعے زندہ لوگوں کے ساتھ گفتگو کر سکتی ہیں۔جو زندہ لوگ یہ روحانی وسیلہ بنتے ہیں انہیں اوائل عمری میں ہی ایسی غیبی آوازیں سننے کا تجربہ ہوتا ہے اور اسی عمر میں ان کا روحانی عقائد سے تعارف ہو جاتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jan-2021/1240113?fbclid=IwAR3QNJDrFw17GyeKOENBwQtYWpQlY_XiBQ8IzY74_WLndoKV8zG9IjDYZ5w


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) مرد وخواتین اپنے شریک حیات سے بے وفائی کیوں کرتے ہیں؟ اس معاملے کی ایک ماہر خاتون نے اس سوال کا حیران کن جواب دے دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق الیشا واکر نامی اس ماہر نے اپنی نئی کتاب ’دی سیکرٹ لائف آف دی چیٹنگ وائف‘ میں یہ حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ مرد غیر خواتین کو گلے لگانے اور بوس و کنار کرنے کے لیے اپنی بیوی سے بے وفائی کرتے ہیں جبکہ خواتین غیرمردوں کے ساتھ پرجوش جنسی تعلق کی خاطر اپنے شوہروں سے بے وفائی کرتی ہیں۔

الیشا لکھتی ہے کہ ”عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مرد جنسی تعلق کو زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ خواتین زیادہ رومانویت کو پسند کرتی ہیں لیکن یہ خیال بہت حد تک درست نہیں ہے۔ کچھ لوگ جذباتی وجوہات کی بناءپر اپنے شریک حیات سے بے وفائی کرتے ہیں اور کچھ لوگ جسمانی طمانیت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ مرد اپنے معاشقوں میں جنسی تعلق سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن وہ غیرخواتین کے ساتھ تعلق میں جذباتی ربط، بغلگیری اور بوس و کنار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس کے برعکس شوہر سے بے وفائی کرنے والی خواتین کی واضح اکثریت صرف اور صرف جنسی تسکین کے لیے غیرمردوں سے تعلق قائم کرتی ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/21-Jan-2021/1240107?fbclid=IwAR2NLjuYItoELNpjwTcDNtrJgFXFvmXM_OMHwOsLHxbDDOKxNa8WZT3Qjxs


لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن) انسان کو ہر روز ورزش کرنی چاہیے جس سے جسم صحتیاب رہتا ہے لیکن ورزش کے دوران ایسی غلطی کبھی نہ کریں جس سے آپ کی جان کو خطرہ ہو۔ لندن میں ورزش کرتی ہوئی خاتون نے ایسی غلطی کی کہ اس کو جان سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔

تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ایک خاتون ورزش کرتے اچانک نیچے گری اور ہسپتال پہنچتے ہی دم توڑ دیا۔ نارتھ ویلس کی رہنے والی چھیالیس سال کی جونا لیچ اپنے شوہر جسٹن بیلینسن اور تین بچوں کے ساتھ نارتھ ویلس میں رہتی تھی۔ خاتون 'کیئر ورکر' کے طور پر رات کی شفٹ میں بھی کام کرتی تھی۔ اس دن وہ نائٹ شفٹ کر کے آئی تو سونے کے لیے بستر پر گئی لیکن نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ ورک آؤٹ (ورزش) کرنے چلی گئی۔

خاتون ایکسرسائز مشین پر ورزش کر رہی تھی اور ساتھ میں ٹی وی بھی دیکھ رہی تھی جس سے اچانک اس نے بیلنس کھو دیا اور نیچے گر کر بے ہوش ہو گئی جس کے بعد اس کے شوہر نے ہسپتال پہنچایا جہاں وہ پہنچتے ہی دم توڑ گئی۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ خاتون کی موت برین ہیمبریج 'دماغ کی نس پھٹنے' کی وجہ سے ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق نائٹ شفٹ کرکے آنے کے بعد انہوں نے نیند پوری نہیں کی اور ورزش شروع کر دی جس پر خاتون کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑگئے
https://dailypakistan.com.pk/17-Jan-2021/1238269?fbclid=IwAR0rS2x3euxBLnsF_KTLpRG-CSlzpxydQNwf8XcSuXKmq0ITfzdwUKit8ww


ایک آسٹریلوی خاتون نے گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر نیند نہ آنے کی شکایت کی اور دیگر خواتین سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے تو دیگر خواتین کے ساتھ سلیپ ایکسپرٹ (Sleep expert)اولیویا اریزولو نے اسے انتہائی بہترین نسخے بتا دیئے۔ میل آن لائن کے مطابق اولیویا اریزولو نے بتایا کہ ہم لوگ عموماً ایسی 5غلطیاں کرتے ہیں جو ہمیں نیند نہ آنے کا سبب بنتی ہیں۔ ان میں سے پہلی غلطی رات کے وقت فون استعمال کرنا ہے۔ ہم لوگ فون کو نائٹ موڈ پر استعمال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا تو یہ ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ نائٹ موڈ پر بھی فون استعمال کرنے سے نیند کوسوں دور بھاگ جاتی ہے ۔ آپ کو سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے تک کوئی بھی ڈیوائس استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

اولیویا کا کہنا تھا کہ ”ہم دوسری بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ رات کو دیر سے گھر آتے ہیں اور پھر سیدھاسونے کے لیے بستر میں چلے جاتے ہیں۔ آپ کو بستر میں جانے سے پہلے اپنے روٹین کے کام کرنے چاہئیں جو آپ سونے سے پہلے کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کا دماغ ’سلیپ موڈ‘ پر شفٹ ہوتا ہے اور آپ کو پرسکون نیند آتی ہے۔تیسری غلطی صوفے پر ہی سو جانا ہے۔ سونے کے لیے ہمیشہ بیڈ ہی کو استعمال کریں۔ اس کے علاوہ کسی جگہ پر آپ کو پرسکون نیند نہیں آئے گی کیونکہ نیند کے حوالے سے آپ کے دماغ اور بیڈ میں ایک مضبوط تعلق ہوتا ہے۔صوفے پر سونے سے آپ کا دماغ ایک حد تک بیدار ہی رہتا ہے اور بار بار آپ کی نیند میں خلل آتا ہے۔“

اولیویا کا کہنا تھا کہ ”ہم چوتھی بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ چھٹی کے دن ہم جی بھر کے سوتے ہیں۔ اس طرح ہمارابائیولوجیکل کلاک ڈسٹرب ہوتا ہے جو ہمارے سونے اور بیدار ہونے کے ہارمونز کو منظم کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں باقی دنوں میں ہماری نیند پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں چنانچہ ہمیں اتوار کے روز بھی اپنے معمول کے مطابق ہی سونا اور بیدار ہونا چاہیے۔پانچویں غلطی ہمارے باتھ روم میں ’نائٹ لائٹ‘ کا نہ ہونا ہے۔ باتھ روم میں نائٹ لائٹ کی بجائے عام لائٹ کا ہونا ہماری نیند کو تباہ کر دیتا ہے۔ آپ سونے سے قبل موبائل فون وغیرہ استعمال نہ بھی کریں تو یہ عام لائٹ ان کا حساب برابر کردیتی ہے اور آپ کی نیند سے سکون جاتا رہتا ہے۔“اولیویا کا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ پانچ غلطیاں کرنے سے گریز کریں تو پرسکون نیند کا حصول باآسانی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/15-Jan-2021/1237389?fbclid=IwAR05wq9FhluXRhFxhCMgnl2x8FZ8J2oBOlA9cJjjo_dFCmWB9bpGwv_HQx4


کنبرا(مانیٹرنگ ڈیسک) آسٹریلیا میں سبزی خور مردوں نے دنیا کو بچانے کے لیے خود کو بانجھ کروانا شروع کر دیا۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق یہ انکشاف ڈاکٹر نک ڈیمڈیوک نے اے بی سی ریڈیو کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”حالیہ عرصے میں 18سے 28سال کے نوجوانوں میں خود کو بانجھ کروانے کی شرح تیزی سے بڑھی ہے اور ان نوجوانوں میں اکثریت سبزی خوروں کی ہوتی ہے جو دنیا کی آبادی کم کرنے اور وسائل کو بچانے کی غرض سے خود کو بانجھ کرواتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر تنویر احمد نے سکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سبزی خور مردوں کے خود کو بانجھ کروانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مارکیٹ میں موجود مانع حمل ادویات میں اکثریت ایسی ہے جو غیرسبزی خوروں کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ سبزی خور لوگ دنیا کے وسائل کم ہونے کے خدشے سے بھی دوچار ہیں چنانچہ ان کی بڑی تعداد اولاد پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کررہی ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/14-Jan-2021/1236972?fbclid=IwAR2ydhzXUgxX0_BpCIDWDs63HVTByu2hUS13w-Eq0TOksBCqk0SUd-bkEtA


بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) چین میں سپرفاسٹ بلٹ ٹرین متعارف کروا دی گئی ہے جو اتنی رفتار سے سفر کر سکتی ہے کہ آپ ہوائی جہاز کو بھول جائیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق یہ میگلیو (Maglev)بلٹ ٹرین چین کے شہر شینگ ڈو میں متعارف کروائی گئی ہے جو 385میل فی گھنٹہ(تقریباً619کلومیٹر فی گھنٹہ)کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس ٹرین کا پروٹوٹائپ متعارف کروایا گیا ہے جس کے ٹرائیلز ہونا ابھی باقی ہیں۔ اس ٹرین میں میگالیو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس میں ٹرین مقناطیس کے ذریعے ہوا میں معلق ہو کر سفر کرتی ہے اور اسے پہیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ٹرین ساﺅتھ ویسٹ جیاﺅ تونگ یونیورسٹی کے ماہرین نے چائنہ ریلوے گروپ کے اشتراک سے تیار کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی حامل ٹرین کو ’ویکیوم ٹیوبز‘ میں چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں اس کی سپیڈ 1ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو گی۔
https://dailypakistan.com.pk/14-Jan-2021/1236961?fbclid=IwAR3iA18cU5qBGzL-PqvsKJDkoDaL_dSC4qY1pLN_igB_mN1HzeuP39s5dZc


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108043415&Issue=NP_PEW&Date=20210115


ورزش مجموعی جسمانی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوتی ہے لیکن ایک نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ورزش سب سے زیادہ دل کی صحت کے لیے مفید ہوتی ہے۔ دل کے لیے ورزش کے اتنے فوائد ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ میل آن لائن کےمطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 90ہزار برطانوی شہریوں پر تجربات کیے۔ انہوں نے ان کا ورزش کا معمول چیک کی اور ان کو دل کا دورہ پڑے کے امکان کا جائزہ لیا۔

نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ ”جو لوگ مناسب وقت تک ورزش کر رہے تھے ان کو دل کا دورہ پڑنے اور سٹروک آنے کا خدشہ 46فیصد کم تھا۔ “ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈن ڈوہرٹی کا کہنا تھا کہ ”یہ اپنی نوعیت کی آج تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں ورزش کے دل کی صحت کے لیے بے شمار فائدے سامنے آئے ہیں۔ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے ورزش ہماری سوچ سے کہیں زیادہ مفید ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/13-Jan-2021/1236440?fbclid=IwAR0h20oMsyxtEtP1s_51O12BwBB60ySpRUB3DJja6kG6zgc9CcS4grhnrQA


موٹاپا کم کرنے کے لیے لوگ کڑی ورزش اور ڈائٹنگ کرتے ہیں لیکن اب ماہرین نے محض سو کر موٹاپا کم کرنے کا انتہائی انوکھا طریقہ بتا دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ڈاکٹر ہیلن لیویل نامی ماہر نے چینل 4کے ایک شو میں بتایا ہے کہ رات کو سونے کے دوران بھی ہم اپنے وزن میں کمی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے برہنہ حالت میں سونا فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے ہمیں کمرے کا درجہ حرارت کم رکھنے کی ضرورت ہو گی۔

ڈاکٹر ہیلن کا کہنا تھا کہ ”ہمارا جسم عام طور پر سوتے ہوئے رات بھر میں 300کیلوریز خرچ کرتا ہے۔ اگر کمرے کا درجہ حرارت کم ہو تو جسم خود کو گرم رکھنے کے لیے زیادہ ’براﺅن چربی‘ جلاتا ہے جس سے موٹاپے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کمرے کا درجہ حرارت 18سے 19ڈگری سینٹی گریڈ ہونا چاہیے۔ یہ ایسا درجہ حرارت ہے کہ نہ تو آپ کو سردی میں ٹھٹھرنا پڑے گا اور نہ ہی بہت زیادہ گرمی ہو گی۔“
https://dailypakistan.com.pk/13-Jan-2021/1236449?fbclid=IwAR1vuGhbjM9v7zTwlx_kr3H-41pVcXb-6A9Ywyd6AjzAHR-hXsPQiZEiv_U


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جنسی عمل میں منہ کے استعمال کی خباثت اخلاقی گراوٹ کی انتہاءتو تھی ہی، اب سائنسدانوں نے اس کا انتہائی خوفناک طبی نقصان بھی بتا دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 508لوگوں پر کی گئی اس نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ کم عمری سے ہی جنسی عمل میں منہ کے زیادہ استعمال کے سبب منہ کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی جتنے زیادہ افراد کے ساتھ اس قبیح طریقے سے جنسی عمل کرے گا اسے منہ کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ ان کی تحقیق کے نتائج میں ثابت ہوا ہے کہ جو 10یا اس سے زیادہ پارٹنر کے ساتھ ’اورل سیکس‘ کرتا ہے اس کو منہ کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ 4.3گنا زیادہ ہوتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ورجینیا ڈریک کا کہنا تھا کہ ”اس معاملے میں نہ صرف جنسی پارٹنرز کی تعداد بہت اہمیت رکھتی ہے بلکہ کئی دیگر عوامل بھی ہیں جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرنے کے امکان میں اضافہ کرتے ہیں۔ “
https://dailypakistan.com.pk/13-Jan-2021/1236450?fbclid=IwAR0boekMxXtfFFGFSmeNYDHrLPzKJLR8sMCLxP0JPoEHNJ3fwofxmBZHor4


نئی سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دھوپ کو استعمال کرتے ہوئے گنجے مردوں کے سر سےبجلی پیدا کی جاسکتی ہے

انڈیپنڈنٹ اردو نیوز کے مطابق سپین کی ویلنسیا یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک ہسپانوی سٹارٹ اپ کمپنی نے دلچسپ پروجیکٹ پیش کیا ہے جس کے مطابق گنجے مردوں کے سر پر سورج کی روشنی سے شمسی توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس طریقہ کار میں کھوپڑی کو سطح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو سورج کی کرنوں کو اکٹھا کرتی ہے اور پھر اسے بجلی میں تبدیل کرتی ہے تاکہ اس شخص کے پاس چھوٹی بیٹریوں میں توانائی ذخیرہ ہو جائے۔ذخیرہ شدہ توانائی بعد میں موبائل فون کو چارج کرنے سمیت مختلف کاموں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ایسا کرنے کے لیے لیبارٹری میں مائیکروچپس کو سر پر رکھا جاتا ہے جو بعد میں استعمال کے دوران سورج کی روشنی کو ذخیرہ شدہ بجلی میں بدل دیتی ہیں۔

ریسرچ کے مطابق گنجے شخص کا سر شمسی خلیوں کے مقابلے میں شمسی توانائی کو تبدیل کرنے میں زیادہ کارآمد ہے جو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق تجربہ 42 مردوں پر کامیابی کے ساتھ کیا گیا، کھوپڑی میں مائیکروچپ لگانے کے لیے بس ایک مختصر آپریشن کی ضرورت ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/13-Jan-2021/1236470?fbclid=IwAR1rCDot8KTDb5u_iRmfZ1X_kDd2EQIvkcZ1XuYdlIyTdfCQRLQBdVcO1M


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کی وباءاور دیگر وجوہات کی بناءپر سال 2020ءکو بدترین سال قرار دیا جا رہا ہے لیکن اب تاریخ دانوں اور تحقیق کاروں 536ءکے متعلق ایسی خوفزدہ کردینے والی تفصیلات بتا دی ہیں کہ آپ 2020ءکی تباہ کاری بھول جائیں گے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کے تاریخ دان اور ماہر آثارقدیمہ مائیکل مک کارمک کا کہنا ہے کہ ”536ءکا سال تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک ہے۔ اس سال یورپ میں ایک پراسرار دھند پھیل گئی تھی اور مشرق وسطیٰ اور ایشیاءکے بعض حصے 18ماہ تک مسلسل اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔“

پروفیسر مک کارمک کا کہنا ہے کہ ”سال 536ءکے موسم گرما میں درجہ حرارت 1.2ڈگری سینٹی گریڈ سے 2.5ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔ گزشتہ 2300سال میں پہلی بار دنیا کا درجہ حرارت اتنا کم ہوا تھا۔ اس موسم گرما میں چین میں برفباری ہوئی اور فصلیں تباہ ہو جانے سے خوفناک قحط آگیا اور لوگ فاقوں سے مرنے لگے۔آئرلینڈ کی تاریخ میں درج ہے کہ سال 536ءسے 539ءکے درمیان روٹی ملنا ناممکن ہو گیا تھا۔“

ماہرین نے بتایا ہے کہ سال 536ءکے موسم بہار میں پڑنے والی برف میں آتش فشانی شیشے کے انتہائی چھوٹے ذرات پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آئس لینڈ یا شاید شمالی امریکہ میں آتش فشاں پھٹا تھا، جس کی راکھ نصف شمالی کرہ پر پھیل گئی تھی۔محققین کا خیال ہے کہ یہ آتش فشانی دھند ہواﺅں کے ساتھ یورپ اور بعد میں ایشیاءتک پھیل گئی اور دنیا کئی ماہ تک اندھیرے میں ڈوبی رہی۔ اس کے بعد 540اور 547میں دو مزید آتش فشاں پھٹے طاعون کی ایک وباءبھی پھیلی جس کے سبب یورپ معاشی جمود کا ایسا شکار ہوا کہ ایک صدی یعنی 640ءتک اس جمود سے نکل نہیں پایا تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2021/1235997?fbclid=IwAR0KI03B08VFQDZhs8OzSmEDjKwnm2fpTZGtB89ak85M_ePf6s4l8bV1Qyo


سام سنگ اور دیگر چند کمپنیوں کی طرف سے فولڈ ایبل سمارٹ فونز متعارف کروائے جا چکے ہیں تاہم اب ایل جی نے پہلی بار ’رول ایبل‘ سمارٹ فون متعارف کروا دیا ہے جس کی سکرین دائیں طرف سے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہو جاتی ہے۔ اس فون کو ’ایل جی رول ایبل‘ کا نام دیا گیا ہے جسے لاس ویگاس میں ہونے والی سی ای ایس ٹیکنالوجی نمائش کے موقع پر متعارف کروایا گیاہے۔

ایل جی رول ایبل چھوٹے سائز میں عام سمارٹ فون کے سائز کا ہوتا ہے اور سکرین مکمل کھل جانے کے بعد چھوٹے ٹیبلیٹ کے سائز کا ہو جاتا ہے۔ یہ سمارٹ فون فی الحال تیاری کے مراحل میں ہے اور تاحال یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کب تک لانچ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ایل جی کی طرف سے یہ سمارٹ فون سام سنگ کے تیسرے فولڈ ایبل فون گلیکسی زیڈ فولڈ 20کے مقابلے میں بنایا جا رہا ہے جس کی سکرین مکمل کھلنے کے بعد 7.6انچ ہو جاتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2021/1235992?fbclid=IwAR3HEtQqBe5KH8XpyjrLq1w1XWeWwRdW8quyqBw1iolKpIDuTCpQGtRt2JU


میڈیٹرینین ڈائٹ (Mediterranean Diet)وزن کم کرنے کے لیے آزمودہ ڈائٹ ہے، جس کے دیگر بے شمار طبی فوائد بھی تحقیقات میں سامنے آ چکے ہیں۔ اب سائنسدانوں نے دماغ کے متعلق اس خوراک کا ایک حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق شکاگو کے رش یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ میڈیٹرینین ڈائٹ کھانے والے افراد کا دماغ بڑھتی عمر میں دوسرے لوگوں کو نسبت کہیں زیادہ نوجوان رہتا ہے اور جو لوگ اس ڈائٹ کے دوران پیزا اور برگر جیسے مغربی کھانے کھاتے ہیں ان کی دماغ صحت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 1993ءسے 2012ءکے درمیان 65سال سے زائد عمر کے 5ہزار لوگوں کی خوراک اور ذہنی صحت پر اس کے اثرات کی نگرانی کی اور نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ میڈیٹرینین ڈائٹ کے پابند رہے ان کے دماغ 6سال تک زیادہ نوجوان رہے۔ ان کے برعکس جو لوگ پیزے اور برگر جیسی مغربی غذائیں کھاتے رہے ان کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوئے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پوجا اگروال کا کہنا تھا کہ ”میڈیٹرینین ڈائٹ جس کا بڑا حصہ پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے، انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ تاہم جب اس کے ساتھ سرخ گوشت، برگر، پیزا، مٹھائی وغیرہ جیسی چیزیں کھائی جائیں تو میڈیٹرینین ڈائٹ کے فوائد غارت ہو جاتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2021/1235989?fbclid=IwAR2G4s9QgEGEKqVQs7ijVDp_ZsMSkEkBZhLXENAVTXIvXb0tBTSe__wPjOo


فٹنس، جوانی اور خوشی کا راز روپے پیسے اور لگژری لائف سٹائل میں نہیں ہے بلکہ ہیلن تھامس نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق انسان کے دماغ سے ہوتا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ہیلن تھامسن کا کہنا ہے کہ اگر آپ درست مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں تو آپ مذکورہ بالا تمام چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ہیلن تھامسن نے اس حوالے سے ’پلیسیبو‘ (Placebo)کی مثال دی جو ایسی بے اثر گولی ہوتی ہے جسے سائنسدان کسی دوا کے تجربے میں رضاکاروں کے ایک گروپ کو دیتے ہیں۔ یہ دوا حالانکہ بے اثر ہوتی ہے اس کے باوجود اکثر اوقات تجربات میں جن لوگوں کو یہ گولیاں دی جاتی ہیں ان میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آ جاتی ہے اور اس تبدیلی کا تعلق صرف ان لوگوں کے دماغ سے ہوتا ہے۔ انہیں توقع ہوتی ہے کہ اس گولی سے ان کے جسم میں یہ فرق آئے گا چنانچہ کسی حد تک ان کی توقع پوری ہو جاتی ہے۔

ہیلن تھامسن کا کہناتھا کہ ”دماغ ایسی پراسرار چیز ہے کہ اگر آپ ان لوگوں کو بتا بھی دیں کہ یہ گولی بے اثر ہے، اس کے باوجود ان پر اس گولی کا کسی نہ کسی حد تک اثر ضرور ہوتا ہے۔چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری صحت، فٹنس ، جوانی اور خوشی وغیرہ کا تعلق بہت حد تک ہمارے دماغ سے ہوتا ہے۔ آپ ایک تجربہ کرکے دیکھیں جو میں خود بھی اپنے موڈ کو بہتر کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ ایک پنسل لیں اور اسے اپنے دانتوں میں 10سیکنڈ کے لیے اس طرح پکڑیں کہ ہونٹ پنسل کو نہ چھونے پائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف ان 10سیکنڈز میں آپ کا موڈ قدرے خوشگوار ہو جائے گا۔ اگر آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چند بار یہ عمل دہرائیں تو خود بخود آپ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جائے گی۔ “

ہیلن تھامسن کا کہنا تھا کہ ”فٹنس کے لیے اس حوالے سے مختلف چیزوں کا علم ناگزیر ہے۔ امریکہ میں ایک تحقیق کی گئی جس میں ہوٹل کے 84صفائی کرنے والے ورکرز کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو بتایا گیا کہ کون سا کام کرنے سے ان کے جسم میں کتنی کیلوریز جلیں گی اور وہ کتنے فٹ ہوں گے۔اس کے علاوہ ان دونوں گروپوں کے لوگوں میں خوراک یا سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ایک مہینے بعد جب ان کا دوبارہ وزن کیا گیا تو پتا چلا کہ جن لوگوں کو معلومات دی گئی تھیں ان کے وزن میں اوسطاً 1کلوگرام کمی ہو گئی تھی اور ان کا فٹنس لیول بہت بڑھ گیا تھا۔ اس کے برعکس دوسرے گروپ کے لوگوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فٹنس اور صحت مندی کاتعلق بہت حد تک ہمارے دماغ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم اپنے دماغ کو دکھائیں اور درست مائنڈ سیٹ رکھیں تو فٹنس، صحت مندی اور خوشی کا حصول بہت آسان ہو جائے گا۔“
https://dailypakistan.com.pk/11-Jan-2021/1235514?fbclid=IwAR2Ky06wzRLmfsR89aDWLWn6iSqhM3o9L_koSg_YdqGuQxA3xGINXAtk5Hw


معروف سماجی پلیٹ فارم واٹس ایپ کی تبدیلی اور نئی پالیسی کے بارے میں کئی دنوں سے افواہیں زیرگردش ہیں اور یہ بھی دعویٰ کیا جارہاہے کہ واٹس ایپ کی انتظامیہ نئی پالیسی کے تحت صارف کانام، موبائل نمبر، تصویر،چیٹس اور حتیٰ کہ لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیہ کرے گا لیکن اب اس پر کمپنی کا باضابطہ موقف آگیا ہے اور انہوں نے ایسی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم کچھ افواہوں پر بات کرنا چاہتے ہیں اور یہ واضح رہے کہ ہم صارفین کے نجی پیغامات کو محفوظ کرنے کیلئے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن (end-to-end encryption) کیساتھ کام کررہے ہیں۔

واٹس ایپ نے اپنے فیس بک پیج پر پالیسی اپ ڈیٹ سے متعلق بتاتے ہوئے لکھا کہ ’ہماری پالیسی اپ ڈیٹ سے آپ کے دوستوں اور اہلخانہ کے ساتھ پیغامات کی رازداری پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس سب کے باوجود پالیسی میں تبدیلی واٹس ایپ پر بزنس میسجنگ سے متعلق ہے جو کہ اختیاری ہے اور مزید شفافیت فراہم کرتی ہے کہ ہم کیسے ڈیٹا جمع اور استعمال کرسکتے ہیں۔

کمپنی نے واضح کیا کہ واٹس ایپ آپ نے نجی پیغامات یا کالزنہیں سن سکتا اور نہ ہی فیس بک یہ کرسکتاہے ۔
واٹس ایپ یہ بھی نہیں دیکھ سکتا کہ کون کسے کال یا میسج کررہاہے ۔

یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ آخر یہ بزنس میسجنگ کیا ہے اور کس طرح فیس بک کیساتھ کام ہوتا ہے ۔ کمپنی نے بتایا کہ ہر روز دنیا بھر سے دسیوں لاکھ افراد ہرطرح کے کاروبار کے بارے میں واٹس ایپ پر محفوظ رابطے کرتے ہیں ، اگر آپ کاروبار ی میسجز کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم اسے مزید آسان اور بہتر بناناچاہتے ہیں ، یہ واضح ہے کہ جب آپ کاروباری سطح پر کسی سے رابطہ کررہے ہیں تو نئی پالیسی کے فیچرز استعمال ہوں گے ۔ یہ میسجنگ ان میسجز سے مختلف ہوں گے جو آپ اپنی فیملی یا فرینڈز کوکرتے ہیں ، کئی ایسے کاروبار بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنے پیغامات کیلئے ہوسٹنگ سروس کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ آپشن فراہم کررہے ہیں ، فیس بک کی ہوسٹنگ سروس استعمال کرسکتے ہیں جس سے صارفین کی بات چیت محفوظ رہے گی جس میں سوالات کے جوابات، متعلقہ معلومات اور رسیدیں وغیرہ بھی ہوسکتی ہیں ، لیکن جب آپ ایک بزنس کیساتھ فون ، ای میل یا واٹس ایپ سے رابطہ کریں گے تو یہ دیکھا جاسکے گا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں او ر یہ معلومات واٹس ایپ کی اپنی کمپنی کی مارکیٹنگ کے مقاصد کیلئے بھی استعمال ہوسکتی ہیں جس میں فیس بک پر مشہوری بھی شامل ہے ،آپ کو اطلاع کیلئے ہم ان پیغامات کو واضح نشانات لگاتے ہیں جو فیس بک کی ہوسٹنگ سروس استعمال کررہے ہیں ۔

کمپنی کا مزید کہنا تھاکہ آن لائن خریداری کرنیوالے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ، فیس بک کی مدد سے لوگ اپنی اشیاءدکھاتے اور بیچتے ہیں، اسی طرح اب کچھ لوگ اپنی مصنوعات واٹس ایپ پر بھی پیش کرسکیں گے تاکہ لوگ دیکھ کر خریدسکیں۔ اگر آپ دکاندار سے رابطہ کرتے ہیں توآپ کی یہ ساری کارروائی پرسنلائز کی جاسکتی ہے ، اس طرح کے فیچرز اختیاری ہیں اور اگر کوئی صارف ان فیچرز کو استعمال کرے گا تو اسے بتایاجائے گا کہ ان کا ڈیٹا کس طرح فیس بک کیساتھ شیئرکیاجائے گا۔

فیس بک پر اگر آپ کوئی اشتہار دیکھیں تو اس کیساتھ بھی ایک میسجنگ کا بٹن موجود ہوتاہے ،اسی طرح اگر آپ کے فون میں واٹس ایپ انسٹال ہے تو آپ کو اسی طرح کا ایک آپشن ملے گا کہ آپ کاروبار کرنیوالے متعلقہ شخص کو میسج کرسکتے ہیں، اس کے بعد فیس بک اپنے اشتہارات کو پرسنلائز کرنے کیلئے آپ کا وہ ڈیٹا استعمال کرسکتی ہے ۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2021/1235963?fbclid=IwAR0Kld8eka2f0wSPzmjXkclWUuTw9qHn-PMeO_G2Ug35nX7sUTYmhNc3EO


فیس بک نے اپنے سمارٹ گلاسز 2021ءمیں متعارف کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس میں ممکنہ طور پر کیمرا بھی نصب ہو گا۔ میل آن لائن کے مطابق فیس بک چشمے بنانے والی معروف کمپنی ’رے بین‘ کے اشتراک سے2017ءسے ان سمارٹ گلاسز کی تیاری پر کام کر رہا ہے۔ ان گلاسز کے متعلق تاحال زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ سمارٹ گلاسز مستقبل میں سمارٹ فونز کی جگہ لے لیں گے۔ فیس بک کی رئیلٹی لیب میں ماہرین گزشتہ تین سال سے اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

سمارٹ گلاسز کو پہننے سے صارفین کی آنکھوں کے سامنے ایک گرافک ڈسپلے آ جائے گا اور صارفین اس کے ذریعے کالز کے علاوہ دیگر کئی امور بھی سرانجام دے سکیں گے۔ فیس بک کی کمپنی اوکیولس ریسرچ کے چیف سائنسدان مائیکل ابریش 2017ءمیں ان گلاسز کے بارے میں بتا چکے ہیں کہ ”بہت جلد یہ گلاسز کمپیوٹنگ ڈیوائس بن جائیں گے۔ یہ پہننے والے کی یادداشت کو بڑھانے اور غیرملکی زبانوں کا فوری ترجمہ کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کریں گے جو ہم کمپیوٹر یا سمارٹ فون سے لیتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/09-Jan-2021/1234758?fbclid=IwAR38H4r0cPKU4sKe-QVecejSudPYD6hFQ0YMbBHx4gj21OXZD8N6dhqN7z8


آب حیات کے چشمے کے بارے میں قصے کہانیوں میں سنا ہے تاہم حضرت انسان کی ابتداءسے ہی خواہش رہی ہے کہ اسے کسی طرح آب حیات کا چشمہ مل جائے اور وہ ہمیشہ زندہ رہ سکے۔ یہ چشمہ تو شاید کبھی نہ مل سکے لیکن اب سائنسدان یہ خواہش پوری کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق برطانیہ کے معروف مصنف اینڈریو سٹیلے نے اپنی نئی کتاب ’Ageless: Th News Science of Getting Older Without Getting Old‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ سائنسدان ایسی دوا بنانے کے قریب پہنچ چکے ہیں جو انسان کی زندگی میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گی۔

اینڈریو سٹیلے نے لکھا ہے کہ شوگر کی دوا ’میٹافورمین‘ ایک ایسی دوا ہے جو بڑھاپے کا عمل بھی روکتی ہے اور انسان کو بوڑھا ہونے سے بچاتی ہے۔ اس وقت اس دوا کے تجربات جاری ہیں اور ابھی کئی ٹرائیلز کرنے پڑیں گے، تبھی اسے ’اینٹی ایجنگ‘ دوا کے طور پر لوگوں کو دیا جا سکے گا۔ ایک اور نسبتاً غیرمعروف دوا ’ریپامائی سین‘ (Rapamycin)بھی عمر رسیدگی کے عمل کو روکتی ہے اور اس کے بھی ٹرائیلز جاری ہیں۔ یہ ادویات انسان کے جسم میں مردہ یا بیمار خلیوں کو جمع ہونے سے روکتی ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیوں کی پیدائش کا سبب بنتی ہیں جس کی وجہ سے انسان میں بڑھاپے کا عمل سست ہو جاتا ہے۔

ان ادویات کے چوہوں پر تجربات کافی کامیاب رہے ہیں اور ان سے چوہوں کی زندگی میں 25فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم انسانوں پر ان کے تجربات جاری ہیں جن کے نتائج مستقبل میں کسی بھی وقت سامنے آ سکتے ہیں۔ ان ادویات کے علاوہ جین ایڈیٹنگ کی تکنیک کے ذریعے بھی عمر رسیدگی کو روکنے کے منصوبوں پر سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرنے اور انسان کی عمر میں اضافہ کرنے موضوع پر سائنسدان دہائیوں سے کام کر رہے ہیں اور اب وہ کامیابی کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ممکنہ طور پر بہت جلد ایسی دوا دستیاب ہو گی جو ہماری زندگی میں بہت حد تک اضافہ کر دے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Jan-2021/1234339?fbclid=IwAR2ma5crRrh5UxFP-IUU0xYWRR5yrNklXtyigqsGX4gVCgcpeRqiK6tKJRQ


سولر پاور پر چلنے والی دیگر اشیاءتو آپ نے دیکھ رکھی ہوں گی تاہم اب پہلی بار ٹی وی کا سولر پاور پر چلنے والا ریمورٹ کنٹرول بھی تیار کر لیا گیا ہے، جسے نہ ری چارج کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی اس کی بیٹریاں تبدیل کرنے کی۔ میل آن لائن کے مطابق یہ ریمورٹ کنٹرول سام سنگ نے تیار کیا ہے جو سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ کمرے کے اندر لائٹس کی مصنوعی روشنی پر بھی خودبخود ری چارج ہو گا۔

سام سنگ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کی طرف سے ’گوئنگ گرین‘ کے نام سے ایک سکیم شروع کی گئی ہے اور اس ریمورٹ کنٹرول کی تیاری اسی سکیم کا حصہ ہے، جس کا مقصدماحولیاتی تحفظ میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ہر سال ٹی وی ریموٹ کنٹرولز میں کروڑوں بیٹریاں استعمال ہوتی اور پھر ضائع کی جاتی ہیں جو ایک طرف پیسے کا زیاں ہے اور دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی کا سبب۔ سام سنگ کے اس ریمورٹ کنٹرول سے سالانہ 9کروڑ 90لاکھ بیٹریاں ضائع ہونے سے بچائی جا سکیں گی۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Jan-2021/1234340?fbclid=IwAR2fXJA4eiU0HvuYxaxFSVB4M0mUlsjxo2nM05JKuR92LrDJfUMSPgimohI


موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں کئی گلیشیئرز ایسے ہی جو ختم ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک گلیشیئر چین میں ہے جس کا نام ’داگو‘ ہے۔ اس گلیشیئر کو یکسر ختم ہونے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس پر کمبل اوڑھا دیئے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے تجرباتی طور پر اس گلیشیئر پر گزشتہ سال کمبل اوڑھائے تھے تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس طرح گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتارکم ہوتی ہے یا نہیں۔

اب سائنسدانوں نے اس تحقیق کے نتائج دنیا کو بتا دیئے ہیں۔ ان نتائج میں انہوں نے بتایا ہے کہ گلیشیئرز پر کمبل اوڑھانے سے اس کے پگھلنے کی رفتار میں نمایاں کمی آتی ہے او ر اس طریقے سے داگو جیسے معدومی کے خطرے سے دوچار گلیشیئرز کو کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں لوگ اسی طریقے پر 2009ءسے عمل کررہے ہیں اور اپنے گلیشیئرز کو ختم ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Jan-2021/1234350?fbclid=IwAR34yEbiECB6JeVYypKriaKHDdbDMRAEfLWWXNMOICVJ6eG4zdbJZ-WH7kg



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/01/09012021/P3-Lhr-015.jpg



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/01/07012021/P6-Lhr-044.jpg


عام تاثر پایا جاتا ہے کہ سردیوں میں گاڑی کو چلانے سے پہلے انجن سٹارٹ کرکے اسے گرم کرنا چاہیے اور لگ بھگ ہر ڈرائیور ایسا کرتا بھی ہے تاہم اب ماہرین نے اس کے برعکس ایسی بات کہہ دی ہے کہ سن کر ڈرائیورز کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑی کو چلانے سے پہلے سٹارٹ کرکے گرم کرنا نہ صرف وقت کا زیاں ہے بلکہ اس سے الٹا گاڑی کو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑی کو چلانے سے پہلے گرم کرنے کی ضرورت اس وقت ہوتی تھی جب ان میں ’کاربیوریٹرز‘ لگے ہوتے تھے۔ کاربیوریٹر چونکہ فیول اور ہوا کو مکس کرتے تھے چنانچہ ان گاڑیوں کو مناسب طریقے سے چلنے کے لیے گرم کیے جانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ آج کل چونکہ گاڑیاں فیول انجیکٹڈ آ رہی ہیں، چنانچہ انہیں گرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر انہیں گرم کیا جائے تو اس سے ان کے آئل میں خام گیسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو گاڑی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Jan-2021/1232977?fbclid=IwAR26mSbu-aBQq052qxGiJLCdHrGlj5Tt5VO2Erjn_GCn5RGXHROJTDm_3sU


فیس ماسک پہننے سے عینک کے دھندلا جانے کا مسئلہ بہت سوں کو درپیش آتا ہے تاہم اگر آپ فیس ماسک درست طریقے سے پہنیں تو عینک کو دھندلانے سے بچا سکتے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سرجیکل ماسک کی دو سائیڈز ہوتی ہیں۔ ایک سفید رنگ کی اور دوسری نیلے رنگ کی۔ ماسک پہنتے ہوئے ہمیشہ نیلے رنگ کی سائیڈ باہر کی طرف رکھیں۔ اسی طرح سرجیکل ماسک کی اوپراور نیچے کی اطراف بھی الگ ہوتی ہیں۔ فیس ماسک کے جس طرح ماسک کے اندر لوہے کی ایک تار ہوتی ہے وہ سائیڈ اوپر کی طرف رکھنی چاہیے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کے اندر اس تار کا مقصد تار کو موڑ کر فیس ماسک کو ناک کے گرد فٹ کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ فیس ماسک کو موڑ کر ناک کے ساتھ فٹ کر لیں اور عینک کو ماسک کے اوپر پہنیں تو اس کے دھندلانے کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ سیری سمتھ جینز نامی ماہر کا کہنا تھا کہ ”ہمیشہ ایسے کپڑے کا بنا ماسک منتخب کریں جو آرام دہ ہو۔ اس کے لیے 100فیصد کاٹن، بمبو یا پولیسٹر کا فیس ماسک بہترین ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ماسک استعمال کریں جن کی پٹیاں خود سے ایڈجسٹ کی جا سکیں۔ جن ماسکس کی پٹیاں الاسٹک کی ہوتی ہیں، وہ کانوں کے لیے تکلیف کا سبب بنتے ہیں اور مناسب طور پر فٹ بھی نہیں ہوتے۔“
https://dailypakistan.com.pk/05-Jan-2021/1232970?fbclid=IwAR3wZCsWw2C3Gc-fn62qquYnty6oaiwcg8GE6xYDUSpJ0ODwmcnoBrcrPRQ


امریکہ کی ایک معروف خاتون مصنف نے گزشتہ دنوں اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر چھوٹے قد کی خواتین کے متعلق ایسی بات کہہ دی کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ میل آن لائن کے مطابق اس خاتون مصنف کا نام مشعیل ٹیلر ہے جو پیشہ وارانہ طور پر فیمنیسٹا جونز کے نام سے جانی جاتی ہے۔ فیمنیسٹا جونز خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن بھی ہے، اس نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر گزشتہ دنوں لکھ ڈالا کہ ”چھوٹے قد کی خواتین کو مرد صرف اس لیے پسند کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں ایسی خواتین پر جسمانی اعتبار سے غالب آنا اور انہیں کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چھوٹے قد کی خواتین اپنی اصل عمر سے کم عمر اور جوان نظر آتی ہیں۔ اس لیے بھی وہ مردوں کی نظر میں زیادہ پرکشش ہوتی ہیں۔ “

فیمنیسٹا جونز نے لکھا کہ ”جس عورت کا قد 5فٹ 10انچ ہو، اس کے ساتھ مرد شاذ ہی اچھے سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسی عورت کے ساتھ مرد ہمیشہ تلخ لہجے میں ہی بات کرتے ہیں۔“ جونز کی ان ٹویٹس پر ٹوئٹر صارفین کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور وہ اس کے خیالات کو یکسر غلط قرار دے رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جونز چھوٹے قد کی خواتین کا تمسخر بھی اڑا رہی ہے اور پھر خود کو خواتین کے حقوق کی کارکن بھی کہتی ہے۔ چھوٹے قد کی خواتین کمزور نہیں ہوتی اور نہ ہی چھوٹے قد کی خواتین کو پسند کرنے والے مرد جنسی اعتبار سے بے راہ رو ہوتے ہیں۔ کئی خواتین کا کہنا ہے کہ فیمنیسٹا جونزنے تو چھوٹے قد کی خواتین ہی کو موردالزام ٹھہرا دیا ہے۔ ایک خاتون نے لکھا ہے کہ میرا قد 5فٹ 2انچ ہے اور مرد مجھ سے خوف کھاتے ہیں۔ چنانچہ جونز کی یہ بات غلط ہے کہ چھوٹے قد کی عورتوں کو مرد کمزور سمجھتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Jan-2021/1232969?fbclid=IwAR2Us8guU1QZFp2zHrh7a5VPxgdf8Vig22CPAqkXO3C8wuuHg1MAgmPrZ8k


طلاق کے بعد شوہر کی مالی حالت زیادہ کمزور ہوتی ہے یا بیوی کی؟ نئی تحقیق میں ماہرین نے اس سوال کا انتہائی دلچسپ جواب دے دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق لیگل اینڈ جنرل پنشن گروپ کی طرف سے کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کی نسبت بیوی کی آمدنی زیادہ متاثر ہوتی ہے اور اس کی مالی حالت اپنے سابق شوہر کی نسبت زیادہ کمزور ہوتی ہے۔

ماہرین نے اس کی دو وجوہات بیان کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی آمدنی عام طور پر مردوں سے کم ہوتی ہے چنانچہ طلاق کے بعد ان کی مالی حالت شوہروں کی نسبت زیادہ کمزور ہونا یقینی ہوتان ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خواتین عام طور پر اپنے شوہر کی پنشن سے حصہ لینے پر اصرار نہیں کرتیں، جس کے نتیجے میں ان کی آمدنی کم ہو جاتی ہے اور وہ مالی اعتبار سے زیادہ کمزور ہو جاتی ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر ڈیبورا پرائس کا کہنا تھا کہ ”ہم نے اپنی تحقیق میں 10ہزار سے زائد میاں بیوی کی طلاق کے بعد ان کی مالی حالت کا اندازہ لگایا جس میں معلوم ہوا کہ طلاق کے بعد 31فیصد خواتین کی مالی حالت پہلے کی نسبت کمزور ہوئی تھی جبکہ مردوں میں یہ شرح صرف 21فیصد تھی۔ ان جوڑوں میں سے 28فیصد خواتین ایسی تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کی پنشن سے حصہ لینے سے انکار کیا۔ ان کے برعکس مردوں میں یہ شرح صرف 19فیصد تھی۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Jan-2021/1232966?fbclid=IwAR1EziuWyyidBfsQihEXMnzJAziMOxbX36RuVzRy9h72AedTwQCjzPwMY_E


بچوں کا شرارتی ہونا دوسروں کے لیے تو بلائے جان ہوتا ہے لیکن اب سائنسدانوں نے خود بچوں کے لیے اس کا ایک سنگین نقصان بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنسدانوں نے 1ہزار سے زائد لوگوں پر کی گئی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ شرارتی بچے جو زیادہ شور مچاتے اور زیادہ غصے و چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں درمیانی عمر میں پہنچ کر مالی مشکلات درپیش آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 1972ءاور 1973ءکے دوران پیدا ہونے والے ایک ہزار مردوخواتین کی زندگیوں کو سروے، انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے ٹریک کیا۔ 45سال کی عمر تک ان کی زندگی کو ٹریک کرنے کے بعد سائنسدانوں نے نتائج مرتب کیے، جن میں معلوم ہوا کہ بچپن میں جن بچوں کو خود پر زیادہ اختیار نہیں ہوتا وہ آگے چل کر مالی معاملات کو بہتر طریقے سے منظم نہیں کر سکتے اور مالی مشکلات کا شکاررہتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر لی ریکمنڈ ریکرڈ کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کے نتائج میں اس بات کے بھی واضح شواہد سامنے آئے کہ جن بچوں کو بچپن میں خود پر زیادہ کنٹرول تھا وہ ادھیڑ عمری میں جا کر دوسروں کی نسبت زیادہ کم عمر بھی دکھائی دیتے تھے اور ان کی صحت بھی ان سے بہتر تھی۔ہم نے 45سال کی عمر تک ان لوگوں کی زندگیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا اور ان کی جسمانی و ذہنی استعداد کار کا بھی جائزہ لیتے رہے جس میں معلوم ہوا کہ بچپن میں خود پر زیادہ کنٹرول رکھنے والے بچے 45سال کی عمر تک پہنچ کر دوسروں کی نسبت ہر حوالے سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Jan-2021/1232964?fbclid=IwAR1uMv5JqtTNhObxx6tonAndEjlayXcl5NTK-Y7DCsp9RhPzrbL6Qa3WHh8


انسانی جسم میں اچھی اور بری دونوں طرح کی چربی ہوتی ہے اور اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں براﺅن چربی کے متعلق ایک حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ براﺅن چربی، جسے ’براﺅن ایڈیپوز ٹشو‘ (Brown Adipose Tissue)بھی کہا جاتا ہے، خوراک کو باڈی ہیٹ میں تبدیل کرتی ہے اور انسان کودل، دوران خون اور نظام انہضام کی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 52ہزار مریضوں کے پی ای ٹی سکین دیکھے اور ان میں براﺅن چربی کی موجودگی کا ان کو لاحق عارضوں کے ساتھ موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر پاﺅل کوہن کا کہنا تھا کہ ”ہماری تحقیق کے نتائج میں معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں براﺅن چربی بہت کم تھی اور سکین میں نظر نہیں آ رہی تھی ان میں سے 9.5فیصد لوگوں کو دوسری قسم کی ذیابیطس لاحق تھی۔ اس کے برعکس جن کے سکین میں براﺅن چربی نظر آ رہی تھی ان میں صرف 4.6فیصد لوگوں کو دوسری قسم کی شوگر تھی۔ اسی طرح پہلی قسم کے لوگوں میں سے 22.2فیصد کا کولیسٹرول ابنارمل تھا جبکہ دوسرے گروپ کے لوگوں میں یہ شرح 18.9فیصد تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے عارضے تھے جو ان لوگوں میں بہت کم پائے گئے جن کے سکینز میں براﺅن چربی نظر آ رہی تھی۔“
https://dailypakistan.com.pk/06-Jan-2021/1233427?fbclid=IwAR0lnbuVAq8l5n9qOaH3vwlL1ml6yMTGqTQP7q5Lr0C_eWZXoTYsmxjqIPY


لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) محبت کے متلاشی مخالف فریق کو متاثر کرنے کے لیے لباس اور دل لبھانے والے فقروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن اب ایک برطانوی ماہر نے اس کے برعکس انکشاف کردیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ہیلن تھامسن نامی اس ماہر کا کہنا ہے کہ محبت کی تلاش میں آپ نے کیا پہن رکھا ہے اور آپ متوقع محبوب سے کیا بولتے ہیں، یہ اہم نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے اپنی کی باڈی لینگوئج سب سے زیادہ اہم ہے۔ مخالف فریق 85فیصد آپ کی باڈی لینگوئج کو دیکھتا ہے اوراس سے متاثر ہوتا ہے۔ آپ کی زبان سے ادا ہونے والے فقرے اسے متاثر کرنے میں صرف 15فیصد کردار ادا کرتے ہیں۔

ہیلن تھامسن کا کہنا تھا کہ کسی مرد یا عورت سے پہلی ملاقاتوں میں مختصر مگر متاثر کن فقروں میں گفتگو کریں اور اپنی باڈی لینگوئج سے اس پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ آپ اس کے ساتھ تعلق میں سنجیدہ ہیں۔ سائنسی تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ جو لوگ اپنے ممکنہ محبوب کے ساتھ ابتدائی ملاقات میں چھوٹے چھوٹے الفاظ، مثال کے طور پرOk، go on اور I see، بولتے ہیں وہ دوسرے فریق کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوتے ہیں۔ ہیلن تھامسن کا کہنا تھا کہ ایک بار جب آپ کو اپنی محبت مل جائے تو اسے طویل عرصے تک نبھانا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ معروف سائیکوتھراپسٹ جان گوٹمین، جنہیں ’محبت کا آئن سٹائن‘ بھی کہا جاتا ہے، نے کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد ایسی چار چیزیں بتائی ہیں جو کسی بھی جوڑے میں نفرت کا سبب بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں نوبت طلاق تک پہنچتی ہے۔ یہ چار چیزیں ہتک، احساس برتری، تنقید اور عدم تعاون ہیں۔ جب ایک فریق دوسرے کی توہین کرنے لگے، خود کو اس سے برتر خیال کرنے لگے، اس کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے یا خودسری اور عدم تعاون کا مظاہرہ کرنے لگے، ایسی صورت میں کسی بھی تعلق کو برے انجام تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اگر آپ اپنے تعلق کو طویل عرصے تک چلانا چاہتے ہیں تو ان چار افعال کا ارتکاب ہرگزمت کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/04-Jan-2021/1232548?fbclid=IwAR0w_Hqlfvecdhflhov-hqarnVk8dj8gJgKQqmcgKTSXCseh5B-amM83HjA


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108016475&Issue=NP_PEW&Date=20210105

No comments:

Post a Comment