جانیں تاریخ کے بارے میں ::: حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا قاتل ::: محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف ::: سلطنت عثمانیہ میں مصطفی ::: حضرت ابوبکرؓ کی وہ وصیت ::: قسطنطنیہ فتح ::: معرکہ عین جالوت ::: سلطنتِ عثمانیہ کی ینی چری ::: عثمان خان نے اپنے چچا کو کیوں قتل کیا ؟ ::: ڈرامے کی تاریخ ::: بادشاہی مسجد ::: وہ حقائق جن کے بارے میں شائد آپ لاعلم ہوں ::: تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ ::: کافرکوٹ کے کھنڈرات ::: پونچھ ہاؤس - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Sunday, 27 February 2022

جانیں تاریخ کے بارے میں ::: حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا قاتل ::: محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف ::: سلطنت عثمانیہ میں مصطفی ::: حضرت ابوبکرؓ کی وہ وصیت ::: قسطنطنیہ فتح ::: معرکہ عین جالوت ::: سلطنتِ عثمانیہ کی ینی چری ::: عثمان خان نے اپنے چچا کو کیوں قتل کیا ؟ ::: ڈرامے کی تاریخ ::: بادشاہی مسجد ::: وہ حقائق جن کے بارے میں شائد آپ لاعلم ہوں ::: تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ ::: کافرکوٹ کے کھنڈرات ::: پونچھ ہاؤس


وہ وقت جب محمد بن قاسم نے اپنے چچا حجاج بن یوسف کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا قاتل قرار دیا
Aug 29, 2021 | 17:46:PM


محمد بن قاسم تاریخ کا وہ کردار ہے جس کی وجہ سے ہندوستان پر اسلام کے دروازے کھلے، جب سندھ کے ہندو راجاؤں کو مات کرنے میں حجاج بن یوسف کے دو لشکر ناکام ہوگئے تو اس نے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا جس نے پورے سندھ پر اسلام کا پرچم لہرادیا، اس کی معزولی اور پھر شہادت جہاں انتہائی دردناک ہے وہیں اس کی اپنے سگے چچا حجاج بن یوسف سے پہلی ملاقات کاا حوال بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ایک روز حجاج بن یوسف امورِ سلطنت نمٹانے میں مصروف تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ترکستان سے ایک سفیر آیا ہے۔ حجاج نے اسے فوری طور پر اندر بلایا، یہ ایک سترہ سالہ نوجوان تھا جسے دیکھتے ہی حجاج نے پوچھا کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو، اس پر نوجوان نے خط آگے کردیا، خط پڑھ کر حجاج نے پوچھا کہ قتیبہ کہاں ہے ، اس نے تو کہا تھا کہ وہ تجربہ کار جرنیل کو بھیجے گا؟ اس پر نوجوان نے کہا کہ وہ جرنیل وہی ہے، حجاج نے نوجوان کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام محمد بن قاسم ثقفی ہے، یہ نام سنتے ہی حجاج خوشی سے اچھل پڑا کیونکہ یہ اس کے بھائی قاسم کا بیٹا تھا۔ حجاج نے نوجوان سے سوال پوچھا کہ کیا تم مجھے جانتے ہو، اس پر نوجوان نے کہا کہ آپ بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف ہیں۔

حجاج کہنے لگا کہ میں تمہارا چچا بھی ہوں لیکن نوجوان اس خبر پر مطلق پرجوش نہ ہوا اور جواب دیا کہ ہاں! میری ماں نے بتایاتھا اور یہ بھی بتایاتھا کہ آپ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی ہیں۔ اسی لمحے حجاج کو مدینے کے ایک چھوٹے سے مکان میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا اپنا بھائی قاسم یادآیا۔ جب وہ اس کی تیمار داری کے لئے بستر کے قریب پہنچاتو بھائی نے نفرت سے اپنی نظریں پھیر لیں۔ ان کے لئے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل کا وجود برداشت نہیں ہورہاتھا۔ اور اسی طرح منہ پھیرے کہا:’’حجاج ! یہاں سے چلے جائو، میں مرتے وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘

اس کے بعد حجاج نے ایک بار پھر اپنے سامنے کھڑے بھتیجے سے پوچھا محمد! ہم عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل کے علاوہ اور کچھ نہیں؟‘‘نوجوان نے چچا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ یہ اللہ کی مخلوق کا فتویٰ ہے، میں آپ کو دھوکے میں رکھنے کے لئے قاتل کی جگہ کوئی اور لفظ نہیں دے سکتا۔۔۔

اس کے بعد حجاج نے محمد بن قاسم کو دیبل کی فتح کیلئے بھیجا۔ محمد بن قاسم نے سندھ کا سارا علاقہ فتح کرلیا ۔ ابھی وہ سندھ میں ہی تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کا انتقال ہوگیا۔ خلیفہ ولید نے اپنے بھائی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹوں کو ولی عہد بنانے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکا اور اس سے پہلے ہی دار فانی سے کوچ کرگیا۔ ولید بن عبدالملک نے 15 جمادی الثانی سنہ 96 ہجری میں 45 سال کی خلافت کے بعد وفات پائی۔ اس کے فوت ہوتے ہی اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بن گیا اور ہر اس شخص کے ساتھ دشمنی پر اتر آیا جس نے اسے معزول کرنے میں ولید کا ساتھ دیا تھا۔ اس نے خلیفہ بنتے ہی سوائے ایک شخص کے باقی سب کو ان کے عہدوں سے معزول کردیا۔ جب سلیمان خلیفہ بنا تو اس وقت تک حجاج بن یوسف ثقفی کا انتقال ہوچکا تھا اس لیے اس نے اس کا غصہ اس کے گھر والوں اور بھتیجے محمد بن قاسم پر نکالا۔محمد بن قاسم جو کہ سندھ کی فتح اور یہاں کی رعایا کے دل جیتنے کے بعد ہند کی حدود میں داخل ہونا چاہتا تھا، اسے خلیفہ سلیمان نے معزول کردیا ۔محمد بن قاسم نے تقریباً چار سال سندھ میں گزارے لیکن۔۔
https://dailypakistan.com.pk/29-Aug-2021/1333940?fbclid=IwAR03s59IRQYggUZnQttxo0eBRf6nQj1I9jCrwQmp7JHCEMdFs5wHCusFzbY



محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کے حکم پر سندھ پر حملہ کیوں کیا؟
Aug 29, 2021 | 17:42:PM


محمد بن قاسم اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن ستارہ ہے جس نے ہندوستان میں اسلام کی شمع روشن کی، انہی کی فتوحات کی برکت ہے کہ آج برصغیر دنیا کی سب سے بڑی مسلمان آبادی کا خطہ ہے، اور یہاں 57 کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں جو پوری دنیا کی مسلمان آبادی کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ برصغیر کے تینوں ملکوں میں سے مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی پاکستان میں ہے جہاں 22 کروڑ لوگ راہ حق کے مسافر ہیں، پڑوسی ملک بھارت میں تقریباً 20 کروڑ جبکہ بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے 15 کروڑ کے قریب ہے۔ برصغیر میں پہلے بھی مسلمان تاجر دعوت حق کیلئے آتے رہے لیکن 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے نے اسلام کی وہ شمع روشن کی جو آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ جل رہی ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ کچھ مسلمان سوداگر جزیرہ سر اندیپ میں سفر کی حالت میں فوت ہو گئے۔ ان کے یتیم بچے اور بیوہ عورتیں جو اس جزیرہ میں رہ گئیں‘ ان کو سراندیپ کے راجہ نے حجاج بن یوسف ثقفی اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی عنایت و مہربانی اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے بہترین ذریعہ سمجھا‘ سراندیپ کا راجہ مسلمانوں کی فتوحات کا حال سن کر پہلے سے مرعوب اور اپنی نیاز مندی کے اظہار کی غرض سے کسی ذریعہ و حیلہ کا متلاشی تھا‘ چنانچہ اس نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کو بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ اپنے معتمدوں کے ساتھ اپنے خاص جہازوں میں بٹھا کر حجاج کے پاس روانہ کیا۔ اس نے ان مسافروں کو بہت سے قیمتی تحفے بھی دیے، اس کے علاوہ حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کیلئے بھی تحائف دیے اور ان سے درخواست کی کہ وہ جب حجاج کے پاس پہنچیں تو اس کے حسن سلوک کی تعریف کریں۔

مسلمان تاجروں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ہو کر ساحل کے قریب قریب سفر کرتی ہوئی خلیج فارس کی طرف روانہ ہوئیں۔ وہاں سے انہوں نے ساحل پر اتر کر حجاج بن یوسف کے پاس کوفہ میں پہنچنا تھا۔ لیکن راستے میں مخالف سمت کی ہوا چلی جس نے ان کشتیوں کوخلیج فارس کی بجائے دیبل یعنی کراچی پہنچادیا۔ یہاں سندھ کے راجہ داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کو لوٹ لیا‘ اور سواروں کوقید کر لیا‘ یہ حال جب حجاج کو معلوم ہوا‘ تو اس نے سندھ کے راجہ کو لکھا کہ وہ کشتیاں ہمارے پاس آرہی تھیں‘ تم لٹیروں کو قرار واقعی سزا دو اور کشتیوں کے آدمیوں کو لوٹے ہوئے سامان کے ساتھ ہمارے پاس بھیج دو۔ حجاج کے اس خط کے جواب میں راجہ داہر نے انتہائی مغرورانہ جواب دیا جو حجاج کو پسند نہیں آیا اور اس نے سندھ پر لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔

حجاج بن یوسف نے سب سے پہلے عبداللہ اسلمی کو چھ ہزار فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا‘ عبداللہ سندھ میں پہنچ کر راجہ داہر کی فوج کا مقابلہ کرتا ہوا مارا گیا اور یہ مہم ناکام رہی۔ دوسری مرتبہ حجاج نے بدیل نامی سردار کو مامور کیا اور اس کو بھی چھ ہزار فوج دے کر دیبل بھیجا، مسلمانوں کے اس لشکر کو بھی شکست ہوئی اور بدیل لڑتا ہوا گھوڑے سے گرا اور شہید ہوگیا۔

اس خبر کو سن کر حجاج کو اور بھی زیادہ ملال ہوا‘ تیسری مرتبہ اس نے محمد بن قاسم کو جو اس کا داماد اور بھتیجا بھی تھا اس کو بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت محمد بن قاسم کی عمر صرف 17 سال تھی ۔ حجاج نے اس بار محمد بن قاسم کے ساتھ چھ ہزار شامی سپاہیوں کو بھیجا کیونکہ اسے شک تھا کہ عراقی اور ایرانی سپاہی سندھیوں سے ساز باز کرکے شکست کا باعث بنتے ہیں۔ محمد بن قاسم نے شامی لشکر کے ساتھ حملہ کیا اور سب سے پہلے صوبہ مکران کو جس پر سندھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا فتح کر کے سندھیوں کو یہاں سے بھگایا۔ اس کے بعد اس نے دیبل کا رخ کیا اور ...
https://dailypakistan.com.pk/29-Aug-2021/1333939?fbclid=IwAR35jDcF5ITWw1pWrnKFpj2_yUPnF0D6FrUTH7Vt8aoM10F6yIy12wuA_VE



سلطنت عثمانیہ میں مصطفی نامی بہروپیا کون تھا اور اس نے سلطان کیلئے کیا مشکلات پیدا کیں؟
Aug 28, 2021 | 19:43:PM


سلطنتِ عثمانیہ میں مصطفیٰ نامی ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے عثمانی سلطانوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا، یہ خود کو سلطان بایزید یلدرم کا بیٹا بتا کر ترکوں کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ عثمانی سلطان بایزید یلدرم اور تیمور کے درمیان انگورہ کے مقام پر جنگ ہوئی ، یہ ایک ایسا وقت تھا جب بایزید یلدرم عیسائی علاقوں کی فتح میں مصروف تھا لیکن قیصرِ روم کے بھڑکانے پر دوسرے مسلمان بادشاہ تیمور نے اس کے ملک پر حملہ کردیا۔ انگورہ کی جنگ میں بایزید یلدرم کو شکست ہوئی اور اس کا ایک بیٹا جس کا نام مصطفیٰ تھا مارا گیا لیکن میدان جنگ میں اس کی لاش کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ تیمور نے مصطفیٰ کی لاش کی تلاش کروائی لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ لاش نہ ملنے کی وجہ سے مصطفیٰ کی موت کو ہمیشہ ہی مشکوک سمجھا گیا۔

تیمور سے شکست کے بعد جب بایزید یلدرم کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے تخت کیلئے آپس میں لڑنے لگے، آخر کار اس کا چھوٹا بیٹا محمد خان تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی عیسائی ریاستوں کے ساتھ امن کے معاہدے کیے اور ملک میں تعلیم و ترقی پر زور دیا۔ جب سلطان محمد خان اول کے دور حکومت کا آخری وقت چل رہا تھا تبھی ایک شخص نے ایشیائے کوچک میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں مصطفیٰ ابن بایزید یلدرم ہوں ۔ وہ شکل و صورت میں بھی مصطفیٰ سے مشابہ تھا اس لیے بہت سے ترکوں نے اس کے دعوے کو تسلیم کر لیا اور سمرنا کے عامل جنید اور صوبہ دار ولیشیا نے اس کے اس دعوے کی اس لیے اور بھی تصدیق کی کہ وہ محمد خان سے خوش نہ تھے چنانچہ مصطفیٰ ان صوبہ داروں کی امداد سے گیلی پولی میں پہنچ کر تھسلی کے قریب علاقے پر قابض ہو گیا۔ سلطان محمد خان اس خبر کو سنتے ہی فوراً فوج لے کر مقابلے پر پہنچا اور سالونیکا کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ مصطفیٰ شکست کھا کر قسطنطنیہ پہنچ گیا اور قیصرِ روم سے پناہ لے لی۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333578?fbclid=IwAR0VgiLYyqozJa3kbSimw_aDWEVDkjhuVX9xa-qGkV3zyXxffNf7LIYUUjA



حضرت ابوبکرؓ کی وہ وصیت جس پر حضرت علیؓ نے شرط رکھ دی، خلیفہ اولؓ نے کیا وصیت کی؟
Aug 28, 2021 | 20:01:PM


حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا سبب رسول اللہ ﷺ کے فوت ہونے کا غم تھا، اس صدمے سے آپ کا جسم نحیف و کمزور ہوتا گیا کہ حتیٰ کہ آپ نے وفات پائی۔ اب شہاب کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ابن کلدہ حریرہ کھا رہے تھے جو کسی نے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ اس دوران حارث نے کہا کہ اے امیر المومنین کھانے سے ہاتھ اٹھا لیجیے کیونکہ اس میں زہر ہے جس کا اثر ایک سال کے بعد ہوگا اور میں اور آپ ایک دن وفات پائیں گے، یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا مگر بعد میں دونوں بیمار اور کمزور ہوتے گئے حتیٰ کہ ایک سال کے ختم ہونے کے بعد ایک ہی دن دونوں نے وفات پائی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیماری اس طرح شروع ہوئی کہ آپ نے جمادی الثانی کی سات تاریخ کو بروز پیر غسل کیا، اس دن سخت سردی تھی ، اس سے پہلے آپ کو بخار ہوا اور پندرہ دن تک رہا، ان دونوں میں آپ نماز نہیں پڑھا سکے اور آخر منگل کے روز 22 جمادل الثانی کو سنہ 13 ہجری میں 63 ہجری میں وفات پائی۔

حضرت ابو بکر صدیق نے وفات سے پہلے اپنی وصیت لکھوائی جس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے آپ نے حضرت عبدالرحمان بن عوف کو بلو ا کر پوچھا کہ حضرت عمر کے بارے میں خبر دیں کہ وہ کیسے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333582?fbclid=IwAR03fHOfSRbBQMfJ2Fg1hwxU-dde4sadfbDBK7_9BeGtu7rZBBF3oSJk5mU



قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کا بدنصیب بیٹا
Aug 28, 2021 | 19:47:PM


قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے عثمانی سلطان محمد فاتح کے دو صاحبزادے تھے، جب سلطان کا انتقال ہوا تو اس کا بڑا بیٹا بایزید ثانی سلطان بن بیٹھا جبکہ چھوٹے بیٹے جمشید نے اس بات کی مخالفت کی اور بڑے بھائی پر حملہ کردیا جس میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، بھائی سے شکست کے بعد جمشید مصر میں مملوکوں کے پاس پہنچا جہاں اس نے مملوک حکمران کی مدد سے فوج تیار کی اور ایک بار پھر بایزید ثانی سے جنگ کیلئے نکل کھڑا ہوا ، اس بار بھی جمشید کو بڑے بھائی سے شکست اٹھانا پڑی ، اس شکست کے بعد وہ مصر واپس جانا چاہتا تھا لیکن اسے عیسائیوں نے اپنے پاس یہ کہہ کر بلالیا کہ وہ اس کی اپنے بھائی کے خلاف مدد کریں گے۔ 23 سالہ شہزادہ اپنی ماں اور بیوی کو مصر میں چھوڑ کر روڈس کے عیسائی حکمران کے پاس پہنچ گیا۔ شہزادہ جمشید جب روڈس کے ساحل پر پہنچا تو اس کا شاندار استقبال کیا گیا اور اسے شاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا گیا لیکن بہت جلد اسے معلوم ہوگیا کہ وہ شاہی مہمان نہیں دراصل ایک قیدی ہے۔ روڈس کی پارلیمنٹ کے صدر ڈی آبسن نے جمشید سے ایک اقرار نامہ لکھوایا کہ اگر وہ سلطنت عثمانیہ کا سلطان بن گیا تو فرقہ ٹائٹس یعنی روڈس کے حاکموں کو ہر قسم کی مراعات عطا کرے گا اس کے بعد اس نے سلطان بایزید کو لکھا کہ جمشید ہمارے قبضہ میں موجود ہے اگر آپ ہم سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام بندرگاہوں میں آنے جانے اور تجارت کرنے کی آزادی دیجئے ہر قسم کے محصول ہم کو معاف کئے جائیں اور آپ کا کوئی اہل کار ہم سے کسی جگہ کسی قسم کا محصول طلب نہ کرے ۔ اس کے علاوہ ہمیں 45 ہزار عثمانی سکے سالانہ دیئے جائیں تاکہ ہم جمشید کو اپنی حفاظت اور قید میں رکھیں اور اگر آپ نے ہماری ان شرائط کو منظور نہ کیا تو ہم اس شہزادے کو آزاد چھوڑ دیں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے تخت سلطنت چھین لینے کی کوشش کر سکے۔

سلطان بایزید ثانی نے بلا تامل ڈی آبسن کے تمام مطالبات کو منظور کر لیا اور تین لاکھ روپے یا 45 ہزار ڈاکٹ سے بھی زیادہ سالانہ رقم روڈس والوں کے پاس بھجواتا رہا ادھر ڈی آبسن نے جمشید کی ماں کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ ہمارے پاس بھیجتی رہو گی تو ہم تمہارے بیٹے جمشید کو سلطان بایزید ثانی کے سپرد نہ کریں گے اور اس کو بحفاظت آرام سے اپنے پاس رکھیں گے‘ ورنہ سلطان بایزید ثانی اس سے بھی زیادہ پیسے ہم کو دینا چاہتا ہے ہم مجبوراً جمشید کو اس کے سپرد کر دیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جمشید کو قتل کر کے اطمینان حاصل کرے گا‘ اس پیغام کو سنتے ہی جمشید کی ماں نے جس طرح ممکن ہو سکا مطلوبہ رقم انہیں بھجوادی۔

اہلِ روڈس نے شہزادہ جمشید کو سونے کی چڑیا سمجھا اوراس خوف سے کہ کہیں بایزید ثانی اس کو چھڑانے کیلئے حملہ نہ کردے، مسلسل اس کا مقام بدلتے رہے۔ روڈس کے حکمران نے جمشید کو فرانس کے شہر نیس کی طرف روانہ کردیا، یہاں شاہ فرانس‘ عیسائیوں کے پوپ اور دوسرے عیسائی سلاطین نے ڈی آبسن سے خط و کتابت کر کے شہزادہ جمشید کو اپنے اپنے قبضہ میں لینے کی درخواست کی‘ شہزادہ گویا ایسا مال تھا جو نیلام کے میدان میں رکھا ہو اور ہر شخص اس پر بولی لگا رہا ہو۔ ڈی آبسن چونکہ شہزادے کے ذریعے خوب نفع اٹھا رہا تھا اور وہ اس کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی قیمت پہچانتا تھا لہٰذا اس نے ۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333580?fbclid=IwAR03s59IRQYggUZnQttxo0eBRf6nQj1I9jCrwQmp7JHCEMdFs5wHCusFzbY



معرکہ عین جالوت ، جب پہلی بار مسلمانوں نے ہلاکو خان کے لشکر کو شکست دی
Aug 28, 2021 | 19:53:PM


1258 عیسوی میں ہلاکو خان نے منگوخان کے گورنر کی حیثیت سے بغداد پر حملہ کرکے خلافت عباسیہ کا خاتمہ کردیا۔ بغداد کے ساتھ ساتھ موصل حلب اور دمشق بھی ہلاکو خان کے ہاتھوں فتح ہوگئے۔ اس نے عراق اور شام کے اکثر شہروں کو بغداد جیسی قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح تاتاری یلغار وسطی ایشیا سے نکل کر ایران، افغانستان، چین، روس اور ہندوستان کے اکثر علاقوں ، مشرقی یورپ، شام ، فلسطین، اور عراق کو نگل کر مصر کے دروازے تک پہنچ گئی۔

اس وقت ہلاکو خان کے ہمراہ تین لاکھ کا لشکر تھا ، اگر وہ مصر کو بھی فتح کرلیتا تو اسے حجاز مقدس پر حملے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا کیونکہ مصر سے مسلمانوں کے خاتمے کے بعد اس کے مقابلے میں کوئی ایسی طاقت باقی نہ رہ جاتی جو اس کے قدم روک سکتی۔ ہلاکو خان نے مصر پہنچ کر عین جالوت کے مقام پر لشکر کا پڑاؤ کیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں حضرت طالوت علیہ السلام نے جالوت کو شکست دی تھی ، اسی مناسبت سے اس جگہ کو عین جالوت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ہلاکو خان نے اپنے سفیر کے ہاتھ مصر کے حکمران سلطان قطز کے نام ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس میں کہا گیا ’’ یہ اس کا فرمان ہے جو ساری دنیا کا آقا ہے کہ اپنی پناہ گاہیں منہدم کردو، اطاعت قبول کرلو، اگر تم نے یہ بات نہ مانی تو پھر تم کو جو کچھ پیش آئے گا وہ بلندو بالا اور جاودانی آسمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘

اس خط کے ذریعے منگولوں نے مصریوں کے ساتھ اعلان جنگ کیا تھا۔ تاتاری سفیر یہ خط لے کر بادشاہ کے پاس آیا تو اس نے انتہائی تکبر کے ساتھ یہ خط سلطان مصر کے سامنے پھینک دیا۔ یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر اور رکن الدین بیبرس کی آنکھیں غصے کے عالم میں سرخ ہوگئیں۔ سلطان کو خط کے مندرجات پڑھ کر سنائے گئے تو سلطان نے سفیر سے کہا کہ ہمارا ہلاکو خان سے کوئی جھگڑا نہیں لہٰذا اسے چاہیے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر واپس چلا جائے ، اس پر سفیر نے جواب دیا۔ ’’ تو گویا چاہتے ہو کہ تمہارا بھی وہی حشر کیا جائے جو ہم تمہارے خلیفہ کا کرکے آئے ہیں ۔ جان لو کہ ہمارے آقا کی قوت لامحدود ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔‘‘ تاتاری سفیر کا یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے کہا۔۔۔’’ ان تاتاریوں کی زبانیں گدی سے کھینچ کر انہیں قتل کردیا جائے۔ ہماری طرف سے خط کا جواب یہی ہے۔‘‘

جب یہ معاملات پیش آ رہے تھے تو اس وقت مسلمانوں کیلئے ایک باعث رحمت واقعہ یہ پیش آیا کہ منگولوں کا بادشاہ جسے خاقان اعظم کہا جاتا تھا ، اس کا انتقال ہوگیا، یہ اطلاع ملتے ہی ہلاکو خان سارا لشکراپنے ساتھ لے کر قراقرم چلا گیا اور پیچھے 20 ہزار کی فوج چھوڑ کر چلا گیا۔ اس نے اپنی فوج کا سالار کتبغا کو مقرر کیا اور اسے ہدایت کی کہ جب تک وہ واپس نہیں آجاتا تب تک حملہ نہ کیا جائے۔

جیسے ہی یہ خبر مصر میں پہنچی تو سلطان قطز اور رکن الدین بیبرس وہاں آموجود ہوئے۔ عملی طور پر افواج کی کمان رکن الدین بیبرس کے پاس تھی۔ بیبرس تاتاریوں کے قصے سن کر کہا کرتا تھا کہ ’’وقت آنے دو ہم ان وحشیوں کو بتادیں گے کہ صرف وہ ہی لڑنا نہیں جانتے بلکہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اِن کی گردنیں دبوچ سکتے ہیں۔‘‘عین جالوت کی اس تاریخ ساز جنگ میں رکن الدین بیبرس نے تاتاریوں پر ان کا اپنا طریقہ حرب استعمال کیا۔ اس نے اپنے چند دستے۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333581?fbclid=IwAR334Gb86py3Ul__N3UsB2STUuRwja8fQgeIYDSuLFB7wZ3aNfKi31U1wnc



سلطنتِ عثمانیہ کی ینی چری فوج کیا تھی؟ عیسائی اپنے بچوں کو کیوں اس فوج میں داخل کرواتے تھے؟
Aug 28, 2021 | 19:34:PM


سلطنت عثمانیہ کے دوسرے سلطان اور عثمان اول کے بیٹے اُرخان کے دور میں ایک ایسی فوج کی بنیاد رکھی گئی جو ہر وقت اپنے سلطان کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار رہتی تھی، تاریخ میں اس فوج کو ینگ چری یا ینی چری کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے سپاہی اپنے رشتے داروں سے زیادہ اپنے سلطان کو عزیز رکھتے تھے، یہ ان عیسائی لڑکوں پر مشتمل تھی جنہیں سرکاری خرچ پر تعلیم دی جاتی تھی، ارخان نے یہ فوج اپنے بڑے بھائی اور اپنے وزیر اعظم علاؤالدین کے مشورے پر قائم کی تھی۔ علاؤالدین نے سلطان کو مشورہ دیا تھا کہ بڑے بڑے جاگیردار جو بڑی بڑی فوج کے مالک ہوتے ہیں اکثر سلطنت کے لئے خطرہ بھی بن جایا کرتے ہیں اس لیے ایک ایسے دستے کی تیاری ضروری ہے جو ہر چیز سے زیادہ سلطان کی حفاظت کو مقدم رکھے۔

وزیر اعظم علاؤالدین نے مشورہ دیا تھا کہ عیسائی قیدیوں اور عیسائی رعایا میں سے نوجوان اور نو عمر لڑکوں کو لے کر سلطنت خود ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ دار بنے اور اس طرح ان کو اسلامی تعلیم دے کر اور مسلمان بنا کر ان کی ایک فوج بنائی جائے یہ فوج خاص شاہی فوج سمجھی جائے، ان لوگوں سے بغاوت کی مطلق توقع نہ ہو گی۔ اور ان نو مسلم نو جوانوں کے عزیز و اقارب بھی یقیناً سلطنت کی مخالفت پر ہرگز آمادہ نہ ہوں گے بلکہ ان کو مسلمان ہونے کی بہترین ترغیب ہو سکے گی۔

چنانچہ جب اس پر عملدر آمد شروع ہوا اور کئی ہزار عیسائی لڑکے لے کر ان کی تعلیم شروع کی گئی تو ان لڑکوں کی عزت و عظمت اور شان و شوکت دیکھ کر عیسائیوں نے خود کوششیں کر کے اپنے نو عمر لڑکوں کو اس فوج میں بھرتی کرانا شروع کردیا، ینگ چری کے فوجیوں کو سلطان کے بیٹے بھی کہا جاتا تھا، شروع میں جب دو ہزار نو جوان تعلیم و تربیت پا کر فوجی تعلیم سے فارغ ہو کر سلطان کے باڈی گارڈ قرار دئیے گئے تو سلطان ان کو لے کر ایک صوفی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دعا چاہی، اس باخدا بزرگ نے ایک جوان کے شانہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس فوج کے لئے دعائیہ کلمات کہے جو کامیابی کے لئے ایک نیک فال سمجھی گئی۔ یہ سب کے سب نہایت سچے پکے مسلمان اور سب سے زیادہ اسلحہ جنگ سے آراستہ اور شاہی فرزند قرار دئیے گئے۔ینگ چری میں شامل فوجیوں کو اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا اوروہ سب ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333574?fbclid=IwAR36OwReWVHU-_9X4A80U8ELgMNVkgaOsWuFZX3zyemKJw0H5Hd1joheQjc



سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان خان نے اپنے چچا کو کیوں قتل کیا؟ قونیہ کی سلطنت عثمان اول کو کیسے ملی؟
Aug 28, 2021 | 19:38:PM


سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی آخری خلافت تھی جس نے 600 برس تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے تین براعظموں پر دادِ عیش دی، اس سلطنت کی بنیاد ارطغرل کے بیٹے عثمان خان نے رکھی تھی اور اسی کی مناسبت سے آج تک اس سلطنت کو سلطنتِ عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عثمان کی عمر 30 برس ہوئی تو اس کے والد ارطغرل کا انتقال ہوگیا جس پر شاہِ قونیہ نے ارطغرل کا سارا علاقہ عثمان کے نام کرکے اس کو حاکم مقرر کردیا، اسی سال شاہ قونیہ غیاث الدین کیخسرو نے اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردی، 699 ہجری میں غیاث الدین کیخسرو منگولوں کے ایک معرکے میں شہید ہوگیا، اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی بلکہ ایک ہی بیٹی تھی جو عثمان کے عقد میں تھی، اسی بنا پر عثمان کو اراکینِ سلطنت نے متفقہ طور پر قونیہ کے تخت پر بٹھاکر بادشاہ تسلیم کرلیا۔

عثمان خان کی تخت نشینی کے وقت سلطنت قونیہ کی حالت بہت ہی کمزور تھی لیکن اس کے تخت نشین ہوتے ہی اس سلطنت میں جان پڑ گئی کیونکہ عثمان خان کے ساتھی اور اراکین سلطنت اور فوج کے سپاہی اور رعایا سب اس کے حسن سلوک سے خوش تھے۔ عثمان خان میں ایک طرف دینداری اور دوسری طرف شجاعت بدرجہ کمال موجود تھی ، اس نے سب سے پہلے رومیوں سے شہر قرا حصار فتح کیا اور اس کو اپنا دار السلطنت بنایا ۔ اس کی فتح کا واقعہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔

جب عیسائیوں نے عثمان خان کے سلطان بننے کے بعد قونیہ پر حملے کے لیے فوجیں اکٹھی کیں تو عثمان خان نے مشورے کیلئے امرائے سلطنت کو جمع کرلیا ۔ اس موقع پر عثمان خان کا چچا یعنی ارطغرل کا بھائی بھی جو بہت بوڑھا ہوچکا تھا موجود تھا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ہمیں فوج کشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو صلح و آشتی کے ذریعہ اس جنگ کو ٹال دینا چاہیے۔ اگر جنگ برپا ہوئی تو اندیشہ ہے کہ منگولوں اور دوسرے ترک سرداروں کی فوجیں بھی عیسائیوں کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے ملک پر چڑھائی کر دیں گی اور ہم ان سب کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ عثمان خان نے اپنے چچا کی زبان سے یہ پست ہمتی پیدا کرنے والا مشورہ سن کر فوراً ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/28-Aug-2021/1333575?fbclid=IwAR335H8Uqtn4KOzLuvGNM981yLzMniqWuNjE-7EdSyR2uWslVjrWY42lXcc



ڈرامے کی تاریخ اور آغا حشر
 25 August, 2021


تحریر : فضہ پروین

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتداء کی نشاندہی چوتھی صدی قبل مسیح سے کی جاتی ہے۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجہ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے۔ عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا۔ ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر ادا کئے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔

نواب واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈرامہ نگارکہا جاتاہے اور ان کا رہس''رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اول ہے۔ یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ''قیصر باغ‘‘ میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو''قیصر باغ‘‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانت کا''اندر سبھا‘‘عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند ''اندرسبھا‘‘ کے حصے میں آئی۔ڈھاکہ میں "اندر سبھا" کی بدولت اردو تھیٹر نے ترویج و ترقی کی کئی منزلیں طے کیں،کئی تھیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں۔

اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ اور اس کے مضافات میں اندرسبھادکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔حافظ عبد اللہ ''لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی‘‘ سے وابستہ رہے۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں ''عاشق جانباز،ہیر رانجھا،نور جہاں،حاتم طائی،لیلیٰ مجنوں،جشن پرستان‘‘ وغیرہ مشہور ہوئے۔
نظیر بیگ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھیٹریکل کمپنی ''دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا‘‘ کے مہتمم تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔نل دمن،گلشن پا کد امنی عرف چندراؤلی لاثانی اورنیرنگِ عشق، حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیر و مہر انگیز وغیرہ۔
ایک ڈرامہ ''قتلِ نظیر‘‘ ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔ یہ ڈرامہ پہلا ڈرامہ ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے۔

جس شخصیت نے برصغیر میں ڈرامہ سٹیج میں نام کمایا ان میں آغا حشر بہت مقبول ہوئے ۔آغا محمد شاہ نام، حشر تخلص، والد کا اسم آغا غنی شاہ تھا۔ آغا حشر کی پیدائش یکم ا پریل 1879 ء کوبنارس میں ہوئی۔حشرکی عربی وفارسی کی تعلیم گھر پر ہوئی اور انگریزی تعلیم انھوں نے جے نرائن مشن سکول بنارس میں حاصل کی۔
آغا حشر ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ درجے کے مایہ ناز ڈرامہ نگار تھے بلکہ باکمال شاعر، شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے۔ ان کی تعلیم تو واجبی ہی تھی مگر ذاتی مطالعے کی بناء پر انھوں نے اردو، فارسی اور ہندی میں فاضلانہ استعداد حاصل کر لی تھی۔ ان زبانوں کے علاوہ انھیں عربی، انگریزی، گجراتی اور بنگلہ کی بھی خاصی واقفیت تھی۔ انھیں مطالعے کا بے انتہا شوق تھا،یہاں تک کہ جس پڑیا میں سودا آتا تھا اس کو بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔

حشر مشرقی تہذیب کے دل دادہ تھے۔ مغربی تہذیب سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ملک کی سیاسی اور قوم کی زبوں حالی پر ان کا حسّاس دل تڑپ اٹھتا تھا۔ حب الوطنی اور حصولِ آزادی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حشر ایک طرف مشرقی اقدار کے پرستار اور دوسری طرف جذبہ اسلام سے سرشار تھے۔''شکریہ یورپ اورموجِ زمزم‘‘ ان کی وہ بے مثال نظمیں ہیں جن کا ایک ایک لفظ اسلام سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسوں اور بمبئی کی مجالسِ مناظرہ میں روح پرور تقریروں کی بدولت حشر سامعین کے دلوں پر چھا جاتے تھے۔

انھوں نے''آفتابِ محبت‘‘ کے نام سے اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔ گویا ان کی ڈرامہ نگاری کے سفرکا یہ آغاز تھا۔ حشر نے کمپنی کے مالک کو جب اپنا یہ ڈرامہ دکھایا تو اس نے اْسے اسٹیج کرنے سے انکار کر دیا۔ مالک کے رویے اور اس کے انکار کا ردِ عمل حشر پر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ڈرامہ نگاری کے لیے وقف کر دی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اسٹیج کی دنیا پر چھا گئے۔ حشر کا یہ پہلا ڈرامہ، اسٹیج تو نہ ہو سکا لیکن ''بنارس کے جواہراکسیر کے مالک عبد الکریم خاں عرف بسم اللہ خاں نے ساٹھ روپے میں خرید لیا اور اپنے پریس میں چھاپ ڈالا۔ سال طباعت 1897
ء ہے۔
اس زمانے میں شرفا ڈرامہ دیکھنا پسند کرتے تھے نہ اس کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اس میں شریک ہونا بھی باعثِ عار سمجھتے تھے۔ڈرامے کو ادبی اور علمی کام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے حشر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے بنارس چھوڑ کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں کاؤس جی کھٹاؤ نے 35روپے ماہانہ پر آغا صاحب کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھ لیا۔ یہ آغا حشر کی تمثیل نگاری کا سنگِ بنیاد تھا۔ حشر کے ڈرامے پارسی اسٹیج پر عرصہ دراز تک کھیلے جاتے رہے جس سے حشر کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور کمپنیوں کو بھی خوب مالی فائدہ ہوا۔1913ء میں لاہو رمیں اپنی کمپنی''انڈین شیکسپیرتھیٹریکل کمپنی‘‘ کے نام سے بنائی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کمپنی بند ہو گئی۔

آغا حشر بیوی کے انتقال کے بعد کلکتہ آگئے۔ کلکتہ میں میڈن تھیٹرز میں حشرکے کامیاب ڈرامے ہوئے۔یہ حشر کے دور کا عروج تھا۔1928ء میں جب کمپنی امرتسرآئی تو آغا حشر کے ڈراموں ''آنکھ کا نشہ‘‘،ترکی حور اور''یہودی کی لڑکی‘‘ نے ایک حشر برپا کر دیا۔ آغا صاحب نے ''شیریں فرہاد‘‘کے بعد''عور ت کا پیار‘‘ لکھ کر فلموں میں قابل قدر اضافہ کیا۔آغا حشر32 سال تک ڈرامے کی خدمت کرتے رہے۔ انھوں نے بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھے ۔حشر نے اپنے کئی ڈراموں کے پلاٹ شیکسپیر اور دوسرے مغربی مصنفین کے ڈراموں سے اخذ کیے۔

لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ ان کا کما ل یہ تھا کہ لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک سے خشک بحث بھی اس طرح کرتے کہ سننے والا متاثر ہو جاتا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ حشر کی آخری عمر لاہور میں گزری۔ وہ زندگی کے آخری دنوں میں بیمار رہے۔ وہ اپنے ڈرامے بھیشم پر تگیا (بھیشم پتاما) کو فلمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ28 اپریل1935 ء کو پیغامِ اجل آ پہنچا۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں سپردِخاک کیے گئے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-25/25193



بادشاہی مسجد… فنِ تعمیر کا انمول شاہکار
25 August, 2021


تحریر : دانش احمد

لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ لاہور میں کئی جدید اور قدیم مساجد ہیں۔ یہ مساجد دراصل اس شہر میں مسلمانوں کے مختلف ادوار میں موجودگی اور اثر کی امین ہیں۔ لاہور میں موجود شاہی قلعہ، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں، مغل دور کی یادگاریں ہیں۔ جبکہ لاہور میں سکھ اور برطانوی دور کی تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ انہی یادگاروں میں ایک بادشاہی مسجد ہے، اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔یہ مسجد فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور زندہ دِلان لاہور کی شناخت بھی ہے۔ اس عظیم الشان مسجد کی مختصراً تاریخ قارئین کی نظر ہے۔

بادشاہی مسجد 1673ء میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلیہ دور کے فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے ۔ یہ اسلام آباد کی فیصل مسجد کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے۔ جس میں بیک وقت 1 لاکھ لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا اندازِ تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 ء میں تعمیر کروائی تھی۔

ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ ''اورنگزیب عالمگیر ‘‘ جو تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی رجحان رکھتے تھے، انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو ''فدائی خان کوکا ‘‘ بھی کہا جاتا تھا کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 ء سے لیکر 1673 ء تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا۔ جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا۔ جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔

اگر ہندوستان میں دیگر تاریخی مساجد کے طرز تعمیر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس مسجد کا طرز تعمیر کافی حد تک جامع مسجد ''فتح پور سیکری ‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ مسجد حضرت سلیم چشتیؒ کے عہد میں 1571-1575ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد، دہلی کی جامع مسجد ''جہاں نما‘‘ ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہ جہان نے 1650-1656ء میں تعمیر کی تھی۔یہ دونوں مساجد ایک دوسرے سے اس قدر مماثلت رکھتی ہیں کہ پہلی نظر میں یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی گمان ہوتی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں تھے۔ یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی مسجد لاہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔ تاریخی کتب کے مطابق دہلی کی جامع مسجد پر اخراجات دس لاکھ روپے آئے تھے جوکہ لاہور کی مسجد سے چار لاکھ روپے زائد تھے جبکہ لاہور کی مسجد صرف دو برس کی قلیل مدت میں تعمیر ہو گئی تھی اور دہلی کی مسجد پر پانچ برس سے زائد کا عرصہ لگا۔

مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی زمانے کے بدلتے رنگوں میں اس عظیم الشان مسجد نے بھی کئی اہم ادوار دیکھے۔ وہ مسجد جس کے اخراجات کے لئے پورے ایک ضلع کی آمدنی وقف تھی وہ انتہائی برے حالات میں رہی۔ ایک عرصہ تک یہ مسجد سکھوں کے قبضے میں رہی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کے وسیع و عریض میدان کو اپنی سپاہ کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا۔ مسجد کے صحن کی شمالی اور جنوبی سمت میں موجود حجرے جو مسلمان طالب علموں کے زیر استعمال رہا کرتے تھے، ان کو سکھ فوجیوں نے اپنی رہائش گاہیں بنا لیا۔ گھوڑوں کے کھروں کے باعث مسجد کا خوبصورت فرش جس میں کھڑی اینٹ کا استعمال کیا گیا تھا وہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ 1850 ء میں بادشاہِ مسجد کی مرمت کا آغاز ہوا۔ لیکن مسجد کی مرمت کا یہ منصوبہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور نا مکمل رہا۔ آخرکار مکمل مرمت کے منصوبے کا آغاز 1939ء میں ہوا اور 1960 ء میں مکمل ہو گیا۔ اس منصوبے پر 48 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔

1980ء کی دہائیوں سے مولانا عبدالقادر آزاد بادشاہی مسجد کے امام رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند پیش امام ہوئے۔ پنجگانہ نماز کے ساتھ ساتھ یہاں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے اجتماع ہوتے ہیں۔ مسجد کی ابتدائی تعمیر میں موذن کی آواز کی باہر تک رسائی کے لئے تعمیر کی ایک خاص تکنیک کو مد نظر رکھا گیا تھا لیکن دور حاضر میں بجلی کے سپیکر نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی مغربی سیدھ میں گنبدوں کے نیچے ہال میں کاشی کاری کا ایک خاص رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بادشاہی مسجد میں موجود کاشی کے یہ نمونہ جات پوری دنیا میں نایاب اور اپنی مثال آپ ہیں۔ مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے سکولوں کے طالب علم تعلیمی اور معلوماتی دوروں پر آتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-25/25192



وہ حقائق جن کے بارے میں شائد آپ لاعلم ہوں
25 August, 2021

تحریر : رانا حیات

آج 21ویں صدی میں بھی ماہرین فلکیات کائنات کی وسعتوں کو مانپنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ کائنات انتہائی پراسرار چیزوں پر مبنی بے شمار ستاروں ، سیاروں اور بلیک ہولز کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ تو رہی کائنات اور اس کی وسعتوں کی بات، ہماری اس چھوٹی سی دنیا میں بھی کئی ایسی پراسرار اور دلچسپ چیزیں ہیں جن کا ہونا شاید ہم نہ سمجھ پائیں۔ بے شک دنیا ایک پراسرار جگہ ہے اور متعدد ایسے حقائق پر مبنی ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ہم بہت کچھ جاننے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت کم جانتے ہیں۔ آج ہم روزنامہ دنیاکے قارئین کو دنیا کے مختلف شعبوں سے وابستہ چند ایسے حیران کن حقائق بیان کرنے جارہے ہیں جو یقینا آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

پراسرار آبشار: امریکی ریاست Minnesota میں واقع Devil's Kettle نامی آبشار کو پراسرار آبشار قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس آبشار کا پانی زمین پر موجود ایک دیوقامت گڑھے میں گرنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟ محققین انگنت کوششوں کے باوجود یہ پتہ کرنے میں ناکام ہے کہ اس گڑھے کا وہ دوسرا سرا کونسا ہے جہاں سے آبشار کا پانی واپس باہر آتا ہے۔ ماہرین نے اس راز سے پردہ اٹھانے کیلئے متعدد بار کوشش کی اور کئی بار گیندیں اور لکڑی کے ٹکڑے بھی اس گڑھے میں پھینکے لیکن پھر یہ چیزیں کہیں غائب ہو جاتی ہیں۔

سفید رنگ کا سورج:وہ تمام لوگ جو دوپہر کو پیلی دھوپ سے عاجز آئے ہوئے ہیں ان کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ماہرین فلکیات کے مطابق سورج دراصل سفید رنگ کا ہوتا ہے لیکن دنیا کی آب و ہوا کے باعث اس کا رنگ ہمیں پیلا دکھائی دیتا ہے۔
کم نیند سے دماغ سکڑ جاتا ہے:کیا آپ جانتے ہیں کہ کم دورانیے کی نیند کے باعث آپ کا دماغ سکڑ سکتا ہے؟ جی ہاں نیورولوجسٹ کی حالیہ ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو بہت کم وقت کیلئے سوتے ہیں یا جنہیں کم خوابی کے مسائل درپیش ہیں ان کے دماغ کا سائز بہت تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
سبز آنکھیں انتہائی نایاب:سبز آنکھوں کے حامل افراد نیلی آنکھوں والوں پر غالب آچکے ہیں۔ لیکن دنیا میں بہت کم افراد ایسے ہیں جن کی سبز آنکھیں ان کی جینز کی مرہونِ منت ہیں۔ دنیا کی صرف 2 فیصد آبادی ایسی ہے جو سبز آنکھوں کی مالک ہے۔

مشہور زمانہ فلم ''گاڈ فادر ‘‘ میں اصلی گھوڑے کا سر:آپ میں سے بیشتر لوگوں نے مشہور زمانہ فلم ''گاڈ فادر ‘ ‘ ضرور دیکھی ہوگی اور اس کا وہ گھوڑے کے سر والا منظر بھی ضرور یاد ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس سین میں استعمال ہونے والا گھوڑے کا سر اصلی ہے۔ فلم کی پروڈکشن ڈیزائنر نے اس کا انتظام کتے کا کھانا تیار کرنے والی ایک کمپنی کی مدد سے کیا تھا۔

سوشل میڈیاکا ملازم ہونا قابلِ رشک بات:یہ تو خیر سب ہی جانتے ہیں کہ ایک مشہور سرچ انجن ویب سائٹ اپنے ملازمین کا بے حد خیال رکھتی ہے۔ مفت کھانا، پینا، ورزش کیلئے سہولیات، لانڈری کی سہولیات اور گاڑی کا دھونا وغیرہ سب کمپنی کے ذمے ہوتا ہے۔ مگر حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر کوئی ملازم انتقال کر جائے تو اس کے لواحقین کو کمپنی دس سال تک ایک ملازم کی آدھی تنخواہ دیتی ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن نے کبھی موزے نہیں پہنے:البرٹ آئن اسٹائن کا بے ڈھنگا حلیہ بھی ان کی بے پناہ شہرت کا باعث ہے۔بے ترتیب بالوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئن اسٹائن نے کبھی موزے ( socks ) نہیں پہنے۔ چاہے سمندری سفر پر جانا ہو یا پھر وائٹ ہاؤس ڈنر کیلئے، آئن اسٹائن نے کبھی موزوں کا استعمال نہیں کیا۔ آئن اسٹائن کے نزدیک موزے پہننا ایک سر درد تھا کیونکہ ان میں سوراخ ہوجاتے ہیں۔آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ موزے اور جوتے کیوں ایک ساتھ پہنیں جب ایک کے پہننے سے بھی بات بن سکتی ہے؟

قیدیوں پر نظر رکھنے کے لیے راج ہنس کا استعمال:شمال مشرق برازیل میں ایک جیل ایسی بھی واقع ہے جہاں قیدیوں پر نظر رکھنے کیلئے راج ہنس نامی پرندے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جیل کو 153 قیدیوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیل کے سکیورٹی حکام قیدیوں پر نظر رکھنے کیلئے نت نئے طریقے دریافت کرتے رہتے ہیں۔ یہاں دو راج ہنس ان قیدیوں پر نظر رکھتے ہیں اور جیسے ہی کوئی غیر معمولی حرکت دیکھتے ہیں اپنے شور سے انتظامیہ کو آگاہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-25/25191



تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ
22 August, 2021


تحریر : وقار حسن

تحریکِ پاکستان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں، بے مثال جذبے اور انمول جد و جہد کی داستان ہے۔ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے مسلمانوں کی شناخت ختم ہو۔ ہندوؤں نے یہ جنگ ہر محاذ پر لڑی۔انہوں نے اقتصادی و معاشی،تہذیبی و ثقافتی،علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کمر توڑ کوشش کی۔اردو زبان کا ضمیر مسلمانوں کی آمد سے برصغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی ، تْرکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھااور مسلمانوں کے عہد ِ حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی،اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور مسلمانوں کے دورِ سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی ۔ تنگ نظر ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں کی زبان کَہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا۔تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ قیام ِ پاکستان کی بظاہر وجوہات میں اردو ہندی تنازع بھی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔
 برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی،کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔
اردو زبان کے ساتھ لگاؤ اور انس شروع ہی سے مسلمانوں میں موجود تھا۔ حضرت امیر خسرو،مسعود سعد سلمان سے لے کر ولی دکنی اور میر و غالب جیسے شاعر اسی زبان سے وابستہ تھے۔اسی طرح مسلمانوں کے عربی اور فارسی علم و ادب کا اردو زبان میں ترجمہ ہو رہا تھا۔ اردو زبان ختم کرنے کی سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ''اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا۔اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھا یا وہ ''انجمنِ ترقیِ اْردْو‘‘ تھا جو جنوری 1902ء میں قائم ہوا۔تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ ِ زبانِ اردو میں اہم کردار ادا کیا۔اردو ہندی تنازعہ کا تذکرہ ''بابائے اردو‘‘مولوی عبدالحق نے ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

''بر عظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں نے محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی ۔

اْردو ہندی تنازعہ لسانی سے بڑھ کر اب سیاسی نوعیت حاصل کر چکا تھا۔جہاں پر مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے وہاں اْردو زبان کا تحفظ لازمی جزو بن چکا تھا۔بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4دہائیوں سے لڑ رہے تھے۔جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک،نواب محسن الملک،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمائندہ زبان ''اْردو‘‘ ہی تھی۔اْردو زبان کا تحریکِ پاکستان میں حصہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان اور دو قومی نظریہ لازم و ملزوم تھے تو بجا ہو گا۔

مسلم لیگ کے متعدد اجلاسوں میں اردو زبان کی ترقی، تحفظ اور اس کو قومی زبان تسلیم کرنے کے لیے قراردادیں منظور ہوئیں۔
قرار دادِ پاکستان کا تاریخی جلسہ جس نے پاکستان کی دھندلی تصویر کو بالکل عیاں کر دیا تھا اس جلسہ کے سٹیج پر جو مسلمانوں کے لیے پیغام لکھا گیا تھا وہ بھی مصورِ پاکستان کا اردو زبان میں یہ شعر تھا:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر،جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جبکہ دوسری طرف ادبی محاذ پر بھی ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریہ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔ تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں۔ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے۔بالخصوص آپؒ نے اپنی اردو شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے نویدِ صبح کا پیغام دیا۔
علامہ اقبالؒ کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ مولانا حسرت موہانی ہیں؛ آپ تحریکِ پاکستان کے بڑے جوشیلے اور جذباتی جانثار تھے۔آپ بیک وقت سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اْردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔
مولانا ظفر علی خان کا کردار بھی بہت اہم ہے ۔ اس عہد کے سب سے زیادہ اشاعت والے اردو اخبار ''زمیندار‘‘کو آپ کی سرپرستی حاصل تھی۔اردو زبان میں شائع ہونے والا یہ اخبار تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام کی امنگوں اور امیدوں کا حقیقی ترجمان تھا۔اس اخبار پر بھی انگریز حکومت نے پابندیاں عائد کیں اور مولانا ظفر علی خان کو جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی لیکن ''زمیندار‘‘ اخبار حصولِ پاکستان تک مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتا رہا۔
ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی، عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی تحریروں نے بہت نام کمایا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے چھبیسویں اجلاس میں جو دسمبر 1938ء میں پٹنہ میں ہوا۔انہوں نے اپنی انگریزی تقریر کے فوراً بعد اردو زبان میں رواں اور پْر اثر تقریر کی اس اجلاس میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر قائدِ اعظم کی آواز اردو زبان میں گونج اٹھی۔

آپؒ کے اردو زبان سے لگاؤ کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں مختلف علاقائی زبانوں کی موجودگی میں انہوں نے 3 لاکھ سے زائد کے مجمع کے سامنے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں واضح اعلان فرمایا:''مَیں آپ پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہوگی‘‘۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-22/25181



کافرکوٹ کے کھنڈرات
22 August, 2021


تحریر : شیخ نوید اسلم

دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے دریائے سندھ کے کنارے واقع پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں، عبادت گاہوں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 39 میل کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہیں۔ یہ آثار کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر دریائے کرم اور دریائے سندھ آپس میں ملتے ہیں۔
کسی زمانے میں دریائے سندھ کافر کوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا جس پہاڑ پر یہ کھنڈرات ہیں اس کے مشرق کی جانب آبی گذر گاہ ہے اس ضمن میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی کتاب''پشاور سے کوئٹہ تک‘‘ کے مطابق ماضی میں وسط ایشیا، افغانستان برصغیر کو ملانے والی شاہراہ اس علاقے سے گزرتی تھی۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کو نو کیلے تراشے ہوئے پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔
دانشور محمد شریف کے مطابق مسلمان اس قلعے کو کافر کوٹ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہندواسے راجہ بل کا قلعہ کہتے تھے۔ قلعہ میں موجودان مندروں کی تعداد سات کے لگ بھگ ہے جو خوبصورت تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ مندر ماضی میں بہت خوبصورت اور شان دار تھے انکے آثار ان کی عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔اب کھنڈرات بن چکے ہیں۔

قدیم دور کے یہ محل او مندر راجہ بل نے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کروائے تھے ان مندروں کی طرز تعمیر قلعہ نندنا، ضلع جہلم، کٹاس کے مندر، قلعہ ملوٹ، ضلع چکوال، ماڑی شہر ضلع میانوالی سے ملتی جلتی ہے یہ مندر پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہیں۔ قلعہ نندنا ایک دشوارگذار پہاڑی علاقے میں ہے سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملے میں راجہ نندپال کو شکست دی تھی قیاس ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ کافر کوٹ کے قلعے کے اندر ایک تالاب بھی تھا جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا اس تالاب کے اردگرد پوجا پاٹ کے لیے مندر بنائے گئے تھے۔

کافر کوٹ کے کھنڈرات کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں۔ مشرق کی طرف آبی گذر گاہ ہے۔ کافر کوٹ کے مندروں کے اطراف نہایت خوبصور ت ڈیزائن بنائے گئے ہیں جو کاریگروں کی مہارت کا ثبوت ہیں۔ دیواروں پر مورتیاں رکھنے کی خاطر اور روشنی کے لیے طاقچے سے دکھائی دیتے ہیں۔

پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔ چار بڑے اور تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کی آمیزش سے بنے ہوئے ہیں ان پتھروں پر موسمی تبدیلیوں کا اثر نہیں ہوتا یہ مندر مخروطی شکل کے ہیں۔ ان کی بیرونی سطح خاصی مزین ہے دیواروں پر سورج مکھی کے پھول تراشے گئے ہیں۔ یہ آرائش بہت پیچیدہ اور باریک ہے۔ یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا تھا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-22/25179



چوبرجی کے پاس ملتان روڈ پر درختوں اور سبزے کے بیچ میں ایک خوب صورت اور پرانے طرز کی سفید عمارت چھپی ہوئی ہے، اس عمارت کو پونچھ ہاؤس کہتے ہیں اور اس علاقے کا نام بھی پونچھ ہاؤس کالونی ہے۔

پونچھ، ریاست جموں و کشمیر کے ایک علاقے کا نام ہے، جس سے یہ عمارت منسوب ہے۔ آج یہ علاقہ پاکستانی آزاد کشمیر و بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقسیم ہے۔

پاکستانی کشمیر میں موجود پونچھ ایک ڈویژن ہے جس میں باغ، سدھنوتی، حویلی اور پونچھ کے اضلاع شامل ہیں۔ راولاکوٹ یہاں کا بڑا شہر ہے، جب کہ بھارتی پونچھ لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع ایک ضلع ہے جس کا صدر مقام پونچھ شہر ہے۔

پونچھ ہاؤس نامی یہ عمارت مہاراجا دلیپ سنگھ کے عہد میں لارڈ لارنس کی رہائش کے لیے 1849 میں تعمیر کی گئی تھی۔ جب وہ سکھ فوج کی گو شمالی کے لیے لاہور میں مقیم تھا۔

اس عمارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 5 مئی 1931 کو بھگت سنگھ کا ٹرائل اسی عمارت میں ہوا تھا جو ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کے اہم کردار تھے۔

23 مارچ 2013 میں عمارت کے باہر لگی سنگِ مرمر کی تختی کے مطابق؛

ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ زمین ”راجہ جگت سنگھ” کی ملکیت تھی۔ 1962 میں گورنمنٹ نوٹیفیکیشن پر یہ عمارت فیڈرل گورنمنٹ کو دے دی گئی۔

بعدازاں یہ بنگلہ چیف کورٹ کے بیرسٹر ”چارلس بولنوائس” کے قبضے میں رہا، جس کے بعد یہ چیف جج سر ”میڈتھ پلوڈن” کے زیرِتصرف رہا۔

قیامِ پاکستان کے بعد پونچھ ہاؤس میں انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر منتقل کردیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے دفاتر جیسے محکمہ جنگلات، معدنیات، محکمہ باہمی امداد اور پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن بھی یہاں منتقل ہوگئے۔

اس عمارت کے احاطے میں 1950 کے دور میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل میوزیم بنایا گیا جو 1985 میں ختم کردیا گیا اور اسی جگہ پر ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹریز کی لائبریری منتقل کردی گئی۔

یہاں ڈائریکٹر انڈسٹریز رہنے والے مشہور لوگوں میں قدرت اللہ شہاب اور ایچ آر پاشا جیسے لوگ شامل ہیں۔

بڑے بڑے برآمدوں، اونچی چھتوں، وسیع دالانوں، موٹے ستونوں اور اپنے خوب صورت ڈھانچے کے باعث یہ عمارت دیکھنے میں بہت پُرکشش لگتی ہے۔

دو منزلہ اس عمارت کے چار کونوں پر ایک تین منزلہ چوکور ٹاور یا بُرج واقع ہیں جس کے سامنے کی طرف تکونی محراب والی سبز کھڑکیاں موجود ہیں جو عمارت کو اور دل کش بناتی ہیں۔

برآمدوں کے ساتھ لگے ستون دو دو کی جوڑی میں بنائے گئے ہیں جن کے درمیان کچھ جگہ خالی ہے۔ چھت اور لکڑی کے بڑے بڑے دروازے پرانے طرز کے ہیں۔


اس عمارت کو دیکھ کہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی برطانوی طرز کے ڈاک بنگلے یا پرانے ریلوے اسٹیشن کی عمارت کی بہن رہی ہو۔

اسی عمارت کی غربی سمت میں ایک اور عمارت واقع ہے۔ ایک چھجا نما اوپری راستہ ان دو عمارتوں کو باہم ملاتا ہے جس کی پرانی طرز پر بنی ٹوٹی پھوٹی کھڑکیاں اب بھی باقی ہیں۔

راستے کے دوسری جانب عمارت قدرے نئی شکل کی ہے اور اچھی حالت میں ہے۔ لیکن اس کے پچھلے حصے کو دیکھیں تو اس کا بھید کھل جاتا ہے۔ یہ بھی اوپر بیان کی گئی عمارت کی طرح پرانی طرز پر بنی ہے لیکن اس کے چہرے کو مرمت اور پینٹ کر کے نیا روپ دے دیا گیا ہے۔ یہ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و فشریز کا دفتر ہے جس کے ستون، بل کھاتی سیڑھیاں اور پرانے ماربل کا فرش چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرا موجودہ زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کی دوسری جانب پنجاب ہیلتھ فاؤندیشن کی عمارت واقع ہے جو ہر سرکاری عمارت کی طرح سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ پونچھ ہاؤس کی عمارت کے پیچھے ایک اور نئی عمارت بنائی گئی ہے جو محکمہ کان کنی و معدنیات کا دفتر ہے۔ یہ پونچھ ہاؤس کے طرز پر بھدے طریقے سے بنائی گئی ہے آپ اسے اسکی دو نمبر کاپی کہہ سکتے ہیں۔

اس کمپلیکس میں ایک مسجد اور پنجاب کو آپریٹو سوسائٹیز کے رجسٹرار کا آفس بھی واقع ہے۔ یہاں کے لان وسیع اور خوبصورتی سے کیے ہوئے ہیں۔ اتوار کا دن ہونے کے باعث میں اندر تو نہ جا سکا لیکن باہر سے بھی یہ جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2215351/1/

No comments:

Post a Comment