قومی سنوکر چیمپئن شپ:16 سالہ احسن رمضان فائنل میں پہنچنے والا کم عمرکھلاڑی
پیر 11 اکتوبر 2021ء
کراچی( نیٹ نیوز) 16سالہ احسن رمضان نے کراچی میں جاری 46ویں قومی سنوکر چیمپئن شپ کے فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا ، جہاں ان کا مقابلہ آج سابق چیمپئن محمد سجاد سے ہوگا ۔ سیمی فائنل میں جونیئر چیمپئن احسن رمضان نے تجربہ کار بابر مسیح کو ہرایا جبکہ سجاد نے سیمی فائنل میں حارث طاہر کو 4-6 سے شکست دی ۔احسن رمضان نے سیڈ نمبر 8 ، تجربہ کار بابر مسیح کو بیسٹ آف 11 فریمز کے معرکے میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد 5-6 سے شکست دی۔ فائنل آج کھیلا جائے گا جس کے فاتح کو ایک لاکھ روپے جبکہ رنر اپ کو50 ہزار روپے انعام دیا جائے گا ۔
https://www.roznama92news.com/%D9%82%D9%88%DB%8C-%D9%86%D9%88%D8%B1-%D9%86-%D9%BE16-%D8%B3%D8%A7%D9%84
بابائے کیمیا :جابربن حیان کی اہم ایجادات ،سنہری کارنامے انجام دینے والا عظیم مسلم سائنسدان
10 October, 2021
جابر ابن حیان ایسا مسلمان کیمیا دان رہا ہے جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور یہ علم موجودہ حالت پر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابر ابن حیان سب سے پہلا کیمیا دان تھا۔ جنھیں دنیا ''بابائے کیمیا‘‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔وہ ایک عظیم مسلمان کیمیا دان ہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، حکیم، فلسفی ، ماہر نفسیات اور ماہر فلکیات بھی تھے۔اہل مغرب میں جابر بن حیان ''Geber‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ان کا تعلق عرب کے ایک قبیلے ''بنو ازد‘‘ سے تھا لیکن ان کا خاندان کوفے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ جابر 722ء میں خراسان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ انہیں لے کر واپس عرب چلی گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں۔ انھوں نے کوفہ میں امام جعفر صادقؓ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ حکمت، منطق اور کیمیا جیسے مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنسدان بنے لیکن ان پر مذہب کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔
اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا، انہوں نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھے جو آج کے طالب علم بھی اپنی تعلیم گاہوں کی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں۔ مثلاً حل کرنا، کشید کرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتے ہیں ''کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے، بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے‘‘۔
انہوں نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے، موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے ایجاد کئے۔
کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد ''قرع انبیق‘‘ (distilling apparatus) ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس آلے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے ان میں سے ایک ''قرع‘‘ اور دوسرے کو ''انبیق‘‘ کہتے تھے۔ قرع عموماً صراحی کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے ساتھ ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔ دوسرا حصہ پہلے پر اچھی طرح آ جاتا تھا اور اس میں پھنس جاتا تھا۔ عطار عرق کھینچنے کے لئے اب بھی یہ آلہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ مٹی کے بجائے لوہے یا ٹین سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام'' ریٹارٹ‘‘( Retort )ہے۔
جابر کی ایک اہم دریافت گندھک کا تیزاب ہے۔ انہوں نے اس قرع انبیق سے ہی تیزاب بنایا۔ آج بھی اس کی تیاری کا طریقہ کافی حد تک وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ذرا بہتر قسم کے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ الغرض جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ انھوں نے کیمیا پر تصانیف بھی لکھیں جن کی زبان عربی ہے۔ان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ ان کی علمی تحریروں میں200 سے زیادہ تصانیف شامل ہیں۔اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والا یہ عظیم سائنس دان 95برس کی عمر میں فوت ہوا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-10-10/25274
بھارت میں پیدائش،یورپ میں تعلیم، کئی ایوارڈ ملے
11 October, 2021
ڈاکٹرقدیر 13 طلائی تمغے ،3صدارتی ایوارڈز پانے والے پہلے پاکستانی ، بھٹوکی دعوت پرہالینڈسے واپس پاکستان آئے اورایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا ، محسن پاکستان کاغوری سمیت متعدد میزائل تیارکرنے میں بھی اہم کرداررہا
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر،اپنے رپورٹرسے) محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اہل خانہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہجرت کرکے مستقل طور پر پاکستان آئے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے والد عبدالغفور ایک سکول ٹیچر تھے جو وزارت تعلیم میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکے تھے جبکہ والدہ زلیخا گھریلو خاتون اور انتہائی مذہبی سوچ کی حامل تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے جرمنی کے شہر برلن چلے گئے جہاں ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنس اور پھر بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیون سے ڈاکٹریٹ آف میٹالرجیکل انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں، اس کے علاوہ انہوں نے ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔ محسن پاکستان نے ہالینڈ میں رہائش کے دوران ہنی خان نامی خاتون سے شادی کی تھی جن سے ان کی 2 بیٹیاں بھی ہیں جو شادی شدہ ہیں، بڑی بیٹی ڈاکٹر دینا خان اور چھوٹی صاحبزادی کا نام عائشہ خان ہے ۔ بعدازاں وہ 1976 میں واپس پاکستان آگئے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر کام شروع کیا اور 1984 میں اٹامک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوئے ، بعدازاں صدر ضیا الحق نے اس ریسرچ سینٹر کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ سینٹر کردیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 13 طلائی تمغوں سے نوازا گیا جبکہ آپ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈز بھی دیئے گئے ہیں۔ انہیں 2 مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلے 14 اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989 میں انہیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی تحریر کئے ۔ 1996 میں جامعہ کراچی نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند عطا کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ساشے نامی ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے ۔ اے کیو خان نے کئی مرتبہ اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ملک میں ایٹمی پروگرام سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جسے بعد میں مختلف حکمرانوں نے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر اے کیو خان کے انسٹی ٹیوٹ نے ان کی سربراہی میں نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کچھ عرصہ پہلے کورونا وائرس میں بھی مبتلا ہوئے تھے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-11/1894375
محمد سجاد نے قومی سنوکر چیمپئن شپ جیت لی
Published On 11 October,2021 05:01 pm
کراچی:(دنیا نیوز) محمد سجاد نے قومی سنوکر چیمپئن شپ جیت لی۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں قومی سنوکرچیمپئن شپ کے ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس کے فائنل میں محمد سجاد نے سخت مقابلے کے بعد پنجاب کے کیوئسٹ احسن رمضان کو شکست سے دوچار کیا۔
چیمپئن شپ کے فیصلہ کن معرکے میں 13فریم پر مشتمل مقابلے کا فیصلہ آخری فریم میں ہوا جس میں محمد سجاد نے احسن رمضان کو 6کے مقابلے میں 7 فریم سے ہرایا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/623631_1
ایٹمی سائنسدان اور محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر کے بارے میں وہ معلومات جو ہر کوئی جاننا چاہتا ہے
Oct 10, 2021 | 10:21:AM
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں سب سے اہم اور مرکزی کر دار ادا کیا ، وہ ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر 1976 میں پاکستان آئے اور ایٹمی پروگرام کا حصہ بنے ، انہیں شاندار اور بے لو ث خدمات پر نشان امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا ۔محسن پاکستان نے 8 سال کے انتہائی قلیل عرصہ ایٹمی پلانٹ نصب کیا ، 28 مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی۔ انہوں نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یکم اپریل 1396 کو موجودہ بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان قیام پاکستان کے بعد 1952اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے تھے اور انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی، انہوں نے 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی، بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے، انہوں نے جرمنی اور ہالینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔
ڈاکٹر عبالدقدیر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھتو کی درخواست پر 1976 میں پاکستان واپس آئے، انہوں نے 31 مئی 1976ءمیں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں اسی ادارے کا نام نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاءالحق نے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ چودہ اگست 1996 میں صدر فاروق لغاری نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا، اس سے قبل انہیں 1989 میں ہلال امتیاز کے تمغے سے بھی نوازا گیا تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Oct-2021/1351503?fbclid=IwAR1lx35kg-mrVu9-RJjdUFxrXJe6sOYaoFJw-8jIrIS7ETJtHRESY8CM5jc
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین کہاں پر کی جائے گی ؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
Oct 10, 2021 | 10:48:AM
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل علالت کے بعد آج صبح 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں جس پر پوری قوم افسردہ ہے ، ان کی سرکاری اعزاز کے ساتھ نماز جنازہ اور تدفین کیلئے انتظامات شروع کر دیئے گئے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین سیکٹر ایچ 8 قبرستان میں کی جائے گی اور اس حوالے سے اسلام آباد کی انتظامیہ نے انتظامات شروع کر دیئے ہیں ۔ نماز جنازہ کی ادائیگی فیصل مسجد میں دو پہر ساڑھے تین بجے کی جائے گی جہاں سیکیورٹی انتظامات کا آغاز کر دیا گیاہے جبکہ مسجد کو کلیئر کیا جارہاہے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کو آج صبح چھ بجے پھیپھڑوں میں تکلیف اور سانس لینے میں دشواری کے باعث آر ایل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا لیکن ان کی طبیعت سنبھل نہ پائی اور وہ انتقال کر گئے ۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Oct-2021/1351504?fbclid=IwAR0bUEibAA-YgJ0DAHREc1UDdDPKLd_nG5W9nT7CSr2DHlUEruO3vsye8wY
”ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین فیصل مسجد کے احاطے میں کی جائے گی “وزیراعظم عمران خان نے پیغام جاری کر دیا
Oct 10, 2021 | 11:52:AM
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین ان کی خواہش کے مطابق فیصل مسجد کے احاطے میں کی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق معروف جوہری سائنسدان طویل علالت کے باعث اتوار کی صبح وفات پاگئے تھے، ان کی عمر 85 برس تھی۔اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے انتقال پر بےحد افسردہ ہوں۔ہمیں ایک جوہری اسلحے سےلیس ریاست بنانےمیں انکے اہم کردار کےباعث قوم انہیں محبوب رکھتی تھی۔ انکی اس خدمات نےہمیں خود سےبہت بڑے ایک جارحیت پسند اور جوہری ہمسائےسےمحفوظ بنایا۔ عوامِ پاکستان کیلئےان کی حیثیت ایک قومی ہیرو کی سی تھی۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Oct-2021/1351505?fbclid=IwAR2TWM1p1mpnEuT90FIRm38URr9T4YXuYRBcnenqS9Ar1W3rTeWsWMK_NIE
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شہری شرکت کر سکیں گے یا نہیں ؟ حکومت نے اعلان کر دیا
Oct 10, 2021 | 13:25:PM
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازہ میں شہریوں کو بھی شرکت کی اجازت ہو گی ، انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کو 1998 میں محفوظ بنایااور تین صدارتی اعزازات حاصل کیئے ۔
تفصیلات کے مطابق شیخ رشید نے فیصل مسجد کا دورہ کیا ، نمازجنازہ اور تدفین کے انتظامات کا جائزہ لیا ، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نماز جنازہ میں چیئرمین جوائنٹس چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چاروں فورسز کے نمائندے شریک ہوں گے جبکہ شہریوں کو بھی اجازت ہو گی ۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Oct-2021/1351523?fbclid=IwAR1VyRtYd1cm3WJXZgojT36Njc-Hl1NyScrzV87u2eiN1kcD1sAXaTUaY0k
محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایچ 8قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ، تدفین کے دوران ابر رحمت برس پڑا ، ویڈیو سامنے آگئی
Oct 10, 2021 | 09:57:AM
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل علالت کے باعث آج صبح 85برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں،ان کو اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا،اس سے قبل ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی جس میں سیاسی و عسکری شخصیات کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ پروفیسر محمد الغزالی نے پڑھائی۔ڈاکٹر عبد القدیر خان کی تدفین کے دوران اسلام آباد میں رحمت کی بارش برستی رہی اور لوگوں نے ان کے جنازے پر بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
محسن پاکستان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ایک انکلوژر عوام کے لیے بنایا گیا تھا جبکہ دوسرا انکلوژر وی آئی پیز کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ کے بعد ان کے جسد خاکی کو تدفین کے لیے ایچ 8 قبرستان اسلام آباد روانہ کیا گیا جہاں ان کی تدفین کردی گئی۔ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے۔نماز جنازہ سے قبل محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاک فوج کے دستے نے سلامی پیش کی جب کہ نماز جنازہ کے موقع پر بارش بھی ہوتی رہی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان میں 26 اگست کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ بعد ازاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تشویشناک حالت کے باعث کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال کے کوویڈ وارڈ میں داخل کردیا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کورونا سے صحت مند ہونے کے بعد گھر منتقل ہو گئے تھے۔آج صبح پھیھپڑوں میں تکلیف اور سانس لینے میں دشواری کے باعث انہیں آر ایل ہسپتال لایا گیا، لیکن ان کی حالت سنبھل نہ پائی اور صبح سات بجے انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کی تصدیق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کی ہے۔انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹیوں عائشہ اور دینا کو چھوڑا ہے۔
وزیراعظم عمران خان
معروف جوہری سائنسدان طویل علالت کے باعث اتوار کی صبح وفات پاگئے تھے، ان کی عمر 85 برس تھی۔اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے انتقال پر بےحد افسردہ ہوں۔ہمیں ایک جوہری اسلحے سےلیس ریاست بنانےمیں انکے اہم کردار کےباعث قوم انہیں محبوب رکھتی تھی۔ انکی اس خدمات نےہمیں خود سےبہت بڑے ایک جارحیت پسند اور جوہری ہمسائےسےمحفوظ بنایا۔ عوامِ پاکستان کیلئےان کی حیثیت ایک قومی ہیرو کی سی تھی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ
ڈاکٹر عبد القدیر خان کے انتقال پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرعبد القدیر خان نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں، اللہ تعالی ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے درجات کو بلند کرے۔
شیخ رشید
وزیر داخلہ شیخ رشید نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے انتقال پرپوری قوم غمزدہ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ملکی دفاع میں اہم کرداراداکیا،ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے 3 صدارتی ایوارڈحاصل کیے،وزیراعظم نے ہدایت کی ہے تمام وزرانمازجنازہ میں شرکت کریں،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نمازجنازہ میں شرکت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیرکی بیٹی جوفیصلہ کریں گی اس کے مطابق تدفین ہوگی،ڈاکٹرعبدالقدیرنے صحت وتعلیم کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں،ڈاکٹرعبدالقدیرکے سوگ میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Oct-2021/1351501?fbclid=IwAR3EqZNdPweXHrFZWr8iR_-kgQYQqjmmFNNFkJRCKC5a6nh5KVj9lBbZUg4
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/10102021/p6-lhe-032.jpg
پاکستان کے ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کراچی کے ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کالج سے گہری وابستگی رکھتے تھے وہ اکثر اپنے کالج کا دورہ کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرنسپل کے لیے ایک آراستہ اور شایان شان کمرہ تیار کرنے کی پیشکش کی اور اپنے خرچ پر پرنسپل آفس تیار کرایا اور کالج کو بطور تحفہ دیا۔ اس کمرے میں میٹنگ کے لیے نشستوں کے ساتھ ایک بڑی میز، کتابوں کے شیلف، پرنسپل کی کرسی اور ملاقاتیوں کے لیے آرام دہ نشستیں بھی بنوائی گئیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرنسپل کے لیے خصوصی طور پر آرام کرسی بھی تحفہ دی اور پرنسپل سے درخواست کی کہ آپ اس پر آرام کریں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرنسپل کے روم میں تمام سابقہ پرنسپلز کی تصاویر بھی آویزاں کیں جن پر ان کی تقرری کا سال اور دورانیہ بھی درج ہے۔
ڈی جے سائنس کالج کے پرنسپل کے کمرے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایک پورٹریٹ بھی موجود ہے جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ”مجھے اپنے پاکستانی اور ڈی جے سائنس کالج کا طالب علم ہونے پر فخر ہے“۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے طلبا کے لیے کلاسز کی کمی دور کرنے کے لیے ڈی جی کالج کے بالمقابل کمپاؤنڈ میں خصوصی بلاک بھی تیار کرایا جو ان کے نام سے موسوم ہے اس بلاک میں آٹھ کمرے تعمیر کیے گئے یہ تمام کام ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے خرچ پر کرایا اور کالج کی بہتری کے لیے دیگر حصوں کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا۔ اس بلاک کا افتتاح 2002 میں کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی ڈی جے سائنس کالج سے گہری وابستگی اور محبت کا احوال بیان کرتے ہوئے نائب قاصد شبیر خان نے بتایا کہ ان کے دادا، ان کے والد بھی کالج کے اسٹاف میں شامل رہے اور والد کی وفات کے بعد گزشتہ پینتیس سال سے وہ کالج سے وابستہ ہیں اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے متعدد مرتبہ کالج کا دورہ کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کالج آمد کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے شبیر خان نے بتایا کہ وہ کبھی بھی موجودہ پرنسپل کے سامنے کی نشست پر بھی نہیں بیٹھتے تھے اور پرنسپل سمیت اساتذہ حتیٰ کہ اسٹاف کے ممبران کی بھی بہت عزت و احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے پرنسپل کے دفتر میں اے سی لگوایا تو ساتھ ہی پرنسپل کے اسٹاف کے بیٹھنے کی جگہ پر بھی اے سی لگوایا۔
ڈی جے کالج کے موجودہ چوکیدار عبدالحق کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کالج کے اسٹاف کے ساتھ بھی گھل مل جاتے اور بطور طالب علم کالج میں گزارے اپنے وقت کو یاد کرتے تھے۔
عبدالخالق کے مطابق 2006 میں کالج میں آئے اور اساتذہ سمیت اسٹاف سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ڈی جے کالج کے زمانے میں شیرشاہ میں مقیم تھے اور وہاں سے سائیکل پر کالج آیا کرتے تھے اور رات ہوجانے پر ڈی جے کالج سے متصل گنگا رام ہاسٹل میں رہائش پذیر اپنے دوست کے کمرے میں زمین پر اخبار یا کاغذ بچھاکر سوجایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر ڈی جے سائنس کالج کو اس کی شان و شوکت واپس دلانے کے خواہش مند تھے اور عمارت کی ازسرنوع تعمیر میں دلچسپی رکھتے تھے۔
ڈی جے سائنس کالج کے موجودہ پرنسپل مہر منگی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کا سرمایہ عظیم تھے ان کی خدمات کی بدولت پاکستان ناقابل تسخیر بنا اور دشمن کی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی خواہش حسرت بن گئی، ڈی جے سائنس کالج سے نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ڈی جے سائنس سے وابستگی اساتذہ اسٹاف اور زیر تعلیم طلبا کے علاوہ فارغ التحصیل طلباء کے لیے بھی فخر کا باعث ہے۔
https://www.express.pk/story/2234362/1/
پاکستان کے محسن ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے
Published On 10 October,2021 09:42 am
اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان کے محسن ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے، ان کی عمر 85 برس تھی۔
بتایا گیا ہے کہ گذشتہ شب پھیپھڑوں کے عارضے کے سبب ان کی طبعیت خراب ہوئی جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، آئی سی یو میں ڈاکٹروں کی جان توڑ کوششوں کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ان کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پہلے پاکستانی تھے جنہیں تین بار صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا، ملکی دفاع کیلئے ان کی گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر ہر دل افسردہ ہے، انہوں نے عملی طور پر پاکستان کو دفاعی طاقت بنایا۔
صدرمملکت عارف علوی نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم ملک کیلئے ان کی خدمات کبھی نہیں بھولے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کو 1982 سے ذاتی طور پر جانتا تھا۔ انہوں نے جوہری تخفیف کو فروغ دینے میں ہماری بہت مدد کی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ڈاکٹر خان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی قوم کیلئے ہیرو تھے۔
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر قدیر نے دفاع پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیر کے درجات بلند کرے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیفس نے بھی گہرے افسوس کا اظہار کیا۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کلیدی کردار ادا کیا، اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت پر پوری قوم افسردہ ہے، پاکستان کیلئے ان کی خدمات ان گنت ہیں، خدا انہیں غریق رحمت کرے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، پاکستانی ایٹم بم کے خالق
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستانی ایٹم بم کا خالق تسلیم کیا جاتا ہے، وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈز ملے، ان کو ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان 1936 میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے۔ انجینئرنگ کی ڈگری 1967 میں نیدرز لینڈ کی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انہوں نے بیلجئیم کی یونیورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی بعد ازاں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔
اعلیٰ تعلیم کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1976 میں وطن واپس لوٹ آئے اور اسی برس 31 مئی کو پاکستان کی اٹامک انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا حصہ بن گئے۔ یکم مئی 1981 کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کا نام تبدیل کر کے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا گیا۔ شب و روز کی انتھک محنت کے بعد 1998 میں ایٹمی دھماکے کر کے انہوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/623422_1
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ساری زندگی وطن عزیز کیلئے وقف کئے رکھی
Published On 10 October,2021 12:20 pm
اسلام آباد: (دنیا نیوز) محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کسی تعارف کے محتاج نہیں، زندگی وطن عزیز کیلئے وقف کئے رکھی۔ پاکستانی ایٹمی بم کے خالق وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار تھے، تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے۔ بیرونی دنیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
پاکستانی ایٹم بم کے خالق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیداہوئے ،1947میں ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 15برس یورپ میں قیام پذیر رہے جس کے دوران اُنہوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان وطن واپس لوٹ آئے اور 31 مئی 1976 کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا حصہ بن گئے۔ یکم مئی 1981کو انجینئری ریسرچ لیبارٹری کا نام تبدیل کر کے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا گیا۔
ڈاکٹر خان نے صرف آٹھ برس کے انتہائی قلیل عرصے میں ایٹمی پلانٹ نصب کر کے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، مغربی دنیا نے پروپیگنڈے کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بخوشی قبول کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو دو بار نشان امتیاز، تین صدارتی ایوارڈز ملے۔ چودہ اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/623440_1
تنظیم مبصرین اسلامی نے پاکستانی لڑکے کو حسن کارکردگی ایوارڈ سے نوازدیا
10 October, 2021
تنظیم مبصرین اسلامی کی جانب سے ایک نو عمر پاکستانی حافظ محمد عبید اللہ کو اعزاز حسن کارکردگی ایوارڈ دیا گیا ہے
قاہرہ (نیوز ایجنسیاں ) یہ ایوارڈکم عمری میں حفظ قرآن اور بہترین قاری ہونے پر دیا گیا ،حافظ عبید اللہ کا تعلق کراچی سے ہے
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-10/1893759
پیدائشی پتلیوں کے سرطان میں مبتلا 2 بہنوں کی آنکھیں روشن
10 October, 2021
بچیوں کاباپ ڈرائیور،جنرل ہسپتا ل کے ڈاکٹروں نے کامیاب آپریشن کیا
لاہور(سٹاف رپورٹر)پیدائشی طور پر پتلیوں کے سرطان میں مبتلا 2 بہنوں کی آنکھوں کو روشنی مل گئی۔لاہور جنرل ہسپتال شعبہ امراض چشم کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر معین اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ نے کامیاب آپریشن کے بعد اندھیروں کی دنیا سے نکال کر روشنی دے دی اور اب یہ دونوں مکمل طور پر دیکھ سکتی ہیں۔ اس حوالے سے پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ پروفیسرالفرید ظفر نے انتہائی حساس نوعیت کے کامیاب آپریشن پر پروفیسر محمد معین اور اُن کی ٹیم کو مبارکباد دی ۔اس موقع پر خوشاب سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور احسن نے اپنی بیٹیوں کی آنکھوں کا نور بحال ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ڈاکٹر معین نے بتایا عائشہ کو 4ماہ کی عمر میں جنرل ہسپتال لایا گیا تھاجس کی عمر اب 3سال ہے ۔دوسری بہن آبرش احسن کو3ماہ کی عمر میں ہسپتال لایا گیا۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-10/1893808
ناروے کی نوبل کمیٹی نے فلپائن کی ماریا ریسا اور روس کے دمتری موراتوف کو آزادیٴ صحافت کےلیے غیرمعمولی خدمات پر 2021 کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار قرار دیا ہے۔
نوبل کمیٹی نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ جمہوریت اور پائیدار امن کےلیے آزادیٴ اظہار بنیادی اہمیت رکھتی ہے؛ اور ان دونوں صحافیوں نے آزادیٴ اظہار کے تحفظ میں گراں قدر کوششیں کی ہیں جن کے اعتراف میں ان دونوں کو مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ماریا ریسا کا شمار جنوب مشرقی ایشیا کے مشہور ترین صحافیوں میں ہوتا ہے جو ایک طویل عرصے تک ’’سی این این‘‘ سے بھی وابستہ رہی ہیں۔ وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی فلپائنی بھی ہیں۔
دمتری آندرے وچ موراتوف کا تعلق روس سے ہے اور وہ 1995 سے 2017 تک روسی اخبار ’’نوفایا گزیٹا‘‘ کے چیف ایڈیٹر رہے ہیں۔ موراتوف کی ادارت میں اس اخبار نے حساس موضوعات بالخصوص روسی حکام کی بدعنوانی کے خلاف سخت تنقیدی لیکن قابلِ بھروسہ مواد شائع کیا اور نہ صرف روس بلکہ پوری مغربی دنیا میں شہرت حاصل کی۔
https://www.express.pk/story/2233655/10/
’’ اس نے مجھے تلاشی دینے سے انکار کیا اور آگے بڑھنے لگا جس پر میں نے اسے پیچھے دھکیلا ، خطرے کا احساس ہوتے ہی مجھ سمیت تمام افراد دوسری جانب بھاگے لیکن اتنی دیر میں دھماکا ہوگیا اور میں زخمی ہوگئی ‘‘
یہ الفاظ ہیں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر11 برس قبل ہونے والے دھماکے میں زخمی خاتون پولیس اہلکار اسٹیلا صادق کے جنھوں نے پہلے دھماکے کے وقت خودکش بمبار کے مزار کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنائی اور کئی زندگیاں بچالیں ، وہ اسی کارنامے کے بدولت ’’ قائد اعظم پولیس میڈل ‘‘ حاصل کرنے والی پہلی خاتون پولیس اہلکار بھی ہیں ، ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) اسٹیلا صادق نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کلفٹن تھانے میں تعینات تھیں ، اس دن وہ معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی کے مقام حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر موجود تھیں ، ان کی ڈیوٹی ختم ہوچکی تھی اور وہ گھر جانے کے لیے اپنے بھائی کا انتظار کررہی تھیں۔
مزار پر زائرین کا رش تھا اور ملکی حالات کے پیش نظر تمام زائرین کو تلاشی کے بعد ہی مزار میں داخلے کی اجازت دی جاتی تھی ، حالانکہ مرد اور خواتین کی قطاریں الگ الگ تھیں لیکن اسی دوران سیڑھیوں کے قریب ایک لڑکے نے خواتین کی قطار میں سے داخل ہونے کی کوشش کی ، میں نے اسے روکا تو وہ رکا نہیں اور مجھ سے بدکلامی کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا ، میں نے اسے فوری طور پر کالر سے پکڑا اور اپنی پوری قوت سے پیچھے کی جانب دھکا دیا لیکن ہم میں نے دیکھا کہ وہ زیر لب کچھ پڑھنے یا بولنے کی کوشش کررہا ہے۔
مجھ سمیت دیگر افراد کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں فوراً ہی خطرے کا احساس ہوا اور تمام افراد دوسری جانب بھاگے لیکن اس دوران دھماکا ہوگیا اور میں بھی زخمی ہوگئی ، اسٹیلا صادق نے مزید بتایا کہ انھیں جسم کے مختلف حصوں پر چوٹیں لگیں ، بارود کے ذرات بھی لگے ، وہ کئی روز تک اسپتال میں زیر علاج رہیں ، زخمی ہونے کے باوجود انھوں نے مزار کی سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کی تاکہ وہ اوپر جاسکیں لیکن اسی دوران چند لمحوں بعد دوسرا دھماکا ہوگیا جس پر وہ بے ہوش ہوگئیں ، اس واقعے کے بعد ان کی بہادری پر انھیں گورنر سندھ کی جانب سے پچاس ہزار روپے انعام دیا گیا جبکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے قائد اعظم پولیس میڈل ( کیو پی ایم ) سے بھی نوازا گیا۔
اسٹیلا صادق نے دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہی محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی ، وقوعہ کے وقت وہ پولیس کانسٹیبل ( پی سی ) تھیں لیکن اپنی محنت اور لگن کی بدولت اب اسسٹنٹ سب انسپکٹر ( اے ایس آئی ) کے عہدے پر جاپہنچی ہیں ، واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2010 کو کلفٹن میں قائم حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دو دھماکے ہوئے تھے جن میں آٹھ افراد جاں بحق اور 75 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
https://www.express.pk/story/2233524/1/
ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے مسلمان ناول نگار کے نام
8 October, 2021
رواں سال ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے ناول نگار عبدالرزاق گورناہ نے حاصل کر لیا
سٹاک ہوم (اے ایف پی) سویڈش اکیڈمی کے مطابق عبدالرزاق گورناہ نے اپنے کام میں نوآبادیاتی نظام کے اثرات اور تارکین وطن کی زندگی کو اجاگر کیا۔نیوز ایجنسی کے مطابق عبدالرزاق گورناہ 1948 میں پیدا ہوئے ، 21 سال کی عمر میں انگلینڈ میں لکھنا شروع کیا، ان کی مادری زبان سواحلی ہے مگر انہوں نے انگلش کو ذریعہ اظہار بنایا۔ ان کے 10 ناول اور افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-08/1892781
خاتون اپنا دولاکھ سے زائد مالیت کا فون موٹروے پر گما بیٹھی ، لیکن پھر یہ کس طرح ڈھونڈ کر اس تک پہنچایا گیا ؟ جان کر آپ بھی داد دیں گے
Oct 09, 2021 | 11:52:AM
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) موٹروے پولیس ایم تھری نے ایمانداری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد مالیت کا موبائل فون ڈھونڈ کر خاتون کے حوالے کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق رحیم یار خان سے لاہور جانے والی موٹروے پر خاتون اپنا آئی فون پرو سروس ایریا پر بھول گئیں تھیں اور جب انہیں احساس ہوا کہ موبائل ان کے پاس نہیں ہے تو خاتون نے موٹروے ہیلپ لائن 130 پر کال کرتے ہوئے موبائل فون گمشدگی کی اطلاع دی جس پر موٹروے پولیس افسران شوکت جاوید اور شہزاد خان نے فوری کارروائی کرتے ہوئے موبائل فون کی تلاش کیلئے احکامات جاری کیئے ۔
موٹروے اہلکاروں نے سروس ایریا پر موبائل فون تلاش کیا جس کی مالیت تقریبا دو لاکھ 35 ہزار کے قریب تھی، اسے ڈی ایس پی موٹروے پولیس عبدالوحید نے اپنی نگرانی میں مشعل نامی خاتون کے حوالے کیا ۔ سیکٹر کمانڈر ایس ایس پی سید حشمت کمال نے افسران کی ایمانداری کو سراہا اور انہیں شاباش دی ۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Oct-2021/1351135?fbclid=IwAR0jWCKFlsUicoXum2Cfn0uhnueTwCEbd7AhX0iQLjEJdfD8wKdxXLAPtM0
’ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست دو اور چیک پر من چاہی رقم لکھ دو ‘ رمیز راجہ سے ملاقات کے موقع پر تاجر کی پیشکش
Oct 07, 2021 | 18:12:PM
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیزراجہ نے بتایا ہے کہ ایک انوسٹر نے ہم سے کہا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست دینے پر پی سی بی کو خالی چیک دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چیئر مین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لیے کراچی میں بزنس مین کمیونٹی سے ملاقات کی ۔اس دوران ایک بزنس مین نے رمیز راجہ کو خالی چیک دیتے ہوئے پیشکش کی کہ اگر ورلڈ کپ میں قومی ٹیم نے بھارت کو شکست دی تو من چاہی رقم دی جائے گی ۔ رمیز راجہ نے یہ بات سینیٹر رضا ربانی کی صدارت میں سینیٹ کی کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس کے دوران بھی بتائی۔
https://dailypakistan.com.pk/07-Oct-2021/1350324?fbclid=IwAR1xjubYyJtm00pZTV1lCpkL_biVDdvA-gReHh5xx5VHRdMX523lpp_dzMM
https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108704811&Issue=NP_PEW&Date=20211007
حضرت میاں میرؒ کے مزارکو عرق گلاب سے غسل دیدیا گیا
بدھ 06 اکتوبر 2021ء
لاہور(نمائندہ خصوصی سے )عظیم صوفی بزرگ حضرت میاں میر ؒ کے مزار پر انوار کو منوں عرق گلاب سے غسل دے دیا گیا۔398 ویں سالانہ غسل کی تقریب گزشتہ رات ان کے آستانہ میں منعقد کی گئی جس میں صوبائی وزیر اوقاف صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ نے سیکرٹری اوقاف نبیل جاوید، ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ،ایڈمنسٹریٹر اہور زون گوہر مصطفی اور منیجر سرکل پانچ اوقاف لاہور گلزار احمد کے ہمراہ مزار پر انوار کو عرق گلاب سے غسل دیا۔تقریب کا آغاز قاری مسعودالرحمن نعیمی نے تلاوت ،مبشر حسین قادری نے نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ غسل کے بعد مزار پر انوار پر چادر پوشی کے بعد دعا کی گئی ۔ اس موقع پرڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن آصف اعجاز، ترجمان اوقاف قاضی اظہر امین ، چیئر مین امور مذہبیہ کمیٹی جسٹس (ر)اکرم بیٹو، ممبران امور مذہبیہ کمیٹی و ممبران، زونل خطیب اوقاف احمد رضا سیالوی ، ڈسٹرکٹ خطیب مسعود الرحمن ، خطیب جامع مسجد میاں میر مفتی اقبال کھرل کے ساتھ ، عمائدین شہر بھی ایک بڑی تعداد میں موجود تھے ۔سالانہ غسل کی تقریب میں شریک مہمانوں کی دستار بندی کی گئی ۔
https://www.roznama92news.com/%D8%AA-%D9%85-%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D9%88-%D8%B9
اسٹاک ہوم: کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ، سویڈن کی نوبل اسمبلی نے اس سال کیمیا (کیمسٹری) کے نوبل انعام کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق ’’ایسمٹرک آرگینو کیٹالیسس‘‘ کہلانے والے کیمیائی عمل کی دریافت پر جرمنی کے بنجمن لسٹ اور امریکا کے ڈیوڈ میکملن کو مشترکہ طور پر کیمیا کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
یہ عمل انگیزی (کیٹالیسس) کا بالکل نیا عمل ہے جس سے نت نئے مرکبات کی تیاری ممکن ہوئی ہے جن میں نئی ادویہ سے لے کر سورج کی روشنی سے بہتر طور پر بجلی بنانے والے مرکبات تک شامل ہیں۔
1990 کے عشرے میں بجنمن لسٹ اور ڈیوڈ میکملن نے ایک دوسرے سے جداگانہ طور پر تقریباً ایک ہی وقت میں آرگینوکیٹالیسس کا عمل دریافت کیا، جس پر ان دونوں کو اس سال کیمسٹری کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار قرار دیا گیا ہے جس کے تحت انعام کی رقم ان میں مساوی تقسیم ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2232902/508/
60 سالہ عبدالوحید کا ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ
6 October, 2021
پاکستان کے عبدالوحید نے ورلڈ باڈی بلڈنگ اور فزیک سپورٹس چیمپئن شپ میں 50 پلس کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیتا ہے
تاشقند (سپورٹس ڈیسک) 60 سالہ بابا عبدالوحید کو اس کامیابی پر فخر ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز عمر شہزاد نے چیمپئن شپ کی جونیئر کیٹیگری میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا ۔19 سالہ عمر شہزاد نے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور ملک کیلئے چاندی کا تمغہ جیتا۔
https://dunya.com.pk/index.php/sports/2021-10-06/1891880
فزکس کا نوبل انعام 3 سائنسدانوں کے نام
6 October, 2021
رواں سال فزکس کا نوبل انعام جاپانی نژاد امریکی، جرمن اور اطالوی سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر حاصل کر لیا
سٹاک ہوم (اے ایف پی) جیوری کے مطابق امریکی سائنسدان سیوکورو منابے ، جرمن سائنسدان کلاؤس ہیزلمان اور اطالوی سائنسدان جیورجیو باریسی ماحولیاتی ماڈلز اور فزیکل نظام کی وضاحت پر فزکس کے نوبل انعام کے حق دار قرار پائے ہیں۔90 سالہ سیوکورو منابے اور 89 سالہ کلاؤس ہیزلمان دونوں دس لاکھ یورو کے انعام کا نصف شیئر کریں گے ، باقی نصف جیورجیو باریسی کو فریکل سسٹم کے اتار چڑھاؤ پر کام کی وجہ سے ملے گا۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-06/1891992
وزیر اعظم عمران خان 69 برس کے ہو گئے ، سوشل میڈیا پر کارکنوں اور مداحوں کی مبارکبادیں
Oct 05, 2021 | 13:42:PM
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) وزیر اعظم عمران خان 69 برس کے ہو گئے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وزیر اعظم کو ان کی 69 ویں سالگرہ پر مبارکباد کے پیغامات دیے جا رہے ہیں ۔
نجی ٹی وی 24 نیوز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف 5 اکتوبر 1952 کو میانوالی میں ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے ،انہوں نے ابتدائی تعلیم کیتھیڈرل سکول اور ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ وہاں رائل گرائمر سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات، فلسفہ اور معاشیات کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی، وہ 1974ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔
عمران خان نے پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے اپنا ڈیبیو 18 سال کی عمر میں برمنگھم میں 1971 کی پاک انگلینڈ سیریز میں کیا ، انہوں نے بطور کپتان 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انتہائی عروج پر ہونے کے باوجود ریٹائرمنٹ لے لی ، 25 اپریل 1996 کو اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان مختلف برطانوی اور ایشیائی اخباروں میں خاص طور پر پاکستان کی قومی ٹیم کے بارے میں آرٹیکل تحریر کرتے رہے ہیں، انہوں نے بی بی سی اردو ، سٹار ٹی وی نیٹ ورکر سمیت متعدد اشیائی اور برطانوی کھیلوں کے نیٹ ورکر پر مبصر کے طور پر خدمات انجام دیں جب سال 2004 میں بھارتی کرکٹ ٹیم 14 سال بعدپاکستان کھیلنے کیلئے آئی تو عمران خان ٹین اسپورٹس چینل کے خصوصی براہ راست پروگرام میں مبصر تھے۔
عمران خان کو نومبر 2005 میں بیرونس لاک ووڈ کے بعد بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا وہ 9 برس تک اس عہدے پر فرائض انجام دیتے رہے مگر 30 نومبر 2014 کو بوجہ سیاسی مصروفیات انہوں نے اس عہدے کو بھی چھوڑ دیا ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر برائن کینٹرن نے عمران خان کو طالب علموں کے لیے ایک شاندار رول ماڈل قرار دیا۔
عمران خان سال 2002 کے عام انتخابات میں میانوالی کی سیٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، انہوں نےقومی اسمبلی کی کشمیر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ سال 2007 میں سابق جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دیابغیر صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ، جس کے خلاف آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ نے عمران خان کے ساتھ مل کر تحریک چلائی جس کے باعث پرویز مشرف نےہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان کو نظر بند کرنے کی کوشش کی مگروہ فرار اور روپوش ہو گئے ، بعد ازاں انہیں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ احتجاج کرنے پر گرفتار کر کے ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھجوا دیا گیا۔ 18 نومبر کو عمران خان نے جیل میں بھوک ہڑتال کی جس کے بعد انہیں 22 نومبر کو اچانک رہا کر دیا گیا۔
عمران خان کو عروج 2011 کے لاہور جلسے میں حاصل ہوا جہاں انہوں نے میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد سے خطاب کرتے ہوئے دو جماعتوں کی اقتدار میں باریوں کا نکتہ اٹھا کر ملک کو لوٹنے کا الزام عائد کیا، اس کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی جماعت میں جان ڈل گئی اور اس کے حامی تیزی سے بڑھنے لگے ، 2013کے انتخابات میں ان کی جماعت ملک میں تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری جبکہ انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا میں حکومت بھی بنائی ۔
سال 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف ملک کی سب سےبڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Oct-2021/1349419?fbclid=IwAR284MIa_ooQWQ5Ku6sd5BYl24P0eOAZYAXZayRZmwXGTRJu0ql_4NWCxIA
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/05102021/p7-lhr-002.jpg
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/05102021/p6-lhe-039.jpg
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/05102021/p3-lhr-001.jpg
استاد کی تعظیم اور علامہ اقبالؒ
5 October, 2021
مولوی سید میر حسن، علامہ اقبالؒ کے اساتذہ میں وہ باکمال شخصیت ہیں۔جنہوں نے آپ کی تربیت میں یادگار کردار ادا کیا۔جب علامہ اقبالؒ کو ''سر‘‘ کا خطاب دیا جانے لگا تو آپ نے کہا کہ پہلے میرے استاد سید میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔تب میں یہ خطاب قبول کروں گا۔
ایک دفعہ علامہ اقبالؒ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گلی میں بیٹھے تھے کہ اچانک انہوں نے دور سے مولوی صاحب کو آتے دیکھا۔ تو جلدی سے ان کے پاس پہنچے۔اس حالت میں کہ ان کے ایک پائوں میں جوتا بھی نہ تھا۔علامہ اقبالؒ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔حتیٰ کہ مولوی صاحب کو ان کے گھر پہنچا کر واپس آئے۔
علامہ اقبالؒ نے ایک بار کہا تھا کہ یورپ کا کوئی عالم یا فلسفی ایسا نہیں جس سے میں نہ ملا اور کسی نہ کسی موضوع پر بلا جھجھک بات نہ کی ہو۔لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ شاہ جی (مولوی سید میر حسن) سے بات کرتے ہوئے میری قوت گویائی جواب دے جاتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف ہوتا ہے لیکن دل کی یہ بات بآسانی زبان پر نہیں لا سکتا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-10-05/25263
طب 2021کا نوبیل انعام 2امریکی سائنسدانوں کے نام
5 October, 2021
رواں سال کیلئے نوبیل انعامات کے اعلان کا سلسلہ شروع ہوگیا
سٹاک ہوم(مانیٹرنگ ڈیسک)طب کے شعبہ میں 2021 کا نوبیل انعام 2امریکی سائنسدانوں کے نام رہا، ڈیوڈ جولیس اور ایرڈم پیٹاپوٹین کو انسانی جسم میں درجہ حرارت سے متعلق اعصابی نظام پرتحقیقات کرنے پریہ انعام دیا گیا،دونوں نے تحقیقات کے ذریعے انسانی جلد کے ان خلیوں کا پتالگایا تھا جن کی مدد سے انسان درجہ حرارت کو محسوس کرتا ہے ،آئندہ دنوں میں بالترتیب فزکس، کیمسٹری ، ادب،امن اور اقتصادیات کے نوبیل انعامات کا اعلان کیاجائے گا۔ یہ انعامات الفریڈ نوبیل کی برسی کے موقع پر 10 دسمبر کو دئیے جائیں گے ۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-05/1891300
ٹی ٹونٹی میں تیز ترین7 ہزار رنز ،بابر اعظم نے ایک اور عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا
پیر 04 اکتوبر 2021ء
راولپنڈی ( نیٹ نیوز) پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ایک اور عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا ہے ۔قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ٹی ٹونٹی کرکٹ میں تیز ترین 7 ہزار رنز بنانیوالے بیٹسمین بن گئے ہیں۔ انہوں نے یہ سنگ میل 187 اننگز میں عبور کرکے ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بیٹسمین کرس گیل کا ریکارڈ توڑ دیا، گیل نے 192 اننگز میں 7 ہزار رنز ٹی ٹونٹی رنز کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ بابر اعظم نے یہ ریکارڈ قومی ٹی ٹونٹی چیمپئن شپ میں سینٹرل پنجاب اور سدرن پنجاب کے درمیان میچ میں عبور کیا، اس میچ سے قبل بابر اعظم کو7 ہزار رنز مکمل کرنے کیلئے چار رنز درکار تھے ۔
https://www.roznama92news.com/%DB%8C-%DB%8C-%D9%85%DA%BA-%D8%AA-%D8%AA%D8%B1%DB%8C7-%D8%B1-%D8%B1%D9%86%D8%B2%D8%A8%D8%A7
30شخصیات کو بہتر ین خدمات پر ’’گور نر ایوارڈ‘‘سے نواز اگیا
4 October, 2021
مولانا فضل الر حیم ،کامران لاشاری ،کوثر عباس ،سعید احمد ،منصور سرور کو ایوارڈ ملا ، مخالفین ہر اچھے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ، گورنر سرور کا خطاب
لاہور (سیاسی رپورٹرسے ) گور نر پنجاب نے جامعہ اشر فیہ کے سربراہ مولانا فضل الر حیم ،آرکیالوجی کے شعبے سے کامران لاشاری اورقیام امن کی کوشش کر نیوالے ایس ایس ڈی اوکے ایگزیکٹوڈائریکٹر سید کوثر عباس سمیت 30شخصیات کو بہتر ین خدمات پر ‘‘گور نر ایوارڈ’’سے نواز دیا ۔ گور نر ہائوس لاہور میں تقر یب کے دوران سماجی کارکن میاں سعید احمد ،وائس چانسلر منصور سرور کے علاوہ نیئر علی دادا ،عمار اویس ،پروفیسر ڈاکٹر وحید الحسن ،ثومیہ اقتدار ،فاطمہ حسین ،فدیہ کاشف ،ڈاکٹر طارق چیمہ ،ڈاکٹر روبینہ فر خ ،افشاں حمید ،جنید سبحانی ،ڈاکٹر سہیل مختار احمد ،ڈاکٹر خالد محمود ،رانا خرم شہزاد خان ،ذیشان ضیاء، راجہ طارق تنویر ،شان این خان ،عائشہ جہانزیب ،شبانہ اختر ،استاد نایاب علی خاں ،فرزانہ عاقب ،پروفیسرعائمہ سید ،اویس یونس ،طاہر علی صادق ،سعدیہ نورین اور سید حادیہ ہاشمی کو گور نر ایوارڈسے بھی نوا ز ا گیا۔گور نر پنجاب نے تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے خواتین کو ہر اساں کر نے جیسے جرائم کیخلاف حکومتی ادارے سخت ایکشن لے رہے ہیں ۔گورنر سرور نے کہا کہ تاریخ میں بڑے محلات اور دولت رکھنے والے نہیں صر ف اور صرف انسانیت کی خدمت کر نیوالے ہی زندہ رہتے ہیں ۔گورنرہاؤس میں بز نس کمیونٹی کے رہنمائوں جلا ل الدین رومی ،سید عظمت شاہ اور دیگر سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے گورنرپنجاب نے کہاہے کہ سیاسی مخالفین ہر اچھے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن انشاء اللہ وزیر اعظم عمران خان کا ریاست مدینہ کا مشن ضرور کامیاب ہوگا ۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-04/1890985
کبیروالا :معروف شاعر حکیم ساغر مشہدی انتقال کر گئے
پیر 04 اکتوبر 2021ء
کبیروالا(نامہ نگار) معروف عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد طارق جمیل کے کلاس فیلو،حکیم محمد سعید کے شاگرد،استادالشعراء حکیم سید ساغر مشہدی بقضائے الٰہی انتقال کرگئے ۔ کبیروالا میں مقیم معروف بزرگ شاعر سیدظفرعلی شاہ المعروف ساغر مشہدی کوطبیعت خراب ہونے پرنشتر ہسپتال ملتان لے جایا گیا،جہاں وہ برین ہیمرج کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ،مرحوم کی عمر 78برس تھی۔ساغر مشہدی کا رباعی اور مسدس میں آپکا کام نمایاں ہے ۔سید ساغر مشہدی جالندھر (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ آپکا خاندان ہجرت کر کے تلمبہ ضلع خانیوال(پاکستان) میں آباد ہوا۔آپ ملازمت کے سلسلے میں کراچی بھی رہے اور بعد ازاں کبیر والا (خانیوال) میں مستقل سکونت اختیار کی۔آپ نوحہ خواں بھی تھے ،آپ کو موسیقی کا علم ازبر تھا،خود اپنی غزلیں اور نوحے کمپوز کیا کرتے اور گایا کرتے ۔نمازجنازہ کے بعد مرحوم کو مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔مرحوم نے پسماندگان بیوہ،4بیٹے سیدعلی عمران،سید علی رضا،سیدعلی ذیشان،سید علی آفاق اور 2بیٹیوں سوگوار چھوڑے ہیں۔
https://www.roznama92news.com/%DA%A9%D8%A8%DB%8C-%D9%85%D9%88%D9%81-%D8%B9%D8%B1-%D8%AD%DA%A9%DB%8C%D9%85
ٹانگوں سے محروم امریکی زیون کلارک نے 20 میٹر کا فاصلہ اپنے ہاتھوں کے بل پر صرف 4.78 سیکنڈ میں طے کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
اس سال 15 فروری کے روز میسیلون، اوہایو میں قائم کیے گئے ریکارڈ کو اب گنیز ورلڈ ریکارڈ نے بھی تسلیم کرلیا ہے اور اسے اپنی آئندہ سالانہ کتاب ’’گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ 2022‘‘ کتاب کا حصہ بنا لیا ہے۔
24 سالہ زیون کلارک پیدائشی طور پر ٹانگوں سے محروم ہیں جس کی وجہ سے انہیں جنم دینے والی خاتون نے بھی پالنے سے انکار کردیا تھا اور اسپتال میں چھوڑ دیا تھا۔
وہ 16 سال کی عمر تک ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے گھر میں لے پالک بچے کے طور پر پلتے رہے اور ہر طرح کی دشواری، حقارت اور پریشانی کا سامنا بھی کرتے رہے۔
2013 میں کمبرلی ہاکنز نامی ایک خاتون نے زیون کو ہمیشہ کےلیے اپنا بیٹا بنا کر ساتھ رکھ لیا۔
زیون کا کہنا ہے کہ ٹانگوں سے محرومی ان کےلیے زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تھی جسے پورا کرنے کےلیے انہوں نے ہر وہ کام کیا جو ٹانگوں والا ایک نارمل انسان کرسکتا ہے۔
انہوں نے اداکاری کی، باڈی بلڈنگ کی، ریسلنگ میں مہارت حاصل کی اور دنیا کو دکھا دیا کہ ان میں وہ سب کچھ کرنے کی قابلیت ہے جو ایک نارمل انسان کرسکتا ہے۔
دوسروں کو حوصلہ دینے کےلیے انہوں نے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ کے علاوہ ذاتی ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی ہے۔ زیون کی زندگی پر نیٹ فلکس نے ایک مختصر ڈاکیومینٹری بھی بنائی ہے۔
وہ ایک امریکی مصنف کے تعاون سے اپنے بارے میں ایک کتاب ’’زیون: ان میچڈ‘‘ بھی لکھ چکے ہیں۔
اپنی صلاحیتوں کو ایک نئے انداز سے منوانے کےلیے پچھلے سال کووڈ 19 وبا کے دوران زیون نے ہاتھوں کی مدد سے دوڑنے کی مشق بہتر کرنا شروع کردی؛ اور بالآخر ایک سال بعد وہ ہاتھوں کے ذریعے تیز ترین دوڑ کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
اب وہ 2024 کے سمر اولمپکس اور پیرالمپکس میں حصہ لینے کی تیاری کررہے ہیں جہاں وہ سونے کا تمغہ جیتنے اور کوئی نیا عالمی ریکارڈ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2231458/509/
ہمارا یہ تعلق شروع ہوتا ہے 2007ء سے، جب ہمارے ایک باذوق قریبی بزرگ جناب اقبال راجا کی سالانہ ’دعوت آم‘ ہوئی۔۔۔
چنیدہ اہل علم وفن سے سجی ہوئی ان کے دولت کدے کی اس چھوٹی سی ادبی بیٹھک میں ہم شاید نوعمر ترین مہمان تھے۔۔۔ جب کہ بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی (سابق ڈائریکٹر ’آئی ایس پی آر‘)، پروفیسر عنایت علی خان، پروفیسر یٰسین معصوم، اجمل سراج، ایوب خاور وغیرہ سے سجی ہوئی اس محفل میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بھی جلوہ افروز تھے۔۔۔ اور ہم ایک کونے میں دبک کر ان قدآور شخصیات کی علمی وادبی گفتگو سنا کیے۔۔۔
چشم تصور سے آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اُس وقت بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی، جنرل پرویز مشرف سے اپنی ملاقات کا احوال بتا رہے ہیں۔۔۔ پھر اجمل سراج اور ایوب خاور کے کلام پر دادو تحسین دی جا رہی ہے اور پھر جب شمع محفل نورانی سراپے کے حامل بزرگ پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی کے سامنے آئی، تو بس پھر کیا ہی کہنے، ایک تو ان کی شگفتہ شاعری میں چھپے ہوئے طنز کے گہرے نشتر، اور اس ’گھاؤ‘ پر مستزاد ان کی ادائے دل بَری۔۔۔
اس پر بھی بس نہیں، جب وہ یہ فرماتے کہ ’اپنی یہ نظم تو میں ترنم سے سناؤں گا‘ تو پھر آپ صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ انھوں نے جب لہک لہک کر اپنی معروف نظم ’جمہوریت‘ سنائی ہوگی، تو محفل کا کیا رنگ رہا ہوگا۔۔۔ جب وہ اپنے ملفوف سیاسی خیالات کو شعری عروض کی کمان میں باندھ کر مصرع چھوڑتے، تو بس، پھر تو کچھ پوچھیے ہی نہ۔۔۔! اور زعفران زار بنی ہوئی شعروسخن کی اس محفل میں گاہے گاہے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اُنھی کے کسی مصرع کو اُچک کر ایسا پلٹاتے کہ مزاح اور شگفتگی دوآتشہ ہوئی جاتی تھی۔۔۔
شاید یہ ہماری زندگی کی پہلی کوئی ایسی باقاعدہ نشست تھی، جس میں ہم دوزانو ہو کر ادبی لوازمات سے مستفید ہو رہے تھے اور ان تمام شخصیات کو پہلی بار دیکھ اور سن رہے تھے۔۔۔ جب یہ یادگار محفل برخاست ہوئی، تو باہر نکلتے ہوئے ہمیں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی سے باقاعدہ تعارف کا موقع مل گیا۔۔۔ ہم نے ’ایکسپریس‘ میں اِن کے کالم کی غیر حاضری کا پوچھا تو انھیں حیرانی ہوئی کہ ہمیں کیسے پتا کہ ’ابن منشا‘ کے قلمی نام سے ہر اتوار کو کالم لکھنے والے دراصل وہ ہیں، تو ہم نے انھیں بتایا کہ ان کے بھتیجے نے ہم پر یہ راز آشکار کیا۔۔۔ اُن کے کالم نہ لکھنے کی وجہ سے ہمیں پہلی بار صحافتی دنیا کی اٹھان اور طور طریقوں کی بھی خوب خبر ہوئی تھی کہ اچھا ایسا بھی ہوتا ہے!
خیر، پھر یوں ہوا کہ اگلے برس ایک ادبی تقریب میں ہم نے انھیں اردو کے بگاڑ اور عدم نفاذ کے حوالے سے ایک خط پیش کیا، جو ہم نے اس برس الگ الگ 70، 80 شخصیات کو لکھا تھا، وہ ان چند مشاہیر میں شامل تھے کہ جنھوں نے باقاعدہ مفصل جواب عنایت کر کے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔۔۔ ان کا ہمارے لیے یہ لکھنا کہ ’’میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے پرعزم، محب وطن اور مثبت سوچ کے حامل نوجوان میرے قاری ہیں۔‘‘ ساری زندگی ہمارا حوصلہ بڑھاتا رہے گا۔
طنزو مزاح، سفرنامے، زبان وبیان، اشتہاریات اور سماجی بہبود وغیرہ جیسے متنوع موضوعات پر 27 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی قدرومنزلت اپنی جگہ پر مسلّمہ ہے۔۔۔ لیکن ہم اسے خوش قسمتی کہیں گے کہ ہمارا اور ان کا گھر ایک سیدھی گلی سے گزرتے ہوئے کوئی 200 فٹ کی دوری پر تھا۔۔۔ ہر چند کہ وہ ہمارے بچپن ہی میں وہاں سے منتقل ہوگئے تھے، لیکن ان کے بڑے صاحب زادے شمیم قریشی ہمارے پرانے ہم سائے رہے۔۔۔
جوں جوں عقل وشعور کی منازل طے ہوئیں، توں توں ہم پر معین قریشی صاحب کا بلند مرتبہ آشکار ہوتا چلا گیا۔۔۔ اور ہمیں دلی مسرت ہوتی کہ ہم انھی کے دولت کدے کے قریب اپنا غریب خانہ رکھتے تھے، وہ اور ممتاز نقاد ڈاکٹر یونس حسنی، ’بی بی سی‘ کے شفیع نقی جامعی، نام وَر ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی اور معروف شاعر ومصور عرفان مرتضیٰ وغیرہ دہلی کالونی کے وہ مشاہیر ہیں، جن پر بلاشبہ وہاں کا ہر مکین فخر کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ہماری کالونی پر بھی ایک سیر حاصل مضمون لکھا، جو ان کی کتاب ’بالقرضِ محال‘ میں بھی شامل ہے، اس میں انھوں نے محلے کے نام وَر بزرگوں میں ہمارے دادا کا تذکرہ بھی کیا، جنھیں دہلی کالونی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انھوں نے نہایت باریک بینی سے اردو کے عام زبان وبیان اور دہلوی تہذیب میں ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ برادری کی انفرادیت کا بھی خوب جائزہ لیا۔۔۔
یہ اُن کی اپنے پرانے محلے داروں سے وابستگی ہی تھی کہ وہ اپنی وفات کے وقت بھی وہاں کی ’منتظمہ کمیٹی‘ کے اعزازی صدر تھے۔ اپنی علالت سے کچھ دن پہلے سرِ راہ ہمیں دکھائی بھی دیے، تو ہم نے دوڑ کر دست شفقت وصول کیا، انھیں منتظمہ کے اجلاس میں پہنچنا تھا، لیکن جلدی جلدی لاٹھی ٹیکتے ہوئے بھی انھیں اس روز شایع ہونے والے ہمارے کتابوں کے تبصروں کی تعریف کرنا نہیں بھولی تھی۔۔۔
اکتوبر 2014ء میں جب انھوں نے اپنی دستخط شدہ کتاب ’بالقرض محال‘ پر ہم سے تبصرہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی، تب تک ہم شاید ایک آدھ ہی کسی کتاب پر اظہار خیال کیا تھا، لیکن احفاظ الرحمٰن صاحب کے کڑے معیار کے سامنے ہم جیسے ناتجربے کار کو کتابوں پر تبصرہ لکھنے کی ہمت اور اعتماد انھوں نے دلایا۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ وہ ’ایکسپریس‘ میں شایع ہونے والے ہمارے اکثر مضامین، صد لفظی کتھا، انٹرویو، فیچر اور تبصروں وغیرہ پر اپنی قیمتی رائے دیتے رہتے۔۔۔
کبھی بہ ذریعہ ’ایس ایم ایس‘ یا پھر کال پر دل کھول کر حوصلہ بڑھاتے، کبھی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی اتنی خوب صورتی سے اصلاح فرماتے کہ بے اختیار ان کی قابلیت اور علمیت پہ واری جانے کو جی چاہتا کہ زبان وبیان کی کتنی باریک اور اہم بات ہے اور دیکھیے، ہم زبان کے اس طور اور ڈھب سے بالکل ہی ناواقف تھے۔۔۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہماری کوئی تحریر پڑھ کر انھیں کوئی واقعہ یا تجربہ یاد آجاتا، تو وہ فرماتے کہ ’میاں اب یہ واقعہ سنیے، ہم نے ایسا سنا اور ہمارے بڑے بھائی نے ہمیں فلاں بارے میں یہ بتایا‘ وغیرہ وغیرہ۔
اس گفتگو میں کبھی ایسے موضوعات بھی نکل آتے کہ جن کا ذکر وہ اپنی تحریروں میں بھی نہیں کرتے تھے۔ ہم ایسا کوئی واقعہ دل چسپ جان کر پوچھتے کہ یہ آپ نے کہیں لکھا ہے یا ہم آپ کے حوالے سے لکھ سکتے ہیں، تو وہ کہتے ارے میاں، یہ تو میں آپ کی معلومات کے لیے بتا رہا ہوں، یہ لکھنے والی باتیں تھوڑی ہی ہیں۔ جیسے ایک معروف علمی خانوادے کی ’بانیٔ پاکستان‘ سے متعلق ریڈیو پاکستان پر یہ گفتگو نشر ہو جانا جس میں ایک نامناسب فقرہ تھا، جس کے بعد نہایت نازک اور حساس صورت حال پیدا ہوگئی۔
ظاہر ہے سرکاری ریڈیو سے بابائے قوم کے لیے ایسے کلمات نشر ہونا کسی بھونچال سے تو کم نہ تھا، بہرحال پھر متعلقہ صاحب نے بڑی ہوشیاری سے ریکارڈ میں تبدیلی کر کے اپنی نوکری بچائی تھی۔۔۔ یہی نہیں بہت سی بڑی شخصیات کے ساتھ ان کے معاملات اور کچھ تلخ سیاسی حقائق بھی ایسے تھے، جو وہ دکھ کے ساتھ ہمارے ساتھ بانٹ لیا کرتے، لیکن بوجوہ انھوں نے کبھی انھیں اپنی تحریروں کا موضوع نہیں بنایا۔
ڈاکٹر شیخ محمد معین قریشی نے 1942ء میں دریا گنج (دلی) میں آنکھ کھولی، تعلیم کا آغاز بھی وہیں ہوا، پھر قیام پاکستان کے بعد اہل خانہ کے ہم راہ لاہور پہنچے اور پھر کراچی منتقل ہوگئے، 1957ء میں آتش زدگی میں ان کا گھر ہی خاکستر نہیں ہوا، بلکہ ان کے والد بھی جاں بحق ہوگئے۔ انھوں نے ایک کٹھن زمانہ دیکھا، ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کیے۔۔۔ 1953ء میں بچوں کے لیے پہلی تحریر روزنامہ ’انجام‘ کی زینت بنی، 1962ء میں مجید لاہوری کے پرچے ’نمک دان‘ سے باقاعدہ مزاح نگاری شروع ہوئی۔۔۔ پھر کام یابی کے بے شمار مراحل طے کرتے چلے گئے، 1983ء میں پہلی کتاب شایع ہوئی اور وفات سے کچھ وقت پہلے تک ان کی معیاری کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔
دوسری طرف سیاسیات اور صحافت میں ایم اے، پھر ایل ایل بی اور لندن سے ڈاکٹریٹ کرنا یقیناً ان کی ذہانت کا اظہار تھا، پیشہ وارانہ زندگی پانچ گریڈ سے شروع کی اور 2002ء میں 20 گریڈ میں ’سندھ سوشل سیکیورٹی‘ کے ڈائریکٹر کے طور پر سبک دوش ہوئے۔ اردو کالم نگاری میں وہ طنزومزاح کی روایت کے امین آخری چند لوگوں میں تھے، 1996ء میں انھیں ’اے پی این ایس‘ کی جانب سے بہترین کالم نگار کا اعزاز بھی دیا گیا۔ انھوں نے ’ڈان‘ میں مذہبی کالم بھی لکھے اور ایک اور انگریزی معاصر میں پرفکر مزاح نگاری کے جوہر بھی دکھائے، وہ ایسے مزاح کے قائل تھے کہ جو قاری کو سوچنے پر مجبور کردے۔
ان کے دولت کدے پر لگ بھگ 1982-83 ء سال سے جاری سالانہ ’دعوتِ پائے‘ محض شعروسخن کی آب یاری ہی نہیں، بلکہ بہ یک وقت دسیوں مشاہیر سے ملاقات کا ذریعہ بن جاتی تھی۔۔۔ محدود نشستوں کی اس بیٹھک میں وہ ہر برس نئے مہمانوں کو شریک کرتے۔۔۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک انجمن کی طرف سے کسی ادبی شخصیت کی پذیرائی کی جاتی اور پھر پرتکلف فرشی دسترخوان پر تمام مہمانوں کے لیے کھانا چُنا جاتا، جس میں ان کا بھرا پُرا گھرانا اس بھرپور طریقے سے مہمان داری کرتا کہ جیسے بالکل گھر ہی کی کوئی تقریب ہو۔ 2017ء میں ہم بھی اس سجی اور سنوری ہوئی محفل کا حصہ بنے۔۔۔
آج کے سماج میں ڈاکٹر معین جیسی وضع داری اور عاجزی خال خال بھی دکھائی نہیں دیتی کہ آپ علم وادب کے اتنے بلند مرتبے پر فائز ہوں، لیکن کسی ثمردار پیڑ کی مانند جھکے ہوئے ہوں، وہ کبھی اپنے پرانے واقف کاروں سے فاصلہ نہیں کرتے تھے، بلکہ فخر سے بتاتے کہ یہ میرا پرانا محلہ ہے اور یہاں ہمارے پرانے گھر میں بجلی بھی نہیں ہوا کرتی تھی، تب میں اسٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ ہر وقت دست یاب، ہر ایک کو میسر۔۔۔ بس ایک کال کیجیے ’ڈاکٹر صاحب!‘ اور لیجیے ڈاکٹر صاحب نے اپنا دل نکال کر پیش کر دیا۔۔۔ اب بھلا ایسا بھی کوئی قدآور ہو سکتا ہے کہ جس کے اندر اپنے مرتبے اور علمیت کا ذرا سی بھی فخر و غرور نہ ہو۔۔۔
بھئی، ڈاکٹر صاحب، فلاں دن ہماری تقریب ہے، آپ کو اظہار خیال کرنا ہے، ہماری نئی کتاب آئی ہے، اس کے لیے کچھ سطریں عنایت کر دیجیے، ہمارا تحقیقی مقالہ ہے، اس پر لکھنا ہے۔ الغرض ہر ایک ہی کو وہ اتنی آسانی سے مل جاتے تھے کہ شاید پھر لوگ بھی کچھ یہ بھول سے گئے کہ وہ اس زمانے کی کتنی بڑی شخصیت تھے۔ تبھی تو یہ ہوا کہ ہمارے علم ودانش سے وابستہ حلقوں نے انھیں کندھا دینا بھی ضروری نہ سمجھا۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ تین عشروں تک وہ جس اخبار میں ’برجانِ درویش‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے، وہاں ان کی رحلت کی اطلاع کے چند لفظ بھی جگہ نہ پا سکے۔۔۔!
ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ اس تاریک ہوتے ہوئے سماج کو شاید یہ احساس ہی نہ تھا کہ اردو زبان وادب کی ایک کتنی بڑی مشعل بجھ گئی ہے۔۔۔ اب شاید ہم جیسی ’ردی‘، بلکہ خس وخاشاک باقی رہ گئی۔۔۔ سلام ہے ڈاکٹر یونس حسنی کو، جنھوں نے پیرانہ سالی میں طویل سفر طے کر کے ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ شاعر سلیم فوز، رضوان صدیقی، مزاح نگار محمد اسلام، ادیب م ص ایمن، قادر بخش سومرو (اکادمی ادبیات سندھ)، اختر سعیدی، طارق جمیل (بزم شعر وسخن) اویس ادیب انصاری (محبان بھوپال فورم) بھی نمازِ جنازہ میں موجود تھے۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن گھر پر تشریف لائیں، ڈاکٹر داؤد عثمانی قبرستان تک گئے۔ اس کے علاوہ علم وادب کے کسی بھی نمایاں نام نے اس عظیم شخصیت کے نماز جنازہ میں شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی۔۔۔! کہتے ہیں کہ ’کسی بڑے نقصان ہونے سے زیادہ اس نقصان سے آگاہ نہ ہونا خطرناک ہوتا ہے!‘ اور یہ اسی خوف ناک امر کا اظہار ہے۔ باقی اکثر لوگ ان کے عقیدت مند، پرانے ہم سائے اور محلے دار تھے یا پھر ان کے رشتے دار اور بچوں کے کاروباری احباب۔ 27 کتابیں لکھنے والے کے جنازے پر شاید 27 ’صاحبِ کتاب‘ بھی جمع نہ ہو سکے! یعنی اب ہمارا سماج ’اعزاز سے دفنانے‘ سے بھی گیا۔۔۔ ورنہ پہلے یہ ’اطمینان‘ تو تھا کہ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے پُرتبسم آخری دیدار کو دیکھ کر دفعتاً گمان ہوا کہ شاید ’ملک الموت‘ نے جب انھیں کام یابی کی نوید سنائی ہوگی، تو انھوں نے بے ساختہ اس سے بھی کوئی شگفتہ بیانی کی ہوگی، تبھی تو چہرے پر ایک مطمئن مُسکان ٹھیر کر رہ گئی۔۔۔ وہ 20 ستمبر 2021ء کو علم وادب کی اس دنیا کو ’خالی‘ کر گئے۔۔۔ اردو طنز ومزاح میں مشتاق احمد یوسفی کے ’عہدِ یوسفی‘ کے بعد ’عہدِ قریشی‘ بھی ختم ہوگیا۔۔۔!
اب کون ہم جیسے نوآموز لکھنے والے کو ’’عزیزم‘‘ اور ’’ذہین، باصلاحیت، بااخلاق اور پُرعزم صحافی‘‘ کہہ کر دعائیں اور نیک خواہشات عطا کرے گا۔۔۔ کون ہے اب، جو ایک تلفظ اور زیر اور زبر کے فرق کو سمجھائے، کون جی کھول کر ہمارے کسی چھوٹے سے جملے یا فقرے پر داد دیا کرے گا، اب کون کسی ’دفاعی تحریر‘ پر یہ کہے گا کہ ’’بہت شکریہ، آپ نے فرض کفایہ ادا کیا۔‘‘ اب کون بتائے کہ ’سہولیات‘ کے بہ جائے ’سہولت‘ کہنا درست ہوگا۔۔۔ اور ’بندہ‘ تو اللہ کا ہوتا ہے، فرد لکھیے یا آدمی کہیے۔۔۔
کون اصلاح کرے گا کہ میاں، یہ ’بولنا‘ کیا ہوتا ہے، بولتے حیوان ہیں، انسان تو کہتا ہے۔۔۔! اب کوئی بھی گرفت نہیں کرے گا، کہ دراصل ’ترازو‘ مونث ہے، اسے فلم ’’انصاف کا ترازو‘‘ نے مذکر فروغ دیا۔۔۔ اب کسی صبح ہمارے جاگنے سے پہلے کسی ’ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی‘ کی ’مس کال‘ ہمارے پورے دن کو شادمان نہیں کرے گی۔۔۔ کوئی ’برقی پیغام‘ کھل کر ہم جیسے کم مایہ لکھاری کو یہ سندِ اعتبار نہیں دے گا کہ ’’آج کا انٹرویو زبردست ہے، مزہ آگیا!‘‘؎
راستو، کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے ’آداب‘ پہ کہتے تھے کہ ’جیتے رہیے‘
(اظہر عنایتی)
https://www.express.pk/story/2231564/1/
الوداع!عمر شریف، کامیڈی کنگ نے دو نسلوں کو اپنی اداکاری سے محفوظ کیا
3 October, 2021
تحریر : ارشد لئیق+تنزیل الرحمٰن جیلانی
عمر شریف اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے،ہالی وڈ فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ میں مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے متاثر ہو کر نام کے ساتھ شریف لگایا
ہاکی کی کمنٹری ہو یا محمد علی کی پیروڈی، عزیز میاں قوال کی قوالی کا انداز ہو یا اسٹیج ڈرامہ، کسی شو کی میزبانی ہو یا سمندر پار کوئی ایوراڈ شو، عمر شریف اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو ہنساتے ہنساتے لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ ٹی وی، اسٹیج ایکٹر، فلم ڈائریکٹر، کمپوزر، شاعر، مصنف، پروڈیوسر یہ تمام صلاحیتیں عمر شریف کی شخصیت کی پہچان بنیں۔ اسٹیج کی تاریخ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ عمر شریف کو جنوبی ایشیا کے کنگ آف کامیڈی کا خطاب بھی دیا گیا۔
اسٹیج کے بے تاج بادشاہ ،کامیڈی کنگ عمر شریف ،طویل علالت کے بعد گزشتہ روز ہم سے جدا ہوئے۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی کے مشہور علاقے لیاقت آباد میں 19 اپریل 1960ء کو محمد عمر نامی بچے نے جنم لیا بعدازاں وہ بچہ کامیڈی کنگ عمر شریف کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 4سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والے عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اسٹیج ڈراموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں کچھ اس انداز میں چڑھنا شروع کیں کہ پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ عمر شریف نے اسٹیج، فلم اور ٹی وی میں اپنی جاندار اور بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔
کامیڈی کنگ کا اصل نام محمد عمر تھا لیکن انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں کام کا آغاز کرنے کے بعد نام ’’عمر ظریف‘‘ رکھ لیا۔عمر شریف منور ظریف کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ منور ظریف سے اتنا متاثر تھے کہ کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ ’’ میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد جس شخص سے میری ملاقات ہو وہ منور ظریف ہوں‘‘۔ بعدازاں ہالی وڈ فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ میں ہالی وڈ کے مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئے کے اپنے نام کے ساتھ شریف لگا لیا۔
اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ نے 1980ء میں آڈیو کیسٹ پر اسٹیج ڈرامے ریلیز کرنے کا ٹرینڈ متعارف کرایا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کافی مقبول ہوئے۔عمر شریف نے 50سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا،ان کے مقبول ڈراموں میں 1989 میں ریلیز ہونے والا مشہور مزاحیہ ڈرامہ ’’بکرا قسطو ں پر‘‘، ’’بڈھا گھر پر ہے‘‘، ’’میری بھی تو عید کرا دے‘‘، ’’ماموں مذاق مت کرو‘‘ نمایاں ہیں۔ڈرامہ ’’ بکرا قسطوں پر‘‘ سے انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ اس ڈرامے کے پانچ پارٹ پیش کئے گئے۔ اس ڈرامہ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کئے ۔
پاکستان کے اس عظیم سپوت کو کئی بھارتی کامیڈینز اپنا استاد مانتے تھے جنہوں نے اس بات کا اظہاربھی کیا کہ وہ عمر شریف سے متاثر ہیں۔ کئی بھارتی فنکاروں نے ان کے انداز کو کاپی کرنے کی بھی کوشش کی۔ اداکار گووندا پاکستانی عظیم اداکار عمر شریف کی کامیڈی اور اداکاری کے نہ صرف معترف تھے بلکہ ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’’قلی نمبر ون‘‘ میں عمر شریف کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی اور ان کے مشہور شاہکار اسٹیج ڈرامہ ’’ بکرا قسطوں پر‘‘ سے متاثر ہو کر اداکاری کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی کامیڈین جانی لیور اور راجو شری واستو، عمر شریف کی کامیڈی سے بہت متاثر تھے اور انہیں برصغیر کا ’’کامیڈی کنگ ‘‘ مانتے تھے۔ امیتابھ بچن، عامر خان اور سشمیتا سین بھی عمر شریف کی کامیڈی کو پسند کرتے تھے۔ عمر شریف نے بھارت میں کئی ایوارڈ شوز اور کامیڈی شوز میں بھی شرکت کی ۔عمر شریف بے ساختگی، برجستگی اور بے باکی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین تھے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔
عمر شریف نے مختلف ٹیلی ویژن شوز بھی کئے، اکتوبر 2009ء میں اپنے لیٹ نائٹ ٹاک شو ’’دی شریف شو‘‘ کا آغاز کیا اور متعدد اداکار، فنکار، گلوکار اور سیاست دانوں کے انٹرویوز کیے۔ انہوں نے اداکاری اور میزبانی کے ساتھ ساتھ متعدد پروگراموں میں بطور جج بھی شرکت کی جس میں بھارت کا مقبول ترین پروگرام ’’دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج‘‘ سرفہرست ہے، جہاں نوجوت سنگھ سدھو ان کے ہمراہ جج کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔
عمر شریف اپنے ایک اسٹیج ڈرامہ کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی رہے، پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر پیش کئے گئے اسٹیج ڈرامہ ’’عمر شریف حاضر ہو‘‘ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو عدالت میں بلایا جاتا تھا اورکٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے آج تک پاکستان کے لئے کیاخدمات انجام دی ہیں۔ اس ڈرامے کی وجہ سے وکلاء ایسوی ایشن نے عمر شریف پر مقدمہ درج کروایا تھا۔
عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کا نام دیبا عمر تھا۔ دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی جو 80ء کی دہائی کی معروف ٹیلی ویژن اداکارہ تھیں۔ تیسری شادی سٹیج اداکارہ زریں غزل سے 2005ء میں کی۔صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
کامیڈی کنگ اداکاری کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے باوجود انسانیت کے جذبے سے سرشار تھے، انہوں نے 2006ء میں عمر شریف ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ’’ماں‘‘ کے نام سے اسپتال کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا جہاں مریضوں کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
جب کوئی شخص بین الاقوامی شہرت رکھتا ہو تو اس کے متعلق من گھڑت باتیں بھی اکثر سننے کو ملتی ہیں۔ عمر شریف کو بھی معاشرے کے اسی المیے کا سامنا پہلی مرتبہ 2017ء میں کرنا پڑا جب ان کی وفات کے متعلق جھوٹی افواہ سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی۔ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا جہاں فائدہ مند ہے ،وہیں غلط معلومات کا گڑھ بھی ہے۔ جہاں بے بنیاد خبر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس جھوٹی خبر کے جواب میں عمر شریف کے بیٹے کو سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہونا پڑا۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی۔ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا عمرشریف اور ان کے خاندان کو ستمبر2021ء میں ایک مرتبہ پھر کرنا پڑاجب سوشل میڈیا پر ان کی بیماری کے متعلق ایک دیڈیو اپلوڈ ہوئی جس میں وہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے درخواست کر رہے تھے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے چند دن بعد ہی سوشل میڈیا پر پھر یہ خبر نظر آنے لگی کہ عمر شریف اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جس کی ایک مرتبہ پھر ان کے گھر والوں کی جانب سے تردید کی گئی۔سوشل میڈیا صارفین کچھ لائکس اور فالورز کی خاطر اس طرح کے طریقے استعمال توکرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کے متعلق وہ ایسی بے بنیاد خبر پھیلا رہے ہیں وہ پہلے ہی اپنی زندگی کے مشکل ترین ایام سے گزر رہا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی خبروں سے اُس پر اور اُس کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہو گی۔
عمر شریف کافی عرصہ سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے، ماضی میں ایک بار دل کا بائی پاس بھی کروا چکے تھے لیکن کچھ عرصہ سے انہیں گردوں کی بیماری نے بھی آ لیا تھا اور گردوں میں خطرناک انفیکشن کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔عمرشریف کی اپیل کے بعد حکومت سندھ نے ان کا مکمل علاج حکومتی سرپرستی میں کروانے کا اعلان کیا۔ اداکارہ ریما خان کے شوہر اور ڈاکٹر طارق شہاب بھی عمر شریف کا علاج کرنے کے لئے سامنے آئے ۔ ڈاکٹر طارق شہاب کا کہنا تھا کہ عمر شریف کے دل کے ایک وال کے مسلز کمزور ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے خون کی گردش میں رکاوٹ ہے جبکہ انہیں سانس لینے میں بھی تکلیف کا سامنا ہے۔ اس تکلیف کا علاج اوپن ہارٹ سرجری سے ہی ہوسکتا ہے لیکن عمر شریف کی پہلے ہی ایک اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی ہے جبکہ ان کے گردے بھی کمزور ہیں لہٰذا دوبارہ سرجری کرنا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ عمر شریف کو امریکہ لے جانے کی تیاریاں کی گئیں اور ان کے لئے ایک ایئر ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ ان کا امریکہ جانا 26ستمبر 2021ء بروز اتوارطے پایا لیکن طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے و ہ اتوار کے بجائے دو دن تاخیر سے روانہ ہوئے۔ امریکہ کے راستے میں ان کا پہلا سٹاپ جرمنی تھا جہاں ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے ان کو ایئر ایمبولینس سے اتار لیا گیا اور ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ہسپتال میں طبیعت زیادہ ناساز ہوئی اور دونسلوں کو اپنی مزاحیہ اداکاری سے محظوظ کرنے والا فنکار اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ کروڑوں لوگوں کو ہنسانے والاعمر شریف اپنی بے شمار یادیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں عمر شریف بہت دراز قد کے مالک تھے۔ انڈسٹری کے ہر حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عمر شریف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عمر شریف نے اپنی معیاری اداکاری اور فیملی کامیڈی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ 5دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے عمر شریف کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن کی دنیا میں بے مثل خدمات سر انجام دینے اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے پر ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔
مقبول اسٹیج ڈرامے
بکرا قسطوں پر (5 پارٹ)،دلہن میں لے کر جائوں گا، سلام کراچی،انداز اپنا اپنا،میری بھی تو عید کرا دے، یہ ہے نیا تماشا،یہ ہے نیا انداز،صمد بانڈ 007، لوٹ سیل، ہاف پلیٹ،عمر شریف ان جنگل،عید عاشقوں کی، پولیس ہو تو ایسی،شادی مگر آدھی،مانو میری بات، بڈھا گھر پر ہے،ماموں مذاق مت کرو،لعل قلعے کی رانی لالو کھیت کا راجہ،چاند برائے فروخت،عمر شریف حاضر ہو، ڈاکٹر اور قصائی، بکرا منا بھائی، ولیمہ تیار ہے، نہلے پہ دہلا، فلائٹ420، قلی420۔
فلمی کریئر
عمر شریف نے اسٹیج اور ٹی وی کے ساتھ سینما سکرین پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کے کریڈٹ پر 35 فلمیں ہیں۔ ان کی 1992ء میں عیدالاضحی کے موقع پر ریلیز ہونے والی فلم ’’مسٹر 420‘‘کو زبردست کامیابی ملی۔اس فلم کے ہیرو، ڈائریکٹر اور مصنف وہ خود تھے جبکہ اداکارہ شکیلہ قریشی اور روبی نیازی نے ان کے مقابل مرکزی کردار نبھائے۔ مزاح سے بھرپور اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔اس فلم پر انہیں بہترین اداکار اور ڈائریکٹر کے نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا جبکہ 4 نگار ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کئے۔عمر شریف ایک سال میں 4نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے واحد فنکار تھے۔ان کی دیگر مقبول فلموں میں ’’مسٹر چارلی‘‘، ’’بہروپیہ‘‘، ’’چلتی کا نام گاڑی‘‘، ’’چاند بابو‘‘، ’’کھوٹے سکے‘‘، ’’ہتھکڑی‘‘، ’’لاٹ صاحب‘‘، ’’پھول اور مالی‘‘،’’جھوٹے رئیس‘‘، ’’پیدا گیر‘‘، ’’ڈاکو چور سپاہی‘‘، ’’خاندان‘‘، ’’نہلے پہ دہلا‘‘، ’’مس فتنہ‘‘، ’’غنڈا راج‘‘، ’’سب سے بڑا روپیہ‘‘ شامل ہیں۔فلمی کریئر میں عمر شریف نے 3 بار گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیا۔
عمرشریف کا بچھڑنا بہت بڑا
نقصان ہے:سہیل احمد
مشہور اداکار سہیل احمد نے کہا کہ عمرشریف کا بچھڑنا ہمارے ملک کا بڑا نقصان ہے، عمرشریف کا دنیا میں بڑا نام تھا، بہت پیارے انسان تھے، انہوں نے ہم سب کو ہمیشہ ہنسایا۔ عمرشریف جیسا فنکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔
عمر شریف نے مزاح کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی: مصطفی قریشی
اداکار مصطفی قریشی نے کہا کہ آج بہت بڑے فنکار ہم سے جدا ہوگئے، عمر شریف مزاح کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرتے تھے۔عمرشریف سے میرا ساتھ 45برس سے بھی زائد تھا،ہمیشہ ہنستے مسکراتے ملتے تھے۔
ہنسانے والا آج ہمیں رُلا
کر چلا گیا:ابرارالحق
گلوکار اور پی ٹی آئی کے رہنما ابرار الحق نے کہا کہ پوری دنیا گھومی ہے، عمر شریف جیسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔عمر شریف کو اپنے کام کے باعث کامیڈی کی دنیا میں منفرد مقام حاصل رہا۔ ہمیں ہنسانے والا آج ہمیں رُلا کر چلا گیا۔
عمر شریف بہت باکمال
انسان تھے:دلیر سنگھ مہدی
بھارتی گلوکار دلیرسنگھ مہدی نے اداکار عمر شریف کے انتقال پر ویڈیو پیغام جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بہت ہی دکھ کا دن ہے، عمر شریف بہت باکمال انسان تھے۔ ان کے کام کو دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
میں نے کامیڈی عمر شریف
سے ہی سیکھی:کپل شرما
بھارتی کامیڈین کپل شرما نے ٹوئیٹ کے ذریعے مزاح کی دنیا کے بے تاج بادشاہ عمر شریف کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا الوداع لیجنڈ، میں نے کامیڈی عمر شریف سے ہی سیکھی۔
عمر شریف نے اداکاری ہی نہیں انسانیت بھی سکھائی:رئوف لالہ
اداکار رؤف لالہ نے کہا ہے کہ عمر شریف کے انتقال سے لگتا ہے کہ ہمارے والد کا انتقال ہوگیا۔ عمر شریف نے اداکاری ہی نہیں انسانیت بھی سکھائی۔ سب کو ہنسانے والے نے آج سب کا دل توڑ دیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-03/1860
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/02102021/p6-lhe-021.jpg
رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پشاور میں ڈاکٹروں نے مریض کو بے ہوش کیے بغیر دماغ سے رسولی نکال دی۔
نیوروسرجن ڈاکٹر اکبر علی خان کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے دو گھنٹے میں مریض کے دماغ سے رسولی کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا۔
تیس سالہ مریض کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع مالاکنڈ سے ہے اور یہ رسولی اس کے دماغ کے اس حصے میں واقع تھی جو زبان، بازو اور ٹانگوں کی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔
رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی سرجری ہے۔
ڈاکٹر اکبر علی خان نے کہا کہ اس قسم کی سرجری کے ذریعے مریض کو دماغ کے فنکشنل ایریاز کو کسی قسم کے خطرات سے محفوظ بنانے میں مدد ملتی ہے اور ڈاکٹروں کو متعلقہ سرجری کرنے میں آسانی حاصل ہوتی ہے۔
اس سے پہلے کراچی کے آغا خان اسپتال اور اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل اسپتال میں مریض کو بے ہوش کیے بغیر دماغ کی رسولی کا کامیاب آپریشن کیا جاچکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2231067/9812/
پاکستانی نژاد ڈاکٹر عمر عتیق امریکی فزیشنز کالج کے سربراہ نامزد
30 September, 2021
پاکستانی نژاد امریکی فزیشن ڈاکٹر عمر عتیق کو امریکن کالج آف فزیشنز (اے سی پی)کے اگلے صدر کے لیے نامزد کردیا گیا
واشنگٹن(این این آئی) وہ اس عہدے کے لیے واحد امیدوار ہیں۔ سنگل سلیٹ انتخاب جنوری 2022 میں منعقد ہوگا۔ڈاکٹر عمر عتیق اس عہدے کے لیے منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی نژاد اور دوسرے غیر ملکی میڈیکل گریجوایٹ ہیں۔امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹو یٹر پر کہا کہ یہ پاکستانی امریکی برادری کے لیے قابل فخر اور تاریخی لمحہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس شاندار پیشہ و رانہ کامیابی کو تسلیم اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-09-30/1888973
پاکستان میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد بڑھا کر زچہ و بچہ کی جانیں بچانے کے لیے شروع ہونے والا اسٹارٹ اپ پاکستان کے بعد اسلامی دنیا کے وسائل سے محروم اور جنگ زدہ علاقوں کی خواتین اور بچوں کے لیے بھی امید کی کرن بن گیا ہے۔
ایجوکاسٹ نے لیڈی ڈاکٹروں کی قلت کی وجہ سے ہر سال حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں سے خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے اپنا اثر کامیابی سے قائم کیا، ایجوکاسٹ نے اپنی خدمات کا دائرہ وسائل سے محروم اور جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے والے اسلامی ملکوں میں بھی وسیع کردیا ہے۔
ایجوکاسٹ کی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے اور اس کی تکنیکی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرنے میں اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) کے ٹرانسفارم فنڈ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ایجوکاسٹ نے پاکستان کے بعد یمن، فلسطین، شام میں جنگ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کو ٹیلی میڈیسن کے طریقے سے علاج معالجہ اور طبی مشاورت کی فراہمی شروع کردی ہے۔
ایجوکاسٹ نے 2018میں پائلٹ پراجیکٹ کے ذریعے پریکٹس نہ کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کو ٹیکنالوجی کے زریعے طبی خدمات کی فراہمی کا موقع فراہم کیا، اس منفرد منصوبہ میں پاکستان کے ممتاز طبی ادارے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا تعاون اور اشتراک بھی حاصل رہا، ایجوکاسٹ نے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کی اور خصوصی کورسز کے ذریعے انھیں ٹیکنالوجی کے ذریعے طبی مشاورت اور مریضوں کے معائنے کے لیے تیار کیا۔
1000پاکستانی لیڈی ڈاکٹرزآئیڈیاکی اصل محرک ہیں
ایجوکاسٹ کے بانی عبداللہ بٹ نے ایکسپریس کو بتایا کہ دنیا کے 27 ملکوں میں مقیم 1000 پاکستانی خواتین ڈاکٹروں اس آئیڈیا کی اصل محرک ہیں، یہ لیڈی ڈاکٹرز بھی ان 80 فیصد خواتین ڈاکٹروں میں شامل تھیں جنھوں نے میڈیکل کی تعلیم کے بعد پروفیشن کو خیر باد کہہ دیا اور گھر بیٹھ گئیں، ایجوکاسٹ نے ان خواتین ڈاکٹروں کو خصوصی تربیت کے ذریعے ٹیلی میڈیسن کا پلیٹ فارم مہیا کیا انھوں نے بتایا کہ ایجوکاسٹ یمن کی خواتین کو لائیو طبی مشاورت کے ساتھ یمن کے طبی عملہ کو تربیت فراہم کررہا ہے۔
یمن میں انٹرنیٹ کی بہتر کنکٹی ویٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سی ڈی ایم اے انٹرنیٹ ایگری گیشن بھی ڈیولپ کیا، ایجوکاسٹ فلسطین میں ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ اور ٹیلی آرتھوپیڈک کی خدمات فراہم کررہا ہے، ایجوکاسٹ کی خدمات کے دائرے میں شام کے جنگ زدہ عوام بالخصوص بچے اور خواتین بھی شامل ہوچکے ہیں، ایجوکاسٹ کا آئندہ قدم افغانستان ہے جہا ں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے پاکستانی خواتین ڈاکٹر طبی مشاورت اور علاج معالجہ فراہم کریں گی۔
ایجوکاسٹ کی کامیابی کوروناسے متاثرہ ملکوں کیلیے پیشرفت ہے،حیات سندی
اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر کی سینئر مشیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اینوویشن ڈاکٹر حیات سندی نے پاکستانی اسٹارٹ اپ کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایجوکاسٹ کی شاندار کامیابی کورونا کی وبا کے دوران بری طرح متاثر ہونے والے اسلامی ترقیاتی بینک کے رکن ملکوں کے لیے اہم پیش رفت ہے ان ملکوں کے عوام مشکلات کا شکار ہیں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال سے ان ملکوں میں نمایاں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
ایجوکاسٹ کانیٹ ورک جلد افغانستان میں3ٹیلی میڈیسن کلینک قائم کریگا
پاکستانی ٹیلی ہیلتھ میڈیسن اسٹارٹ اپ یمن، فلسطین، شام کے بعد اب افغانستان میں خدمات فراہم کرے گا، ایجوکاسٹ کے بانی عبداللہ بٹ کے مطابق پاکستان اور افغان حکام کی منظوری سے پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں کا نیٹ ورک افغانستان میں 3 ٹیلی کلینک قائم کرے گا جو خواتین اور بچوں کو طبی خدمات فراہم کریں گے، عبداللہ بٹ نے بتایا کہ افغانستان میں خواتین اور بچوں کو ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی مشاورت کی فراہمی کی سہولت 3 شہروں میں قائم کی جائے گی جس کے لیے افغان اور پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
ایجوکاسٹ نے کوروناوبا میں آئسولیٹ 4لاکھ مریضوںکوطبی مشاورت فراہم کی
اسلامی ترقیاتی بینک نے ایجو کاسٹ کو اپریل 2020 میں ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر کی گرانٹ دی تھی جو ڈاکٹروں کی تربیت، تکنیکی صلاحیت کی بہتری اور انفرااسٹرکچر پر خرچ کی گئی، ایجو کاسٹ کورونا کی وبا کے دوران سندھ حکومت کے اشتراک سے گھروں میں آئسولیشن گزارنے والے 4 لاکھ مریضوں کو بھی طبی مشاورت فراہم کرچکا ہے۔
انوویشن ترقی پذیرملکوں کی ترقی کامحرک ہے،آئی ڈی بی
اسلامک ڈیولپمنٹ فنڈ کے ٹیکنالوجی انوویشن انیشیٹیو کے تحت ’’شوکیس آف اینوویشن آف ٹیکنالوجی پاورڈ بائی ٹرانسفارم فنڈ‘‘ کے عنوان سے ستمبر کے پہلے ہفتہ میں تاشقند، ازبکستان میں منعقد ہوا جس کے ساتھ اسلامی ترقیاتی بینک گروپ کا 46 واں سالانہ اجلاس عام بھی ہوا جس میں بینک کے بورڈ آف گورنرز نے سائنس ٹیکنالوجی اور انوویشن کو ترقی پذیر ملکوں میں سماجی و معاشی ترقی کا محرک قرار دیا اس موقع پر ٹرانسفارم فنڈ کی معاونت سے اسلامی دنیا میں ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں اثر ڈالنے والے سلوشنز کو بھی متعارف کرایا گیا اور ٹرانسفارم فنڈز سے مستفید ہونے والے 300 پراجیکٹس میں 5 پراجیکٹ کو اسلامی ترقیاتی بینک کے رکن ملکوں کے سامنے پیش کیا گیا جن میں پاکستانی اسٹارٹ اپ ایجوکاسٹ بھی شامل ہے۔
https://www.express.pk/story/2229258/1/
ا ے حمید:کہانی ،ناول اور ڈرامے کی پہچان، قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کا دُکھ محسوس کرتے ہوئے پہلا ناول لکھا
28 September, 2021
تحریر : ایم آر شاہد
انہوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول تحریر کیے ان کا مقبول ترین سلسلہ ’عینک والا جن‘90 ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا۔، ان کا حافظہ کمال کا تھا، آخری عمر تک اپنی یادداشت پر عبور حاصل رہا
امرتسر کی سر زمین نے بہت سی ایسی صاحب ِکمال شخصیات کو پیدا کیا ہے کہ جن میں علماء کرام ، حکماء ،ڈاکٹرز ، پہلوان ، کھلاڑی ،صحافی ، ادیب شاعر ،سیاستدان اور ماہرین تعلیم قابل ذکر ہیں ۔ ان میں اے حمید سر فہرست ہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان میں سٹاف آرٹسٹ کے طور پر ملازم ہوگئے جہاں ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیل اور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔رومانوی طرزِتحریر میں وہ کرشن چندر سے متاثر تھے اور ابتدائی کہانیوں کے موضوعات بھی اس اثر سے محفوظ نہیں۔1960 ء کی دہائی میں وہ نوجوانوں کے مقبول کہانی کار اور ناول نگار کا درجہ اختیار کر چکے تھے۔1980ء میں وہ ملازمت سے استعفیٰ دے کر امریکہ چکے گئے جہاں انہوں نے وائس آف امریکہ میں پروڈیوسر کی نوکری اختیار کرلی۔ لیکن ان کی سکون پسند طبیعت کو امریکی شور و غل راس نہ آیا اور وہ ڈیڑھ برس میں ہی لاہور لوٹ آئے۔تیس برس تک وہ ایک فری لانس رائٹر کے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول تحریر کیے لیکن ان کا مقبول ترین سلسلہ 90 ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا۔بچوں کے اس سلسلہ وار ڈرامے کا نام ’عینک والا جن‘ تھا۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ابھی سیزن ختم نہ ہو پاتا تھا کہ دوسرے سیزن کی ڈیمانڈ آنی شروع ہوجاتی تھی۔کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔نوجوانی کے ایام میں انہیں سری لنکا اور برما وغیرہ کی سیاحت کا جو موقع ہاتھ آیا وہ بعد میں ساری عمران کے تخیل کو مہمیز دیتا رہا اور ان علاقوں کے رومانوی ماحول ان کی بہت سی کہانیوں کا موضوع بنا۔اے حمید کی کچھ مقبول عام کتابوں میں پازیب، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھوشہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، پہلی محبت کے آنسو، اہرام کے دیوتا، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو، بلیدان، چاند چہرے اور گلستان ادب کی سنہری یادیں شامل ہیں۔
اے حمید 25 اگست 1928 ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام عبد العزیز پہلوان تھا اور ان کا تعلق کشمیری برادری سے تھا ۔قیام پاکستان کے وقت 1947 ء میں انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ ٹرین کے ڈبے کی چھت پر بیٹھ کر سفر کیا اور ان حالات سے متاثر ہو کر پہلا ناول 1950 ء میں’’ ڈربے ‘‘ لکھا جو بہت مشہور ہوا ۔ وہ امرتسر کی چلتی پھرتی تاریخ تھے ۔ پیدائش سے بچپن اور بچپن سے جوانی امرتسر کی گلیوں ،محلوں اور بازاروں اور تاریخی آثاروں سے متصل رہے ۔اس لئے ان کی تصانیف اور مضامین میں امرتسر کا عکس نظر آتا ہے ۔انہوں نے بچوں کے لئے سینکڑوں ناول لکھے اور قلم کو ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا ۔افسانہ نگاری کی صف میں انہیں اہم مقام حاصل رہا۔ انہوں نے اُردو شعر کی داستان امیر حمزہ ، مرزا غالب لاہور میں ،سنگ دوست شخصیات جیسی کتابیں لکھیں ۔ٹی وی کے لئے کئی مقبول پلے تحریر کئے ۔جن میں عینک والا جن ، عمبر ناگ ماریا بہت پسند کئے گئے۔ وہ کہتے کہ جن دنوں میں امریکہ میں تھا میری رہائش واشنگٹن میں تھی۔ چنانچہ صبح دفتر جاتے اور شام کے وقت آفس سے واپسی پر بس میں یا میٹرو ٹرین میں اکثر پاکستانی جوانوں سے ملاقات ہو تی تھی جو امریکہ میں مقیم تھے اور مختلف نوکریاں کر رہے تھے۔ ان سے گفتگو بھی ہو جاتی تھی۔ امریکہ کا گلیمر انہیں کھینچ لایا تھا وہ کسی گیس اسٹیشن ، آٹو سٹور یا کسی ورکشاپ میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے تھے اور ایک ایک کمرے میں چار چار جوان رہتے تھے۔ ان میں کچھ قانونی اور اکثر غیر قانونی طور پر رہتے تھے ۔
وہ اکثرمہنگائی کا رونا روتے اور پوچھتے کہ کیا بنے گا پاکستان کا ؟ میں بھی ان کے ساتھ سوچوں میں گم نفی میں سر ہلا دیتا کہ اللہ بہتر کرے گا ۔اے حمید صاحب سے جب بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ،میں مختلف سوالات کی بوچھاڑ کرتا اور وہ تیز بارش کی طرح ان کے جوابات دیتے اور ساتھ ساتھ چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے اور آپا ریحانہ سے کہتے آج سردی زیادہ ہے ۔’’شاہد نوں اک کپ ہور لیا دے‘‘ ۔آپا لے آتیں اور میں ان کی خوبصورت باتیں ذہن نشین کرتا چلا جاتا ۔
اے حمید کہنے لگے یہ میں 1950-52 ء کی بات کر رہا ہوں مجھے کنئیرڈ کالج لاہور کی وہ شام یاد ہے جس شام کو کانووکیشن کی تقریب تھی اور ریحانہ کو بی اے کی ڈگری ملنے والی تھی ۔ہر طالبہ کو اجازت تھی کہ وہ کانووکیشن میں شرکت کیلئے اپنے کسی ایک رشتہ دار کو بلا سکتی ہے ۔ریحانہ نے بڑی دلیری سے میرا نام دیا تھا حالانکہ ہماری شادی نہیں ہوئی تھی۔ میرے خیال میں اللہ پاک نے اس لئے میری عزت رکھی کہ میں نے محبت کے معاملے میں ہمیشہ دوسروں کی عزت کا خیال رکھا ۔بی اے کرنے کے بعد ریحانہ نے لیڈی میکلیگن کالج میں پی ٹی میں داخلہ لے لیا ۔وہ زمانہ حیاء اور بزرگوں کے ادب کا زمانہ تھا۔ میں نے نہ صرف ریحانہ سے شادی کا ارادہ کر رکھا تھا بلکہ ہماری شادی کی بات چیت بھی جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی وساطت سے چل رہی تھی ۔کیونکہ ہم دونوں مختلف برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ریحانہ کا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے اور میرا کشمیری برادری سے ۔ان کے والدین مان نہیں رہے تھے ۔اس سلسلہ میں قاسمی صاحب نے ہماری پوری پوری مدد کی اور ریحانہ کے والدین کو رضامند کیا ۔چنانچہ جیسے بھی حالات ہوئے میں نے اپنی بیوی کو نوکری نہیں کرنے دی ۔ہماری شادی 1956 ء میں ہوئی۔ میری بیگم ایک دور میں افسانے اور مختلف تحریریں لکھتی رہیں ہیں اور بہت سے ایوارڈ بھی حاصل کئے۔
اے حمید سے جڑی یادیں جو اکٹھی کرنے بیٹھا ہوں تو سوچتا ہوں کیا کمال کے آدمی تھے جنہوں نے خود یادوں کے ذخیرے اکٹھا کر کے ہمیں بے شمار تصانیف دیں ۔ ان کا حافظہ کمال کا تھا، آخری عمر تک اپنی یادداشت پر عبور حاصل رہا ۔ اپریل 2008ء کے آخری ہفتہ کو اپنے بھتیجے کی شادی کا دعوت نامہ دینے گیا۔ اس دوران میں نے انہیں نئی کتاب’’ لاہور لاہور اے ‘‘کی اشاعت پر مبارک باد پیش کی کہنے لگے کتاب تو بہت اچھی چھاپی ہے ،کاغذ بھی اچھا ہے ٹائٹل بھی میری پسند کا ہے مگر ٹائٹل کی دوسری سائیڈ پر عذرا بٹ کے تاثرات بہت مدہم ہیں اس کا مجھے اعتراض ہے ۔یہ کتاب بھی اے حمید کی لاہو رکے بارے میں یادوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے نام پر میری رائے بھی شامل تھی کہ واقعی اس کا نام لاہور لاہور اے ہونا چاہئے تھا ۔ورنہ یوں تو لاہور پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی ۔
میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تو ان سے دلچسپ واقعات سننے کو ملتے ۔ کہنے لگے کہ مجھے بڑھاپے میں بھی لڑکیوں کے فون آتے ہیں ۔اور ان میں سے بہت سوں کے خط اب بھی میرے پاس ہیں۔ان بے خبر دوشیزاؤں کو کیا خبر کہ میری محبوبہ تو میرے اپنے گھر میں موجود ہے ۔اور وہ میری اکلوتی بیوی ریحانہ ہے جس کی تصویر ہمیشہ میرے پاس کتابوں کے قریب پڑی رہتی ہے۔ اس پر میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ آپ ان خطوط پر مشتمل کتاب ترتیب دیں تاکہ یہ قیمتی خط ضائع نہ ہونے پائیں ۔کہنے لگے مشورہ تو ٹھیک ہے اگر ان لڑکیوں کے خط چھپ گئے تو ان کے گھروں میں ایک تہلکہ مچ جائے گا ۔ فرمانے لگے کہ ہاں یوں ہو سکتا ہے خط کا عکس نہ دیا جائے اور نام بھی فرضی رکھے جائیں اور میں نے پھر کہا کہ خدارا ۔۔۔۔ کام مکمل کر کے سب سے پہلے اپنی آپ بیتی کے لکھنے کی طرف توجہ دیں۔جس کی آپ کو کم اور پڑھنے والوں کو زیادہ ضرورت ہے ، فرمانے لگے کہ بس اب یہی میرا ارادہ ہے ۔
پھر ایک دن کیا ہوا۔ اتوار کا دن تھا ۔5 تاریخ تھی اور مارچ کا مہینہ تھا اور سال 2011 ء کی دوپہر کو موبائل کی گھنٹی بجی اوکے کا بٹن دبایا ۔اے حمید کے اکلوتے صاحبزادے مسعود حمید کی آواز تھی ۔شاہد بھائی اسلام و علیکم ! یہ لیجئے امی سے بات کیجئے ۔آپا ریحانہ کی گھبرائی ہوئی آواز تھی کہ رات حمید صاحب کی زیادہ طبیعت خراب ہوگئی تھی ہم یہاں شیخ زید ہسپتال لائے ہیں ۔انہیں بتایا بھی ہے مگر انہوں نے پرائیوٹ روم دینے سے انکار کر دیا ہے اور تیس ہزار روپے جمع کروانے کا کہاہے جو ہم نہیں کر سکے اور ہمیں یہاں ایک جنرل وارڈ میں ڈال دیا ہے جہاں ان کا برا حال ہے ۔تم ہسپتال پہنچنے کی کوشش کرو ۔میں ایک دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر ہسپتال پہنچا او ر پوری بات سُن کر میں نے اسلام آباد جناب فخر زمان کو فون پر ساری صورت حال بتائی۔ انہوں نے کہا میں آج ہی ان کے پرائیوٹ روم اور فری علاج معالجہ کا انتظام کرتا ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے ٹی وی چینلز پر اپنے دوستوں کو ان کی بیماری کی اطلاع دی اور یہ خبر ٹکرز کی صورت میں چلائی ۔میں شام کو پھر آنے کا کہہ کرنکلا ہی تھا کہ راستے میں فون پر فخر زمان نے اطلاع دی کہ شاہد میں نے سارا انتظام کرا دیا ہے ۔ایم ایس سے بات ہوگئی ہے ۔شام تک وہ پرائیوٹ روم میں شفٹ ہو جائیں گے مگر ان کی فیملی اور اے حمید کی بھی مرضی تھی کہ ان سب سہولتوں کے ساتھ یہاں سے جناح ہسپتال ریفر کر دیا جائے ۔وہاں زیادہ آرام دہ کمرے ہیں اور دیکھ بھال بھی اچھی ہے ۔خیر اس طرح وہ شام کو وہاں شفٹ ہو گئے ۔ پھر وہ وہاں تقریباً وہ دو ماہ زیر ِ علا ج رہے ۔
دوران علالت ہسپتال میں ان کی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔29 اپریل2011 جمعہ کوعلی الصبح وہ انتقال کر گئے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-09-28/1840
جنوبی ایشیاء میں اسلامی تصوف کے بانی حضرت سید علی ہجویریؒ ،برِصغیر کی معروف روحانی شخصیت کے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات کاآ ج سے آ غاز
26 September, 2021
تحریر : ڈاکٹر غافر شہزاد
حضرت سید علی ہجویریؒ جب لاہور تشریف لائے تو شہر قدیم سے باہر راوی کے کنارے قیام فرمایا۔ کتابوں میں ذکر ملتاہے کہآ پؒ نے لاہور میں قیام پذیر ہونے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی اور اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔ اس سے قبل لاہور شہر کے گلی کوچوں میں اگر قدیمی مساجد تھیں تو وہ بادشاہوں نے تعمیر کرائی تھیں ۔یہ مسجد اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ لاہور شہر کی سرزمین پر کسی ولی اللہ نے مسجد کی تعمیر ذاتی اخراجات سے کی۔،ڈاکٹر نکلسن نے تحقیق کے بعد سنہ پیدائش کے بارے میں اندازہ لگایا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’ان کی پیدائش دسویں صدی کے آخری عشرے یا گیارہویں صدی کے ابتدائی عشرے میں متعین کی جا سکتی ہے‘‘
عظیم صوفی حضرت سید علی ہجویریؒ کے 978 ویں سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات
آ ج سے لاہور میں شروع ہوں گی۔
جنوبی ایشیاء میں اسلامی تصوف کی روایت کا نقطہ آغاز عظیم صوفی شیخ علی بن عثمان ا لہجویریؒ کو قرار دیا جا سکتا ہے جو زمانے بھر میں اپنی تعلیمات اور تبلیغ دین کے حوالے سے معروف و مقبول ہیں۔ آپؒ نے کشف المحجوب میں مسلمانوں کے بارہ گروہوں کا ذکر کیا ہے جن میں دس مقبول اور دو مردود قرار دیئے ہیں مگر آپؒ نے اپنی طرف سے کسی سلسلے کا آغاز نہیں کیا اور اس معاملے میں نہایت اعتدال کا راستہ اپنایا۔ آپؒ کے نزدیک اسلامی تصوف کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق ـؓسے ہوتا ہے تاہم آپؒ سلسلہ نسبت کے اعتبار سے حسنی و حسینی مشہور ہیں۔ آپؒ کا اصل نام علی تھا، والد گرامی کا نام عثمان جبکہ دادا کا نام علی تھا۔ مولانا سید محمد متین ہاشمی نے ’’سید ہجویر‘‘ میں حکیم سید امین الدین احمد کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ:’’شاہان غزنیہ کے زمانے میں حضرت زید کے خاندان کے ایک بزرگ جن کا نام سید عثمان بن علی جلابی تھا، غزنی تشریف لائے اور وہاں سکونت اختیار کی۔‘‘ (مقالات دینی وعلمی۔ صفحہ 222 )اپنی جائے پیدائش کے حوالے سے حضرت علی ہجویریؒ اپنی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ میری پیدائش کا مقام ہجویر ہے۔ خدا تعالیٰ اسے آفتوں، حادثوں اور ظالم بادشاہوں سے بچائے۔‘‘نفحات الانس میں مولانا جامی نے تحریر کیا ہے کہ آپؒ ؒکی کنیت ابوالحسن تھی اور نام علی بن عثمان بن علی الجلابی غزنوی تھا۔ آپؒ سید حسنی ہیں یعنی حضرت امام حسنؓ کی اولاد سے ہیں۔ نوواسطوں سے آپؒ کا سلسلہ نسبت رسول پاک حضرت محمد ﷺسے جا ملتا ہے۔داراشکوہ ’’سفینتہ الاولیاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ شہر غزنی میں جلاب اور ہجویر دو محلے تھے، حضرت کی والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں اور آپؒ کی پیدائش بھی اسی محلہ کی ہے۔ آپؒکے والد ماجد محلہ جلاب کے سکونتی تھے لیکن بعد میں آپ ؒنے ہجویر ہی میں سکونت اختیار کی، اسی وجہ سے آپؒ ہجویری اور جلابی مشہور ہوئے۔‘‘داراشکوہ نے مزید لکھا ہے کہ آپ ؒکی والدہ کی قبر غزنی میں پیر علی ہجویریؒ کے ماموں تاج الاولیاء کے مزارسے متصل واقع ہے۔ آپؒ کا تمام خاندان زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھا۔
آپؒ سید الطائف جنید بغدادی کے پیرو ہیں۔ آپؒ کے مرشد خواجہ ابوالفضل ختلی غزنوی کا تعلق سلسلہ جنیدیہ سے تھا۔یہ عجیب بات ہے کہ عظیم صوفی حضرت سید عثمان ہجویری کے سال پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی معلوم نہیں۔ محمد دین فوق آپ ؒکی سوانح حیات تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’لاہور میں ان کا قیام 34 سال تک رہا۔ اس کے ساتھ اگر تیس سال ان کی غزنوی زندگی کے شامل کر لیے جائیں (جو ممکن ہے زیادہ ہوں) تو ان کی کل عمر چونسٹھ سال بننی چاہیے، اس حساب سے ان کی پیدائش کا فخر 400 ھ یا 401 ھ کو حاصل ہونا چاہیے‘‘۔مختلف کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے محمد دین فوق لکھتے ہیں: ’’کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ وفات 465 ھ ہے اور آپ ؒ کی لاہور آمد 431 ھ میں ہوئی؟۔‘‘ڈاکٹر نکلسن نے خاصی تحقیق کے بعد سنہ پیدائش کے بارے میں اندازہ لگایا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’ان کی پیدائش دسویں صدی کے آخری عشرے یا گیارہویں صدی کے ابتدائی عشرے میں متعین کی جا سکتی ہے ۔جب محمود غزنوی کی وفات 421 ھ میں ہوئی تو حضرت علی ہجویریؒ عنفوان شباب کے دور میں رہے ہوں گے۔‘‘مولانا سید محمد متین ہاشمی تمام تر تحقیق و مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’آپؒ کا زمانہ ولادت 381 ھ تا 401 ھ کے درمیان میں متعین کیا جا سکتا ہے۔‘‘حضرتؒ کی پیدائش کے وقت لاہور میں سلطان محمود کی حکومت تھی۔ اس وقت غزنی میں علماء و فقہا، شیوخ اور شعراء کا بہت چرچا تھا اور سلطان محمود غزنوی خود بھی اہل علم و تصوف اور گوشہ نشینوں کا انتہائی قدردان تھا۔آپ ؒکی پیدائش کا زمانہ وہ ہے جب امیرسبکتگین کی وفات (387 ھ 999 ء)کو تیرہ برس گزر چکے تھے۔ لاہور شہر اس کے حملوں سے پامال ہوچکا تھا اور ہندوستان کا راستہ سلطان محمود غزنوی کی یلغار کے لیے بالکل کشادہ تھا اور کوئی مزاحمت نہ تھی۔’’ کشف الاسرار‘‘ میں حضرت علی ہجویریؒ خود لکھتے ہیں: ’’جب میں ہندوستان پہنچا تو نواح لاہور کو جنت نظیر پایا تو یہیں بیٹھ گیا اور لڑکوں کو پڑھانا شروع کیا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح سے حکومت کی بُودماغ میں پیدا ہو رہی ہے تو میں نے لوگوں کو درس دینا چھوڑ دیا۔‘‘ محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ: ’’جہاں حوض ہے وہاں حضرت ؒ نے قیام کیا۔ اس جگہ ایک بلند ٹیلا تھا اور اس پر کریر کا ایک درخت بھی تھا۔ اس درخت کی لکڑی اب تک دربار میں موجود ہے۔‘‘ (صفحہ 47 مطبوعہ 1914 ء)جب آپؒ کے پیر روشن ضمیر حضرت شیخ ابوالفضل بن حسن ختلیؒ نے لاہور جانے کا فرمایا تو آپ ؒنے ان کو جواب دیا کہ وہاں میرے پیر بھائی حضرت حسین زنجانیؒ موجود ہیں، میرے جانے کی کیا ضرورت ہے؟مرشد نے فرمایا ’’ان باتوں میں بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں ، جائو اور بلاتوقف جائو۔‘‘چنانچہ جب آپؒ لاہور پہنچے اور بیرون شہر رات کو قیام کرکے صبح کو شہر کی جانب روانہ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنازہ آ رہا ہے اور لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے پیچھے ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ جنازہ حضرت حسین زنجانیؒ کا ہے تو حضرت خود جنازہ میں شامل ہو گئے اور تکفین و تدفین فرمائی۔
جب حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے تو آپ ؒکے ہمراہ آپ کے پیر بھائی اور دوست شیخ احمد سرخسیؒ اور شیخ ابو سعید ہجویریؒ بھی تھے۔لاہور تشریف لانے سے قبل ’’کشف المحجوب‘‘ کے مطابق حضرت علی ہجویریؒ خراسان، ماورالنہر، مرو اور آذربائیجان تک کی سیاحت کر چکے تھے۔ ۔سید علی ہجویری’’کشف المحجوب ‘‘کی تصنیف کا سبب بتاتے ہیں کہ ان کے ایک رفیق ابوسعید ہجویریؒ نے عرض کی کہ :’’مجھ سے طریق تصوف کی حقیقت اور مقامات صوفیہ کی کیفیت اور ان کے مذاہب اور مقالات کا حال بیان فرمایئے اور مجھ پر ان کے رموز و اشارات اور خدائے عزوجل کی محبت کی نوعیت اور دلوں میں اس کے ظاہر ہونے کی کیفیت اور اس کی ماہیت کے ادراک سے قبل کے حجاب اور اس کی حقیقت سے نفس کی نفرت اور اس کی برگزیدگی و پاکیزگی سے روح کی تسکین اور دوسر ے متعلقہ تصور کا اظہار فرمائیے۔‘‘حضرت ؒنے ساری کتاب اسی سوال کے جواب میں تحریر فرمائی اور اس میں تصوف کی اصل تاریخ، مختلف فرقوں اور گروہوں کے عقائد، اکابر صوفیہ کے حالات ، سلوک و طریقت کے مصطلحات ، تصوف کے عملی مسائل ا ور راہ سلوک میں حجابات کی تشریح کی ہے۔’’کشف المحجوب‘‘ کے مطالعہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس کا مصنف علوم ظاہری و باطنی میں یدطولیٰ رکھتا ہے داراشکوہ کے بقول۔ ’’اس کتاب کی شہرت و عظمت میں کسی کو کلام نہیں۔ یہ ایک مرشد کامل کی حیثیت رکھتی ہے اور فارسی میں تصوف کے موضوع پر اس پائے کی کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔‘‘ (سفینتہ الاولیاء) ۔ تحقیقا ت چشتی میں درج ہے: ’’رائے راجو حاکم پنجاب کا نائب تھا، وہ حضرت کا مرید ہو کر مسلمان ہو گیا‘‘ چونکہ یہ پہلا ہندو بلکہ پہلا ہندوستانی تھا جو حضرت سید علی ہجویریؒکے ہاتھ پر مسلمان ہوا، اس لیے حضرت نے اپنی دلی خواہش کے بطور یادگار اس کا نام شیخ ہندی رکھا۔
موجودہ مجاور اور خدام جن کا تعلق محکمہ اوقاف سے قبل آپؒ کے روضہ مبارک کی آمدنی سے تھا، اسی شیخ ہندیؒ کی اولاد سے ہے۔حضرت علی ہجویریؒ نے لاہورمیں تشریف لا کر سب سے پہلے اپنی گرہ سے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ شہزادہ داراشکوہ’’ سفینتہ الاولیاء ‘‘میں لکھتا ہے: ’’جب حضرت نے یہ مسجد بنائی تو اور مسجدوں کی نسبت اس کے قبلہ کا رخ ذرا سا جنوبی سمت میں تھا، علماء لاہور نے اس پر اعتراض کیا۔ حضرت اعتراض سن کر خاموش ہو رہے۔ جب تعمیر مسجد سے فراغت پائی تو آپ ؒنے کل علماء و فضلاء کو بلایا اور خود امام بن کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے، ا ب دیکھو قبلہ کس طرف ہے؟ جب انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو یکبارگی قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا۔ حضرت نے فرمایا بتائو قبلہ کدھر ہے؟ قبلہ کو سیدھے رخ دیکھ کر سب معترضین نادم ہوئے اور آپ ؒسے معذرت چاہی۔یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپ ؒسے ظاہر ہوئی اور جس نے سارے شہر میں آپ ؒکو مشہور کر دیا اور رفتہ رفتہ تمام ہندوستان میں حضرت ’’قطب الاقطاب‘‘ مشہور ہو گئے۔
‘‘داراشکوہ، ’’سفینتہ الاولیاء‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’آپ ؒ کی وفات 456 ھ یا 454 ھ کو ہوئی ،قبر مبارک لاہور کے مغربی قلعہ میں واقع ہے۔‘‘مزار حضرت علی ہجویریؒکی تعمیر کے بارے میں’’ تحقیقات چشتی ‘‘کا مصنف لکھتا ہے کہ آپ ؒکا مزار سلطان محمود غزنوی کے برادر زادہ ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے تعمیر کرایا۔ چبوترہ اور نواح مزار اسی کا تعمیر کردہ ہے اور اب 1278 ھ میں مسمی نور محمد سادھو نے ایک گنبد بالائے پنجرہ چوبی تعمیر کرایا ہے اور پنجرہ سے لے کر تا عمارت گنبد ڈاکٹر محمد حسین متعینہ میڈیکل کالج نے آئینے چاروں طرف لگوائے ہیں۔آپ ؒکے احاطہ مزار کے اندر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا حجرہ اعتکاف اور شیخ ہندیؒ کی قبر نمایاں ہے ۔
کشف الاسرار میں خود حضرت علی ہجویریؒ تحریر کرتے ہیں :’’اے علی! تجھے خلقت گنج بخش کہتی ہے (عجیب لطف ہے کہ) تو ایک دانہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا۔ اس بات کا کہ (مخلوق تجھے گنج بخش کہتی ہے) کبھی خیال تک بھی نہ لا ورنہ محض دعویٰ اور غرور ہوگا۔ گنج بخش یعنی خزانے بخشنے پر قادر تو صرف اسی کی ایک ذات ہے۔ اس کے ساتھ شرک نہ کر ورنہ زندگی تباہ ہو جائے گی بے شک وہی اکیلا خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘درج بالا اقتباس سے نتیجہ نکلتا ہے حضرت اللہ کی وحدانیت کا کس طرح پرچار کرتے تھے۔
روایت ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنے حضرت کی پائنتی کی طرف دست بستہ کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
حضرت عثمان علی ہجویریؒ جب لاہور تشریف لائے تو شہر قدیم سے باہر راوی کے کنارے قیام فرمایا۔ پرانی کتابوں میں ذکر ملتاہے کہآ پؒ نے لاہور میں قیام پذیر ہونے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی اور اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی گرہ سے ادا کیے۔ اس سے قبل لاہور شہر کے گلی کوچوں میں اگر کوئی قدیمی مساجد تھیں تو وہ بادشاہوں نے تعمیر کرائی تھیں مگر یہ مسجد اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ لاہور شہر کی سرزمین پر کسی ولی اللہ نے مسجد کی تعمیر ذاتی اخراجات سے کی۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-09-26/1837
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم , رئیس امروہی , ملکی اور غیر ملکی سطح پر قطعہ نگاری نے انہیں شہرت دوام بخشی
28 September, 2021
تحریر : سعید واثق
رئیس امروہی اردو کے ان بڑے شاعروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہی۔جو لکھا کھل کے لکھا اور بات کی تو بلا جھجک۔ جان دے دی لیکن اپنا سر نہیں جھکنے دیا۔اگرچہ انہیں دنیا سے گزرے 33 برس ہو گئے تاہم قارئین ان کے قطعات کو آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ملکی اور غیر ملکی سطح پر قطعہ نگاری ہی ان کی وجہ شہرت بنی وہ نثر نگاری میں بھی یکساں عبور رکھتے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے قطعہ نگاری میں جو مقام انہیں حاصل ہوا وہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں ہوا۔
رئیس امروہی 12 ستمبر 1914ء کو ہندوستان کے شہر امروہہ میں ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد علامہ سید شفیق بھی شاعر اور عالم تھے۔رئیس امروہی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا، انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی ہجرت کی اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
رئیس امروہی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبعیات کے موضوعات پر ان کی ایک درجن سے زیادہ تصانیف ہیں۔
وہ معروف شاعر جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے جبکہ معروف بھارتی فلمی ہدایت کار، منظر نویس اور شاعر کمال امروہی بھی ان کے بھائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کنبے کو شاعروں کا کنبہ کہا جاتا ہے۔
رئیس امروہی نے اردو زبان کے فروغ کیلئے دن رات کام کیا اور اردو کی حمایت میں بھی آواز بلند کرتے رہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1972 میں جب سندھ اسمبلی نے سندھی زبان کا بل منظور کیا تو اس بل نے تنازعات کو جنم دیا، اس موقع پر امروہی نے اپنی مشہور نظم اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے لکھی۔ رئیس امروہی کی لکھی یہ نظم آج بھی ان کی یاد دلاتی ہے۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ تو ہوا اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
علم وادب سے محبت کرنیوالے اردو کے اس عظیم شاعر کو 22 ستمبر 1988 کو نامعلوم افراد نے قتل کر کے ابدی نیند سلا دیا تھا۔
ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
دیکھنا ہے کہ کہاں گرتے ہیں
ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں
غزل
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
ہر چند ناز حسن پہ غالب نہ آ سکے
کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم
صبح ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم
لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی
آرائش کتاب بشر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
دو قطعات
جو اپنے قول کو قانون سمجھیں
وہ قائل ہو نہیں سکتے ابد تک
بہت سے لوگ یاران وطن ہیں
محقق ہیں مگر حقے کی حد تک
میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی
تفریق ہی محال ہے بود و نبود کی
پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی
لیکن شکایتیں ہیں یہود و ہنود کی
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-09-28/1839
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/09/27092021/p1-lhr014.jpg
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2021/09/27092021/p2-isb-004.jpg
https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/09/27092021/P6-Lhr-027.jpg
بصارت سے محروم پاکستانی سفارتکار صائمہ سلیم کے اقوام متحدہ میں چرچے
26 September, 2021
بصارت سے محروم پاکستانی سفارتکار صائمہ سلیم کے اقوام متحدہ میں چرچے
نیو یارک (مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز)اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی پہلی نابینا سفارت کار صائمہ سلیم نے مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا نکتہ نظر پیش کیا ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی طرف سے جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے جس ٹھوس انداز میں انہوں نے کشمیر کا کیس عالمی فورم پر پیش کیا، اسے میڈیا پر بے حد پسند کیا گیا ہے ،جنرل اسمبلی میں صائمہ سلیم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے ، دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے ۔تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے ۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی صائمہ سلیم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ زبردست طریقے سے اٹھانے پر خراج تحسین پیش کیا۔فواد چودھری کا کہنا تھا کہ صائمہ بصارت سے محروم ہیں لیکن جس انداز سے انہوں نے بات کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-09-26/1886907
اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی صائمہ سلیم کون ہیں؟ ان کے بارے جان کر آپ کو بھی خوشی ہوگی
Sep 25, 2021 | 23:25:PM
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)صائمہ سلیم نے آج (ہفتے کو) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔
صائمہ سلیم پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون سفارت کار ہیں جو کہ نابینا ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل میڈیا اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ کے مطابق صائمہ سلیم کے بھائی یوسف سلیم پاکستان کے پہلے نابینا جج تھے جبکہ ان کی ایک بہن یونیورسٹی آف لاہور میں لیکچرار ہیں۔ صائمہ سلیم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران کشمیر کے حوالے بھارتی الزامات کا دبنگ جواب دیا تھا ۔صائمہ سلیم کے اس انداز کو پاکستان میں خوب سراہا جارہا ہے ۔
https://dailypakistan.com.pk/25-Sep-2021/1345296?fbclid=IwAR1g8aZOMbQTXOMdt231cbDoNYFitwewVr466eqdV1MoFT3faqemf4pUj0s
جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پی آئی اے عملے نے دیانتداری کی مثال قائم کردی
Sep 26, 2021 | 16:00:PM
کراچی (ڈیلی پاکستان آ ن لائن ) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے ) کے عملے کی جانب سے دیانتداری کی اعلیٰ مثال قائم کردی گئی،پی آئی اے عملے نے نو ہزار 200امریکی ڈالر کی رقم جناح ایئرپورٹ پربھول جانے والے مسافر کو واپس کردی۔
نجی ٹی وی ہم نیوز کے مطابق مسافر پی آئی اے کی پرواز PK369 کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی ایئرپورٹ پہنچا تھا جہاں جلد بازی میں اپنا قیمتی سامان سے بھرا بیگ جہاز میں ہی بھول گیاتاہم یاد آنے پر مسافر نے فوری پی آئی اے حکام کو بیگ بھول جانے سے متعلق آگاہ کیا جس کے بعد عملے نے فوری تلاش شروع کی اور مسافر کا بیگ اور قیمتی سامان لوٹا دیا۔
مسافر کی جانب سے 9ہزار سے زائد امریکی کرنسی ، پاسپورٹ اور دستاویزات واپس ملنے پر خوشی کا اظہارکیا گیا جبکہ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے عملے اور انتظامیہ نے زبردست سروس دی۔
https://dailypakistan.com.pk/26-Sep-2021/1345629?fbclid=IwAR3mEIkdK-eu9RF5nn2iBER4XnhMX1TLiEt3Xm_bo9J4NfzuKzq7uVFCa1A
برصغیر کے خطۂ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کی کرنیں سب سے پہلے اسی عظیم سرزمین پر پڑیں اسی سرزمین پر کتنی عظیم شخصیات نے پیدا ہو کر یا قیام فرما کر قیامت تک اس کا نام سربلند کردیا ان شخصیات میں حضرت سخی لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، مخدوم محمدمعین الدین ٹھٹھوی، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، عبداللہ شاہ غازی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے علماء و اولیاء اللہ شامل ہیں۔ ان کی روح پرور شخصیات نے عوام و خواص کے دل موہ لیے اور ان میں زندگی اور معرفت حیات و کائنات کی امنگیں پیدا کیں۔ ان کے گل ہائے فکرو نظر کی مہک نے ہر انسان کے دل و دماغ کو معطر کیا۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی1101ھ 1689ء میں مٹیاری کے قریب ہالہ حویلی میں پیدا ہوئے ایک اور مقام پر آپ کا سن پیدائش1652ء لکھا ہوا ہے۔ والد کا نام سید حبیب تھا۔ دادا کا نام سید عبدالقدوس جب کہ پڑدادا کا نام سید جمال بن سید کریم شاہ تھا آپ کا سلسلہ نسب ہرات کے خاندان سے تھا۔ گویا آپ کے آباؤ اجداد افغانستان سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوگئے تھے۔
آپ فاطمی سید تھے۔ انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ سے جاملتا ہے۔ آپ نہایت وجیہہ اور شکیل تھے۔ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ آپ کا سر بڑا، سینہ کشادہ، داڑھی چوکور اور بھری ہوئی تھی۔ جسم مضبوط اور قوت وہمت سے مالا مال تھا۔
یہ والدین کی تربیت ہی کا اعجاز تھا کہ آپ میں راستگی، نیکی اور جذبۂ ترحم وافر مقدار میں موجود تھا۔ گفتار میں شیرینی اور نرمی اور ذاتی معاملات میں عجزو انکساری آپ کی فطرت میں حلول کر گئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے وقت برصغیر میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی جب کہ سندھ میں کلہوڑا خاندان حکومت کررہا تھا۔ جب آپ 18سال کے ہوئے تو مغل بادشاہ دنیا سے کوچ کرچکا تھا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے گاؤں ہی میں حاصل کی جنہوں نے آپ کو مکمل درس اخلاق سے بھی نوازا۔ آپ کا مشاہدہ بڑا وسیع تھا جس نے آپ کی زندگی کو عمل کے سانچے میں ڈھالا اور آپ کے افکار میں وسعت پیدا کردی۔
آپ نے بہت سی علمی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ نے کئی اساتذہ کرام سے درس حاصل کیا۔ آپ کے پہلے استاد نور محمد آخوند تھے۔ آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، رجال، کلام اور شعرو ادب کا علم حاصل کرکے وہ نام اور مقام پیدا کیا کہ جو لاکھوں میں کسی ایک کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
ان علوم کے ذریعے آپ نے سندھ کے باسیوں کی بڑی خدمت کی اور اسلام پھیلانے کا بھی ایک ذریعہ بنے۔ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت کے ہندوستان اور آج کے پاک و ہند میں اسلام پھیلانے والے سلطان وشہنشاہ نہیں بلکہ یہی بزرگان دین اور صوفیائے کرام تھے جنہوں نے تلوار کے بجائے اپنی شیریں بیانی اور حسن اخلاق سے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا اور اسلام کی آبیاری کی۔ آنحضرت صلعم کا عشق ان حضرات کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے کلام معرفت کے دریا بہائے ایسے لوگوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔
بچپن میں ماں کی محبت اور شفقت نے آپ کی کردارسازی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا جو انی کا زمانہ والد کے ساتھ کوٹری میں گزارا۔ جوانی کا یہ عالم بڑی بے نیازی سے گزرا۔ آپ کو شروع ہی سے ایسا ماحول ملا جس نے آپ کی فکر اور شخصیت کو جلا بخشی۔ آپ کے والد متمول ہونے کے باوجود منکسر المزاج تھے اور یہی نقش آپ کی زندگی پر بھی نمایاں طور پر پڑا۔
آپ کی زندگی تصوف اور شریعت کا حسین امتزاج تھی۔ آپ سچے عاشق رسول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی عبادت وریاضت میں حضور اکرم ؐ کی زندگی کو اپنی زندگی کے لیے تقلید بنایا۔ اپنی خلوت، عبادت اور سکونت کے لیے جنگل میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایک ٹیلے کی شکل میں تھی سندھی زبان میں اس مٹی کے ٹیلے کو بھٹ کہتے ہیں اور بھٹ پر رہنے والا بھٹائی کہلاتا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ بھٹائی لگنے کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے اگر آپ کا نام لیے بغیر شاہ بھٹائی کہہ دیا جائے تو بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔
اس ٹیلے پر آپ نے گھاس پھونس کا جھونپڑا بنا کر اپنی رہائش کا بندوبست کیا۔ یہ ٹیلا پہلے ہی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ ٹیلے کے نشیبی علاقے کو کراڑ کہا جاتا ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہوکر جھیل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں پہلے پہل آپ کے ساتھ کچھ اور درویش اور فقیر لوگ بھی رہنے لگے تھے اور ان سب کی مشترکہ کاوشوں سے اس ٹیلے پر ایک خانقاہ تعمیر کی گئی اور ساتھ ہی ایک مسجد بھی بعد میں شاہ صاحب اکثر اوقات خلوت میں رہتے اور زیادہ تر وقت خدا کی عبادت میں گزارتے۔ اب یہی بھٹ ایک خوب صورت گاؤں بلکہ ایک قصبہ ’’بھٹ شاہ‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہوگیا ہے۔
آپ کی شادی کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ 1713ء میں کوٹری کے رئیس مرزا مغل بیگ کے محل پر ڈاکا پڑا ڈاکوؤں نے مال وزر لوٹنے کے ساتھ مرزا مغل کو بھی قتل کردیا۔ سارا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی بیٹی بہت غم زدہ اور مصیبت میں آگئی تھی۔ جب شاہ بھٹائی کو مرزا مغل کے گھرانے کی بربادی اور بدحالی کا علم ہوا تو آپ اس کی بیٹی کے پاس اس کی دل جوئی کی خاطر تشریف لے گئے۔ اس سے اظہار ہم دردی کے بعد اسے شادی کی پیشکش کردی جو اس نے منظور کرلی۔ اس طرح آپ نے ایک ستم رسیدہ لڑکی سے شادی کرکے ایک خوش گوار فرض ادا کیا۔
آپ خلق خدا پر خلیق و شفیق تھے۔ آپ نے زندگی بھر کسی کو کوئی تکلیف یا گزند نہیں پہنچائی متمول ہونے کے باوجود شاہانہ زندگی سے گریز اور سادگی کو اپنایا۔
تبلیغ کے سلسلوں میں آپ روزانہ کئی کئی میل پیدل سفر کرتے اور راستے میں جتنے گاؤں آتے وہاں لوگوں کو دین کی دعوت دیتے۔ آپ نے پورا سندھ پیدل گھوما اور قرآنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ شاہ صاحب کو مولانا جلال الدین رومی سے بڑی عقیدت تھی۔ آپ مولانا کا کلام ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔
آپ فرماتے ہیں کہ مولانا کو اظہار اور بیان پر قدرت کا ملہ حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ مولانا کے کلام نے آپ کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام میں اور بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو اور رحمان بابا کے کلام میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ حضرت سلطان باہو، رحمان بابا اور حضرت شاہ صاحب ہم عصر بزرگ تھے۔ آپ تینوں کے کلام کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ہے ذات الٰہی سے بے پناہ عشق۔ آپ کے کلام میں توحید و رسالت کی تعلیم اور رموز پائے جاتے ہیں۔
شاہ بھٹائی سندھی کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے لوگوں کو صوفیانہ تعلیم دی ہے۔ سندھی ادب میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ نے اکثر لوک کہانیوں کو عارفانہ رنگ میں پیش کیا ہے۔ آپ کی شاعری کو معتقدین نے جمع کرکے ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں شائع کروادیا ہے۔ اس کے اردو ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور دست یاب ہیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا وہ سندھ کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ہے۔
شاہ صاحب 14صفر 1165ھ یعنی 1752ء میں اسی بھٹ پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وہیں تدفین ہوئی۔ کلہوڑا خاندان کے چوتھے فرماںروا غلام شاہ نے1754ء میں آپ کا مزارتعمیر کروایا، جہاں راجا جیسلمیر نے نوبت لگوائی۔ آپ کی وفات پر آپ کے کئی مرید صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے۔
https://www.express.pk/story/2228553/1/
No comments:
Post a Comment