اوٹاوا: کینیڈین سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی زبان پر خصوصی مہارت حاصل کرنے والے افراد کےلیے ڈیمنشیا کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال اسی طرح کی ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ جو لوگ کم عمری سے تعلیم حاصل کرنا شروع کردیتے ہیں اور بڑے ہو کر پیچیدہ مہارت والے پیشے اختیار کرتے ہیں، انہیں ڈیمنشیا کا خطرہ دوسروں کی نسبت کم ہوتا ہے۔
یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف واٹرلُو، کینیڈا میں پروفیسر ڈاکٹر سوزین ٹیاس کی قیادت میں کی گئی ہے جس میں ’’نن اسٹڈی‘‘ (Nun study) کہلانے والے ایک طویل اور وسیع مطالعے سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا، جس کا آغاز 1986 میں ہوا تھا۔
اس تحقیقی مطالعے میں ’’اسکول سسٹرز آف نوٹرے ڈیم‘‘ کی 678 خواتین راہبائیں (nuns) بطور رضاکار شریک تھیں جن کی عمریں (مطالعے کے آغاز پر) کم از کم 75 سال تھیں۔ (2017 تک ان میں سے صرف تین سسٹرز ہی زندہ رہ گئی تھیں۔)
ڈاکٹر سوزین اور ان کے ساتھیوں نے ’’نن اسٹڈی‘‘ میں شریک، ایسی 472 سسٹرز کی طبّی معلومات کا جائزہ لیا کہ جن میں ڈیمنشیا سے پہلے کی علامت ’’ایم سی آئی‘‘ (MCI) ظاہر ہوچکی تھی، یعنی ان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگی تھی۔
ان کی صحت سے متعلق تقریباً 9 سالہ بعد تک کا ڈیٹا کھنگالنے پر معلوم ہوا کہ جو سسٹرز اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور جنہیں پیچیدہ انگلش گرامر پر عبور حاصل تھا، ان کی اکثریت (تقریباً 84 فیصد) میں ڈیمنشیا اپنی ابتدائی علامت سے آگے نہیں بڑھ پایا؛ جبکہ 30 فیصد سے کچھ زیادہ سسٹرز کی یادداشت اور اکتسابی صلاحیتیں جلد ہی معمول پر واپس آگئیں۔
اس کے برعکس وہ سسٹرز جو بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اور جن میں لسانی مہارت بھی بہت واجبی سطح پر تھی، وہ چند سال بعد ہی ڈیمنشیا میں مبتلا ہوچکی تھیں۔
ریسرچ جرنل ’’نیورولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح معنوں میں حاصل کی گئی اعلیٰ تعلیم اور پوری لگن سے سیکھا گیا ہنر نہ صرف مادّی طور پر ہمارے لیے بہتر ہیں بلکہ یہ ہمارے دماغ کو بھی مضبوط بناتے ہیں اور کئی نفسیاتی و ذہنی بیماریوں سے بھی بچاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2293018/9812/
نیند سے متعلق وہ من گھڑت کہانیاں جو الٹا نقصان دہ ہیں
Feb 11, 2022 | 18:16:PM
سورس: Pixahive.com (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) دیگر کئی چیزوں کی طرح نیند کے متعلق بھی کئی طرح کے من گھڑت مفروضے اور کہانیاں پائی جاتی ہیں جنہیں نیند کے حصول کے لیے بہت فائدہ مند بتایا جاتا ہے مگر اب ایک سلیپ ایکسپرٹ نے 5ایسی کہانیوں کو الٹا نیند کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا ہے۔ دی سن کے مطابق جیمز ولسن نامی اس ماہر نے بتایا ہے کہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہمیں بہتر نیند کے لیے جلدی سونا چاہیے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ہر حال میں 8گھنٹے کی نیند لینی چاہیے، تھکے ہوئے ہوں تو بے وقت بھی سو جانا چاہیے، ہفتہ وار چھٹیوں میں نیند پوری کرنے کے لیے دیر تک سوتے رہنا چاہیے اور بھاری کمبل اوڑھ کر سونا چاہیے۔
جیمز ولسن کا کہنا ہے کہ یہ تمام نیند کے متعلق پائے جانے والے ایسے عام خیالات ہیں جو الٹے نقصان دہ ہیں۔ اچھی نیند کے لیے جلدی سونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ آپ کو اپنے نیند کے وقت پر ہی سونا چاہیے۔ اسی طرح 8گھنٹے کی نیند کے لیے جتن کرنے کی بجائے اتنا ہی سونا چاہیے جتنے میں آپ کی نیند بخوبی پوری ہو جائے اور تھکاوٹ کے باوجود اپنے نیند کے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ جلدی سو جانا الٹا تھکاوٹ میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ہفتہ وار چھٹیوں میں زیادہ سونا آپ کی نیند کے معمول کو بگاڑ کر رکھ دے گا جس سے آپ کی نیند کا معیار بری طرح متاثر ہو گا۔ اسی طرح بھاری کمبل نیند کے معیار میں بہتری کی بجائے خرابی کا سبب بنتا ہے۔ آپ کو کمبل اتنا ہی بھاری استعمال کرنا چاہیے جتنا آپ کے لیے مناسب ہو۔
https://dailypakistan.com.pk/11-Feb-2022/1401981?fbclid=IwAR3F-D-rchjDOdOWzOKub83RovlF0cIeZRxn2u-RX6HIVNFRM2BXJ9Iu_Uc
کراچی: ناک، کان اور حلق سے متعلق امراض کے ماہرین نے کہا ہے کہ سماعت کے امراض میں مبتلا افراد کی موجودہ تعداد 45 کروڑ ہے جو کہ 2050 میں90 کروڑ ہوجائے گی۔
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں سماعت سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے کی وجہ شور کی آلودگی ہے جسے کنٹرول کیے بغیر ہم سماعت سے متاثرہ افراد کی تعداد کم نہیں کر سکتے، ڈبلیو ایچ او نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد ہی دنیا میں ایک ارب افراد سماعت کے مسائل کا شکار ہونے والے ہیں، یہ باتیں عالمی یوم سماعت پر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج اوجھا کیمپس اور رتھ فاؤ سول اسپتال کراچی میں منعقدہ الگ الگ سیمینارز میں کہیں۔
اوجھا کیمپس او پی ڈی بلاک میں سیمینار سے ڈاکٹر سلمان مطیع اللہ، ڈاکٹر سلمان احمد، ڈاکٹر مرتضی احسن، پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی اور پروفیسر اوصاف احمد نے خطاب کیا جبکہ سول اسپتال کے ای این ٹی وارڈ میں میڈیکل سپرینٹنڈنٹ ڈاکٹر نور محمد سومرو، ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسرصبا سہیل اور ای این ٹی وارڈ کی سربراہ پروفیسر زیبا احمد نے بھی خطاب کیا، ماہرین نے کہا کہ دنیا میں عالمگیر وبا کرونا کے باعث گھر بیٹھے آن لائن کام کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ آن لائن کام کرنے والے افراد میں اکثر سماعت کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے آن لائن کام کرنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ کام کے دوران ہرایک گھنٹے بعد 10 منٹ کا وقفہ ضرور کریں انہوں نے کہا کہ ہینڈز فری اور ہیڈ فون وغیرہ کا استعمال لاؤڈ اسپیکر کے مقابلے میں سماعت کے لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ لاؤڈ اسپیکر سے سننے کے دوران توجہ کسی اور جانب مبذول ہوسکتی ہے جبکہ ہینڈز فری مائیکرو فون سے ساری توجہ ایک ہی جانب رہتی ہے اور سماعت پر مسلسل پریشر پڑتا ہے اور وقفہ نہیں آتا ، ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل نے کہا کہ عوام میں آگاہی کے لیے بڑے پیمانے پر اجتماعات کرنے کی ضرورت ہے۔
سول اسپتال کے میڈیکل سپرینٹنڈنٹ ڈاکٹر نور محمد سومرو نے کہا کہ سول اسپتال میں سماعت سے محروم بچوں کو ناصرف علاج کیا جاتا ہے بلکہ تربیت بھی کی جاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2292799/9812/
آکسفورڈ: اگرچہ اس پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے لیکن اب مزید شواہد ملے ہیں کہ زائد گوشت خوری کئی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے اور گوشت کم کھانے سے قریباً تمام اقسام کے سرطان سے بچاؤ ممکن ہے۔
ماضی کی بعض تحقیقات کے مطابق بہت زیادہ گوشت کھانے سے بعض اقسام کے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم ان کی سائنسی وجوہ کی کھوج اب تک جاری ہے۔ اب جامعہ آکسفورڈ سے وابستہ ڈی فل طالبعلم کوڈی ویٹلنگ نے کہا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مطالعہ ہے جس سے عیاں ہے کہ گوشت خوری جس طرح بڑھتی جائے گی عین اسی طرح سرطان کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
اپنی تحقیق میں کوڈی نے زور دے کر کہا ہے کہ گوشت خور سے سُن یاس کے بعد بریسٹ کینسر، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کینسر کا خدشہ بطورِ خاص پیدا ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں برطانوی بایوبینک میں موجود ڈیٹابس سے 472,377 افراد کا جائزہ لیا گیا اور ایک عرصے تک ان پر نظر رکھی گئی۔ لاکھوں افراد کی اوسط عمر 40 سے 70 برس تھی اور مسلسل گیارہ برس تک ان کی طبی کیفیات کا جائزہ لیا گیا۔
2006 سے 2010 کے درمیان ان تمام افراد کو بھرتی کیا گیا جبکہ تمام افراد کینسر سے دور اور تندرست تھے۔ ان میں سے 52 فیصد افراد نے ہفتے میں پانچ مرتبہ گوشت کی عادت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مچھلی، سرخ گوشت اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔ 43 فیصد افراد نے صرف مچھلی کھانے کا اعتراف کیا جبکہ دس ہزار یعنی دو اعشاریہ تین فیصد افراد نے صرف سبزی کھانے کا اعتراف کیا۔
گیارہ برس بعد لگ بھگ 54,961 افراد میں کسے درجے کا کینسر دیکھا گیا۔ ان میں 5,882 کو بڑی آنت، 9,501 افراد کو پوسٹیٹ اور 7,537 خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہوا۔ اب معلوم ہوا کہ سبزیاں کھانے سے عددی طور پر سرطان کا خطرہ 14 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ مچھلی کھانے والوں میں اس کی شرح 10 فیصد کم دیکھی گئی جبکہ زائد گوشت کھانے والوں میں کینسر کا غیرمعمولی رحجان دیکھا گیا۔
https://www.express.pk/story/2292389/9812/
حالیہ طویل تحقیق اور سروے کے مطابق مکمل اناج اور ریشےدار غذاؤں کا رحجان بزرگوں کو ڈیمنشیا جیسی انتہائی تکلیف دہ اور مہلک بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔
الزائیمر اور ڈیمنشیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس مرض میں یادداشت متاثر ہوتی ہے، سماجی کام کاج مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات ڈیمنشیا فالج کی وجہ بھی بنتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ دنیا میں اموات کی ساتویں بڑی وجہ بھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ گری دار پھل، سبزیوں اور دیگر اقسام کے پھلوں سے ڈیمشنیا کا خطرہ ٹالا جاسکتا ہے اور دماغ کو تندرست رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم اب جاپانی ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ ریشے دار (فائبر) غذائیں کھانے سےمستقبل میں اس مرض کے خطرات کو بہت حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔
نیوٹریشنل نیوروسائنس نامی جرنل میں 3700 افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 40 سے 64 برس تھیں۔ یہ سارے لوگ بہت تندرست تھے جنہیں 1985 سے 1999 تک جائزہ لیا گیا۔ اس دوران 670 افراد معذور کرنے والے ڈیمنشیا کے شکار ہوئے۔ لیکن جنہوں نے دلیہ اور دیگر ریشے دار غذائیں کھائیں وہ اس کے وار سے بہت حد تک محفوظ رہے۔
عالمی ڈیٹا کے تحت 2028 تک دنیا بھر میں ڈیمنشیا کے مریضوں کی تعداد میں مزید سوا کروڑ افراد کا اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن غذائی احتیاط سے مرض کی شدت اور عالمی بوجھ کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2291015/9812/
شاعروں نے یاد ماضی کو عذاب سمجھا ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن سائنس کہتی ہے کہ مثبت اور خوشگوار یادیں یا ناسٹجلیا سے درد کی شدت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اچھی اور دلچسپ یادوں سے دماغ کے اندر درد کی سرگرمی ماند پڑسکتی ہیں۔ چینی ماہرین نے اس کا انکشاف دماغی سرگرمیوں کی اسکیننگ سے کیا ہے اور اس کی روداد جرنل آف نیورو سائنس میں شائع کی ہے۔
چینی اکادمی برائے سائنس کے ماہرین نے کئی بالغ افراد کے دماغ کے فنکشنل (ایف) ایم آرآئی کیے۔ اس میں مختلف افراد کو یادوں سے وابستہ تصاویر دکھائی گئیں اور اس دوران دماغ میں درد کی ایک سرگرمی تھرمل اسٹیوملائی کو نوٹ کیا۔
اس میں بچپن، اسکول کی عمر اور لڑکپن کی تصاویر مثلاً اس وقت کا مشہور کارٹون، مقبول کھیل، کوئی ٹافی وغیرہ دکھائی گئی۔ ساتھ ہی آج کے دور کی مشہور تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ اس پورے عمل کے دوران تمام رضا کاروں کے دماغ کا ایف ایم آر آئی سے جائزہ لیا گیا۔
ماہرین نے دیکھا کہ جب جب انہیں بچپن کی خوشگوار یادوں سے وابستہ تصاویر دکھائی گئیں تو ان کے دماغ میں درد کی شدت یا اس سے وابستہ مقام پر سرگرمی دیکھی گئی۔ قریباً تمام شرکا نے جدید تصاویر کے مقابلے میں ماضی کی یاد سے جڑی تصاویر دیکھ کر درد میں کمی کا اعتراف کیا اور اپنے سکون کا اظہار بھی کیا۔ اس ضمن میں پرانی یادوں کا سب سے مثبت اثر دیکھنے میں آیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق خوشگوار یادوں سے وابستہ کوئی تحریر، تصویر یا ویڈیو وغیرہ دیکھنے سے دماغ کے دو حصوں کی سرگرمی کم ہوتی ہے۔ ان میں لیفٹ لینگول جائرس اور پیرا ہیپوکیمپل جائرس شامل ہیں۔
یہ دونوں مقام درد محسوس اور پروسیس کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر اسی مقام سے تکلیف کا احساس آگے تک پہنچتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کسی دوا کے بغیر درد کم کیا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہےکہ جب درد محسوس کریں تو خوشگوار یادوں کو ذہن میں تازہ کریں یا پھر اس سے وابستہ اشیا پر غور کریں۔
https://www.express.pk/story/2291530/9812/
دنیا بھر میں وافر اگنے والا پھل آلوچہ یا آلوبخارا خشک ہونے پر ہڈیوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر عمررسیدہ خواتین اسے معمول میں شامل رکھیں تو ان کی ہڈیوں کی کثافت (بون ڈینسٹی) برقرار رہتی ہے۔
اگرچہ آلوبخارا ہماری پسندیدہ اشیا کی فہرست میں شامل نہیں لیکن اسے طبی فوائد کے لیے ضرور کھایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی خواتین ہڈیوں کی کمزوری اور تکلیف کی شکار ہیں۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی کھوج بتاتی ہے کہ بالخصوص 40 برس سے زائد عمر کی خواتین آلوبخارے کی 50 سے 100 گرام مقدار کھائیں تو اس سے ہڈیوں کا بھربھرا پن کم ہوسکتا ہے۔
خواتین میں سُن یاس کے بعد آکسیڈیٹو اسٹریس اور اندرونی سوزش (انفلیمیشن) سے ہڈیوں کی اندرونی کثافت کم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ فریکچر کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ اب اس مرحلے پر آلوبخارے کو نہ صرف اس عمل کو روکا جاسکتا ہے بلکہ اسے مکمل طور پر الٹانا بھی ممکن ہے۔
اس ضمن میں چوہوں پر کئی تجربات کئے گئے۔ پھر 16 مختلف تحقیقات کا جائزہ بھی لیا گیا جن میں دس کلینیکل اور دو پری کلینکل ٹرائلز شامل ہیں۔ چوہوں کو جب آلوبخارے کے اجزا کھلائے گئے تو ان میں آکسیڈیٹوواسٹریس کی کمی ہوئی اور اندرونی سوزش کم ہونے لگی جو کئی امراض کی وجہ بنتی ہے۔
تاہم ماہرین کا مشورہ ہے کہ روزنہ دس آلوبخارے مسلسل ایک سال تک کھائیں تو اس سے خاطرخواہ فوائد حاصل ہونے لگتےہیں۔ جبکہ چھ ماہ تک یہ معمول رکھیں تو اس سے ہڈیاں نرم پڑنے کا سلسلہ رک جائے گا۔ ڈاکٹروں کے مطابق بالخصوص 50 سال سے زائد عمر کی خواتین میں اس کے واضح فوائد دیکھے جاسکتے ہیں۔
خواتین کی نرم اور بھربھری ہڈیوں کا نتیجہ آخرکار گٹھیا اور جوڑوں کے دیرینہ درد کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہڈیاں نازک ہونے لگتی ہیں اور بار بار فریکچر کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں 20 کروڑ سے زائد خواتین اس کی شکار ہیں۔ اگرچہ سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے کچھ فوائد ملتے ہیں لیکن اب آلوبخارا شامل کرکے ہڈیوں کو تندرست رکھا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2290979/9812/
ہم جانتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی نیند کم ہوجاتی ہے۔ اس کی سائنسی وجہ بیان کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ بڑھاپے میں ہمیں ہیدار کرنے والے دماغی خلیات (عصبئے) غیرمعمولی طور پر سرگرم ہوجاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر بزرگوں کی نیند اتنی متاثر کیوں ہوتی ہے؟ سائنسدانوں کے مطابق 65 برس سے زائد عمر کے مردوزن کی 50 فیصد تعداد بے خوابی اور نیند میں کمی کی شکایت کرتی ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لوئس دی لیسیا کے مطابق اگر عمررسیدہ افراد میں الزائیمر یا دیگر دماغی عارضے ہوں تو ان کی 80 فیصد تعداد شدید بے خوابی کی شکار ہوجاتی ہیں۔ پھر واضح رہے کہ نیند کی کمی مزید کئی دماغی عارضوں کو بھی جنم دیتی ہے۔
تجربہ گاہ میں جوان اور بوڑھے چوہوں کے دماغ میں ان نیورون کا مشاہدہ کیا گیا جو ایک مشہور مقام ہپوتھیلیمس سے خارج ہوکر’ہائپوکریٹن‘ نامی پروٹین بنارہے تھے۔ یہ پروٹین انسان کو بیدار کرنے یا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور چوہوں میں بھی یہی کام کرتے ہیں۔
پہلے خیال تھا کہ شاید دماغی اندرونی برقی نظام، یا سرکٹ کسی طرح بری نیند کی وجہ بنتا ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ہائپوکریٹن عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتے ہوتے 80 فیصد ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ لیکن اصل وجہ کچھ اور نکلی وہ یہ کہ بوڑھے چوہوں میں ہائپوکریٹن کے فائر یا سرگرم ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ یہ بیداری کی وجہ بنتے ہیں اور یوں بوڑھے لوگ نیند کی کمی کی بجائے جگانے والے پروٹین کی زائد سرگرمی سے جاگتے رہتے ہیں۔
اگرچہ چوہوں کے ماڈل انسان کی برابری نہیں کرسکتے لیکن اس کی کچھ تعبیر ضرور کی جاسکتی ہے۔ اب شاید بوڑھے انسان بھی ہائپوکریٹن کی زائد سرگرمی سے بسترپرکروٹ بدلتے رہتے ہیں اور نیند کوسوں دور ہوتی ہے۔
تاہم جامعہ ایڈنبرا میں نیند اوردماغ کے ماہر ریناٹا ریہا نے اس تحقیق کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے معمے کا حل قرار دیا ہے۔ تاہم پروفیسر لوئس کے مطابق یہ ہمارے سوال کا نصف جواب ہوا اور اب ہم دیکھیں گے کہ بوڑھے افراد میں نیند کا محرک بننے والا نظام کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2290089/9812/
امریکی اور چینی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق کے بعد دریافت کیا ہے کہ درد ختم کرنے والی بعض دوائیں ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور فالج تک کی وجہ بھی بن سکتی ہیں کیونکہ ان میں سوڈیم ہوتا ہے۔
ان دواؤں میں سرِفہرست نام پیراسیٹامول کا ہے جسے پانی میں فوری حل ہونے کے قابل بنانے کےلیے سوڈیم کی اچھی خاصی مقدار شامل کی جاتی ہے۔
نمک کا اہم ترین جزو سوڈیم ہے جو ہماری صحت کےلیے بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر جسم میں اس کی مقدار زیادہ ہوجائے تو یہی سوڈیم ہمیں صحت مند بنانے کے بجائے ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور فالج جیسی بیماریوں میں مبتلا بھی کرسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ایک دن میں 2000 ملی گرام (آدھے چائے کے چمچے) سے زیادہ سوڈیم ہمارے جسم میں پہنچنا نہیں چاہیے جبکہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے یہ حد اس سے بھی کم، یعنی 1500 ملی گرام مقرر کی ہوئی ہے۔
اس مقررہ حد کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پیراسیٹامول (ایسیٹامینوفن) کی 500 ملی گرام والی ہر گولی میں تقریباً 400 ملی گرام سوڈیم شامل ہوتا ہے۔
یہی وہ گولی ہے جو ساری دنیا میں روزمرہ درد سے نجات کےلیے سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور تقریباً ہر میڈیکل اسٹور پر دستیاب رہتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ روزانہ پیراسیٹامول کی صرف دو گولیاں بھی کھاتے ہیں، وہ اپنی غذا میں 800 ملی گرام سوڈیم مزید شامل کر رہے ہوتے ہیں جو آگے چل کر ان کی صحت کےلیے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ یہ جاننے کےلیے انہوں نے عوامی صحت سے متعلق ایک وسیع برطانوی ڈیٹابیس کھنگالا۔
اس میں سے 60 سال یا زیادہ عمر کے تقریباً تین لاکھ برطانوی شہریوں کی صحت سے متعلق مفصل اعداد و شمار الگ کیے گئے جو ایک سال کا احاطہ کرتے تھے۔
یہ تمام بزرگ وہ تھے جو روزانہ پیراسیٹامول استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے تقریباً نصف بغیر سوڈیم کی، جبکہ باقی سوڈیم والی پیراسیٹامول لے رہے تھے۔
جو بزرگ سوڈیم والی پیراسیٹامول روزانہ استعمال کررہے تھے، ان میں اگلے ایک سال کے دوران دوسروں کی نسبت ہائی بلڈ پریشر، دل کے دورے اورفالج وغیرہ جیسے امراض اور موت کا خطرہ کچھ زیادہ تھا۔
سوڈیم کی مقدار اور امراضِ قلب میں تعلق اتنا واضح ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
چونکہ یہ تحقیق اعداد و شمار کی بنیاد پر کی گئی تھی جس میں کسی بھی شخص کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ماہرین پوری طرح یہ نہیں بتا سکتے کہ سوڈیم کی اضافی مقدار کس طرح ان لوگوں کی صحت پر اثر انداز ہوئی ہوگی۔
یورپین ہارٹ جرنل کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے وابستہ ماہرین نے مزید مطالعے پر زور دیا ہے۔
تاہم انہوں نے اس جانب سے بھی خبردار کیا ہے کہ ادویہ ساز ادارے اپنی تیار کردہ ادویہ میں شامل سوڈیم کی مقدار کے بارے میں لیبل پر کچھ نہیں لکھتے۔
ماہرین نے ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں، دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ دواؤں میں سوڈیم کی موجودگی اور استعمال کی حد سے متعلق مریضوں کو ضرور بتائیں کیونکہ یہ اس قدر اہم پہلو ہے کہ جسے موجودہ معلومات کی روشنی میں بالکل بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
https://www.express.pk/story/2289976/9812/
امریکی طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ منشیات میں شمار کی جانے والی سائیلوسائیبن المعروف ’جادوئی کھمبی‘ سے نہ صرف شدید ڈپریشن میں فوری کمی واقع ہوتی ہے بلکہ یہ اثرات کم از کم ایک سال بعد بھی برقرار رہتے ہیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں یہ تحقیق ڈاکٹر رونلڈ آر گرفتھس اور ان کے ساتھیوں نے انجام دی جس میں 21 سے 75 سال کے 24 رضاکار بھرتی کیے گئے تھے۔
یہ رضاکار درمیانی سے لے کر انتہائی شدت کے ڈپریشن میں مبتلا تھے جنہیں جادوئی کھمبی کے جزوِ خاص ’سائیلوسائیبن‘ کی دو خوراکیں دی گئیں: پہلی خوراک 20 ملی گرام (فی 70 کلوگرام) تھی جس کے دو ہفتے بعد انہیں 30 ملی گرام (فی 70 کلوگرام) والی دوسری خوراک دی گئی۔
سائیلوسائیبن استعمال کرنے کے بعد ان افراد میں ایک، تین، چھ اور بارہ ماہ بعد ڈپریشن کی شدت (معیاری ٹیسٹ کے ذریعے) معلوم کی گئی۔
مشاہدات سے پتا چلا کہ ان رضاکاروں میں سائیلوسائیبن کی دو خوراکیں لینے کے ایک سال بعد بھی ان کے 74 فیصد اثرات موجود تھے جبکہ ان میں ڈپریشن کی شدت 58 فیصد تک کم ہوچکی تھی۔
اس پورے عرصے کے دوران رضاکاروں میں سائیلوسائیبن کے مضر اثرات بھی نہیں دیکھے گئے جبکہ ان میں سے بیشتر نے اپنی زندگی کو بہتر اور بامعنی قرار دیا، جو ڈپریشن ختم ہونے کی ایک اہم ظاہری علامت بھی ہے۔
جرنل آف سائیکوفارماکولوجی کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر نتالی گیوکاسیان نے بتایا کہ چند رضاکاروں نے سائیلوسائیبن لینے کے بعد، ایک سال، میں ڈپریشن کی دوسری دوائیں بھی استعمال کیں۔
یہ خبریں بھی پڑھیے:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائیلوسائیبن کے طویل مدتی اثرات کو مکمل طور پر ’خالص‘ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ، مجموعی حیثیت میں خاصے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ جادوئی کھمبی کے اہم ترین جزو کا ڈپریشن کے خلاف جادو واقعتاً ایک سال بعد بھی برقرار رہا۔
بتاتے چلیں کہ بھنگ اور جادوئی کھمبی سمیت، منشیات کے طور پر استعمال ہونے والے مختلف پودوں حالیہ برسوں میں نئے سرے سے طبّی تحقیق (میڈیکل ریسرچ) کا آغاز ہوا ہے جس سے ان کی نت نئی اور صحت افزا خصوصیات سامنے آرہی ہیں۔
یہ تحقیق بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
https://www.express.pk/story/2289447/9812/
اگرشہروں میں پیدل چلنے کے محفوظ انتظامات کئے جائیں تو وہاں کی آبادی میں موٹاپے اور ذیابیطس کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ اس کا عملی ثبوت حالیہ تحقیق سے بھی ملا ہے۔
اس ضمن میں یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے ماہر گیلیان بوتھ اور ان کی ٹیم نے 170 سروے اور مطالعات کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ جاگنگ اور سائیکلنگ کے بہت فوائد ہوتے ہیں لیکن جن شہروں میں عام افراد کو پیدل چلنے کی فٹ پاتھ، بحفاظت راہداریاں اور سہولیات دی جائیں تو وہاں کے لوگ ذیابیطس اور موٹاپے سے دور رہتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ تھوڑی دورتک جانے کے لئے بھی انہیں موٹرسائیکل استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انہوں نے اس سروے میں مجموعی طور پر 32700 افراد کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جن علاقوں میں پیدل چلنے کی اچھی سہولیات تھیں وہاں کے بالغ افراد میں موٹاپے کی شرح 43 فیصد تھی جبکہ گنجان علاقوں اورپیدل چلنے کی کمی والے شہروں میں اس کی شرح 53 فیصد دیکھی گئی۔
دوسرے سروے میں گیارہ لاکھ لوگوں کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پیدل چلنے کے لیے نامناسب علاقوں میں رہنے والے افراد میں دیگر کے لحاظ سے خون میں شکر کی سطح 20 فیصد کم ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس کے شکار نہیں بن پاتے ہیں۔ اس مطالعے کا دورانیہ مسلسل آٹھ برس طویل تھا۔
یہ تحقیق بتاتی ہے کہ شہروں کو اس طرح بنایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ افراد چھوٹے فاصلوں کے لیے پیدل چلیں اور یوں اس کے طبی فوائد حاصل کرسکیں۔ یہ تحقیق پاکستان کے تناظرمیں بھی درست ہے جہاں تجاوزات کی بھرمار میں فٹ پاتھ غائب ہوتے جارہے ہیں اور راستے پیدل چلنے والوں کے لیے موافق نہیں رہے۔
https://www.express.pk/story/2289551/9812/
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دل کی بیماریوں میں کرائے جانے والے اکثر ٹیسٹ اور علاج غیر ضروری ہوتے ہیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (اے ایچ اے) کے مطابق low-value میڈیکل کیئر کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ اکثر دل کے مریض ایسے معالجے یا ٹیسٹ سے گزرتے ہے جو اُن کی طبی حالت کے مطابق نہیں ہوتا۔
لو-ویلیو میڈیکل کیئر کی اصطلاح ان معالجوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو انسدادِ مرض کیلئے غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکیوں کے 30 فیصد سالانہ اخراجات غیر ضروری طبی سہولیات پر خرچ ہوتے، جن کا تخمینہ تقریباً 101 ارب ڈالرز کے قریب بنتا ہے۔۔
اس کے علاوہ ایسے افراد جن میں شریانوں کی رکاوٹ دور کرنے کیلئے اینجیوپلاسٹی یا سرجری ہوئی ہوتی ہے اُن کو کچھ ورزشی ٹیسٹس سے گزرنا پڑتا ہے تاہم کبھی کبھی ان میں وہ افراد بھی شامل ہوجاتے ہیں جنہیں کوئی قلبی عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔
اے ایچ اے کے ایک سینئر عہدیدار ڈاکٹر وینے کینی نے بتایا کہ طبی شعبوں میں غیر پیشہ ورانہ پریکٹس جب معمول بن جاتی ہے تو اسے ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر رچرڈ کوویکس کہتے ہیں کہ متعدد ڈاکٹرز طبی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ذاتی تجربات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ڈاکٹرز غلطی پر قانون کی زد میں آنے کے خوف سے دفاعی رول اپناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ وغیرہ کریں تاکہ مرض سے متعلق کوئی چھوٹی سے چھوٹی پیچیدگی بھی نظرانداز نہ ہو اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جن کا مقصد صرف فیسوں کا حصول ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2289517/9812/
اسٹرابری کو غور سے دیکھیں تو یہ دل کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور دل کے لئے بھی بہت مفید ہوتی ہے۔ یہ کینسر سے بچاتی ہے۔ ایچ ڈی ایل یعنی مضر کولیسٹرول کم کرتی ہے اور بلڈ پریشر بہتر بناتی ہے۔
اسٹرابری کولسیٹرول، چکنائی، سوڈیئم اور دیگر اجزا سے پاک ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ بہت خوشذائقہ اور صحت بخش پھل بھی ہے۔ اس میں موجود پولی فینولزاور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ دوسری جانب وٹامن سی کی ایک اچھی مقدار اس میں پائی جاتی ہے جبکہ پوٹاشیئم اور مینگنیز بھی اس میں خوب پایا جاتا ہے۔
اسٹرابری کا تعلق گلاب کے خاندان سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ خوشبودار بھی ہوتی ہے۔ اب اس کے طبی فوائد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
امراضِ قلب سے بچائے
2019 کے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ اسٹرابری میں ایک قیمتی مرکب اینتھوسیانِن پایا جاتا ہے۔ یہ مرکب دل کے امراض کو ٹالتا ہے اور قلبی صحت کو برقرار رکھتا ہے۔ اس میں موجود پوٹاشیئم بھی دل کے لئے بہت مفید قرار دیا گیا ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق پوٹاشیئم جتنا زیادہ کھایا جائے دل کی کیفیت اتنی ہی بہتر ہوتی جاتی ہے۔
فالج کو بھگائے
2016 میں 11 کلینیکل ٹرائلز یعنی طبی آزمائشوں کا تجزیاتی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ فلے وینوئڈ کھانے سے فالج کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ اسٹرابری میں فلے وینوئڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو فالج کے عمل کو روک سکتی ہے۔
کینسر کے خلاف مؤثر
2016 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اسٹرابری اور دیگر اقسام کی بیریاں کئی اقسام کے کینسر کو روکنے یا ٹالنے کا کام کرسکتی ہے۔ اسٹرابری بالخصوص چھاتی اورآنتوں کے کینسرکے خطرے کو روک سکتی ہیں۔ پھر شاید یہ جگر، پھیپھڑوں اور لبلبے کے سرطان کو بھی روک سکتی ہے۔
تاہم ماہرین کا ایک اور گروہ متفق ہے کہ اسٹرابری میں موجود لاتعداد مفید کیمیکل باہم مل کر سرطان کے بنیادی عمل کو روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتےہیں۔
ہائی بلڈ پریشر
جو لوگ بلند بلڈ پریشر کے شکاررہتے ہوں وہ اسٹرابری ضرورآزمائیں۔ 2012 اور 2018 پر ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اسٹرابری کا سوڈیئم فوری طور پر بدن کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس سوڈیئم کی وجہ سے دل قوی ہوتا ہے اور بلڈ پریشر قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2288282/9812/
ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو عمر رسیدہ خواتین باقاعدگی سے چھوٹے موٹے گھریلو کام کاج جیسے برتن دھونا، گھر کی صفائی اور کھانا پکانا کرتی ہیں، ان کی صحت ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے جو آرام سے بیٹھ کر صرف کھاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہرین نے 5,500 خواتین کا مطالعہ کیا جنہیں ایک ہفتے تک موومنٹ ٹریکنگ گیجٹ پہننے کو کہا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ کم از کم روزانہ چار گھنٹے کی نقل و حرکت کرنے والی خواتین میں ہارٹ اٹیک یا فالج سے موت کا خطرہ تقریباً دو تہائی کم ہوگیا۔
روزمرہ کی نقل و حرکت میں معمول کی سرگرمیوں کا ذکر ہے جس میں کھانا پکانا، گھریلو کام کاج، باغبانی اور یہاں تک کہ نہانا بھی شامل ہے۔
جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر مذکورہ بالا گھریلو سرگرمیوں کو اور بھی کم کردیا جائے اس سے بھی عمر رسیدہ خواتین اچھی صحت کو برقرار رکھ سکتی ہیں جس سے اُن کے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2288633/9812/
ایک نئی تحقیق کے طابق سبزیاں آپ کو دل کی بیماری سے نہیں بچا سکتیں، اس تحقیق پر ناقدین کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
سی این این کے مطابق تقریباً 400,000 برطانوی بالغوں کی خوراک کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ کچی سبزیاں تو ایک حد تک دل کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں لیکن پکی ہوئی سبزیاں بالکل نہیں۔
محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچی سبزیاں بھی دل کیلئے اس وقت غیر فائدہ مند ہوجاتی ہیں جب انسان کی طرز زندگی میں یہ عوامل بھی کارفرما ہوں؛ ورزش نہ کرنا، تمباکو نوشی، شراب نوشی، سرخ گوشت کا زیادہ استعمال اور وٹامن اور معدنی سپلیمنٹس کا استعمال۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے نوفیلڈ ڈیپارٹمنٹ آف پاپولیشن ہیلتھ میں وبائی امراض کے محقق کیو فینگ نے سی این این کو بتایا، “ہمارے حالیہ مطالعے میں اس بات کے شواہد نہیں ملے جس میں ثابت ہو کہ سبزیاں دل کی بیماریوں کیخلاف لڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔”
یہ مطالعہ جریدے Frontiers in Nutrition میں پیر کو شائع ہوا ہے۔ اول الذکر تحقیق پچھلی تحقیقات کو چیلنج کرتی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سبزیاں قلبی اور مجموعی صحت کیلئے مفید ہیں۔ ان تحقیقات میں وہ تحقیق بھی شامل ہے جس میں کہا کیا گیا تھا کہ ایک نوجوان سبزیوں، میووں، پھل اور دالیں وغیرہ کے استعمال سے اپنی زندگی میں 13 سال تک کا مزید اضافہ کرسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2288581/9812/
آدھے سر کے درد کا روحانی نسخہ
Feb 21, 2022 | 14:07:PM
لاہور (ویب ڈیسک) دفاتر میں کام کرنیوالے لوگوں یا پھر موٹرسائیکلوں پر سفر کرنیوالوں کو اکثر اوقات آدھے سر کے درد کا سامنا رہتاہے ، ایسے لوگوں کے لیے روحانی علاج سامنے آگیا ہے ۔
روزنامہ امت کے مطابق اگر کسی کو نصف سر میں درد ہو تو عامل کو چاہیے کہ وہ باوضو حالت میں پہلے تین مرتبہ درود پاک پڑھے، پھر تین مرتبہ یہ پڑھے" الھم اشف انت الشافی لاشفاءالا شفائک شفاءلایغادر سقما اللھم اشف بفضل حبیبک"۔
اس کے بعد تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ پھر تین مرتبہ درود پاک پڑھے اور مریض پر دم کرے، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو سردرد ختم ہوجائے گا۔ اگر ایک بار دم کرنے سے درد میں کمی محسوس نہ ہو تو پھر دوبارہ اسی طرح سے دم کیا جائے۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Feb-2022/1406143?fbclid=IwAR07-FE1bbvR5toiM3xe6CHXh8O0RVTgCGmWCIL88BBC8n87zwycTdyWudg
یورپی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ویاگرا جیسی ایک دوا جو ’ٹاڈالافل‘ یا ’سیالس‘ کہلاتی ہے، مختلف دماغی بیماریوں سے حفاظت میں بھی ہماری مدد کرسکتی ہے۔
ویاگرا کی طرح ٹاڈالافل/ سیالس بھی خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے جس سے خصوصی مردانہ مسائل کا علاج ہوتا ہے۔
البتہ، اسی دوا کی وجہ سے دماغ تک پہنچنے والے خون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے دماغ کی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
ٹاڈالافل/ سیالس پر یہ تجربات برطانیہ میں 55 عمر رسیدہ رضاکاروں پر کیے گئے جن کی اوسط عمر تقریباً 69 سال تھی۔
اس تحقیق کے نتائج حال ہی میں ریسرچ جرنل ’’الزائیمرز اینڈ ڈیمنشیا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔
ان تجربات کے دوران جن رضاکاروں نے اصل ٹاڈالافل/ سیالس استعمال کی تھی، ان کے دماغوں میں خون کا بہاؤ بہتر ہوا جبکہ جعلی (پلاسیبو) ٹاڈالافل/ سیالس لینے والے رضاکاروں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ دماغ تک پہنچنے والے خون میں کمی کا براہِ راست تعلق دماغی صحت سے بھی ہے کیونکہ آگے چل کر یہی بات الزائیمر اور ڈیمنشیا جیسی خطرناک بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہے؛ اور یہ امراض بالآخر مریض کےلیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ تک خون پہنچانے والی رگیں بھی بتدریج سکڑتی جاتی ہیں جس کا نتیجہ دماغی بیماریوں کے علاوہ فالج کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔
نئے تجربات میں ٹاڈالافل/ سیالس کے استعمال سے دماغ تک پہنچنے والے خون کی مقدار میں واضح طور پر بہتری دیکھی گئی تاہم ان افراد دماغی صلاحیتوں میں بہتری کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔
علاوہ ازیں، یہ مشاہدہ ٹاڈالافل/ سیالس کے صرف ایک بار استعمال سے ہوا تھا لہذا ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھا کر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس دوا سے دماغی صلاحیتوں کو بھی کوئی حقیقی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں۔
https://www.express.pk/story/2288120/9812/
انسان جب قریب المرگ پہنچتا ہے تو اس کے جسم کو پتہ لگ جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ علامات جن سے موت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے
Jul 30, 2021 | 19:12:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) جب انسان قریب المرگ ہوتا ہے تو اس میں کچھ ایسی علامات نمایاں ہوتی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب انسان سفر آخرت پر روانہ ہونے کو ہے۔ کترینا ٹائی نامی ایک نرس نے اپنے ایک آرٹیکل میں ایسی ہی کچھ علامات بیان کر دی ہیں جن سے لوگ اپنے بیمار رشتہ دار کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ موت کے منہ میں جانے والا ہے۔
ڈیلی سٹار کے مطابق کترینا ہسپتال کے اس وارڈ میں سالہا سال سے کام کرتی آ رہی ہیں جہاں لاعلاج لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو موت کے منتظر ہوتے ہیں۔ کترینا لکھتی ہے کہ جو شخص قریب المرگ ہوتا ہے اس میں کئی طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس کی بھوک کم یا بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اس میں نگلنے کی صلاحیت بھی ختم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جب آدمی قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے جسم کو معلوم ہوتا ہے کہ اب اسے خوراک کی ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ وہ خوراک کھانے اور اسے ہضم کرنے پر صرف ہونے والی توانائی بھی دل کی دھڑکن کو برقرار رکھنے اور اگلی سانس لینے کے لیے محفوظ رکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور پھر کھانا پینا ایسے شخص کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا نظام انہضام پہلے ہی جواب دے چکا ہوتا ہے لہٰذا ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اس کا جسم خود ہی کھانے کی طلب سے دستبردار ہو جاتا ہے۔
کترینا لکھتی ہے کہ ایسے شخص کی ظاہری شکل و صورت میں بھی کئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس کے چہرے کی رنگت پیلی، سفیدیا نیلگوں سی ہو جاتی ہے، جیسے اسے یرقان کی بیماری ہو۔ اس کی آنکھیں شیشے جیسی یا دودھیا رنگ کی ہو جاتی ہے اور مسلسل بند یا کھلی رہنے لگتی ہیں۔ اس کے پپوٹے بھی غیرمتحرک ہونے لگتے ہیں اور نظر ایسے ہوتی ہے جیسے وہ کسی چیز کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہو۔ خون کی گردش ناقص ہونے پر ناخنوں میں نیلے نشانات پڑنے لگتے ہیں، مریض کا جسم چھونے پر بہت زیادہ گرم یا بہت زیادہ سرد محسوس ہونے لگتا ہے۔ بسااوقات مریض کو سوجن آ جاتی ہے جو کہ جسم میں مائع مواد کے جمع ہونے کے سبب آتی ہے۔
کترینا مزید بتاتی ہیں کہ ایسے مریض کے سانس لینے کے عمل میں تبدیلی لازمی امر ہوتا ہے۔ اس کا سانس بھاری ہو جاتا ہے اور سانس کے ساتھ آواز نکلنے لگتی ہے۔ مریض کے روئیے میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ وہ عجیب طرح کے بے چینی اور بے سکونی محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو باہم مروڑنے لگتا ہے اور بعض اوقات بیڈ سے اٹھنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے جیسے وہ کسی چیز یا کسی شخص کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔قریب المرگ مریض سفر سے متعلق فقرے بولنے لگتا ہے، مثال کے طور پر وہ کسی جگہ جانے کی بات کرے گا، کسی اور کے ساتھ جانے یا گھر واپس جانے کی بات کرے گا۔ بالکل قریب المرگ آ کر ہو سکتا ہے کہ مریض اچانک گہری نیند سے بیدار ہو اور پہلے کی نسبت زیادہ چوکس نظر آئے۔ پہلے کی نسبت زیادہ باتیں کرنے لگے اور کچھ کھانے پینے بھی لگے مگر یہ اس کے صحت مند ہونے کی علامت نہیں بلکہ یہ علامت ہے کہ اس کی موت قریب آ پہنچی ہے۔ رشتہ دار ان لمحات میں اگرچہ خوش ہوتے ہیں مگر یہ حقیقت میں افسوس کے لمحات ہوتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/30-Jul-2021/1321872?fbclid=IwAR2tv_8Ak36fv8twFgWSKLOxwJazRgzXOHBKjS7Rsi-9nvV2rH1POYRQiKY
ورزش کے ان گنت فوائد سامنے آتے رہتے ہیں اور نمودار بھی ہوتے رہیں گے۔ اب 23 تحقیقات کے جائزہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش ہر عمر میں ڈپریشن کم کرتی ہے، دماغ کو توانا بناتی ہے اور یادداشت کو بحال رکھتی ہے۔
اب ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہے ورزش دماغی افعال، اس کے سرکٹ اور خود اس کی ساخت کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ کی واک کے فوائد بھی کسی طرح نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔
پہلے مرحلے میں جامعہ مانچسٹر کے ڈاکٹر جوزف فرتھ نے دماغی علاج میں شامل سینکڑوں مریضوں کو ورزش اور واک کا کا مشورہ دیا۔ ان میں سے کچھ نے عمل کیا اور اس سے معلوم ہوا کہ ورزش خواہ کسی بھی شکل میں ہو وہ ڈپریشن کم کرنے میں بہت مدد کرتی ہے۔
دوسری جانب 2016 سے اب تک 23 تحقیق مقالوں اور سروے کی اشاعت کے بعد بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ بسااوقات واک اور ورزش ڈپریشن اور دباؤ میں ایک طرح سے دوا کا کام کرتی ہیں۔
ایک جانب تو ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کم کرنے والی ادویہ بہت دھیر دھیرے اثر کرتی ہیں اور ان کے مثبت نتائج ہفتوں بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ورزش ان کی تاثیر کو تیز کرکے کسی بھی تھراپی یا دوا کو کامیاب بناسکتی ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ورزش سے ڈپریشن کی دوا کے سائیڈ افیکٹ بھی کم ہوجاتے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق اگر آپ 50 برس کے ہیں اور بقیہ زندگی میں یادداشت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ابھی سے ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کو عادت بنالیں۔ اس سے 60 اور 70 کے عشرے میں مرحلہ وار یا ایپی سوڈل یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ دوسری جانب کسی بیماری اور چوٹ کے بعد ڈپریشن اور ذہنی تناؤ بھی ورزش سے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں درجنوں مطالعے اور کلینکل ٹرائل کئے گئے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش سے ’برین ڈرائیوڈ نیوروٹروفِک فیکٹر( بی ڈی این ایف) بڑھتا ہے۔ اس سے دماغی خلیات بڑھتے ہیں اور ان کا اثر یادداشتی مرکز ہیپوکیمپس پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے دماغ بہتر ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2287742/9812/
عالمی اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ دنیا بھر کی طرح ذیابیطس بھی پاکستان کی وسیع آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لیکن صبح کے وقت ناشتے میں اس غذا سے ذیابیطس اور اس سے قبل کی کیفیت کو بہت حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس کی غذاؤں کی ماہر، ڈاکٹر لورین ہیرس کئی کتابوں کی مصنف ہیں جو کہتی ہیں کہ صبح کے ناشتے میں ریشہ، پروٹین اور لحمیات متوازن ہوں تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ناشتے میں مکمل دلیہ (اوٹ میل) کو پروٹین بھرے دہی میں ڈال کر کھانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بطورِ خاص ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کا جادوئی اثر پورے دن خون میں شکر معمول پر رکھتا ہے۔ دلیے میں فائبر کی بھرپور مقدار ہوتی ہے جو ایک کپ میں 8 گرام تک بھی ہوسکتی ہے۔
دنیا کی اکثریت کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ 25 سے 38 گرام فائبر یا ریشے دار غذا کھائے یہ چینی کو ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے اور جسم میں انسولین کی پیداوار بھی بڑھاتا ہے۔ اس طرح فائبر کی عادت ٹائپ ٹو ذیابیطس روکنے میں بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔
دلیے کو دہی میں ملا کر کھانے سے پروٹین کی ضرورت پوری ہوتی ہے جس سے ناشتے کی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس میں مونگ پھلی کا مکھن بھی ڈالا جاسکتا ہے لیکن چینی ملانے سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔ پھلی کے علاوہ اخروٹ کا مکھن بھی بہت مفید ہوتا ہے اور اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ موجود ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں دلیے میں مونگ پھلی، بادام، پستہ اور اخروٹ وغیرہ ملاکر کھانے سے بھی اچھے اثرات مرتب ہوتےہیں۔ ان تمام گریوں میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جو انسولین کی تاثیر کو بڑھاتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2287751/9812/
امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ظاہری طور پر خوبصورت اور پرکشش نظر آنے والے لوگوں میں بیماریوں سے بچانے والا قدرتی نظام (امیون سسٹم) بھی مضبوط ہوتا ہے۔
ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی میں 159 رضاکار طالب علموں کی مدد سے کی گئی اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن چہروں کو لوگوں کی اکثریت نے ’خوبصورت‘ اور ’پرکشش‘ قرار دیا تھا، اُن رضاکاروں کا امنیاتی نظام (امیون سسٹم) بھی زیادہ بہتر تھا۔
ایسے خوبصورت افراد کا امیون سسٹم خاص طور پر جرثوموں (بیکٹیریا) کے خلاف زیادہ مضبوط دیکھا گیا۔
یہ تحقیق ’’پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی، بایولاجیکل سائنسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
’’اس تحقیق سے خوبصورت چہروں اور مضبوط امیون سسٹم کے مابین واضح تعلق سامنے آیا ہے،‘‘ مقالے کی مرکزی مصنفہ اور ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر، سمر مینجل کوخ نے کہا۔
’’لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا امیون سسٹم سے خوبصورتی جنم لیتی ہے یا خوبصورتی کی وجہ سے امیون سسٹم بہتر ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی اور چیز ہو جو خوبصورتی بڑھانے کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم بھی مضبوط بنا رہی ہو؟ فی الحال اس بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے،‘‘ انہوں نے بتایا۔
یہ جاننا کوئی آسان کام ہر گز نہ ہوگا کیونکہ اس کےلیے نئی تحقیق کی ضرورت ہوگی جو زیادہ جامع اور مفصل ہو۔ ایسی کسی بھی تحقیق میں بہت زیادہ وقت لگے گا کیونکہ اس میں حسن اور امنیاتی نظام کی مضبوطی میں تعلق کو مختلف پہلوؤں سے کھنگالنا ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2286690/9812/
اپنے محبوب شخص کے پہلو میں سونا طبی اعتبار سے کتنا فائدہ مند ہوسکتا ہے؟ دلچسپ انکشاف
Feb 18, 2022 | 17:41:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ایسا شخص، جس سے آپ محبت کرتے ہوں، اس کے پہلو میں سونا طبی اعتبار سے کتنا فائدہ مند ہوتا ہے؟ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کر دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق یونیورسٹی کے ماہر ٹم گرے اور ان کی ٹیم نے سینکڑوں لوگوں پر تحقیق کے بعد نتائج میں بتایا ہے کہ اپنے محبوب کے پہلو میں سونے سے نہ صرف نیند جلدی آتی ہے بلکہ اس سے نیند کا معیار کئی گنا بہتر ہوتا ہے جس سے کئی طرح کے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
ٹم گرے کا کہنا تھا کہ ”جب آپ ایسے شخص کے پہلو میں سوتے ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہوں تو آپ کا ذہن پرسکون رہتا ہے اور آپ کو تحفظ کاایک احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس سونے سے جسم میں آکسی ٹوسن، سیروٹونین، ویسوپریسین، پرولیکٹن و دیگر ہارمونز کا اخراج زیادہ ہوتا ہے جو نیند کو پرسکون بناتے ہیں اور صحت کی مجموعی بہتری کے حوالے سے بھی بہت مفید ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ ڈپریشن اور ذہنی دباﺅ جیسے عارضوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Feb-2022/1404967?fbclid=IwAR1Vh40sgYNucSvJAsZPz9zGCeO3kKcb2JrEwXb9AhbODwYfBS3jq921JWo
فضائی آلودگی کس طرح مردوں کو بانجھ بنا رہی ہے؟ مزید شواہد سامنے آگئے
Feb 18, 2022 | 18:03:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) فضائی آلودگی کس طرح مردوں کو بانجھ بنا رہی ہے، چینی سائنسدانوں کی نئی تحقیق میں اس کے مزید شواہد سامنے آ گئے ہیں۔
میل آن لائن کے مطابق ماہرین نے مختلف شہروں کے رہائشی 34ہزار مردوں کے سپرمز کی صحت کا جائزہ لیا اور ان کی رہائش کے علاقوں میں آلودگی کے لیول سے ان کا موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے، جن میں انہوں نے بتایا ہے کہ جو مرد جتنے زیادہ آلودگی والے علاقے میں رہتے ہیں ان کے سپرمز میں تیرنے کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی ہے جو کہ افزائش نسل کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔
شنگھائی میں واقع نینتھ پیپلز ہسپتال کے فرٹیلٹی کلینک سے وابستہ ماہرین نے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے مردوں میں سپرمز کی تعداد کم نہیں ہوتی بلکہ ان کی صحت اور تیرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے رکن اور فیوڈن یونیورسٹی کے ماہرژن یاﺅ نے بتایا کہ ان کی تحقیق میں شامل 49فیصد مرد موٹاپے کا شکار تھے اور 28فیصد سگریٹ نوش تھے۔ ان دونوں طرح کے مردوں میں سپرمز کی تعداد بھی کم پائی گئی۔گویا موٹاپا اور سگریٹ نوشی کی لت دیگر نقصانات کے علاوہ سپرمز کی تعداد میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Feb-2022/1404975?fbclid=IwAR2unVnnUcQlx-PnuUHcIZ_EJiCx-hn69SXO8rK4tcBdR10DirJsLNnPaw4
فضائی آلودگی کے خوفناک جسمانی اثرات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اب ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ یہی آلودگی گردوں کے لیے بھی بہت تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
اگرچہ کئی مطالعوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فضائی آلودگی میں موجود پی ایم 2.5 نامی ذرات پھیپھڑوں اور گردوں کے لیے مضر ثابت ہوچکے ہیں لیکن اب سائنس نامی جرنل کے ایک ذیلی جرنل ’سائنس پارٹنر‘ میں ایک اہم رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ سارے تجربات ایک لیبارٹری میں کئے گئے ہیں۔
امپیریئل کالج لندن کے اسکول آف ہیلتھ کے سائنسداں یقون ہان نے تجربہ گاہی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اگر کوئی شخص طویل عرصے تک پی ایم 2.5 ذرات سے بھرپور فضائی آلودگی میں رہے تو اس سے گردوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب اگر اسی آلودگی کو کم کیا جائے تو گردوں کی صحت بہتر ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب سائنسدانوں نے چین میں ہونے والی تحقیق میں 5115 ایسے افراد کا جائزہ لیا جو مختلف علاقوں میں رہ رہے تھے اورتجربہ گاہ میں بھی ان کے بعض ٹیسٹ لئے گئے تھے۔ معلوم ہوا کہ سال 2011 سے 2015 کے درمیان کئی افراد پی ایم 2.5 ذرات والی فضا میں سانس لے رہے تھے اور عین اسی دوران ان کے گردے کی کارکردگی متاثر دیکھی گئی۔
اس کے بعد سائنسدانوں نے کہا کہ اگر پی ایم 2.5 کی مقدار میں 10 مائیکروگرام فی مکعب میٹر کمی کی جائے تو اس سے گردوں کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی گردوں کی فلٹریشن بہتر ہوتی ہے ۔ جبکہ بلڈ یوریا نائٹروجن کی مقدار بھی بہتر دیکھی گئی۔
اس تحقیق نے چین نے فضائی آلودگی کم کرنے کے کئی طریقوں پر کام کیا اور اب دنیا بھر میں اس طریقے سے عوام کے گردوں کو تندرست رکھا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2287064/9812/
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 20 برس کے بعد سے انسانوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بتدریج سست پڑجاتی ہے اور انہیں زیادہ وقت لگتا ہے لیکن اس کا دماغی صلاحیت اور معلومات پروسیسنگ کرنے میں کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اب ایک نئی تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغی پروسیسنگ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ ورنہ ہم اب تک اسی بات کے قائل تھے۔
جرمنی کی مشہور ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر میشکا وان کروز اور ان کی ٹیم نے 10 سے 80 برس تک کے افراد کے 12 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ اگرچہ اس تجربے کا ڈیزائن مختلف تھا لیکن یہ ایک اور تحقیق میں کام آگیا کیونکہ اس کا مقسد نسل پرستانہ فکر پر تحقیق کرنا تھا۔
مثلاً شرکا کے سامنے سفید فام اور سیاہ فام افراد کی تصاویر دکھائی گئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ اسے پر خوشی کا غصے میں سے کوئی ایک بٹن دبا کر اپنا ردِ عمل ظاہر کریں۔ اس عمل میں فوٹو دیکھ کر ردِ عمل نوٹ کرنے کا دورانیہ بھی معلوم کیا گیا تھا۔
میشکا کہتے ہیں کہ بہت عرصے سے خود سائنسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ 20 برس کے بعد دماغی ردِ عمل اور پروسیسنگ کی رفتار بتدریج سست ہوتی رہتی ہے، اس کا ذمے دار دماغی فعلیاتی صلاحیت میں کمی کو قرار دیا جاتا ہے، اس کی کئی طرح سے تاویل کی گئی۔
اول یہ بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغ بھی بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ 20 برس کے بعد انسان اپنے فیصلےمیں یقینیت اور قدرے زیادہ معلومات چاہتا ہے اور فوری ردِ عمل نہیں دیتا۔ تیسری تشریح یہ کی جاتی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ بصری معلومات کو دماغ تک پہنچنے میں تاخیر بڑھتی جاتی ہے۔
اب نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغی پھرتی 20 سال کی عمر میں ایک درجے تک پہنچتی ہے اور 60 برس تک اپنی تیزی برقرار رہتی ہے۔ یعنی بڑھاپے میں بھی اس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
اگرکوئی تاخیر ہو تو اس کی وجہ عمر رسیدگی میں چوکنا ہونا اور معلومات کا تجزیہ شامل ہوتا ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جاسکے۔ اس طرح یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ 40 سے 50 سال کے افراد کے لوگوں کی دماغی صلاحیت 20 سالہ نوجوان سے کم ہوتی ہے۔
اس تحقیق کا وسیع اطلاق ہوسکتا ہے اور یوں اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ 60 برس تک ہماری دماغی صلاحیت میں کوئی خاص کمی نہیں ہوتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2287029/9812/
کافی کے بہت سے فوائد معلوم ہوچکے ہیں اور مزید فوائد سامنے آتے رہتے ہیں۔ اب ماہرین نے کافی اور دیگر مشروبات میں موجود کیفین کے مضرِصحت یعنی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کم کرنے کی سائنسی وجہ دریافت کرلی ہے۔
مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کیفین کا زائد استعمال خون میں موجود ایک قسم کے پروٹین ’پی سی ایس کے نائن‘ کی مقدارکم کرتا ہے۔ یہ پروٹین جگر میں جاکر اسے بد یعنی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو زائل کرنے کے عمل سے روکتا ہے۔ یوں کولیسٹرول بڑھتا نہیں جو بصورتِ دیگر شریانوں میں جمع ہوکر دل کےدورے اور فالج کی وجہ بن سکتا ہے۔
تحقیق میں شامل سینیئر سائنسدان ڈاکٹر رچرڈ آسٹن نے کیفین کا ایک اور کام بتایا ہے جو ایس آر ای بی پی ٹو نامی ایک اور پروٹین کی سرگرمی کو روکتا ہے اور یہی پروٹین آگے چل کر پی سی ایس کے نائن کی پیداوار کم کرتا ہے۔ یعنی کیفین دو طرح سے ایل ڈی ایل بننے کو روکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایس آر ای پی بی ٹو پروٹین بالراست اور براہِ راست کئی طرح امراض بھی بڑھاتا ہے جن میں ذیابیطس اور اور فیٹی لیور (چکنائی بھرے جگر) کا مرض بھی شامل ہے۔ لیکن سائنسداں خبردار کررہے ہیں کہ محض کافی پینے سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اگرآپ اس میں شکر اور کریم ملا کر پی رہے ہیں تو سارے فائدے ضائع ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کیفین کی تاثیر کم سے کم ہوجاتی ہے۔ پھر سافٹ ڈرنک اور میٹھے شربت کی عادت سب پر پانی پھیردیتی ہے۔
تاہم کیفین کی زائد مقدار بھی بدن کے لیے نقصاندہ ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کافی کا استعمال بھی معمول پر رکھا جائے لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کیفین کو مزید غور سے دیکھ کر اس کے سرگرم اجزا کو نوٹ کرکے آج نہیں تو کل ہم انہیں کسی سپلیمنٹ میں ڈھال کر ایک مؤثر دوا بناسکیں گے۔ یہ دوا دنیا بھر میں کولیسٹرول کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
https://www.express.pk/story/2285976/9812/
وہ ایک علامت جس کی وجہ سے آئندہ 3سالوں میں موت کا امکان دگنا ہوجاتا ہے
Jan 29, 2022 | 18:07:PM
سورس: Pixbay.com (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ کی عمر 60سال سے زائد ہے اور آپ تھوڑا پیدل چلنے یا گھر کا کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے سے بھی تھک جاتے ہیں تو آپ کے لیے بری خبر ہے۔ امریکی سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ ایسے 60سال سے زائد عمر کے لوگوں کے آئندہ تین سال کے اندر موت کے منہ میں چلے جانے کا خطرہ 2گنا زیادہ ہوتا ہے جو ہلکی سی ورزش یا معمولی کام سے بھی تھک جاتے ہیں۔
امریکی ریاست پنسلوانیا کی یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 60سال سے زائد عمر کے 2900لوگوں پر تجربات کیے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر نینسی گلین کا کہنا تھا کہ ”ہم نے ان لوگوں کو ایک سوالنامہ دیا جس میں مختلف کام کرتے ہوئے تھکاوٹ محسوس کرنے کے متعلق پوچھا گیا تھا اور ان کی صحت جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے گئے۔“
ڈاکٹر نینسی نے بتایا کہ ”جن لوگوں نے جوابات میں بتایا تھا کہ وہ واک، معمولی ورزش یا کوئی معمولی گھریلو کام کرنے سے بھی تھک جاتے ہیں، ان کی دل اور دوران خون سمیت مجموعی صحت اس قدر ناقص پائی گئی کہ آئندہ تین سال میں ان کے مرنے کا خطرہ دوسروں کی نسبت دو گنا زیادہ تھا۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ واک اور ورزش کو اپنامعمول بنائیں، ہلکی پھلکی ورزش سے شروع کریں اور بتدریج اس میں اضافہ کرتے جائیں۔اس کے علاوہ اپنی خوراک پر بھرپور توجہ دیں اور صحت مندانہ اشیاءکھائیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/29-Jan-2022/1396566?fbclid=IwAR35WK_4yPv78oo4OajiTT_L-QZ5oIIeUkcgZtJyoq9EM8omwFYnD3wi1Nc
وہ 2 آوازیں جنہیں سن کر بچے فوری نیند میں چلے جاتے ہیں، ماؤں کی سب سے بڑی مشکل حل ہوگئی
Jan 25, 2022 | 18:37:PM
سورس: Facebook
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) مائیں بچوں کو سلانے کے لیے لوریاں سناتی ہیں لیکن اب ایوارڈ یافتہ سمارٹ بے بی مانیٹر ’بلیو بیل‘ (Bluebell)کے ماہرین نے اس حوالے سے نئی تحقیق میں دلچسپ انکشاف کر دیا ہے۔ دی سن کے مطابق ماہرین نے اپنے پلیٹ فارم پر مختلف لوریوں اور ساؤنڈز کے استعمال کی شرح کا موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔ اس تحقیق میں ماہرین نے اپنے پلیٹ فارم کے صارفین سے کچھ سوالات بھی کیے۔ نتائج میں ماہرین نے بتایا ہے کہ لوریوں کی نسبت دو ساؤنڈ ایسے ہیں جنہیں سن کر بچے جلدی سوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ دونوں ساؤنڈ ’وائٹ نوئز‘ (White Noise)اور پنک نوئز‘ (Pink Noise)ہیں۔ یہ دراصل ایک شور کے جیسے ساؤنڈز ہیں جن کے متعلق ماہرین نے بتایا ہے کہ ان کے پلیٹ فارم پران دونوں ساؤنڈز کو ہی یکساں 28فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے بچے ان ساؤنڈز پر زیادہ جلدی نیند میں جاتے ہیں۔ اس کے بعد بارش کے ساؤنڈ کو 11فیصد اور ’ہش لٹل بے بی‘ نامی لوری کو 10فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ٹونکل ٹونکل لوری کو بھی 10فیصد، مادر رحم کے ساؤنڈکو 8فیصد اور ویو ساؤنڈ کوبھی 8فیصدلوگ اپنے بچے کو سلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مارکوس برگ مین کا کہنا تھا کہ ”ہم نے اپنی تحقیق میں ان ساؤنڈز کو استعمال کرنے کے لیے بہترین وقت کے متعلق بھی جاننے کی کوشش کی اور معلوم ہوا کہ رات 3بجے وہ وقت ہوتا ہے۔ ہمارے پلیٹ فارم پر یہی وہ وقت ہے جس پر سب سے زیادہ لوگ مختلف قسم کے ساؤنڈز او رلوریاں اپنے بچوں کے لیے چلاتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-Jan-2022/1394969?fbclid=IwAR1PzpqHz09PN4Ly7UdzlIqr7yrSMjHzJ4RnA6AtaD9HQTvAkAMYRud06s0
حالیہ تحقیق میں ماہرین نے کہا ہے کہ پلاسٹک بوتلوں سے پانی میں خطرناک کیمیکلز خارج ہوتے ہیں جن میں سے اکثر انسانی صحت کیلئے انتہائی ضرررساں ہیں۔ تاہم انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیقات پر زور دیا ہے۔
اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کی بوتل پانی میں جاتے ہیں ان سے کیمیکل خارج ہونے لگتے ہیں اور یوں 24 گھنٹوں میں سینکڑوں کیمیکل خارج ہوسکتے ہیں۔
کوپن ہیگن کی یونیورسٹی کے شعبہ شجریات و ماحولیاتی سائنسز کے پروفیسر جین ایچ کرسٹینسن نے بتایا کہ ہمیں شدید دھچکا لگا جب ہم نے دیکھا کہ پلاسٹک بوتل میں 24 گھنٹے سے موجود پانی میں ایسے کیمیکلز خارج ہوئے جن میں سے کئی نامعلوم اور اکثر انسانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کیمیکلز کی اقسام کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی۔
کرسٹینسن اور اُن کی ساتھی محقق سیلینا ٹسلر نے ایک پلاسٹک بوتل سے 400 مختلف اقسام کے کیمیکلز کی نشاندہی کی جبکہ برتنوں کو صاف کرنے والے صابن کے استعمال کے بعد کیمکلز کی تعداد 3 ہزار 500 ہوگئی۔ ان میں سے کئی ایسے کیمیکلز بھی تھے جن کی شناخت کرنا ابھی باقی ہے۔
جو زہریلا کیمیکل ماہرین کیلئے زیادہ تشویش ناک تھا وہ photo-initiator تھا جو ہارمونز کی بدانتظامی اور کینسر کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ ان میں Diethyltoluamide (DEET) بھی موجود تھا جو کہ مچھر مار اسپرے میں عمومی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2284623/10/
خوراک میں وہ 5 تبدیلیاں جو انسان کی زندگی میں 10سال تک کااضافہ کرسکتی ہیں
Feb 09, 2022 | 19:04:PM
اوسلو(مانیٹرنگ ڈیسک) صحت مندانہ زندگی کا دارومدار انسان کی خوراک اور رہن سہن کی عادات پر ہوتا ہے۔ اب ناروے کے ماہرین نے خوراک میں پانچ ایسی تبدیلیاں تجویز کر دی ہیں جو انسان کی زندگی میں 10سال تک کااضافہ کرسکتی ہیں۔ دی سن کے مطابق ناروے کی یونیورسٹی آف برجن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ روزمرہ خوارک میں 30گرام دالیں، مٹر، چنے، بینز یا مونگ پھلی شامل ہونے چاہئیں۔ یہ فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں، جس کی کمی اکثر لوگوں میں دیکھی جاتی ہے جو ہارٹ اٹیک، سٹروک، دوسری قسم کی ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کے خطرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہول ویٹ سیرئیلز، ہول میل فلور، براؤن رائس، ہول ویٹ پاستہ، بلگر ویٹ،ہول گرین رائس کیکس، بادام، برازیل نٹس، اخروٹ، کیشوز و دیگر خشک میوہ جات کو روزمرہ خواک کا حصہ بنانا چاہیے۔ اپنی خوراک سے سرخ گوشت کی مقدار کم کرنی چاہیے کیونکہ سرخ گوشت زیادہ کھانے سے کولوریکٹل کینسر، دل کی بیماریاں اور شوگر سمیت دیگر عارضے لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ پراسیسڈ گوشت سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ ماہرین کی اس تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ اپنی خوارک میں یہ تبدیلیاں کرنے سے مردوں کی عمر میں 13سال اور خواتین کی عمر میں 10سال تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Feb-2022/1401115?fbclid=IwAR0WxLXB9gFnSzkRG5J_l9ByvWsM58yHKsEw3FP0Fz1i4OK-pVLK5Hu-mk0
سائنسدانوں نے کافی کا ایساحیران کن فائدہ بتا دیا کہ سن کر آپ بھی اس کے شوقین خوش ہو جائیں
Feb 10, 2022 | 18:28:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) نئی تحقیق میں برطانیہ اور ہنگری کے سائنسدانوں نے کافی کا ایک ایساحیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ بھی اس کے شوقین خوش ہو جائیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق ماہرین نے بتایا ہے کہ جو لوگ روزانہ 3کپ کافی پیتے ہیں، ان کی عمر دوسروں کی نسبت زیادہ طویل ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی قبل از وقت موت ہونے کا خطرہ 12فیصد کم ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کودل کی بیماریاں لاحق ہونے کا امکان 17فیصد کم ہوتا ہے۔
سیملویز یونیورسٹی ہنگری اور کوئین میری یونیورسٹی لندن کے سائنسدانوں نے اس مشترکہ تحقیق میں 5لاکھ سے زائد لوگوں کا ڈیٹا حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے اور نتائج مرتب کیے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن پیٹرسن نے کہا ہے کہ تحقیق میں شامل جن لوگوں کی خوراک میں روزانہ تین یا اس سے زائد کپ کافی شامل تھی، آئندہ سالوں میں ان کی صحت دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر رہی۔ ان کو دل اور دوران خون کی بیماریاں بہت کم لاحق ہوئیں جس کے نتیجے میں ایسے لوگوں میں ہارٹ اٹیک، سٹروک اور دیگر ایسی بیماریوں کی شرح بھی کم دیکھی گئی۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2022/1401570?fbclid=IwAR0rej0RBbM3tEeD1vYJux7zo2gXCYUTMc51UlFVfQP_Ln_VnLY3t1c7zBI
کینیڈا میں کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موٹاپے سے نہ صرف دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ دماغ کو بھی زیادہ تیزی سے بڑھاپے کا شکار ہونے لگتا ہے۔
یہ تحقیق 50 سے 66 سال کے 9 ہزار سے زائد کینیڈین شہریوں پر کی گئی جن کی اوسط عمر 58 سال کے لگ بھگ تھی۔
ان میں سے جو افراد معمول سے زیادہ وزنی (اوور ویٹ) یا موٹے تھے، ان میں توقعات کے مطابق دل اور شریانوں کی مختلف بیماریوں کا خطرہ بھی نارمل وزن والے لوگوں کی نسبت زیادہ تھا۔
تاہم جب یادداشت اور اکتساب (سیکھنے کی صلاحیتوں) سے متعلق ان افراد کے ٹیسٹ لیے گئے تو موٹے افراد کا اسکور، نارمل وزن رکھنے والوں سے نمایاں طور پر کم دیکھا گیا۔
موٹے افراد میں یادداشت اور اکتساب کی کمی سے ظاہر ہورہا تھا کہ اضافی چربی نہ صرف ان کے جسم کو، بلکہ ان کے ذہن کو بھی متاثر کررہی تھی۔
اسی بناء پر موٹے لوگوں کی ذہنی عمر، ان کی جسمانی عمر کے مقابلے میں کئی سال زیادہ ہوچکی تھی، یعنی وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہونے لگے تھے۔
اس تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے میں مبتلا افراد کو اپنی جسمانی سرگرمیوں، بالخصوص پیدل چلنے پر زیادہ توجہ دینا چاہیے کیونکہ اس طرح جسم میں خون کا بہاؤ بہتر ہوتا۔
نتیجتاً دماغ تک پہنچنے والے خون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دماغ کی صحت بہتر رہتی ہے جس سے دماغ پر عمر رسیدگی کے اثرات بھی کم پڑتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحقیق مک ماسٹر یونیورسٹی، اونٹاریو کے ماہرین کی قیادت میں کی گئی ہے جس کے نتائج آن لائن ریسرچ جرنل ’’جاما اوپن نیٹ ورک‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2282347/9812/
آج کیا پکائیں؟ کسی گھر میں یہ الفاظ ہر روزسوال بن کر گونجتا ہے تو کسی گھر میں یہ روزانہ ایک خوف کی طرح روح میں سرائیت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
جہاں یہ سوال بن کر پوچھا جاتا ہے اُن گھروں میں جواب تقریباً یکساں ہوتا ہے جو مرضی پکا لیں۔ایسے میں تذبذب کا شکار خاتونِ خانہ اگر کہیں ’’دال‘‘ پکا لیں تو ردعمل میں یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے ’’آپ کو دال کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا پکانے کو‘‘؟ ہمارے صاحب ِ حیثیت گھروں میں دال پکنے کی صورت میں اکثر کی تو بھوک ہی ختم ہو جاتی ہے۔
’’ مجھے بھوک نہیں‘‘ کہہ کر فاسٹ فوڈ کے دلدادہ نسل کھانے سے منہ موڑ لیتی ہے۔ ’’ دال‘‘ کے ساتھ اُن کا یہ رویہ دراصل ہماری موجودہ غذائی ترجیحات کا عکاس ہے ۔ جس میں زبان کی لذت ’’دال‘‘ جیسی صحت بخش خوراک کے استعمال پر غالب آچکی ہے۔ جبکہ جن گھروں میں محدود آمدن کی وجہ سے آج کیا پکائیں ؟
ایک خوف کی صورت میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے ۔اُن کے لیے دالوں کی قیمتوں میں اضافہ اُنھیں ’’دال‘‘ سے بھی دور کرتے ہوئے اُن کے اِس خوف کو اور مزید گہرا کر رہا ہے۔ نتیجتاً کسی کے نخرے اور کسی کی معاشی مجبوری نے ہمارے یہاں’’ دال ‘‘کے استعمال کی مقدار نصف سے بھی کم کردی ہے۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں 1961 ء میں دال کا استعمال فی کس سالانہ 15 کلوگرام تھا جو کم ہوکراب7 کلوگرام رہ گیا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں ــ’’ دال ‘‘ کو غریب لوگوں کی خوراک سمجھا جاتا ہے اور تمسخرانہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ دال خور ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ بعض لسانی گروہوں کو بھی ’’دال خور ‘‘ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔جبکہ سائنسی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ ’’دال‘‘ اپنی غذائی خوبیوں کے حوالے سے کسی بھی طرح دوسری خوراک سے کم نہیں بلکہ یہ دیگر اجناس کے مقابلے میں زیادہ کثیر الجہتی خواص کی حامل ہیں اور کئی ایک مہنگی خوراک کا بہترین قدرتی نعم البدل بھی ہیں۔
اس کے علاوہ اس کے دیگر فوائد اِسے دوسری اجناس سے منفرد بنا دیتے ہیں۔ اس لیے دالوں کے صحت و غذائی، معاشی، سماجی، ماحولیاتی اورزرعی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور ترکی کی تجویز پر اقوام متحدہ نے 2016 کو دالوں کا بین الاقوامی سال قرار دیا ۔
اس کے بعد 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے10 فروری کو ’’ دالوں کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منانے کی منظوری دی اور دنیا میں 2019 میں فروری کی دس تاریخ کو ’’ دالوں کا پہلا عالمی دن ‘‘ منایا گیا ۔اِمسال یہ چوتھا عالمی دن ہے جو خوراک کی پائیدار پیداوار ، فوڈ سیکورٹی اور غذائیت کو بڑھانے میں دالوں کے اہم کردارکے بارے میں شعور پیدا کرنے کی غرض سے منایا جا رہا ہے۔
دالیں پھلی دار اجناس کے وہ خوردنی بیج ہیں جو خشک اور کم چکنائی کے حامل ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت ایسی گیارہ اقسام کو بطور دال تسلیم کرتا ہے، جو سبز ی کے طور پر نا پکائی جائیں، جن سے تیل نہ نکالا جاتا ہواور جو بوائی کے مقاصد کے لیے استعمال نا ہوتی ہوں۔ دالیں انسانی صحت اور غذائیت، غربت، غذائی تحفظ، مٹی کی صحت اور ماحولیات کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کرداد ادا کرتی ہیںیوں یہ پائیدار ترقی کے اہداف کو بہتر طور پر حاصل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہیں اسی لیے انھیں ’’ چھوٹے عجائبات‘‘ (little marvels)بھی کہا جاتا ہے۔
٭ دالیں اور انسانی صحت و غذائیت
دالیں ایک صحت مند، متوازن غذا کا حصہ ہیں۔ یہ ہاضمے کو بہتر بنانے، خون میں گلوکوز کو کم کرنے، سوزش کو کم کرنے، خون میں کولیسٹرول کو کم کرنے، اور دائمی صحت کے مسائل جیسے ذیابیطس، کینسر ،دل کی بیماری اور موٹاپے کو روکنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ کہنا ہے لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت جویریہ محمود قریشی کا ۔ اُنھوںنے بتا یا کہ’’دالیں ہڈیوں کی صحت کو فروغ دیتی ہیں۔ان میں فائبر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس میں حل پذیر اور ناقابل حل دونوں ریشے ہوتے ہیں۔
حل پذیر فائبر خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے اور ناقابل حل ریشہ پاخانہ کی مقدار اور نقل و حمل میں اضافہ کرتاہے اور آنتوں میں موجود زہریلے مادوں کوجسم سے نکالنے میں معاون ہوتا ہے۔ دالیں بلڈ شوگر اور انسولین کی سطح کو مستحکم کرنے میں مدد کرتی ہیں جس سے دالیں وزن کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک مثالی غذا بنتی ہیں۔دالوں میں سوڈیم بھی کم ہوتا ہے۔
سوڈیم کلورائڈ یا نمک ہائی بلڈ پریشر کا باعث ہوتا ہے اور سوڈیم کی کم سطح والی غذائیں جیسے دالیں کھا کر اس سے بچا جا سکتا ہے۔دالوں میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو دل کی صحت کو سہارا دیتی ہے اور ہاضمہ اور پٹھوں کے افعال کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔دالیں بائیو ایکٹیو مرکبات جیسے فائٹو کیمیکلز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہیں جن میں کینسر کے خلاف خصوصیات ہو سکتی ہیں۔
ماہر غذائیت جویریہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ’’غذائیت کی کمی کئی قسم کی بیماریوں میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک ہے اور بعض صورتوں میں موت کا باعث بنتی ہے۔ غذائیت کی کمی بہت کم، بہت زیادہ کھانے یا غیر متوازن غذا کھانے کا نتیجہ ہے جس میں صحت مند رہنے کے لیے غذائی اجزاء کی صحیح مقدار اور معیار موجود نہیں ہوتا۔ دالیں غذائیت سے بھرپور خوراک ہیں۔ یہ پودوںپر مبنی پروٹین اور مائیکرو نیوٹرینٹس کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔
صحت مند غذا کے حصے کے طور پر دالیں کھانے سے غذائیت کی کمی کے متعدد پہلوؤں کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔جس میں غذائیت اور مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی سے لے کر زیادہ وزن اور موٹاپا شامل ہیں۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے مطابق متوازن غذا کے لیے ضروری ہے کہ ہماری خوراک میں روزانہ80 گرام دال شامل ہو‘‘۔جویریہ قریشی کہتی ہیں کہ ’’دالیںپروٹین، غذائی ریشہ، وٹامنز، معدنیات، فائٹو کیمیکلز اورکاربوہائیڈریٹ فراہم کرتی ہیں۔
دالیں خاص طور پر فولیٹ، آئرن، کیلشیم، میگنیشیم، زنک اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتی ہیں۔ آئرن پورے جسم میں آکسیجن پہنچانے میں مدد کرتا ہے جو توانائی کی پیداوار اور میٹابولزم کو بڑھاتا ہے۔ دالیں آئرن کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ آئرن کی کمی کو غذائی قلت کی سب سے زیادہ عام شکلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ خون کی کمی کی سب سے عام وجوہات میں سے ایک ہے۔
دالوں میں آئرن کی زیادہ مقدار انہیں خواتین اور بچوں میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہونے والی خون کی کمی کو روکنے کے لیے ایک طاقتور غذا بناتی ہے۔ خاص طور پر اسے جب وٹامن سی پر مشتمل کھانے کے ساتھ ملا کراستعمال کیا جائے تو اس سے فولاد کو جذب کرنے کی صلاحیت کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ دالوں میں کیلوریز کم ہوتی ہیں (260-360 kcal/100 g خشک دالیں) یہ آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں اور سیر پن کا احساس دیتی ہیں۔
100 گرام خشک دال میں 25 گرام پروٹین ہوتی ہے ۔کھانا پکانے کے دوران دالیں کافی مقدار میں پانی جذب کرتی ہیں اس طرح ان کی پروٹین کی مقدار تقریباً 8 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجودآپ پکی ہوئی دالوں کی پروٹین کوالٹی کو اپنے کھانے میں اسے اناج کے ساتھ ملا کر بڑھا سکتے ہیں، مثال کے طور پرچاول کے ساتھ دال۔دالیں دیکھنے میں توچھوٹی سی ہوتی ہیں لیکن پروٹین سے بھری ہوئی ہیں یہ نعمت گندم سے دگنا اور چاول سے تین گنا زیادہ پروٹین کی حامل ہیں۔
جانوروں سے حاصل پروٹین کے ذرائع گوشت یا دودھ کے برعکس دالوں میں جانوروں کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ہارمونز یا اینٹی بائیوٹکس کی باقیات نہیں ہوتی ہیں۔دالیں قدرتی طور پر گلوٹین(gluten) سے پاک ہوتی ہیں‘‘۔
٭ دالیں اور غربت
دالیں پروٹین اور غذائی اجزاء کا بھرپور ذریعہ ہیں اور خاص طور پر اسے علاقوں میں جہاں روزمرہ کی اشیاء اور گوشت آسانی سے اور اقتصادی طور پر قابل رسائی نہیںہو وہاں یہ پروٹین کا ایک بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔
بہت سے ممالک میں گوشت، ڈیری اور مچھلی مہنگی ہے اور اس طرح بہت سے لوگوںخاص طور پر غریبوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس لیے یہ آبادی اپنی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پودوں کی خوراک پر انحصار کرتی ہے جس میں سے دال سب سے اہم پیداوار ہے۔ دال کی پیداوار کم زرعی مداخل کی متقاضی ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسان کوکسی معاشی دبائو میں مبتلا نہیں کرتی اور جانوروں سے حاصل شدہ پروٹین کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستی ہے۔انھیں سخت موسمی حالات میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹا کسان نہ صرف دال کو نقد آور فصل کے طور پر فروخت کرسکتا ہے بلکہ اپنی غذائیت کی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دال کی فصل کی باقیات کو اپنے مویشیوں کی چارے کی ضروریات کے لیے بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں دالوں کو بغیر غذائیت کھوئے طویل عرصے تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی ان کو ذخیرہ کرنے کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی یوں اس سے غریب افراد کے خوراک کے تنوع کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیونکہ غربت غذائی عدم توازن کا باعث بنتی ہے جس سے کام کی صلاحیت اور انسانی سرمائے میں کمی واقع ہوتی ہے۔
نتیجتاً غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔دالیں پروٹین اور معدنیات کا سستا ذریعہ ہیں جو غریب افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ان کی کام کی صلاحیتوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اُنھیںبیماری سے محفوظ رکھتی ہیں یوں یہ اپنے غریب استعمال کنندہ کو مزید غربت کا شکار ہونے سے اور بھوک سے بچاتی ہیں۔
٭ دالیں اور غذائی تحفظ(فوڈسیکورٹی
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق’’ فوڈ سکیورٹی ایک ایسی صورتحال ہے جس میں فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے واسطے کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تمام افراد کے لئے ہر وقت جسمانی اور معاشی طور پر پہنچ میں ہونی چاہیئے۔‘‘ یہ تعریف فوڈ سکیورٹی کے چار پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ دستیابی، استحکام، محفوظ استعمال اور رسائی۔
فوڈ سکیورٹی کے ان چار پہلوؤں کو دالیں پورا کرتی نظر آتی ہیں۔ یعنی دالوں کو مہینوں تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بغیر ان کی اعلیٰ غذائیت کو کھوئے جس سے فصلوں کے درمیانی عرصہ خوراک کی پائیدار دستیابی ممکن رہتی ہے۔ دالیں خشک آب و ہوا میں کاشت کی جا سکتی ہیں جہاںبارش محدود اور اکثر بے ترتیب ہوتی ہے۔ یہ وہ زمینیں ہیں جہاں دوسری فصلیں ناکام ہو سکتی ہیں یا کم پیداوار دے سکتی ہیں۔ مزید برآں خشک سالی کے خلاف مزاحم اور گہری جڑوں والی نسلیں نہ صرف معمولی ماحول میں رہنے والے کاشتکاروں کے غذائی تحفظ اور غذائیت کو بہتر بنانے کو یقینی بناتی ہیںبلکہ ساتھی فصلوں کو زمینی پانی بھی فراہم کر سکتی ہیں۔
خشک ماحول میں رہنے والے افرادجہاں غذائی تحفظ ایک بہت بڑے چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے وہاںمقامی طور پر موافق دالوں کی کاشت سے کسان اپنے پیداواری نظام کو پائیدار طریقے استحکام دے سکتے ہیں۔دالیں جلد خراب نہیں ہوتیں اس لیے ان کا استعمال طویل عرصہ تک محفوظ رہتا ہے۔ بہت سے ممالک میں گوشت، دودھ اور مچھلی پروٹین کا ایک مہنگا ذریعہ ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کے لیے اقتصادی طور پر ناقابل رسائی ہے۔
اس صورتحال میں دالوں کا استعمال پروٹین کے حصول کا ایک بہترین اور سستا قدرتی متبادل ہے اور معاشرے کی اکثریت کی رسائی میں ہے۔ خوراک کا ضیاع دنیا بھر میں فوڈ سیکورٹی کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں انسانی استعمال کے لیے پیدا کی جانے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ ضیاء ہوجاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ ضیاع خوراک کی تیاری اور ترسیل کے دوران ہوتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کھپت کے مرحلے میں یہ ضیاع واقع ہوتا ہے۔ چونکہ دالوں کی(Shelf life) انتہائے تاریخ استعمال(Expiry date) مستحکم ہوتی ہیں اس لیے جلدخراب نا ہونے کی وجہ سے اس کا کھپت کے مرحلے پر کھانے کے ضیاع کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
اس طرح گھریلو خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک بہت اچھا انتخاب ہے۔اس کے علاوہ دنیا بھر میںبھوک کے خاتمے میں دالیں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیںاورقدرتی اور انسان کی پیدا کردہ آفات کے دوران اور مہاجرین کے کیمپس میں جب خوراک کو ایک عرصہ تک محفوظ رکھنا ممکن نا ہواور لوگ مہنگی خوراک خریدنے کی سکت نا رکھتے ہوں توایسے وقت میںدالیں ڈیزاسٹرز اور ایمرجنسی کی صورتحال کے شکار متاثرین کے غذائی تحفظ کو بھی یقینی بناتی ہیں۔
دالیں اورموسمیاتی تبدیلی( کلائیمیٹ چینج)
آب و ہوا کی تبدیلی ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ کے طور پر ابھری ہے ۔خوراک کی پیداوار، خوراک کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ناکافی،بے وقت وبے ترتیب بارش، درجہ حرارت میں اچانک اضافہ اورخشک سالی سے دیگر فصلوں کے ساتھ ساتھ دالوں کی پیداوار کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ مون سون میں تبدیلی خریف کی فصلوں کی بوائی میں تاخیر کا سبب بنتی ہے جس کے نتیجے میں ربیع کے موسم میں دالوں کی فصلوں کی بوائی میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔
تاخیر سے بوئی جانے والی فصلوں کو اس کی نشوونما کے دوران شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اس کی ممکنہ پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔دوسری طرف فروری،مارچ کے مہینے کے دوران ان کی تولیدی نشوونما کے دورانیے میں بے وقت بارش سے بھی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بدلتی ہوئی آب و ہوا اکثر کیڑوں کی بیماریوں کے انفیکشن، گھاس پھوس کے پیدا ہونے میں سہولت فراہم کرتی ہے جو فصل کی پیداوار میں بہت زیادہ کمی کا سبب بن سکتے ہے۔
دالیں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہیں وہیں یہ اُن محرکات کو کم کرنے کا بھی باعث ہیں جن کی وجہ سے کلائیمیٹ چینج رونما ہو رہی ہے۔دالیں چونکہ پھلی دار اجناس ہیں ان کی جڑوں میں بیکٹریا ہوتے ہیں جو نوڈیولز بناتے ہیں اور ہوا سے نائٹروجن اکٹھی کرکے پودوں کو مہیا کرتے ہیں۔ جس سے مٹی میں مصنوعی طور پر نائٹروجن داخل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعی کھادوں پر انحصار کو کم سے کم کرکے ان کی تیاری سے خارج ہونے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میںاپنا کردار ادا کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے میں بہت بڑا حصہ ڈالتی ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق عالمی سطح پر تقریباً 190 ملین ہیکٹر پر کاشتہ دالیں 5 سے 7 ملین ٹن نائٹروجن کو مٹی کا حصہ بناتی ہیں۔مقامی دالوں کا استعمال کرتے ہوئے انٹرکراپنگ سسٹم کے ذریعے مٹی میں کاربن کی ضبطی کی صلاحیت کو مونو کراپ سسٹم کے مقابلے میں بہتر کیا جاسکتا ہے۔ دالوں کی پیداوارپروٹین کے دیگر ذرائع( جو زیادہ تر جانوروںپر مشتمل ہیں ) کی پیداوارکے مقابلے میں کم کاربن کے فٹ پرنٹس کا باعث بنتی ہیں ۔
مثلاً ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کلو دالیں(پھلی) کی پیداوار سے صرف 0.5 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کااخراج ہوتا ہے۔ جب کہ 1 کلو گائے کے گوشت کی تیاری سے9.5 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔مزید برآں جب دالوں کومویشیوں کی خوراک میں شامل کیا جاتا ہے تو اِن کا اعلیٰ پروٹین پر مبنی مواد جانوروں میںfood conversion کے تناسب کو بڑھانے میں معاون ہوتا ہے اور چگالی کر نے والے جانوروں (ruminants)سے میتھین کے اخراج کو کم کرتا ہے ۔اس طرح دالیںگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو بھی کم کرتی ہیں۔
دالوں کی انواع میں وسیع جینیاتی تنوع ہوتا ہے جسکی بدولت آب و ہوا کی مناسبت سے اقسام کا انتخاب کرکے اِسے کاشت کیا جاسکتا ہے خاص کر کلائیمیٹ چینج سے متاثرہ علاقوں میں ماحول سے مطابقت رکھنے والی قسم کو کاشت کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ دالیں آب و ہوا کے لحاظ سے سمارٹ ہیں وہ بیک وقت موسمیاتی تبدیلیوں کو اپناتی ہیں اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔مثلاً خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والی دالیں خشک آب و ہوا میں کاشت کی جا سکتی ہیں کیونکہ پروٹین کے دیگر ذرائع کے مقابلے دالوں کی پانی کی ضروریات بھی قدرے کم ہے۔
اس حوالے سے تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایک کلو مسور کی دال(Lentils) کی پیداوار میں1250 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ایک کلو مرغ کے گوشت(Mutton) کی تیاری میں 4325 لیٹر، چھوٹے گوشت(Mutton) کی تیاری میں 5520 لیٹر اور بڑے گوشت(Beef) کی تیاری میں 13000لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔
دالیں اور زرعی فوائد
دالیں چونکہ پھلی دار اجناس ہیں ان کی جڑیںگلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ لہذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر کاشت کی جاسکتی ہیں۔ کماد ،چاول اور کپاس والے علاقوں میں جہاں گندم یا ربیع کی فصلات کاشت نہ ہوسکتی ہوں اس رقبے پر دالوں کی بہاریہ کاشت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دالیں مٹی میں اپنی نائٹروجن کو ٹھیک کر سکتی ہیں اس لیے انہیں کم کھاد کی ضرورت ہوتی ہے نامیاتی اور مصنوعی دونوں۔دالوں کی نائٹروجن ٹھیک کرنے والی خصوصیات مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنا تی ہے جو کھیتوں کی پیداوار کو بہتر اور بڑھاتی ہے۔مزید برآںدالیں ساتھی فصلوں کو زمینی پانی فراہم کر سکتی ہیں جب انٹرکراپنگ سسٹم میں کاشت کیا جائے۔اس سسٹم میں دالوں کو شامل کرنے سے مٹی کے کٹاؤ اور تنزلی کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ مقامی دالوں کا استعمال کرتے ہوئے انٹرکراپنگ سسٹم کے ذریعے مٹی میں کاربن کی ضبطی کی صلاحیت کو مونو کراپ سسٹم کے مقابلے میں بہتر کیا جاسکتا ہے۔
دالوں کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں کم زرعی مداخل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرچنے کی فصل کو ایک سے دو آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گندم کو چار سے پانچ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح چنے کو 9 کلو گرام نائٹروجن اور 23 کلوگرام فاسفورس فی ایکڑ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گندم کی نائٹروجن کی ضرورت 54 کلوگرام، فاسفورس کی ضرورت 34 کلو اور پوٹاشیم کی ضرورت 25 کلوگرام ہے۔ مزید برآںچنے کی جڑوں پر نوڈولز بنتے ہیں جو زمین میں فضا میں موجود نائٹروجن کو حاصل کرکے زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
دالیں عالمی منظر نامہ
دالوں کی کاشت ہزاروں سالہ پرانی تاریخ کی حامل ہے یہ صدیوں سے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کررہی ہیں۔دالیں11 ہزار سال قبل ابتدائی اناج کے ساتھ کاشت کی جانے والی اوائل فصلوں میں شامل تھیں ۔ دالیں دنیا کے تقریباً ہر کونے میں اُگائی جاتی ہیںایف اے او کے اعدادوشمار کے مطابق2020 میں دنیا کے 169 ممالک میں دالوں کی کاشت کی گئی۔ جس سے 94621001ٹن دالیں حاصل ہوئیں۔مذکورہ سال دنیا میں دالوں کی پیداوار کے بڑے تین ممالک میں انڈیا اول، کینڈا دوم اور چین تیسرے نمبر پر رہے۔
عالمی پیداوار کا 24.7 فیصد بھارت میں پیدا ہوا، 8.6 فیصد کینڈا اور 5.1 فیصد چین میں پیدا ہوا۔بھارت دنیا میں دالوں کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ، صارف اور درآمد کنندہ ہے۔دنیا میں دالوں کی کھپت کا 27 فیصد بھارت میں استعمال ہوتا ہے اور دنیا میں دالوں کی درآمدات کا 14 فیصد بھارت کرتا ہے۔جبکہ کینڈا دنیا بھر میں دالوں کا سب سے بڑا بر آمد کنندہ ہے 2018 میں کینڈا نے 4359946 میٹرک ٹن دالیں برآمد کیں جن کی مالیت 2000 ملین ڈالر تھی۔دنیا میں دالوں کے استعمال کی اوسط 8 کلوگرام فی کس سالانہ ہے۔
دالیں صدیوں سے انسانی خوراک کا اگرچہ ایک لازمی حصہ رہی ہیں اس کے باوجود ان کی غذائی قدر کو عام طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور دالوںکی پیداوار کی اوسط سطح دنیا بھر میںکم رہتی ہے۔پچھلے 50 سالوں میں مکئی، گندم، چاول اور سویابین کی پیداوار میںجتنا اضافہ ہوا دالوں نے اس کے مقابلے میں بہت معمولی اضافہ حاصل کیا۔ 1961 سے 2012 کے درمیان سبز انقلاب کی پیشرفت نے کاشتکاری میں ہونے والی جدت کی بدولت بہت سی بنیادی غذائی اشیاء کی پیداوار میںبڑے پیمانے پر اضافہ حاصل کیا۔
اس مدت کے دوران مکئی، گندم، چاول اور سویا بین کی مجموعی پیداوار میں 200 فیصدسے 800 فیصد کے درمیان اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسی مدت کے دوران دالوں کی پیداوار میں صرف 59 فیصد اضافہ ہوا۔اگرچہ سبز انقلاب کو دنیا بھر میں اربوں اضافی لوگوں کو کھانا کھلانے کا سہرا دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی دیگر فصلوں کی بہتر اقسام اور کاشت کے طریقے تیار کرنے کے لیے مساوی کوششیں نہیں کی گئیں ۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق آج صرف چاول، مکئی اور گندم عالمی غذائی توانائی کی 60 فیصد سے زیادہ مقدار فراہم کرتے ہیں۔ لیکن دنیا میں 50000 قسم کے خوردنی پودے دستیاب ہیں۔
دالوں کے کل استعمال کا 60 فیصد سے زیادہ اگرچہ انسانی استعمال میں آتا ہے۔ لیکن انسانی خوراک میں دالوں کی اہمیت خطے سے دوسرے خطے اور ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔کم آمدنی والے ممالک میں عموماًزیادہ کھپت کا عمومی رجحان موجود ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں دالوں کے کل استعمال میں خوراک کے لیے استعمال کا حصہ 75 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 25 فیصد ہے۔
عالمی ماہرین کے مطابق دالوں کی کھپت میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں سست لیکن مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کے برعکس دودھ کی مصنوعات اور گوشت کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس میں اضافہ جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جبکہ دالوں کی فی کس کھپت میں کسی بڑی تبدیلی کی پیشین گوئی نہیں کی گئی ہے اس وقت دنیا میں دالوںکا اوسط استعمال تقریباً 21 گرام فی کس یومیہ ہے۔
دالیں اور پاکستانی منظر نامہ
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سال 2020 کے دوران دالوں کی 747004ٹن پیداورا حاصل ہوئی جو عالمی پیداورا کاصفر عشاریہ سات نو فیصد (0.79%)ہے۔
پاکستان مذکورہ سال دنیا بھر میں دالوں کی پیداوار کے حوالے سے 21 ویں نمبر پر رہا۔مذکورہ سال دنیا میں چنے کی تیسری بڑی پیداوار پاکستان میں ہوئی جو 497608ٹن تھی۔پاکستان ایگری کلچرریسرچ کونسل کے مطابق دالیں ملک کے کاشت شدہ رقبہ کے صرف 5 فیصد حصہ پر اُگائی جاتی ہیں۔ پاکستان نے مالی سال2020-21 کے دوران ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 1266287 میٹرک ٹن دالیں درآمد
کیں جن کی مالیت 70 کروڑ 97 لاکھ 31 ہزارڈالر تھی۔ دالوں کی یہ درآمد گزشتہ مالی سال یعنی2019-20 کے مقابلے میں مقدار کے حوالے سے 4.5 فیصد اور مالیت کے حوالے سے 15.4 فیصد زائد تھی۔ 2020 کے دوران چنے کی دوسری سب سے بڑی درآمد پاکستان نے ہی کی۔اس کے علاوہPeas, dry کی بھی تیسری بڑی درآمد وطنِ عزیز نے کی۔Beans, dry کی چوتھی بڑی درآمد ہم نے کی۔مسور (Lentils)کی پانچویں بڑی مقدار پاکستان میں مانگوائی گئی۔جبکہ ملک میں دالوںکا استعمال 7 کلوگرام فی کس سالانہ ہے۔پاکستان میں دالوں کے زیر کاشتہ فصلوں کا کل رقبہ 2018-19 میں 11 لاکھ67 ہزار ہیکٹر رہا۔ ان دالوں میں چنا سردیوں کی اہم پھلی ہے اور مونگ موسم گرما کی اہم پھلیاں ہیں۔
مذکورہ مالی سال چنے دالوں کے کاشتہ رقبہ کے81 فیصد حصہ پر کاشت ہوئے اور یہ دالوں کی کل پیداوارکے65 فیصد پر مشتمل رہے۔ مونگ دالوں کے کل رقبہ کے 14 فیصد پر کاشت ہوئی اوراُس نے د الوں کی کل پیداوار میں 17 فیصد حصہ ڈالا۔مسور اور ماش کی دال ہر ایک کو دالوں کے کل رقبہ کے 1.2فیصد پر کاشت کیاگیا اور ان میں سے ہر ایک دالوں کی کل پیداوار میں1 فیصد کا حصہ ڈالا۔
بدقسمتی سے ملک کے زرعی شعبے میں دالوں کی کاشت کس قدر نظر انداز شدہ شعبہ ہے اس کا اندازہ وفاقی ادارہ شماریات کی دستایز 50 ائیرز آف پاکستان والیم ون (1947-1997)اور پاکستان کی وفاقی وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی دستاویز ’’ ایگریکلچرل اسٹیٹسٹکس آف پاکستان2018-19 ‘‘ سے حاصل اعدادوشمار کے تجزیہ سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے 71 سالوں میں ملک میںمکئی، گندم، چاول، کپاس اورگنا کی پیداوار میں جتنا اضافہ ہوا دالوں نے اس کا عشر عشیر بھی اضافہ حاصل نہیں کیا۔
1947-48 سے 2018-19 کے دوران زرعی شعبے میں ہونے والی جدت اور ترجیحات کی بدولت بہت سی بنیادی اجناس کی پیداوار میںبڑے پیمانے پر اضافہ حاصل ہوا۔ اس مدت کے دوران مکئی، گندم، چاول، کپاس اورگنا کی مجموعی پیداوار میں 941فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ ان فصلوں کے زیر کاشت رقبہ میں مجموعی طور پر 151 فیصد اضافہ ہوا ۔ جب کہ اسی مدت کے دوران دالوں کی مجموعی پیداوار میں اضافہ کی بجائے4.5 فیصدکمی واقع ہوئی۔یعنی جتنی دالیں ہم نے1947-48 میں پیدا کیں2018-19 میں ہم اُس سے بھی کم دالیںپیدا کرسکے۔ اس طرح مذکورہ عرصہ کے دوران دالوں کے زیر کاشتہ مجموعی رقبہ میںبھی 9.2 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ دوسری فصلوں کی طرح دالوں کی پیداوار میںخاطر خواہ اضافہ حاصل کیوں نا کیا جا سکا؟اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع)پنجاب ڈاکٹرمحمد انجم علی بٹر نے بتایا کہ ’’ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ملک میں دالوں کے معیاری بیج کی کمی ہے کیونکہ نجی شعبہ دالوں کے بیج تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا ۔ دوسرا دال کی کاشت اور کٹائی کے لیے مشینی ذرائع کی بھی کمی ہے اور زیادہ تر کام ہاتھوں سے انجام پاتا ہے جس کی وجہ سے لیبر کاسٹ بڑھ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دال کی کاشت میں درکار خصوصی مداخل پر سبسڈی میں کمی اور فصل کی امدادی قیمت کہ نا ہونے کی وجہ سے کسانوں کی توجہ دالوں کی کاشت پر دیگر فصلوں کے مقابلے میںکم ہے ۔ہمارے یہاں دالیںعموماً ایسے علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں جنہیں زرعی حوالے سے کمزور علاقے کہا جاتا ہے۔یہ علاقے عموماً بارانی ہوتے ہیں جہاں بارشوں کے نظام پرموسمیاتی تبدیلیاں اثر انداز ہورہی ہیں۔
زمین زیادہ تر ریتیلی ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں کی افزائش اور پانی کی دستیابی میں کمی دالوں کی پیداوار کو غیر یقینی صورتحال کی حامل بنادیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ایسی دالیں بھی درآمد کی جارہیں جو کم قیمت میں آتی ہیں ‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ پنجاب میں ہم زمیندار کی حالت بہتر بنانے کے لیے ان کے وسائل میں اضافہ کر رہیں تووہ دالوں کی کاشت کی طرف کیوں آئیں۔
ملک کے ایسے علاقوں میں جہاں اراضی موجود ہے اور بیکار پڑی ہے وہاں دالوں کی کاشت کی جائے تاکہ پورے ملک میں دالوں کی فصل بڑھے‘‘۔ دالوں کی پیداوار میں اضافہ کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع)پنجاب ڈاکٹرمحمد انجم علی بٹر کاکہنا ہے کہ ’’وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے دالوں کی کاشت میں اضافہ کے لیے کئی ایک اقدامات اور منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔
اسی تناظر میں پنجاب میں دالوں کی کاشت کے فروغ کے لییــ’’دالوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے تحقیق کو فروغ دینے‘‘ کے نام سے ایک پانچ سالہ منصوبہ پر کام جاری ہے جس کے تحت پورے پنجاب میں دالوں کے سرٹیفائیڈ بیج اور مشنری/ سامان فراہم کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کے تحت میانوالی، بھکر،لیہ اور خوشاب(نورپور تھل تحصیل صرف)میں پورٹیبل سولر ایریگیشن سسٹم بھی فراہم کیے جارہے ہیں‘‘۔
اس پراجیکٹ کے تحت بیجوں کی تبدیلی، رقبہ میں اضافہ، مشینری کی تقسیم اور دالوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بہتر پیداواری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے مونگ، ماش، چنے، مسورکے 64208 کاشتکاروں کا انتخاب کیا جائے گا ۔اِن دالوں کی اعلیٰ اور نئی منظور شدہ اقسام کے بنیادی اور تصدیق شدہ بیج کی 63608 بوریوں کی پیداوار اور 63608 ایکڑ پر اِن کی کاشت کے لیے کاشتکاروں کو 50 فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر تصدیق شدہ بیج کی فراہمی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ دالوں کے کاشتکاروں میں 50فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر مشینری کی تقسیم یعنی200 سیڈ ڈرل 100 ملٹی کراپ تھریشر، جڑی بوٹیوں کی صفائی کے لیے 500 چھوٹی مشینیں(Small Weeders) ،300 مکینیکل ویڈراور20 پورٹیبل سولر ایریگیشن سسٹم فراہم کیے جائیں گے۔جبکہ دالوں کی بہتر اقسام اور کاشت کے طریقوں پر مبنی72 نمائشی پلاٹ بھی تیار کیے جائیں گے‘‘۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ’’ اس پراجیکٹ کے تحت اب تک چنے کی کاشت کے غالب علاقوں میں 14221 ایکڑ چنے کا بیج اور پنجاب کے مونگ اگانے والے سرفہرست دس اضلاع میں 7548 ایکڑ مونگ کا بیج 50 فیصد لاگت کے اشتراک کی بنیاد پر تقسیم کیا جا چکا ہے۔پنجاب میں اڈاپٹیو ریسرچ فارمز پر بیج کی پیداوار کے مقصد کے لیے 164.5 ایکڑ پرچنے کا بیج بویا گیا جس سے 2020-21 میں سے 642.24 من پیداوار فی ایکڑ حاصل ہوئی ۔ مزید برآں293.5 ایکڑ پر مونگ کا بیج کاشت کیا گیا اور اس کی پیداوار 723.72 من فی ایکڑ رہی ‘‘۔
اُنہوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ ’’سال2020-21 کے دوران دالوں کی فصل میں میکانائزیشن کو فروغ دینے کے لیے پورٹ ایبل سولر اریگیشن سسٹم کے 10 یونٹ، 18 سیڈ ڈرلز، 17 ملٹی کراپ تھریشر، 6 مکینیکل ویڈر اور 55 چھوٹے ویڈرز تقسیم کیے جاچکے ہیں۔جبکہ رواں مالی سال کے دوران 182 سیڈ ڈرلز، 83 ملٹی کراپ تھریشر، 445 سمال ویڈرز اور 294 مکینیکل ویڈرز کی تقسیم کا عمل شروع کیا گیا ہے اور پورٹ ایبل سولر اریگیشن سسٹم کے 10 یونٹ بھی رواں مالی سال میں تقسیم کیے جائیں گے‘‘۔
ملک میں دالوں کے لیے کاشت کی گئی زمین کا رقبہ اور دالوں کی پیداوار گزشتہ کافی سالوں سے جمود کا شکار ہے۔جبکہ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کھپت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ یوں پیداوار اور کھپت کے درمیان کمی کو پورا کرنے کے لیے دالوں کی درآمدات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے پر تشویش کے باعث 2007 میں پاکستانی حکومت نے گھریلو استعمال کے لیے ملکی پیداوار کو محفوظ بنانے کے ارادے سے دالوں کی برآمدات پر 35 فیصد ٹیکس لگادیا۔
چونکہ ہم اپنی دالوں کی کھپت کے ایک بڑے حصے کو درآمدی دالوں کے ذریعے پورا کرتے ہیں توجب دالوں کی بین الاقوامی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور دالیں مہنگی درآمد ہوتی ہیںتوپاکستان میں دالوں کی قیمتیں غریب صارفین کے لیے تشویش کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب شہری شدید موسمی حالات، قدرتی آفات اور کئی ایک انسانی عوامل کی وجہ سے خوراک کی تواترکے ساتھ دستیابی اور استحکام کے حوالے سے اکثر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔
جسمانی طور پر خوراک تک رسائی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خوراک کا دسترس میں ہونا بھی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔ اس حوالے سے شہری مکین اور شہروں کے مضافاتی علاقوں کے باسی دیہی افراد کی نسبت زیادہ غیرسود مند صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اکثر اپنی خوراک خریدنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انھیں فوڈ مارکیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ قیمتوں میں اضافہ کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں خوراک کی قیمتیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ خوراک کیسی اور کتنی حاصل اور استعمال کی جائے۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے یا تو صارف اپنی خوراک کی مقدارکم کر دیتے ہیں اور کم خوراکی سے اُن کی صحت کو خطرات لاحق رہتے ہیں یا پھر وہ غیر معیاری خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو اُن کی صحت کے لئے غیر محفوظ ہوتی ہے۔
ایسے میں پاکستان جس کے52 فیصد شہری گھرانے جو نیشنل نیوٹریشن سروے2011 کے مطابق خوراک کے حوالے سے پہلے ہی غیر محفوظ ہیں۔ان کے لئے ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اور خاص کر شہری علاقوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی32 فیصد آبادی (سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی دستاویز پاورٹی اینڈ ویلنربیلٹی اسٹیمیٹس پاکستان2016) جو اپنی آمدن کا پہلے ہی 50 سے 80 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے دالوں تک رسائی اور ان کا کافی مقدار میں استعمال مزید بے معنی ہو گیا ہے۔
اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں دالوں کی مقامی پیداوار میں اضافہ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کو ششوں کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ ہم دالوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بناسکیں۔
https://www.express.pk/story/2280739/9812/
موسمِ سرما میں کثرت سے استعمال کیے جانے والا پھل جو کہ نہ صرف شدت پیاس بجھانے کے لیے نادر ہے بلکہ جسم کے باقی اعضاء کی گرمی دور کرنے کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ہے، جس میں جہاں پانی کی خاص مقدار ہے وہاں فائبر بھی پائے جاتے ہیں، یعنی آنتوں اورمعدے میں موجودمواد کو وزن مہیا کر کے جسم سے خارج کرنے میں بھی معاون ہے۔
اس انمول پھل کا نام ہے : مالٹا۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں مثلاً میٹھا مالٹا ، مندری مالٹا، ناگپور مالٹا ، لیموں، گریپ فروٹ وغیرہ ۔ جس نباتاتی خاندان سے مالٹے کا تعلق ہے اسے ’ریوٹی ایشے‘ کہتے ہیں کیوں کہ ان سب سے مختلف مقدار میں چینی، سٹرک ایسڈ ، فائبر ، ایسکاربک ایسڈ، حیاتین ڈی، حیاتین اے، حیاتین بی کمپلیکس، حیاتین ای، لحمیات ( پروٹین )، شحمیات (کاربو ہائیڈریٹ) ، نباتاتی چربی (یہ جلد کے نیچے چربی کی باریک تہہ بناتی ہے اس سے جلد کی جھریاں دور ہوتی ہیں) ، پانی پائے جاتے ہیں۔
اگر مالٹے کے چھلکوں کی افادیت پر غور کیا جائے تو وہ بھی نقصان دہ نہیںلیکن دیر ہضم ضرور ہیں۔ چھلکوں میں سیلولوز (یہ معادہ ہضم نہیں ہوتاکیوں کہ انسانی جسم میں اسے ہضم کرنے والے خامرات (انزائم ) نہیں ہیں، بلکہ فائبر کا فعل انجام دیتا ہے۔
کلوروفل (یہ ذرات بینائی کو بہتر بنا نے میں مدد دیتے ہیں) پائے جاتے ہیں، چونکہ گیس کی وافر مقدار پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیںلہذا انہیں نہ کھانا بہتر ہے۔ اگر مالٹے کے بیجوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں نباتاتی چربی، اینٹی گلوکوز (یہ گلوکوز کی مقدار کو کم کرتے ہیں اور مالٹوں میں موجود گلوکوز کی اصلاح کرتے ہیں)، حیاتین ای پائے جاتے ہیں۔
قدرت کا کرشمہ ہے کہ مالٹے کے ہر آدھے چاند نما ٹکڑوں میں بیجوں کی مختلف مقدار ملتی ہے، جو اس مطالعے کی دلیل ہے کہ اس کے ہر چاند نما ٹکڑے میں اجزاء کی مقدار بھی مختلف ہے چہ جائیکہ دیکھنے میںایک جیسی شکل دکھتی ہے۔
مالٹے کی جتنی اقسام ہیںسب میں چینی ، سرخ ذرات ، ایسکاربک ایسڈہی کی مقدار کا فرق ہے جو ذائقہ سے پتہ چل سکتا ہے مثلاً میٹھے مالٹے میں چینی کی مقدار وافر ہے، تو کھٹے میں وٹامن سی کی اور لیموں میں سٹرک ایسڈ نمایاں مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ یہ ایسڈ کیونکہ تیل کی اصلاح کرتی ہے اور اسے قابلِ ہضم بناتی ہے لہذا حلیم کھاتے وقت اس کا چھڑکاؤ ، حلیم کو زود ہضم بناتا ہے۔
مالٹے کے طبی فوائد
1۔ چونکہ مالٹا پیاس بجھانے میں معاون ہے لہذا صفراء (بائیل) کو کم کرتا ہے۔ بائیل کی زیادتی پیاس بڑھاتی ہے لہذا یہ یرقان ، اور بڑھے ہوئے جگر کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔
2 ۔ مالٹے کی طبیعت سرد اور تر ہے اور معدے کی تیزابیت کم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے دل کی گھبراہٹ میں فائدہ مند ہے۔ میٹھا مالٹا اس معاملے میں فوقیت کا حامل ہے۔
3 ۔ حیاتین ای، حیاتین اے کی موجودگی کی وجہ سے آنکھوں کے لیے بہتر ہے۔
4 ۔ جسم میں پانی کی مقدار بڑھاتا ہے۔ اکثر اشخاص کو شکایت ہوتی ہے کہ پانی پیاس بجھانے کی بجائے بذریعہ بول خارج ہو جاتا ہے۔ انہیں مالٹے کا جوس پینے کی ہدایت اسی لیے کی جاتی ہے کہ اس میں میں موجود اجزاء پانی کو جزوِ بدن بنادیتے ہیں۔ اور مالٹوں میں موجود حیاتین ای اور حیاتین سی بال اور جلد کی نشونما بہتر طور پر کرتی ہیں۔
5۔ ہڈیوں کو لچکدار اور مضبوط کرتا ہے۔
6۔ دماغ کی نشوونما کرتا ہے اور صحت افزاء نیند لانے کا باعث ہے۔
7۔ تھکاوٹ دور کرتا ہے۔
8 ۔ گردے اور مثانے کی پتھری توڑنے میں معاون ہے۔
9۔ آنتوں میںخشکی کی وجہ سے پیدا ہونے والی قبض کو دور کرتا ہے۔
10۔ مالٹے کے چھلکے کو رات بھر گرم پانی میں بھگوئیں ، اسی پانی سے غسل کریں تو جلد کے رنگ میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ بعض حضرات کو اس کے سبب خارش کی شکایت ہو جاتی ہے ، اس لیے بہترہے کہ اس پانی سے غسل کے بعد ایک مرتبہ سادہ پانی بھی جسم پر ڈالیں۔
مالٹا کن افراد کو مضر ہے؟
1۔ بلغمی مزاج اور کھانسی ، نزلہ و زکام جنہیں زیادہ رہتا ہو۔ ایسے لوگوںکو مالٹا اس لئے نہیںکھانا چاہیے کہ اس کی تاثیر سرد ہے۔
2 ۔ دل کے مریض جن کا جسم سوجا ہو، کیوں کہ مالٹے میں پانی اور نمکیات بھی ہیں اور انہیں امراض ِ قلب کے مریضوں کے جسم سے بول آور ادویات کے ذریعہ نکالا جاتا ہے۔
3 ۔ بلڈ پریشر کے مریض معالج سے ہدایت حاصل کر کے استعمال کریں۔
4 ۔ رات کو سونے سے پہلے نہ استعمال کریں کہ یہ گیس اور بلغم پیدا کردیتا ہے۔
5 ۔ تیزابیت کے مریض ترش مالٹا نہ استعمال کریں۔
6 ۔ ہڈیوں کے درد میں اس کا استعمال بعض مریضوں کے لیے مفید ہے، بالخصوص جن کی ہڈیاں خشکی سے درد کرتی ہوں جب کہ جن افراد کی سردی کی وجہ سے دکھتی ہوں، انہیں دوپہر کے بعد نہیںکھانا چاہیے۔
مالٹے کی اصلاح کیا ہے؟
مالٹے کی تمام اقسام کی اصلاح فلفل سیاہ کا سفوف ہے۔ یہ مالٹے کی غذائیت پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ مزاج کو معتدل کرتا ہے۔ اس کے بعد مالٹے کی اصلاح سونٹھ کے سفوف سے بھی کی جاتی ہے۔
یہ بھی مالٹے کی غذائیت کو کم نہیں کرتا ، بلغم اور ٹھنڈ کی اصلاح کرتا ہے۔ بعض لوگ مالٹے پر سیاہ نمک چھڑکنے کی ہدایت کرتے ہیں، مگر اس سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو نقصان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ ہلدی کا سفوف چھڑکتے ہیں۔
ہلدی گرم و خشک درجہ چہارم پر ہے لہذا مالٹے کی غذائیت پر برا اثر مرتب کرتی ہے۔ مالٹے کے جوس میں بھی اکثر حضرات سیاہ نمک ڈالتے ہیں تاکہ ذائقہ بہتر ہو سکے، مگر بہتر ہے کہ مالٹے کا سادہ جوس ہی پئیںاور بعد میں سیا ہ زیرہ چبا لیں، کچھ ہی دیر میںڈکاریں آ کر جوس ہضم بھی ہوجاتا ہے اور گیس کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح مالٹے کے کچھ دیر تک کیلا ، سیب ، کھٹے انارکا استعمال بھی حکما جائز نہیں سمجھتے لیکن میوے کھائے جا سکتے ہیں۔ اگر نزلہ و زکام کے مریض کا مالٹے کھانے کا دل کرے تو دو عدد سے زیادہ نہ کھائے اور تھوڑی سی سونٹھ سفوف کی مقدار چھڑک لے۔ آدھا گھنٹے بعد دودھ پتی پی کرمالٹے کی اصلاح کرے۔ دودھ پتی گرمی بالعرض پیدا کرتی ہے، مالٹے کے دوگھنٹے تک دہی اور دہی سے بنے مرکبات کا استعمال طبی نظریے کے مطابق نقصان دہ ہے۔
https://www.express.pk/story/2282989/9812/
پاکستان سمیت دنیا میں عام استعمال ہونیوالی یہ درد کش گولی دل کے دورے کا خطرہ بن رہی ہے، تحقیق کے بعد ماہرین نے وارننگ جاری کردی
Feb 08, 2022 | 16:36:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
ایڈنبرا(مانیٹرنگ ڈیسک) پیراسیٹامول عام استعمال کی جانے والی دردکش گولی ہے، جو ہنگامی استعمال کے لیے ہر گھر میں رکھی جاتی ہے تاہم اب سکاٹ لینڈ کے ماہرین نے اس گولی کے استعمال کے متعلق ایک سخت وارننگ جاری کر دی ہے۔
دی سن کے مطابق ماہرین کی طرف سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اس گولی کا زیادہ استعمال لوگوں میں ہارٹ اٹیک کے خطرے میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ پیراسیٹامول کی وجہ سے ایک چوتھائی برطانوی شہریوں میں ہارٹ اٹیک آنے کی کا خطرہ زیادہ ہو چکا ہے۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہرین نے بتایا ہے کہ پیراسیٹامول کا یہ نقصان اس کے طویل مدتی استعمال کی صورت میں لاحق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو روزانہ 2گولی پیراسیٹامول کھاتے ہیں ان کو ہارٹ اٹیک یا سٹروک ہونے کا خطرہ 20فیصد بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین نے ڈاکٹروں کو بھی متنبہ کیا ہے کہ انہیں اپنے مریضوں کو پیراسیٹامول بہت کم وقت کے لیے اور بہت کم مقدار میں تجویز کرنی چاہیے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر آئیان میکن ٹائر کا کہنا تھا کہ جو لوگ سردرد یا بخار کے لیے کبھی کبھار پیراسیٹامول استعمال کرتے ہیں، ان کو یہ گولی ایسا کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔تاہم لوگوں کو اس کے روزانہ کی بنیاد پر مسلسل استعمال سے ہرممکن گریز کرنا چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Feb-2022/1400702?fbclid=IwAR3suMPgrfrF6FEFBGO76-IDs7HcbOp9hCBYaK709UzetAsi8pWgXSCEg1g
موٹاپے سے نجات کا انتہائی آسان حل مل گیا
Feb 08, 2022 | 16:36:PM
موٹاپے سے نجات کا انتہائی آسان حل مل گیا
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے سے نجات انتہائی مشکل کام ہے تاہم اب امریکی سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کا ایک ایسا آسان حل بتا دیا ہے کہ موٹاپے کے شکار وہ لوگ جو سونے کے بھی شوقین ہیں، خوش ہو جائیں گے۔
میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو کے ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں بتایا ہے کہ نیند میں اضافہ کرنے سے آدمی کا موٹاپا کم ہوتا ہے۔ ماہرین کی اس تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ اپنی روزانہ کی نیند میں ایک گھنٹے کا اضافہ کرتے ہیں وہ دن بھر میں 270کیلوریز کم کھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے وزن میں کمی آتی ہے۔
خاتون ملازم سے پارلیمنٹ میں زیادتی ، آسٹریلوی وزیر اعظم نے معافی مانگ لی
ماہرین نے بتایا کہ نیند میں ایک گھنٹہ اضافہ کرنے والے لوگوں کے وزن میں ایک سال کے دوران 8.6پاﺅنڈ (تقریباً 4کلوگرام) کمی واقع ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ماہرین نے اس تحقیق میں موٹاپے کے شکار 80لوگوں پر تجربات کیے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Feb-2022/1400700?fbclid=IwAR1luMwGWtTqZbG_ikmJCeRXN4Axcm0sqQMRWoqCgVhoBMXZinG03DGUBzQ
آپ کا ہم سفر ’ذہنی مریض‘ تو نہیں؟ وہ علامات جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں
Feb 07, 2022 | 17:01:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) برا تعلق انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتا ہے مگر آپ کو کیسے پتا چلے کہ آپ جس شخص کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں وہ ’ذہنی مریض‘ہے اور آپ کی زندگی جہنم بنا کر رکھ دے گا؟ ایک خاتون ماہر نفسیات نے ایسے لوگوں کی پانچ علامتیں بتا دی ہیں۔ دی سن کے مطابق میڈی اینولٹ نامی اس ماہر نے بتایا ہے کہ ایسے پارٹنرز جو آپ کو ’فتح‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں اور اسی لحاظ سے آپ کے ساتھ سلوک کرتے ہوں، ان کے ذہنی انحطاط کا شکار ہونے کا غالب امکان ہوتا ہے۔
میڈی اینولٹ کا کہنا تھا کہ ”ایسے لوگ جبلی جھوٹے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ رہتے ہوئے آپ کو ہمہ وقت ایک بے سکونی کی سی محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر وقت ایسی باتیں اور طنز وغیرہ کرتے رہتے ہیں جس سے آپ کو کوفت ہو، ایسے لوگ رشتے میں قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کرتے اور خود کو ہر قانون اور روایت سے مبرا خیال کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کا مزاج انتہائی غصیلا ہوتا ہے۔ “ میڈی اینولٹ کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کے پارٹنر میں یہ خصلتیں پائی جاتی ہیں تو آپ کو اس کے ساتھ تعلق پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کے سدھرنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پارٹنر ایک بار آپ پر غصہ کرے یا ہاتھ اٹھائے تو آئندہ زندگی بھر کے لیے اس پر کبھی اعتبار مت کریں۔ وہ یقینا بار بار آپ پر ہاتھ اٹھائے گا اور ہر بار ایسا نہ کرنے کا وعدہ کرے گا۔ “
https://dailypakistan.com.pk/07-Feb-2022/1400212?fbclid=IwAR2QsslajQnGE1DeXVyoEeJgPdgqbEH4ssKkxghJk8VvOqcAQNNzhWjmGTQ
چمپانزی غیرمعمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں لیکن اب ان کے متعلق ایک غیرمعمولی پہلو سامنے آیا ہے۔ اس میں ایک چمپانزی کو دوسرے چمپانزی کے زخم کا علاج کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
2019 میں گبون میں واقع لونگو نیشنل پارک میں ایک پی ایچ ڈی طالبعلم نے دیکھا کہ ایک ماں چمپانزی نے اپنے بچے کے کھلے زخم پر ایک کیڑا پیس کر بطور مرہم لگایا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کا رحجان چمپانزیوں میں اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔
پارک میں سوزی نامی مادہ چمپانزی نے اپنے بچے سیا کے پیر پر ایک کھلا زخم دیکھا۔ اس کے بعد اس نے کچھ دور جاکر مٹھی میں کوئی شے دبائی اور اسے منہ میں رکھ کر پیسا اور اس کے بعد زخم پر مل دیا۔
اس کے بعد ایسے کی واقعات دیکھے گئے اور ریکارڈ ہوئے جس میں چمپانزیوں نے ہوا میں اڑتے کیڑے پکڑے ، پھر انہیں منہ میں رکھ کر پیسا اور زخم پر لگایا۔ اس طرح پورے پارک میں ایسے 22 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چمپانزیوں نے زخمی یا بیمار ساتھی کا علاج کیا اور اکثریت میں کیڑوں کو استعمال کیا گیا۔
چمانزیوں کے ماہر ڈاکٹر ٹوبیاس ڈیشنر کے مطابق ان جانوروں میں کیڑوں کے مرہم سے علاج کا یہ پہلا واقعہ ریکارڈ ہوا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل سانپ، ممالیے اور بعض سمجھدار پرندے بھی اپنا علاج خود کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں لیکن کیڑوں سے علاج کا طریقہ صرف چمپانزیوں میں ہی معلوم ہوچکا ہے۔
ماہرین نے انہیں چمپانزیوں کی فارمیسی کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ منہ میں نرم کردہ کیڑے زخم پر لگانے سے درد یا جلن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید انہوں نے انسانوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے اوروہ اس عمل کی نقل کررہے ہیں۔
لیکن اس تحقیق کا پہلو یہ ہے کہ ایک جانور دوسرے کی مدد کررہا ہے اور اس کا معالج ہے۔ چمپانزیوں میں اس طرح کے رحجانات پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔ یہاں تک کہ اجنبی چمپانزی بھی ایک دوسرے کی اسی طرح مدد کرتے ہوئے دیکھے گئے جو ایک خالص انسانی عمل ہے۔
https://www.express.pk/story/2282115/508/
ماہرین نے کہا ہے کہ بالخصوص ڈینگی پھیلانے والے مچھر ایڈیز ایجپٹائی سرخ اور سیاہ رنگوں کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہرین کہتے رہے ہیں کہ مچھر پسینے اور خود ہماری سانسوں کی جانب بھی راغب ہوتے ہیں۔ اس طرح نارنجی، سرخ اور سیاہ رنگ ان مچھروں کو کشش کرتے ہیں جبکہ سبز، بنشی، نیلے اور سفید رنگ کی طرف وہ نہیں آتے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں حیاتیات کے ماہر جیفرے رِفل کہتے ہیں کہ خود ہماری جلد مچھروں کو ہماری جانب بلاتی ہے۔ جب مچھر اپنی آنکھوں سے ہماری جلد کو دیکھتے ہیں تو وہ انہیں شوخ نارنجی دکھائی دیتی ہے۔ اس سگنل سے مچھر ہمارے جلد کی طرف لپکتا ہے۔
اسی طرح منہ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی مچھروں کو راغب کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے نیچر کمیونکیشن میں شائع رپورٹ کے مطابق مچھر سونگھنے کی شاندار حس رکھتے ہیں اور ہمارے پسینے کو محسوس کرکے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔
تو مجموعی طور پر مچھر تین اشاروں سے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ اول پسینہ، دوم سانس اور تیسرا جلد کا درجہ حرارت۔ لیکن اب چوتھی شے یعنی سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑوں کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر مچھروں سے بچنا ہے تو ہلکے رنگوں کے کپڑے زیب تن کیجئے۔
صرف مادہ مچھر خون چوستی ہیں اور یوں چکن گنیا، ملیریا اور ڈینگی جیسے جان لیوا مرض کی وجہ بنتی ہیں۔ ماہرین نے چھوٹے چیمبر میں مچھروں کو رکھ کر ان کے سامنے مختلف رنگ پیش کئے۔ اس کے علاوہ مختلف بو اور گیسوں کا اسپرے بھی کیا۔
واضح طور پر مچھروں نے سبز، سفید اور نیلے رنگ کو چھوڑ دیا لیکن سیاہ اور سرخ رنگ کی جانب مائل ہوئے۔ لیکن جیسے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج ہوئی مچھر اس کی طرف بھاگنے لگے۔
https://www.express.pk/story/2281569/9812/
وٹامن ڈی جسے دھوپ کا وٹامن بھی کہا جا سکتا ہے ، ایسا وٹامن ہے جو چربی میں بھی حل پذیر ہوجاتا ہے۔
اس کی دو اہم اقسام ڈی تھری اور ڈی ٹو ہیں۔ یہ ایک ضروری مائیکرو نیوٹرینٹ ہے جو سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما کے علاوہ مدافعتی نظام کو فعال رکھتا ہے۔ یہ وٹامن دل کے امراض کے خطرات کو کم کرتا ہے۔ ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کسی شخص کو اگر امراض قلب کا سامنا ہے تو علاج سے پہلے اس کے جسم میں موجود وٹامن ڈی کی مقدار کو جان لینا بھی مریض کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ اس کے علاج میں بھی معاون ثابت ہو گا ۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا میں 9.17 ملین افراد امراض قلب کی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور عالمی سطح پر 32 فی صد ہونے والی تمام اموات کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل حالات ، عمر اور خاندانی تاریخ ، خوراک اور طرز زندگی بھی ان اموات کے اسباب میں شامل ہے۔ آسٹریلیا کے محققین کے تجزیاتی نقطہ نظر کے مطابق بھی وٹا من ڈی کی کمی دل کے امراض کو بڑھا سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں آسٹریلین سنٹر فار پریسجن ہیلتھ کی ڈائریکٹر پروفیسر ایلینا ہائپنن نے ’ میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘ کے پیش کردہ تجزیے کے نتائج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی بلڈ پریشر اورامراض قلب کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وٹامن کی اضافی مقدار ان لوگوں کے لیے مفید ہے جنھیں اس کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے نتائج یورپی ہارٹ جرنل میں بھی شائع میں بھی ہو چکی ہے۔
تحقیق کے مطابق اکثر محققین نے بتایا ہے کہ25 ہائیڈروکسی وٹامن ڈی سیرم یا 25(OH)D امراض قلب کو کم کرنے میں فائدہ مند ہے۔ محققین نے اپنے پیش کردہ مفروضے کو جانچنے کے لیے ، ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے مخصوص تجزیاتی طریقے استعمال کیے ۔
یہ تجزیاتی اور تجرباتی طریقے انہوں نے37 سال سے 73سال کی عمر کے برطانوی لوگوں پر آزمائے ۔ ان افراد کو13 مارچ 2006 ء سے یکم اکتوبر2009 ء کے درمیان برطانیہ کے بائیس تشخیصی مراکز میں رکھا گیا اور ان سے بنیادی صحت اور طرززندگی کے متعلق سوال نامے پر کروائے گئے۔ اس کے علاوہ بائیو مارکر اور جینیاتی جانچ کے لیے ان کے خون کے نمونے بھی حاصل کیے گئے۔
ان کے علاوہ تحقیقی ٹیم نے غیر متعلقہ افراد سے بھی مختلف سوالات کیے اور ان کا بھی ڈیٹا حاصل کیا ۔ پھر ان کا باہمی موازنہ کیا گیا۔ تحقیقی ٹیم عالمی ادارہ صحت کے ذریعے ان افراد کی جنیاتی جانچ کرتی رہی ۔ حفاظتی اقدام کے طور پر انہوں نے مزید متغیرات بھی جمع کیے۔
سائنسدانوں نے یہ معلومات 295,788 شرکا سے حاصل کیں۔ اس کے بعد یہ سوال یہ ہے تھا کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد نتائج کیا کہتے ہیں۔ محققین نے بغیر کسی بھی امراض قلب کی تشخیص کے نتائج کا موازنہ سروے میں شامل لوگوں سے کیا۔ اس کے علاوہ ثانوی قسم کے تجربات بھی کیے جس کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے امراض قلب کے خطرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
وٹامن ڈی کی کمی کے نقصانات کو سمجھنے کے لئے ’ میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘ نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا ۔ سانتا مونیکا سی اے پروویڈنس سینٹ جونز ہیلتھ سنٹر بورڈ کے سرٹیفکیٹڈ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر رگ وید تڈوالکر نے وٹامن ڈی کی کمی کے طبی اثرات کا خودجائزہ لیا ہے ۔
ان کے مشاہدے کے مطابق دل کو لاحق ہونے والے خطرات کا جائزہ لینے سے پہلے وٹامن ڈی کی جسم میں درست مقدار کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے اور اس سے وٹامن ڈی کی کمی کے بارے میں بات کرنی چاہیے تاکہ صحت و تندرستی حاصل کرنے کے لئے بہتر سے بہتر حکمت عملی پر عمل پیرا ہوا جاسکے ، ان کی اور ان کے دل کی شریانوں کے مسائل اور فالج کے خطرات سے بچا جا سکے۔
https://www.express.pk/story/2279853/9812/
اپنی پریکٹس کے د وران میں بہت سارے والدین نے اس پریشانی اور سوال کے ساتھ مجھ سے رجوع کیا کہ بچوں کا ’ اسکرین ٹائم‘ خطر ناک حد تک بڑھ چکا ہے، اسے کیسے کم کیا جائے؟
اس کے جواب میں میرا ان سے سوال یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ بتائیے، بچوں کو اسکرین کا تعارف کس طرح ہوا ؟ کس نے انھیں اسکرین سے جوڑا؟ کس نے انھیں اسکرین کا عادی بنایا ؟ ظاہر ہے کہ میرے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے ان والدین کی آنکھیں شرمندگی کے مارے نیچے ہوتی ہیں ۔
موجودہ وقت میں جہاں زندگی میں معیار اور ترقی کی بنیاد ڈیجیٹل گیجٹس کی بہتات سمجھی جاتی ہے، وہاں ایک انسان اس آسانی اور آسائش کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، اس صورت میں کہ یہ ڈیجیٹل دنیا ہر انسان کے لیے ایک چیلنج اور ایک فتنہ بن چکی ہے، ہر شخص کسی نہ کسی طرح اس کے مضر اثرات سے متاثر ہورہا ہے ، کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ۔ پچھلی دہائی تک اسکرینز کا استعمال محتاط حد تک کیا جاتا تھا اور اسے کافی حد تک بے ضرر بھی سمجھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رجحان بڑھتا چلا گیا ۔
اب ہر عمر کے لئے اسکرین کے حوالے سے الگ ہی محاذ کھلا ہوا ہے۔ ہر عمر کے افراد خطر ناک حد تک اس کے مضر اثرات کی زد میں ہیں ، خصوصاً کورونا پھوٹ پڑنے کے بعد دنیا ایک ڈیجیٹل گلوب کا نمونہ بن چکی ہے ۔ ڈیجیٹل ازم نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بہرحال یہ ایک نہایت تفصیل طلب موضوع ہے۔ فی الحال ہم صرف چھوٹی عمر کے بچوں میں اسکرین ایڈکشن کے حوالے سے بات کریں گے ۔ واضح رہے کہ اسکرین ایڈکشن کا مطلب ٹی وی ، موبائل وغیرہ کا بہت زیادہ استعمال ہے ۔ اس کے سبب ایک انسان پر اس کے نہایت خطرناک برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور جسمانی بھی ۔
ایک سروے کے مطابق اسکرین ایڈکشن سے سب سے زیادہ فکر مند وہ باشعور والدین ہیں جو چھوٹی عمر سے اپنے بچوں کو اسکرین کے زیادہ استعمال سے بچانا چاہتے ہیں ۔کم عمری میں اسکرین کے استعمال پر کافی ریسرچ ہو چکی ہے، رسائل اور جرائد میں بھی اس حوالے سے آگاہی کا کافی سامان موجود ہوتا ہے، بہت سے ادارے عام لوگوں کی آگہی کے لیے کام بھی کر رہے ہیں تاکہ نئی نسل کو وسیع پیمانے پہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔
اگر ہم مضر اثرات کی بات کریں تو سب سے اولین نکتہ یہ ہے کہ بچوں کے اذہان ابتدائی نشو ونما کے مراحل میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، وہ ذہنی استعداد ، فوکس اور ارتکاز ( کنسنٹریشن ) کی صلاحیت ہے ۔ دوسرا بڑا نقصان جو بچوں میں زیادہ نظر آ رہا ہے وہ ’’ اسپیچ ڈیلے‘‘ ہے ۔ جب تین ، چار سال کے بچوں کے والدین بچے کی بول چال میں کمی کے مسائل کی شکایات لے کر آتے ہیں تو پس پردہ اسکرین کے زیادہ استعمال کا سبب ہی نکلتا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس بچے کو جس کمیونیکیشن اور سوشل انٹر ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ نظر کا متاثر ہونا تو آج کل ایک معمول کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر بحیثیت والدین ہمیں یہ اندازہ ہو جائے کہ ہم بچوںکی اور اپنی ’’ آسانی‘‘ کے لیے کتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں تو شاید ہم اپنے بچوں کو ہر قیمت پر ان اسکرین گیجٹس سے دور رکھیں۔ مزید یہ کہ بچوں کے مزاج میں بہت تیزی سے تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ بچوں میں جارحانہ پن ، اینٹی سوشل رویے، ضد ، خودسری اور بورڈم جیسے عمومی مسائل ہر گھر کی کہانی ہیں جب کہ چھوٹی عمر کے بچوں میں آٹزم اور ہائیپر ایکٹیویٹی سنڈروم جیسی ذہنی بیماریوں کا رجحان بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ مسائل کبھی شاذ ہی سننے میں آتے تھے ۔
ہماری آگاہی کے لیے بہت کچھ سامان موجود ہے لیکن بحیثیت والدین ہماری پریشانی وہیں کی وہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو اسکرین کا تعارف دینے والے بھی خود والدین ہی ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر مائیں بچوں کو مصروف کرنے کے لئے انھیں اس طرح کی چیزوں کی عادی بناتی ہیں ۔ ایسے میں اس اسکرین ایڈکشن کو کم یا ختم کروانا بھی صرف والدین کی کوششوں ہی سے ممکن ہے ۔ جب تک والدین اس ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے عملاً خود کو تیار نہیں کریں گے تب تک کسی بھی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی ۔
بچوں کو اسکرین ایڈکشن سے واپس کیسے لایا جائے ؟ اس حوالے سے بعض عملی اقدامات آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ بحیثیت ایک ماں یہ اقدامات خود میرے لیے بھی فائدہ مند رہے ہیں بلکہ دیگر کئی والدین نے بھی ان عملی کوششوں کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے ۔
سب سے پہلے تو خود یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ جتنی سنجیدگی سے اپنے بچوں کی یہ عادت بدلنے کی خواہاں ہیں اس کے لئے آپ کو اسی قدر تیزی سے اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا ہوگا ۔ مصروفیت کا عذر اور وقت نہ ہونے کا بہانہ بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اسکرین کے حوالے کرنے کے مترادف ہے ۔ آپ کو خود اپنے آپ میں مستقل مزاجی اور برداشت پیدا کرنا ہوگی ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ غصہ اور فرسٹریشن کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ۔ ہماری اور ہمارے بچوں کی اکثر غلط عادتوں کی وجہ والدین کی اپنی غیر مستقل مزاجی ہوتی ہے ۔ اگر ہم مستقل مزاجی کی اچھی عادت اپنا لیں تو بہت سے معاملات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے ۔
اگر ہم خود زیادہ وقت کے لئے اسکرین استعمال کرتے ہیں تو بچوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ اس کی طرف نہیں جائیں گے یا اس سے باز آجائیںگے ۔ بچے وہی کچھ سیکھتے اور پھر عملاً کر کے دکھاتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں ۔آپ کو بخوبی علم ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے ہر لحاظ سے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کا اسکرین ٹائم کم سے کم کرنے کے لئے اپنے لیے یہ ہدف طے کریں کہ کس طرح اسکرین کا کم سے کم استعمال کیا جائے ۔ اس کے لئے اپنے آپ کو پابند کرنا ضروری ہے کہ اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی کیا جائے ۔
مثلاً اسکرین کے استعمال کے اوقات مخصوص کیجئے ۔ ترجیح یہ رہے کہ فیملی ٹائم’’ نو اسکرین ‘‘ ٹائم ہو ۔ بچوں کے لیے پورے دن کا معمول مرتب کیجئے ۔ کوشش رہے کہ سیکھنے ، سکھانے کا عمل فزیکل ہو نہ کہ اسکرین کے ذریعے سکھایا جائے ۔ فیملی کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ رات سونے سے پہلے کسی بھی اسکرین کا استعمال کم سے کم ہو ۔
اگر آپ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم کے بارے میں متفکر ہیں تو یاد رکھیں کہ جب یہ بور ہو رہے ہوں ، ضد یا شور کر رہے ہوں ، یا آپ کو کسی بھی انداز میں پریشان کر رہے ہوں تو ان سے جان چھڑانے کے لئے انھیں موبائل ہرگز نہ تھمائیں ۔ ایسا کرنے والے والدین خود اپنے بچوں کو غلط متبادل فراہم کرتے ہیں ۔ آپ انھیں ضد ، شور یا کسی بھی انداز میں پریشان کرنے سے منع کریں لیکن اس کے بعد انھیں موبائل تھما دیں ، آپ کا یہ رویہ صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔
اسکرین ایڈکشن کے چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے اور اس کے منفی اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے والدین کا خود بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد ہونا بہت ضروری ہے ۔ انھیں ذہنی طور پر خوب تیز طرار ہونا چاہیے ، ان کے پاس اسکرین کے متبادل آئیڈیاز ہونے چاہئیں ۔ صرف اسکرین ایڈکشن کے لئے فکر مند ہونا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ آپ اسے ایک چیلنج سمجھیں ، اس کے لئے نہ صرف بچوں کو گھر کے اندر صحت افزاء مصروفیات مہیا کرنا لازمی ہے بلکہ آؤٹ ڈور فزیکل سرگرمیوں کا انعقاد بھی ضروری ہے ۔گھر میں لائبریری ، گارڈ ننگ ، سائیکلنگ جیسی صحت افزاء مصروفیات عمدہ مثالیں ہیں ۔ سب سے اچھی بات ہے کہ چھوٹی عمر سے بچوں میں مطالعہ کتب کی عادت پروان چڑھائی جائے ۔
بچوں کو اسکرین فراہم کرتے وقت یاد رکھیںکہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں اسکرین دینا بہت آسان ہے لیکن اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا بہرحال محنت طلب اور صبر آزما کام ہوگا ۔گھر میں ’ نو انٹرنیٹ ‘ یا ’ نو وائی فائی ٹائم ‘ ضرور رکھیں ۔ گھر کے دیگر افراد سے اسکرین ٹائم کے حوالے سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ جلد یا بدیر وہ آپ کی کوششوں کو سمجھ کر آپ کی مدد کر سکیں ۔ والدین کے مابین اس موضوع پہ وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ممکنہ کوششوں پر بات چیت بھی ضروری ہے ۔ یاد رہے کہ اسکرین کی عادت چھڑوانا صرف والدہ یا پھر صرف والد کی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لئے دونوں کو مل کر ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا ۔
اگر بچوں کو اسکرین فراہم کرنا بہت ہی ناگزیر ہو جائے تو انھیں بڑی اسکرین کے بجائے موبائل اسکرین کی سہولت فراہم کریں ۔ ایسا کرتے ہوئے بھی یاد رکھیں کہ بہت جارحانہ ، تیز رنگوں، تیز میوزک ، آوازوں، غیر اخلاقی اور غلط عقائد کے حوالے سے مواد بچوں کو نہ دکھایا جائے ۔ جب بچے اسکرین استعمال کر رہے ہوں توانھیں صحیح اور غلط کی آگہی کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس سسٹم بھی ضرور قائم کریں ۔ امید ہے کہ میرے مذکورہ بالا نکات ہماری اس کوشش میں موثر ثابت ہوں گے ۔
اسکرین کے ذریعے کس طرح باطل نظریات کو ہمارے دماغوں میں انڈیلا جا رہا ہے ، اگلی تحریر میں قلم بند کروں گی ۔
https://www.express.pk/story/2260097/508/
وہ چیز جس کو اپنی خوراک سے نکال کر پیٹ کی چربی ختم کی جاسکتی ہے
Feb 01, 2022 | 17:34:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) پیٹ کی چربی کم کرنا انتہائی کٹھن کام ہے تاہم ایک برطانوی ڈاکٹر نے ایک ایسی چیز بتا دی ہے جسے اپنی خوراک سے نکال کر آپ اس کٹھن کام کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ٹی وی شو ’دِس مارننگ‘ کے ڈاکٹر مائیکل موسلے نے بتایا ہے کہ جو لوگ پیٹ کی چربی کم کرنا چاہتے ہیں، انہیں اپنی خوراک سے شوگر کو نکال باہر کر دینا چاہیے۔
ڈاکٹر مائیکل کا کہنا تھا کہ اگر آپ اپنی خوراک سے شوگر کا خاتمہ نہیں کرتے تو پیٹ کی چربی کم کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ مارکیٹ میں ’ڈائٹ فوڈز‘ قرار دیئے جانے والے کئی طرح کے ڈرنکس اور سنیکس ہیں۔ ان کے متعلق بھی متنبہ رہنا چاہیے کہ یہ بھی موٹاپے کے حوالے سے اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر آپ موٹاپا کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان ڈائٹ ڈرنکس اور ڈائٹ فوڈز سے بھی گریز کرنا ہو گا۔
https://dailypakistan.com.pk/01-Feb-2022/1397786?fbclid=IwAR1mApSBMFbtU8O3k5ixDHK0FnUKzkpjkAaiIqUFhEIbPf9t3sQekafVyho
آپ کے اور ہمارے گھر میں ایک بہت جادوئی دال موجود ہے جو نہ صرف کولیسٹرول گھٹاتی ہے بلکہ بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتی ہے۔ اسے ہم مونگ کی دال کہتے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں مونگ کی دال پر بہت تحقیق کی گئی ہے۔ مونگ کی دال بدن میں اینجیوٹینسن کنورٹنگ اینزائم ( اے سی ای) کو روکتی ہے۔ یہ خامرہ دل کی بیماریوں کو بڑھاتا ہے کیونکہ یہ شریانوں کو سخت اور تنگ کرتا ہے۔
جرنل ہیومن اینڈ ایکسپیریمنٹل ٹاکسی کولوجی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق دالیں اور لوبیا ایل ڈی ایل کولیسٹرول گھٹاتی ہیں۔ مونگ کی دال میں اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں اور یوں پورے جسم پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مونگ کی دال ایک ماہ تک استعمال کی جائے تو اس سے بلڈ پریشر کو مؤثر انداز میں قابو کیا جاسکتا ہے۔ اس دال میں فینولز اور پیپٹائڈزکی وافر مقدار ہوتی ہے جو پورے جسمانی نظام کو تندرست رکھتے ہیں۔
مونگ کی دال کا تیسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس میں میگنیشیئم کی وافرمقدار موجود ہوتی ہے۔ میگنیشیئم جسم پرکئی اہم اثرات کی وجہ بنتا ہے۔ بدن میں اس کی مناسب مقدار دل کے دورے اور فالج سے بچاتی ہے۔ اس سے قبل میگنیشیئم کا ایک مطالعہ کیا گیا۔ اس میں 40 سے 79برس کے 58 ہزار افراد پر میگنیشیئم کا جائزہ لیا گیا تھا۔ سروے کے اختتام پرمعلوم ہوا کہ میگنیشیئم کی درست مقدار فالج اور دل کے دورے کا خطرہ 51 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2278869/9812/
امریکا میں چالیس سالہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مسلسل پریشانیاں آدمیوں میں دل کی بیماریوں اور ذیابیطس سمیت کئی امراض کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں۔
البتہ عورتوں کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ تحقیق صرف مردوں پر کی گئی ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی یہ تحقیق ’’جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جس میں عمر رسیدگی سے متعلق وسیع امریکی مطالعے میں جمع شدہ معلومات استعمال کی گئیں۔ ’’نارمیٹیو ایجنگ اسٹڈی‘‘ کہلانے والا یہ مطالعہ 1963 میں شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے طبّی ماہرین نے اس مطالعے کے تحت 1550 مرد امریکیوں کی صحت کے بارے میں 1975 سے 2015 تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کا محتاط جائزہ لیا۔
مطالعے کے آغاز پر ان آدمیوں کی اوسط عمر 53 سال تھی جبکہ انہیں کوئی شدید بیماری بھی نہیں تھی۔
ان افراد میں ہر تین سے پانچ سال بعد بلڈ پریشر، کولیسٹرول، شوگر اور بی ایم آئی سمیت ان سات چیزوں کی پیمائشیں لی جاتی رہیں جن میں خلافِ معمول کمی بیشی کو صحت کےلیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
جن آدمیوں نے دوسروں کی نسبت زیادہ تشویش اور پریشانی میں مبتلا رہنے کی شکایت کی تھی، ان میں دل کی بیماریوں، فالج اور ذیابیطس کا خطرہ بھی 10 سے 13 فیصد زیادہ دیکھا گیا۔
مالی مسائل سے لے کر گھریلو ناچاقی تک، ان آدمیوں کی تشویش اور پریشانی کے کئی اسباب تھے جن کے نتیجے میں انہوں نے پابندی سے ورزش کرنا چھوڑ دیا تھا جبکہ سگریٹ اور شراب نوشی کی مضر عادتوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے۔
ان ہی خراب عادتوں کی وجہ سے ان آدمیوں کو بعد ازاں فالج، دل کے دورے اور ذیابیطس وغیرہ کا سامنا کرنا پڑا۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا تشویش (anxiety) کی بناء پر یہ لوگ اپنی روزمرہ کی معمولی پریشانیوں اور مسائل تک کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عادی ہوگئے تھے جبکہ ان میں اسی دوران بلڈ پریشر، مضر کولیسٹرول (ایل ڈی ایل) اور بلڈ شوگر میں بھی نمایاں طور پر اضافہ دیکھا گیا۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر لیوینا او لی نے وضاحت کی ہے کہ اس میں جن مردوں کی صحت سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ان کی اکثریت سفید فام تھی جبکہ اس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔
اگرچہ انہیں امید ہے کہ دوسری نسلوں سے تعلق رکھنے والوں اور خواتین کےلیے بھی تحقیق کے نتائج تقریباً یہی ہونے چاہئیں لیکن جب تک اس حوالے سے مزید تحقیق نہیں ہوتی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2278678/9812/
’اگر جنسی صحت بہتر کرنی ہے تو یہ کام کریں‘ ماہرین نے مشورہ دے دیا
Nov 14, 2020 | 19:26:PM
سورس: Pixabay
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) مردوخواتین کی جنسی صحت کا انحصار ان کی خوراک پر ہوتا ہے اور اب اس حوالے سے کرسٹین ڈی لوزیئر نامی ایک ماہر نے اپنی کتاب میں مردوں کو انتہائی مفید مشورے دے دیئے ہیں۔برطانوی اخبار دی سن کے مطابق کرسٹین کا کہنا ہے کہ ’’مردوں کو چکنائی اور شوگر سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں چیزیں استعمال کے چند گھنٹے کے اندر ہی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ خون کی وریدوں کو سخت بناتی ہیں جس سے خون کا بہائو متاثر ہوتا ہے جو کہ نہ صرف مردوں میں عضو مخصوصہ کی ایستادگی کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ خواتین میں بھی جنسی تسکین کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔‘‘
کرسٹین نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’مردوخواتین کو پالک اور اسی نوع کی دیگر سبز پتوں والی سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنی چاہئیں کیونکہ یہ ٹیسٹاسٹرون لیول کو نارمل رکھنے میں مدد دیتی ہیں اور مردوں کے ساتھ خواتین کے لیے بھی جنسی تسکین کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی خوراک لینی چاہیے جو وٹامن بی کی حامل ہو۔ وٹامن ڈی اعصابی صحت کے لیے بہت مفید ہوتا ہے جس کا جنسی صحت میں کردار ناگزیر ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کرسٹین نے مردوں کو روزانہ دو مٹھی خشک میوہ جات کھانے کا بھی مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی تحقیقات میں مردانہ جنسی صحت کے لیے خشک میوہ جات کی افادیت سامنے آ چکی ہے۔ یہ خون کے بہائو کو بہتر بناتے ہیں اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھتے ہیں جو مردانہ جنسی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ کرسٹین نے اینٹی آکسیڈنٹس لینے، اومیگا تھری کی حامل اشیاء کھانے، کیلے اور مشرومز کو اپنی روزمرہ خورا ک کا حصہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
https://dailypakistan.com.pk/14-Nov-2020/1210680?fbclid=IwAR0itWR_fUkcg_-OcAci6Cm0FhhreiOEo5qiJB_k6PA9tEa-DLiCiQfAGqs
وہ چیزیں جنہیں استعمال کر کے ہم بلڈ شوگر لیول کم کرسکتے ہیں
Oct 07, 2021 | 19:41:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ہمارے خون میں شوگر کا لیول دن بھر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے جو کہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی بات اسے کنٹرول میں رکھنا ہے تاکہ ہم بلڈشوگر لیول بہت زیادہ بڑھ جانے سے لاحق ہونے والی سنگین بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اب ایک ماہر نے کچھ ایسی تدابیر بتا دی ہیں جس کے ذریعے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول کو بہت حد تک کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔دی سن کے مطابق کیری بیسن نامی اس ماہر کا کہنا ہے کہ انار کا جوس پینا، باقاعدگی سے واک کرنا، ذہنی پریشانی سے خود کو نجات دلانا، زیادہ پانی پینا اور زیادہ شوگر کی حامل غذائی اشیاءسے گریز کرنا ایسے عوامل ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول کم رکھ سکتے ہیں۔
کیری بیسن کا کہنا تھا کہ انار کا جوس بلڈشوگر لیول کو کم کرنے میں اس قدر مددگار ثابت ہوتا ہے کہ جوس کا ایک گلاس پینے کے محض 15منٹ بعد بلڈشوگر لیول کم ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذیابیطس کی پہلی اور دوسری قسم کے مریضوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ثابت ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہمیں روزانہ 15سے 30منٹ کے لیے واک کرنی چاہیے۔ اس طرح ہمارے پٹھے خون میں موجود شوگر کو زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بلڈشوگرلیول کم ہو جاتا ہے۔ صحت مند آدمی کو بھی روزانہ دو لیٹر پانی پینا چاہیے تاہم اگر آپ کو بلڈشوگر زیادہ ہونے کا عارضہ لاحق ہے تو آپ کو اس کی بہرحال پابندی کرنی چاہیے۔ زیادہ پانی پینے سے آپ کو زیادہ پیشاب آئے گا اور اضافی شوگر آپ کے جسم سے نکل جائے گی۔“
https://dailypakistan.com.pk/07-Oct-2021/1350333?fbclid=IwAR2iPJHaaP1HJ3MWTF-4R1svs-J_nSLrwBgI0PKY2QnGYynSumburIbtm48
منہ کی بد بو سے نجات پانے کا آسان ترین نسخہ
Aug 14, 2019 | 19:39:PM
نیویارک(نیوزڈیسک) جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو کچھ ذرات ہمارے دانتوں میں پھنس جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو برش کرنے کے باوجود نہیں نکلتے۔دانتوں میں رہنے کی وجہ سے یہ ذرات گل سڑ جاتے ہیں اور منہ سے ناگوار بدبو کا باعث بنتے ہیں۔کئی کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی پیسٹ اور اس طرح کے دیگر اشیاءکی وجہ سے دانت صاف رہیں گے لیکن ان میں موجود کیمیکل کی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔آئیے آپ کو قدرتی طریقے سے بنائے گئے نسخے سے منہ سے بدبوختم کرنے کا آسان طریقہ بتاتے ہیں۔
اجزا
ایک کپ گرم پانی
ایک چمچ شہد
آدھ چمچ دارچینی پیسی ہوئی
دولیموں
ایک چمچ سوڈیم بائی کاربونیٹ
بنانے کا طریقہ
لیموں کا رس نکال کراس میں شہد اور دارچینی مکس کریں،اب اسے گرم پانی میں لیں اور اچھی طرح ہلائیں(مکس کرنے کے لئے شیشے کاجاراستعمال کریں)۔
اب اس محلول سے غرارے کریں،اس میں موجود اجزاءکی وجہ سے منہ کی بدبو اور بیکٹیریا ختم ہوں گے۔دارچینی منہ کے بیکٹیریا،شہد انٹی بیکٹیریل اور بیکنگ سوڈا سے دانت چمکیں گے۔
https://dailypakistan.com.pk/14-Aug-2019/1007251?fbclid=IwAR2qBpG5vjHKn-5tV0v-zNUHP-aCPrTmH4YhKGZfH5SHoc4kTne5XMQV4PM
مصالحے دار کھانوں کا جنسی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ تحقیق میں حیران کن بات سامنے آگئی
Feb 07, 2021 | 19:38:PM
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن ) کھانوں میں زیادہ مصالحوں کے استعمال کے انسانی صحت پر اثرات سے متعلق ایک تحقیق ہوئی ہے جس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ مصالحے کھانے والے افراد کی جنسی خواہشات بھی بڑھ جاتی ہیں ۔امریکی (sauce)کے ایک برانڈ نے رائے شماری کے ذریعے ایک سروے کیا جس میں امریکی افراد سے ان کی شخصیت سے متعلق بہت سے سوالات پوچھے گئے اور پھر ان سے پوچھا کہ وہ کتنا مصالحے دار کھانا پسند کرتے ہیں ۔
اس تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ زیادہ مصالحے دار کھانا پسند کرتے ہیںان کی جنسی خواہشات کم مصالحے دار کھانا کھانے والوں سے دوگنی ہوتی ہے ۔تحقیق کے مطابق ان لوگوں کو خطروں کے کھیلوں میں زیادہ مزہ آتا ہے ،ایسے لوگوں کو رولر کوسٹر رائڈ پر بیٹھنا ،اونچی آواز میں میوزک سننا اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانا ،سکائی ڈائیونگ ،دریاوں میں کشتی چلانا ،سمندروں میں تیراکی کرنے جیسے خطرناک کھیل اچھے لگتے ہیں ۔اس کے علاوہ زیادہ مصالحے دار کھانے پسند کرنے والوں کو سوشل زندگی ،زیادہ باتیں کرنا او رنئے لوگوں سے ملنابھی اچھا لگتا ہے ۔
https://dailypakistan.com.pk/07-Feb-2021/1247669?fbclid=IwAR07f4u9YNeRa6BAjjzkmPK5wLSkbHflEWyaxJ4GLk3gMAOyZOL-OqS-fhw
وہ ڈرائی فروٹ جسے کھانے سے آپ کے وزن میں اضافہ نہیں ہوتا
Dec 19, 2018 | 18:08:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سردیوں کے موسم میں خشک میوہ جات کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں وزن کم کرنے کی کوشش میں مصروف لوگ یقینا پریشان ہوتے ہوں گے تاہم اب ماہرین نے ایسے لوگوں کے لیے ایک ڈرائی فروٹ بتا دیا ہے جو وزن میں اضافہ نہیں کرتا اور یہ ڈرائی فروٹ ’بادام‘ ہے۔ میل آن لائن کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ بادام میں زیادہ چکنائی نہیں ہوتی چنانچہ یہ انسان کے وزن میں بالکل بھی اضافہ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ اس میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں جو چکنائی ہوتی ہے وہ ہضم ہونے کے تمام مراحل میں اس کے ذرات کے اندر ہی رہتی ہے اور جسم میں جذب نہیں ہوتی۔
رپورٹ کے مطابق ماہرین نے تمام خشک میوہ جات پر تحقیق کی جس کے نتائج میں معلوم ہوا کہ لگ بھگ سبھی خشک میوہ جات میں موجود چکنائی کا 20فیصد اور کیلوریز کا ایک چوتھائی حصہ جسم میں جذب نہیں ہوتا۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر سارا بیری کا کہنا تھا کہ ”لوگ خشک میوہ جات اور بالخصوص باداموں سے اس لیے خائف ہوتے ہیں کہ وہ موٹاپے کا سبب بنتے ہیں لیکن ہماری تحقیق میں یہ عام تاثر غلط ثابت ہوا ہے۔ بادام بالکل بھی موٹاپے کا سبب نہیں بنتے اور باقی خشک میوہ جات بھی لوگوں کو بہت کم موٹاپے کا شکار بناتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے ہماری صحت کے لیے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ خاص طور پر نظام انہضام کی انتڑیوں اور دل کی صحت کے لیے یہ بہت مفید ہوتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/19-Dec-2018/898844?fbclid=IwAR1YkCBW6k07jTOTAYK6gSG8470AJLomlYRcDQK0HN0yxy4BfG5_3718DUg
جنسی صحت اور موٹاپے میں گہرا تعلق سامنے آگیا
May 16, 2021 | 20:08:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے کے بے شمار نقصانات سائنسدان اپنی تحقیقات میں بتا چکے ہیں اور اب ایک ماہر نے موٹاپے اور جنسی صحت کے درمیان گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف برمنگھم کے ماہر ڈاکٹر عابد تہرانی کا کہنا ہے کہ موٹاپا کئی حوالوں سے لوگوں کی جنسی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا اور ازدواجی زندگی کو تباہ کرتا ہے۔ موٹاپے کے شکار مردوخواتین میں ایک طرف جنسی خواہش بہت کم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں اولاد ہونے کا امکان بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔
ایک اور ماہر اینی ہینڈرسن کا کہنا ہے کہ موٹاپا خواتین میں حیض کے بے قاعدگی، پولی سسٹک اوورین سنڈروم، افزائش نسل کے مسائل اور دیگر کئی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ تھرش (Thrush)ایک ایسی بیماری ہے جو ہر 4میں سے 3خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور لاحق ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر موٹاپے کی شکار خواتین ہی کو لاحق ہوتی ہے اور ان کی جنسی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ موٹاپے کا مردوخواتین کی جنسی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان کی جنسی زندگی بتدریج تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ازدواجی تعلق ختم ہونے کا امکان بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289613?fbclid=IwAR0UwMjQDoMKni51tbta_WeXwTky0YzwuauNWpDsBBhEupXwLQFZWAD7Llo
اگر آپ ہر وقت تھکان اور کمزوری محسوس کرتے ہیں تو اس وٹامن کا استعمال فوری طور پر شروع کردیں
May 16, 2021 | 20:03:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ ذرا سے کام کے بعد تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو آپ کو اپنا وٹامن ڈی کا ٹیسٹ کروانا چاہیے کہ کہیں آپ میں اس کی کمی تو نہیں، کیونکہ ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے انسان نقاہت اور تھکاوٹ کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے اور بالواسطہ طور پر اس سے انسان کی ہڈیاں بھی کمزور ہوتی ہیں۔ یہ تحقیق برطانیہ کے شہرایڈمبرگ کی ایک میڈیکل ٹیم نے کی ہے۔ ماہرین نے کچھ رضاکاروں کو 20منٹ تک سائیکل چلانے کو کہاگیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو نقلی گولی یعنی پلیسیبو(Placebo) جبکہ باقی کو وٹامن ڈی کی خوراک دی گئی تھی۔ سائیکل چلانے کے بعد ماہرین نے ان کا معائنہ کیا اور تھکاوٹ کا چیک کی۔ دو ہفتے بعد انہی لوگوں کو ایک بار پھر 20منٹ تک سائیکل چلانے کو کہا گیا مگر اس بار ان لوگوں کی خوراک تبدیل کر دی۔
پہلے جن لوگوں کو پلیسیبو دیا گیا تھا انہیں وٹامن ڈی دے دیا اور جنہیں وٹامن ڈی دیا گیا تھا انہیں پلیسیبو دے دیا گیا۔ دونوں بار ان افراد میں تھکاوٹ کے آثار انتہائی کم تھے جنہیں وٹامن ڈی کی خوراک دی گئی تھی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کو پلیسیبو دیا گیا تھا وہ سائیکل چلانے کے بعد بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے۔ برطانوی اخبار ”ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ”آج کل لوگوں میں وٹامن کی کمی عام پائی جاتی ہے اس لیے آج کل لوگ زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ چونکہ وٹامن ڈی انسانی جسم میں کیلشیم کے انہضام کے لیے انتہائی ضروری ہے اور کیلشیم ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے۔ اس لیے وٹامن ڈی کی کمی سے بالواسطہ طور پر انسان کی ہڈیاں بھی کمزور ہوتی ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289611?fbclid=IwAR33wuQsXrJ5hCouwpwTtX14fjfzIbH-clniEbhF-MUbE4DK8yWY6rYMkIY
آپ کے باورچی خانے میں موجود ایک چیز جس کے استعمال سے معدے کی تیزابیت ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی
Jul 22, 2021 | 11:25:AM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
نیویارک(نیوزڈیسک) معدے کی تیزابیت کی وجہ سے کافی پریشانی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اچھی خاصی زندگی عذاب لگنے لگتی ہے۔کچھ لوگوں کایہ مسئلہ اس قدر گھمبیر ہوجاتا ہے کہ وہ اگر پانی بھی پی لیں تو اس کی وجہ سے بھی تیزابیت ہوجاتی ہے۔لیکن قدرت نے بیکنگ سوڈا میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ اگر اسے استعمال کیا جائے تو معدے کی تیزابیت کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔
معدے کی تیزابیت کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتی ہے
ہمارے معدے میں تیزابہت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب معدے میں موجود تیزاب کی مقدار غذائی نالی تک بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے سینے کی جلن محسوس ہونے لگتی ہے۔ایسا تب ہوتا ہے کہ جب ہم بہت زیادہ مصالحے والا،چکنائی اور تیزابی کھانا کھائیں۔اس کے علاوہ کچھ ادویات کی وجہ سے بھی معدے میں تیزابیت ہوجاتی ہے۔
بیکنگ سوڈا سے معدے کی تیزابیت کا علاج
کھانے کے بعد آدھا چمچ بیکنگ سوڈا لیں اور اسے ایک گلاس پانی میں حل کرکے پی لیں،اس کی وجہ سے آپکے معدے میں موجود تیزابہت کم ہوتی جائے گی۔آپ اس طرح کے سات گلاس دن میں پی سکتے ہیں لیکن دھیان رہے کہ اس سے زیادہ ہرگز استعمال نہ کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-Jul-2021/1318768?fbclid=IwAR25bA9-A9DfCFJqBSa4mINoHlMSxAShsOMJKDC3jljqA_KIhGyMeJ7YE9k
بہترین جلد کے لئے کتنے منٹ نہانا چاہیے؟ معروف ڈاکٹر نے انتہائی واضح جواب دے دیا، لوگوں کو خبردار کردیا
Feb 03, 2018 | 18:35:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سردیوں میں جلد کی خشکی کا مسئلہ ہر ایک کو درپیش ہوتا ہے تاہم اب ایک معروف امریکی ڈاکٹر نے اس سے نجات پانے اور جلد کو بہترین بنانے کا ایک انتہائی آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق معروف ڈرماٹالوجسٹ ڈاکٹر ہورڈ سوبیل نے بتایا ہے کہ ”سردیوں میں جلد کی خشکی سے بچنے کے لیے روزانہ نیم گرم پانی سے صرف چار منٹ تک نہانا چاہیے۔ کبھی بھی سردیوں میں 4منٹ سے زیادہ مت نہائیں ، حتیٰ کہ 5یا 6منٹ تک نہانے سے بھی جلد کی خشکی کا مسئلہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔“
ڈاکٹر سوبیل کا کہنا تھا کہ ”سردیوں میں نہانے کے لیے صابن کی بجائے کسی نرم کلینزر کا استعمال کرنا چاہیے اور نہانے کے بعد تولیے کا استعمال لازمی ہونا چاہیے لیکن تولیے سے جسم کو رگڑیں مت، بلکہ نرمی سے جسم کو خشک کریں۔اس کے بعد کوئی بھی اچھا موئسچرائزر پورے جسم پر لگائے۔ اس سے آپ کے جسم نے نہانے کے دوران جو پانی جذب کیا ہو گا وہ جسم میں ہی رہے گا اور تمام دن آپ کی جلد خشکی سے محفوظ، نرم اور تروتازہ رہے گی۔نہانے کے بعد موئسچرائزر جتنا زیادہ استعمال کریں اتنا ہی بہتر ہو گا۔“
https://dailypakistan.com.pk/03-Feb-2018/725396?fbclid=IwAR3dMRd0AS4WoyqSCmDIL8MS9brCC9zkEwSI7tp7vhbUahqn88-7hDeaZaY
کھائیں پئیں اور موٹاپا بھگائیں، موٹاپے سے نجات کے 9 آسان طریقے
Oct 05, 2020 | 17:40:PM
لاہور(ویب ڈیسک) دنیا بھر میں موٹاپے کا شکار افراد کی تعداد آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ خواتین اور حضرات اس کے علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں، کھیل کے میدانوں اور جم کے چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موٹاپا ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ خوراک میں معمولی تبدیلوں کے ذریعے سے موٹاپے سے نجات پا سکتے ہیں۔ خوراک میں شامل بعض اجزا جسم میں چینی اور چربی کو جلا کر زیادہ توانائی پیدا کرتے ہیں۔ اس سے موٹاپا خود بخود بھاگ جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موٹاپے سے بچنا ہے تو خوراک کم کر دو، اس طرح کم کھانے سے وزن خود بخود بھاگ جائے گا، یہ سوچ غلط ہے۔ یہ ہر شخص پر صحیح ثابت نہیں ہوتی۔البتہ کچھ خاص قسم کے پھل اور سبزیاں کھانے سے نظام ہاضمہ بہتر کام کرنے لگتا ہے۔ یہ پھل چربی اور چینی کی مقدار کو جلا کر موٹاپا ختم کر دیتے ہیں۔ غذائی ماہرین اس سلسلے میں 9 پھلوں اور سبزیوں کو انتہائی قرار دیتے ہیں۔
ناشپاتی
موٹاپے سے نجات کے لیے یورپی دنیا میں اسے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ چینی آہستہ آہستہ جسم میں شامل ہوتی ہے تو یہ اس میں کام آتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ چینی کے توانائی میں کمی کر دیتا ہے۔چینی کی مقدار میں کمی ہونے سے جسم چربی کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے جس سے موٹاپا خود بخود کم ہو جاتا ہے۔
ادرک
زرد زنگ کی یہ سبزی عمومی طور پر جسمانی سوزش کے علاج میں استعمال ہوتی ہے مگر ادرک میں ایک خاص قسم چربی کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق اس قسم کی پروٹین کھانے والے افراد موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ موٹاپے کا باعث بننے والی چربی کے اجزا کو یہ خود ہی جلا کر ختم کر دیتا ہے۔ اس سے وزن اور چربی دونوں میں کمی ہوتی ہے۔
ناریل کا تیل
بسا اوقات چربی سے زرخیز خوراک بھی وزن میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ ناریل کا تیل بھی انہی میں سے ایک ہے جس کے بے تحاشا طبی فوائد ہیں۔ جب ہم چینی سے پاک قدرتی چربی کا استعمال کرتے ہیں اور بہتر کاربوہائیڈریٹس لیتے ہیں۔پروٹین کی مقدار مناسب ہو تو پھر ہم اپنی خوراک کو اچھی خوراک کہہ سکتے ہیں۔ اس سے مٹھاسس کی مقدار اور چربی مناسب مقدار میں جسم میں رہتی ہے۔ ایسی صورت میں جسم کو پہلے سے جمع شدہ چربی کو جلا کر توانائی حاصل کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اور آپ بھوک کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ناریل کا تیل دراصل نظام ہاضمہ کو بہتر بنانے کا قدرتی ذریعہ ہے۔ اس میں شامل خاص قسم کی چربی کھانے کے فوراً بعد ہضم ہو جاتی ہے۔ توانائی کا اخراج نظام ہاضمہ کو بہتر بناتا ہے جس سے چربی جمع ہونے کی بجائے توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہلے سے جمع شدہ چربی بھی پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔
سٹرابری
سٹرابری میں جو چربی کو پگھلانے والے کئی اقسام کے اینٹی اوکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں۔ اسے اکثر پانی کے ساتھ سٹور کیا جاتا ہے تا کہ یہ زیادہ عرصہ تازہ رہ سکے۔ بلیو بیریز بھی ایک اچھی خوراک ہے اور یہ بھی چربی کو پگھلانے کا باعث بنتی ہے۔ اس سے پیٹ کا سائز کم ہوتا ہے۔
پائن ایپل
پائن ایپل میں ایک خاص قسم کا کیمیکل برومی لین پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل پیٹ میں موجود دیگر انزائمز کے ساتھ مل کر چربی کو ہضم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اناناس بھوک مٹاتا ہے جس سے چربی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
انڈے
انڈے میں پروٹین اور کم چربی والے اجزا پائے جاتے ہیں جس سے جسم میں پہلے سے موجود چربی کے استعمال میں مدد ملتی ہے۔ انڈے میں موجود امائنو ایسڈز چربی کو جلانے اور پھٹوں کو مضبوط بنانے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ امائنو ایسڈز کی ایک خاص قسم لیو سین بھی موٹاپا کم کرنے میں مفید ہے۔
بادام
جدید تحقیق میں جہاں باداموں کے بہت سے فائدے گنوائے گئے ہیں۔ امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن نے اپنے جریدے میں لکھا ہے کہ روزانہ 22 گرام باداموں کے استعمال کو کولسٹرول پر قابو پانے مدد دیتا ہے۔ بادام کولسٹرول پیدا کرنے والے ایل ڈی ایل نامی پروٹین کی مقدار کو بھی کم کرتا ہے۔ اس سے پیٹ کی چربی اور کمر کے سائز میں بھی کمی آتی ہے۔
سفید لوبیا
سفید لوبیا میں پائے جانے والے کچھ اجزا کاربورہائیڈریٹس پیدا کرنے کے عمل کو سست بناتے ہیں جس سے جسم میں چینی کی مقدار جمع نہیں ہو پاتی۔ چینی کی مقدار کے کم استعمال کے باعث چربی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔
مرچیں
سرخ مرچ جسم کو دبلا پتلا کرنے کے عمل میں انتہائی اہم سمجھتی جاتی ہے بلکہ سلمنگ سنٹر والے یورپ میں اس کے استعمال کو بڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Oct-2020/1192938?fbclid=IwAR0O9vTKUa7fCryY8Qz00NAMghqWf0-kXmu4fJUTjql1fr9zA9FALqNDijw
مردانہ طاقت کا راز کونسی غذا میں پوشیدہ؟ ماہر خوراک نے مردوں کو بہترین مشورہ دے دیا
Nov 23, 2020 | 19:20:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) طویل عرصہ ایک ساتھ رہنے کے بعد میاں بیوی کے تعلق میں ایک یکسانیت سی آ جاتی ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں پہلے سے محبت اور اپنائیت نہیں رہی تاہم ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ صرف یکسانیت اور جنسی تحریک کے فقدان کے سبب ہوتا ہے۔ کرسٹین ڈی لوزیئر نامی اس ماہر نے کچھ ایسی غذائی اشیاءبتائی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ان اشیاءکی بدولت آپ کو اپنے شریک حیات سے دوبارہ محبت ہو جائے گی۔ میل آن لائن کے مطابق کرسٹین نے ان اشیاءکو ’جنسی ڈائٹ‘ کا نام دیا ہے جس میں سرفہرست پالک اور دیگر پتوں والی سبزیوں کو رکھا گیا ہے۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ سبزپتوں والی سبزیاں مردوخواتین میں جنسی تحریک کے اضافے کے لیے انتہائی مفید ہیں۔ جنسی تحریک کے خاتمے کی بڑی وجہ ذہنی دباﺅ ہوتا ہے اور ان سبزیوں میں پائے جانے والے اجزا جنسی خواہش کو متاثر کرنے والے ہارمونز ’کورٹیسول‘ وغیرہ کے توازن کو برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
کرسٹین کا کہنا تھا کہ ان سبزیوں کے بعد اومیگا تھری کی حاملہ خوراک جنسی صحت کے لیے ناگزیر ہے۔ اومیگا 3فیٹی ایسڈز آئلی فش، خشک میوہ جات اور بیجوں میں پائے جاتے ہیں جو مردوخواتین کی جنسی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں۔ ان میں اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ بلڈپریشر کو بھی کم رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ہماری جنسی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہیں۔ کرسٹین کا کہنا تھا کہ ’یوں تو تمام خشک میوہ جات جنسی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں لیکن اخروٹ اس حوالے سے بہت زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں ’امائنو ایسڈ ایل ارجینین‘ پایا جاتا ہے جو خون کے بہاﺅ میں اضافہ کرتا ہے اور خون کے بہاﺅ میں اضافہ جنسی تسکین کے لیے از حد ضرور ہے۔ اس کے علاوہ ان میں بھی اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہے جو خون کی وریدوں کے سٹرکچر کی حفاظت کرتی ہیں اور دوران خون بہتر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ آلو، وٹامن ڈی کی حامل اشیا، ادرک، زعفران اور کھجوریں ایسی اشیاءہیں جو جنسی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہیں۔ کرسٹین کا کہنا تھا کہ ہفتے میں ایک روز فاقہ کرنا(روزہ رکھنا) بھی جنسی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/23-Nov-2020/1214401?fbclid=IwAR2olEPuFaISgI-e4ZjC2d-4_1oxAsPqcxwouuXFWlZGEnR2q44_CC1ojW8
دماغ کو جوان رکھنے کے لیے کون سی غذا کھانی چاہیے، اور کس غذا سے دماغ جلدی بوڑھا ہوجاتا ہے؟ سائنسدانوں نے بتادیا
Jan 12, 2021 | 19:03:PM
سورس: Pxhere
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) میڈیٹرینین ڈائٹ (Mediterranean Diet)وزن کم کرنے کے لیے آزمودہ ڈائٹ ہے، جس کے دیگر بے شمار طبی فوائد بھی تحقیقات میں سامنے آ چکے ہیں۔ اب سائنسدانوں نے دماغ کے متعلق اس خوراک کا ایک حیران کن فائدہ بتا دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق شکاگو کے رش یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ میڈیٹرینین ڈائٹ کھانے والے افراد کا دماغ بڑھتی عمر میں دوسرے لوگوں کو نسبت کہیں زیادہ نوجوان رہتا ہے اور جو لوگ اس ڈائٹ کے دوران پیزا اور برگر جیسے مغربی کھانے کھاتے ہیں ان کی دماغ صحت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 1993ءسے 2012ءکے درمیان 65سال سے زائد عمر کے 5ہزار لوگوں کی خوراک اور ذہنی صحت پر اس کے اثرات کی نگرانی کی اور نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ میڈیٹرینین ڈائٹ کے پابند رہے ان کے دماغ 6سال تک زیادہ نوجوان رہے۔ ان کے برعکس جو لوگ پیزے اور برگر جیسی مغربی غذائیں کھاتے رہے ان کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوئے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پوجا اگروال کا کہنا تھا کہ ”میڈیٹرینین ڈائٹ جس کا بڑا حصہ پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے، انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ تاہم جب اس کے ساتھ سرخ گوشت، برگر، پیزا، مٹھائی وغیرہ جیسی چیزیں کھائی جائیں تو میڈیٹرینین ڈائٹ کے فوائد غارت ہو جاتے ہیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2021/1235989?fbclid=IwAR0jZmGGQwlGj5tMKictGIP_7v3rQEgpo2FqAudt2AKlrLw7iFArPcSCE24
سردیوں میں بالوں کو گرنے سے روکنے کے 5 موثر ترین طریقے
Nov 20, 2021 | 10:45:AM
لاہور (ویب ڈیسک) موسم سرما میں سر کے بالوں کا گرنا ایک اہم مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق روزانہ 50 سے 100 تک بالوں کی لڑیوں کا گرنا قدرتی عمل ہے۔ اس عمل کی وجہ سے نئے بال آتے ہیں اور خام بال گر جاتے ہیں لیکن قدرتی مقدار سے زیادہ بال گرنا پریشانی کا باعث ہے۔
موسم سرما میں جلد خشک ہونے کے ساتھ سر کی جلد یعنی ’اسکیلپ‘ بھی خشک ہو جاتی ہے جس وجہ سے بالوں میں خشکی پیدا ہو جاتی ہے اور مردوں اور عورتوں دونوں کے بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
آج ہم آپ کو5 ایسے مؤثر طریقے بتانے جارہے ہیں جن کو استعمال کرکے آ پ گرتے بالوں کو روک سکتے ہیں۔
تیل سے بالوں کا مساج
سردیوں میں آپ کے بالوں کے لیے سر کا مساج کافی ضروری ہے یہ آپ کے سر میں خون کی گردش کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے، جس سے بالوں کو اندر سے مضبوط کرنے میں مدد ملتی ہے۔
دو تین چائے کے چمچ زیتون کا تیل یا بادام کا تیل گرم کریں اور سر کی جلد پر آہستہ آہستہ مساج کریں تاکہ یہ بالوں کی جڑوں میں گہرائی تک جا سکے۔
بال گرنے کی اصل وجہ تلاش کریں
ذئنی تناؤ سے لے کر غذائیت کی کمی تک، آپ کی روزمرہ کی سادہ عادتیں سردیوں میں بالوں کے گرنے کی وجہ بن سکتی ہیں۔
اس لیے بالوں کے گرنے کی اصل وجہ تلاش کرنے کیلئے ہیئر کنسلٹنٹ کے پاس جائے اور مکمل معلومات حاصل کریں۔
صحت مند چیزیں کھائیں اور زیادہ پانی پیئیں
آپ کی خوراک میں ضروری وٹامنز، اور دیگر غذائی اجزاء کی کمی بالوں کے گرنے کا سبب بن سکتی ہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ صحت مند چیزیں کھائیں ۔
وٹامن ای اور بی اور پروٹین کا استعمال کریں یہ بالوں کی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ سرد موسم میں ضرورت کے مطابق سبزیاں اور پروٹین کا استعمال کرتے ہیں ،گوشت، دہی، مچھلی کھانے سے بالوں کی نشوونما ہوتی ہے اور بالوں کے گرنے پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ صحت مند خوراک جتنی ضروری ہے اتنا ہی پانی بھی ہمارے جسم کیلئے نہایت اہم ہے، موسم سرما میں پانی کم پیا جاتا ہے ، بالوں کی گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
اس لیے سردی کے موسم میں بھی پانی کا زیادہ استعمال کریں تاکہ آپ کی جلد اور بال دونوں ہی اس موسم میں ٹھیک رہیں۔
اپنے بالوں مطابق ہیئر پروڈکٹس کا استعمال کریں
ہم بغیر سوچے سمجھے بالوں کے تیل، شیمپو، کنڈیشنر اور دیگر بالوں کی حفاظت کیلئے بہت سی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔
بالوں کی ضروریات کے مطابق بالوں کے لیے صحیح پروڈکٹ کا انتخاب بالوں کے گرنے کو روکنے کا ایک اہم حصہ ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کے بال خشک ہیں، تو ایسی مصنوعات کا انتخاب کریں جو ڈیپ کنڈیشنگ فراہم کریں۔
گرم شاور لینے سے گریز کریں
سردیوں میں طویل گرم شاور لینے یا گرم پانی میں سر دھونے سے گریز کریں، بہت زیادہ گرم پانی آپ کے بالوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے شاور کیلئے نیم گرم پانی کا انتخاب کریں۔
نوٹ: یہ تمام معلومات تحقیق سے حاصل کی گئی ہیں۔ اگر آپ کسی بھی طبی مسئلے یا انفیکشن کا شکار ہیں تو کسی بھی قسم کے ٹوٹکے کے استعمال سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/20-Nov-2021/1367929?fbclid=IwAR2iRsovMYO6QFNZDfw1r73HNK-e7q8amCyoOpuFgREjBoWkJe3uPeIBp0g
ڈاکٹروں کے مطابق چار وٹامن اور غذائی اجزا ایسے ہیں جو نہ صرف آپ کے بدن کے بہترین دوست ہیں بلکہ امنیاتی نظام کو ہر لحاظ سے مستحکم کرتے ہیں۔
نظری طور پر ضروری ہے کہ آپ کی غذا میں ضرورتی پروٹین، وٹام، معدنیات ، چکنائیں، پھل، سبزیاں، دالیں، اور مفید قسم کا گوشت ضرور ہونا چاہیے لیکن تیزرفتار زندگی میں ہم ان سب لوازمات کو پورا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کا اصرار ہے کہ وٹامن سی اور ڈی ، جست یعنی زِنک اور دارچینی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ اب ہم باری باری ان کا جائزہ لیں گے۔
وٹامن سی
ہمارا جسم وٹامن سی نہیں بناسکتا اس لیے غذا ہی بہترین ذریعہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ وٹامن سی کی بہت تھوڑی مقدار جسم میں جمع ہوتی ہے جسے بھرنے کے لیے غذا یا سپلیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہترین اینٹی آکسیڈنٹ ہونے کی بنا پر وٹامن سی بدن کے امنیاتی نظام کو خلوی سطح تک بہتر بناتا ہے۔ اگرکوئی انفیکشن ہوجائے تو وٹامن سی کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے بھی ہمیں وٹامن سی کی ضرورت رہتی ہے۔ دوسری جانب یہ ٹھنڈ لگنے سے بچاتا ہے اور کووڈ کے حملے سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ روزانہ 500 ملی گرام وٹامن سی ضروری کھایا جائے جس کے بے انتہا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
وٹامن ڈی
دنیا بھر کی آبادی اور بالخصوص خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ وٹامن کا سپراسٹار ہے جو بیکٹیریا اور وائرس کو مارتا ہے اور ساتھ میں بدن کا دفاعی نظام درست رکھتا ہے۔
اس وٹامن کی کمی آٹوامیون مرض پیدا کرسکتی ہے اور اس کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ اسی لیے لوگ کی گولیاں اور سپلیمنٹ کھاتے ہیں۔ البتہ جلد پر بڑھنے والی دھوپ اس وٹامن سازی میں مدد کرسکتی ہے۔ موسمِ سرما میں بھی وٹامن ڈی کی کمی لازمی ہوجاتی ہے۔
وٹامن ڈی کی مقدار کوبین الاقوامی یونٹ روزانہ آئی یو ڈی کے لحاط سے ناپا جاتا ہے ۔ ایک بالغ فرد کو روزانہ 1000 سے 2000 یونٹ درکار ہوتے ہیں۔ سامن مچھلی، ٹیونا مچھلی، دودھ اور اس کی مصنوعات اور نارنجی کے رس میں اس کی غیرمعمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔
زِنک
جست (زِنک) ایک طرح کی دھات ہے لیکن دنیا کی زیادہ سے زیادہ 30 فیصد آبادی اس کی کمی کی شکار ہے۔ اس کمی سے وہ کئی مسائل میں گرفتار ہیں۔
ایک جانب تو یہ خلوی سطح پر اندرونی امنیاتی نظام مضبوط بناتا ہے۔ دوسری جانب یہ وائرس اور فری ریڈیکل خلیات کو بھی روکتا ہے۔
جست سرخ گوش، صدفوں، کیکڑوں کے علاوہ اس کی تھوڑی مقدار کدو کے بیجوں، دالوں، کاجو اور دیگر نعمتوں میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ روزانہ 15 سے 30 ملی گرام جست کھانا ضروری ہے۔ بالخصوص یہ مقدار ہمیں سردی کے حملے اور بیماری سے بچاتی ہے۔
ہلدی اور کرکیومن
امریکہ اور برطانیہ میں لوگ ہلدی کو چائے، کھانے اور سلاد پر چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پوری دنیا میں 120 کے قریب تحقیقی مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہلدی اور اس کے اجزا الزائیمر سے بچانے کا بہترین نسخہ ہے۔
ہلدی کا سب سے بہترین اثر ذیابیطس پر ہوتا ہے اس کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکتا ہے ۔ اس کے علاوہ جسم کے اندرونی حصوں کی جلن کو بھی کم کرتی ہے۔ کیونکہ اندرونی سوزش کئی ان دیکھی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔ کئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا جزو کرکیومن کینسر کو تلف کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔
ہلدی کا استعمال ہاضمے کو بہتر بناتا ہے ۔ لیکن ہلدی کے جادوئی جزو کو ہمارا بدن جذب نہیں کرسکتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ہلدی کی جڑیں بھی استعمال کی جائیں۔
https://www.express.pk/story/2278463/9812/
چیونگم کوئی جدید دور کی ایجاد نہیں بلکہ ہزاروں سال سے لوگ اسے مختلف شکلوں میں کھاتے رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں چیونگم صنوبر کی قسم کے درخت (spruce) سے تیار کی جاتی تھی جس کا سائنسی نام Manilkara chicle ہے۔ تاہم آج کے دور میں اسے مصنوعی یا کیمیائی ربڑ سے تیار کیا جاتا ہے۔
چیونگم کا طبی فائدہ اکثر لوگ صرف مسوڑوں کی مضبوطی بتاتے ہیں حالانکہ فوائد صرف یہیں تک محدود نہیں۔ درجہ ذیل تحریر میں انہی فوائد سے قارائین کو آگاہ کیا جارہا ہے۔
1) ذہنی تناؤ میں کمی اور بہتر یادداشت
اس حوالے سے متعدد تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی کام کے دوران چیونگم چبانا دماغی افعال جیسے ہوشیاری، یادداشت، فہمی، اور قوتِ فیصلہ مزید بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ طلباء پر ایک ٹرائل کیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ جو طالب علم 7 سے 19 دن کے عرصے میں چیونگم چباتے رہے، اُن میں ڈپریشن، گھبراہٹ اور ذہنی تناؤ کم تھا بنسبت جو چیونگم نہیں کھاتے تھے۔
اگرچہ ماہرین چیونگم کے ان دماغی اثرات کی وجہ جاننے سے قاصر ہیں تاہم اُن کا ماننا ہے کہ چیونگم چبانے کے نیتجے میں خون کی رفتار دماغ میں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے دماغی افعال بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔
2) وزن میں کمی
جو لوگ وزن میں کمی کے خواہشمند ہیں، اُن کیلئے بھی چیونگم ‘مددگار’ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ چیونگم میں کیلوری بہت کم ہوتی ہے اور کچھ ریسرچ یہاں تک کہتی ہیں کہ چونکہ چیونگم بھوک کے احساس کو ختم کرتی ہے، لہٰذا زیادہ کھانا کھانے کی خواہش بھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ حیرت انگیز طور پر کچھ ایسے شواہد بھی ماہرین کو ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چیونگم نظام تحول (metabolism) کو تیز کرتی ہے۔
3) دانتوں کی حفاظت اور سانسوں کی ناگوار بو
شوگر فری چیونگم کو چبانے سے آپ کے دانت خرابی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ عام چیونگم میں موجود شوگر منہ کے ضرررساں بیکٹیریاؤں کی غذا بن جاتی ہے جس سے جراثیم تقویت پاکر دانتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی طرح چیونگم منہ سے آنے والی ناگوار بو کو بھی ختم کرتی ہے۔ دن کا اکثر حصہ بغیر دانتوں کو صاف کیے اور کھانے پینے میں گزرتا ہے جس سے منہ میں ایک بو پیدا ہوجاتی ہے چیونگم یہ بو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
https://www.express.pk/story/2278401/9812/
ایک طویل تحقیق کے بعد امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے آپ روزانہ جتنا زیادہ پیدل چلیں گے، آپ کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا امکان بھی اتنا ہی کم ہوگا البتہ یہ نتائج فی الحال صرف عمر رسیدہ خواتین کےلیے ہی سامنے آئے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کی الیکسس گارڈیونو اور دوسرے ماہرین نے 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی 4,800 خواتین پر یہ تحقیق تقریباً سات سال تک جاری رکھی۔
تحقیق کے آغاز میں ان بزرگ خواتین کو ایک ہفتے تک ہلکی پھلکی اور نرم بیلٹ مستقل پہنائی گئی۔ بیلٹ میں خاص آلات نصب تھے جو ان کے روزانہ چلنے پھرنے سے متعلق معمولات پر نظر رکھتے تھے۔
اس کے بعد اگلے سات سال تک وقفے وقفے سے ان کے روزمرہ معمولات بالخصوص چلنے پھرنے اور جسمانی مشقت وغیرہ کی معلومات جمع کی جاتی رہیں۔
اس پورے عرصے میں 8 فیصد خواتین ذیابیطس کا شکار ہوئیں لیکن زیادہ چلنے پھرنے والی خواتین کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا امکان بہت کم دیکھا گیا۔
ان اعداد و شمار کو مزید کھنگالنے پر پتا چلا کہ روزانہ ہر ایک ہزار (1,000) قدم زیادہ چلنے سے ذیابیطس کا خطرہ 6 فیصد کم ہوگیا تھا۔
’’اگر بزرگ افراد اپنے معمول کے مقابلے میں روزانہ دو ہزار قدم زیادہ چلیں تو وہ ذیابیطس کا خطرہ 12 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ تیز چلتے ہیں یا آہستگی سے، ضروری ہے کہ معمول سے زیادہ چلنے کی عادت اپنائی جائے،‘‘ الیکسس گارڈیونو نے تجویز کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹائپ 2 ذیابیطس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مطابق، اس وقت ساری دنیا میں 20 سے 79 سال کے 53 کروڑ 70 لاکھ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں جبکہ یہ تعداد مسلسل بڑھتے ہوئے 2045 تک 78 کروڑ 30 لاکھ تک جا پہنچنے کا خدشہ ہے۔
ذیابیطس میں اضافے کا شدید ترین خطرہ امریکا کو ہے جہاں 2050 تک ہر تین بالغ شہریوں میں سے ایک کو ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہوگی۔
’’زیادہ پیدل چلنے سے صرف ذیابیطس کا خطرہ ہی کم نہیں ہوگا بلکہ دواؤں پر ہونے والے خطیر اخراجات اور دوسری متعلقہ بیماریوں سے نجات حاصل کرنے میں بھی بہت مدد ملے گی،‘‘ جان بیلٹیئر نے کہا جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو میں وبائی امراض کے ماہر ہیں۔
ریسرچ جرنل ’’ڈائبٹیز کیئر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اگرچہ صرف خواتین پر کی گئی ہے لیکن کم و بیش یہی نتائج بزرگ مردوں کےلیے بھی درست بتائے جارہے ہیں۔
امریکی محکمہ صحت کے مطابق، ہفتے میں 150 منٹ کی چہل قدمی یا جسمانی مشقت سے ذیابیطس کے علاوہ دوسری کئی دائمی بیماریوں کا خطرہ بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2277787/9812/
سائنسدان ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ نارنجی اور اس کا رس، اسٹرابری اور سیب نہ صرف کئی امراض بھگاتے ہیں بلکہ اسٹرابری کے اجزا پارکنسن اور دماغی انحطاط کو روکنے میں نہایت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں پنسلوانیا یونیورسٹی نے 1250 کے قریب ایسے مریضوں کا قریب سے مشاہدہ کیا جو گزشتہ 30 سال سے پارکنسن کے شکار تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسٹرابری کے اینٹی آکسیڈنٹس پارکنسن جیسے مرض میں بہت مفید ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد بتایا کہ اسٹرابری میں اینٹی آکسیڈنٹس فلے وینوئڈز سے اعصابی سوزش کم کرتے ہیں اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر کو بھی دور رکھتے ہیں۔ یہی اجزا دماغ کو بہت سی بیماریوں سے بھی بچاتی ہیں۔
تین عشروں پر پھیلی ہوئی اس تحقیق سے ایک اہم بات سامنے آئی ہے کہ اگر مریضوں کو 683 ملی گرام فلیوینوئڈز دی جائے تو ان کے طویل عرصے تک زندہ رہنے کا امکان 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر روزانہ ایک پیکٹ اسٹرابری یا 6 درمیانے درجے کے سیب کھائے جائیں تو اس حاصل شدہ فلیوئنوئڈز کی مقدار لگ بھگ 680گرام ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہفتے میں کم سے کم تین مرتبہ ایک پیالہ اسٹرابری ضرور کھائی جائے۔
لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ اسٹرابری سے پارکنسن کے مریضوں کا عرصہ حیات بڑھ جاتا ہے اور وہ طویل عمر پاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مطالعے پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی ہے جو 1986 سے 2018 تک جاری رہا تھا۔
https://www.express.pk/story/2277606/9812/
وٹامن ڈی کو جادوئی وٹامن کہا جاتا ہے اور اب معلوم ہوا ہے کہ وٹامن ڈی سپلیمنٹ اوراومیگا تھری فیٹی ایسڈ کا استعمال بہت حد تک ازخود پھوٹنے والے امنیاتی (آٹوامیون) امراض کو روک سکتے ہیں۔ ان میں گٹھیا، جوڑوں کا درد، تھائی رائیڈ کے امراض اور دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
برگھم اینڈ وومن ہاسپٹل کے مطابق ان دونوں سپلیمنٹ کے استعمال سے گٹھیا اور جوڑوں کے درد کا خطرہ 22 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ اس طرح عمررسیدہ افراد میں وٹامن ڈی کے مثبت اثرات کی پہلی براہِ راست شہادت ملی ہے۔ اس سروے کو ’لارج اسکیل وٹامن ڈی اینڈ اومیگا ٹرائل‘ (وائٹل) کا نام دیا گیا ہے۔
مطالعے میں 55 برس کے ہزاروں خواتین وحضرات کو شامل کیا گیا اور پانچ برس تک انہیں وٹامن ڈی اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی گولیاں یا سپلیمنٹ دی گئی تھیں۔ لیکن ماہرین نے کہا کہ صرف دو سال کے بعد ہی اس کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے ۔ اس بنا پر ہم آبادی کے بہت بڑے حصے کو مفلوج کردینے والی ایک اذیت ناک کیفیت سے بچاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ آٹو امیون امراض میں گٹھیا اور جوڑوں کا درد شامل ہے جو زندگی کے معمولات کو شدید متاثر کرتا ہے۔ جسم کا اپنا امنیاتی نطام ہی اسے بڑھاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ روزانہ 2000 آئی یو وٹامن ڈی اور سمندری اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی 1000 ملی گرام مقدار استعمال کی جائے۔ لیکن یہ ان افراد کے لیے جو اس کیفیت کی ابتدائی علامات محسوس کررہے ہیں اور ان کی عمر 45 سال سے اوپر ہیں۔
اس تحقیق میں 25 ہزار سے زائد خواتین اور مردوں نے شرکت کی۔ ہزاروں افراد کو دو گروہوں میں بانٹا گیا جس میں دوسرے کو فرضی دوا دی گئی تھی۔ لیکن اس سے قبل تمام شرکا میں آٹو امیون بیماری کی کیفیت اور شدت کو بھی نوٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے جن افراد نے سپلیمنٹ استعمال کئے وہ بہت حد تک جوڑوں کے درد سے دور رہے۔
سائنسدانوں کے مطابق وٹامن ڈی اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈ دل کے امراض ، اندرونی سوزش اور فالج سے بھی دور رکھتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2277110/9812/
دنیا کی قیمتی دوائی کو چاندی کے ورق میں لپیٹ کر سونے کے چمچے سے بھی کھایا جائے تب بھی اس کی تاثیر ورزش کے سامنے ہیچ ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ اگر روزانہ دس منٹ ورزش، جسمانی سرگرمی اور چہل قدمی کی جائے تو اس سے امراض دور رہتے ہیں اور اوسط عمر میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی رپورٹ کی بنا پرڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ 40 سے 85 برس کے افراد روزانہ دس منٹ واک کو یقینی بنائیں۔ اگر صرف امریکی اس کے عادی ہوجائیں تو سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔
میری لینڈ میں واقع نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں میٹابولک اپی ڈیمیولوجی کے پروفیسرپیڈرو سینٹ مورائس کہتے ہیں کہ اگرجاگنگ کی بجائے تیزقدمی بھی کی جائے تو اس سے ہر رنگ اور نسل کے بزرگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
سائنسدانوں نے درمیانی عمر سے لے کر بڑھاپے کے 4800 افراد کا جائزہ لیا ہے۔ یہ تمام افراد ایک بڑے حکومتی سروے کا حصہ تھے جو 2003 سے 2006 میں شروع ہوا . سات روز تک تمام شرکا کو جسمانی سرگرمی نوٹ کرنے والے مانیٹر پہنائے گئے۔ پھر 2015 تک اس کا جائزہ لیا گیا اور پورے امریکہ میں اموات کا ڈیٹا بھی دیکھا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ روزانہ 10 منٹ کی ورزش سے قبل ازوقت موت کا خطرہ 7 فیصد، 20 منٹ ورزش سے 13 فیصد اور اضافی نصف گھنٹے کی واک یا ورزش سے یہ فائدہ 17 فیصد تک جاپہنچتا ہے۔ اب اگر لوگ صرف 20 منٹ روزانہ ورزش کے لیے نکالتے ہیں تو اس سے سالانہ دو لاکھ سے زائد جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2276478/9812/
فرانس میں ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کافی پینے سے جہاں دل اور دماغ کو فائدہ پہنچتا ہے، وہیں پیٹ اور ہاضمے کا نظام بھی بہتر رہتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ایک تجزیاتی مطالعہ (ریویو اسٹڈی) تھا جس میں کافی کے استعمال سے متعلق اب تک کی گئی 194 تحقیقات کا جائزہ لیا گیا۔
اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ روزانہ 3 سے 5 کپ کافی پینے سے صحت پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑتے جبکہ پیٹ کے مفید جرثوموں کی تعداد بڑھتی ہے جو ہاضمے پر بہت اچھا اثر ڈالتے ہیں۔
کافی پینے کے باعث قولون (آنت کے اختتامی حصے) میں حرکت بہتر ہوتی ہے اور یوں فضلے کا اخراج بھی بہتر ہوجاتا ہے۔ اس طرح کافی کی بدولت قبض میں 60 فیصد تک کمی آجاتی ہے۔
یہی نہیں بلکہ کافی پینے سے جگر کے سرطان کا خدشہ بھی کم رہ جاتا ہے جبکہ پِتّے میں پتھریاں بھی بہت کم بنتی ہیں۔
کافی کا تیسرا بڑا فائدہ یہ معلوم ہوا کہ اس سے لبلبے، پِتّے اور معدے سے اُن رطوبتوں (جوسز) کا اخراج بڑھ جاتا ہے جو ہاضمہ بہتر بناتی ہیں؛ اور یوں دوسری غذاؤں کے ہضم ہونے میں بھی سہولت پیدا کرتی ہیں۔
نوٹ: یہ مطالعہ ریسرچ جرنل ’نیوٹریئنٹس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے۔
https://www.express.pk/story/2276304/9812/
لندن: بیریاں قدرت کا بہترین خزانہ ہیں اور ان میں بلیو بیری کسی نعمت سے کم نہیں۔ جس طرح سیب ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں عین اسی طرح بلیو بیری ہمیں کئی امراض سے دور رکھتی ہیں۔
ان میں سب سے اہم امراضِ قلب ہیں جو برق رفتاری سے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ لوگ بلیو بیری کو دلیے میں ملاکر کھاتے ہیں اور دہی میں ڈبو کر نوش کرتے ہیں۔ لیکن اسے عام بیری کی طرح بھی کھایا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سرے نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ بلیو بیری کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر کےلیے مفید ہے اور امراضِ قلب کو دور کرتا ہے۔ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں امراضِ قلب کی شرح بہت تیزی سے بلند ہورہی ہےاور بلیو بیری اس کیفیت کو دور کرتی ہے۔
بلیو بیری میں اینتھوسائنائن کی بھرمار ہوتی ہے جو سرخ، جامنی اور بلیو بیریوں میں عام پائے جاتے ہیں۔ اینتھوسائنائن ایک جادوئی غذائی جزو ہے جو دل کی بھرپور حفاظت کرتا ہے۔ دوسری جانب جرنل آف گیرنٹولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلیو بیری میں موجود اجزا شریانوں اور خون کی رگوں کو منظم رکھتے ہیں۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بلیوبیری کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے۔
اگر بلیوبیری کا شربت بنا کر پیا جائے تو اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے خون کی شریانیں کھلتی ہیں اور پورے نظام کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح دل اور دیگر اعضا تک خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے۔
ایک اور ماہر رونالڈ اسمتھ کہتےہیں کہ بلیوبیری میں کئی اقسام کے بہترین اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں۔ یہ سرطان کا خطرہ کم کرتے ہیں، ان سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور اندرونی جسمانی سوزش کم ہوجاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2275985/9812/
چین اور شمالی امریکہ میں عام پائی جانے والی ایک مرغوب نعمت وولف بیری یا گوجی بیری ہے جو ہزاروں برس سے کھائی جارہی ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ شوخ بیری الزائیمر اور دماغی انحطاط سے بھی بچاتی ہے۔
چینی سائنسدانوں نے اس بیری سے الزائیمر سےبچانے کا پورا سائنسی طریقہ کار دریافت کیا ہے۔ اسے عام طور پر چینی کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خشک بیریاں اور ان کے سپلیمنٹ اب پاکستان میں بھی دستیاب ہیں۔
ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ گوجی بیری اینٹی آکسیڈنٹ خواص سے بھری ہوتی ہیں اور ری ایکٹو آکسیجن کے نقصانات کا ازالہ کرتی ہے۔ ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز امراضِ قلب، کینسر اور دماغی انحطاط کی وجہ بن سکتےہیں۔
ایک صبرآزما تحقیق میں چینی اکادمی برائے سائنسِس کے ماہرین نے گوجی بیری کے اعصابی نظام کا سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ سب سے پہلے انہیں سی ایلیگنز کیچووں پرآزمایا گیا ہے۔ سائنسداں یہ جان کر حیران رہ گئے کہ بیری کے اہم کیمیائی اجزا ایمی لوئڈ بی ٹا پروٹین کو ختم کرتے ہیں جو الزایئمر کی وجہ بن سکتےہیں۔ واضح رہے کہ یہ پروٹین دماغی خلیات سے چپک کر ان کی صلاحیت کو ماند کردیتا ہے۔
یہ تمام تحقیقات ایف اے ایس ای بی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ری ایکٹو آکسیجن بننے سے روکتا ہے اور اس طرح ایمی لوئڈ بی ٹا پروٹین کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔
ماہرین نے ان جین کا پتا بھی لگایا ہے جو بیری میں پائے جاتے ہیں اور مائٹوکونڈریائی پروٹین یعنی ایم ٹی یو پی آر کو سرگرم کرتےہیں۔ اس سے بی ٹا پروٹین کی پیداوار بہت حد تک کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح بیری کے پورے نظام کو سمجھ کر الزائیمر کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2275131/9812/
ایک جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خاص قسم کی سپلیمٹ کھانے سے بالخصوص عمررسیدہ افراد کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص ملٹی وٹامن گولیاں کھائے یا پھر ہلدی کے مرکبات کیپسول میں بھر کر نگلے انہیں طب کی زبان میں سپلیمنٹ کہا جاتا ہے اور ان کی افادیت پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے۔
تجرباتی طور پر سائنسدانوں نے آنتوں میں بننے والے ایک اہم مرکب کو جب گولی کی صورت میں ڈھال کر لوگوں کو کھلایا تو اس سے ان کے پٹھوں (مسلز) پر مثبت اثرات سامنے آئے اور مائٹوکونڈریا کی سطح پر تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اس سپلیمنٹ کو یورولائتھن اے کا نام دیا گیا ہے۔
اس سپلیمنٹ نے بالخصوص ایسے بزرگ افراد کو فائدہ پہنچایا جو کسی وجہ سے ورزش کرنے سے قاصر تھے اور یوں وہ ہلکی پھلکی ورزش بھی کرنے لگے۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ڈیوڈ مارسینک اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔
یورولائتھن اے بالخصوص آنتوں کے بیکٹیریا ایک طویل پروسیسنگ کے بعد بناتے ہیں۔ اگر آپ پولی فینول اور فائٹوکیمیکل والی غذائیں مثلاً انار، پھلیوں اور شوخ رنگ کی بیریاں کھاتے ہیں تو یہ مرکب جسم میں بنتا رہتا ہے۔ تاہم بڑھاپے میں یہ عمل رک جاتا ہے اور مائٹوکونڈریا متاثر ہوتا ہے اور یوں پٹھے بھی متاثر ہونے لگتے ہیں اور ورزش مشکل ہوجاتی ہے۔
اس تجربے میں 65 سال سے زائد عمر کے 66 افراد کو روزانہ یورولائتھن اے کی 1000 ملی گرام کے کیپسول کھلائے گئے تھے۔ تین سے چار ماہ بعد ان افراد کے پٹھے بہتر ہوئے اور دوم ان کے خلیات میں مائٹوکونڈریا کی صلاحیت بھی بہتر ہوئی۔
https://www.express.pk/story/2275069/9812/
بلوغت سے قبل تمباکو نوشی کرنے والے مردوں کی پوتیاں اور نواسیاں موٹاپے کا شکار ہوسکتی ہیں، نئی تحقیق میں انوکھا انکشاف
Jan 23, 2022 | 13:54:PM
لندن (ویب ڈیسک) ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد بلوغت سے قبل تمباکو نوشی کرتے ہیں اُن کی پوتیاں یا نواسیاں موٹاپے کا شکار ہو سکتی ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل کے محققین نے سابقہ تحقیق میں بتایا تھا کہ لڑکیوں میں موٹاپے کی وجہ اُن کے والد کا سنِ بلوغت سے قبل ہی تمباکو نوشی کرنا تھا تاہم اب نئی تحقیق میں انہوں نے بتایا ہے کہ تمباکو نوشی کے منفی اثرات چار نسلوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
ماہرین نے اپنی تحقیق میں 14؍ ہزار حاملہ خواتین سے حاصل کردہ مختلف نمونوں پر تحقیق کی، ان سے یہ معلومات بھی حاصل کی گئی کہ آیا ان خواتین کے دادا یا نانا میں سے کوئی 13؍ سال کی عمر سے تمباکو نوشی کرتا تھا۔ ایسے افراد کی پوتیوں یا نواسیوں کا وزن عام بچوں کے وزن سے ساڑھے پانچ سے چھ کلو زیادہ پایا گیا۔
https://dailypakistan.com.pk/23-Jan-2022/1394097?fbclid=IwAR2EiHnItOR4kwjI0iGsm8YV8kt93H0xGuR98Q0r3t_Hwd9eYp3wWfl_Fv8
فوجی تکنیک جس سے آپ صرف 2منٹ میں گہری نیند میں چلے جائیں گے
Jan 22, 2022 | 18:24:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر آپ کو نیند کے حصول میں دشواری کا سامنا ہے تویہ خبر آپ ہی کے لیے ہے۔ ایک فٹنس کوچ نے نیند کے حصول کے لیے ایک ایسی ’فوجی تکنیک‘ بتائی ہے کہ دو منٹ کے اندر آپ گہری نیند میں چلے جائیں گے۔ جسٹن آگسٹن نامی اس فٹنس کوچ نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بتایا ہے کہ یہ تکنیک فوج میں، بالخصوص فضائیہ کے پائلٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس تکنیک میں آپ کو سب سے پہلے اپنے جسم کو پرسکون کرتا ہوتا ہے اور ایک منظم انداز میں سر سے پاﺅں تک اپنے جسم کے ہر ایک عضو کو ’شٹ ڈاﺅن‘ کرنا ہوتا ہے۔
جسٹن آگسٹن بتاتا ہے کہ ”سب سے پہلے اپنی پیشانی کے مسلز سے شروع کریں، اس کے بعد آنکھوں، رخساروں اور جبڑے کے مسلز کو ریلیکس کریں اور اپنی سانسوں پر توجہ دیں۔ اب اس سے نیچے جائیں اور گرن اور کندھوں کوپر سکون کریں۔ پھر بازوﺅں، ہاتھوں اور انگلیوں کو اور اسی طرح پیروں تک تمام اعضاءکے مسلز کو پرسکون کرتے جائیں۔ پیروں کے انگوٹھوں تک جسم کو پرسکون کرنے کے بعد اگلا قدم یہ ہے کہ اپنے جسم میں سر سے پیروں کی انگلیوں تک ایک گرم لہر کو دوڑتے ہوئے تصور کریں۔ اب گہری سانس لیں اور اسے آہستہ آہستہ باہر نکالیں۔ اپنی چھاتی، پیٹ، رانوں، گھٹنوں، ٹانگوں اور پیروں کو پرسکون کریں۔ایک بارپھر اسی طرح گرم لہر کو دل سے پیروں کی طرف دوڑتے ہوئے تصور کریں۔ “
جسٹن کا کہنا تھا کہ ”اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے اگرآپ کی توجہ بھٹکنے لگے تو 10بار ’مت سوچو‘ (Don't think)کے الفاظ دہرائیں۔ آپ کو اس تکنیک کی 6ہفتے تک روزانہ مشق کرنی ہو گی، جس کے بعد اس کے نتائج دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔“
https://dailypakistan.com.pk/22-Jan-2022/1393810?fbclid=IwAR3oddQGPlXrBKxSe-asYEEvRki_vtlOiInjVlbG6nWq57c9JY-ALIDHlBM
سردیوں میں اگر آپ بھی سونے سے پہلے ہیٹر استعمال کررہے ہیں تو یہ خبر آپ کے لیے ہے، ماہرین نے خبردار کردیا
Jan 06, 2022 | 19:12:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سردیوں کے موسم میں کمروں میں ہیٹرز کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے تاہم اب ایک ماہر نے نیند کے حوالے سے ہیٹرز کے متعلق لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے۔ دی سن کے مطابق سلیپ ایکسپرٹ جیمز ولسن نے کہا ہے کہ سونے سے قبل ہیڑچلانا نیند کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے اور یہ مصنوعی تپش آپ کی نیند کے معیار کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔
جیمز ولسن کا کہنا تھا کہ ”نیند کے دوران ہیٹنگ ہمارے جسم کو بے سکون رکھتی ہے کیونکہ اس طرح ہمارے جسم کو بار بار گھٹتی بڑھتی حدت کے ساتھ نبردآزما رہنا پڑتا ہے۔نیند کے دوران ہیٹر چلانے کی بجائے بستر کی حدت پر اکتفا کرنا پرسکون نیند کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ “
جیمز ولسن نے کہا کہ ”ہیٹر کی مصنوعی تپش نہ صرف جسم کو بے سکون رکھتی ہے اور نیند کا معیار گراتی ہے بلکہ اس سے ڈی ہائیڈریشن کی شکایت بھی ہوتی ہے اور آپ کا منہ مسلسل خشک رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی آپ کی نیند میں بار بار خلل آتا ہے۔ چنانچہ ہیٹر کو آف کرکے کمبل یا لحاف میں لپٹ کر سونا نپر سکون نیند کے حصول میں معاون ثابت ہوتا ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/06-Jan-2022/1387291?fbclid=IwAR2uNO64sfpuvZytF8XKnkDmf72UkSlHhV0ICGFstKVAcF4qIsWAZdC40s4
غذا میں میگنیشیم کی مناسب مقدار ہمارے جسم کے قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) کو مضبوط بناتی ہے لیکن اب نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی موجودگی کینسر سے لڑنے میں بھی ہماری مددگار ہوتی ہے۔
بتاتے چلیں کہ میگنیشیم ہمارے اہم غذائی اجزاء میں شامل ہے جو بادام، کاجو، مونگ پھلی، کدو کے بیجوں، لوبیے، گندم، دودھ، دہی اور پالک جیسی غذاؤں میں وافر موجود ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے خواتین کی روزانہ غذا میں میگنیشیم کی مقدار 310 سے 320 ملی گرام جبکہ مردوں کی یومیہ غذا میں اس کی مقدار 400 سے 420 ملی گرام ہونی چاہیے۔
یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف بیسل میں کی گئی ہے جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’سیل‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ امنیاتی نظام سے تعلق رکھنے والے ’ٹی سیلز‘ کو درست طریقے سے کام کرنے کےلیے میگنیشیم کی مناسب مقدار درکار ہوتی ہے۔ ’ٹی سیلز‘ دوسرے کاموں کے علاوہ سرطان زدہ خلیوں کو تلاش کرکے تباہ کرنے میں بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔
ماضی میں چوہوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا تھا کہ جن چوہوں کی غذا میں میگنیشیم کی مقدار کم رکھی گئی، ان کا جسمانی دفاعی نظام کمزور ہوا اور وہ دیگر چوہوں کےمقابلے میں فلو سے زیادہ متاثر ہوئے۔
اب بیسل یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوف ہیس کی ٹیم نے کیمبرج یونیورسٹی کے اشتراک سے دریافت کیا ہے کہ جسم کے اہم خلیات ’ٹی سیلز‘ بگڑے ہوئے شکستہ خلیات کو ختم کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ کام صرف اسی صورت میں بہتر طور پرانجام دیتے ہیں کہ جب پورے نظام میں میگنیشیم کی بھرپور مقدار موجود ہو۔
سب سے بڑھ کر یہ معلوم ہوا کہ ٹی سیل کی سطح پر ایک اہم پروٹین ’ایل ایف اے ون‘ پایا جاتا ہے جو میگنیشیم کی موجودگی میں ہی اچھی طرح کام کرسکتا ہے۔
یوں میگنیشیم کی وجہ سے ٹی سیل اور ایل ایف اے ون اچھی طرح جڑ کر سرگرم رہتے ہیں۔ میگنیشیم نہ ہونے کی صورت میں ایسا نہیں ہوگا اور یوں ٹی سیل مشکوک سرطان زدہ خلیات کو ختم کرنے میں ناکام بھی رہ سکتے ہیں۔ یہی ناکامی آگے چل کر سرطان کا پھیلاؤ روکنے میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔
اس دریافت سے سرطان کے علاج اور امیونوتھراپی کومؤثر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔ امیونوتھراپی میں ہم جسم کے دفاعی نظام کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ از خود سرطان سے لڑنے لگتا ہے۔
توقع ہے کہ اس دریافت سے میگنیشیم کو استعمال کرکے مؤثر امینوتھراپی کی راہ ہموار ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2273397/9812/
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر آپ اپنے خون کی روانی چاہتے ہیں تو طویل عرصے تک ٹی وی بینی سے جان چھڑائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چار گھںٹے روزانہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے ڈھائی گھنٹے ٹی وی دیکھنے والوں کے مقابلے میں خون کے لوتھڑے بننے کا عمل 35 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
یہ تحقیق برسٹل یونیورسٹی نے کی ہے جس کی تفصیلات یورپی جرنل آف پری وینٹو کارڈیالوجی میں شائع ہوئی ہیں۔ اس سروے میں سائنسدانوں نے پھیپھڑوں میں خون کے لوتھڑے بننے (پلمونری ایمبولزم) جسم کے گہرے حصوں مثلاً پیر کی رگوں میں لوتھڑے بننے (ڈیپ وین تھرمبوسِس) اور دیگر کیفیات کا ٹی وی دیکھنے سے تعلق معلوم کیا ہے۔
اس کے لیے سائنسدانوں نے پہلے سے شائع ڈیٹا اور رپورٹس کا گہرائی سے مطالعہ کیا جسے سائنس کی زبان میں میٹا اینالسِس کہا جاتا ہے۔ تین مطالعات میں 40 سال سے زائد یا اس سے بڑے 131421 افراد کا بغور جائزہ لیا گیا۔ ان سے سوالنامے کی بدولت خون کی کیفیات اور ٹی وی دیکھنے کی عادات اور دورانیہ معلوم کیا گیا۔
یہ ایک طویل تحقیق ہے جس کا دورانیہ پانچ سے انیس برس تک جاری رہا تھا۔ اس دوران 964 افراد خون کے لوتھڑے بننے کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ معلوم ہوا کہ طویل عرصے یعنی روزانہ چار گھنٹے تک ٹی وی دیکھنے سے خون کے جمنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ طویل عرصے یعنی چار گھنٹے ٹی وی دیکھنے کا ازالہ ورزش سے بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بار بار ٹی وی اسکرین کے سامنے سے اٹھ کر وقفہ لیا جائے اور ہر نصف گھنٹے بعد کھڑے ہوکر کچھ دیر چہل قدمی بھی ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق بے کار بیٹھے رہنے کا عمل ہی ہماری تندرستی کا دشمن ہے اور اس سے پرہیزبہت ضروری ہے۔
https://www.express.pk/story/2274248/9812/
اوریگون: امریکا میں ایک تازہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ خود پر بوڑھے ہونے کا احساس طاری رکھتے ہیں، وہ ڈپریشن، ڈیمنشیا، ہائی بلڈ پریشر اور امراضِ قلب سمیت مختفل ذہنی و جسمانی بیماریوں میں بھی زیادہ مبتلا رہتے ہیں۔
اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی میں 52 سے 88 سال کے 105 افراد پر کی گئی اس تحقیق میں 2010 کے دوران ’پلس‘ (PULSE) نامی ایک سروے میں ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد کی ذہنی و جسمانی صحت سے متعلق جمع کی گئی معلومات سے استفادہ کیا گیا تھا۔
اس معلومات کے تجزیئے سے پتا چلا کہ جو لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ خود کو فرسودہ اور ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں، وہ عمر رسیدگی کے باعث پیدا ہونے والی مختلف جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں بھی زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اپنے طور پر بڑھاپے کو زیادہ محسوس کررہے تھے جبکہ دوسری جانب ایسے افراد بھی تھے جنہیں ان کے ارد گرد موجود دوسرے لوگ مسلسل بوڑھا ہونے کا احساس دلارہے تھے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں بڑھاپے کا منفی احساس ایسے افراد کو بیمار کررہا تھا۔
اس کے برعکس، خوشگوار احساس کے ساتھ عمر رسیدگی کی منزلیں طے کرنے والوں میں جسمانی اور ذہنی بیماریاں نمایاں طور پر کم دیکھی گئیں جبکہ زیادہ عمر ہوجانے کے باوجود وہ لوگ خاصے چاق و چوبند تھے۔
مذکورہ سروے میں شرکاء کے جوابات سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ اگر کسی شخص کو تھوڑی دیر کےلیے بھی منفی انداز میں بوڑھے ہونے کا احساس دلایا جائے تو وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے جسے زائل ہونے میں خاصا وقت لگتا ہے۔
’’عمر رسیدگی کا خوشگوار احساس آپ کی صحت کےلیے بہتر ہے، اس سے قطع نظر کہ آپ پر کتنا (اعصابی) دباؤ ہے یا آپ کتنا زیادہ دباؤ محسوس کررہے ہیں،‘‘ ڈکوٹا وٹزل نے کہا جو اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ اور او ایس یو کالج آف پبلک ہیلتھ اینڈ ہیومن سائنسز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔
یہ تحقیق ’جرنل آف جیرونٹولوجی، سیریز بی، سائیکولوجیکل سائنسز‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
البتہ وٹزل نے خبردار کیا ہے کہ اس تحقیق کی بنیاد پر حتمی فیصلہ کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ جس سروے کی بنیاد پر یہ تحقیق کی گئی ہے، اس میں شرکاء کی تعداد کم تھی جبکہ ان کی اکثریت سفید فام خواتین پر مشتمل تھی۔
’’اگر ہم عمر رسیدگی کے احساس اور ذہنی و جسمانی صحت میں تعلق کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے کہیں بڑے سروے کی ضرورت ہوگی جس میں خواتین و حضرات کی یکساں تعداد کے علاوہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوں،‘‘ وِٹزل نے واضح کیا۔
https://www.express.pk/story/2273546/9812/
دماغ کے دو ماہرین نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق بھولنا دراصل کچھ نیا سیکھنے ہی کی ایک صورت ہے۔
آئرلینڈ کے ڈاکٹر ٹوماس ریان اور کینیڈا کے ڈاکٹر پال فرینکلینڈ کا یہ نیا نظریہ ’نیچر ریویوز نیورو سائنس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے انسانی یادداشت اور سیکھنے کے عمل (اکتساب) کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے۔
اپنی تحقیق میں ان دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ یہ بھی سیکھتا ہے کہ مختلف حالات کے تحت کون کونسی معلومات اہم ہیں اور کونسی نظرانداز کرنے کے قابل ہیں۔
بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ ’ضروری‘ یا ’اہم‘ معلومات کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور ہمارا دماغ ایسی پرانی معلومات پر توجہ نہیں دیتا جو موجودہ حالات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔
اعصابیات (نیوروسائنس) میں کسی خاص علم یا مہارت سے متعلق یادداشت محفوظ کرنے والے دماغی خلیوں کے مجموعے ’اینگرامز‘ (engrams) کہلاتے ہیں۔ جب ہم اس بارے میں کوئی بات یا واقعہ یاد کرتے ہیں تو اس سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا ہوتی ہے اور یوں وہ یادداشت ہمارے ذہن میں ’تازہ‘ ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر ریان اور ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ ’بھولنے‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یاد ہمارے ذہن سے غائب ہوجائے، بلکہ ہم ضرورت پڑنے پر اس یاد سے متعلق اینگرامز میں سرگرمی پیدا نہیں کر پاتے۔
بظاہر یہ ایک خرابی ہے درحقیقت اس کا بہت فائدہ ہے کیونکہ جیسے جیسے ہمارے سیکھنے کا عمل آگے بڑھتا ہے، ویسے ویسے پرانی باتوں کا زیادہ تعداد میں یاد رہ جانا ہمارے اکتساب کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
لہذا، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پرانی باتیں بھول کر ہم نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل بہتر بناتے ہیں۔
یعنی صحت مند انسانی دماغ باقاعدہ طور پر یہ بھی سیکھتا ہے کہ ’بھلایا‘ کیسے جائے، تاکہ وہ بدلتے ہوئے ماحول اور حالات سے بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے کےلیے تیار کرتا رہے۔
اس دوران دماغ کے خلیے تو ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں مگر اِن میں سرگرمی/ تحریک میں تبدیلی آجاتی ہے جسے ہم ’بھول جانا‘ قرار دیتے ہیں۔
غرض کہ نیا سیکھتے دوران ہمارا دماغ مختلف اینگرامز کو تحریک دینا اور مختلف یادوں کو تازہ کرنا سیکھتا ہے: وہ یادیں جو اس کے کام کی ہوتی ہیں۔
غیر متعلقہ یادوں کو وہ نظرانداز کردیتا ہے، تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ وہ یادیں ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں لیکن بے حس و حرکت رہتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2272801/9812/
وہ چیزیں جنہیں استعمال کر کے ہم بلڈ شوگر لیول کم کرسکتے ہیں
Oct 07, 2021 | 19:41:PM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ہمارے خون میں شوگر کا لیول دن بھر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے جو کہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی بات اسے کنٹرول میں رکھنا ہے تاکہ ہم بلڈشوگر لیول بہت زیادہ بڑھ جانے سے لاحق ہونے والی سنگین بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اب ایک ماہر نے کچھ ایسی تدابیر بتا دی ہیں جس کے ذریعے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول کو بہت حد تک کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔دی سن کے مطابق کیری بیسن نامی اس ماہر کا کہنا ہے کہ انار کا جوس پینا، باقاعدگی سے واک کرنا، ذہنی پریشانی سے خود کو نجات دلانا، زیادہ پانی پینا اور زیادہ شوگر کی حامل غذائی اشیاءسے گریز کرنا ایسے عوامل ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول کم رکھ سکتے ہیں۔
کیری بیسن کا کہنا تھا کہ انار کا جوس بلڈشوگر لیول کو کم کرنے میں اس قدر مددگار ثابت ہوتا ہے کہ جوس کا ایک گلاس پینے کے محض 15منٹ بعد بلڈشوگر لیول کم ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذیابیطس کی پہلی اور دوسری قسم کے مریضوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ثابت ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہمیں روزانہ 15سے 30منٹ کے لیے واک کرنی چاہیے۔ اس طرح ہمارے پٹھے خون میں موجود شوگر کو زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بلڈشوگرلیول کم ہو جاتا ہے۔ صحت مند آدمی کو بھی روزانہ دو لیٹر پانی پینا چاہیے تاہم اگر آپ کو بلڈشوگر زیادہ ہونے کا عارضہ لاحق ہے تو آپ کو اس کی بہرحال پابندی کرنی چاہیے۔ زیادہ پانی پینے سے آپ کو زیادہ پیشاب آئے گا اور اضافی شوگر آپ کے جسم سے نکل جائے گی۔“
https://dailypakistan.com.pk/07-Oct-2021/1350333?fbclid=IwAR3mAqZgKygtKeJviNPE7jt6H3coXdMN-u0KSI5p3a4tGHJtS3_-gk6H63w
کافی کے کئی طبی فوائد سامنے آتےرہتے ہیں اور اب ایک تازہ خبر یہ ہے کہ کافی الزائیمر اور دماغی تنزلی کو سست کرتے ہوئے یادداشت کو بہتر بناتی ہے۔
پوری دنیا میں رغبت سی نوش کی جانے والی کافی ایک جانب تو طبیعیت میں تازگی پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تو دوسری جانب امنیاتی نظام کو تقویت دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کافی میں موجود کئی اقسام کے فلے وینوئڈز اور دیگر مفید اجزا دماغی افعال پر مثبت اثرڈالتے ہیں۔
اس سے قبل ہم کافی کے دیگر طبی فوائد دیکھ چکے ہیں جن میں وزن کم کرنے کی صلاحیت، ڈپریشن میں کمی، امراضِ قلب سے بچانے اور دیگر بیماریوں سے بچانے والے خواص شامل ہیں۔
سب سے پہلے ایک عشرے قبل جرنل آف الزائیمر میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس میں فن لینڈ کے سائنسدانوں نے کہا تھا کہ درمیانی عمر کے افراد اگر پابندی سے تین یا چار کپ کافی روزانہ پیئیں تو اس سے دماغی افعال اچھے رہتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ اعصابی کمزوری کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ماہرینِ غذائیات کے مطابق سیاہ کافی اس ضمن میں بہت مفید ہوتی ہے اور اس میں معمولی سی کریم ملاکر پینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن بہت زیادہ چینی سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔
2014 میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بھی تصدیق کی تھی کہ کافی میں موجود کیفین سے یادداشت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق مائیکل یاسا نے کی تھی جس کی تفصیلات نیچر نیوروسائنس میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے مطابق کافی پینے کے 24 گھنٹے تک یادداشت پر اس کے مثبت اثرات موجود رہتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے کئی رضاکاروں کو روزانہ 200 ملی گرام کیفین دی گئی اور ان کے ڈبل بلائنڈ میموری ٹیسٹ کئے گئے۔
ان میں سے جن افراد نے باقاعدگی سے کیفین پی تھی ان کی یادداشت میں بہتری پائی گئی تھی۔
ستمبر 2021 میں پرتگال کے سائنسدانوں نے ایک تحقیقی مقالہ شائع کرایا جس میں کہا گیا کہ تھا کہ کافی میں 1000 کے لگ بھگ مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کیمیکل حیاتیاتی طور پر بہت ہی مؤثر ہوتے ہیں۔ کافی میں موجود بعض اجزا دماغی اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2272617/9812/
ایک امریکی سائنسدان اور مصنف ڈاکٹر رابرٹ جے ڈیوس نے کہا ہے کہ وزن کم کرنے کی امید پر روزانہ ورزش یا جسمانی مشقت کرنے والے لوگ جھوٹی امید کا شکار ہیں۔
اپنی حالیہ کتاب ’’سرپرائزڈ لائیز: ہاؤ متھس اباؤٹ ویٹ لاس آر کیپنگ اس فیٹ‘‘ (حیرت انگیز جھوٹ: وزن میں کمی کی من گھڑت کہانیاں کیسے ہمیں موٹا کررہی ہیں؟) میں انہوں نے اس موضوع پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ وزن اور موٹاپا کم کرنے کےلیے ہمیں درست طور پر کیا کرنا چاہیے۔
اس کتاب میں انہوں نے وزن اور موٹاپے میں کمی سے متعلق درجنوں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر 150 پونڈ (68 کلوگرام) وزنی کوئی شخص ہفتے میں 5 دن، روزانہ 30 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چلے تو اس کی صرف 140 کیلوریز جلیں گی۔
اتنی کیلوریز سافٹ ڈرنک کی ایک چھوٹی بوتل میں ہوتی ہیں لہذا اتنی کم مقدار میں کیلوریز جلنے سے اس کے وزن پر معمولی سا فرق بھی نہیں پڑتا۔
اس کے علاوہ، آرام کے دو دنوں میں وہ خوب کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔
ورزش سے موٹاپے میں کمی سے متعلق کی گئی تفصیلی تحقیقات کے نتائج بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر رابرٹ نے لکھا ہے کہ صرف معمولی ورزش کی بنیاد پر وزن میں کمی نہیں آتی جبکہ ڈائٹنگ بھی خاطر خواہ نتائج نہیں دیتی۔
البتہ روزانہ 90 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چل کر یا 30 منٹ تک تیز دوڑ کر یومیہ بنیادوں پر 400 سے 500 کیلوریز جلائی جاسکتی ہیں جو وزن میں معمولی کمی کا باعث بنتی ہیں۔
اگر اس کے ساتھ درست انداز میں ڈائٹنگ کا معمول بھی بنا لیا جائے تو چھ مہینے سے سال بھر میں وزن خاصا کم کیا جاسکتا ہے۔
اپنی کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ زیادہ وزن والے اکثر لوگ کھانے پینے اور آرام کے شوقین ہوتے ہیں لہذا وہ ڈائنٹنگ اور ورزش/ جسمانی مشقت کو اپنے لیے سزا سمجھتے ہیں؛ اور جب انہیں اپنی کوششوں کے جلدی اور بہتر نتائج نہیں ملتے تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر انہیں ترک کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر رابرٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر آپ ورزش کررہے ہیں لیکن کم کیلوریز والی صحت بخش غذا استعمال نہیں کررہے تو وزن میں کمی کی امید رکھنا فضول ہے۔
تاہم اگر آپ روزانہ اچھی ورزش اور صحت بخش غذا کی صحیح مقدار بھی استعمال کررہے ہیں تو چھ ماہ یا ایک سال بعد آپ اپنے وزن میں چند کلوگرام کمی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2272355/9812/
جنسی صحت اور موٹاپے میں گہرا تعلق سامنے آگیا
May 16, 2021 | 20:08:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے کے بے شمار نقصانات سائنسدان اپنی تحقیقات میں بتا چکے ہیں اور اب ایک ماہر نے موٹاپے اور جنسی صحت کے درمیان گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف برمنگھم کے ماہر ڈاکٹر عابد تہرانی کا کہنا ہے کہ موٹاپا کئی حوالوں سے لوگوں کی جنسی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا اور ازدواجی زندگی کو تباہ کرتا ہے۔ موٹاپے کے شکار مردوخواتین میں ایک طرف جنسی خواہش بہت کم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں اولاد ہونے کا امکان بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔
ایک اور ماہر اینی ہینڈرسن کا کہنا ہے کہ موٹاپا خواتین میں حیض کے بے قاعدگی، پولی سسٹک اوورین سنڈروم، افزائش نسل کے مسائل اور دیگر کئی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ تھرش (Thrush)ایک ایسی بیماری ہے جو ہر 4میں سے 3خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور لاحق ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر موٹاپے کی شکار خواتین ہی کو لاحق ہوتی ہے اور ان کی جنسی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ موٹاپے کا مردوخواتین کی جنسی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان کی جنسی زندگی بتدریج تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ازدواجی تعلق ختم ہونے کا امکان بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/16-May-2021/1289613?fbclid=IwAR2VZ71NFMupUX6t0DR_EG2schki28WnX7MHFcN_gZxXxaY4iLlzO3wbBmI
مردانگی کا راز ٹماٹروں میں پوشیدہ، سائنسدانوں نے انتہائی حیران کن انکشاف کردیا
May 10, 2020 | 20:21:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ٹماٹر ہر گھر میں استعمال ہونے والی سبزی ہے جس کے کئی طبی فوائد ہیں تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کا مردوں کے لیے ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ اسے روزمرہ خوراک کاحصہ بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ٹماٹر مردوں میں ’سپرمز‘ کی کوالٹی بہتر بنانے کے لیے انتہائی مو¿ثر چیز ہے۔ اسے خوراک کا باقاعدہ حصہ بنانے سے سپرمز کا معیار 50فیصد سے زائد بہتر ہو جاتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق مردوں کے لیے ٹماٹر کے اس فائدے کی وجہ ٹماٹر میں پایا جانے والا جزو لیکوپین (Lycopene)ہے جس کی وجہ سے ٹماٹر کی روشن سرخ رنگت ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے لیکوپین گولیوں میں شامل کیا اور 28مردوں کو روزانہ دو گولیاں کھلائیں۔ 3ماہ بعد جب دوبارہ ان کے سپرمز کی صحت کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان کے سپرمز پہلے کی نسبت 50فیصد سے زیادہ متحرک اور صحت مند ہو چکے تھے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ایلن پیسی کا کہنا تھا کہ ”ہمیں توقع نہیں تھی کہ لیکوپین ایسے شاندار فائدے کا حامل ہو گا تاہم جب تحقیق کے نتائج سامنے آئے تو ہم حیران رہ گئے۔ اتنی تیزی سے ادویات بھی سپرمز کا معیار بہتر نہیں کرتیں جتنی جلدی لیکوپین کی حامل گولیوں سے ہو گیا تھا۔“
https://dailypakistan.com.pk/10-May-2020/1130964?fbclid=IwAR22JE6qfEEfpmwsBahUFd1CkX2YpURsVvAf3OP7LrZY5pr5pGaPCcg4vVo
آلو کے ذریعے گردن اور سر کی درد سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ماہر نے بتادیا
Jun 02, 2020 | 18:48:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سردرد اور گردن کا درد بہت لوگوں کو لاحق ہوتا ہے۔ بالخصوص تادیر سکرین دیکھنے کے بعد لگ بھگ ہر کسی کی گردن دکھنے لگتی ہے۔ اب ایک برطانوی ماہر نے آلو کے ذریعے سردرد اور گردن کے اس درد سے نجات کا انتہائی آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ دی مرر کے مطابق اس ماہر کا نام سٹیفن میکنڈے ہے جو ہارلے سٹریٹ لندن کے پرفیکٹ بیلنس کلینک کے کلینیکل ڈائریکٹر ہیں۔
سٹیفن میکنڈے کا کہنا ہے کہ گردن کی تھکاوٹ پٹھوں کے کھنچاﺅ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر ہم ان پٹھوں کو ریلیکس کر دیں تو اس درد سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹینس بال بہترین ہیں لیکن چونکہ ٹینس بالز ہر گھر میں موجود نہیں ہوتیں لہٰذا آپ آلو کو استعمال کرتے ہوئے بھی اس طریقے پر عمل کر سکتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ یکساں سائز کے دو آلو لے کر ٹیپ سے انہیں اکٹھا جوڑ لیں۔ پھر سیدھے لیٹ کر ان آلوﺅں کو اپنے سر کے نیچے رکھ لیں اور کچھ دیر تک اسی طرح پرسکون پڑے رہیں۔ اس سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی اور گردن سے منسلک پٹھے ریلیکس ہو جائیں گے اور آپ کا گردن کا درد جاتا رہے گا۔ اس طریقے سے آپ سردرد سے بھی افاقہ حاصل کر سکتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Jun-2020/1139819?fbclid=IwAR0HETr3N_HLoVOxAt5T_mjlRvQELLpuagoHrKUAdOQmu-edHabdQu8MXaM
بالوں پر بغیر کچھ لگائے سفید بال پھر سے کالے سیاہ کرنے کا آسان ترین آزمودہ قدرتی نسخہ
May 25, 2020 | 12:33:PM
لندن(نیوزڈیسک)ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر بال سفید ہوجائیں تو پھر انہیں سیاہ نہیں کیا جاسکتا اور اس لئے لوگ مختلف طرح کے ہیئرکلر استعمال کرتے ہیں لیکن آج ہم آپ کو سفید بالوںکو دوبارہ کالا کرنے کا آسان ترین نسخہ بتاتے ہیں۔
اجزاء
فلیکس سیڈ آئل (السی کا تیل)200گرام
لیموں چار عدد
لہسن کی تین توڑیاں
شہد ایک کلو
بنانے کا طریقہ
لیموں کا رس اورلہسن کو اچھی طرح پیس لیں،اسکے بعد فلیکس سیڈ اور شہد ڈالیں اور پھر پیس لیں۔اس مرکب کو کسی جار میں ڈال کر اچھی طرح بند کردیں اور مکسچر کو فریج میں رکھ دیں۔ہر کھانے سے 30 منٹ قبل ایک بڑا چمچ مکسچر کاکھائیں اور ہمیشہ لکڑی یا پلاسٹک کا چمچ استعمال کریں۔یہ جادوئی مکسچر دن میں تین بار استعمال کرنے سے نہ صرف بال مضبوط ہوکر سیاہ ہونے لگیں گے بلکہ اس سے صحت بھی اچھی رہے گی۔
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2020/1136747?fbclid=IwAR0yCb9C_6UPr8Y04lorjS4RuW9xA3MtOpGaUf5cpNWRJldRzSGk96es8B4
کیلے کے ساتھ کیا چیز کھائیں تو صحت کے لیے انتہائی مفید ہے؟ انتہائی آسان نسخہ جو آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھے
Jul 23, 2020 | 19:02:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کی وباءنے لوگوں کو صحت کے متعلق مزید محتاط کر دیا ہے کیونکہ تاحال اس موذی وباءکی کوئی دوا تیار نہیں ہو سکی اور اس سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اپنی صحت کا خیال رکھیں اور ایسی چیزیں استعمال کریں جس سے جسم میں قوت مدافعت بڑھے۔ اب ماہرین نے کیلے کے ساتھ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کھانے کا مفید مشورہ دے دیا ہے جو نہ صرف کورونا وائرس بلکہ دیگر کئی طرح کی بیماریوں سے ہمیں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی قوت مدافعت میں اضافے کے لیے ناگزیر ہے اور اگر ہم کیلے کے ساتھ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ استعمال کریں تو ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کو جذب کرنے کی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ”کیلے میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جو دوران خون میں شامل ہو کر ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کو ایکٹو کر دیتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ہمارا جسم زیادہ وٹامن ڈی جذب کرتا ہے بلکہ وٹامن ڈی کے فوائد بھی اس صورت میں زیادہ حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ خون میں میگنیشیم ہونے کے سبب یہ زیادہ متحرک ہوتا ہے۔ “ ماہرین کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کیلا پسند نہیں کرتے تو وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کے ساتھ برڈ، پین کیک یا موفن کھا لیں اور اگر یہ بھی نہیں کھانا چاہتے تو وٹامن ڈی کے ساتھ میگنیشیم کا سپلیمنٹ بھی استعمال کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/23-Jul-2020/1161957?fbclid=IwAR2BnInwTwFtcsqg_2sM3cqtF9sH6vGLvCL6BkiwGt5PIsLK6xRjsACLBe8
اونچی ہیلیں خواتین کیلئے فیشن کا روپ اختیار کرچکی ہیں لیکن اس کی قیمت جسم پر پڑنے والے مضر اثرات سے چکانی پڑتی ہے۔
1) کمر
اس کا پہلا نقصان جسم کو ملنے والا غیر متوازن سہارا ہوتا ہے۔ اس سے پاؤں پر جسمانی وزن غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتا ہے جس سے غیر آرام دہ احساس، سوزش اور نچلی کمر کے حصوں میں درد محسوس ہوسکتا ہے۔
2) عضلات
دوسرا نقصان پنڈلیوں کے عضلات کو پہنچتا ہے۔ یہ ابھری ہوئی نصوں اور شدید درد کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ دن کا اکثر حصہ اونچی ہیل پہنتے ہوئے گزاردینا پاؤں، انگوٹھوں ، تلوے اور ایڑھیوں میں درد کا باعث بن سکتا ہے۔
3) ٹخنے ٹوٹ بھی سکتے ہیں:
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چلتے ہوئے لوگوں کا پاؤں مُڑ جاتا ہے جس سے ٹخنوں میں درد کی شدید لہر پیدا ہوتی ہے جسے ankle sprains کہا جاتا ہے۔ تاہم ہیلز پہننے والی خواتین کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ صرف درد ہی نہیں بلکہ چلتے چلتے پاؤں اگر اسی انداز سے مُڑ گیا تو ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ بھی سکتی ہے۔
4) ریڑھ کی ہڈی میں معمول سے زیادہ خمیدہ (curve)
اونچی ہیل ریڑھ کی ہڈی میں معمول سے زیادہ پیچ و خم پیدا کرتی ہے۔ جتنی زیادہ اونچی ہیل ہوگی اتنا زیادہ کمر کی ہڈی میں خمیدہ ہوگا جو اوپری سطح اور نچلی سطح دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔
5) رگیں پھٹ بھی سکتی ہیں
اونچی ہیلز خون کی رگوں کو بھی دبادیتی ہے جس سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ شدید حالتوں میں یہ رگیں پھٹ بھی سکتی ہیں۔ اونچی ہیل کا سب سے بدترین نقصان جو پہچتا ہے وہ ہے hammer toe. یہ اس حالت کو کہتے ہیں جب پاؤں کی اُنگلی بیچ میں سے مُڑ جاتی ہے جو کہ پنڈلی، خون کی رگوں اور پاؤں کی ہیئت کو خطرناک حد تک متاثر کرتی ہے۔
6) جوڑوں کا مرض
اونچی ہیل آپ کے جوڑوں میں موجود سخت لچکدار بافتوں (ligaments) کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ہیل پہننے سے ران کی پوزیشن تبدیل ہوتی ہے جس سے گھٹنے کی ہڈیوں پر اثر پڑتا ہے۔ یہ حالت osteoarthritis (جوڑوں کا مرض) بھی پیدا کرسکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2271691/9812/
امریکا میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر بچوں کو صبح دیر سے اسکول جانا ہو تو اس سے ان کی اپنی صحت کے علاوہ ان کے والدین کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔
یہ تحقیق ڈینور، کولوراڈو میں ایک نجی ادارے کے درجنوں اسکولوں میں کی گئی جہاں کنڈرگارٹن (کے جی) سے بارہویں جماعت تک کی کلاسیں شروع ہونے کا وقت صبح میں 45 منٹ سے ڈیڑھ گھنٹے تک آگے بڑھا دیا گیا جبکہ اسی حساب سے اسکول ختم ہونے کا وقت بھی تبدیل کیا گیا۔
اسکول کے اوقات میں یہ تبدیلی دو سال تک جاری رہی جبکہ اس دوران بچوں اور ان کے والدین سے روزمرہ معمولات اور صحت کی عمومی کیفیات سے متعلق سوالنامے بھی پر کروائے گئے۔
2017 میں شروع ہونے والا یہ مطالعہ 2019 میں مکمل ہوا جس میں مجموعی طور پر 55 ہزار سے زائد بچے اور ان کے والدین شریک ہوئے۔
ان معلومات اور اعداد و شمار کے محتاط تجزیئے سے پتا چلا کہ صبح اسکول شروع ہونے کا وقت صرف ایک گھنٹہ آگے بڑھانے سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا۔
اسی کے ساتھ بچوں کے والدین نے بھی اپنی صحت بہتر محسوس کی جبکہ ملازمت اور روزمرہ کاموں کے دوران بھی انہوں نے پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
’’بچے کسی الگ خلا میں نہیں رہتے، بلکہ والدین بھی ان کے روزمرہ معمولات کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر لیزا میلٹزر نے کہا، جو ڈینور کے نیشنل جیوئش ہیلتھ میں امراضِ اطفال کی پروفیسر اور ’’سلیپ ہیلتھ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے اس مطالعے کی مرکزی مصنفہ بھی ہیں۔
ڈاکٹر لیزا کا کہنا تھا کہ اکثر بچوں کو ان کے والدین ہی صبح اسکول جانے کےلیے اٹھاتے ہیں، یعنی انہیں اپنے بچوں کے جاگنے سے پہلے ہی جاگنا پڑتا ہے۔ ’’بچوں کو جلدی اٹھانے کےلیے والدین کو بھی ان سے پہلے اٹھنا پڑے گا،‘‘ انہوں نے وضاحت کی۔
45 منٹ سے ایک گھنٹے تک روزانہ اضافی وقت کی وجہ سے والدین کو بھی اپنی نیند پوری کرنے کا بہتر موقع ملا جس کا اثر ان کی مجموعی صحت پر بھی بہت اچھا مرتب ہوا۔
اس تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں بچوں کی تعلیم کو ایک مجموعی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ صبح کے اسکولوں کا وقت تھوڑی سی دیر آگے بڑھا دینا کئی حوالوں سے مفید ثابت ہورہا ہے۔
’’مناسب نیند کا براہِ راست تعلق صحت مند دل اور درست وزن سمیت کئی ایک فوائد سے ہے۔ اگر یہ مقصد اسکول کا وقت چند منٹ آگے بڑھا کر حاصل کیا جاسکتا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس پر غور کرنا چاہیے،‘‘ ڈاکٹر لیزا نے تجویز پیش کی۔
واضح رہے کہ یہ تحقیق ابھی حتمی نہیں بلکہ اس میں مزید بحث کی گنجائش ہے کیونکہ پوری اور بھرپور نیند لینے کا آزمودہ ترین روایتی طریقہ یہی ہے کہ بچوں اور والدین سمیت تمام گھر والے رات کو جلدی سو جائیں تاکہ صبح جلد ہی ان کی نیند پوری ہوجائے۔
https://www.express.pk/story/2271246/9812/
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں باقاعدہ ورزش کا عادی بنایا جائے۔
تندرست جسم اور تندرست دماغ کے مصداق یہ بات درست ہے کہ ورزش دماغ کو قوی کرتی ہے، یادداشت بہتر بناتی ہے اور اس سے استدلالی قوت بھی بڑھتی ہے۔ بچوں میں اس کے فوائد ریاضی، زبان سیکھنے اور دیگر علوم یں بہتری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
یونیورسٹی آف جنیوا کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں 200 کے قریب بچوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرکے ان کا سروے کیا ہے۔ ان کا مقصد تھا کہ جسمانی سرگرمی اور تعلیمی صلاحیت کے درمیان تعلق کو سمجھا جائے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ورزش، کھیل کود اور جسمانی ورزش بچے کی دماغی صلاحیت کو بہتر بناسکتی ہے
اس ضمن میں جنیوا صوبے میں 8 سے 12 سال تک کے 193 بچوں کو شٹل رننگ ٹیسٹ سے گزارا تھا۔ اس میں بچوں کو ایک لائن سے دوسرے لائن میں 20 میٹر دوڑنا تھا اور پلٹ کر قدرے تیزی سے اسی مقام پر لوٹنا تھا۔ اس ٹیسٹ کو ماہرین نے کارڈیو ویسکیولر جانچ کا طریقہ قرار دیا ہے۔
ماہرین نے تین طرح سے دماغی افعال کا جائزہ لیا۔ اس میں اول انہبیشن ہے جس میں غیر ضروری افعال اور خیالات سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا شعبہ دماغی لچک کا ہے جس میں ہم ایک وقت میں کئی کام (ملٹی ٹاسکنگ) کرکے دماغی لچک اور نئی باتیں سیکھنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تیسری صلاحیت عملی حافظہ (ورکنگ میموری) ہے۔ اس میں ہم کوئی بات یادداشت میں محفوظ رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ورزش کرنے والے بچوں کو سیڑھیوں کے زینے چڑھنے اور انہیں حروف تہجی اور اعداد یعنی ون اے، ٹو بی کی تربیت دی گئی۔ یوں حروف اور اعداد کو ایک ترتیب میں یاد رکھنے اور دوہرانے کا کہا گیا۔
اس کے علاوہ جو بچوں جسمانی مشقت سے گزرے وہ اس ٹیسٹ میں بہتر رہے۔ دوم انہوں نے ورزش نہ کرنے والے بچوں کے مقابلے میں ریاضی اور فرانسیسی زبان سیکھنے میں بہتر کارکردگی دکھائی جس میں فرق واضح تھا۔
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ بچوں کی دماغی ترقی کے لیے لازمی ہے کہ انہیں باقاعدہ ورزش اور مشقت کرائی جائے۔
https://www.express.pk/story/2270503/9812/
امریکی غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مکھن اور مارجرین کی جگہ زیتون کے تیل کی معمولی مقدار روزانہ استعمال کی جائے تو دل اور دماغ کی بیماریوں کا خطرہ بہت کم رہ جاتا ہے۔
یہ نتیجہ انہوں نے تقریباً ایک لاکھ امریکیوں کی غذائی عادات کا 28 سال تک جائزہ لینے کے بعد اخذ کیا ہے۔
جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جن خواتین و حضرات نے روزانہ صرف 7 گرام (کھانے کے آدھے چمچے جتنا) زیتون کا تیل اوسطاً استعمال کیا، وہ دل اور دماغ کی مختلف بیماریوں سے زیادہ محفوظ رہ
یہی نہیں بلکہ مکھن اور مارجرین کے مقابلے میں زیتون کے تیل کو ترجیح دینے والے افراد میں سرطان (کینسر) سے اموات بھی بہت کم دیکھی گئیں۔
واضح رہے کہ صحت کے حوالے سے زیتون کے فوائد کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ یہ پہلی مفصل اور طویل مدتی تحقیق ہے جس میں زیتون کا موازنہ مکھن، مارجرین اور مایونیز وغیرہ سے کرنے کے بعد محتاط نتیجہ حاصل کیا گیا ہے۔
ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول آف پبلک ہیلتھ، بوسٹن کے تحت ہونے والی اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ زیتون کا تیل بالکل بھی استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں جن افراد نے روزانہ اوسطاً کھانے کے صرف آدھے چمچے جتنا زیتون کا تیل باقاعدگی سے استعمال کیا تھا، ان میں دل کی کسی بھی بیماری سے موت کا خدشہ 19 فیصد کم تھا۔
علاوہ ازیں ان میں کینسر سے موت کا خطرہ 17 فیصد کم، دماغی و اعصابی بیماری سے موت کا خطرہ 29 فیصد کم، اور سانس کی تکلیف سے موت کا خدشہ 18 فیصد کم تھا۔
تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مکھن اور مارجرین جیسی چکنائیوں کے استعمال میں صرف 10 گرام روزانہ جتنی کمی کرتے ہوئے ان کی جگہ اتنی ہی مقدار میں زیتون کا تیل استعمال کرلیا جائے تو کسی بھی طبّی سبب سے موت کے خطرے میں 8 سے 34 فیصد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2270340/9812/
بچے کو دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے بہت سے زبردست فوائد سمیٹنے کے ساتھ ساتھ وہ امراضِ قلب اور فالج سے بھی محفوظ رہ سکتی ہیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے اپنے تحقیقی جرنل میں کہا ہے کہ انہوں نے دورانِ حمل، زچگی اور ماؤں کی بیماری پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دودھ پلانے کا عمل ایک جانب تو بچے کےلیے بہت مفید ہوتا ہے تو دوسری جانب ماں کو امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور فالج وغیرہ سے بھی دور رکھتا ہے۔
اس سے قبل ماں اور بچے کے لیے شیرخوارگی کے فوائد سامنے آتے رہے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او۹ کےمطابق باقاعدگی سے شیرخوار بچے سانس کے امراض، اموات اور دیگر انفیکشن سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس سے خود ماں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور وہ چھاتی سمیت کئی طرح کے سرطان سے بھی محفوظ رہتی ہے۔
آسٹریا کی انسبرک میڈیکل یونیورسٹی کےڈاکٹر پیٹر وائلے اور ان کے ساتھیوں نے یہ تحقیق کی ہے۔ انہوں نے پہلے سے موجود ڈیٹابیس، سائنسی لٹریچر اور دیگر شواہد کو بھی دیکھا ہے۔
پہلے 1986 اور 2009 میں کئے گئے آٹھ سروے دیکھے گئے جو کئی ممالک سےتعلق رکھتےہیں۔ اس طرح 12 لاکھ خواتین کا ڈیٹا سامنے آیا ۔ خواتین جب پہلی مرتبہ ماں بنیں تو اوسط عمر 25 سال تھی اور کئی برس تک ان سے رابطہ رکھا گیا۔
تحقیق کے دسویں سال معلوم ہوا کہ خاتون بچے کو باقاعدگی سے دودھ پلائے تو امراضِ قلب اور اس سے مرنے کا خدشہ 17 فیسد اور فالج کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹروں کا اصرار ہے کہ خواتین کم سے کم ایک سال تک یہ معمول جاری رکھیں۔
اگر وہ اس سے زائد عرصے تک بچے کو دودھ پلاتی ہیں تو اس کے فوائد بھی اتنے ہی بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے تمام ماؤں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی اور بچے کی صحت کے لیے دودھ پلانے کا عمل جاری رکھیں۔
https://www.express.pk/story/2270102/9812/
آپ کے باورچی خانے میں موجود ایک چیز جس کے استعمال سے معدے کی تیزابیت ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی
Jul 22, 2021 | 11:25:AM
سورس: Pixabay.com (creative commons license)
نیویارک(نیوزڈیسک) معدے کی تیزابیت کی وجہ سے کافی پریشانی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اچھی خاصی زندگی عذاب لگنے لگتی ہے۔کچھ لوگوں کایہ مسئلہ اس قدر گھمبیر ہوجاتا ہے کہ وہ اگر پانی بھی پی لیں تو اس کی وجہ سے بھی تیزابیت ہوجاتی ہے۔لیکن قدرت نے بیکنگ سوڈا میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ اگر اسے استعمال کیا جائے تو معدے کی تیزابیت کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔
معدے کی تیزابیت کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتی ہے
ہمارے معدے میں تیزابہت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب معدے میں موجود تیزاب کی مقدار غذائی نالی تک بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے سینے کی جلن محسوس ہونے لگتی ہے۔ایسا تب ہوتا ہے کہ جب ہم بہت زیادہ مصالحے والا،چکنائی اور تیزابی کھانا کھائیں۔اس کے علاوہ کچھ ادویات کی وجہ سے بھی معدے میں تیزابیت ہوجاتی ہے۔
بیکنگ سوڈا سے معدے کی تیزابیت کا علاج
کھانے کے بعد آدھا چمچ بیکنگ سوڈا لیں اور اسے ایک گلاس پانی میں حل کرکے پی لیں،اس کی وجہ سے آپکے معدے میں موجود تیزابہت کم ہوتی جائے گی۔آپ اس طرح کے سات گلاس دن میں پی سکتے ہیں لیکن دھیان رہے کہ اس سے زیادہ ہرگز استعمال نہ کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-Jul-2021/1318768?fbclid=IwAR209YIGVqVY51_bInkZ7PS-hzebJEWMlfzXbOfqb4CeUzyxl7dRuL6uaZ0
نہانے کے دوران پیشاب کرنے سمیت وہ چھوٹی چھوٹی عادتیں جوہماری صحت پر انتہائی منفی اثرات کی حامل ہو سکتی ہیں
Aug 16, 2021 | 20:30:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) نہانے سے قبل یا دوران پیشاب کرنا اور دیگر کچھ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی عادتیں ہیں جو ماہرین کے مطابق ہماری صحت پر انتہائی منفی اثرات کی حامل ہو سکتی ہیں۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ڈاکٹر الیشا جیفرے تھامس نامی ایک ماہر نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بتایا ہے کہ جو لوگ بڑھتی عمر میں جا کر مثانے کی کمزوری اور دیگر ایسے ہی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اس پچھتاوے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کاش وہ ان چھوٹی چھوٹی عادتوں کو پہلے ہی ترک کر دیتے جن کی وجہ سے وہ بڑھاپے میں ان بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔
ڈاکٹر الیشا کہتی ہیں کہ ”نہاتے ہوئے پیشاب کرنا اور رفع حاجت کے دوران ضرورت سے زیادہ زور لگانا ایسی عادتیں ہیں جو ہمارے پیڑو کے پٹھوں کو کمزور بنا دیتی ہیں اور بڑھتی عمر میں جا کر انسان کے لیے بول و براز کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بظاہر معمولی عادتیں ہیں مگر بڑھاپے میں جا کر ان کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کو چاہیے کہ جتنی جلدی ہو سکے ان عادتوں سے جان چھڑا لیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/16-Aug-2021/1328948?fbclid=IwAR3E0O0-Uh6-0qHac9pPzkJPd8PdLSbhI-DOO_P6OLRrPr0lozwm9xE27HU
آنکھوں سے پانی بہنے کی وجوہات، ماہرین کا ایسا انکشاف کہ آپ کبھی بھی اس بات کو ہلکا نہیں لیں گے
Aug 31, 2021 | 19:08:PM
سورس: Pxhere (creative commons license)
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) آنکھوں سے پانی بہنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ دی سن کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ آنکھوں سے پانی بہنے کے اسباب میں کوئی الرجی یا انفیکشن، آنسوﺅں والی ٹیوب کا بند ہو جانا، بند ہونے کے بعد آنکھ کے پپوٹے کا دیدے سے دور رہان یا اندر کی طرف مڑ جانا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ’ڈرائی آئی سنڈروم‘ نامی بیماری بھی آنکھوں سے پانی بہنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔ بچوں کی آنکھوںسے اس لیے بھی پانی بہہ سکتا ہے کیونکہ ان کی آنسوﺅں والی ٹیوب تاحال بہت تنگ ہوتی ہے۔جب وہ ایک سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان میں یہ عارضہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر آپ کی آنکھیں خشک ہیں یا ان میں کوئی انفیکشن ہے تو آئی ڈراپس اس کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ الرجی کی صورت میں بھی کچھ ادویات آپ کی شکایت دور کر سکتی ہیں، جس کے لیے آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑے گا۔ آپ کی آنکھ میں کوئی چیز پڑ گئی ہے تو اس کے لیے بھی آپ کو آئی سپیشلسٹ کے پاس جانا چاہیے، جو کچھ ہی دیر میں آپ کی آنکھ میں موجود چیز نکال دے گا تاہم اگر آپ کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر کی طرف مڑ جانے یا دیدے سے اس کا فاصلہ پیدا ہو جانے کا مسئلہ درپیش ہے تو اس کے لیے ممکنہ طور پر آپ کاچھوٹا سا آپریشن کرنا پڑ سکتا ہے۔اگر آپ کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اور آپ کو اس کا سبب معلوم نہیں ہو رہا تو آپ کو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/31-Aug-2021/1334836?fbclid=IwAR2c4YK37sVDToMExSqTi4GeumJbABbGZ0-LXeAH9Dn0pVjANer4mB6g9aM
کولیسٹرول جدید دنیا کا ایک ہولناک عارضہ بن چکا ہے۔ تاہم جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض اقسام کے موسمی اور خوش ذائقہ پھل صحت کے مضر ایک قسم کے کولیسٹرول کو کم کرسکتے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ کولیسٹرول کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ یہ جسمانی چکنائیاں ہیں جنہیں ایل ڈی ایل اور ایچ ڈی ایل کا نام دیاگیا ہے۔ ان میں سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول دھیرے دھیرے رگوں اور شریانوں میں جمع ہوتا رہتا ہے اور امراضِ قلب، فالج اور بلڈ پریشر کی وجہ بن سکتا ہے۔
مسلمہ تحقیق کے مطابق ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو کم کرنے والے پانچ پھل ایسے ہیں جن کا باقاعدہ استعمال خون میں اس مضر بلا کو کم کرسکتا ہے۔ اس طرح یہ پھل علاج بالغذا کی بہترین مثال ہیں۔ ان میں سرِ فہرست پھلوں کا احوال نیچے دیا جارہا ہے۔
اسٹرابری
شوخ اور خوش رنگ اسٹرابری بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں اور اپنے ذائقے کی وجہ سے سب کو بھاتی ہیں۔ ان میں بعض اینٹی آکسیڈنٹ اور فلے وینوئڈز کی وجہ سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی شرح کو کم کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہی اجزا سرطان سے بھی بچاتے ہیں اور جلد کو بہترین حالت میں رکھتے ہیں۔
سیب
روزانہ ایک سیب کھانے کا عمل آپ کو ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بچاسکتا ہے۔ سیب بلاشبہ صحت کا خزانہ ہے۔ ایک جانب تو یہ ڈپریشن اور اداسی کم کرتا ہے۔ اپنی گونا گوں خواص کی بنا پر پورے جسم کے لیے مفید ہے اور ساتھ ہی ایل ڈی ایل کولیسٹرول تیز سے کم کرسکتا ہے۔
سیب میں موجود ایک خاص قسم کا ریشہ (فائبر) پیکٹن بھی ہے جو کولیسٹرول کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
رس دار کھٹے پھل
لیموں، نارنجی، کینو، اور گرے فروٹ وغیرہ سٹرس فروٹ یعنی کھٹے رس دار پھلوں میں شامل ہیں۔ سردیوں میں یہ پھل بکثرت اور کم قیمت میں دستیاب ہوتے ہیں۔ وٹامن سی کی بدولت یہ تمام پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو امنیاتی نظام کو قوی بناتے ہیں۔
ان رس بھرے کھٹے پھلوں میں حل شدہ فائبراوردیگر کیمیائی اجزا نہ صرف دل کو توانا رکھتے ہیں بلکہ کولیسٹرول کو تیزی سے گھٹاتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال یورپی تحقیق سے سامنے آئی جہاں ہزاروں افراد کو کئی ماہ تک نارنجی کا رنگ دیا گیا ۔ اس سے ان کے ہاتھ اور پیروں میں سن ہونے کا عمل بہت حد تک کم دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نارنجی کے رس میں موجود کئی اجزا خون کو پتلا کرکے اس کی روانی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ایواکیڈو
مگرناشپتی اور ایوا کیڈو کو سپرفوڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ایواکیڈو اب پاکستان میں بھی دستیاب ہیں جسے آزمانا ضروری ہے۔ ایواکیڈو میں موجود کئی اجزا نہ صرف خون میں گلوکوز کو نارمل رکھتے ہیں بلکہ بلڈ پریشر روکنے کا جادوئی اثر رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مستقبل طور پر ایواکیڈو استعمال کی جائے تو کولیسٹرول کی سطح تیزی سے کم ہوسکتی ہے۔
انگور اور کولیسٹرول
اگر کولیسٹرول گھٹانا چاہتے ہیں تو انگور کھانے کی عادت اپنا لیجئے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انگورکا باقاعدہ استعمال معدے کی تیزابیت میں 40 فیصد کمی کرسکتا ہے۔ دوسری جانب اس میں موجود فائبر کولیسٹرول گھٹانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2269290/9812/
دنیا بھر میں بالخصوص خواتین میں بریسٹ کینسر کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دھوپ سینکنے سے چھاتی کے سرطان کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔
اس ضمن میں دلچسپ تحقیق پورٹوریکو میں کی گئی ہے جس سے سورج کی روشنی اور چھاتی کے سرطان کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔ مرکزی تحقیق یونیورسٹی آف بفیلو، نیویارک نے کی ہے۔
جرنل آف ’کینسر ایپی ڈیمیولوجی، بایومارکر اور پری وینشن جرنل‘ میں شائع تحقیق کے مطابق دھوپ میں کچھ وقت گزارنے والی 307 اور اس سے دور رہنے والے 328 خواتین کی جلد میں کروما میٹر سے پیمائش کی گئ ہے۔ کرومامیٹر بتاتا ہے کہ جلد پر کتنی دھوپ پڑی ہے۔
تحقیق میں شامل ڈاکٹر جو فرائیڈن ہائیم نے کہا ہے کہ پورٹوریکو کی خواتین کی جلد مختلف رنگت کی ہوتی ہیں جس کا انحصار دھوپ سے ان کے سامنے پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جو کے مطابق بعض شواہد کی بنا پر دھوپ اور بریسٹ کینسر کے درمیان حقائق سامنے آئے ہیں اور اب اس پر ایک چھوٹا مطالعہ کیا گیا ہے۔
لیکن ڈاکٹر جو کہتی ہیں کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی کرنیں وٹامن ڈی کی پیداوار بڑھاتی ہیں جس سے بریسٹ کینسر کا امکان کم ہوجاتا ہے لیکن اس پر مزید تحقیق درکار ہے۔
پورٹوریکو میں سارا سال دھوپ پڑنے کی مقدار میں کوئی خاص کمی نہیں ہوتی اور اسی لیے یہ ملک تحقیق کا مرکز بنایا گیا ہے۔ ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ جن خواتین نے دھوپ میں سب سے زیادہ وقت گزارا ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ سب سے کم تھا۔ اس کی تصدیق ایسٹروجن ریسپٹر کی کیفیت سے معلوم ہوئی ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر کے ماہرین کہہ چکے ہیں کہ خواتین دھوپ میں کچھ وقت گزارنے کی عادت اپنائیں اور اپنے رنگ سے فکرمند ہونے کی بجائے صحت کو دیکھیں۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ دھوپ فکرمندی اور ڈپریشن کو کئی طرح سے کم کرتی ہے۔
پاکستان کے ممتاز نفسیاتی معالج ڈاکٹر اقبال آفریدی کا اصرار ہے کہ خواتین صبح دس سے بارہ بجے کی دھوپ میں کچھ وقت گزاریں۔ اس سے وٹامن ڈی کے ساتھ ساتھ ایسے ہارمون بھی بنتے ہیں جو ڈپریشن اور یاسییت کو کم کرسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2269341/9812/
تقریباً دو ہزار ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد پر تحقیق کے بعد امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دل کی بیماریوں کے باعث مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا دماغ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
یہ تحقیق میو کلینک، منیسوٹا میں ڈاکٹر کلیفرڈ جیک کی سربراہی میں کئی سال تک جاری رہی جس میں 50 سے 69 سال کے 1857 رضاکاروں میں وقفے وقفے سے دل کی صحت اور دماغی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاتا رہا۔
مطالعے کے اختتام پر جہاں ایک بار پھر یہ تصدیق ہوئی کہ دل کی خرابی کا اثر براہِ راست دماغ کو بھی متاثر کرتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی نسبت خواتین کے دماغ کو امراضِ قلب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔
واضح رہے کہ انسانی جسم میں سب سے زیادہ آکسیجن کی ضرورت دماغ کو ہوتی ہے۔ خون میں آکسیجن جذب ہو کر جسم کے ہر حصے تک پہنچتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دل کی کمزوری کے نتیجے میں جہاں خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے، وہیں دماغ کو ملنے والی آکسیجن میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جس سے دماغ کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے؛ اور یوں دل کے ساتھ ساتھ دماغ بھی کمزور ہونے لگتا ہے۔
ماضی میں درجنوں تحقیقات اس تعلق کو ثابت کرچکی ہیں لیکن یہ جاننا باقی تھا کہ مردوں اور عورتوں میں دماغ پر دل کی کمزوری کا اثر ایک جیسا ہوتا ہے یا مختلف۔
اس تفصیلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ دل کی بیماریوں اور دوسرے متعلقہ مسائل کا شکار ہونے والی خواتین میں اگرچہ فالج اور دل کے دوروں کی شرح مردوں سے کم ہوتی ہے لیکن مردوں کے مقابلے میں ان کا دماغ زیادہ کمزور ہوجاتا ہے۔
نتیجتاً ادھیڑ عمر اور بزرگ خواتین میں کچھ نیا سیکھنے کی صلاحیت (اکتسابی صلاحیت) کم ہوجاتی ہے جبکہ وہ ڈپریشن، ڈیمنشیا، پارکنسن اور اسی طرح کے دوسرے دماغی امراض میں بھی مبتلا ہوجاتی ہیں جو آگے چل کر ان کےلیے مزید پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں۔
ریسرچ جرنل ’نیورولوجی‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنفین نے خواتین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے دل کی صحت کا بطورِ خاص خیال رکھیں جس کےلیے وہ صحت بخش غذا کے ساتھ ساتھ ورزش اور دیگر اقسام کی جسمانی مشقت کرتی رہیں۔
https://www.express.pk/story/2268395/9812/
کانوں کے میل کو عمومی طور پر ایک گندی چیز سمجھا جاتا ہے جس کا صاف کیا جانا ضروری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کس جس طرح پیسہ ہاتھ کا میل ہونے کے باوجود ہمارے لیے ضروری ہے، اسی طرح کانوں کا میل بھی ایک حد تک ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔
کانوں کی صفائی اچھی بات ہے لیکن کانوں کو بالکل ہی صاف کردینا یہ صحت کے لیے مضر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کانوں کا میل جسے انگریزی میں earwax کہتے ہیں، قدرت کا عطا کردہ عجیب مدافعتی نظام ہے۔
اس کی سطح چپکدار ہوتی ہے اور یہی چپ چپاہٹ ہم کو کئی بیماریوں سے محفوظ کرتی ہے۔ یہ چپکدار مادہ باہر سے داخل ہونے والے جراثیم ، گردوغبار، فنگس یا کیڑے مکوڑوں کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے۔ ضرر رساں مادے اس پر چپک جاتے ہیں اور اندر تک نہیں پہنچ پاتے۔
کانوں کے میل میں ایک انتہائی اہم خامرہ (enzyme) موجود ہوتا ہے جسے lysosyme کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا حیاتیاتی سالمہ ہوتا ہے جو کیمیائی تعامل کے ذریعے خوردبینی حیاتیات کے خلیوں کو توڑ دیتا ہے۔ lysozyme جراثیم اور فنگس وغیرہ کو 2 مرحلوں میں ختم کرتا ہے۔ اوّل جب کوئی جراثیم داخل ہوتا ہے تو میل کی چپکدار سطح اُسے اپنے ساتھ چپکا لیتی ہے، اس سے جراثیم کی حرکت رُک جاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں کمیمیائی عمل کے ذریعے اس جراثیم کے خلیات کو توڑ دیا جاتا ہے جس سے مضر صحت مادہ وہیں ختم ہوجاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2268860/9812/
علمِ طب کو باقی طریقہ علاج پر بہت سی وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔
اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں پورا باب طب پر موجود ہے، یہاں تک کہ مختلف قدرتی اشیاء پھل (مثلاً زیتون)، سبزیوں (مثلاً کدو) کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ شہد میں شفاء ہے، یہ اخلاطِ ثلاثہ (بلغم، صفراء، سوداء) کو خارج کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق شہد موثر مصفی خون ہے۔
کدو خون کو پیدا کرتا ہے، اور اب سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ کدو خون کو صاف اور رقیق بھی کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں خوراک خالص نہیں رہی ، یہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے، جن پھل اور سبزیوں وغیرہ کو کسی وقت ہضم ، قوت بڑھانے ، خون پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اب یہ کام ہوتے ان اشیا ء سے ہوتے کم ہی نظر آتے ہیں۔ مثلاً مولی کا ذائقہ اگر خود اگائی جائے ، اور پھر کھائی جائے تو کچھ اور ہوتا ہے ، جبکہ بازار سے خریدی مولی کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
ایسی ہی مثال بند گوبھی کی ہے کیونکہ ان کی مقدار ، حجم وغیرہ کو بڑھانے کے لیے کھاد کا استعمال کیا جاتا ہے، علی ہذاالقیاس جو بھی خوراک کھائی جاتی ہے وہ استحالہ (میٹابولزم) کے بعد اپنے اجزاء میں ٹوٹتی ہے اسے’ کیٹابولزم ‘کہتے ہیں۔ اسی دوران اس میں سمائے گئے کھاد کے اجزاء بھی ہضم کے بعد استحالے کے مرحلے سے گزرتے وقت خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اب اگر کھائی گئی خوراک خالص ہوتو خالص اجزائِ خون بنتے ہیں ورنہ ناقص اجزاء اور زہریلے مواد پیدا ہوتے ہیں۔
علمِ طب میں خون کو صاف رکھنے پر بے حد زور دیا جاتا ہے، اور مصفی خون کی تعریف کو صرف خون کی صفائی تک محدود کرنا بھی ظلم ہے، کیوں کہ جو شے خون صاف کرتی ہے وہ اعضاء ِ بدن میں نئے خلیات بھی پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔
ایلوپیتھی طریقہ علاج میں خون صاف کرنے والی ادویہ کو اینٹی بائیوٹک ، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل وغیرہ نام سے پکارا جاتا ہے، مگر یہ مخصوص جراثیم پر ہی فعل انجام دیتی ہیں۔علمِ طب میں مصفی ِخون کو درجہ بندی کے لفظ سے تعبیر دیا جاتا ہے مثلاً نیم کے پتے درجہ دوم میں گرم خشک ہیں ، یعنی یہ درمیانی قسم کے نقصان دہ پھپھوندی ، بیکٹریا، وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں، جبکہ افسنتین رومی درجہ سوئم میں گرم و خشک ہے۔ یہ ذرا مضبوط قسم کے جراثیم کو صاف کرتی ہے اور بذریعہ بول و براز جسم سے خارج کر تی ہے۔
قدیم حکماء نزلہ ، زکام ، کھانسی کے علاج کے لیے بھی دواء کے ساتھ مصفی خون بوٹیاں کھلایا کرتے تھے ، مگر آج کل کیونکہ اطباء اس امر کا خیال نہیں کرتے لہذا مریض کو چار و ناچار صرف اعراض (سمپٹمپ) کو دور کرنے والی ادویہ ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ خون میں فساد مختلف اجزاء ِخون (بلغم، سوداء ، صفراء، سرخ خلیات، سفید خلیات، خلیات برائے انجماد خون) کی مقدار کو اعتدال سے دور ہونا شامل ہیں ۔ مثلاً اگر خون میں صفراء ( زرد سیال ) زیادہ ہوجائے تو یرقان، تیزابیت، خارش، بال گرناکی شکایت ہوجاتی ہے۔
اگر بلغم (کچا خون) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو سستی ،لاغری، قوتِ حافظہ میں کمی جیسی شکایات مارض ہو تی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے سیاہ خلط (سوداء) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو مالخولیا ، جنون، وہم جیسی نفسیاتی کیفیات لاحق ہوتی ہیں۔
ایلوپیتھی علاج میں مہنگی ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے جو صرف اعراض کو ہی دور کرتی ہیں جو کہ کچھ عرصے بعد دوبارہ ہی لاحق ہو جاتی ہیں اور مریض کہتا ہے کہ ’ہر سردی کے موسم میںیہ تکلیف لاحق ہوتی ہے‘۔ جبکہ مصفی خون ادویہ ان اعراض کو چند ہفتوںمیں درست کر دیتی ہیں اور دوبارہ غذائی لااعتدالی کے بغیر مرض لوٹ کر نہیں آتا ۔ خون میں فساد ہی دراصل خارش، ذیابیطس، موادِ گھنٹیا کی افزائش کا ذمہ دار ہے۔
مثلاً اگر خارش ہے تب بیج کاسنی کا استعمال کرایا جائے تو خون کی صفائی ہوتی ہے اور خارش ٹھیک ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس میں خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مصفی خون ادویہ اس شکر کو بذریعہ بول جسم سے خارج کر دیتی ہیں۔ مواد گھنٹیا (یورک ایسڈ ) بھی خون میں شامل ہو کر ہڈیو ں میں دورانِ خون کے ساتھ داخل ہو کر مفاصل (جوڑوں میں درد) کا سبب بنتی ہیں، مصفی خون ادویہ اس مواد کوتحلیل کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مصفی خون ادویہ مزاج میں گرم و خشک اور تلخ ذائقہ رکھتی ہیں۔
دراصل یہ تلخی مصفی خون دواء کی تاثیر ظاہر کرتی ہے۔ جتنی تلخ ہوگی اتنی ہی زیادہ امراض اور جراثیم سے بدن کو صاف کرنے کے کام آتی ہیں۔ ایسی صورت میں پہلے ہدایت کی جاتی ہے کہ مریض اسپغول کا استعمال کرے پھر ایک گھنٹے وقفے سے مصفی خون دواء دی جاتی ہے۔ جدید حکماء تو کیپسول میں ایسی ادویہ کا سفوف بھر کر دیتے ہیں، ان کے مطابق کیپسول امعاء میں کھلتی ہے تو معدہ ضرر سے بچ جاتا ہے۔
ایلوپیتھی ضدِ حیوی ادویہ (اینٹی بائیوٹک، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل) ادویہ ایک خاص مواد (اینٹائریک کوٹنگ) میں ملفوف ہوتی ہیں۔اگر انہیں چبانے کی کوشش کی جائے تو قے عارض ہوجاتی ہے، اگر قے عارض نہ ہو تو پیٹ میں درد اور مروڑ پڑ جاتے ہیں جبکہ مصفی خون بوٹیاں چبائی جائیں یا ان کا قہوہ پیا جائے تو زبان کا ذائقہ ہی خراب ہوتا ہے یا کبھی شکر کی کمی کی وجہ سے گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے۔ بعض حضرات کے معدے میں تیزابیت کی شکایت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مصفی خون ادویہ اپنی تحلیل کرنے کی قوت کی وجہ سے ریح بھی ختم کرتی ہیں جبکہ کسی دوسرے طریقہ علاج میںایک چیز کے کم نقصان مگر بے بہا فوائد پائے نہیں دیکھے گئے۔
مصفی خون ادویہ کیسے استعمال کریں؟
طبیب کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد ایسی ادویہ کے استعمال کی ہدایت کرے تاکہ ہاضم غذاء کا فائدہ بھی حاصل ہو۔ اگر معدے کی شکایت بھی مریض کو لاحق ہوتو لیس دار غذاء کھانے کی تاکید کرنی چاہیے مثلاً بھنڈی، اروی وغیرہ۔ یہ خوراک ثقیل ضرور ہے مگر مصفی خون ادویہ کی قوتِ ہضم ان خوراکوں کی اصلاح کردیتی ہیں۔ مثلاً شاہتراہ ، چرایتہ ، برگ نیم، برنجاسف، کلونجی ، شہد، زیتون وغیرہ یہ تمام اشیاء گرم مزاج کی ضرور ہیںمگر ہاضم ِغذاء میں بھی ان کا ثانی نہیں۔ یہاں تک کہ یہ اشیاء چیچک، طاعون، پھلبہری کے مرض میں بھی شفا ء بخش دیکھی گئی ہیں۔ملیریا ، بخار، پھوڑے، پھنسیاں وغیرہ کاعلاج بھی مصفی خون ادویہ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
مصفی خون ادویہ کے استعمال کے وقت پرہیز
معالج کو چاہیے کہ گرم خوراک سے پرہیز کی تلقین ضرور کرے مثلاً کریلہ ، آم، وغیرہ کیونکہ یہ خوراک بھی اسہال لاتی ہیںاور تیزابیت کو فروغ دیتی ہیں،کریلہ خوراک کے ساتھ مصفی خون بھی ہے یہ شوگر کو اعتدال پرلاتا ہے، آم گرم مزاج کا ہے اکثر اشخاص آم کے بعد دودھ پیتے ہیںورنہ مروڑ پیدا کرتا ہے۔ .
https://www.express.pk/story/2267752/9812/
ایک بہت سستی سبزی کولیسٹرول جیسے عارضے کو کم کرسکتی ہے اور وہ ہے شکر قندی۔ جی ہاں! آج کل پاکستان بھر میں عام دستیاب اور ٹھیلوں پر گرما گرم فروخت ہونے والی شکرقندی نہ صرف ایل ڈی ایل کولیسٹرول گٹھاسکتی ہے بلکہ کووڈ ۱۹ کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی فضا میں بھی ہمارے لیے امنیاتی ڈھال بھی بن سکتی ہے۔
کولیسٹرول خون کو گاڑھا کرتا ہے جس سے فالج اور عارضہ قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پھریہی کولیسٹرول دل کی شریانوں میں سخت پلاک بننے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے بڑھے ہوئے کولیسٹرول کو ایک جسمانی عارضہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن اب چند روپے کی شکرقندی روزانہ کھانے سے کولیسٹرول کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح فالج اور امراضِ قلب کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔ شکرقندی میں سب سے اہم جزو ریشہ (فائبر) ہے جو خون کو تندرست پیمانے پر رکھتا ہے۔ اس کا ریشہ زود ہضم ہوکر آنتوں میں جذب ہوجاتا ہے۔ یہاں سے خون میں پہنچ کر یہ کولیسٹرول گھٹانا شروع کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں بھی نیشنل لائپڈ ایسوسی ایشن نے شکرقندی کو ایک بہترین غذائی دوا قرار دیا ہے۔ دوسری جانب ویب ایم ڈی جیسی مصدقہ ویب سائٹ نے کہا ہے کہ اپنے غذائی اجزا کی باعث شکرقندی کو پورے سال غذا کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
امریکی ماہرین کے مطابق ایک درمیانے درجے کی شکرقندی وٹامن اے کی روزانہ مقدار سے بھی چار گنا زائد وٹامن فراہم کرتی ہے۔ یہ امنیاتی نظام کو قوت دیتی ہے اور دل و گردوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ مایوکلینک کی ویب سائٹ کے مطابق شکرقندی سپرفوڈ میں شامل ہے۔
دیگر ماہرین کے مطابق شکرقندی میں بی وٹامن، وٹامن سی اور ڈی، کیلشیئم، فولاد، فاسفورس اور تھایامن کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔ شکرقندی میں موجود کیریٹیونوئڈز اور کئی اقسام کے اینٹی آکسیڈنٹس سرطان سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا سب سے بڑا اور فوری فائدہ یہ ہے کہ شکرقندی کولیسٹرول کی دشمن ہے جو کئی تحقیقیات سے ثابت ہوچکی ہے۔
https://www.express.pk/story/2266964/9812/
برصغیر پاک وہند میں ملیٹھی ایک معروف جڑی بوٹی ہے جو زمین کی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ عموماً یہ گلے کی خراش اور دیگرعارضوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن طبی ماہرین ملیٹھی (لیکرائس) کو سپرفوڈ بھی قرار دیتے ہیں۔
ملیٹھی میں کئی طرح کی معدنیات، اینٹی آکسیڈنٹس، فاسفورس، پوٹاشیئم اور دیگر اہم اجزا پائے جاتے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ اس کا احوال بھی میتھی دانوں جیسا ہے جو بے حساب فوائد کے باوجود نظرانداز کئے جاتے ہیں اور ملیٹھی کا بھی یہی حال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یونانی، اسلامی، آیورویدک اور دیگر پرانی تہذیبوں میں بھی ملیٹھی کو غیرمعمولی مقام حاصل رہا ہے۔ اسی لیے گھریلو نسخوں میں بھی اسے اہمیت حاصل ہے۔
ملیٹھی اور اندرونی جسمانی سوزش
غذائی ماہرین کے مطابق ملیٹھی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس اندرونی جسمانی سوزش یا جلن کو کم کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جسم کے اندر سوزش ، گرمی یا جلن کسی نہ کسی بیماری کا اشارہ ہوتی ہے۔ دوسری جانب اس میں اینٹی سیپٹک اور بیکٹیریا کے خلاف تاثیر بھی موجود ہے۔
کھانسی اور سینے کے لیے مفید
ملیٹھی کو سردیوں کی خاص سوغات قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ خشک کھانسی کو دور کرتی ہے اور سینے کے اندر بلغم اور ریشہ صاف کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملیٹھی کی چائے دمے کے مریضوں کو سکون پہنچاتی ہے۔ ملیٹھی کی چائے بنانے کا طریقہ نیچے دیا جارہا ہے۔
ماہانہ ایام کی تکلیف کم کرے
خواتین اور لڑکیوں کو ہرماہ ایام آتے ہیں اور پیریڈز کی وجہ سے انہیں شدید تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر ملیٹھی کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ اس کا استعمال ایام کی تکلیف کو کم کرتا ہے۔
معدے اور آنتوں کےلیے مفید
ملیٹھی میں دو اہم کیمیکل پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک گلائی سائی رائزن اور دوسرا کاربینوکسولون ہے۔ اس سے معدے اور آنتوں کو تقویت ملتی ہے۔ السر میں فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ قبض اور تیزابیت میں بھی ملیٹھی بہت ہی مفید قرار دی گئی ہے۔
ذہنی تناؤ دور کرے
ملیٹھی میں سکون آور اجزا موجود ہیں جو پٹھوں اور عضلات کو سکون پہنچاتے ہیں۔ دوسری جانب اس جادوئی بوٹی میں اعصاب کو سکون دینے کی پوری صلاحیت ہے۔ ملیٹھی کا استعمال آپ کو پرسکون رکھتا ہے۔
جلد کی ناہموار رنگت کا علاج
جلد پرداغ دھبوں اورغیریکساں رنگت (پگمنٹیشن) کا ایک بہترین حل ملیٹھی بھی ہے۔ ملیٹھی جلد کو ہموار کرکے اس کی رنگت نکھارتی ہے اور یوں چہرہ بے داغ اور شاداب ہوجاتا ہے۔
ملیٹھی کی چائے
ملیٹھی کی تین سے چار انچ لمبی جڑ لیجئے اور اسے ایک کپ پانی میں اچھی طرح کھولا لیجئے۔ ٹھنڈا ہونے کے بعد اسے آپ نہار منہ نوش فرمائیں۔ ملیٹھی چند دنوں بعد ہی اپنا اثر دکھانا شروع کردے گی۔
https://www.express.pk/story/2266928/9812/
کیا آپ بستر پر پڑے کروٹیں بدلتے رہتے ہیں اور دیر تک نیند نہیں آتی؟ ماہر ڈاکٹر نے آپ کی مشکل حل کردی، مفت مشورہ دے دیا
Dec 16, 2021 | 18:57:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) کچھ لوگوں کے لیے نیند کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ تادیر بستر پر پڑے کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اب ایک ماہر ڈاکٹر نے مفید مشورہ دے دیا ہے۔ دی سن کے مطابق ایما سلیپ نامی ادارے سے وابستہ ڈاکٹر ویرینا سین نامی اس ماہر نے بتایا ہے کہ بیڈروم میں سرخ رنگ کا بلب لگانا جلد نیند کے حصول میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق میں بھی ثابت ہو چکا ہے کہ کمرے میں سرخ رنگ کی ہلکی روشنی ہونے سے جسم میں نیند سے منسلک ہارمون میلاٹونین کی مقدار بڑھتی ہے اور نیند کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ویرینا نے بتایا کہ نیند کے جلد حصول اور بہتر معیار کے لیے سانس کو مدھم کرنے کی تکنیک بھی بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس طریقے میں آپ کو چاہیے کہ پرسکون ہو کر لیٹ جائیں اور اپنی ہر سانس کو گنتے جائیں اور آہستہ آہستہ سانس کی رفتار کم کرتے جائیں۔ اس طریقے میں ایک طرف سانس کی رفتار کم ہونے سے دل کی دھڑکن مدھم ہو گی اور نیند جلد آئے گی اور دوسرے طرف ذہنی سانس کی گنتی کی طرف متوجہ ہو کر دیگر چیزوں سے ہٹ جائے گا جو نیند کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/16-Dec-2021/1378752?fbclid=IwAR1OTNLEvCcv9OSLfn_yDQ0QqBwktsQQnkrk8WVdUbddlaav-cWvTf2-VBs
کیا آپ کو معلوم ہے بالوں میں خشکی دراصل کیوں ہوتی اور آپ کی صحت پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
May 23, 2020 | 20:37:PM
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بالوں میں خشکی ہونے کی سب سے بڑی وجہ سر کی جلد کا چکنائی دار ہونا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں حدت، پسینے اور نمی سے سر کی جلد پر چکنائی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بالوں کو باقاعدگی سے نہ دھونے سے بھی سر کی جلد چکنی ہو جاتی ہے۔ فیمینا ڈاٹ آئی این کے مطابق ڈاکٹر بی ایل جنگید کا کہنا ہے کہ 18سے 25سال کی عمر کے لوگوں کو بالوں میں خشکی کا سب سے زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عمر میں سیباسیﺅس نامی غدود تیل بہت زیادہ پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے سر کی جلد بہت زیادہ چکنی رہتی ہے۔
ایک اور ماہر ڈاکٹر گوپال کا کہنا تھا کہ سر کی جلد زیادہ چکنی ہونے کے علاوہ اور بالکل خشک ہو جائے تو بھی ڈینڈرف آ جاتی ہے اور یہ کسی ایک موسم کی پابند نہیں ہے، یہ کسی بھی موسم میں ہو سکتی ہے۔ انسان جو محسوس کرتا ہے وہ اس کے جسمانی افعال پر بہت اثرانداز ہوتا ہے۔ چنانچہ ذہنی پریشانی اور تھکاوٹ وغیرہ بھی خشکی کے مسئلے کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ دیگر وجوہات میں ناقص خوراک، کنگھی زیادہ کرنا، ہارمونز میں بگاڑوغیرہ شامل ہیں۔ خشکی سے نجات کے لیے اپنے بالوں کو باقاعدگی سے دھونا لازمی ہے۔ کسی اینٹی ڈینڈرف شیمپو سے بالوں کی صفائی خشکی کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہو تا ہے۔ ہفتے میں کم از کم دو بار اپنے سر کو ایسے شیمپو سے دھوئیں جس میں زنک پائرتھیون اور کیٹوکونازول ہوں۔
https://dailypakistan.com.pk/23-May-2020/1136330?fbclid=IwAR33RGPuTIv-dPDkHjD6EOV-32rIfvCSoX5uVsmoK4FhroGReX6jz4_Qaeo
جاپان میں ایسے ٹماٹر فروخت کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ بلڈ پریشر کم کرنے کے علاوہ اچھی نیند میں مددگار ہوتے ہیں اور اضطراب (اینگژائٹی) کا خاتمہ بھی کرتے ہیں۔
ان ٹماٹروں کو ایک جاپانی بایوٹیکنالوجی کمپنی ’سناٹیک سیڈ‘ نے جینیاتی انجینئرنگ کی جدید ترین تکنیک ’کرسپر‘ کی مدد سے تیار کیا ہے۔
ان میں ’گیما امائنوبیوٹائرک ایسڈ‘ (گابا) کہلانے والا ایک مادہ قدرتی طور پر بنتا ہے جو بلڈ پریشر کم کرنے کے ساتھ ساتھ اعصاب کو بھی سکون پہنچاتا ہے۔
’’جاپان میں گابا ایک مشہور صحت بخش مرکب کی حیثیت سے فروخت ہوتا ہے۔ یہ وٹامن سی کی طرح ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی جینوم ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کےلیے اسے سب سے پہلے ہدف کے طور پر منتخب کیا ہے،‘‘ سناٹیک سیڈ کی چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیروشی ایزورا نے بتایا، جو سوکوبا یونیورسٹی، جاپان میں پلانٹ مالیکیولر بائیالوجسٹ (نباتی سالماتی حیاتیات داں) بھی ہیں۔
البتہ اس بارے میں ’نیچر بایوٹیکنالوجی‘ کی رپورٹر ایمیلی والٹز نے اپنی ایک حالیہ خبر میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دعویٰ بالترتیب 2003 اور 2009 میں کی گئی دو ایسی تحقیقات کی بنیاد پر کیا جارہا ہے جن پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
واضح رہے کہ جاپان میں ’گابا ٹماٹروں‘ کو 2020 میں فروخت کےلیے منظور کیا گیا تھا جبکہ چند ماہ قبل وہاں ان کی فروخت شروع بھی کردی گئی ہے۔
’سناٹیک سیڈ‘ نے اب ان ٹماٹروں کی پنیری بھی فروخت کرنا شروع کردی ہے تاکہ مقامی کسان بھی انہیں بڑے پیمانے پر کاشت کرکے زیادہ منافع کما سکیں۔
تکنیکی شکوک و شبہات کے باوجود ’گابا ٹماٹروں‘ سے متعلق جاپان میں خاصی مثبت رائے پائی جاتی ہے۔ تاہم تحقیقی نقطہ نگاہ سے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
https://www.express.pk/story/2266761/9812/
قدرت نے ہماری اطراف شفا کے خزانے بکھیر رکھے ہیں۔ اگر آپ وزن کم کرنے کے لیے باقاعدہ ورزش کرتے ہیں تو کیوی پھل اس عمل کو مزید مفید بنا کر بدن سے چربی گھلانے میں مزید مدد دے سکتا ہے۔
ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کیوی پھل کھایا جائے اور ورزش جاری رکھی جائے تو اس سے پیٹ کی چربی گھلنے کا عمل تیز تر ہوجاتا ہے اور صرف تین ماہ میں اس کے واضح نتائج سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیوی میں کئی اقسام کے پولی فینولز اور اینٹی آکسیڈنٹ اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔
جرنل نیوٹریئنٹس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کیوی کا پھل ایک جانب تو خون میں گلوکوز معمول پر رکھتا ہے تو دوسری جانب عمر بڑھانے والے بایو مارکرز کو بھی تقویت دیتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران درجنوں خواتین اور افراد کا انتخاب کیا گیا جو وزن گھٹانے کے لیے ورزش کررہے تھے۔ ان میں سے ایک گروپ کو 12 ہفتے تک کیوی کھانے کا مشورہ دیا گیا۔ دوسری جانب دوسرے گروہ نے ورزش جاری رکھی تاہم شرکا کے دیگرمعمولات مثلاً غذائی انتخاب، تمباکو نوشی اور دیگر باتوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔
ماہرین نے دیکھا کہ صرف 12 ہفتوں بعد ہی ورزش اور کیوی ساتھ لے کر چلنے والے شرکا کے کمر کا گھیر دیگر کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوا۔ اس کے علاوہ کیوی کھانے والے خواتین و حضرات میں بلڈ پریشر کے اضافے کا رجحان بھی کم دیکھا گیا۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ جو لوگ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو وزن کم کرنے کی تمام تدایبر کے ساتھ کیوی پھل کے جادو کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔
https://www.express.pk/story/2266565/9812/
سائنسدانوں نے ایک طویل تحقیق کے بعد کہا ہے کہ وٹامن کے اور دل کے امراض کے درمیان نیا تعلق سامنے آیا ہے۔ اگر وٹامن کے سے بھرپور غذاؤں کا استعمال جاری رکھا جائے تو اس سے شریانوں کی تنگی کا خطرہ 34 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں ڈنمارک میں 50 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ سروے مسلسل 23 سال تک جاری رہا تھا۔ مطالعے کا مقصد یہ تھا کہ وٹامن کے اور امراضِ قلب یا پھر دل کی شریانوں میں پلاک جمع ہونے اور تنگی کا تعلق معلوم کرنا تھا۔
وٹامن کےدو اقسام میں پایا جاتا ہے یعنی وٹامن کے ون اور کے ٹو، ہرے پتے والی سبزیوں اور سبزیوں کے تیل میں وٹامن کے ون ہوتا ہے جبکہ گوشت، انڈوں اور پنیر وغیرہ میں وٹامن کے ٹو ہوتا ہے۔ اب وٹامن کے ون کھانے والے افراد میں شریانوں کی تنگی اور عارضہ دل سے ہسپتال جانے کی شرح 21 فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔ جبکہ وٹامن کے ٹو کا مناسب استعمال ان بیماریوں کا خطرہ 14 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔ یوں دونوں اقسام کے وٹامن کے سے عارضہ قلب کے خطرے کو 34 فیصد تک کم کرسکتے ہیں۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی سائنسداں ڈاکٹر جیمی بیلینگی اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ ان کے مطابق وٹامن کے دل کو تندرست رکھتا ہے اور شریانوں کی اندرونی دیواروں پر کیلشیئم کے جمع ہونے کو روکتے ہیں جو آخرکار پلاک کی وجہ بنتا ہے۔ اس لیے وٹامن کے کا باقاعدہ استعمال بہت ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق پالک، سلاد پتوں، بلیو بیری، شاخ گوبھی (بروکولی)، بند گوبھی، کیوی، بھنڈی، سبز لوبیا اور مرغی میں وٹامن کے بھرپور انداز میں پایا جاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2266561/9812/
سر میں درد ہمیشہ خطرناک نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ متاثرہ شخص کو موت کے منہ میں بھی پہنچا سکتا ہے۔ اگر فوری تشخیص کرلی جائے تو ڈاکٹر اس خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔
درجہ ذیل ایسی علامات تحریر کی جارہی ہیں جنہیں کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
1) سر میں کچھ سیکنڈز یا منٹ کیلئے ایسا درد اٹھے کہ ناقابلِ برداشت ہو۔
2) جسم کے رُخ تبدیل کرنے پر درد کی شدت میں بدلاؤ آئے۔
3) کھانسی، چھینک یا جسم پر کسی قسم کے دباؤ کے نتیجے میں سر میں درد ہو۔
4) ایسا درد جو ختم نہ ہورہا ہو۔
5) وہ درد جو 50 سال کی عمر گزرنے کے بعد پیدا ہو۔
6) ایسا درد جو بخار، ٹھنڈ، رات میں پسینے یا بلاوجہ وزن میں کمی سے جُڑا ہو۔
7) درد کی شدت میں یا اس کی نوعت میں اتار چڑھاؤ۔
8) سر میں کسی مخصوص مقام پر درد ہونا۔
9) نفسیاتی حالت جیسے دیکھنے کی صلاحیت ، جسم کے ایک حصے کا سُن یا اس میں کمزوری محسوس ہونے یا بولنے کی صلاحیت متاثر ہونے سے درد کا منسلک ہونا۔
10) درد کے وقت آنکھ لال یا اس میں درد ہونا۔
مذکورہ بالا علامات اگر ظاہر ہوں تو فوری طبی امداد حاصل کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ:
1) دماغی حالت میں تبدیلی سے منسلک درد۔
2) درد کے وقت چہرے کے پٹھے (muscles) متاثر ہونا یا جسمانی رُخ کو تبدیل نہ کرپانا۔
3) مرگی
4) ماضی میں کینسر یا ایڈز کی دفاعی قوت مزاحم ادویات استعمال کرنے والے مریض کو سر میں درد ہونا۔
5) اچانک سے ناقابلِ برداشت درد اُٹھنا۔
ایسی علامات میں فوری 911 پر ایمرجنسی طلب کرنی چاہیے اور خود ڈرائیونگ کرنے سے گریز کرنا چاہیے
https://www.express.pk/story/2266051/9812/
شیاٹیکا ایک تکلیف دہ اور بعض صورتوں میں ناقابل علاج مرض بھی بن جاتا ہے اور باوجود آپریشن کے انسان خود کو تندرست محسوس نہیں کرسکتا۔
شیاٹیکا کو طب میں عرق النساء کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ سے اس کو عام طور پر عورتوں کی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مردوں میں بھی یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ کمر میں آخری مہروں کے پاس عصبی نظام کے مہروں کے نیچے دب جانے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد ٹانگ میں جاتا ہے اور پھر پاؤں میں پہنچ جانے کے بعد انسان کو چلنے پھرنے سے معذور کردیتا ہے۔
یہ درد ہپ جوائنٹ سے لے کر ٹانگ سے ہوتا ہوا پاؤں تک جاتا ہے۔ انتہائی شدید درد ہوتا ہے اور ٹانگ پر جسم کا وزن نہیں ڈالا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے مریض لنگڑا کر چلتا ہے۔ ایڑی زمین سے اٹھا کر چلتا ہے اس لیے اس کو لنگڑی کا درد کہتے ہیں۔ اکثر دیہاتی علاقوں میں ریح کا درد بھی بولا جاتا ہے۔
اس کو رینگنی یا گردھرسی وات بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ درد کولہے سے شروع ہوکر پاؤں کے ٹخنے تک جاتا ہے۔ یہ درد ٹانگ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے عمومی طور پر ایک ٹانگ میں ہوتا ہے مگر کبھی کبھار دونوں ٹانگوں میں بھی محسوس ہوتا ہے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اس درد کا ایک اور نام Sciatica بھی ہے یا Nerve ایک نرو Sciatic بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اعصاب میں کسی چیز کی چبھن سے شروع ہوتی ہے یہ چبھن کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
وجوہات: کمر کے مہروں کا غیر طبعی طور پر بڑھ جانا جس کی وجہ سے پاس سے گزرنے والی Sciatic Nerve پر دباؤ پڑتا ہے جوکہ درد کا باعث بنتا ہے۔ (2)۔ ریڑھ کی مختلف وجوہات کی وجہ سے (3) حرام مغز کی خرابی اور اعصابی سوزش کے باعث (4) چوٹ جو کسی حادثے یا گرنے کی وجہ سے ہو (5) جوتوں کی وجہ سے جو بہت کسے ہوئے ہوں اور جن کا سول ٹھیک نہ ہو (6) جن لوگوں کے پاؤں قدرتی طور پر نیچے سے بالکل سیدھے ہوں قدرتی خم نہ ہو (7) کسی حادثے، چوٹ کی صورت میں اگر مہرے اپنی جگہ سے ہل جائیں تو یہ اپنے پاس سے گزرنے والی شیاٹیکا نرو کو ڈسٹرب کرتے ہیں جس سے اس میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس درد کی وجوہات میں موٹاپا، بڑھاپا،زیادہ دیر بیٹھنا، زیادہ وزن اٹھانا یا موٹر سائیل کی زیادہ سواری کرنا۔ سرد موسم میں زیادہ عرصہ رہنا، یورک ایسڈ کی زیادتی، سرد اشیا کا بکثرت استعمال، بارش میں بھیگنا، پسینہ آنے پر فوری نہانا وغیرہ شامل ہیں۔
عرق النسا کی علامات
علامات میں کولہے کی ہڈی سے پاؤں کے ٹخنے تک درد کا احاسس، ٹانگوں میں بے حسی محسوس ہونا، پاؤں یا ایڑی میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوتی ہیں۔ مریض رکوع کی حالت میں جھک نہیں سکتا، سیدھا کھڑا ہو کر اپنی ٹانگ کو پھیلا کر اٹھا نہیں سکتا، اگر اس کے ساتھ یورک ایسڈ بڑھا ہوا ہو تو جسم کے بقیہ جوڑوں میں خصوصی طور پر ٹخنہ ، گھٹنے وغیرہ میں درد اور ورم کا احساس ہوتا ہے جوڑ کی حرکات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
ہومیوپیتھک علاج تمام دوائیں علامات کے مطابق دیں۔
(1) ۔نیفائلیم Gnaphalium
30-3X-200
شدید درد، ٹانگ سن ہو جانا، اس دوا کی اہم علامت مریض کو چلنے، لیٹنے سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے مگر بیٹھنے سے تکلیف کم ہوتی ہے۔
رسٹاکس:Rhustox
1000-200-30
دائیں طرف کا شیاٹیکا، ٹھنڈ میں بارش سے بھیگ جانا، اہم علامت ہے، آرام کرنے سے تکلیف میں اضافہ اور چلنے پھرنے سے کمی ہوتی ہے۔
کاسٹی کم: Custicum
ٹانگ سن ہونا، اہم علامت جسم سرد ہونے سے تکلیف بڑھتی ہے مریض لگاتار اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے گھومتا پھرتا اور چلتا ہے اس سے درد میں افاقہ ہوتا ہے۔
میگمنیشا فاس6X-30-200
اہم علامات، مریض درد سے دوہرا ہو جاتا ہے۔ شدید درد میں مریض کہتا ہے کہ میری ٹانگ کے اوپر بیٹھ جاؤ۔ زیادہ دباؤ دینے، گرم، ریت، نمک کا سیک دینے یا زور سے ملنے سے آرام آتا ہے۔
کالوسینتھColocynth: 200-30
اہم علامات: بائیں طرف کا شیاٹیکا
دبانے اور گرمی دینے سے درد میں کمی، حرکت کرنے چلنے سے درد میں اضافہ۔
نوٹ: رنن کیولس بلب Ranunculus Bulb
ہر طرح کے لنگڑی کے درد میں ایک چھٹانک زیتون آئل میں 10 ml ملا کر مالش کرنے سے بہت افاقہ ہوتا ہے۔
کاربونیم سلف Carboneum Sulph 30
پرانے شیاٹیکا کے لیے
آرسینک البم: سردی لگنے، بے چینی، بخار، گرمی سے آرام
کیمومیلاChamomilla:
چڑچڑے، حرکت کرنے اور رات کو تکلیف میں اضافہ۔
گوائیکم Gauicum:
ٹانگ میں کھنچاؤ، سکڑاؤ، جوڑوں میں درد۔
ایکونائیٹAconite Nap 30
سرد گرم ہونے یا سرد ہوا لگنے سے درد پیدا ہونا، رات کو مریض کو شدید بخار، سخت بے چینی۔
بیلاڈونا Belladonna 30
درد یک دم شروع ہوتا ہے اور پھر یک دم بند ہو جاتا ہے۔ بس یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ تیز بخار، ذرا سی حرکت سے درد شدید ہو جاتا ہے پاؤں کو لٹکائے رکھنے سے آرام آتا ہے۔
نکس وامیکا، Nuxvomica 30
قبض، زیادہ بیٹھے رہنے والے اشخاص مثلاً کلرک۔
کالی فاس Kali Phos 6X
وہ مریض جن کا نظام اعصاب کمزور ہو۔ مریض بالکل کمزوری سے بے حال اور نحیف ہو۔
https://www.express.pk/story/2262273/9812/
اگر آپ ہر روز ایک کیلا نہیں کھاتے تو یہ تحریر پڑھ کر آپ کیلا کھانے کو تیار ہوجائیں گے۔آج تک ہر ایک فرد نے یہی سنا ہوگا کہ روزانہ ایک سیب کھائیں اور ڈاکٹر سے دور رہیں تاہم آج یہ بات بھی پڑھ لیں کہ روزانہ کیلے کھائیں اور ڈاکٹر سے دور رہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ کیلا دلیہ کے لیے ایک بہترین ٹاپنگ ہے، یہ سفر کے لئے ایک آسان ناشتہ ہے اور تو اور یہ لذیذ روٹی کا کلیدی جزو بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم شاید آپ کو احساس نہیں ہے کہ کیلا ایسے صحت مند پھلوں میں شامل ہوتا ہے جنھیں کھا کر آپ اچھی صحت حاصل کرنے کا ہدف بہت جلد حاصل کرسکتے ہیں ۔ پیلے چھلکے والا یہ پھل اگر آپ کا پسندیدہ ہے تو نہ صرف آپ بلکہ آپ کا دل بھی خوش قسمت ہے کیونکہ اس پھل میں پوٹاشیم کی وافر مقدار ہے جو آپ کے دل کو توانا اور صحت مند رکھتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم کی ایک مناسب مقدار آ پ کے دل کو صحت مند رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اس کے بے شمار فوائد ہے۔ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی ویکسنر میڈیکل سینٹر میں ماہر امراض قلب راگویندر بالیگا کہتے ہیں، ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں بلڈ پریشر کم کرنے کے علاوہ دل کی بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کرتی ہیں ۔
جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں ایک تجزیہ شائع ہوا جس میں 11ریسرچ سٹڈیز اور 250000 لوگوں کا ڈیٹا شامل تھا ۔ اس تحقیق کے مطابق روزانہ 1540 ملی گرام غذائی پوٹاشیم کے اضافے کی وجہ سے تجربے شامل لوگوں میں فالج کا خطرہ 21 فیصد کم ہو گیا۔کیلے کی مدد سے دل کی دھڑکن کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔ مشیل روتھنسیٹن آرڈی جو کہ ماہر امراض قلب ہیں کہ مطابق انسان میں پوٹاشیم کی کمی دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ کمی دماغ ، پٹھوں اور جسم کے دیگر اعضاء میں خون کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہے۔
پو ٹاشیم کاربوہائیڈرئٹس کو ہضم کرتا ہے اور پٹھوں کی مرمت کرتا ہے ۔ یہ دل کی شریانوں کو صحت مند رکھتا ہے اور دل کی بیماریوں کے علاوہ انسان کو اچانک فالج سے بھی بچاتا ہے ۔ ایک اور تحقیق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کیلے میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے اس لیے اس کو لازمی غذا کا حصہ ہونا چاہیے۔
جرنل آف کلینیکل انویسٹی گیشن کے مطابق2017 ء میں ایک تحقیقی ٹیم نے الابامایونیورسٹی کے یونگ سن کی سربراہی میں چوہوں پر تجربہ کیا ۔ ایسے چوہے جو جینیاتی طور پر قلبی امراض میں مبتلا تھے ، انھیں ایسی غذائیں کھلائی گئیں جن میں سے بعض غذاؤں میں کم اور بعض میں نارمل اور بعض میں زیادہ پوٹاشیم شامل تھا۔
تجربے کے بعد دیکھا گیا کہ کم پوٹاشیم کھانے کی وجہ کے سبب کھانے والے چوہوں کی شریانوں میں سختی تھی جبکہ زیادہ پوٹاشیم استعمال کرنے والے دوسرے چوہوں کی شریانوں میں سختی کم تھی ۔
کیلے پو ٹاشیم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہیں ۔ انٹرنیشنل فوڈ انفارمیشن کونسل کے مطابق کیلے کااستعمال نقصان دہ نہیں ہے جب تک آپ کو اپنی خوراک کے معاملے زیادہ محتاط ہونے کی ہدایت نہ کی گئی ہو ۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صرف پوٹاشیم کے استعمال سے دل کی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے۔ روتھنسٹین کے مطابق خوراک کے ساتھ ساتھ دیگر خطرناک عوامل پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔
ماضی میں ہونے والی متعدد تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے کھلائی جاتی ہیں ، کیونکہ یہ سوڈیم کے اثرات کا مقابلہ کرتی ہیں ۔ زیادہ بلڈ پریشر دل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر کو روکنے کے لیے ڈائیٹری اپروچیز کے لیے ڈی اے ایس ایچ ڈائیٹ، امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور نیشنل ہارٹ،لنلنگ اینڈبلڈ انسٹیٹیوٹ نے بھی کیلے کے استعمال کو بہترین قرار دیا ہے۔
یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مطابق کیلے کے علاوہ آلو، پھلیاں اور گہرے سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی اس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہیں۔ شمالی امریکا کے رہنے والے پوٹاشیم بہت کم استعمال کرتے ہیں اور یہی حال دوسرے امریکیوں کا ہے ۔
بالغوں کو روزانہ 2600 سے لے کر400 3 ملی گرام پوٹاشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک درمیانے کیلے میں22 4 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کیلے میں پوٹاشیم بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ دوسری غذاؤں میں بھی موجود ہوتا ہے۔
ڈاکٹر بالیگا کا مشورہ ہے کہ پوٹاشیم حاصل کرنے کے لئے کیلے کے علاوہ اپنے مریضوں کو گاجر،بروکولی،پالک گوبھی کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ پوٹاشیم حاصل کرنے کے لیے آپ ایک درمیانے آلو کو چھلکے سمیت بھی کھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اب بھی کیلا پسند نہیں ہے تو پریشان نہ ہوں ، پوٹاشیم کھانے کے اور بہت سے طریقے موجود ہے یعنی سبز پتوں والی سبزیاں۔ بس ! اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
https://www.express.pk/story/2262278/9812/
گردوں کا کام جسم سے فضول مائع اور مادوں کو فلٹر کرکے پیشاب کے ذریعے خارج کرنا ہے۔ جب گردے یہ کام کرنے سے انکار کردیں تو ایسی طبی حالت کو گردوں کی ناکامی (kidney failure) کہا جاتا ہے۔
11 احتیاطی تدابیر ایسی ہیں جنہیں اگر اپنا لیا جائے تو گردوں کی ناکامی سے بچنے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
1) ہائی بلڈ پریشر اور شوگر: ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض قلبی بیماریوں کے اسباب تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ گردوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔
2) صحت بخش وزن: موٹاپا جہاں شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو بڑھاتا ہے وہیں گردوں کی خرابی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
3) صحت بخش غذا کا استعمال: صحت بخش غذا میں وہ تمام خوراکیں آتی ہیں جن میں کولیسٹرول اور شوگر کی مقدار انتہائی کم اور فائبر اور اناج میں زیادہ ہو۔ ایسی غذائیں وزن کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ ہیں۔
4) نمک میں کمی: نمک والی خوراک میں زیادتی ہائی بلڈ پریشر کا سبب ہے۔
5) پانی زیادہ پیئں: جسم میں پانی کی کمی dehydration گردوں میں خون کے پہنچنے کی رفتار کو کم کردیتی ہے جس سے گردوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا پانی زیادہ سے زیادہ پینا چاہیے۔
6) شراب نوشی ترک کردیں: الکوحل بھی بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے۔ الکوحل میں کیلوریز کی زیادتی وزن میں تیزی سے اضافہ کرتی ہے۔
7) سگریٹ نوشی: سگریٹ نوشی بھی گردوں میں خون کا بہاؤ کم کردیتی ہے جسکی وجہ سے گردوں کے نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بشمول ان لوگوں میں بھی جنہیں گردوں کی کوئی بیماری نہیں۔
8) درد ختم کرنے والی ادویات: پین کلر ادویات اگر آپ لے رہے ہیں تو اس کی مقدار سے متعلق ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں کیونکہ پین کلر بھی گردوں میں خون کی رفتار میں کمی کا باعث بن جاتی ہیں جو کہ نقصان دہ ہے۔
9) زیادہ پریشان نہ ہوں: تشویش اور پریشان کُن صورتحال میں خود کو پرسکون رکھیں۔ اس سے بلڈ پریشر کم رہے گا جو کہ گردوں کیلئے اچھا ہے۔
10) ورزش کو معمول بنائیں: ورزش سے کئی فوائد ایک ساتھ حاصل ہوتے ہیں مثلاً تیراکی، بھاگنے یا زیادہ چلنے سے ڈپریشن میں بھی کمی آئے گی، بلڈ پریشر اور شوگر بھی کنٹرول میں رہے گی اور وزن بھی مستحکم رہے گا۔
https://www.express.pk/story/2263988/9812/
کشمش کے چند دانے روزانہ کھانے کا وہ فائدہ جو شاید آپ کو معلوم نہیں
Mar 25, 2021 | 18:21:PM
سورس: Pixabay (creative commons license)
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) خشک انگور، جو کشمش کے نام سے جانے جاتے ہیں، ہماری صحت کے لیے ایسے فوائد کے حامل ہیں کہ سن کر ہر کوئی انہیں اپنی روزمرہ خوراک کا حصہ بنا لے۔
ویب سائٹ healthshots.com کے مطابق ووکھردت ہسپتال ممبئی کی ماہرغذائیات امرین شیخ کا کہنا ہے کہ کشمش نظام انہضام کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے اور قبض کا خاتمہ کرکے پاخانے کو آسان بناتی ہے۔ جو لوگ اپنا وزن بڑھانا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی کشمش بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں فرکٹوز اور گلوکوز وافر مقدار میں ہوتے ہیں اور یہ توانائی سے بھرپور ہوتی ہے چنانچہ اسے کھانے سے وزن بڑھتا ہے۔
امرین شیخ کا کہنا ہے کہ ”کشمش کینسر سے محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے اور بلڈ پریشر کو بھی مستحکم رکھتی ہے۔ کشمش کھانے سے قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور جسم میں انفلیمیشن بہت کم ہوتی ہے اور جوڑوں کے دائمی درد جیسے عارضوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔یہ نیند کا معیار بہتر بنانے اور اس میں سکون لانے کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
چند دانے کشمش روزانہ کھانے سے آپ کے نیند سے متعلق تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔یہ ذہنی دباﺅ، ڈپریشن اور دماغی صحت کے لیے دیگر کئی حوالوں سے بھی فائدہ مند ہے۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-Mar-2021/1267889?fbclid=IwAR0XImTHqmwrWLLyyOo_msU0f1mbgV4l8QxQKBWFeLSwTITVVMeaBm6i64A
کھانے پینے کی وہ اشیا جنہیں فریزر میں نہیں رکھنا چاہیے ،ماہرین نے وجہ بتا دی
Mar 09, 2020 | 19:31:PM
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) کئی ایسی اشیائے خورونوش ہیں جنہیں لوگ عموماً ریفریجریٹر میں رکھتے ہیں تاہم اب ماہرین نے اس حوالے سے متنبہ کر دیا ہے۔ ویب سائٹ misskyra.com کے مطابق ان میں سے پہلی چیز دودھ ہے جو بہت لوگ فریزر میں رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فریزر میں جب دودھ جم جاتا ہے اور اسے دوبارہ مائع حالت میں لاتے ہیں تو اس کی ہیئت پہلے والی نہیں رہتی۔ اگرچہ یہ استعمال کرنے کے لیے محفوظ ہوتا ہے مگر یہ کافی اور دلیے وغیرہ میں استعمال کرنے کے لائق نہیں رہتا۔کچھ لوگ کافی کا جار بھی فریزر میں رکھ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کافی میں دیگر چیزوں کی خوشبو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے چنانچہ یہ فریزر میں پڑی دیگر کھانے کی چیزوں کی خوشبو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے جس سے اس کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
ماہرین نے شہد کو بھی فریزر میں رکھنے سے منع کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب شہد باہر بھی خراب نہیں ہوتا تو اسے فریزر میں رکھنے سے مطلب؟ فریزر میں رکھنے سے اس میں کرسٹل بن جاتے ہیں جس سے اس کی غذائیت متاثر ہوتی ہے۔ کچھ لوگ چپس اور دیگر فرائی کھانے بھی فریزر میں رکھ دیتے ہیں جن کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ فرائی کھانا زیادہ مقدار میں بنا کر فریزر میں رکھنا چاہتے ہیں تو بہتر ہو گا کہ آپ اسے پہلے اوون میں پکائیں ۔ ماہرین نے کچے پھل اور سبزیاں بھی فریزر میں رکھنے سے منع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان پھلوں اور سبزیوں میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فریزر میں جب یہ پانی منجمد ہو جاتا ہے تو انہیں نکال کر استعمال کرنے میں دقت ہوتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Mar-2020/1104354?fbclid=IwAR2A4RVXjfl_GKnlPEcg85YvLKUjlkTkv4o1X5oluRSvP8GrCcCoTLWSku0
سیب کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا، سائنسدانوں کا ایسا انکشاف کہ آپ کھائے بنا نہ رہ پائیں گے
Aug 30, 2020 | 18:30:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)سیب بے شمار طبی فوائد کا حامل پھل ہے جس کے متعلق عام مقولہ بھی ہے کہ روزانہ ایک سیب کھانے سے آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس پھل کا ایک اور ایسا فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر آپ اسے اپنی روزمرہ خوراک کا حصہ بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ سیب پٹھوں کی اکڑن اور اینٹھن کی بیماری سکلیروسس (Sclerosis)بیماری سے نجات کے لیے بہترین چیز ہے۔ اس کی جلد میں ایک کمپاﺅنڈ پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سیب کی رنگت میں چمک آتی ہے۔یہ کمپاﺅنڈ انسانوں میں پٹھوں کی اکڑن اور سختی کو کم کرتا ہے۔
فلاڈلفیا کی تھامس جیفرسن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں سکلیروسس کی وجہ سے مفلوج ہو چکے چوہوں کو اس کمپاﺅنڈ سے بننے والی دوا دی جس سے وہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔ اس کے علاوہ سائنسدانوں نے چوہوں کو ناشپاتی کی جلد میں پایا جانے والا ارسالک ایسڈ بھی دیا اور اس کے بھی سیب کی جلد میں پائے جانے والے کمپاﺅنڈ جیسے ہی نتائج سامنے آئے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر گوانگ ژیانگ ژینگ کا کہنا تھا کہ ” اس کمپاﺅنڈ سے دنیا کی پہلی ایسی دوا بنائی جا سکتی ہے جو سکلیروسس سے جسم کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کر سکتی ہے۔ فی الوقت کوئی ایسی دوا نہیں ہے جو اس بیماری سے پہنچنے والے نقصان کو ختم کرکے پٹھوں کو ازسرنو ٹھیک کر سکے۔“
https://dailypakistan.com.pk/30-Aug-2020/1177323?fbclid=IwAR1N1hVZnt3tAXJ-8delJFQKtfhD9Hjm1qU9DxatCqUtK8vW8QHLtbyZ3QM
ایڑیوں کے دردسے نجات کا طریقہ
Apr 13, 2021 | 17:59:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) عمر رسیدہ لوگوں، بالخصوص خواتین میں ایڑیوں کا درد بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس عارضے کو ’ہیل سپر سنڈروم‘ (Heel spur syndrome)بھی کہا جاتا ہے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ماہر ڈاکٹر مارٹن سکیور نے اب اس درد سے نجات کا طریقہ لوگوں کو بتا دیا ہے۔
میل آن لائن کے مطابق ڈاکٹر مارٹن کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ درد ایڑی کے اندر یا اس کے پیچھے ہوتا ہے جہاں پنڈلی سے ایڑی تک آنے والا طاقتور پٹھا ایڑی کی ہڈی سے جڑتا ہے۔ کئی بار یہ درد ایڑی کے اطراف میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ ایڑی کے اندر ہو تو اسے Plantar Fasciitisکہا جاتا ہے اور ایڑی کا یہی درد سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تاہم اگر درد ایڑی کے پیچھے ہو تو اسے Achilles Tendinitisکا نام دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر مارٹن کا کہنا تھا کہ ”ایڑی کے نیچے والا درد عام طور پر زیادہ دباﺅ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس سے پاﺅں کی بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ان میں اکڑن پیدا ہو جاتی ہے۔ ایڑی کے پیچھے ہونے والا درد پنڈلی سے ایڑی تک آنے والے پٹھے کو پہنچنے والی کسی چوٹ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی اس درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ درد لاحق ہے انہیں ایسے فٹنگ والے جوتے پہننے چاہئیں جو پیروں کو سپورٹ فراہم کریں۔ اس کے علاوہ انہیں جسمانی سرگرمی کے اعتبار سے درست جوتوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ورزش سے قبل پٹھوں کو سکریچ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ جتنا ہو سکے آرام کریں اور بوقت ضرورت ایڑی کو اٹھا کر چلیں، روزانہ دوبار دس سے پندہ منٹ تک برف کی ٹکور کریں۔ عام درد کش ادویات کا استعمال کریں۔اگر ان تدابیر کے بعد بھی درددوسے تین ہفتے تک برقرار رہتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
https://dailypakistan.com.pk/13-Apr-2021/1276184?fbclid=IwAR1yibLLvTW5I77RcrFjCrb8IkD75CE2YjAjRlPwtwAjzIErvo7R2-ooxxQ
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بستر پر جانے سے قبل دودھ کا ایک گرم کپ پیتے ہیں۔ لیکن اب سائنس نے اس پر غور کیا ہے کہ کیا واقعی رات کو دودھ پینا گہری نیند لاتا ہے؟
ماہرین نے اس ملا جلا جواب دیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ دودھ میں کئی طرح کے امائنو ایسڈز ہوتے ہیں جو اہم پروٹین کی تشکیل کرتےہیں۔ یہ پروٹین مختلف طریقوں سے نیند لاتےہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق جب ماں یا باپ بچے کو نیم گرم دودھ کا ایک گلاس پیش کرتے ہیں تو وہ اسے نفسیاتی طور پر والدین کی آغوش، محبت اور سکون کا اظہار سمجھتےہیں۔
اس طرح بچوں پر دودھ کا ایک نفسیاتی اثر ضرور ہوتا ہے۔ دوسری جانب دودھ پینے سے رات کو بے چینی کا احساس بھی کم ہوتا ہے۔ اب اگر سائنسی طور پر بات کی جائے تو اس میں ٹرپٹوفین نامی امائنو ایسڈ ہوتا ہے۔ امریکی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق ٹرپٹوفین نیند اور سکون والے ہارمون میلاٹونِن کو بڑھاتا ہے۔
اس طرح ہم کہتے ہیں کہ دودھ پینے کا عمل بدن کو اتنا پرسکون کرتا ہے کہ غنودگی آنے لگتی ہے اور نیند میں بہتری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مغربی ممالک میں عشایئے کی میز پر دودھ کا جگ بھی رکھا ہوتا ہے۔
لیکن چینی تحقیق بتاتی ہے کہ ایک گلاس دودھ میں ٹرپٹوفین کی بہت معمولی مقدار ہوتی ہے جو سلانے کے لیے بہت ناکافی ہوتی ہے۔ لیکن چینی ماہرین نے دودھ میں موجود دیگر کیمیائی اجزا پر بھی غور کیا ہے۔ ان میں ایک لمبے نام والا جزو ہے جسے ’کیسن ٹرپسن ہائیڈرولیسیٹ‘ یا (سی ٹی ایچ) کہا جاتا ہے۔ اب سی ٹی ایچ میں سینکڑوں مختلف پیپٹائڈز ہوتے ہیں۔
اب دودھ میں موجود بعض پیپٹائڈز جی اے بی اے اے ریسپٹر پر اثرڈالتےہیں۔ یہ ریسپٹر دماغ میں سگنل کا عمل روکتے ہیں اور یوں دماغی سرگرمی سست ہوجاتی ہے۔ جب چوہوں کو یہ پیپٹائڈز دیئے گئے تو وہ گہری اور لمبی نیند سوگئے۔
دوسری جانب بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نیم گرم دودھ معدے میں جاکر سکون پہنچاتا ہے اور یوں بدن کے درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح نیند کی آغوش میں جانے میں مدد ملتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2263708/9812/
No comments:
Post a Comment