تندروستی ہزار نعمت ہے - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Tuesday, 12 July 2022

تندروستی ہزار نعمت ہے


ماہرین کی جانب سے ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تمباکو نوشی چھوڑ دینے سے دل کی بیماری میں مبتلا افراد کی زندگی میں پانچ سال کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

یہ تحقیق جمعرات کو یورپی سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی 2022 کی سائنسی کانگریس کے دوران پیش کی گئی۔

محققین نے میٹنگ کے دوران ایک پریزنٹیشن میں کہا کہ یہ تحقیق ان فوائد سے قابلِ موازنہ ہے جو کم کثافت لیپو پروٹین (LDL) کی ادویات لینے سے ان مریضوں کو حاصل ہوتے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 45 سال یا اس سے زائد عمر کے بالغ افراد جو دل کا دورہ پڑنے، اسٹینٹ لگانے یا بائی پاس سرجری کروانے کے کم از کم چھ ماہ بعد بھی سگریٹ نوشی کر رہے ہوتے ہیں، اگر وہ یہ عادت ترک کردیں ان کی عمر میں 5 سال کا اضافہ ممکن ہے۔

دریں اثنا، محققین کے مطابق سگریٹ نوشی ترک کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں خراب کولیسٹرول (LDL) کو کم کرنے کے لیے تیار کی گئی ادویات معہ اضافی اینٹی سوزش دوا لی جائیں تو مریض کے ایامِ زندگی کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2307609/9812/


واشنگٹن: چند روز قبل خبر آئی تھی کہ بلیو بیری کھانے سے دماغ اور حافظہ بہترین رہتا ہے۔ اب ایک اور تحقیق سے یہ ننھا میٹھا پھل سپرفوڈ بن گیا ہے کہ اس سے ذیابیطس اور دیگر کیفیات کے زخم اور ناسور تیزی سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ زخم بھرنے کے لیے عین اس جگہ خون کی رگوں کا بننا اور سرگرمی بہت ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ خون دیگر اہم اجزا کو وہاں تک لاتا ہے اور کھال اور بافتیں بنتی ہیں ۔ اس عمل کو ویسکیولرائزیشن کہا جاتا ہے۔

ذیابیطس کے مریضوں کے پیر اور دیگر مقامات کے زخم اس وجہ سے ٹھیک نہیں ہوتے کہ خون کی نالیاں بننے کا عمل بہت سست ہوجاتا ہے۔ زخم ناسور میں ڈھل جاتا ہے اور بعض مرتبہ انفیکشن پھیلنے سے ہاتھ پیر کاٹنے کی نوبت پیش آتی ہے جو شمع حیات بھی بجھاسکتی ہے۔

بلیوبیری میں فینول نامی اینٹی آکسیڈنٹ اس ضمن میں جادوئی اثر رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مین نے ان کی آزمائش کی ہے اور دیکھا کہ فینول نامی مرکب زخموں پر خون کی رگیں بننے لگیں اور وہاں خلیات جمع ہوئے، جن کی بارک تہیں بنیں جو آخر کار کھال میں ڈھل گئیں۔ یہ تجربات انسانی آنول نال کے خلیات پر کئے گئے تھے۔

اس کے بعد یونیورسٹی آف مین کی پروفیسر ڈورتھی اور ان کے شریک سائنسدانوں نے ایک طرح کا جل والا مرہم بنایا جس میں بلیوبیری کے فینول ملائے گئے تھے۔ پھر انہیں چوہوں کے گہرے زخموں پر آزمایا گیا۔ اس طرح مرہم کے استعمال کے 6 دن کے اندر ہی اینڈوتھیلیئل خلیات یعنی باریک کھال بننے کا عمل شروع ہوگیا اور دیگر کے مقابلے میں زخم 12 فیصد تک تیزی سے بھرنے لگا۔ اس کے علاوہ خون کی باریک نالیاں بھی نمودار ہونے لگیں۔

اس طرح ثابت ہوا کہ جنگلی بلیوبیریوں میں موجود کیمیکلز بہت ہی مؤثر انداز میں زخموں کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ طریقہ جلنے کے گہرے زخم، پریشر السر اور ذیابیطس کے ناسوروں کو یکساں تیزی سے مندمل کرسکتا ہے۔ تاہم اگلے مرحلے پر اسے انسانوں پرآزمایا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2306779/9812/


بیتھیسڈا: یورپی ماہرین نے کہا ہے کہ اگرآپ اپنے قلب کو تندرست اور توانا رکھنا چاہتے ہیں تو پانی کی وافر مقدار کی عادت اپنائیں جو عمر بھر دل کو بہترین حالت میں رکھ سکتی ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور دیگر یورپی ممالک کے ماہرین نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ بالخصوص ہارٹ فیل کی کیفیت سے بچنا ہے تو پانی کے زائد استعمال کو اپنی عادت میں شامل کرلیں۔ اس کیفیت دل بتدریج کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہارٹ فیل میں دل میں خون پمپ کرنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے اور معمولاتِ زندگی شدید متاثر ہونے لگتے ہیں۔

یورپی ہارٹ جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق پوری زندگی مائعات بالخصوص پانی کا وافر استعمال مستقبل میں امراضِ قلب سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے قبل نمک کی کم مقدار کو بھی اسی زمرے میں شامل کیا گیا تھا لیکن اب امریکہ میں نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹس (این آئی ایچ) کی ماہرِ قلب نتالیا دمیتری وا نے اپنی تحقیق میں پانی کی کمی بیشی اور قبل کے پٹھوں (مسلز) کی سختی کے درمیان تعلق دریافت کیا ہے۔

انہوںنے 45 سے 66 سال کے 15000 مردوزن کا جائزہ لیا ہے جو 1987 سے 89 تک شریانوں کی سختی یعنی آرتھیوسکلیروسس کے خطرے سے دوچار افراد کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے 25 برس تک ان میں ہسپتال جانے اور طبی امداد کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

اس مطالعے میں تمام شرکا میں پانی پینے کی عادت کو بطورِ خاص شامل کیا گیا تھا۔ شروع میں کسی بھی فرد میں ذیابیطس، موٹاپے اور ہارٹ فیلیئر سمیت امراضِ قلب کے آثار نہ تھے۔ آگے چل کر کل 1366 یعنی 11 فیصد افراد دل کے کسی نہ کسی مرض میں گرفتار ہوگئے تھے۔

ایک جانب سے شرکا سے پانی پینے کے متعلق پوچھا گیا تو دوسری جانب جسم میں سیرم سوڈیئم کی پیمائش کی گئی کیونکہ پانی کم پینے سے جسم میں سوڈیئم کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور امراضِ قلب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جن میں ہارٹ فیل ہونا اور دل ک پٹھوں کے موٹا اور پتلا ہونے کے امراض شامل ہیں۔

معلوم ہوا کہ جن افراد میں درمیانی عمر میں سیرم سوڈیئم کی مقدار 135 تا 146 ملی ایکوی ویلنٹس فی لیٹر کی نارمل حد سے کم تھی ان میں دل کے امراض کا خطرہ بتدریج اتنا ہی زیادہ دیکھا گیا یعنی ایک فیصد سیرم سوڈیئم بڑھنے سے ہارٹ فیل کا خطرہ 5 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

پھر 70 سے 90 برس کے 5000 افراد کا بطورِ خاص مطالعہ کیا گیا تو درمیانی عمر میں اگر ان میں ملی ایکوی ویلنٹس فی لیٹر کی شرح 142.5 سے 143 تک رہی تو ان میں بائی وینٹریکل کی خرابی یا ہائپرٹروفی کا خطرہ 62 فیصد تک بڑھا ہوا دیکھا گیا۔ یہ تمام کیفیات دل کو کو کمزور کرتی ہے اور تندرست شخص کو ہارٹ فیل ہونے کی جانب دھکیلتی ہیں۔

اسی بنا پر ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ اگرآپ امراضِ قلب اور بالخصوص ہارٹ فیل سے بچنا چاہتے ہیں تو 40 سال عمر کے بعد سے ہی پانی کی مقدار بڑھادیں تاکہ اگلے عشروں تک آپ کا دل توانا رہ سکے۔
https://www.express.pk/story/2306060/9812/


فلاڈیلفیا: الائچی کا استعمال صدیوں سے مشرقی کھانوں کے علاوہ دواؤں میں بھی کیا جارہا ہے۔ اب امریکا میں ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ الائچی کے جزوِ خاص سے چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) ختم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

یہ جزو ’’کارڈیمونن‘‘ (Cardamonin) کہلاتا ہے جو الائچی کے علاوہ بھی کئی پودوں میں پایا جاتا ہے، البتہ الائچی میں اس کی مقدار قدرے زیادہ ہوتی ہے۔

کارڈیمونن پر یہ تحقیق فلوریڈا اے اینڈ ایم یونیورسٹی، ٹالاہاسی میں اسسٹنٹ پروفیسر پیٹریشیا مینڈونسا اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے جس میں بالترتیب افریقی اور یورپی نسلوں سے تعلق رکھنے والی امریکی خواتین سے چھاتی کے خلیات لیے گئے تھے۔

تحقیق کے دوران کارڈیمونن کو چھاتی کے سرطان کی ایک خطرناک قسم ’’ٹرپل نیگیٹیو‘‘ کے خلاف آزمایا گیا۔ چھاتی کا یہ سرطان ’’پی ڈی ایل 1‘‘ (PD-L1) کہلانے والے ایک جین میں ضرورت سے زیادہ سرگرمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کارڈیمونن کے استعمال سے ٹرپل نیگیٹیو بریسٹ کینسر کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی۔

البتہ، کارڈیمونن کی بدولت PD-L1 جین کی سرگرمی صرف یورپی نسل کی خواتین ہی میں کم ہوئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارڈیمونن کے اثرات مختلف نسلوں پر الگ طرح سے مرتب ہوتے ہیں۔

مذکورہ تحقیق کی تفصیلات فلاڈیلفیا میں منعقدہ ’’ایکسپیریمنٹل بائیالوجی 2022‘‘ کانفرنس میں گزشتہ روز پیش کی گئی ہیں۔

اسی کے ساتھ پیٹریشیا مینڈونسا نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے لہٰذا کینسر کے علاج میں الائچی کے استعمال کا کردار حتمی اور فیصلہ کن ہر گز نہ سمجھا جائے۔
https://www.express.pk/story/2306259/9812/


ہارورڈ: ایک تحقیق کے بعد بالخصوص خواتین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ ان کی عمر 50 کے عشرے میں ہیں اور وہ وسط عمر میں ہیں تو اینٹی بایوٹکس سے اجتناب کریں ورنہ آگے چل کر ان کی دماغی صلاحیت میں کمی ہوسکتی ہے اور وہ الزائیمر کی شکار بھی ہوسکتی ہیں۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول اور رش میڈیکل کالج نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ 50 کے عشرے کی عمر والی خواتین اس دوران اگر دوماہ تک بھی اینٹی بایوٹکس کھائیں تو سات برس بعد دیگر خواتین کے مقابلے میں ان کے معیاری اکتسابی ٹیسٹ میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق میں ماہرین نے دیگر اہم عوامل کو بھی سامنے رکھا ہے۔

اس ضمن میں 1989 میں 25 سے 42 سال کی 116,430 خواتین نرسوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ تمام خواتین سے ہر سال دو سوالنامے بھروائے گئے تھے۔ ان سے غذا، نیند، ورزش، امراض اور اینٹی بایوٹکس کے استعمال پر سوالات کئے گئے تھے۔ پھر 2009 میں خواتین کی اوسط عمر 57 ہوئی تو ان سے اینٹی بایوٹکس کے استعمال پر سوالات پوچھے گئے۔ اس میں اگلے چار برس تک سات درجوں کی اینٹی بایوٹکس ادویہ کے استعمال کا پوچھا گیا۔

ان میں سے اینٹی بایوٹکس کھانے والے خواتین کو سات برس بعد اکتساب اور دماغ کے کئی معیاراتی (اسٹینڈرڈ) ٹیسٹ سے گزارہ گیا۔ ان میں شارٹ ٹرم میموری، وژول لرننگ، توجہ ، پروسیسنگ اسپیڈ اور دیگر ٹیسٹ شامل تھے۔ ٹیسٹ کے وقت خواتین کی اوسط عمر 61 برس تھی۔

معلوم ہوا کہ جن خواتین نے صرف دو ماہ تک ایںٹی بایوٹکس کھائی ان کے جسم کے مقابلے میں دماغ 3 سے 4 برس زیادہ بوڑھا دیکھا گیا۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ جن خواتین نے وسط عمر ( مڈل ایج) میں اینٹی بایوٹکس کا زیادہ استعمال کیا ان میں الزائیمر کا خطرہ بھی بڑھا ہوا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں ’معدے اور دماغ‘ کا گہرا تعلق ہے کیونکہ اینٹی بایوٹکس پہلے نظامِ ہاضمہ میں جرثوموں کو بدلتی ہیں جس کا آگے چل کر اثر دماغ اور ذہنی صلاحیت پر پڑتا ہے۔

اگرچہ یہ تحقیق شائع ہوچکی ہے لیکن سائنسدانوں نے اس پر مزید تحقیق پر زوردیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2305142/9812/


ہارورڈ: اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے بے شمار فوائد سامنے آئے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ جادوئی فیٹی ایسڈ امیونوتھراپی اور اینٹی انفلمیٹری تھراپی کی تاثیر بھی بڑھاسکتا ہے جو کینسر کے مرض میں استعمال کی جاتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ امیونوتھراپی، کینسر کے تدارک کا ایک قدرے نیا طریقہ علاج ہے جس میں انسانی جسم کے اپنے ہی خلیات اور نظام سے کینسر کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

اب بوسٹن میں واقع ہارورڈ میڈیکل اسکول کے تحت بیتھ اسرائیل ڈیکونیس میڈیکل سینٹر کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں چوہے پر بعض تجربات کئے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امیونوتھراپی کے دوران اومیگا تھری سپلیمنٹ سے اس عمل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور علاج میں بہت بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔

اس سے قبل ماہرین زور دیتے رہے ہیں کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا باقاعدہ استعمال کئی طرح کے کینسر سے بھی بچاتا ہے۔ اس طرح فیٹی ایسڈ حفاظتی طب اور پرہیز میں نہایت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ انڈے، گوشت اور مچھلیوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کےعلاوہ اس کے سپلیمنٹ بھی دستیاب ہیں۔

ماہرین نے کئی چوہوں کو کینسر کے ابتدائی درجے میں بیمار کیا۔ اس کے بعد چوہوں کی امیونوتھراپی اور اینٹی انفلمیٹری تھراپی جاری رہی لیکن ساتھ ہی انہیں فیٹی ایسڈ کھلائے جاتے رہے تھے۔ اس طرح فیٹی ایسڈ نہ کھانے والے چوہوں کے مقابلے میں فیٹی ایسڈ استعمال کرنے والے چوہوں پر اس کے زبردست اثرات ہوئے اور دونوں اقسام کی تھراپیاں تیزی سے مؤثر ثابت ہوئیں۔
https://www.express.pk/story/2305183/9812/


نیویارک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی بچے دمے (ایستما) کے شکار ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات دمے کا دورہ شدید ہوکر جان لیوا بھی ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نے بالخصوص والدین کے لیے بعض اشارے فراہم کئے ہیں جنہیں جان کر وہ اپنے بچے کی جان بچاسکتے ہیں۔

رٹگرز یونیورسٹی میں امراضِ تنفس کے ماہر ڈاکٹر خلیل سوارے کہتے ہیں کہ امریکہ میں ہی ہزاروں بچےاور بڑے دمے کی کیفیت بگڑنے کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتےہیں اور شاید پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہوسکتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دمے کا مسلسل دورہ شدید ہوجاتا ہے اور ہسپتال تک آتے ہوئے وہ کارڈیئک اریسٹ میں بدل جاتا ہے۔ اس قسم کی موت میں ڈاکٹر دمے کو نظرانداز کرکے اس کا ذمے دار دل کے دورے کو قرار دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دمے کی شدت کو بالخصوص بچوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر خلیل سے دو اہم سوالات پوچھے گئے تھے:

سوال: دمے کے دورے کے متعلق کیا جاننا ضروری ہے؟

جواب: بعض والدین اپنے لختِ جگر بچوں کو دمے کے ہاتھوں مرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اے کاش وہ دمے کی مکمل معلومات رکھتے تاکہ یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔

وجہ یہ ہوتی ہے کہ دمے کا دورہ سانس کی نالی کو مکمل طور پر بند کردیتا ہے۔ مختلف افراد میں دورے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔ کبھی سردی، کبھی گردوغبار، الرجی، آلودگی، فضائی ذرات، کتے اور بلیوں سے بھی دمے کا دورہ لاحق ہوکر بگڑتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے قابوکرنا محال ہوجاتا ہے۔

الرجی کے موسم میں بچوں میں دمے کا دورہ بڑھ جاتا ہے۔ اس دوران خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ ماحول کی آلودگی سے دور رہیں۔

سوال: شدید اور بے قابو دمے کی علامات کیا ہوسکتی ہیں؟

جواب: ماہرین نے اس کی کچھ علامات بتائی ہیں جو یہ ہیں:

رات کے وسط میں دمے کا دورہ پڑنا۔ پھر مہینے میں کئی مرتبہ یہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ورزش کرتے یا دوڑتے ہوئے اگر بچے میں دمے کی کیفیت ہو تو سب کچھ ترک کرکے انہیں پرسکون رکھنے کی کوشش کی جائے۔

دوسری علامتوں میں مسلسل کھانسی جو ایک یا دو ہفتے بعد بھی دور نہ ہو تو وہ بھی شدید دمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ دیگر امراض بھی سر اٹھائیں تو فوری طور پر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جائے۔ دوسری جانب کھائی جانے والی ایسٹرائڈز سال میں ایک سے زائد مرتبہ دی جانی چاہئے۔

سوال: کن علامات میں بچے کو فوری ہسپتال لے جایا جائے؟

جواب: اگر بچے پر دوا اثر نہ کرتی ہوتو یہ سب سے اہم علامت ہے۔ یعنی البیوٹرول یا اسی قسم کی ادویہ 20 منٹ سے لے کر 2 گھنٹے کے وقفے تک لیا جائے اور اس سے افاقہ نہ ہو تو فوری طور پر ہسپتال جانا ضروری ہوجاتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دمے کی کیفیت میں طبیعیت مزید بگڑنے یا ایمرجنسی کا انتظار نہ کیا جائے اور ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔
https://www.express.pk/story/2304722/9812/


منی سوٹا: گہری اور پرسکون نیند جسم کے لیے شفا کا درجہ رکھتی ہے لیکن نیند کی خرابی سے کئی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ تازہ تحقیق کے مطابق اب خراب اور ناکافی نیند آپ کو فربہ کرتے ہوئے توند کی چربی بڑھاسکتی ہے۔

اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا سروے ہے لیکن اس سے خراب نیند اور بڑھتی چربی کے درمیان واضح تعلق کا انکشاف ہوا ہے۔ منی سوٹا میں واقع مشہور طبی ادارے مایو کلینک نے یہ مطالعہ کیا ہے۔

کل 12 افراد کو اس جائزے میں شامل کیا گیا تھا جو مکمل طور پر تندرست تھے۔ ان لوگوں میں طبی طور پر موٹاپے کے بھی کوئی آثار نہ تھے۔ تمام افراد کا 21 روز یا تین ہفتوں تک جائزہ لیا گیا اور معلوم ہوا ہے کہ نیند کی کمی اور پہلو بدلتے ہوئے گزاری گئی رات سے جسم میں چربی بڑھنے کا رجحان 9 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ پورے بدن پر محیط ہوسکتا ہے جبکہ بدن کےاعضا مثلاً جگر اور آنتوں کے گرد جمع ہونے والے چھپی ہوئی یا وسسرل فیٹ بڑھنے کا خدشہ 11 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

دوسری قسم کی چکنائی نہ صرف اعضا کو متاثر کرتی ہے بلکہ امراضِ قلب اور میٹابولک بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ نیند کی کمی کے منفی اثرات ایک جانب تو جسمانی چکنائیوں کو بڑھاتے ہیں تو دوسری جانب وہ بدن کی گہرائیوں میں نفوذ کرنے لگتی ہیں۔ ان میں سے سب خوفناک بات یہ ہے کہ یہ چربی موٹاپا بڑھاتی ہے اور توند میں اضافہ کرتی ہے۔

سائنسدانوں نے رضاکاروں کو دو گروہوں میں تقیسم کیا۔ ان میں سے ایک کو نو گھنٹے کی مکمل نیند دی گئی اور دوسرے کو صرف چار گھنٹے ہی سونے دیا گیا۔ اس سے قبل دونوں گروپ کا تفصیلی طبی معائنہ کیا گیا تھا۔ مطالعے کے دو ہفتے بعد دوبارہ ان کا طبی معائنہ کیا گیا اور تین ماہ بعد گروپ اراکین کا تبادلہ کرکے انہیں دوسری کیفیات سے گزار گیا۔ یعنی کم نیند والے افراد مکمل نیند والے گروپ کا حصہ بنیں اور اسی طرح یہ عمل دوسرے گروپ پر بھی آزمایا گیا۔

ماہرین کے مطابق کم نیند والے افراد میں کھانے کا رحجان بڑھا یعنی وہ 300 زائد کیلوریز اضافی استعمال کرنے لگے۔ وہ 13 فیصد زائد پروٹین اور 17 فیصد زائد چکنائیاں کھانے لگے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے چھپی ہوئی چربی کی مقدار بڑھنے لگی اور توند میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

دوسری جانب گہری اور مکمل نیند دماغی صلاحیت، یادداشت اور فیصلہ سازی کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خراب نیند ڈیمنشیا اور الزائیمر کی وجہ بن سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2304286/9812/


بیلجیئم: ایک عالمی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ رنگ گورا کرنے والی کریموں اور دیگر مصنوعات کی بڑی تعداد میں پارے (مرکری) کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ پارے (مرکری) کو ’’سیال چاندی‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام درجہ حرارت پر مائع حالت میں ہوتا ہے۔

تھرمامیٹر سے لے کر دندان سازی، اور برقی آلات سے لے کر حسن افزاء مصنوعات (کاسمیٹکس) تک، سیکڑوں مصنوعات و آلات میں مرکری کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن ہر شعبے میں پارے کے استعمال کی محفوظ حدود متعین ہیں جن کے حوالے سے عالمی قوانین بھی موجود ہیں۔

کاسمیٹک مصنوعات میں پارے کی ’’محفوظ مقدار‘‘ ایک حصہ فی دس لاکھ (1 پی پی ایم) یا اس سے کم قرار دی جاتی ہے؛ لیکن 17 ممالک میں کی گئی تازہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ رنگ گورا کرنے والی 48 فیصد مصنوعات میں پارے کی مقدار اس محفوظ حد سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ مصنوعات ایمیزون اور ای بے سمیت، دنیا کے تقریباً تمام بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں جو امریکا سے آسٹریلیا تک 100 سے زیادہ ممالک میں خریدی جارہی ہیں۔

یہ تحقیقی رپورٹ پارے کی آلودگی کے خاتمے پر کام کرنے والے عالمی ادارے ’’زیرو مرکری ورکنگ گروپ‘‘ نے مختلف ملکوں میں غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون و اشتراک سے شائع کی ہے۔

تحقیق کی غرض سے ایمیزون، ای بے اور علی ایکسپریس سمیت 40 ای کامرس پلیٹ فارمز سے رنگ گورا کرنے والی 271 مصنوعات خرید کر ان کا الگ الگ تجزیہ کیا گیا۔

تجزیئے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے 129 مصنوعات میں پارے کی مقدار 1 پی پی ایم کی محفوظ حد سے کہیں زیادہ تھی۔

رپورٹ میں ایک اور تشویشناک انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ زیادہ مرکری والی 43 فیصد مصنوعات یا تو پاکستان میں تیار شدہ ہیں یا پھر ان کی پیکنگ پاکستان میں کی گئی ہے۔

ان میں رنگ گورا کرنے والی کچھ مشہور پاکستانی کریموں اور دوسری متعلقہ مصنوعات کے نام بھی شامل ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ رنگ گورا کرنے والی ان مصنوعات میں مرکری کا تناسب محفوظ حد سے بھی ہزاروں گنا زیادہ دیکھا گیا لیکن، حیرت انگیز طور پر، یہ مصنوعات درجنوں ممالک میں ای کامرس پلیٹ فارمز کے توسط سے بلا روک ٹوک دستیاب بھی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2304059/9812/


ٹیکساس: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پانی میں موجود پلاسٹک کے نہایت باریک ذرات (مائیکروپلاسٹک) صاف کرنے کےلیے بھنڈی میں شامل کچھ اہم اجزاء بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

بھنڈی کے لیس میں ’’پولی سکرائیڈز‘‘ کہلانے والے ’’چپکو مادّوں‘‘ کا حصہ زیادہ ہوتا ہے جن کی وجہ سے کئی لوگ بھنڈی کھانا پسند نہیں کرتے۔ لیکن یہی مادّے پانی میں موجود مائیکروپلاسٹک کے ساتھ چپک کر اسے پانی سے الگ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ عالمی آلودگی میں مائیکروپلاسٹک ایک نیا نام ہے جس کے ممکنہ نقصانات پر تحقیق ابھی جاری ہے۔ تاہم پھر بھی ماحولیاتی ماہرین کو اس بارے میں خاصی تشویش ہے کیونکہ حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ مائیکروپلاسٹک ہمارے خون میں بھی شامل ہونے لگا ہے۔

پانی سے مائیکروپلاسٹک کی صفائی کوئی آسان کام نہیں۔ اس مقصد کےلیے اب تک کچھ مادّے ضرور ہمارے علم میں آچکے ہیں لیکن وہ سب کے سب ممکنہ طور پر زہریلے اثرات کے حامل ہیں۔

ان کے بے ضرر اور قدرتی متبادل کی تلاش میں ٹارلیٹن اسٹیٹ یونیورسٹی ٹیکساس کی ڈاکٹر رجنی سری نواسن اور ان کے ساتھی مختلف پودوں پر تحقیق کررہے تھے، جس دوران انہیں بھنڈی کے لیس میں شامل پولی سکرائیڈز کی غیرمعمولی صلاحیت کا علم ہوا۔

میتھی اور املی میں بھی پولی سکرائیڈز ہوتے ہیں جنہیں بھنڈی کے لیس والے پولی سکرائیڈز کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا تو پانی سے مائیکروپلاسٹک کی صفائی اور بھی بہتر ہوگئی۔

اس تحقیق کی تفصیل گزشتہ دنوں امریکن کیمیکل سوسائٹی کے اجلاس ’’اے سی ایس اسپرنگ 2022‘‘ میں پیش کی گئی ہے۔

یہ اجلاس 21 مارچ سے 24 مارچ تک سان ڈیاگو میں منعقد ہوا جس میں دنیا بھر کے 2000 سے زائد کیمیائی ماہرین بذاتِ خود یا بذریعہ انٹرنیٹ شریک ہوئے۔

بتاتے چلیں کہ پلاسٹک کے وہ ٹکڑے جن کی جسامت 5 ملی میٹر یا اس سے کم ہو، انہیں ’’مائیکروپلاسٹک‘‘ کہا جاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2303651/508/


نارتھ کیرولینا: ماہرین کا ایک بڑا طبقہ اب اس موضوع کو سائنس کے دائرے میں لے کر آرہا ہے جسے سائنس کا مخالف سمجھا جاتا رہا تھا اور وہ ہے روحانیت یا روحانی تجربات۔ بعض تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ خدا پر بھروسہ روحانیت بہت سے امراض میں انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اب ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہارٹ فیل یا دل کی بتدریج کمزوری کے شکار افراد میں روحانیت معیارِ زندگی بڑھا سکتی ہے۔

جے ای سی سی ہارٹ فیلیئر نامی ایک جرنل میں ایک تجزیاتی (سنتھے سز) رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روحانیت سے ہارٹ فیل میں مبتلا مریضوں کا معیارِ زندگی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ روحانی عمل کو ایسے مریضوں کے علاج کا حصہ بنا کر انفرادی مریضوں کے لیے بہت فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی ہسپتال کی ڈاکٹر ریشل ایس ٹوبن نے کہا ہے کہ ہارٹ فیل کے مریضوں کی زندگی دیگر افراد کے مقابلے میں بہت مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ دل میں خون پمپ کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے اور معمولاتِ زندگی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ مریض ناامید ہوجاتے ہیں، تنہائی پسند ہوجاتے ہیں اور خود اپنی نظروں میں بے وقعت ہونے لگتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی کالج برائے کارڈیالوجی کے ماہرین ایک عرصے سے کہہ رہے کہ دل کے مریضوں کو ان کے دینی عقائد کے لحاظ سے اللہ سے امید دلائی جائے۔ اس سے انہیں ڈھارس اور امید پیدا ہوتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں تحقیق کا فقدان ہے اور دوسری جانب روحانیت ناپنے کا کوئی پیمانہ بھی ہمارے پاس موجود نہیں۔

سائنسدانوں نے مطابق روحانی تجربات اور واقعات بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کونسا شخص روحانی طور پر کتنا باشعور اور مضبوط ہے۔ سائنسداں اسے بھی سائنسی پیمانوں پر ناپنا چاہتے ہیں لیکن اس وقت ہمارے پاس اس کا کوئی معیار موجود نہیں۔

تاہم تجزیاتی تحقیق میں کل 47 تحقیقی مقالات اور سروے کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن ان میں بعض سائنسدانوں نے کچھ آلات کا ذکر بھی کیا ہے جن کی تعداد 10 کے قریب ہے۔ ان آلات کے متعلق کہا گیا ہے کہ کسی نہ کسی سطح کی روحانیت کی پیمائش کرسکتے ہیں۔

تاہم بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر کسی آلے سے پیمائش ممکن نہیں تو روحانیت میں انسان مادی وسائل کےعلاوہ بھی خدا سے تعلق جوڑتا ہے، وہ زندگی کا واضح مقصد پاتا ہے اور اپنی قدر کرتا ہے۔ لیکن خدا پر نہ رکھنے والے افراد پر اپنی زندگی کا مقصد اور جینے کی امنگ پاکر خود کو بہتر بناسکتے ہیں۔

روحانی اقدار،خوش کلامی، حوصلہ افزائی اور دیگر طریقوں کو استعمال پر مبنی یہ طریقہ علاج پالیاٹو تھراپی کہلاتا ہے۔ اس کے طبی سوالنامے اور معیارات بن چکے ہیں۔

ایک سروے میں 12 ہفتوں تک ای میل پر ان مریضوں سے سوالنامے بھروائے گئے جن میں روحانیت سے مدد حاصل کرنے کا کہاگیا تھا۔ 85 فیصد شرکا نے بامعنی زندگی، خدا پر بھروسے اور روحانیت سے مدد کی تھراپی کو مفید قرار دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے ڈپریشن میں کمی ہوئی ہے اور انہیں سکون ملا ہے۔ تاہم اس تجربے میں مشکل سے 40 سے 50 ایسے مریض شامل تھے جو ہارٹ فیل کے شکار تھے۔

اس طرح روحانی تجربے سے مرض کی تکلیف اور نفسیاتی منفی اثرات ختم کرنے کا ایک اور ثبوت سامنے آیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2303733/9812/


مصنوعی مٹھاس میں بہت کم کیلوریز ہوتی ہیں اس لیے انہیں اکثر کھانے اور مشروبات میں اس خیال سے شامل کیا جاتا ہے کہ وہ وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ان کا استعمال ٹوتھ پیسٹ، ٹافیوں اور چیونگم میں بھی کیا جاتا ہے تاکہ دانتوں کی خرابی سے بچا جاسکے۔

لوگوں کا عام طور پر خیال ہے کہ مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے جبکہ 100,000 سے زائد فرانسیسی بالغوں پر کے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں یہ مصنوعی مٹھاس ہمارے لیے اتنی مفید نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔

یہ مطالعہ جسے فرانسیسی نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ اور سوبورن پیرس نورڈ یونی ورسٹی کے شارلیٹ ڈیبراس ، میتھلڈ ٹوویئر اور ان کے ساتھیوں نے کیا ہے، نے مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان ربط پایا ہے۔

انہوں نے 102,865 فرانسیسی بالغوں کا تجزیہ کیا جنہوں نے مطالعہ میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ مطالعہ سے پہلے لوگوں نے اپنی طبی تاریخ کے ساتھ ساتھ سماجی آبادیاتی خوراک، طرز زندگی اور طبی معاملات کا ڈیٹا بھی فراہم کیا۔

شرکاء کے 24 گھنٹے کے غذائی ریکارڈوز سے مصنوعی شکر کے استعمال کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئیں۔ فالو اپ کے دوران میڈیکل ٹیم نے کینسر کی تشخیص کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور اس کا تجزیہ کیا کہ آیا مصنوعی مٹھاس کے استعمال اور کینسر کے خطرے کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں؟۔

ٹوویئر، ڈیبراس اور ہیلتھ لائن کے ایک مشترکہ بیان میں ماہرین نے کہا کہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کا باقاعدہ استعمال کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹیم نے خاص طور پر چھاتی کے کینسر اور موٹاپے سے تعلق رکھنے والے کینسر کے ایک گروپ کے بڑھتے ہوئے خطرات کو بھی پایا بشمول کولوریکٹل (آنت) اور پروسٹیٹ کینسر۔
https://www.express.pk/story/2302520


روزانہ اس مشروب کے 3کپ پئیں اور لمبی عمر پائیں
Mar 25, 2022 | 18:42:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)

کنبرا(مانیٹرنگ ڈیسک) نئی تحقیق میں آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے کافی کا ایک ایساحیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر اس کے شوقین خوش ہو جائیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق آسٹریلوی شہر میلبرن کے بیکر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین نے بتایا ہے کہ جو لوگ روزانہ 3کپ کافی پیتے ہیں، ان کی عمر دوسروں کی نسبت زیادہ طویل ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی قبل از وقت موت ہونے کا خطرہ 12فیصد کم ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کودل کی بیماریاں لاحق ہونے کا امکان 17فیصد کم ہوتا ہے۔

بیکر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں3لاکھ82ہزار سے زائد لوگوں کا ڈیٹا حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے اور نتائج مرتب کیے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر پیٹرکسٹلرکا کہنا تھا کہ تحقیق میں شامل جن لوگوں کی خوراک میں روزانہ تین یا اس سے زائد کپ کافی شامل تھی، آئندہ سالوں میں ان کی صحت دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر رہی۔ ان کو دل اور دوران خون کی بیماریاں بہت کم لاحق ہوئیں جس کے نتیجے میں ایسے لوگوں میں ہارٹ اٹیک، سٹروک اور دیگر ایسی بیماریوں کی شرح بھی کم دیکھی گئی
https://dailypakistan.com.pk/25-Mar-2022/1418745?fbclid=IwAR1j5MB76QKJpnZQapSqgCixf2xi4Qk4FuUP9H-2AOpHv9BK-2X1vyKu_Gc


جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باعث جسم پر جلن پیدا کرنے والے نشانات بھی بن سکتے ہیں اور آپ کے پیروں میں سوزش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بدل جاتا ہے۔

ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی علامات یہ ہیں :

سر چکرانا

بے ہوش ہونا

الجھن کا شکار ہونا

متلی آنا

پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرنا

سر میں درد ہونا

شدید پسینہ آنا

تھکاوٹ محسوس کرنا

اگر فشارِ خون بہت زیادہ حد تک گر جائے تو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہمارا جسم یہ ردِ عمل کیوں دیتے ہیں؟

چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔

ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے۔ پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ سننے میں یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے۔

یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر گھٹا دیتی ہیں اور ہمارے دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اگر بلڈ پریشر کافی کم ہو جائے تو جسم کے ان اعضا کو کم خون پہنچے گا جنھیں اس کی بہت ضرورت ہے اور دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

اگر کسی کو لو لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

اگر جسم کا درجہ حرارت آدھے گھنٹے میں کم ہو جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ برطانوی ادارہ نیشنل ہیلتھ سروسز تجویز کرتا ہے کہ:

٭ لو سے متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ منتقل کریں۔

٭ اسے لٹائیں اور اْس کے پاؤں کو ہلکا سا اوپر کریں۔

٭ اسے زیادہ مقدار میں پانی پلائیں، یا ری ہائڈریشن ڈرنکس یا مشروبات بھی دیے جا سکتے ہیں۔

٭ متاثرہ شخص کی جلد کو ٹھنڈا کریں، ٹھنڈے پانی کی مدد سے اس پر سپرے کریں اور پنکھے کی ہوا لگنے دیں۔ بغل اور گردن کے پاس آئس پیک یا برف بھی رکھی جا سکتی ہے۔

تاہم اگر متاثرہ شخص 30 منٹ کے اندر اندر بہتر محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے اسے ہیٹ سٹروک ہو گیا ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اور ایسے میں آپ کو فوراً طبّی عملے کو فون کرنا چاہیے۔

ہیٹ سٹروک کا شکار ہونے والے افراد کو گرمی لگنے کے باوجود پسینہ آنا بند ہو سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کے جسم کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کے بعد وہ بے ہوش ہو سکتا ہے یا دورے پڑ سکتے ہیں۔

کس کو زیادہ خطرہ ہے؟

صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن بعض لوگوں کو لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کی بیماری جیسے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ذیابطیس 1 اور 2 کی وجہ سے جسم تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے شریانیں اور پسینہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح بے گھر افراد کو سورج کی تپش زیادہ محسوس ہو گی اور فلیٹ میں سب سے اوپر رہنے والے لوگوں کو بھی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کیا کچھ ادویات کا استعمال اس دوران نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے؟

جی ہاں ! تاہم لوگوں کو معمول کے مطابق اپنی ادویات لینے کی ضرورت ہے اور اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔

ڈیوریٹکس جنھیں ’ واٹر پلز‘ بھی کہا جاتا ہے، جسم سے پانی کے اخراج میں اضافہ کرتی ہیں۔ انھیں دل کے عارضے میں مبتلا افراد استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت میں ان ادویات کے باعث جسم میں پانی کی کمی اور منرلز کا توازن خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اینٹی ہائپرٹینسو ادویات جو فشار خون میں کمی کا باعث بنتی ہیں وہ ان خون کی نالیوں کو جوڑ دیتی ہیں جو گرمی سے مقابلہ کرنے کے لیے پھول جاتی ہیں اور فشار خون میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ بنتی ہیں۔

مرگی اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے باعث پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے جو جسم کو ٹھنڈا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

یہ ادویات جسم میں لتھیئم اور سٹیٹنز بھی شامل ہوتا ہے یہ خون میں اپنی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔

کیا گرمی سے موت واقع ہو سکتی ہے؟

جی ہاں ۔ صرف انگلینڈ میں ہر سال2000 افراد زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دل کا دورہ پڑنے اور سٹروکس کے باعث ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ جسم اپنے درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

زیادہ اموات اس وقت واقع ہوتی ہیں جب درجہ حرارت 25-26 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات بہار یا موسمِ گرما کے آغاز میں ہوتی ہیں نہ کہ موسم گرما کے عروج پر۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہم گرمیوں کی آمد پر اپنے روز مرہ کے رویوں میں تبدیلی لانا شروع کر دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم گرمی برداشت کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہیٹ ویوز کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں اضافہ بہت جلدی ہوتا ہے، یعنی ہیٹ ویوز کے آغاز کے پہلے 24 گھنٹوں میں ہی۔

جسم کو ٹھنڈا کیسے رکھا جائے؟

اس بات کو یقینی بنائیں کے آپ زیادہ سے زیادہ پانی یا دودھ پی رہے ہیں ۔ چائے اور کافی پینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ تاہم زیادہ مقدار میں شراب پینے سے اجتناب کریں کیونکہ اس سے جسم میں پانی کی اچانک کمی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اگر آپ کے گھر کے باہر گرمی گھر کے اندر گرمی سے زیادہ ہے تو یہ بہتر ہو گا کہ آپ اپنے گھر کی کھڑکیاں بند رکھیں اور پردے بند رکھیں۔ ( بشکریہ بی بی سی )
https://www.express.pk/story/2301305/9812/


امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان کک بینیٹ نے 1830 میں ٹماٹو کیچپ کے لیے دوا کا ایک نسخہ تیار کیا۔

ڈاکٹر بینیٹ نے اپنے تیار کردہ کیچپ کی تشہیر ایک ایسی دوا کے طور پر کی جس سے اسہال، یرقان، بدہضمی اور گٹھیا کا علاج ممکن تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹر بینیٹ نے وسیع پیمانے پر ٹماٹو کیچپ کی ترکیبیں شائع کرنا شروع کردیں، جنہیں پھر گولیوں کی شکل میں بھی مرکوز کر کے ملک بھر میں ایک موثر دوا کے طور پر فروخت کیا گیا۔


ڈاکٹر جان کک بینیٹ کی ایک تصویر

پہلے کیچپ مچھلی یا مشروم کا مرکب ہوتا تھا لیکن بعد میں ڈاکٹر بینیٹ نے کیچپ میں ٹماٹر شامل کیے۔ ٹماٹر کے اضافے کا مقصد وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار کو اس میں شامل کرنا تھا۔

آج جو ہم کیچپ کو کئی ڈشز کے ساتھ ایک لوازم کے طور پر جانتے ہیں، 19ویں صدی کے آخر تک اس کی یہ وجہِ مقبولیت نہیں تھی۔
https://www.express.pk/story/2301669/509/


کوپن ہیگن: ورزش اور جسمانی مشقت کے فوائد سامنے آتے رہتے ہیں اور اب معلوم ہوا کہ ورزش کی دیرینہ عادت سے انسانی جسم کے انتہائی اہم خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) کی تعداد بہت اچھی طرح برقرار رہتی ہے۔

ڈاکٹر اور ماہرین ورزش اور جسمانی فوائد گنواتے رہے ہیں لیکن اب بھی طویل عرصے کی ورزش کے جسمانی اثرات سے ہم واقف نہ تھے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ورزش سے عضلات اور پٹھوں میں موجود اسٹیم سیل کی تعداد برقرار رہتی ہے جس کے تحت پٹھے طویل عرصے تک توانا اور جوان رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسٹیم سیل وہ ہرفن مولا خلیات ہوتے ہیں جو کئی اقسام کے خلیات، پھر ٹشو (بافت) اور اعضا میں ڈھل سکتے ہیں۔ یہ خود کو نیا کرتے رہتے ہیں اور شدید چوٹ یا زخم کے اثرات کو بھی مندمل کرتے ہیں۔ دوسری جانب اعصابی اور رگوں کی کمزوری اور انحطاط بھی روک سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جامعہ کوپن ہیگن نے باقاعدہ کچھ تجربات کیے ہیں۔

تحقیق میں 46 افراد کو شامل کیا گیا جنہیں تین درجوں میں بانٹا گیا تھا۔ اول جوان لیکن ورزش سے دور، دوم بوڑھے لیکن زندگی بھر ورزش اور جسمانی سرگرمی کرنے والے اور تیسرا گروہ ورزش نہ کرنے والے بوڑھے افراد کا تھا۔ سائنسدانوں نے ان تمام افراد کے بازو اور رانوں سے پٹھوں کے نمونے بایوپسی کے لیے جمع کیے۔

معلوم ہوا کہ عمربھرکی ورزش سے عضلات کے پٹھوں اور ریشوں میں اسٹیم سیل کی بڑی مقدار دیکھی گئی۔ یعنی مسلسل ورزش کے اچھے اثرات جسمانی عضو اور بایوپسی میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بوڑھے اور عمررسیدہ افراد اس سے فوائد سمیٹ سکتے ہیں کیونکہ دیرینہ ورزش کی عادت خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو اس کے بہت فوائد تاحیات برقرار رہتے ہیں۔

اگرچہ اس مطالعے میں لوگوں کی تعداد بہت محدود ہے لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ اس کی شماریاتی اہمیت اپنی جگہ قابلِ اعتبار ہے۔ اب ماہرین اس پر مزید تحقیق کریں گے۔
https://www.express.pk/story/2300882/9812/


لندن: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرخ بیریوں کی طرح کھٹا پھل کروندا (کرین بیری) دل کے لیے قدرت کا اتنہائی خوبصورت تحفہ ہے۔

کرین بیری کو سرخ گوندنی بھی کہا جاتا ہے جو بالخصوص مغرب میں ایک بہت طاقتور اور صحت بخش پھل تصور کی جاتی ہے۔ اب کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ 100 گرام کرین بیری کھانا دل کے لیے انتہائی مفید ہے کیونکہ اس سے قلب میں ایف ایم ڈی (فلو میڈیئٹیڈ ڈائلیشن) بہتر ہوتا ہے۔ خون کا بہاؤ بڑھنے پر نالیوں کا کشادہ ہونا ہی ایف ایم ڈی عمل کہلاتا ہے۔

سائنسدانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ کرین بیری کھانے کے دو گھنٹے بعد ہی قلب پر اس کے شاندار مثبت اثرات نمایاں ہوجاتے ہیں۔ یعنی کرین بیری کھانے کے 120 منٹ کے اندر اندر جسم میں ایف ایم ڈی کی کیفیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایف ایم ڈی پیمانے کو امراضِ قلب شناخت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

فوڈ اینڈ فنکشن نامی جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کروندے کھانے سے دل کو تقویت ملتی ہے اور یہ بنیادی طور پر دل کی شریانوں کو وسیع اور بہتر بناتی ہیں۔ اس سے دل کے مجموعی افعال بہتر ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کرین بیرین میں موجود کئی اقسام کے فلے وینوئڈز اور پولی فینولز پائے جاتے ہیں جو مجموعی طور پر جادوئی اثر رکھتے ہیں۔

اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر کرسچیان ہائیس ہیں جو یونیورسٹی آف سرے میں قلبی امور کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرین بیری کھانے کی عادت پورے بدن میں خون کی نالیوں اور رگوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں موجود کئی اقسام کے پولی فینولز ہی اس کو ممکن بناتے ہیں۔

ماہرین نے زور دیا ہے کہ وہ پھل اور سبزیوں کے زائد استعمال کا بھی مشورہ دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2301169/9812/


کراچی: رمضان میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں میں فالج کے کیس کم ہو جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ اکثر لوگوں کا تمباکو نوشی سے گریز، بہتر بلڈ پریشر اور شوگر کنٹرول اور روزہ رکھنے کے نتیجے میں کولیسٹرول کا کم ہونا ہے۔

معروف نیورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے کراچی میں جاری آٹھویں بین الاقوامی ڈائبیٹیز اینڈ رمضان کانفرنس 2022 کے دوسرے روز سائنٹیفک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے روزے رکھنے کے ذہنی اور اعصابی صحت کے لیے بے شمار فوائد ہیں اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ روزے رکھنے سے گھبراہٹ، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے، ادویات کے ساتھ ساتھ ساتھ روزے رکھنے سے شیزوفرینیا کے مرض میں بھی افاقہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روزہ مختلف اعصابی بیماریوں بشمول پارکنسنز اور الزئمرز سے بچاؤ میں بھی کافی حد تک معاونت فراہم کرتا ہے، روزہ رکھنے سے نیند بہتر ہوتی ہے جبکہ حال ہی میں کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کرونا کی وبا کے نتیجے میں جن لوگوں کی چکھنے کی حس متاثر ہوئی تھی انہیں روزے رکھنے سے فائدہ ہوا ہے۔

دو روزہ بین الاقوامی ڈائبیٹیز اینڈ رمضان کانفرنس بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی اور ڈائبٹیز اینڈ رمضان انٹرنیشنل لائسنس کے تعاون سے منعقد کی جارہی ہے اور اس کانفرنس سے ملکی اور بین الاقوامی ماہرین صحت بشمول پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر طاہر حسین، پروفیسر سعید مہر، ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر سیف الحق، پروفیسر زمان شیخ، ڈاکٹر بلال جمیل، ڈاکٹر مسرت ریاض، مفتی نجیب خان، ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر عبد الباسط، پروفیسر یعقوب احمدانی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گردوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بلال جمیل کا کہنا تھا کہ گردوں کی بیماری کا شکار ایسے مریض جنہیں دل کی بیماری بھی لاحق ہو انہیں روزے رکھنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن صرف گردوں کی بیماری میں مبتلا افراد اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزے رکھ سکتے ہیں۔

معروف فزیشن پروفیسر ڈاکٹر طاھر حسین کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران مختلف سائنٹیفک سیشنز میں پیش کیے گئے مقالوں سے ثابت ہوا ہے کہ دل، گردوں، ذیابطیس، بلڈ پریشر کی بیماریوں میں مبتلا افراد اور کسی حد تک حاملہ خواتین بھی روزے رکھ سکتی ہیں لیکن ایسے مریضوں کو رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے اپنے معالجین سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

معروف ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ شریعت کے مطابق ایسی حاملہ خواتین جنہیں روزہ رکھنے کے نتیجے میں اپنی صحت یا اپنے ہونے والے بچے کو کسی طرح کا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو انہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن چونکہ اکثر حاملہ خواتین روزہ رکھنے پر اصرار کرتی ہیں اس لیے انہیں اپنی گائناکالوجسٹ اور ماہر امراض ذیابطیس سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

معروف ماہر امراض ذیابطیس پروفیسر زمان شیخ کا کہنا تھا دل کی بیماریوں میں مبتلا ایسے مریض جو کہ باقاعدگی سے علاج کروا رہے ہو اور ان کی صحت بہتر ہو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن ایسے مریض جن کے معالجین یہ سمجھیں کہ ان کی صحت اس قابل نہیں ہے کہ وہ روزے رکھ سکیں انہیں روزے رکھنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔

بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی وابستہ ڈاکٹر سیف الحق کا کہنا تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب نوے کروڑ ہے جن میں سے تقریبا پندرہ کروڑ افراد روزے رکھتے ہیں، ان میں سے تقریبا 86 فیصد مسلمان رمضان کے مہینے میں صرف 15 روزے رکھتے ہیں جبکہ 61 فیصد مسلمان رمضان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم کراچی سے وابستہ مفتی نجیب خان کا کہنا تھا کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو روزے رکھنے کے حوالے سے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ علماء کرام کے مقابلے میں ڈاکٹر انہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ روزے کی حالت میں انگلی میں سوئی چبھو کر خون نکال کر چیک کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اسی طریقے سے آنکھ اور کان میں دوائی کے قطرے ڈالنے اور انجکشن لگوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کی جان پر بن آئے تو اسے روزہ توڑ دینا چاہیے اور ایسی حالت میں اسے صرف قضا روزہ رکھنا پڑے گا۔
https://www.express.pk/world/


واشنگٹن: سائنسدانوں نے عمررسیدہ افراد میں فولیٹ کی کمی کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایک جانب تو ڈیمنشیا کا خطرہ 68 فیصد تک بڑھ سکتا ہے تو دوسری جانب قبل ازوقت موت کا خطرہ تین گنا بڑھ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں وٹامن بی نائن یا فولیٹ کی کمی کا بطورِ خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں اس کے سپلیمنٹ کھلائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ایک تحقیق کی ہے جو ایویڈنس بیسڈ مینٹل ہیلتھ جرن، میں شائع ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ فولیٹ فولک ایسڈ کی ہی ایک قسم بھی ہے۔

اس ضمن میں 60 سے 75 برس تک کے 27188 افراد کے میڈیکل ریکارڈ میں طبی تفصیلات دیکھی گئی ہیں۔ ابتدا میں ان تمام افراد میں ڈیمنشیا کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور دس سال بعد بھی ان کے خون میں فولیٹ کی مقدار نوٹ کی جاتی رہی۔

اس دوران سائنسدانوں نے تمام افراد میں ڈیمنشیا اور اموات پر بھی نظر رکھی۔ کل 3418 خواتین و حضرات کے خون میں فولیٹ کی مقدار 4.4 نینوگرام فی ملی لیٹر تھی جو بہت ہی کم مقدار تھی۔ جن افراد میں فولیٹ کی سطح کم ترین تھی ان میں ڈیمنشیا کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ساڑھے تین فیصد دیکھی گئی اور موت کی شرح 8 فیصد تھی۔

لیکن جب اس میں ذیابیطس، وٹامن بی 12، دماغی صلاحیتوں کی تنزلی، ڈپریشن اور دیگر عوامل کو ملایا گیا تو معلوم ہوا کہ فولیٹ کی کمی سے مجموعی طور پر ڈیمنشیا کا خطرہ 68 فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ اب یہی علامات ایک ساتھ ملائی جائیں تو موت کا خطرہ تین گنا تک بڑھ سکتا ہے۔

اسی تناظر میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ وہ شاخ گوبھی، ہرے پتوں والی سبزیاں، مٹر، لوبیا، مکمل اناج، سیریل، ایوا کیڈو اور کلیجی ضرور کھائیں کیونکہ ان غذاؤں میں فولیٹ کی غیرمعمولی مقدار پائی جاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2300500/9812/


واشنگٹن ڈی سی: کچھ لوگ ہمیں اکثر اداس نظر آتے ہیں جسے ہم ان کی عادت سمجھتے ہیں۔ لیکن اب نفسیاتی معالجین (سائیکیاٹرسٹس) کی تنظیم (APA) نے طویل اداسی کو سنجیدہ نفسیاتی مسائل میں شامل کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ ’اے پی اے‘ کی جانب سے یہ اعلان پچھلے سال ستمبر میں کیا جاچکا تھا، جس میں ’’طویل اداسی کے عارضے‘‘ (Prolonged Gried Disorder) کو نفسیاتی مسئلے کے طور پر بیان کیا گیا تھا اور اس کی علامات بھی بتائی گئی تھیں۔

اسی پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ذہنی امراض و مسائل سے متعلق ’اے پی اے‘ کے شائع کردہ مینوئل کے پانچویں ایڈیشن (DSM-5-TR) میں طویل اداسی کے عارضے کو باضابطہ طور پر شامل کیا جائے گا۔

گزشتہ روز اس مینوئل کے پانچویں ایڈیشن کی اشاعت کے ساتھ ہی طویل اداسی کے عارضے کو ذہنی و نفسیاتی مسئلے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
طویل اداسی کا عارضہ کیا ہے؟

دکھ، تکلیف اور اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم ہمیں اداس کردیتا ہے۔ البتہ، یہ اداسی چند دنوں، چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں میں ختم ہوجاتی ہے۔

تاہم بعض اوقات اداسی کی یہ کیفیت 6 سے 12 ماہ، یا اس کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ ’طویل اداسی کا عارضہ‘ کہلاتی ہے جس کی چند علامات یہ ہوسکتی ہیں:شناخت میں خلل (مثلاً اپنے وجود کے کسی حصے کو مُردہ محسوس 
کرنا)۔
موت کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت۔

اس سوچ سے بچنے کی کوشش کرنا کہ فلاں شخص مرچکا ہے۔
موت سے متعلق شدید جذباتی تکلیف (مثلاً غصہ، تلخ مزاجی اور افسردگی وغیرہ)۔
سماجی ہم آہنگی کی بحالی میں مشکل (مثلاً دوستوں سے ملنے جلنے، مشاغل میں دلچسپی لینے اور مستقبل کی منصوبہ بندی جیسے معاملات میں دشواری محسوس کرنا)۔

جذباتی بے حسی
زندگی کو بے معنی محسوس کرنا
تنہائی کا شدید احساس (خود کو بالکل اکیلا یا دوسروں سے بالکل لاتعلق محسوس کرنا)۔

امریکن سائیکیاٹری ایسوسی ایشن (APA) کے مطابق: ’’طویل اداسی کے عارضے میں کسی فرد میں محرومی کا احساس متوقع سماجی، تمدنی یا مذہبی معیارات (norms) سے بڑھ جاتا ہے؛ اور ان علامات کی وضاحت کسی دوسرے ذہنی عارضے کی مدد سے واضح نہیں کی جاسکتی۔‘‘

آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاشرے میں تہذیبی اور مذہبی نقطہ نگاہ سے اداسی اور افسردگی کے کچھ ’’قابلِ قبول‘‘ پیمانے مقرر ہیں۔ طویل اداسی کے عارضے میں یہ کیفیات ان قابلِ قبول حدود سے زیادہ ہوجاتی ہیں اور غیرمعمولی طور پر ایک لمبے عرصے تک برقرار رہتی ہیں۔

’اے پی اے‘ نے نفسیاتی ماہرین کےلیے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ وہ تشخیص اور علاج کرتے ہوئے، کسی مریض میں ان مخصوص علامات کو بھی مدنظر رکھیں کہ جو طویل اداسی کے عارضے کے تحت بیان کی گئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2300654/9812/


برطانوی محققین کی ایک نئی تحقیق کے مطابق پالک، بند گوبھی اور شاخ گوبھی جیسی پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال عام انسانوں میں ٹائپ ٹو طرز کے ذیابیطس کے خطرے کو 14 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران ماہرین نے ان گزشتہ معلومات اور ان کے نتائج پر بھی تفصیلی غور کیا، جو اسی موضوع پر پہلے سے مکمل کئے گئے چھ ریسرچ منصوبوں سے حاصل ہوئی تھیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام انسانوں میں بڑھتا ہوا موٹاپا بھی ذیابیطس کی ٹائپ ٹو بیماری کے خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے اور پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو کم کرنے میں مدد تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی متعلقہ افراد کو اپنی متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش پر بھی لازمی توجہ دینا چاہئے۔

لیسٹر یونیورسٹی کے ذیابیطس سے متعلقہ تحقیق کے شعبے کی خاتون ماہر پیٹریس کارٹر کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ بڑے پتوں والی سبزیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق اور اس سے قبل مکمل کئے گئے چھ تحقیقی منصوبوں کے دوران امریکہ، چین اور فن لینڈ میں 30 سے لے کر 74 برس تک کے عمروں کے دو لاکھ افراد سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ Patrice Carter کے بقول ذیابیطس ٹائپ ٹو سے بچاؤ میں پھلوں کا ستعمال بھی کافی مددگار ثابت ہوتا ہے مگر بڑے بڑے سبز پتوں والی سبزیاں پھلوں سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں، جن پر اب مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

برطانوی ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق پالک اور بند گوبھی جیسی سبزیوں میں میگنیشیم اور اومیگا تھری نامی fatty acid زیادہ پائے جاتے ہیں، جو چربی میں کمی کے عمل میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں اور جن کا استعمال یوں بھی صحت کے لئے کافی فائدہ مند ہوتا ہے۔

پیٹریس کارٹر اور ان کے ساتھیوں نے جن گزشتہ تحقیقی منصوبوں کے نتائج کا نئے سرے سے مطالعہ کیا، ان میں زیر مطالعہ افراد کا فی کس بنیادوں پر ساڑھے چار سال سے لے کر 23 برس کے طویل عرصے تک مشاہدہ کیا گیا تھا۔ اس دوران ان تفصیلات کا بھی دوبارہ تجزیہ کیا گیا کہ تب کس شخص نے روزانہ کتنی مقدار میں کون کون سے پھل اور سبزیاں کھائی تھیں اور ان میں سے بعد میں کون کون سے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض تشخیص کیا گیا تھا۔

اس پورے تقابلی مطالعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ مقدار میں سبزیاں یا پھل یا دونوں کا استعمال کرنے والے مریضوں میں تو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کے حوالے سے کوئی نمایاں فرق نہ نکلا البتہ ایسے مریضوں میں اس بیماری کی شرح واضح طور پر کم رہی تھی، جو دن میں ایک سے زائد مرتبہ بڑے سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرتے رہے تھے۔ پھر جب اس ریسرچ کی شماریاتی تفصیلات سامنے آئیں تو ثابت ہو گیا کہ سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرنے والے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کا تناسب ایسا نہ کرنیوالوں کے مقابلے میں 14 فیصد کم تھا۔

ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی انسانی جسم اپنی ہی تیار کردہ انسولین کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کر سکتا۔ انسولین ایک ایسا ہارمون ہے، جو خون میں پائے جانے والے گلوکوز کی شرح کو کنٹرول کرتا ہے۔ بلڈ گلوکوز کی اس شرح کو عرف عام میں بلڈ شوگر لیول بھی کہتے ہیں اور اگر یہ شرح مسلسل زیادہ رہے تو اس کے شدید اثرات انسانی آنکھوں، گردوں، دل اور کئی دیگر اعضاء کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں قریب 180 ملین انسان ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پہلے یہ مرض صرف امیر اور خوشحال ملکوں میں نظر آنے والی بیماری سمجھا جاتا تھا مگر اب افریقی اور ایشیائی ملکوں میں بھی اس مرض کے واقعات میں ڈرامائی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے نظام پر اضافی بوجھ کا سبب بھی بن رہا ہے۔

ذیابیطس عرف عام میں ایک لاعلاج مرض ہے۔ یعنی اس کا کوئی مستقبل اور یکبارگی علاج نہیں ہے بلکہ مریض کو ہر وقت یہ کوشش کرنا پڑتی ہے کہ وہ موٹاپے کا شکار نہ ہو اور چاک و چوبند رہے۔ کئی مریض صرف اپنی خوراک کنٹرول کرنے سے ہی خون میں گلوکوز کی سطح کو مسلسل کم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر مریضوں کو ادویات اور انتہائی حالات میں انسولین کے ٹیکوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے موٹاپے اور ذیابیطس سے متعلق ایڈگر نیشنل ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جم مین اور لندن میں امپیریل کالج کے ڈیگفن آؤن نے اپنی اس ریسرچ میں یہ بھی لکھا ہے کہ صرف بڑے سبز پتوں والی سبزیوں کو ہی ہر مسئلے کا حل نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ اس حوالے سے اس پورے ’فوڈ گروپ‘ کو ذہن میں رکھا جانا چاہئے۔
https://www.express.pk/story/2301323/9812/


https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2022-03-24&edition=KCH&id=6008231_53638109


سان ڈیاگو: سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ رات میں صرف چار سے چھ گھنٹے سو کر تازہ دم ہوجانے والوں میں پائے جانے والے کچھ خاص جین نہ صرف نیند کی قدرتی ضرورت کم کرتے ہیں بلکہ ہیں ان پر تحقیق سے دماغی بیماریوں کا منفرد علاج ڈھونڈنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ 7 گھنٹے سے کم اور 9 گھنٹے سے زیادہ نیند لینے والوں کو ان لوگوں کے مقابلے میں دماغی بیماریوں اور مسائل کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے جو روزانہ اوسطاً 8 گھنٹے کی نیند لیتے ہیں۔

البتہ، ان تحقیقات میں ایسے افراد بھی سامنے آئے جو پوری رات میں صرف 4 سے 6 گھنٹے کی نیند لے کر تازہ دم ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں دماغی اور اعصابی بیماریوں کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔

ان لوگوں کو ’’اشرافیہ خوابیدگان‘‘ (elite sleepers) یعنی ’’اعلیٰ درجے کے سونے والے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ماضی میں کی گئی مختلف تحقیقات سے کم از کم 5 ایسے جین دریافت ہوچکے ہیں جن کی بدولت نیند کا قدرتی دورانیہ معمول سے بہت کم رہتا ہے، یعنی کم سونے پر بھی مکمل تازگی حاصل ہوتی ہے۔

اسی تسلسل میں چوہوں پر تحقیق کرتے ہوئے، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کی ڈاکٹر یِنگ ہوئی فُو اور ان کے ساتھیوں نے ان ہی میں سے دو ایسے تبدیل شدہ (میوٹینٹ) جین شناخت کیے ہیں جو نیند کی قدرتی ضرورت کم کرنے کے علاوہ دماغ کی تنزلی اور دماغی بیماریوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا اضافی کام بھی کرتے ہیں۔

یہ دونوں جین بالترتیب ’’میوٹینٹ DEC2‘‘ اور ’’میوٹینٹ Npsr1‘‘ کہلاتے ہیں۔

ڈاکٹر یِنگ ہوئی کا کہنا ہے کہ اب ہمیں دماغ کو مختلف بیماریوں سے بچانے کےلیے ایک ممکنہ اور امید افزاء ہدف مل گیا ہے جس پر کام کرکے مستقبل میں دماغی امراض کی مؤثر دوائیں بھی تیار کی جاسکیں گی۔

واضح رہے کہ اب تک ہمارے پاس کسی بھی دماغی بیماری کی کوئی شافی دوا موجود نہیں۔ سرِدست دماغ کی بہترین موجودہ دوائیں بھی صرف دماغی امراض کی پیش رفت آہستہ کر پاتی ہیں، جنہیں کسی بھی صورت مکمل و مؤثر علاج قرار نہیں دیا جاسکتا۔

آن لائن اوپن ایکسس ریسرچ جرنل ’’آئی سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس لحاظ سے امید افزاء ہے کیونکہ اس سے ہمیں وہ مخصوص پروٹین بھی شناخت کرنے میں مدد ملے گی جو آنے والے برسوں میں متوقع طور پر کئی ایک دماغی امراض کا شافی علاج بن سکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2300292/9812/


کیا ذیابیطس کے مریض تربوز کھا سکتے ہیں؟ اہم تحقیق سامنے آ گئی
تربوز ایسا پھل ہے جو درجہ حرارت بڑھنے پر جسم کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اسے دیکھنا ہی ذہن کو تروتازہ کردیتا ہے۔

تربوز کافی میٹھا پھل ہوتا ہے تو کیا ذیابیطس کے شکار افراد اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

اکثر افراد اس خیال سے پریشان رہتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس مزیدار پھل کو کھانا محفوظ ہے یا نہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی غذا کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بلڈ شوگر کی سطح مستحکم رہے اور پیچیدگیوں سے تحفظ مل سکے۔

پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذا بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے مگر پھلوں میں قدرتی مٹھاس اور کاربوہائیڈریٹس بھی ہوتے ہیں تو ان کی مقدار کا خیال رکھنا اہم ہوتا ہے۔

تربوز اور ذیابیطس

اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں کہ کسی پھل میں مٹھاس ذیابیطس کے لیے اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا اس کا گلیسمیک انڈیکس (جی آئی) نمبر۔

جی آئی ایک پیمانہ ہے کہ جو بتاتا ہے کہ کاربوہائیڈریٹ والی غذا کا کتنا حصہ کھانے کے بعد اس میں موجود مٹھاس (گلوکوز) مخصوص وقت میں خون میں جذب ہوسکتی ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کو اپنا بلڈ گلوکوز لیول کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غذا ایسی ہونی چاہئے جو اس لیول کو کنٹرول میں رکھ سکے۔ تو ایسے مریضوں کے لیے 15 گرام کاربوہائیڈریٹ کسی پھل کے ذریعے جسم کا حصہ بننا نقصان دہ نہیں۔

جی آئی سسٹم میں ہر غذا کو 0 سے 100 کے درمیان اسکور دیا جاتا ہے، نمبر جتنا زیادہ ہوگا خون میں شکر کے اخراج کی رفتار بھی اتنی زیادہ ہوگی۔

تربوز کا جی آئی اسکور 72 ہے اور 70 اسکور سے اوپر کی ہر غذا کو ہائی جی آئی ڈائٹ خیال کیا جاتا ہے۔

مگر ماہرین کے مطابق تربوز میں پانی کی زیادہ مقدار کے باعث اس کی کچھ مقدار کا جی آئی اسکور گھٹ جاتا ہے اور چونکہ لوگ تازہ پھل ہی کھاتے ہیں تو بہتر ہے کہ اس کے جوس سے گریز کریں۔

ذیابیطس کے مریض تربوز کو صحت مند چکنائی، فائبر اور پروٹین سے بھرپور غذاؤں جیسے گریوں کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔

ان دونوں کا امتزاج لوگوں کا پیٹ زیادہ دیر تک بھرے رکھتا ہے اور خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔

فوائد

تربوز میں متعدد وٹامنز اور منرلز جیسے وٹامن اے، وٹامن بی 1 اور بی 6، وٹامن سی، پوٹاشیم، میگنیشم، فائبر، آئرن، کیلشیئم اور لائیکو پین موجود ہوتے ہیں۔

وٹامن اے دل، گردوں اور پھیپھڑوں کے افعال کے لیے بہترین ہوتا ہے جبکہ بینائی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔

وٹامن سی ایک اینٹی آکسائیڈنٹ ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے جس سے بیماریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اہم غذائی جز ہے۔

اسی طرح تربوز میں امینو ایسڈ citrulline بھی موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر اور مٹابولک صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

تربوز میں کتنی قدرتی شکر ہوتی ہے؟

تربوز کے درمیانے سائز کے ٹکڑے (286 گرام) میں شکر کی مقدار 17.7 گرام ہوتی ہے۔

تربوز سے شکر کی کتنی مقدار جزوبدن بنتی ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کی کتنی مقدار کو جزوبدن بنایا گیا ہے۔

ذیابیطس کے مریض کس طرح تربوز کو غذا کا حصہ بنائیں؟

اگر ایک فرد تربوز یا دیگر پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بناتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ غذائی چکنائی اور پروٹین کے توازن کا بھی خیال رکھیں۔

چکنائی اور پروٹین خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، یہ ان افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار ہوں۔

دیگر پھلوں کی طرح ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پھل کے اوپر چینی چھڑکنے سے گریز کریں۔

مگر اسے پھلوں کی چاٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

مگر تربوز کو کھاتے ہوئے ذیابیطس کے مریض اس کے ساتھ زیادہ چکنائی والی غذا کھانے سے گریز کریں اور اس کے جوس یا شربت کو پینے سے بھی کریں۔

نتیجہ

مجموعی طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے تربوز کا استعمال محفوظ ہے اگر وہ اعتدال میں رہ کر اسے کھائیں۔

اعتدال میں کھانے سے اس سے بلڈ شوگر کی سطح پر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔

from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/nWoCgTY
via IFTTT
https://thenewscloudonline.blogspot.com/2022/03/blog-post_88.html?fbclid=IwAR2l_f7_lpLOCO9EYE0MOC_se59JNY2m5s3V-30y5oJKaImrul54tnTaPvs


’’یہ تو شروع سے ہی ایسا ہے۔ اس کی تو بچپن سے ہی یہ عادت ہے۔‘‘ یہ وہ چند جملے ہیں جو اکثر آپ میاں بیوی کے درمیان سنتے ہیں یا والدین اپنے بچوں کے بارے میں کہتے ہیں۔

یہ الفاظ بہت حد تک ہماری شخصیت کے بارے میں کچھ پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے دوسرے انسانوں کے ساتھ رویے اور ہماری ازدواجی زندگی کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہمارے بچپن کے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ ہم نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ہمارا بچپن کیسا تھا اور ہماری موجودہ شخصیت اور کردار میں بچپن کے ماحول اور تربیت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

اسی لیے مذہبی تعلیمات کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے جسے جدید ریسرچ اور نفسیات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ بچوں کی زندگی، شخصیت اور کردار میں بچپن کا بہت نمایاں اثر ہوتا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت کرنے والوں کی جدید دور کے مطابق تعلیم وتربیت کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ آج کا دور گذشتہ 20 سالوں کی نسبت بہت بدل چکا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کی پرورش ایک فل ٹائم جاب ہے جس کے لیے ٹریننگ اور کوچنگ کی بہت ضرورت ہے۔ آج ہم اپنے بچوں کی پرورش اُس انداز میں نہیں کرسکتے جس طرح ہمارے والدین نے ہماری پرورش کی تھی۔

ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کا سب سے اہم جز ازدواجی زندگی ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جس طرح سے اس پاک بندھن کو رسوا کیا جارہا ہے یا نوجوان نسل اس کی اہمیت کو کھو چکی ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس میں ان نوجوانوں کا شاید اتنا قصور نہ ہو جتنا اُن کی تعلیم وتربیت اور دیکھ بھال کرنے والے افراد کی غفلت اور لاعلمی کا ہے۔

حال ہی میں معروف میگزین ’’سیکالوجی ٹوڈے‘‘ میں ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے جس میں ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی پر بچپن کے صدمے اور منفی حالات کا اثر تھا جو ان کی زندگی کو جوانی میں متاثر کررہا تھا۔ ایسے بچے جن کی ابتدائی زندگی میں عدم توجہ، مشکلات، خدشات اور مایوسی کا شکار رہی ہو ان کی زندگی میں یہ 10علامات پائی جاتی ہیں جو ان کی زندگی اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں:

1: رد اور ترک کئے جانے کا خوف :وہ بچے جنہیں ان کے والدین نے بچپن میں نظرانداز کیا ہو یا چھوڑ دیا ہو وہ اکثر جوانی تک چھوڑے جانے کے خوف کے ساتھ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر وہ اس سطح کے خدشات سے بے خبر بھی ہوں تو بھی یہ خوف ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔

اگرچہ ان کا بنیادی خوف یہ ہوتا ہے کہ اُن کا ساتھی بالآخر اُنہیں چھوڑ دے گا۔ وہ ان خیالات کو اکثر روزمرہ کے حالات میں ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کہ جب اُن کا ساتھی اکیلا باہر جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر ساتھی کے ساتھ بحث کے دوران وہ کمرے سے باہر چلا جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف اکثر حسد یا جدائی جیسی انتہائی صورتوں میں ان کی شخصیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

2:دوسروں کی موجودگی سے بیزاری اور جلد ہی ناراض ہوجانا: جب ہم ایسے ماحول میں بڑے ہوتے ہیں جہاں ہم پر کثرت سے تنقید کی جائے یا ہم دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کا یہ ایک فطری طریقہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری خامیاں اور ناکامیاں ناقابلِ برداشت ہیں۔ ہمارے پارٹنرز یا ہمارے آس پاس موجود لوگ اس کو برداشت نہیں کریں گے، اس لیے ہم دوسروں کی موجودگی سے جلد ہی بیزار ی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔

3:اپنی ذات کے لیے بہت زیادہ وقت اور جگہ درکار ہونا: افراتفری اور غیرمتوقع ماحول میں پروان چڑھنا بہت زیادہ تناؤ پیدا کرتا ہے اور اکثر بچوں کے مرکزی اعصابی نظام کو مسلسل ذہنی کوفت کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے۔

جب وہ بالغ ہو بھی جاتے ہیں تو بھی اُنہیں بے چینی، گھبراہٹ اور خوف کی ان علامات کو پرسکون کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ وہ گھر میں رہنا محفوظ محسوس کرتے ہیں جہاں وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اور خود کو مناسب وقت اور آرام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسی انتہائی صورت حال میں کچھ لوگوں میں سماجی اضطراب یا پیپلزفوبیا کا بھی گہرا اثر پایا جاتا ہے۔

4 : مالی اور گھریلو ذمے داریوں میں متوازن اشتراک نہ کرنا: بعض اوقات ایسے لوگ کسی دوسرے شخص پر انحصار کرنے کے خوف کی وجہ سے کسی بھی ساتھی پر بھروسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آئندہ شراکت داری میں متوازن مالی اور گھریلو ذمے داری لینے سے گریز کرتے ہیں یا تو ایسے لوگ دوسرے شخص کا اس مقام تک مکمل خیال رکھتے ہیں یا اس کے برعکس اس مقام تک دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ وہ آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک رویہ ہے جو اکثر مسائل کا سبب بنتا ہے۔

5:رشتوں کی افادیت اور تعلق ختم ہونے کے باوجود رشتوں سے جُڑے رہنا: جب ہم غیرمستحکم ماحول میں پرورش پاتے ہیں تو اکثر ایسے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں جو منشیات کی لت، دماغی بیماری، جسمانی بیماری یا موت کے ساتھ جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، تو بچوں میں اکثر احساس جرم پیدا ہوتا ہے جو کہ تعلقات کو ختم کرنے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ’’ٹھیک‘‘ کر سکیں، ایسے شخص کا کسی ایسے شخص کے ساتھ رہنا جو اُن کے لیے موزوں نہیں ہے کبھی کبھی تنہا رہنے سے زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے۔

6:عزیزوں سے مسلسل بحث یا لڑائی کرنا یا ہر قیمت پر جھگڑے سے گریز کرنا: زندگی میں تمام رشتوں میں تصادم اور تکرار ہوتا ہے لیکن وہ بچے جو ایسے ماحول میں پلے بڑھے ہوں جہاں نگہداشت کرنے والے ہمیشہ جھگڑتے رہتے ہیں یا جو کسی بھی قسم کے جھگڑے سے گریز کرتے ہیں، وہ اکثر نتیجہ خیز اور صحت مند بات چیت کے لیے ضروری ہنر نہیں سیکھ پاتے ہیں۔ ان کو تنازعات، مسائل اور معاملات کو حل کرنے اور منظم کرنے کے صحت مند اور نتیجہ خیز طریقے نہیں آتے۔

7:اختلاف کے بعد مفاہمت کرنے سے ناواقفیت: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے جب ہم تنازعات کا نتیجہ خیز اور مناسب حل کرنا نہیں سیکھتے تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیںہوتا کہ شراکت داری میں ہونے والے ناگزیر تنازعے کے بعد تعلقات کو کیسے بحال کیا جائے۔ ایسی صورت حال میں کب اور کیسے کسی مسئلے پر سمجھوتا کرنا ہے یا خاموشی اختیار کرنی ہے، یہ ایک اہم خوبی ہوتی ہے۔ میرے دادا اکثر کہا کرتے تھے کہ رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں۔ رشتوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے جھکاؤ نہیں برتاؤ اہم ہوتا ہے۔

8: نہ چاہے جانے کا مسلسل خوف: ایسے لوگ اکثر دوبارہ چوٹ لگنے کے خوف اور اکیلے رہنے کے خوف کے سائے میں جیتے رہتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس توجہ اور پیار کے لائق ہیں جس سے وہ بچپن میں محروم رہے ہیں۔ یاد رکھیں ہر نئے انسان سے نئی اُمیدیں وابستہ ہوئی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اپنا نیا سفر شروع کرسکتے ہیں۔

9:اس بارے میں بے وجہ فکرمند رہنا کہ میرا ساتھی کہیں مجھے چھوڑ نہ جائے : ایسا اُن لوگوں کے ساتھ عموماً ہوتا ہے جن کے والدین اور دیکھ بھال کرنے والے ناقابلِ اعتبار تھے یا اُن کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسرے بھی ان کو اس طرح تکلیف پہنچائیں گے جس طرح ان کی نگہداشت کرنے والوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا اور ہر انسان کا سفر ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ اس لیے اپنے ماضی کے خدشات پر قابو پائیں اور رشتوں میں آزادی کے عنصر کو ہمیشہ مد نظر رکھیں۔

10ـ:اپنے جیون ساتھی کو زبردستی تبدیلی کے لیے ضد کرنا: یہ بچپن کے صدمے کا سب سے خطرناک ردِعمل ہے، جس میں اکثر لوگ اپنے ساتھی سے یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ شروع سے ہی پسند نہیں اس لیے تم یہ نہ کرو۔ تبدیلی کی کھڑکی ہمیشہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے۔ بچے کیوںکہ بچپن میں اپنی نگہداشت کرنے والے کو تبدیل کرنے میں بے بس ہوتے ہیں۔ اس لیے اب جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر تے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کے اندر تبدیلیوں کی خواہش کرتے ہیں تاکہ ہمارے تعلقات میں خوف پر قابو پایا جا سکے۔ دوسرا وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اس شخص کو ’’ٹھیک‘‘ کر سکتے ہیں اور انہیں ایک بہتر پارٹنر بنا سکتے ہیں تو ہم ایک کام یاب رشتہ قائم کرنے کے لائق اور اہل ہیں۔

اگر یہ علامات آپ کی زندگی میں پائی جاتی ہیں تو اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہیں اور رہیں گے۔ معروف امریکی ماہرنفسیات اور میرج ایکسپرٹ جان ایم گاٹ مین کا کہنا ہے کہ میں شادی کرنے والے جوڑے سے صرف پانچ منٹ گفتگو کرکے بتا سکتا ہوں کہ اُن کی ازدواجی زندگی کام یاب ہوگی یا نہیں۔

یادرکھیں ہم سب انسان ہیں اور ہم اپنے ماحول اور اردگرد کے اثر سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے رویے اور شخصیت میں بے شمار ایسے عوامل شامل ہوتے ہیں جو ہم نے خود نہیں سیکھے ہوتے بلکہ ہم اپنے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں پرسنل اور پروفیشنل زندگی میں کام یابی کے لیے متوازن شخصیت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔

اگلا سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا ان مسائل کا حل موجود ہے۔ جی ہاں، اس کا سب سے اہم اور بنیادی حل خود احتسابی ہے۔ اگر آپ اپنے رویوں کو بدلنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی سوچ رکھتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کا بالخصوص اپنے بچپن کا جائزہ لینا ہوگا۔

اُن نکات، رویوں اور واقعات کو نوٹ کرنا ہوگا جو آپ کے رویوں پر اثرانداز ہوئے۔ اس ضمن میں آپ ماہرِِنفسیات کی راہ نمائی لے سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے آپ کو خود کو اس تبدیلی کے عمل کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ماضی کی تلخ یادوں اور واقعات کو اپنی موجودہ زندگی سے نکالنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں دو بھارتی فلمیں آپ کو کسی حدتک اس کیفیت کو سمجھنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ ’’ڈیئر زندگی اور زندگی نہ ملے گی دوبارہ۔‘‘

آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے اور آپ زندگی کا ایک حصہ جو آپ کے بس میں نہیں تھا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بھر تلخ یادوں کی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے کیوں چل رہے ہیں۔ اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کریں اور زندگی میں نئے رویوں، خیالات، سوچوں، نظریات اور لوگوں سے ملیں۔ اپنی دُنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدلیں، چیزوں کو نئی نظر، نئے لینس اور نئے کینوس سے دیکھیں۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کریں جو آپ کے حال کو بہتر اور مستقبل کو خوب صورت بنانے میں مدد کریں۔ آپ یقینی طور پر کہیں گے کہ یہ سب کتابی باتیں ہیں، ان کا ہماری زندگی سے کیا تعلق؟ بالکل درست میں بھی یہ ہی سوچتا تھا۔

میری زندگی بھی بہت سارے نشیب وفراز سے گزری لیکن میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ حالات کو اپنے خیالات پر غالب نہیں آنے دینا، اپنے ماحول کو خود بنانا ہے۔ ماحول کو خود جیسا نہیں بنانے دینا۔ یہ سفر اور فیصلہ آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اُس تکلیف اور کرب سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی زندگی کو اجیرن بنا رہا ہے ۔ میری مانیں اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دیں۔

دوسروں کو معاف کریں کیوںکہ وہ بھی انسان ہیں۔ اپنی زندگی اور رویوں کی اب سے خود سو فی صد ذمے داری لینا شروع کریں اور کوشش کریں جو غلطیاں ہمارے والدین اور ہم سے ہوئیں وہ اب ہم اپنی نسلوں کو سنوارنے کے لیے نہ دہرائیں ورنہ وہ بھی کل کو ہماری طرح اپنے والدین کو اپنی زندگی کی تلخیوں کا ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ پھر دیکھیں اس خوب صورت کائنات کے خوب صورت پہلو آپ کی شخصیت سے نظر آئیں گے۔
https://www.express.pk/story/2298734/509/


کولمبس، اوہایو: نفسیاتی اوراعصابی ماہرین نے کہا ہے کہ تخلیقی صلاحیت پیدائشی نہیں ہوتی اور اسے اکتسابی تربیت کی بدولت سیکھا جاسکتا ہے۔

ہم اکثر لوگوں کو تخلیقی اور غیرتخلیقی گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ عام افراد بھی کئی قابلِ عمل تربیت حاصل کرکے تخلیق کار بن سکتے ہیں۔ یعنی ہر شخص تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے اور ضرورت بس استعمال کی ہوتی ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق ضروری ہے کہ اس کے لیے لوگوں کو بیانیہ اکتساب یا نیریٹوکوگنیشن سے گزارا جائے ۔ اس میں ہمارا دماغ عمل، وجوہ اور اس کے نتائج کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے اور عین یہی طریقہ ہم کہانی بنانے اور سنانے میں استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بچوں اور نوعمروں میں ثبوت والے مشاہدات اور کہانی پر مبنی ڈرامے ، بیانیہ اکتساب کی ایک مثال ہیں جن سے وہ اپنے تخیل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں بچے قدرے زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ بطورمعاشرہ ہم بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ دوسری جانب ہم ایک کے مقابلے میں دوسرے کو تخلیقی بھی قرار دیتے ہیں۔

اسی بنا پر ماہرین کا اصرار ہے کہ ہم تخلیقی عمل کو درست انداز میں نہیں سکھاپارہے ہیں۔ اب اوہایویونیورسٹی کے سائنسداں اینگس فلیچر اور ان کے ساتھیوں نے قدیم یونانیوں سے رائج تخلیقی طریقہ استعمال کیا ہے جس میں کہانی پر مبنی آرٹ یا اظہار کیا جاتا ہے۔

ماہرین نے اسے قدرے تبدیل شدہ طریقے سے استعمال کیا جس کے تین حصے تھے: اول ، اردگرد نئی دنیا بنائی جائے، دوم ، فکری رحجان بدلا جائے اور سوم، اس پر عمل کو جگہ دی جائے۔

اب اسے روزمرہ حالات میں اسطرح استعمال کیا جاسکتا ہے: کمپنی ملازموں سے کہا جائے کہ وہ تصور کریں کہ اگر ان کا ہر صارف ایک غیرمعمولی صارف بن جائے ( نئی دنیا کی تشکیل)، یا ملازم اگر کسی اور عہدے پر بٹھایا جائے تو کیا ہوگا ( فکری تبدیلی) اور اگر دو آئیڈیا ملائے جائیں یا پھر دو مختلف رحجانات والے افراد ایک پر ہی کام کریں تو کیا ہوگا (عمل کی مثال)۔

اس طرح لوگ اپنے لگے بندھے خول سے باہر آتے ہیں اور یوں ان میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں نے مختلف عمر، طبقے اور تجربے کے افراد کو اداروں میں بھرتی کرنے پر زور دیا ہے۔ پھر انہیں تخلیقی اندازِ فکر کی تربیت دی جائے۔ اس طرح چھوٹی اور بڑی کمپنیوں کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2298832/9812/


نیند پوری کرنے کے لیے ہمیں رات کو کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟ حتمی جواب مل گیا
Mar 19, 2022 | 18:12:PM

سورس: Piqsels.com (creative commons license)

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) نیند پوری کرنے کے لیے ہمیں رات کو کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟ ایک برطانوی ماہر نے اس سوال کا حتمی جواب دے دیا ہے۔ دی مرر کے مطابق ’ایچ نائٹ ڈاٹ کام‘ سے وابستہ سلیپ ایکسپرٹ کیرا پریچرڈ کا کہنا ہے کہ ہماری نیند ’چکروں‘ (Cycles)کی صورت میں ہوتی ہے۔ا ن میں سے ہر چکر لگ بھگ 90منٹ کا ہوتا ہے جس کی ابتداءمیں ہلکی نیند ہوتی ہے، اس کے بعد گہری نیند اور پھر ’ریپڈ آئی موومنٹ‘ کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بعد نیند ایک بار پھر ہلکی ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرا چکر شروع ہو جاتا ہے۔

کیرا کا کہنا تھا کہ ”ایک صحت مند بالغ شخص کے لیے 6سے 8گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے تاہم ہمیں نیند کے اس آخری چکر کے اختتام پر بیدار ہونا چاہیے جب نیند واپس ہلکی ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر ہم گہری نیند یا ریپٹڈ آئی موومنٹ کے مرحلے میں بیدار ہو جاتے ہیں تو ہم پر دن بھر غنودگی طاری رہتی ہے اور ہم تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں۔“

کیرا نے بتایا کہ دن میں کسی بھی وقت 10سے 20منٹ کا قیلولہ بھی تازہ دم ہونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ قیلولہ ہمیشہ 1سے 3بجے سہ پہر کے درمیان کرنا چاہیے۔ قیلولہ کئی طرح کے طبی فوائد کا حامل ہوتا ہے لہٰذا اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس سے ذہنی پریشانی اور تناﺅ سے نجات ملتی ہے اور موڈ بہتر ہوتا ہے۔ اس سے یادداشت بہتر ہوتی ہے اور کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قیلولے سے بیمار افراد کو شفایاب ہونے میں بھی مدد ملتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Mar-2022/1416527?fbclid=IwAR0trj9c4GUjm0D5_fOTwEogUe179BvAFxvIG2BL4_ME5o17f0jvLlAkffM


بارسلونا: سرسبز علاقوں میں وقت گزارنے کے لاتعداد فوائد سائنسی بنیادوں پر سامنے آچکے ہیں۔ اب نئی تحقیق کے تحت گھاس پھوس نہ صرف ٹانگیں پھیلا کر پرسکون رہنے کی ایک بہترین جگہ ہے بلکہ وہاں رہنے سے ذہنی دباؤ اور فالج کا خطرہ بھی کم ہوسکتا ہے۔

شماریاتی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ درختوں، پودوں اور گھاس سے بھرپور علاقے کا اثر انسانوں پر بہت گہرا ہوتا ہے اور فالج کا خطرہ 16 فیصد کم کرسکتا ہے۔ اس مفروضے کی تحقیق کےلیے گھر یا دفتر سے 300 میٹر فاصلے پر موجود سبزے کو اسی مقام کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

اس ضمن میں اسپین کے شہر کیٹالونیا کے 35 لاکھ بالغ افراد کا سروے کیا گیا ہے جو 2016 سے 2017 کے درمیان کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں سبزے کا انسانی صحت پر براہِ راست اثر تو سامنے نہیں آیا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ درخت اور پودوں کے پاس رہنا صحت کے لیے مفید ہے۔

دوسری جانب بارسلونا کے آئی ایم آئی ایم ہسپتال کی کارلا ایولانیڈا کا خیال ہے کہ ماحولیاتی اثرات فالج کے خدشات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب باغات اور گھاس بیٹھنے ، کھیلنے ، ورزش کرنے اور دماغی تندرستی کے لیے بہت اہم مقامات ہوسکتے ہیں۔ لیکن شاید انسانی قلب پر ان کے کچھ نہ کچھ مثبت اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ درخت آلوگی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جو دماغی اور قلبی امراض کی وجہ بن سکتےہیں اور یہ دونوں باتیں سائنسی طور پر ثابت ہوچکی ہیں۔ تاہم فالج اور سبزے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
https://www.express.pk/story/2299231/9812/


برکلے، کیلیفورنیا: پاکستان اور دنیا میں بعض بچے ہمہ وقت اندھا دھند کھاتے رہتے ہیں اور اب معلوم ہوا کہ نارمل بچوں کے مقابلے میں ان کے دماغ کے خاص گوشے یعنی گرے ایریا میں نمایاں فرق ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے کیک اسکول سے وابستہ ماہر، اسٹوارٹ مرے نے کہا ہے کہ بعض بچے خود پرقابو نہیں رکھ پاتے اور کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ان کے دماغی اسکین سے ظاہر ہوا کہ اس سے دماغ میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جسے ایب نارمل تبدیلی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں والدین اور ڈاکٹروں کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔

جرنل آف سائیکائٹری ریسرچ میں شائع رپورٹ کے مطابق نو یا دس برس کے پیٹو بچوں کے دماغ کا وہ گوشہ متاثر ہوتا ہے جس کا تعلق، فوائد بٹورنے اور اشتہا سے ہوتا ہے غذائی اشتہا یعنی طلب کو روکنے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے متاثر ہونے سے معمولات بگڑتے ہیں اور بسیارخوری کی ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے نفسیات داں ایٹنگ ڈس آرڈر کہتے ہیں۔

ایسے بچے بار بار ہسپتال جاتے ہیں، تناؤ میں رہتے ہیں، موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں اورالگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں۔ انہی کیفیات کی بنا پر ماہرین نے ایسے بچوں پرتحقیق کی ہے جن کی تعداد 2 سے 4 فیصد تک ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق میں پورے امریکا کے 21 مقامات سے کل 11875 بچے شامل کئے گئے تھے۔ ایٹنگ ڈس آرڈر کے شکار بچوں کے دماغ میں سب سے اہم تبدیلی گرے ایریا میں دیکھی گئی۔

لیکن گرے ایریا میں تبدیلی سے دیگر کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ سائنسدانوں کے مطابق وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ان دماغی تبدیلیوں سے کئی نفسیاتی عوارض پیدا ہوسکتی ہیں۔ تاہم پروفیسر اسٹوارٹ نے اس پر مزید تحقیق کا عندیہ دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2299256/9812/


ٹورانٹو: ٹزم کے شکار بچے عموماً الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور دوست نہیں بناتے۔ لیکن عمارت اور مںصوبہ بندی کے مشہور گیم ’مائن کرافٹ‘ اس ضمن میں بچوں کی مدد کرسکتا ہے اور ایسے بچے ہم عمروں کو دوست بناسکتے ہیں۔

اگرچہ گیم کھیلنے کا عمل خود بھی کوئی بڑی سماجی سرگرمی نہیں لیکن اب آٹزم کے شکار بچے اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ہزاروں بچے اس کیفیت سے باہر آکر نارمل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

کینیڈا کے گیم ڈویلپر، اسٹوارٹ ڈنکن نے مائن کرافٹ کا ایک ورژن بچوں کے لیے بنایا ہے کیونکہ وہ خود بھی اس کیفیت کے شکار رہے ہیں۔ 2013 میں انہوں نے ایک سرور پر آٹزم میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین کے لیے یہ گیم تیار کیا جو دعوت کے تحت کام کرتا تھا۔ لیکن خلافِ توقع سینکڑوں ہزاروں بچوں اور ان کے والدین نے اس میں دلچسپی لی۔

اب سات ہزار بچے یہ گیم کھیل ہے ہیں والدین بہت مسرور ہیں کیونکہ یہ گیم حقیقی دنیا کےدباؤ اور انتشار سےتوجہ ہٹاتا ہے۔ بچے مائن کرافٹ میں جاکر ایک دوسرے سےبات کرتے اور دوست بن جاتے ہیں۔ اس طرح باہمی سماجی تعلق پروان چڑھتا ہے جو حقیقی زندگی میں بھی نظرآتا ہے۔

گیم کی بدولت لوگ ایک دوسرے کو معاشرتی اور سماجی کام بھی سمجھاتے ہیں۔ مائن کرافٹ میں مخصوص بلاک کو جوڑ کر پیچیدہ شہروں سے لے کر سادہ کمپیوٹر تک بنائے جاتے ہیں۔ اس سے بچے مل جل کر اشیا بنارہے ہیں اور کسی سماجی دباؤ کی بنا ورچول یا گیم کے ماحول میں ہی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

اس طرح مائن کرافٹ کا آٹزم ورژن نہ صرف بچوں کو ایک دوسرے کے قریب لارہا ہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی مدد فراہم کررہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2298708/9812/


آج غذائی قلت ہماری آبادی اور قومی پیداوار کےلیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ، دودھ پیتے اور اسکول جانے والے بچے کئی اقسام کی غذائی قلت کا شکار جس میں آئرن کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے۔

آئرن کی کمی جسمانی اور ذہنی صحت سے لے کر تولیدی صلاحیت تک، انسانی شخصیت میں کئی چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے ضروری ہے کہ بچوں کو آئرن سے بھرپور غذا فراہم کی جائے۔

فورٹیفکیشن کا تعلق اہم غذائی اجزاء سے ہے جو قدرتی طور پر دودھ میں شامل ہوتے ہیں۔ میسی یونیورسٹی کی طرف سے بچوں میں آئرن کی کمی دور کرنے کےلیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور اس کی اہمیت اس وجہ سے زیادہ ہے کہ اس سے مصنوعات کا ذائقہ یا رنگ تبدیل نہیں ہوتا۔

آئرن کی کمی اور اس کے اثرات، خاص کر چھوٹے بچوں میں بہت دیر پا اور مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔

غذائی قلت سے نمٹنے میں فورٹیفکیشن کا کردار

نمک، گھی اور گندم کے علاوہ غذائی قلت سے نمٹنے میں فوڈ انڈسٹری کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے جبکہ دودھ کو خاص طور پر چھوٹے بچوں کےلیے آسانی سے فورٹیفائیڈ کیا جاسکتا ہے۔

آئرن کی کمی دور کرنے کےلیے دودھ کو اہم مصنوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

مختلف صوبوں کی فورٹیفکیشن پالیسیاں یا ان کی عدم موجودگی، چھوٹے بچوں میں غذائی قلت یا آئرن کی کمی دور کرنے میں رکاوٹ ہیں۔

آئرن فورٹیفکیشن کو درپیش چیلنج

اس عمل کی انتظام کاری سے متعلق عوامل میں، شامل کیے جانے والے مادے کی رسائی اور استحکام کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ ان کے ایک دوسرے پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر کھانے کے ذرائع میں آئرن کا ایک ماخذ (سورس) شامل کیا جا رہا ہے جو پانی میں آسانی سے حل ہوجاتا ہے تو ہمارے لیے اس تک رسائی اور آئرن کی کمی دور کرنے کےلیے اسے استعمال کرنا آسان اور تیز تر ہوگا۔ تاہم یہ عمل غیر مستحکم ہوگا اور غذا میں شامل کیے جانے والے سورس کے ساتھ کیمیائی عمل کرکے اس کا رنگ یا ذائقہ بھی تبدیل کرسکتا ہے۔

دودھ، صحت مند غذا کے حصے کے طور پر، انسانی جسم کو مضبوط بنانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے اور اسے اکثر آئرن فورٹیفکیشن کےلیے منتخب کیا جاتا ہے۔ تاہم، یا تو آئرن کم دستیاب ہے، یا یہ رنگ بدلتا ہے اور دودھ کو دھات جیسا ذائقہ (میٹالک ٹیسٹ) دیتا ہے۔

نیوزی لینڈ میں میسی یونیورسٹی کی طرف سے سائنسی پیش رفت ’’آئرن پلس‘‘ ہے جس میں جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے جبکہ اس کی مصنوعات کا ذائقہ یا رنگ تبدیل نہیں ہوتا۔

آئرن پلس

آئرن پلس دودھ اور آئرن کا مجموعہ ہے۔ مویشیوں کے دودھ میں قدرتی طور پر فاسفیٹ نامی منرل اور کیسین نامی پروٹین ہوتے ہیں۔ یہ دونوں آئرن کے ساتھ ایک بونڈ بناتے ہیں۔

یہ پانی یا کسی مائع میں بہ آسانی حل ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل رسائی ہے لیکن اس کا رنگ یا ذائقہ نہیں بدلتا کیونکہ آئرن، فاسفیٹ اور کیسین کے ذریعے مائع (پانی یا دودھ) میں حل ہوجاتا ہے جبکہ اس دوران کسی اور چیز کے ساتھ تعامل بھی نہیں کرتا۔
https://www.express.pk/story/2286837/1/


بوسٹن: چینی نژاد امریکی سائنسدانوں نے عمر رسیدہ افراد پر ایک طویل تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ دن میں غیر ضروری طور پر زیادہ دیر تک سوتے رہنا بھی ’الزائیمرز‘ کہلانے والی دماغی بیماری کی علامت ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ دن میں کئی گھنٹے سونے کی عادت کا مختلف دماغی بیماریوں کے ساتھ تعلق پہلے ہی سے ہمارے علم میں ہے۔ تازہ تحقیق نے ان معلومات میں ایک اور پہلو کا اضافہ کیا ہے۔

عمر رسیدہ افراد میں رات کی نیند اکثر متاثر رہتی ہے جبکہ وہ دن میں سوتے رہتے ہیں۔

سونے جاگنے کے معمولات میں یہ تبدیلی دماغ کی بتدریج تنزلی کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔

مختلف امریکی اداروں کے ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وہ بزرگ جو بظاہر صحت مند ہیں اور دن میں ایک گھنٹہ یا کچھ زیادہ دیر تک سوتے رہتے ہیں، ان میں چھ سال بعد الزائیمرز بیماری نمودار ہونے کا امکان، معمول کی نیند لینے والے بزرگوں کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

یہ تحقیق ایک طویل مطالعے کا حصہ ہے جس میں پچھلے کئی سال سے عمر رسیدہ افراد کی جسمانی اور ذہنی صحت پر نظر رکھی جارہی ہے۔

ماہرین نے اس مطالعے میں شریک ایک ہزار سے زائد بزرگ امریکی شہریوں سے 14 سال میں جمع کی گئی معلومات کا تجزیہ کیا جن کی عمر (ابتدائی مرحلے پر) 80 سے 84 سال کے درمیان تھی۔

اس تحقیق سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ دن میں زیادہ نیند، الزائیمرز کی وجہ سے ہوسکتی ہے وہیں یہ بھی پتا چلا کہ عمر رسیدگی میں دن کے وقت زیادہ سونے سے بھی مختلف دماغی امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

ریسرچ جرنل ’’الزائیمرز اینڈ ڈیمنشیا‘‘ کے تازہ شمارے میں ماہرین نے اس کیفیت کو ’’شیطانی چکر‘‘ کا نام دیا ہے کیونکہ دن کے وقت نیند اور دماغی امراض میں دو طرفہ تعلق ہمارے سامنے آچکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2299024/9812/


بوسٹن: امریکی نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ پراُمید رہتے ہیں اور ہر مسئلے میں مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں، وہ نہ صرف دوسروں سے زیادہ صحت مند رہتے ہیں بلکہ ان کی عمر بھی قدرے طویل ہوتی ہے۔

اگرچہ عام تاثر بھی یہی ہے کہ ’رجائیت پسند‘ یعنی ہر طرح کے حالات میں پرامید رہنے والوں کی صحت اچھی رہتی ہے لیکن اس بارے میں یہ پہلی باقاعدہ تحقیق ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں نفسیاتی اور اعصابی ماہرین کی ایک ٹیم نے 233 رضاکاروں کا 22 سال تک مطالعہ کرنے کے بعد دریافت کیا ہے کہ مثبت سوچ سے بلڈ پریشر معمول پر رہنے کے علاوہ امیون سسٹم (جسم کو بیماریوں سے بچانے والا قدرتی نظام) بھی مضبوط رہتا ہے۔

ڈاکٹر لیوینا او لی اور ان کے ساتھیوں کی اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ رجائیت پسند افراد بھی اپنی روزمرہ زندگی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور ان کا وقتی ردِعمل بھی دوسروں جیسا ہی ہوتا ہے۔

اس کے باوجود، رجائیت پسند فوراً ہی مسئلہ حل کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور وقتی ردِعمل پر ان کا فطری مزاج غالب آجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ماہرین نے ’’مثبت تاثر‘‘ کا نام دیا ہے۔

مثبت تاثر کے نتیجے میں ان کا فشارِ خون (بلڈ پریشر) اور جسم کے مختلف حصوں کو خون کی فراہمی بھی معمول پر رہتی ہے؛ اور ان کا امیون سسٹم بھی صحیح طرح کام کرتا رہتا ہے۔

ماہرین کی یہی ٹیم 2019 میں یہ دریافت کرچکی ہے کہ رجائیت پسند افراد کی عمر، یاسیت پسند (ہر وقت مایوسی کا شکار رہنے والوں) کے مقابلے میں 11 تا 15 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ نئی تحقیق سے اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوئی ہے۔

’’رجائیت پسندی اور اچھی صحت میں تعلق اب اچھی طرح ہمارے سامنے آچکا ہے،‘‘ ڈاکٹر لیوینا نے کہا، ’’لیکن لمبی عمر کے معاملے میں یہ طے ہونا باقی ہے کہ آیا رجائیت پسندی اور طویل العمری میں صرف کوئی تعلق ہے یا پھر رجائیت پسندی کی وجہ سے عمر لمبی ہوتی ہے۔‘‘

ریسرچ جرنل ’’جیرونٹولوجی سیریز بی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق نیو میکسیکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ صحتِ عامہ کے پروفیسر، جگدیش کھوبچندانی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا: ’’اکیسویں صدی میں مثبت سوچ اور رجائیت پسندی کے بارے میں کئی شہادتیں مل چکی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ امیون سسٹم، دماغی افعال اور جسمانی صحت پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘

’’آج ہم جان چکے ہیں کہ بہت زیادہ اعصابی تناؤ اور منفی ذہنیت سے ہمارے جسم میں نیورو اینڈوکرائن اور امنیاتی ردِعمل (امیون رسپانس) متاثر ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے بیمار پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ بیمار پڑنے پر دوبارہ صحت یابی کا عمل بھی سست رہتا ہے،‘‘ انہوں نے وضاحت کی۔
https://www.express.pk/story/2298215/9812/


شکاگو: ایک چھوٹے سے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ رات کے وقت سونے کے کمرے میں معمولی روشنی بھی خون میں شکر کی مقدار کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بالخصوص مغربی ممالک میں سرہانے پر لیمپ ہوتا ہے یا پھر ٹی وی چلتا رہتا ہے اور اس کی روشنی کمرے میں موجود رہتی ہے۔

تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے خواب گاہ کی معمولی روشنی بھی ان کی نیند متاثر کرسکتی ہے۔ لیکن بات سونے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ روشنی خون میں گلوکوز میں خلل ڈال سکتی ہے جس کے اثرات اگلے ہی دن سامنے آسکتے ہیں۔ یوں خون میں شکر کی سطح معمول سے بلند ہوسکتی ہے۔

پھر بالراست روشنی کے اثرات موٹاپے یا ٹائپ ٹو ذیابیطس کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن اب بھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

سوتے وقت کی روشنیاں اور خراب صحت پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے کئی تحقیقات سے معلوم ہوچکا ہے کہ بیڈروم میں روشنی سے موٹاپے سمیت کئی امراض کی راہ کھل جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے شکاگو کے نارتھ ویسٹرن فائنبرگ اسکول آف میڈیسن کی ڈاکٹر فئلس زی اور ان کے ساتھیوں نے 20 افراد کو بھرتی کیا اور ان پر تحقیقات شروع کیں۔

ان افراد کو دو راتوں تک تجربہ گاہ میں سلایا گیا۔ پہلے روز سارے لوگ مکمل تاریک کمرے میں سلائے گئے۔ دوسرے دن آدھے شرکا کو 100 لکس والی روشنی میں سونے کو کہا گیا ۔ یہ روشنی سرہانے کی روشنی یا کمرے میں ٹی وی کے برابر ہوتی ہے یا پھر پردے سے آنے والی اسٹریٹ لائٹ کے برابر تھی۔

اگلی صبح تمام افراد کے خون کے دو بلڈ ٹیسٹ کئے گئے جس میں انسولین کی پیمائش کی جاتی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں بیداری کے بعد گلوکوز دیا گیا جس کے بعد ان میں انسولین کا برتاؤ نوٹ کیا گیا۔

جن رضاکاروں نے معمولی روشنی میں رات گزاری اگلے روز ان کے خون میں شکر کی سطح بلند دیکھی گئی جبکہ مکمل تاریک کمرے میں سونے والے افراد میں اس کی شرح بہت کم تھی۔ دونوں راتوں میں مکمل تاریکی میں سونے والے افراد کے خون میں شکر کی زیادتی نہیں دیکھی گئی۔
تاہم ماہرین نے اس ضمن میں ایک بڑے مطالعے کا اعلان بھی کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2297877/9812/


واشنگٹن ڈی سی / بیجنگ: چینی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جن خواتین میں معمول کی عمر سے پہلے سن یاس (مینوپاز) شروع ہوجاتا ہے، ان میں دیگر خواتین کی نسبت ڈیمنشیا کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ خواتین میں سن یاس (مینوپاز) شروع ہونے کی اوسط عالمی عمر 50 سال کے لگ بھگ ہے، تاہم بہت سی خواتین میں اس سے پہلے اور بعد میں سن یاس کی ابتداء ہوتی ہے۔

سن یاس کی قبل از وقت ابتداء کو خواتین کی صحت کے نقطہ نگاہ سے بہتر خیال نہیں کیا جاتا۔

جینان، چین کی شینڈونگ یونیورسٹی کی وینٹنگ ہاؤ اور ان کے ساتھیوں نے ’یو کے بایوبینک‘ نامی اوپن سورس ڈیٹا بیس میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ خواتین کی صحت سے متعلق معلومات کا تجزیہ کیا جو 2006 سے 2010 کے دوران جمع کی گئی تھیں۔

ان معلومات کا محتاط تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جن خواتین میں 40 سال سے کم عمر سن یاس کا آغاز ہوگیا تھا، ان کےلیے بڑھاپے میں ڈیمنشیا کا خطرہ بھی دوسری خواتین سے 35 فیصد زیادہ تھا کہ جن میں اوسط عمر پر سن یاس شروع ہوا تھا۔

اسی طرح 45 سال سے قبل سن یاس شروع ہونے والی خواتین کےلیے 65 سال کی عمر میں ڈیمنشیا کا خطرہ، نارمل خواتین کے مقابلے میں 1.3 گنا (130 فیصد) زیادہ تھا۔

البتہ 52 سال یا اس سے زیادہ عمر میں سن یاس کی ابتداء ہونے پر خواتین میں ڈیمنشیا کا خطرہ تقریباً وہی تھا کہ جتنا 50 سے 51 سال میں سن یاس کی ابتداء کا مشاہدہ کرنے والی خواتین کےلیے تھا۔

سن یاس شروع ہوجانے کے بعد خواتین میں فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فالج میں دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے، ماہرین کا خیال تھا کہ ان عورتوں میں ڈیمنشیا کا خطرہ بھی زیادہ ہوگا۔ تاہم نئی تحقیق سے سن یاس، فالج اور ڈیمنشیا میں باہمی تعلق ثابت نہیں ہوا۔

نوٹ: یہ تحقیق گزشتہ دنوں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے تحت منعقد ہونے والی ایک عالمی طبّی کانفرنس میں پیش کی جاچکی ہے تاہم اب تک اسے باقاعدہ طور پر کسی ریسرچ جرنل میں شائع نہیں کروایا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2297311/9812/


کینیڈا: دنیا بھر کے والدین کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسی طرح ان کے بچے ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون دیکھنے میں وقت کم صرف کریں۔ اب بچوں میں اسکرین تکتے رہنے کے زائد وقت کے انتہائی منفی اثرات کے مزید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔

اینجلیا رسکن یونیورسٹی (اے آر یو) کے ماہرین نے اس پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکرین دیکھنے میں زائد وقت گزارنے والے بچے نظرکی کمزوری، توجہ میں کمی اور موٹاپے کے شکار ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں۔

اس ضمن میں اے آر یو کے ماہرین نے پوری دنیا میں ہونے والے تحقیق کا جائزہ یا میٹا ریویو کیا ہے۔ ان کے مطابق کورونا وبا میں اس کا آغاز ہوا اور اب یہ حال ہے کہ بچے روزانہ دو گھںٹے اسکرین دیکھنے کی حد پھلانگ چکے ہیں۔ پوری دنیا میں بچے کہیں تین اور کہیں چار چار گھںٹے موبائل فون دیکھتے رہتے ہیں۔

سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ دو سال تک کے بچے کے سامنے موبائل اسکرین کی شدید ممانعت ہے لیکن وہ بھی اس کیفیت سے دور نہیں۔ ایک ملک تیونس میں تحقیق کے مطابق 5 سے 12 برس تک بچوں میں اسکرین ٹائم کا وقت 111 فیصد بڑھ چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق فون اور ٹیبلٹ سے آنکھوں کی خشکی بڑھ رہی ہے، ان میں سرخی اور تناؤ بڑھتا ہے۔ لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ دونوں آنکھوں کے عکس ملاکر ایک منظر دکھانے کی دماغی کیفیت متاثر ہورہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بلوغت تک پہنچنے والے بچے ایک وقت میں ایک سے زائد آلات استعمال کررہے ہیں۔ وہ ٹی وی دیکھتے وقت بھی فون یا ٹیبلٹ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس سے بصارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ دوسری بعد یہ ہے سرگرمی ختم ہورہی ہے اور بچے دیر تک ایک ہی جگہ بیٹھنے سے موٹاپے اور دیگر امراض کے شکار بن رہے ہیں۔

سائنسدانوں نے والدین اور اساتذہ سے کہا ہے کہ وہ کسی طرح بچوں میں اسکرین ٹائم کم کریں اور انہی ورزش اور جسمانی سرگرمی کی جانب راغب کریں۔
https://www.express.pk/story/2297052/9812/


دل اور دماغ کو قوت بخشنے والا اور گاڑھے خون کو رقیق کرنے کے لیے بطوردواء استعمال کیے جانے والا قدرتی نسخہ ’ لہسن‘ پیاز کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر چہ افادیت کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں، مگر بعض حضرات کو افادیت کے علاوہ دوسرے اعضاء کو ضرر بھی پہنچانے کا ضامن ہے۔

لہسن میں بہت سی غذائیت اور حیاتین پائی جاتی ہیں جو جزو اس کی چرپراہٹ اور ذائقے کا ذمہ دار ہے وہ ’ایلی سین‘ ہے ، مگر اس میں اور بھی دیگر اجزاء شامل ہیں۔ موٹاپے اور وزن کم کرنے کے لیے لہسن بہت مفید ہے، مگر جدید ادویہ کی طرح خامرات خاصہ ( خاص انزائم ) پر اثر انداز نہیں ہوتا ، بلکہ بھوک کم کرتا ہے اور استحالہ (میٹابولزم) بڑھاتا ہے۔

یہ لہسن کا خاصہ ہے، اکثر جو ادویہ بھوک کم کرتی ہیں وہ میٹابولزم کم کرتی ہیں، اسی لیے ادویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ایک دوا استحالہ کم کرے اور دوسری میٹابولزم بڑھائے ، مگر لہسن ایسی غذاء اور دواء ہے کہ استحالہ بھی بڑھاتا ہے اور بھوک بھی کم کرتا ہے۔

اگرچہ تیزابیت ، السر ، گردے اور جگر کے مریضوں کو اس سے پرہیز کا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گرم اور خشک ہے، گردے کو گرم کر سکتا ہے، جگر کے خامرات کی مقدار بڑھا دیتا ہے، تیزابیت بڑھاتا ہے اور السر کے مریضوں کو تیزابیت ضرر پہنچاتی ہے۔

یاد رہے کہ لہسن کے جزو ’ ایلی سین‘ کو اجاگر کرنے کے لیے اس کے ٹکڑے کیے جاتے ہیں، ورنہ یہ جزو جسم میں استعمال نہیں ہو پاتا۔ لہسن میں اور بھی اجزاء مثلاً ایلین، سلفر، فائبر، حیاتین اے ڈی ای، کیلشیم، سیلی نیم، کاپر، جست پائے جاتے ہیں اور غذائیت مہیا کرنے والے لحمیات کی اکائیاں ارجینائین، لائیسین وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں، یہ اکائیاں ’امائی نو ایسڈ‘ جسم کو باہر سے ہی چاہیے ہوتی ہیں اور جسم کی نشوونما کے لیے مخصوص بھی ہیں۔ بچوں کا قد بڑھانے ، بالوں کی نشوونما، قوتِ مدافعت ، جلد کی نشوونما، خون کو صاف کرنا، دماغ کو قوت بخشنا انہی ’ امائی نو ایسڈ ‘ کے مرہون منت ہیں۔

لہسن کے فوائد

1۔ سرد موسم میں نزلہ ، زکام ، نمونیا ، سینے اور ہڈیوں کے درد سے بچاتا ہے کیونکہ مزاجاً گرم اور خشک درجہ چار مرتبہ وسطح پر فائز ہے، سرد موسم میں سوائے تیزابیت کے مریضوں کے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ 2۔ وزن کم کرنے کے لیے لہسن کا عرق زیادہ بہتر ہے اور اس کا استعمال نہار منہ زیادہ مناسب ہے، مگر تیزابیت بڑھ نہ جائے اس خوف کے پیشِ نظر لہسن ملی دیسی مرغ کی یخنی پینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

3۔دل کے مریضوں کو لہسن کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں تھوڑی مقدار میں ’ کو انزائم کیو ٹین‘ ہے جو عضلات کے ریشوں کو پیدا کرتا ہے، مگر بہتر ہے اگر جدید ادویہ کوئی دل کا مریض استعمال کررہا ہو تو وہ لہسن نہ کھائے کیونکہ دل کے مریضوں کا جگر اور گردہ بہت لاغر ہوتا ہے، ایک دم فیل ہونے لگتے ہیں۔ 4۔ شریان کو عریض کرنے کے لیے اس طرح فعل انجام دیتا ہے کہ چربی جو شریانوں کو تنگ کرنے کی ذمہ دار ہے ، اسے پگھلادیتا ہے، اسی وجہ سے جن اشخاص کے دل کی شریان اکلیلی (کارونری آرٹری) میں تنگی ہوتی ہے، ان کے لیے لہسن بہت افادیت کا حامل ہے۔

5۔ جلد ، بالوں کی نشوونما میں لہسن اپنے اندر سمائے ہوئے ’ امائی نو ایسڈ‘ کے ذریعے فائدہ پہنچاتا ہے، اس مقصد کے لیے بھی لہسن مرغی کی یخنی میں ملا کر استعمال کرنا بہتر ہے۔ 6۔ لہسن میں پایا جانے والا وٹامن سی زبان ہی سے بذریعہ آخذ خلیات ِ لسانی ( زبان میں موجود ری سیپٹر) بہت جلد جذب ہوتا ہے یوں جِلد میں رعنائی اور آنکھوں کے چند امراض میں مفید ہے۔ 7۔ اس میں موجود کیلشیم کے ساتھ وٹامن ڈی اس قدر ہوتا ہے کہ کیلشیم جلد جذب ہو جاتا ہے یوں ہڈیوں کی لچک بحال رکھتا ہے، بوڑھوں کی ہڈیاں کیلشیم کے استعمال سے دکھنے لگتی ہیں، مگر لہسن میں موجود کیلشیم سے انہیں بھی بہتری محسوس ہوتی ہے۔ 8۔ شوگر کے مبتلا حضرات کو لہسن اس لیے مفید ہے کہ یہ ’ انسولین‘ رزسٹ ٹینس ‘ کو ٹھیک کرتا ہے۔

اکثر مریضانِ ذیابیطس کی شکایت رہتی ہے کہ ادویہ اور انسولین ٹکیوں کے استعمال کے باوجود ان کی شوگر زیادہ رہتی ہے، ایسے اشخاص کو بھی لہسن مرغی کی یخنی میں ملا کر استعمال کرنا چاہیے،کیونکہ لہسن کے اجزاء ذرا پھول جاتے ہیں، اور معدہ جلد ہی انہیں ہضم کرسکتا ہے، مزید یہ کہ پانی کے ساتھ اجزاء آنتوں میں جلد اتر جاتے ہیں۔

9۔ ضدِ حیوی ہونے کی وجہ سے لہسن ایک حد تک (نیروسپیک ٹرم) اینٹی فنگل، اینٹی وائرل، اینٹی بیکٹریل ہے، سینے، دماغ اور جِلد کے جراثیم کو بخوبی ختم کردیتا ہے، مگر معدے میں کچھ حد تک ہی ضدِ حیوی فعل انجام دیتا ہے، بلکہ درد کرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ 10۔ جن اشخاص کے ناک میں ورم (سائینو سائی ٹِس) ہوتا ہے، ان کے لیے’پروسسڈ روغنِ لہسن‘ کے چند قطرے ناک کے نتھنوںپر ٹپکانے سے بند ناک (نیزل کانجیشن) فوراً کھل جاتی ہے۔

لہسن کی اصلاح کیسے کریں؟

1۔ لہسن سفوف کو کیپسول میں ڈالنے سے جلن پیدا کرنے کی کیفیت کم ہو جاتی ہے۔ 2۔ اگر تیزابیت ہو جائے تو پانی میں سبوس اسپغول کا استعمال کریں۔ 3۔ نیند کم ہو جائے تو دودھ میں روغنِ بادام ملا کر پینے سے نیند آجاتی ہے۔

مقدار استعمال

لہسن کی اتنی ہی مقدار استعمال کی جائے کے پسینے سے اس کی بو نہ آئے۔ایک دن کے اندر دو جوئے لہسن استعمال کرسکتے ہیں اگر یخنی کی میں ملا کر استعمال کیا جائے تو چھ جوئے بھی استعمال کیا جاسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2292383/9812/


ناشتہ تمام دن آپ کو تندرست وتوانا رکھتا ہے۔ دانا کہتے ہیں کہ صبح کا ایک لقمہ، دن بھر کے کئی کھانوں سے بہتر ہے۔ حکما کہتے ہیں کہ تگڑا ناشتہ آپ کوکئی بیماریوں سے بچاتا ہے۔

انگریزی زبان میں اسے’ بریک فاسٹ‘ کہا جاتا ہے یعنی پچھلی رات کا فاقہ توڑنا ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ ناشتہ سارے دن کی خوراک سے بہتر ہے۔ یہ اچھی صحت مند زندگی گزارنے کیلئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ ہمارے جسم کا وہ ایندھن ہے جس سے ہمارا جسم توانائی حاصل کرتا ہے، جو طاقت صبح کے ناشتہ سے ملتی ہے اس کی وجہ سے آپ دن بھر کے غیر ضروری چیزیں کھانے سے بچ جاتے ہیں۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ صبح ناشتہ کرنے کی عادت اورصحت مند جسم کے درمیان میں ایک براہ راست تعلق ہے۔ مغاش یونیورسٹی کی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ناشتہ نہ کرنا اصل میں دن بھر میں کھائی جانے والی کیلوریز کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

آج کل عمومی طور پر دیکھا جارہا ہے کہ خواتین، بچے ، بڑے سب ناشتے سے دور بھاگتے ہیں۔ مردحضرات کو آفس جانے کی جلدی ہوتی ہے، ایسے وہ یہ اہم نہیں سمجھتے کہ ناشتہ کیا ہے یا نہیں ۔ بچے چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں ، ان کا ناشتہ نہ کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سکول ،کالج جانے کی جلدی ہوتی ہے یا پھر ناشتہ کرنے کو ان کا دل نہیں چاہ رہا ہوتا۔

خواتین نے بھی سارا دن کام کرنا ہوتا ہے، انھیں بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم وہ بھی زیادہ تر چائے کاایک کپ پی کر گزارہ کرتی ہیں ۔ وہ اپنی مصروفیات میں لگی رہتی ہیں حالانکہ انھیں بھوک بھی محسوس ہوتی ہے اور کمزوری بھی لیکن وہ اپنے کاموں میں لگی رہتی ہیں۔ تاہم انھیں یہ احساس نہیں ہے کہ ناشتہ نہ کرنے سے خواتین کی ہڈیاں جلد کمزور ہوجاتی ہیں ۔ ہڈیوں اورجوڑوں کے درد کامسئلہ بھی زیادہ تر خواتین میں ہوتا ہے اور اس کی بڑی وجہ بھی ناشتہ نہ کرنا ہوتا ہے۔

ماہرین یہ بات زیادہ زور دے کر کہتے ہیں کہ متوازن ناشتہ انسان کو چاق وچوبند اورتندرست رکھتا ہے۔ اگر صرف خواتین ہی کی بات کی جائے تو ناشتہ انھیں صحت مند ہی نہیں رکھتا بلکہ ان کے حسن وجمال میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ رات بھر خالی پیٹ سے گلوکوز کی مقدار نہیں مل سکتی۔ جب انسان صبح اٹھے ، اسے مطلوبہ مقدار میںگلوکوز میسر نہ آئے تو دن بھر کی کارکردگی متا ثر ہوتی ہے۔ اس سے جسمانی اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔

امریکن کالج آف کارڈیالوجی کی حالیہ تحقیق کے مطابق اچھا ناشتہ زندگی لمبی بھی کرسکتا ہے۔ ناشتہ چھوڑنے سے دل کی بیماریوں سے ہلاکت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ این ایچ ایس کی ویب سائٹ پرشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس تحقیق کا حصہ بننے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا وہ ناشتہ نہیں کرتے، جو زیادہ تر تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں، ورزش سے بہت دور غیر صحت مند خوراک کھاتے ہیں اور ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائپر ٹینشن ، ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول کااصل تعلق ناشتہ چھوڑنے سے ہے۔ صحت مند دل کا تعلق صحت مند ناشتہ سے ہے۔ دل اورشریانوں کی زیادہ تربیماریاں موت کی سبب بنتی ہیں ۔

اچھا ناشتہ کیسا ہوتا ہے؟

ایک اچھے ناشتے میں نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) کی کافی مقدار شامل ہوتی ہے لیکن اس میں زیادہ مقدار میں چکنائی نہیں ہونی چاہیے ۔گندم کی بنی روٹی ، انڈہ ، دہی ، پھلوں کا تازہ جوس،دودھ اورپھل ایسی غذائیں ہیں جو انسانی جسم کو دن بھر ایند ھن فراہم کرتی ہیں۔ گندم اورجو کے دلیہ سے بہتر کوئی غذا نہیں ۔ خواتین اگر صحت مند رہنا چاہتی ہیں تو ناشتے میں جو کادلیا ضرورکھائیں۔ سب سے بہتر ناشتہ ایسا ہوتا ہے جو آسانی سے ہضم ہونے والاہو۔ جوخواتین اپنے بڑھتے وزن سے پریشان ہیں ، وہ دلیہ کا بھر پور ناشتہ کریں۔ یہ وزن کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ ناشتہ کریں بادشاہوں کی طرح ، دوپہر کاکھاناکھائیں شہزادوں کی طر ح اوررات کاکھانا فقیروں کی طرح۔ اس لئے صحت مند ناشتہ کریں اور صحت مند زندگی جئیں۔

ہاں ! ناشتہ کے حوالے سے چند غلطیاں ہرگز نہیں کرنی چاہئیں ، مثلاً روزانہ مختلف ناشتہ کرنا۔ جو لوگ ناشتے میں مختلف چیزیں استعمال کرتے رہتے ہیں ان میں موٹاپا کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موٹاپا بہت سے مسائل کی جڑ ہوتا ہے۔ اسی طرح دھیان رکھنا چاہیے کہ ناشتہ غذائیت سے بھرپور ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ شوگر اور بلڈپریشر کے مریض ہوتے ہیں جو ایک بھرپور ناشتہ کریں تو کچھ ہی عرصہ میں وہ ان دونوں امراض پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کے مطابق پروٹین سے بھرپور ناشتہ بھوک بڑھانے والے ہارمون کی سطح کم کرتا ہے۔

بعض لوگ ناشتہ دیر سے کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ناشتہ کے وقت بھوک محسوس نہ ہو تو پھر اپنی غذائی عادات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر زیادہ بھوک نہ محسوس ہو تو بھی کچھ نہ کچھ ضرور کھالیں ۔ چاہے ایک سیب یا کیلا ہی کیوں نہ ہو تاکہ جسمانی میٹابولزم اپنا کام شروع کردیں۔

جلد بازی میں ناشتہ نہیں کرنا چاہیے۔ جلدی جلدی ناشتہ کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ ناکافی غذا کھاتے ہیں۔ نتیجتاً دوبارہ جلد بھوک لگ جائے گی اور پھر بازار کی ناقص اشیا کھانا پڑیں گی۔ ویسے بھی چبا کر خوراک کو نگلنا بھی نظام ہاضمہ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

ناشتہ میں زیادہ میٹھی اشیا کا استعمال بھی ایک غلط غذائی عادت ہے۔ ناشتے میں Cereal کا استعمال جسم میں چینی یا شکر کی مقدار میں اضافہ کردیتا ہے کیونکہ اس کی تیاری میں چینی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، نتیجتاً اس کی تھوڑی مقدار ہی سے پیٹ بھر جاتا ہے جبکہ اس کی مٹھاس بلڈ شوگر کی سطح بڑھاتی ہے، جلد ہی دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے جو جنک فوڈ کی طرف راغب کرتی ہے ۔

بعض لوگ ناشتہ میں چکنائی سے پاک دودھ کرتے ہیں۔ اسے صحت کے بارے میں عقل مندانہ فیصلہ تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ عام دودھ ناشتے کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے جبکہ چکنائی سے پاک دودھ دن کے کسی دوسرے حصے میں استعمال کرنا چاہیے ۔

بعض لوگ ناشتہ میں فلیور ملک استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنا بھی غلط ہے۔ فلیور ملک جیسے بادام، سویا یا ناریل کے دودھ کو عام دودھ کے صحت مند متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے تو ان میں مٹھاس شامل ہونے کے سبب جسم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ لوگ ایسے فلیور ملک کی شکل میں زیادہ شکر جسم کا حصہ بنالیتے ہیں جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔

بعض لوگ ناشتہ کو پروٹین اور صحت مند چربی سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک غلط عادت ہے۔ پروٹین جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں جبکہ صحت مند چربی پیٹ بھرنے اور بے وقت کی بھوک کی روک تھام کرتی ہے۔ صحت مند چربی اور پروٹین سے بھرپور ناشتہ جیسے انڈے، گریاں، مکھن اور دہی جسم کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔

چائے یا کافی کا نہار منہ استعمال بھی غلط ہے۔ خالی معدہ کافی یا چائے کا استعمال جسم کے لیے بہت زیادہ تیزابی ثابت ہوتا ہے اور ناشتہ کم کھانے پر مجبور کرکے دن بھر میں الم غلم اشیاء کے استعمال پر مجبور کرسکتا ہے۔ درحقیقت یہ عادت بھوک کی سطح، توانائی کی سطح اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

چائے یا کافی کو کیلوریز فری سمجھنا بھی غلط ہے۔ چائے ہو یا کافی، دونوں ہی میں کیلوریز، کاربوہائیڈریٹس اور چینی موجود ہوتی ہے ماسوائے اگر آپ بغیر دودھ یا چینی کی چائے یا کافی پینے کے عادی ہوں۔ دودھ، چینی وغیرہ کے اضافے کے بعد ان مشروبات میں کیلوریز کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے جو طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ چینی کی جگہ دارچینی کا اضافہ بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

اگر تو آپ بازار میں ملنے والے ڈبہ بند فروٹ جوسز ناشتے میں پینے کے عادی ہیں تو ان کو پینے سے فوری طور پر تو توانائی کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ اس میں موجود شکر ہوتی ہے مگر جلد ہی بلڈ شوگر لیول گرجاتا ہے اور سستی طاری ہونے لگتی ہے۔ جوس کے مقابلے میں پھل کو کھانا زیادہ بہتر متبادل ہے۔

انڈے کی سفیدی کم چربی اور کیلوریز والا پروٹین جسم کا حصہ بناتی ہے، اس کے مقابلے میں زردی آئرن، وٹامن بی اور وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتی ہے، صرف سفیدی کی بجائے پورا انڈہ کھانا پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرا رکھتا ہے اور بے وقت کھانے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ اگر آپ کولیسٹرول کو لے کر پریشان ہیں تو انڈوں کی تعداد ایک ہفتے میں پانچ سے آٹھ تک محدود کرسکتے ہیں، تاہم طبی سائنس کے مطابق انڈوں سے کولیسٹرول کی سطح بڑھنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

کافی یا چائے اس وقت صحت بخش نہیں رہتے جب ان میں چکنائی سے بھرپور ملائی اور چینی کا اضافہ کردیا جائے، تو اس سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔

چینی کی طرح بہت زیادہ نمک کا ناشتے میں استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، نمک کے زیادہ استعمال سے جسم میں پانی ایک جگہ جمع ہوتا ہے جس سے پیٹ پھولتا ہے۔

صبح بہت زیادہ فائبر غذا کا حصہ بنانا پیٹ میں گیس بڑھانے کا باعث بنتا ہے، اگر آپ ضرورت سے زیادہ فائبر استعمال کریں تو مناسب مقدار میں پانی پینا غذائی نالی کے افعال درست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2289212/9812/


وہ 22علامات جو سگریٹ نوش افراد کی جان بھی لے سکتی ہیں
Mar 10, 2022 | 17:40:PM

سورس: MAX PIXEL (creative commons license)

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) تمباکو نوشی زہرقاتل ہے اور کئی حوالوں سے صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ایک واضح تعداد سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی کی لت 50سے زائد بیماریوں کے لاحق ہونے کے خطرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے، جن میں پھیپھڑوں کا کینسر، سٹروک، دل کی بیماریاں اور ہارٹ اٹیک و دیگر شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ موت کے چند بڑے اسباب میں ایک سگریٹ نوشی بھی ہے۔ برطانوی اخبار دی سن کے مطابق اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف برطانیہ میں ہر سال 78ہزار لوگ سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

اب ماہرین نے نئی تحقیق میں 22ایسی علامات بتائی ہیں جنہیں سگریٹ نوش حضرات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ علامات ان کے موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہیں۔ماہرین کی طرف سے بتائی گئی یہ علامات مندرجہ ذیل ہیں:۔

دائمی کھانسی

کھانسی کے ساتھ خون آنا

سانس لینے میں مستقل مشکل درپیش آنا

بار بار سینے کی انفیکشنز لاحق ہونا

تھکاوٹ

بھوک ختم ہو جانا یا وزن کم ہونا

غشی محسوس کرنے لگنا

ٹانگوں اور بازوﺅں کا سُن ہونا یا کمزور ہونا

جلد کی رنگت تبدیل ہونا

عضو مخصوصہ کی ایستادگی متاثر ہونا

ہاتھوں، پیروں اور دیگر اعضاءمیں سوجن آنا

چہرے کا پژمردہ ہوجانا

دونوں ہاتھوں کو سامنے کی طرف ہوا میں اٹھا کر وہیں ٹکائے رکھنے میں دشواری پیش آنا

بولنے میں دشواری ہونا، زبان سے الفاظ ٹوٹ پھوٹ کر ادا ہونا

سینے میں درد رہنا یا دباﺅ، بھاری پن، سختی یا سکڑاﺅ کا احساس ہونا

سینے میں اچانک تکلیف ہونا

ذہنی دھندلاہٹ کا شکار ہونا

بہت زیادہ پسینہ آنا

سانس اکھڑنے لگنا

بیمار پڑنا یا خود کو بیمار محسوس کرنے لگنا

شدید ذہنی پریشانی اور تناﺅرہنے لگنا

دی سن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیلپا کائے نامی ایک ماہر کا کہنا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی علامت اگر زیادہ دیر تک کسی سگریٹ نوش شخص میں موجود ہو تو انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ایسے شخص کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Mar-2022/1412833?fbclid=IwAR3zhfNo-_Z7fbKtr_FSjhsAg3uz_MS3k9PheeD9W6mDMFEnhjTkRE1pLtM


ایئرفونز یا ہیڈ فونز کا استعمال کرنیوالے افراد کیلئے بری خبرآگئی
Mar 10, 2022 | 17:40:PM

سورس: Pxhere.com (creative commons license)

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ بھی ایئرفونز یا ہیڈ فونز بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں تو آپ کے لیے بری خبر ہے، ماہرین نے اسے قوت سماعت متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔

ویب سائٹ ’پرو پاکستانی‘ کے مطابق ای ای نٹی سپیشلسٹ پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا ہے کہ اگرچہ آج بھی دنیا میں قوت سماعت متاثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ شور کی آلودگی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہر سال ساڑھے 4کروڑ لوگوں کی قوت سماعت متاثر ہوتی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں ایئرفونز اور ہیڈ فونز کااستعمال بھی اس کی ایک بڑی وجہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

پروفیسر عاطف حفیظ ’ورلڈ ہیئرنگ ڈے2022‘ کے موقع پر ڈو انٹرنیشنل میڈیکل کالج، اوجھا کیمپس میں ایک آگہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ایئرفونز اور ہیڈفونز کی وجہ سے قوت سماعت کے متاثر ہونے کی شرح پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں پریشان کن حد تک زیادہ ہے اور ہر عمر کے لوگ ان ڈیوائسز کی وجہ سے بہرے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وباءکے سبب لوگ گھرسے کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی قوت سماعت کے متاثر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے ہیڈفونز کا استعمال کئی گنا بڑ ھ گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کام کرتے ہوئے ہر ایک گھنٹے بعد 10منٹ کا وقفہ کریں۔“
https://dailypakistan.com.pk/10-Mar-2022/1412834?fbclid=IwAR3IQwppspMo2Cg_-KG81T6Iyg-z9M12_k1hV_1KvMZ0emtWCGFgouu2yzE


جرمنی: ڈپریشن، گھبراہٹ اور بے چینی ہماری روزمرہ زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ ادویہ کے ساتھ اب سائنسدانوں نے انسانی احساس والا تکیہ بنایا ہے جو مصنوعی طور پر سانس لیتا ہے اور اسے دھڑے سے لگانے پر عجیب سکون کا احساس ملتا ہے۔

اسے آپ گلے ملنے والا تکیہ کہہ سکتے ہیں جس میں خاص پمپ، سرکٹ اور موٹریں لگی ہیں ۔ ان کی بدولت اندر کی ساخت پھیلتی اور سکڑتی ہے جس کا احساس تکیہ رکھنے والا دھڑ اور سینے پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ریاضیاتی طور پر تیار یہ تکیہ خود آپ کو سانس کی مشق اور مراقبے میں مدد دیتا ہے۔

اس سے قبل اسی طرح آغوش میں لیے جانے والے روبوٹ اور مشینی جاندار بنائےجاتے رہے ہیںَ۔ اس تکیے کا مقصد بھی کسی دوا کے بغیر اکتاہٹ اور بے چینی کم کرنا ہے۔ اسی لیے جرمنی کی سارلینڈ یونیورسٹی کے ایلیس ہائنز نے اسے سائنسی اصولوں پر تیار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر بنائے جانے والا تکیہ عین انسنای پھیپھڑے کی طرح کام کرتا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے 129 رضاکاروں پر آزمایا گیا جو کسی نہ کسی درجے کی اینزائٹی کے شکار تھے۔ ان میں سے بعض افراد کو کچھ دیر تکیے کو آغوش میں لینے پر کہا ، ان سے سوالنامے بھروائے گئے اور پھر ایک ریاضیاتی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

45 افراد سے کہا گیا کہ وہ صرف 8 منٹ تک تکیے کو سینے سے لگائے اور اسے محسوس کریں۔ دوسری جانب 40 افراد کو آواز کے ذریعے رہنما مراقبہ کرایا گیا جبکہ 44 افراد نے کچھ نہیں کیا۔ تجربات سے پہلے اوربعد میں سوالنامے سے ان افراد میں بے چینی کی سطح کو ناپا گیا۔

جن افراد نے تکیے کو گلے لگایا اور مراقبہ کیا تھا، ان دونوں گروہوں نے بے چینی میں کچھ کمی کا اعتراف تو کیا لیکن جن 44 افراد کو کوئی مدد نہ دی گئی انہوں نے تو درحقیقت بے چینی میں اضافے کا اعتراف کیا۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تکیہ تھراپی عین مراقبے کی طرح ہی مؤثر اورپراثر ہے۔ سانس لیتے اس تکیے کی کل لمبائی 36 سینٹی میٹر ہے۔ اس کے استعمال کی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی یہ کسی ایپ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کا انحصار خود مریضوں پر ہے کہ وہ اسے کسطرح محسوس کرتے ہیں۔

تاہم ماہرین کے مطابق یہ تکیہ لاشعوری طور پر سانس لینے کے عمل کو کسی مراقبے کی طرح ہموار اور باقاعدہ بناتا ہے جس سے دماغ اور نظامِ ہاضمہ کو سکون ملتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2295706/9812/


لندن: دنیا بھر میں لاتعداد مریضوں پر حملہ کرکے انہیں مفلوج کردینے والے مرض پارکنسن کے ابتدائی علامت کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ سماعت میں خلل اور مرگی جیسی کیفیات اس مرض کی پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔

مشرقی لندن میں مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تو اس میں یہ رحجان سامنے آیا ہے۔ کوئن میری یونیورسٹی سے وابستہ ایلسٹائر نوئس اور ان کی ٹیم نے برطانیہ بھر میں مختلف نسل اور عمر کے افراد کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ ان تمام افراد کا ڈیٹا پرائمری کیئر ہسپتالوں سے لیا گیا تھا اور اس کی تفصیلات جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئی ہیں۔

اایلسٹائر کے مطابق رعشہ اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ پارکنسن کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں جو پانچ سے دس برس قبل ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن سننے میں خلل اور مرگی کی علامات سے ڈاکٹر بہت پہلے ہی پارکنسن کو بھانپ سکتے ہیں۔

1990 سے 2018 تک لگ بھگ دس ہزار افراد پر تحقیق کی گئی جس میں کل ایک ہزار افراد پارکنسن کے شکار دیکھے گئے۔ اس مطالعے مین 55 فیصد سیاہ فام انگریز اور 45 فیصد سیاہ فام، ایشیائی اور دیگر اقوام یا ممالک سے وابستہ تھے۔ ماہرین نے کل 24 علامات پر غور کیا جن میں سماعت میں کمی اور مرگی کو بھی شامل کیا گیا ۔

توقع کے تحت ماہرین نے پارکنسن کے شکار ہونے والے گروپ میں قبض، تھکاوٹ، نیند کی کمی، غنودگی، کندھوں کی تکلیف، جھٹکے، ہاتھوں کی لرزش اور دماغی صلاحیت میں کمی نوٹ کی تھی۔

ان میں سماعت کا متاثر ہونا اور مرگی کو بھی اہم عوامل گردانا گیا۔ تاہم ماہرین نے اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2294402/9812/


لندن: پھلوں میں طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں اور دنیا کے بہترین غذائی ماہرین پپیتے کو عمررسیدگی روکنے کے لیے ایک بہترین پھل قرار دیتے ہیں۔

اگرچہ اسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے لیکن پپیتا اپنے وٹامن اور قیمتی معدنیات کی بدولت بڑھاپے کے اثٖرات دور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر ماہرِ غذائیات ڈاکٹر ٹریسٹا بیسٹ نے اسے سپرفوڈ بھی قرار دیا ہے۔

’پپیتے کے پھل پر ہماری توجہ بہت ہی کم ہے جو اپنے زبردست خواص سے اندرونی اور بیرونی طور پر بڑھاپا دور رکھتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں خلیاتی سطح تک بدن کو تادیر جوان رکھتا ہے،‘ ڈاکٹر ٹریسٹا نے بتایا۔

پپیتا اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہے اور اس میں موجود متنوع وٹامن بدن میں آکسڈیٹوواسٹریس کم کرتےہیں۔ بصورتِ دیگر یہ کیفیت بدن کی اینٹوں یعنی خلیات کو نقصان پہنچاتی ہے اور ہم دھیرے دھیرے بڑھاپے کی جانب راغب ہوت ہیں۔ اس سے اندرونی جلن (انفلیمیشن) بڑھتی ہے۔ جلد ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور چہرے پر جھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔

اب پپیتے کے اینزائم کی بات کی جائے تو اس میں وٹامن اے، سی اور ای کے علاوہ پیپین نامی اینزائم بھرپور پایا جاتا ہے اور یوں بڑھاپے کو دور بھگاتا ہے۔ دوسری جانب اس پھل میں لائپوسین کی بھرپور مقدار موجود ہوتی ہے ۔ ایک جانب تو یہ کئی اقسام کے کینسر کو روکتی ہے تو دوسری جانب کینسر کےعلاج میں ریڈیو اور کیموتھراپی کے مضر اثرات کو بھی کم کرتی ہے۔ لائپوسین کا ایک فائدہ یہ ہے کہ امراضِ قلب سے بچاؤ میں بھرپور مدد ملتی ہے۔

ان تمام فوائد بیان کرتے ہوئے ماہرین کا اصرار ہے کہ اپنی غذا میں پپیتے کو ضرور شامل کریں اور اگر ممکن ہوتو اسے اسمودی بنا کر پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2293980/9812/


دل اور دماغ کو قوت بخشنے والا اور گاڑھے خون کو رقیق کرنے کے لیے بطوردواء استعمال کیے جانے والا قدرتی نسخہ ’ لہسن‘ پیاز کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر چہ افادیت کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں، مگر بعض حضرات کو افادیت کے علاوہ دوسرے اعضاء کو ضرر بھی پہنچانے کا ضامن ہے۔

لہسن میں بہت سی غذائیت اور حیاتین پائی جاتی ہیں جو جزو اس کی چرپراہٹ اور ذائقے کا ذمہ دار ہے وہ ’ایلی سین‘ ہے ، مگر اس میں اور بھی دیگر اجزاء شامل ہیں۔ موٹاپے اور وزن کم کرنے کے لیے لہسن بہت مفید ہے، مگر جدید ادویہ کی طرح خامرات خاصہ ( خاص انزائم ) پر اثر انداز نہیں ہوتا ، بلکہ بھوک کم کرتا ہے اور استحالہ (میٹابولزم) بڑھاتا ہے۔

یہ لہسن کا خاصہ ہے، اکثر جو ادویہ بھوک کم کرتی ہیں وہ میٹابولزم کم کرتی ہیں، اسی لیے ادویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ ایک دوا استحالہ کم کرے اور دوسری میٹابولزم بڑھائے ، مگر لہسن ایسی غذاء اور دواء ہے کہ استحالہ بھی بڑھاتا ہے اور بھوک بھی کم کرتا ہے۔

اگرچہ تیزابیت ، السر ، گردے اور جگر کے مریضوں کو اس سے پرہیز کا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گرم اور خشک ہے، گردے کو گرم کر سکتا ہے، جگر کے خامرات کی مقدار بڑھا دیتا ہے، تیزابیت بڑھاتا ہے اور السر کے مریضوں کو تیزابیت ضرر پہنچاتی ہے۔

یاد رہے کہ لہسن کے جزو ’ ایلی سین‘ کو اجاگر کرنے کے لیے اس کے ٹکڑے کیے جاتے ہیں، ورنہ یہ جزو جسم میں استعمال نہیں ہو پاتا۔ لہسن میں اور بھی اجزاء مثلاً ایلین، سلفر، فائبر، حیاتین اے ڈی ای، کیلشیم، سیلی نیم، کاپر، جست پائے جاتے ہیں اور غذائیت مہیا کرنے والے لحمیات کی اکائیاں ارجینائین، لائیسین وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں، یہ اکائیاں ’امائی نو ایسڈ‘ جسم کو باہر سے ہی چاہیے ہوتی ہیں اور جسم کی نشوونما کے لیے مخصوص بھی ہیں۔ بچوں کا قد بڑھانے ، بالوں کی نشوونما، قوتِ مدافعت ، جلد کی نشوونما، خون کو صاف کرنا، دماغ کو قوت بخشنا انہی ’ امائی نو ایسڈ ‘ کے مرہون منت ہیں۔

لہسن کے فوائد

1۔ سرد موسم میں نزلہ ، زکام ، نمونیا ، سینے اور ہڈیوں کے درد سے بچاتا ہے کیونکہ مزاجاً گرم اور خشک درجہ چار مرتبہ وسطح پر فائز ہے، سرد موسم میں سوائے تیزابیت کے مریضوں کے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ 2۔ وزن کم کرنے کے لیے لہسن کا عرق زیادہ بہتر ہے اور اس کا استعمال نہار منہ زیادہ مناسب ہے، مگر تیزابیت بڑھ نہ جائے اس خوف کے پیشِ نظر لہسن ملی دیسی مرغ کی یخنی پینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

3۔دل کے مریضوں کو لہسن کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں تھوڑی مقدار میں ’ کو انزائم کیو ٹین‘ ہے جو عضلات کے ریشوں کو پیدا کرتا ہے، مگر بہتر ہے اگر جدید ادویہ کوئی دل کا مریض استعمال کررہا ہو تو وہ لہسن نہ کھائے کیونکہ دل کے مریضوں کا جگر اور گردہ بہت لاغر ہوتا ہے، ایک دم فیل ہونے لگتے ہیں۔ 4۔ شریان کو عریض کرنے کے لیے اس طرح فعل انجام دیتا ہے کہ چربی جو شریانوں کو تنگ کرنے کی ذمہ دار ہے ، اسے پگھلادیتا ہے، اسی وجہ سے جن اشخاص کے دل کی شریان اکلیلی (کارونری آرٹری) میں تنگی ہوتی ہے، ان کے لیے لہسن بہت افادیت کا حامل ہے۔

5۔ جلد ، بالوں کی نشوونما میں لہسن اپنے اندر سمائے ہوئے ’ امائی نو ایسڈ‘ کے ذریعے فائدہ پہنچاتا ہے، اس مقصد کے لیے بھی لہسن مرغی کی یخنی میں ملا کر استعمال کرنا بہتر ہے۔ 6۔ لہسن میں پایا جانے والا وٹامن سی زبان ہی سے بذریعہ آخذ خلیات ِ لسانی ( زبان میں موجود ری سیپٹر) بہت جلد جذب ہوتا ہے یوں جِلد میں رعنائی اور آنکھوں کے چند امراض میں مفید ہے۔ 7۔ اس میں موجود کیلشیم کے ساتھ وٹامن ڈی اس قدر ہوتا ہے کہ کیلشیم جلد جذب ہو جاتا ہے یوں ہڈیوں کی لچک بحال رکھتا ہے، بوڑھوں کی ہڈیاں کیلشیم کے استعمال سے دکھنے لگتی ہیں، مگر لہسن میں موجود کیلشیم سے انہیں بھی بہتری محسوس ہوتی ہے۔ 8۔ شوگر کے مبتلا حضرات کو لہسن اس لیے مفید ہے کہ یہ ’ انسولین‘ رزسٹ ٹینس ‘ کو ٹھیک کرتا ہے۔

اکثر مریضانِ ذیابیطس کی شکایت رہتی ہے کہ ادویہ اور انسولین ٹکیوں کے استعمال کے باوجود ان کی شوگر زیادہ رہتی ہے، ایسے اشخاص کو بھی لہسن مرغی کی یخنی میں ملا کر استعمال کرنا چاہیے،کیونکہ لہسن کے اجزاء ذرا پھول جاتے ہیں، اور معدہ جلد ہی انہیں ہضم کرسکتا ہے، مزید یہ کہ پانی کے ساتھ اجزاء آنتوں میں جلد اتر جاتے ہیں۔

9۔ ضدِ حیوی ہونے کی وجہ سے لہسن ایک حد تک (نیروسپیک ٹرم) اینٹی فنگل، اینٹی وائرل، اینٹی بیکٹریل ہے، سینے، دماغ اور جِلد کے جراثیم کو بخوبی ختم کردیتا ہے، مگر معدے میں کچھ حد تک ہی ضدِ حیوی فعل انجام دیتا ہے، بلکہ درد کرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ 10۔ جن اشخاص کے ناک میں ورم (سائینو سائی ٹِس) ہوتا ہے، ان کے لیے’پروسسڈ روغنِ لہسن‘ کے چند قطرے ناک کے نتھنوںپر ٹپکانے سے بند ناک (نیزل کانجیشن) فوراً کھل جاتی ہے۔

لہسن کی اصلاح کیسے کریں؟

1۔ لہسن سفوف کو کیپسول میں ڈالنے سے جلن پیدا کرنے کی کیفیت کم ہو جاتی ہے۔ 2۔ اگر تیزابیت ہو جائے تو پانی میں سبوس اسپغول کا استعمال کریں۔ 3۔ نیند کم ہو جائے تو دودھ میں روغنِ بادام ملا کر پینے سے نیند آجاتی ہے۔

مقدار استعمال

لہسن کی اتنی ہی مقدار استعمال کی جائے کے پسینے سے اس کی بو نہ آئے۔ایک دن کے اندر دو جوئے لہسن استعمال کرسکتے ہیں اگر یخنی کی میں ملا کر استعمال کیا جائے تو چھ جوئے بھی استعمال کیا جاسکتے ہیں۔
http://www.express.pk/story/2292383/9812/


انسان اپنی زندگی میں حقوق و فرائض کے سلسلے میں جکٹرا ہوا ہے۔

حقوق و فرائض میں جہاں حقوق العباد اور حقوق اللّٰہ شامل ہیں وہیں انسان کی جان کا بھی ایک حق ہے اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کرے۔ عموماً لوگ امور زندگی کی انجام دہی میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جان کا حق فراموش کر دیتے ہیںاور ایک وقت آتا ہے جب انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔

کبھی ہسپتالوں میں تو کبھی جم خانوں میں۔ ضروری نہیں کہ ہم اپنی ذات کا خیال جان بوجھ کر نہ رکھ رہے ہوں بلکہ آپ نادانستگی میں ایسا کر رہے ہوں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ماہرین کے مطابق بظاہر تندرست دکھائی دینے والے افراد میں بھی اگر مندرجہ ذیل علامات دکھائی دیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر کچھ گڑ بڑ چل رہی ہے۔ان علامات کے ظاہر ہوتے ہی آپ کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔ وہ علامات کیا ہیں آئیے جانتے ہیں۔

ذہنی غبار
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے آپ سو کر اٹھتے ہیںاور آپ خود کو ادھورا اور بٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بظاہر کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی اور آپ ہر چیز سے اکتا کر تنہا رہنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسی کیفیت ذہنی غبار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو صرف نیند میں خرابی کا سبب نہیں بنتی بلکہ دیگر مسائل کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔جوکہ ہارمونز کے غیر متوازی انداز میں نشوونماء پانے کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً خواتین میں تھائیرائیڈ کی غیر متوازی صورت حال میں ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جس کے لئے ماہرین ایسے ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں جن سے ہارمونز کا تفصیلی جائزہ ممکن ہو۔

عصبی تنائو
انسان کی نجی زندگی کی بات کی جائے یا عوامی یا پھر تعلقات کی کہیں نہ کہیں انسان تنائو کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔ جو کہ اس کی جسمانی و ذہنی کار کردگی کو متاثر کرتا ہے۔تنائو سے جسم میں موجود کورٹیسول نامی ایک ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے جس سے بعض اوقات انسان کا موڈ ناخوش گوار ہو جاتا ہے یا اسے بے چینی ہونے لگتی ہے یا کبھی انتہائی صورت حال میں ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ کو اپنے اعصاب ہر وقت کھنچے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اپنا ذہن دبائو کا شکار لگتا ہے تو اس پہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آپ اعصابی تنائو کا شکار ہیں جو کہ ذہنی صحت کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

سستی
آپ نے سن رکھا ہوگا کہ نیند انسان کو پرسکون کرنے والا عمل ہے۔کبھی آپ نے محسوس کیا ہو کہ نیند پوری نہ ہو تو سارا دن برا گزرتا ہے۔ماہرین کے نزدیک جہاں اپنی صحت کی حفاظت ، ورزش اور دیگر امور وقت پہ انجام دینا ضروری ہے وہاں رات کی نیند بھی اہمیت رکھتی ہے۔

اگر آپ وقت پہ سونے کی کوشش کرتے ہیں اور سو نہیں پاتے تو اس صورت میں اپنے معالج سے رجوع کرنا چاہئے۔کیونکہ آپ سلیپ اپینا نامی عارضہ کا شکار ہو سکتے ہیں جس سے آپ کی نیند کا دورانیہ بری طرح متاثر ہوتاہے۔ اس عارضے میں مبتلاافراد نا صرف ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے بلکہ امراض قلب کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ نیند آپ کے جسم کی تجدید کے لئے ضروری ہے تاکہ جسم کے اندر جاگنے اور آرام کرنے کا جو گھڑیال لگا ہے اس کا تسلسل قائم رہے۔

ٹانگوں میںایٹھن اور ہاتھوں کا کانپنا
اگر آپ کا زیادہ تر وقت کمپیوٹر کے سامنے یا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گزرتا ہے تو ہوسکتا ہے آپ کو ٹانگوں میں کھینچائو محسوس نہ ہوتا ہو۔اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ کانپنا شروع ہوجاتے ہیںاور نہ تو آپ کو سردی لگ رہی ہوتی ہے نا ہی کوئی اور مسئلہ۔ لیکن اگر آپ کو ایسا محسوس ہو تو محتاط ہو جائیے کیونکہ اس کی وجہ آپ کے جسم میں وٹامن بی 12کی کمی ہو سکتی ہے۔ اور یہ انیمیا کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ خود کو تندرست و توانا رکھنے کے لئے اپنی غذا کو بہتر رکھیں، انڈوں، گوشت اور دودھ کی بنی اشیاء کا استعمال کریں۔

خشک جلد
عموماً سردیوں میں جلد خشک ہو جاتی ہے اور اس کا حل زیادہ پانی کا استعمال اور موسچرائزد کی صورت میں ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر جلد پہ خشکی کے ساتھ چبھن اور سفیدی بھی محسوس ہو تو یہ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ آپ کی خوراک میں حراروں کا استعمال مناسب مقدار میں نہیں کیا جا رہا۔ اگر ایسا مسئلہ ہو تو ماہرین کے مطابق اپنی روزمرہ زندگی میں موسچرائزر کا استعمال اور غذا میں زیتون اور اخروت شامل کرنے سے حل ممکن ہے۔

تھکاوٹ
آپ کوئی کام نہ بھی کریں اور آپ کو تھکاوٹ محسوس ہو کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا! اگر آپ کے ساتھ ایسی صورت حال پیش آرہی ہے تو آپ کو بیٹھ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ جسمانی طور پہ بالکل تندرست ہیں بھی یا نہیں۔ کیونکہ اگر آپ صحت مند ہیں اور بظاہر کوئی مسئلہ بھی نہیں تو آپ کے جسم کو اندرونی طور پہ بھی اپنی کارکردگی بہتر دکھانی چاہیئے۔ ایسا نہیں ہو رہا تو یہ شاید آپ اندرونی طور پہ کمزور ہو چکے ہیں۔

کیل مہاسے
کیل مہاسے عموماً ہارمونز کے توازن کے بگڑنے پہ نمودار ہوتے ہیں۔ماہرین جلد کے مطابق اس میںایک اہم عنصر تنائو بھی ہے جو انھیں بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔بہت سے تحقیقی مقالہ جات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ خاص ایام کے دوران کام کی زیادتی یا پڑھائی کی ٹینشن انھیں بڑھاوا دینے کا باعث بنتی ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو کولسٹرول قدرتی طور پر بڑھتا ہے اور زیادہ میٹھے کھانے بھی جسم میں خون کے اندر شوگر لیول کو بڑھاتے ہیں ، جن سے کیل مہاسے جلد پہ نمودار ہوتے ہیں۔

ناخنوں کی رنگت
کیا آپ نے کبھی اپنے ناخنوں اور اپنی صحت کے درمیان تعلق پہ نگاہ دوڑائی ہے۔ یقیناً لوگ انھیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے مگر حیرت انگیز طور پہ ناخنوںکی رنگت وساخت جسمانی طور پر آپ کے تندرست یا بیمار ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔گو کہ نیل پالش اور سگریٹ کا استعمال ناخنوں کی زرد رنگت کا باعث بنتے ہیںلیکن ماہرین کے نزدیک ناخنوں کی پیلاہٹ جسم میں مادوں کی نامناسب انداز میں افزائش کی نشاندہی کرتا ہے جو صحت بخش نہیں ہوتے۔اگر آپ کے ناخنوں کی افزائش صحیح نہیں ہو رہی یا ان کے رنگ میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے تو آپ غذا کی قلت کا شکار ہیں۔

خراٹے
گو کہ خراٹے لیتے انسان کو سننا ایک ناخوشگواریت بھرا احساس ہے مگر خراٹے لینے والے کی صحت کے لئے اچھا شگون نہیں۔ خراٹوںکا تعلق بہت سی جسمانی کیفیات میں خرابی کی نشاندہی کرتا ہے جیسے کہ نیند میں کمی، وزن میں اضافہ، امراض قلب، معدے کے مسائل اور فالج وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق خراٹے صحت کیلئے اس سے کہیں زیادہ نقصان د ہ ہوسکتے ہیں جتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔

آنکھیں
آپ کی یہ انکھیں جہاں شخصت کی آئینہ دار ہوتی ہیں وہیں آپ کی صحت کی راز دار بھی ہوتی ہیں۔ آنکھوں کا سفید حصہ ہماری اچھی صحت کا امین ہوتا ہے ۔ لیکن اگر آنکھوں کا سفید حصہ سفید نہ رہے تو یہ بات صحت کے حوالے سے اچھا شگن نہیں سمجھی جاتی۔ اگر آنکھوں کا رنگ زد ہو تو ماہرین کے مطابق آپ کو مثانے ، جگر اور پنکریاز میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سرخ آنکھوں کا مطلب نیند کی کمی یا آنکھوں کی نسوں یں خون کی روانی میں بندش ہوسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2290220/9812/


ناشتہ تمام دن آپ کو تندرست وتوانا رکھتا ہے۔ دانا کہتے ہیں کہ صبح کا ایک لقمہ، دن بھر کے کئی کھانوں سے بہتر ہے۔ حکما کہتے ہیں کہ تگڑا ناشتہ آپ کوکئی بیماریوں سے بچاتا ہے۔

انگریزی زبان میں اسے’ بریک فاسٹ‘ کہا جاتا ہے یعنی پچھلی رات کا فاقہ توڑنا ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ ناشتہ سارے دن کی خوراک سے بہتر ہے۔ یہ اچھی صحت مند زندگی گزارنے کیلئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ ہمارے جسم کا وہ ایندھن ہے جس سے ہمارا جسم توانائی حاصل کرتا ہے، جو طاقت صبح کے ناشتہ سے ملتی ہے اس کی وجہ سے آپ دن بھر کے غیر ضروری چیزیں کھانے سے بچ جاتے ہیں۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ صبح ناشتہ کرنے کی عادت اورصحت مند جسم کے درمیان میں ایک براہ راست تعلق ہے۔ مغاش یونیورسٹی کی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ناشتہ نہ کرنا اصل میں دن بھر میں کھائی جانے والی کیلوریز کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

آج کل عمومی طور پر دیکھا جارہا ہے کہ خواتین، بچے ، بڑے سب ناشتے سے دور بھاگتے ہیں۔ مردحضرات کو آفس جانے کی جلدی ہوتی ہے، ایسے وہ یہ اہم نہیں سمجھتے کہ ناشتہ کیا ہے یا نہیں ۔ بچے چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں ، ان کا ناشتہ نہ کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سکول ،کالج جانے کی جلدی ہوتی ہے یا پھر ناشتہ کرنے کو ان کا دل نہیں چاہ رہا ہوتا۔

خواتین نے بھی سارا دن کام کرنا ہوتا ہے، انھیں بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم وہ بھی زیادہ تر چائے کاایک کپ پی کر گزارہ کرتی ہیں ۔ وہ اپنی مصروفیات میں لگی رہتی ہیں حالانکہ انھیں بھوک بھی محسوس ہوتی ہے اور کمزوری بھی لیکن وہ اپنے کاموں میں لگی رہتی ہیں۔ تاہم انھیں یہ احساس نہیں ہے کہ ناشتہ نہ کرنے سے خواتین کی ہڈیاں جلد کمزور ہوجاتی ہیں ۔ ہڈیوں اورجوڑوں کے درد کامسئلہ بھی زیادہ تر خواتین میں ہوتا ہے اور اس کی بڑی وجہ بھی ناشتہ نہ کرنا ہوتا ہے۔

ماہرین یہ بات زیادہ زور دے کر کہتے ہیں کہ متوازن ناشتہ انسان کو چاق وچوبند اورتندرست رکھتا ہے۔ اگر صرف خواتین ہی کی بات کی جائے تو ناشتہ انھیں صحت مند ہی نہیں رکھتا بلکہ ان کے حسن وجمال میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ رات بھر خالی پیٹ سے گلوکوز کی مقدار نہیں مل سکتی۔ جب انسان صبح اٹھے ، اسے مطلوبہ مقدار میںگلوکوز میسر نہ آئے تو دن بھر کی کارکردگی متا ثر ہوتی ہے۔ اس سے جسمانی اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔

امریکن کالج آف کارڈیالوجی کی حالیہ تحقیق کے مطابق اچھا ناشتہ زندگی لمبی بھی کرسکتا ہے۔ ناشتہ چھوڑنے سے دل کی بیماریوں سے ہلاکت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ این ایچ ایس کی ویب سائٹ پرشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس تحقیق کا حصہ بننے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا وہ ناشتہ نہیں کرتے، جو زیادہ تر تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں، ورزش سے بہت دور غیر صحت مند خوراک کھاتے ہیں اور ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائپر ٹینشن ، ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول کااصل تعلق ناشتہ چھوڑنے سے ہے۔ صحت مند دل کا تعلق صحت مند ناشتہ سے ہے۔ دل اورشریانوں کی زیادہ تربیماریاں موت کی سبب بنتی ہیں ۔

اچھا ناشتہ کیسا ہوتا ہے؟

ایک اچھے ناشتے میں نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) کی کافی مقدار شامل ہوتی ہے لیکن اس میں زیادہ مقدار میں چکنائی نہیں ہونی چاہیے ۔گندم کی بنی روٹی ، انڈہ ، دہی ، پھلوں کا تازہ جوس،دودھ اورپھل ایسی غذائیں ہیں جو انسانی جسم کو دن بھر ایند ھن فراہم کرتی ہیں۔ گندم اورجو کے دلیہ سے بہتر کوئی غذا نہیں ۔ خواتین اگر صحت مند رہنا چاہتی ہیں تو ناشتے میں جو کادلیا ضرورکھائیں۔ سب سے بہتر ناشتہ ایسا ہوتا ہے جو آسانی سے ہضم ہونے والاہو۔ جوخواتین اپنے بڑھتے وزن سے پریشان ہیں ، وہ دلیہ کا بھر پور ناشتہ کریں۔ یہ وزن کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ ناشتہ کریں بادشاہوں کی طرح ، دوپہر کاکھاناکھائیں شہزادوں کی طر ح اوررات کاکھانا فقیروں کی طرح۔ اس لئے صحت مند ناشتہ کریں اور صحت مند زندگی جئیں۔

ہاں ! ناشتہ کے حوالے سے چند غلطیاں ہرگز نہیں کرنی چاہئیں ، مثلاً روزانہ مختلف ناشتہ کرنا۔ جو لوگ ناشتے میں مختلف چیزیں استعمال کرتے رہتے ہیں ان میں موٹاپا کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موٹاپا بہت سے مسائل کی جڑ ہوتا ہے۔ اسی طرح دھیان رکھنا چاہیے کہ ناشتہ غذائیت سے بھرپور ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ شوگر اور بلڈپریشر کے مریض ہوتے ہیں جو ایک بھرپور ناشتہ کریں تو کچھ ہی عرصہ میں وہ ان دونوں امراض پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کے مطابق پروٹین سے بھرپور ناشتہ بھوک بڑھانے والے ہارمون کی سطح کم کرتا ہے۔

بعض لوگ ناشتہ دیر سے کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ناشتہ کے وقت بھوک محسوس نہ ہو تو پھر اپنی غذائی عادات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر زیادہ بھوک نہ محسوس ہو تو بھی کچھ نہ کچھ ضرور کھالیں ۔ چاہے ایک سیب یا کیلا ہی کیوں نہ ہو تاکہ جسمانی میٹابولزم اپنا کام شروع کردیں۔

جلد بازی میں ناشتہ نہیں کرنا چاہیے۔ جلدی جلدی ناشتہ کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ ناکافی غذا کھاتے ہیں۔ نتیجتاً دوبارہ جلد بھوک لگ جائے گی اور پھر بازار کی ناقص اشیا کھانا پڑیں گی۔ ویسے بھی چبا کر خوراک کو نگلنا بھی نظام ہاضمہ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

ناشتہ میں زیادہ میٹھی اشیا کا استعمال بھی ایک غلط غذائی عادت ہے۔ ناشتے میں Cereal کا استعمال جسم میں چینی یا شکر کی مقدار میں اضافہ کردیتا ہے کیونکہ اس کی تیاری میں چینی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، نتیجتاً اس کی تھوڑی مقدار ہی سے پیٹ بھر جاتا ہے جبکہ اس کی مٹھاس بلڈ شوگر کی سطح بڑھاتی ہے، جلد ہی دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے جو جنک فوڈ کی طرف راغب کرتی ہے ۔

بعض لوگ ناشتہ میں چکنائی سے پاک دودھ کرتے ہیں۔ اسے صحت کے بارے میں عقل مندانہ فیصلہ تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ عام دودھ ناشتے کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے جبکہ چکنائی سے پاک دودھ دن کے کسی دوسرے حصے میں استعمال کرنا چاہیے ۔

بعض لوگ ناشتہ میں فلیور ملک استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنا بھی غلط ہے۔ فلیور ملک جیسے بادام، سویا یا ناریل کے دودھ کو عام دودھ کے صحت مند متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے تو ان میں مٹھاس شامل ہونے کے سبب جسم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ لوگ ایسے فلیور ملک کی شکل میں زیادہ شکر جسم کا حصہ بنالیتے ہیں جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔

بعض لوگ ناشتہ کو پروٹین اور صحت مند چربی سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک غلط عادت ہے۔ پروٹین جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں جبکہ صحت مند چربی پیٹ بھرنے اور بے وقت کی بھوک کی روک تھام کرتی ہے۔ صحت مند چربی اور پروٹین سے بھرپور ناشتہ جیسے انڈے، گریاں، مکھن اور دہی جسم کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔

چائے یا کافی کا نہار منہ استعمال بھی غلط ہے۔ خالی معدہ کافی یا چائے کا استعمال جسم کے لیے بہت زیادہ تیزابی ثابت ہوتا ہے اور ناشتہ کم کھانے پر مجبور کرکے دن بھر میں الم غلم اشیاء کے استعمال پر مجبور کرسکتا ہے۔ درحقیقت یہ عادت بھوک کی سطح، توانائی کی سطح اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

چائے یا کافی کو کیلوریز فری سمجھنا بھی غلط ہے۔ چائے ہو یا کافی، دونوں ہی میں کیلوریز، کاربوہائیڈریٹس اور چینی موجود ہوتی ہے ماسوائے اگر آپ بغیر دودھ یا چینی کی چائے یا کافی پینے کے عادی ہوں۔ دودھ، چینی وغیرہ کے اضافے کے بعد ان مشروبات میں کیلوریز کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے جو طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ چینی کی جگہ دارچینی کا اضافہ بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

اگر تو آپ بازار میں ملنے والے ڈبہ بند فروٹ جوسز ناشتے میں پینے کے عادی ہیں تو ان کو پینے سے فوری طور پر تو توانائی کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ اس میں موجود شکر ہوتی ہے مگر جلد ہی بلڈ شوگر لیول گرجاتا ہے اور سستی طاری ہونے لگتی ہے۔ جوس کے مقابلے میں پھل کو کھانا زیادہ بہتر متبادل ہے۔

انڈے کی سفیدی کم چربی اور کیلوریز والا پروٹین جسم کا حصہ بناتی ہے، اس کے مقابلے میں زردی آئرن، وٹامن بی اور وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتی ہے، صرف سفیدی کی بجائے پورا انڈہ کھانا پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرا رکھتا ہے اور بے وقت کھانے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ اگر آپ کولیسٹرول کو لے کر پریشان ہیں تو انڈوں کی تعداد ایک ہفتے میں پانچ سے آٹھ تک محدود کرسکتے ہیں، تاہم طبی سائنس کے مطابق انڈوں سے کولیسٹرول کی سطح بڑھنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

کافی یا چائے اس وقت صحت بخش نہیں رہتے جب ان میں چکنائی سے بھرپور ملائی اور چینی کا اضافہ کردیا جائے، تو اس سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔

چینی کی طرح بہت زیادہ نمک کا ناشتے میں استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، نمک کے زیادہ استعمال سے جسم میں پانی ایک جگہ جمع ہوتا ہے جس سے پیٹ پھولتا ہے۔

صبح بہت زیادہ فائبر غذا کا حصہ بنانا پیٹ میں گیس بڑھانے کا باعث بنتا ہے، اگر آپ ضرورت سے زیادہ فائبر استعمال کریں تو مناسب مقدار میں پانی پینا غذائی نالی کے افعال درست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2289212/9812/


خشکی ایک پھپھوندی ( فنگس ) ہے جو آپ کی مدافعتی نظام کی کمزوری سے میٹھی نشاستہ والی اشیاکے زیادہ استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔

جلد پر بننے والے آئل کے ساتھ مل کر یہ پپڑیوں یا چھلکوں کی صورت جم جاتی ہے۔ اگر یہ سر پر ہو تو کنگھا کرنے یا یا ذرا سا ہاتھ لگانے سے بھی جھڑنے لگتی ہے جس سے سر میں خارش رہنے لگتی ہے۔ خشکی سفید اور پیلے رنگ کی بھی ہوسکتی ہے ، اس کی وجہ سے سر کے بال بھی گرنا شروع ہوجاتے ہیں خصوصاً مردوں میں ایسا ہوتا ہے۔

پرہیز و احتیاط

سوال یہ ہے کہ آخر کیا تدبیر اختیار کی جائے کہ ہمارے سر خشکی جیسے مسئلے سے محفوظ رہیں؟ سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ آپ غیر معیاری تیل اور شیمپو ہر گز استعمال نہ کریں۔ پانی زیادہ پیئں۔ وقتاً فوقتاً کنگھا یا برش کریں تاکہ آپ کے فولیکلز کو تحریک ملے اسٹوملیٹ ہوسکیں۔ مرچ مصالحے اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں ۔ اگر ہو جائے تو پھر اس کے علاج کے ساتھ ساتھ میٹھی اور اسٹارچ والی اشیا کا استعمال کم کردیجیے۔ ہفتہ میں دو سے تین بار سر ضرور دھوئیں ۔

اب آتے ہیں علاج کی طرف۔!!!
ناریل کا تیل
زیتون کا تیل
ٹی ٹری آئل
روز میری آئل
خشکی ختم کرتے ہیں۔

ہومیوپیتھک میڈیسن
سلفر
تھوجا
نیٹرم میور
کالی آئیوڈائیڈ
تاہم یہ بات یاد رکھیں کہ ہومیو پیتھک ادویات استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کیجئے۔

طب نبوی میں بھی اس کا موثر علاج ہے

1۔ سیب کا خالص سرکہ ، ایک اینٹی فنگل ہے اور جلدی امراض میں بہت مفید ہے۔

مہندی کے پتے ، سنا مکی ، کلونجی، میتھرے ، حب الرشاد (جسے ہالو بھی کہتے ہیں ) یہ سب اینٹی فنگل ہیں۔ یہ سب اشیاء ہم وزن پیس کر 1:6 کی ریشو سے سرکہ میں ڈال کر رکھ دیں۔

(دو چمچہ جڑی بوٹیوں کا سفوف اور ڈیڑھ پیالی سرکہ میں ڈال کر رات بھر کے لیے ڈھک کر رکھ دیں۔ صبح ہلکی آنچ پر دس منٹ پکالیں۔ اب اس لوشن کو کسی پیالی یا بوتل میں چھان کر رکھ لیں۔

سر کی جڑوں میں ہفتہ میں دو سے تین بار لگائیں ۔ یہ لوشن کسی بھی طرح کی خارش فنگس پتی چھپاکی پر بھی لگایا جاسکتا ہے ۔ اسپرے کی بوتل میں بھر لیں ، لگانا آسان ہوگا۔

2 ۔ مہندی کے پتے ، سنامکی ، کلونجی ، میتھرے برابر مقدار میں پنسار سے پسوالیں یا گھر میں گرائینڈ کرلیں ۔ مہندی کی طرح گھول کر اس میں دو ، تین چمچ سیب کا سرکہ مکس کرلیں۔ آمیزہ بالوں کے حجم کے مطابق ہو۔ اب مہندی کی طرح لیکن پورے سر کی جڑوں میں لگائیں اور ایک سے دوگھنٹہ چھوڑ دیں۔ اس کے بعد سر دھولیں ۔کچھ عرصہ کے استعمال سے سر کی خشکی اور جوئیں ختم ہوجائیں گی اور بالوں کے بڑھنے کی رفتار میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے بالوں پر ہلکا سا رنگ آجائے گا۔ جن لوگوں کو رنگ پسند نہیں ، وہ پہلا طریقہ استعمال کرلیں۔

3 ۔ آسان سا ایک نسخہ سرکہ کا بھی ہے۔ سرکہ میں برابر مقدار پانی ملاکر سر کی جڑوں میں لگایا جائے۔ خیال رہے کہ سرکہ خالص ہو اور سیب کا ہو ۔ کسی اچھی کمپنی کا لے لیں۔ آج کل امپورٹیڈ سرکہ بھی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں دستیاب ہے۔

اب آتے ہیں اس مسئلہ پر کہ سر کے بال سفید ہونے لگیں تو اس کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے؟

سب سے پہلے یہ بات جان لیں کہ یہاں میں ان لوگوں کے لئے بات نہیں کروں گی جن کے بال مکمل طور پر سفید ہوچکے ہیں۔

سفید بالوں کو وقتی طور پر ڈارک رنگ رنگنا ہے تو کلونجی، مہندی ، سنامکی کے پتے مفید رہتے ہیں۔کلونجی سرکہ کے آمیزے میں ایک چمچ کافی ، جی ہاں کافی کا ایک چمچ ملالیں اور اسی طرح لگائیں ۔ دوگھنٹہ کے لیے لگا رہنے دیں۔ اب آپ کے بالوں پر مہندی کا لال رنگ نہیں ، ڈارک براؤن کلر آجائے گا۔

سر پر کیپ پہن لیں یا پلاسٹک بیگ تاکہ یہ آمیزہ کسی اور جگہ نہ لگ جائے۔ اس کے بعد زیادہ کھلے پانی میں سر دھوئیں اور کسی پرانے میلے نہیں بلکہ نرم کپڑے سے بال خشک کرلیں ورنہ تولیہ خراب ہوجائے گا۔
https://www.express.pk/story/2289223/9812/


لندن: ہم جانتے ہیں کہ جسمانی طور پر تندرستی اور پٹھوں کی مضبوطی ہمیں بیماریوں سے بچانے کے علاوہ زندگی میں اضافے کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ اب برطانوی تحقیق کہتی ہے کہ ہفتہ وار اگر 30 سے 60 منٹ وزن اٹھائے جائیں تو اس سے پٹھے اور عضلات مضبوط ہوتے ہیں اور یوں عمر کی طوالت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

برٹش میڈیکل جرنل برائے اسپورٹس میڈیسن میں شائع ایک مقالے کے مطابق جسمانی مضبوطی کی تربیت اور ورزشوں سے عمر کی طوالت بڑھ سکتی ہے۔ اس ضمن میں وزن اٹھانے اور کھنچاؤ یعنی اسٹریچنگ کی ورزشیں بطورِ خاص اہمیت رکھتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق لگ بھگ 4 لاکھ 80 ہزار شرکا پر کئے گئے سروے اور مطالعات کی 16 رہورٹوں کا تجزیاتی (میٹا) مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سروے میں مختلف عمروں کے بالغ افراد شامل تھےاور اس لحاظ سے یہ ایک وسیع ڈیٹا بھی ہے جس کی اپنی شماریاتی اہمیت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ہفتے میں 30 سے 60 منٹ تک وزن اٹھایا جائے تو اس سے دل پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قلبی صحت کے پورے جسم پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں یوں دیگر افراد کے مقابلے میں ان کی اوسط عمر زیادہ ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب خود ان کا معیارِ زندگی بھی بہتر ہوسکتا ہے۔

تاہم ماہرین نے اس کے دوہرے فوائد کے لیے واکنگ اور جاگنگ پر بھی زور دیا ہے جس کے مزید بہتر اثرات سامنے آسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2293951/9812/

No comments:

Post a Comment