سائینس وہ جادو جو سر چڑھ کے بول رہا ہے - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Thursday, 10 March 2022

سائینس وہ جادو جو سر چڑھ کے بول رہا ہے


میلبرن: اعصابی، اورعصبی عضلاتی 50 سے زائد جینیاتی امراض کا ایک کم خرچ، برق رفتاراور مؤثر تشخیصی ٹیسٹ سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے وضع کیا ہے۔

یہ ایک نیا ڈی این اے ٹیسٹ ہے جسے آسٹریلیا کے گروان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل رسرچ نے برطانوی اور اسرائیلی سائنسدانوں کی مدد سے تیار کیا ہے۔ یہ ہفتوں کی بجائے ایک دن میں نتائج دیتا ہے اور کئی طرح کے جینیاتی امراض کی شناخت کرسکتا ہے۔

تحقیق سے وابستہ ڈاکٹرایرا ڈیوسن کہتی ہیں کہ سب سے پہلے ٹیسٹ کو ان مریضوں پر آزما کر دیکھا گیا جن کے مرض پہلے ہی شناخت ہوچکے تھے۔ ان میں ہنٹنگٹن، فریجائل ایکس سنڈروم، سیریبیلر اٹاکشیا، موٹرنیورون، مایوکلونک ایپی لیبسی اور میوٹونک ڈسٹروفی کے کے مرض قابلِ ذکر ہیں۔

نیا ٹیسٹ مجموعی طور پر 50 جینیاتی بیماریوں کی تیزتشخیص کرسکتا ہے جو غیرمعمولی طویل ڈی این اے سیکوئنس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے قبل یہ بیماریاں گوناگوں علامات اور پیچیدگیوں کی باعث مشکل سے ہی شناخت ہوتی تھیں۔

اس ٹیسٹ سے ایک ایسے شخص کا مرض بھی شناخت کیا گیا ہے جو دس برس سے بیمار تھا اور بیماری کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ انہیں ایک نایاب جینیاتی مرض لاحق ہے جسے کینوس کا نام دیا گیا ہے اور وہ دماغ کو متاثر کرتی ہے۔

ماہرین پرامید ہیں کہ نئے ٹیسٹ کی بدولت پیچیدہ جینیاتی بیماریوں کی شناخت، علاج اور جان بچانے میں بہت مدد ملے گی۔ کونکورڈ یونیورسٹی کے سائنسداں ڈاکٹر کشور کمار کے مطابق یہ ایک انقلابی عمل ہے جسے ایک ہی ڈی این اے ٹیسٹ کے انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس میں نینوپورسیکوئنسنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2293909/9812/


سائسنی ماہرین نے ایک ایسا شاندار روبوٹک ٹڈا تیار کیا ہے جس پر کسی کو شک بھی نہیں ہوگا اور اسے جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

پیٹسبرگ یونیورسٹی کے انجینئرز کیڑے نما روبوٹس بنانے میں مہارت رکھتے ہیں جو مشکل مقامات پر پہنچنے والی جگہوں پر پہنچنے اور نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسی یونیورسٹی کے طالب علموں نے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں مشینی جاسوس ٹڈا تیار کیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مستقبل میں بہت سارے اہم کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

صنعتی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کے طور پر پروجیکٹ کی قیادت کرنے والے جونفینگ گاؤ نے کہا کہ ’ان روبوٹس کو امیجنگ یا ماحولیاتی تشخیص کے لیے محدود علاقوں تک رسائی، پانی کے نمونے لینے، یا ساختی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے‘۔


انہوں نے کہا کہ جاسوس ٹڈا پولیمر کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جو بجلی سے چند گھنٹوں میں چارج کیا جاسکتا ہے جبکہ اسکی جوڑائی 10 ملی میٹر ہے۔
https://www.express.pk/story/2293562/508/


آسٹن، ٹیکساس: امریکی سائنسدانوں نے فوم جیسا ہلکا پھلکا مادّہ (ہائیڈروجل) ایجاد کرلیا ہے جو خشک ہوا سے بھی پانی نچوڑ سکتا ہے۔

ابتدائی تجربات میں اس ہائیڈروجل نے صرف 30 فیصد نمی والی ہوا سے ایک دن میں 5.87 لیٹر فی کلوگرام کی شرح سے پانی جذب کیا، جو بہت بڑی کامیابی ہے۔

بتاتے چلیں کہ ہائیڈروجل (hydrogel) کا استعمال کونٹیکٹ لینس، زخموں پر کی جانے والی خصوصی پٹیوں، بچوں کے ڈائپرز اور دوسری مہنگی مصنوعات میں کیا جارہا ہے۔

ایسے بیشتر مادّے ہوا سے آبی بخارات (نمی) جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ بہت محدود ہوتی ہے جس کی بناء پر انہیں ہوا سے پانی کی مناسب مقدار جذب کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن کے سائنسدانوں نے اس مسئلے کا حل ’’زویٹرآیونک‘‘ پولیمر ہائیڈروجل کی صورت میں تلاش کیا ہے جو نہ صرف بہت کم نمی والی ہوا سے پانی (آبی بخارات) جذب کرسکتے ہیں بلکہ اس میں انہیں خاصا کم وقت لگتا ہے۔

زویٹرآیونک وہ سالمے (مالیکیولز) ہوتے ہیں جن کے ایک حصے میں مثبت چارج جبکہ دوسرے حصے میں منفی چارج والے ایٹم ہوتے ہیں۔ اسی خاصیت کی وجہ سے ان میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت بھی زبردست ہوتی ہے۔

ویسے تو ’’ہائیگرو اسکوپک‘‘ قسم کے نمکیات میں بھی یہی خاصیت ہوتی ہے اور وہ بھی ہوا سے براہِ راست پانی جذب کرسکتے ہیں لیکن انہیں ہائیڈروجل کا حصہ بنانا بے حد مشکل رہا ہے۔

ہائیگرو اسکوپک نمک کو ہائیڈروجل میں جمع کرنے کےلیے ماہرین نے زویٹرآیونک پولیمرز (مالیکیولز کی لمبی لمبی زنجیریں) تیار کیں۔

اس پولیمر کی مدد سے ہائیڈروجل تیار کرتے دوران جب ہائیگرو اسکوپک نمک شامل کیا گیا تو وہ پختگی کے ساتھ ہائیڈروجل کا حصہ بن گیا۔


ابتدائی تجربات میں اس ’’زویٹرآیونک ہائیڈروجل‘‘ نے صرف 30 فیصد نمی والی ہوا سے ایک دن میں 5.87 لیٹر پانی جذب کیا جو اب تک اس نوعیت کے کسی بھی نظام کی سب سے زیادہ کارکردگی بھی ہے۔

اس ہائیڈروجل کی کارکردگی مزید بہتر کرنے کے بعد یہ نظام غریب، خشک، دور افتادہ اور پسماندہ مقامات پر پانی کے کم خرچ حصول میں استعمال کیا جاسکے گا اور دنیا میں کروڑوں لوگوں کےلیے فائدے کا باعث بنے گا۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیل جرمن کیمیکل سوسائٹی کے ریسرچ جرنل ’’اینگیواں کیمی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2292213/508/


امریکی اور فرانسیسی سائنسدانوں نے دنیا کا سب سے بڑا جرثومہ دریافت کرلیا ہے جس کی جسامت عام مکھی سے بھی زیادہ ہے۔ اسے ’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ (Thiomargarita magnifica) کا سائنسی نام دیا گیا ہے۔

پتلے دھاگے کی طرح دکھائی دینے والا یہ جرثومہ کیریبیئن/ ویسٹ انڈیز کے ساحلوں پر مینگرووز کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

عام بیکٹیریا کی لمبائی صرف 2 مائیکرومیٹر ہوتی ہے لیکن یہ جرثومہ اوسطاً 10,000 مائیکرومیٹر جتنا لمبا ہوتا ہے جبکہ اس کا سب سے بڑا نمونہ 20,000 مائیکرومیٹر جتنا دیکھا گیا ہے۔ یعنی یہ عام بیکٹیریا کے مقابلے میں 5,000 سے 10,000 گنا تک بڑا ہے۔

اس سے پہلے جو سب سے بڑے جراثیم دریافت ہوئے تھے وہ 750 مائیکرومیٹر طویل تھے۔ یعنی یہ ان کے مقابلے میں بھی 13 سے 25 گنا بڑا ہے!

قبل ازیں حیاتیاتی ماہرین کا خیال تھا کہ بیکٹیریا کی جسامت (لمبائی) 750 مائیکرومیٹر سے زیادہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس نئی دریافت نے یہ خیال بھی غلط ثابت کردیا ہے اور اب سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر کوئی جرثومہ اتنا بڑا کیسے ہوسکتا ہے؟

دوسری حیرت انگیز بات اس کا جینوم ہے: عام جرثوموں کے جینوم میں ڈی این اے کے 40 لاکھ اساسی جوڑے (بیس پیئرز) اور لگ بھگ 3,900 جین ہوتے ہیں لیکن اس نودریافتہ جرثومے کا جینوم 1 کروڑ 10 لاکھ ڈی این اے اساسی جوڑوں اور 11,000 جین پر مشتمل ہے… یعنی عام بیکٹیریا سے تقریباً چار گنا زیادہ!


پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ ’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے بیکٹیریا (جرثوموں) نے آپس میں مل کر ایک لمبی لڑی جیسی شکل اختیار کرلی ہو لیکن درحقیقت یہ ایک ہی بیکٹیریم (جرثومہ) ہے۔

ان سب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات اس کا ڈی این اے ہے جو اس کی خلوی جھلی (سیل میمبرین) میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے مختلف کھوکھلے مقامات کے اندر بند ہے۔

جراثیم کا شمار ’’پروکیریوٹ‘‘ (prokaryote) قسم کے جانداروں میں ہوتا ہے جن کا ڈی این اے ایک گچھے کی شکل میں خلوی مائع میں تیرتا پھرتا ہے۔

ترقی یافتہ جانداروں یعنی ’’یوکیریوٹس‘‘ (eukaryotes) کے خلیوں میں تمام ڈی این اے ایک مرکزے (نیوکلیئس) کے اندر بند ہوتا ہے جس کے گرد ایک حفاظتی جھلی کسی حصار کی طرح موجود ہوتی ہے۔

’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ میں بیک وقت پروکیریوٹ اور یوکیریوٹ، دونوں کی خصوصیات موجود ہیں جو اسے باقی تمام یک خلوی (یونی سیلولر) جانداروں سے منفرد بناتی ہیں۔

سائنسدانوں نے اس دریافت کا اعلان ’’بایوآرکائیو‘‘ (BioRxiv) پری پرنٹ سرور پر ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں کیا گیا ہے جو کچھ روز پہلے ہی وہاں شائع کیا گیا ہے۔

اگرچہ اب تک یہ باقاعدہ طور پر کسی ریسرچ جرنل میں تو شائع نہیں ہوا لیکن اس دریافت کے پسِ پشت امریکا کے انتہائی معتبر سائنسی تحقیقی اداروں کی مشترکہ کاوش ہے لہذا اس مقالے پر اب تک کسی نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2291277/508/


اگرچہ ہم جراثیم اور بیکٹیریا کُش لباس، پٹیوں اور دیگر سرجیکل آلات کی ایجادات دیکھ چکے ہیں لیکن برطانیہ کی ایسٹن یونیورسٹی میں ان سے بھی 100 گنا طاقتور اینٹی بیکٹیریئل شیشہ تیار کیا گیا ہے۔

ایسٹن یونیورسٹی پروفیسر رچرڈ مارٹن اور ساتھیوں نے بایوایکٹوو گلاس بنایا ہے جس میں کوبالٹ، جست اور تانبے کے آکسائیڈز پر مبنی نینوذرات الگ الگ یا ایک ساتھ شامل کئے جاسکتے ہیں۔

تجرباتی طور پر تمام دھاتی آکسائیڈز کو پیس کر باریک ذرات میں ڈھالا گیا اور انہیں 24 گھنٹوں کے لئے ای کولائی، اسٹیفیلوکوکس اوریئس اور کینڈیڈا ایبی کانس نامی فنگس پر ڈالا گیا تو یہ مجموعہ تمام اقسام کے بیکٹیریا کش ادویہ اور ایجادات سے بھی سو فیصد مؤثر ثابت ہوا۔ اس نے بہت تیزی سے بیکٹیریا اور جراثیم کے مجموعے کو تباہ کردیا۔

اگلے مرحلے میں دھاتی آکسائیڈز کے نینوذرات کو جب شیشے میں ملایا گا تو اس کی سطح بیکٹیریا اور جراثیم کش بن گئی۔ اس اہم اختراع کے بعد اب طبی آلات، ہسپتالوں اور تجربہ گاہوں کے شیشوں، برتنوں اور دیگر اشیا کو جراثیم اور بیکٹیریا کش بنانے میں مدد مل سکے گی۔
https://www.express.pk/story/2290919/508/


چاند کے زمین مخالف حصے پر بھیجی گئی خودکار گاڑی ’’یُوٹُو 2‘‘ نے چاند کی مٹی میں شیشے کی نیم شفاف گولیاں دریافت کی ہیں جو زمین پر پائی جانے والی کوارٹز قلموں سے مماثلت رکھتی ہیں۔

بتاتے چلیں کہ غیر معمولی حالات کے تحت عام ریت، کچھ اور معدنیات کے ساتھ مل کر شیشے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

ماضی کی خلائی مہمات میں چاند پر شیشہ دریافت ہوچکا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ نیم شفاف گولیوں (کنچوں) جیسے شیشے کے ٹکڑے وہاں سے ملے ہیں۔

زمین کے گرد چاند کچھ اس انداز سے گردش کرتا ہے کہ اس کا ایک رُخ ہمیشہ زمین کی طرف اور دوسرا زمین سے مخالف سمت رہتا ہے جسے ہم زمین سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کیفیت ’’ٹائیڈل لاک‘‘ کہلاتی ہے۔

چاند کے زمین مخالف رُخ پر شیشے کی نیم شفاف گولیاں کس طرح بنی ہوں گی؟ اس سوال کا جواب فی الحال ماہرین کے پاس بھی نہیں۔

البتہ، اس بارے میں چینی ماہرین کا مفروضہ ہے کہ شاید آج سے تقریباً چار ارب سال پہلے، جب چاند ’’نوجوان‘‘ تھا تو یہاں مسلسل آتش فشاں بھی لاوا اگل رہے تھے جبکہ بڑی تعداد میں شہابِ ثاقب بھی چاند پر برس رہے تھے۔

غالباً یہ عمل اگلے کئی کروڑ سال تک جاری رہا اور شہابیوں نے چاند پر شیشے جیسے مادّے سے ٹکرا کر اپنی شدید گرمی اور دباؤ کی بناء پر یہ شیشے کی یہ نیم شفاف گولیاں بنا دیں۔

چین کا ’’یُوٹُو 2‘‘ روور 2019 میں چاند کے زمین مخالف حصے پر اُترا تھا جبکہ اسے صرف تین ماہ تک کام کرنے کےلیے بھیجا گیا تھا۔

تاہم یہ اب تک کام کررہا ہے اور چاند کے زمین مخالف حصے پر اُترنے والے اوّلین روور ہونے کے ساتھ ساتھ طویل ترین مدت تک کارآمد رہنے والی مشین کا اعزاز بھی حاصل کرچکا ہے۔

پچھلے مہینے ’’یُوٹُو 2‘‘ روور نے دریافت کیا تھا کہ چاند کے زمین مخالف حصے کی مٹی اگرچہ خشک ہے لیکن پھر بھی وہ کیچڑ جیسی چپچپی یعنی چپکنے والی خاصیت رکھتی ہے۔

ابھی یہ حیرت ختم نہ ہوئی تھی کہ اسی روور نے ایک نئی دریافت سے ہمیں مزید حیران کردیا ہے۔

سورج، نظامِ شمسی، زمین اور چاند وغیرہ کی ابتداء سے متعلق بہت کچھ جاننے کے باوجود آج بھی اس بارے میں بہت سی باتیں ہمارے لیے نامعلوم ہیں۔

چینی سائنسدانوں نے اس دریافت کا اعلان ریسرچ جرنل ’’سائنس بلیٹن‘‘ کے تازہ شمارے میں اپنے ایک مقالے (ریسرچ پیپر) کی صورت میں کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دریافت ابتدائی نوعیت کی ہے۔

’’یُوٹُو 2‘‘ چاند گاڑی کا سفر اب تک جاری ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر چاند سے شیشے کی نیم شفاف گولیاں زیادہ تعداد و مقدار میں دریافت ہوئیں تو اس سے چینی ماہرین کے مفروضے کی تصدیق ہوگی۔

اس سب سے ہٹ کر، چاند کے زمین مخالف حصے پر مزید خودکار گاڑیاں (روورز) بھیجنے اور وہاں سے مٹی کے مزید نمونے جمع کرکے زمین پر لانے کی ضرورت بھی اس دریافت کی روشنی میں زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔
https://www.express.pk/story/2290458/508/


ڈاکٹروں اورسائنسدانوں کی ٹیم نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) استعمال کرتے ہوئے دل کے دو نقائص ایسے دریافت کئے ہیں جو عموماً ماہرین کی نظر سے بھی چوک جاتے ہیں۔

ان میں ایک مرض ’ہائپرٹروفِک کارڈیومیوپیتھی اور دوسری کیفیت ’کارڈیئک ایمیلوئیوڈوسِس‘ ہے اور یہ دونوں ہی جان لیوا ہوتی ہیں۔

لاس اینجلس میں واقع سیڈر سینائی اسمٹ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں سائنسدانوں اور اطبا کی ایک ٹیم نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے دو قلبی کیفیات دریافت کی ہیں جن کی روداد جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی ہیں۔

ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ اویانگ کہتے ہیں کہ ان امراض کے شکار مریضوں میں بیماری کی درست شناخت میں سال بلکہ عشرے بھی لگ جاتے ہیں۔ اب اے آئی کی بدولت مرض کے مخصوص پیٹرن دیکھ کر تشخیص کی گئی ہے کیونکہ انسانی آنکھ اسے نہیں دیکھ پارہی تھی۔

دو مرحلوں پر مشتمل شناختی عمل میں خاص الگورتھم پر دل کے الٹراساؤنڈ کی 34000 ویڈیوز کو آزمایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو ہسپتال اور دیگر اداروں سے لی گئی تھیں۔ اس دوران سافٹ ویئر امراض کی مختلف علامات دیکھ کر تربیت پاتا رہا۔ ان میں دل کے خانوں کے رقبے، قلبی دیوار کی موٹائی اور دیگر معلومات شامل تھیں۔ سافٹ ویئر نے بطورِ خاص ان دو کیفیات کو نوٹ کرکے ڈاکٹروں کو بتایا۔

سافٹ وییئر نے کسی ماہر ترین ڈاکٹر کی طرح کام کیا کیونکہ وہ ان تبدیلیوں کو بھی نوٹ کررہا تھا جو شروع میں بہت معمولی ہونے کی بنا پر ڈاکٹر سے بھی اوجھل رہ جاتی ہیں۔ پھر کسی ٹیسٹ کے بغیر ہی بہت درستگی سے مرض کی تشخیص کی گئی جو ایک بڑی پیشرفت ہے۔

وجہ یہ ہے کہ سائنسداں ان تبدیلیوں مثلاً قلبی دیواروں کی موٹائی کو عمر کے ساتھ کی تبدیلیاں کہتے رہے تھے۔ الگورتھم سافٹ ویئر نارمل اور ابنارمل دل کی بھی شناخت کرسکتا ہے۔ اس طرح پہلے شںاخت سے کئی مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

’ہائپرٹروفِک کارڈیومیوپیتھی‘ اور’کارڈیئک ایمیلوئیوڈوسِس‘ دونوں بیماریاں مہلک ہیں اور بہت دھیرے دھیرے اپنا قدم جماتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شناخت قدرے مشکل ہوتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کی بدولت بہت درستگی سے امراض کی شناخت ایک خوش آئند بات ہے جس سے بہت سے افراد کی جان بچانا ممکن ہوگا۔ تاہم اگلے مرحلے میں مریضوں کی بڑی تعداد پر یہ الگورتھم آزمایا جائے گا جس سے اس کی مزید افادیت یا کمی سامنے آسکیں گی۔
https://www.express.pk/story/2289750/9812/


ماہرین نے موت کے وقت انسان کا دماغ بند ہونے کی ویڈیو بنا لی
Feb 24, 2022 | 19:12:PM


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ میں ماہرین نے گزشتہ دنوں حادثاتی طور پر موت کے وقت انسان کا دماغ بند ہونے کی ویڈیو بنا ڈالی ، جس سے ایک حیران کن انکشاف سامنے آگیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق امریکہ کی یونیورسٹی آف لوئیول کے ماہرین نے جس انسان کی موت کی ویڈیو بنائی ہے اس کی عمر87سال تھی۔ اس کا مرگی کا علاج ہو رہا تھا اور اسے الیکٹروانسیفالوگرام (ای ای جی)پر رکھا گیا تھا۔ اسی دوران اسے ہارٹ اٹیک آیا اور اس کی موت واقع ہوگئی۔

اس دوران چونکہ ماہرین اس کے دماغ کو مانیٹر کر رہے تھے، چنانچہ اس وقت دماغ میں جو کچھ سرگرمیاں ہوئیں، وہ ماہرین نے ریکارڈ کر لیں۔ ان سرگرمیوں پر تحقیق کے بعد ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ جب انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کی پوری زندگی کے خوشگوار واقعات اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا ہے کہ اس آدمی کے آخری سانس لینے سے 30سیکنڈ پہلے اور 30سیکنڈ بعدتک کے دورانیے میں اس کا دماغ تیزی سے چلنا شروع ہو گیا تھا۔ اس دوران اس کے دماغ کے وہ حصے زیادہ متحرک ہوئے جو خوشگوار یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔آخری سانس کے 30سیکنڈ بعد اس کے دماغ میں سرگرمیاں بتدریج کم ہونی شروع ہوئیں اور اگلے چند لمحوں میں دماغ مکمل طور پر ’’شٹ ڈاﺅن‘‘ ہو گیا۔
https://dailypakistan.com.pk/24-Feb-2022/1407476?fbclid=IwAR2W_f1ozhvc_Gn6BKZ5U02AJ7CWrNFwq2T3_wd3W7cP6sK7uAsJoGN8cMw


چینی سائنسدانوں نے مشینی کوکھ (مصنوعی رحمِ مادر) میں پروان چڑھنے والے بچوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کےلیے مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے ایک خودکار نظام تیار ایجاد کرلیا ہے جسے ’کمپیوٹرائزڈ آیا‘ بھی کہا جارہا ہے۔

چین سے شائع ہونے والے ’’جرنل آف بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں اس ایجاد کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ فی الحال یہ نظام تجرباتی مراحل میں ہے اور اسے مختلف جانوروں کی نسل خیزی میں استعمال کیا جارہا ہے۔

عالمی پابندیوں کی وجہ سے فی الحال ایسا کوئی بھی تجربہ انسانی نسل پر نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ مصنوعی رحمِ مادر (artificial womb) ایسا آلہ ہوتا ہے جس میں بالکل قدرتی کوکھ جیسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے تاکہ کسی جانور میں حمل ٹھہرنے سے لے کر پیدائش تک کے تمام مراحل اسی مصنوعی انتظام کے اندر مکمل کیے جاسکیں۔

ویسے تو مصنوعی رحمِ مادر یا ’مشینی کوکھ‘ پر 1950 کے عشرے سے تحقیق ہورہی ہے لیکن زیادہ پیشرفت موجودہ صدی کے دوران ہوئی ہے جس میں کچھ اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

یہ نظام بہت پیچیدہ ہوتا ہے جس میں ذرا سی غلطی بھی مصنوعی ماحول کے تحت نشوونما پانے والے جانور کو ہلاک کرسکتی ہے۔

چینی شہر سوژو میں سائنسدانوں نے اس مقصد کےلیے جو نظام وضع کیا ہے وہ مصنوعی ذہانت سے استفادہ کرتے ہوئے، مشینی کوکھ میں پلنے والے جانور کی نشوونما سے متعلق تمام پہلوؤں پر مسلسل نظر رکھتا ہے اور ان میں خودکار طور پر ضروری تبدیلیاں بھی لا سکتا ہے۔

ان میں مائع کی مقدار اور درجہ حرارت سے لے کر غذائی اجزاء اور حمل (fetus) کی افزائش تک، درجنوں چھوٹی بڑی باتیں شامل ہیں۔

ریسرچ پیپر کے مطابق، فی الحال یہ ٹیکنالوجی صرف چوہوں اور چھوٹی جسامت کے دوسرے جانوروں کی مصنوعی ماحول میں تولید کےلیے ہی آزمائی گئی ہے، البتہ ان تجربات میں کامیابی یا ناکامی کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔

مختلف ماہرین نے اس نظام پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ چین اپنی آبادی میں متوقع کمی کا ازالہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
https://www.express.pk/story/2288903/508/


بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ متعدد خطرناک امراض سے مقابلے کرنے کے لیے ادویاتی پودوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

یہ بات انہوں نے جمعرات کو بین الاقوامی سمپوزیم کے آخری روز آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی میں منعقدہ اختتامی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ سمپوزیم میں تقریباً20 ممالک بشمول جرمنی امریکا، برطانیہ، چین، سوئیڈن، ایران، عراق، ترکی، عراق، سری لنکا، انڈونیشیا، اذربائیجان، قازقستان، مصر، بنگلہ دیش، نیپال، سوڈان، نائجیریا، کیمرون اور برکینا فاسو کے 60 سائنسدانوں جبکہ صرف پاکستان سے تقریباً400 محققین نے شرکت کی۔ ملکی و غیر ملکی سائنسدانوں نے نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے موضوع پر متعدد لیکچرز دیے۔

بین الاقوامی مرکز اور مختلف ممالک کے تحقیقی اداروں کے درمیان تحقیقی معاہدے بھی طے پائے جبکہ بین الاقوامی سائنسدانوں نے بین الاقوامی مرکز میں بطور اُستاد خدمات انجام دینے میں دلچسپی کا بھی اظہارکیا۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا ادویاتی نباتات کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ ان پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ملیریا، کینسر اور ایڈز جیسے امراض کے خلاف نئی ادویات کی تیاری میں یہ نباتات اہم ذریعہ ہیں، نیچرل پروڈکٹ کمیسٹری کو تیسری دینا میں مزید توجہ اور معاونت درکار ہے، مسلم دنیا میں سائنسی فکر کی روایت کمزور ہے، ہمیں مسلم ممالک میں سائنسی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنس اقوام کے درمیان خلیج کو کم کرتی ہے۔ اس موقع پر غیر ملکی سائنسدانوں نے کہا اتنی بڑی اور منظم سائنسی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ آخر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے سمپوزیم کے شرکا اور پوسٹرمقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے محقیقین کے درمیان اسناد تقسیم کیں۔ نیچرل پروڈکٹ کیسٹری کے موضوع پر 4 روزہ15ویں بین الاقوامی سمپوزیم مہلک امراض کے خلاف ادویاتی پودوں سے نئی دواؤں کی تیاری کی سفارش کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2289717/9812/


امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دل کی بیماریوں میں کرائے جانے والے اکثر ٹیسٹ اور علاج غیر ضروری ہوتے ہیں۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن (اے ایچ اے) کے مطابق low-value میڈیکل کیئر کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ اکثر دل کے مریض ایسے معالجے یا ٹیسٹ سے گزرتے ہے جو اُن کی طبی حالت کے مطابق نہیں ہوتا۔

لو-ویلیو میڈیکل کیئر کی اصطلاح ان معالجوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو انسدادِ مرض کیلئے غیر ضروری ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکیوں کے 30 فیصد سالانہ اخراجات غیر ضروری طبی سہولیات پر خرچ ہوتے، جن کا تخمینہ تقریباً 101 ارب ڈالرز کے قریب بنتا ہے۔۔

اس کے علاوہ ایسے افراد جن میں شریانوں کی رکاوٹ دور کرنے کیلئے اینجیوپلاسٹی یا سرجری ہوئی ہوتی ہے اُن کو کچھ ورزشی ٹیسٹس سے گزرنا پڑتا ہے تاہم کبھی کبھی ان میں وہ افراد بھی شامل ہوجاتے ہیں جنہیں کوئی قلبی عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔

اے ایچ اے کے ایک سینئر عہدیدار ڈاکٹر وینے کینی نے بتایا کہ طبی شعبوں میں غیر پیشہ ورانہ پریکٹس جب معمول بن جاتی ہے تو اسے ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔

امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر رچرڈ کوویکس کہتے ہیں کہ متعدد ڈاکٹرز طبی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ذاتی تجربات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ڈاکٹرز غلطی پر قانون کی زد میں آنے کے خوف سے دفاعی رول اپناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ وغیرہ کریں تاکہ مرض سے متعلق کوئی چھوٹی سے چھوٹی پیچیدگی بھی نظرانداز نہ ہو اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جن کا مقصد صرف فیسوں کا حصول ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2289517/9812/


سائنسدانوں نے ایک مرتے ہوئے شخص کی دماغی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ شاید موت کی آغوش میں جاتے وقت زندگی بھر کی یادیں بہت تیزی سے دماغ میں ’ریوائنڈ‘ ہوتی ہیں۔

یہ اتفاقیہ تحقیق یونیورسٹی آف لوئیویل ہاسپٹل، کینٹکی میں اس وقت ہوئی کہ جب 87 سال کا ایک مریض وہاں لایا گیا جسے مرگی کے شدید دورے پڑ رہے تھے۔

مریض کی جان بچانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے ایک ای ای جی آلہ بھی اس کے سر سے منسلک کردیا تاکہ اس کی دماغی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھی جاسکے۔

اسپتال کا عملہ اس مریض کی جان نہیں بچاسکا، کیونکہ اسے اچانک دل کا دورہ بھی پڑگیا۔ لیکن ای ای جی آلے نے اسی دوران کئی گھنٹے تک اس کی دماغی سرگرمیاں بھی تفصیل سے ریکارڈ کرلیں۔

ان میں وہ 15 منٹ بھی شامل تھے کہ جب مریض کے دل کی دھڑکنیں رُک رہی تھیں اور اس کا دماغ بھی زندہ رہنے کےلیے آخری جدوجہد کررہا تھا۔

لوئیویل یونیورسٹی میں ماہرِ اعصابیات (نیورولوجسٹ) ڈاکٹر اجمل زمر کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ایک عالمی ٹیم نے بہت باریک بینی سے اس مریض کے آخری چند منٹوں میں ای ای جی ریکارڈنگ کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔

اس تجزیئے سے معلوم ہوا کہ مرتے وقت اس شخص کے دماغ میں کئی طرح کی سرگرمیاں ایک ساتھ جاری تھیں۔ تاہم ان میں ’’گیما اہتزازات‘‘ (gamma oscillations) کہلانے والی دماغی سرگرمیاں سب سے زیادہ تھیں۔

انہیں دماغ میں اٹھنے والی ایسی ’’لہریں‘‘ سمجھا جاسکتا ہے کہ جو بطورِ خاص کوئی واقعہ یاد کرتے یا خواب دیکھتے دوران پیدا ہوتی ہیں۔

مرتے ہوئے شخص کے دماغ میں ان ہی اضافی گیما سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید موت سے ذرا پہلے ہمارا دماغ پوری زندگی میں جمع کی گئی یادوں کو بہت تیزی سے، صرف چند منٹ میں کھنگالنے کی کوشش کرتا ہے۔

’’بظاہر یہی لگتا ہے کہ مرنے سے ذرا پہلے ہمارا دماغ اپنی اہم ترین یادوں کو ایک بار پھر سے تازہ کرتا ہے،‘‘ ڈاکٹر اجمل نے کہا، ’’یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسا قربِ موت کے تجربات (NDE) سے گزرنے والے لوگ بتاتے رہے ہیں۔‘‘

آن لائن ریسرچ جرنل ’’فرنٹیئرز اِن ایجنگ نیوروسائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ڈاکٹر اجمل اور ان کے ساتھیوں نے واضح کیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے ضرور ہے لیکن اس میں تکنیکی اعتبار سے کئی کمزوریاں بھی ہیں۔

مثلاً یہ کہ جان بچانے کےلیے مریض کو کئی طرح کی دوائیں دی جاچکی تھیں جن میں مرگی اور دل کی دوائیں بھی شامل تھیں۔ مرتے وقت بھی وہ مریض ان ادویہ کے زیرِ اثر تھا۔

’’لہٰذا اس تحقیق کو حتمی، فیصلہ کن یا حرفِ آخر ہر گز نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ صرف ابتدائی نوعیت کا اندازہ ہے جس کی درستگی جانچنے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے،‘‘ ڈاکٹر اجمل نے وضاحت کی۔
https://www.express.pk/story/2289349/509/


ٹوٹی، بوسیدہ اور شکستہ ہڈیوں کی دوبارہ افزائش بہت محال ہوتی ہے۔ تاہم اب اسٹیم سیل کو صوتی امواج سے تحریک دے کر ہڈیوں کا بنیادی خام مواد بنانے میں اہم کامیابی ملی ہے۔

خلیاتِ ساق یا اسٹیم سیل ایسے ہرفن مولا خلیات ہوتے ہیں جو کامیابی سےکئی اقسام کے جسمانی خلیات (سیل) میں بدل جاتے ہیں۔ لیکن اب تک ان سے ہڈیوں کے خلیات بنانے میں خاص کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ ہڈیاں بنیادی طور پر میسنکائمل اسٹیم سیل (ایم ایس سی) سے بنتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایم ایس سی ہڈیوں کے گودوں (بون میرو) میں چھپے ہوتے ہیں۔

اب آسٹریلیا کی آرایم آئی ٹی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک سادہ اور تیزرفتار طریقہ دریافت کیا ہے جس میں ایم ایس سی کو ہڈیوں کے خلیات میں تبیدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل میں اسٹیم سیل پر جان بوجھ کر بلند فریکوئنسی کی میگا ہرٹز امواج استعمال کی گئ تھیں۔

سائنسدانوں نے میگاہرٹز سطح کی امواج ایک مائیکروچپ سے پیدا کی اور اس کا رخ ایک پلیٹ میں رکھے ایم ایس سی کی جانب کیا گیا جو سیلیکون آئل میں ڈوبے تھے۔ مسلس پانچ روز تک دس منٹ روزانہ کی بنیاد پر ان پر آواز ڈالی گئی ۔ سائنسدانوں نے نوٹ کی کیا کہ ہڈیاں بنانے والے کئی اجزا اور بایومارکر وجود میں آنے لگے۔

تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر لیسلی یو کے مطابق اسٹیم سیل پر درست آواز کی ٹھیک مقدار ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ ہماری ایجاد بہت کم خرچ اور تعمیر میں سادہ ہے۔ اس سے اسٹیم سیل ٹشو انجینئرنگ کی نئی راہیں کھلیں گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تجربے میں انسانی اسٹیم سیل کے ایم ایس سی چکنائی سے اخذ کئے گئے تھے جو کم تکلیف دہ اور آسان طریقہ ہے۔
https://www.express.pk/story/2288638/9812/


جرمنی: سائنسدانوں نے سوئس رول سے متاثر ہوکر دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹری تیار کی ہے جو دیکھنے میں نمک کے ذرے کے برابر ہے۔

سائنسدانوں نے دنیا کے مختصر روبوٹ اور خردبینی جسمانی سینسر بنائے ہیں لیکن انہیں بجلی دینے کا معاملہ اب بھی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اسی کمی کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی یونیورسٹی آف کیم نٹس سے وابستہ سائنسدانوں نے ایک بالکل نئی اور مختصر ترین بیٹری بنائی ہے۔

ان کے مطابق یہ سوئس رول سے متاثر ہوکر بنائی گئی جو ازخود منظم (سیلف اسمبلی) کے تحت وجود میں آتی ہے۔ اسے سب سے پہلے جسم کے اندر موجود مائیکروبوٹ اور سینسر میں استعمال کیا جائے گا جنہیں بجلی دینا ایک پرانا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
https://www.express.pk/story/2288162/508/


گوہاٹی: مچھر اب بھی انسان کا سب سے خوفناک دشمن کیڑا ہے۔ اب ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ لونگ کے تیل میں موجود یوگینول نامی مرکب پایا جاتا ہے۔ یہ بالخصوص ایڈس ایجپٹائی مچھر کے لاروا تباہ کرسکتا ہے ۔

واضح رہے کہ ایڈس ایچپٹائی مچھری جان لیوا ڈینگی مرض اور بخار پھیلانے کی وجہ سے بڑے قاتل کہلاتے ہیں۔ اس لیے ماہرین نے لونگ کے تیل پر مفصل تحقیق شروع کی ہے۔ دوسری جانب کیمیکل والی کیڑے مار ادویہ کے مقابلے میں لونگ کا تیل قدرتی اور ماحول دوست دوا کا کام کرتا ہے۔

اگرچہ کیڑے مار ادویہ ماحول دوست نہیں ہوتیں اور ان کی آلودگی بہت نقصاندہ ہوتی ہے۔ پھر کیڑے مار کیمیکل مٹی میں جمع ہوکر طویل عرصے تک موجود رہ کر انسان اور دیگر جانوروں کے لئے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ لیکن لونگ کا تیل ان کی طرح فوری اثر نہیں کرتا اور اسی کو مؤثر بنانے پر تحقیق ہورہی ہے۔
https://www.express.pk/story/2287809/508/


آسٹریلوی سائنسدانوں نے ویکسین کو ریفریجریٹر کے بغیر گرم ماحول میں کئی مہینوں تک محفوظ رکھنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جو بہت کم خرچ بھی ہے۔

ابتدائی تجربات میں ماہرین نے دو الگ الگ ویکسینز کو کمرے کے عام درجہ حرارت اور 37 ڈگری سینٹی گریڈ جتنے گرم ماحول میں 12 ہفتوں (تقریباً تین مہینوں) تک محفوظ رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس طریقے کا قابلِ عمل ہونا ثابت کیا ہے۔

یہ طریقہ آسٹریلوی حکومت کے ماتحت مرکزی سائنسی و صنعتی تحقیق کے ادارے ’سی ایس آئی آر او‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایجاد کیا ہے جس کی قیادت بھارتی نژاد ڈاکٹر روحانی سنگھ کررہے تھے۔

اس نئے طریقے میں ’میٹل آکسائیڈ فریم ورک‘ (MOF) کہلانے والے مادّے استعمال کیے گئے ہیں جو مسام دار، قلم دار (کرسٹلائن) اور حل پذیر (dissolvable) ہوتے ہیں۔

ویکسین کے ساتھ شامل ہوجانے کے بعد، یہ مادّے کسی حفاظتی حصار کا کام کرتے ہوئے ویکسین کے سالمات (مالیکیولز) کو اپنے اندر بند کرکے محفوظ کرلیتے ہیں۔

ایم او ایف مادّے ویکسین کے ساتھ کوئی کیمیائی عمل نہیں کرتے لیکن اسے ماحول کی سختی، بالخصوص گرمی کے اثرات سے بچاتے ہیں اور لمبے عرصے تک اصل حالت میں برقرار رکھتے ہیں۔

جب بھی کسی کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہوگی تو ایک خاص لیکن بے ضرر مائع اس محلول میں شامل کردیا جائے گا جو ایم او ایف کو تحلیل کرکے ویکسین کو آزاد کردے گا، جس کے بعد وہ کسی بھی دوسری عام ویکسین کی طرح لگا دی جائے گی۔

ابتدائی تجربات میں یہ طریقہ جن دو ویکسینز پر آزمایا گیا ان میں سے ایک انسانی زکام کی، جبکہ دوسری مرغیوں کو ہلاکت خیز وائرس ’این ڈی وی‘ سے بچانے والی ویکسین تھی۔

ویکسینز کے ساتھ ایم او ایف مادّے شامل کرنے کے بعد وقفے وقفے سے جائزہ لیا جاتا رہا جس سے معلوم ہوا کہ ویکسینز خاصے گرم ماحول میں (37 ڈگری سینٹی گریڈ پر) بھی کم از کم 12 ہفتوں تک بالکل صحیح اور قابلِ استعمال حالت میں رہیں۔

واضح رہے کہ آج کل کسی بھی عام ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری سینٹی پر محفوظ رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ صرف چند گھنٹوں سے لے کر چند دن تک میں خراب (ایکسپائر) ہوجاتی ہیں۔

جدید ’ایم آر این اے ویکسینز‘ کا معاملہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ انہیں عام ڈیپ فریزر کے مقابلے میں بھی شدید سرد ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان دونوں صورتوں میں ہی ویکسینز کو بحفاظت رکھنے کے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر روحانی اور ان کے ساتھیوں کو امید ہے کہ یہ ایجاد خاص طور پر غریب اور کم وسائل والے ملکوں کے بہت کام آئے گی جہاں ویکسین محفوظ رکھنے والے ریفریجریٹرز اور ڈِیپ فریزر جیسی چیزیں بہت کم ہیں۔

ایسے میں دور دراز مقامات تک منتقلی کے دوران ہی ویکسین خراب ہوسکتی ہے۔

اس بارے میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صرف مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں 50 فیصد سے زیادہ ویکسینز ضائع ہوجاتی ہیں۔

اگر یہ نیا طریقہ اگلے مراحل میں بھی قابلِ عمل اور محفوظ ثابت ہوا تو امید ہے کہ جلد ہی ویکسین کے ضیاع میں کمی کے علاوہ ویکسین کی محفوظ ذخیرہ کاری (سیف اسٹوریج) کے اخراجات بھی نمایاں طور پر کم ہوجائیں گے۔

نوٹ: یہ تحقیق ریسرچ جرنل ’’ایکٹا بایومٹیریئلیا‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
https://www.express.pk/story/2288454/9812/


ایک بین الاقوامی طویل تحقیق کے بعد جین تھراپی کی بدولت تھیلیسیمیا کے شکار بچوں میں معمول کے مطابق خون بننے لگا ہے۔ اس طرح انہیں بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت ختم ہوگئی ہے اور اب وہ معمول کی زندگی گزاررہے ہیں۔

یہ اہم اور بین الاقوامی تحقیق کئی برس تک جارہی رہی جس کے نتائج نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔ فیزتھری کلینکل ٹرائل کے بعد 90 فیصد مریضوں میں جین تھراپی کے کئی برس بعد اب بھی تازہ خون کی ضرورت نہیں رہی اور وہ مکمل طور پر تندرست ہیں۔

تمام مریضوں کی عمر 4 سے 34 برس تھی اور ان سب کو جین تھراپی سے گزارا گیا تھا ان میں سے 12 برس سے کم عمر کے 90 فیصد مریضوں کو تاحال ماہانہ بنیاد پر انتقالِ خون کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔

شکاگو میں واقع این اینڈ رابرٹ ایچ لوری چلڈرن ہسپتال کی ماہر ڈاکٹر جینیفر شنائڈرمان بھی بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق دس برس تک یہ تحقیق کی گئی ہے جس میں انتقالِ خون والے تھیلیسیمیا مریضوں کا جین تھراپی سے علاج کیا گیا ہے۔

تھیلیسیمیا کے مریضوں کے خون میں ہیموگلوبن بننے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ مرض کی شدت میں مریض کو ہر ماہ خون کے سرخ خلیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بار بار خون لگانے سے فولاد کی زیادتی، انفیکشن اور دیگر تکلیف دہ کیفیات پیدا ہوسکتی ہے۔

اس جین تھراپی میں خود مریض کے اسٹیم سیل لئے گئے اور انہیں تجربہ گاہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد ایک تبدیل شدہ وارئس کی بدولت تھیلیسیمیا کی وجہ بننے والے خراب جین کی بجائے اس کی درست کاپیاں شامل کی گئیں۔ اس کے بعد تمام مریضوں کو ایک طرح کی کیموتھراپی سے گزارا گیا اور انہیں چار سے پانچ ہفتے اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اس دوران کسی بھی گڑبڑ سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم چوکنا موجود رہی۔ اس کے بعد اسٹیم سیل بدن میں داخل کئے گئے۔

اس کے ایک ماہ بعد ہی مریضوں کی اکثریت کو بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت نہ رہی۔ لیکن ڈاکٹروں نے 13 ماہ سے لے کر چار سال تک کئی مریضوں کا بار بار معائنہ کیا اور خون کے اندر تھیلیسیمیا کے خطرات دیکھتے رہے۔ ان میں سے چار مریضوں پر تھراپی کے سب سے شدید اثرات دیکھے گئے ۔ جبکہ کچھ افراد نے خون کے سرخ اور سفید خلیات میں کمی سمیت، منہ میں چھالوں، بخار اور دیگر کیفیات کی شکایت کی۔

لیکن مجموعی طور پر90 فیصد مریضوں میں تھیلیسیمیا غائب ہوگیا اور وہ خون کی منتقلی سے آزاد ہوگئے جن میں بچوں کی اکثریت شامل ہے۔
https://www.express.pk/story/2288735/9812/


ہم جانتے ہیں کہ دل کے شدید دورے کے بعد لاکھوں خلیات، بافتیں اور پٹھے تیزی سے مردہ ہوجاتے ہیں۔ اس عمل کو جینیاتی گہرائی میں سمجھنے سے نہ صرف اس کا علاج ممکن ہوسکے گا بلکہ نئے خلیات بنانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اب اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے جسے سائنسدانوں نے انتہائی اہم کامیابی قرار دیا ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا مرکز برائے قلب کی ڈاکٹر میری برٹان اور ان کے ساتھی ایک عرصے سے ہارٹ اٹیک کے بعد جینیاتی تبدیلیوں پر غور کر رہے ہیں۔ ہارٹ اٹیک کے بعد سیکنڈوں میں لاکھوں کروڑوں خلیات مرجاتے ہیں اور دل کا بڑا حصہ بھی بے عمل ہوسکتا ہے تاہم اس کے بعد جینیاتی تبدیلیاں جاننے سے جین تھراپی ممکن ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر میری دوبارہ افزائش کرنے والے مشہور خلیات ’اینڈوتھیلیئل پروجنیٹر سیلز‘ (ای پی سی) پر غور کررہی ہے۔ اگرچہ دل اور شریانوں کی اندرونی دیواران سے ملتے جلتے اینڈوتھیلیئل خلیات سے ہی بنی ہوتی ہے۔ اب دل کے دورے اور دیگر عارضوں میں یہ خلیات برباد ہوجاتے ہیں لیکن ای پی سی سے ان کی مرمت کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر میری اس کا انکشاف 2019ء میں کرچکی ہیں۔

انہوں نے دل کے دورے کے بعد بعض مریضوں کے دل سے خلیات جمع کرکے ان میں ایسے جین معلوم کیے جو قلبی خلیات اور خون کی رگیں متاثر ہونے کے بعد سرگرم ہوتے ہیں۔ برسوں کی عرق ریزی سے انہوں نے اس کا اٹلس بنایا ہے تاکہ خون کی شریانوں اور قلب کی مرمت کی جاسکے۔ یہ کام اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔

سائنسدانوں کے مطابق ان جین کو ہدف بنا کر مجروح قلب کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ یعنی جیسے ہی مریض کو دل کا شدید دورہ ہوتو جین تھراپی کا ٹیکہ لگا کر مریض کو مزید نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس طرح جین خود دھیرے دھیرے دل کو بحال اور تندرست کرسکےگا۔

قدرت کے اس نظام میں زیبرا فش اپنے دل کی مرمت خود کرسکتی ہے۔ دوسری جانب امریکی سائنسدانوں نے چوہوں اور خنزیروں کے دل پر تحقیق سے سگنل اور پاتھ وے کو پڑھا ہے جس پر عمل کرکے دل کی دوبارہ بحالی ممکن ہے۔
https://www.express.pk/story/2288225/9812/


ضیائی تالیف کے عمل میں پودے، درخت اور کائی وغیرہ سورج کی روشنی سے اپنی غذا بناتے ہیں اور اس کے بدلے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ اب صحرائے گوبی میں ایک بیکٹیریئم نے خود کو بدل کر فوٹو سنتھے سز (ضیائی تالیف) کے قابل بنایا ہے۔

چیک ریپبلک اکادمی برائے سائنس کے میکال کوبلیزک اور ان کے ساتھیوں نے اس بیکٹیریا کو قدرت کا ایک شاہکار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ساختی طور پر بہت مضبوط ہے اور باکفایت انداز میں روشنی استعمال کرتا ہے۔

اس کا نام گیماٹی موناس فوٹوٹرفیکا ہے جو دنیا کے بڑے ریگستان گوبی سے ملا ہے۔ اگرچہ ہم پہلے بھی اس طرح کے ضیائی تالیف کرنے والے بیکٹیریا سے واقف ہیں لیکن اس بیکٹیریا کے خواص باقیوں سے مختلف ہیں۔

سائنس اب تک اس سے واقف نہ تھی اور سورج کی روشنی جذب کرنا کے پورا اسٹرکچر بہت ہی عجیب وغریب ہے اس میں سورج سے توانائی اور خوراک بنانے والے بیرونی رِنگ بالکل نیا ہے اور اس سے پہلے ریکارڈ نہیں ہوا۔

اس کے بیرونی رنگ 800 اور 816 نینومیٹر کی اشعاع یا روشنی جذب کرتے ہیں، جبکہ اندرونی دائرہ 868 نینومیٹر شعاع جذب کرتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ روشنی کے فوٹون گہرائی تک بھیجتے ہیں جہاں کلوروفل پایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس بیکٹیریئم نے پراسرار طور پر خود کو تبدیل کیا ہے اور اس کی برادری کے دیگر جرثوموں میں یہ خواص نہیں پائے جاتے تھے۔ اگرچہ یہ پروٹوبیکٹیریا کی طرح ہی کام کرتے ہیں لیکن اس میں مستحکم سالمات کی ترتیب بقیہ بیکٹیریا سے قدرے مختلف ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک انوکھا خردنامیہ ہے اور اس کا مطالعہ بہت سے نئے راز افشا کرے گا۔
https://www.express.pk/story/2287841/508/


دنیا کی پہلی اسپورٹس گاڑی متعارف کرادی گئی جو پانی اور خشکی میں 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایسی سواری ایک عرصے تک تصورات اور سائنس فکشن میں ہی موجود تھی لیکن اب حقیقت کا روپ دھارچکی ہے۔

ہوور کرافٹ طرز کی کانسپیٹ کار کی قیمت ایک لاکھ ڈالرمقرر کی گئی ہے، جو رواں سال مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب ہوگی، اس گاڑی کا خیال کوئی نیا نہیں بلکہ 1950 میں اس حوالے سے ایک خیال پیدا ہوا تھا، جس کو مختلف سائنس فکشن فلموں میں شامل بھی کیا گیا۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوور کرافٹ گاڑی بجلی سے چلے گی، جو رفتار کے معاملے میں فیراری ، ایم سی لارین اور بگاتی سے بھی تیز دوڑ سکتی ہے۔


وان مرسیئر امریکی انجینئر ہیں جنہوں نے اس گاڑی کا ڈیزائن پیش کیا اور بتایا کہ اس کی سیٹ ایسے بنائی گئی ہے کہ جب آپ گاڑی پر بیٹھیں گے تو ایسا محسوس ہوگا جیسے جنگی طیارے میں بیٹھ کر سفر کررہے ہیں۔

اس گاڑی کا ڈیشن بورڈ مکمل طور پر ڈیجیٹل ہے جبکہ اس میں پیٹرول انجن بھی ہے تاکہ مشکل کے وقت بھی اس کو چلایا جاسکے۔
https://www.express.pk/story/2287679/508/


دنیا بھر میں آلودہ پانی کی شناخت کرنے والے بہت سے فلٹرموجود ہیں لیکن اب اصل ڈی این اے کی بنیاد پر ایک بہت دلچسپ واٹرسینسربنایا گیا ہے لیکن وہ آلودگی کا اظہار کمپیوٹر کی زبان میں کرتا ہے۔

الینوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جولیئس لکس نے ڈی این سے حیاتیاتی کمپیوٹر کے تحت کام کرنے والا سینسر بنایا ہے جو بہت کم خرچ اور سادہ ہے۔ ایک جانب تو یہ آبی آلودگی ظاہر کرنے والا سادہ سینسر ہے تو دوسری جانب اس سے حیاتیاتی کمپیوٹر سازی میں بھی پیشرفت ہوگی۔

پانی کے صرف ایک قطرے سے یہ آلودگی شناخت کرسکتا ہے۔ اس میں ایک تبدیل شدہ پروٹین کا ڈی این اے ملایا گیا ہے جو آلودہ کیمیا اجزا کی موجودگی میں روشنی کے سالمات خارج کرتا ہے۔ اس طرح صرف دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پانی کا نمونہ کسقدر گندا ہے۔

پہلے فلٹر میں زندہ بیکٹیریا شامل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ لیکن اس کی انجینیئرنگ سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بیکٹیریا کو سرگرم رکھنا بہت مشکل تھا۔ اس کےبعد مصنوعی (سنتھے ٹِک) حیاتیات پرغورکیا گیا۔

اب یہ جدید ترین سینسر کمپیوٹر تبدیل شدہ ڈی این اے کی بدولت شاندار نتائج فراہم کرتا ہے اور پانی میں موجود خطرناک کیمیائی اجزا کو محسوس کرسکتا ہے۔ اسے روزالِنڈ ٹو کا نام دیا گیا ہے جس میں 8 چھوٹی ٹیسٹ ٹیوب نصب ہیں اور ہر ایک میں مختلف شدت کی آلودگیاں ناپنے والے مختلف سینسر لگے ہیں۔

اب اگر ایک ٹیوب روشنی دے تو وہ بتاتی ہے کہ اس میں ایک آلودگی ہے۔ اگر زیادہ ٹیوب روشنیاں خارج کریں تو وہ بتاتی ہیں کہ پانی قدرے آلودہ ہے۔

تبدیل شدہ ڈی این اے کے ریشے ہر آلودہ شے سے چپک کر روشنی خارج کرتے ہیں۔ اس طرح ہر ٹیوب آلودگی کی شدت کو بتاتی جاتی ہے۔ اس طرح ٹیوب میں روشنی دیکھ کر آلودگی کی شدت کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

جب اسے آزمایا گیا تو ڈی این اے سینسر نے کامیابی سے پانی میں جست، اینٹی بایوٹکس اور صنعتی فضلے سے خارج ہونے والے کئی کیمیکل کامیابی سے شناخت کئے۔ اس سینسر کا محلول منجمند کرکے ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔ اب چند قطرے پانی ڈال کر اسے تیارکیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر جولیئس کے مطابق یہ سینسر بطورِ خاص پینے کے پانی کی آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ نہایت کم خرچ اور استعمال میں آسان ہے۔
https://www.express.pk/story/2287014/508/


صحتمند شخص اگرکسی مریض کو کوئی عضوعطیہ کرتا ہے تو کئی پیچیدگیاں پیش آتی ہیں جن میں بلڈ گروپ مختلف ہونے کی بنا پرایک شخص کا عطیہ دوسرے کو نہیں دیا جاسکتا۔ اب اینزائم تھراپی کی بدولت پیچیدہ اعضا بھی غیریکساں بلڈ گروپ والے افراد میں لگائے جاسکیں گے۔

اب کینیڈا میں مختلف اداروں کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کئی برس کی محنت کے بعد اینزائم ٹریٹمنٹ وضع کی ہے جس کے تحت ایک عضو کو عالمی او اقسام کے بلڈ گروپ والے مریضوں کو بحفاظت لگایا جاسکے گا۔

ہم جانتے ہیں کہ خون کے سرخ خلیات کی سطح پر اینٹی جِن ہی بلڈ گروپ کا تعین کرتے ہیں۔ اے اینٹی جن کا مطلب اے گروپ ہوتا ہے۔ بی اینٹی جن کی بدولت خون کا بی گروپ بنتا ہے۔ اے بی بلڈ گروپ میں دونوں گروپ ہوتے ہیں اور او میں کوئی اے اور او اینٹی جن غائب ہوتے ہیں۔

اب خون کی منتقلی ہو یا پھر پیوندکاری ہو اگر خون کی قسم یکساں نہ ہو تو معاملہ پیچیدہ ہوسکتا ہے ۔ اس طرح مختلف گروپ والا عضو لگایا جائے تو بدن سب سےپہلے اس کا دشمن بن کر اسے مسترد کردیتا ہے۔

اسے حل کرنے کے لیے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اینزائم استعمال کرکے عطیہ کردہ عضو سے اینٹی جن مٹانے کا کام کیا ہے۔ اس طرح عضو کی کیفیت یونیورسل او گروپ ہوجاتی ہے۔ تھراپی کے لیے دو اینزائم انسانی آنتوں سے لیے گئے ہیں کے نام ایف پی گیل این اے سی ڈی ایسی ٹائلیز اورایف پی گیلکٹوزامائی ڈیز ہے۔

سائنسدانوں نے دو پھیپھڑوں کو ’ایکس وائیو لنگ پرفیوژن‘ (ای وی ایل پی) سسٹم کے اندررکھا۔ اس سسٹم میں پھیپھڑوں کو پیوندکاری سے قبل خون اور ضروری اجزا میں زندہ رکھا جاتا ہے۔ اب اس میں دونوں اینزائم بھی ڈالے گئے۔

تجربے میں ٹائپ اے ڈونر پھیپھڑا لیا گیا جو پہلے سے ہی خراب تھا اور ڈاکٹر اسے علاج کے لیے مسترد کرچکے تھے۔ ای وی ایل پی سسٹم میں جب دو اینزائم ڈالے گئے تو کچھ دیر بعد پورے عضو سے اے اینٹی جِن (بلڈ گروپ) اور اس کے اثرات 97 فیصد تک غائب ہوگئے۔ اب اسے مخالف بلڈ گروپ والے خون میں رکھا گیا تو پھیپھڑے کو رد کرنے والے اجزا سامنے نہیں آئے۔

اس تجربے سے معلوم ہوا کہ اینزائم تھراپی کی وجہ سے جلد یا بدیر مختلف بلڈ گروپ والے افراد کے اعضا دوسروں کو لگانے میں مدد مل سکے گی۔
https://www.express.pk/story/2286429/9812/


ایک اہم پیشرفت میں نہ صرف ہڈیوں کی نشوونما بڑھانے والی دوا بنائی گئی ہے بلکہ وہ ایک مشہور دوا کے مضر اثرات کم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

ہڈیوں کے معمولی فریکچر اور ٹوٹ پھوٹ تو ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن شدید چوٹ سے ہڈی ضائع ہونے کی صورت میں دوبارہ نہیں بن پاتی۔ اس سے عمر بھر کی معذوری لاحق ہوتی ہے یا پھر عضو کاٹنا پڑجاتے ہیں۔

لیکن ہڈی کی دوبارہ نمو کی ایک دوا ایف ڈی اے نے مںظور کی ہے جس میں ری کامبننٹ ہیومن بون مارفوجینیٹک پروٹین ٹو یا بی ایم پی ٹو ملایا گیا ہے۔ لیکن اول یہ بہت مہنگی ہے اور دوم اس کے بدن پر شدید ترین سائیڈ افیکٹس بھی دیکھے گئے ہیں۔

اب مایو کلینک نے جرمنی اور ہالینڈ کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر ویکسین ٹیکنالوجی کا اہم جزو میسنجرآراین اے استعمال کیا ہے جو پہلے ہی دنیا بھر میں منظور کیا جاچکا ہے اور استعمال ہورہا ہے۔

ایم آر این اے تھراپی کی تحقیقات سائنس ایڈوانسس میں شائع ہوئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح ٹوٹ کر غائب ہوجانے والے ہڈی کے گوشے دوبارہ اگنے لگتے ہیں اور اس کا معیار مہنگی اور پیچیدہ بی ایم پی ٹو سے بہتر دیکھا گیا اور کوئی منفی اثرات بھی نہیں دیکھے گئے۔

معلوم ہوا کہ میسنجرآراین اے ہڈیوں کی دوبارہ نمو میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بارباریہ خوراک کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہرین نے اس طرح ہڈیوں اور بافتوں کی افزائش کا دو ماہ تک بغور مطالعہ کیا اور اسے دیگر مہنگی ادویہ سے بہت عمدہ پایا۔

ہم جانتے ہیں کہ ہڈیوں کی نشوونما دو طریقوں سے ہوتی ہے: اول میسن کائمل پروجینیٹر خلیات کی تشکیل سے بنتی ہے یا پھر ایںڈوکونڈریئل اوسی فکیشن کے عمل سے بنتی ہیں۔ اس پیچیدہ عمل میں کرکری ہڈی بنتی ہے اور وہ سخت ہڈی میں ڈھل جاتی ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایم آراین اے تھراپی ہڈیوں کی گہری چوٹ اور نقصان کا ازالہ کرنے اوردوبارہ افرائش میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ فی الحال تمام تجربات چوہوں پر کئے گئے ہیں اور یوں انسانی آزمائش میں کچھ برس لگ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2286036/9812/


فلکیاتی ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے کائنات میں اب تک کی سب سے بڑی کہکشاں دریافت کرلی ہے جو 16.3 ملین (ایک کروڑ 63 لاکھ) نوری سال جتنی بڑی ہے۔

یعنی اس ایک کہکشاں میں ہماری ’ملکی وے‘ جیسی 100 کہکشائیں سما سکتی ہیں۔

’ایلسایونیئس‘ (Alcyoneus) کہلانے والی یہ کہکشاں ہم سے تین ارب نوری سال دور ہے جس سے طاقتور ریڈیو لہریں خارج ہورہی۔ اسی بناء پر یہ ’ریڈیو کہکشاؤں‘ میں شمار کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ عام کہکشاؤں کے مقابلے میں ان کہکشاؤں سے ریڈیو لہریں بہت زیادہ خارج ہوتی ہیں جنہیں ہماری آنکھیں تو نہیں دیکھ سکتیں لیکن ریڈیو سگنل ’پکڑنے‘ والے انٹینا انہیں ضرور محسوس کرلیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حساس ریڈیو انٹینا استعمال کرتے ہوئے ’ریڈیو دوربینیں‘ بنائی جاتی ہیں جو خلاء سے آنے والی ریڈیو لہروں کی مدد سے وہ مناظر بھی ’دیکھ‘ سکتی ہیں جنہیں دیکھنا انسانی آنکھ کے بس سے باہر ہے۔

ایلسایونیئس ریڈیو کہکشاں اگرچہ بہت پہلے دریافت ہوچکی تھی لیکن اس کی غیرمعمولی جسامت کا انکشاف ریڈیو دوربینوں کے عظیم الشان یورپی منصوبے ’لوفار‘ (LOFAR) یعنی ’لو فریکوینسی ایرے‘ سے حالیہ برسوں میں کیے گئے مشاہدات پر نظرِ ثانی کے دوران ہوا ہے۔

لوفار کے تحت یورپ میں 52 مقامات پر آسمانی مشاہدے کےلیے 20 ہزار حساس ریڈیو انٹینا نصب ہیں جو ایک ساتھ مل کر کسی بہت بڑی ریڈیو دوربین کی طرح کام کرتے ہیں۔

بعض ریڈیو کہکشائیں بہت بڑی ہوتی ہیں جنہیں ’جائنٹ ریڈیو گیلیکسیز‘ یا مختصراً ’جی آر جیز‘ (GRGs) بھی کہا جاتا ہے۔

لائیڈن یونیورسٹی ہالینڈ سے مارٹن اوئی کی قیادت میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور جنوبی افریقہ کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے ’لوفار‘ منصوبے کے تحت اب تک دیکھی گئی دیوقامت ریڈیو کہکشاؤں کا نئے سرے سے جائزہ لینا شروع کیا۔

اس جائزے کا مقصد ان ’ریڈیو تصویروں‘ میں سب سے بڑی کہکشاں تلاش کرنا تھا۔ یہ تلاش جلد کامیاب ہوئی اور انہیں ’ایلسایونیئس‘ نظر آگئی جو دوسری تمام ریڈیو کہکشاؤں کے مقابلے میں واضح طور پر بڑی تھی۔

ریڈیو کہکشاؤں میں ستاروں، گیس کے بادلوں اور مرکز میں ایک عظیم الشان ’سپر میسیو بلیک ہول‘ سمیت، وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی دوسری کہکشاں میں پایا جاتا ہے۔

البتہ ریڈیو کہکشاں کے مرکز سے باردار (charged) ذرّات پر مشتمل پلازما کی طاقتور بوچھاڑیں نکل رہی ہوتی ہیں جبکہ کان کی لو (lobes) جیسی دیوقامت ساختیں بھی نمایاں ہوتی ہیں جو لاکھوں نوری سال دور تک پہنچتی ہیں جنہیں صرف ریڈیو لہروں کی مدد ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ خصوصیات دوسری کہکشاؤں میں بہت کم ہوتی ہیں۔

ماہرین نے دیکھا کہ ایلسایونیئس میں کان کی لو جیسی ساختیں، اس کے مرکز سے ناقابلِ یقین فاصلے تک پھیلی ہوئی تھیں۔

محتاط پیمائش پر کہکشانی مرکز سے ان کی دوری کم از کم 5 میگا پارسیک (1 کروڑ 63 لاکھ نوری سال) معلوم ہوئی، یعنی یہ اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی ریڈیو کہکشاں بھی ہے۔

اب تک ہم نہیں جانتے کہ ریڈیو کہکشاؤں میں کان کی لو جیسی ساختیں (lobes) اتنی بڑی کیسے ہوجاتی ہیں اور ان کے پسِ پشت کونسا غیرمعمولی عمل کارفرما ہے۔

نوٹ: اس دریافت کی تفصیل پری پرنٹ سرور ’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘ پر شائع ہوئی ہے جبکہ اسے ریسرچ جرنل ’ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس‘ میں اشاعت کےلیے منظور بھی کرلیا گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2285691/508/


پاکستانی سائنسدانوں نے شوگر کے مریضوں کی سوئی سے جان چھڑانے کیلئے حیران کن چیز ایجاد کردی
Feb 15, 2022 | 18:17:PM

سورس: Maxpixel.com (creative commons license)

پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز اور ڈیٹا سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے شوگر کے مریضوں کی سوئی سے جان چھڑانے کے لیے ایک حیران کن ایجاد کر ڈالی ہے۔ ویب سائٹ ’پرو پاکستانی‘ کے مطابق اب تک شوگر کے مریض انسولین کے انجکشن کی تکلیف برداشت کرنے پرمجبور تھے تاہم پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکٹر طلحہ درانی کی قیادت میں کام کرنے والی اس ٹیم نے انسولین پیچز تیار کر لیے ہیں، جن کے ذریعے بغیر کسی تکلیف کے مریض انسولین لے سکیں گے۔

رپورٹ کے مطابق یہ انسولین پیجز جلد پر چپکائے جائیں گے، جو منسلک ڈیوائس کے ذریعے کام کریں گے۔ ان پیچز کے تمام لیب ٹیسٹ کامیاب ہو چکے ہیں اور اب لندن سے سند حق ایجاد حاصل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک انسولین پیچ کی قیمت لگ بھگ 50روپے ہو گی۔ یہ انسولین پیچز تیار کرنے والی ٹیم میں برطانوی ڈاکٹر پروفیسر ڈینس درومس، نیورالوجسٹ ڈاکٹر میاں ایاز الحق اور میکٹرونکس انجینئرڈاکٹر انعم عابد بھی شامل تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/15-Feb-2022/1403716?fbclid=IwAR3c5TzW0v23ti8iYkBa23teK-P4HRkeMJ4DSAfcPEovABzCocv3cWqfz54


آنکھوں پر نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آنکھ میں روشنی محسوس کرنے والی حساس بافت یعنی ریٹینا کی پشت پر دھاریوں کا تعلق دماغی صلاحیت و صحت سے ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں سب سے اہم بیماری الزائیمر ہے جو دھیرے دھیرے دماغی صلاحیت کو تباہ کردیتی ہے۔ یہ مرض خاموشی سے بڑھتا ہے لیکن جب اس کی شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ تاہم وہ دن دور نہیں جب آنکھوں کے معائنے سے اس کیفیت کی قبل ازوقت پیشگوئی کی جاسکتی ہے جو ڈیمنشیا کی عام اور شدید کیفیت بھی ہے۔

نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو کی پروفیسر ایشلی بیرٹ ینگ اور ان کے محقق ساتھیوں کے مطابق آنکھوں کے معائنے سے دماغی امراض بالخصوص الزائیمر کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق آنکھوں کی کھڑکی سی دماغی اور ذہنی کیفیات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

دس برس قبل معلوم ہوا تھا کہ الزائیمر کے مریضوں کا ریٹینا باریک سے باریک تر ہوتا چلا جاتا ہے دوسری جانب انہی مریضوں کے ریٹینا میں ایمولوئڈ بی ٹا پروٹین کی بڑی مقدار بھر جاتی ہے جو الزائیمر کی عام وجہ بھی ہے۔ پھر 2018 میں معلوم ہوا کہ الزائیمر سے آنکھوں کی تین کیفیات جڑی ہیں جن میں موتیا اور عمررسیدگی کے سے وابستہ نابینا پن یا اے ایم ڈی شامل ہے۔

اوٹاگو یونیورسٹی نے 1970 کے عشرے سے اس تحقیق کا آغاز کیا۔ 70 کی دہائی میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں کو مطالعے میں داخل کیا گیا۔ سارے بچوں نے ایک ہی ہسپتال میں آنکھ کھولی تھی۔ اب 50 برس بعد 865 بالغان کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے45 برس کی عمر میں آنکھوں کے مختلف اسکین کرائے تھے۔ اس کے علاوہ تمام شرکا کی آنکھوں کے دیگر ٹیسٹ بھی کئے گئے تھے۔

آخری اور حتمی جانچ میں تمام شرکا کے ریٹینا اور گینگولیئن خلیات کی پرتوں کی موٹائی کو احتیاط سے نوٹ کیا گیا۔ اب جن افراد کا ریٹینا باریک تھا انہوں نے دماغی اور اکتسابی ٹیسٹ میں بری کارکردگی دکھائی یعنی بلوغت میں بھی اور خود بچپن میں بھی وہ ان ٹیسٹ میں دوسروں سے پیچھے تھے۔

لیکن ریٹینا کی باریکی کا مجموعی دماغی زوال سے مکمل تعلق سامنے نہیں آیا۔ تمام بچے اوائل عمر میں ہی دماغی اور ذہنی صلاحیت میں سست تھے۔ لیکن شماریاتی تجزیئے سے معلوم ہوا کہ ریٹینا کی موٹائی میں غیرمعمولی کمی بتاتی ہے کہ دماغی، ذہنی اور اکتسابی صلاحیت میں کچھ کمی ضرور ہے۔

تاہم سائنسدانوں نے اس پر مزید تحیق کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اگلے مرحلے میں ایک اور وسیع مطالعہ کیا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2285598/9812/


پاکستانی نوجوان سائنسداں کی سربراہی میں ایک ٹیم کے تیارکردہ شمسی (سولر) سیل نے توانائی کی افادیت کے دو نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اس طرح دھوپ سے بجلی کی وافر مقدار بنانے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب ماحول دوست طریقے سے عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) بھی کم کرنا ممکن ہوگا۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے یاسر صدیقی اس وقت جنوبی کوریا کی جامعہ سائنس و ٹیکنالوجی میں کوریا انسٹی ٹیوٹ آف انرجی ریسرچ (کے آئی ای آر) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بطور مرکزی سائنسداں، ایک بالکل نئے سولر سیل کی ڈیزائننگ اور تیاری کا مرکزی کام کیا ہے جسے کاپر انڈیئم سلفو سیلینائیڈ (سی آئی ایس ایس ای) کا نام دیا گیا ہے۔

اس سولر سیل کو خاص محلول شامل کرکے مستحکم بنایا گیا ہے اور سیل کا پورا نام کچھ طویل ہے جسے ’سلوشن پروسیسڈ کاپرانڈیئم سلفو سیلینائڈ (سی آئی ایس ایس ای) لوبینڈ گیپ کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس نے اسی حالت میں بھی باکفایت بجلی کا ایک ریکارڈ بنایا ہے لیکن جب اس کے اوپر پروسکائٹ کی پتلی تہہ سینڈوچ کی طرح لگائی گئی تو اس نے بھی ایک نیا ریکارڈ بنایا۔

یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی سیمی کنڈکٹر سے الیکٹران آزاد کرانے کے لیے جو توانائی درکار ہوتی ہے اسے بینڈ گیپ کہا جاتا ہے، یعنی کسی سیمی کنڈکٹر کا بینڈ گیپ جتنا کم ہوگا اس سے الیکٹران کا بہاؤ اتنا ہی زیادہ ہوگا اور اتنی ہی بجلی بنے گی۔

ہم سے 15 کروڑ کلومیٹر دور سورج زمین پر حرارت اور توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زندگی کی رونق بھی اسی ستارے سے وابستہ ہے۔ پودے دھوپ سے خوراک اور آکسیجن بناتے ہیں اور زمین پر موسم بھی اسی سے بنتے ہیں۔ نظری طور پر مکمل دھوپ ایک مربع میٹر پر 1360 واٹ کے بقدر توانائی بناسکتی ہیں۔ لیکن شمسی سیل سے اس کی بڑی مقدارٹکرا کر لوٹ جاتی ہے، گزرجاتی ہے یا پھر بجلی میں ڈھل جاتی ہے۔ یوں ہم سورج کی حرارت اور توانائی کی کچھ فیصد مقدار ہی بجلی میں بدل پاتے ہیں۔ اسے عام طور پر سولر سیل کی کفایت یا ایفیشنسی کہا جاتا ہے۔

دنیا میں درجنوں اقسام کے سولر سیل بنائے اور استعمال کئے جارہے ہیں ۔ پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے سولر سیل میں بھی انہیں تقسیم اور بیان کیا جاتا ہے۔ ہر قسم کے شمسی سیل کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ روایتی سلیکون شمسی سیل کی افادیت 15 سے 20 فی صد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرتکز شدہ شمسی پینل کی افادیت 41 فیصد تک جاپہنچتی ہے تاہم اس پر آئینوں سے سورج کی کرنوں کو ایک مقام پر پھینکنا ہوتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر یاسر کا تیار کردہ شمسی سیل سینڈوج یا ٹینڈم قسم سے وابستہ ہے اور اس میدان میں سب سے مؤثر ایجاد بھی ہے۔ انقلابی سیل کی تیاری میں تین سال کی محنت شامل ہے۔ ان میں صرف سی آئی ایس ایس سیل کی افادیت 14.4 فیصد ہے جبکہ اسے پروسکائٹ معدن کے ساتھ جوڑا گیا تو اس پروسکائٹ، سی آئی ایس ایس ای سیل نے 23.03 ایفی شنسی کو چھوا جو محلول عمل سے تیار perovskite/CISSe سولر سیل کا نیا ریکارڈ بھی ہے۔

کے آئی ای آر سے شائع سب سے اہم مقالہ

دونوں ایجادات ’کے آئی ای آرمیں واقع فوٹووولٹائک ٹیسٹ لیبارٹری‘ سے باقاعدہ سرٹفکیٹ حاصل کرچکی ہیں۔ یہ تجربہ گاہ ISO/IEC17025 سرٹیفائڈ ٹیسٹ سینٹر بھی ہے جسے کوریا لیبارٹری ایکریڈیٹیشن اسکیم (کولاس) کی جانب سے مجازادارے کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کولاس نے انٹرنیشنل لیبارٹری ایکریڈیشن کوآپریشن میوچل ریکگنیشن ارینجمنٹ کے معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں۔ ایجاد کی پیٹنٹ جلد ہی فائل کی جائے گی۔ اختراعاتی سولر سیل کی پوری روداد رائل سوسائٹی برائے کیمیا کے جرنل ’انرجی اینڈ اینوائرمنیٹل سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے جس کا 38.532 امپیکٹ فیکٹر اسے دنیا کا ممتاز سائنسی جریدہ بناتا ہے۔

’ یہ گزشتہ چند برسوں میں کے آئی ای آر سے شائع شدہ سب سے اہم اوربلند اثر والی تحقیق بھی ہے،‘ صدیقی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔

نسخہ برائے شمسی سیل

اسی قسم کے سولر سیل کا پرانا ریکارڈ چینی، امریکی اور آسٹریلوی ماہرین نے بنایا تھا جس کی افادیت 13.5 فیصد تھی ۔ لیکن اس سیل کو بنانے کے لیے ایک خاص بند ماحول درکار ہوتا ہے جسے ’گلووباکس‘ کہتے ہیں اور اس کے اندر نائٹروجن گیس بھری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کارخانے میں اس کی بڑی مقدار بنانا محال ہے کیونکہ نائتروجن کی وسیع مقدار اور اس کے انتظامات پورے عمل کو بہت مہنگا بناتے ہیں۔

یاسر صدیقی نے ایک جادوئی جزو کا اضافہ کیا جسے سی آئی ایس ایس ای سولر سیل کو استحکام بخشا اور وہ ایک سالماتی (مالیکیولر) روشنائی تھی۔


’ ہم نے کھلی فضا اور کمرے کے درجہ حرارت پر سیل بنایا جس سے نائٹروجن کی ضرورت ختم ہوگئی۔ سی آئی ایس ایس ای کی پتلی تہہ بنانے کے لیے اس میں این این ڈائی میتھائل فورمامائیڈ (ڈی ایم ایف) مالیکیولر انک بنائی گئی جو پیچیدہ کیمیائی برقی اجزا کو استحکام بخشتی ہے۔

اگلے مرحلے پر ماہرین نے ایئر انیلنگ کا عمل کیا۔ الیکٹرانکس میں بنیادی مادوں کی ساختی، طبعی اوربصری صلاحیت بڑھانے اور فاضل مادوں کو نکالنے کے لیے انہیں پہلے خاص درجہ حرارت پر گرم اور پھر ٹھنڈا کیا جاتا ہے جسے ایئر انیلنگ کہا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف روشنی جذب کرنےوالی پرت کو کاربن ذرات سے پاک بلکہ اس سے کرسٹلائزیشن بننےکے عمل کو بھی حسبِ خواہش کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر بنیادی اجزا میں کرسٹل بننے کی شرح ہموار اور بہتر ہو تو اس کے بہت فوائد سامنے آتے ہیں۔

ماہرین نے شمسی سیل کے چار یکساں ماڈل کو 210، 230، 280 اور 330 درجے سینٹی گریڈ پر گرم ہوا سے گزارا۔ ان میں سے 230 سینٹی گریڈ پر شمسی سیل نے بہترین صلاحیت دکھائی۔ اس طرح سی آئی ایس ایس ای شمسی سیل نے 14.4 کفایت کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

ہھر نئے سیل کو پروسکائٹ کے ساتھ ملاکر استعمال کیا گیا تو اسے پروسکائٹ، سی آئی ایس ایس ای کا نام دیا گیا ۔ سینڈوچ طرز نے اس سیل کی ایفیشنسی 23.03 تھی جو ایک اور عالمی ریکارڈ قرار پائی۔ یوں ڈاکٹر یاسر کی ایجاد نے شمسی سیل کے اس زمرے میں دو ریکارڈ بنائے ہیں۔

جہاں تک پروسکائٹ کا سوال ہے تو یہ معدن 1800 کے وسط میں روسی ماہرین نے دریافت کی تھی۔ اس سے پتلے سولر سیل کاڑھے جاسکتےہیں۔ دوم اسے کسی اور قسم کے سیل کی پرت کے اوپر لگا کر اضافی کفایت حاصل کی جاسکتی ہے جس کا مظاہرہ اس نئی ایجاد میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

شمسی سیل کی پائیداری اس کا سب سے اہم پہلو ہوتی ہے۔ روایتی سیلیکون سے بنے سولر سیل تمام موسموں میں بھی 20 سے 30 سال تک کارآمد رہتے ہیں اور کسی بھی اچھے سیل میں یہ خواص ہونا ضروری ہیں۔ کے آئی ای آر کا نیا سولر سیل بھی پائیدار قرار پایا ہے۔

’میری تجربہ گاہ میں گزشتہ ایک برس سے یہ نیا سولر سیل موجود ہے اور اب تک اس کی افادیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے،‘ یاسر صدیقی نے کہا۔
https://www.express.pk/story/2285153/508/


سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے ’نیوٹرائنو‘ ذرّے کی کمیت معلوم کرلی ہے جسے ’بھوت ذرّہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس سے پہلے تک نیوٹرائنو کی کمیت (مادّے کی مقدار) کے بارے میں صرف اندازے ہی لگائے گئے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب اس ذرّے کی کمیت پورے احتیاط اور درستگی سے معلوم کی گئی ہے۔

حساس اور محتاط مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ نیوٹرائنو کی کمیت صرف 0.8 الیکٹرون وولٹ (0.8 eV/c^2)، یعنی الیکٹرون کے مقابلے میں پانچ لاکھ گنا سے بھی کم ہے۔

بتاتے چلیں کہ اس ذرّے کی پیش گوئی آج سے 90 سال پہلے جرمن ماہرِ طبیعیات وولف گینگ پالی اور امریکی سائنسدان اینریکو فرمی نے کی تھی۔

یہ اہم دریافت ’’کارلسروہے ٹرائٹیم نیوٹرائنو ایکسپیریمنٹ‘‘ (KATRIN) کے عنوان سے جرمنی میں جاری ایک عالمی تحقیقی منصوبے کے تحت کی ہوئی ہے جس میں جرمنی، امریکا اور برطانیہ سمیت چھ ممالک شریک ہیں۔


ادھورے نظریات اور بھوت ذرّہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوٹرائنو کی کمیت معلوم کیے بغیر کائنات کے بارے میں ہمارے سائنسی نظریات بھی ادھورے رہیں گے۔

نیوٹرائنو کو ’’بھوت ذرّہ‘‘ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام مادّے کے ساتھ لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہی عمل (انٹریکشن) کرتا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ نیوٹرائنو کچھ اس طرح ہماری زمین سے آرپار گزر سکتے ہیں کہ جیسے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ موجود ہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا براہِ راست مشاہدہ ہمارے لیے ناممکن ہے۔

البتہ، اینریکو فرمی نے پیش گوئی کی تھی کہ ایٹمی مرکزوں (اٹامک نیوکلیائی) میں ٹوٹ پھوٹ یعنی انحطاط (decay) کے نتیجے میں الیکٹرون کے ساتھ ساتھ نیوٹرائنو بھی خارج ہوتے ہیں جن کی وجہ سے الیکٹرون کی کمیت میں بے حد معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔

یہ کمی اس قدر معمولی ہوتی ہے کہ انتہائی درست اور حساس آلات (ڈٹیکٹرز) ہی اس کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ یعنی ان آلات کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایٹمی مرکزے میں انحطاط سے خارج ہونے والے الیکٹرونوں کی کمیت میں کروڑویں حصے جتنا فرق بھی معلوم کرسکیں۔

فرمی کی یہی پیش گوئی مدنظر رکھتے ہوئے جرمن شہر کارلسروہے کے نزدیک ’کیترن‘ (KATRIN) نامی منصوبے پر 2000 میں کام شروع کیا گیا جو عالمی تعاون و اشتراک سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔

خاص اور ناپائیدار ہائیڈروجن

اس منصوبے کے تحت سائنسدانوں نے ایک خاص قسم کی ہائیڈروجن استعمال کی جسے ’’ٹریٹیم‘‘ (Tritium) کہا جاتا ہے۔ اس کے مرکزے (نیوکلیئس) میں ایک پروٹون کے ساتھ دو نیوٹرون بھی موجود ہوتے ہیں۔

عام ہائیڈروجن، جس کے مرکزے میں صرف ایک پروٹون ہوتا ہے، بے حد پائیدار ہے جو مناسب حالات میں اربوں سال تک خود کو برقرار رکھتی ہے۔

اس کے برعکس ٹریٹیم بہت ناپائیدار ہوتی ہے کیونکہ اپنے مرکزے میں ایک پروٹون کے ساتھ دو اضافی نیوٹرونوں کو سنبھالنا اس کےلیے بے حد مشکل ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹریٹیم کے مرکزے (نیوکلیئس) میں نیوٹرون بھی انحطاط کا شکار رہتے ہیں۔

اس انحطاط میں نیوٹرون خود کو پروٹون میں تبدیل کرتے ہوئے ایک الیکٹرون اور ایک نیوٹرائنو خارج کرتا ہے۔

اب چونکہ ایٹمی مرکزے سے خارج ہونے والے الیکٹرون کو ’بی-ٹا‘ ذرّہ (Beta particle) کہتے ہیں لہذا نیوٹرون کے بدلنے اور اس سے الیکٹرون/ نیوٹرائنو خارج ہونے کا یہ عمل ’بی-ٹا انحطاط‘ (Beta decay) کہلاتا ہے۔

فرمی کی پیش گوئی تھی کہ بی-ٹا انحطاط میں خارج ہونے والے الیکٹرون کی کمیت، دوسرے اور عام الیکٹرونز کے مقابلے میں بہت معمولی سی کم ہونی چاہیے کیونکہ اس عمل میں (الیکٹرون کے مقابلے میں) لاکھوں گنا کمتر کمیت والا نیوٹرائنو بھی خارج ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔

یعنی عام الیکٹرونوں اور بی-ٹا انحطاط میں نکلنے والے الیکٹرونوں میں کمیت کے انتہائی معمولی فرق کی پیمائش کرکے ہم نیوٹرائنو کی کمیت بھی معلوم کرسکتے ہیں۔

کیترن منصوبے میں ٹریٹیم کے بی-ٹا انحطاط سے خارج ہونے والے کھربوں الیکٹرونوں کی کمیت، انتہائی حساس آلات سے، کئی سال تک بار بار معلوم کی گئی۔

اس دوران آلات کو بہتر سے بہتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔


جب اس منصوبے سے وابستہ ماہرین کو اپنے حاصل کردہ اعداد و شمار اور ان کے نتائج درست ہونے پر مناسب حد تک اعتبار ہوگیا تو انہوں نے اس دریافت کی تمام تفصیلات ریسرچ جرنل ’’نیچر فزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع کروا دیں۔

نیوٹرائنو بظاہر بہت معمولی ذرّہ ہے لیکن بگ بینگ سے لے کر تاریک مادّے (dark matter) تک جیسے کائناتی مظاہر میں اس کا عمل دخل تسلیم کیا جاتا ہے۔

نیوٹرائنو کی کمیت (0.8 الیکٹرون وولٹ) معلوم ہو جانے کے بعد، ماہرین کو امید ہے کہ ذرّات اور کائنات کے بارے میں کئی سوالوں کے جوابات حاصل کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔

دوسری جانب ’کیترن‘ منصوبے میں شامل آلات کو مزید بہتر بنانے کا کام بھی جاری ہے تاکہ 2025 سے نیوٹرائنو کی کمیت کی اور زیادہ درست پیمائشیں کی جاسکیں۔
https://www.express.pk/story/2285357/508/


اگرچہ بعض اقسام کے نینو ذرات کئی امراض کے علاج میں بہت مؤثر دیکھے گئے ہیں لیکن اب مکئی کے نینوذرات سے کینسر کے علاج کے متاثر کن نتائج سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ کئی برس سے بہت ارزاں ہونے کی بنا پر پودوں سے اخذ کردہ نینوذرات پر تحقیق ہورہی ہے جنہیں پلانٹ نینوپارٹیکلز یا ’این پی‘ کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں فطری طور پر امراض کے خلاف سرگرم اجزا بھی موجود ہوسکتےہیں۔ جن میں پولی فینولز نامی اینٹی آکسیڈنٹس اور مائیکروآراین اے کی بہتات ہوتی ہے۔ نظری طور پر یہ بدن میں مخصوص اعضا تک دوا لے جانے کا کام کرسکتے ہیں۔

اسی بنا پر ٹوکیو یونیورسٹی آف سائنس (ٹی یو ایس) نے مکئی کو بطور خام مال استعمال کرتے ہوئے ضدِ سرطان بایونینوپارٹیکلز بنائے ہیں۔ ٹی یو ایس کے پروفیسر ماکیا نشی کاوا کہتے ہیں کہ پودوں کے نینوذرات کے طبعی کیمیائی خواص کنٹرول کرکے ہم جسم میں ان کی ادویاتی تاثیر پر قابو پاسکتےہیں۔ اسی لیے عام پائی جانے والی مکئی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ دنیا بھر میں ہرجگہ کاشت ہوتی ہے اور جینیاتی تبدیلی سے گزاری جاسکتی ہے۔

پہلے میٹھی مکئی کے دانوں کو پانی میں ملایا گیا ۔ پھر اس کا رس سینٹری فیوج مشین میں گھماکر خاص سرنج فلٹر سے گزارا گیا جس سے 0.45 مائیکرومیٹر کے ذرات بنے۔ اب انہیں سینٹری فیوج مشین میں مزید چکر دیئے گئے۔ اس سے باریک ترین ذرات بنے جو 80 نینومیٹر جسامت رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر باریک نینوذرے پر 17 ملی وولٹ کا منفی چارج بھی تھا۔

پھر ایک اور تجربے میں دیکھا گیا کہ یہ خلیات میں جاسکتے ہیں یا نہیں تو سائنسداں یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ کئی طرح کے خلیات میں سرایت کرگئے۔ چوہوں کے تجربات نے بتایا کہ یہ آنت کے خلیات کولون 26 سرطانی خلیات میں سرایت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح آر اے ڈبلیو 264.7 اور نارمل این آئی ایچ تھری ٹی تھری خلیات میں بھی گھس بیٹھے۔ یہ سارے خلیات عموماً تجربہ گاہوں میں دوا کی تاثیر کے لیے بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور دوا کا راستہ اور عمل بھی انہی سے گزرتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر کولون 26 میں مکئی کے ذرات جاگھسے اور وہاں رسولی کی افزائش کو روکا۔ علاوہ ازیں انہی ذرات نے بہت کامیابی سے سرطانی خلیات میں ٹی این ایف ایلفا خارج کیا جو سرطان کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے سائنسداں بہت مسرور ہیں کیونکہ مکئی کے نینوذرات کی تیاری بہت سستا اور آسان عمل ہے۔

اب اگر یہ تحقیق آگے بڑھتی ہے تو مکئی کے قدرتی نینوذرات سب سے پہلے آنتوں کے سرطان کے علاج میں کام آسکیں گے۔
https://www.express.pk/story/2285170/9812/


امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا پروٹین تیار کرلیا ہے جو بیک وقت ذیابیطس اور موٹاپے کا علاج بن سکتا ہے۔ چوہوں پر اس کی کامیاب ابتدائی آزمائشیں بھی مکمل ہوچکی ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں ڈاکٹر راجن سہا اور ان کے ساتھیوں نے ’’سویل ون‘‘ (SWELL1) کہلانے والے ایک پروٹین پر تحقیق کے دوران معلوم کیا کہ یہ ٹائپ 2 ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول، جگر میں چربی جمع ہونے اور موٹاپے سمیت کئی ایسی کیفیات سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتا ہے جنہیں مجموعی طور پر ’میٹابولک سنڈروم‘ کہا جاتا ہے۔

جسم میں اسی ’’سویل ون پروٹین‘‘ کی کمی سے میٹابولک سنڈروم ظاہر ہوتی ہے جو آگے چل کر ہلاکت خیز بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

سائنسدانوں نے ’’سویل پروٹین‘‘ میں کچھ تبدیلیاں کرکے ایک نیا پروٹین ’’ایس این 401‘‘ تیار کیا جو میٹابولک سنڈروم، بالخصوص ذیابیطس اور موٹاپے کے خاتمے میں سویل ون سے بہتر ہے۔

چوہوں پر تجربات میں SN-401 نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیابیطس اور موٹاپے میں مبتلا کردہ چوہوں کے لبلبے سے انسولین کا اخراج بہتر بنانے اور جسمانی چربی کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مجموعی صحت بھی خاصی بہتر بنائی۔

ڈاکٹر راجن اور ان کے ساتھیوں کی اس تحقیق کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوچکی ہے۔

ڈاکٹر راجن نے ایس این 401 اور اس نوعیت کے دوسرے مصنوعی پروٹینز کو بطور دوا متعارف کروانے کےلیے واشنگٹن یونیورسٹی کے تعاون سے ایک اسٹارٹ اپ کمپنی بھی قائم کر لی ہے۔

واضح رہے کہ دنیا میں موٹاپے اور ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر اس صورتحال کا جلد از جلد مؤثر تدارک نہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ دنیا کی سب سے ہلاکت خیز بیماریاں بن جائیں گی؛ جبکہ ان سے مرنے والوں کی سالانہ تعداد بھی غیر معمولی طور پر بڑھ سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2284919/9812/


https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/15022022/p1-lhr018.jpg


کرپٹو کرنسی اور بلاک چین کے شور میں اب ایک اور صدا کی بازگشت ہے کہ انٹیل نے اپنا پہلا بلاک چین پروسیسر بنانے کا اعلان کردیا ہے جسے کرپٹو چپ کا نام دیا گیا ہے۔

انٹیل نے نئی مائیکروچپ کو ’بلاک چین‘ ایسیلریٹر کا نام دیا ہے اور اس کی کوششیں ایک عرصے سے جاری تھی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ چپ بلاک چین پر بنائی گئی ہے۔ یہ کرپٹوکرنسی کی مائننگ کرسکتی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر توانائی کی غیرمعمولی بچت کرتی ہے جسے ماحول دوست کرپٹو چپ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ کیونکہ کرپٹو مائننگ کے لیے غیرمعمولی بجلی درکار ہوتی ہے جس کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

انٹیل نے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت اپنی پہلی چپ بنائی ہے جس میں کرپٹو پہلو شامل کیا گیا ہے اور اب تک دو کمپنیوں نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ایک کا نام جی آر آئی آئی ڈی اور فائنینشل ٹیکنالوجی کی ایک اور کمپنی بلاک بھی شامل ہے۔

اس ایجاد کے بارے مین انٹیل کے سینیئر وائس پریذیڈنٹ، راجہ کوڈوری نے کہا کہ اس کا انقلابی سرکٹ توانائی کی بچت میں تمام بہترین پروسیسر اور جی پی یو کے مقابلے میں ہزار گنا فی واٹ بہتر ہے۔ اس سے ایس ایچ اے 256 طرز کی مائننگ کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ایس ایچ اے 256 کی بدولت بٹ کوائن اور دیگر کرپٹوکرنسیاں بنائی جاتی ہیں۔

لیکن اس مائیکروچپ کی دیگر تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ اب 20 فروری کو انٹرنیشنل سالڈ اسٹیٹ سرکٹ کانفرنس میں اس کی تفصیلات بیان کی جائیں گی۔ کانفرنس میں انٹیل بونینزا مائن کا تصور بھی پیش کرے گی جو بٹ کوائن ڈھالنے کا انتہائی کم بجلی خرچ کرنے والا ایک پروٹوکول ہے۔ اس طرح ایک چپ ایک وقت میں ایک ہی کام کرے گی اور یہ کرپٹو کرنسی مائننگ کا کام ہی ہوگا۔

واضح رہے کہ کرپٹوکرنسی ڈھالنے کے ماحولیاتی اثرات دنیا کی کئی حکومتوں کے لیے باعثِ تشویش بنے ہوئے ہیں۔ اب یہ حال ہوگیا ہے کہ اس بجلی کو پورا کرنے کے لیے کوئلے اور گیس پلانٹ بنائے جارہے ہیں جو ماحول کو مزیدآلودہ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں بھی جاپہنچا ہے اور اس پر قانون سازی کی جارہی ہے۔
https://www.express.pk/story/2284732/508/


خون میں لوتھڑے بننے کا عمل براہِ راست بلڈ پریشر، فالج اور امراضِ قلب کی وجہ بنتا ہے۔ اب ایک کم خرچ ایپ اور سادہ آلے سے ایک قطرہ خون کے نمونے سے اس میں لوتھڑے بننے کے رحجان کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

اس میں شرٹ کے بٹن سے بھی چھوٹے ایک پیالے میں پہلے ہی ایک کیمیکل اور تانبے کے خردبینی ذرات ملے ہوتے ہیں۔ اب اس میں خون کی معمولی مقدار شامل کرکے اسے اسمارٹ فون سے نصب کرکے اسے لرزش دی جاتے ہیں ۔ ہرفون میں ایک چھوٹی موٹر وائبریشن پیدا کرتی ہے۔ اس عمل میں اسمارٹ فون کیمرہ ایپ کی بدولت خون میں گاڑھے پن کی کیفیت نوٹ کرتا رہتا ہے۔ چند منٹوں بعد ایپ ازخود بتاتی ہے کہ خون میں لوتھڑے بننے کا کس قدر خطرہ ہے کیونکہ تھرتھراہٹ سے جب خون گاڑھا ہوتا ہے تو اس میں تانبے کے ذرات کی حرکت کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر خون میں لوتھڑے بننے کا خطرہ زیادہ ہو تو ذرات کی حرکت بالکل تھم جاتی ہے۔

یہ تحقیق جامعہ واشنگٹن کے ایک نوجوان طالبعلم نے کی ہے۔ اس میں درستگی کا تناسب روایتی اور مہنگے ٹیسٹ جیسا ہی ہے۔ یہاں تک کے اسے گھر پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


اس کے خالق شیام گولکوٹا نے اسے بنایا ہے اور اس کی قیمت مشکل سے 30 ڈالر ہے ۔ اسمارٹ فون کی وائبریشن سے کام کرنے والے اس ٹیسٹ میں سب سے اہم شے وہ الگورتھم ہے جو خون کی تصاویر سے اس میں لوتھڑے بننے کے عمل کا جائزہ لیتا ہے۔

اگرچہ خون کے گاڑھے پن اور لوتھڑے بننے کے ٹیسٹ دنیا میں بھر میں ہوتے ہیں لیکن اس کے شکار افراد کو بار بار ایسے ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں اسمارٹ فون ٹیسٹ کی بدولت گھر بیٹھے خون کے گاڑھے پن کا جائزہ لے کر ہارٹ اٹیک اور فالج سے بچا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2284650/9812/


برطانیہ کے قومی سائنسی عجائب گھر میں پیچیدہ سائنس ڈوڈلز سے بھرا ہوا ’ہاکنگ کا بلیک بورڈ‘ نمائش کےلیے رکھا گیا ہے جو 1980 سے یونیورسٹی آف کیمبرج میں بحفاظت رکھا ہوا تھا۔

خبروں کے مطابق، 1980 میں کیمبرج یونیورسٹی کے تحت ’سپر اسپیس اینڈ سپر گریویٹی‘ کی عالمی کانفرنس میں ہاکنگ کی ہدایت پر اس کے ساتھی سائنسدانوں نے ایک بڑے بلیک بورڈ پر یہ ڈوڈلز بنائے تھے۔


ان ڈوڈلز میں عجیب و غریب شکلوں اور کارٹونز کے علاوہ بہت سی ادھوری مساواتیں بھی شامل ہیں جو طبیعیات میں اُن اہم مسائل کے ممکنہ حل کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جنہوں نے اب تک دنیا بھر کے سائنسدانوں کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔

ان مسائل کا تعلق ’ہر شئے کے نظریئے‘ (تھیوری آف ایوری تھنگ) سے ہے؛ جو ایک ایسا سائنسی نظریہ ہوگا جس میں کائنات کی چاروں قوتیں (یکساں فریم ورک کے تحت) یکجا کی جائیں گی۔

جدید طبیعیات (ماڈرن فزکس) کے فریم ورک ’اسٹینڈرڈ ماڈل‘ میں تین کائناتی قوتیں تو یکجا کرلی گئی ہیں لیکن چوتھی قوت یعنی قوتِ ثقل (گریویٹی) اب تک باقی تینوں قوتوں کے ساتھ، یکساں نظریئے میں یکجا نہیں کی جاسکی ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بلیک بورڈ پر ڈوڈلز کے ذریعے اسٹیفن ہاکنگ نے یہی مسئلہ حل کرنے سے متعلق اپنے کچھ اہم خیالات پیش کیے تھے۔

شاید کچھ باتیں خلائی مخلوق کے بارے میں بھی تھیں لیکن اب تک کوئی نہیں جانتا کہ آخر اس بلیک بورڈ پر ڈوڈلز کا اصل مفہوم کیا ہے؟

یہی وہ پراسراریت ہے جو عوام کو اس بلیک بورڈ کی طرف متوجہ کررہی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اسے دیکھنے کےلیے سائنس میوزیم کا رُخ کررہے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2284836/509/


یہ روبوٹ مچھلی انسانی قلب کے خلیات سے بنائی ہے گئی جو ننھے دل کی طرح دھڑکتے رہتے ہیں اور ایک باقاعدہ حرکت پیدا کرتے ہیں جس سے مچھلی آگے بڑھتی رہتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں بایوانجنیئرنگ سے وابستہ پروفیسر کِٹ پارکر اور ان کے ساتھیوں نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔ ان کے پیشِ نظر یہ ہے کہ وہ بہت چھوٹے لیکن بیمار بچوں کے دل کو بہتر کرسکیں اور اس کا آغاز اس مچھلی نما روبوٹ سے کیا گیا ہے۔

زیبرا فِش کی طرز پر اس روبوٹ مچھلی کی ڈیزائننگ کی گئی ہے جس کی تفصیلات جرنل سائنس میں شائع ہوئی ہیں۔ اسے کاغذ، پلاسٹک اور جیلاٹن سے بنا کر اس کے دائیں اور بائیں دو پٹیاں ایسی لگائی گئی ہیں جن پر انسانی دل کے زندہ خلیات چپکے ہوئے ہیں۔

اس طرح مچھلی کے دائیں اور بائیں موجود خلیات ایک باقاعدہ نظم سے سکڑتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ ان کے سکڑنے اور پھیلنے سے مچھلی کی دم دائیں اور بائیں ہلتی ہیں اور یوں وہ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اس طرح کسی موٹر کی طرح حرکت کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔

پروفیسر پارکر اور ایموری یونیورسٹی کے سنگ جن پارک نے مشترکہ طور پر یہ مچھلی تیار کی ہے۔ اس سے قبل انہوں پٹھوں اور عضلات کے بعض خلیات کو مصنوعی طور پر سرگرم کیا اور ان میں حرکت پیدا کی۔ اس کے بعد انہوں نے انہیں انکیوبیٹر میں چھوڑ دیا اور اسے بھول گئے۔

چندر روز بعد انکیوبیٹر دوبارہ کھولا گیا تو ساری مچھلیاں اندر ازخود تیررہی تھیں۔ ان میں سے کسی کی رفتار کم اور کسی کی زیادہ تھی۔ پھر ماہرین نے مائع میں ضروری غذائی اجزا شامل کئے تو وہ مسلسل تین ماہ یعنی 100 روز تک تیرتی رہیں جو ایک حیرت انگیز امر ہے۔

یہاں تک کہ جب مچھلیاں رک گئیں تو سائنسدانوں کو صدمہ ہوا کیونکہ وہ اس سے جذباتی طور پر وابستہ ہوچکے تھے۔ لیکن اس تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی دل کے خلیات ایک طویل عرصے تک دھڑکن جاری رکھ سکتے ہیں اور جب انسان رحمِ مادر میں چند روز کا ہوتا ہے تو ابتدائی قلبی خلیات اپنی دھڑکن شروع کردیتے ہیں جو ساری عمر جاری رہتی ہے۔

ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہر 20 روز دل کے خلیات نے اپنی مرمت خود کی اور 100 روزہ سفر میں پانچ مرتبہ خود اپنی تعمیر کی کیونکہ مائع میں تمام ضروری اجزا شامل تھے۔ سائنسداں پر امید ہے کہ تجربہ گاہ میں تیار کردہ انسانی قلب کے خلیات کو ہارٹ اٹیک کے مریضوں میں لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح دل کے معالجے کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔
https://www.express.pk/story/2283945/508/


امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایسی نئی ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے صرف چند منٹوں میں ہوا سے 99 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کی جاسکتی ہے۔

یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم پچھلے کئی سال سے نئی قسم کے ایندھنی ذخیرہ خانے (فیول سیلز) تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی جنہیں ’ہائیڈروجن ایکسچینج میمبرین‘ (HEM) فیول سیلز کا نام دیا گیا تھا۔

اس تحقیق میں انہیں بدترین کامیابی کا سامنا ہوا کیونکہ تجرباتی فیول سیلز، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے معاملے میں بہت حساس تھے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر پاتے تھے۔

جب انہوں نے ایچ ای ایم ٹیکنالوجی کی اس خرابی کا بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ فیول سیل اپنے اندر داخل ہونے والی ہوا میں موجود تقریباً تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بہت تیزی سے جذب کررہا تھا۔

ایچ ای ایم فیول سیلز کا منصوبہ تو ناکام ہوگیا لیکن سائنسدانوں نے اسی خامی کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے نظام پر کام شروع کردیا جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ الگ کرنے کے موجودہ طریقوں سے بہتر ہو۔

اب انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو پختہ کرتے ہوئے ایک پروٹوٹائپ سسٹم بھی تیار کرلیا ہے جس کی جسامت کولڈ ڈرنک کے ایک چھوٹے کین (سافٹ ڈرنک ٹِن) جتنی ہے لیکن وہ صرف ایک منٹ میں 10 لٹر ہوا سے 99 فیصد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ الگ کرکے ہوا کو ’صاف‘ کرتا ہے۔

اس نئے نظام اور پروٹوٹائپ سسٹم کی تفصیلات ’’نیچر انرجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ غیرمعمولی طور پر مؤثر ہونے کے علاوہ بہت کم خرچ بھی ہے۔

انہیں امید ہے کہ اس پروٹوٹائپ کی بنیاد پر ایسی بڑی مشینیں بنائی جاسکیں گی جو کم خرچ پر، کم توانائی استعمال کرتے ہوئے، بہت تیزی سے ہوا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرسکیں گی۔

دیگر ماہرین نے اس ایجاد کو سراہتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے نظاموں اور آلات سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔

اس طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی اتنا سادہ مسئلہ نہیں کہ جسے صرف ایک ایجاد سے مکمل طور پر حل کیا جاسکے۔
https://www.express.pk/story/2284156/508/

No comments:

Post a Comment