یوم پاکستان کی اہمیت
23 March, 2021

تحریر : صہیب مرغوب
23مارچ1940کو منٹو پارک (مینار پاکستان) میں ہونے والا مسلم لیگ کا اجلاس کیوں اہم تھا اور اس میں کیا مطالبہ کیا گیا کہ جو یہ قرار داد لاہور اتنی مشہور ہوئی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔ مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یو پی کے مسلم لیگی رہنماء چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔
قائد اعظم ؒ نے فرمایا کہ ’’میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں، اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں،بلکہ اکثر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کے متعلق ہندوئوں اور مسلمانوں کے خیالات اور تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی ترقی کی تمنائوں کے لیے مختلف تاریخوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں،ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے سربرآوردہ بزرگ اور قابلِ فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔اکثر اوقات ایک قوم کا رہنما دوسری قوم کے بزرگ اور برترہستیوں کا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہوتی ہے۔ہندوئوں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رواجوں اورتاریخی ورثوں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایسی تہذیبوں کے پیروکار ہیں جن کی بنیاد متصادم خیالات اور تصورات پر ہے۔ہندو اور مسلمان آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے،نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔لہٰذا ہندو اور مسلم الگ قومیں ہیں۔ مسلمان ہندوئوں کے ساتھ برابری کے علاوہ کسی اور حیثیت میں سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہیں، ‘‘۔
گزشتہ دونوں ایک عالمی این جی او ’’فریڈم ہائوس‘‘ نے انڈیا کو ’’فری کی بجائے ’’پارٹلی فری ‘‘ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ ملک اپنے ہی شہریوں کے لئے محفوظ نہیں رہا وہاں اقلیتوں ، بالخصوص مسلمانوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔ انہیں سیاسی اور سماجی انصاف نہیں مل رہا‘‘۔ انڈیا کی جانب سے اس رپورٹ کی تردید کا عمل جاری تھا کہ سویڈن کے ’’ہم جمہوری انسٹی ٹیوٹ ‘‘(V-Dem Institute) کی رپورٹ ’’ انڈین حکمرانی کی آمریت میں تبدیلی‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ۔اس ادارے نے بھی حضرت قائد اعظمؒ کے مذکورہ بالا فرمان پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
اسی لئے کل غیر ملکی جریدے ’’فارن افیئرز‘‘ کی رپورٹ نظر سے گزری جس میں ادارے نے ’’انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی سلبی اور انہیں دیوار سے لگانے پر ‘‘ لکھا کہ ’’اب انڈیا میں جمہوریت رو بہ زوال ہے‘‘۔یہ جریدہ بھی ’’فریڈم ہائوس‘‘ اور سویڈن کے ادارے ’’ہم جمہوریت ‘‘ سے متفق نظر آیا۔ ان اداروں کا موقف وہی تھا جس کا اظہار حضرت قائد اعظمؒ کئی مرتبہ کر چکے تھے، وہ یہ ’’جمہوریت کے ذریعے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اس کی بربادی کا پیغام ہو گی کیونکہ اکثریت اپنے فیصلے تھوپتی رہے گی‘‘ ۔ حضرت قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ ’’ہمیں تو یہی بتایا جا رہا ہے کہ مجوزہ اصلاحات کے بعد تمام اختیارات بلا شک و شبہ ہندو اکثریت کو منتقل ہو جائیں گے ‘‘ ۔ اس وقت بھی یہی تو ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر مقبوضہ کشمیر کو حق رائے دہی سے محروم کیا جا رہا ہے، ان کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔وہاں گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی لگانے کے پہلے مرحلے میں گائے کا گوشت سستا کر دیا گیا ہے ، اس کی اصل قیمت 650 روپے سے گھٹا کر 480روپے فی کلو مقرر کر دی گئی ہے، تاکہ کوئی کشمیری گائے کا گوشت نقصان پر بیچ ہی نہ سکے۔یوں مقبوضہ کشمیر میں ہندو کلچر کے بیج بو دیئے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر (اور انڈیا میں بھی )میں مسلمان سرمایہ کاروں کو منی لانڈرنگ کے نام پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔جیسا کہ کل ہی پی ڈی پی کی سربراہ رہنما محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ’’میری سیاست کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘ کیونکہ ان کی جماعت کے یوتھ ونگ کے سربراہ اور معروف بزنس مین وحید الرحمن پارہ کو انتظامیہ کی ’’ہدایات‘‘ پر عمل نہ کرنے پر انہیں دہشت گردی کے مقدمے میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔وہ اگر بی جے پی یاان کے ایماء پر بنائی جانے والی ایک نئی جماعت میں شامل ہو جاتے تو سب ٹھیک تھا ۔جبکہ گزشتہ روز انتظامیہ کے دبائو پر ان کی جماعت کے دو مزید سینئر رہنمائوں (خورشید عالم اور یاسر رشی)نے پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں۔قبل ازیں عارف امین بھی دہشت گردی کے لیبل سے بچنے کے لئے سجاد لون کی جماعت میں شامل ہوچکے ہیں ۔یہ وہ بات ہے جس کے بارے میں محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ہندو گائے کی پوچا کرتے ہیں اور مسلمان اسے کھاتے ہیں،یہ دونوں ایک کس طرح ہو سکتے ہیں‘‘۔
جمہوریت کے نام پر ہی مقبوضہ کشمیر میں 34لاکھ ڈومیسائل جاری کئے جا چکے ہیں جن میں بھاری اکثریت سابقہ فوجیوںاور بی جے پی کے کارندوں کی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو منظم کر رہے ہیں جبکہ بنگال اور آسام میں مسلم اکثریت کو بھی آئندہ ہونے والے ریاستی اداروں کے انتخابات میں ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اسی لئے ایک بڑے میڈیا گروپ نے لکھا کہ ’’بنگال میں بھی ہندوتوا کا رنگ جم رہا ہے‘‘۔ یعنی اکثریت کے بل بوتے پر ’’دوسری بڑی اکثریت ‘‘ یعنی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور انتظامی حقوق کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے لئے 1947ء میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والی تنظیم آر ایس ایس نے انڈیا کی تمام بڑی این جی اوز کو بھی اپنے ساتھ ملا لیاہے اور انہیں مسلم اکثریت کے علاقوں میں سماجی بہبود کے کام کرنے سے روک دیا ہے،اسی لئے کئی میڈیا گروپوں کے مضامین کچھ یوں ہیں، ’’ آر ایس ایس کی نئی ٹیم کا بی جے پی کے لئے پیغام‘‘ (RSS has a message for BJP) ۔جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مذکورہ تنظیم نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کیلئے نئی اورنوجوان قیادت کوسامنے لائی ہے ‘‘ ۔ ناگپور کے ڈاکٹر کیشو بیلی رام نے 1925ء میں تنظیم کی تشکیل کے وقت بھی نوجوان قیادت بھرتی کی تھی تاکہ انگریزوں کے ملک سے جاتے ہی وہ ملک کے تمام اداروں پر قبضہ کرلیں، اس کا مقصد قیام پاکستان میں بھی رکاوٹ ڈالنا تھاجسے حضرت قائد اعظمؒ کی فہم و فراست نے ناکام بنا دیا۔
آج ہندو لیڈر بلا خوف و خطر کہہ رہے ہیں کہ ’’(نئے )ہندو انڈیا میں کسی دوسرے مذہب کی گنجائش نہیں‘‘۔ وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’’آئندہ ا گر کسی مسلمان نے حج پر جانا ہے تو اسے مذہب کے خانے میں ہندو لکھنا ہو گا‘‘۔یہی وہ خطرات اور اندیشے تھے جن کا اظہارحضرت قائد اعظم نے 23مارچ 1940ء کو لاہور میں کیا تھا، اور اگر پاکستان نہ بنتا تو آج کیا حالت ہوتی ا سکا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اگر یہی حالت رہی تو آئندہ کسی ایک ریاست میں بھی مسلمانوں کی حکومت نہیں ہو گی۔ بلکہ مسلمان انتظامیہ میں بھی اپنا حصہ لینے میں بری طرح ناکام ہوں گے اور 1935ء سے بھی بری حالت ہو جائے گی۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-03-23/1190
ایٹمی دھماکے کرتے وقت کنڑول روم میں کتنے لوگ تھے؟ ایٹمی دھماکوں کا بٹن کس نے دبایا؟ دلچسپ حقائق بارے آپ بھی جانیں
May 28, 2021 | 18:32:PM
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )ایٹمی دھماکوں کے وقت کنڑول روم کی صورتحال بارے اہم چیزیں سامنے آئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایٹمی دھماکوں کے دن ظہر کی نماز کے وقت تک تمام تیاریاں مکمل کرلی گئیں تھیں جس کے بعد ٹیم نے کنڑول رو م میں ہی نماز ادا کی۔کنڑول روم میں دھماکے کے وقت 20 لوگ موجود تھے جو کہ پاکستان فضائیہ کے خصوصی ہیلی کاپڑ کی مدد سے وہاں پہنچائے گئے تھے۔ان 20 افراد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر فخر ہاشمی، ڈاکٹر اشرف مرزا، ڈاکٹر نسیم خان،جنرل ذوالفقار علی اور دیگر موجود تھے۔ٹیم کی جانب سے دن تین بجے ’ آل اوکے‘ کا سائن دیا گیا۔
چیف سائنٹیفک آفیسر محمد ارشد جنہوں نے میزائل کو چلانے کا نظام تیار کیا تھا انکو ایٹمی دھماکوں کا بٹن دبانے کے لئے منتخب کیا گیا۔محمد ارشد نے ’ الحمدللہ‘ پڑھ کر بٹن دبایا اسوقت 3 بج کر 16 منٹ کا وقت تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/28-May-2021/1294967?fbclid=IwAR267CRnHw_AVHrP9Fuhtlx9WLiM8D29E--VZY9UjIxpqroHM2qUYEviAM0
سر گنگا رام کی سمادھی کی تزئین وآرائش کاکام مکمل
25 May, 2021

اگلے مرحلے میں سمادھی کی عمارت کے صحن کو اپ گریڈ کیا جائے گا
لاہور(سہیل احمد قیصر،تصاویر ذوالفقار شاہ) فادر آف لاہور کہلانے والے سرگنگا رام کی سمادھی کو نئے سرے سے سجا اور سنوار دیا گیا ہے ۔اگلے مرحلے میں سمادھی کی عمارت کے صحن کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق جدید لاہور کے بانی سمجھے جانے والے سرگنگا رام کی سمادھی لاہور میں راوی روڈ کے علاقے میں واقع ہے ۔1851 میں پیدا اور 1925 میں دنیا سے رخصت ہوجانے والے سر گنگا رام کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے ۔راوی روڈ کے علاقے میں سمادھی طویل عرصے سے کافی دگرگوں حالت میں تھی ،جسے اب ایک منصوبے کے تحت بہتر بنا دیا گیا ہے ۔ اِس حوالے سے متروکہ وقف املاک بورڈ کے ترجمان عامر ہاشمی نے بتایا کہ سمادھی کی بحالی کے لیے چیئرمین بورڈ ڈاکٹر عامر نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں ، جس کے بعد سمادھی کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-05-25/1828496
ارطغرل کے والد سلیمان شاہ کا دریائے فرات میں ڈوبنے کا واقعہ، شام سے ان کی قبر ترکی کب اور کیوں منتقل کی گئی؟
May 26, 2021 | 17:54:PM

سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے سلطان عثمان اول کے دادا سلیمان شاہ اس وقت دریائے فرات میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے تھے جب وہ اسے پار کر رہے تھے، ان کے انتقال کے بعد ارطغرل غازی قبیلے کے سربراہ بنے جنہوں نے ساری زندگی سلطان علاؤالدین سلجوق کی خدمت کی اور اسلامی سلطنت کو بازنطینی سازشوں سے پاک کیا، ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے عثمان نے ان کی جگہ لی اور پھر علاؤالدین سلجوق کے انتقال کے بعد انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی، اس عظیم الشان سلطنت کا پرچم دنیا کے مختلف ملکوں پر 600 سال تک لہراتا رہا۔
سلیمان شاہ کا 1236 میں جب دریائے فرات میں ڈوب کر انتقال ہوا تو انہیں اس کے قریب ہی دفن کردیا گیا، پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے شروع ہوئے تو اس وقت 1921 میں ترکی اور فرانس کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت یہ مقبرہ ترکی کے زیر انتظام رہنا تھا۔
جب 1923 میں معاہدہ لوزان کے تحت سلطنتِ عثمانیہ کو توڑ کر ترکی، شام اور دیگر ممالک بنائے گئے تو سلیمان شاہ کا مقبرہ شام کے حصے میں چلا گیا تاہم اس پر عملداری ترکی کی قائم رہی۔ سلیمان شاہ کا مقبرہ قلعہ جبار میں تھا لیکن 1973 میں جب اس علاقے میں اسد جھیل بنائی گئی تو شام اور ترکی کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ان کی باقیات کو ترک سرحد سے 27 کلومیٹر دور منتقل کردیا گیا۔ سلیمان شاہ کی باقیات کی منتقلی کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کے بعد دوسرا واقعہ فروری 2015 میں پیش آیا۔
2015 میں شام کو خانہ جنگی کا شکار ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور یہاں داعش نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے۔ 20 مارچ 2014 کو داعش نے اعلان کیا کہ سلیمان شاہ کے مقبرے کی حفاظت پر مامور ترک فوجی اہلکاروں کو واپس بلایا جائے نہیں تو وہ یہاں حملہ کردیں گے۔ اس کے بعد داعش اور ترکی کی جانب سے بیانات کا سلسلہ جاری رہا اور افواہیں بھی سامنے آتی رہیں کہ داعش نے مقبرے کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے تاہم یہ افواہ ہی رہی۔ اس کے بعد دو اکتوبر 2014 کو ترک پارلیمنٹ نے حکومت کو داعش کے خلاف فوجی قوت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ پارلیمنٹ نے یہ اجازت سلیمان شاہ کے مقبرے کی حفاظت کے تناظر میں دی تھی۔ اس کے بعد بھی ترکی نے کوئی کارروائی نہیں کی لیکن 2015 کے اوائل میں داعش نے مقبرے کو گھیر لیا جس کے بعد ترکی کو فوجی قوت کا اظہار کرنا پڑا۔
21 اور 22 فروری 2015 کی درمیانی شب 600 ترک فوجی 39 ٹینکوں اور 100 بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ شام میں داخل ہوئے اور آپریشن شاہ فرات شروع کیا۔ یہ فوجی قافلہ شام کے سرحدی شہر۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/26-May-2021/1293989?fbclid=IwAR0qJxq4-23IMJazOgd-2L5zHsnwY2J027MMzv4JQfmXLUhkTKrCWkm_NHE
سقوط غرناطہ کی تاریخ، جب سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور ختم ہوا
May 26, 2021 | 17:58:PM

مسلمانوں نے آج کے سپین پر 800 سال سے زائد عرصے تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ، اس سلطنت کی بنیاد طارق بن زیاد نے رکھی اور اس کا خاتمہ سلطان ابو عبداللہ کے وقت ہوا، عیسائیوں نے نہ صرف یہاں سے مسلمانوں کی حکومت ہمیشہ کیلئے ختم کردی بلکہ مسلمانوں کا بھی صفایا کردیا، آج کی اس ویڈیو میں ہم اس آخری معرکے یعنی سقوطِ غرناطہ پر بات کریں گے جو اندلس میں مسلمانوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔۔۔
12 جمادی الثانی سنہ 896 ہجری کو قسطلہ کا بادشاہ فرڈی نند ملکہ ازابیلا کے ساتھ عظیم الشان قلعہ شکن توپ خانے اور لشکر جرار لے کر غرناطہ پہنچا، یہاں پہنچتے ہی اس نے سر سبز و شاداب باغوں‘ کھیتوں اور آباد بستیوں کو تاراج و خاک سیاہ بنانا اور مسلمان باشندوں کے خون کی ندیاں بہانا شروع کر دیں۔ غرناطہ کے سامنے پہنچ کر اس نے پڑاؤ ڈال لیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا۔
شہر کا ایک حصہ چونکہ کوہ شلیر سے وابستہ تھا۔ لہٰذا عیسائی فوجیں شہر کا مکمل محاصرہ نہیں کر سکتی تھیں یہ محاصرہ قریباً آٹھ مہینے جاری رہا۔ جزیرہ نمائے اندلس میں اب سوائے اس محصور شہر کے اور کوئی جگہ ایسی باقی نہیں بچی تھی جہاں اسلامی حکومت قائم ہوتی، 8 ماہ تک جاری رہنے والے محاصرے کے بعد موسم سرما شروع ہوگیا اور پہاڑ پر برف کی وجہ سے راستے بند ہو گئے جس کی وجہ سے اہلِ شہر کو جو رسد کوہ شلیر کی طرف سے پہنچتی تھی وہ رک گئی۔
897 ہجری صفر کے مہینے میں اہل شہر نے سلطان ابوعبداللہ سے درخواست کی کہ جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ بھوکے مرنے سے بہتر ہے کہ ہم میدان جنگ میں تیر و تفنگ کھا کر جان دے دیں ، ہمیں طارق بن زیاد کا معرکہ یاد ہے کہ اس فاتح اول نے اپنی مٹھی بھر جمعیت سے ایک لاکھ عیسائی فوج کو شکست فاش دی تھی ہماری تعداد جو اس وقت محصور ہے بیس ہزار سے کچھ کم ہے لیکن ہم مسلمان ہیں اس لیے ہمیں عیسائیوں کی ایک لاکھ کی فوج سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سلطان ابو عبداللہ نے دیکھا کہ اہل شہر کا اضطراب دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر فوراً جنگ یا صلح کا فیصلہ نہ ہوا تو لوگ باغی ہو کر کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے نقصان عظیم پہنچے۔ اس نے وزرا و امرا کو قصر حمرا میں طلب کرلیا، اس مشاورت میں شہر کے علماء و مشائخ کو بھی شریک کیا گیا۔
سلطان ابو عبداللہ نے کہا کہ اب عیسائی لوگ جب تک شہر پر قبضہ نہ کرلیں گے محاصرے سے باز نہ آئیں گے۔ ایسے نازک وقت میں کیا تدبیر کی جائے۔ مورخین کے مطابق ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/26-May-2021/1293990?fbclid=IwAR2VH4A9au0prZJ4Eklzh4fL2Qm6u2s2REa7ndx8CM0chDDgFu0xLoUrb-U
قاچولی بہادر کون تھا؟ چنگیز خان کے بارے میں کس نے خواب دیکھا تھا؟ تموچین اور چنگیز خان کی حقیقت کیا ہے؟
May 26, 2021 | 18:02:PM

منگولوں کی تاریخ سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے، ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ کس طرح انہوں نے مسلمانوں کے کشتوں کے پشتے لگائے اور ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، آج کی اس ویڈیو میں ہم منگولوں کے پہلے بادشاہ چنگیز خان کا ذکر کریں گے لیکن اس سے پہلے چند بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔
منگولوں کا ملک چھ صوبوں یا حصوں میں منقسم تھا جس کے ہر حصے پر ایک سردار حکمران تھا۔ یہ تمام 6 حکمران ایک بادشاہ کے ماتحت سمجھے جاتے تھے۔ جو ’طمغ آچ‘ میں رہتا تھا۔ ان چھ صوبوں میں سے ایک صوبہ کی حکومت بوزنجر ابن الانقوا کے خاندان کے پاس تھی ۔ یہاں تک کہ تومنہ خان تک حکمرانی پہنچی تو اس کے گیارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ اس کے ایک بیوی میں سے 9 اور دوسری بیوی میں سے دو بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام اس نے قبل خان اور قاچولی بہادر رکھے۔
ایک رات قاچولی بہادر نے خواب میں دیکھا کہ اس کے بھائی قبل خان کے گریبان سے ایک ستارہ نکل کر آسمان پر پہنچا اور اپنی روشنی زمین پر ڈالنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ستارہ غائب ہوا اور اس کی جگہ دوسرا ستارہ پیدا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ستارہ غائب ہوا اور اس جگہ تیسرا ستارہ پیدا ہوا۔ اس تیسرے کے غائب ہونے پر جو چوتھا ستارہ نمودار ہوا۔ اس قدر بڑا اور تیز روشنی والا تھا کہ تمام جہان اس کی روشنی سے منور ہوگیا۔ اس بڑے اور روشن تر ستارے کے غائب ہونے پر کئی چھوٹے چھوٹے روشن ستارے آسمان پر نمودار ہوئے۔ اس کے بعد قاچولی بہادر کی آنکھ کھل گئی۔
وہ ابھی اس خواب کی تعبیر کے متعلق غور و فکر میں مصروف تھا کہ اس کو پھر نیند آ گئی اب کی مرتبہ اس نے خواب میں دیکھا کہ خود اس کے گریبان سے ایک ستارہ نکلا اور آسمان پر چمکنے لگا۔ اس کے بعد دوسرا اس کے بعد تیسرا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات ستارے نمودار ہوئے ساتویں ستارے کے بعد ایک بہت بڑا اور نہایت روشن ستارہ نمودار ہوا۔ جس کی روشنی سے تمام جہان منور ہو گیا۔ اس بڑے اور روشن ستارے کے غائب ہونے پر کئی چھوٹے چھوٹے ستارے پیدا ہوئے اس کے بعد قاچولی بہادر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے یہ دونوں خواب اپنے باپ تومنہ خان سے بیان کیے۔ تومنہ خان نے خواب سن کر کہا کہ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/26-May-2021/1293991?fbclid=IwAR1cNkFXjypJBjxIQVjhWwJifzoJRnJjNsvUWG94cWyJDHs1ciu2toShHWE
ماضی میں استعمال ہونے والے سزائے موت کے بدترین طریقے، جان کر ہی روح کانپ جائے
May 22, 2021 | 18:58:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) آج دنیا میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دے کر، سر قلم کرکے، زہریلا انجکشن لگا کر اور فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر طریقے بھی آج کل رائج ہیں۔ تاہم اس رپورٹ میں ہم آپ کو ماضی میں رائج رہنے والے سزائے موت پر عملدرآمد کے کچھ ایسے خوفناک طریقوں بارے بتانے جا رہے ہیں کہ آج بھی سن کر روح کانپ اٹھے۔
کھولتے پانی میں زندہ ابال دینا
یہ طریقہ 1531ءمیں بادشاہ ہنری ہشتم نے متعارف کرایا تھا اور اس طریقے سے سب سے پہلے لیمبیتھ کک رچرڈ روز نامی قاتل کو موت دی گئی تھی جس نے دو لوگوں کو زہر دے کر قتل کیا تھا اور بشپ آف روچیسٹر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہنری ہشتم نے یہ طریقہ خاص طور پر ان مجرموں کو موت دینے کے لیے متعارف کرایا تھا جو کسی کو زہردے کر قتل کرتے تھے۔ رچرڈ روز کو لندن کے علاقے سمتھ فیلڈ میں کھولتے ہوئے پانی کے ایک بڑے ٹب میں ڈالا گیا تھا اور اس کی چیخیں دور دور تک سنی گئی تھیں۔ یہ سزا 1547ءمیں متروک قرار دے دی گئی تھی۔
پتھروں تلے کچلنا
اس طریقے سے مجرم کے جسم کے اوپر بھاری بھرکم پتھر رکھ دیئے جاتے تھے اور اسے پتھروں کے بوجھ تلے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ سزا 1772ءمیں متروک قرار پائی۔
وہیل سکویل (Wheel squeal)
سزائے موت پر عملدرآمد کا یہ طریقہ 19ویں صدی تک رائج رہا۔ اس طریقے میں مجرم کو لکڑی سے بنے ایک بڑے سائز کے پہیے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور لوہے کے راڈ سے اس کے بازو، ٹانگیں اور دیگر اعضاءکی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ پھر اسی حالت میں اسے پہیہ گھماتے ہوئے شہر میں پھرایا جاتا اور اس کے بعد اسے پھندہ دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا یا پھر پہیے کے ساتھ ہی بندھا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔
گھوڑوں سے باندھ کر جسم کے ٹکڑے کر ڈالنا
سزائے موت پر عملدرآمد کا یہ طریقہ فرانس اور دیگر ممالک میں بہت کم عرصے کے لیے رائج رہا جس کے ذریعے بادشاہ کو قتل کرنے جیسے جرائم کے مرتکب ہی کو موت دی جاتی تھی۔ اس طریقے سے چار جنگلی گھوڑوں کے ساتھ مجرم کے ہاتھ پاﺅں باندھ دئیے جاتے تھے اور پھر گھوڑوں کو تازیانے لگا کر دوڑا دیا جاتا، جس سے مجرم کے جسم کے حصے بخرے ہو جاتے تھے۔ فرانسیسی بادشاہ ہنری چہارم کو1610ءمیں پیرس میں قتل کرنے والے مسیحی انتہاءپسند فرینکوئس ریویلیک کو اسی طریقے سے سزائے موت دی گئی تھی۔
آرے سے کاٹ ڈالنا
قدیم رومی بادشاہ کیلیگولا مجرموں کے جسم آرے سے درمیان سے کٹوا دیا کرتا تھا۔ اسی طرح چین میں سزائے موت کے قدیوں کو تکلیف دہ موت دینے کے لیے جسم پر ہزاروں ’کٹ‘ لگا کر آہستہ آہستہ قتل کیا جاتا تھا۔ چین میں یہ سزا 1905ءتک رائج رہی۔
زندہ بھون ڈالنا
قدیم یونان میں مجرموں کو بھون کر موت کے گھاٹ اتارنے کا طریقہ بھی رائج رہا۔ اس مقصد کے لیے کانسی سے بھینسے کا ایک مجسمہ بنایا جاتا جو اندر سے کھوکھلا ہوتا تھا۔ اس کے اندر مجرم کو بند کرکے نیچے آگ جلا دی جاتی اور مجسمہ تپنے سے مجرم اندر تڑپ تڑپ کر موت کے گھاٹ اتر جاتا تھا۔
توپ سے اڑانا
بغاوت، غداری اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو توپ سے اڑادینے کا طریقہ بھی دنیا کے کئی ممالک میں رائج رہا اور شمالی کوریا کے بارے میں آج بھی افواہ پائی جاتی ہے کہ وہاں غداری کے مرتکب افراد کو آج بھی توپ سے اڑا دیا جاتا ہے۔
ہاتھی کے پیر تلے کچل ڈالنا
ہاتھی کے پیروں تلے مجرموں کا سر کچل کر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا طریقہ بھی کئی ممالک، بالخصوص ایشیائی ممالک میں رائج رہا۔ دنیا میں ایک یہ طریقہ بھی رائج رہ چکا ہے جس میں مجرم کو گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھوڑے کو بھگایا جاتا تھا اور مجرم زمین سے پٹخ پٹخ کر موت کے منہ میں چلا جاتا تھا۔یہی نہیں بلکہ دنیا میں مجرموں کو شیروں کے آگے ڈال دینے اور زندہ دفن کر دینے سمیت کئی انتہائی روح فرسا طریقے بھی مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے رائج رہ چکے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292243?fbclid=IwAR0zT7GDDSEX7IXWqbN1ENfOQGiquyx5kLX5dnylXkDQSJEnlKpsSRfKf8s
پسندکی شادی ،مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑوں کی سزا بھگتنا پڑی
23 May, 2021
لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب کے جنوبی کونے میں ایک مقبرہ ، چند قبریں اور دو منزلہ مرکزی دروازہ موجود ہے
لاہور(نیٹ نیوز)یہ احاطہ گل بہاربیگم باغ کہلاتا ہے ۔ گل بہار جن کے نام پر یہ باغ ہے ملکہ لاہور بھی کہلاتی تھیں اور پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی تھیں جسے وہ اپنی پسند سے امرتسر سے بیاہ کرلاہور لائے ۔سکھ حکمران کی مسلمان لڑکی سے شادی پر سکھ مذہب کے بڑوں نے بہت شور مچایا اور غم و غصے کا اظہار کیا اوراکال تخت بلا کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑوں کی سزا سنا دی جسے مہاراجہ نے ہنسی خوشی قبول کرلیا اور کوڑے کھائے تاہم کہا جاتا ہے کہ چونکہ وہ بڑی سلطنت کے مہاراجہ تھے اور دوسری طرف اکال تخت کی سنائی سزا بھی پوری کرنا ضروری تھی لہٰذا اس کیلئے خاص ریشم کا کوڑا بنایا گیا اور سزا پوری کی گئی۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-05-23/1827189
کوویڈ 19 کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ میں پاکستان میں سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثرہواہے تاہم اس دوران پنجاب آرکیالوجی اورمحکمہ سیاحت نے کئی تاریخی اورسیاحتی مقامات کی بحالی اورآرائش وتذئین کے کام مکمل کئے ہیں۔
صوبائی سیکرٹری سیاحت وآثارقدیمہ پنجاب احسان بھٹہ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گجرات میں ایک تاریخی حویلی 1918 میں تعمیرکی گئی تھی ، یہ حویلی ایک ہندوسندرداس چوپڑہ نے اپنی اہلیہ رام پیاری کے نام سے تعمیرکی تھی۔1947 میں جب یہ خاندان یہاں سے انڈیاچلا گیا تو اس عمارت میں لڑکیوں کا سکول قائم کردیا گیا۔ بعدازاں اس شاندارحویلی کو فاطمہ جناح گرلزکالج اوریونیورسٹی آف گجرات کی طالبات کے ہاسٹل کے طورپربھی استعمال کیاجاتا رہا ہے لیکن اب گزشتہ تین سال سے یہ شاندار حویلی خالی تھی جس کے بعد یہاں میوزیم قائم کیا گیا ہے۔

احسان بھٹہ کہتے ہیں اب یہاں چارگیلریاں بنائی گئی ہیں۔ان میں نگارخانہ گیلری، گندھارا گیلری، تاریخی گیلری اورگجرات گیلری شامل ہیں۔عمارت کے بالائی حصے میں دو گیلریاں ہیں جن میں گجرات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات جن کو ہیروآف گجرات کا نام دیا گیا ہے ان سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔جن میں شاعر،ادیب، نشان حیدر پانے والے پاک فوج کے سپوت۔ایک گیلری گجرات چیمبرآف کامرس کی طرف سے بنوائی گئی ہےان کی مدد سے میوزیم میں خوبصورت لائٹنگ کی گئی ہے۔عمارت کے بالائی حصے میں 40 کمرے ہیں،عمارت کا سامنے کاحصہ سفید جبکہ سائیڈکی دیواریں سرخ کی ہیں۔عمارت میں لکڑی کی پرانی طرزکی سیڑھیاں، منفرد طرزکی کھڑکیاں ہیں۔

پنجاب آرکیالوجی کے ڈائریکٹر ملک مقصود نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کلرکہار تاریخی اورسیاحتی حوالے سے پنجاب کا ایک اہم مقام ہے یہاں میوزیم بنایا گیا ہے، میوزیم میں تین گیلریاں بنائی گئی ہیں ۔ان گیلریوں میں فوسل (ڈھانچے)، انڈس اور گندھارا گیلری شامل ہے، تینوں گیلریوں میں صدیوں پرانے نوادرات رکھے گئے ہیں، سات ہزار قبل مسیح سے لے کر جدید دور تک کے نوادرات میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ سالٹ رینج میں ساتویں سے دسویں عیسوی کے دوران تعمیر ہونے والے ہندو مندر بھی اپنے دور کی عظیم نشانیوں کے طور پر موجود ہیں جبکہ سالٹ رینج کے اس خطے میں بھیڑ بکریوں سے لے کر ہاتھی جیسے بڑے جانوروں کو سب سے زیادہ ڈھانچے بھی دریافت ہوچکے ہیں جن میں سے کئی ڈھانچے میوزیم میں سجائے گئے ہیں۔

سیکرٹری آرکیالوجی احسان بھٹہ نے مزیدبتایا کہ ہڑپہ میں بھی میوزیم اور آڈیٹوریم قائم کئے گئے ہیں، میوزیم میں ہزاروں سال پرانی نوادرات سجائی گئی ہیں جو اس خطے کی تاریخ سے جڑی ہیں۔ احسان بھٹہ کاکہنا تھا ہڑپہ میوزیم اور آڈیٹوریم کی تعمیراورآرائش وتزئین کے دوران یہاں موجود ایک قدیم درخت کوبھی بچایاگیا ہے، یہ انتہائی سایہ داراور یہاں کا سب سے پرانا درخت ہے۔

ماہرین آثارقدیمہ وسیاحت کے مطابق کوویڈ 19 کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثرہوا ہے ۔خاص طورپربیرون ملک سے سیاحوں کی آمد بند ہے تاہم اس گزشتہ ایک سال سے زائدعرصہ میں دراوڑفورٹ ،علامہ اقبال میوزیم، ہرن مینارکے تالاب کی آرائش وتذئین کی گئی ہے اسی طرح شالامارباغ میں مورکرافٹ پویلین کی آرائش وتذئین کی گئی ہے،ٹیکسلا اورہڑپہ میں آڈیٹوریم تعمیرہوئے ہیں۔کلرکہارمیں میوزیم بنایاگیاہے ، اب گجرات میں رام پیاری میوزیم سیاحوں کے لئے کھول دیاگیاہے۔مقبرہ جہانگیراورشالامارباغ میں ان تاریخی مقامات سے متعلق نادرونایاب فوٹوگیلریاں بنائی گئی ہیں،قلعہ نندیا میں سیاحتی کام ہورہا ہے جبکہ 13 تاریخی مقامات کو روشنیوں سے سجایاگیا ہے یہ تاریخی مقامات اب رات کے وقت روشنیوں میں نہائے ہوئے خوبصورت منظرپیش کرتے ہیں۔

سیاحت کے فروغ کے لیے پنجاب میں 190 نئی ٹریول ایجنسیاں رجسٹرڈ کی گئیں ، 65 نئے ہوٹل جبکہ 140 نئے ریسٹورنٹ قائم ہوئے ہیں، وزیراعلی پنجاب کے مشیربرائے سیاحت آصف محمود کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کوریڈ19 نے پوری دنیا میں سیاحت کو متاثرکیا ہے ۔ کوروناکی تیسری لہرمیں کمی آنے کے بعد سیاحتی مقامات کو عوام کے لئے کھول دیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اوروزیراعلی کے وژن کے مطابق صوبے میں سیاحت اورتاریخی مقامات کی بحالی کوفروغ دینا ہماری اولین ترجیح ہے، ہماراصوبہ سیاحت اورتاریخی ورثہ سے مالامال ہے۔کوریڈکے عرصہ میں ہم فارغ نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اپنے ورثہ کی بحالی کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2176127/1/
کیا آپ کو پتہ ہے کہ ٹیپو سلطان پنجابی تھے؟
May 04, 2021 | 19:53:PM

برصغیرپاک و ہند میں انگریزحملہ آوروں کو سینکڑوں ریاستوں اور عظیم مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں اور ان کے صوبیداروں ،مشہورمرہٹوں ،،پٹھان، روہیلوں ،بلوچوں ،بنگالیوں سمیت دیگر اقوام اور علاقوں سے کچھ زیادہ مزاحمت نہیں ملی تھی لیکن دو سلطنتیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے انگریز کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے اور یہی دو سلطنتیں انگریز کے برصغیر پر مکمل قبضے کو ایک صدی تک تاخیر کا شکار کر گئیں ورنہ بنگال1757میں فتح ہوا تو مغلیہ سلطنت ، ریاست اودھ اور بنگالی نوابوں کی متحدہ فوج1764میں شکست کھا کر انگریز کی حاکمیت کو تسلیم کر چکی تھیں لیکن دو سلطنتیں ان کے مکمل قبضے کو ایک صدی آگے لے گئیں۔ پہلی سلطنت خدادا میسور اور دوسری لہور (لاہور) دربار پنجاب ۔
دونوں ہی سلطنتیں اس وقت انگریز کی طرح ہی ترقی یافتہ اور خوشحال تھیں اور ان کی افواج انگریز سے بھی زیادہ مضبوط تھیں (اس پر علحدہ تفصیلی تحریر لکھوں گا) دونوں سلطنتوں کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں نے ہی نصف نصف صدی فرنگی افواج کو روکے رکھا۔ ان دونوں کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ دونوں کے حکمران پنجابی اور جاٹ تھے سلطان ٹیپو اور مہاراجہ رنجیت سنگھ ۔ دونوں نے جنگوں میں انگریزوں کو شکست سے دوچار کیا دونوں سے ہی فرنگی حکمران صلح نامے اور امن معاہدے کرتے رہے اور وہ بھی برابری کی سطح پر ۔ ان دونوں پنجابی سورماؤں کی موت کے بعد ہی فرنگی سرکار برصغیر پر قابض ہونے میں کامیاب ہو سکی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تو پنجابی جاٹ ہونا سب کو معلوم ہے لیکن ٹیپوسلطان کے بارے میں کم لوگوں کو ہی پتہ ہے کہ وہ پنجابی جاٹ تھے۔
ٹیپوسلطان شہید کے خاندان کے پنجابی جاٹ ہونے کے حوالے کے طور پر ان کتابوں کے نام اور مصنفین کے نام نیچے لکھ دیے ہیں جنہوں نے ٹیپوسلطان کے خاندان کو شمال مغربی پنجاب کا لکھا ہے
1نام کتاب حیدرعلی، لکھاری پروفیسرنریندرکرشن سہنا ، کلکتہ یونیورسٹی پروفیسرتاریخ
2ہسٹری آف میسور،، کرنل ولکس
3سلطان ٹیپو،،مولانامحمدعلی ، رئیس التجار مدراس
4تاریخ میسور،،کرنل بونگ،، چیف کمشنر میسور
5تاریخ میسور ،، محمود بنگلوری،،، جنوبی ہند
6نشان حیدری ، مصنف میرحسن کرمانی وزیر مییسوردربار
7تاریخ جھنگ
ان سب کتابوں میں ٹیپوسلطان کے خاندان کو شمال مغربی پنجاب کا بتایا گیا ہے
ٹیپو سلطان کا شجرہ نسب بھی ملاحظہ فرما لیں
حضرت بہلول چنیوٹی جو ولی کامل بزرگ تھے ان کے دو بیٹے محمد علی اور ولی محمد گلبرگہ جنوبی ہند چلے گئے تھے کیونکہ یہ خاندان خود بھی اولیاء کا تھا اس لیےمحمد علی کی شادی مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ حسین گیسودراز کے خادم خانقاہ حسن بخت کی صاحبزادی زینت بیگم المعروف مجید بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے چار بیٹے ہوِے جن میں سے ایک فتح محمد تھے جن کے بیٹے حیدر علی تھے حیدر علی کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد ان کی شادی نواب سعادت علی کی بھتیجی فاطمہ عرف فخرالنساء سے ہوئی جو نواب سعداللہ خان کی نواسی بھی تھیں نواب سعد اللہ خان جپہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ حیدرعلی کے آبا و اجداد سپرا تھے اسی لیے سپرا اور جپہ دونوں ٹیپو سلطان کو اپنی برادری سے ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔
ٹیپو سلطان کے خاندان کا دہلی اور دکن تک پہنچ جانا اس زمانے کے حساب سے عام سی بات تھی کیونکہ اس وقت چنیوٹی شیخ بغرض تجارت اور سپاہ گری دہلی آتے جاتے رہتے تھے اور دہلی میں چنیوٹی شیخوں کا محلہ پنجابی سوداگران ابھی تک موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے ایک بھارت سے ایک اور دعویٰ بھی میرے سامنے آیا جو ٹیپو سلطان کے مزار کے متولی کی جانب سے تھا اور ان کا دعوی تھا کہ ہمارا یعنی ٹیپو سلطان کا خاندان ارائیں ہے اور ٹیپو سلطان کی تلوارآج بھی مشرقی پنجاب کے ایک ارائیں مسلم مجاہد گھرانے میں موجود ہے جو مشرقی پنجاب کے شاہی امام بھی ہیں لیکن اس دعوے سے بھی ٹیپو سلطان کی پنجابی شناخت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اہل پنجاب کو اس بات پر فخر ہونا چاہیئے کہ برصغیر کے دونوں مہان بہادر اور ذہین حکمران جنہوں نے فرنگی کوبرصغیر پر قبضے سے ایک صدی تک روکے رکھا پنجابی جوان تھے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.
https://dailypakistan.com.pk/04-May-2021/1285285?fbclid=IwAR19Yx5MrWLnR06R4dF1c4nlLtrW3qSlAo-DNzpY0bzUnHqrPqtILlK17sg
ریڈیو، ٹی وی پرپہلی اذان دینے والے قاری نور محمد انتقال کر گئے
5 May, 2021
صدارتی ایوارڈیافتہ قاری اورریڈیو،ٹیلی ویژن پرپہلی اذان دینے کی سعادت حاصل کرنے والے قاری نور محمد اعوان طویل علالت کے باعث لاہور میں 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
لاہور ( سیاسی نمائندہ ) وہ صدارتی ایوڑ یافتہ مولانا قاری عبدالماجد نور کے والد تھے ، مرحوم نصف صدی تک ریڈیو پاکستان پر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے جب پاکستان کے سابق صدر محمدضیا ء الحق مرحوم کے دور میں ریڈیو،ٹیلی ویژن پر اذان کا آغاز ہوا تو ان دونوں پرپہلی اذان دینے کی سعادت قاری نور محمدمرحوم کو حاصل ہو ئی وہ قاری محمد اسماعیل ؒ اور قاری کریم بخش ؒ کے شاگرد تھے ،قاری نور محمد مرحوم علالت اور فالج کی وجہ سے کافی عرصہ سے صا حب فراش تھے انہوں نے دوبیٹے ،پانچ بیٹیاں اوراہلیہ سمیت سینکڑوں شاگرد،ہزاروں عقیدت مند ومداح سوگوار چھوڑے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-05-05/1819120
سعودی عرب کے شمال مغربی حصے میں ہزاروں ایسے آثارِ قدیمہ ہیں جو اہرامِ مصر سے بھی 2500 سال قدیم ہیں اور جنہیں ’’مستطیل‘‘ کہا جاتا ہے۔
ان کی دریافت کا سلسلہ 1970 کے عشرے میں شروع ہوا تھا لیکن ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی حالانکہ یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ’’مستطیل‘‘ کم از کم 7000 سال پرانے ہیں۔

اب پرتھ میں واقع یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے ہیو تھامس اور ان کے ساتھیوں نے ’’مستطیل‘‘ پر پہلی بار سب سے تفصیلی تحقیق کی ہے جس میں تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
شمال مغربی سعودی عرب کے اس علاقے میں انہیں ایک ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں ’’مستطیل‘‘ ملے ہیں جو سابقہ اندازوں کے مقابلے میں کم از کم دگنی ہے۔
مستطیل کی لمبائی 20 میٹر سے 600 میٹر تک معلوم ہوئی ہے جبکہ ان میں استعمال کیے گئے بڑے سے بڑے پتھر 500 کلوگرام وزنی ہیں۔ البتہ ہر مستطیل کی دیواروں کی اونچائی 1.2 میٹر ہے جو خاصی کم ہے۔

دیواروں میں پتھروں کی ترتیب اور موٹائی دیکھ کر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر مستطیل کا ایک کونا ’’سر‘‘ اور دوسرا ’’دُم‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔
مستطیل کا مقصد کیا تھا؟ اس کا اندازہ بعض مستطیلوں سے ملنے والی، جانوروں کی ہڈیوں اور دوسری باقیات سے لگایا گیا ہے جس کے مطابق مستطیل غالباً کچھ خاص مذہبی رسومات (بشمول جانوروں کی قربانی) ادا کرنے میں استعمال کیے جاتے تھے۔
واضح رہے کہ تاریخی نوعیت کے بہت سے مذہبی واقعات کا مرکز ہونے کے باوجود، سعودی عرب کی قدیم تاریخ کا بیشتر حصہ آج تک نامعلوم ہے جبکہ مذہبی واقعات سے وابستہ تاریخ پر بھی زیادہ اور سنجیدہ تحقیق نہیں کی گئی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے صرف اسی علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مستطیل دریافت ہوئے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں اس طرح کے کوئی آثارِ قدیمہ موجود نہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی پریس کے ریسرچ جرنل ’’اینٹیکیٹی‘‘ کے تازہ شمارے میں اس حوالے سے ایک تفصیلی مقالہ شائع ہوا ہے جس کے مصنفین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’مستطیل‘‘ پر مزید تحقیق سے ان کے بارے میں ہم پر اور بھی غیر متوقع اور حیرت انگیز انکشافات ہوسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2173482/509/
بدھو کا مقبرہ یا نصرت جہاں کا مدفن،معمہ حل طلب
1 May, 2021

سکھ مذہب کے پیروکاروں کیطرف سے گورودوارہ بھی قرار دیا جاتا ہے
لاہور(سہیل احمد قیصر)بدھو کی آخری آرام گاہ یا شاہ جہانی دور کے خان دوراں کی اہلیہ نصرت جہاں کا مدفن ، عقدہ آج بھی حل طلب ہے ۔جی ٹی روڈ پر انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب واقع اس مقبرے کے باہر بدھو کا مقبرہ کے نام کی تختی لگی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ مقبرہ شاہ جہانی دور کے خان دوراں کی اہلیہ کی آخری آرام گاہ ہے ۔ دوسری طرف سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے اِسے گورودوارہ بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ 1590 میں جب سکھوں کے گورو ارجن دیو لاہور میں تھے تو ان کے ایک مریدبھائی بُدھو نے گورو ارجن دیو کے ساتھ عقیدت کی بنا پر یہ گورودوارہ تعمیر کرایا تھا۔ تاریخ دان شہزاد احمد کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اِس نقش کو محکمہ آثار قدیمہ نے کافی اچھے طریقے سے محفوظ کر رکھا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-05-01/1817339
عجائب گھر ‘گندھارا آرٹ گیلری میں 300 فن پارے
28 April, 2021

گندھارا آرٹ کا آغاز پہلی صدی عیسو ی میں بادشاہ کنشک کے زمانے سے ہوا مجسمے گوتم بدھ کی زندگی کومرحلہ وار انداز میں پیش کرتے ہیں:میوزیم ڈائریکٹر
لاہور(سہیل احمد قیصر)سجنے سنورنے کے بعد لاہور کے عجائب گھر کی شان سمجھی جانے والی گندھارا آرٹ گیلری نئے سرے سے چم چم کرنے لگی۔آرٹ گیلری میں گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے 3سو فن پارے موجود ہیں۔غیرملکی سیاح سب سے زیادہ دلچسپی اِسی گیلری میں لیتے ہیں۔ تفصیل کے مطابق قدیم زمانے میں گندھارا ہمارے ملک کے شمال مشرق میں واقع ایک علاقے کا نام تھا۔اِس علاقے میں آج کا مردان،سوات، بونیر ، پشاور، ٹیکسلا اور افغانستان کے کچھ علاقے شامل تھے ۔ لاہور عجائب گھر کی گندھارا آرٹ گیلری اِنہی قدیم زمانوں کی ترجمان گیلری ہے جسے لاہور عجائب گھر کی شان سمجھا جاتا ہے ۔تاریخی حوالوں کے مطابق گندھارا آرٹ کا آغاز پہلی صدی عیسو ی میں بادشاہ کنشک کے زمانے سے ہوا جب پہلی مرتبہ گوتم بدھ کا مجسمہ تراشا گیا۔ روزنامہ دنیا سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور میوزیم کے ڈائریکٹر اعجاز منہاس کا کہنا تھا ایسے مجسمے بھی گیلری کی زینت ہیں جو گوتم بدھ کی زندگی کو اُن کی پیدائش سے لے کر موت تک مرحلہ وار انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ لاہور میوزیم کے افسر تعلقات عامہ عاصم رضوان کا کہنا تھا گندھارا آرٹ گیلری میں مختلف سٹوپا کی باقیات کے نمونے بھی رکھے گئے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-28/1815926
مائی لاڈو مسجد کی 381 سال بعد بھی حیثیت برقرار
27 April, 2021

مائی لاڈو نے شہزادہ سلیم کو دودھ پلایا، شاہ جہاں کی بھی پرورش کی مسجد کا پہلا نگران مائی کا بیٹا تھا،بیرونی حصہ قیام پاکستان کے بعد تعمیر کیا گیا
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویر:ذوالفقار شاہ) مائی لاڈو مسجد کی 381 سال بعد بھی حیثیت برقرارہے ۔مائی لاڈو مغل دور میں قابل احترام دایہ تھیں۔اُن کے نام سے منسوب مسجد چیمبرلین روڈ پر واقع ہے ۔مورخ کنہیا لال ہندی کے مطابق مائی لاڈو شہزادہ سلیم کو دودھ پلانے والی دایہ تھیں جبکہ شاہ جہاں نے بھی مائی لاڈو کے ہاتھو ں میں ہی پرورش پائی ۔ مائی لاڈو کے شوہر کا نام محمد اسمٰعیل جبکہ اُن کے ایک بیٹے کا نام محمد شکور تھا ۔مائی لاڈو نے شاہ جہاں سے ایک مسجد تعمیر کرانے کی خواہش کا اظہار کیا جو مائی لاڈو کے نام سے منسوب ہو۔ اِس خواہش کے نتیجے میں مسجد مائی لاڈو تعمیر کی گئی۔ مائی صاحبہ کے صاحبزادے محمدشکور ہی مسجد کے پہلے نگران مقرر کئے گئے جبکہ 1659 میں اپنی وفات کے بعد مائی لاڈو اِسی مسجد میں دفن ہوئی تھیں۔ مغل دورِ حکومت میں اس جگہ کو ‘‘محلہ ٹِلا’’ کے نام سے پُکارا جاتا تھا اور اسی طرح دایہ لاڈو کے نام سے معروف ایک محلہ بھی قائم ہوا۔مسجد کا بیرونی حصہ قیام پاکستان کے فوراً بعد تعمیر کیا گیا تھا تاہم یہ مسجد آج بھی مائی لاڈو کے نام سے ہی جانی جاتی ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-27/1815380
https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108303110&Issue=NP_PEW&Date=20210427
مغلیہ دور کے ’سرو والا مقبرہ ‘کو محفوظ بنا دیا گیا
24 April, 2021

یہ مقبرہ محمد شاہ رنگیلا کے گورنر لاہور نواب زکریا کی بہن شرف النسا کا ہے اس منفرد مقبرے جیسی کوئی عمارت نہیں ملتی:ماہر آثار قدیمہ نجم الثاقب
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویر: ذوالفقار شاہ)مغل دورحکومت میں تعمیر ہونے والے ،سرووالا مقبرے ،کو محفوظ بنا دیا گیا،منفرد طرز تعمیر کا حامل یہ مقبرہ چاروں سے طرف سے مکمل طور پر بند ہے ۔ تفصیل کے مطابق سرو والا مقبرہ بیگم پورہ میں واقع ہے ، تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے یہ مقبرہ مغل بادشاہ، محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں گورنر لاہور نواب زکریا کی بہن شرف النسا بیگم کا ہے ۔ مورخین کے مطابق یہ مقبرہ 1735سے 1740 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا ۔ 39 فٹ بلند یہ مقبرہ مغلوں کے روایتی طرز تعمیر سے بالکل ہٹ کر تعمیر کیا گیا جہاں کوئی گنبد دکھائی نہیں دیتا۔مقبرے پر سرو کے بوٹے بنائے گئے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مقبرے کی نہ صرف مرمت کی گئی ہے بلکہ اِس کے چاروں طرف جنگلہ لگا کر محفوظ بنا دیا گیا ہے ۔ ماہر آثار قدیمہ نجم الثاقب کے مطابق یہ انتہائی منفرد طرز تعمیر کا حامل مقبرہ ہے کہ اِس جیسی کوئی دوسری عمارت نہیں ملتی،سکھ دور حکومت میں اِس مقبرے پر لگے ہوئے قیمتی پتھر اُکھاڑ لئے گئے تھے ۔
مقبرہ میاں خان ارباب اختیار کی توجہ کا منتظر
23 April, 2021

عالمگیری دور میں لاہور کے گورنر کا مقبرہ بھوگیوال میں واقع ہےدیکھ بھال نہ ہونے سے باغ کی حالت بھی خستہ حال:شہزاد اقبال
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویر:ذوالفقار شاہ) مقبرہ میاں خان کی عمارت ارباب اختیار کی توجہ کا منتظر ہے ۔عالمگیری دور میں لاہور کے گورنر میاں خان کا مقبرہ بھوگیوال میں واقع ہے ، میاں خان کے نام سے شاہ عالمی میں ایک حویلی بھی منسوب ہے ۔ تفصیل کے مطابق میاں خان کے والد نواب سعد اللہ خان، شاہ جہانی دور میں شاہی دربار میں بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے ۔ بعد میں شاہ جہاں کے صاحبزادے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بھی اِس تعلق کو نبھایا اور میاں خان کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی مرتے دم تک مغلیہ سلطنت کے وفادار رہے ۔ 1671 میں وفات کے بعد میاں خان کوسنگھ پورہ کے مقام پر دفن کیا گیا۔ بعد میں یہاں ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کرایا گیا ،بارہ دری کی 3 محرابیں خستہ حال ہوچکی ہیں۔اِس حوالے سے تاریخ دان شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ تعمیر کے وقت روایتی طور پر مقبرے کے اردگرد وسیع باغ بھی موجود تھا جس کا بہت ہی مختصر سا حصہ باقی رہ گیا ہے ،مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اب یہ کافی حد تک خستہ حال ہوچکا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-23/1813247
نراور مادہ بانسریوں کو ملاکر سر بکھیرنے والا ساز ’’الغوزو‘‘
21 April, 2021
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے فنکار غلام قادر کو ایک وقت میں دو بانسریاں بجانے میں مہارت حاصل ہے
کراچی (نیٹ نیوز)وہ اس کمال سے یہ ساز بجاتے ہیں کہ بیک وقت کئی دھنیں بکھر جاتی ہیں اور انہیں سننے والے جھوم جھوم جاتے ہیں۔غلام قادر نے سعودی نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو میں بتایا کہ میں نے اپنے استاد کو یہ ساز بجاتے ہوئے دیکھاتو مجھے اس کا شوق ہوا جو آہستہ آہستہ عشق میں تبدیل ہوگیا۔میرے استاد نے مجھے باقاعدہ یہ ساز بجانا سکھایا جو ان کا مجھ پر احسان ہے ،اس سازکو سندھی زبانیں ’’بنو ‘‘اوراردو میں ’’الغوزو‘‘کے نام سے پکارا جاتاہے ۔یہ سندھی ثقاقت کا قدیم سازہے جو شاہ عبدالطیف بھٹائی کے دورمیں ایجاد ہواتھا،یہ ساز ہمیشہ جوڑی میں بجایا جاتاہے ،اس میں ایک نر اور ایک مادہ ہے ،اگرکسی ایک کو بجایاجائے تو سازکا مزا نہیں آتا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-21/1811739
386 برس بعد بھی مسجد دائی انگہ کی شان و شوکت برقرار
21 April, 2021

مسجدصحن اور ہال پر مشتمل ،وضو کیلئے تالاب ،چھت پر 3 بڑے گنبد،2مینارسکھ دورحکومت میں مسجد کو اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا :نجم الثاقب
لاہور(سہیل احمد قیصر) 386 سال بعد بھی مسجد دائی انگہ کی شان و شوکت برقرار ہے ،نقش نگاری کا کام اپنی بہترین حالت میں دکھائی دیتا ہے ۔ تفصیل کے مطابق دائی انگہ، مغل شہنشاہ ، شاہ جہاں کی دایہ تھیں۔ جب شاہ جہاں ہندوستان کے بادشاہ بنے تو اُنہوں نے اپنی دایہ کی خواہش پر لاہور میں ایک بہت بڑا گلابی باغ اور اس میں مسجد دائی انگہ تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد لاہور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک سے ملحق ہے ۔ مسجد صحن اور ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کی دیواروں پر قرانی آیات لکھی نظر آتی ہیں۔ روایتی مغل طرز تعمیر کے مطابق صحن میں وضو کیلئے تالاب موجود ہے جو اب بھی بہترین حالت میں ہے ۔ مسجدکی چھت پر 3بڑے گنبد اور 2مینار دکھائی دیتے ہیں۔ والڈ سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر نجم الثاقب کے مطابق سکھ دور حکومت میں مسجد کو اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ بعدازاں ایک انگریز افسر مسٹر کوپ نے اِسے اپنی رہائش گاہ بنا لیا۔ 1903 میں مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد اِسے مسلمانوں کو واپس لوٹا دیا گیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-21/1812220
مصر میں امام شافعی ؒکے مزار پرگنبد کا افتتاح
منگل 20 اپریل 2021ء
قاہرہ (این این آئی) مصر میں اما م شافعی ؒکے مزار پرگنبد کا افتتاح کردیا گیا ۔مصر کے وزیر برائے سیاحت وآثار قدیمہ ڈاکٹر خالد العنانی نے امام شافعی رحم اﷲ کے مزار پر گنبد کے عظیم الشان منصوبے کی تکمیل کے بعد اس کا افتتاح کر دیا ہے اورکہاہے کہ پانچ سال سے جاری اس منصوبے کی تکمیل ان کے لیے باعث اعزاز ہے ،عالمی یوم ثقافت کے موقع پر مزار پر گنبد کی تکمیل بہترین تحفہ ہے انہوں نے کہا کہ گنبد کی تیاری پر22 ملین مصری پاونڈز کی رقم صرف ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی یوم ثقافت کے موقعے پر امام شافعی ؒکے مزار پر گنبد کی تکمیل بہترین تحفہ ہے ۔یہ منصوبہ مصری وزارت سیاحت وآثار قدیمہ کی طرف سے تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے جاری کوششوں کی عکاسی کرتا ہے ۔منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات بعض غیرملکی اداروں کے تعاون سے ادا کیے گئے ۔خیال رہے کہ مصری وزارت برائے آثار قدیمہ نے گذشتہ برس نومبر میں وزارت اوقاف کے مالی تعاون سے مزار سے متصل مسجد امام شافعیؒ کا افتتاح کیا گیا۔ امام شافعی کے مزار پر گنبد کے قیام اور مسجد کی توسیع سے سیاحوں کے لیے ایک نیا موقع فراہم کیا گیا ہے ۔ امام شافعی ؒکے مزار گنبد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے ۔خیال رہے کہ امام ابو عبداﷲ محمد بن ادریس الشافعی اہل سنت مسلک کے آئمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔ امام شافعیؒ نہ صرف ایک فقیہ عالم دین ہیں بلکہ وہ قاضی، سفر نگار اور شاعر بھی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عرب اور اسلامی دنیا میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر العانی نے مزید کہا کہ گنبد عمارت میں عمدہ سجاوٹی لکڑی کا کام اور فن تعمیر کے مخصوص نمونوں کے ساتھ لکڑی کی شاندار کمپوزیشن کی نادر مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس سے عمارت اسلامی فن تعمیر کے نمونوں کا تصویری ماڈل بن کرسامنے آئی ہے ۔امام شافعی کے مزار اور گنبد کے منصوبے کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر انجینیر ھشام سمیر نے بتایا کہ اس منصوبے کا اغاز 2016 کو کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل آج 2021 میں ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مزار اور اس گنبد میں پچی کاری، لکڑی کے کام کے ساتھ ساتھ جدید قدیم فنون تعمیرکو یکجا کیا گیا ہے ۔
https://www.roznama92news.com/%D9%85%D8%A7%D8%AD
گلابی باغ :صرف دائی انگہ مقبرہ،مختصر رقبہ رہ گیا
15 April, 2021

دنیا اخبارریلوے سٹیشن، گڑہی شاہو اور دیگر ملحقہ علاقے اِسی باغ کا حصہ تھےحکومت تمام تاریخی مقامات کی بحالی کے منصوبے پر عمل پیرا :سیکرٹری ٹورازم
لاہور(سہیل احمد قیصر)ایک زمانے میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا گلابی باغ اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ گلابی باغ صرف دائی انگہ کے مقبرے اور مختصر رقبے پر ہی رہ گیا ۔ تفصیل کے مطابق لاہور کا مشہور گلابی باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی دایہ ، دائی انگہ کی خواہش پر تعمیر کرایا تھا۔ اُس دور میں ریلوے سٹیشن، گڑہی شاہو اور دیگر ملحقہ علاقے اِسی باغ کا حصہ تھے ۔ بعدازاں دائی انگہ نے وصیت کی کہ اُن کی وفات کے بعد اُنہیں اِسی باغ میں دفن کیا جائے جس پر عمل کیا گیا۔ دائی انگہ کی وفات کے بعد اُن کی قبر پر 1671 میں شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ آج گلابی باغ صرف اِسی مقبرے اور مختصر سے رقبے پر محیط باقی رہ گیا ہے ۔ دوحصوں پر محیط اِس مقبرے کے داخلی راستے پر موجود پہلی عمارت پر کاشی گری اور فن کے دیگر نمونے بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ دائی انگہ کی قبر دوسرے حصے میں واقع ہے جو قدرے خستہ حال دکھائی دیتا ہے ۔مقبرے کے اندر جا بجا لکھی ہوئی قرآنی آیات آج بھی واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں تاہم یہاں اب سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اِس حوالے سے سیکرٹری ٹورازم پنجاب احسان بھٹہ کا کہنا ہے حکومت بتدریج تمام تاریخی مقامات کی بحالی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ،مقبرے کے ایک حصے کو بہتر بنایا گیا جبکہ دوسرے حصے پر بھی جلد کام شروع کردیا جائے گا۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-15/1809119
5روپے کے پاکستانی نوٹ کی زینت بننے والی خوجک سرنگ
4 April, 2021
صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 89 کلو میٹر کی مسافت پر شیلا باغ ریلوے سٹیشن آتا ہے
کوئٹہ (نیٹ نیوز)جہاں ٹرین کچھ دیر کیلئے رکتی ہے تو مسافروں پر خوجک ٹنل اور ارد گرد کا سحر طاری ہو جاتا ہے ۔توبہ کاکڑی کے خشک پہاڑوں کے درمیان بنی یہ 3.91کلومیٹر لمبی سرنگ 1891میں مکمل ہوگئی تھی اور اس وقت یہ دنیا کی تیسری بڑی سرنگ تھی تاہم 2003کے سروے کے مطابق یہ دنیا کی 12ویں بڑی سرنگ ہے ۔ برطانوی دور کی سرنگ بنانے پر مامور مزدور رات کے وقت تفریح کیلئے شیلا کا رقص دیکھا کرتے تھے اوردن میں کمائے پیسے وہاں لوٹادیتے تھے ۔ایک خبر کے مطابق سرنگ کی تعمیر شروع کرنیوالے انجینئر نے مقررہ مدت میں کام مکمل نہ ہونے پر خودکشی کرلی تھی ۔ ماضی کی ایک یادگار یہ سرنگ پاکستان کے 5روپے کے نوٹ (جو کہ اب بند ہو چکا ہے ) کی زینت بنی تھی
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-04-04/1803216

https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2021/04/03042021/p2-isb-014.jpg
غیر ملکی سیاحوں کی مقبرہ جہانگیر کے فن تعمیر کی تعریف
2 April, 2021

سیاحوں کو مقبرے کی تزئین و آرائش کے جاری کام کے بارے میں بریفنگ
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویر: محی الدین) غیرملکی سیاح مقبرہ جہانگیر کے حسن پر فریفتہ ہو گئے ،مغل طرز تعمیر کے شاہکار میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور مقبرہ کی سیر کو شاندار تجربہ قرار دے دیا۔تفصیل کے مطابق گزشتہ روز مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیرملکی سیاحوں کے ایک وفد نے مقبرہ جہانگیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے مقبرے کے طرز تعمیر کی تعریف کی۔ واضح رہے مقبرہ جہانگیر دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشا میں واقع ہے ۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا اور شاہ جہاں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔جہانگیرنے مرتے وقت یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اس کی قبر کھلی جگہ پر بنائی جائے تاکہ اس کی قبر پر بارش اور شبنم کے قطرے گرتے رہیں۔مقبرہ کے چاروں کونوں پر حسین مینار نصب ہیں۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی تھی لیکن پھر بہت کچھ برباد ہوگیا۔ دائیں بائیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں جو آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔دورے کے دوران سیاحوں کو مقبرے کی تزئین و آرائش کے جاری کام کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی ۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-04-02/1802601
تاریخ نویسی کیلئے صدی پرانی عمارت آج بھی خوبصورت
26 March, 2021

شالامار باغ میں رنجیت سنگھ کی تعمیرکردہ عمارت دہائیوں سے بند تھی عمارت سیاحوں کیلئے کھل گئی ، تاریخی مقامات کی ترجیحاً بحالی :مشیر وزیراعلیٰ
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویرامجد حسین)دہائیوں سے وقت کی گرد میں چھپا ہوا مورکرافٹ پیویلین بھی منظر عام پر آ گیا۔شالا مار باغ میں واقع پیویلین مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مورخ مورکرافٹ کے لیے تعمیر کرایا تھا،جسے سیاحوں کیلئے کھول دیاگیا۔تفصیلات کے مطابق شالا مارباغ میں مورکرافٹ پیویلین مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔ 1808میں ہندوستان پہنچنے والے انگریز مورخ نے اِسی عمارت میں بیٹھ کر 1920 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آپ بیتی لکھی تھی۔بتایا گیا ہے کہ دومنازل پر مشتمل ایک صدی پہلے تعمیر کی گئی یہ عمارت دہائیوں سے بند رہنے کے باوجود آج بھی بہترین حالت میں موجود ہے جسے اب مزید بہتر بنا دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے روزنامہ دنیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشیروزیراعلیٰ پنجاب برائے سیاحت آصف محمود نے بتایا کہ حکومت مزید تاریخی مقامات کی بحالی کا کام بھی ترجیحی بنیادوں پر مکمل کررہی ہے ۔ سیکرٹری ٹورازم پنجاب احسان بھٹہ نے بتایا کہ عمارت انتہائی شاندار حالت میں موجود ہے
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-03-26/1798984
سیکرٹری کوآپریٹو کا سر گنگا رام کے آبائی گاؤں گنگاپور کا دورہ
26 March, 2021

ثقافتی ورثہ ہارس ٹرین کی باقیات کا معائنہ ،سوسائٹی ممبران سے ملاقات کیاحمد رضا کی کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی گنگاپور کے الیکشن کروانے کی ہدایت
بچیانہ(نمائندہ دنیا )سیکرٹری کوآپریٹو پنجاب احمد رضا سرور کا سر گنگا رام کے آبائی گاؤں گنگاپور کا دورہ ۔ کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی گنگاپور کے الیکشن کروانے کی ہدایت۔ تفصیلات کے مطابق سابق ناظم گنگاپور رائو منور احمد خاں کی درخواست پر سیکرٹری کوآپریٹو احمد رضا سرور گزشتہ روز بچیانہ پہنچے جہاں انہوں نے علاقے کے ثقافتی ورثہ انوکھی سواری ہارس ٹرین کی باقیات کا معائنہ کیا اور اس کی بندش کی وجہ معلوم کرنے کیلئے کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی کے ممبران سے بھی ملاقات کی۔ سوسائٹی کے ممبران نے گھوڑا ٹرین کے بند ہونے کے اسباب کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا۔ انہوں نے کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی گنگاپور کا ریکارڈ بھی چیک کیا۔ جبکہ انہیں کوآپریٹو فارمنگ سوسائٹی کے الیکشن کروانے کی ہدایات دیتے ہوئے اسے مکمل فعال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہیں بریفنگ دیتے ہوئے سابق ناظم رائو منور احمد خاں نے کہا زندہ قومیں اپنے ثقافتی ورثے کی امین ہوتی ہیں اور علاقے کی ثقافت ہارس ٹرین کو دوبارہ بحال کرنا ناگزیر ہوچکا ہے
https://dunya.com.pk/index.php/city/faisalabad/2021-03-26/1798523

الجزائر کی جنگ آزادی فرانس نے بادشاہ کی مقبولیت میں اضافہ کیلئے الجزائر پر قبضہ کیا
دوسری جنگِ عظیم یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا رد عمل کے طور پر 3ستمبر 1939ء کو فرانس نے جرمنی کیخلاف اعلانِ جنگ کر دیا ۔ ہٹلر نے اپریل 1940ء میں ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کر لیا ۔ اس کیساتھ ساتھ جرمنی نے بیلجیئم ، نیدرلینڈ (ہالینڈ ) اور لکسمبرگ میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے 10مئی 1940ء کو ایڈ ولف ہٹلر نے فرانس پر بھی حملہ کر دیا ، فرانس پر جرمنی کا قبضہ 4 برس تک رہا ، 25اگست 1944ء کو فرانس کو آزادی ملی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا تو فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نو آبادی بنا رکھا تھا ۔ یہ ہے مہذب دنیا کے دہرے معیار ۔ فرانس کے عظیم فلسفی سارتر نے فرانس کے الجزائر پر قبضے کی مذمت کی ۔ سارتر امن اور آزادی کا حامی تھا اور اس نے ہمیشہ الجزائر کے عوام کی حمایت کی ۔ اسی طرح الجزائر میں پیدا ہونیوالے فلسفی اور ناول نگار البیر کامیو نے بھی فرانسیسی استعمار کی مخالفت کی ۔ جس وقت فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا اُس وقت فرانس پر چارلس Xکی حکومت تھی ۔ الجزائر پر قبضے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی عوام میں چارلس کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے ۔ الجزائر کی جنگ آزادی کوانقلاب الجزائر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ جنگ فرانس اور الجزائر کی قومی آزادی کے محاذ کے درمیان 1954ء سے 1962ء تک لڑی گئی ، یہ بڑی پُر تشدد جنگ تھی ۔ شمالی افریقہ کے ملک الجزائر پر 1830ء میں قبضہ کیا گیا ، اس جنگ میں وہ حربے بھی استعمال کئے گئے جو گوریلا جنگ میں اختیار کئے جاتے ہیں ۔ یہ تنازعہ خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر گیا ۔ یہ جنگ زیادہ تر الجزائر کے علاقوں میں لڑی گئی لیکن فرانس کو بھی اس کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس جنگ کی ابتداء نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF)کے ارکان کی طرف سے کی گئی اور اس کا آغازیکم نومبر 1954ء کو ہوا ۔ اس تنازعے کی وجہ سے فرانس میں شدید بحران پیدا ہو گیا اور اس سے ری پبلک فورتھ زوال سے دوچار ہو گئی اور اس کے بعد ففتھ ری پبلک کا آغاز ہوا ۔ اس سے فرانس میں مضبوط صدارت کی راہ ہموار ہو گئی ۔جس طرح فرانسیسی فوجوں نے الجزائر میں ستم کاریاں کیں اس سے الجزائر کے عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی ۔ ظاہر ہے جبر و استبداد سے کیسے دل جیتے جا سکتے تھے اور آگ میں پھولوں کا کھلنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ فرانس کے اندر بھی اس جبر و ستم کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ۔ فرانسیسی فوج کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی فرانس کے وقار کو شدید ٹھیس پہنچی ۔ جب جنگ طویل ہو گئی تو فرانسیسی عوام میں بھی اپنی حکومت کیخلاف غم و غصہ پیدا ہو گیا ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کے بڑے اتحادی جن میں امریکہ بھی شامل تھا نے بھی فرانس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ فرانس اقوام متحدہ میں الجزائر پر بحث رکوانے کا آرزو مند تھا لیکن اب وہ مصیبت میں پڑ گیا ۔ 19دسمبر 1962ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر الجزائر کے عوام کے حق خود ارادیت اور حق آزادی کو تسلیم کر لیا ۔ 1960ء میں الجزائر کے کئی شہروں میں آزادی کے حق میں زبردست مظاہرے کئے گئے ۔ ففتھ ری پبلک کے پہلے صدر چارلس ڈیگال (charles de gaulle) نے این ایل ایف کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے نتیجے میں مارچ 1962ء میں الوین معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔
8اپریل 1962ء کو ریفرینڈم کا انعقاد کیا گیا اور فرانس کے ووٹروں نے الوین معاہدوں کی منظوری دیدی ۔ 91فیصد ووٹروں نے ان معاہدوں کی توثیق کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر یکم جولائی کو ان معاہدوں کو الجزائر میں دوسرے ریفرینڈم سے مشروط کر دیا گیا جہاں 99.72فی صد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف 0.28فی صد لوگوں نے آزادی کی مخالفت کی ۔ فرانس نے الجزائر سے فوجیں نکالنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس کی وجہ سے بحران پیدا ہو گیا ۔ اس وجہ سے صدر ڈیگال پر کئی ناکام قاتلانہ حملے کئے گئے ۔ اس کے علاوہ فوجی بغاوت کی بھی کوشش کی گئی ۔ جس تنظیم نے صدر ڈیگال پر ناکام قاتلانہ حملے کئے وہ زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ الجزائر فرانس کی نو آبادی بنا رہے اس تنظیم کو فرانسیسی فوجیوں کا ایک گروپ چلا رہا تھا ، وہ فرانسیسی زبان میں جو نعرہ لگاتے تھے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں بنتا ہے (We want Algerian France )ہم فرانس کا الجزائر چاہتے ہیں ۔ اس تنظیم نے الجزائر پر بہت بمباری کی اور شہریوں کا قتل عام کیا ۔ اس کا صرف اور صرف مقصد یہ تھا کہ الجزائر کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھا جائے۔ 1962ء میں الجزائر کی آزادی کے چند ماہ کے اندر ہی الجزائر میں بسنے والے 9لاکھ یورپی باشندے فرانس بھاگ گئے ۔ انہیں خدشہ تھا کہیں این ایل ایف انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنائے ۔ فرانسیسی حکومت مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھی کیونکہ حکومت نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے فرانس شدید بحران کا شکار ہو گیا ۔ الجزائر کے مسلمانوں کی اکثریت جنہوں نے فرانسیسیوں کیلئے کام کیا تھا ، غیر مسلح تھی کیونکہ فرانس اور الجزائر کے حکام کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ حرکیوں (Harkis)کو این ایل ایف نے غدار قرار دیتے ہوئے ہلاک کر دیا ۔ حرکیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے الجزائر کے شہریوں کیخلاف فرانسیسی فوجوں کی حمایت کی تھی ۔
اب ہم 1830ء کی طرف چلتے ہیں جب فرانس نے الجزائر پر حملہ کیا تھا جس کی وجوہات اوپر بیان کی جا چکی ہیں ۔ مارشل بوگاڈ الجزائر کا پہلا گورنر جنرل بن گیا ۔ الجزائر کی فتح پر امن طریقے سے نہیں ہوئی ۔ الجزائر کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ، بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا اور ان گنت عورتوں کی آبروریزی کی گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق الجزائر کے قریباً 30لاکھ لوگوں کو موت کی وادی میں اتار دیا گیا ۔جہاں تک فرانسیسیوں کے جانی نقصان کا تعلق ہے تو1830ء سے 1851ء تک 3,336فرانسیسی ہلاک ہوئے جبکہ 92,329فرانسیسی فوجیوں نے ہسپتالوں میں دم توڑا 1834ء میں الجزائر فرانس کی فوجی کالونی بن گیا ۔ 1848ء کے آئین میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ الجزائر فرانس کا لازمی حصہ ہے اور اسے 3 شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک الجیرا ، دوسرا اورن اور تیسرا کنسٹائن ۔ بعد میں کئی فرانسیسی ، ہسپانوی ، اطالوی اور یورپ کے دوسرے شہروں کے لوگ الجزائر میں آباد ہو گئے ۔
ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ الجزائر کے لوگوں نے آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، ان کی آزادی میں صدر ڈیگال نے بھی اہم کردار ادا کیا فرانس کے مشہور امن پسند فلاسفروں نے کبھی الجزائر پر ہونیوالے مظالم کی حمایت نہیں کی ۔ فرانز فینن کا کردار بہت اہم رہا ، اس نے الجزائر کی تحریک آزادی کیلئے کام کیا ۔ فرانس کے وہ دانشور جو اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ ایڈولف ہٹلر نے 1940ء میں فرانس پر ناجائز قبضہ کیا ، کیا انہیں فرانس کا الجزائر پر قبضہ یاد نہیں ؟
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-02-20/24766
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے دشمن ممالک کے راز حاصل کرنے کی کہانیاں تو آپ نے سن رکھی ہوں گی لیکن آپ کو یہ سن کر سخت حیرت ہو گی کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کا ایک آفیسر سوویت یونین کا پورے کا پورے لڑاکا طیارہ ہی سمگل کرکے امریکہ لے گیا تھا۔ میل آن لائن کے مطابق اس آفیسر کا نام جم فیس تھا۔ اس نے 1977ءمیں یہ طیارہ مصر سے ایک امریکی کارگو جہاز میں لوڈ کروا کر امریکہ روانہ کیا۔
جم فیس ان دنوں سی آئی اے کے مصر سٹیشن کے سربراہ تھے۔ ان دنوں مصر میں انور سادات کی حکومت قائم ہوئی تھی اور وہ سوویت یونین سے دوری اختیار کر رہے تھے اور امریکہ کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی دوران جم فیس نے انور سادات کے ساتھ مذاکرات کیے اور سوویت مگ 23ایم ایس فلاجر فائٹر جیٹ امریکہ سمگل کرنے کی راہ ہموار کی۔جم فیس کے سرد جنگ میں کردار کی وجہ سے ان کے میڈلز آج تک ان کی فیملی نے ایک تصویر میں چھپا کر رکھے تھے جو گزشتہ دنوں ان کی بیٹی نے لندن میں نیلامی میں فروخت کر دیئے ہیں۔ نیلامی میں جم فیس کے میڈلز 22ہزار پاﺅنڈ (تقریباً 48لاکھ 80ہزار روپے)میں فروخت ہوئے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Feb-2021/1253013?fbclid=IwAR2C_22_7EnSF-8gb2BcVrD2jY7AvqzAIY6Z-ELMUopHrgE5xMWkLodlCOc

یہ قصہ شروع ہوتا ہے 1815 سے جب موجودہ یورپی ملک بیلجیئم میں واقع ’’واٹرلو‘‘ کے مقام پر نپولین بوناپارٹ کی قیادت میں لڑنے والی فرانسیسی افواج کو برطانوی افواج نے شکست دی اور وہ تتر بتر ہوگئیں۔
نپولین کو تو سینٹ ہیلینا میں قید کر دیا گیا لیکن اس کے بہت سے بہترین جنرل بے روزگاری سے تنگ آ کر نوکری کی غرض سے مراکش، مصر، فارس و روم سمیت مختلف خطوں میں پھیل گئے، جن میں سے ایک جنرل فرانسس الارڈ بھی تھا۔
جنرل فرانسس الارڈ (Jean Francois Allard)1785 میں فرانس کے شہر سینٹ ٹروپز (Saint Tropez) میں پیدا ہوا۔ وہ نپولین کے دور میں اٹلی اور اسپین کی جنگوں میں بھی لڑا۔ سیاسی جلاوطنی سے ڈر کر وہ فرانس سے فارس (موجودہ ایران) جا پہنچا جہاں اسے جنرل ونتورا کا ساتھ ملا جو خود فرانس سے یہاں آیا تھا۔ یہاں فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں جنرل شاہی دربار سے منسلک ہوگئے، لیکن برطانیہ نے شاہ فارس کو بھاری امداد کے بدلے فرانسیسی سپاہیوں کو گرفتار کرنے کا کہا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلے (ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں کی باہمی دشمنی سے تنگ آ کر دونوں فارس چھوڑگئے)۔
1822 میں یہ کابل پہنچے اور وہاں سے درہ خیبر پار کر کہ پشاور کے راستے پنجاب بھاگ نکلے اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے دربار میں پیش ہوئے۔
مہاراجا پہلے پہل تو انہیں دیکھ کہ برطانوی جاسوس سمجھا اور اس نے انہیں دو تین ماہ سخت نگرانی میں رکھا۔ چوںکہ رنجیت سنگھ کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے شدید خطرات لاحق تھے، اس لیے وہ اپنی افواج کو ان کے ہم پلہ کرنا چاہتا تھا، چناں چہ ان جنرلوں کی طرف سے تسلی کرلینے کے بعد رنجیت سنگھ نے انہیں اپنی افواجِ خاص کی یورپی طرز پر بہترین ٹریننگ کا کام سونپا۔ جنرل الارڈ کو گھڑسوار فوج جب کہ جنرل ونتورا کو پیدل فوج کا سربراہ بنایا گیا۔ اس فوج کی وردی بالکل نپولین کی فرانسیسی افواج کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ بہترین لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور فوج کے لیے شان دار گھوڑوں کا بھی انتظام کیا گیا۔ خالصہ فوج کی اتنی بہترین ٹریننگ کی گئی کہ انڈیا کا برطانوی جنرل، ایڈورڈ بھی اسے ’’ایشیا کی بہترین لڑاکا فوج‘‘ کہنے پہ مجبور ہو گیا۔ شاید اسی وجہ سے پنجاب وہ آخری خطہ تھا جو برطانیہ کے زیرِتسلط آیا۔
الارڈ نے ہر طریقے سے مہاراجا کا وفادار رہ کر پنجاب کی سرحدوں کی نگرانی کی پھر چاہے وہ 1825 میں پشاور اور ڈیرہ جات میں مسلم قبائل کو ہرانا ہو یا 1827 اور 30 میں سید احمد شہید بریلوی کے جہاد کو دبانا۔ یہ سب کچھ انہیں مہاراجا کے اور قریب لے آیا۔
رنجیت سنگھ کے دور میں جنرل الارڈ کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ مختلف جاگیریں بھی عطا کی گئیں۔ الارڈ اور ونتورا نے لوئر مال پر بہترین قیام گاہیں بنوائیں اور اپنا صدر دفتر بھی وہیں بنایا۔ 1847 میں اسی دفتر پر انگریز افسر ’’ہینری لارنس‘‘ نے قبضہ کرلیا اور آج یہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کا دفتر ہے، جسے ہم سول سیکرٹریٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سیکرٹریٹ کی کئی عمارتیں فرانسیسیوں کی بنائی گئی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل الارڈ نے مہاراجا کی بھتیجی ”بانو” سے شادی کی (مقبرے کے باہر لگی تختی کے مطابق الارڈ کی بیوی چمبہ کے شاہی خاندان کی شہزادی تھی) اور سیکرٹریٹ بلڈنگ کے باہر منتقل ہوگئے، یہی علاقہ آگے چل کر چھاؤنی بنا اور پھر چھاؤنی کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
اس جگہ جنرل الارڈ نے ایک بڑا باغ تعمیر کروایا جس کے بیچ میں اس کی رہائش گاہ بھی تھی۔ 1827 میں جنرل کی ایک بیٹی میری شارلٹ (Marie Charlotte) کم عمری میں ہی مرگئی اور اس نے اسے وہیں باغ میں دفنانے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اس جگہ کا نام مقامی زبان میں ”کڑی آلا باغ” رکھ دیا گیا جو پھر کُڑی باغ یا Daughter’s_garden# کہلایا۔
1834 میں جنرل الارڈ لمبی چھٹی پر فرانس واپس گیا جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے جنرل کی اہلیت کو دیکھتے ہوئے اسے پنجاب کی سکھ حکومت میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں جنرل اپنے خاندان کو فرانس چھوڑ کہ مہاراجا کی خدمت میں پیش ہوا۔ مہاراجا نے اسے جنرل ونتورا کی مدد کرنے قبائلی علاقوں میں بھیجا۔ تاہم وہ وہاں جاتے ہی بیمار ہو گیا اور 1839 میں پشاور میں اس کا آخری وقت آن پہنچا۔ اس کے تابوت کو پشاور سے لاہور مکمل فوجی اعزاز سے لایا گیا اور راستے میں ہر بڑے شہر میں سلامی دی گئی۔
جنرل الارڈ کو اپنی بیٹی کے ساتھ کڑی باغ میں ہی دفن کیا گیا جہاں مہاراجا نے سکھ طرزتعمیر کا ایک خوب صورت مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔یہ باغ پرانی انارکلی میں ایف بی آر کے دفتر کے پاس واقع ہے جہاں ایک زمانے میں ’’کپورتھلہ ہاؤس‘‘ ہوا کرتا تھا (بعد میں جس کی جگہ فلیٹس و دفاتر کھڑے کر دیے گئے) ماضی میں کڑی باغ کے نام سے مشہور یہ جگہ اب صرف جنرل الارڈ اور اس کی بیٹی کا مقبرہ ہے۔
آج کڑی باغ انارکلی کی بلند و بالا عمارتوں کے ہجوم میں سہما اور سمٹا ہوا ایک چھوٹا سا گھاس کا قطعہ ہے جس کے وسط میں سرخ اینٹوں کا ایک بڑا سا چبوترہ موجود ہے۔ اس چبوترے پر سرخ اینٹوں کا ہی ایک اور ایک ہشت پہلو چبوترہ ہے جس پر خوب صورت سفید گنبد والا مقبرہ بنا ہے۔ اس پر آٹھ چوکور درمیانے سائز کے مینار بھی ہیں۔
مقبرے کے اندر دو سنگ مرمر کی قبریں ہیں جن کے پیچھے دیوار کے بیچ ایک کُتبہ لگا ہوا ہے۔اس کتبے پر فرانسیسی کے یہ الفاظ درج ہیں؛
“Cette tombe a ete construite en 1827 sur l’ordre du chevalier general Allard sahib bahadur pour sa fille Marie Charlotte que dieu lui aporte sa benediction an paradis.”
”یہ قبر 1827 میں جنرل الارڈ صاحب بہادر کے حکم پر ان کی بیٹی میری شارلٹ کے لیے بنائی گئی۔ خدا اسے جنت میں میں جگہ دے۔”
ہماری ازلی بے حسی کی بدولت یہ جگہ بھی ابتری کا شکار تھی لیکن فرانسیسی حکومت کی مہربانی اور فرانسیسی قونصل خانے کے فنڈز سے اس کی بحالی پایۂ تکمیل کو پہنچی اور یہ تاریخی جگہ آج ہمارے سامنے بہترین حالت میں موجود ہے۔
تحریر کے اختتام پر میں محکمہ آثارِقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر مقصود احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کی بدولت یہ مقبرہ اندر سے دیکھنا نصیب ہوا کیوںکہ آج کل یہ زیادہ تر مقفل رہتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2148377/1/

جدید سیاسیات کا بانی اور اطالوی فلسفی،نکولو میکاولی اپنی کتاب’’دی پرنس‘‘میں لکھتا ہے:’’سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
گویا اس کے نزدیک سیاست داں بن کر ایک انسان غیر اخلاقی فعل انجام دے سکتا ہے۔خصوصاً جو سیاسی رہنما حکمران بن جائے،اسے کئی بار ،موقع محل کے مطابق دروغ گوئی،عیاری اور چالاکی سے کام لینا پڑتا ہے۔
یہ تعریف امریکی صدر،ڈونالڈ ٹرمپ پہ پوری اترتی ہے۔ٹرمپ کاروباری تھا جو امریکی عوام کے جذبات سے کھیل کر اکلوتی سپرپاور کا صدر بن گیا۔اس نے پھر اپنے مفادات کی خاطر کئی بار قانون اور اخلاقیات کو پیروں تلے کچلا ۔اپنا مفاد ہوتا تو وہ گدھے کو بھی باپ بنا لیتا۔مفاد نہ ہوتا تو اس کے نزدیک صوفی بھی بدمعاش قرار پاتا۔اسی سوچ کے تحت ٹرمپ نے اپنی فسادی پالیسیوں سے 6جنوری کو امریکی پارلیمنٹ میں اچھا خاصا ہنگامہ کرا یا اور جمہوریت کے گڑھ سمجھے جانے والے امریکا کی دنیا بھر میں بھد اڑا دی۔
ٹرمپ نے تاہم امریکی عوام کے دیرینہ مسائل جان لیے تھے۔لہذا امریکیوں کو بتایا کہ امریکی صنعت کاروں کو مجبور کرے گا ،وہ بیرون ممالک نہیں امریکا میں کارخانے اور دفاتر کھولیں تاکہ انھیں روزگار مل سکے۔اس نے امریکا میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔
چین اور دیگر ممالک کی اشیا کا امریکا میں استعمال کم کرنے کے لیے ان پہ بھاری ٹیکس لگا دئیے۔اگر معاملہ معیشت تک رہتا تو ٹرمپ کو امریکا میں مذید مقبولیت حاصل ہوتی مگر وہ متعصب رہنما تھا۔اس نے ظالم اسرائیل کی بے جا حمایت کی اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔مسلمانوں کی امریکا آمد پہ بے جا پابندیاں لگائیں۔سفید فام برتری کا قائل ہے۔امریکا کے سیاہ فام بالاآخر اسی تعصب کے خلاف زبردست مظاہرے کرنے لگے اور ٹرمپ کے مخالف بن گئے۔
اس دوران صدارتی الیکشن آ پہنچا۔ڈیموکریٹک پارٹی میں سوشلسٹ رہنما ،برنی سینڈرز اور اعتدال پسند لیڈر،جو بائیڈن کے مابین یہ کڑا مقابلہ ہوا کہ الیکشن میں کون ٹرمپ سے دو دو ہاتھ کرے۔شدت پسندی برنی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔دراصل وہ سرمایہ داری کے سخت خلاف ہیں۔حتی کہ اس کی خوبیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔جبکہ جو بائیڈن نرم جو طبیعت اور مفاہمتی پالیسیوں کے باعث ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں میں زیادہ دل پسند امیدوار قرار پائے۔سیاہ فاموں میں بھی انھیں مقبولیت حاصل تھی۔
محبت دینے سے ہمیشہ نفع
نامور برطانوی ڈراما نگار‘ ولیم شیکسپئیرنے ایک ڈرامے میں لکھا ہے: ’’محبت دینے سے ہمیشہ نفع ہوتا ہے۔‘‘ امریکی صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کی جیت نے یہ مقولہ سچ کر دکھایا۔ اس الیکشن میں دو شخصیات ہی نہیں ان کے نظریات و کردار کا بھی سخت مقابلہ درپیش تھا۔
ایک طرف ٹرمپ تھا‘ نفرت و تصادم کی پالیسیوں کا خالق ۔ دوسری سمت جو بائیڈن تھے جنہوں نے بالعموم محبت کی زبان بولی اور لڑائی نہیں مفاہمت و بھائی چارے پر زور دیا۔ ٹرمپ نے امریکی شہریوں کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیئے… زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کی خواہش، پُر آسائش زندگی بسر کرنے کا ارمان‘ سفید فام نسل کی برتری اور امریکا سب سے پہلے ۔ اس لیے وہ بھی سات کروڑ سے زیادہ ووٹ پانے میں کامیاب رہا۔ لیکن آخر میں محبت و امن ہی کو فتح ملی اور نفرت کے منفی جذبے پسپا ہو گئے۔جو بائیڈن کی جیت میں ان کی اپنی منفرد شخصیت اور مثبت فکر و عمل نے اہم کردار ادا کیا۔
اکلوتی سپرپاور،امریکا کے نئے صدر،جو بائیڈن کی خصوصیت ہے کہ وہ سابق صدر،بارک اوباما کی طرح نچلے متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔یہی نہیں ان کا لڑکپن خاص طور پر زندگی کی مشکلات اور مسائل سے مقابلہ کرتے گذرا۔مذید براں انھیں دوران حیات سخت ذاتی صدمات بھی برداشت کرنا پڑے۔ہر انسان خامیوں اور خوبیوں کا پتلا ہے۔ جو بائیڈن کی زندگی بھی غلطیوں سے عبارت ہو گی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ منفرد شخصیت ہیں۔ایک خود پروردہ ( سلیف میڈ)جنہوں نے اپنی صلاحیتیوں سے کام لے کر عزت‘ شہرت اور دولت کمائی۔وہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کے کام آتے ہیں۔
عرش سے فرش تک
جوزف روبینیٹ ’’جو‘‘ بائیڈن جونیئر 20نومبر1942ء کو امریکی ریاست پنسلیوینیا کے شہر‘ سکارنٹن میں پیدا ہوئے۔ والد ،جوزف بائیڈن سینئر( 1915ء۔2002ء) اور والدہ‘ کیتھرین جین بائیڈن (1917ء۔ 2010ء) کے اجداد آئرلینڈ سے امریکا آئے تھے۔ جو بائیڈن کا تعلق کیتھولک عیسائیت سے ہے۔ گویا وہ جان کینڈی کے بعد صدر امریکا منتخب ہونے والے دوسرے کیتھولک سیاست دان ہیں۔ بائیڈن سینئر تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1939ء میں امریکن آئل کمپنی میں کلرک لگ گئے تھے۔ تعلق نچلے متوسط گھرانے سے تھا۔
کچھ عرصہ بعد وہ کمپنی کے سیلز مین بن گئے اور تنخواہ میں اضافہ ہو گیا۔ 1941ء میں جین سے شادی کی اور اگلے سال ان کے بڑے بیٹے‘ جو پیدا ہوئے۔ تب جوزف بائیڈن کو معقول آمدن ہو رہی تھی۔ ان کے پاس گاڑی تھی اور وہ اچھا کھاتے‘ پیتے اور پہنتے تھے۔ دوسر ی جنگ عظیم ختم ہوئی‘ توملازمت چھن گئی اور خوشحالی کے بعد دور ابتلا شروع ہوا۔ گویا وہ اچانک عرش سے فرش پہ آ گرے ۔
تاہم جوزف نے خندہ پیشانی سے مشکلات کا مقابلہ کیا۔ وہ گھر چلانے اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر معمولی ملازمتیں بھی کرتے رہے۔1950ء میں جوزف کو ایک کارخانے میں چمنیاں صاف کرنے کا کام مل گیا۔ انہوں نے پھر بعض افراد کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا مگر وہ چل نہ سکا۔ دوسرا کاروبار کیا تو پارٹنر رقم لے کر چمپت ہوا۔اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک سادہ مزاج اور دوسروں پہ اعتماد کرنے والے انسان تھے۔ آخر وہ کاروں کی سیلزمینی کرنے لگے۔ اس نئی ملازمت سے گھر کا خرچ چلنے لگا۔

ہکلاہٹ کی مصیبت
جو بائیڈن بچپن میں کافی ہکلاتے تھے۔حتیٰ کہ اپنا نام بھی صحیح طرح نہ لے پاتے۔ جب گھر سے نکل کر محلے اور سکول میں بچوں سے ملتے تو وہ ہکلاہٹ کے باعث ان کا مذاق اڑاتے۔ نشوونما پاتے جو کو قدرتاً اپنی تضحیک پر سخت تکلیف ہوئی۔گویا بچپن ہی میں انہیں نفرت جیسے سخت جذبے سے پالا پڑ گیا۔ ایسی صورت حال میں اکثر بچے باغی بن کر معاشرہ دشمن بن جاتے ہیں۔ مگر جو نے منفی راستہ اختیار کرنے کے بجائے نفرت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بولنے کی مشق کرنے لگے۔
نثر و شاعری سے اقتباسات پڑھتے اور گھنٹوں انہیں دہراتے۔ کئی ماہ کی مسلسل مشق کے بعد آخر انہوں نے مثبت رویے اور مستقبل مزاجی سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پا لیا۔ اس کامیابی نے جو کو بہت اعتماد بخشا۔ سب سے بڑھ کر انہیں احساس ہوا کہ نفرت طاقتور منفی جذبہ ہے ،وہ کسی بھی انسان کی شخصیت بگاڑ سکتا ہے۔اس باعث انہوںنے طے کر لیا کہ وہ کسی ذی حس سے نفرت نہیں کریں گے۔اس فیصلے نے مستقبل میں ڈونالڈٹرمپ کو شکست فاش سے دوچار کرنے میں اہم حصہ ڈالا۔
حقیقی سیاست دان کون؟
1950ء تک ان کی ایک بہن اور دو بھائی دنیا میں آچکے تھے۔گھریلو اخراجات بڑھنے کے باعث جو طویل عرصہ اپنے نانا نالی کے گھر مقیم رہے۔ نانا کے ذریعے ہی جو سیاست سے متعارف ہوئے۔نانا کی عادت تھی کہ وہ شام کو دوستوں کے ساتھ سیاسی امور پر گفتگو کرتے۔ پوتا بھی پہلو میں براجمان ہوتا۔ نانا ہی سے جو نے سیکھا کہ حقیقی سیاست دان وہ ہے جو اپنی ذات یا صرف طاقتور لوگوں کے لیے نہیں بلکہ سبھی انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ انہوںنے پوتے کو یہ بھی بتلایا کہ وعدہ پورا کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔
عزت سب سے اہم!
جوزف بائیڈن کی سعی تھی کہ ان کے بچوں کو کسی قسم کی کمی نہ ہونے پائے۔ جو کی بہن‘ ولیری بتاتی ہیں: ’’ہمیں بچپن اور لڑکپن میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ خورونوش کی اشیا میّسر تھیں۔ ہم بھی دوسرے بچوں کی طرح عمدہ لباس پہنتے ۔ فرق بس یہ تھا کہ کپڑے لنڈے بازار سے خریدے جاتے ۔‘‘گھر چلانے کے لیے جوزف کو ہر وقت رقم کی ضرورت رہی مگر پیسا کماتے ہوئے انہوںنے کبھی عزت نفس کو داؤ پر نہیں لگایا۔ وہ ایک کار کمپنی میںبطور سیلز مین کام کر رہے تھے۔ کمپنی کا مالک نفسیاتی مریض تھا۔
دوسروں کو ذلت کا احساس د لاتے ہوئے تسکین پاتا ۔ ایک بار اپنے مریضانہ نفس کو خوش کرنے کے لیے اس نے عجیب کھیل کھیلا۔مالک نے تمام ملازمین کو ایک تقریب میں جمع کیا۔پھر ایک بالٹی میں چاندی کے ڈالر بھرے اور انہیں فرش پر انڈیل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ تمام ملازمین سّکے پانے کی خاطر فرش پر لوٹتے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں ۔ مگر جوزف کو یہ عمل بہت غیر انسانی اور غیر اخلاقی لگا۔ انہوں نے بیگم کا ہاتھ پکڑا اور تقریب سے نکل آئے۔ جوزف نے پھر کبھی اس کمپنی میں پاؤں نہ دھرا۔جوبائیڈن اپنی آپ بیتی میں درج بالا واقعہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں
’’میرے والد اپنے گھرانے کو خوشیاں دینے کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیار رہتے ۔ مگر شرط یہ تھی کہ ان کی عزت نفس کو گزند نہ پہنچے۔کام کی اہمیت اپنی جگہ،مگر عزت واحترام اس کے ساتھ نتھی ہونا چاہیے۔اگر انسان کو عزت نہ ملے تو چاہے تنخواہ لاکھوں ڈالر ہو،وہ بے معنی ہو جاتی ہے۔‘‘
لڑکا اپنے پیروں پہ!
اسکول کے زمانے میں جو بائیڈن علاقے میں اخبار فروخت کرتے رہے۔وہ گھروں میں صبح سویرے اخبار بھی ڈالتے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے اخراجات کی خاطر رقم کما سکیں۔وہ اپنے گھر کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔انھیں علم تھا کہ ابا کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بچوں کو جیب خرچ دے سکیں۔
اسی لیے جو خود ہی کام کر کے اپنی پاکٹ منی کمانے لگے۔گویا انھوں نے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا بہت جلد سیکھ لیا۔یہ گھرانا کئی سال تک دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم رہا۔پانچ افراد مل جل کر گذارا کرتے رہے۔دراصل اس وقت قناعت اور سادگی کا چلن تھا۔زندگی کی آسائشیں پانے کی اندھا دھند دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی۔اہل خانہ آپس میں پیار ومحبت رکھتے ،ان کی توجہ کا مرکز مادی اشیا نہیں تھیں۔محبت کی طاقت ہی سے وہ روزمرہ مسائل کا مقابلہ ہنستے کھیلتے کر لیتے۔جو بتاتے ہیں:
’’’میرے والد اکثر مجھے کہتے،چیمپ!اگر کسی انسان کا کردار جانچنا ہو تو ایک پیمانے سے مدد لو۔یہ کہ اس انسان کو کتنی بار شکست ہوئی…یہ بات اہمیت نہیں رکھتی۔اہم یہ ہے کہ وہ شکست کھانے کے بعد کتنی جلد اٹھ کھڑا ہوا اور پھر مشکلات ِزندگی سے نبردآزما ہو گیا۔‘میں نے اس سبق کو حرزِجان بنا لیا ۔میں جب بھی مات کھاتا ہوںتو وقتی طور پہ پژمردہ ہو جاتا ہوں۔لیکن پھر اٹھ کھڑا ہوتا اور دوبارہ جیت کے لیے جدوجہد کرتا ہوں۔‘‘
شراب نہیں پینی
جوزف بائڈن کو دوران حیات کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔وہ خصوصاً اپنی اولاد کی ترقی کے لیے کوشاں رہا۔اگرچہ ناکامیوں نے اسے شراب کا عادی ضرور بنا دیا۔نشے میں کبھی کبھی بچوں کو برا بھلا بھی کہہ دیتا۔اس تلخ تجربے سے پروان چڑھتے جو کو احساس ہوا کہ شراب بری شے ہے۔اسی لیے انھوں نے کبھی خمر نہ پینے کا عہد کیا۔
ایسے معاشرے میں جہاں اس بدبخت مشروب کی فراوانی ہے،اس سے دور رہنا قابل تحسین امر ہے۔اسکول میں جو اوسط درجے کے طالب علم تھے مگر طلبہ میں مقبول رہے۔وجہ ان کی خوش مزاجی ،زندہ دلی اور بہت باتونی ہونا تھا۔وہ اجنبی کو بھی بہت جلد دوست بنا لیتے۔اسکول میں مشہور تھا کہ جو کھمبے سے بھی بات کرے تو اسے بولنے پر مجبور کر دے گا۔یہ اس لڑکے میں جنم لینے والی حیرت انگیز تبدیلی تھی جو کچھ برس پیشتر ہکلاتا اور باتیں کرنے سے شرماتا تھا۔اس سلسلے میں انھیں والدین کی بھی بھرپور حمایت حاصل رہی۔
خبردار بیٹے کو کچھ کہا!
ایک بار جو کلاس میں باآواز بلند سبق پڑھ رہے تھے۔ہکلاہٹ کی وجہ سے سبق سنانے میں دیر ہو گئی۔کلاس ٹیچر ایک نن تھی۔پہلے تو وہ سبق سنتی رہی پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بولی ’’بو…بو…بو… بائیڈن جلدی پڑھو۔‘‘یہ الفاظ سن کرحساس جو کو قدرتاً شدید ذلت وتکلیف محسوس ہوئی۔
وہ اتنے پریشان ہوئے کہ کلاس چھوڑ کر گھر بھاگ آئے۔ماں نے بیٹے کو بے وقت آتے دیکھا تو وہ بھی گھبرا گئی۔بیٹے نے سارا ماجرا سنایا تو اسے لیے اسکول پہنچی۔وہاں پرنسپل کے سامنے نن نے اقرار کیا کہ اس نے جو کی تحضیک کی ہے۔ جو کی والدہ کو سخت غصہ آیا۔وہ نن کے قریب گئی اور کہا’’اگر آئندہ میرے بیٹے کو کچھ کہا تو میں تمھارا بونٹ(سر پوش)اتار کر اس کے چیتھڑے اڑا دوں گی۔سمجھ آئی۔‘‘پھر بیٹے کو واپس کلاس میں جانے کا حکم دیا۔یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ جو کے والدین ان سے نہایت محبت اور بچوں کی تندہی سے حفاظت کرتے تھے۔
دنیا میں سب انسان برابر
جوزف بائیڈن کا خاندان کئی سال تک تنگی وترشی کے عالم میں گرفتار رہا۔بعض اوقات صورت حال اس نہج پر پہنچ جاتی کہ بچوں کے جوتے پھٹ جاتے مگر نئے خریدنے کے لیے رقم نہ ہوتی۔تب جوتے کے اندر کارڈ بورڈ ڈال لیا جاتا کہ تلوے کے سوراخ بند ہو جائیں۔حالات سے واضح ہے،جو کے والدین انھیں اور ان کے بھائی بہن کو مادی آسائشیں نہ دے سکے مگر انھوں نے ان پہ محبت وتوجہ ضرور نچھاور کی اور ضرورت پڑنے پر قربانیاں بھی دیتے رہے۔یہی وجہ ہے،غربت میں بچپن ولڑکپن گذارنے کے باوجود تمام بچے خوداعتمادی کی دولت سے مالامال تھے۔وہ جانتے تھے، اپنی کوشش و محنت سے وہ معاشرے میں بلند مقام پا سکتے ہیں۔
والدین ہی سے جو بائیڈن کو یہ قیمتی سبق بھی ملا کہ دولت ،شہرت،عزت،رنگ ،نسل وغیرہ کسی انسان کو دوسروں پہ برتری عطا نہیں کر سکتیں۔دنیا میں سب انسان برابر ہیں،بس شرافت اور نیکیاں ایک انسان کو ممتاز بناتی ہیں۔اسی سبق کے باعث جو نے کبھی خود کو برتر نہیں سمجھا اور وہ آج بھی عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔اس خوبی نے انھیں عوام میں ہردلعزیز رہنما بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک بار زمانہ طالب علمی میں وہ سیاہ فام دوستوں کے ساتھ مقامی ریسٹورنٹ گئے جہاں کا مالک معتصب سفید فام تھا۔اس نے سیاہ فام لڑکوں کو اندر آنے سے روک دیا۔جو نے بھی احتجاجاً ریسٹورنٹ کا بائیکاٹ کر دیا اور پھر کبھی وہاں نہیں گئے۔
سلطنت کی رانی مل گئی
جو امریکی فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے،چناں چہ اسکول ٹیم کا حصہ رہے۔1961ء میں اسکول تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر میں پڑھنے لگے۔اب ان کی والدہ بھی مختلف ملازمتیں کرنے لگیں تاکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو سکیں۔اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کی خاطر والدین کیا کچھ نہیں کرتے!افسوس بہت سے بچے بڑے ہو کر اپنے والدین کی لازوال قربانیاں فراموش کر دیتے ہیں۔یونیورسٹی میں جو کا بیشتر وقت دوستوں سے خوش گپیاں کرتے گذرتا۔نوجوانی تھی،لڑکیوں میں بھی دلچسپی لیتے۔اکثر رات کو کلبوں میں رقص کیا جاتا۔پڑھائی کی طرف دھیان کم تھا۔گویا اس زمانے میں جو اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ بے پروا ہو گئے۔مگر ایک واقعہ نے ان کی زندگی بدل دی۔
1964ء کے موسم بہار جو بائیڈن دوستوں کی معیت میں سیروتفریح کرنے بہاماس جزائر پہنچے۔وہاں امیر خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ان کا دوست بن گیا جو فائیوسٹار ہوٹل میں ٹھہراتھا۔جو نے اس سے درخوست کی کہ وہ شاندار ہوٹل اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔لڑکے نے انھیں ہوٹل کا اپنا تولیہ دیا اور کہاکہ اسے پہن کر ہوٹل کے سوئمنگ پول پہنچنا،تمھیں کوئی گارڈ نہیں روکے گا۔وہاں سے پھر ہوٹل کے اندر چلے جانا۔یہ پلان کامیاب رہا اور تولیے میں لپٹے جو اعتماد سے چلتے سوئمنگ پول پہنچ گئے۔
جو وہاں سے ہوٹل کے اندر جا رہے تھے کہ قریب بیٹھی ایک لڑکی پہ نظر پڑ گئی۔یہ پہلی نگاہ میں عشق ہو جانے کا معاملہ تھا۔جو اس پہ فریفتہ ہو گئے۔لڑکی کا نام نیلیا ہنٹر تھا۔وہ نیویارک کے مضافات میں رہتی تھی۔والد ایک ہوٹل کے مالک تھے۔جو ہوٹل میں جانے کے بجائے لڑکی کے پاس بیٹھے اور اس سے باتیں کرنے لگے۔نیلیا کو بھی جازب نظر اور زندہ دل نوجوان بھا دیا۔یوں کیوپڈ نے اس پر بھی تیر چلا ڈالا۔بعد ازاں جو نے اپنے دوستوں کو بتایا ’’مجھے اپنی سلطنت کی رانی مل گئی۔‘‘

یہ شادی نہیں ہو سکتی
اب جو ہر ویک اینڈ پر اپنی محبوبہ سے ملنے سکانیٹیلز قصبے جانے لگے جہاں نیلیا رہتی تھی۔یہ تین سو میل کا طویل فاصلہ تھا مگر جو اسے خاطر میں نہ لائے۔انھوں نے نیلیا کو متاثر کرنے کے لیے اسکی بھی سیکھ لی۔لیکن دونوں کے بیاہ میں خاصی رکاوٹیں حائل تھیں۔نیلیا کے والدین نے جو کے بارے میں معلومات لیں تو پتا چلا کہ وہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔پڑھائی میں واجبی ہیں۔پھر ان کا خاندان کیتھولک ہے جبکہ وہ خود پروٹسٹنٹ تھے۔ان عوامل کی بنا پر نیلیا کے والدین بیٹی کا رشتہ جو سے کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔تاہم نیلیا کو جو پسند تھے اور وہ انہی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔
نیلیا نے پھر محبوب پہ زور ڈالا کہ وہ غیرسنجیدگی کو خیرباد کہہ کر تعلیم پر توجہ دیں۔بہتر تعلیمی کارکردگی سے روشن مستقبل کی راہ کھل جاتی اور یوں ان کا بیاہ ہونا بھی ممکن ہوتا۔جو کو بھی احساس ہوا کہ انھیں کچھ بن کر دکھانا ہو گا تبھی وہ محبوبہ کو پا سکیں گے۔1965ء میں ڈیلاوئیر یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے سیراکیوز یونیورسٹی کے لا کالج میں داخلہ لے لیا جہاں نیلیا بھی زیرتعلیم تھی۔یوں وہ محبوبہ کے قریب آ گئے۔جو وکیل بننا چاہتے تھے تاکہ باعزت روزگار کا بندوبست ہو سکے۔ان کی مستقل مزاجی اور نیک نیتی رنگ لائی اور نیلیا کے والدین بیاہ پر رضامند ہو گئے۔اگست 1966ء میں شادی ہوئی۔یوں جو اور نیلیا کی لو اسٹوری کا اختتام خوشگوار رہا۔
میدان سیاست میں داخلہ
1968ء میں جو وکالت کی ڈگری پا کر ولمنگٹن شہر چلے گئے اور وہاں مختلف لا فرمز سے منسلک رہے۔دلچسپ بات یہ کہ ان دنوں وہ ریپبلکن پارٹی کو پسند کرتے تھے۔1970ء میں مگر ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن بن گئے۔رفتہ رفتہ انھیں وکالت سے زیادہ سیاسی سرگرمیاں بھا گئیں۔1970ء میں مقامی کونسل کے کونسلر کاالیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔1972ء میں جو کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔اس سال ریاست ڈیلاوئیر میں سینٹ الیکشن تھا۔ریاستی ریپبلکن سینٹر،جیمز کلیب عوام میں خاصا مقبول تھا لہذا کوئی ڈیموکریٹک امیدوار اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ہوا۔
آخر جو بائیڈن نے جیمز سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کی خاطر وسائل بالکل نہ تھے۔یہ انتخابی مہم خاندان والوں نے چلائی۔والد،بیوی بچے اور بہن جلسوں میں شریک ہوئیں۔سب گھر گھر گئے اور لوگوں کو بتایا کہ جو سینیٹر بن کر عوام کے تمام مسائل حل کریں گے۔جیمز کلیب بوڑھا ہو چکا تھا۔وہ اپنی مہم بھرپور طریقے سے نہ چلا سکا۔ اور جو غیر متوقع طور پہ تین ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔تب ان کی عمر صرف 29برس تھی۔یوں انھیں امریکی تاریخ کے چھٹے کم عمرترین سینیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔فتح نے پورے خاندان میں خوشیوں کی لہر دوڑا دی۔جیت کے شادیانے بجنے لگے مگر کسی کو علم نہ تھا کہ جلد ایک بہت بڑا صدمہ ان پہ حملہ کرنے والا ہے۔
اور دنیا زیرزبر ہوئی
ایک ماہ بعد نیلیا تینوں بچے لیے بازار سے گھر جا رہی تھی کہ کار ٹریکٹر سے ٹکرا گئی۔نیلیا مع بیٹی وہیں چل بسی۔دونوں بیٹے زخمی ہوئے۔اس حادثے نے جو کو غم واندوہ سے نڈھال کر دیا۔اب وہ سینیٹر بننا نہیں چاہتے تھے مگر والدین کے اصرار پر اسپتال میں حلف اٹھا لیا۔انھوں نے پھر واشگٹن کے بجائے ولمنگٹن میں رہنے کا فیصلہ کیا۔وہ اگلے چھتیس برس تک روزانہ صبح بذریعہ ریل واشنگٹن جاتے اور شام کو ولمنگٹن آ جاتے۔یہ 190منٹ کا سفر تھا جو ان کی پدرانہ محبت وشفقت کا عکاس ہے۔اپنے آپ کو تھکا کر وہ بچوں کی تعلیم وتربیت پہ بھرپور توجہ دے سکے۔انھیں توجہ دینے کی خاطر ہی جو نے1977ء میں ایک اسکول ٹیچر،جل ٹریسی سے شادی کر لی۔
1988ء میں جو نے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیداور بننے کی مہم چلائی۔وہ مضبوط امیدوار تھے مگر انکشاف ہوا کہ انھوں نے اپنی تقاریر میں دیگر سیاسی رہنماؤں کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس چوری پر انھیں صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔جو کا کہنا ہے کہ ناتجربے کاری اور بے خبری کے باعث ایسا ہوا۔2008ء میں پھر صدارتی امیدوار بننا چاہا مگر نوجوان بارک اوباما سے شکست کھا گئے۔تاہم اوباما نے ان کا تجربہ اور عوام میں مقبولیت دیکھتے ہوئے انھیں اپنا نائب صدر بنا لیا۔دونوں صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔
ایک اور صدمہ
2015ء میں جو پھر ایک ذاتی صدمے سے دوچار ہوئے۔ان کا جوان بیٹا ،بیو بائیڈن ریاست ڈیلاوئیر میں اٹارنی جنرل تھا۔پتا چلا کہ اس کے دماغ میں کینسر ہے۔علاج شروع ہوا جو بہت مہنگا تھا۔باپ سوچنے لگا کہ اپنا گھر بیچ دے تاکہ بیٹے کی مالی مدد ہو سکے۔تاہم دوست احباب کے تعاون اور بچت سے علاج کے اخراجات پورے ہو گئے۔مگر بیو کا کینسر دور نہ ہوا اور وہ چل بسا۔صدر ٹرمپ نے اپنے دور میں جو کے دوسرے بیٹے،ہنٹر پر کرپشن کے الزام لگائے لیکن وہ درست ثابت نہ ہوئے۔
مسلم دوست شخصیت
امریکا میں یہودی ہر شعبہ ہائے زندگی میں چھائے ہوئے ہیں۔اسی لیے ان کے مسلم دشمن اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔جو بائیڈن کا رویّہ بہرحال عالم اسلام کے ساتھ بالعموم دوستانہ رہا ہے۔انھوں نے بطور سینیٹر 1991ء میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی۔1994ء میں امریکی حکومت پہ زور دیا کہ وہ بوسنیائی مسلمانوں کو اسلحہ فراہم کرے تاکہ وہ حملہ آور سربوں کا مقابلہ کر سکیں۔
انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سرب جرنیلوں پہ مقدمے چلائے جائیں۔حالیہ انتخابی مہم کے دوران انھوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا ،کہ بھارت ریاست میں انسانی حقوق بحال کرے۔جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ اقتدار سنبھال کر مسلمانوں کو اہم عہدوں پہ فائز کریں گے۔ان کی اعلی سطحی ٹیم میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔یاد رہے، پاکستانی حکومت نے 2008ء میں امریکا اور پاکستان کے مابین دوستی وقربت بڑھانے کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں مملکت کا دوسرا بڑا سول ایوارڈ،ہلال پاکستان عطا کیا تھا۔
تصویر کا دوسرا رخ
جو بائیڈن انسان ہیں۔ناقد ان کی کوتاہیاں بھی نمایاں کرتے ہیں۔مثلاً ان کا دعوی ہے کہ وہ بھی امریکی سرمایہ داروں کی کٹھ پتلی ہیں۔لہذا جواپنی حکومت میں انھیں فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تشکیل دیں گے۔ان پہ الزام ہے کہ بطور سینیٹر ایسے قوانین کی حمایت کی جن کے باعث آج لاکھوں امریکی طلبہ اربوں ڈالر کے تعلیمی قرضے میں جکڑے جا چکے۔
اسی طرح شعبہ صحت میں انھوں نے انشورنس کمپنیوں کو مالی فوائد دینے والے قوانین بنانے میں حصہ لیا۔2003ء میں عراق پر حملے کی تائید کرنے پر بھی جو تنقید کا شکار ہوئے۔1994ء میں انھوں نے کرائم بل نامی قانون پہ دستخط کیے تھے۔اسی قانون کی آج امریکی جیلوں میں لاکھوں امریکی قید ہیں۔غرض نئے امریکی صدر الزامات سے مبّرا نہیں اور ان کے دامن پر بھی داغ دکھائی دیتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2130095/10/

انسانی معاشرے کے ارتقاء میں ہیروز کا کردار ناگزیر رہا ہے۔
ہیرو کا کردار قبل از تاریخ کے اُس زمانے سے انسانی معاشرے کی صورت گری میں غیر معمولی کردار کا حامل رہا ہے جب انسان غاروں میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ تب کسی انسانی بستی میں رات کے وقت روشن الائو کے گر د بیٹھے ہوئے لوگ کسی ہیرو کی کہانی سے اپنے خون گرمایا کرتے تھے۔ انسان کے اولین مسکن ان غاروں کے اردگر پتھریلی چٹانوں پر بنی کسی شکاری مہم کی تصاویر بھی دراصل اپنے سورمائوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ ہوا کر تا تھا۔
لفظ ہیرو قدیم یونانی تہذیب سے ہم تک پہنچا ہے جس کے اندر جنگ جویانہ قائدانہ اور رول ماڈل کی صفات جمع ہیں۔ یونانی دیومالائی ادب میں ہیرو سے مراد وہ فانی شخص ہے جو لافانی کارنامے سر انجام دے جائے۔ یعنی انسان کو تو بہرحال فنا ہوجانا ہے لیکن اگر اُس کے کارنامے دائمی زندگی پاجائیں تو وہ ہیرو قرار پائے گا۔ لیکن ہیرو کے یونانی تصور میں اُ س کے کارنامے کا مثبت ہونا لازم نہیں ، ان کے نزدیک ناقابل یقین جرائم کے مرتکب ہونے والے بھی ہیرو ہی کہلاتے تھے۔ آج کی دنیا میں بہرحال ہیرو مثبت کارنامے انجا م دینے والوں ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔
ہیرو اپنی قوم، اپنے معاشروں کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ عزم اور جدوجہد کے منارہ رہ نور ہوتے ہیں۔ ان کا کردار ممکنات کے ایک خاص زمانے میں رائج تصور کو وسعت دینے کا باعث بنتا ہے۔ جو ناممکن سمجھا جار ہا ہو اور ناممکن ہونے کی وجہ سے ہی کوئی اسے ہاتھ نہ ڈالتا ہو، ہیرو اپنے عمل سے دکھا دیتا ہے کہ یہ پہاڑ سر کرنا بھی ممکن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیرو اپنے بعد نئے ہیروز کو جنم دیتے ہیں۔ تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے ہیرو گزرے ہیں جن کی جدوجہد ، قربانی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی پوری انسانیت کی بھلائی کا سبب بنی۔ دوسری جانب ایسے ہیروز بھی ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی نجات اور حقوق کے لئے اس کی رہنمائی کی ۔
چین کے چیئرمین مائو، روس کے لینن، جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور برصغیر کے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ایسے ہی ہیروز کی مثالیں ہیں۔ ان شخصیات کو جہاں اپنی قوم کی جانب سے غیر معمولی عزت و احترام اور محبت حاصل ہوتی ہے وہیں مخالفین انہیں اپنی شکست کی وجہ تصور کرنے میں بھی حق بجانب ہوتے ہیں، اور شکست کسی عظیم انسان ہی کے ہاتھوں کیوں نہ ہو، ناگوار ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے ان ہیروز کے ہاتھوں سامنے آنے والی تبدیلیوں کے خلاف آج بھی مخالفین برسرپیکار ہیں، یوں نظریاتی سطح پر شکست سے دوچار ہونے والوں کی ان ہیروز کے لیے نفرت بھی دائمی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر قائد اعظم کی رہنمائی میں تحریک پاکستان کے وہ مخالفین جو مذہبی طور پر مسلمان لیکن نظریاتی طور پر کانگریس پیرو کار تھے وہ پاکستان میں ہوں یا بھارت میں آج تک قائداعظم ؒ کے خلاف مصروف عمل رہتے ہیں۔دوسری اقوام کی طرح پاکستانی قوم کے ہیرو بھی ہیں لیکن جیسا کہ اوپر قائد اعظم ؒ کے حوالے سے ذکر ہوا ، پاکستان میں ایک ایسا بااثر طبقہ موجود ہے جو کسی ایسی ’ہیروشپ‘ کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا جس کی بنیاد دین پر استوار ہو۔ مثال کے طور پر متحدہ ہندوستان کی کانگریسی اور مہاسبھائی قیادت بشمول انگریز دانشوروں اور حکومتی مشینری کے سب اس ایک نقطے پر متفق تھے کہ مغل بادشاہوں میں صرف ایک شہنشاہ اکبر ہی کام کا آدمی تھا
اکبر کو حقیقی ہیرو کے طور پر شہرت دینے کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے ہی ملک اور خطے کی بنیاد پر ایک ہندو قومیت کا تصور راسخ کرنے کے لیے مذاہب کو آپس میں ضم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔ لیکن ایک قائد اعظم ؒ تھے جنہوں نے ہر موقع پر شہنشاہ اکبر کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کو دلیل کے ساتھ ناکام بنایا۔ اُ س وقت بھی جب وائسرائے ہند نے بھارت کے عوامی نمائندوں سے اپنی تقریرمیں مستقبل کی سیاست کے لیے اکبر اعظم کو رول ماڈل بنانے کی تلقین کی، اور اُس وقت بھی جب کراچی میں آخری وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن نے کراچی میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا تھا اور اپنے خطاب میں شہنشاہ اکبر کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا، قائداعظمؒ نے فوری طور پر اس گمراہ کُن حملے کا جواب دیا تھا۔ حالانکہ کراچی کی تقریب قیام پاکستان کے بعد پہلی اہم سرکاری تقریب تھی اور لارڈ مونٹ بیٹن مہمان تھے پھر بھی اپنی جوابی تقریر میں قائد اعظم نے فرمایا ’’مذہبی رواداری کا سبق ہمیں اکبر سے نہیں بلکہ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ سے لینا ہے‘‘۔
حال ہی میں جب ترکی کے ٹیلی ویژن کی جانب سے عظیم مجاہد ارتغرل غازی پر بنائی گئی ڈرامہ سیریل اُردو ڈبنگ کے ساتھ پی ٹی وی سے دکھائی جانے لگی تو پاکستان کے اسی طبقے کو فوراً پاکستان کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ ان لوگوں کو اس بات پرکبھی تشویش نہیں ہوتی اگر پاکستان کے بچے سپائڈرمین ، بیٹ مین ، آئرن مین اور سُپر مین جیسے مغربی فرضی کرداروں جیسے کپڑے پہن کر انہیں اپنا ہیرو تصور کرنے لگیں، لیکن جیسے ہی اس بات کا ’’اندیشہ ‘‘پیدا ہو کہ کہیں پاکستانی قوم ارتغر ل غازی کو اپنا ہیرو مان کر مغربی ثقافتی اور سیاسی ذہنی تسلط سے آزادی کا نہ سوچنے لگے ، ہر طرف سے ہماری اشرافیہ کے اس اقلیتی مگر انتہائی موثر طبقے نے شور مچانا شروع کردیا۔
خیر یہ چشمک کیونکہ نظریاتی ہے لہذا چلتی رہے گی، یہاں ہم اس آرٹیکل کے ذریعے اُن غلط اطلاعات کی تصیح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اسلامی تاریخ کے اس غیر معمولی کردار کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر پھیلائی گئی ہیں۔
اس ڈرامہ سیریل کے بارے میں ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں آن ائیر ہوتے ہی مقبولیت کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پی ٹی وی کے اعداد و شمارکے مطابق 25اپریل سے 14مئی2020 تک 133.38 ملین لوگوں نے یہ ڈرامہ دیکھا جس سے مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے اس تاثر کا بھی دھڑن تختہ ہوجاتا ہے کہ لوگ تو بس رومانوی اور چھچھورے کرداروں بر مبنی ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پی ٹی وی کے مطابق صرف پہلے 20دنوں کے اندر اس ڈرامے کے لیئے 2.1 ملین لوگوں نے چینل کو سبسکرائب کیا۔
آگے ہم رحمت اللہ ترکمن ’’جن کا اپنا نسلی اور نسبی تعلق قائی خان، ماغ خان کے ساتھ ہے‘‘ رحمت اللہ ترکمن نے اپنی کتاب میں مغربی مصنفین کی جانب سے ارتغرل کے بارے میں پھیلائی گئی گمراہ کن کی تصیح کی ہے۔
جلیل القدر پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے: حام ، سام ، یافث۔ آپ نے تینوں بیٹوں کو زمین کے تین مختلف مقامات میں آباد ہونے کے لئے روانہ کیا۔ عرب اور ایرانی اقوام ’ سام ‘ کی اولاد ہیں، ’ حام ‘
سیاہ فام اقوام کا جد اعلیٰ تھا جبکہ یافث نے اپنے والد گرامی کے حکم سے مشرق کی جانب سفر کیا اور ایک جگہ آباد ہوا، اس نے250 سال عمر پائی، اس کے آٹھ بیٹے تھے: ترک ، خزر ، چین ، سقلاب ، روس، منگ ، کماری اور تارخ۔ یافث کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا ’ ترک ‘ سردار بنا۔ دنیا بھر کے ترک اور مغل اقوام اس کی نسل ہی سے پیدا ہوئیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کے اس پوتے ’ ترک ‘ نے روئے زمین کے اکثر ممالک کا سفر کیا اور ایسیق کول (Issyk Kul) نامی جگہ پر قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ جگہ موجودہ قرغستان میں ہے۔ ترک کے چار بیٹے تھے : توتک، چیگیل ، برسجار ، املاق۔ باپ نے مرتے وقت ’ توتک ‘ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ دنیا میں سب سے پہلے خوراک میں نمک کا استعمال ’ توتک ‘ ہی نے کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک روز توتک شکار پر نکلا اور ایک ہرن شکار کرکے اس کا گوشت بھون کر کھا رہا تھا۔ اسی اثنا میں گوشت کا ایک ٹکڑا زمین پر گرا ۔ اس نے اٹھا کر منہ میں ڈالا تو بہت خوش ذائقہ اور لذیذ معلوم ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ زمین نمکیلی تھی، اس کے بعد سے نمک خوراک کا اہم جزو بن گیا۔
توتک کے بعد ’ ایلجہ خان ‘ اور اس کے بعد ’ دیپ باقوی ‘ سردار بنا۔ اس کے بعد ’ گوک خان ‘ نے ترکوں کی سربراہی سنبھال لی اور مرتے وقت ’ النجہ خان ‘ کو جانشین بنایا۔ اس کے زمانے میں ترکوں کی آبادی کافی بڑھی اور وہ ایک وسیع و عریض سرزمین پر زندگی گزارنے لگے ۔ ’ النجہ خان ‘ کے دو بیٹے تھے: تاتار اور مغل۔ وفات سے قبل النجہ خان نے دونوں بیٹوں میں مملکت برابر تقسیم کردی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یافث سے النجہ خان تک ، سب مسلمان تھے۔ تاہم اس کے بعد مال و دولت کی فراوانی میں اس قدر غرق ہوئے کہ خدا کو بھلا دیا اور کفر میں داخل ہوگئے۔
’ مغل خان ‘ کے چار بیٹے تھے : قرا خان ، گورخان ، قیرخان اور اورخان ۔ قراخان بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ، اس لئے قبیلے کے قاعدے کے مطابق والد کے انتقال کے بعد وہی حکمران بنا۔ قراخان کا بیٹا تھا : اوغوز خان۔ یہ وہی اوغوز خان ہے جس کا بار بار ذکر ڈرامہ ’ ارطغرل ‘ میں کیا جاتا ہے، جس کی مہر جس کے ہاتھ لگ جاتی، وہی طاقتور ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اوغوز خان جب پیدا ہوا تو اس نے تین شب و روز تک اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا تھا۔ ہر رات اپنی ماں کے خواب میں آکر کہتا کہ ’’ اے مادر ! خدائے واحد پر ایمان لے آ ورنہ میں مرجائوں گا لیکن تیرے دودھ کو منہ نہ لگائوں گا۔ بالآخر اس عورت سے بچے کا درد دیکھا نہ گیا اور وہ مخفی طور پر ایمان لے آئی۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ یہ اوغوز خان دراصل قرآن مجید میں مذکور ’ ذوالقرنین ‘ تھے۔
اوغوز خان کے جوان ہونے پر قرا خان نے اپنے بھائی گورخان کی بیٹی سے اس کی شادی کروا دی۔ اوغوز نے پہلی شب بیوی سے کہا : ’’ تیرا اور میرا رب ، ایک اللہ ہے جس نے پوری کائنات کی تخلیق کی، اس کی وحدانیت پر ایمان لے آ اور اس کے احکام پر عمل کر۔‘‘
بیوی نے اس کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا ، اوغوز نے اس سے مکمل قطع تعلق کرلیا۔ قرا خان کو کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ اوغوز کے اپنی اہلیہ سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، چنانچہ اس نے دوسرے بھائی قیرخان کی بیٹی سے اس کی شادی کروادی لیکن اس کی یہ بیوی بھی اللہ پر ایمان لانے کو تیار نہ ہوئی۔ اوغوز نے اس سے مکمل قطع تعلق کرلیا۔ ایک دن اوغوز نے اپنے چچا ’ اورخان ‘ کی بیٹی کو دیکھا، وہ اسے پسند آگئی، اس کے پاس جاکر اپنے عقیدے سے آگاہ کیا اور اسے دین حق کی دعوت دی، وہ لڑکی ایمان لے آئی۔ اوغوز خان نے اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔
ایک روز جب اوغوز خان شکار کے لئے گیا ہوا تھا، اس کی پہلی دونوں بیویوں نے اپنے سسر’ قراخان ‘ کے پاس جاکر اوغوز کے الگ دین پر ہونے اور ان سے قطع تعلقی سے متعلق آگاہ کیا۔ قرا خان یہ سن کر آگ بگولہ ہوا اور اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے اوغوز کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اوغوز کی مسلمان اہلیہ نے آدمی بھیج کر شوہر کو خبر کردی۔ اوغوز نے بھی اپنے حامی اور قریبی سپاہیوں کو جمع کرلیا۔ جنگل میں باپ بیٹے کے درمیان لڑائی میں بیٹے کو فتح ہوئی جبکہ باپ ایک تیر لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اب اوغوز حکمران بن چکا تھا، نتیجتاً قوم کی اکثریت اللہ پر ایمان لے آئی۔
اوغوز خان کے چھ بیٹے تھے: گون خان ، آئی خان ، یلدیز خان ، گوک خان ، تاغ خان اور تنگیز خان۔ اوغوز نے مختلف علاقوں میں یورش کی۔ ایک روایت ہے کہ اس نے ہندوستان پر حملہ کرکے کشمیر کو فتح کیا تھا، اس کے علاوہ چین ، ایران، مصر اور شام کے علاقوں پر بھی اپنا پرچم لہرایا تھا۔ خلجی، قارلق اور اوئیغور( مشرقی ترکستان جسے چین نے ’ سنکیانگ ‘ کا نام دے رکھا ہے، میں بسنے والے لوگ ) بھی اوغوز خان کی نسل میں سے ہیں۔ آج کے ممالک ترکمانستان ، افغانستان، برصغیر پاک و ہند ، ایران ، عراق ، ترکی، آذربائیجان اور شام کے ترک قبائل اوغوز خان کی اولاد ہیں۔
اوغوز خان نے اپنے بیٹوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ۔ اولاً گون خان، آئی خان ، یلدیز خان۔ ثانیاً گوک خان ، تاغ خان اور تنگیز خان۔ اوغوز کے انتقال پر بڑا بیٹا ’ گون خان ‘‘ قوم کا سربراہ بنا ۔ اوغوز خان کے چوبیس پوتے تھے، ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ قبیلے کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے ایک ’ قائی‘ ، دوسرا ’ چاولدور ‘ اور تیسرا ’ دودورغہ ‘ بھی تھا۔ ارطغرل غازی ڈرامہ دیکھنے والے قارئین ان تینوں ناموں سے بخوبی آگاہ ہیں۔’ گون خان ‘ کے بعد اس کا بیٹا ’ قائی خان ‘ حکمرانی کے منصب پر فائز ہوا۔ بعد ازاں ترکوں میں حکمرانی قائی خان کی اولاد میں ہی رہی۔ یہ سلسلہ ’ارطغرل غازی ‘ تک پہنچا۔
حضرت نوح علیہ السلام سے ارطغرل غازی تک کی یہ کہانی ’ ارطغرل غازی‘ کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں شامل ہے ، اس کے مصنف ’ رحمت اللہ ترکمن ‘ ہیں، جو قائی خان کے چچا تاغ خان کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد ترکمانستان میں آباد تھے،1920ء میں اشتراکی انقلاب آیا تو رحمت اللہ ترکمن کے پردادا افغانستان چلے آئے۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو مصنف کے والد عبداللہ ترکمن اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کے ضلع ہری پور میں آباد ہوگئے۔ رحمت اللہ ترکمن کی پیدائش یہاں پر ہوئی۔ ابتدائی ، ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کابل ( افغانستان ) چلے گئے۔ آج کل افغان پارلیمنٹ کے واحد ترکمان رکن محمد شاکر کریمی کے سیکرٹری ہیں، جبکہ تحقیق و تصنیف ان کا عشق ہے۔’ ارطغرل غازی‘ کتاب میں انھوں نے ارطغرل کی زندگی کے بارے میں بہت سی ایسی باتوں کا انکشاف کیا ہے جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہیں۔ یہ کتاب جہلم کے مکتبہ ’ بک کارنر ‘ نے شائع کی ہے۔
ارطغرل غازی اور امیر سبگتگین ( محمود غزنوی کے والد) ایک ہی نسب اور قائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ارطغرل غازی اور امیر سبگتگین دونوں ہی اپنے زمانے کی دو عظیم سلطنتوں کے بانی تھے۔ جس طرح ارطغرل غازی نے سلجوقیوں کے اوچ بیگی کی حیثیت سے مغرب میں بازنطینی عیسائیوں کو پے در پے شکست دے کر اسلامی سرحدوں کی وسعت میں اضافہ کیا اور عثمان غازی جیسا عظیم جانشین چھوڑا۔ اسی طرح قائی قبیلے کے سبگتگین نے بھی ہندو راجے جے پال کو شکستوں سے دوچار کرکے ہند کے علاقوں میں اسلام کی صدا بلند کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اورقائی قبیلے کے بانی ’ قائی خان‘ کا عہد ایک ہی ہے۔ اس کی نسل میں کئی سردار حضرت دائود علیہ السلام اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لائے۔ پھر اسی سلسلے میں ایک سردار ’ یاسو‘ بھی آیا۔ ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ مملکت عرب کی طرف سے چاند اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں اور ان کی روشنی اس تک بھی پہنچ رہی ہے۔ اس خواب کے کچھ عرصے بعد مکہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کی خبر پھیلی۔ ’ یاسو‘ نے یہ سنتے ہی مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور مویشی ذبح کرکے گوشت رعایا میں تقسیم کیا۔ اس کے بیٹا ’ قرا خان ‘ جب حکمران بنا تو اس نے اپنے ایک وزیر ’ قورقوت ‘ کو مدینہ منورہ میں بھیجا جس نے آنحضرت ﷺ کی زیارت کی جس کے بعد حضرت سلیمان فارسی ؓ اس قبیلے کے ہاں اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لئے تشریف لائے۔
ترک قبائل رسول اکرم ﷺ سے صدیوں قبل بھی ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے، اپنے خدا کو ’ تنگری ‘ کہتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق تمام کائنات کا خالق ایک تنگری ہے، اسی نے زمین، آسمان ، سورج ، چاند بنائے۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرکے عمر میں اضافہ کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ دیگر اقوام کے برعکس ترک کبھی بت پرست نہیں رہے۔ ان میں عبادت گاہ یا معبد کا تصور نہیں تھا، ترکوں کا عقیدہ تھا کہ ان کا خدا براہ راست سنتا اور دیکھتا ہے۔
ابن قدیم ترک قبائل کی خواتین میں چہرہ چھپانے کا رواج نہ تھا لیکن اس کے باوجود ان میں زنا و بدکاری کی شرح صفر تھی اور اسے جرم سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہوتا تو اسے موت کی سزا دی جاتی اور اس کے جسم کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔
ترکوں کے قدیم عقائد اور اسلام میں کئی باتیں مشترک تھیں جس کے سبب ترکوں کو اسلام قبول کرنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ اسلام اور تنگری ازم (Tengrism) میں بہت سے پہلو مشترکہ تھے، مثلاً ایک خدا پر ایمان، وہ ہر جگہ موجود ہے، اس کو کبھی زوال نہیں، تمام کائنات کا وہی خالق ہے، خدا کے لئے مقدس جنگ ( جہاد) کا تصور، مساوات و برابری ، نیک کاموں اور صدقات پر ایمان، اولی الامر کی اطاعت ،جنت و جہنم کا تصور ، زنا کی ممانعت ۔
گزشتہ صدی میں تصنیف کی جانے والی کتاب ’’ دولت عثمانیہ ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد عزیر نے کمال لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغربی مستشرقین ہربرٹ گینس اور پروفیسر گرمانس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ قائی قبیلہ اناطولیہ میں آمد کے وقت بت پرست تھا۔ اس نے ارطغرل کو بھی غیرمسلم قرار دیا جو کہ سراسر جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے۔
دراصل موصوف ترکی زبان سے ناشناسی کے سبب ’ نشری ‘ کی کتاب کا براہ راست مطالعہ نہ کر پائے اور مغربیوں کے کہے کو حقیقت مان کر اس کی تائید بھی کر دی۔ پھر ایک اور کتاب آئی جس کا نام ’’ تاریخ دولت عثمانیہ ‘‘ رکھا گیا۔ اسے فرانسیسی زبان میں دلاژوں کئیر نے لکھا، فرانسیسی سے انگریزی اور انگریزی سے اردو ترجمہ بالترتیب محمد مارماڈیوک پکتھال اور مولوی سید ہاشمی فرید آبادی نے کیا۔ اس میں ارطغرل کا تذکرہ آتش پرست ، بت پرست اور وحشی کہہ کر کیا گیا۔
پاکستان کے بعض پبلشرز اس کتاب کو قدیم اور مفت مال جان کر سوچے سمجھے اور پڑھے بغیر شائع در شائع کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ارطغرل غازی کفار کی بربریت پر فہر بن کر ٹوٹا۔ البتہ ہمارے بعض مسلمان مصنفین نے اس کے بارے میں محنت اور تحقیق سے کام نہ لیا۔ انھوں نے انتہائی بنیادی ذرائع سے معلومات حاصل نہ کیں ، معلومات کی پڑتال کرنے کی کسی بھی طور پر کوشش نہ کی، یوں ارطغرل غازی سے نفرت کرنے والوں کی باتوں ہی کو آگے پہنچانے کا کام کرتے رہے۔ افسوس ہے ایسے مصنفین پر، تاہم ’ رحمت اللہ ترکمن ‘ نے اپنی کتاب میں حقائق پیش کرکے محنت اور تحقیق سے جی چرانے والوں سے پردہ ہٹادیا ہے۔ ہمارے ہاں تحقیق و تصنیف پر کام کرنے والوں کو بھی انتہائی بنیادی ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے، یہ کام کرتے ہوئے کچھ تو سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے!
اسلامی اقدار کی ترویج
وزیر اعظم عمران خان نے پاک ترک تعلقات پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے عوام سے کہا تھا کہ وہ اسلامی ثقافت اور اقدار سیکھنے کے لئے پی ٹی وی پر ارتغرل غازی ڈرامہ دیکھیں۔ انہوں نے اس موقع پر ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں کے تباہ کُن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلمیں بیہودگی اور فحاش پھیلانے کا ذریعہ ہیں اور یہ فحاشی ہی ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے جنسی جرائم میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جب کسی معاشرے میں فحاشی اور بے راہ روی عام ہوتی ہے تو خاندانی اقدار تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس ڈرامے نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ’’ اسلامو فوبیا،، (اسلام سے خوف) کے تاثر کو زائل کرنے میں عیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ اس ڈرامے نے یہ باور کرایا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور مسلمان اپنے کردار میں دلیر، مہربان اور اصول پسند ہوتے ہیں۔
اس ڈرامے کے حوالے سے ایک اور انتہائی خوبصورت اور مفید بات یہ سامنے آئی ہے کہ اس میں غیر محسوس طریقے سے اُن رویوں کی ترویج کی گئی جن کی تلقین اسلام ہمیں کرتا ہے، یعنی ماں کے ساتھ کیسا برتائو ہونا چاہئے۔ بیوی کے ساتھ سلوک کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اپنے سپاہیوں اور فوجی کمانڈروں کا کس طرح خیال رکھنا ہے اور دشمن کے ساتھ معاملات کس طرح کرنے ہیں۔
یہ سب باتیں وعظ و نصیحت کے انداز میں نہیں بلکہ کرداروں کے روزمرہ رویوں کے ذریعے دیکھنے والوں تک پہنچائی گئی ہیں اور یہی طریقہ موثر ثابت ہوتا ہے۔
اس ڈرامے کے پروڈیوسر اور اسکرین پلے لکھنے والے مہمت بزوگ کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک کا تجارت اور سیاسی میدانوں میں باہمی تعاون ہی کافی نہیں بلکہ انہیں فن و ثقافت میں بھی باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے حیرت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برادر ممالک کہتے ہیں لیکن آج تک ہم نے فن و ثقافت میں مشترکہ منصوبے نہیں بنائے جب پاکستان اور ترکی میں سے کوئی ایک ملک مشکل میں ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے عوام اس مشکل کے حل کے لئے متحرک ہوجاتے ہیں لیکن ہمیں اچھے دنوں میں بھی اس جذبے کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیے اور یہ تعاون صرف سینما تک محدود نہ ہو بلکہ اسے پکوانوں، عجائب گھروں اور تاریخ کے شعبوں تک وسعت حاصل ہونی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گو کہ پاکستان اور ترکی کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیں لیکن دونوں قومیں روحانی طور پر ایک قوم کی طرح ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سیریل کی بیرون ملک دکھائے جانے کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2148345/10/
حویلی کھڑک سنگھ مرمت کے بعد کھولنے کافیصلہ
کمروں ‘بڑے ہال کی حویلی شاہی قلعہ میں واقع ،آثار قدیمہ کے دفاتر قائمحویلی کی نئے سرے سے تزئین و آرائش جلدمکمل ہوگی:ڈائریکٹر والڈ سٹی
لاہور(سہیل احمد قیصر، تصاویر محی الدین)تاریخ کے شاندار نقش، حویلی کھڑک سنگھ کی خستہ حالی دور ہونے کے دن بھی آگئے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بڑے صاحبزادے کے نام سے منسوب حویلی آٹھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے ۔مرمت کے بعد اِسے سیاحوں کے لیے کھونے کا فیصلہ ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق آٹھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل حویلی کھڑک سنگھ لاہور کے شاہی قلعہ میں واقع ہے ۔اِس وقت حویلی میں محکمہ آثار قدیمہ کے دفاتر قائم ہیں جس کے باعث یہ سیاحوں کے لیے بند ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ حویلی کی زیریں منزل عہد اکبری میں تعمیر کی گئی تھی جس کے اوپر والی منزل تعمیر کرکے اِسے حویلی کھڑک سنگھ کا نام دے دیا گیا۔اِس حوالے سے شاہی قلعہ کی انچارج فائزہ شاہ نے روزنامہ دنیا کو بتایا کہ اِس حویلی کی تعمیر کا ایک مقصد مغل تعمیرات کے ساتھ اپنا نام زندہ رکھنا بھی تھا۔ والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر کنزرویشن نجم الثاقب کا کہنا تھا کہ جس طرح متعدد دیگر پراجیکٹس پائپ لائن میں ہیں ،اِسی طرح حویلی کھڑک سنگھ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کو بھی جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-03-04/1787381

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108191213&Issue=NP_PEW&Date=20210314
وزیر اعظم عمران خان نے 1997 میں کراچی میں چراغ کے انتخابی نشان سے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا جن میں سے ایک حلقے کے بہت سے علاقے اب این اے 249 میں شامل ہیں۔
آج کے این اے 249 اور ماضی کے این اے 184 میں فرق صرف اتنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے تناظر میں حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی اس نشست کو بتدریج تقسیم کردیا گیا مگر 24 سال پہلے بلدیہ ٹائون، میٹروول، مومن آباد کے کچھ علاقے، کیماڑی، سلطان آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کا یہ حلقہ این اے 184 تھا جہاں سے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اپنی زندگی کے پہلے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
ماضی کے اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ کے امیدوار لگاتار 2 مرتبہ کامیاب ہوئے تھے مگر پھر یہ نشست ایم کیو ایم کے پاس چلی گئی تھی اور 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو سخت مقابلے کے بعد شکست دے کر ایوان زیریں کے رکن منتخب ہوئے تھے، اس طرح یہ حلقہ 4 جماعتوں کے پاس رہا ہے مگر آج بھی اس کی حالت پسماندہ ہے۔
1997 کے عام انتخابات کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ماضی کے حلقے این اے 184 سے اہم امیدواروں نے حصہ لیا تھا مگر مسلم لیگ (ن) کے میاں اعجاز احمد شفیع نے 35 ہزار 451 ووٹ لے کر فتح حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابلے پر حق پرست گروپ (ایم کیو ایم) کے محمد عرفان خان نے 32 ہزار 668 لے کر دوسری اور پیپلز پارٹی کے میجر جنرل رٹائرڈ نصیر اللہ بابر 23 ہزار 512 ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان محض 2037 ووٹ حاصل کرسکے، ان کے خلاف انتخابات لڑنے والوں کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم کے مقابلے پر ہیں۔ اسی طرح نصیر اللہ بابر بھی بعد میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ بنے۔
1997 کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ج) چھٹہ گروپ کے ایس مجاہد بلوچ نے 2705 ووٹ لیے تھے مگر بعد میں انہی علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر ان کے صاحبزادے سلمان مجاہد بلوچ نے کامیابی حاصل کی تھی، موجود پی ٹی آئی کے رہنما سبحان علی ساحل نے اس وقت پختونخواہ قومی پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ آزاد امیدوار علی سنارا کو بھی بہت سے لوگ بھولے نہیں ہونگے۔
اسی حلقے یعنی این اے 184 پر 1993 کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ نون کے میاں اعجاز احمد شفیع نے 23 ہزار 937 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی تھی، پیپلز پارٹی کے امیدوار سید مسرور احسن 32 ہزار 671 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ یہی وہ ووٹ بینک یا وجوہات تھیں جن کی بنا پر میاں شہاز شریف نے این اے 249 سے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر وہ 723 ووٹ کے فرق سے ہار گئے تھے۔
اس حلقے کا ضمنی انتخاب انتہائی اہم ہوچکا ہے کیونکہ کم از کم 3 جماعتوں یا اتحاد کو یہاں سے اپنے امیدواروں کی کامیابی کی امید ہے، کئی جماعتوں کے اہم امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔
رمضان المبارک کی وجہ سے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان الیکشن کمیشن سے درخواست کرچکی ہیں کہ ضمنی انتخاب کی تاریخ کو آگے بڑھایا جائے، ابھی ان درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
1997 میں عمران خان کا نعرہ ’’نئے چہرے نیا نام، اقتدار میں عوام‘‘ تھا
1997 میں عمران خان کا نعرہ نئے چہرے نیا نام۔ اقتدار میں عوام تھا، اس وقت این اے 184 کی نشست پر عمران خان جبکہ پی ایس 73 پر ڈاکٹر اعجاز علی شاہ، پی ایس 74 پر ایاز گوہر تنولی ایڈووکیٹ اور پی ایس 75 پر انجینئر اکبر بادشاہ امیدوار تھے۔
جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں میں ووٹوں کا فرق صرف چند سو کا رہا
این اے 249 یا این اے 184 سے الیکشن میں جیتنے اور ہارنے والے کچھ امیدواروں میں ووٹ کا فرق صرف چند سو کا رہا ہے۔ شہباز شریف این اے 249 سے 2018 میں 723 ووٹ سے شکست کھائی۔ 1993 میں مسلم لیگ نون کے اعجاز احمد شفیع پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں صرف 266 ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔ 1997 میں اعجاز شفیع نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور ایم کیو ایم کے امیدوار 2 ہزار 783 کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہے گے۔
1997ء میں پی ٹی آئی نے چراغ کے نشان پر انتخابات میں حصہ لیا
کسی بھی جماعت کے لیے انتخابی نشان انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن ملک کی بڑی جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کی ابتدائی انتخابی نشان بعد میں بدل گئے ان میں پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی نے 1997 میں چراغ کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا تھا اس وقت پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا نہیں تھا۔
حلقے سے لڑنے والے شہباز، عمران،نصیر بابر کا تعلق دیگر صوبوں سے تھا
این اے 249 یا این اے 184 کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ کا تعلق صرف کراچی نہیں سندھ سے بھی نہیں تھا جن میں شہباز شریف، عمران خان اور میجر جنرل نصیر اللہ بابر بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ اس حلقے میں بسنے والی اکائیاں تھیں۔ تمام امیدواروں کو امید تھی کہ زبان، علاقے اور برادری کی بنیاد پر انھیں ووٹ ملیں گے۔
نوجوانوں کو عمران خان پر پورا بھروسہ تھا،دوا خان صابر
1997 میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما دوا خان صابر اس وقت ابراہیم علی بھائی اسکول میٹروول کے پولنگ اسٹیشن میں پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ دوا خان صابر کہتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے میں جس پولنگ بوتھ کا ایجنٹ تھا وہاں عمران خان کو 183 ووٹ ملے تھے۔ وہ کہتے ہیں اس وقت لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے مگر نوجوانوں کو عمران خان پر پورا بھروسہ تھا، دوا خان صابر کے ایک عزیز انجنیئر اکبر بادشاہ اسی علاقے کی صوبائی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار تھے جبکہ نجیب ہارون اس وقت عمران خان کی انتخابی مہم کے سربراہ تھے۔
این اے249کا ضمنی انتخاب بھی 97ء کی طرح رمضان میں ہوگا
1997 کے عام انتخابات بھی رمضان المبارک میں ہوئے تھے اور آج کے این اے 249 میں بھی ضمنی انتخاب کی پولنگ 29 اپریل کو ہوگی اور اسلامی کلینڈر کے اعتبار سے یہ انتخاب رمضان المبارک کے وسط میں ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2156395/1/
No comments:
Post a Comment