تخت بھائی بدھا تہذیب کی باقیات ::: قدیم رومیوں کی خوراک ::: مصر کا سب سے بڑا اور 3ہزار سال قدیم شہر دریافت ::: صدر اسکندر مرزا کا آخری بیٹا امریکہ میں انتقال ::: میاں سلطان حویلی کے شیش محل کی بحالی کا منصوبہ ::: سلطنت روم کی بنیاد کیسے پڑی؟ ::: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ ::: منگ شاہی خاندان کی کرسی ::: سلطنت عثمانیہ ، عثمان اول کے بیٹے اُرخان کے دور میں ایک ایسی فوج کی بنیاد ::: بنی اسرائیل میں ایک عابد ::: چچا کو کیوں قتل کیا؟ ::: بنی اسرائیل کا وہ بزرگ جس نے شیطان پر فتح حاصل کی - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Tuesday, 20 July 2021

تخت بھائی بدھا تہذیب کی باقیات ::: قدیم رومیوں کی خوراک ::: مصر کا سب سے بڑا اور 3ہزار سال قدیم شہر دریافت ::: صدر اسکندر مرزا کا آخری بیٹا امریکہ میں انتقال ::: میاں سلطان حویلی کے شیش محل کی بحالی کا منصوبہ ::: سلطنت روم کی بنیاد کیسے پڑی؟ ::: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ ::: منگ شاہی خاندان کی کرسی ::: سلطنت عثمانیہ ، عثمان اول کے بیٹے اُرخان کے دور میں ایک ایسی فوج کی بنیاد ::: بنی اسرائیل میں ایک عابد ::: چچا کو کیوں قتل کیا؟ ::: بنی اسرائیل کا وہ بزرگ جس نے شیطان پر فتح حاصل کی


تخت بھائی بدھا تہذیب کی باقیات
 30 June, 2021

تحریر : احمد جہانزیب
تخت بھائی پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جو لگتا ہے کہ ایک صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مردان سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سرحد میں واقع ہے۔ اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ تخت اس لئے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی ضلع مردان کا سب سے زیادہ زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں ہوتی ہیں جن میں پٹ سن ، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیش نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ کے نزدیک بنائی گئی تھی۔
یہ مقام بدھ مت کی یہاں قدیم ثقافت ، طرز رہائش کے بارے میں بہت تفصیلی معلومات اور ثبوت فراہم کرتاہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم شہر کی باقیات پر رکھی گئی ، وہ باقیات آج بھی بہترحالت میں دیکھنے والوں کے لیے علم اور شعور کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ قدیم دور کے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اورہندو نسل کے لوگ آباد تھے۔ عمارتیں، جو راہبوں کے لیے بنوائیں گئی تھیں ، ہر ایک تمام ضروریات زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لئے بھی فراہمی آب کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں فضائی نقل و حمل کے لئے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لئے طاق بھی بنائے گئے تھے۔ کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت ہوئیں ان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں ، صومعہ کی عبادتگاہوں کا کھلا صحن ، کنونشن کے مراکز ، بڑے ایستادہ مجسمے اورمجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلند و بالا دیواریں شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف توجہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے مبذول کرائی تھی۔ جبکہ تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع کیا گیا تھا۔
ڈک کھوڑ ، شیر گڑھ ، چارسدہ ، سیری بہلول ، تخت بھائی کے اطراف و مضافات میں واقع ہیں۔ سیری بہلول بھی تاریخی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تخت بھائی کی حدود میں آتا ہے، یہاں بھی بدھا تہذیب کی باقیات ہیںتاہم تحقیق اور کھدائی کا کام ہنوز مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ لفظ سیری بہلول کی بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہندی لفظ ہے جس کا مطلب ہے" سر بہلول" جس میں علاقے کا ایک سیاسی مذہبی طریقہ ہوتا تھا تاہم ، یہ نام اتنا پرانا ہے کہ اس کی تاریخ نہیں ملتی۔ سب سے قدیم گاؤں اطراف میں ہیں جن کا علاقہ بہت سرسبز ہے یہاں اب بھی کاشتکاری کی جاتی ہے۔ کمیونٹی کے طور پر یہاں کے لوگ پسماندہ اور غریب ہیں، تعلیم کا تناسب بھی بہت کم ہے۔ مقامی لوگ ان تاریخی مقامات پر کھدائی کرتے رہتے ہیں ، جس سے ان تاریخی نوادرات کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ کچھ نوادرات کے شوقین اور تاجر ، بلکہ مقامی لوگوں کی غیر قانونی کھدائی کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہاں نادر اور نایاب تاریخی ورثے کے تحفظ کے لئے ملکی اور بین الاقوامی توجہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے تاکہ تاریخ کی ایک اہم تہذیب کی باقیات کو محفوظ رکھا جاسکے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-06-30/25063


قدیم رومیوں کی خوراک
 30 June, 2021

تحریر : تصور شہزاد
روم اپنے دور کی ایک بہت بڑی معیشت تھی۔لیکن انکا مینو بہت آسان تھا: روٹی ، اناج ، سبزیاں اور مختلف سمندری غذا۔ سادہ اور اطمینان بخش۔ امیر رومیوں نے زیادہ مختلف کھایا ، لیکن پیچیدہ پکوان گوشت ، مچھلی اور سمندری غذا سے تیار کیے جاتے تھے۔ روم کے لوگوں کی غذا کا بندوبست کون کرتا تھا اور کیسے ہوتا تھا یہ ایک بہت دلچسپ سوال ہے ۔
روم کے لئے سبزیاں ، پھل ، پنیر ، انڈے اٹلی کے پڑوسی علاقوں میں تیار کی جاتی تھیں۔ بہرحال ، ان دنوں میں ان مصنوعات کو زیادہ وقت تک محفوظ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے یہ چیزیں صارفین کو جلد پہنچائی جاتی تھیں اور اگر پیداوار زیادہ ہوتی تو ان چیزوں کا ضیاع ہوتا تھا، یہاں تک کہ اگر اسپین نے بیروں کی عمدہ فصل تیار کی تو وہ بھی روم پہنچنے تک خراب ہوجاتی تھی۔
سلطنت کے دوران ، روم ایک بڑا شہر تھا ، اس کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس طرح کے شہریوں کے آس پاس کے علاقے سے زرعی اراضی کا پھل کھلانا محض ناممکن تھا۔ روم کے شہنشاہ نے روٹی کی مفت تقسیم کا بھی اہتمام کیا تھا۔رومیوں کے کھانے کی بنیاد خاص طور پر اناج تھا۔ رومن سلطنت کے دارالحکومت میں بھوک کی وجہ سے ہنگامے بھی ہوئے ، لیکن صرف روٹی کی کمی کی وجہ سے۔ ناقص گوشت ، سبزیاں یا پھلوں کی وجہ سے کبھی فساد نہیں ہوا ۔ قدیم روم میں ایک قانون بھی منظور کیا گیا تھا جس کے تحت روم کے ہر شہری کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے استعمال کے لئے ایک مقررہ قیمت پر اناج خریدے۔
بعض اوقات ریاست نے کٹائی کے فوراًبعد اناج سستا خرید لیا اور اسے محفوظ کیا ، آہستہ آہستہ شہریوں میں تقسیم کیا ۔ایسا اناج کے تاجروں کی ملی بھگت روکنے کیلئے کیا گیااس طرح وہ کسی بھی وقت روٹی کی قیمت میں اضافہ نہیں کرسکتے تھے۔ جولیس سیزر نے بھی رومی شہریوں میں مفت روٹی تقسیم کی۔ انہی دنوں میں ، روم ، شمالی افریقہ اور مصر سے سالانہ 1.5 ملین ہیکولیٹر غلہ درآمد کرتا تھا۔سمندر کے ذریعے لائی جانے والی ہر چیز اوستیا کی بندرگاہ پر پہنچتی اور اسے دریا یا سڑک کے راستے روم پہنچایاجاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیلوں کے ذریعہ کھینچی گئی کچھ گاڑیوں پر اسی اناج کو لے جانے کے مقابلے میں سمندر سے جہاز کا سفر بہت سستا تھا۔ ان دنوں افریقہ کے شمال میں ہزاروں کلومیٹر دور اندرون ملک کوئی لامتناہی صحرا نہیں تھا۔ یہاں بہترین زرخیز کھیت تھے جن سے گندم کی بڑی فصلیں آتی تھیں۔
لہٰذا ، روم کے صوبوں سے صرف ایسی مصنوعات آئیں جو اپنے معیار کو کھوئے بغیر لمبی نقل و حمل آسانی سے برداشت کرسکتی تھیں۔ وہ روم میں اناج ، شراب ، شہد ، اور شراب لے کر آئے تھے۔ اور واپسی پر جہاز مقامی کاریگروں کی مصنوعات ، رومن آقاؤں کے ہتھیاروں ، رومن سیرامکس سے لدے ہوتے تھے ۔روم میں زیتون کی بہترین اقسام پٹسینا سے ، اڈریٹک ساحل سے آئیں۔ پنیرروم کے شمال سے آتے تھے۔ آس پاس کی املاک سے ڈیری کی مصنوعات ، انڈے اور تمباکو نوشی کی لا ٹ اور خام گال سے آتے تھے۔مچھلی اور سمندری غذا براہ راست آسٹریا سے روم آتی تھی۔ ان دنوں کا سمندر بہت دولت مند تھا۔اسپین میں ، روم نے سونے کی بہت ساری کانیں لگائیں۔ شراب ، شہد ، زیتون سپین سے، بہترین ، خصوصی اور نایاب الکحل یونانی جزیروں سے، گندم مصر اور شمالی افریقہ سے گارم مراکش سے آتی تھی۔پھر حیرت کی بات نہیں تھی کہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ ''تمام سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں‘‘۔اگرچہ اصل میں ایک قدیم یونانی رواج تھا ، رومیوں نے اپنا کھانا کھانے کے لئے لیٹنے کا طریقہ اپنایا۔
قدیم یونان میں ، یہ رواج تھا کہ صرف اعلی طبقے کے لوگ کھانے کے لئے لیٹتے تھے ، جبکہ اعلی طبقے کی خواتین اور بچوں کو ، اور نچلے طبقے میں کسی کو بھی بیٹھ کر کھانا پڑتا تھا۔قدیم یونانیوں کے برعکس ، اعلی درجے کی رومی خواتین کو کھانے کے وقت لیٹ جانے کی اجازت تھی ، اور نچلے طبقے کی رومیوں میں سے کچھ کھانے کے لئے لیٹ جاتے تھے۔روم میں سب سے مشہور پالتو جانور فیریٹ ، پرندے اور بندر تھے۔
رومن سلطنت میں بیت الخلاء کو صاف کرنے کیلئے سپنج کے ساتھ لاٹھی بردار افراد کا ایک جتھا رہتا تھا جن کا کام صفائی کرنا تھا۔ ان لاٹھیوں کو زائلوسپونیمز کے نام سے جانا جاتا تھا اور پانی اور نمک یا سرکہ کی بالٹی میں ملا کر دھویا جاتا تھا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-06-30/25062


مصر کا سب سے بڑا اور 3ہزار سال قدیم شہر دریافت
 21 June, 2021

مصری آثار قدیمہ نے قاہرہ سے دور تین ہزار سال پرانا ’گمشدہ سنہری شہر‘دریافت کرلیا، جو اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا اور قدیم شہر ہے

قاہرہ(نیٹ نیوز)شہر 1353 سے 1391 قبل مسیح میں فرعون امین حوتب سوم کی حکمرانی میں آباد تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران قیمتی زیورات، رنگین مٹی کے برتن اور مصریوں کے تعویذ سمیت دیگر قیمتی اشیا بھی ملی ہیں۔ ماہرین نے میڈیا کو بتایا کہ قدیم شہر میں بیکری، رہائشی علاقہ اور انتظامیہ ضلع بھی برآمد ہوا، کھدائی کے دوران مٹی کی کچھ اینٹیں بھی برآمد ہوئیں جس پر فرعون امین حوتپ سوم کی مہر ثبت تھی۔ شہر زمین کے نیچے محفوظ حالت میں موجود تھا، جس کی دیواروں اور کمروں میں رکھی روزمرہ کی اشیا بھی ملی ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-06-21/1841718


پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کا آخری بیٹا امریکہ میں انتقال کرگیا، عمر کتنی تھی؟
Jun 14, 2021 | 21:17:PM
سورس: Ministry of Information

واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کا آخری بیٹا ہمایوں مرزا امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے نواحی علاقے میں انتقال کرگیا۔ ہمایوں مرزا کی عمر 93 برس تھی اور وہ اسکندر مرزا کے بچوں میں سب سے آخری تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق ہمایوں مرزا کی پیدائش 9 دسمبر 1928 کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے میں ہوئی تھی۔ ان کا انتقال میری لینڈ میں 12 اور 13 جون کی درمیانی شب ہوا۔ وہ اسکندر مرزا اور رفعت بیگم کے چھ بچوں میں دوسرے نمبر پر تھے اور ان کا انتقال سب سے آخر میں ہوا ہے۔

ہمایوں مرزا نے انڈیا، برطانیہ اور امریکہ سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ ورلڈ بینک سے منسلک ہوگئے اور 1988 میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے دو کتابیں " فرام پلاسی ٹو پاکستان، دی فیملی ہسٹری آف اسکندر مرزا" اور " صدر کا بیٹا اور ایک تخت کا وارث " (سن آف اے پریزیڈنٹ اینڈ ایئر ٹو اے تھرون) کے ناموں سے لکھیں۔

مرزا خاندان بنگال سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا، اسکندر مرزا کے پردادا میر جعفر تھے جنہوں نے نواب سراج الدولہ کے ساتھ جنگ پلاسی میں غداری کرکے متحدہ ہندوستان پر انگریز کے 180 سالہ اقتدار کی راہ ہموار کی تھی۔
https://dailypakistan.com.pk/14-Jun-2021/1302468


میاں سلطان حویلی کے شیش محل کی بحالی کا منصوبہ
 11 June, 2021

حویلی کے مکین شیش محل کی اہمیت سے ناواقف،انتظامیہ نے نظرانداز کئے رکھا بحالی کے بعد شیش محل سیاحتی مقامات میں ایک اور اضافہ:کامران لاشاری

لاہور(سہیل احمد قیصر)دہلی دروازے کی حویلی میاں سلطان میں قائم شیش محل کی بحالی کا منصوبہ بنا لیا گیا،حویلی کے مکین شیش محل کی اہمیت سے ناواقف جبکہ انتظامیہ نے نظرانداز کئے رکھا۔تفصیل کے مطابق یہ شیش محل حویلی کی تیسری منزل پر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے اِس وقت شیش محل کی حالت کافی خستہ ہوچکی ہے تاہم ایک زمانے میں اِس کی چکا چوند یقیناً آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوگی۔ واضح رہے میاں سلطان ، سکھ اور انگریز ادوار میں عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا کرتے تھے ۔ حویلی میاں سلطان کے علاوہ اُنہوں نے لاہور میں مزید دوشاندار حویلیاں تعمیر کرائی تھیں جبکہ لاہور ریلوے سٹیشن کی تعمیر کا سہرا بھی اُنہی کے سر ہے ۔ حویلی میاں سلطان کو شیش محل کی وجہ سے،دیگر تعمیرات کی نسبت زیادہ ممتاز گردانا جاتاہے ۔ اِس حوالے سے حویلی کے مکین محمد نعمان نے روزنامہ دنیا کو بتایا ایک عرصہ تک اُنہیں خود بھی تاریخ کے اِس نادر نقش کی اہمیت کا اندازہ نہیںہوپایا تھا لیکن اب اُنہیں احساس ہورہا ہے کہ وہ کس قدر قیمتی تاریخی ورثے کے مالک ہیں۔دوسری طرف والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری نے بتایا اِس شاندار نمونے کی بحالی کے لیے منصوبہ ترتیب دیا جارہا ہے ،بحالی کے بعد شیش محل کی چکا چوند واپس لوٹ آئے گی جو لاہور میں ایک اور سیاحتی مقام کا اضافہ بھی ثابت ہوگی۔
https://dunya.com.pk/index.php/city/lahore/2021-06-11/1837040


مصر سے ہزاروں سال پرانا شہر دریافت، یہ کس نے بنوایا تھا اور وہاں کیا کچھ ہے؟ تفصیلات ایسی کہ کوئی بھی دنگ رہ جائے
Apr 09, 2021 | 18:47:PM

قاہرہ(مانیٹرنگ ڈیسک) مصر میں بوائے کنگ (معروف فرعون طوطن خامن)کے ’عالی شان‘مقبرے کے بعد اب تک کی سب سے بڑی دریافت کر لی گئی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یہ نئی دریافت اس گمشدہ شہر کی ہے جو آج سے ساڑھے 3ہزار سال پہلے طوطن خامن نامی فرعون کے دادا بادشاہ امن ہوتیب سوئم نے تعمیر کرایا تھا۔ اس شہر کو ’گمشدہ گولڈن سٹی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ مصر کے شہر لکسور کے قریب دریافت ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس شہر میں گھروں کے سٹرکچر، سڑکیں، بیکریاں، ورکشاپس اور حتیٰ کہ مقبرے بھی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس شہر سے ملنے والے برتنوں اور دیگر اشیاءسے اس کے تعمیر کیے جانے کے دور کا اندازہ لگایا ہے۔ یہاں سے ملنے والی اینٹوں پر بادشاہ امن ہوتیب سوئم کی مہر پائی گئی ہے چنانچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شہرممکنہ طور پر انہوں نے ہی تعمیر کرایا تھا۔

اس شہر کے اندر ایک ’انتظامیہ علاقہ‘ ہے، جس کے چاروں طرف زگ زیگ کے انداز میں ایک دیوار کرکے اسے باقی شہر سے الگ کیا گیا ہے۔ اس علاقے میں جانے کے لیے دیوار میں ایک ہی جگہ پر دروازہ لگایا گیا تھا۔ اس دیوار و دیگر تنصیبات کا ڈیزائن سکیورٹی سسٹم کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔ پورے شہر کا سٹرکچر کچھ اس طرح کا تھا کہ ہر علاقے کے مکینوں کو اپنے علاقے کے داخلی و خارجی راستوں پر کنٹرول حاصل تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک صدی قبل دریافت ہونے والے طوطن خامن کے لگژری مقبرے کے بعد یہ اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے، جس سے ہمیں قدیم مصری تہذیب کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملے گا۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Apr-2021/1274553?fbclid=IwAR15A_VAHQFDSdWUi41zYkD7rFKPvhbQI1V34muksjKTOcwuCEgE2MStLGY


سلطنت روم کی بنیاد کیسے پڑی؟ رومولس اور ریموس کون تھے؟ سلطان فاتح نے کب اس کا خاتمہ کیا؟
Jun 06, 2021 | 18:43:PM

تاریخ کا ہر طالبعلم سلطنتِ روم کے نام سے واقف ہے، لیکن روم کی یہ سلطنت تاریخ کے بہت سے طالبعلموں کو کنفیوژ بھی کردیتی ہے اور وہ نقشوں پر روم کی سلطنت کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کیونکہ اس سلطنت کے کرتا دھرتا پہلے کافر تھے اور دیوی دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے تھے لیکن پھر یہی سلطنت عیسائیوں سے منسوب ہوگئی، اس سلطنت کی بنیاد کے بارے میں ایک دیو مالائی کہانی بہت مشہور ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کوئی پونے چھے سو سال پہلے اطالیہ کے اندر سلویا نامی ایک کنواری لڑکی کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک کا نام رومولس اور دوسرے کا نام ریموس رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں بچے مریخ دیوتا کے نطفہ سے پیدا ہوئے تھے۔ سلویا ولسٹا دیوی کے مندر کی پجارن تھی۔ جہاں مریخ دیوتا نے آ کر اس کو حاملہ کیا تھا۔ رومولس اور ریموس کو پیدا ہونے کے بعد کسی کشتی یا ٹوکری میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا گیا تھا۔ پانی کی موجوں نے ان کو جنگل یا پہاڑ کے دامن میں ساحل پر ڈال دیا وہاں ایک مادہ بھیڑیا نے آ کر ان کو دودھ پلایا اور ان کی حفاظت کرنے لگی۔ اس طرح بھیڑیئے کا دودھ پی پی کر ان دونوں بچوں نے پرورش پائی۔

ایک روز بادشاہ کا ایک چرواہا اتفاق سے ادھر آنکلا، اس نے بچوں کو دیکھا تو انہیں اپنے ساتھ بادشاہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگیا، ملکہ کو یہ دونوں بھائی پسند آئے اور اس نے انتہائی محبت کے ساتھ ان کی پرورش کی، بڑے ہو کر ان دونوں بھائیوں نے ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر روم یا روما کے نام سے موسوم ہوا اور ان کی اولاد میں ایک ایسی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی جو دنیا کی عظیم و مہیب سلطنتوں میں شمار ہوتی ہے۔ روم شہر آج کل اٹلی کا دارالحکومت ہے۔ مگر رومولس اور ریموس کی قائم کی ہوئی رومن سلطنت کا اب نام و نشان باقی نہیں رہا۔

ایک دیو مالائی کہانی سے شروع ہونے والی روم کی سلطنت جب اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئی تو اس کے دو ٹکڑے ہو گئے ایک کو مشرقی روم اور دوسری کو مغربی روم کہتے تھے۔ مغربی روم کا دارالسلطنت تو شہر روما ہی رہا اور مشرقی روم کا دارالسلطنت قسطنطنیہ قرار پایا۔ قسطنطنیہ کو آج کل استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے جو جدید ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے۔

مغربی روم پر شمالی یورپ اور روس کی وحشی قوموں نے بار بار حملے کر کے اس کو بے حد کمزور و ناتواں بنا دیا اور بالآخر مغربی روم کی سلطنت محدود ہو کر دو حصوں میں منقسم ہو گئی جنیوا اور وینس میں الگ الگ سلطنتیں قائم ہوئیں اور پھر وہ بھی مختلف صورتوں میں تبدیل ہو کر معدوم ہوئیں۔ اور ان کی جگہ نئی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ مگر مشرقی روم پر شمالی حملہ آوروں کی آفتیں بہت ہی کم نازل ہوئیں اور اس کو یورپی و حشیوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ قسطنطنیہ کے بادشاہ کا شہر روما پر بھی عمل دخل ہو گیا تھا۔ عرب اور ایران والے مغربی روم سے تو ناواقف تھے جس کے نام پر سلطنت روم موسوم تھی وہ مشرقی روم کو جانتے تھے۔

مشرقی روم یعنی قسطنطنیہ کے فرماں روائوں نے عیسائی مذہب قبول کر کے اس کی اطاعت شروع کی تو یورپ کی تمام وہ قومیں جو عیسائی مذہب قبول کرتی تھیں قسطنطنیہ کے بادشاہ کو عزت و عظمت کی نظر سے دیکھنے لگیں ۔ یہاں تک کہ قریباً تمام یورپ عیسائی مذہب میں داخل ہو گیا۔ اور اسی لیے قیصر روم کو یورپ میں خصوصی وقار حاصل ہوگیا۔ جب قسطنطنیہ کا دربار عیسائی ہو گیا اور اس کے مقبوضہ ممالک میں عیسائی مذہب پھیل گیا تو عرب و ایران کے لوگ ہر ایک عیسائی کو رومی کے نام سے یاد کرنے لگے۔ قسطنطنیہ کے قیصر کی سلطنت چونکہ یونان کی شہنشاہی کے کھنڈروں پر تعمیر ہوئی تھی اور قیصر روم سکندر یونانی کے مقبوضہ ممالک کا مالک تھا لہٰذا قسطنطنیہ کی سلطنت کو یونانی سلطنت بھی کہا جاتا تھا‘ اسی لیے مؤرخین نے رومی اور یونانی دونوں الفاظ مترادف اور ہم معنی سمجھ کر استعمال کیے ہیں۔ قسطنطنیہ کی سلطنت میں چونکہ ایشیائے کوچک اور شام کا ملک بھی شامل تھا۔ اس لیے اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایشیائے کوچک کو روم کا ملک کہا جاتا تھا۔ ملک شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھا دی گئی تھی۔ مگر ایشیائے کوچک میں قیصر روم کی حکومت عہد اسلامیہ میں بھی عرصہ دراز تک قائم رہی اس لیے ایشیائے کوچک کو عام طور پر ملک روم کہا جانے لگا۔ جب سلجوقیوں کی ایک سلطنت ایشیائے کوچک کے ایک حصہ میں قائم ہوئی تو اس کو ملک روم کی سلجوقی سلطنت کہا گیا۔ اور اس سلطنت کے سلاطین سلاجقہ روم کے نام سے پکارے گئے ان سلاجقہ روم کے بعد عثمان خان اول نے اپنی ۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298839?fbclid=IwAR2NyB67J6MZC7xJQbAEDln1M0qwZB0wN-ECDerded-3u18ZEhEIDnx9FMo


وہ خلیفہ وقت جن کے پاس پہننے کو ایک کرتا تھا، جن کی قبر پہ آسمان سے ایک کاغذ گرا، اس پر کیا لکھا تھا؟
Jun 06, 2021 | 18:34:PM

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کو پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے، آپ کے دور میں زمین عدل و انصاف سے بھر گئی جس کی وجہ سے آپ کو حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد پانچواں خلیفہ راشد قرار دیا جاتا ہے، آپ جب تک خلیفہ نہیں بنے تھے تب تک آپ کے مال و دولت کا انداہ کرنا بھی مشکل ہے لیکن جیسے ہی یہ بارِ گراں آپ کے کندھوں پر آیا تو آپ نے اتنی سادہ زندگی اختیار کی کہ اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، آپ نے اپنا سارا مال و دولت بیت المال میں جمع کرادیا یہاں تک کہ اپنی بیوی کے زیورات بھی مسلمانوں کے خزانے میں جمع کرادیے۔

آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھا، آپ کے خاندان نے اپنی خلافت و حکومت کے زمانے میں اچھی اچھی جاگیروں پر اپنے استحقاق سے زیادہ قبضہ کر لیا تھا، جس میں دوسرے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی تھی، مگر چوں کہ بنو امیہ حکمران تھے‘ اس لیے کوئی چون و چرا نہیں کر سکتا تھا‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے‘ تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی بیوی کے زیورات جن میں وہ بلا استحقاق مال کی آمیزش سمجھتے تھے‘ اپنے گھر سے نکلوا کر بیت المال میں بھجوائے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور تمام بنو امیہ سے وہ تمام جائدادیں اور اموال و سامان واپس کرائے جو ناجائز طور پر ان کے قبضہ و تصرف میں تھے۔

اوزاعی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مکان میں بنو امیہ کے اکثر اشراف و سردار بیٹھے ہوئے تھے‘ آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہیں کسی لشکر کا سردار اور کسی علاقہ کا مالک و حاکم بنادوں‘ لیکن یاد رکھو! میں اس بات کا بھی روادار نہیں ہوں‘ کہ میرے مکان کا فرش تمہارے پیروں سے ناپاک ہو‘ تمہاری حالت بہت ہی افسوس ناک ہے‘ میں تم کو اپنے دین اور مسلمانوں کے اغراض کا مالک کسی طرح نہیں بنا سکتا‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم کو بوجہ قرابت کوئی حق اور کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں تمہارے اور ایک ادنیٰ مسلمان کے درمیان میرے نزدیک رتی برابر فرق نہیں ہے۔

مسلمہ بن عبدالملک کا قول ہے کہ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی عیادت کے لیے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک میلا کرتا پہنے ہوئے ہیں‘ میں نے اپنی بہن یعنی ان کی بیوی سے کہا کہ تم ان کا کرتا دھو کیوں نہیں دیتیں‘ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس دوسرا کرتا نہیں ہے کہ اس کو اتار کر اسے پہن لیں۔

سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے غلام ابو امیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز اپنے آقا کی خدمت میں عرض کی کہ مسور کی دال کھاتے کھاتے ناک میں دم آگیا ہے‘ انہوں نے کہا کہ تمہارے آقا کا بھی روز کا یہی کھانا ہے۔

ایک روز اپنی بیوی سے کہا کہ انگور کھانے کو جی چاہتا ہے‘ اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو دو‘ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کوڑی بھی نہیں‘ تم باوجودیکہ امیر المومنین ہو تمہارے پاس اتنا بھی نہیں کہ انگور لے کر کھا لو‘ آپ نے فرمایا کہ انگوروں کی تمنا دل میں لے جانا بہتر ہے‘ بہ نسبت اس کے کہ کل کو دوزخ میں زنجیروں کی رگڑیں کھائوں۔

عمر بن مہاجر کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا جی انار کھانے کو چاہا‘ آپ کے ایک عزیز نے انار بھیج دیا‘ آپ نے اس کی بہت ہی تعریف کی اور اپنے غلام سے فرمایا کہ جس شخص نے یہ بھیجا ہے اس سے میرا سلام کہنا اور یہ انار واپس کر کے کہہ دینا کہ تمہارا ہدیہ پہنچ گیا‘ غلام نے کہا کہ امیر المومنین یہ تو آپ کے قریبی عزیز نے بھیجا ہے اس کو رکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے‘ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تو ہدیہ قبول فرما لیا کرتے تھے‘ آپ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہدیہ تھا‘ مگر ہمارے لیے رشوت ہے۔

رجاء بن حیات کہتے ہیں کہ ایک روز میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ چراغ گل ہو گیا‘ وہیں آپ کا غلام سو رہا تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے جگا دوں‘ آپ نے منع فرما دیا‘ پھر میں نے چاہا کہ میں خود اٹھ کر چراغ جلا دوں‘ آپ نے فرمایا‘ کہ مہمان کو تکلیف دینا خلاف مروت ہے‘ آپ خود اٹھے اور تیل کا کوزہ اٹھا کر چراغ میں تیل ڈالا‘ اور اس کو جلا کر پھر اپنی جگہ آبیٹھے اور فرمایا‘ کہ میں اب بھی وہی عمر بن عبدالعزیز ہوں جو پہلے تھا‘ یعنی چراغ جلانے سے میرے مرتبہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: کہ لوگو اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ اور طلب رزق میں مارے مارے نہ پھرو‘ رزق مقسوم اگر پہاڑ یا زمین کے نیچے بھی دبا ہوا ہو گا تو پہنچ کر رہے گا۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298836?fbclid=IwAR39rA-sg5jek0zv8s7uy-rdK-LV6Tr7_n4E5157d2MO4D3_lEDgIWysYZM


تصویر میں نظر آنے والی بظاہر معمولی سی یہ کرسی اگرچہ لکڑی سے بنی ہے لیکن گزشتہ دنوں ہانگ کانگ میں اس کی نیلامی 85 لاکھ ڈالر (تقریباً 130 کروڑ پاکستانی روپے) میں ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اس کرسی کا تعلق 17 ویں صدی عیسوی کے چین سے ہے جسے چینی ’’منگ شاہی خاندان‘‘ کے کسی بادشاہ کےلیے بنایا گیا تھا۔ یہ کرسی ہلکی پھلکی لیکن مضبوط لکڑی سے بنائی گئی ہے جبکہ اسے فولڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔


اس طرح کی کرسیاں ’’چائنیز ژیاؤیی‘‘ بھی کہلاتی ہیں جو آج بھی بنائی جاتی ہیں اور مہنگے داموں میں فروخت ہوتی ہیں۔ البتہ آج سے سیکڑوں سال پہلے کے چینی بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد جب شکار پر جاتے تھے تو اسی قسم کی کرسیاں ان کے سامان میں لازماً شامل ہوتی تھیں۔


چائنیز ژیاؤیی پر کندہ کاری کا باریک اور انتہائی نفیس کام کیا جاتا تھا۔ شکار گاہ میں پہنچنے کے بعد یہ کرسیاں کھول دی جاتی تھیں مگر اِن پر صرف اور صرف بادشاہ یا شاہی خاندان کے افراد ہی بیٹھ سکتے تھے۔


اسی بناء پر یہ ’’شاہی شکاری کرسی‘‘ بھی کہلاتی تھی جسے شاہی خاندان سے وابستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

بیجنگ کے عجائب گھر سے دسمبر 2018 میں ایسی ہی ایک اور شاہی شکاری کرسی تقریباً 40 لاکھ ڈالر (تقریباً 62 کروڑ پاکستانی روپے) میں نیلام ہوئی تھی لیکن ہانگ کانگ کے ’’کرسٹیز‘‘ نیلام گھر سے چائنیز ژیاؤیی کی حالیہ نیلامی نے سابقہ ریکارڈ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2187143/509/


ینی چری فوج کیا تھی؟ فوجی سلطان کے بیٹے کیوں کہلواتے تھے؟ عیسائی والدین اپنے بچوں کو کیوں اس فوج میں داخل کرواتے تھے؟
Jun 06, 2021 | 18:37:PM

سلطنت عثمانیہ کے دوسرے سلطان اور عثمان اول کے بیٹے اُرخان کے دور میں ایک ایسی فوج کی بنیاد رکھی گئی جو ہر وقت اپنے سلطان کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار رہتی تھی، تاریخ میں اس فوج کو ینگ چری یا ینی چری کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے سپاہی اپنے رشتے داروں سے زیادہ اپنے سلطان کو عزیز رکھتے تھے، یہ ان عیسائی لڑکوں پر مشتمل تھی جنہیں سرکاری خرچ پر تعلیم دی جاتی تھی، ارخان نے یہ فوج اپنے بڑے بھائی اور اپنے وزیر اعظم علاؤالدین کے مشورے پر قائم کی تھی۔ علاؤالدین نے سلطان کو مشورہ دیا تھا کہ بڑے بڑے جاگیردار جو بڑی بڑی فوج کے مالک ہوتے ہیں اکثر سلطنت کے لئے خطرہ بھی بن جایا کرتے ہیں اس لیے ایک ایسے دستے کی تیاری ضروری ہے جو ہر چیز سے زیادہ سلطان کی حفاظت کو مقدم رکھے۔

اس سے پہلے کہ ہم ینگ چری فوج کے بارے میں مزید بتائیں ، یہاں وزیر اعظم علاؤالدین کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، وہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے عثمان اول کے بڑے صاحبزادے تھے، زمانے کا دستور تو یہ تھا کہ بڑا بیٹا تخت کا وارث ہوتا ہے لیکن علاؤالدین میدان جنگ سے زیادہ میدان علم کا آدمی تھا جبکہ اس کا چھوٹا بھائی ارخان اپنے باپ عثمان کے ساتھ مل کر جنگوں میں حصہ لیا کرتا تھا، جب عثمان اول کا انتقال ہوا تو اس نے سلطنت کے جنگی حالات کو دیکھتے ہوئے چھوٹے بیٹے ارخان کو سلطان نامزد کیا۔ اس موقع پر بڑے بھائی علاؤالدین نے اپنے چھوٹے بھائی سے اجازت چاہی اور ایک گاؤں کی جاگیر مانگی تاکہ وہ سلطنت کے کاموں سے دورعلمی کام کرسکے لیکن ارخان نے وزرا اور مصاحبین کی سفارشوں کے ذریعے بڑے بھائی کو اپنا وزیر اعظم بننے پر رضا مند کرلیا۔ ارخان کا یہ فیصلہ تاریخ نے درست ثابت کیا اور علاؤالدین نے اپنی ذہانت سے ایسی ایسی اصلاحات کیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے قدم مضبوط ہوتے چلے گئے اور یہ دنیا کی طاقتور ترین سلطنت بن گئی۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298837?fbclid=IwAR3fAYtoRpeeTFvXZC5-NfZTEotIGH19v864ELdPDe0DyA8ibFzt9q9dewI


60 سال تک اللہ کی عبادت کرنے والا برصیصا عابد،وہ کفر کا شکار کیسے ہوا؟
Jun 06, 2021 | 18:28:PM

بنی اسرائیل میں ایک عابد گزرا ہے جس کا نام برصیصا تھا۔اس نے اپنے گرجے میں 60 سال تک اﷲ کی اطاعت وبندگی میں زندگی بسر کی، اس کا معمول یہ تھا کہ اپنے حجرے میں چلا جاتا اور 10 روز تک عبادت میں مشغول رہنے کے بعد باہر آتا ، اسی طرح اگر وہ روزہ رکھتا تو 10 دن بعد افطار کرتا تھا، ابلیس نے اس عابد کو بہکانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا، آخر ایک دن ابلیس نے اپنے شیاطین کو جمع کرلیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی برصیصا عابد کو بہکا سکتا ہے؟ابیض نامی ایک شیطان بولا؛میں آپ کی مراد پوری کردونگا۔

پھر ابیض نے راہب کی شکل اختیار کی اور برصیصا عابد کے گرجے میں پہنچ کر اسے آواز دی،عابد نے کوئی جواب نہیں دیا، جب شیطان نے دیکھا کہ عابد اس کا کوئی جواب نہیں دے رہا تو وہ بھی گرجے کے نیچے کھڑاہو کر عبادت میں مصروف ہوگیا،برصیصا اپنی عبادت سے فارغ ہوکر ادھر متوجہ ہواتو شیطان کو بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت کرتے دیکھا ۔

برصیصا نے اسے آواز دی اور پوچھا؛تیری کیا حاجت ہے؟ شیطان نےکہا؛میری خواہش ہے کہ آپ کیساتھ رہوں،آپ کے عمل سے استفادہ کروں،آپ کے آداب اپناؤں اور ہم دونوں عبادت بھی ایک ساتھ ہی کریں۔

برصیصا نے یہ سن کرکہا کہ اگر میں تیرے ساتھ رہا تو میری عبادت میں کمی آجائے گی۔یہ کہہ کر برصیصا اپنی عبادت میں لگ گیا،ادھر ابیض شیطان بھی عبادت کرنے لگا۔برصیصا نے چالیس دن تک اس کی طرف آنکھ ٱٹھا کر بھی نہیں دیکھا، چالیس دن بعد دیکھا تو وہی عابد یعنی شیطان ابیض پوری دلجمعی کے ساتھ عبادت میں مشغول تھا، برصیصا نے نئے عابد سے پھر پوچھا کہ تیری کیا حاجت ہے؟اس نے وہی بات کہی جو پہلے کہہ چکا تھا۔برصیصا نے اب ٱسے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی،چنانچہ یہ نیا عابد برصیصا کے گرجے میں اس کے ساتھ ایک سال تک مقیم رہا،اس دوران وہ ہر چالیسویں دن افطار کرتا اور ہر چالیسویں دن عبادت وبندگی سے کچھ فرصت پاتا تھا،جبکہ بقیہ ایام صرف عبادت ہی میں گزرتے تھے۔ برصیصا نے اپنے ساتھ عبادت کرنے والے کی یہ حالت دیکھی تو اس کا دل اس کی طرف مائل ہوگیا، ایک سال کی مدت مکمل ہونے پر ابیض شیطان نے برصیصا سے کہا کہ اب وہ جانا چاہتا ہے کیونکہ اس کا ایک اور ساتھی بھی ہے، شیطان نے برصیصا سے یہ بھی کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں آپ گمان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کے خوگراور اس میں سخت محنت کرنے والے ہیں جبکہ آپ کے بارے میں جو خبرملی تھی وہ میرے چشم دید مشاہدے سے بالکل مختلف ہے۔یہ بات برصیصا پر نہایت گراں گزری کیونکہ نئے عابدکی جدائی اس کو گوارا نہیں ہوئی۔

ابیض شیطان نے جب الوداع کہا تو برصیصا سے کہنے لگا؛میرے پاس چنداوراد وظائف ہیں،وہ آپکو سکھلائے دیتاہوں،ﷲ تعالی ان کے زریعے بیمار کو شفایاب کردےگااور ابتلاو آزمائش کا شکار راحت پائے گا۔

برصیصا نے کہا؛مجھے مرتبہ و منزلت ناپسند ہے کیونکہ میں عبادت وریاضت میں مشغول رہتاہوں،خدشہ رہتاہے،مبادالوگ اس سے واقف ہوجائیں،اسطرح لوگ مجھے عبادت وبندگی میں مشغول نہیں رہنے دیں گےبلکہ اس سے دور کردیں گے۔

ابیض شیطان مسلسل برصیصا کی توجہ اپنے وظائف کی طرف پھیرتا رہا اور اب کلمات کے فضائل و مناقب سے اس کے دل کو رجھاتا رہا حتی کہ وہ عابد کو یہ وظائف سکھانے میں کامیاب ہوگیا۔

پھر یہ ابیض شیطان اپنی کارگردی میں اضافے کے لیے نکلا اور ایک آدمی کو پکڑ کر اسکے گلے پر دباؤ ڈالا،پھراسکے گھر بحثییت معالج پہنچ گیا اور اہل خانہ سے کہا؛تمہارے اس آدمی کو جنون لاحق ہے،کیا اسکا علاج کردوں؟اہل خانہ نے کہا؛ہاں ہاں ،ضرور کرو۔اس نے کچھ جھاڑ پھونک کا عمل دکھلانے کے بعد اہل خانہ سے کہا؛اس کا جن خطرناک ہے اس پر قابو پانا میرے بس کا روگ نہیں،البتہ میں تمہیں ایک عابد کا پتہ دیتاہوں،اسکی دعا سے یہ شفایاب ہوسکتاہے۔اہل خانہ نے پوچھا؛اسکا پتہ کیا ہے؟اس نے بتایا تم لوگ برصیصا عابد کے پاس جاؤ اس کے پاس اسم اعظم ہے جس سے تمہارا مریض تندرست ہوجائےگا۔

یہ لوگ برصیصا عابد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس نے ابیض شیطان کے سکھائے ہوئے کلمات کے ساتھ دعا کی تو شیطان نے مریض سے دباؤ ہٹالیا۔اسطرح جنون زدہ شخص شفایاب ہوگیا۔

ابیض لوگوں کےساتھ اسی طرح کی حرکات کرتا اور انہیں برصیصا عابد کے پاس بھیجتارہا،وہاں جاکر لوگ شفایاب ہوجاتے تھے۔

ایک طویل عرصے کے بعد ابیض شیطان بنی اسرئیل کے بادشاہ کی لڑکی کے پاس آیا اور اس کا گلاگھونٹ کر تکلیف دینی شروع کر دی۔ شہزادی کا باپ فوت ہوچکا تھا اور اس کا چچا اس وقت حکمران تھا، اس لڑکی کے تین بھائی تھے ان کے پاس شیطان معالج کی شکل میں پہنچا اور بولا؛کیا میں اس لڑکی کا علاج کردوں؟بھائیوں
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298834?fbclid=IwAR2OwSRVzvVkS0ba6J3tqUjzY3K3tJQ9Y6k6z0UmiH1cC0NyM3_LN9hm6ok


سلطنت عثمانیہ کے بانی نے اپنے چچا کو کیوں قتل کیا؟ قونیہ کی سلطنت عثمان اول کو کیسے ملی؟
Jun 06, 2021 | 18:40:PM

سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی آخری خلافت تھی جس نے 600 برس تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے تین براعظموں پر دادِ عیش دی، اس سلطنت کی بنیاد ارطغرل کے بیٹے عثمان خان نے رکھی تھی اور اسی کی مناسبت سے آج تک اس سلطنت کو سلطنتِ عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عثمان کی عمر 30 برس ہوئی تو اس کے والد ارطغرل کا انتقال ہوگیا جس پر شاہِ قونیہ نے ارطغرل کا سارا علاقہ عثمان کے نام کرکے اس کو حاکم مقرر کردیا، اسی سال شاہ قونیہ غیاث الدین کیخسرو نے اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردی، 699 ہجری میں غیاث الدین کیخسرو منگولوں کے ایک معرکے میں شہید ہوگیا، اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی بلکہ ایک ہی بیٹی تھی جو عثمان کے عقد میں تھی، اسی بنا پر عثمان کو اراکینِ سلطنت نے متفقہ طور پر قونیہ کے تخت پر بٹھاکر بادشاہ تسلیم کرلیا۔

عثمان خان کی تخت نشینی کے وقت سلطنت قونیہ کی حالت بہت ہی کمزور تھی لیکن اس کے تخت نشین ہوتے ہی اس سلطنت میں جان پڑ گئی کیونکہ عثمان خان کے ساتھی اور اراکین سلطنت اور فوج کے سپاہی اور رعایا سب اس کے حسن سلوک سے خوش تھے۔ عثمان خان میں ایک طرف دینداری اور دوسری طرف شجاعت بدرجہ کمال موجود تھی ، اس نے سب سے پہلے رومیوں سے شہر قرا حصار فتح کیا اور اس کو اپنا دار السلطنت بنایا ۔ اس کی فتح کا واقعہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔

جب عیسائیوں نے عثمان خان کے سلطان بننے کے بعد قونیہ پر حملے کے لیے فوجیں اکٹھی کیں تو عثمان خان نے مشورے کیلئے امرائے سلطنت کو جمع کرلیا ۔ اس موقع پر عثمان خان کا چچا یعنی ارطغرل کا بھائی بھی جو بہت بوڑھا ہوچکا تھا موجود تھا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ہمیں فوج کشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو صلح و آشتی کے ذریعہ اس جنگ کو ٹال دینا چاہیے۔ اگر جنگ برپا ہوئی تو اندیشہ ہے کہ منگولوں اور دوسرے ترک سرداروں کی فوجیں بھی عیسائیوں کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے ملک پر چڑھائی کر دیں گی اور ہم ان سب کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکیں گے، اپنے چچا کی یہ بات سن کر سلطان عثمان خان نے ۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298838?fbclid=IwAR16KiAwjs3UbM9zgSx7x-ktMAwVHQv0l7shNq48NhdxEED7lCUPi4IOq2g


بنی اسرائیل کا وہ بزرگ جس نے شیطان پر فتح حاصل کی
Jun 06, 2021 | 18:25:PM

حضرت ذوالکفل کا قرآن و حدیث یا سابقہ آسمانی کتابوں میں کوئی تفصیلی ذکر نہیں ملتا جس کے باعث ان کے نبی ہونے پر حتمی رائے نہیں قائم کی جاسکتی البتہ قرآن پاک میں آپ کا دو جگہ ذکر کیا گیا ہے، سورۃ الانبیا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔

’ اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صبر کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا تھا ، بلاشبہ وہ سب صالحین میں سے تھے۔

سورہ ص میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔

’اور یاد کرو اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو، وہ سب نیک بندوں میں سے تھے‘

قرآن کریم میں آپ کا ذکر حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعات کے بعد کیا گیا ہے جس کے باعث بعض محدثین انہیں حضرت ایوب علیہ السلام کا بیٹا قرار دیتے ہیں ، بعض مورخین و محدثین حضرت ذوالکفل کو اللہ کا نبی جبکہ بعض لوگ انہیں نیک شخص قرار دیتے ہیں، شام اور عراق سمیت دیگر مقامات پر آپ سے منسوب مزارات موجود ہیں۔

حضرت ذوالکفل سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، آپ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔

جب اللہ کے نبی حضرت الیسع علیہ السلام ضعیف ہو گئے تو خواہش ظاہر کی کہ’’ کاش! اپنے مرنے سے پہلے کسی نیک اور صالح شخص کو اپنا خلیفہ مقرّر کر دیتا تاکہ وہ میرے بعد دین کے جملہ معاملات بخُوبی پورے کر پاتا اور مَیں اپنی موجودگی میں اُس کی تربیت بھی کر دیتا تاکہ مرنے سے پہلے بنی اسرائیل کی فکر سے آزاد ہو جاتا۔

ایک دن حضرت الیسع علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور فرمایا’’ اے لوگو! تم دیکھتے ہو کہ مَیں بہت بوڑھا ہو چُکا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ہی تم میں سے کسی صالح شخص کو اپنا خلیفہ نامزَد کر دوں، لیکن مَیں اُسے ہی خلیفہ بنائوں گا، جو تین شرائط پر پورا اُترتا ہو۔ پہلی شرط تو یہ کہ وہ دن میں روزہ رکھتا ہو۔ دوسری یہ کہ رات کو اللہ کی یاد میں مشغول رہتا ہو اور تیسری یہ کہ اُسے غصّہ نہ آتا ہو۔

اللہ کے نبی کی یہ تین شرائط سن کر بنی اسرائیل پر سکتہ طاری ہوگیا اور ان میں سے کوئی بھی ان شرائط پر عمل کیلئے راضی نہ ہوا، اتنے میں اچانک دُور کونے میں بیٹھا ایک عام سا آدمی کھڑا ہوا اور بولا’’ مَیں آپؑ کی تینوں شرائط پر پورا اُتروں گا۔‘‘

حضرت الیسعؑ نے اپنی شرائط دُہراتے ہوئے پوچھا’’ کیا تم تینوں پر پورا اُترتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا’’ جی ہاں۔‘‘ آپؑ نے کوئی جواب نہیں دیا اور مجلس دوسرے روز تک کے لیے برخاست کر دی۔ اگلے دن حضرت الیسعؑ نے پھر اپنا سوال دُہرایا۔ مجمع خاموش تھا، وہی شخص کھڑا ہوا اور بولا’’ مَیں آپؑ کی شرائط پر قائم رہنے کا عہد کرتا ہوں۔‘‘ لہٰذا حضرت الیسعؑ نے اُنہیں اپنا خلیفہ بنا دیا ، وہ شخص حضرت ذوالکفلؑ تھے۔

جس مجلس میں یہ سارا واقعہ پیش آیا اس میں ابلیس بھی موجود تھا اور ایک کونے میں بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس سے حضرت ذوالکفل کی یہ برگزیدگی برداشت نہ ہوئی اور اپنے چیلوں کو حکم دیا کہ ذوالکفلؑ کو راہِ راست سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرو، شیطان کے چیلوں نے بڑی کوششیں کیں لیکن جلد ہی ناکام ہو گئے، جس کے بعد ابلیس نے یہ کام خود اپنے ذمے لے لیا۔۔۔۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Jun-2021/1298832?fbclid=IwAR0zThgGQaXrQGXVGe0-8VLTBOZryCnkKO50ZnPRYP9FrvQp7JV8HBXBers

No comments:

Post a Comment