سائینس جیسے ہو جادو مگر کیسے ؟ - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Monday, 11 July 2022

سائینس جیسے ہو جادو مگر کیسے ؟


ہارورڈ: متعدد جامعات اور اداروں کے ماہرین نے مل کر انسانی دل کا پہلا تفصیلی نقشہ بنایا ہے جس میں خلوی اور سالماتی سطح پردل کو دیکھا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ خلیات کے ایک مرکزے کو بھی زوم کرکے دیکھنا ممکن ہے، اس سے دل کے امراض کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع رپورٹ کے مطابق میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)، ہارورڈ ، بائرکمپنی اور دیگر ہسپتالوں کے ماہرین نے ’انسانی قلب کے ہر خلیے کے مرکزے کا ایک تفصیلی نقشہ‘ بنایا ہے۔

اس سے ہارٹ فیل کے عمل کو سالماتی (مالیکیولر) سطح پرنوٹ کیا جاسکتا ہے۔ یوں دل کی انتہائی باریک تفصیلات کو جان کر پورے قلب کا علاج کرنے میں مدد ملے گی۔

تحقیق کے روحِ رواں ناتھن ٹکر کہتے ہیں کہ دل محض کوئی گوشت کا ٹکڑا نہیں بلکہ کئی اقسام کے خلیات کا ایک پیچیدہ مجموعہ ہے، یہ سب ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو دل ایک بہترین پمپ بن کرخون آگے پہنچاتا ہے، اس تحقیق میں ہارٹ فیل اور امراضِ قلب میں کی دیگر وجوہ کو بنیادی خلوی سطح تک دیکھنا ممکن ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2346237/9812/

برلن: جرمن ماہرین نے ٹوٹی ہڈیوں کی مرمت کرنے اور ان کی شفایابی کی خبر دینے والا ایک ایسا برقی پیوند (امپلانٹ) تیار کیا ہے جو ہڈی کو نہ صرف ٹھیک کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ ایپ کی بدولت ہڈی کی تندرستی بھی بتاتا رہتا ہے۔

ہڈیوں کے فریکچر میں فولادی پلیٹیں اور نٹ بولٹ لگائے جاتے ہیں جن کے دباؤ سے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس میں ہڈی ٹیڑھی ہوجاتی ہے اور زخم مزید خراب بھی ہوجاتا ہے۔ اندازاً 10 فیصد واقعات میں فولادی پلیٹوں سے الٹا نقصان ہوجاتا ہے اور طویل پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

امپلانٹ ہڈی کے اوپر رہ کر اس کی صحت پر نظر رکھتا ہے اور ہڈی پر اضافی دباؤ سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ وائرلیس طریقے سے اس کا ڈیٹا اسمارٹ فون ایپ پر وصول کیا جاسکتا ہے۔ یہ کارنامہ جرمنی کی سارلینڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے انجام دیا ہے۔

خودکار برقی امپلانٹ ازخود ہڈی پر نظر رکھتا ہے جو ہڈی میں تبدیلی پر اپنا ردِ عمل بھی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً اگرٹوٹی ہڈی پر بوجھ حد سے زیادہ ہوجائے تو پیوند سخت ہوکر اس بوجھ کو سہارتا ہے اور ہڈی پر دباؤ کم کرتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر سے قبل ہی ہڈی کو بچانے کا مناسب انتظام ہوجاتا ہے۔ بصورتِ دیگر آرام کی حالت میں امپلانٹ نرم اور لچکدار ہوجاتا ہے۔

ہڈی ٹھیک ہونے کے بعد کوئی بھی ڈاکٹر عام طریقے سے اسے نصب کرسکتا ہے۔ سائنسدانوں نے ہڈیوں کی مناسبت سے کئی جسامت اور اشکال کے اسمارٹ برقی پیوند بنائے ہیں۔ اس طرح ہر قسم کی ہڈی پر اسے چسپاں کیا جاسکتا ہے تاہم زیادہ اہمیت پنڈلی کی شکستہ ہڈی کو دی گئی ہے۔

سارلینڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے جوتے کے سول میں 16 پریشر سینسر لگائے ہیں اوران سے ٹانگ پر پڑنے والے بوجھ کو بھی نوٹ کیا ہے۔ اس کا ڈیٹا امپلانٹ بنانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ہڈی کے آپریشن کے بعد بھی اس سے پورے نظام کی تندرستی معلوم کی جاسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2345452/9812/


برٹش کولمبیا، کینیڈا: سائنسدانوں نے حادثاتی طور پر دریافت کیا ہے کہ کینسر میں عام دی جانے والی ایک دوا مسکیولر ڈسٹرافی میں مفید ثابت ہوتی ہے جو اب تک ایک لاعلاج جینیاتی مرض ہے۔

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ سی ایس ایف ون آر انہبیٹرز گروپ کی ایک دوا سرطان میں عام کھائی جاتی ہے لیکن یہی دوا مریض کو وھیل چیئر تک محدود کردینے والی ڈوشین مسکیولر ڈسٹرافی (ڈی ایم ڈی) کے حملے کی رفتار سست کرسکتی ہے۔

ڈوشین مسکیولر ڈسٹرافی ایک جینیاتی مرض ہے جس میں اعصاب اور پٹھے تیزی سے کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن کینسر کی دوا سے پٹھوں کے ریشے مزید بہتر ہوتے جاتے ہیں اور مرض کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ ویسے مسکیولر ڈسٹرافی کی کئی اقسام ہیں لیکن ڈی ایم ڈی ایکس کروموسوم میں جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے اور ایک اہم پروٹین ڈسٹروفین کی پیداوار رک جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ مریض کے پٹھے کمزور ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے اور زندگی کا دورانیہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

سی ایف ایس ون آر انہبیٹر قسم کی دوا اگرچہ کینسر خلیات کی افزائش روکتی ہے لیکن اس کا ایک اور کردارسامنے آیا کہ یہ مرکزی اعصابی نظام میں مائیکروگلیا ختم کرتی ہے لیکن معلوم ہوا کہ یہ پٹھوں کو بھی تقویت دیتی ہے۔ چوہوں پر مزید تحقیق سے اس کی تصدیق ہوگئی اور چند ماہ کی دوا سے چوہوں میں مسکیولر ڈسٹرافی کی شرح بہت حد تک سست ہوگئی۔
تاہم انسانی آزمائش کے مراحل ابھی دور ہیں۔
https://www.express.pk/story/2345786/9812/


ہیلسنکی: فِن لینڈ کے محققن نے دنیا کی پہلی مکمل طور پر فعال ’مٹی کی بیٹری‘ نصب کردی جو ایک وقت میں کئی مہینوں کے لیے ماحول دوست توانائی ذخیرہ کر سکتی ہے۔

بیٹری بنانے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ بیٹری سبز توانائی کودرپیش سال بھر فراہمی کے مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔

کم معیار کی مٹی استعمال کرتے ہوئے اس بیٹری کو اس حدت سے چارج کیا جاتا ہے جو سورج یا ہوا سے بننے والی بجلی سے پیدا ہوتی ہے۔

یہ مٹی 500 ڈگری سیلسیئس تک کے قریب حدت ذخیرہ کر لیتی ہے جس کو بعد ازاں موسمِ سرما میں جب توانائی زیادہ مہنگی ہوتی ہے،گھروں کی گرمائش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

فِن لینڈ گیس کا زیادہ تر حصہ روس سے حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا یوکرین میں ہونے والی جنگ کی وجہ سے سبز توانائی کی جانب تیزی سے توجہ مبذول ہوئی ہے۔

فِن لینڈ یورپی یونین کا وہ ملک ہے جس کی روس کے ساتھ سب سے طویل (1340 کلومیٹر) سرحد ہے اور ہیلسنکی کے نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے کے فیصلے کے بعد ماسکو نے اس کو گیس اور بجلی کی فراہمی روک دی ہے۔

جہاں گرمائش اور روشنی کی فکر سیاست دانوں اور فنش شہریوں کو پریشان کیے ہوئے ہے وہیں مغربی فِن لینڈ کے ایک چھوٹے سے پاورپلانٹ میں نصب ایک چھوٹی سی ٹیکنالوجی نے ان پریشانیوں کو دور کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس آلے کو بنانے کے لیے ضروری عناصر کیا ہیں؟ تقریباً 100 ٹن مٹی جس کو ایک گودام میں بھر دیا جائے۔یہ سادہ اور سستے ذرات توانائی کوضروری وقت کے لیے ذخیرہ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔
https://www.express.pk/story/2345080/508/


نائیمیخن: طبعیات دانوں نے ایک دھات میں ایک نئے قسم کا برتاؤ دریافت کیا ہے جو عمومی طبعیات کے بالکل برعکس ظاہر ہوتا ہے۔

سائنس دانوں نے نیو ڈائیمیم نامی ایک دھات میں مقناطیسی چکر دریافت کیے جو اس کو درجہ حرارت بڑھنے پر ساکت کر دیتے ہیں، ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب درجہ حرارت کم کیا جاتا ہے۔

نیو ڈائیمیم اس وقت اپنے طور پر ایک اِسپن گلاس بنتا ہے جب اس کا ہر ایٹم ایک چھوٹے مقناطیس کی طرح برتاؤ کرتا ہے اور سب کا رخ مختلف سمتوں میں ہوتا ہے۔ یہ چکر ایسے طرز بناتے ہیں جو اسپرنگ کی طرح گھوم رہے ہوتے ہیں اور مستقل بدل رہے ہوتے ہیں۔

محققین نے دیکھا کہ جب انہوں نے نیو ڈائیمیم کو منفی 268 ڈگری سیلسیئس سے 265 ڈگری سیلسیئس تک گرم کیا تو اس کے ایٹمز کے چکر نے مقناطیس بنانے کے لیے جم کر ایک ٹھوس شکل اختیار کرلی۔ نیو ڈائیمیم کو جب ٹھنڈا کیا گیا تو اس کا چکر کھاتا طرز دوبارہ شروع ہوگیا۔

نیدرلینڈز کے شہر نائیمیخن میں قائم ریڈبوڈ یونیورسٹی میں اسکینینگ پروب مائیکرواسکوپی کے پروفیسر ایلگزینڈر کا کہنا تھا کہ اس طرح جمنے کی خصوصیت عموماً کسی مقناطیسی مواد میں نہیں ہوتی ہے۔ نیو ڈائیمیم میں جس مقناطیسی برتاؤ کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہ عمومی صورتحال کے برعکس ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پانی گرم کرنے پر برف بن جائے۔
https://www.express.pk/story/2345042/508/


200سے زائد زبانوں کا ترجمہ کرنے والے یونیورسل لینگوئج ٹرانسلیٹر کی تیاری میں اہم پیشرفت
Jul 07, 2022 | 16:18:PM


اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی ملکیت رکھنے والی کمپنی میٹا نے ایک اوپن سورس آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ماڈل تیار کیا ہے جو 200 سے زائد زبانوں کا ترجمہ کرسکتا ہے۔

نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق میٹا کے یونیورسل لینگوئج ٹرانسلیٹر ان زبانوں کا ترجمہ کرے گا جن میں سے بیشتر زبانیں ایسی ہیں جن کو موجودہ ٹرانسلیٹنگ سسٹمز سپورٹ نہیں کرتے،میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے ایک فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ اس پراجیکٹ کو نو لینگوئج لیفٹ بی ہائنڈ (این ایل ایل بی) کا نام دیا گیا ہے اور اے آئی ماڈلنگ تیکنیکس کو اس کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، تاکہ فیس بک اور انسٹاگرام صارفین کی زبانوں کا معیاری ترجمہ کیا جاسکے۔

این ایل ایل بی میں ایسی زبانوں پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے جو بہت زیادہ معروف نہیں جس کی وجہ سے ان کے حوالے سے اے آئی ماڈلز کے لیے ڈیٹا نہ ہونے کے برابر ہے,میٹا کا تیار کردہ نیا ماڈل اس چیلنج کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔

محققین کے مطابق یہ ماڈل دیگر ماڈلز کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے,انہوں نے بتایا کہ یہ تیکنیکس پہلے ہی فیس بک، انسٹاگرام اور وکی پیڈیا میں زبانوں کے ترجمے کے حوالے سے کارکردگی کو بہتر بناچکی ہیں ,اب مزید تحقیق کے لیے میٹا نے تمام تر ڈیٹا اوپن سورس فراہم کردیا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/07-Jul-2022/1460171?fbclid=IwAR1mGZfA9Nod23zErZvZYhjKfxBjzSlV6bdeRhtcZIa4XIjpct85VZ7LIxM


بیجنگ: چین میں کم سے کم 600 برس سے استعمال ہونے والی ایک روایتی دوا کو بچوں کے سانس کے انفیکشن میں سائنسی طور پر مفید قرار دیا گیا ہے اور اس کے واضح ثبوت ملے ہیں۔

روایتی چینی ادویہ سازی میں یوپنگ فینگ (وائی پی ایف) اگرچہ چینی سماج کا اب تک حصہ ہے لیکن مغرب میں اسے جعلی سائنس اور عطائی کی دوا قرار دیا جاتا رہا تھا۔ چین میں اس روایتی دوا کو ایسٹراگیلی ریڈکس (ہوانگ چی)، ایٹریکٹائیلوڈس میکروفیلائی رائزوما (بائزو) اور ساپوش نی کوفائی ریڈکس (فینگ فینگ) جسے مرکبات کے ساتھ ملاکر ایک گولی کی صورت میں کھلایا جاتا ہے۔

یہ دوا بالخصوص بچوں میں ری کرنٹ ریسپائریٹری ٹریکٹ انفیکشن ( آر آر ٹی آئی) کو روکنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ وائی پی ایف امنیاتی نظام کو بہتر بنا کر بہت چھوٹے بچوں میں سانس کی نالی کے انفیکشن کے بار بار حملے سے بچاتی ہے۔

چینی ماہرین ایک عرصے سے جدید تحقیقی ثبوت اور خلا سے واقف تھے اور اب انہوں نے آر ٹی ٹی آئی کے شکار بچوں میں اس کے اثرات کا مروجہ سائنسی جائزہ لیا ہے۔ اس ضمن میں ڈبل بلائںڈ مطالعہ کیا گیا ہے اور بہت سخت معیارات پر اس دوا کی آزمائش کی گئی ہے جس کی تحقیقات پیڈیاٹرک انویسٹی گیشن میں شائع ہوئی ہیں۔

ماہرین نے ’رینڈمائزڈ کنٹرولڈ کلینکل ٹرائلز( آرسی ٹی) طرز کی تحقیقات کی ہیں جو ایک مؤثر اور طاقتور طریقہ ہے۔ اس میں چین بھر سے کئی مریض بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور بہت بڑی تعداد میں بچوں پر طبی آزمائش کی گئی ہے۔

پہلے مرحلے میں دو سے چھ برس تک کے 351 بچوں کو شامل کیا گیا اور انہیں تین گروہوں میں بانٹا گیا۔ پہلے گروہ کو وائی پی ایف دی گئی، دوسرے گروپ کو ایک روایتی ایلوپیتھک دوا پائڈوٹیموٹ کھلائی گئی جو آر آر ٹی آئی میں دی جاتی ہے، تیسرے گروہ کو فرضی دوا (پلے سیبو) دی گئی۔

چونکہ یہ انفیکشن بچوں پر بار بار حملہ کرتا ہے۔ اس لیے 52 ہفتوں بعد بچوں کا دوبارہ جائزہ لیا گیا تو روایتی ایلوپیتھی کی صورت میں بھی وائی پی ایف بہت مؤثر یعنی 73 فیصد تک مفید ثابت ہوئی۔ ایلوپیتھی دوا میں یہ شرح 67 فیصد اورفرضی دوا میں یہ شرح صرف 39 فیصد تھی۔
https://www.express.pk/story/2345069/9812/


نارتھ کیرولینا: دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے ہیپاٹائٹس اے کی اب تک کوئی دوا موجود نہیں لیکن اب اس کے وائرس کے تیزی سے پھیلنے میں پروٹین اور خامروں (اینزائم) کے کرداروں کو اچھی طرح سمجھا گیا ہے۔ اس دریافت سے جان لیوا ہیپاٹائٹس اے وائرس کے علاج اور نئی دواؤں کی راہ ہموار ہوسکے گی۔

جامعہ نارتھ کیرولینا اسکول آف میڈیسن کے سائنسدانوں کی تازہ تحقیق کے مطابق انسانی پروٹین ZCCHC14 اور خامروں کا ایک گروہ ، ٹینٹ فور پولی اے پولیمریز دونوں کے درمیان رابطے سے ہی ہیپاٹائٹس اے کا وائرس تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ آر جی 7834 نامی مرکب وائرس کا پھیلاؤ بھی سست کرتا ہے اور دوم اس کے حملے سے جگر کو محفوظ بناتا ہے۔

اسی تحقیق میں اوپر دیئے گئے مرکب کو بعض جانوروں پر بھی آزمایا گیا ہے اور اس کے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب ثابت ہوا کہ آرجی 7834 سے ZCCHC14 نامی پروٹین کو نشانہ بنانے سے جگر کی سوزش اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ کم ازکم چوہوں پر تجربات سے اس کا انکشاف ہوا ہے۔ اسے اینٹی وائرل تھراپی کہا جاسکتا ہے جس میں وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔

اگرچہ ہیپاٹائٹس اے کی ویکسین بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے لیکن یہ ہرجگہ دستیاب نہیں اور غریب ممالک کی پہنچ سے ہنوز دور ہے۔ دوسری جانب دنیا اب بھی ہیپاٹائٹس اے اور بی پر زیادہ توجہ دے رہی ہے اور ہیپاٹائٹس اے نظرانداز امراض میں شامل ہے۔

لیکن دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے پھیلاؤ بلکہ وباؤں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سادہ علامات میں بخار، بدن کا درد، یرقان، کمزوری، بھوک میں کمی اور ذائقے کی خرابی شامل ہے۔ لیکن بیمار ہونے کی صورت میں اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔

تاہم اس تحقیق سے نہ صرف ہیپاٹائٹس اے کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ نئی ادویہ کی راہیں بھی کھلیں گی جن میں سرِفہرست آرجی 7834 ہے۔
https://www.express.pk/story/2345420/9812/


جنیوا: سوئٹزرلینڈ میں 4 لاکھ برقی گاڑیوں کی بیٹری کے برابر بجلی ذخیرہ کرنے والی آبی بیٹری کو فعال کردیا گیا۔

دو ارب یورو کا یہ منصوبہ سوئس پہاڑی علاقے کی سطح زمین سے 600 میٹر گہرائی میں بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 14 سالوں سے کام جاری تھا۔

اس بیٹری کی 2 کروڑ کلو واٹ آور کی گنجائش اس بات کو ممکن بنائے گی کہ قابلِ تجدید ذرائع سے بننے والی اضافی توانائی کو مستقبل کے لیے ذخیرہ کیا جاسکے۔ لہذا یہ برقی گرڈ کے استحکام اور روایتی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے میں مدد دے گی۔

یہ ہائیڈرو بیٹری اضافی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے دو مختلف بلندیوں پر بنے دو مختلف ذخائر تک پانی پمپ کر کے کام کرتی ہے۔جب اضافہ بجلی بنتی ہے تو چھ پمپ ٹربائنس نچلے حوض سے اوپر موجود حوض میں پانی بھیجتے ہیں۔

ڈھائی کروڑ مکعب میٹر کی گنجائش رکھنے والی اس آبی بیٹری کی توانائی کا اخراج اتنا ہے کہ 9 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔

ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ نینٹ ڈی ڈرانس کی جانب سے جاری کی جانےو الی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ نئی قابلِ تجدید توانائیوں کے ذرائع کے استعمال میں اضافہ ہوا جن کی پیداوار ناہموار ہوتی ہے، اس اتار چڑھاؤ کے لیے اِزالے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بجلی کی پیداوار اور کھپت میں توازن مستقل طور قائم کیا جاسکے۔
https://www.express.pk/story/2345004/508/


اوکلاہوما: پانی میں پایا جانے والا مشہور جھینگا اسنیپ شرمپ اپنے شکار کو مارنے یا دہشت زدہ کرنے کے لیے اپنے چمٹے نما ہاتھوں سے پانی کے اندر زوردار صدماتی امواج (شاک ویو) خارج کرتے ہیں۔ لیکن اس سے خود شرمپ بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے قدرت نے ان کے سر پر ہیلمٹ نما ڈھال فراہم کی ہے۔

اسنیپنگ شرمپ کا حیاتیاتی نام Alpheus heterochaelis ہے اور وہ پانی کے اندر اپنے اگلے پنجوں سے اتنی تیز شاک ویو خارج کرتے ہیں کہ پانی میں بلبلے بن جاتے ہیں۔ لیکن اس شدید کیفیت سے خود یہ ننھا کیڑا بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس سے خود اس کی آنکھوں، دماغ اور اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ خود مر بھی سکتا ہے۔ لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ اس کے سرپر ایک خول نما ہیلمٹ ہوتا ہے جو شاک ویو جذب کرکے شرمپ کو موت سے بچاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹُلسا کی الیگزینڈرا کنگسٹن کہتی ہیں کہ اگر ایک شرمپ کے گرد دوسرا شرمپ بھی صدماتی امواج خارج کرے تب بھی دونوں میں سے کوئی بھی کیڑا متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ماہرین نے دلچسپ تجربات کیے۔ انہوں نے بڑے پنجوں والے 60 شرمپ نارتھ کیرولینا کے سمندر سے پکڑے اور انہیں تجربہ گاہ پہنچایا گیا۔

ماہرین نے احتیاط سے ان کے سرپر لگا قدرتی خول یا ہیلمٹ نکال دیا اور انہیں پانی بھرے مچھلی گھر میں چھوڑ دیا۔ ہیلمٹ نکالے جانے کے باوجود وہ نارمل رہے۔ پھر ماہرین نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے پنجوں کو چٹخائیں اور صدماتی امواج خارج کریں۔ ماہرین نے دیکھا کہ ایسا کرتے ہی شرمپ پر خود اثر ہوا، وہ گھومے، لڑکھڑائے اور نیچے بھی گر گئے۔

جب انہیں قدرتی ماحول میں چھوڑا گیا تو وہ اپنے پنجوں سے رابطہ کھو چکے تھے اور راستے سے بھی بھٹک رہے تھے۔ نارمل شرمپ کے مقابلے میں ہیلمٹ ہٹائے گئے شرمپ کو گھر تلاش کرنے میں سات گنا زائد وقت لگا۔ اس سےمعلوم ہوا کہ شاک ویو نے ان کے دماغ کو گہرائی سے متاثر کیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ قدرت کی جانب سے شرمپ کے سر پر لگے ہیلمٹ انہیں شاک ویو سے بچاتے ہیں اور مضبوط ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2345308/509/


سان فرانسسكو: پاکستانی اسکالر نے سان فرانسسکو میں منعقدہ بین الاقوامی سمپوزیم میں دو اعزازات اپنے نام کئے ہیں۔ اول انہیں سفری فیلوشپ دی گئی ہے اور دوم اسٹیم سیل پر اپنی غیرمعمولی تحقیقی تخلیص کا ایوارڈ بھی جیتا ہے۔

اکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی)، جامعہ کراچی کی ایک پی ایچ ڈی اسکالر عائشہ اسحاق نے حال ہی میں پروفیسر ڈاکٹرعصمت سلیم کی نگرانی میں مکمل ہونے والی اپنی تحقیق کی تلخیص کے غیر معمولی ہونے کے اعتراف میں انٹرنیشنل سوسائٹی فار اسٹیم سیل ریسرچ (آئی ایس ایس سی آر)، یو ایس اے، کے دو بین الاقوامی ایوارڈ ’آئی ایس ایس سی آر میرٹ ایبسٹریکٹ ایوارڈ‘ اور ’آئی ایس ایس سی آر ٹریول ایوارڈ‘ اپنے نام کر لیے ہیں۔

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے ترجمان نے جمعرات کو کہا ہے کہ عائشہ اسحاق نے یہ ایوارڈآئی ایس ایس سی آر کے تحت سان فرانسسکو امریکہ میں منقعدہ ایک بین الاقوامی ہائبرڈ کانفرنس کے پوسٹر سیشن میں آن لائن اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے حاصل کیا ہے۔

واضح رہے کہ متعلقہ تحقیق دراصل چوہوں کی ہڈیوں گودوں (بون میرو) سے نکالے گئے بنیادی خلیات (اسٹیم سیل) کے استعمال سے فالج (اسٹروک) اور دیگر امراض کے علاج سے متعلق ہے۔ عائشہ اسحاق ڈاکٹر پنجوانی سینٹر میں پروفیسر ڈاکٹرعصمت سلیم کی نگرانی پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس عالمی کانفرنس میں پوری دنیا سے بائیس سو افراد شرکت کر رہے تھے جبکہ ایک ہزار افراد آن لائن شریک ہوئے۔

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے عائشہ اسحاق کو اُن کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کامیابی دراصل پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیت کا اعتراف ہے جبکہ آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی میں باصلاحیت اور قابل نوجوان اسکالروں کی موجودگی ادارے کے لیے قابلِ فخر ہے۔

شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون اور سرپرستِ اعلیٰ بین الاقوامی مرکز اور سابق وفاقی وزیر برائے سائینس اور ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے بھی ہونہار طالبہ کو اس کی میا بی پر مبارکباد دی ہے۔
https://www.express.pk/story/2345761/508/


لندن: نئے اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس زندہ جانوروں پر کیے گئے سائنسی تجربوں کی تعداد میں 6 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

2021 میں پورے برطانیہ میں تقریبا 30 لاکھ 60 ہزار تجربے جانوروں پر کیے گئے، 2020 میں یہ تعداد 28 لاکھ 80 ہزار تھی۔

برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ تجرباتی عمل میں 20 فی صد (17 لاکھ 30 ہزار) اضافہ ہوا جو گزشتہ برس تمام عمل کا 57 فی صد بنا۔ افزائش کے لیے کیے جانے والے عمل میں 8 فی صد کمی آئی۔

ڈیٹا کے مطابق 96 فی صد پروسیجر(تجرباتی و افزائشی مقاصد کے لیے کیے جانے والے) میں چھوٹے یا بڑے چوہے، یا مچھلیاں استعمال ہوئیں۔جانوروں کی یہ اقسام ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے سے استعمال کی جارہی ہیں۔

ڈیٹا کے مطابق 51 فی صد تجرباتی پروسیجر بنیادی تحقیق کے لیے کیے گئے۔
جن تین حلقوں میں سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ان میں اعصابی نظام، مدافعتی نظام اور کینسر شامل ہیں۔

رائل ویٹرِنری کالج میں ٹرانسلیشنل میڈیسن کے پروفیسر ڈامنِک ویلز کا کہنا تھا کہ 2020 میں کووڈ پابندیوں کے سبب یہ تعداد کم ہونے کی وجہ سے 2021 میں پروسیجرز کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں کی تعداد میں اضافہ غیرمتوقع نہیں ہے۔
https://www.express.pk/story/2344652/508/


نیویارک: ماہرین نے نیوروسائنس کے اصولوں پر مبنی سر پر پہننے والی ایک مؤثر پٹی بنائی ہے جس کے متعلق کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس سے صرف 15 منٹ میں گہری نیند آجاتی ہے۔

اس طرح یہ نیند لانے کے عام دورانیے کو نصف کر دیتی ہے۔ اس کی تیاری میں میٹ واکر کا مشورہ شامل ہے جو نیند لانے میں دنیا کے بہترین سائنسدانوں میں شامل ہیں۔ اب تک وہ اس پروجیکٹ سے وابستہ ہیں اور نیند پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

اس ایجاد کو سومنی کا نام دیا گیا ہے جو ایک طرح کا ہیڈ بینڈ ہے اور اس میں ہائیڈروجل رکھا جاتا ہے۔ اسے ایپ سے کنٹرول کرکے گہری نیند کی وادی میں پہنچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میٹ واکر کی نیند پر کتاب بھی بالکل مفت میں دی جا رہی ہے۔

دوسری جانب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے وابستہ رابرٹ نائٹ بھی ہیں جو نیوروسائنس کے ماہر ہیں۔ سومنی کا استعمال بہت آسان ہے۔ اسے سر پر اس طرح پہنا جاتا ہے کہ الیکٹروڈ والا حصہ پیشانی پر آجاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس میں نصب سینسر دماغ کی ای ای جی کیفیت نوٹ کرکے تعین کرتے ہیں کہ کونسی لہریں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں۔

اس کے بعد برقی سرگرمی دماغ کو سکون دے کر آپ کو گہری نیند میں پہنچانے کی کوشش کرتی ہے اور 15 منٹ کے سیشن کے اندر اندر آپ گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ سومنی کا بیرونی حصہ نرم ریشم میں لپیٹا گیا ہے اور اگر آپ چاہیں تو اس پٹی کو پہن کر آسانی سے سوسکتے ہیں۔

اب تک سومنی کو بے خوابی کے سینکڑوں مریضوں پر آزمایا گیا ہے اور سب نے اسے گہری نیند کے لیے بہترین پایا ہے۔ بیرونی طور پر ایپ سے کنٹرول ہونے والی یہ اہم ایجاد کراؤڈ فنڈنگ سے گزر رہی ہے اور سال کے آخر تک 185 ڈالر میں دستیاب ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2344302/9812/


پینسلوانیا: جزوی فالج کے شکار تین ایسے بندروں کی گردن پر الیکٹروڈ لگا کر ان کے ہاتھوں کی جنبش بحال کی گئی ہے جو اس سے قبل ہاتھ ہلانے سے معذور تھے۔

ماہرین نے حرام مغز میں موجود ان اعصابی خلیات کی سرگرمی کو بڑھایا (ایمپلیفائی) کیا ہے جو اپاہج ہونے کے باوجود اپنی سرگرمی برقرار رکھے ہوئے تھے۔

پینسلوینیا میں جامعہ پٹس برگ سے تعلق رکھنے والے مارکو کیپوگروسو نے یہ تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق فالج کے بعد ٹانگ کے مقابلے میں بازو کی حرکت بحال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہاتھ اور بازو کا معاملہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔

اگرچہ معذورافراد میں برقی سرگرمی سے بے جان بازوؤں کو بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں تاہم اس میں بہت کامیابی نہیں مل سکی۔ دوم سرجری ایک مشکل عمل ہوتا ہے اور پیچیدہ مشین لرننگ پر طویل تربیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ برقی سنگلوں کو حرکات میں بدلنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔

اب ڈاکٹر مارکو نے اس عمل کو مؤثر اور سادہ بناتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ حرام مغز پر الیکٹروڈ لگا کر برقی سرگرمی سے دھڑ کے اوپری حصے یعنی بازو میں حرکت پیدا کی جاسکتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح اعصابی برقی سگنلوں کو حرکات میں بدلنے والے کمپیوٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اس کے لیے درست برقیرے (الیکٹروڈ) بنانے کے لیے سائنسدانوں نے تینوں بندروں کے حرام مغز کے تفصیلی ایم آر آئی اسکین لیے اور رگوں کا غور سے مطالعہ کیا جو ہاتھ اور بازو قابو کرتے ہیں۔

پھر انہوں نے شعوری طور پر بندروں کو بے ہوش کرکے ان کا الٹا بازو مفلوج کیا۔ اس کے کئی دن بعد انہوں نے حرام مغز میں برقیرے لگائے اور ہلکی بجلی فراہم کی۔ الیکٹروڈ سے مدھم برقی سگنلوں کو بھی بڑھایا گیا۔ عین یہی کیفیت انسانوں میں بھی ہوتی ہے جہاں اضافی اعصاب اور ان کے رابطے موجود ہوتے ہیں۔

جب حرام مغز کے برقیروں کو بجلی دی گئی تو ایک ہفتے بعد ایک بندر نے کسی شے کی جانب ہاتھ تو بڑھایا لیکن اسے تھام نہ سکا۔ باقی دو بندروں نے نہ صرف ایک شے (مثلاً گلاس) کی جانب ہاتھ بڑھایا اور اسے تھام بھی لیا لیکن اس میں انہیں ایک ہفتے کا وقت لگا۔

اس عمل کو چھ ہفتوں تک دہرایا گیا لیکن انگلیوں میں انفرادی حرکت پیدا نہیں ہوسکی۔ یعنی اگر انسانوں میں یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو وہ کی بورڈ دبانے یا لکھنے کا کام نہیں کرسکیں گے۔
تاہم اس پر مزید تحقیق جاری ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
https://www.express.pk/story/2344198/9812/


کوپن ہیگن: فضائی سفر کے متعدد مسائل میں سے ایک مسئلہ اس کا پیٹرولیم پر انحصار ہے، جو موسمیاتی تغیر میں اپنا محدود حصہ ڈال رہا ہے۔

محققین نے ایک ایسا راستہ تلاش کیا ہے جس میں ایک منفرد کاربن مالیکیول بنا کر جیٹ طیاروں کا متبادل ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ یہ مالیکیول مٹی میں پائے جانے والے ایک بنیادی بیکٹیریا سے بنایا جا سکتا ہے۔

ڈینمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے ایک مائیکرو بائیولوجسٹ اور تحقیق کے سربراہ مصنف پیبلو کروز-موریلز کا کہنا تھا کہ کیمسٹری میں ہر چیز جس کو بننے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے جب ٹوٹتی ہے تو توانائی خارج ہوتی ہے۔

جیٹ طیاروں کا ایندھن جب جلتا ہے تو بڑی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے سائنس دانوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہوتی اگر روایتی ایندھن پر انحصار کیے بغیر اس عمل کے نقل کرنے کا طریقہ سامنے آتا۔

کروز-موریلز تک یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کیمیکل انجینئر جے کیزلنگ نے رسائی حاصل کی جن کے پاس جوسامائیسِن نامی مالیکیول کو دوبارہ بنانے کا خیال تھا۔ یہ مالیکیول اسٹریپٹومائیسز نامی ایک عام بیکٹیریا سے بنایا جاتا ہے۔

محققین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قدرت میں یہ طریقہ پہلے سے موجود ہے۔ کیوں کہ یہ بیکٹریا چینی یا امائینو ایسڈز کھاتے ہیں، جو ان کو توڑ کر کاربن-ٹو-کاربن بلاکس میں بدل دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جسم میں چکنائی اسی طریقے سے بنتی ہے لیکن اس بیکٹیریائی عمل میں کچھ بہت دلچسپ پیچ و خم ہیں۔ انہی پیچ و خم کی وجہ سے یہ مالیکیول اس قابل ہوتے ہیں کہ دھماکے دار توانائی سے پھٹ سکیں۔
https://www.express.pk/story/2343936/508/


بیجنگ: چین کی سِنگوا یونیورسٹی کے سائنس دان بیماریوں کی تشخیص کے لیے ایسی تکینیک پر کام کر رہے ہیں جس سے سانس، پسینہ، آنسو اور جسم سے خارج ہونے والے دیگر موادمیں موجود کیمیائی مادوں کو سونگھ بیماریوں کا پتہ لگایا جا سکے گا۔

جب بھی کسی پرفیوم یا پھول کی خوشبو کو سونگھا جاتا ہے یا سانس کے ذریعے آلودگی ناک میں جاتی ہے تو در اصل جسم غیر مستحکم حیاتیاتی مرکبات کو محسوس کررہا ہوتا ہے۔ یہ مرکبات وہ کیمیکل ہوتے ہیں جن کا نقطہ ابال کم ہوتا ہے لہٰذا وہ جلدی بخارات بن جاتے ہیں۔

تمام حیاتیاتی اشیا متعدد مقاصد کے لیے قصداً یہ مرکبات خارج کرتے ہیں جن میں دفاع، مواصلات اور افزائشِ نسل جیسے امور شامل ہیں۔ لیکن یہ مرکبات تمام حیاتیاتی عملیات کے طور پر ویسے بھی خارج ہوتے رہتے ہیں جس میں بیماری کی شناخت شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر بیماری کا ایک مخصوص مرکب ہوتا ہے جو اس کی تشخیص کا سبب بن سکتا ہے۔

بیماریوں سے متعلق یہ مرکبات لوگوں کو اپنے حوالے سے علم ہونے سے کافی عرصہ پہلے سے خارج ہو رہے ہوتے ہیں۔ مرکبات کا یہ اخراج ڈاکٹروں کی جانب سے بلڈ ٹیسٹ یا دیگر تشخیصی تکنیک کے استعمال سے پہلے بھی ہورہا ہوتا ہیں۔

وولیٹولومکس نامی اس خیال کو لیبارٹری سے مارکیٹ تک لانے میں کئی ایسے شعبہ جات کو اکٹھا کام کرنا ہوگا جو آپس میں زرا سی بھی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔

کئی بڑی بیماریوں کی تشخیص جتنی جلدی ہوجائے ان کا علاج اتنا آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر محققین اور معالجین مل کر مختلف بیمایوں کے مخصوص مرکبات کی درجہ بندی کرلیں اور انجینئرز ایسے آلات بنا لیں جو فوری طور پر ان مخصوص علامات کی شناخت کرلیں تو یہ ممکنہ طور پر طب کے شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے۔

سونگھ کر بیماری کی تشخیص کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ موجودہ تشخیص کی تکنیکوں سے مریضوں کو ہونے والی تکالیف سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2343434/9812/


لندن: ہمارے خون میں موجود کئی اجزا میں سے ایک سیرم بھی ہے جو جسے لوتھڑے نہ بنانے والا پلازمہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں موجود بعض اجزا گٹھیا جیسے مرض کی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ بایومارکرز سائٹوکائن ہیں جو خون میں اس وقت زیادہ ہوجاتے ہیں جب مریض تیزی سے جوڑوں کے درد کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے اوراسطرح چھ ماہ قبل ہی اس کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ سائٹوکائن پہلے ہی مریضوں میں ری ایکٹو آرتھرائٹس(آرای اے) کی پیشگوئی کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ اب نئی تحقیق میں ڈاکٹروں نے آرتھرائٹس (گٹھیا) اور آرای اے کے 307 مریضوں کو شامل کیا اور ساتھ ہی 76 تندرست افراد کو بھی شامل کیا۔ ان میں سے سب افراد کا تعلق امریکی افواج سے تھا۔

اس تحقیق کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں آر اے کی پیشگوئی کا ماڈل بنایا گیا اور دوسرے مرحلے میں نتائج سے اس ماڈل کی تردید یا تصدیق کی گئی۔ اس دوران چار مرتبہ مختلف اوقات میں تمام افراد کا سیرم نکالا گیا اور اس کا تجزیہ کیا گیا۔ ان میں سے ایک مرتبہ مرض کی تشخیص سے بالکل پہلے، اور باقی مختلف اوقات میں لیے گئے تھے۔ ماہرین نے بالخصوص تمام شرکا میں اے سی پی اے کو نوٹ کیا جو خون میں موجود ایک اینٹی باڈی ہے۔

ماہرین نے دیکھا کہ آگے چل کر جو افراد گٹھیا کے مریض بنے ان کے خون میں اے سی پی اے کی مقدار معمول سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور پروٹین ایس ڈی پی ون بھی بڑھا ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی کمی بیشی سے مریضوں میں جوڑوں کے درد کی دو اقسام یعنی اراے اور آرای اے کا بھی فرق درستگی سے بتایا گیا۔

مجموعی طور پر یہ ٹیسٹ 69 فیصد حساس ثابت ہوا اور چھ ماہ سے پہلے ہی بتادیا کہ فلاں مریض اس تکلیف دہ مرض کا شکار ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2343560/9812/


الینوئے: سائنسدانوں نے درد کم کرنے کا ایک انوکھا طریقہ وضع کیا ہے۔ انہوں نے ازخود گھل کر ختم ہونے والا ایک بایوڈگریڈیبل امپلانٹ (پیوند) بنایا ہے جو بدن کے اندر نسیجوں اور اعصاب کو دس درجے سینٹی گریڈ تک سرد کرکے درد کو کم کرسکتا ہے۔

چوہوں پر آزمائش کے دوران قابلِ حل پیوند کے دماغ تک جانے والے درد کے سگنل کو کمزور کیا اور یوں ان کی تکلیف کم ہوئی۔ اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جسم میں گھل کر ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک خردمائع (مائیکروفلوئڈ) اور برقی نظام ہے جو اپنے عمل کے دوران رگوں اور شریانوں کا درجہ حرارت بھی نوٹ کرتا ہے۔

دیکھنے میں یہ ایک لچکدار پٹی ہے جس میں چھوٹی نالیاں بنی ہیں جن کے اندر کیمیائی اجزا بہتے رہتے ہیں۔ عام زندگی میں درد اور چوٹ کی صورت میں برف رگڑنے سے درد کم ہوتا ہے اور اسی عمل کو سائنسدانوں نے جسم کے اندر آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ آلہ اندر جاکر دس درجے سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کم کرسکتا ہے جس سے دماغ کے درد کے برقی سگنل کم ہوتے جاتے ہیں۔ موافق مٹیریئل سے تیار پیوند مکمل طور پر جسم میں ہی گھل جاتا ہے۔

اگرچہ ہمارے پاس درد کش ادویہ موجود ہیں لیکن ان کے مضر اثرات ہوتے ہیں اور وہ اپنی افادیت کھودیتی ہیں۔ درد کم کرنے کے لیے برف کا ٹکور بھی مفید ہے لیکن اسے ہربار استعمال کرنے سے جلد متاثر ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جان راجرز اور ان کے ساتھیوں نے یہ پیوند بنایا ہے۔

پیوند کی باریک نالیوں میں بے ضرر نائٹروجن گیس اور پرفلوروپینٹین (پی ایف پی) بھرا گیا ہے جو الگ الگ بہتی ہیں اور آگے چل کر دونوں مل جاتی ہیں۔ ایک مقام پر پی ایف پی اڑجاتی ہے اورعملِ تبخیر سے ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔ اس کا ایک سرا کسی رگ کے گرد لپیٹا جاسکتا ہے اور دوسرے سرے پر پمپ ہوتا ہے جو دونوں اجزا اندر داخل کرتا رہتا ہے۔

چھ ماہ بعد پٹی والا پیوند گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2343478/9812/


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/07/03072022/p6-lhr030.jpg


واشنگٹن: لوگوں کو جہاں 12 جولائی کو 10 ارب ڈالرز کی لاگت سے بنی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی جانب سے جاری ہونے والی ابتدائی تصاویر کا انتظار ہے وہیں ہبل ٹیلی اسکوپ خلاء کی اتھاہ گہرائیوں کی ایک سے ایک شاندار تصاویر عکس بند کر رہی ہے۔

ناسا اور یورپی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ منصوبے ہبل ٹیلی اسکوپ نے شمالی آسمان میں اُرسا میجر نامی جھرمٹ، جو زمین سے 4 ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، جس میں موجود ابیل 1351 نامی کہکشاؤں کے جتھے کی وسیع تصویر عکس بند کی ہے۔

ہبل نے کائنات کی ابتدائی کہکشاؤں کی ریکارڈ ساز تصویر اپنا وائڈ فیلڈ کیمرا استعمال کرتے ہوئے عکس بند کی ہے۔ یہ کیمرا خلاء کی گہرائیوں کا سروے کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

الٹرا ڈیپ فیلڈ تصویر کی طرح ابیل 1351 تصویر میں موجود ہر شے ہی تقریباً ایک کہکشاں ہے، بشمول روشنیوں کی لمبی دھاریوں کے جو گریویٹیشنل لینسنگ کے عمل کی وجہ سے ایسی دِکھ رہی ہیں۔

کائنات کی مزید گہرائیوں میں جھانکنے کے لیے ماہرینِ فلکیات زمین سے قریب کہکشاؤں کے جتھوں کی کششِ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے دیگر کہکشاؤں اور فاصلے پر موجود اشیاء کی روشنی کو موڑیں گے اور بڑا کریں گے۔

ہبل کی ابیل 1351 متعدد بڑے کہکشاؤں کے جتھوں کی تصاویر میں سے ایک تصویر ہے جو ماہرینِ فلکیات کو کائنات کی کہکشاؤں کے ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لیے مدد دیتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2342899/508/


https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1109372344&Issue=NP_PEW&Date=20220702

No comments:

Post a Comment