تاریخ سے معلومات ::: پیسا مینار ::: پاکستان تہذیب اور ثقافت ::: پچی کاری، سب سے بڑا فرش ::: بھارت، پاکستان ایٹم بم کا تجربہ ::: دولے شاہ کے چوہے ::: ریاست سوات - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Tuesday 1 March 2022

تاریخ سے معلومات ::: پیسا مینار ::: پاکستان تہذیب اور ثقافت ::: پچی کاری، سب سے بڑا فرش ::: بھارت، پاکستان ایٹم بم کا تجربہ ::: دولے شاہ کے چوہے ::: ریاست سوات


پیسا مینار ، عزم و ہمت اور جذبوں نے اسے سیدھا ہونے پر مجبور کر دیا
 28 September, 2021


تحریر : مزمل حسین عابر

پیسا کا صحیح تلفظ اطالوی زبان میں ''پیزا‘‘ ہے۔یہ وسطی اٹلی کاشہر ہے جو دریائے آرنو کے قریب واقع ہے ۔گیارہویں صدی کے آخر تک پیسا ایک طاقتور جمہوریہ بن چکا تھا ۔تیرہویں صدی عیسوی میں یہاں مجسمہ سازی کا ایک دبستان تھا جس کا بانی نیکولا پیزانو تھا۔گیلیلیو گلیلی بھی اسی جگہ پیدا ہوا۔
پیسا مینار دنیا بھر میں پیسا کا ٹیڑھا یا خمیدہ مینار کہلاتا ہے ۔ اس ٹیڑھے مینار نے پیسا شہر کو بڑی شہرت بخشی۔190 فٹ بلند یہ مینار جو عجائبات عالم میں شامل ہے اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ عمود سے 14فٹ ہٹا ہوا ہے۔برطانیہ کی شاہی یادگاروں کی سوسائٹی کے ارکان ہر سال اس کے جھکائوکی پیمائش کرتے ہیں ۔ہر سال یہ مینار ایک انچ ضرور جھکتا ہے۔اس مینار کی تعمیر کا مقصد کلیسا کے لئے گھنٹی گھر تھا تا کہ آواز سن کر لوگ عبادت کے لئے پہنچیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز تو 1174ء میں ہوا تھا مگر تکمیل 1350ء میں ہوئی۔اس کی جنوبی بنیاد ریت میں رکھی گئی اور ابھی بمشکل تین گیلریاں بنی تھیں کہ یہ مینار جھکنا شروع ہو گیا۔پھر اس کی تعمیر کے منصوبے میں کچھ ردوبدل کیا گیا۔اسی چوک میں کلیسا بھی ہے ۔یہ دونوں عمارتیں رومن فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ قریب ہی قدیم قبرستان موجود تھا۔اس قبرستان کے تقدس میں اضافے کے لئے یروشلم سے 35جہازوں میں مٹی منگوائی گئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہرہ آفاق یادگار ''نیم دراز ‘‘ ہو گئی تھی ۔پوری دنیا کے لوگ
 اس مینار کے گرنے کے منتظر تھے ۔ہزاروں سیاح اسے دیکھنے آتے تھے ۔تقریباً دس سال تک اس مینار پر انسانی قدم نہیں پڑے تھے۔یہ صورتحال اٹلی کی حکومت کے لئے تکلیف دہ تھی ۔بالآخر انہوں نے اس مینار کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ چاہتے تھے کہ یہ یادگار کم از کم 16انچ سیدھی ہو جائے تاکہ اس کی وجہ شہرت یعنی اس کا مشہور ٹیڑھاپن بھی برقرار رہے اور اس کے زمین بوس ہو نے کا خطرہ بھی نہ رہے۔اس مینار کو سیدھا کرنے کا کام پولینڈ کے ماہر تعمیرات اور انجینئر مائیکل سیموئیل کوسکی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم کو سونپا گیا۔ ماہرین کی اس ٹیم نے مینار کے جھکائوکے مخالف سمت میں کھدائی کی۔ٹیم نے 18ماہ تک جانفشاتی سے کام کیا اور بالآخر کوششیں رنگ لائیں اور یہ مینار12سینٹی میٹرتک سیدھا ہو گیا۔حیرت انگیز بات یہ کہ گزشتہ800 سال سے اس شاندار مینار کو سیدھا کرنے کی کوشش ناکام ہو رہی تھی مگر جذبوں کے آگے اس مینار نے اپنی ضد چھوڑ دی اور سیدھا ہونے پر آمادہ ہو گیا۔مینار کو سیدھا کرنے میں اور اس کا جھکاو کم کرنے میں تقریبا26ملین ڈالر کی لاگت آئی ۔ مینار کو سیدھا کرنے کی کوششیں جزوی طور پر بار آور ثابت ہوئیں تو حکومت نے اعلان کیا کہ یہ مینارپہلے مرحلے پر بچوں کے لئے کھول دیا جائے،دنیا بھر کے لوگوں کو شدت سے انتظار تھا کہ یہ کھولا جائے۔ان کا یہ انتظار رنگ لایااور17 جون2000ء کو روم یونیورسٹی کے200 طلباء نے مینار کی 293 سیڑھیاں چڑھ کر اس کی مضبوطی اور استحکام کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔پیسا کا علاقہ سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے ۔جن دنوں پیسا رومن کالونی تھا اُن دنوں کے کھنڈرات باقی ہیں ۔ان کھنڈرات کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس شہر کی تاریخی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب گیارہویں صدی عیسوی میں اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔1284ء میں میلور کے پرے بحری لڑائی میں شکست کے بعد اس کی اہمیت کم ہو گئی۔1406ء میں فلورنس نے اسے فتح کر لیا ۔1859ء میں پیسا اٹلی کا حصہ بن گیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-28/25247



بلاشبہ تمام تہذیبیں مختلف مدارج کے ساتھ اپنے عروج و زوال کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرتے ہوئے ختم ہوتی چلی جاتی ہیں مگر ان کے آثار اور باقیات اُس تہذیب کی چاشنی سے ہمیں روشناس کرواتی ہیں۔

ہم اس تہذیب سے لے کر اپنے وقت کے تہذیب و تمدن کا جائزہ انہیں آثار اور باقیات سے کرتے ہیں۔ دنیا میں زمانہ قدیم سے مختلف اوقات میں مختلف تہذیبیں پرورش پاتی رہیں اور پھر گردش دوراں کا شکار ہو کر زوال پذیر ہوتے ہوئے دنیا کے منظرنامہ سے غائب ہوتی چلی گئیں۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک اور کسی صورت بھی بابل‘ عراق‘ فرات یا مصروروم کی تہذیبوں سے کم نہیں تھی مگر گردش دوراں کے اوراق پلٹ جانے سے تہذیب کہیں گم ہو گئی۔

پاکستان تہذیب اور ثقافت کے لحاظ سے خوبصورت رنگوں سے مزین ایک بھرپور ملک ہے، جہاں مختلف ثقافتوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے مگر حیف صد افسوس کہ عرصہ دراز گزارنے کے باوجود بھی پاکستان کے اس خوبصورت چہرے کی عکاسی کے لیے کوئی واضح اور مدلل کوشش نہیں کی گئی۔ پچھلے ادوار کی نسبت موجودہ حکومت نے تہذیب و ثقافت کی تصویر کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور سیاحتی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ثقافتی زاویوں سے بھی پاکستان کی مثبت تصویر سیاحوں اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔

حکومت کی دلچسپی اس بات کی مکمل عکاس ہے کہ حکومتی ارباب اس ضمن میں پوری طرح آگاہ ہیں کہ سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف ہم پاکستان کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاحتی صنعت کی ترویج سے ملکی معیشت اور روزگار کو بھی پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

پاکستان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہے اور وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر یونانیوں کی آمدکے اثرات تک اور بعدازاں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مسلم فنِ تعمیر سے لے کر ثقافتی اثرات تک بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ مزید برآں سکھ اور برٹش ثقافتی ورثہ بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں اور ہماری شاندار تاریخ اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ آثارِ قدیمہ کو بھی تلاش کرنے کے لیے خاطر خواہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور حکومت پنجاب کے ویژن کے مطابق اس ضمن میں مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، جو آثارِ قدیمہ اور تاریخی ورثہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اسی حوالے سے حکومتِ پنجاب نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی ٹیم ڈاکٹر محمد حمید کی زیرنگرانی شامل ہے اور نمایاں کام کر رہی ہے۔

وادیِ سون کی تہذیب اپنے نمایاںخدوخال اور ثقافت کی وجہ سے نمایاں ہے اور حکومتی سربراہی میں یہ کام مذکورہ تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے حوالے سے اہم مقامات کا تعین کریں اور اس کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کے تاریخی مقام کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں شعبہ آرکیالوجی نہ صرف نندنہ فورٹ تک پہنچا بلکہ تُلاجہ فورٹ جیسی تاریخی اور ثقافتی جگہ کا بھی دورہ کیا۔

سالٹ رینج بنیادی طور پر کم اوسط کی اونچائی والے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو کہ دریائے سندھ کی وادی اور دریائے جہلم کے درمیان واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ البیرونی نے اسی علاقے میں نندنہ کے قریب زمین کی پیمائش کا تجزیہ کیا تھا اوراسی علاقے میں موجود کئی قدیم معبد مختلف اقوام کے لیے مذہبی اہمیت کی حامل ہیں، جن میں بدھ مت کے سٹوپا اور ہندوؤں کے لیے کٹاس راج مندر اور بھی بہت سے اہم جگہیں شامل ہیں۔

وادی سون میں موجود بے شمار تاریخی اہمیت کے حامل مقامات میں سے تُلاجہ فورٹ یا قلعہ تُلاجہ ہے، جس کو حالات کے تھپیڑوں نے معدوم یا بالکل ختم کر دیا ہے، لیکن موجودہ حکومت کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں اور اس کی بحالی پر کام جاری ہے۔ تُلاجہ قلعہ یا شہر تک جس کو مقامی آبادی شہرِ گُمشدہ بھی کہتی ہے‘ تک ایک غیرہموار اور نا پختہ راستوں سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل مسافت سے پہنچا جا سکتا ہے۔ سبزے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت ندی بھی اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے، جہاں سے لوگ اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

تُلاجہ قلعہ رکھ خور سے مشرق اور دربار بابا کچھی والا سے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مقامی روایات قلعہ کو 5000 سال سے بھی زیادہ پُرانا بتاتی ہیں جبکہ مقامی آبادی کے مطابق اس کو منگولوں کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعہ کی تعمیر تکونی پتھروں کے ساتھ کی گئی اور مقامی روایات کے مطابق اس کا دروازہ ایک غار میں کھلتا تھا جس کو ایک بھاری پتھر کے ساتھ بند کر دیا جاتا تھا۔

جا بجا سکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہونے کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جلا ل الدین خوارزم شاہ منگولوں سے شکست کھانے کے بعد اس علاقے میں آ بسا اور اس کے بعد اس کے جنرل سیف الدین قرلاغ نے اس علاقے پر حکومت کی۔ اس علاقے کے لوگ دراز قد اور مضبوط جسم کے حامل ہیں جو کہ دنیا کے بہترین فوجیوں کا علاقہ ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ 1221ء میں منگولوں سے ہارنے کے بعد اس علاقے میں پہنچا اور مقامی کھوکھر سردار رائے سنگین کا دوست بنا اور یہاں اس قلعہ میں قیام پذیر ہوا۔ بعدازاں جلال الدین خوارزم نے یہ علاقہ بھی چھو ڑ دیا اور ایران کی طرف چلا گیا۔

اِن تمام تر سینہ بہ سینہ روایات اور تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھانے کے لیے اس علاقے کی تفصیلی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے شعبہ آثار قدیمہ جامعہ پنجاب نے تُلاجہ فورٹ پر تحقیقی کام شروع کیا۔ جس میں جامعہ پنجاب کے پروفیشنل ماہرین پر مشتمل ماہرین آثار قدیمہ‘ تاریخ دان‘ فوٹوگرافر‘ ڈرافٹسمین اور ماہرڈرون نے مسلسل کئی دِن تک اس قلعے کے مختلف حصوں کا سروے کیا اور روزانہ مشکل چڑھائی چڑھتے ہوئے اس جگہ کی خصوصیات کو ریکارڈ کیا ۔

تُلاجہ قلعہ کی تفصیلی پیمائش کی گئی۔ نمایاں آثار میں ایک مساوی پیمائش کی مسجد ہے، جس سے منسلک ایک مرکزی گلی اور قریبی چھوٹے اور بڑے گھر اور سب سے اہم ایک 30×30 میٹر کا تالاب دریافت کیا گیا۔ اس سارے عمل میں عمارتوں میں استعمال ہونے والے پتھروں کے سائز‘ اینٹوں کا استعمال اور آبادی کے مختلف حصوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ بعدازں اس سارے کام کی تفصیلی رپورٹ محکمہ سیاحت اور آرکیالوجی کے عہدیداران کو پیش کی گئی، جسے خوب سراہا گیا۔

تاریخی اعتبار سے تُلاجہ قلعہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جس کے چاروں اطراف میں گہری کھائیاں ہیں جس کی وجہ سے اس قلعے کو قدرتی طور پر ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 22ایکڑ ہے اور اس جگہ پر رہنے والی آبادی تقریبًا200 سے زائد گھروں پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ مکمل طور پر طرزِ زندگی کے تمام آداب سے واقف تھے ۔ قوی امکان ہے کہ بنیادی ضروریات کے ناپید ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی نے نقل مکانی اختیار کی اور یوں یہ قلعہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنی تمام تر رعنائیوں سے محروم ہو گیا اور موجودہ آثار کی شکل میں موجود ہے ۔

اس قلعے سے متعلق کئی اہم رازوں اور سوالات سے پردہ اُٹھانا ابھی باقی ہے۔ مثال کے طور پر یہ قلعہ سب سے پہلے کب بنا ‘ کن لوگوں نے بنایا ‘ کون اس کے پہلے باسی تھے‘ کس مذہب کے پیروکار تھے‘ یہ قلعہ کتنے سو سال تک آباد رہا اور کن کن خاندانوں کے زیراثر رہا ‘ کتنی دفعہ اُجڑا اور آبادی ہوا اور آخری نقل مکانی کب ہوئی؟ اب حکومتِ پنجاب کی کوششوں سے اس کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں کیے جانے والے کام کی حکومت پنجاب بھی معترف ہے۔
https://www.express.pk/story/2241179/1/



پچی کاری سے تیار دنیا کا سب سے بڑا فرش فلسطین میں موجود
 31 October, 2021


فلسطین میں دنیا کا ایک عجیب و غریب فرش تیار کیا گیا ہے

غزہ (نیٹ نیوز)جسے عوامی نمائش کیلئے بھی کھول دیا گیا ہے ۔مغربی کنارے پر واقع تاریخی شہر یریحو میں یہ فرش فلسطین کی حکومت نے تیار کیا ہے ، یہ پچی کاری یا موزیک سے تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا فرش ہے ۔یہ قابل دید فرش آٹھویں صدی کی سلطنت بنو امیہ کے دور سے وابستہ ہشام محل کا ہے ، جس کی پیمائش 836 مربع میٹر ہے اور اس کی مرمت میں کئی سال لگے ۔ فرش پر متعدد ڈیزائن بنائے گئے ہیں، جس میں سے ایک میں شیر کو ہرن کا شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو جنگ کی علامت ہے ۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-10-31/1902819



یہ 18مئی 1974ء کی بات ہے جب بھارت نے اپنے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ اس تجربے نے پاکستان میں ہلچل مچا دی۔

بھارت پاکستان سے دو جنگیں لڑ چکا تھا۔ ایک جنگ تو تین سال قبل لڑی گئی تھی۔ بھارتی حکمران برہمن طبقہ پاکستان کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصہ بنانا چاہتا ہے‘ اس لیے مسلم وطن کا روز اول سے دشمن ہے۔ یہ طبقہ پاکستان کو کمزور کرنے کے واسطے مسلسل خفیہ و عیاں سازشوں میں محو رہتا ہے۔

پاکستانی حکمران طبقہ واقف تھا کہ بھارت ایٹم بم بنا رہا ہے پھر بھی تجربے کی خبر اس پر بجلی بن کر گری۔ اسے محسوس ہو گیا کہ ایٹم بم بنا کر بھارت نے خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر اپنے حق میں کر لیا۔ گویا پاکستان کی سالمیت و بقا کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے۔ اب طاقت کا توازن اسی وقت بحال ہو سکتا تھا جب پاکستان بھی ایٹم بم بنالے۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے فوراً پاکستانی ایٹمی منصوبے پر کام شروع کر دیا۔

ایٹمی سائنس کی معلومات
بھارت صرف برطانیہ‘ امریکا اور کینیڈا کے تعاون سے ایٹمی قوت بن پایا۔ تمام بھارتی ماہرین طبیعات اور انجینئروں نے برطانوی و امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی تھی۔ وہ وہاں ایٹمی ری ایکٹروں میں کام بھی کرتے رہے۔ یوں انہیں قیمتی تجربہ حاصل ہو گیا۔

1954ء میں کینیڈا نے بھارت کو ہیوی واٹر بریڈر ری ایکٹر‘ سیرس (Cirus) فراہم کر دیا جو ٹرام بے ‘ بمبئی میں لگایا گیا۔ یہ ری ایکٹر 40میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ اس میں یورینیم 238 بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ری ایکٹر میں استعمال کے بعد یورینیم کی اس قسم سے ری پروسیسنگ پلانٹ میں پلوٹونیم بنایا جاتا ہے جس سے ایٹم بم بنتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایٹم بم کی بنیادی معلومات حاصل کر لیجیے۔

ایٹم بم صرف پلوٹونیم یا افزودہ یورینیم 235سے بنتا ہے۔ یورینیم بہت بھاری اور نایاب دھات ہے۔ کان کنی سے جتنی قدرتی یورینیم دھات ملے‘ اس کا صرف 1 فیصد حصہ قابل استعمال ہوتا ہے جسے یورینیم آکسائڈ کہتے ہیں۔ یہ زرد کیک (yellow cake) بھی کہلاتا ہے۔یہ زرد کیک یورینیم کی تین اقسام (یا آئسوٹوپ) رکھتا ہے یعنی 235,238اور 234۔ زرد کیک کا 99.27فیصد حصہ یورینیم 238رکھتا ہے۔

0.72فیصد حصہ یورینیم 235کا ہے جبکہ انتہائی معمولی مقدار یورینیم 234کی ہوتی ہے۔ یورینیم 235 واحد قدرتی انشقاقی (Fissile) مادہ ہے یعنی وہ پھٹ کر زبردست توانائی پیدا کرتا ہے۔ یورینیم 238یہ صلاحیت نہیں رکھتا مگر جب پلوٹونیم میں بدل جائے تب وہ بھی انشقاقی مادہ بن جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ 1938ء میں جرمن سائنس دانوں‘ آٹوہان اور قرٹز سٹراسمان نے دریافت کیا تھا کہ یورینیم سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ایک بم (ایٹم بم ) بن سکتا ہے۔ اس دریافت کے بعد ہٹلر کی حکومت نے ایٹم بم کی تیاری شروع بھی کر دی مگر وہ مختلف وجوہ کی بنا پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔ البتہ اٹلی‘ آسٹریا اور ہنگری کے یہودی سائنس دانوں کی مدد سے امریکا ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہا۔

ایٹم بم کا میٹریل حاصل کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں۔ اول گیس سینٹری فیوج اور دوم بریڈر ری ایکٹر مع ری پروسیسنگ پلانٹ۔ گیس سینٹری فیوج طریق کار میں یورینیم آکسائڈ سے یورینیم 235کو الگ کیا جاتاہے۔ یورینیم 235 پھر ایٹم بم بنانے میں کام آتا ہے۔

ماضی میں کم از کم 50کلو یورینیم 235سے ایٹم بم بنتا تھا۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 15تا20 کلو یورینیم 235کے ذریعے بھی ایٹم بن جاتاہے۔ایٹمی ری ایکٹر وہ بہت بڑا آلہ ہے جس میں یورینیم سے توانائی حاصل کی جائے۔ ایٹمی بجلی گھر میں یہی ری ایکٹر نصب ہوتے ہیں۔ وہ جب توانائی پید ا کریں تو اس سے ٹربائنیں چلا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ری ایکٹر کی ایک قسم بریڈر ری ایکٹر کہلاتی ہیں۔

اس کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں قدرتی یورینیم (زرد کیک) کو بھی بطور ایندھن جلانا ممکن ہے۔ جبکہ بقیہ اقسام میں یورینیم 235سے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔بریڈر ری ا یکٹر میں جو قدرتی یورینیم استعمال ہو جائے تو اسے ا یک علیحدہ عمارت، ری پروسیسنگ پلانٹ میں پہنچا یا جاتا ہے۔ وہاں ماہرین بذریعہ ٹیکنالوجی قدرتی یورینیم میں موجود یورینیم 238کو پلوٹونیم میں بدل دیتے ہیں۔ 10کلو پلوٹونیم سے ایٹم بم بن جاتا ہے۔امریکا پہلا ملک ہے جس نے یورینیم 235اور پلوٹونیم‘ دونوں سے ایٹم بم بنائے۔ انہی ایٹم بموں نے جاپانی شہروں‘ ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں تباہی پھیلا کر جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔

بھارت کا ایٹمی دھماکہ
بھارت میں یورینیم کی کانیں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ کینیڈا سے ملے سیرس ری ایکٹر میں بھارتی یورینیم استعمال ہونے لگا۔ اس میں بھاری پانی توانائی پیدا کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھاری پانی بھارت کو امریکا نے فراہم کیا۔

قابل ذکر بات یہ کہ کینیڈا و امریکا نے بہ ظاہر ’’پُرامن مقصد‘‘ کے لیے سیرس ری ایکٹر بھارت کو فراہم کیا تھا… یہ کہ وہ اس سے بجلی بنا سکے۔ حقیقت میں اس کا مقصد بھارت کو ایٹمی طاقت بنانا تھا۔ اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سیرس میں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنانے کی خاطر ری پروسیسنگ پلانٹ ایک امریکی کمپنی‘ وائٹر وکارپوریشن آف امریکا نے بھارت کو فراہم کیا۔ ظاہر ہے امریکی حکمران طبقے کی آشیر باد سے ہی امریکی ساختہ ری پرسیسنگ پلانٹ بھارت کو دیا گیا۔

یہ پلانٹ ٹرام بے بمبئی میں مارچ 1961ء سے جون 1964ء کے عرصے میں مکمل ہوا۔ وہا ں جلد ہی سیرس میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلنے کا کام شروع ہو گیا۔1969ء سے 1972ء کے درمیان بھارت نے ٹرام بے بمبئی ہی میں روس کے تعاون سے پلوٹونیم کو بطور ایندھن استعمال کرنے کرنے والے چھوٹے ری ایکٹر تعمیر کر لیے۔ ان کی مدد سے بھارتی ماہرین پلوٹوینیم کی قیمتی معلومات سے آگاہ ہوئے۔ سب سے بڑھ کر انہوںنے جاناکہ پلوٹونیم سے کیسے ایٹم بم بن سکتا ہے۔ چنانچہ 28مئی 1974ء کو بھارت نے جو پہلا ایٹم بم چلایا‘ وہ پلوٹونیم کا ہی تھا۔

پاکستانی ایٹمی پروگرام
پاکستان میں بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے بیشتر ماہرین برطانوی یا یورپی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ مارچ 1956ء میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے سربراہ ‘ نذیر احمد نے کیمرج یونیورسٹی سے طبعیات کی تعلیم پائی تھی۔

بعدازاں کمیشن کے نئے صدر ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی اور دیگر ماہرین مثلاً پروفیسر رفیع محمد چودھری‘ سلیم الزمان صدیقی‘ ریاض الدین صدیقی‘ ڈاکٹر عبدالسلام ‘ منیر احمد خان وغیرہ نے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو رواں دواں رکھا۔1965ء میں امریکا نے پاکستان کو بھی ایک چھوٹا سا ری ایکٹر فراہم کر دیا مگر اس میں افزودہ یورینیم بطور ایندھن استعمال ہوتا تھا۔ یہ ری ایکٹر پاکستان میں جوہری سائنس پر تحقیق کرنے والے ادارے، پنسٹک ، نیلور اسلام آباد میں لگایا گیا۔


حقیقت یہ ہے کہ 1956ء سے 1971ء تک پاکستانی حکمران طبقے اور ایٹمی منصوبے سے منسلک ماہرین میں بھی بنیادی طور پر یہی نظریہ کار فرما رہا کہ ایٹمی پروگرام مکمل کر کے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے جائیں۔ اسی لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں یورینیم کی کانیں بھی تلاش کی گئیں۔ 1963ء میں معلوم ہوا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایسی کانیں موجود ہیں۔ اسی سال ان سے یورینیم نکالا جانے لگا۔

حکومت پاکستان اور پاکستانی ماہرین کی کوششوں سے آخر کینیڈا نے بھارت کی طرح پاکستان کو بھی ہیوی واٹرری ا یکٹر فراہم کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ یہ اب کینوپ اول کہلاتا ہے جس کی تعمیر یکم اگست 1966ء کوشروع ہوئی۔ 28نومبر 1972ء سے دنیائے اسلام کا یہ پہلا کمرشل ری ایکٹر کام کرنے لگا۔ یہ قدرتی یورینیم اور ہیوی واٹر کے ذریعے 137میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔(پاکستان کا یہ‘ پہلا ری ایکٹر اگلے سال بند کر دیا جائے گا)۔کینوپ اول میں استعمال شدہ یورینیم سے مگر پلوٹونیم بنانا ناممکن تھا کیونکہ وہ بھارتی ری ایکٹر سے مختلف ڈیزائن رکھتا تھا۔

تاہم حکومت پاکستان کی سعی تھی کہ نیلور‘ اسلام آباد میں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنانے کا ری پروسیسنگ پلانٹ لگ جائے تاکہ بووقت ضرورت وہ کام آئے۔بھارت نے ایٹمی دہماکہ کیا تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو شدت سے احساس ہوا کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر جلد از جلد ایٹم بم بنانا ضروری ہے۔ سوال یہ تھا کہ ایٹم بم یورینیم 235سے بنایا جائے یا پلوٹونیم سے؟

پلوٹونیم بم کی کوششیں
1967ء میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ جوہری سائنس دانوں اور انجینئروں نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند ‘ سلطان بشیر الدین اور محمد حفیظ قریشی کی زیر قیادت یورینیم 235 افزودہ کرنے کے سلسلے میں تجربات کیے تھے مگر انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اسی لیے یہ راستہ ترک کر دیا گیا۔جنوری 1972ء میں منیر احمد خان پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ بن گئے۔ یہ دس سال یورپ میں رہے تھے۔

اور انہیں علم تھا کہ بھارت ایٹم بم بنا رہا ہے۔ انہوں نے حکمران بھارتی برہمن طبقے کے شیطانی عزائم سے اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو آگاہ کیا ۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد آخر فیصلہ ہوا کہ پاکستان کو بھی پلوٹونیم سے ایٹم بم بنانے کی کوششیں شروع کرنی چاہیں۔چناں چہ نیلور‘ اسلام آباد میں ری پروسیسنگ پلانٹ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا جہاں یورینیم 238سے پلوٹونیم حاصل کیا جانا تھا۔

پاکستانی ایٹمی توانائی کمیشن نے برطانیہ اور فرانس کی کمپنیوں سے رابطہ کیا مگر ان کی یہ شرط تھی کہ پلانٹ بین الاقوامی ایجنسیوں کی نگرانی میں رہے گا۔ صرف بیلجیم کی کمپنی، بیلگو نوکلیری(Belgonucleaire) نے یہ شرط نہیں لگائی۔

چنانچہ نیلور کا ری پروسیسنگ پلانٹ لگانے کے سلسلے میں اس سے معاہدہ ہو گیا۔ یہ پلانٹ اب ’’نیو لیبز‘‘ (New labs) کہلاتا ہے۔مارچ 1973ء میں پاکستانی ایٹمی توانائی کمیشن کے تین ماہرین عبدالمجید چوہدری ‘ خلیل قریشی اور ظفر اللہ خان بیلجیم کے شہر مول پہنچ گئے۔

بیلجیمی کمپنی نے وہاں یورکیمی نامی ری پروسیسنگ پلانٹ لگا رکھا تھا۔ اسی پلانٹ میں 1966ء سے 1974ء تک کمپنی کے ماہرین دو سو ٹن یورینیم 238سے 678 کلو پلوٹونیم تیار کر چکے تھے۔کمپنی نے پاکستانی ماہرین کو پلانٹ بنانے کے ڈیزائن اور متعلقہ کاغذات فراہم کر دیئے۔ بعدازاں ماہرین نے یورکیمی میں پلوٹونیم ری پروسیس کرنے کا عملی تجربہ حاصل کیا۔ یوں پاکستانی ماہرین اس قابل ہو گئے کہ نیلور میں ابتدائی قسم کے پلوٹونیم پروسیسنگ پلانٹ کی تنصیب کر سکیں۔ اس پلانٹ میں ماہرین ایک سال میں دس سے بیس کلو پلوٹونیم تیار کر سکتے تھے۔ یہ پلوٹونیم دوایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس ایسا کوئی بریڈر ری ایکٹر نہیں تھا کہ وہاں استعمال شدہ یورینیم نیو لیبز میں ری پروسس ہوتا۔ اسی لیے پلانٹ کی تنصیب کا معاملہ لٹک گیا۔ آخر کار 1980ء میں نیو لیبز کی تعمیر کا آغاز ہوا اور یہ 1982ء میں مکمل ہوا۔

اس کے پہلے سربراہ عبدالمجید چودھری تھے۔نیو لیبز مگر طویل عرصہ آپریشنل نہیں ہو سکی کیونکہ پاکستان کو یورینیم 238 دستیاب نہ تھا۔آخر 1996ء میں خوشاب بریڈر ری ایکٹر اول مکمل ہو کر کام کرنے لگا تو وہاں سے یورینیم 238ملنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ اب نیو لیبز میں بھی زندگی کی لہر دوڑی اور وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنایا جانے لگا۔پاکستان نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو تب تک نیو لیبز سے حاصل کردہ پلوٹونیم سے بم بن چکا تھا۔ یہی وجہ ہے ‘ 30مئی کو صحرائے خاران میں جو ایٹمی دھماکہ ہوا‘ وہ پلوٹونیم بم کا تھا۔

یوں پاکستان یورینیم 235اور پلوٹونیم ‘ دونوں دھاتوں سے ایٹمی ہتھیار بنانے والا دنیا کا چھٹا ملک بن گیا۔ واضح رہے ‘ بھارت اپنے ایٹمی ہتھیار بنیادی طور پر پلوٹونیم سے بناتا ہے ۔پلوٹونیم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے بنا بم چلانے کے لیے تھوڑے انشقاقی مواد (یورینیم 235یا پلوٹونیم) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ بم میزائلوں پر نصب کرنا ممکن ہے۔ پلوٹونیم سے چھوٹے یعنی ’’ٹیکٹیکل ‘‘ ایٹم بم بھی بنتے ہیں۔ تاہم اس دھات کی خرابی یہ ہے کہ یہ بہت تاب کار مادہ ہے۔ لہٰذا اس کی دیکھ بھال بہت احتیاط سے کرنا پڑتی ہے۔ یورینیم 235اس کے مقابلے میں کہیں کم تاب کار مادہ ہے۔ وہ زہریلے پن میں بس سیسے جیسا ہے۔

ایک اجنبی کی آمد
1974ء میں مگر پاکستانی حکومت جلد از جلد ایٹم بم بنانا چاہتی تھی۔ بھٹو صاحب اور افواج پاکستان کی قیادت کو پریشانی تھی کہ پلوٹونیم سے ایٹم بم بناتے ہوئے کئی سال لگ جائیں گے ۔اس دوران بھارتی حکمران کوئی بھی بد حرکت کر سکتے تھے۔تبھی اندھیرے میں ایک کرن جگمگائی … اور ایک اجنبی شخصیت نے اچانک نمودار ہو کر پاکستانی ایٹم بم کی تیاری کا کام جو ناممکن نظر آ رہا تھا، اسے عمل میں ڈھال دیا۔

یہ ڈاکٹر عبدالقد یر خان تھے۔اس پاکستانی سپوت نے سولہ سال بھوپال میں بسر کیے تھے۔ جانتے تھے کہ انتہا پسند ہندو اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں۔ حقیقتاً انہی کی نفرت ا نگیز کارروائیوں سے بچنے کی خاطر وہ 1952ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کیا۔ پھر سکالر شپ پر جرمنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔

بعدازاں ہالینڈ کی یونیورسٹی سے میٹریلز ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی اور بیلجیئم کی یونیورسٹی سے دھات کاری میں پی ایچ ڈی کی۔1972ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب گیس سینیٹری فیوج طریق کار سے یورینیم 235افزودہ کرنے والی ایک ولندیزی کمپنی سے وابستہ ہو گئے جو ایک یوریی کنسوریشم ‘ یورنیکو کا حصّہ تھی۔ یہ کمپنی ایملوشہر میں گیس سینٹری فیوج پلانٹ چلا رہی تھی۔

گیس سینٹری فیوج طریقے میں ہزارہا لمبوترے پائپوں جیسی مشینوںکے اندر زرد کیک کو گیس میں ڈھال کر نہایت تیزی سے گھمایا جاتا ہے۔ تب یورینیم 235 گیس کی شکل میں یورینیم 238 سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ایک سینٹری فیوج مشین سال میں 30گرام یورینیم 235 تیار کر سکتی ہے۔ لہٰذا پلانٹ میں جتنی زیادہ مشینیں ہوں‘ اتنا ہی زیادہ یورینیم 235ء حاصل ہوتا ہے۔ اگر پلانٹ میں ایک ہزار مشینیں ہوں تو وہ سال میں 20 سے 25 کلو یورینیم 235 بنا لیتی ہیں۔

یہ ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔گیس سینٹری فیوج پلانٹ تیار کرنا مگر بہت مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ اسے صرف وہی ماہرین تیار کر سکتے ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا تجربہ ‘ذہانت اور محنت کی لگن رکھتے ہوں۔ مزید براں اب تک اس طریق کار کے ذریعے ایٹم بم بنانے کی خاطر یورینیم 235 حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ یہ طریق کار ایٹمی بجلی گھروں میں نصب ری ایکٹروں کو یورینیم 235 بطور ایندھن دینے کا کام آتا تھا۔

’’پروجیکٹ 706‘‘ کا قیام
مئی 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کومضطرب کر دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ ایٹمی طاقت بن کر دشمن پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکاہے۔ اب صرف پاکستانی ایٹم بم ہی اسے قابو کر سکتا تھا۔ ماہ اگست میں انہوںنے وزیراعظم بھٹو کو خط لکھ کربتایا کہ پاکستان پلوٹونیم کے بجائے افزودہ یورینیم 235سے جلد ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ خط بیورو کریسی نے منزل تک نہ پہنچایا۔

ستمبر میں بذریعہ سفیر ہالینڈ دوسرا خط وزیراعظم کے پاس پہنچ گیا۔ انہوںنے کہا ’’اس آدمی کی بات میں دم ہے‘‘۔وزیراعظم کے حکم پر منیر احمد خان نے سلطان بشیر الدین کو یہ کام سونپا کہ وہ یورینیم 235کی افزودگی کرنے والے طریقوں کا جائزہ لیں۔ سلطان صاحب نے تحقیق سے نتیجہ نکالا کہ گیس سینٹری فیوج طریقہ سب سے مؤثر اور ارزاں ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر گیس سینٹری فیوج طریقے سے یورینیم 235 افزودہ کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا جسے ’’پروجیکٹ 706‘‘ کا نام ملا۔

دسمبر 1974ء میں بھٹوصاحب اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں یورینیم 235کی افزودگی کے طریق کار سے آگاہ کیا۔ مطمئن ہو کر بھٹو صاحب نے فروری 1975ء میں پروجیکٹ 706 کی منظوری دے دی۔ ڈاکٹر صاحب کو کہا گیا کہ وہ یورنیکو میں رہ کر گیس سینٹری فیوج طریق کار کی مزید معلومات حاصل کریں۔ اس دوران پاکستان میں پلانٹ کی عمارت تیار ہو جا ئے گی۔

پروجیکٹ706کا ابتدائی مرکز اسلام آباد ایئر پورٹ کے نزدیک بنی بیرکس تھیں۔ وہاں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس داں اور انجینئر مثلاً غلام دستگیر عالم‘ انور علی‘ جاوید ارشد مرزا‘ اشرف چوہدری‘ ڈاکٹر فخر ہاشمی اور اعجاز کھوکھر ابتدائی تجربات کرنے لگے۔

تمام شخصیات نے بعدازاں پاکستانی ایٹم بم بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پروجیکٹ منیجر سلطان بشیر الدین تھے۔اُدھر ہالینڈ میں ڈاکٹر عبدالقدیر گیس سینٹری فیوج طریق کار کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرتے رہے۔ بعدازاں ان پر الزام لگا کر انہوں نے یہ معلومات چوری کی ہیں۔ یہ ا یک لغو الزام تھا۔ اگر یہ بات ہے تو پھر امریکا نے بھی جرمن سائنس دانوں سے معلومات چُرا کر ایٹم بم بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی سائنس داں بھی چور ٹھہرتے ہیں کہ انہوںنے امریکی ایٹم بم کی دستاویزات دیکھ کر ہی اپنے ایٹمی ہتھیار تیار کیے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کی وطن واپسی
پروجیکٹ 706 میں شامل کوئی بھی پاکستانی ماہر گیس سینٹری فیوج طریق کار کا عملی تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ اس باعث پروجیکٹ کا کام سست رفتاری سے جاری رہا۔ اپریل 1976ء میں اسی لیے ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان چلے آئے اور انہوں نے کام خود سنبھال لیا تاکہ وہ تیز تر ہو سکے۔ انہی کی زیر نگرانی کہوٹہ اور واہ میں منصوبے سے متعلق لیبارٹریاں تعمیر ہوئیں ۔ تعمیراتی کام پاک فوج کے بریگیڈیئر (بعدازاں میجر جنرل) زاہد علی اکبر اور کرنل نسیم کی نگرانی میں مکمل ہوا۔لیبارٹریوں کی تعمیر کے بعد اب متعلقہ مشینری وہاں نصب کرنا تھی۔ بنیادی پرزہ جات تو مقامی انجینئروں سے تیار کرا لیے گئے ۔ اب جدید نوعیت کی مشینری یورپی کمپنیوں سے خریدنا تھی۔ اس خریداری میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا تجربہ بہت کام آیا۔

دراصل یورپی ممالک نے اپنی کمپنیوں پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ کوئی ایسا پرزہ یا مشین بیرون ملک فروخت نہیں کر سکتیں جو ایٹمی پروگرام میں استعمال ہو سکے۔ مگر گیس سینٹری فیوج طریق کار میں استعمال ہونے والی مشینری کی ندرت یہ تھی کہ وہ طبی و صنعتی منصوبوں میں بھی استعمال ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی ندرت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مطلوبہ مشینری کا ہر پرزہ مختلف کمپنیوں سے خریدا جائے تاکہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ پاکستانی اسے ایٹمی پروگرام کی خاطر خرید رہے ہیں۔ جب سبھی پرزے آ جائیں ‘ تو مطلوبہ مشینری تیار کر لی جائے گی۔

ایٹم بم بن گیا
ڈاکٹر صاحب کے پاس متعلقہ مشینری بنانے والی 100کمپنیوں کی فہرست موجود تھی۔ چنانچہ ان کی رہنمائی میں پاکستانی تاجر مطلوبہ پرزے خریدنے لگے مثلاً مشین ٹولز ‘ مختلف اقسام کے مقناطیس‘ اسٹیل پائپ‘ ویکیوم پمپ‘ بال بیرنگ اور ہر قسم کے دیگر پرزہ جات۔ بعض اہم پرزے تاجر نہیں خرید سکے۔ انہیں خریدنے کی خاطر جعلی طبی یا صنعتی کمپنی بنائی گئی ان کے ذریعے پرزے خرید لئے گئے۔

ایٹمی منصوبے کو خفیہ رکھنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا گیا۔ جو پاکستانی ایک پرزہ خرید لیتا‘ عموماً اس سے پھر کوئی خریداری نہ کرائی جاتی۔ منصوبے کے لیے سعودی عرب اور لیبیا نے ڈالر فراہم کیے جن کے ذریعے یورپ سے مطلوبہ سامان خریدا گیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں بھی ایٹمی منصوبہ پوری رفتار سے جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دس ہزار پاکستانیوں نے حصہ لیا۔ یہ سبھی پاکستانی ہمارے ’’نا معلوم ہیرو‘‘ ہیں۔

1982ء تک کہوٹہ کی لیبارٹری میں دس ہزار سینٹری فیوج مشینیں لگ چکی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان سے یورینیم زرد کیک کی شکل میں حاصل ہوا۔لیبارٹری میں اسے پھر گیس کی شکل دی گئی۔ اب گیس کومشینوں میں نہایت تیزی سے گھمانا تھا۔ مگر مشینوں کو خاص رفتار پر چلانے کے لیے ماہرین طبعیات اور ریاضی کی ضرورت تھی۔ آخر قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک ماہر ریاضی تسنیم شاہ نے ریاضیاتی مسائل حل کیے۔

جبکہ غلام دستگیر عالم اور انور علی طبعیاتی مسائل ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ رکاوٹیں دور ہونے کے بعد مشینوں میں یورینیم 235کی افزودگی شروع ہو گئی۔پاکستانی ایٹمی منصوبے پر کتابیں لکھنے والے فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ ابتداً پروجیکٹ 706سے منسلک بعض ماہرین کا بھی خیال تھا کہ یہ سعی لا حاصل ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کبھی سینٹری فیوج مشینیں نہیں بنا سکتے۔ حقیقتاً ڈاکٹر صاحب کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل رہیں۔ مگر انہوںنے حوصلہ نہ ہارا۔ وہ دل جمعی و لگن سے محنت کرتے رہے۔ ساتھیوں نے بھی ا ن کا پورا ساتھ دیا۔

ڈاکٹر صاحب کی زبردست قیادت میں ٹیم کی جدوجہد رنگ لائی اور 1983ء تک اتنا زیادہ یورینیم 235 جمع ہو گیا کہ اس سے ایٹم بم بنائے جا سکیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو کہا تھا ‘ اسے سچ کر دکھایا۔ انہوں نے صرف سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔

اس لیے انہیں بجا طور پر ’’پاکستانی یورینیم ایٹم بم کا باپ‘‘ کہا جاتاہے۔ ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات تاابد یاد رکھی جائیں گی۔وہ یورپ سے نہایت عمدہ ملازمت صرف پیارے وطن کی خاطر چھوڑ کر آئے اور اپنی مسلسل کوششوں سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔وسائل کم تھے، مگر انھوں نے اپنے ساتھیوں میں جذبہ حب الوطنی اور کچھ کر دکھانے کا ولولہ بھر ڈالا۔آخر اُن کی عظیم سعی سے خطے میں عسکری طاقت کے ترازو کا پلڑا پھر متوازن ہو گیا۔
https://www.express.pk/story/2238843/1/



دولے شاہ کے چوہے کے بارے تو آپ نے سن رکھا ہو گا لیکن یہ کام در اصل کیسے شروع ہوا؟ وہ بات جو کوئی نہیں بتاتا
Oct 22, 2021 | 20:08:PM


اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) مائیکروسیفلی (Microcephaly)نامی بیماری کے شکار بچوں کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں اورا ن کے دماغ بھی پوری طرح نشوونما نہیں پاتے۔ ایسے بچوں کو ’دولے شاہ کے چوہے‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ذہنی معذور افراد زیادہ تر شاہ دولہ کے مزار پر رہائش پذیر ہوتے ہیں تاہم کچھ عاقبت نااندیش ان معذور بچوں کو بھیک مانگنے کے دھندے پر لگا دیتے ہیں اور آپ کو یہ سن کر سخت حیرت ہو گی کہ کئی کیسز میں صحت مند پیدا ہونے والے بچوں کو جان بوجھ کر دولے شاہ کے چوہوں کی طرح معذور بنا دیا جاتا ہے تاکہ ان سے بھیک منگوائی جا سکے۔

برطانوی اخبار ڈیلی سٹار کی ایک رپورٹ کے مطابق صحت مند پیدا ہونے والے بچوں کے سر پر یہ لوگ لوہے کے خول چڑھا دیتے ہیں جس سے سر کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے اور سر کا سائز چھوٹا رہ جانے سے دماغ کی بھی پوری طرح نشوونما نہیں ہو پاتی اور یہ بچے بھی پیدائش طور پر مائیکروسیفلی کے شکار بچوں کی طرح معذورہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس توہم پرست معاشرے میں ایک یہ خیال پایا جاتا ہے کہ دولے شاہ کے چوہوں کو اگر بھیک نہ دیں تو بدبختی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔ اسی توہم پرستی کا پیشہ ور بھکاریوں کے گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور صحت مند پیدا ہونے والے بچوں کے سر پر لوہے کے خول چڑھا کر انہیں دولے شاہ کے چوہے بنا کر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔

ان ذہنی معذور بچوں کو دولے شاہ کے چوہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ 17صدی عیسویں کا یہ مسلمان بزرگ زینت کے طور پر بچوں کے سر پر لوہے کے ہیلمٹ چڑھا دیا کرتا تھا۔ شاہ دولہ لاوارث چھوڑ دیئے جانے والے معذور بچوں کو اپنے پاس رکھتا اور ان کی دیکھ بھال کرتا تھا اور یہ بچے اس کے لیے بھیک مانگتے تھے تاکہ اپنا اور اپنے جیسے دیگر بچوں کا خرچ پورا ہو سکے۔ شاہ دولہ اپنے بے اولاد مریدین کو کہا کرتا تھا کہ وہ دولے شاہ کے ان چوہوں کی دعا لیں، جس سے ان کے ہاں اولاد پیدا ہو گی۔ شاہ دولہ ایسے بے اولاد جوڑوں کے لیے ایک شرط بھی رکھتا تھا کہ جو پہلا بچہ پیدا ہو گا اسے ماں باپ شاہ دولہ کے پاس چھوڑ جائیں گے۔

جب بے اولاد میاں بیوی کی منت پوری ہوتی اور ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ پہلا بچہ شاہ دولہ کے پاس چھوڑ جاتے، جس کے سر پر وہ خول چڑھا دیتے اور بچہ سر اور دماغ کی نشوونما نہ ہونے کے سبب دولے شاہ کا چوہا بن جاتا۔شاہ دولہ کا مزار گجرات میں واقع ہے۔ جہاں بے اولاد جوڑے آج بھی منت مانگتے ہیں اور پہلا بچہ مزار پر چھوڑ جاتے ہیں۔ 1960ءکی دہائی میں حکومت نے اس مزار پر بچے چھوڑجانے پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم جلد ہی پرانی انتظامیہ نے دوبارہ مزار کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر وہی دھندہ شروع ہو گیا۔آج بھی پیشہ ور بھکاریوں کے گینگ ان دولے شاہ کےچوہوں کے ذریعے بھیک مانگنے کا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-Oct-2021/1356109?fbclid=IwAR1YIDe14QUQLZaRz4Ee5csIJ-79Xtxd9NAmN31apEN-pwdPqptZ18mp9L8



https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108703767&Issue=NP_PEW&Date=20211006

No comments:

Post a Comment