کچھ تاریخ سے ::: پارتھینون ::: کے چینی بادشاہ شوانگ زونگ ::: باؤلی ::: لاہور کے دروازے ::: سلطنت عثمانیہ ::: وہ یہودی قبیلہ ::: امریکہ کے چار صدور قتل ::: صحابی جنہیں شہادت کے بعد فرشتوں نے غسل دیا ::: غزوہ احد ::: غزوہ بدر ::: نبی کریم ﷺ کا معجزہ ::: غزوہ خندق - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Tuesday 1 March 2022

کچھ تاریخ سے ::: پارتھینون ::: کے چینی بادشاہ شوانگ زونگ ::: باؤلی ::: لاہور کے دروازے ::: سلطنت عثمانیہ ::: وہ یہودی قبیلہ ::: امریکہ کے چار صدور قتل ::: صحابی جنہیں شہادت کے بعد فرشتوں نے غسل دیا ::: غزوہ احد ::: غزوہ بدر ::: نبی کریم ﷺ کا معجزہ ::: غزوہ خندق


’’پارتھینون‘‘:قدیم یونانی آرٹ کا شاہکار
 25 September, 2021


تحریر : محمد وقاص بٹ

پارتھینون یونانی دیوی ایتھنا کا مندر ہے جسے موجودہ یونانی دارالحکومت ایتھنز کے مشہور زمانہ ایکروپولس میں 5 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔ یہ قدیم یونان کی عمارات میں سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہے ۔ اس میں موجود بت یونانی آرٹ کے عروج کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے والے یونانی آثار قدیمہ پارتھینون قدیم یونان اور ایتھنز کی جمہوریہ کی علامت اور دنیا کی عظیم ثقافتی یادگاروں میں سے ایک ہے ۔ یونانی وزارت ثقافت اس کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے ۔قدیم پارتھینون 480 قبل مسیح میں فارسیوں کے حملے میں تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد موجودہ پارتھینون کو اس قدیم مندر کی جگہ تعمیر کیا گیا۔ تمام قدیم یونانی مندروں کی طرح پارتھینون بھی خزانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں پارتھینون عیسائی گرجے میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1460ء کے اوائل میں عثمانیوں کے ہاتھوں ایتھنز اور یونان کی فتح کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ 28 ستمبر 1687ء کو عثمانیوں کے اسلحہ خانے میں دھماکے سے پارتھینون کو شدید نقصان پہنچا۔ 1806ء میں تھامس بروس عثمانیوں کی اجازت سے بچنے والے مجسموں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ مجسمے 1816ء میں برٹش میوزیم، لندن کو فروخت کر دیے گئے جہاں یہ آج بھی موجود ہیں۔ یونانی حکومت اس مجسموں کی یونان واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے تاہم ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔عثمانیوں کے دور میں اس عمارت میں ایک مینار بھی شامل کیا گیا تھا اور 17 ویں صدی کے یورپی سیاحوں نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ عثمانیوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پارتھینون سمیت کسی بھی آثار قدیمہ کو نقصان نہیں پہنچایا اور یہ بالکل بہترین حالت میں ہیں۔امریکہ میں قائم پارتھینون کی نقل1975ء میں یونانی حکومت نے یورپی یونین کے مالی و تکنیکی تعاون سے پارتھینون اور ایکروپولس کی دیگر عمارات کی بحالی کے منصوبے کا آغاز کیا۔اِس وقت ایتھنز کے آثار قدیمہ کو سب سے زیادہ خطرہ 1960ء کی دہائی سے اب تک پھیلنے والی آلودگی سے ہے ۔ اس کا سنگ مرمر تیزابی بارش اور گاڑیوں کی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہا ہے ۔ امریکہ کی ریاست ٹینیسی کے شہر نیشویل میں اصل پارتھینون کی طرح کی ایک عمارت بنائی گئی ہے ۔ یہ عمارت 1897ء میں تعمیر ہوئی۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-25/25241



تانگ خانوادے (Dynasty Tang ) کے چینی بادشاہ شوانگ –زونگ (Xuanzong)کے سامنے ایک عجیب سفیر کھڑا تھا۔اس کی عجیب بات یہ تھی کہ اس نے چینی بادشاہ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا جو کہ چینی بادشاہوں کے دربار کی روایت تھی۔ تانگ خاندان کی شاہی تاریخ اس واقعے کو یوں بیان کرتی ہے :

“کائی –یوان ( 713-762 ء– Yuan Kai) کے دور میں ایک اور سفیر خوب صورت گھوڑوں اور شان دار لگاموں کے تحائف کے ساتھ دوبارہ بھیجا گیا۔ دربار میں پیشی کے موقع پر اس نے بادشاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔

محل کے افسران اس کو مارنے کے لیے لپکے مگر وزیراعظم چانگ-شو (Shu Chang ) نے کہا کہ یہ روایات کا فرق ہے اور کسی کا اپنی روایت کی پیروی کرنا ایک جرم نہیں کہلا سکتا، چناںچہ بادشاہ نے اس کو معاف کردیا۔ جب سفیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے ملک میں صرف اﷲ کے سامنے جھکتے ہیں کسی بادشاہ کے لیے نہیں۔ ”

چینی بادشاہ کی خدمت میں بھیجا گیا یہ سفیر جس کے اس عمل کی بازگشت کو تین صدیوں بعد کی چینی تاریخ نے بھی محفوظ کرلیا، فاتح وسط ایشیا اور عظیم اموی مسلمان جنرل قتیبہ بن مسلمؒ کا بھیجا ہوا تھا۔ جو ماورالنہر کو فتح کرنے کے بعد طارم طاس کی وادی (موجودہ سنکیانگ کا ایک حصہ ) میں چینی عمل داری کے شہر کاشغر پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

طبری اور ابن الاثیر اس سفارت کی پوری داستان سناتے ہیں۔ قتیبہ جب کاشغر کو فتح کرچکے تو چینی بادشاہ نے ان کی خدمت میں وفد بھیجا کہ اپنا کوئی آدمی ہمارے ہاں بھیجو۔ اس سے ہم تمہارے اور تمہارے وطن کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

قتیبہؒ نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے کم و بیش آٹھ افراد کا ایک گروہ تیار کیا جن کا سردار ہبیرہ بن سمرج نامی ایک شخص تھا۔ اس کو حکم تھا کہ چینی بادشاہ کو مکمل طور پر واضح کردیا جائے کہ ہمارے سردار قتیبہ بن مسلمؒ نے قسم کھالی ہے کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک تمہاری سلطنت میں قدم نہ رکھ لوں اور تمہارے شہزادوں کو غلام نہ بنالوں یا جزیہ نہ وصول کرلوں۔ ان سفراء کو سفر کے لیے شان دار گھوڑے و لباس بھی عطا کیے گئے۔

چینی بادشاہ عظمت و رعب کے اس شان دار مظاہرے سے کتنا متاثر ہوا جو اس دربار میں مسلسل تین دن ان سفراء نے دکھایا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ قبیلہ باہلی کے اس اموی فاتح وسط ایشیا کی عظیم الشان فتوحات کی خبر ان سفراء سے پہلے ہی شاہ چین کے کانوں سے ٹکرا چکی ہوگی۔

وہ سغد، تبت، طخارستان اور ترکستان کے طول و عرض سے بھیجے گئے ان سفیروں سے ناآشنا نہ تھا جو بڑی دیر سے اس عرب قوت کے مقابلے پر اس سے مدد طلب کررہے تھے جو توحید کا پرچم اٹھائے ایران و شام کی سلطنتوں کو روندنے کے بعد ماورالنہر کے علاقے میں گھس آئی تھی۔ اس نے سفیروں کو جو کے چینی دارالحکومت میں تین دن گزار چکے تھے اور اس کی وسعت اور لشکروں کی کثرت کا مشاہدہ بھی کرچکے تھے یہ جواب دیا:

“اپنے سردار کے پاس واپس چلے جاؤ اور کہو کہ ہمارے علاقے سے واپس چلا جائے، کیوںکہ میں اس کے حریصانہ خیالات اور اس کی فوج کی قلت تعداد سے واقف ہوں۔ اگر واپس نہ ہوگا تو ایسی زبردست فوج مقابلے کے لیے بھیجوں گا جو تمہیں اور اسے سب کو تباہ کرڈالے گی۔ ”

مگر ہبیرہ بھی کچی گولیاں نہ کھیلا تھا، اس نے کہا “اے بادشاہ! بھلا آپ یہ کیا فرماتے ہیں۔ ایسے شخص کو فوج کی کیا کمی ہوسکتی ہے جس کے لشکر کا اگلا حصہ آپ کے علاقہ میں ہے اور اور پچھلا حصہ ملک شام میں ہے! اس پر آپ حریص ہونے کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں جو کہ دنیا کو لات مار کر آپ کے خلاف جہاد کرنے آیا ہے! حالاںکہ اسے سب کچھ میسر تھا۔ آپ نے ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دی ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہم ذرا بھی خوف زدہ ہوں۔ ہماری زندگی ایک خاص معینہ مدت تک کے لیے ہے، جب وہ پوری ہوگی ہم مرجائیں گے اور موت کا سب سے بہترین طریقہ خدا کی راہ میں شہادت ہے۔ نہ ہم اس سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اسے برا سمجھتے ہیں۔”

ہبیرہ کا یہ حتمی اور بے خوف انداز شاید چینی بادشاہ کے دل پر اثر کرگیا۔ اس نے پوچھا کس بات سے تمہارا سردار خوش ہوسکتا ہے؟ ہبیرہ نے کہا کہ انہوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک وہ تمہارے علاقے میں قدم نہیں رکھ لیں گئے، تمہارے رؤساء کو غلام بنا کر ان پر مہر نہ لگادیں گے اور جزیہ وصول نہ کرلیں گے، یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔

چینی بادشاہ نے فوراً مخصوص چینی ذہانت و حکمت کا استعمال کیا، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔ کہنے لگا کہ اچھا ہم ان کی یہ قسم پوری کردیتے ہیں۔ اپنے علاقے کی مٹی بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ اس پر قدم رکھ لے، اپنے کچھ شہزادے بھیج دیتے ہیں، ان پر مہر غلامی ثبت کردے اور اس قدر زروجواہر دے دیتے ہیں جس سے وہ خوش ہوجائے گا۔ بادشاہ نے اپنے ملک کی مٹی، چار شہزادے اور سونا وجوہرات بطور جزیہ بھیجے۔ قتیبہ نے مٹی پر پاؤں رکھا ، شہزادوں پر مہر لگائی اور جزیہ وصول کرکے اپنی قسم کو پورا کیا اور چین کی طرف مزید پیش قدمی سے رکے رہے۔

چین کے ساتھ ایک فیصلہ کن معرکہ قدرت نے چند اور دہائیوں کے لیے ملتوی کردیا تھا۔ یہ سفارت جس کا حتمی زمانہ متعین کرنا ممکن نہیں 710 ء سے لے کر 713 ء اور اسلامی تاریخ کے مطابق 90 ھ سے لے کر 92 ھ کے لگ بھگ بھیجی گئی۔

قتیبہ بن مسلمؒ اس واقعے کے محض ایک سال بعد اس سیاست کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے جس کے ہاتھوں کئی عظیم مسلم فاتحین کا خون ہے، اگر وہ زندہ رہتے تو کیا پورے چین کو بھی فتح کرلیتے اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ مگر یہ کہنا چنداں دشوار نہیں کہ ان کے پاس اس سے بہتر لشکر موجود تھا جس کی مدد سے منگولوں نے کچھ صدیوں بعد چین کو فتح کرلیا تھا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی وسط ایشیا میں مسلم اقتدار بھی خطرے میں پڑ گیا گوکہ نصر بن سیار جیسے فاتحین اس کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنے میں کام یاب رہے۔

عین اسی وقت چینی سلطنت بھی جو تانگ خانوادے کے اقتدار تلے اپنی پرانی شان و شوکت بحال کرنے کے لیے کوشاں تھی، جو اس کو ہان خانوادے (Dynasty Han) کے دور میں پانچ یا چھ صدیاں قبل حاصل ہوئی تھی، جب ان کے عظیم فوجی جنرل پان –چاؤ ( Chao – Pan) نے چین کی سرحدیں سمرقند تک وسیع کردی تھیں اور پورا طارم طاس ان کے قبضے میں تھا۔ چینی بادشاہ کو ایک ہی خطرہ لاحق نہ تھا، تبتی اقوام بہت طاقت پکڑ چکی تھیں اور وہ طارم طاس (موجودہ سنکیانگ) کے علاقے میں دست اندازی کررہی تھیں، جو شاہراہ ریشم کے لیے ریڑھ کی ہڈی رکھتا تھا اور شاہراہ ریشم چین کے لیے رگوں میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی، جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ابھی وہ تبت اور ترکوں کی طرف سے امڈ آنے والے خطرات سے نمٹ ہی رہے تھے کہ دنیا میں ایک نئی سپرپاور کا ظہور ہوگیا۔ صحرائے عرب سے بادیہ نشنیوں کے گروہ در گروہ نکلے اور انہوں نے حضرت عمرؓ اور بعدازآں حضرت عثمانؓ کے دور تک دنیا کی دو عظیم سلطنتوں کو تہہ و بالا کردیا۔ ایران کی سلطنت ساسان 637 ء تک فتح ہوچکی تھی اور 638 ء میں اس کا اثر چین تک آ پہنچا۔

جب مفرور ایرانی بادشاہ یزدگرد نے چینی دربار میں مدد کی درخواست کے ساتھ ایک سفارت روانہ کی۔ کوئی مدد روانہ کی گئی کہ نہیں اس کے بارے میں چینی تاریخ خاموش ہے مگر یزدگرد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا فیروز مسلمانوں کے سامنے سے راہ فرار اختیار کرتا ہوا پہلے باختریہ (طخارستان موجودہ افغانستان) پہنچا اور وہاں سے پھر چینی بادشاہ کی خدمت میں مدد کے لیے درخواست کی، مگر بادشاہ کاؤ-سانگ ( Tsung Kao) فاصلے کی وجہ سے مدد کرنے سے قاصر رہا۔

661 ء میں درخواست پھر پیش ہوئی اس بار مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور ایک چینی جنرل کو فیروز کی مدد کرنے کے لیے بھیجا گیا تاکہ وہ اس کو ایران کے گورنر جنرل کے طور پر دوبارہ تعینات کردے، مگر یہ منصوبہ ادھورا ہی رہا اور 670-673 ء میں فیروز پناہ کی تلاش میں خود چین پہنچ گیا، جہاں اس کو ایک فوجی دستے کا سربراہ بنا دیا گیا اور ایک آتش کدہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔

678 ء میں فیروز کو دوبارہ تخت ایران پر بٹھانے کے لیے ایک فوج کی ہم راہی میں روانہ کیا گیا، مگر چینی جنرل طارم طاس میں واقع سلطنت کوچ (kingdom of kucha) سے آگے تک پیش قدمی کی جرأت نہ کرسکا اور فیروز کو وہاں سے اکیلا ہی آگے بڑھنا پڑا اور طخارستان کے علاقے میں 20 سال بھٹکنے کے بعد 708 ء کے لگ بھگ وہ دوبارہ چینی دربار میں پناہ کی تلاش میں جا پہنچا اور پھر وہیں اس کو مو ت آئی (یزدگرد کے بیٹے کی یہ داستان چینی تواریخ میں بیان ہوئی ہے جو ان واقعات کے سیکڑوں سال بعد لکھی گئیں اور ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض کے مطابق یہ واقعات فیروز کے نہیں بلکہ اس کے بیٹے نارسز کے ہیں )۔ چین کے پاس پہلی سفارت کا تذکرہ 651 ء میں حضرت عثمانؓ کے دور کا بیان کیا جاتا ہے جس کی تفصیلات کا علم نہیں۔ اس کے بعد بنو امیہ کے دور میں بھی چند سفارتوں کا ذکر ملتا ہے مگر ان کے متعلق درست بات یہ ہے کہ کسی خلیفہ کی طرف سے نہ بھیجی گئی تھیں بلکہ مختلف مسلمان تاجر تھے جو کہ براستہ خشکی اور سمندر چین میں بغرض تجارت پہنچے اور رواج کے مطابق بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے۔ 652 ء تک مسلمان پورے خراسان سمیت ریاست بلخ پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

کچھ عرصے کے لیے مسلمانوں کی اندرونی خانہ جنگی نے ہر محاذ پر ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔ آٹھویں صدی عیسوی کی شروعات میں (705 ء ) قتیبہ بن مسلمؒ کی قیادت میں ماورالنہر کی فتوحات کا شان دار سلسلہ شروع ہوا۔ قتیبہ کو حجاج بن یوسف نے خراسان کا گورنر مقرر کرکے بھیجا تھا۔ 705 ء میں قتیبہ نے طخارستان کے خلاف فوج کشی کی جس کے حکم راں مغربی ترک خانانیت کی ہی ایک شاخ تھے۔

ان کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے خوارزم اور سغد کے درمیان جھگڑوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی اور 706 ء سے لے کر 709 ء تک بخارا کے خلاف اپنی عظیم مہم مکمل کرلی۔ بخارا مسلمانوں کے مقابلے پر شکست تسلیم کرگیا اور قتیبہ نے اس کے تخت پر تخذادہ نامی ایک مقامی حکم راں کو ہی نام زد کردیا۔

بخارا کی شکست نے سمرقند کے ترخان کو بھی قتیبہ سے صلح پر مجبور کردیا۔ اہل سمرقند نے اس صلح کو حکم راں کی بزدلی پر معمول کرتے ہوئے اس کو تخت سے اتار کر اخشید غورک نامی بندے کو تخت پر بٹھا دیا، مگر قتیبہ بجلی کی طرح لپکا اور سمرقند کے لمبے محاصرے اور تاشقند و فرغانہ کے ترک لشکروں کو شکست دینے کے بعد جو کہ سمرقند کی مدد کے لیے آئے تھے۔

اس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ بخارا نے 707 ء اور سمرقند نے 712 ء میں مشرقی ترک خانانیت کے خاقان کو مدد کے لیے درخواستیں بھیجی تھیں اور ہربار ترک خاقان نے اپنے مشہور زمانہ جنرل اور بھتیجے کلتگین کی قیادت میں فوجیں بھیجیں، جن کو قتیبہ نے 707 ء میں بخارا اور مرو کے درمیان کسی مقام پر عبرت ناک شکست دی، لیکن 712 ء میں یہ پورے سغد پر قبضے میں کام یاب رہیں۔ صرف سمرقند کا شہر مسلمانوں کے پاس رہ گیا۔

713 ء میں قتیبہ پھر غراتے شیر کی مانند حملہ آور ہوا اور ان ترکوں کو سغد کے علاقے سے نکال دیا گیا۔ قتیبہ نے غورک کو ایک ماتحت بادشاہ کے طور پر سمرقند میں برقرار رکھا مگر شہر میں ایک فوجی چھاؤنی بھی قائم کردی۔ 713 ء میں ہی اس نے تاشقند جو اس زمانے میں شاش کے نام سے مشہور تھا، اس کے مقابلے پر فوجیں بھیجیں اور خود براستہ خجند، فرغانہ کی طرف روانہ ہوا۔ اسی سال یا اگلے سال وہ تاشقند میں تھا اور یہاں سے اس کی فوجیں پیش قدمی کرتی ہوئی طارم طاس میں چین کے سرحدی شہر کاشغر تک جا پہنچیں اور یہی وہ اہم سفارت تھی جو کہ چینی بادشاہ کی فرمائش پر مسلمان سپہ سالار قیتبہ بن مسلمؒ کی طرف سے بھیجی گئی۔

چین کو مغربی ترک خانانیت اور تبت کے حملوں کا بھی سامنا تھا، پچھلے 30 سالوں سے ان کا اقتدار عورتوں کے ہاتھوں میں تھا اور اقتدار کی گمبھیر کشمکش چل رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ عسکری محاذ پر کوئی قابل قدر پالیسی بنانے سے قاصر رہے اور وہ ہر محاذ پر سیاست کا سہارا لے رہے تھے۔

قتیبہ کے حملوں پر بھی ان کا جواب ان کے اندرونی سیاسی انتشار کی نشان دہی تھی۔ مگر 712 ء میں نئے حکم راں شوانگ –زونگ کے برسراقتدار آتے ہی ان کی آنکھوں میں کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کا خواب لہرانے لگا تھا۔ شوانگ –زونگ پرعزم بادشاہ تھا۔ فرغانہ کے جس بادشاہ کو قتیبہ کے سامنے 712 ء میں راہ فرار اختیار کرنی پڑی تھی۔

اس نے طارم طاس میں ریاست کوچہ میں پناہ لی اور وہ چینی شہنشاہ سے باربار مدد کی درخواست کررہا تھا۔ 715 ء میں قتیبہ کے قتل کے ساتھ ہی مسلم اقتدار ماورالنہر میں کم زور پڑنے لگا تھا، جس کا فائدہ اٹھا کر اس کو دوبارہ فرغانہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ خطے میں طاقت کی بدلتی صورت حال کو دیکھ کر بخارا کا شہنشاہ تخذادہ جسے عربوں نے تخت پر بٹھایا تھا، وہ بھی چینی بادشاہ سے مدد اور مداخلت کی درخواست کررہا تھا، تاکہ عربوں کے اثرونفوذ سے چھٹکارا پا سکے۔

سمرقند کا حکم راں بھی جو کہ عرب بالادستی کو قبول کرنے پر مجبور تھا ایسی ہی خفیہ درخواستیں چینی بادشاہ کی خدمت میں ارسال کررہا تھا۔ اور طخارستان کا ترک حکمراں جس کا لقب یبغو تھا، وہ بھی چینی بادشاہ کی مدد کا طالب تھا۔ ان تمام درخواستوں کے باوجود چینی حکم راں اپنی اندرونی سیاست اور ان گنت بیرونی محاذوں کی وجہ سے خلافت بنوامیہ سے ٹکر مول لینے پر تیار نہ ہوا۔ امدادی درخواستوں کے جواب میں محض تحفے و تحائف اور نئے القابات روانہ کیے گئے۔ چین کی فوجی مدد نہ آئی، لیکن ایک ترک سردار “سو-لو” جو کہ ترکوں کے ترگش خانوادے کا خاقان تھا۔

اس نے ان خطوں کے بھیجنے والوں کی بھرپور مدد کی اور عرب اقتدار کے خلاف 728 ء میں بخارا میں عظیم بغاوت پھوٹ پڑی اور 730 ء میں سمرقند کے بادشاہ نے بھی ترگش خاقان کی مدد سے بغاوت کردی، جس کو عربوں نے 737 ء میں دوبارہ فتح کیا۔ لیکن چین اس کے باوجود ان جھگڑوں سے تبتی اور مشرقی خاقانیت کے مسئلوں کی وجہ سے دور ہی رہا۔

737 ء میں چینی فوج نے تبتیوں کو کوکو –نور ( Nor Koko ) کے پاس عبرت ناک شکست دی اور 746 ء میں چینی جنرل وانگ –چنگ – سو ( Tsu Chung Wang) کی قیادت میں ایک بار پھر اسی طرح کی شکست کا اعادہ ہوا۔ تبت کے ساتھ وجہ تنازعہ شی –پو – چنگ (shi pu cheng) کا قلعہ تھا جو کہ چین نے تبت سے چھینا تھا اور پھر یہ دوبارہ تبت کے قبضے میں چلا گیا۔ یہاں تک کہ 749 ء میں دوبارہ چین کے قبضے میں آگیا۔ تبت کی دوسری طرف تبتی جنگجو کوہ پامیر میں چین کی باج گذار چھوٹی ریاستوں گلگت (پاکستان) بلتستان اور واخان کو نشانہ بنارہے تھے۔

شاہراہ ریشم کا وہ علاقہ جو کہ چین کو ہندوستان کے ساتھ جوڑتا تھا، وہ انہی ریاستوں سے ہوکر گزرتا تھا۔ کشمیر کا بدھ مہاراجا چندرا پدا اور مکتا پدا (سنسکرت نام) بھی چین کے قابل اعتماد اتحادی تھے اور تبت کے ان حملوں کے خلاف اس کے شریک کار۔ تبت کے جنگ جوؤں نے اس کے باوجود گلگت پر قبضہ کرلیا اور چین کو طارم طاس کی ریاست کوچہ سے شاہی جنرل کاؤ –شین –چی ( kao sien-chih ) کی قیادت میں ایک لشکر بھیجنا پڑا۔ جنرل کاؤ کی قومیت کورین تھی۔

اس نے حیرت انگیز طریقے سے کوہ پامیر کے بلندو بالا پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور گلگت میں گھس کر تبت کے وفادار بادشاہ کو تخت سے اتار دیا۔ 749 ء میں طخارستان کے بدھسٹ ترک یبغو “سری منگلا”نے بھی جو کہ قندوز کا فرماںروا تھا، چینی بادشاہ کو ان تبتی گروہوں کے خلاف مدد کے لیے پکارا جو گلگت اور کشمیر کے درمیانی راستوں کو کاٹ رہے تھے۔

چینی جنرل کاؤ نے ایک بار پھر کوہ پامیر کو عبور کرکے750 ء میں ان تبتی جنگ جوؤں کو عبرت ناک سبق سکھایا۔ کاؤ کے ان کارناموں کی شہرت پورے وسط ایشیا میں پھیل گئی اور چین کا اقتدار پھر سے مستحکم ہوگیا۔ اب وہ طارم طاس، وادی ایلی، اسیق کول کے مالک تھے، تاشقند ان کا باج گذار تھا اور طخارستان ان کے زیرعافیت تھا اور سلطنت کوچہ میں بیٹھ کر جنرل کاؤ ان علاقوں کا نظام سنبھالتا تھا۔

مغربی سمت میں طلاس (موجودہ قازقستان جس کا نام قازقستان اور کرغیزستان کی سرحد پر بہنے والے دریائے طلاس کی نسبت سے ہے) کا شہر ان کے اور عباسی خلافت کے درمیان سرحد کی حیثیت اختیار کرگیا۔ مگر یہ سب کچھ ایک دم بکھر کر رہ گیا۔

تاشقند کا ترک فرماںروا جو کہ چینی سلطنت کو مسلسل خراج ادا کررہا تھا، اس کے باوجود جنرل کاؤ نے 750 ء میں اس پر غیرذمے داری کا الزام لگا کر اس کا سر قلم کردیا اور اس کے خزانے پر قبضہ کرلیا۔ اس کا یہ عمل ایک بغاوت کو جنم دینے کا سبب بن گیا۔ مقتول بادشاہ کے بیٹے نے قرلوق ترکوں سے مدد کی درخواست کی جو کہ ایغوروں کے ساتھ مل کر مشرقی ترک خاقانیت کو سنبھال چکے تھے۔ ایسی ہی ایک مدد کی درخواست اس نے سغد میں مقیم اسلامی فوجوں کے سربراہ زیاد ابن صالح کو بھی بھیجی جو نئی عباسی خلافت کے ماتحت تھا، جس کو قیام پذیر ہوئے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا۔ ابن الاثیر اس جھگڑے کی تفصیل فراہم کرتے ہیں:

113″ہجری میں اخشید فرغانہ اور الشاش (تاشقند) کے بادشاہ کے درمیان ایک جھگڑا پھوٹ پڑا۔ اخشید نے شاہ چین سے مدد طلب کی جس نے ایک لاکھ فوج کے ساتھ اس کی مدد کی۔ انہوں نے تاشقند کے بادشاہ کا محاصرہ کرلیا۔ تاشقند کے بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس بات کی اطلاع ابومسلم خراسانی (خراسان کا پہلا عباسی گورنر) تک بھی پہنچ گئی اور اس نے زیاد بن صالح کو ان کے مقابلے کے لیے بھیجا۔”

فرغانہ اور تاشقند کے درمیان سرحدی جھگڑا بڑا پرانا تھا۔ فرغانہ کے بادشاہ نے جس کا لقب اخشید تھا۔ چین سے مدد طلب کی اور مسلمان مورخین کے مطابق ایک لاکھ فوج اس کی مدد کے لیے روانہ کی گئی۔ چینی سلطنت بالآخر خلافت سے ٹکرانے کے لیے تیار تھی۔ چینی مورخین کے مطابق چینی فوج کی تعداد 30 ہزار تھی، جس کے مقابلے پر 2 لاکھ مسلمان فوج تھی۔ دونوں افواج کا بیشتر حصہ گھڑسواروں پر مشتمل تھا۔ چینی فوج کو زرہ پوش گھڑسواروں کی مدد بھی حاصل تھی اور قرلوق قبیلہ جو کہ ان کا اتحادی تھا وہ بھی چین کی طرف سے جنگ میں شریک تھا۔ امام ذہبیؒ مسلم فوج کے متعلق یہ تفصیل فراہم کرتے ہیں:

“یعقوب الفوصی نے ہمیں بتایا کہ 134 ھ میں چین کے حکم راں کی طرف سے ایک عظیم نقل و حرکت کا آغاز ہوا۔ زیاد بن صالح اس وقت سمرقند میں تھا، یہ خبر اس کو ملی کہ چین ایک لاکھ فوج کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے اور ترک دستوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

زیاد بن صالح نے اس کی اطلاع مرو میں ابو مسلم خراسانی کو بھیج دی اور اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا۔ ابو مسلم بھی مرو میں اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا اور طخارستان سے خالد بن ابراہیم بھی اپنی فوجی دستوں کو لے کر آگے بڑھا۔ خراسان کا فوجی دستہ شوال 134 ھ میں سمرقند پہنچا جس کے ساتھ 10 ہزار فوج تھی۔ زیاد بن صالح اس مشترکہ فوج کی قیادت سنبھالے روانہ ہوا اور الشاش کے دریا (سردریا) کو عبور کرگیا۔

چینی فوج پہلے ہی پیش قدمی کرچکی تھی اور سعد بن حمید کی فوج کو گھیرے میں لیا ہوا تھا مگر زیاد کی فوجوں کی خبر پاکر وہ فرار ہوگئے۔ چین کی پہاڑیوں کے فرماںروا (جنرل کاؤ مراد ہے ) نے تلاخ کے قصبے پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا، فوجی ترتیب یہ تھی کہ اس نے تیراندازوں کو اگلی صف میں متعین کیا، نیزہ بردار ان کے پیچھے تھے اور ان کے پیچھے گھڑسوار فوج اور سب سے آخر میں پیادہ فوج۔ دونوں فوجوں میں وحشیانہ ٹکراؤ شروع ہوا ور رات تک لڑائی ہوتی رہی۔”

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “دونوں فوجوں کا ٹکراؤ دریائے طلاس پر ہوا۔ “معرکے کی زیادہ تفصیلات میسر نہیں۔ چینی مورخین کے مطابق لڑائی پانچ دن چلتی رہی۔ مسلم مورخین دنوں کی حتمی تعداد نہیں بتاتے مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل کاؤ اور اس کی چینی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ ہزاروں مقتولین میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگے۔

چینی مورخین شکست کی وجہ ان قرلوق ترکوں کو بتاتے ہیں جو کہ دوران جنگ چینی فوج کو چھوڑ کر کسی وجہ سے مسلم فوج کے ساتھ مل گئے اور چینی فوج کے پہلو پر حملہ کردیا، لیکن یہ بیان اتنا مستند نہیں۔ قرلوق نے غداری کی تھی یا نہیں؟ اس کا حتمی جواب ملنا مشکل ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہر مغلوب فوج کی طرح چینیوں نے یہ کہانی اپنی عبرت ناک شکست کو چھپانے کے لیے بنائی ہو۔

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “جنگ میں 50 ہزار چینی فوجی مارے گئے اور 20 ہزار کو قیدی بنا لیا گیا۔ ” امام ذہبیؒ فوجی نقصان کے بارے میں نہیں بتلاتے ان کا کہنا ہے کہ “لڑائی سارا دن چلتی رہی۔ یہاں تک کے غروب آفتاب کے وقت اﷲ نے چینیوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ راہ فرار اختیار کرگئے۔ ” جنگ کی شدت اور نقصان کے بارے میں اگر ان بیانات کو قبول کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنگ کئی دن چلی ہوگی۔ جنرل کاؤ بہت کم فوجیوں کے ساتھ اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوا اور چین کا اقتدار وسط ایشیا کی سیاست سے اگلے ایک ہزار سال تک موقوف ہوگیا۔

مسلمان فوج نے بھی اس عظیم فتح کے باوجود طارم طاس کے علاقے میں مزید پیش قدمی نہ کی۔ رسد کی لائن بہت لمبی ہوچکی تھی اور طارم طاس کے صحرا کو عبور کرکے آگے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ جو چینی قیدی پکڑ کر مسلم سرزمین پر لائے گئے ان میں ڈو –ہوان ( Huan Du) نامی ایک قیدی بھی تھا، جس کو دس سال مسلم سرزمینوں پر بِتانے پڑے۔ 762 ء میں چین واپسی پر اس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی جس کے چند اجزاء چین کی شاہی تاریخی دستاویزات کا حصہ بن گئے۔ وہ آج سے 1300 سال پہلے کے اسلام اور اسلامی معاشرے کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

” ان کے دارالحکومت کا ایک اور نام کوفہ ہے۔ عربوں کا امیر مومن (امیر المومنین مراد ہے) کہلاتا ہے اور وہ اس مقام پر مقیم ہے۔ اس علاقے کے مرد و عورت بہت خوب صورت اور لمبے قد کے ہیں۔ ان کے کپڑے دیدہ زیب اور اجلے ہوتے ہیں اور ان کا طریق ہائے زندگی بہت ہی شان دار ہے۔ جب ایک عورت کو باہر جانا ہوتا ہے تو چاہے وہ بڑے خاندان کی ہو یا چھوٹے کی اس کو اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپنا ہوتا ہے۔ وہ ہر روز پانچ دفعہ عبادت بجا لاتے ہیں۔ وہ گوشت کھاتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور جانوروں کو ذبح کرتے ہیں (یعنی جھٹکا نہیں کرتے )۔ وہ اپنی کمروں کے اردگرد چاندی کی پٹی باندھتے ہیں جس سے خنجر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے اور نہ موسیقی سنتے ہیں۔ جب وہ آپس میں اکھٹے ہوتے ہیں تو جھگڑتے نہیں۔ ان کے ہاں ایک بہت بڑی عمارت بھی ہے جس میں ہزاروں افراد سما سکتے ہیں۔

ہر ساتویں دن ان کا بادشاہ مذہبی رسوم سرانجام دینے کے لیے باہر آتا ہے (نماز جمعہ کا خطبہ) وہ ایک بلند منبر پر چڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ “زندگی بہت دشوار ہے اور نیکی کا راستہ آسان نہیں ہے، بدکاری (زنا اور فحاشی) گناہ ہے، لوگوں کو باتوں کے ذریعے دھوکا دینا چوری یا ڈکیتی کا کم از کم درجہ ہے، اپنے مفاد کے لیے دوسرے کو برباد کرنا، غریبوں کو دھوکا دینا اور مجبوروں کو ستانا، ان سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو لوگ میدان جہاد میں اﷲ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ جنت میں جاتے ہیں۔

ﷲ کے دشمنوں سے قتال کرو تم جنت میں جاؤ گے۔ ان کی پوری سرزمین بدل چکی ہے ہر کوئی (شریعت کی پابندی ) ایسے کرتا ہے جیسے دریا اپنے کناروں سے باہر نہیں آتا۔ شریعت کا نفاذ انتہائی نرمی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور مردوں کو عزت و احترام کے ساتھ دفنایا جاتا ہے۔ چاہے چھوٹا شہر ہو یا بڑا اس ملک کے لوگ دنیا کی ہر نعمت رکھتے ہیں۔ ان کا ملک دنیا کا مرکز ہے جہاں ہر طرح کی اشیاء بہ افراط اور سستے داموں مل جاتی ہیں۔ موتی و جواہرات اور روپیوں سے ان کی دکانیں بھری ہوئی ہیں اور اونٹوں، گھوڑوں، خچروں پر مال لدا ہوا آتا اور ان جانوروں کی کثرت سے گلیاں و بازار بھرے ہوئے ہیں۔”

کچھ مغربی مورخین و محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسی جنگ میں جو چینی ہاتھ آئے انہوں نے مسلم سرزمینوں پر کاغذ بنانا سکھایا مگر یہ دعویٰ اتنا درست نہیں۔ عرب اس سے پہلے ہی کاغذ کا استعمال کررہے تھے اور اسے بنانے کے طریق کار سے بھی آگاہ تھے۔ اس جنگ نے پورے وسط ایشیا پر اسلامی جوش جہاد کو ایک بار پھر غالب کردیا اور وہ ریاستیں جو یہ سمجھ رہی تھیں کہ چین اسلامی خلافت کے خلاف ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے ان کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور وسط ایشیا میں اسلام کا فروغ اور زور پکڑ گیا۔

چینی جنرل کاؤ 755 ء میں اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ فوجی تیاری کررہی رہا تھا کہ خود چینی سلطنت میں عظیم الشان بغاوت پھوٹ پڑی جس کو کچلنے کے لیے چین کو طارم طاس کے علاقے سے بھی فوجیں نکالنی پڑیں۔ جنرل کاؤ معہ ایک اور فوجی جنرل کے چین کے بادشاہ کے من پسند خواجہ سرا کے غیض و غضب کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عظیم روسی مورخ بار تھولڈ کے مطابق”معرکہ طلاس نے ہمیشہ کے لیے فیصلہ کردیا کہ وسط ایشیا میں کس تہذیب کا غلبہ رہے گا اسلامی تہذیب کا کہ چینی تہذیب کا۔”

(اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل تاریخی مآخذ سے مدد لی گئی ہے “کامل ابن الاثیر حصہ اول اور دوئم مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن اردو ترجمہ “۔ تاریخ طبری حصہ پنجم مطبوعہ نفیس اکیڈیمی اردو ترجمہ “تاریخ اسلام از امام ذہبی۔

” Arab conquest of Central Asia by Edward Gibbon ”

“On the knowledge of Ancient Chinese of the Arabs and Arabian colonies by E.Brestschneider, MD”

“The First Chinese travel record on the Arab world Published by Shah Faisal research institute Saudia”

“Seeing Islam as other saw it by Robert Holyand

اس کے علاوہ یہ نئی آنے والی کتاب “خانہ بدوش” کا بھی ایک حصہ ہے جو کہ وسط ایشیا میں مسلمانوں، ہنوں، ترکوں اور چینیوں میں برپا ہونے والی کشمکش کا حال بیان کرتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2225641/10/



باؤلی :یہ کس بلا کا نام ہے۔۔۔؟
 20 September, 2021


تحریر : خاور نیازی

لفظ '' باؤلی‘‘ جو اُردو میں اکثر استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب '' پاگل عورت‘‘ کے ہیں جبکہ باؤلی ایک ایسے لمبے چوڑے کنوئیں (Step well)کو بھی کہتے ہیں جس میں پانی کی تہہ تک سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں۔ حسبِ ضرورت ان سیڑھیوں کی مدد سے کنوئیں کی تہہ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
آ ج ہم اسی پہ بات کریں گے۔

'' باؤلی‘‘ راجپوت دور میں استعمال ہونا شروع ہوئیں۔
شیر شاہ سوری نے بھی کافی باؤلیاں بنوائیں۔ خاص طور پر جی ٹی روڈ کے آس پاس شیر شاہ سوری کے زمانے کی باؤلیاں اب بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ماضی میں باؤلی صرف مذہبی حیثیت کے تالابوں کے لئے مختص تھیں۔رفتہ رفتہ بر صغیر پاک و ہند میں باؤلیاں مذہبی مقامات سے ہٹ کر بھی رواج پاتی چلی گئیں۔ تاریخ کی کتابوں میں چھٹی صدی عیسوی میں برصغیر پاک و ہند کے ایسے علاقے جہاں خشک سالی کا سامنا رہتا تھا وہاں باؤلیاں تیزی سے رواج پاتی چلی گئیں۔
ایک سروے کے مطابق گجرات کے علاقے میں 120سے زیادہ باؤلیوں کا سراغ ملا ہے۔ٹیکسلا ،گوجر خان ،کلر سیداں ،کہوٹہ ،بھمبر آزاد کشمیر،پلندری اورکھاریاں میں کچھ کچھ باؤلیوں کا سراغ بھی ملا ہے۔ مغلیہ دور میں باؤلیوں نے تیزی سے رواج پایا۔ان میں اکثر باؤلیاں تو اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ ان میں براہ راست ہاتھی اور گھوڑے بھی پانی پینے کی غرض سے اتارے جا سکتے تھے۔ ان باؤلیوں کی یہ خاصیت تھی کہ جانوروں اور انسانوں کیلئے پانی کا الگ الگ انتظام ہوا کرتا تھا۔ اکبر بادشاہ اور ان کے جانشینوں نے تو مغلیہ دورِ حکومت میں جتنے بھی قلعے تعمیر کرائے وہاں باؤلیاں ضرور ملتی تھیں۔ تاریخی عمارتوں خاص طور پر قلعوں میں پانی کے وسیع تر ذخائر کو محفوظ کرنے کیلئے عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنوئیں یعنی باؤلیاں ضرور بنتی تھیں۔ کسی زمانے میں پانی کی رات کی ضرورت کے پیش نظر جن میں تعمیری کام بھی شامل تھے، باؤلیاں استعمال ہوا کرتی تھیں۔گئے وقتوں میں جب جی ٹی روڈ رابطے کیلئے مرکزی شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی، اس کے اطراف ہر کچھ فاصلے پر باؤلیاں پائی جاتی تھیں۔اکثر باؤلیاں اتنی بڑی ہوتی تھیں جن میں کئی گنا زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ ان کی تہہ تک سیڑھیاں بنی ہوتی تھیں ۔یہ اپنی وسعت کے لحاظ سے تالاب سے کافی مشابہت رکھتی تھیں، اِن کا مقصد ہی لمبے عرصے تک پانی ذخیرہ کرنا ہوتا تھا۔
پاکستان کے اکثر شہروں جن میں لوسر (واہ کینٹ)ہٹیاں ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس میں تین باؤلیاں اب بھی باقی ہیں۔ان میں اکثر اتنی بڑی ہیں کہ ان کے ارد گرد راہداریاں اور کمرے بھی بنے ہوئے ہیں جو شدید گرمی کے موسم میں انتہائی ٹھنڈے ہوتے تھے۔ ماضی میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کا نعم البدل ہوتی تھیں موسم گرما میں یہ گرمی سے ستائے لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم بھی نہیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ گرمیوں کے موسم میں امراء اور اعلی حکومتی عہدیدار اپنے دفاتر عارضی طور پر یہاں منتقل کر لیا کرتے اور یوں وہ ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر دفتری کام بھی سرانجام دیتے تھے۔

بعض باؤلیاں تواتنی بڑی ہوا کرتی تھیں کہ ان کے اندر زیر زمین رستے بھی بنے ہواکرتے تھے جو کئی کئی کلومیٹر لمبے ہوتے تھے۔ بعض جگہوں پر تو ایسی باؤلیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جنکے اندر خفیہ رستے بھی بنے ہوتے تھے۔ ان کے بارے قیاس کیا جاتا ہے یہ ہنگامی رستے کے طور پر استعمال ہوتی ہوں گی۔
بعض روایات کے مطابق باؤلیوں کی تعمیر کا آغاز قدیم راچپوت دور سے ہوا تھا لیکن اس کو رواج دینے میں کافی حد تک شیر شاہ سوری کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ اپنے زمانے کی اس بے مثال ایجاد کی روح کو ایک مدت تک زندہ رکھنے کا اعزاز شیر شاہ سوری کو ہی جاتا ہے۔ دراصل شیر شاہ سوری نے جہاں جہاں سڑکیں بنوائیں اور نئے شہر آباد کئے وہاں سب سے پہلے پانی کا مسئلہ حل کیا۔ اس نے جب جرنیلی سڑک تعمیر کرائی تو ہر تین کلومیٹر کے فاصلے پر سرائیں تعمیر کرائیں جہاں ہمہ وقت صاف اور ٹھنڈے پانی کے مٹکے موجود ہوتے تھے۔ جہاں پانی کی طلب زیادہ ہوتی وہاں مستقل کنوئیں اور باؤلیاں تعمیر کرائیں۔ غرضیکہ اُس کی فوجیں جہاں سے گزرتیں وہاں بھی باؤلیاں بنواتا جاتا۔ اس زمانے کی جنگیں آج کی جنگوں کی طرح مختصر دورانئے کی نہیں ہوتی تھیں بلکہ فوجوں کا پڑاؤ بعض اوقات سالوں پر محیط ہوتا تھا۔ایسے میں جب اس کی فوجیں ایک گمنام علاقے لیکن آج کے ایک پر رونق شہر واں بھچراں سے گزریں تو اُنہیں یہاں پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ اس وجہ سے اس نے یہاں ایک بہت بڑاکنواں کھدوایا۔یہ کنواں اپنے وقتوں کا ایک لازوال شاہکار تھا۔ اس کے کھنڈرات کو میانوالی سے لاہور جانے والے آج بھی حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

واں بھچراں میانوالی شہر سے بیس بائیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس منفرد کنوئیں کی تہہ تک جانے کیلئے لگ بھگ چار سو سیڑھیاں ہیں۔اس کنوئیں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ہاتھی اور گھوڑے براہ راست نیچے پانی پینے یا آرام کی غرض سے آسانی سے جا سکتے تھے۔ اس باؤلی کے پہلو میں دو بلند مینار ہیں جو حکومتی عدم توجہی کے باعث کھنڈرات میں بدلتے جا رہے ہیں۔

کتنا خوبصورت اتفاق ہے کہ ایک گمنام قصبے کے ایک کنوئیں نے ایک تاریخی شہر کو جنم دیا جسے بعد میں '' واں بھچراں ‘‘ کہا گیا۔
'' واں ‘‘ دراصل کنوئیں کا مخفف ہے اور
'' بھچراں ‘‘ یہاں ایک قدیم قبیلے '' بھچر‘‘ سے ماخوذ ہے جو پانی کی کشش کے سبب اس کنوئیں کے ارد گرد آباد ہو گیا ۔ یوں اس قصبے کا نام واں بھچراں پڑ گیاجو اب ایک بارونق شہر کا روپ دھار چکا ہے۔ مغلیہ دور ہو یا شیر شاہ کا دور، اُنہوں نے جس کمال مہارت سے لازوال شاہکار عمارتیں تعمیر کرائیں ہم ان کی حفاظت نہیں کرسکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس عظیم قومی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے خاطر خواہ انتظامات کرے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-20/25235



لاہور کے دروازے اور حقیقت،اکبری دروازہ اکبر بادشاہ اور موچی دروازہ صوبیدار موتی رام کے نام سے منسوب ہے
 12 September, 2021


تحریر : تحقیق و ترتیب :۔ سائرہ زمان

پنجاب کا دارالحکومت! دریائے راوی کے مشرقی کنارے پر واقع پاکستان کا دوسرا بڑا شہر۔شہر لاہور نے مغل دورِحکومت میں تعلیمی وثقافتی مرکز ہونے کی حیثیت اختیار کی۔ تاریخی اعتبار سے یہ شہر اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ لاہور کی ابتدائی تاریخ ہندوئوں کی مختلف روایات اور داستانوں پر مشتمل ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس کی بنیاد رامیانہ (Ramayana) کی رزمیہ نظموں کے مشہور ہیرو رام چندر کے دو لڑکوں میں سے ایک کے نام (لوہ) سے لاہور پڑا۔ کشمیر اور راجپوتانہ کی قدیم تاریخی کتب میں یہ ہندوئوں کی ریاست تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق اسے مغربی ہندوستان سے آنے والے راجپوت شہزادوں نے آباد کیا۔ سلطان محمود غزنو ی کے لاہور فتح کرنے سے قبل یہ بدستور ہندوئوں کے قبضے میں تھا۔ مشہور چینی سیاح ہیونگ سانگ، جس نے 630ء میں پنجاب کی سیاحت کی، نے بھی اپنے سفرنامے میں لاہور کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ مسلم مؤرخین میں سے الادریس نے نویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اپنی کتاب ''حتی المشتاق فی افتخار المشتاق‘‘ میں اسے ''لہاور‘‘ (Lahawar) لکھا ہے۔ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب قانون میں اسے ''لوہارو‘‘ (Loharo) لکھا ہے۔ البیرونی نے یہ کتاب محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے کے وقت تحریر کی۔ بطلیموس کے مطابق اس شہر کی بنیاد پہلی صدی عیسوی میں پڑی۔ اس کی اہمیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب محمود غزنوی نے 1002ء میں ہندوستان کا رُخ کیا۔

گیارہویں اور بارہویں صدیوں کے بیشتر حصے میں لاہور محمود غزنویؒ کی دریائے سندھ کے شمال واے مقبوضات کا دارالحکومت رہا۔ محمود غزنویؒ کے بعد 1208ء تا 1450ء غوریوں، خلجیوں، تغلوں، سیّدوں اور لودھیوں کے قبضے میں رہا۔ 1524ء میں بابر نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ مغلوں کا دور سولہویں سترہویں صدی عیسوی میں عروج پر رہا اور کچھ عرصہ تک پایۂ تخت بھی رہا۔ 1773ء میں لہنہ سنگھ لاہور پر قابض ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں لاہور سکھوں کا زبردست گڑھ رہا۔ 1848ء میں سکھوں کا اقتدار بھی ختم ہو گیا اور انگریزوں نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ لاہور نے اُس وقت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم کی حیثیت حاصل کر لی جب 1940ء میں یہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔

1947ء میں قیامِ پاکستان پر پاکستان کے حصے میں آیا اور اس وقت سے لے کر اب تک لاہور کو پاکستان کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت سیّدنا علی ہجویریؒ، حضرت پیرمکیؒ، حضرت میاں میرؒ، حضرت مادھولال حسینؒ، حضرت شاہ محمد غوثؒ کے علاوہ متعدد بلندپایہ اولیاء کرام اور بزرگانِ دین کے مزارات بھی یہیں مرجع خلائق ہیں۔ لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم میں لاہور شہر ایک فصیل کے اندر محدود تھا جس کے بارہ دروازے تھے۔ شام کو یہ دروازے بسلسلہ شہری حفاظت بند کر دیے جاتے تاکہ دُشمنوں یا حملہ آوروں سے شہریوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ تاریخ نے ان کے نام اور ان کی وجہ تسمیہ کچھ یوں بیان کی کہ ''جب مسلمانوں کا زمانہ آیا اور مسلمان بادشاہوں نے غربی ممالک میں قوت حاصل کی تو انہوں نے پنجاب (ہندوستان) کا رُخ کیا۔ جب سلطان محمود غزنوی نے پنجاب پر حملہ کیا تو اس وقت راجہ جے پال برہمن پنجاب کا فرمانروا تھا، جسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل شہر کی کھلی آبادی تھی اور فصیل شہر پناہ نہ تھی۔ اکبر بادشاہ نے اس کے گرد پختہ حصار بنوایا۔ فصیل کی دیوار بہت بلند اور چوڑی تعمیر کی گئی۔ ایک ایک دروازے کے درمیان دس دس بُرج کلاں بنوائے۔ یہ فصیل سکھوں کے دورِحکومت تک قائم رہی۔ انگریزوں کے عہد میں اس قدر بلند فصیل فضول اور بے معنی خیال کرتے ہوئے پہلے بقدر نصف کے گرائی گئی، اس کے بعد باقی فصیل گرانے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک مختصر اور چھوٹی دیوار قائم کر دی گئی جو آج تک موجود ہے۔ اس شہر کے بارہ دروازے اور ایک چھوٹا دروازہ ہے جسے موچی دروازہ کہتے ہیں۔

پہلا ... دہلی دروازہ

یہ دروازہ مشرق کی جانب چونکہ دہلی کی طرف ہے، اس لیے اس کو دہلی دروازہ کہتے ہیں۔ لاہور کے نامی دروازوں میں سے یہ دروازہ ہے اور آمدورفت بھی اس کی بکثرت ہے کیونکہ اسی دروازے کی طرف لاہور ریلوے سٹیشن بنایا گیا ہے اور اسی دروازے کی سمت بڑے بڑے شہر امرتسر اور جالندھر وغیرہ ہیں۔ ریل میں سفر کرنے والے مسافر اور تاجر سب اسی دروازے سے اندر باہر آتے جاتے ہیں۔ اسی دروازے کے اندر سے سیدھی سڑک قلعے کو جاتی ہے۔ مسجد وزیرخان جو باعثِ اقتدار شہر ہے، اسی دروازے کے اندر ہے۔ سرائے وزیرخان اور حمام وزیرخان جو مسجد کے اوقاف میں شمار ہوتا ہے، اسی دروازے کے پاس ہے۔ پرانی عمارت اکبری انگریزوں کے عہد تک موجود تھی مگر نہایت بوسیدہ اور خراب حالت میں، دروازہ بھی تقریباً زمین دوز ہو چکا تھا، یہاں تک کہ ہاتھی کا مع عماری گزرنا بھی محال تھا جس کے باعث انگریزوں نے اس دروازے کو گرا دیا اور اس کی جگہ دو منزلہ دروازہ بنوایا گیا جسے محمد سلطان نامی ٹھیکیدار نے تعمیر کیا۔ دروازے کے دونوں طرف دو دو منزلہ عالی شان عمارتیں بنوائیں اور ان کے درمیان دروازہ تعمیر کیا گیا۔ نیچے کے دو طرفہ مکانات میں پولیس کے سپاہی رہتے تھے اور اُوپر کی منزل میں ایک طرف تو آنریری مجسٹریٹ ومیونسپل کمیٹی کے ممبران کے بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی، جس میں کچہری لگتی تھی تو دوسری طرف پولیس کے افسران رہائش پذیر تھے جن کی تعیناتی دروازے کی حفاظت کے لیے ہوتی تھی۔

دوسرا ... اکبری دروازہ

اس دروازے کو بادشاہِ وقت محمد جلال الدین اکبر نے اپنے نام سے موسوم کیا اور ہر قسم کے غلے کی منڈی اس دروازے کے اندر مقرر کر کے اس کو بھی اکبری منڈی کے نام سے منسوب کیا، لہٰذا آج تک دروازہ اور منڈی دونوں اکبر کے نام سے موسوم ہیں۔ یہ دروازہ بھی نہایت خستہ وبوسیدہ ہو چکا تھا جسے انگریزوں نے قدیمی طرز پر ازسرنو تعمیر کروایا۔

تیسرا ... موتی دروازہ

المعروف موچی دروازہ۔ یہ دروازہ صوبیدار موتی رام کے نام سے منسوب ہے جو اکبر بادشاہ کے قریبی وبااعتماد ساتھیوں میں سے تھا۔ صوبیدار موتی رام تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر مامور رہا، لہٰذا مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ اپنی پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لیے موتی بن گیا۔ سکھوں کے عہد میں موتی کی بچائے موچی پکارا جانے لگا اور پھر موچی دروازے کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس دروازے کے مشرقی دالان میں زمانۂ سلف کی ایک چھوٹی سی پختہ قبر بنی ہوئی ہے۔ مشہور ہے کہ یہاں کسی شہید کا سر دفن ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہ دروازہ گرا دیا گیا تھا جسے بعد میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ دروازے کے ساتھ لاہور کی وہ تاریخی جلسہ گاہ بھی ہے جسے پاکستان کا ''ہائیڈپارک‘‘ بھی کہتے ہیں، کیونکہ لاہور میں جنم لینے والی تمام تحریکوں اور جلسوں کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔ موچی دروازے کے اندر میٹھی گولیاں اور ٹافی بازار بھی ہے، دروازے کے دونوں جانب مساجد ہیں لیکن دروازے کی عمارت موجود ہیں۔
(جاری ہے)
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-12/25217



سلطنت عثمانیہ کے بانی نے اپنے چچا کو کیوں قتل کیا؟ قونیہ کی سلطنت عثمان اول کو کیسے ملی؟
Jun 06, 2021 | 18:40:PM


سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی آخری خلافت تھی جس نے 600 برس تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے تین براعظموں پر دادِ عیش دی، اس سلطنت کی بنیاد ارطغرل کے بیٹے عثمان خان نے رکھی تھی اور اسی کی مناسبت سے آج تک اس سلطنت کو سلطنتِ عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عثمان کی عمر 30 برس ہوئی تو اس کے والد ارطغرل کا انتقال ہوگیا جس پر شاہِ قونیہ نے ارطغرل کا سارا علاقہ عثمان کے نام کرکے اس کو حاکم مقرر کردیا، اسی سال شاہ قونیہ غیاث الدین کیخسرو نے اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردی، 699 ہجری میں غیاث الدین کیخسرو منگولوں کے ایک معرکے میں شہید ہوگیا، اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی بلکہ ایک ہی بیٹی تھی جو عثمان کے عقد میں تھی، اسی بنا پر عثمان کو اراکینِ سلطنت نے متفقہ طور پر قونیہ کے تخت پر بٹھاکر بادشاہ تسلیم کرلیا۔

عثمان خان کی تخت نشینی کے وقت سلطنت قونیہ کی حالت بہت ہی کمزور تھی لیکن اس کے تخت نشین ہوتے ہی اس سلطنت میں جان پڑ گئی کیونکہ عثمان خان کے ساتھی اور اراکین سلطنت اور فوج کے سپاہی اور رعایا سب اس کے حسن سلوک سے خوش تھے۔ عثمان خان میں ایک طرف دینداری اور دوسری طرف شجاعت بدرجہ کمال موجود تھی ، اس نے سب سے پہلے رومیوں سے شہر قرا حصار فتح کیا اور اس کو اپنا دار السلطنت بنایا ۔ اس کی فتح کا واقعہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔

جب عیسائیوں نے عثمان خان کے سلطان بننے کے بعد قونیہ پر حملے کے لیے فوجیں اکٹھی کیں تو عثمان خان نے مشورے کیلئے امرائے سلطنت کو جمع کرلیا ۔ اس موقع پر عثمان خان کا چچا یعنی ارطغرل کا بھائی بھی جو بہت بوڑھا ہوچکا تھا موجود تھا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ہمیں فوج کشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو صلح و آشتی کے ذریعہ اس جنگ کو ٹال دینا چاہیے۔ اگر جنگ برپا ہوئی تو اندیشہ ہے کہ منگولوں اور دوسرے ترک سرداروں کی فوجیں بھی عیسائیوں کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے ملک پر چڑھائی کر دیں گی اور ہم ان سب کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکیں گے، اپنے چچا کی یہ بات سن کر سلطان عثمان خان نے ۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298838?fbclid=IwAR0FnMFoOlt6cimu5SWgqn0l1uX-xc4tneVhv2-NoT-NtYZdP2o8ycbFCTk



وہ یہودی قبیلہ جس کے تمام مردوں کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرنے کا حکم دیا
Sep 12, 2021 | 18:26:PM


غزوہ بنو قریظہ میں جب مسلمانوں نے یہودیوں کی جانب سے سرینڈر کی تمام درخواستیں مسترد کردیں تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے پاس مذاکرات کیلئے حضرت ابوالبابہ رضی اللہ عنہ بن منذر کو بھیجا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی قریظہ کے ساتھ قریبی اور دوستانہ مراسم تھے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوالبابہ رضی اللہ عنہ کو یہودیوں سے مذاکرات کیلئے قلعے میں بھیج دیا۔ آپ کو اپنے بیچ پا کر تمام یہودی آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے اور خواتین اور بچے رونے لگے جس پر آپ کا دل بھر آیا۔

بنو قریظہ نے جب حضرت ابوالبابہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے حکم کو منظور کرلیں اور آپ کے فیصلے پر راضی ہو جائیں۔ حضرت ابو لبابہ نے کہا بہتر ہے لیکن گلے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ذبح کئے جاؤ گے، رسول اللہ ﷺ کا ارادہ تمہارے قتل کا ہے۔ جب حضرت ابوالبابہ نے یہودیوں کو اس بارے میں بتایا تو آپ کو فوری طور پر ندامت ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کردیا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہوئے۔ آپ جب قلعہ سے واپس آئے تو اس درجہ ندامت تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کی بجائے مسجد نبوی میں گئے اور خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ لیا۔ حضرت ابوالبابہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک اسی حال میں رہیں گے جب تک اللہ ان کی توبہ کو قبول نہ کرلے۔ چنانچہ سات روز مکمل اسی طرح بندھے کھڑے رہے ۔ ان کی بیوی اور بیٹی ان کی نگہداشت کرتی تھیں، اس عرصے میں آپ کھانے پینے کے پاس نہ جاتے تھے یہاں تک کہ غشی طاری ہو جاتی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ اگر وہ اول ہی میری پاس آجاتے تو میں ان کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی اب جب کہ وہ یہ کام کر گزرے تو اب توبہ کی قبولیت کے نزول کا انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ سات روز کے بعد آخر شب میں رسول اللہ ﷺ پر یہ آیتیں ان کی توبہ قبول ہونے کے متعلق نازل ہوئیں۔۔۔

’’اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا ﴿صاف﴾ اقرار کرتے ہیں انہوں نے اچھے برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ اللہ ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘


قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوالبابہ کو کو خوشخبری سنائی اور انہیں کھولنا چاہا مگر انہوں نے کہا کہ جب تک خود رسول اللہ ﷺ مجھے نہیں کھولیں گے تب تک اسی حال میں رہوں گے ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے وقت مسجد میں تشریف لائے تو اپنے دستِ مبارک سے ان کو کھولا۔ حضرت ابوالبابہ رضی اللہ عنہ ساری زندگی اپنی توبہ پر قائم رہے اور کبھی بھی دوبارہ بنو قریظہ کے محلے میں قدم نہیں رکھا۔

دوسری جانب یہودی مسلمانوں کے محاصرے سے عاجز آگئے اور ہتھیار ڈال دیے اور قلعے سے باہر نکل آئے۔ مسلمانوں نے خواتین اور بچّوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے۔بعدازاں، قبیلہ اوس کے اصحاب آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ کچھ نرمی کا معاملہ کیا جائے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’کیا ان کا معاملہ تمہارے سردار سعدؓ بن معاذ کے سُپرد کر دوں؟ وہ جو چاہیں فیصلہ کریں۔

حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کوغزوہ خندق میں تیر لگا تھا جس کے باعث وہ شدید زخمی تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد کے احاطہ میں ایک خیمہ لگوا کر اس میں ٹھہرا دیا تھا۔ ان کے بلانے کے لئے آدمی بھیجا، آپ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے جب آپ ﷺ کے قریب پہنچے تو یہ فرمایا۔۔ اپنے سردار کی تعظیم کے لئے اُٹھو۔ جب آپ کو آپ کی سواری سے اتار کر بٹھایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں نے اپنا فیصلہ تمہارے سپرد کیا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ نے کہا میں ان کی بابت یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والے یعنی مرد قتل کئے جائیں اور عورتیں اور بچے اسیر کر کے لونڈی غلام بنا لئے جائیں اور اُن کا تمام مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک تو نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا۔

حضرت سعد کے فیصلے کے بعد تمام بنی قریظہ گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے اور ایک انصاری عورت کے مکان میں ان کو قید رکھا گیا ۔ بازار میں ان کے لئے خندقیں کھدوائی گئیں بعد ازاں دو دو چار چار کو اس مکان سے نکلوایا جاتا اور ان خندقوں میں ان کے سر قلم کیے جاتے تھے ان میں بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد اور وہ حئی بن اخطب بھی شامل تھا جس نے قریش مکہ اور دیگر قبیلوں کو مسلمانوں کے بارے میں بھڑکایا اوراب تک کی عرب تاریخ کا سب سے بڑا لشکر تیار کرواکے جنگِ خندق کا باعث بنا تھا۔ عورتوں میں سوائے ایک عورت کے کوئی عورت قتل نہیں کی گئی جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے کوٹھے سے چکی کا پاٹ گرایا تھا جس سے حضرت خلاد بن سوید رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔حئی بن اخطب کو جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے لایا گیا تو اس نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Sep-2021/1339712?fbclid=IwAR3GisjvQbTc8F4Xc_SnpDmwB6PpphASlwfIYsOSoKXtm4M3fcoC8AwWYk4



امریکہ کے چار صدور قتل ہوئے لیکن وہ صدر جو کنپٹی پر پستول ہونے کے باوجود بچ گئے، حیران کن تاریخی واقعہ
Sep 06, 2021 | 19:10:PM


واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ کے چار صدور اب تک قتل ہو چکے ہیں۔ان میں امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن، 35ویں صدر جان ایف کینیڈی، 20ویں صدر جیمز اے گارفیلڈ اور 25ویں صدر ولیم مک کنلے شامل ہیں۔ لنکن اور کینیڈی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے تاہم جیمز گارفیلڈ گولی لگنے کے بعد آپریشن تھیٹر آلودہ ہونے کے سبب انفیکشن لاحق ہونے سے اور ولیم مک کنلے پیڑو میں گولی لگنے کے بعد گینگرین لاحق ہونے سے موت کے منہ میں گئے۔ ان چاروں کے علاوہ کئی دیگر امریکی صدور پر بھی حملوں کی منصوبہ بندیاں ہوئیں مگر وہ محفوظ رہے۔ ان محفوظ رہنے والے خوش قسمت صدور میں38ویں صدر جیرالڈ فورڈ بھی شامل ہیں جن کے قتل کی منصوبہ بندی بدنام زمانہ امریکی گینگ’ مینسن فیملی‘ نے کی تھی۔

ڈیلی سٹار کے مطابق یہ 5ستمبر 1975ءکا واقعہ ہے جب صدر جیرالڈ کیلیفورنیا سٹیٹ کیپیٹل بلڈنگ میں تقریب سے خطاب کرنے کے لیے گئے تھے۔ وہاں مینسن فیملی کی لینیٹ فروم نامی 27سالہ لڑکی پستول لے کر پہنچ گئی۔وہ پستول اندر لیجانے میں تو کامیاب ہو گئی، لیکن پستول چلانے میں اناڑی ہونے کی وجہ سے وہ گولی فائر کرنے میں ناکام رہی۔ لینیٹ اگلی قطار تک پہنچ گئی اور جب صدر جیرالڈ اندر آئے تو لینیٹ نے اپنی ٹانگ کے ساتھ لگا پستول نکالا اور صدر جیرالڈ پر تان کر ٹریگر دبا دیا مگر اناڑی ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جانتی تھی کہ اس پستول کی گولی جب تک مینوئیلی چیمبر میں نہ پہنچائی جائے فائر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کا پستول تان کر ٹریگر دبانا بیکار گیا اوراسے گرفتار کر لیا گیا۔

گرفتاری کے دوران لینیٹ نے بتایا تھا کہ وہ صدر جیرالڈ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے انہیں قتل کرنا چاہتی تھی جو فضائی آلودگی کا سبب بن رہی تھیں۔ اس نے کہاکہ وہ لوگوں کو صاف ہوا، صحت مندانہ پانی مہیا کرنے اور جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے کے لیے صدر جیرالڈ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔عدالت کی طرف سے لینیٹ کو عمر قید سنائی گئی اور اسے ویسٹ ورجینیا کی ایلڈرسن فیڈرل جیل میں قید کر دیا گیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 22ستمبر 1975ءکوگرفتاری کے 17دن بعد لینیٹ کے خلاف اس مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی اور اسی دن ساراجین مور نامی خاتون نے صدر جیرالڈ کو قتل کرنے کی کوشش کی اور پستول سمیت پکڑی گئی۔

صدر جیرالڈ پر یہ حملہ سین فرانسسکو میں ہوا تھا جہاں وہ ورلڈ افیئرز کونسل سے خطاب کرنے گئے تھے۔ سارا جین صدر جیرالڈ سے 40فٹ کے فاصلے پر تھی جب اس نے ریوالور سے فائر کیا اور گولی صدر کے سر سے 6انچ کے فاصلے سے گزر گئی۔ایک سابق فوجی افسر نے سارا کو دبوچنے کی کوشش کی تاہم اس دوران اس نے دوسرا فائر کر دیا جو ایک سابق ٹیکسی ڈرائیور جان لوڈویگ کو لگا۔ گرفتاری کے بعد سارا کو بھی عمر قید کی سزا ہوئی اور اسے بھی اسی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں لینیٹ قید تھی۔ ان دونوں نے بعد ازاں جیل سے فرار ہونے کی کئی کوششیں کیں مگر ناکام رہیں۔ 23دسمبر 1987ءکو لینیٹ اپنی تنظیم مینسن فیملی کے بانی چارلس مینسن سے ملنے کے لیے جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تاہم اسے 2دن بعد ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان دوحملوں کے بعد صدر جیرالڈ نے بلٹ پروف اوور کوٹ پہننا شروع کر دیاتھا۔ انہوں نے 93برس عمر پائی اور 2006ءمیں اپنے گھر میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ امریکہ کے اب تک کے طویل ترین عمر پانے والے صدر ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Sep-2021/1337244?fbclid=IwAR3hxpuO9J-U9Da_eRifvVXdcRf7PAFaa8GQXSLU0GoHJv-JfGpTPc8sCMk



رسول اللہ ﷺ کے وہ صحابی جنہیں شہادت کے بعد فرشتوں نے غسل دیا
Sep 05, 2021 | 18:40:PM

سورس: Wikimedia Commons

غزوہ احد میں جب انفرادی مقابلوں میں مشرکین مکہ کا کوئی آدمی زندہ نہ بچا تو انہوں نے اکٹھے ہو کر بھر پور حملہ کیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتدا کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ جب کفار بھاگ رہے تھے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا، اسی دوران وحشی بن حرب نے گھات لگا کر انہیں شہید کردیا جس کے بعد ہندہ نے ان کا کلیجہ چبایا اور ان کے ناک کان کاٹ کر ان کے زیور بنائے۔

حضرت وحشی نے جنگ طائف کے بعد اسلام قبول کیا، آپ حضرت حمزہ کی شہادت کا واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔ مَیں ایک پتھر کے پیچھے چُھپا ،اُن کے اپنے نشانے پر آنے کے انتظار میں تھا کہ اچانک سباع بن العزی اُن کی زد میں آ گیا۔ حضرت حمزہؓ نے اُسے للکارتے ہوئے اس زور سے تلوار ماری کہ اُس کا سَر کٹ کر دُور جا گرا اور بس یہی وقت تھا کہ جب حضرت حمزہؓ میرے نشانے پر تھے۔ مَیں نے پوری قوّت سے اپنا نیزہ اُن کی طرف اچھال دیا، جو اُن کے پیٹ میں ناف کے پاس لگا اور آرپار ہو گیا۔ ‘‘

ایک مرتبہ وحشی بن حرب ایک وفد کے ساتھ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔رسول اللہ ﷺ کی نظر جب اُن پر پڑی تو فرمایا’’وحشی تم ہی ہو؟‘‘ اُس نے کہا’’جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے اُسے معاف تو فرما دیا تھا، لیکن فرمایا’’تم میرے سامنے نہ آیا کرو، مجھے اپنے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ حضرت وحشی دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ اسلام کی جتنی بڑی شخصیت میرے ہاتھوں سے شہید ہوئی ہے اسلام کے اتنے ہی بڑے دشمن کا میرے ہاتھوں سے خاتمہ کرا۔ اسی طرح حضرت حمزہ کی شہادت کا ازالہ ہوگا۔ حضرت وحشی کی یہ دعا قبول ہوئی اور جنگ یمامہ میں آپ نے اسی نیزے سے جس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کو جہنم واصل کیا۔

غزوہ بدر میں ایک اور نوجوان صحابی حضرت حنظلہ کا شوقِ شہادت بھی زبردست تھا، ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، آپ شادی کی پہلی رات بیوی کے ساتھ تھے کہ جہاد کے لیے پکارا گیا۔ جیسے ہی اعلان سُنا’’ لبّیک، رسول اللہؐ لبّیک‘‘ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ نئی نویلی دلہن نے کہا’’ رات کے صرف چند گھنٹے ہی باقی ہیں، یہاں ٹھہر جایئے، صبح چلے جایئے گا‘‘، لیکن عشقِ مصطفیٰﷺ سے مخمور اور شوقِ شہادت سے سرشار حضرت حنظلہؓ بولے ’’ مت روکو! اللہ کے محبوبؐ کی جانب سے جو حکم آ گیا ہے ،اس میں ایک لمحے کی بھی تاخیر رَوا نہیں۔‘‘ میدانِ اُحد میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے کہ دُور سے ابو سفیان نظر آ گیا۔

برق رفتاری سے مشرکین کی صفوں کو چیرتے ، محافظوں کا گھیرا توڑ کر ابو سفیان کے سر پر جاپہنچے۔ تلوار کا بھرپور وار کیا جو گھوڑے کو لگا اور وہ چیخ و پکار کرتا گھوڑے سمیت زمین پر آگرا۔ حضرت حنظلہؓ نے دوسرے وار کے لیے تلوار ہوا میں لہرائی۔ قریب تھا کہ ابو سفیان کا سَر جسم سے الگ ہو جاتا، اُس کے محافظ نے آگے بڑھ کر حملہ کر دیا اور حضرت حنظلہؓ شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد صحابہ ؓنے دیکھا کہ اُن کی لاش غائب ہے، پھر کافی دیر کے بعد لاش اس حال میں ملی کہ اُس سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ خوش بُو سے مہک رہی تھی۔

صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا ’’تمہارے ساتھی حنظلہؓ کو فرشتوں نے غسل دیا ہے، جا کر اُس کے گھر والوں سے معلوم کرو۔‘‘ صحابہؓ اُن کے گھر گئے، تو بیوی نے بتایا کہ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336885?fbclid=IwAR2_-zC1EAys4m6E6zHju2gg88VBnfXZtGaJSFrfPAJw39EwUhxink0UEj0



غزوہ احد میں ایک کافر کو رسول اللہ ﷺ نے نیزہ مارا تو اس کا کیا حشر ہوا؟
Sep 05, 2021 | 18:46:PM

سورس: File/Wikimedia Commons

غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے کے بعد کفار نے رسول اللہ ﷺ پر تیر اندازی شروع کی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سامنے آ کر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے کہ تیر مجھے لگے میرے سرکار کو نہ لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے کافروں کے تیر روکتے لیکن انہیں کسی تیر سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جو بھی تیر آتا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسے اپنے ہاتھوں سے روک کر کافروں کی طرف پھینکتے جس سے کافروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مشرکین مکہ واصل جہنم ہو نے لگے ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اس بہادری کے منظر کو دیکھا تو زبان نبوت سے ایسا اعزاز و انعام نصیب ہوا جو سوائے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ حضور ﷺنے فرمایا : سعد رضی اللہ عنہ ایک تیر اور پھینک تیرے تیر پھینکنے پر میرے ماں باپ قربان۔

حضرت طلحہؓ حضورﷺ پر ہونے والے تلواروں کے وار اپنے ہاتھوں اور شانوں پر روکتے رہے۔ مشرکین کے حملے اتنے شدید تھے کہ اُن کا زرہ کے نیچے ہاتھ اور شانہ شل ہو کر بے کار ہو گیا، انگلیاں کٹ کر نیچے گر گئیں۔ حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ کو 35 سے زاید زخم آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا’’ اُحد کے دن ہم سب لڑائی کے لیے اگلی صفوں میں چلے گئے تھے۔ پھر گھیرائو کے بعد مَیں پہلا شخص تھا، جو حضورﷺ کے پاس پلٹ کر آیا۔ دیکھا کہ آپؐ کے سامنے ایک آدمی ڈھال بنا، آپؐ کی طرف سے لڑائی کررہا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ یہ طلحہؓ ہی ہوں گے۔ میرے ماں باپ طلحہؓ پر فدا ہوں، وہ طلحہؓ ہی تھے۔ اتنے میں ابو عبیدہؓ بن جراح بھی دوڑتے ہوئے میرے پاس آگئے۔ ہم دونوں آنحضرتؐ کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ آپؐ کے آگے طلحہؓ بچھے پڑے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا’’ اپنے بھائی طلحہؓ کو سنبھالو، اس نے جنّت واجب کرلی ہے۔‘

جنگ کے دوران حضرت سعدؓ کے بھائی، عتبہ بن ابی وقاص نے نبیٔ رحمتﷺ کی جانب پوری قوّت سے پتھر اُچھالا، جو آپﷺ کے رُخِ انور کو مجروح کر گیا۔ آپؐ کا داہنا نچلا دانت ٹوٹ گیا اور نچلے ہونٹ پر بھی زخم آیا۔ اسی اثنا میں ایک اور مُشرک عبداللہ بن شہاب زہری نے آپؐ کی پیشانی زخمی کردی۔ ایک اور کافر گھڑ سوار عبداللہ بن قمعہ مجمع چیرتا آگے بڑھا اور سرکارِ دو عالمﷺ پر تلوار سے وار کیا، جو شانے پر لگا، لیکن دو زرہیں ہونے کی وجہ سے شانہ تو محفوظ رہا، مگر اس کی چوٹ کافی عرصے تک تکلیف دیتی رہی۔ پھر اُس بدبخت نے چہرۂ مبارک پر تلوار ماری، جو خَود (لوہے کی ٹوپی) پر لگی اور خود کی دو کڑیاں رُخسارِ مبارک کے اندر دھنس گئیں۔ چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا۔ آپؐ زخمی حالت میں پاؤں پھسلنے سے ایک گڑھے میں جاگرے، جس سے آپؐ کے پاؤں میں موچ آگئی۔

رسول اللہ ﷺ کی تکلیف اور زخموں کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ حضورﷺکو میدانِ جنگ سے پہاڑ کی گھاٹی میں محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے۔ راستے میں چڑھائی تھی اور حضورﷺ زخمی بھی تھے۔ پھر دو زِرہیں بھی زیبِ تن تھیں، لہٰذا اوپر چڑھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے نیچے بیٹھ کر آپؐ کو کاندھوں پر اُٹھا لیا اور چٹان تک پہنچ گئے۔ ایک بار پھر حضورﷺ نے فرمایا’’ طلحہؓ نے جنّت واجب کرلی۔

اللہ کے رسولؐ احد کی گھاٹی میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر آرام فرما رہے تھے کہ اچانک باہر شور کی آواز آئی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ مشرک سردار، اُبی بن خلف چند لوگوں کے ساتھ باآواز بلند کہتا آرہا ہے کہ’’ آج محمّدرہیں گے یا مَیں(نعوذ باللہ)‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا’’ اسے قریب آنے دو۔‘‘ جب وہ قریب آیا، تو سَر سے پائوں تک لوہے کے لباس میں ملبوس تھا۔ صرف خَود اور زِرہ کے درمیان چھوٹی سی جِھری سے اُس کا حلق نظر آ رہا تھا۔

اِس سے پہلے کہ وہ حملے کی جسارت کرتا، آنحضرتﷺ نے قریب موجود حضرت حارثؓ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اُس کی جانب اُچھال دیا، جو اسی جِھری سے اندر جاکر حلق میں چُبھ گیا۔ وہ گھوڑے سے گرا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنی قوم کے پاس چیختا ہوا پہنچا کہ’’ لوگو! محمّد نے مجھے قتل کردیا ہے۔‘‘ سب نے اُس کا مذاق اڑایا کہ یہ تو بہت چھوٹی سی چوٹ ہے، لیکن وہ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336886?fbclid=IwAR2Ou7eXGXZK3aft3R8rtKipa6F8_64ciZfZcLLqpqRPcSyVHFToe4MCjik



وہ غزوہ جس میں حضرت علیؓ نے ایک ہی وار سے قریش کےمشہور سردار کو ڈھیر کردیا
Sep 05, 2021 | 18:36:PM

سورس: Wikimedia Commons

غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مٹھی بھر لشکر نے بے سرو سامانی کے عالم میں کفار کے اپنے سے تین گنا اور اس وقت کے جدید اسلحے سے لیس لشکر کو شکست دی جس کے باعث قریش مکہ کو بہت زیادہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی شرمندگی کا ازالہ کرنے کیلئے کفار نے ایک بار پھر جنگ کی تیاری شروع کردی ، چونکہ ابو جہل مارا جا چکا تھا اس لیے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا گیا ۔یہاں یہ واضح رہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔کفار مکہ کی تیاری عروج پر تھی جس میں مزید جوش اور ولولہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا پیدا کر رہی تھیں، آپ حضرت ابو سفیانؓ کی اہلیہ تھیں اور آپ نے بھی فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔ ہندہؓ اس لیے بھی مسلمانوں بالخصوص حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ سے بدلہ لینا چاہتی تھیں کیونکہ انہوں نے ان کے باپ عتبہ بن ربیعہ کو غزوہ بدر کے دوران قتل کیا تھا۔

جنگ احد کی تیاری اتنی شدت سے کی گئی کہ شام سے آنے والے تجارتی قافلے کا سارا نفع اس میں لگادیا گیا، قریش نے تین ہزار کا لشکر تیار کیا جس میں سے 700 افراد زرہ پوش تھے، ان کے پاس 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تھے۔ جب کفار کی یہ تیاریاں جاری تھیں تو اس وقت حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ میں ہی موجود تھے جو کفار کی تیاری کی اطلاعات رسول اللہ ﷺ کو پہنچاتے رہے۔

دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کو کفار کی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ نے صحابہؓ سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کرنے کی بجائے شہر سے باہر مقابلہ کیا جائے۔ اس مشاورت کے بعد رسول اللہ ﷺ ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ سے اس کے روابط قائم تھے یہ دوسرے منافقین مدینہ کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہا۔ مدینہ سے نکلتے وقت یہ اسلامی لشکر میں موجود تھا لیکن طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسلامی لشکر نے مارچ کیا۔ نماز فجر شوط میں ادا کی جہاں سے دشمن کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا تو عبداللہ بن ابی نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت صدائے احتجاج بلند کی کہ جنگ کے بارے میں ہماری بات نہیں مانی گئی کہ ہم مدینہ میں محصور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن چند نوجوانوں کے کہنے پر کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ پس عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہوگیا۔

اس لشکر میں ہندہ بھی شامل تھیں، انہوں نے مکہ میں رہتے ہوئے اپنے گھر پر محافل کرائیں اور لوگوں میں جوش و جذبہ بیدار کیا، اس کے بعد ان سمیت کئی خواتین جنگ کے میدان میں بھی آئیں، ان خواتین نے جنگی نغمے پڑھ کر کفار کے جوش کو بڑھایا، ہندہ نے اپنے ایک غلام وحشی بن حرب کو خصوصی طور پر اس بات کا مشن دیا کہ وہ حضرت حمزہؓ کو شہید کرے گا جس کے بعد ہندہ ان کا کلیجہ چبائیں گی۔ وحشی بن حربؓ بھی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ یہ لشکر جب ابو کے مقام پر پہنچا تو ہندہ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہؓ کی قبر کی بے حرمتی کی جائے لیکن کفار مکہ اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوئے اور اس مشورے پر عمل کرنے سے باز رہے۔

احد میں شوال کے مہینے میں سنہ تین ہجری میں جنگ ہوئی، مسلمانوں کی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے پیچھے احد پہاڑ تھا ، یہاں ایک درہ بھی تھا جس سے کفار کے حملے کا خدشہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر کے تحت اس درے پر 50 تیر اندازوں کو تعینات کیا اور انہیں ہدایت کی کہ تاحکم ثانی اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں۔

جنگ کے آغاز پر ابو سفیانؓ نے جنگی چال چلی ، چونکہ پہلے ہی 300 منافق مسلمانوں کو چھوڑ کر جاچکے تھے اس لیے قبیلہ بنو اوس کے سردار ابو عامر کو میدان میں اتارا۔ وہ رسول اللہﷺ اور اسلام کا سخت دشمن تھا۔ مسلمانوں سے عداوت کی بنا پر مکّے میں رہنے لگا تھا تاکہ قریش کو مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ کر سکے۔ ابو عامر نے قریش کو یقین دِلایا تھا کہ جب وہ میدانِ جنگ میں آواز لگائے گا، تو انصار اسلامی لشکر سے نکل کر اُس کے پاس آ جائیں گے۔

اُس نے میدان میں آ کر آواز لگائی’’اے مدینے کے لوگو! دیکھو مَیں ابوعامر راہب ہوں۔ آئو میرے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ انصار نے جواب دیا’’اے فاسق شخص ہم تجھ کو خُوب اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ اس موقع پر ابو عامر فاسق کے صاحب زادے، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا’’یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیجیے، اس مشرک کی گردن اُتار دوں۔‘‘ مگر آپﷺ کے جذبۂ رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کے خون سے رنگین ہو۔ ابو عامر فاسق شرمندہ و رُوسیاہ ہو کر واپس پلٹ گیا۔

ابو عامر واپس پلٹا ہی تھا کہ کفّار کی صفوں کو چیرتا ہوا ایک مضبوط و توانا نوجوان ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے میں چمکتی تلوار لہراتا میدانِ جنگ میں آیا۔ یہ کفّار کا عَلم بردار اور بنی عبدالدار کا سردار ابو طلحہ بن ابی طلحہ تھا، جسے اپنی طاقت و بہادری پر بڑا ناز تھا۔ حضرت علیؓ میدان جنگ میں آئے اور اس زور سے تلوار کا وار کیا کہ طلحہ کی لاش زمین پر تھی۔ بعض روایات میں حضرت زبیر رضی اللہ کا نام بھی آیا ہے کہ طلحہ کو اُنھوں نے قتل کیا، جس پر نبی کریمﷺ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور فرمایا۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336884?fbclid=IwAR3JfbRd60SFJHiq80e8YgZy8cryw8ITBON_MvvnlmNvASXwY4SuuZumSi4



نبی کریم ﷺ کا معجزہ، جب آپ ﷺ کے لعاب دہن کی برکت سے تھوڑا سا کھانا ہزاروں کیلئے کافی ہوگیا
Sep 05, 2021 | 19:04:PM

سورس: File

غزوہ احزاب میں خندق کی کھدائی کے دوران مسلمانوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا لیکن ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے، صحابہ کرام بھوک اور پیاس کے عالم میں بھی رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی کرکے پوری دلجمعی کے ساتھ خندق کی کھدائی کا کام کرتے رہے۔ حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر دکھائے، ہم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے، اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنا شکم مبارک کھول کر دکھایا جس پر آپ سرکار نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔

خندق کی کھدائی کے دوران معجزات نبوی بھی دیکھنے کو ملے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیاچنانچہ میں حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ کو صبر کی تاب نہیں رہی کیا گھر میں کچھ کھانا ہے؟ بیوی نے کہا کہ گھر میں ایک صاع جو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس جو کو پیس کر گوندھ لواور اپنے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ میں نے ذبح کرکے اس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا کہ جلدی سے تم گوشت روٹی تیار کر لومیں حضور ﷺ کو بلا کرلاتا ہوں،چلتے وقت بیوی نے کہا کہ دیکھنا صرف حضور ﷺ اور چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لاناکھانا کم ہی ہے کہیں مجھے رسوا مت کر دینا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آ کر چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!ﷺ ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کرایا ہے لہٰذا آپ ﷺصرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرما لیں،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے خندق والو!جابر نے دعوت عام دی ہے لہٰذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹی مت پکوانا،چنانچہ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیااور یہ فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اتاری جائے پھر روٹی پکنی شروع ہوئی۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336889?fbclid=IwAR2Ou7eXGXZK3aft3R8rtKipa6F8_64ciZfZcLLqpqRPcSyVHFToe4MCjik



وہ وقت جب یہودی قبیلے نے عین جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دیا
Sep 05, 2021 | 19:13:PM


غزوہ خندق کے دوران مدینہ کے شمال کی جانب خندق کی کھدائی ہوچکی تو کفار کا لشکر بھی مدینہ پہنچ گیا۔ 8ڈی قعدہ کی صبح رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں اور بچّوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم فرمایا اور تین ہزار مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوگئے۔دوسری طرف، کفّار کا دس ہزار جنگ جُوئوں پر مشتمل لشکر بھی آگے بڑھ رہا تھا۔ کفّار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک بڑی خلیج اُن کی منتظر ہے۔ جب خندق نے اُن کے بڑھتے قدم روکے، تو وہ حیران پریشان رہ گئے۔ وہ اس طرح کی حفاظتی حکمتِ عملی سے قطعی طور پر لاعلم تھے۔ ہزاروں کا لشکر بے بسی سے خندق کے سامنے کھڑا تھا۔ اُن کے سردار غیظ و غضب کے عالَم میں خندق کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ مسلمان بھی اُن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور تیروں کی بوچھاڑ سے اُنہیں خندق سے دُور کرتے جاتے تھے۔

ایک روز مقابل کفار نے تیر اندازی اور پتھراؤ کے ذریعے اجتماعی طور پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی چار نمازیں قضا ہوگئیں، اسی دن عرب کے چند مشہور بہادر خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگئے تھے جن میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ اور عکرمہ بن ابو جہل شامل تھے۔ اُن میں عمرو بن عبدو بہادری اور شجاعت میں عرب کا ناقابلِ شکست جنگ جُو تھا۔ اُس نے جب حضرت علیؓ کو دیکھا، تو مقابلے کے لیے للکارا۔ حضرت علیؓ نے اُس90سالہ جنگی ہیرو کو ایک ہی وار میں زمیں بوس کر دیا، جب کہ اُس کے باقی ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ کفار نے نوفل کی لاش قیمت کے بدلے طلب کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے مفت دے دی۔

سردی کی سخت ترین راتیں تھیں۔ کفار کے مال مویشی مرنے لگے اور محاصرہ ٹوٹنے کی کوئی صُورت نظر نہ آتی تھی۔ اب بے زاری اور پریشانی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ ایسے میں اُنھیں صرف ایک ہی اُمید تھی کہ مسلمانوں کے حلیف بنی قریظہ کو غدّاری پر آمادہ کیا جائے۔ یہ یہودی قبیلہ مدینے کے جنوب مشرقی کونے میں رہتا تھا اور معاہدے کی رُو سے مسلمانوں کے دشمنوں سے جنگ کا پابند تھا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے اہل و عیّال اُن کے قلعوں کے قریب منتقل کیے تھے۔ کفّار نے یہودی سردار حئی بن اخطب کو اپنا نمائندہ بنا کر اُن لوگوں کے پاس بھیجا۔ پہلے تو بنی قریظہ نے اُنہیں صاف جواب دے دیا، لیکن پھر حئی بن اخطب کے مسلسل اصرار اور سبز خوابوں کے جال میں پھنس کر یہودی ذہنیت اُن پر غالب آ گئی اور وہ معاہدے سے انحراف پر راضی ہو گئے۔ رسول اللہﷺ کو اس غدّاری کی اطلاع ملی، تو آپ ﷺ نے انصار سرداروں سعدؓ بن محاز، عبداللہؓ بن رواحہ، سعدؓ بن عبادہ اور خواتؓ بن جبیر کو فوری طور پر اُن کے پاس بھیجا۔ تاہم، بنو قریظہ نے معاہدے کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ یہ خبر مسلمانوں کے لیے بے حد اضطراب و پریشانی کا باعث بنی، کیوں کہ سب کے اہل و عیّال اُسی جانب تھے۔

تاہم، منافقین کے لیے یہ اطلاع خوش آئند تھی اور اُنہوں نے افواہوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ جنگ اور محاصرے کے دَوران یہ نازک لمحات آنحضرتؐ کے لیے فکر مندی اور تشویش کا باعث تھے، لیکن پھر اللہ نے اپنے محبوبﷺ کو جلد ہی اس پریشانی سے نجات کا انتظام کر دیا۔ قبیلہ غطفان کے ایک بااثر یہودی رئیس نعیم بن مسعود نے آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نعیم بن مسعود کے بنو قریظہ اور کفّارِ مکّہ کے اکثر سرداروں سے قریبی تعلقات تھے۔ اُن کے اسلام لانے کا علم ابھی اُنھیں نہیں ہوا تھا، چناں چہ اُنھوں نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت بنو قریظہ اور قریش کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا، جس سے کفّار کے حوصلے چکنا چُور ہوگئے۔نعیم بن مسعود نے بنو قریظہ قبیلے کے لوگوں سے کہا۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336890?fbclid=IwAR1BPwM7B_VJrBR2Omnj6XhaPV0jtfEeEUsp-KLpksMOnnukWuaX8MC1DJ0

No comments:

Post a Comment