تاریخ کے جھروکے سے ::: ایلی ویٹر کا جنم ::: پہلی جنگ عظیم میں عالمی طاقتوں کے مہرے ::: غزوہ احد ::: یوم دفاع، 1965ء کی جنگ ::: بونسائی ::: قلعہ روہتاس ::: قومیں جو باہر سے آکر ہند میں آباد ہوئیں ::: امرتا پریتم ::: غزوہ بدر ::: رسول اللہ ﷺ نے امت کا فرعون کسے قرار دیا ؟ - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Sunday, 27 February 2022

تاریخ کے جھروکے سے ::: ایلی ویٹر کا جنم ::: پہلی جنگ عظیم میں عالمی طاقتوں کے مہرے ::: غزوہ احد ::: یوم دفاع، 1965ء کی جنگ ::: بونسائی ::: قلعہ روہتاس ::: قومیں جو باہر سے آکر ہند میں آباد ہوئیں ::: امرتا پریتم ::: غزوہ بدر ::: رسول اللہ ﷺ نے امت کا فرعون کسے قرار دیا ؟


ایلی ویٹر کا جنم کیسے ہوا؟ فلک بوس عمارتوں میں رہائش ایلی ویٹر کی مرہون منت ہے
 5 September, 2021


تحریر : طاہر منصور فاروقی

موٹرٹیکنالوجی اور گیئرز کی ترقی میں تیزی آئی اور 1889ء میں اُونچی عمارتوں کے لیے براہ راست مربوط
گیئر والے الیکٹرک ایلی ویٹرز کی اجازت دے دی گئی۔ 1903ء میں ایسے ڈیزائن مرتب ہوئے جن
میں گیئر کے بغیر کھنچائی کرنے والے الیکٹرک ایلی ویٹر متعارف کیے گئے۔ اس کے بعد کثیررفتار موٹروں
نے ابتدائی یک رفتار موٹروں کی جگہ لے لی تاکہ نیچے جانے اور مجموعی کارکردگی ہموار بنانے میں مدد مل سکے۔

ایلی ویٹر (اُوپر اُٹھانے، بلند کرنے یا اُوپر کو دھکا دینے والی مشین) کو عرف عام میں لفٹ کہتے ہیں۔ خاص قسم کے ایلی ویٹرز یا ہائیسٹس (Hoists) قرون وسطیٰ میں بھی استعمال کیے جاتے تھے اور ان کا سُراغ تیسری قبل مسیح صدی میں بھی ملتا ہے۔ ان کو انسانی، حیوانی طاقت یا پھر پانی سے چلنے والے میکنزم سے استعمال کیا جاتا تھا۔

1800ء کے برسوں میں ان ایلی ویٹرز کو ابتدائی طور پر تیار کیا گیا جن سے آج کل ہم مانوس ہیں۔ ان کو قوت دینے کے لیے پانی یا بھاپ سے استفادہ کیا جاتا تھا مثلاً لوگ ایک کیب یا چبوترے پر کھڑے ہو جاتے، پھر پانی ایک کھوکھلی ٹیوب میں اس حد تک بھرا جاتا کہ ہائیڈرالک پریشر (آبی دبائو) چبوترے کو کھوکھلے سلنڈر میں اُوپر اُٹھا دیتا۔

ابتدا میں چبوترے کی رفتار بڑھانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ آبی دبائو کی اُٹھان کو بہتر بنا لیا گیا اور مختلف قسم کے والوز کے ساتھ رفتار کو منظم کرلیا گیا، بالآخر یہ لفٹیں اس طرح کی بنالی گئیں کہ ان میں اُوپر جانے اور نیچے آنے والا چبوترہ رسوں اور چرخیوں کی مدد اور متوازی وزن سے متحرک کیا جانے لگا۔ اس طرح کی لفٹیں جو سب سے پہلے انگلستان میں نمودار ہوئیں، جدید ایلی ویٹرز کی حقیقی پیش رو تھیں۔

میکانکی قوت سے چلنے والا ایلی ویٹر سب سے پہلے انیسویں صدی کے وسط میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نمودار ہوا۔ یہ سادہ سا ایلی ویٹر محض باربردار تھا۔ اس کے ذریعے وزنی اشیا اُوپر لے جائی جاتیں۔ یہ نیویارک شہر کی ایک عمارت میں محض دو منزلوں کے درمیان کام کرتا تھا۔ اس کے موجد بہرحال دیگر عملی اطلاقات کی تلاش میں تھے۔

ایلی ویٹر کی تاریخ میں فیصلہ کُن لمحہ اس وقت آیا جب اس میں انسانوں کو منتقل کرنے کی صلاحیت ثابت ہوگئی اور وہ عظیم لمحہ 1853ء میں وارد ہوا۔ جب ایلیشا گریوز اوٹس نے ایک ایسا ایلی ویٹر ڈیزائن کیا جس میں تحفظ کا پہلو نمایاں طور پر موجود تھا۔ اس کے نام کا آخری حصہ ابھی تک بہت سے ایلی ویٹرز کو آراستہ کیے ہوئے ہے۔ اوٹس کے ڈیزائن کے مطابق اگر کسی وجہ سے لفٹنگ سسٹم خرابی سے دوچار ہو جاتا ہے اور کیب کو چھوڑ دیتا ہے تو کیب اپنے بوجھ کے ساتھ شافٹ کی تہہ میں گر کر تباہی کا سبب بننے کی بجائے ازخود رُک سکتا ہے۔

مسافروں کے لیے پہلا اوٹس ایلی ویٹر نیویارک کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں نصب کیا گیا۔ اس کے اخراجات مجموعی طور پر 300ڈالرز سے بھی کم رہے۔ اوٹس ایلی ویٹر کو بھاپ کی طاقت سے چلایا جاتا تھا۔ 1867ء میں لیون ایڈوکس نے پانی کی طاقت سے چلنے والا ایلی ویٹر ایجاد اور پھر تجارتی بنیادوں پر تیار کیا۔
دس سال بعد اوٹس کے بیٹوں نے اوٹس برادرز اینڈ کمپنی، یانکرز، نیویارک میں قائم کی۔ کچھ عرصہ بعد ان کی کمپنی ہزاروں کی تعداد میں ایلی ویٹرز بنانے لگی اور اس صنعت میں ان کا نام گھر گھر میں گونجنے لگا۔ یہ اعدادوشمار مصدقہ ہیں کہ 1873ء میں دو ہزار سے زیادہ اوٹس ایلی ویٹرز پورے امریکہ میں مختلف تجارتی عمارتوں میں زیراستعمال تھے۔

1884ء میں پہلا الیکٹرک ایلی ویٹر، فرینک سپراگ نے تخلیق کیا اور اسے لارنس میساچیوسٹس کی ایک کاٹن مِل میں نصب کیا۔ پش بٹن کنٹرول سسٹم کا خالق بھی فرینک سپراگ تھا۔ الیکٹرک ایلی ویٹرز کو سب سے پہلے 1889ء میں اس وقت تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا گیا جب اسے نیویارک شہر کی ڈیمرسٹ بلڈنگ میں لگایا گیا۔ بعدازاں جب بجلی زیادہ آسانی سے دستیاب ہونے لگی تو جرمن موجد ورنروان سیمنز نے ایلی ویٹر ٹیکنالوجی میں برقی موٹر کو شامل کردیا۔ موٹر کو ایلی ویٹر کی تہہ میں لگایا گیا اور اسے گیئرنگ اپریٹس کی حیثیت سے استعمال کرتے ہوئے شافٹ میں ریک کو اُوپر لے جانے اور نیچے لانے کا انتظام کیا گیا۔
1887ء میں بالٹی مور میں ایلی ویٹر کو قوت دینے کے لیے بجلی کو استعمال کیا گیا۔ اس ایلی ویٹر میں ایک ڈرم اور رسہ استعمال کیا گیا جو ڈرم کے گرد لپٹ جاتا تھا۔ لیکن اس میں ایک بنیادی مسئلہ تھا جو بالآخر اس قسم کے ایلی ویٹرز کی موت کا سبب بنا اور یہ مسئلہ عمارت کی بلندی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمارتوں کی بلندی میں اضافہ ہوتا گیا، چنانچہ طویل سے طویل تر رسوں اور بڑے ڈرموں کی ضرورت پیدا
ہو گئی، یہاں تک کہ ان کا محیط ناقابلِ عمل ہوگی

موٹرٹیکنالوجی اور گیئرز کی ترقی میں تیزی آئی اور 1889ء میں اُونچی عمارتوں کے لیے براہ راست مربوط گیئر والے الیکٹرک ایلی ویٹرز کی اجازت دے دی گئی۔ 1903ء میں ایسے ڈیزائن مرتب ہوئے جن میں گیئر کے بغیر کھنچائی کرنے والے الیکٹرک ایلی ویٹر متعارف کیے گئے۔ اس کے بعد کثیررفتار موٹروں نے ابتدائی یک رفتار موٹروں کی جگہ لے لی تاکہ نیچے جانے اور مجموعی کارکردگی ہموار بنانے میں مدد مل سکے۔

مزید وقت گزرنے پر رسوں کی جگہ الیکٹرو میگنیٹک ٹیکنالوجی نے لے لی۔ اب متعدد پیچیدہ سگنل کنٹرولز، ایلی ویٹرز کا حصہ بن گئے۔ علاوہ ازیں حفاظت کا پہلو ہمیشہ ہی موجدوں کے پیش نظر رہا۔ مثلاً چارلس اوٹس، اصل موجد ایلیشیا گریوزاوٹس کے بیٹے نے ایسا سیفٹی سوئچ تیار کیا جس نے کسی بھی رفتار سے چلنے والے ایلی ویٹر کو روکنے کی صلاحیت بڑھا دی۔ آج کل متعدد اقسام کی جدید ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جارہی ہے مثلاً بٹن کی جگہ ''کی پیڈز‘‘ استعمال کیے جارہے ہیں۔ سوئچنگ میکنزم اور گورنرز اس طرح ڈیزائن کیے جارہے ہیں کہ کسی بھی صورتحال میں رفتار کا جائزہ لیا جاسکے۔ آج کل زیادہ تر ایلی ویٹرز خودکار طریقے سے چلتے ہیں۔ کچھ میں تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا جارہا ہے۔
جدید ایلی ویٹرز نے ہمارے لیے یہ بات ممکن بنا دی ہے کہ زمین سے بیسوں منزل بلند گھروں میں رہائش اختیار کرسکیں اوربالائی منزلوں میں قائم دفاتر وغیرہ میں کام کرسکیں۔ فلک بوس عمارتوں کے شہر مثلاً نیویارک وغیرہ کا مطلق انحصار ایلی ویٹرز پر ہے۔ اب تو چھوٹی کثیرمنزلہ عمارتوں میں بھی ایلی ویٹرز کو ضروری قرار دے دیا گیا ہے تاکہ معذور افراد کے لیے آجانے جانے میں آسانی ممکن ہوسکے۔ باربردار ایلی ویٹرز بھی اسی طرح ناگزیر ہوچکے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-05/25211



پہلی جنگ عظیم میں عالمی طاقتوں کے مہرے
 5 September, 2021


تحریر : مرتضیٰ انجم

جرمنی کو خطرہ تھا کہ جنگی تیاریاں مکمل ہونے کے بعد روس 1916ء میں جرمنی
پر حملہ کر دے گا۔ روس اور فرانس میں بیس سال سے اتحاد تھا اور فرانس جرمنی سے اپنے علاقے بازیاب کرانا چاہتا تھا
جرمنی بلقان کے مسئلے پر آسٹریا کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ کیسرولیم نے ویانا میں اپنے سفیر کو لکھا کہ اب سربوں کا قصہ پاک ہو جانا چاہیے۔ آسٹریا نے سربیا کو الٹی میٹم بھیجا تھا کہ وہ آرچ ڈیوک کے قتل کی تفتیش میں آسٹریا کی پولیس کی مدد کرے جو بالآخر سربیا کو ماننا پڑا۔

جرمنی کو خطرہ تھا کہ جنگی تیاریاں مکمل ہونے کے بعد روس 1916ء میں جرمنی پر حملہ کر دے گا۔ روس اور فرانس میں بیس سال سے اتحاد تھا اور فرانس جرمنی سے اپنے علاقے بازیاب کرانا چاہتا تھا۔ جرمنی نے اس خدشے کے پیش نظر کہ بلجیم ٔ فرانس سے تعاون نہ کرے، بلجیم ٔ کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ جرمنی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے ورنہ جنگ کے لیے تیار رہے۔ بلجیم ٔ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً 2اگست کو جرمنی نے بلجیم ٔ اور لکسمبرگ کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے اس پر حملہ کردیا۔ بلجیم ٔ کے شاہ البرٹ نے برطانیہ کے شاہ جارج کو مدد کی اپیل کی، برطانیہ نے جرمنی کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ بلجیم ٔ کی غیرجانبدارانہ حیثیت کو تسلیم کرے ورنہ برطانیہ جنگ میں کود پڑے گا، اس طرح برطانیہ بھی جنگ میں شریک ہوگیا۔

بلجیم ٔ کی فوج نے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے جرمنوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور 6اگست کو ایمسٹرڈیم میں بلجیم ٔ دستوں نے جرمنی کے 3500 فوجی ہلاک وزخمی کر دیئے۔ لیج کے مقام پر جرمنی کی ایک لاکھ فوج کے پچیس ہزار فوجی تیس ہزار بلجیم ٔ فوج کے ہاتھوں مارے گئے جس سے جنگ کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

جب جرمنی نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کیا تو انہیں فرانس کی سرزمین پر پہنچنے کے محدود ذرائع کا علم تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ ہالینڈ کا آسان اور سیدھا راستہ اپناتے جرمنی نے بلجیم ٔ کے راستے فرانس پر چڑھائی کو ترجیح دی جو کہ نسبتاً ایک مشکل علاقہ تھا۔ جرمن فوج کو فرانس کے چار بڑے دریائوں کو عبور کرنا تھا اس میں دریائے میوز، دریائے سوم، دریائے الیس اور دریائے ولیسے شامل تھے۔ یہ فوجیں بالآخر ''مارن‘‘ پہنچ گئیں۔ اس محاذ پر جرمن کو فیصلہ کن اقدام کا موقع مل گیا اور پیرس ان کے رحم وکرم پر تھا۔ پھر نہ جانے کیوں وہ یکایک پیچھے ہٹے اور خندقیں کھود کر ان میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے بعد کے تین سال انہی خندقوں میں گزار دیئے۔

اتحادیوں کی دو لاکھ پچاس ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور جرمنی کی کچھ اس سے زیادہ جو ایک مہنگی فتح تھی لیکن فتح بہرحال تھی۔ اپنی سبکدوشی سے کچھ دیر پہلے چیف آف سٹاف نے کیسر کو پیغام بھیجا تھا ''یورمجسٹی ہم جنگ ہار چکے ہیں!‘‘ جنرل پال وان ہنڈن برگ اور جنرل ایرک ولیم لڈن ڈروف کی زیرکمان جرمن فوج نے ایک مہینہ سے بھی کم عرصہ میں مسورین کی لڑائی میں روس کی حملہ آور فوج کو دوسری مرتبہ شکست دی۔ روسیوں کا نقصان ایک لاکھ پچیس ہزار ہلاک ایک سو پچاس توپیں اور آدھی ٹرانسپورٹ تباہ جبکہ جرمنوں کے چالیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔ روس کی طرف سے افرادی برتری کے باوجود روسی ہنڈن برگ کی منظم فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔

روسیوں کی کمزورلیڈرشپ مؤثر رابطے کی کمی راز کی عدم موجودگی اور ذرائع آمدورفت کی خرابی شکست کے اسباب ہیں۔ اگست کے آخر میں ٹائن برگ کی لڑائی میں جرمنوں کی فتح فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ بحیرہ بالٹک کے قریب مشری پرشیا کے محاذ پر ہڈن برگ نے روسی جنرل سیمونوف کی دوسری روسی فوج کو شکست دے کر کونگیزبرگ کی فتح کا راستہ روکا۔ ایک لاکھ سے زائد روسی ہلاک ہوئے اور پانچ توپیں قبضہ میں لے لی گئیں۔ علاوہ ازیں سیمونوف نے اس شکست سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔ جرمنوں کے دس ہزار سے پندرہ ہزار تک فوجی ہلاک ہوئے۔

تانن برگ کی فتح سے نہ صرف جرمنوں کی یورپ میں پوزیشن مضبوط ہوئی بلکہ ان کا حوصلہ بھی بلند ہوا جبکہ یورپ میں روس کی ساکھ کو شدید جھٹکا لگا۔ بعض وجوہ کی بنا پر ترکی کے وزیردفاع انورپاشا کا جھکائو جرمنی کی طرف تھا چنانچہ اکتوبر کے آخر میں ترکی نے بھی اتحادیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا جس کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی۔ برطانیہ اور فرانس کے جنگی جہازوں نے ترکی کے جزیرہ نُما گیلی پولی کے قلعوں پر شدید بمباری کی جو کہ بحیرہ ''میمورا‘‘ اور استنبول میں رسائی کا راستہ ہیں۔ اتحادیوں کا بنیادی اور فوری مقصد استنبول پر قبضہ تھا۔ چرچل کے مطابق اس سکیٹر پر حملے سے جرمنی کا روس کی طرف دبائو کم ہو جائے گا۔ روسی دو مرتبہ اتحادیوں سے اس علاقہ میں مداخلت کی درخواست کر چکے تھے کیونکہ وہ استنبول پر قبضہ اپنے فوجی مقاصد کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-05/25210



غزوہ احد میں ایک کافر کو رسول اللہ ﷺ نے نیزہ مارا تو اس کا کیا حشر ہوا؟
Sep 05, 2021 | 18:46:PM

سورس: File/Wikimedia Commons

غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے کے بعد کفار نے رسول اللہ ﷺ پر تیر اندازی شروع کی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سامنے آ کر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے کہ تیر مجھے لگے میرے سرکار کو نہ لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے کافروں کے تیر روکتے لیکن انہیں کسی تیر سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جو بھی تیر آتا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسے اپنے ہاتھوں سے روک کر کافروں کی طرف پھینکتے جس سے کافروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مشرکین مکہ واصل جہنم ہو نے لگے ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اس بہادری کے منظر کو دیکھا تو زبان نبوت سے ایسا اعزاز و انعام نصیب ہوا جو سوائے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ حضور ﷺنے فرمایا : سعد رضی اللہ عنہ ایک تیر اور پھینک تیرے تیر پھینکنے پر میرے ماں باپ قربان۔

حضرت طلحہؓ حضورﷺ پر ہونے والے تلواروں کے وار اپنے ہاتھوں اور شانوں پر روکتے رہے۔ مشرکین کے حملے اتنے شدید تھے کہ اُن کا زرہ کے نیچے ہاتھ اور شانہ شل ہو کر بے کار ہو گیا، انگلیاں کٹ کر نیچے گر گئیں۔ حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ کو 35 سے زاید زخم آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا’’ اُحد کے دن ہم سب لڑائی کے لیے اگلی صفوں میں چلے گئے تھے۔ پھر گھیرائو کے بعد مَیں پہلا شخص تھا، جو حضورﷺ کے پاس پلٹ کر آیا۔ دیکھا کہ آپؐ کے سامنے ایک آدمی ڈھال بنا، آپؐ کی طرف سے لڑائی کررہا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ یہ طلحہؓ ہی ہوں گے۔ میرے ماں باپ طلحہؓ پر فدا ہوں، وہ طلحہؓ ہی تھے۔ اتنے میں ابو عبیدہؓ بن جراح بھی دوڑتے ہوئے میرے پاس آگئے۔ ہم دونوں آنحضرتؐ کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ آپؐ کے آگے طلحہؓ بچھے پڑے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا’’ اپنے بھائی طلحہؓ کو سنبھالو، اس نے جنّت واجب کرلی ہے۔‘

جنگ کے دوران حضرت سعدؓ کے بھائی، عتبہ بن ابی وقاص نے نبیٔ رحمتﷺ کی جانب پوری قوّت سے پتھر اُچھالا، جو آپﷺ کے رُخِ انور کو مجروح کر گیا۔ آپؐ کا داہنا نچلا دانت ٹوٹ گیا اور نچلے ہونٹ پر بھی زخم آیا۔ اسی اثنا میں ایک اور مُشرک عبداللہ بن شہاب زہری نے آپؐ کی پیشانی زخمی کردی۔ ایک اور کافر گھڑ سوار عبداللہ بن قمعہ مجمع چیرتا آگے بڑھا اور سرکارِ دو عالمﷺ پر تلوار سے وار کیا، جو شانے پر لگا، لیکن دو زرہیں ہونے کی وجہ سے شانہ تو محفوظ رہا، مگر اس کی چوٹ کافی عرصے تک تکلیف دیتی رہی۔ پھر اُس بدبخت نے چہرۂ مبارک پر تلوار ماری، جو خَود (لوہے کی ٹوپی) پر لگی اور خود کی دو کڑیاں رُخسارِ مبارک کے اندر دھنس گئیں۔ چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا۔ آپؐ زخمی حالت میں پاؤں پھسلنے سے ایک گڑھے میں جاگرے، جس سے آپؐ کے پاؤں میں موچ آگئی۔

رسول اللہ ﷺ کی تکلیف اور زخموں کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ حضورﷺکو میدانِ جنگ سے پہاڑ کی گھاٹی میں محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے۔ راستے میں چڑھائی تھی اور حضورﷺ زخمی بھی تھے۔ پھر دو زِرہیں بھی زیبِ تن تھیں، لہٰذا اوپر چڑھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے نیچے بیٹھ کر آپؐ کو کاندھوں پر اُٹھا لیا اور چٹان تک پہنچ گئے۔ ایک بار پھر حضورﷺ نے فرمایا’’ طلحہؓ نے جنّت واجب کرلی۔

اللہ کے رسولؐ احد کی گھاٹی میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر آرام فرما رہے تھے کہ اچانک باہر شور کی آواز آئی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ مشرک سردار، اُبی بن خلف چند لوگوں کے ساتھ باآواز بلند کہتا آرہا ہے کہ’’ آج محمّدرہیں گے یا مَیں(نعوذ باللہ)‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا’’ اسے قریب آنے دو۔‘‘ جب وہ قریب آیا، تو سَر سے پائوں تک لوہے کے لباس میں ملبوس تھا۔ صرف خَود اور زِرہ کے درمیان چھوٹی سی جِھری سے اُس کا حلق نظر آ رہا تھا۔

اِس سے پہلے کہ وہ حملے کی جسارت کرتا، آنحضرتﷺ نے قریب موجود حضرت حارثؓ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اُس کی جانب اُچھال دیا، جو اسی جِھری سے اندر جاکر حلق میں چُبھ گیا۔ وہ گھوڑے سے گرا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنی قوم کے پاس چیختا ہوا پہنچا کہ’’ لوگو! محمّد نے مجھے قتل کردیا ہے۔‘‘ سب نے اُس کا مذاق اڑایا کہ یہ تو بہت چھوٹی سی چوٹ ہے، لیکن وہ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336886?fbclid=IwAR2rC8-0IyUCSgtQQfZp_AJ9RrbjeHRWOicVXX79N7oJhL96FIKzLskAKmo



یوم دفاع، 1965ء کی جنگ کے بعد عوام اور مسلح افواج کے بارے میں وہ باتیں جو شاید آپ کو معلوم نہیں
Sep 05, 2021 | 16:15:PM


لاہور (کالم: چوہدری خادم حسین) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹوریٹ کے مطابق اِس بار یوم دفاع کو دفاع کے ساتھ ساتھ شہدا کے نام کیا گیا،اور جہاں دفاعی فورسز کو خراجِ عقیدت پیش ہو گا وہاں شہدا اور ان کے وارثان کو بھی یاد کیا جائے گا،اس سلسلے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے مسلسل ویڈیو بھی جاری کی جا رہی ہیں۔یہ بھی مثبت اقدام ہے کہ جو جوان اپنے وطن کے تحفظ کی خاطر جان قربان کرتے ہیں،ان کا درجہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک بھی بلند ہوتا ہے، اللہ ان سب کے درجات بلند کرے۔

ماہِ ستمبر بھی ہر سال آتا اور6ستمبر بھی اپنے ساتھ یادیں لئے چلی آتی ہے۔میری کیفیت ستمبر کے آغاز ہی سے کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ یادیں امڈتی چلی آتی ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری قوم کی طرح ہمارا جذبہ بھی بیدار تھا،اور مَیں نے اور میرے دوسرے ہم عصر صحافی دوستوں نے اس جنگ ِ ستمبر کی کوریج بھی کی۔ مَیں نے تو مسلسل افواج کی واپسی تک اور اس کے بعد71ء کی لڑائی کے لئے بھی خبریں تلاش کیں اور خبریں فائل کرتا رہا۔

یوں ملکی دفاع کے ساتھ ایک تعلق بن گیا اور یہ تعلق ایسا ہے کہ مجھے آج بھی وہ سب یاد ہے اور 3بلوچ رجمنٹ کے تو سب حضرات یاد آتے رہتے ہیں، جنہوں نے باٹا پور کا معرکہ لڑا اور ملکی دفاع کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی کہ لاہور کے جمخانہ(باغ جناح والے) میں شراب پینے کی بھڑک والوں کو منہ توڑ جواب دیا،اور بی آر بی کے اس پار روک لیا،اس جدوجہد میں 3بلوچ کے علاوہ فرنٹیئر فورس (سائیفن) اور پنجاب رجمنٹ(برکی سیکٹر) کا اپنا کردار ہے تاہم میرے اور میرے ساتھیوں استاد محترم سید اکمل علیمی اور فوٹو گرافر محمد یعقوب بھٹی (مرحومین) کا زیادہ آنا جانا، اور تعلق3۔ بلوچ کے افسروں اور جوانوں ہی سے رہا،مَیں اور بھٹی تو فائر بندی کے بعد عرصہ تک آتے جاتے رہے،اور اب تک مَیں معرکہ باٹا پور کا حافظ ہوں اور مجھے ایک ایک تفصیل یاد ہے،

اس وقت بٹالین کمانڈر کرنل تجمل حسین ملک(مرحوم جو میجر جنرل تک پہنچے) ان کے سٹاف افسر خالد انور (جو لیفٹیننٹ جنرل(ر) ہیں) سکینڈ اِن کمانڈ میجر نفیس الدین انصاری(مرحوم) کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔میجر انور شاہ اور میجر نواز کے علاوہ کیپٹن اقبال چیمہ سے دوستی اور تعلق بھی فخر کا باعث ہے۔کیپٹن اقبال چیمہ جنگ ِ ستمبر کے بعد چند سال ہی دنُیا میں رہے اور پھر اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔

یہ یادیں ایسی ہیں کہ جتنا بھی یاد کیا جائے اتنا ہی سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔مَیں بعض نقاد حضرات کی ایک تنقید کا جواب دینا چاہتا ہوں جو جنگ ِ ستمبر کو بھی ملک کی ناکامی میں شمار کرتے اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ دن کس خوشی میں منایا جاتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ بلاشبہ 6ستمبر کو بھارت کی افواج نے در اندازی کی اور سترہ روزہ جنگ میں ہمیں نقصان ہوا اور قریباً پانچ ہزار مربع میل علاقے پربھارتی فوج قابض تھی، حتیٰ کہ بی آر بی کے پرلے کنارے سے ہڈیارہ، برکی اور جلو پنڈ تک بھی آ گئی تھی، اور سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کا معرکہ بھی ہوا تھا۔

یہ سب درست تاہم مَیں یہی عرض کروں گا کہ یہ دن یوم فتح نہیں، یوم دفاع ہے، اور فخر اس پر نہیں کہ بھارت کو شکست دی۔ناز اس پر ہے کہ بھارتی افواج کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیئے گئے۔ ہمارے جوانوں نے اپنے ملک کا دفاع بھی کیا۔دشمن کے ارادے خاک میں ملائے اور اس کو بھاری نقصان بھی پہنچایا،ہماری بری افواج کے علاوہ ائر فورس اور بحریہ کے بہادرانہ کارنامے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔بحریہ نے دوارکا تباہ کر کے رکھ دیا تو ہمارے فضائی جانبازوں نے ہلواڑہ کے ہوائی اڈے کو حلوہ بنا کر رکھ دیا تھا۔

جہاں تک اس جنگ ِستمبر کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا موقع تھا،جب فوج اور عوام نہ صرف ایک پیج پر تھے،بلکہ یک جان و دو قالب والا حساب تھا، اس حوالے سے عرض کروں کہ اُس وقت کے صدر ایوب اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان بھی شدید محاذ آرائی تھی۔ایوب خان نے اپنے نافذ کردہ بی ڈی سسٹم کے ذریعے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ اور متحدہ اپوزیشن کی صدارتی امیدوار مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو دھاندلی سے ہرایا تھا، تاہم جب دشمن حملہ آور ہوا تو اپوزیشن سب کچھ بھول گئی، اوردفاع وطن کے لئے صف بستہ ہو گئی، شعرا، ادیبوں اور گلوکاروں نے اپنا فرض ادا کیا،ملکہ ترنم نور جہاں اور دوسرے ہم عصر گلوکاروں اور فنکاروں نے بھی اپنا فن نچھاور کیا۔

فائر بندی کے بعد ملکہ ترنم نورجہاں مختلف محاذوں پر خود گئیں اور ”وطن کے سجیلے جوانوں“ کے لئے اپنے نغمے گائے۔مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ جونہی سرحدی علاقے میں جانے کی اجازت ملی اور گروپوں کی شکل میں عوام جانے لگے تو اجازت کے لئے لمبی لمبی فہرستیں تھیں۔مَیں، سید اکمل علیمی اور یعقوب بھٹی ان مواقع پر معرکہ باٹا پور والوں (3بلوچ) کے پاس ہوتے تھے، ہم نے ایک دو نہیں کئی روز یہاں گذارے اور عوامی جذبہ دیکھا کہ سرحدی علاقے میں جانے والے خالی ہاتھ نہیں ہوتے تھے۔کھانے، پھل اور مٹھائیوں کے ساتھ ساتھ مشروبات یہ سب اتنا ہوتا کہ ہمارے بہادر نہ صرف ہماری دعوت کرتے،بلکہ اردگرد کے دیہات تک بھی یہ سامان تقسیم کرتے تھے۔

اس حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے،تاہم عرض کروں کہ جذبہ کیا ہوتا ہے۔ حکومت نے ایک سکیم شروع کی۔ کہا گیا، ”ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک“ تب پیسے بھی چلتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ قوم اگر ایک ایک پیسہ دے تو ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے،قوم کا جذبہ یہ تھا کہ جس کے پاس جو تھا، وہ لے آیا، خواتین نے تو اپنے زیورات تک دے دیئے تھے اور یوں یہ ٹیڈی پیسہ، چندہ مہم خزانہ بھر گئی تھی، ہم شہریوں کا یہ عالم تھا کہ ان کو سرحدوں کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہو گیا تھا،اور واہگہ کی طرف جانے والوں کو شالیمار باغ اور اس سے آگے پاکستان منٹ پر روکا جاتا تھا،

یہ زندہ دِلان لاہور تھے کہ جس روز بھارتی طیارے نے لاہور ریلوے سٹیشن کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کیا اور بم اک موریہ پل سے پیچھے مصری شاہ کی طرف گرا تو لوگ سڑکوں پر نکل کر اللہ ہو اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ پھر وہ دن بھی یاد ہے،جب لاہور کی فضا میں شاہینوں نے بھارتی مگ کو گھیرا اور باقاعدہ گن فائٹ ہوئی تو لاہوریئے چھتوں اور سڑکوں پر ایسے دیکھ اور نعرے لگا رہے تھے، جیسے پتنگ بازی ہو رہی ہو۔ موچی دروازہ کا ہمارا ایک دوست چھت پر لڑائی دیکھتے ہوئے اچٹتی گولی سے شہید ہوا تھا۔

یادیں اور باتیں اتنی ہیں کہ ختم ہی نہ ہوں،عرض تو یہ کرنا ہے کہ زندہ قومیں ہی امتحان میں سرخرو ہوتی ہیں۔ستمبر1965ء وہ یادگار ہے کہ اس دوران ”کرائمز ریٹ“ صفر تھا،اور مجرم بھی تائب ہو گئے تھے۔ مَیں یہ سوال کر کے بات ختم کرتا ہوں کہ کیا ہم اب بھی تائب ہو سکتے اور ہمارے اندر وہ جذبہ جہاد و شہادت پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ مَیں اپنے بہادر محافظوں کے بعد باقی سب کے لئے کہہ رہا ہوں۔
https://dailypakistan.com.pk/05-Sep-2021/1336873?fbclid=IwAR3t_8Mhcbh8Qc_ZFk8BiAzYU29UEgOqZ6rBZ73tfc5hWz1wWzDcg4YXZbI



بونسائی: شجرکاری کا ایک انوکھا طریقہ
 4 September, 2021


تحریر : مبین احمد اعظمی

بونسائی کا مطلب ہے ''بونے پودے‘‘ یا پودوں کو چھوٹا بنانا۔ یعنی شاخوں اور جڑوں کی مسلسل تراش خراش کرکے اس قدر چھوٹا بنانا کہ وہ دیکھنے میں ایک مکمل درخت نظر آئے لیکن سائز میں بالکل چھوٹا ہو، بونسائی کہلاتا ہے۔

اگر ہم بونسائی کی تاریخ کی بات کریں تو اس کی ابتداء چین میں ایک ہزار سال قبل ہوئی۔ چینی زبان میں اسے ''پنسائی‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور جب یہ فن جاپان میں پہنچا تو جاپانی زبان میں ''بونسائی‘‘ ہوگیا۔ چینی لوگ بونسائی کے ذریعہ پودوں کو الگ الگ جانوروں اور پرندوں کی شکل دیا کرتے تھے۔ اس کے پیچھے ان کے کچھ رسم و رواج اور دیومالائی کہانیاں وابستہ تھیں۔ جاپان میں اس کا داخلہ زین بدھ ازم کے ذریعہ 12ویں صدی میں ہوا، لیکن جلد ہی یہ بدھ بھکشوئوں کے پاس سے نکل کر اعلیٰ ذات کی عزت و وقار کی علامت بن گیا۔ 19ویں صدی کے وسط تک جاپان میں یہ فن اپنے عروج پر تھا اور اس دوران وہاں پہنچنے والے بیرونی سیاحوں کے ذریعے بونسائی‘ جاپان سے باہر کی دنیا میں متعارف ہوا۔

بونسائی کے ترقی یافتہ دور کا تعلق جاپان سے ہے۔ جس میں پودوں کو چھوٹے سائز میں ہی پرکشش شکل دی جاتی ہے۔ اس ماڈرن دور کی بات کریں تو اب بونسائی پودوں کو سجاوٹ اور تفریح طبع کے مقصد کیلیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ٹھیک سے دیکھ بھال کی جائے تو بونسائی پودے آرام سے سو سوا سو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔نئے قلمی پودے کو بونسائی بنانے کے لیے کوکوپٹ، ریت اور گوبر کی کھاد ملاکر خاص بھربھری بنائی گئی مٹی اور اتھلے برتن کی ضرورت ہوتی ہے۔
بونسائی درخت کا سائز: بونسائی پودے کی ہیئت اور سائز پر مت جائیے، ان کو پودے سے پیڑ بننے میں عام درختوں سے تو کم وقت لگتا ہے لیکن پھر بھی برسوں لگ جاتے ہیں۔ ایک عام درخت بڑا ہونے کے بعد 5میٹر یا اس سے بھی اونچا ہوتا ہے۔ وہیں سب سے بڑے ہیئت کے بونسائی درخت کی اونچائی زیادہ سے زیادہ ایک میٹر رکھی جاسکتی ہے۔ بہت چھوٹا بونسائی 15سینٹی میٹر، اس سے بڑا 15 سے 30 سینٹی میٹر، درمیانی بونسائی 30 سے 60 سینٹی میٹر اور بڑا بونسائی 60سینٹی میٹر سے اونچا ہوتا ہے۔ آپ ایسا پودا منتخب کریں جس کی ہیئت اچھی ہو اور جو کٹائی اور چھانٹی کے بعدآسانی سے آپ کی خواہش کے مطابق خوبصورت لگے۔ خیال رہے کہ اگرآپ بیج سے پودے اگانا چاہتے ہیں تو آپ پودے کی نمو اور بڑھوتری کے ہر مرحلے میں جس طرح چاہیں کنٹرول کرسکتے ہیں۔

بونسائی کیسے بنائیں : بونسائی پودے آپ دو طریقوں سے بنا سکتے ہیں۔ (۱) چھوٹے قلمی پودے سے (۲) بیج کے ذریعہ سے۔ لیکن بیج سے بونسائی بننے میں کافی وقت لگ سکتا ہے، اس لیے آپ چھوٹے قلمی پودے سے ہی بونسائی بنانا شروع کریں۔سب سے پہلے احتیاط سے پودے کو مٹی سے الگ کریں اور اس کی جڑوں پر لگی مٹی کو برش سے ہٹائیں۔ اب اس کے تنوں اور جڑوں کی تھوڑی تھوڑی کٹائی کریں تاکہ وہ پودا بونسائی گملے میں فٹ بیٹھ سکے۔ اب گملے میں مٹی ڈالیں اور دو تین انچ موٹی مٹی کی پرت بناکر پودے کو رکھیں۔ پھر جڑوں کی چاروں طرف مٹی پھیلاکر دھیرے دھیرے دبائیں۔ اس کے بعد مٹی کے اوپر بجری اورکنکریاں پھیلائیں تاکہ گملا صاف ستھرا لگے۔ کچھ دنوں بعد جب پودا گملے میں اچھی طرح جم جائے تو اس کی ٹہنیوں پر دھاتوں کی تار لپیٹ کر اسے عام درخت جیسی شکل دیں۔ ویسے ٹہنیوں کو نیچے کی طرف جھکانے کے لیے کچھ لوگ وزن بھی باندھتے ہیں۔درخت کو خوبصورت اور من پسند شکل دینے کے لیے اس کی ٹہنیوں اور شاخوں کو بڑھتے ہی لگاتار کاٹتے جانا ہوگا۔ جتنی اونچائی کا بونسائی آپ چاہتے ہیں، اتنی اونچائی حاصل کر لینے کے بعد آنے والی نئی کونپلوں کو کاٹتے جا ئیں تاکہ وہ مزید اونچا نہ ہو، بلکہ اسی اونچائی پر پھیلتا جائے اور خوبصورت نظر آئے۔ اس طرح درخت کی لمبائی میں رکاوٹ ہوتی جاتی ہے لیکن چوڑائی میں وہ پھیلتا جاتا ہے۔

جڑیں اور ری پاٹنگ (Repoting):بونسائی کے عمل میں پودوں کو وقفے وقفے سے نئے برتنوں میں منتقل کرنا ہوتا ہے جسے ری پاٹنگ (Repoting) کہتے ہیں۔ یہ ری پاٹنگ الگ الگ پودوں کے لیے چھ مہینے سے لے کر ایک سال، دو سال، تین سال یا چار سال تک میں کی جاتی ہے۔ ری پاٹنگ کے عمل میں پودے کی جڑوں کی کٹائی بھی کی جاتی ہے اور اسے کسی بڑے برتن میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جب پودا بڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کی جڑیں بھی بڑھتی ہیں۔ ایسے میں ان کے برتن بدلنے کے دوران جڑوں کی بھی چھانٹی کرتے جاتے ہیں۔

بونسائی کے فائدے
٭... بونسائی ایک اچھا روزگار بھی ہے۔ اس کی دیکھ بھال فارغ افراد کے ذریعہ اچھی طرح سے کی جا سکتی ہے۔
٭... جگہ کی کمی کی وجہ سے جو پودے گھر میں لگانا ممکن نہیں تھے، وہ بھی اب ہم اپنے گھروں میں لگا سکتے ہیں۔
٭... بونسائی بے حد خوبصورت اور دلکش ہوتاہے۔ یہ گھر کی خوبصورتی بڑھاتا ہے۔
٭... دیگر فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کی طرح اسے وقت مقررہ پر کاٹنا اور بیچنا نہیں پڑتا۔

٭... پھل، پھول اور سبزیوں کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کئی بار کسانوں کو صحیح قیمت نہیں مل پاتی اور خراب ہوجانے کے ڈر سے کسان انہیں کم قیمت پر بیچ دیا کرتے ہیں، لیکن بونسائی کی صحیح دیکھ بھال اس کی قیمت کو بڑھاتی ہے۔
٭... باغبانی ذہنی تنائو کو دور رکھنے میں مدد کرتی ہے، لیکن شہروں میں باغبانی ممکن نہیں ہو پاتی، ایسے میں بونسائی ایک اچھا ذریعہ ہے۔
٭... جن کسانوں کے پاس کھیتی کے کم رقبے ہیں، ان لوگوں کے لیے بونسائی ایک اچھا ذریعہ آمدنی ہے۔

٭... اگر گھر میں بونسائی لگایا جائے، تو گھر کے بچے بھی درختوں کی اہمیت کو سمجھیں گے اور ان کے رکھ رکھائو کو بے حد آسانی سے سیکھ جائیں گے۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-04/25207



قلعہ روہتاس ،جنگی طرز تعمیر کا شاہکار
 1 September, 2021


تحریر : فرخ ، رانا عثمان

شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس جرنیلی سڑک پر جہلم میں واقع ہے۔ دریائے جہلم بھی یہاں ہی ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ''خواص خانی‘‘ دروازے سے قلعے میں داخل ہو اجاتا ہے۔قلعہ میں سب سے حیران کن چیز باؤلی یعنی ''سیڑھیوں والے کنویں‘‘ ہے۔ قریبی فصیل پر بھی چڑھا جاسکتا ہے ۔یہ آپ کو 6 صدیاں پیچھے تاریخ میں لے جاتاہے۔ آج یہ کھنڈرات میں تبدیل ہورہا ہے۔

شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی ، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیاتھا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہیں، اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں سے گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔

اخراجات:ایک روایت کے مطابق ''ٹوڈرمل ‘‘نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدوروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کے کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔
یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔

قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت عملی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھاجبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے'' دور شیر شاہی‘‘ میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی ، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔

قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلمہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے

موجودہ حالت:قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-09-01/25206



قومیں جو باہر سے آکر ہند میں آباد ہوئیں
 30 August, 2021


تحریر : ای - مارسڈن

ہمالیہ پہاڑ کے شمال میں وسط ایشیاء ہے۔ وہاں بڑی سردی پڑتی ہے، کیونکہ بڑے بڑے پہاڑ برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ زمین اکثر سخت اور پتھریلی ہے۔ مینہ بہت کم برستا ہے۔ دریا بھی بہت کم ہیں۔ جو قومیں ان سنگلاخ قطعوں میں آباد ہیں۔ اپنے مویشیوں کے لیے گھاس چارے کی تلاش میں جابجا پھرتی رہتی ہیں۔ ان کا گزارہ بھی بمشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں غلہ آسانی سے پیدا نہیں ہو سکتا۔

ہمالیہ کے جنوب میں ہزار میل سے زیادہ تک ایسے وسیع میدان واقع ہیں جو گرم ہیں۔ ان میں سورج کی روشنی بکثرت ہے اور بڑے بڑے دریا بہتے ہیں۔ یہاں گزارہ بھی آسان ہے کیونکہ زمین زرخیز ہے اور ہر قسم کی جنس اچھی طرح پیدا ہوتی ہے۔ نہایت قدیم زمانے سے سرد شمالی ملکوں کے باشندے پہاڑوں کے دروں کی راہ جنوب کے زرخیز میدانوں میں آتے رہے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے شمالی وطن کی نسبت یہاں کیسی آسانی سے گزارہ ہو سکتا ہے تو انہی میدانوں میں رہنے سہنے لگ جاتے ہیں۔

کچھ عرصے کے بعد جب کوئی اور قوم ان کے پیچھے آتی تو ان سے پہلے کے آئے ہوئوں کو جنوب کی طرف ہٹا دیا جاتا یا ان کے ساتھ مل جل کر اور دوستی پیدا کر کے سب رہنے لگتے۔ ایسا کتنی ہی دفعہ ہو چکا ہے۔ اب ان میں سے بعض قوموں کے نام تک کسی کو یاد نہیں ہیں، لیکن جہاں تک معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جو قومیں وقتاً فوقتاً باہر سے آ کر شمالی ہند کے میدانوں میں آباد ہوئیں۔ ان کے نام ترتیب وار یہ ہیں۔ تورانی یا منگول، آرین، اہل فارس، یونانی، سکایا ستھین، ہن، اہل عرب، افغان یا پٹھان، ترک، مغل۔

ان قوموں میں سے ہر ایک کا کچھ کچھ حال جاننا ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ کیونکر، کب اور کہاں ہند میں آباد ہوئیں؟ بعض یعنی تورانی صرف شمال مشرقی ہند ہی میں آئے۔ اہل فارس، اہل یونان اور اہل عرب شمال مغربی حصے سے آگے نہ بڑھے، کچھ اور قومیں یعنی مغل، ترک اور پٹھان اکثر شمالی ہند میں دریائے سندھ اور گنگا کی وادیوں میں آباد ہوئیں، کچھ اور قومیں مثلاً سکا اور ہن شمال مغرب اور وسط ہند کے مغربی حصے میں رہنے لگیں۔ آرین لوگ جو تقریباً سب سے پہلے آئے تھے، سب سے آگے پہنچے، اور جنوبی ہند کے سوا جہاں ان میں سے بہت ہی کم لوگ گئے تھے، پورے ملک میں پھیل گئے۔
تورانی یا منگول

منگول کا قدیم وطن منگولیا تھا۔ یہ وسط ایشیا ء کا وہ ملک ہے جسے چینی تاتار کہتے ہیں اور جہاں سے یہ لوگ چین اور اس کے آس پاس کے ملکوں میں پھیل گئے تھے۔ مسلمان مؤرخ اس ملک کو توران کہتے ہیں اور اس کے باشندوں کو تورانی اور تاتاری بھی کہتے ہیں۔

ان کا قد چھوٹا، سر چوڑا، ناک چپٹی، آنکھیں تنگ اور ترچھی اور رنگ زردی مائل بھورا تھا۔ آرین قوم کے وارد ہونے سے بہت پہلے ان کے گروہ کے گروہ ہند میں اتر آئے اور شمال مشرق کے ان ملکوں میں بھر گئے جو اب آسام اور بنگال کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ ان پہاڑی راستوں سے آئے تھے جن میں سے ہو کر دریائے برہم پُتّر اور اس کے معاون اس ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ کول اور دراوڑ سے زور آور اور تند خو تھے۔ اول اول یہ لوگ کول اور دراوڑ سے لڑے، لیکن کچھ زمانے کے بعد آہستہ آہستہ انہی میں مل جل گئے۔ زمانۂ دراز سے ہند میں رہنے اور قوموں سے مل جل جانے سے ان لوگوں کی شکل و صورت میں بہت فرق آ گیا ہے، پھر بھی ان صوبوں کے باشندوں کی شکل و شباہت اور رنگ و قد سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے بزرگ کون تھے۔

زمانہ قبل از تاریخ: کول اور دراوڑ تو اس ملک میں پہلے ہی سے موجود تھے اور تورانی ہند میں ایسے وقت آئے جب تاریخ شروع ہی نہیں ہوئی تھی اور جس کا کوئی تاریخی پتا ہی نہیں چلتا۔ ایسی صورت میں لازم آیا کہ آرین قوم کے وارد ہونے سے پہلے کے کل زمانے کو زمانہ قبل از تاریخ کہا جائے۔ اس زمانے کا درست اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تخمیناً صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدا ء سے لے کر مسیح کی ولادت سے تقریباً 2 ہزار سال پیشتر تک اس کی میعاد ہے۔
''تاریخِ ہند‘‘ سے مقتبس
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-30/25203



امرتا پریتم،شہرۃ آفاق افسانہ نگار ،شاعرہ ،ناول نگاراور قلم کا استعارہ
 30 August, 2021


تحریر : اختر سردار چودھری

اردو، پنجابی،ہندی کی معروف شاعرہ اور کہانی کار امرتا پریتم 31اگست 1919 ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں ، اصل نام امرت کور تھا ، تقسیم ہند کے بعد دہلی میں رہائش پذیر ہوگئیں لیکن تقسیم پنجاب کے وقت ہونیوالے خونیں واقعات نے امرتا پریتم کے دل ودماغ پر قبضہ جمائے رکھا ، خون کی ندیاں پار کرتے ہوئے انہوں نے خواتین اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار جس طرح سنی اسی طرح سپرد قلم کردی ۔وہ ایک صدی کی نامور شہرۂ آفاق افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نگار تھیں ۔
امرتا کے والد ماسٹر کرتار سنگھ جی اوروالدہ راج کور دونوں سکول میں پڑھاتے تھے ۔ امرتا نے بھی جلد ہی پڑھنا لکھنا شروع کر دیا۔امرتا جب 11سال کی ہوئیں تو انکی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ باپ بیٹی گوجرانوالہ چھوڑ کر لاہور آ بسے۔ امرتا نے نظمیں لکھنا شروع کردیں ، انکی نظمیں کرتار سنگھ کے ایک دوست جگت سنگھ کو بہت پسند آئیں انہوں نے اپنے بیٹے پریتم کیلئے امرتا کا ہاتھ مانگ لیا۔ کرتار سنگھ نے بھی فوراً ہاں کر دی اور یوں 16سال کی عمر میں امرتا کی شادی ہوگئی اور وہ امرتا پریتم بن گئیں ۔ اسی سال ہی ان کی نظموں کی پہلی کتاب بھی شائع ہوگئی تھی۔
امرتا پریتم نے 100 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔'' کاغذ اور کینوس،خاموشی سے پہلے،ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان،کچے ریشم کی لڑکی،رنگ کا پتہ،چک نمبر چھتیس،ایک تھی سارا،من مرزا تن صاحباں،لال دھاگے کا رشتہ ، لفظوں کے سائے،درویشوں کی مہندی،حجرے کی مٹی، چراغوں کی رات ، پنجر، کورے کاغذ ،انچاس دن ،ساگراور سپیاں، ناگ منی ،دل کی گلیاں ،تیراہوں سورج ، نویں رت ،چنی ہوئی کویتائیں ، رسیدی ٹکٹ (آپ بیتی)‘‘ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں آخری کتاب ''میں تمہیں پھر ملوں گی‘‘نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول'' پنجر ‘‘پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔اس کے علاوہ بھی ان کی کئی تخلیقات پر درجنوں فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔

امرتا پریتم بھارتی ایوان کی رکن بھی رہیں ،دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی 3 اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 ء میں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے اعتراف پر اعلیٰ ترین گیان پتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔وہ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ پانے والی اورصدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی پہلی پنجابی بھارتی خاتون تھیں۔ انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔پنجابی زبان کی صدی کی شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا۔امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامہ میگزین'' محفل ‘‘نے امرتا پریتم پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا ۔

آل انڈیا ریڈیو میں بطور پنجابی اناؤنسر1948 ء سے 1959ء تک کام کیا۔مئی 1966 ء سے2001 ء تک پنجابی رسالے ، ناگ منی، کی ادارت کی ذمہ داری سرانجام دیتی رہیں ۔ امرتا اور پریتم کی شادی زیادہ عرصہ نا چل سکی انکاساحر لدھیانوی کے ساتھ معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے۔امرتا پریتم اس بات کی خواہش رکھتی تھیں کہ دونوں ممالک کے پنجابی ادب کو شہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو ادب کو جاننے کا موقع مل سکے ۔ان کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی ،ڈینش اورمشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔

امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت ظلم و جبر سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی نظرآتی ہے انکی سب سے زیادہ شہرۂ آفاق نظم پیش ہے۔اس موقع پر امرتا نے وارث شاہ کودہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ، اے دکھی انسایت کے ہمدرد تو نے پنجاب کی ایک بیٹی کے المیے پر پوری داستانِ غم رقم کر دی تھی، آج تو ہیر جیسی لاکھوں دُخترانِ پنجاب آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہیں۔ اُٹھ اور اپنے مرقد سے باہر نکل!اصل پنجابی متن کچھ اس طرح سے ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وَین
اَج لَکھاں دھیآں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
زندگی کی86بہاریں دیکھنے کے بعد 31 اکتوبر 2005 ء کو امرتا پریتم ااس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-08-30/25202



غزوہ بدر کی تیاری ،313 مسلمانوں اور ایک ہزار کفار کا مقابلہ، جب فرشتے مدد کو اترے
Aug 29, 2021 | 17:57:PM


بدر مدینہ منورہ سے 120 کلومیٹر دور ہے، یہ ایک بستی ہے جو بدر بن حارث سے منسوب ہے، اس نے یہاں کنواں کھودا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ جگہ بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب ہے جس نے اِس جگہ پڑاؤ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا، اِسی بنا پر اِس بستی کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مشاورت کیلئے طلب کیا، مہاجرین نے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پرجوش تقریر فرمائی، لیکن رسول کریم ﷺ انصار کی طرف دیکھتے رہے، بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ اللہ کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔ مہاجرین کی جانب سے مکمل جاں نثاری کی یقین دہانی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا، اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ، ’’ یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اِس پر حضور ﷺ نے اُن کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔

اس موقع پر ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو اِس حدیثِ کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور خوشی سے دمکنے لگا‘ آپ خوش ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”میں نے حضرت مقداد بن اسودؓ کی یہ ایسی نیکی دیکھی کہ اگر وہ مجھے حاصل ہوتی تو اِس کے مقابل کسی نیکی کو نہ دیکھتا۔ سب سے زیادہ مجھ کو وہ پسند ہوتی۔‘

مشاورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا۔ جس کے بعد تمام مسلمان جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔

جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے منافقین اور یہودیوں کی شر انگیزی کے تدارک کیلئے حضرت ابوالبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ کا خلیفہ مقرر کیا، جبکہ مدینہ کی بالائی آبادی پر حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، یہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد آپ بد کی طرف بڑھے۔۔

مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری ۔۔۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔

اس کے بعد اللہ نے اپنی رحمت نازل کی اور فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت اتنی زیادہ تھی کہ اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے، اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ریت جم گئی اور مسلمانوں کا حصہ بہتر ہوگیا، اس کے علاوہ جگہ جگہ بند لگا کر مسلمانوں نے پانی کو روک لیا اور ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/29-Aug-2021/1333944?fbclid=IwAR3LjX5LTGs7q2pKJF0Voi1ymGPCc4k9MhH5HXAewI5GbvdDb_8PW53uZS8



رسول اللہ ﷺ نے امت کا فرعون کسے قرار دیا؟
Aug 29, 2021 | 18:05:PM


غزوہ بدر کے دن کفار مکہ کا سب سے بڑا سردار ابو جہل قریشی نوجوانوں کے گھیرے میں تھا، اسی دوران دو نوعمر بھائی معاذ اور معوذ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا چچا جان کیا آپ ابو جہل کو جانتے ہیں، ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘ اتفاق سے ابوجہل کا گزر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کردیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ اس دوران ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بن ابوجہل بھی آگیا، انہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ عکرمہ نے معاذ کے کندھے پر وار کیا جس سے ان کا بازو لٹک گیا۔ معاذ ایک ہاتھ سے ہی لڑتا رہا اور جب اس نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ راستے کی رکاوٹ بن رہا ہے تو اس نے اسے اپنے پاؤں کے نیچے رکھ کر جسم سے الگ کردیا۔ جب ان دونوں بھائیوں نے ابو جہل کو شدید زخمی کیا تو قریشی نوجوان ان پر ٹوٹ پڑے، لیکن ان دونوں بھائیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، جنگ بدر کے بعد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے کٹے ہوئے بازو کو بچے بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے، ایک بار فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کے اسی کٹے ہوئے ہاتھ کو چوما بھی تھا۔۔۔

بدر کے دوران جب کفار کے پاؤں اکھڑے تو وہ اپنے زخمیوں اور سازو سامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس دوران رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو ابوجہل کو دیکھ کر اس کا حال بتائے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے جا کر لاشوں کو دیکھا تو ابو جہل زخمی پڑا ہوا تھا،

اس کا سار ا بدن فَولاد میں چھپا ہوا تھا ، اس کے ہاتھ میں تلوارتھی جورانوں پررکھی ہوئی تھی، زخمو ں کی شدّت کے باعِث اپنے کسی عُضْو کو جُنبش نہیں دے سکتا تھا ۔ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا، اس عالَم میں بھی اُس کے تکبُّر کا عا لَم یہ تھاکہ حَقارت سے بول اٹھا : اے بکریوں کے چرواہے !تُوبڑی اونچی اور دشوار جگہ پر چڑھ گیا

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود فرماتے ہیں : میں اپنی کُند تلوارسے ابوجہل کے سرپرضَربیں لگانے لگا، جس سے تلوا ر پر اُس کے ہاتھ کی گِرِفت ڈھیلی پڑگئی، میں نے اُس سے تلوارکھینچ لی ۔ جانکنی کے عالم میں اس نے اپنا سراٹھایا اور پوچھا : فتح کس کی ہوئی؟ میں نے کہا ، اللہ و رسول کیلئے ہی فتح ہے ۔ پھر میں نے اُس کی داڑھی کو پکڑکرجھنجھوڑا اور کہا اُس اللہ کا شکرہے کہ جس نے اے دشمنِ خدا! تجھے ذلیل کیا ۔ میں نے اُس کا خَوداس کی گُدّی سے ہٹایا اور اسی کی تلوارسے اس کی گردن پر زور دار وار کیا، اس کی گردن کٹ کرسامنے جاگری ۔ پھر میں نے اُس کے ہتھیا ر ، زِرَہ وغیرہ اتار لئے اوراُس کاسراُٹھاکربارگاہِ رسالت میں حاضِرہوگیا اور عرض کی : یارَسُوْلَ اللہ یہ دشمنِ خد ا ابوجَہْل کا سر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے تین بار فرمایا ، خدا کا شکرہے جس نے اسلام اوراہلِ اسلام کو عزّت بخشی ۔ پھر سرکا ر نے سجدۂ شکراداکیا ۔ پھر فرمایا : ہراُمّت میں ایک فرعون ہوتاہے اس اُمّت کا فرعون ابوجہل تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابو جہل کا سر قلم کرنے لگے تو اس نے انتہائی غرور کے ساتھ کہا کہ اس کے سر کو گردن کی لمبائی کی طرف سے قلم کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ سردار کا سر ہے۔

جس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود ابو جہل کا سر قلم کر رہے تھے تو اس نے کہا ’ اپنے نبی کومیرا یہ پیغام پہنچادیناکہ میں عمربھراس کادشمن رہا ہوں اور اس وقت بھی میراجذبۂ عَدوات شد ید تر ہے۔‘ حضرت ابن مسعود نے جب یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تو آپ نے فرمایا میری اُمّت کافرعون تمام اُمّتوں کے فرعونوں سے زیادہ سنگدل اورکینہ پرور ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کوجب موجوں نے اپنے نَرغے میں لے لیا تو پکار اٹھا’ بولامیں ایمان لایاکہ کوئی سچّا معبود نہیں سِوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں ۔‘مگراِس اُمّت کافرعون مرنے لگاتو۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/29-Aug-2021/1333946?fbclid=IwAR1I44N_THMSBzPTUQ49l1SisW5QfPCT6HNfXrmu6Qkr9GwqRnH4abIjn78

No comments:

Post a Comment