وہ افراد جو درست معنوں میں ہیرو ہیں ،تاریخ سے کچھ جھلکیاں - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Sunday, 6 March 2022

وہ افراد جو درست معنوں میں ہیرو ہیں ،تاریخ سے کچھ جھلکیاں


عرفان محسود کا گینز بک میں 45 واں ریکارڈ درج
هفته 05 مارچ 2022ء

پشاور (92 نیوزرپورٹ) پاکستانی ایتھلیٹ عرفان محسود نے گینز بک میں ایک اور ریکارڈ درج کرا لیا۔پاکستانی ایتھلیٹ عرفان محسود نے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے ایک منٹ میں 80 پاؤنڈ وزن کے ساتھ 80 جمپنگ جیکس لگا کر نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔اس سے پہلے یہ ریکارڈ مصر کے محمود محمد ایوب کا تھا جس نے ایک منٹ میں 80 پاؤنڈ وزن کے ساتھ 72 جمپنگ جیکس لگائے تھے ۔عرفان محسود اب تک دنیا کے مشکل گنیز ورلڈ ریکارڈ ز اپنے نام کر چکے ہیں، پاکستانی ایتھلیٹ نے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں 45 واں ریکارڈ درج کرایا ۔ عرفان محسود بھارت، امریکا، برطانیہ، فلپائن، عراق، مصر، فرانس کے مختلف ریکارڈز توڑ چکے ہیں۔
https://www.roznama92news.com/%D8%B9%D8%B1%D9%81%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%AD%D8%B3%D9%88%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%DA%AF%DB%8C%D9%86%D8%B2-%D8%A8%D8%AC



ابن انشا ءاور شگفتگی کی ڈگر
Mar 03, 2022 | 23:52:PM


”چلتے ہو تو چین چلئے “،”دنیا گول ہے“،”ابن بطوطہ کے تعاقب میں “اور"آوارہ گرد کی ڈائری“میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیا ءکے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔ ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔ ان کے اسی انداز نے سفر نامے کو پامال روایت سے الگ کر کے شگفتگی کی ڈگر پر ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر” چلتے ہو تو چین کو چلیے“سے زیرِ نظر اقتباس ملاحظہ کیجئے جو سبک طنز میں لپٹا ہوا ہے۔

”پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یابناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیر معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے، جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاﺅ تاﺅ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ “

ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ انہوں نے سفر نامے کو بیانیہ اسلوب میں بھی پیش کیا ، کہیں قاری کو خطاب کرنے کی سعی کی اور کہیں درویش کا روپ دھار کر داستانی اسلوب اختیار کیا۔انہوںنے سفر نامے میں طنز لطیف اس طرح شامل کیا ہے کہ بات میں عمق اور اثر آفرینی پیدا ہو جاتی ہے۔وہ دوسرے ممالک کے معاشروں میں خیر اور نیکی کی قدروں کی جستجو زیادہ کرتے۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضرب الامثال کی ہیئت تبدیل کرنے اور مزاجی کیفیت پیدا کرنے کا رجحان بھی نمایاں ہے۔ اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے سفر ناموں میں جابہ جافائدہ اٹھایا ہے۔ سفر نامے میں ابن انشا نے طنزومزاح کے جو حربے کامیابی سے استعمال کئے ہیں ان کی چند مثالیںذیل میں ملاحظہ کریں:

”ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے۔ کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ کے چسکے لگاتے رہیے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست دیتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پرپیتا پانی۔“

”میزبانوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ رسمی کار روائی تھی۔ سنتے گئے اور ہوں ہاں کرتے گئے۔ اگلی صبح تک سب ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے۔ مہمانوں کا تعارف کرانا ہمارے ذمہ رہا۔ کیونکہ وفد کے لیڈر اراکین کے ناموں اور کاموں سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ایک آدھ جگہ البتہ شمع ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے ہمیں پاکستان کا ممتاز اور مشہور ناول نویس قرار دیا اور چونکہ تردید کرنا خلاف ادب تھا۔ لہٰذا ایک مہمان کے اشتیاق آمیز استفسار کے جواب میں ہمیں اپنے ناولوں آگ کا دریا، خدا کی بستی، آنگن وغیرہ کی تعداد بتانی پڑی۔ وہ ان تصانیف کے نام بھی نوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے از راہ انکسار کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔“

ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ”اردو ادب میں سفرنامہ“ سے اقتباس
https://dailypakistan.com.pk/03-Mar-2022/1410207?fbclid=IwAR0OOeFdpKekcFxSfCYSGsowKJnXqQty-OOYocr8ie3bWlsTeFMGplgVb8g



متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی مظہر عباس نے ایمانداری کی اعلیٰ مثال قائم کردی
Mar 02, 2022 | 12:09:PM



دبئی (طاہر منیر طاہر) متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک پاکستانی مظہر عباس کو ایمانداری کی اعلی مثال قائم کرنے پران کے اعزاز میں ایک پررونق تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا اہتمام فیصل حیات نمبردار نے کیا جس میں محمد ثقلین مہرو کو پی ٹی آئی ابو ظہبی کا صدر منتخب ہونےپر مبارکباد دی گئی - تقریب میں مہرو پیلو سے تعلق رکھنے والے معززین کی کثیر تعداد موجود تھی -

محمد ثقلین مہرو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا قانون کی پابندی کرنے کے ساتھ ہمیں معاشرے میں بہتر اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنا ہے۔ جیسا کہ یو اے ای حکومت نے امارات کو دنیا کا محفوظ ترین ملک بنایا ہے, ہمیں مظہر عباس کی ایمانداری کو مثال بناتے ہوئے خود بھی اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور اپنی نوجوان نسل کو بھی اس کی ترغیب دینی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مظہر عباس نہ صرف چکوال بلکہ پاکستان کے لیے باعث فخر ہے جس نے ایمانداری کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے دنیا میں پاکستان کا نام روش کیا۔

مظہر عباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو رقم اسے سڑک کے کنارے پڑی ملی وہ اس کے باقی ماندہ زندگی کے لیے کافی تھی مگر میں نے والدین کی تربیت اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس رقم کو اس کے اصل مالک تک پہنچانے میں کا فیصلہ کیا۔ مظہر عباس نے مزید کہا کہ جو عزت اور مرتبہ مجھے اس عمل کے بعد مل رہا ہے وہ میرے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ مرتبہ پیسوں کی بدولت خریدا نہیں جا سکتا۔ چکوال اوورسیز کی جانب سے چوہدری نثار نے گفتگو کرتے ہوئے چکوال کی دھرتی جہاں بہادروں کی سرزمین ہے وہاں مظہر عباس جیسے ایماندار نوجوان بھی موجود ہیں جو پوری دنیا میں چکوال کا نام روشن کر رہے ہیں۔

چکوال اوورسیز کی نمائندگی ملک تصدق حسین چوہدری نثار اور ملک اشتیاق حسین نے کی، جبکہ محمد جمیل اور کاشف رضا نے تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے تنویر السلام نے کیا جبکہ نقابت کے فرائض محمد عمار نے ادا کیے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ محمد ثقلین مہرو کا صدر منتخب ہونا ضلع چکوال کے لیے ایک اعزاز ہے۔ تقریب کے اختتام پر پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شرکاء محفل نے فیصل حیات نمبردار کا شکریہ ادا کیا۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Mar-2022/1409747?fbclid=IwAR1eeCClanGqAZM-n0yFdIQNopbMCeYokMe_O6rVKDDTDKPW2KCxvANJVNs



قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
Mar 03, 2022 | 00:09:AM



فراق گورکھپوری کی شاعری کا مزاج سمجھنے کیلئے انکا ایک شعر ہی کافی ہے کہ

شب سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات

قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے

معروف مصنف، ادیب، نقاد اور شاعرفراق گورکھپوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، 28 اگست 1896ء کو پیدا ہونیوالی اس ہستی کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔جدید شاعری میں فراق کو بہت بلند درجے پر فائز سمجھا جاتا ہے، آج کی شاعری پر بھی فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حاضر جوابی میں ان کاکوئی کوئی نہیں تھا۔ بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، یگانہ یاس چنگیزی، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی اور ساحر لدھیانوی جیسے شعراء کی موجودگی میں نام کمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن فراق نے یہ کمال بھی کر دکھایا۔ اتنی عظیم ہستیوں کی موجودگی میں انہوں نے شاعری کی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔

فراق کے حالات زندگی کا جائزہ لیں تو وہ پی سی یس اور آئی سی یس (انڈین سول سروس) کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں مستعفی ہو گئے اور جیل بھی گئے۔حسرت موہانی، رفیع احمد قدوائی اور دوسرے سیاسی رہنماؤں سے قربت ہوئی جیل میں مشاعرے ہوتے کئی غزلیں فراق نے جیل میں کہیں۔ ایک غزل کا مقطع بہت مشہور ہوا:

اہل زنداں کی یہ محفل ہے ثبوت اس کا فراق

کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا

اس کے بعد جامعہ الٰہ آباد میں انگریزی زبان کے لیکچرر مقرر ہوئے، آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔یہیں سے دنیائے شعر و ادب کے آسمان پر سورج بن کر چمکے اور معاصرین کومنوایا کہ انکی شاعری میں دیگر شعراء کے مقابلے میں وہ ”فرق“ہے جو انہیں منفرد مقام دلاتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب”گل نغمہ“ کو ہندوستان کا اعلیٰ معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔1960ء میں انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، 1968ء میں پدم بھوشن، 1968ء میں نہرو ایوارڈ، 1969ء میں اردو شاعری میں پہلا گیان پیٹھ انعام اور 1981ء میں غالب اکیڈمی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

جب 1935 ء میں سجاد ظہیر لندن سے واپس آئے اور ایک خاص سیاسی و اشتراکی نقطہ نظر کے ساتھ الہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالنی چاہی تو جن لوگوں نے سجاد ظہیر کا سب سے زیادہ کھل کر ساتھ دیا ان میں اعجاز حسین اور احمد علی کے ساتھ فراق پیش پیش تھے۔ فراق نے پہلی کانفرنس میں مقالہ بھی پڑھا۔ 1947 ء میں دہلی کانفرنس کی صدارت بھی کی اور عمدہ تقریر کی۔اسی کے آس پاس فرقہ پرستی کے خلاف ان کی ایک طویل تقریر مقالے کی شکل میں ”ہمارا سب سے بڑا دشمن“شائع ہوئی 1954 ء میں بستی کی کانفرنس میں ان کی تقریر، 1956 ء میں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں یادگار تقریر کے علاوہ 1970 ء اور 1973ء کے جلسوں کی تقریروں میں وہ شاعر فلسفی کم صوفی زیادہ نظرآ نے لگے۔ ”من آنم“ کے خطوط میں انہوں نے حیات و کائنات کا فلسفہ نچوڑ کر رکھ دیا۔ فراق 1959 ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ طویل علالت کے باعث یہ بے مثل شاعر 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔
https://dailypakistan.com.pk/03-Mar-2022/1409825?fbclid=IwAR1q7MB0TDLNZkInlejE3saRbn2JNuLs_NWpO0KdOPVzy208bIBCBUy3c2s




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1109072387&Issue=NP_PEW&Date=20220303



ناصر کاظمی ۔۔۔۔جن کے عہد کا سب سے بڑا تجربہ ’بٹوارہ‘ تھا
Mar 02, 2022 | 00:16:AM


ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925ءکو امبالہ شہر میں پیدا ہوئے ۔ والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا ۔ میٹرک مسلم ہائی سکول انبالہ سے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے ۔ہجرت کر کے پاکستان آ ئے اور لاہور شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی انہیں یکے بعد دیگرے والدین کے چل بسنے کا غم جھیلنا پڑا۔

1942 کا واقعہ ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں آل انڈیا ریڈیو کے اہتمام ایک مشاعرہ ہوا۔ صدارت عابد علی عابد کی تھی اور اس میں ہندوستان کے کئی نامی شاعر موجود تھے۔لیکن مشاعرے کے دوران ایک 17 سالہ نوجوان نے دھیمی آواز اور اس سے بھی دھیمے سروں کی غزل سنائی جس نے سب کو چونک جانے پر مجبور کر دیا۔

یہ غزل تھی:

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

یہ ناصر کاظمی تھے جنہوں نے بیسویں صدی میں نغمے کو اعتبار بخشا ، ناصر کے عہد میں اور ابھی تک کا سب سے بڑا تجربہ ’بٹوارہ‘ تھا۔ ناصر نے خود بھی ہجرت کی اور اس کے نتیجے میں جیسی شکست و ریخت دیکھی اس کا اظہار اس ڈھب سے کیا کہ اجتماعی تجربہ بن کے رہ گئی۔ اردو شاعری میں ہجرت کو تہذیبی تجربہ اگر کسی نے بنایا تو وہ ناصر کاظمی کے سوا کون ہے۔ ’دیوان‘ اور ’برگ نے‘ کی ایک ایک غزل کے چند شعر دیکھیے۔ کیا یہ رویہ ذاتی محبت کی ناکامی سے پھوٹتا محسوس ہوتا ہے؟

پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں

قتل گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوار خیال

کس قدر خون بہا ہے اب کے

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے

یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں

چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

40 کی دہائی میں جب ناصر کاظمی نے غزل شروع کی انہی وقتوں میں میرا جی، فیض، اور راشد کے اولین مجموعے سامنے آئے ۔ 50 کے عشرے میں ناصر کے بعد ایک طرف ظفر اقبال، شہزاد احمد اور سلیم احمد کی نئی غزل کا شہرہ ہوا۔ دوسری طرف احمد مشتاق دھیمے لہجے کی کیفیت سے بھرپور غزل لکھتے نظر آئے۔

ناصر کاظمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکا لب و لہجہ نرم اور کیفیت ٹھہراو¿ کی سی ہے۔ وہ آج بھی گلی کوچے کے شاعر ہےں۔ ناصرکاظمی کے ناقدین بھی یہ مانتے ہیں کہ ان کو جس سانچے میں بند کرنے کی کوشش کی جائے ناکامی ہو گی کیونکہ ان کے ہاں سماجی رویے اس قدر تحلیل شکل میں ملتے ہیں کہ ان کے اجزا الگ الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔

2 مارچ، 1972ءکو ناصر کاظمی کا انتقال ہو گیا، ناصر کوگزرے کئی برس بیت چکے لیکن اپنے کلام کی بدولت وہ آج بھی شاعری کی دنیا پہ راج کرتے ہیں۔ انہوں نے غزل کی زمین ہی ہموار نہیں کی بلکہ ایسی عمارت بھی کھڑی کر کے دکھائی جس کی بلندی کو ان کے بعد کوئی دوسرا شاعرآسانی سے چھو نہیں سکتا ۔
https://dailypakistan.com.pk/02-Mar-2022/1409445?fbclid=IwAR0awDtz2wUrD2SdGvZe4VrapfJrxWuEZCpWHyT9h7M82RuHeYRtEEoHAaQ



خاتون گزشتہ 13 برسوں سے روزانہ سینکڑوں افراد کے لئے صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کااہتمام کرتی ہیں۔

لاہور کے علاقے کیولری گراؤنڈ کی رہائشی صوفیہ وڑائچ نامی خاتون کا کہنا ہے کہ یہ کام ان کے والد نے شروع کیا تھا اور پھران کی وفات کے بعد وہ بلاناغہ اپنے گھر میں 3 سے 400 افراد کے لئے صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا اہتمام کرتی ہیں، ان کے والد نے 1995 میں باقاعدگی سے جوکام شروع کیا تھا آج ستائیس برس ہوگئے اپنے والد کے بعدانکے مشن کووہ آگے لیکربڑھ رہی ہیں۔

صوفیہ وڑائچ نے بتایا کہ ان کے والد کی کافی جائیداد تھی اور وہ اکلوتی وارث ہیں، اس لئے مختلف جائیدادوں سے جو آمدن آتی ہے اس سے وہ روزانہ کھانے کا اہتمام کرتی ہیں، اور اب انہوں نے اسپیشل بچوں کے لئے ایجوکیشن کا سلسلہ شروع کیا ہے جب کہ بہت جلد یتیم بچوں کی مستقل کفالت کی ذمہ داری بھی لینے والی ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو سے بات چل رہی ہے کہ ان بچوں کو اسی طرح کی ہی تعلیم وتربیت دی جائے گی جیسے وہ اپنے بچوں کی کرتی ہیں تاکہ یہ لاوارث بچے معاشرے کے بہترین شہری بن سکیں۔ اس مقصد کے لئے المرا کے نام سے فاؤنڈیشن بھی بنائی ہے، یہ نام قرآنی حروف الف، لام ،میم اور ر سے لیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے جیل روڈ پر دوپہر کا کھانا کھانے آنے والے شہریوں ندیم قادری، عبدالطیف خان اورمحمد رمضان نے بتایا کہ وہ یہاں قریب ہی مختلف اداروں میں سیکیورٹی گارڈ اور مالی کے طور پرکام کرتے ہیں۔ تینوں لاہور سے باہر مختلف شہروں کے رہنے والے ہیں اور یہاں لاہور میں کرائے پر رہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جو تنخواہ ملتی ہے اس سے گھر کا نظام ہی مشکل سے چلتا ہے، اور مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے، ان کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ انہیں یہاں سے صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا مل جاتا ہے۔ ناشتے میں کبھی انڈا، چائے اور پراٹھا ہوتا ہے تو کبھی نان اور سوجی کاحلوہ، اسی طرح دوپہر کے کھانے میں کبھی بریانی ملتی ہے توکبھی روٹیوں کے ساتھ چکن قورمہ، قیمہ، بیف وغیرہ ہوتا ہے۔ ہمیں جتنی ضرورت ہوتی ہے کھانا مل جاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2292234/1/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/03/01032022/P6-Lhr-011.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/03/01032022/P3-Lhr-008.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/03/01032022/p2-lhr017.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/03/01032022/p1-lhr017.jpg



امریکا میں کار چھیننے کی واردات کے دوران مزاحمت کرنے پر پاکستانی نژاد عبدالرؤف کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں میری لینڈ کے علاقے آکس ہل میں راہزنوں نے پاکستانی نژاد شخص سے کار چھیننے کی کوشش کی، اس دوران مزاحمت کرنے پر راہزنوں نے عبدالرؤف کو 3 گولیاں مار کر قتل کردیا۔

راہزنی کے دوران مزاحمت پر قتل ہونے والے پاکستانی نژاد عبدالرؤف نے 2 سال قبل مقامی غنڈوں کے چنگل سے ایک خاتون پولیس افسر کو اُس وقت بچایا تھا جب غنڈے خاتون افسر کو لوہے کی سلاخوں سے مار رہے تھے۔

اس بہادری پر الیگزینڈریہ پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستانی نژاد عبدلارؤف کو تمغہ بہادری بھی دیا گیا تھا۔ عبدالرؤف 18 سال سے واشنگٹن ڈی سی میں ’’چٹنی‘‘ کے نام ریسٹورینٹ چلاتے تھے جو پاکستانیوں اور بھارتیوں کا پسندیدہ ریستوران ہے۔

علاوہ ازیں عبد الرؤف سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھی مصروف عمل رہتے تھے جس کے باعث وہ پاکستان، بنگلادیش، بھارت سمیت اردو سمجھنے والے دیگر شہریوں میں کافی مقبول تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی 66 سالہ پاکستانی نژاد امریکی محمد انور کو واشنگٹن میں کار چھیننے کی واردات کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔
https://www.express.pk/story/2291243/10/



عطا اللہ خان عیسوی خیلوی کی بیٹی نے پاکستان کا نام فخر سے بلند کر دیا
Feb 24, 2022 | 12:33:PM



لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کے مشہور لوک گلوکار عطاءاللہءخان عیسی خیلوی کی بیٹی اور پاکستانی ویژل آ رٹسٹ لاریب عطا اور ان کی ٹیم کو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق لاریب عطاء کے ویژول ایفیکٹس پر مبنی جیمز بانڈ کی حالیہ فلم ’نو ٹائم ٹو ڈے ‘نے 94ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بہترین اوریجنل گانے، بہترین گائیکی اور بہترین ویژوئل ایفیکٹس سمیت تین کیٹاگری کے لیے نامزدہوئی ہے۔فلم کی ویژوئل ٹیم میں پاکستان کی نوجوان آرٹسٹ لاریب عطا اللہ بھی شامل ہیں جو فلم کی ڈیجیٹل کمپوزیٹر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم نے بھی بافٹا 2022 میں بہترین سپیشل ایفیکٹس کی کیٹا گری بھی شامل ہیں۔

اس ایوارڈ کی نامزدگی کے معاملے میں بات کرتے ہوئے لاریب نے کہا کہ ”ان تمام پیغامات اور تعاون کے لیے آپ کی شکر گزار ہوں جو مجھے آسکر اور بافٹا میں ’نو ٹائم ٹوڈے‘کی نامزدگی کے لیے شامل کیا گیا“۔ لاریب نے مزید کہاکہ ”میں اپنی ٹیم اور اپنے خاندان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں“۔

عطاءاللہ عیسوی نے بیٹی کے آ سکر میں نامزدگی کے لیے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ”لاریب بیٹا تم نے میرا نام فخر سے بلند کر دیا سلامت رہو“۔

یاد رہے کہ آسکر اور بافٹا ایوارڈ کی تقریبات مارچ 2022ءمیں منعقد ہوگی۔
https://dailypakistan.com.pk/24-Feb-2022/1407427?fbclid=IwAR2B5PNmafCDq0vKQco388YfBWoImzXVVwXXnp340gzQrc0c0t35Mms_FeM



مدھو بالا کو دنیا چھوڑے 53 سال بیت گئے
Feb 23, 2022 | 12:52:PM



ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن ) انڈین فلم انڈسٹری پر راج کرنے والی مدھو بالا کو ہم سے بچھڑے آج 53 سال بیت گئے، مایا نگری میں منفرد پہچان رکھنے والی مدھو بالانے 60سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔مدھو بالا دہلی میں 14فروری 1933کو پیدا ہوئیں انکا پورا نام ممتاز جہان بیگم دہلوی تھا۔

مدھو بالانے صرف 7سال کی عمر سے ”آل انڈیا ریڈیو “سے اپنے سنگنگ کیریئر کا آغاز کیا اور8سال کی عمر میں ایکٹنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔ان کی بہترین فلموں میں ”محل، کالا پانی، بادل اور "برسات کی رات "جیسی کئی فلمیں شامل ہیں۔ مدھو بالاکی مشہور فلم ”مغل اعظم“ نے 15سال تک باکس آفس پر راج کیا۔ اس فلم میں انکا رول ”انار کلی “ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشہور بالی ووڈفلم "مغل اعظم" مدھو بالا کی شاندار اداکاری کی وجہ سے ہٹ ہوئی تو بے جانہ ہو گا۔

مدھو بالا سانس کی بیماری کی وجہ سے 23فروری 1969میں صرف 36سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔
https://dailypakistan.com.pk/23-Feb-2022/1406998?fbclid=IwAR0ci2Fri3I8Tkho96euxZkhmoaJyCD2BPEncWTL-01gsT9b0--VLRwf-7k



گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی بیٹی پاکستانی ویژول آرٹسٹ لاریب عطا اور ان کی ٹیم نے آسکر اور بافٹا ایوارڈ 2022 کے لیے نامزدگی حاصل کی ہے۔

جیمز بانڈ سیریز کی حالیہ فلم ’’نوٹائم ٹوڈائے‘‘ نے 94 ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے ’’بہترین اوریجنل سونگ‘‘، ’’بہترین سونگ‘‘ اور ’’بہترین ویژول ایفیکٹس‘‘ سمیت تین نامزدگیاں حاصل کی ہیں۔ فلم کی ویژول ٹیم میں پاکستان کی نوجوان آرٹسٹ لاریب عطا بھی شامل ہیں جو فلم کی ڈیجیٹل کمپوزیٹر ہیں۔

اس کے علاوہ اس ٹیم نے بافٹا 2022 میں ’’بہترین اسپیشل ویژول ایفیکٹس‘‘ کی نامزدگی بھی حاصل کی ہے۔
لاریب عطا نے ان کی ٹیم کی آسکر اور بافٹا ایوارڈ میں نامزدگیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا میں ان تمام پیغامات اور تعاون کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جو مجھے آسکر اور بافٹا میں’’نوٹائم ٹوڈائے‘‘ کی نامزدگی کے لیے مل رہے ہیں۔

لاریب عطا نے مزید کہا ایک اچھی ٹیم کے ساتھ کام کرنا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی والدہ اور بھائی کا بھی شکریہ ادا کیا۔ یاد رہے آسکر اور بافٹا ایوارڈ کی تقریبات مارچ 2022 میں منعقد ہوں گی۔

عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے بیٹی کی آسکر میں نامزدگی پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہا تھا ’’لاریب بیٹا ایک بار پھر تم نے میرا نام فخر سے بلند کیا سلامت رہو‘‘۔

لاریب عطا کا تعلق پنجاب کے علاقے عیسیٰ خیل سے ہے اور وہ پاکستان کے لیجنڈری گلوکار عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی بیٹی ہیں۔ وہ دنیا کی نوجوان فی میل وی ایف ایکس (ویژول ایفیکٹس) آرٹسٹ میں سے ایک ہیں جو کہ ہالی ووڈ کے چند بڑے پراجیکٹس میں کام کرچکی ہیں جن میں ’’گوڈزیلا‘‘، ’’ایکس مین‘‘ اور ’’مشن امپاسبل ؛ فال آؤٹ‘‘ شامل ہیں۔
https://www.express.pk/story/2288890/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/22022022/P1-LHR013.jpg



امریکا میں پاکستانی نژاد امریکی خاتون سائرہ ملک کو اثاثہ جات کے انتظامی کی عالمی فرم ’’نوین‘‘ کی چیف انویسٹمنٹ آفیسر مقرر کیا گیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اثاثہ جات جیسے ایکویٹیز، فکسڈ انکم، ریئل اسٹیٹ، پرائیویٹ مارکیٹس، قدرتی وسائل، دیگر متبادلات اور ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کی عالمی منتظم فرم ’’نوین‘‘ میں سی آئی او یعنی chief investment officer کے لیے ایک پاکستانی خاتون کا انتخاب کیا گیا ہے۔

پاکستانی نژاد سائرہ ملک نے 2003 میں ’’نوین‘‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے وہ مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ سائرہ ملک عالمی سرمایہ کاری کمیٹی (GIC) کی بھی قیادت کررہی ہیں جو مالیاتی فرم ’’نوین‘‘ کے سب سے سینئر سرمایہ کاروں کو یکجا کرتی ہیں تاکہ ادارہ جاتی اور دولت کے چینلز پر صارفین کے لیے بہترین سوچ اور قابل عمل کاروباری آئیڈیاز فراہم کرسکیں۔

فنانس میں ایم ایس کرنے والی سائرہ ملک ’’ایکویٹیز انویسٹمنٹ کونسل‘‘ کی چیئرپرسن کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہیں جہاں ان کا کردار نائب صدر/اسمال کیپ گروتھ پورٹ فولیو مینیجر اور ایکویٹی ریسرچ اینالسٹ کا تھا۔

علاوہ ازیں پاکستانی نژاد سائرہ ملک مالیاتی نیوز نیٹ ورکس جیسے سی این بی سی، بلومبرگ اور فاکس بزنس پر نظر آتی ہیں۔ سائرہ ملک کا نام امریکی مالیات کی 100 بااثر خواتین میں شامل رہا ہے۔
https://www.express.pk/story/2287265/10/



صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت نوجوانوں کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے پانی میں مضر جرثوموں کی شناخت کرنے والا پورٹیبل مائیکرواسکوپ تیار کر لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تھری ڈی پرنٹر سے تیار کیے جانے والے پورٹیبل مائیکرواسکوپ کو اسمارٹ فون سے منسلک کرکے خصوصی ایپلیکیشن کے ذریعے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے مضر جرثوموں کی منٹوں میں شناخت اور آلودہ پانی پینے سے پھیلنے والے امراض کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔

مہران یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے طالب علم حمزہ بھٹو نے اپنی ٹیم کے ہمراہ غیرمحفوظ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں اور اموات پر قابو پانے کے لیے ایک انقلابی طریقہ ایجاد کیا ہے۔



یہ نظام ایک سستے پورٹیبل مائیکرو اسکوپ اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی موبائل ایپلیکیشن پر مشتمل ہے جو رئیل ٹائم بنیادوں پر ڈیٹا کے تجزیہ کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مائیکرواسکوپ اور ایپلیکیشن کی تیاری پر 80 ہزار روپے کی لاگت آئی جس کا انتظام حمزہ بھٹو اور ان کی ٹیم نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔

جدید لیبارٹریز میں استعمال ہونے والے سائنس دانوں کے تیار کردہ مائیکرواسکوپس کے مقابلے میں مذکورہ نظام سے 90 فیصد تک درست نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جبکہ حمزہ بھٹو کی ٹیم کے تیار کردہ پورٹیبل مائیکرو اسکوپ سے لیے جانے والے نمونوں کے 80 فیصد تک درست نتائج ملے ہیں۔

حمزہ بھٹو کی تیار کردہ ایپلیکیشن کو اگر جدید مائیکرواسکوپس سے منسلک کیا جائے تو 90فیصد یا اس سے زائد شرح تک درست نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2286386/508/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/17022022/p1-lhr014.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/16022022/bp-lhe-021.jpg



پاکستانی نوجوان سائنسداں کی سربراہی میں ایک ٹیم کے تیارکردہ شمسی (سولر) سیل نے توانائی کی افادیت کے دو نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اس طرح دھوپ سے بجلی کی وافر مقدار بنانے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب ماحول دوست طریقے سے عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) بھی کم کرنا ممکن ہوگا۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے یاسر صدیق اس وقت جنوبی کوریا کی جامعہ سائنس و ٹیکنالوجی میں کوریا انسٹی ٹیوٹ آف انرجی ریسرچ (کے آئی ای آر) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بطور مرکزی سائنسداں، ایک بالکل نئے سولر سیل کی ڈیزائننگ اور تیاری کا مرکزی کام کیا ہے جسے کاپر انڈیئم سلفو سیلینائیڈ (سی آئی ایس ایس ای) کا نام دیا گیا ہے۔

اس سولر سیل کو خاص محلول شامل کرکے مستحکم بنایا گیا ہے اور سیل کا پورا نام کچھ طویل ہے جسے ’سلوشن پروسیسڈ کاپرانڈیئم سلفو سیلینائڈ (سی آئی ایس ایس ای) لوبینڈ گیپ کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس نے اسی حالت میں بھی باکفایت بجلی کا ایک ریکارڈ بنایا ہے لیکن جب اس کے اوپر پروسکائٹ کی پتلی تہہ سینڈوچ کی طرح لگائی گئی تو اس نے بھی ایک نیا ریکارڈ بنایا۔

یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی سیمی کنڈکٹر سے الیکٹران آزاد کرانے کے لیے جو توانائی درکار ہوتی ہے اسے بینڈ گیپ کہا جاتا ہے، یعنی کسی سیمی کنڈکٹر کا بینڈ گیپ جتنا کم ہوگا اس سے الیکٹران کا بہاؤ اتنا ہی زیادہ ہوگا اور اتنی ہی بجلی بنے گی۔

ہم سے 15 کروڑ کلومیٹر دور سورج زمین پر حرارت اور توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زندگی کی رونق بھی اسی ستارے سے وابستہ ہے۔ پودے دھوپ سے خوراک اور آکسیجن بناتے ہیں اور زمین پر موسم بھی اسی سے بنتے ہیں۔ نظری طور پر مکمل دھوپ ایک مربع میٹر پر 1360 واٹ کے بقدر توانائی بناسکتی ہیں۔ لیکن شمسی سیل سے اس کی بڑی مقدارٹکرا کر لوٹ جاتی ہے، گزرجاتی ہے یا پھر بجلی میں ڈھل جاتی ہے۔ یوں ہم سورج کی حرارت اور توانائی کی کچھ فیصد مقدار ہی بجلی میں بدل پاتے ہیں۔ اسے عام طور پر سولر سیل کی کفایت یا ایفیشنسی کہا جاتا ہے۔

دنیا میں درجنوں اقسام کے سولر سیل بنائے اور استعمال کئے جارہے ہیں ۔ پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے سولر سیل میں بھی انہیں تقسیم اور بیان کیا جاتا ہے۔ ہر قسم کے شمسی سیل کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ روایتی سلیکون شمسی سیل کی افادیت 15 سے 20 فی صد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرتکز شدہ شمسی پینل کی افادیت 41 فیصد تک جاپہنچتی ہے تاہم اس پر آئینوں سے سورج کی کرنوں کو ایک مقام پر پھینکنا ہوتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر یاسر کا تیار کردہ شمسی سیل سینڈوج یا ٹینڈم قسم سے وابستہ ہے اور اس میدان میں سب سے مؤثر ایجاد بھی ہے۔ انقلابی سیل کی تیاری میں تین سال کی محنت شامل ہے۔ ان میں صرف سی آئی ایس ایس سیل کی افادیت 14.4 فیصد ہے جبکہ اسے پروسکائٹ معدن کے ساتھ جوڑا گیا تو اس پروسکائٹ، سی آئی ایس ایس ای سیل نے 23.03 ایفی شنسی کو چھوا جو محلول عمل سے تیار perovskite/CISSe سولر سیل کا نیا ریکارڈ بھی ہے۔

کے آئی ای آر سے شائع سب سے اہم مقالہ

دونوں ایجادات ’کے آئی ای آرمیں واقع فوٹووولٹائک ٹیسٹ لیبارٹری‘ سے باقاعدہ ایفی شنسی سرٹفکیٹ حاصل کرچکی ہیں۔ یہ تجربہ گاہ ISO/IEC17025 سرٹیفائڈ ٹیسٹ سینٹر بھی ہے جسے کوریا لیبارٹری ایکریڈیٹیشن اسکیم (کولاس) کی جانب سے مجازادارے کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کولاس نے انٹرنیشنل لیبارٹری ایکریڈیشن کوآپریشن میوچل ریکگنیشن ارینجمنٹ کے معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں۔ ایجاد کی پیٹنٹ جلد ہی فائل کی جائے گی۔ اختراعاتی سولر سیل کی پوری روداد رائل سوسائٹی برائے کیمیا کے جرنل ’انرجی اینڈ اینوائرمنیٹل سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے جس کا 38.532 امپیکٹ فیکٹر اسے دنیا کا ممتاز سائنسی جریدہ بناتا ہے۔

’ یہ گزشتہ چند برسوں میں کے آئی ای آر سے شائع شدہ سب سے اہم اوربلند اثر والی تحقیق بھی ہے،‘ یاسر نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔

نسخہ برائے شمسی سیل

اسی قسم کے سولر سیل کا پرانا ریکارڈ چینی، امریکی اور آسٹریلوی ماہرین نے بنایا تھا جس کی افادیت 13.5 فیصد تھی ۔ لیکن اس سیل کو بنانے کے لیے ایک خاص بند ماحول درکار ہوتا ہے جسے ’گلووباکس‘ کہتے ہیں اور اس کے اندر نائٹروجن گیس بھری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کارخانے میں اس کی بڑی مقدار بنانا محال ہے کیونکہ نائتروجن کی وسیع مقدار اور اس کے انتظامات پورے عمل کو بہت مہنگا بناتے ہیں۔

یاسر صدیق نے ایک جادوئی جزو کا اضافہ کیا جسے سی آئی ایس ایس ای سولر سیل کو استحکام بخشا اور وہ ایک سالماتی (مالیکیولر) روشنائی تھی۔



’ ہم نے کھلی فضا اور کمرے کے درجہ حرارت پر سیل بنایا جس سے نائٹروجن کی ضرورت ختم ہوگئی۔ سی آئی ایس ایس ای کی پتلی تہہ بنانے کے لیے اس میں این این ڈائی میتھائل فورمامائیڈ (ڈی ایم ایف) مالیکیولر انک بنائی گئی جو پیچیدہ کیمیائی برقی اجزا کو استحکام بخشتی ہے،‘ انہوں نے کہا۔

اگلے مرحلے پر ماہرین نے ایئر انیلنگ کا عمل کیا۔ الیکٹرانکس میں بنیادی مادوں کی ساختی، طبعی اوربصری صلاحیت بڑھانے اور فاضل مادوں کو نکالنے کے لیے انہیں پہلے خاص درجہ حرارت پر گرم اور پھر ٹھنڈا کیا جاتا ہے جسے ایئر انیلنگ کہا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف روشنی جذب کرنےوالی پرت کو کاربن ذرات سے پاک بلکہ اس سے کرسٹلائزیشن بننےکے عمل کو بھی حسبِ خواہش کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر بنیادی اجزا میں کرسٹل بننے کی شرح ہموار اور بہتر ہو تو اس کے بہت فوائد سامنے آتے ہیں۔

ماہرین نے شمسی سیل کے چار یکساں ماڈل کو 210، 230، 280 اور 330 درجے سینٹی گریڈ پر گرم ہوا سے گزارا۔ ان میں سے 230 سینٹی گریڈ پر شمسی سیل نے بہترین صلاحیت دکھائی۔ اس طرح سی آئی ایس ایس ای شمسی سیل نے 14.4 کفایت کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

ہھر نئے سیل کو پروسکائٹ کے ساتھ ملاکر استعمال کیا گیا تو اسے پروسکائٹ، سی آئی ایس ایس ای کا نام دیا گیا ۔ سینڈوچ طرز نے اس سیل کی ایفیشنسی 23.03 تھی جو ایک اور عالمی ریکارڈ قرار پائی۔ یوں ڈاکٹر یاسر کی ایجاد نے شمسی سیل کے اس زمرے میں دو ریکارڈ بنائے ہیں۔

جہاں تک پروسکائٹ کا سوال ہے تو یہ معدن 1800 کے وسط میں روسی ماہرین نے دریافت کی تھی۔ اس سے پتلے سولر سیل کاڑھے جاسکتےہیں۔ دوم اسے کسی اور قسم کے سیل کی پرت کے اوپر لگا کر اضافی کفایت حاصل کی جاسکتی ہے جس کا مظاہرہ اس نئی ایجاد میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

شمسی سیل کی پائیداری اس کا سب سے اہم پہلو ہوتی ہے۔ روایتی سیلیکون سے بنے سولر سیل تمام موسموں میں بھی 20 سے 30 سال تک کارآمد رہتے ہیں اور کسی بھی اچھے سیل میں یہ خواص ہونا ضروری ہیں۔ کے آئی ای آر کا نیا سولر سیل بھی پائیدار قرار پایا ہے۔

’میری تجربہ گاہ میں گزشتہ ایک برس سے یہ نیا سولر سیل موجود ہے اور اب تک اس کی افادیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے،‘ یاسر صدیق نے کہا۔
https://www.express.pk/story/2285153/508/



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/15022022/p1-lhr018.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/14022022/P3-Lhr-003.jpg



سول ایوی ایشن نے ایمانداری کی مثال قائم کردی ، 42 لاکھ مالیت کا سونا مالک کے حوالے کردیا
Feb 12, 2022 | 14:26:PM



اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سول ایوی ایشن نے ایمانداری کی مثال قائم کرتے ہوئے 42 لاکھ روپے مالیت کا سونا ملک کے حوالے کر دیا ۔

ترجمان سول ایوی ایشن اتھارتی کے مطابق 28 جنوری کو مانچسٹر سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں مسافر نائب خان کا ایک بیگ لا پتہ ہو گیا تھا ، جس کی شکایت مسافر نے کی تھی ، سول ایوی ایشن نے سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے اس پرواز کے ایک اور مسافر کی نشاندہی کی جو لا پتہ بیگ لے کر جا رہا تھا ، مسافر کا ڈیٹا نکالا گیا اور رابطہ کر کے اسے ائیرپورٹ واپس بلوایا ۔

ترجمان سی اے اے کے مطابق حالات سے ثابت ہوا کہ مسافر نے غلطی سے نائب خان کا بیگ اٹھا لیا تھا ، سی اے اے اور متاثرہ مسافر نے متفقہ طور پر مسافر کے فعل کو اتفاقیہ قرار دیا۔ سول ایوی ایشن نے بیگ مالک کے حوالے کر دیا جس میں 42 لاکھ مالیت کا سونا موجود تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/12-Feb-2022/1402393?fbclid=IwAR03T2suf7WtBUhmq2dR4rkBfy8M6g5eoFVibIxip-BCfSKfsz_TK_2nCws



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2022/02/12022022/p2-isb-017.jpg



ریڈیو اور ٹیلی وژن پر یادگار کردار ادا کرنے والے قاضی واجد کی پانچویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا، وہ 1943ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے 10 برس کی عمر میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام’ نونہال‘ میں صدا کاری کے جوہر دکھائے۔


وہ 25 برس تک ریڈیو سے منسلک رہے اور اپنی شاندار صداکاری سے سب کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ سن 60 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو قاضی واجد اس سے منسلک ہو گئے۔ ان کا ٹی وی کے لیے پہلا ڈرامہ ’’ایک ہی راستہ‘‘ تھا، جس میں انہوں نے منفی کردار نبھایا۔ بعد ازاں سن 1969ء میں ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ شروع ہوا تو اس میں قاضی واجد کو راجہ کا کردار ملا جس سے انہیں شہرت حاصل ہوئی۔



قاضی واجد نے ٹیلی ویژن پر ان گنت کردار ادا کیے تاہم انہیں ’’ دھوپ کنارے، اَن کہی، تنہائیاں، حوا کی بیٹی، خدا کی بستی، چاند گرہن، پل دو پل، تعلیم بالغاں اور انارکلی‘‘ میں یادگار کرداروں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


واضح رہے کہ قاضی واجد 11 فروری 2018ء کو 87 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ فن کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات پر حکومت نے انھیں 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔
https://www.express.pk/story/2283621/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/10022022/P3-Lhr-009.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/09022022/p1-lhr004.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/08022022/bp-lhe-022.jpg



لتا منگیشکر کی آخری رسومات ادا، مودی سمیت فنکاروں، کھلاڑیوں اور عوام کی شرکت
Feb 06, 2022 | 19:49:PM


سورس: Twitter

ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن) بر صغیر کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کی ممبئی کے شیوا جی پارک میں سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کردی گئیں۔

اتوار کی صبح انتقال کرجانے والی لتا منگیشکر کے جسدِ خاکی کو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ بھارتی پرچم میں لپیٹ کر ممبئی کے شیوا جی پارک لایا گیا۔ یہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، سچن ٹنڈولکر، جاوید اختر، شاہ رخ خان، رنبیر کپور سمیت بالی ووڈ فنکاروں، سیاستدانوں اور ہزاروں کی تعداد میں عوام نے لتا کا آخری دیدار کیا۔ اس کے بعد ان کی چتا کو آگ دی گئی۔

خیال رہے کہ لتا منگیشکر کا انتقال اتوار کی صبح ممبئی میں ہوا ہے، وہ گزشتہ کئی روز سے کورونا کے باعث ہسپتال میں زیر علاج تھیں جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے 70 سالہ فنی کریئر کے دوران 36 زبانوں میں 30 ہزار کے قریب گیت گائے۔ ان کے گانوں کو صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سنا جاتا تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Feb-2022/1399789?fbclid=IwAR3WytuFjRqgXIOkSUtMSQ8AMfIyVCMxxByB2OthJR3phOAiYdKNKhaRvIQ



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/07022022/P3-Lhr-003.jpg



پاکستان کی پہچان ، معروف تن ساز یحییٰ بٹ لاہور میں انتقال کر گئے
Feb 06, 2022 | 23:10:PM


سورس: File Photo

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن)تین مرتبہ مسٹر ایشیا سمیت بے شمار اعزاز جیتنے والے پاکستان کے معروف تن ساز یحییٰ بٹ لاہور میں انتقال کر گئے۔وزیراعلیٰ پنجاب ،ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ،صوبائی وزیر کھیل سمیت اہم شخصیات نے یحییٰ بٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے ۔

نجی ٹی وی کے مطابق یحییٰ بٹ کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان کی انتقال کی تصدیق پنجاب باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے صدر نعیم اختر نے کی۔یحییٰ بٹ پنجاب باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین بھی تھے اور وہ تین مرتبہ مسٹر ایشیا، مسٹر اولمپیا اور مسٹر پاکستان بھی رہے۔وہ 2020ء میں کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور اس سے صحتیاب ہونے کے بعد ان کو بڑی آنت کے کینسر کی تشخیص ہوئی، یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔یحییٰ بٹ کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں شاگرد ہیں جو ان دنوں اپنے استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے مسٹر ایشیاء کا ٹائٹل جیتنے والے معروف باڈی بلڈر یحییٰ بٹ کے انتقال پر اظہار افسوس کرتےہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں سوگوارخاندان سے دلی ہمدردی و تعزیت کااظہار کیا ہے،وزیراعلیٰ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے۔یحییٰ بٹ کے انتقال پر صوبائی وزیر کھیل پنجاب رائے تیمور بھٹی نے دکھ کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ یحییٰ بٹ کی تن سازی میں خدمات کو کبھی نہیں بلایا جا سکتا۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے بھی یحییٰ بٹ کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں باڈی بلڈنگ کی پہچان،تین بار ایشین چیمپئن،پانچ بار مسٹر پاکستان اولمپیا کا اعزاز حاصل کرنے والے یحییٰ بٹ کی کینسر کے باعث وفات کا سن کر دلی دکھ اور رنج ہوا۔ مرحوم کی پاکستان میں باڈی بلڈنگ کے کھیل کے حوالے سے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Feb-2022/1399804?fbclid=IwAR0dZ95ufO2EPqRxx8Z7xWgaTuUlm5F0E_16wpc6A7_R9xyo6COhK1K_560



معروف ناول نگاراورمصنفہ بشریٰ رحمان لاہورمیں انتقال کرگئیں۔

معروف ناول نگار،مصنفہ،شاعرہ، ڈرامہ نویس اورسابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ رحمان لاہورمیں انتقال کرگئیں۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ رحمان کورونا میں مبتلا تھیں۔ کل ان کی طبیعت خراب ہوئی اوروہ آج انتقال کرگئیں۔بشریٰ رحمان کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصرگارڈن ٹاؤن مسجد میں ادا کی جائیگی۔

29اگست1944کوپیداہونےوالی بشریٰ رحمان کے لکھے کئی ناول مقبول ہوئے۔ بشریٰ رحمن نے 1983 میں اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔وہ 3بار صوبائی اسمبلی اورایک بارقومی اسمبلی کی رکن رہیں۔

بشریٰ رحمان کوادبی خدمات پرستارہ امتیازسے نوازا گیا۔

پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار نے بشریٰ رحمان کے انتقال پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ مرحومہ بشریٰ رحمان کی ادبی خدمات تا دیریاد رکھی جائیں گی۔

وزیراعلی پنجاب نے مزید کہا ک بشریٰ رحمان اپنی نوعیت کی منفرد اوراعلی ادیبہ تھیں۔ انہوں نے اپنے ادبی عہد میں کئی نسلوں کومتاثرکیا۔
وزیراعلی عثمان بزدار نے سوگوارخاندان سے اظہارتعزیت اورہمدردی کیا۔
https://www.express.pk/story/2281885/1/




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1109004421&Issue=NP_PEW&Date=20220204



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/04022022/p6-lhr040.jpg



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/02/04022022/p6-lhr010.jpg



پختہ سڑک پرتیزی سے دوڑتی دونوں گاڑیاں اپنی منزل قلعہ دیراوڑ کی طرف رواں دواں تھیں۔

بہاولپورسے احمدپور شرقیہ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کہیں چولستان کے آثارنظرآرہے تھے۔ گاڑی میں مجھ سمیت لاہورسے ساتھ آئے ہوئے چند سینئرصحافی،وی لاگرزاورٹوورآپریٹرزکے علاوہ ٹی ڈی سی پی کے لوگ بھی تھے۔

گاڑی میں بے ہنگم میوزک کے شور کے باوجود میرے ذہن پر قلعہ دیراوڑ چھایا ہوا تھا، کیونکہ میں نے ابھی تک اس قلعے کو چند تصویروں اور ویڈیوز کے توسط سے دیکھا تھا اور خود اس کے روبرو جانا عہد ماضی میں جھانکنے جیسا لگ رہا تھا ۔

میں نے جنوبی پنجاب کے کلچر،ثقافت ،وہاں کے تاریخی اورمذہبی مقامات کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے لیکن ماسوائے ملتان کے، سرائیکی خطے کے دیگرشہروں کو دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔ بھلاہو محکمہ سیاحت پنجاب کا جس نے لاہور سے جنوبی پنجاب کے لئے سیاحتی ٹوورزکا آغازکیا ہے۔ مجھے بھی ٹی ڈی سی پی کی طرف سے جنوبی پنجاب کے دورے کی دعوت دی گئی جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا۔

قعلہ دیراوڑ جنوبی پنجاب کی سیاحتی پہچان کا درجہ رکھتا ہے لیکن ہمارے اس دورے میں اس قدیم تہذیب و ثقافت کے حامل حسین خطے کے دیگر بہت سے رنگ دیکھنے کا بھی موقع ملا، لہذا ہم اپنی بات کا آغاز ابتدا سے کرتے ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور کے ڈبل ڈیکر بس سروس ٹرمینل سے ہمارے اس سفرکا آغازصبح دس بجے ہوا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان اورمشیرسیاحت حسان خاور اور سیکرٹری سیاحت اسداللہ فیض نے ہمیں روانہ کیا۔ ایک قافلہ لاہور سے کرتار پور صاحب کے لئے جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کے لئے روانہ ہوا، کرتار پور والے گروپ نے شام کو واپس لوٹ آنا تھا جبکہ ہمارا ٹوور تین دن کا تھا۔

ہماری پہلی منزل تھی اولیااللہ کی سرزمین ملتان،ہوٹل میں چیک ان سے پہلے ہمیں مزارات پرحاضری کے پروگرام سے آگاہ کیاگیا۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یہ شہرسینکڑوں سال سے بزرگان دین، اکابرین،فقراء اور علماء کا مسکن رہا ہے، انہیں اولیاء کرام نے ملتان کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا اور ملتان کی گلی گلی اسلام کے نور سے منور ہو گئی۔

سب سے پہلے ہم حضرت شاہ شمس سبزواری ؒ کے مزارپرپہنچے۔انہیں شاہ شمس تبریزؒ بھی کہاجاتا ہے تاہم ملتان میں ہمارے میزبان اورٹی ڈی سی پی کے زونل مینجر مصباح نے بتایا کہ ان بزرگوں کااصل نام حضرت شاہ شمس سبزواریؒ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ ولادت ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر صادقؓ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے دنیا کے کئی ممالک کاسفرکیا جہاں آپ نے اسلام کی شمع روشن کی۔ برصغیر میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے۔ آپ نے کوہستان تبت، سکردو میں اسلام کی تبلیغ کی۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر تبریز تشریف لے گئے جہاں کئی برس قیام کیا اوراسی بنا پر شمس تبریزی مشہور ہوئے۔ مولانا رومی نے حضرت شاہ شمسؒ کی یاد میں ایسے پر درد اشعار کہے، جنہیں سن کر پتھر دل بھی موم ہو جائے، ’’مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم۔۔ تا غلام شمس تبریزیؒ نہ شْد‘‘ شمس سبزواریؒ کے حوالے سے ایک روایت خاصی مشہور ہے۔

کہاجاتا ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے ساتھ بغداد میں انتہائی ظلم وستم کیاگیا وہاں سے آپ ہجرت کرکے ملتان پہنچے اوریہاں دریا کنارے قیام کیا۔ ملتان کے لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ انتہائی براسلوک کیا، آپ کے ساتھ بغداد کے حکمران کا شہزادہ بھی تھا جس کا نام محمد بتایا جاتا ہے۔ وہ حضرت شاہ شمس سبزواری سے بہت محبت اورعقیدت رکھتا تھا اس لئے جب وہ بغداد سے رخصت ہوئے توشہزادہ بھی تخت وتاج کوخیربادکہہ کران کے ساتھ ملتان آگیا۔

ملتان کے لوگوں نے شاہ شمس سبزواریؒ اورشہزادہ محمد کو روٹی کاایک نوالہ تک نہ دیا۔ بالاخرحضرت شاہ شمس سبزواریؒ نے دریا سے ایک مچھلی کا شکارکیا اور پھر شہزادے کو بھیجا کہ شہروالوں سے تھوڑی سے آگ لے آؤ تاکہ اس مچھلی کو پکا کرکھایا جاسکے لیکن شہروالوں نے آگ دینے کی بجائے شہزادے محمد پربھی تشددکیاجس سے وہ بری طرح زخمی ہوگئے۔ جب شہزاہ محمد واپس پہنچا تواس کی حالت دیکھ کرحضرت شاہ شمس سبزاوری کوجلال آگیا۔

آپ نہایت غصے کی حالت میں نکلے، گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا، پھر جب شمس سبزواریؒ نے آسمان پر نظر کی اور سورج کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا تو بھی شمس! میں بھی شمس !میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔ اتنا کہنا تھا کہ یکا یک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بڑھی کہ اہلِ ملتان چیخ اْٹھے۔ درود یوار جل رہے تھے اور پورا شہر آ گ کی بھٹی بن کر رہ گیا۔ اس کیفیت میں ملتان کے سرکردہ اوردانا لوگوں نے حضرت شمس سبزواریؒ کی خدمت میں حاضری دی اورعرض کر نے لگے کہ چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہرکو نہ دیجئے۔کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ملتان کی گرمی مشہورہے۔

ملتان میں جہاں آپؒ کی درگاہ ہے، سینکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی۔ آپ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کامیابی کے مقام تک پہنچاتے رہے۔ غیر مسلم قبیلوں کے سرداروں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اوراسی مقام پروصال فرمایا۔

یہاں حاضری کے بعد ہم نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزارکارخ کیا۔ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ سلسلہ سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل ہیں، شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے خلیفہ تھے۔آپ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں اوراسلام کے عظیم مبلغ تھے۔

آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینۃ المنورۃ ، مکۃ المکرمۃ ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے زمانہ کے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاریؒ اور حضرت سید عثمان لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔

روحانی کمالات اوردرجہ ولائیت پر فائز ہونے کے بعد آپ 614ھ میں واپس ملتان پہنچے اور پھر یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا۔آپ نے عظیم الشان مدرسہ، خانقاہ ،لنگر خانہ،مجلس خانہ، خوبصورت مسافرخانے اور مساجد تعمیر کرائیں۔

اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ، ادب، فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔ عراق، شام تک کے طلباء اس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباء کی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔

لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا۔ طلباء کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماء و فضلا پیدا کئے اور ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔آج بھی ملتان کی بہاؤالدین زکریایونیورسٹی آپ کے نام سے ہی منسوب ہے۔

کوئی شخص حضرت بہاؤالدین زکریاملتانیؒ کے مزار پرحاضری دے اورپھر حضرت شاہ رکن عالمؒ کے در پر حاضر نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاہ رکن عالمؒ ،حضرت حضرت بہاولدین زکریا ملتانیؒ کے پوتے اورحضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے فرزند ہیں۔آپ کے مزار کا سفید گنبد اہل ملتان کے سروں پر دستار فضیلت کی طرح سایہ فگن ہے۔ آپ کا مزار عالیشان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ہے یہ قلعہ سترہ سالہ مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم کے نام سے منسوب ہے جسے سلطان غیاث الدین تغلق نے تعمیر کروایا،یہ مقبرہ 1320 عیسوی سے 1335 عیسوی کے دوران تقریبا 15 برسوں میں تعمیرہوا تھا۔

حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مزاراپنے حجم کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کاسب سے بڑا مزار سمجھا جاتا ہے۔ مزار کی عمارت ہشت پہلو ہے اور اس کا قطر 49 فٹ اور 3.5 انچ ہے۔ دیواریں عمودی ہیں جبکہ فرش سے مقبرہ کی اونچائی تو 100 فٹ ہے۔لیکن ایک ٹیلہ پر ہونے کی وجہ سے مقبرہ کی مجموعی اونچائی سطح زمین سے 160 فٹ بلند ہے۔ یہ عمارت تین منزلہ ہے۔ پہلی منزل کی اونچائی 41فٹ اور 3 انچ ہے جبکہ دیواروں کی موٹائی13 فٹ 10 انچ سے لیکر 14 فٹ 8 انچ ہے۔ دیواروں کے سہارے کے لئے ہر پہلو کے کونے کی پشت پر ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ دیواروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں

پہلی منزل نیچے سے اوپر تک آرائشی پٹیوں سے مزین ہے جس کو1970 میں ہونے والی مرمت کے دوران دوبارہ درست شکل میں بحال کیا گیا، دوسری منزل کی

اونچائی 25 فٹ اور 10 انچ ہیں اس منزل کے ہر پہلوپر ایک کٹاؤ دار محراب والی کھڑکی ہے جو کہ خشتی اور کاشی کے کام سے مزین ہے۔ دونوں طرف چار چار خوشنما کاشی کے ڈیزائن والے پھول ہیں جنہیں نوخانی اور شمشا کہتے ہیں۔

تیسری منزل ایک خوبصورت اور دلکش گنبد پر مشتمل ہے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔اس شاندار گنبد پرسفید چونے کا پلستر ہوا ہے جبکہ نیچے کاشی اور خشتی

کا ایسا عمدہ اور لاجواب کام ہوا ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مزار کے احاطہ میں داخل ہوں تو احاطہ کا دلکش منظر نظر آتا ہے۔

مقبرہ کے اندر ایک ایک اونچے چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ کی قبر مبارک ہے۔ اس مرکز کے چاروں اطراف ایک خوبصورت سنگ مرمر کا کٹہرہ ہے جبکہ قدموں میں میں چار قطاروں میں 58 قبریں ہیں جوکہ مریدین اور خلفاء کی ہیں۔

مزار کے اندر لکڑی کے ستونوں کا عمدہ اور نفیس جال بچھایا گیا ہے جو کہ اس عمارت کی مضبوطی کا باعث ہے

یہی اس عمارت کوسینکڑوں سالوں سے زلزلوں اور بمباریوں سے بچائے ہوئے ہے لکڑی کاعمدہ ڈھانچہ32 ستونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جو کہ نیچے سے لے کر چھت تک اور دیواروں کے اندر آرپار ہوکر اس مقبرہ کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مزار کے احاطہ میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جسے خوبصورت سرخ باریک اینٹوں سے تعمیر کی گیا ہے۔

روایت کے مطابق حضرت شاہ رکن عالمؒ کی تدفین پہلے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کے مزار میں ہی کی گئی تھی تاہم جب تغلق خاندان نے یہ عظیم الشان مقبرہ تعمیرکروایا توپھر ان کی میت یہاں منتقل کردی گئی۔ مزارات پرحاضری کے بعد ٹی ڈی سی پی کے زونل مینجرمصباح صاحب نے بتایا کہ اب ہم یہاں کے معروف حسین آگاہی بازارکادورہ کریں گے جہاں ہینڈی کرافٹ کی کئی دکانیں ہیں جبکہ ملتان کی سوغات سوھن حلوہ کی سب سے پرانی دکان بھی یہیں پر ہے۔

گروپ میں شامل تمام لوگ کافی تھک چکے تھے پھر بھی بازارکی سیاحت شروع ہوئی، یہ ہمارے لاہورکے انارکلی یا اچھرہ بازارجیسا ہی ہے ،یہاں بھی روایتی چیزوں سے بڑھ کرچائنہ کا مال نظرآتا ہے جبکہ لنڈے کے سامان کی بھی کئی دکانیں ہیں، ہمارے میزبان ہمیں بازارکی سیرکراتے اس دکان پر لے گئے جہاں سب سے معیاری حلوہ تیارہوتا ہے۔ ہمیں یہاں پستہ،کاجو اور بادام والاسوھن حلوہ کھلایا گیا کچھ ساتھیوں نے بطورسوغات حلوہ خریدا۔ یہاں سے ہم ہوٹل روانہ ہوگئے۔

اگلی صبح 9 بجے ہم لوگ ناشتے کی ٹیبل پرجمع ہوئے اور تقریبا دس بجے ہوٹل سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمارے گائیڈ اشفاق خان اورمصباح اسحاق ملتان کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی عمارتوں ، علاقوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’گرد،گرمی ،گدا اورگورستان‘ ملتان کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ کئی علاقوں کے نام بھی سورج یعنی شمس سے منسوب ہیں۔

تھوڑی دیر میں ہم انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ ملتان پہنچ گئے۔ خوبصورت نقش ونگار اور پھول بوٹیوں سے مزین برتن ملتان شہر کی خاص پہچان ہیں۔ ان دیدہ زیب برتنوں کو بلیو پوٹری بھی کہا جاتا ہے۔

ملتانی مٹی سے بلیوپوٹری کا ہنر تو دم توڑ چکا ہے تاہم اب پلاسٹرآف پیرس اورجپسم پاؤڈر سے ناصرف برتن بلکہ مختلف اقسام کی زیبائشی ٹائلیں بھی تیارہوتی ہیں،کاریگروں کا دعوی ہے کہ مٹی کے روایتی برتنوں کے مقابلے میں جدید طریقے سے بنائے جانے والے برتن سوسال بعد بھی خراب نہیں ہوتے۔ پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان ،گجرات اور(شاہدرہ ) لاہورلیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔

بلیو پوٹری کا رنگ ہمیں ملتان کے مزارات اورعمارتوں پربھی نظرآتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ ملتان کے نمائندے نے بتایا کہ صدیوں سے کاشی گری کا فن اس خطہ کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مٹی کے ظروف، روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب کاشی گر ہاتھ سے خوبصورت پھول، پتیاں اور دلکش نقوش اجاگر کرتا ہے تو بلیو پوٹری وجود میں آتی ہے۔

کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے،ابتدامیں کاریگر برتنوں پرنقش و نگار بنانے کے لئے نیلے رنگ کا استعمال زیادہ کرتے تھے اس لیے بلیو پوٹری کی اصطلاح مشہور ہو گئی تھی، تاہم کئی اور رنگ بھی استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔انسٹی ٹیوٹ میں نوجوان کاریگروں کو مختلف کام سکھائے جاتے ہیں جن میں برتن بنانا،کاشی گری، گلیئرنگ سمیت دیگرکام شامل ہیں۔

ایک کاریگر سید محسن عباس نقوی کے ساتھ گفت وشنید ہوئی توانہوں نے بتایا کہ وہ 30 برس سے یہاں کام کررہے ہیں۔ پہلے ملتانی مٹی سے برتن تیارہوتے تھے، برتن تیار کرنیوالوں کو کمہار کہاجاتا ہے۔ ملتان میں آج بھی چوک کمہاراں مشہور ہے۔ وہ لوگ مٹی سے برتن تیارکرتے اور پھر چھوٹی چھوٹی بھٹیوں میں انہیں پکاتے تھے۔ لیکن اب چند ایک کاریگر ہی زندہ ہیں۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہنرکوفروغ اورپزیرائی نہیں مل سکی۔ اب سرامکس کاکام ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہی سب سے بڑی فیکٹری ہے جہاں تیار ہونیوالے برتن ناصرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں

فیکٹری میں کاریگر جپسم پاؤڈرکے محلول کو مختلف سانچوں میں ڈال کربرتنوں کی شکل دیتے ہیں، چوبیس گھنٹوں میں یہ برتن خشک ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے، ماہرکاریگروں کی انگلیاں بڑی مہارت سے برتن کی سطح کوصاف کرتی ہیں، اسی طرح برتن کے اندرونی حصے کی صفائی کی جاتی ہے۔ بعض برتن دوسانچوں میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ برتنوں کی صفائی کے بعد کاشی گر ان پرنقش ونگار بناتے ہیں

نوجوان کاشی گر خاتون عنیزہ نے بتایا کہ وہ گزشتہ 8 سال سے یہاں کاشی گری کر رہی ہیں۔ انہوں نے 6 ماہ کا کورس کیا تھا۔اس وقت انہیں مختلف ڈیزائن اورانکے نام بتائے گئے تھے۔ مختلف برتنوں پر برش اور رنگوں سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔

عنیزہ کے مطابق یہ مخصوص قسم کے رنگ ہیں جو پاؤڈرکی شکل میں ملتے ہیں، انہیں پھرضرورت کے مطابق مکس کرکے لیکوئیڈ شکل دی جاتی ہے۔ ایک بڑے برتن پر نقش و نگار بنانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے ،ایک دن میں وہ پانچ، چھ برتنوں پر نقش و نگار بنا لیتی ہیں۔ عنیزہ کی طرح یہاں کئی اورکاشی گر بھی ہیں جن میں زیادہ ترخواتین اورنوجوان ہیں۔

سید ثمرعباس جعفری ان برتنوں پر کوبالٹ آکسائیڈ کی لئیر چڑھاتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ جب کاشی گری کے بعد برتن ان کے پاس آتے ہیں تو ان پرگلیئرنگ کی جاتی ہے ، برتنوں کو کوبالٹ آکسائیڈ کے محلول میں ڈبوکر برتنوں پرایک لیئر چڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان برتنوں کو بھٹی میں رکھاجاتا ہے۔ جدید قسم کی بھٹی میں بیک وقت 800 سے 900 برتن رکھے جا سکتے ہیں۔ آگ کے لئے گیس اورایل پی جی سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔

1250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کوبالٹ آکسائیڈ برتنوں میں ضم ہوجاتی اورلئیر پختہ ہوجاتی ہے۔ چوبیس گھنٹے تک ان برتنوں کوٹھنڈاہونے کے لئے رکھا جاتا ہے جس کے بعد یہ شاہکار تیارہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس برتن کواگرایک سوسال تک پانی میں بھگوکر رکھ دیں یا مٹی میں دبا دیں پھجر بھی یہ برتن خراب نہیں ہوگا۔

محکمہ سیاحت پنجاب کے زونل انچارچ مصباح اسحاق نے بتایا کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں شاخوں

اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز کہا جاتا ہے۔ محمدبن قاسم نے جب سندھ اورملتان کوفتح کیا تواسلامی لشکرکے ساتھ کئی کاشی گر بھی یہاں آئے اورانہوں نے اولیااللہ کی اس دھرتی کوہی اپنا مسکن بنا لیا۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔

تاریخ پرتحقیق کرنیوالے نوجوان مورخ محسن فراز کہتے ہیں ملتان میں روایتی ظروف سازی اورکاشی گری کا تقریباً ایک ہزار سال پرانا ہنراب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف گنتی کے چند لوگ باقی بچے ہیں، جو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاشی گری کے فن کو وہ پذیرائی نہیں ملی، جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ یہ ایک مورثی فن ہے، کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے۔

نیلے نقش و نگار والے برتنوں کی زیادہ ترتیاری آج بھی ہاتھوں سے کی جاتی ہے تاہم جپسم پاؤڈراورپلاسٹرآف پیرس کومحلول کی شکل میں تیارکرنا، اسے سانچوں میں ڈھالنا اورجدید بھٹی کے استعمال کی وجہ سے برتنوں کی تیاری کاعمل آسان اور تیز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ان برتنوں کی تیاری جس قدر مشکل کام ہے اس قدر ہی یہ برتن مہنگے بھی ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ میں ان برتنوں کا ڈسپلے سنٹربھی ہے جہاں سے اپنی پسند کے برتن ’جن میں گلدان، صراحی، کپ، عمارتوں، چھتوں، دیواروں اور فرش پر استعمال ہونیوالی زیبائشی ٹائلیں ،ڈیکوریشن پیس اورچائے دانیاں شامل ہیں‘ خرید سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے چائے کے کپ کی قیمت بھی 500 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ منتظمین نے بتایا کہ بلیو پوٹری یا توگھرکے ڈرائنگ رومزکی سجاوٹ کے لئے خریدی جاتی ہے یا پھربڑے ہوٹل،اور امیر خاندان استعمال کرتے ہیں۔

بہاولپورکے نوابوں کا شاہی قبرستان
بہاولپورکی تحصیل احمد پور شرقیہ میں عباسی نواب خاندان کا برسوں پرانا شاہی قبرستان ہے جہاں عباسی نواب خاندان کے سربراہان کی قبریں ایک بڑے ہال میں بنائی گئی ہیں جبکہ نوابوں کی بیگمات کے لئے مقبرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ غیرملکی بیگمات کے مقبرے سفید سنگ مرمرجبکہ مقامی اورعباسی نواب خاندان سے تعلق رکھنے والی ازواج کے مقبروں پر اس خطے کی ثقافت اورکلچر کے مطابق خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔

سابق ریاست بہاولپور کے اکثرنواب اس شاہی قبرستان سے چند فرلانگ کے فاصلے پرموجود قلعہ دیراوڑ میں پیدا ہوئے اور پھراس قبرستان میں دفن کر دیئے گئے۔ اس قبرستان میں کم و بیش 100 کے قریب چھوٹی بڑی قبریں ہیں۔ عباسی خاندان نے ریاست بہاولپور پر سن 1690 سے سن 1955 تک قریباً اڑھائی صدی تک حکومت کی ہے۔ شاہی قبرستان میں بنائے گئے مزارات کئی کلومیٹر کے فاصلے سے ہی اپنی موجودگی اور تعمیرات کی عظمت کا بھرپور احساس دلانا شروع کر دیتے ہیں،یہ مقبرے عباسی نواب خاندان کے عروج و زوال کی داستانیں سناتے ہیں۔

آثارقدیمہ کے ماہرافضل خان کہتے ہیں ’’نوابوں کا یہ شاہی قبرستان صدیوں پرانے قبرستان کاحصہ ہے جہاں اکثرقبریں چولستان کے دامن میں گم ہوچکی ہیں، تاہم نوابوں کے قبرستان کے گرد چاردیواری کرکے اس الگ کر دیا گیا۔ یہ نواب خاندان کا ذاتی قبرستان ہے اس وجہ سے یہاں کسی عام فردکی تدفین ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو قبرستان کے اندرجانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

شاہی قبرستان کے باہر ہی ایک خاندان آباد ہے جو کہ نواب بہاول محمد خان (دوم) کے دور سے یعنی نو نسلوں سے ان مزارات کی مجاوری کر رہا ہے اور اس وقت اسی خاندان کے سربراہ کے پاس ہی اس قبرستان کے احاطے اور نواب خاندان کے سربراہان کی قبروں کے کمرے کی چابیاں موجود ہیں اور یہ ذمہ داری نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے۔

شاہی قبرستان میں داخل ہونے کے لئے لکڑی کاایک بڑادروازہ نصب ہے۔جوصرف نواب خاندان کے افرادکی آمد یا پھر خاص مہمانوں کے لئے ہی کھولاجاتا ہے۔ ایک

مستطیل بڑے ہال میں سابق سلطنت بہاولپورکے ان نوابوں کی قبریں ہیں جو ریاست بہاولپورکے حکمران رہے ہیں۔آخری قبر نواب صادق محمد خان خامس کی ہے جو ریاست بہاولپور کے آخری نواب تھے۔انہوں نے سن 1955 میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور یوں بہاولپور کی الگ ریاستی شناخت ختم ہوگئی۔ ایک چھوٹی قبر نواب میاں رحیم یار خان کی بھی ہے جن کے نام سے ضلع رحیم یارخان منسوب ہے۔

ہرقبر پر مرنیوالے نواب کا نام اورمختصرتاریخ درج ہے۔ تمام قبریں سفید سنگ مرمرسے بنائی گئی ہیں۔ قبروں کے سرہانے کی جانب چھوٹے، بڑے سائزکے ستون ہیں۔ماہرین کے مطابق ستون کاسائزنواب کے عرصہ حکمرانی کوظاہرکرتا ہے، اس احاطے میں چند قبروں کی لئے ابھی جگہ باقی ہے۔قبروں پرسفیدچادریں ڈالی گئی ہیں اوریہ حصہ بھی بند رہتا ہے

اس قبرستان میں سب سے منفردقبر نواب صادق محمد خان خامس کی غیرملکی اہلیہ وکٹوریہ کی ہے۔ محکمہ سیاحت پنجاب کے سینئرٹوورآفیسر مصباح اسحاق کہتے

ہیں نواب صاحب کی یہ اہلیہ برطانوی تھیں ، انہوں نے شادی سے قبل اسلام قبول کیا اوران کا نام غلام فاطمہ رکھا گیا تاہم آج بھی لوگ انہیں وکٹوریہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بہاولپورمیں ان کے نام سے ہسپتال بھی قائم ہے۔

مصباح اسحاق کہتے ہیں وکٹوریہ نواب صادق محمد خان سے بہت محبت کرتی تھیں اورانہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی وفات کے بعد انہیں نواب صاحب کے قدموں میں دفن کیاجائے۔ لہذا ان کی وفات کے بعد ان کی قبر نواب صادق محمدخان کے قدموں کی جانب بنائی گئی اوراس پرایک چھوٹا سا مقبرہ بنایاگیا۔

وکٹوریہ بیگم کے نام کے حوالے سے بعض مورخین کااختلاف ہے۔ ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق یہ مقبرہ نواب صادق محمد خان کی بیوی لنڈا فلورنس کا ہے جو حیدرآباد دکن کے ایک انگریز اسسٹنٹ انجینئر کی بیٹی تھیں۔ نواب صادق محمد خاں نے 1927 میں انہیں بمبئی میں دیکھا، پسند کیا اور شادی کرلی تھی۔ بیگم لنڈا فلورنس شادی کے بعد چھ برس زندہ رہیں اور اس دوران انہوں نے چار بیٹے اور ایک بیٹی کوجنم دیا ،ان کی وفات کے بعد انہیں اس شاہی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

شاہی قبرستان دیکھنا ہمارے دور کی آخری مصروفیت تھی اور ترتیب کے اعتبار سے بھی بڑی بامعنی تھی۔ انسان کی زندگی ہو یا قوموں کی زندگی، اس میں ثبات نہیں، یہ عروج و زوال سے عبارت ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں ’’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔
https://www.express.pk/story/2277542/1/



نیو زرچر زیتنگ(Neue Zürcher Zeitung) سوئٹزر لینڈ کا ممتاز اخبار ہے۔1جنوری 2022ء کو اخبار نے پاکستان کے ایٹمی منصوبے سے منسلک ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔

یہ رپورٹ امریکا، مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں کی خفیہ (کلاسیفائیڈ)فائلوں کی بنیاد پہ مرتب کی گئی جنھیں حال ہی میں افشا(ڈی کلاسیفائیڈ)کیا گیا ہے۔ان فائلوں نے انکشاف کیاہے کہ 1979ء سے لے کر 1982ء تک اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے کوشاں رہے حتی کہ موساد کے ایجنٹوں نے مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ان کمپنیوں کے دفاتر پہ بم حملے کیے جو ایٹم بم بنانے میں استعمال ہونے والا ضروری سازوسامان پاکستان کو مہیا کر رہی تھیں۔موساد کے ایجنٹوں نے یورپی کمپنیوں کے مالکان اور افسروںکو دہمکیاں بھی دیں۔

کوئی ردعمل نہیں آیا
یہ دہماکہ خیز رپورٹ منظرعام پہ آئے کئی دن گذر چکے مگر جرمنی اور سوئٹرزلینڈ کی حکومتوں نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔اگر یہ انکشاف ہوتا کہ ان یورپی ممالک میں پاکستان یا ایران کی خفیہ ایجنسیوں نے بم دہماکے کیے ہیں تو وہاں شور مچ جاتا۔یورپی میڈیا طول طویل رپورٹیں چھاپ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ پاکستان یا ایران دہشت گرد ملک ہیں جنھیں کسی بین الاقوامی قانون کی پروا نہیں۔مگر اسرائیل اور اسکی خفیہ ایجنسی کی دہشتگردی ثابت ہو جانے کے بعد بھی مغربی میڈیا اور حکومتی ایوانوں میں مکمل خاموشی طاری رہی۔

یہ رویّہ مغربی طاقتوں کی منافقت عیاں کرتا ہے جو ویسے انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی چیمپین بنی رہتی ہیں۔موساد ایک بدمعاش اور بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ہے جس کے ذریعے اسرائیلی حکومت دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات انجام دیتی ہے۔چونکہ اسرائیل کو عالمی سپرپاور، امریکا کی سرپرستی حاصل ہے لہٰذا کوئی اس کے سامنے آنے کی جرات نہیں کرتا۔اب تو پیسے کی خیرہ کن چمک نے عرب حکمرانوں کو بھی اسرائیل کا دوست بنا دیا ہے۔

ایک زبردست کرشمہ
اسرائیلی حکمران ایک اسلامی مملکت، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔1976ء میں جب پاکستانی ایٹمی منصوبے کا آغاز ہوا تو جلد ہی امریکا اور اسرائیل کوششیں کرنے لگے کہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکے۔موساد اور امریکی خفیہ ایجنسی کے گروپ میں بعد ازاں بھارتی اینٹلی جنس ایجنسی، را بھی شامل ہو گئی۔اس تریمورتی نے بہت زور مارا ، بہت سازشیں کیں کہ پاکستانی ایٹم بم نہ بن سکے مگر ناکامی ہی ان کا مقدر بنی۔پاکستان آخرکار عالم اسلام کی پہلی اور اکلوتی ایٹمی طاقت بن گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ایک زبردست کرشمہ ہے جو اللہ پاک کے فضل ،مختلف عوامل اور انفرادی ومجموعی بہترین کارکردگی کے باعث ظہور پذیر ہوا ۔ورنہ مئی 1974ء میں بھارتی ایٹمی دہماکے کے بعد مغربی ممالک نے اس سازوسامان کی فروخت پر کڑی پابندیاں عائد کر دی تھیں جو ایٹم بم بنانے میں استعمال ہو سکتا تھا۔اسی باعث پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانا بہت کٹھن اور دشوار گذار مرحلہ بن گیا۔مگر ازلی دشمن کا بھرپور مقابلہ کرنا بھی نہایت ضروری تھا۔اسی لیے پاکستانیوں نے کمر کس لی۔رب تعالی بھی ان پہ مہربان رہے اور یوں پاکستانیوں نے ناممکن کو ممکن بنا کر پوری دنیا کو حیران و متحّیر کر دیا۔

تین عوامل
ایٹم بم بنانے کی تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے تین عوامل نے اہم کردار ادا کیا:

اول یہ کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں کے حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا تو اس سے اُمتِ مسلمہ کو فائدہ پہنچے گا۔چناں چہ عرب ممالک نے پاکستانی ایٹمی منصوبے کو کافی سرمایہ فراہم کیا۔پاکستان مالی طور پہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ تنہا مہنگے ایٹمی منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچا پاتا۔

دوم یورینیم افزودہ کر کے ایٹم بم بنانے کے کرتا دھرتا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپی ممالک میں وسیع پیمانے پہ تعلقات رکھتے تھے۔پھر انھیں سیکڑوں یورپی کمپنیوں کی معلومات بھی ازبر تھیں جو پاکستانی ایٹمی منصوبے کو مطلوبہ سامان فراہم کر سکتی تھیں۔

سوم یہ کہ اس زمانے میں یورپی ممالک خصوصاً مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اوربیلجئم کے عوام وخواص سمجھتے تھے کہ بھارت نے ایٹمی دہماکہ کرکے دغا بازی کی ہے۔ان کے نزدیک امریکا و کینیڈا نے بھارت کو ایٹمی ری ایکٹر اس لیے فراہم کیے تھے کہ وہ یورینیم کے ذریعے بجلی بنا سکے۔مگر بھارتیوں نے بڑی عیّاری و مکاری سے ایٹمی ری ایکٹروں میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم کی شکل دے اس سے ایٹم بم بنا لیا۔چناں چہ بااثر جرمن و سوئس سمجھتے تھے کہ پاکستانی بھی اب ایٹم بم بنانے کی سعی کرنے میں حق بجانب ہیں۔

پاکستانی ایٹم بم بنانے کی تاریخ میں وہ فیصلہ بھی اہم ہے جس کے ذریعے طے ہوا کہ ایٹم بم بنانے کی خاطر سامان پرزوں کی صورت خریدا جائے۔صورت حال دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ دانشمندانہ تھا۔وزیراعظم بھٹو نے 15فروری 1975ء کو ’’پروجیکٹ 306‘‘(بعد ازاں کہوٹہ پروجیکٹ)شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ تب اس کے سربراہ سلطان بشیر الدین تھے۔اس منصوبے کے تحت سینٹری فیوج مشینوں پہ مشتمل ایک پلانٹ تیا ر ہونا تھا۔ ان مشینوں کی مدد سے ایٹم بم بنانے کے لیے درکاریورینیم (uranium-235)مطلوبہ مقدار میں حاصل کرنا مقصود تھا۔اس پلانٹ کا ڈیزائن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے فراہم کیا۔وہ ہالینڈ کے اُس یورینیم انرچمنٹ پلانٹ سے کچھ حد تک ماخوذ تھا جہاں ڈاکٹر صاحب کام کر رہے تھے۔

محض ڈیزائن سے کچھ نہیں ہوتا
بھارتی اور مغربی ماہرین اسی لیے الزام لگاتے ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم چوری شدہ ڈیزائن کے ذریعے بنایا گیا۔مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ممتاز پاکستانی ایٹمی سائنس داں، جاوید ارشد مرزا کا دوسرا رخ بیان کرتے ہیں:’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کچھ ڈیزائن کاپی کیے،بعض ڈرائنگوں کی نقول تیار کیں اور نوٹس بھی لیے۔مگر مشینوں کو بنانا، انھیں چلانے کے قابل بنانا اور پورے عمل کو کامیابی سے انجام دینا…یہ سبھی کام پاکستانی ماہرین نے کرنے تھے۔محض ڈیزائن سے پورا پلانٹ بنا کر اور پھراسے چلانا انتہائی مشکل ہے۔ یورینیم 235 کو افزودہ کرنا نہایت کٹھن کام ہے اور اس کے تمام مرحلے پاکستانی ماہرین کو ازخود کو سیکھنے پڑے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپریل 1976ء سے کہوٹہ پروجیکٹ کا انتظام سنبھالا۔گو اس کے لیے درکار آلات کی خریداری یورپی کمپنیوں سے شروع ہو چکی تھی۔اس وقت یورپ میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے نمائندے، شفیق احمد بٹ تھے۔وہ بیلجئم میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔انھوں نے پاکستانی ایٹم بم کی تشکیل کے لیے پرزے خریدنے میں سرگرمی سے حصّہ لیا۔وہ بہت ہوشیار، پکے محب وطن اور بیدار مغز تھے۔ماہرین لکھتے ہیں کہ یورپی کمپنیوں کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی زبردست معلومات اور شفیق احمد بٹ کی سرگرمی وسمجھداری کی بدولت ہی پاکستانی ایٹمی منصوبے کے لیے ایسا سامان دستیاب ہوا جو عام حالات میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔

ہمیشہ ایک قدم آگے
1981ء میں امریکی صحافیوں، سٹیو ویزمان اور ہربرٹ کروزنے کی مرتب کردہ کتاب’’دی اسلامک بم‘‘شائع ہوئی۔مرتب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جرمن استاد، پروفیسر مارٹن باربرز نے امریکی صحافیوں کو بتایا:’’وہ ایک یارباش اور دوست نواز نوجوان تھے۔ان کے کئی ممالک میں بہت دوست تھے۔ وہ ایٹمی سازوسامان بنانے والی سبھی یورپی کمپنیوں کو بھی جانتے تھے۔وجہ یہ کہ انھیں کئی زبانوں پہ عبور حاصل تھا۔پھر وہ اپنی زندہ دلی، سادگی اور انسان دوستی کے سبب دوست بہت جلد بنا لیتے۔اس باعث اپنے تعلقات کے بل بوتے پر عبدالقدیر ایسا سامان خریدنے میں کامیاب ہوئے جو دیگر پاکستانی کبھی خرید نہ پاتے۔‘‘

2009ء میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستانی ایٹم بم بنانے کی خاطر پرزہ جات خریدنے کے نیٹ ورک کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا:’’میں پندرہ سال یورپ میں مقیم رہا۔اس دوران ہر جگہ گھومتا پھرا۔مجھے بخوبی علم تھا کہ کون سی کمپنی کیا پرزے بناتی ہے۔ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے یورپی پلانٹ سے کمپنیوں کی فہرست چوری کر لی۔یہ بکواس ہے۔میں نے انجیرئینگ میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ہالینڈ میں ایک اچھّے عہدے پہ فائز تھا۔ تمام سپلائرز کے نام وپتے میرے پاس تھے۔

لہذا میں پاکستان آیا تو یورپی کمپنیوں سے پرزے خریدنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔تاہم یورپی حکومتوں نے پرزوں کی فروخت پہ پابندی لگا دی۔ہم نے پھر یہ اقدام کیا کہ دوست ممالک مثلاً کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کمپنیاں بنا کر ان کی وساطت سے پرزے خریدنے لگے۔ پاکستانی ایٹمی منصوبے کے دشمن ہمیں مات نہ دے سکے کیونکہ ہم ہمیشہ ان سے ایک قدم آگے رہے۔‘‘

درست فیصلہ
دلچسپ بات یہ کہ آغاز میں مکمل مشینیں خریدنے کا ہی پروگرام تھا۔جب انھیں خریدتے ہوئے دشواری پیش آئی تو پرزے خریدنے کا فیصلہ ہوا۔جب کسی مشین کے پرزے آ جاتے تو پاکستانی ماہرین مل جل کر انھیں جوڑ لیتے۔یوں تنکا تنکا جمع کر کے پاکستانی ایٹم بم بنانے پہ کام شروع ہوا۔اسی لیے اس کی تکمیل میں کئی سال لگ گئے۔یورینیم افزودہ کر کے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ حالات نے درست ثابت کر دکھایا۔

1980ء میں سویت یونین ہمارے سر پہ آن بیٹھا۔ اِدھر ازلی دشمن، بھارت پہلے ہی موجود تھا۔خوش قسمتی سے تب تک یہ خبر مشہور ہو چکی تھی کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے۔اسی لیے سویت یونین اور بھارت کو علی الاعلان پاکستان پہ حملہ کرنے کی جُرات نہیں ہوئی۔اگر ایٹم بم کا ہوّا نہ ہوتا تو دونوں قوتیں مل کر پاکستان پہ چڑھائی کر سکتی تھیں۔

تب تک کینیڈا کے تعاون سے کراچی میں ایٹم ری ایکٹر لگ چکا تھا مگر وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بم بنانا نامکن تھا۔وجہ یہ کہ ری ایکٹر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی زیرنگرانی تھا۔یہ تو کئی سال بعد چین سے ایٹمی ری ایکٹر ملے تو وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پاکستان پلوٹونیم بم بنانے کے قابل ہو سکا۔خیال ہے کہ 1998ء میں پاکستان نے پلوٹونیم بم کا بھی تجربہ کیا تھا۔

حسد کی جلوہ آرائی
وطن عزیز کی ایک اور خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں ٹیکسٹائل کے کئی کارخانے واقع ہیں۔اور یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہونے والے کئی پرزہ جات ٹیکسٹائل مشینری میں بھی لگتے ہیں۔چناں چہ یورپی کمپنیوں کو کہوٹہ پلانٹ کے پرزوں کا آرڈر دیتے ہوئے انھیں بتایا جاتا کہ ان کو ٹیکسٹائل کارخانے میں استعمال کرنا مقصود ہے۔بیشتر پرزہ جات مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی ایک درجن سے زائد کمپنیوں سے خریدے گئے۔اگر ان دو یورپی ملکوں سے مطلوبہ پرزے نہ ملتے تو کمپنیاں انھیں بیرون ممالک سے خرید کر پاکستانیوں کو فراہم کر دیتیں۔اسی قسم کے ایک سودے میں اونچ نیچ سے دنیا والے پاکستانی ایٹمی منصوبے سے آگاہ ہوئے۔

ہوا یہ کہ 1977ء میں پاکستان نے مغربی جرمنی کی ایک فرم ،ٹیم انڈسٹریز سے ہائی فریکوئنسی انورٹر خریدے۔یہ آلہ یورینیم افزودہ کرنے والی مشین، سینٹری فیوج کو مسلسل خاص سطح پہ بجلی فراہم کرتا ہے۔لہذا یہ یورینیم پلانٹ کا ایک اہم پرزہ تھا۔یہ پرزہ برطانوی کمپنی، ایمرسن الیکٹرک بناتی تھی۔ٹیم انڈسٹریز کے مالک، ارنسٹ پفل نے برطانوی کمپنی سے رجوع کیا تاکہ مطلوبہ پرزے خرید کر پاکستان کو فراہم کر سکے۔

ایمرسن کمپنی نے 40انورٹر فراہم کرنے تھے۔اگست 1978ء تک تمام انورٹر دو اقساط میں پاکستان کو مل گئے۔ مگر چھان بین سے پاکستانی انجیئنروں پہ انکشاف ہوا کہ انورٹروں میں نقائص موجود ہیں۔ بعض پاکستانی ماہرین کا خیال تھا کہ ایمرسن نے دانستہ خراب انورٹر پاکستان کو فروخت کیے۔اسے یقین ہو گا کہ پاکستانی یہ نقائص دریافت نہیں کر سکتے،یوں کمپنی اپنے ناقص مال سے نجات پا لے گی۔مگر پاکستانی ماہرین نے نقائص ڈھونڈ کر برطانوی کمپنی کو حیران کر دیا۔اسے احساس ہوا کہ پاکستانی انجئنیر بھی تجربے کار اور سمجھدار ہیں۔ایمرسن کو کہا گیا کہ وہ انورٹروں میں خرابیاں دور کر کے واپس بھجوائے۔

کہوٹہ یورینیم انرچمنٹ پلانٹ کو اب بھی ڈیرھ سو انورٹروں کی ضرورت تھی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسوس ہوا کہ ایمرسن کمپنی چال بازی کر رہی ہے۔لہٰذا انھوں نے نیا آرڈر ایک دوسری برطانوی کمپنی، وئیرگیٹ کو دیا۔کمپنی کا مالک، پیٹر گرفن ڈاکٹر صاحب کا قدیمی دوست تھا۔انھیں یقین تھا کہ یہ کمپنی معیاری انورٹر فراہم کرے گی۔مگر اس معاہدے سے ارنسٹ پفل کو حسد محسوس ہوا۔وہ تائو میں آ گیا۔

ارنسٹ پفل کو یہ یقین بھی ہو چلا تھا کہ انورٹر یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہوں گے۔چناں چہ اس نے فرینک ایلون سے رابطہ کیا جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن اور ایٹمی اسلحے کے شدید مخالفوں میں سے تھا۔ارنسٹ نے اسے بتایا کہ پاکستان یورینیم ایٹم بم بنا رہا ہے اور یہ کہ برطانوی کمپنی، وئیرگیٹ اسے اہم متعلقہ پرزے فراہم کر رہی ہے۔فرینک ایلون نے معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا کر برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو انورٹر فراہم نہ کیے جائیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی ایٹمی منصوبہ مغربی میڈیا میں نمایاں ہوا ورنہ وہ پہلے کامیابی سے خفیہ انداز میں چل رہا تھا۔ایک ناراض جرمن کے حسد نے اسے افشا کر دیا۔

موساد سرگرم ہوئی
اب تمام مسلم دشمن حکمرانوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔وہ پاکستانی ایٹمی منصوبے کی سن گن لینے لگیں۔ان کی تحقیق سے افشا ہوا کہ پاکستان یورینیم سے ایٹم بم بنانے کے قابل ہو چکا۔اب بھارت اور اسرائیل کے حکمران خاص طور پہ چوکنا ہو گئے۔ایک اسلامی ملک (پاکستان)ایٹم بم بنا لیتا تو ایشیا و افریقا میں ان کی چودھراہٹ کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے۔اسی لیے پاکستانی ایٹم بم بننے سے روکنے کے واسطے دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہو گئیں۔موساد کا یورپ میں وسیع نیٹ ورک موجود تھا۔اس لیے وہی زیادہ سرگرم ہوئی۔

مئی 1979ء میں اسرائیلی وزیراعظم، مناخم بیگن نے برطانوی وزیراعظم، مارگریٹ تھیچر کو خط لکھا کہ پاکستان کے ایٹم بم بنانے پر اسرائیل کو شدید تشویش ہے۔ لہذا اسے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔انہی دنوں کی بات ہے، پیٹر گرفن جرمن شہر،بون کسی کام سے گیا۔وہاں وہ ایک بار میں بیٹھا تھا کہ ایک اجنبی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اجنبی نے پیٹر سے کہا:’’تم ہی پیٹر گرفن ہو نہ؟دیکھو بھئی ،تم جو کر رہے ہو ،ہمیں بالکل پسند نہیں ۔اپنا کام روک دو۔‘‘کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی ایٹمی منصوبے کو پرزہ جات فراہم نہ کرو۔پیٹر نے یہ دہمکی بہت سنجیدگی سے لی۔اب وہ تمام کاروباری معاہدے ریکارڈ کرنے لگا۔یہ ریکارڈ بینک میں رکھ دئیے جاتے۔اس نے اہل خانہ سے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو سارا ریکارڈ حکومت کے حوالے کر دینا۔

حسب توقع برطانوی حکومت نے انورٹر کا سودا روک دیا۔اب کہوٹہ پلانٹ کے لیے انورٹر کہاں سے آتے؟ باہمی مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ انورٹر پرزوں کی شکل میں خریدے جائیں۔چناں چہ پاکستانی مغربی ممالک میں پھیل گئے اور ہائی فریکوئنسی انورٹر کے پرزے مثلاً کیپیسیٹر، ریزیسٹر وغیرہ خریدنے لگے۔پاکستانی ماہرین نے پھر انھیں جوڑ کر مطالبہ انورٹر تیار کر لیے۔یوں ایک اہم رکاوٹ دور ہو گئی۔

بم دہماکے
مغربی ممالک میں اسرائیلی ایجنٹ پاکستانیوں کی نقل وحرکت پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔انھیں محسوس ہو گیا کہ پاکستانی تیزی سے ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔لہذا اب موساد کھل کر ان یورپی کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے لگی جو پاکستانی ایٹم بم بنانے میں پاکستانیوں کی مدد کر رہی تھیں۔20فروری 1981ء کو کورا انجئنیرئنگ کے مینجنگ ڈائرکٹر، ایڈورڈ گزمان کے گھر بم دہماکا ہوا۔یہ سوئس کمپنی کہوٹہ پلانٹ کو اہم پرزے فراہم کر رہی تھی۔کمپنی کے افسروں کو فون پر بھی دہمکیاں دی گئیں کہ پاکستان کو پرزے دئیے جاتے رہے تو ان کی خیر نہیں۔

مغربی جرمنی کی کمپنی، ویلش ملر بھی پاکستانی ایٹمی منصوبے سے منسلک تھی۔18مئی 1981ء کو مارک دورف شہر میں واقع اس کے دفتر میں بم دہماکا ہوا۔کمپنی کے مالک کو بھی فون پر جان سے مارنے کی دہمکی دی گئی۔مغربی جرمنی کے شہر، ارلینگن میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا دوست، ہینز میبس رہتا تھا۔یہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کا حامی تھا۔اس نے جرمن کمپنیوں سے پاکستان کے معاہدے کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔6نومبر 1981کو اس کے گھر لیٹر بم دہماکا ہوا۔اس کا کتا مارا گیا۔خوش قسمتی سے ہینز گھر میں موجود نہ تھا۔

مشن میں کامیابی
ان بم دہماکوں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کہ موساد صرف جرمن اور سوئس کمپنیوںکو خوفزدہ کرنا چاہتی تھی۔وہ اپنے مشن میں کامیاب رہی کہ مغربی جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی تقریباً سبھی کمپنیوں نے پاکستانی ایٹمی منصوبے سے تعلق ختم کر دیا۔کئی کمپنیوں کے مالکوں اور افسروں کو فون پر دہمکیاں دی گئیں کہ وہ پاکستان کو کسی قسم کا سامان فروخت نہ کریں۔گویا اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا۔مگر دونوں ممالک کی حکومتیں اسرائیل کو معطون نہیں کر سکیں۔

دراصل اسرائیلی حکومت کے دبائو پر اس زمانے میں امریکا مسلسل مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کو کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی کمپنیوںکو ’’حساس پرزہ جات اور آلات‘‘پاکستانیوں کو فروخت نہ کریں۔امریکی حکومت کے ادارے، دی نیشنل سیکورٹی آرچیو نے حال ہی میں وہ خطوط ڈی کلاسیفائی کیے ہیں جو1980ء اور 1981ء میں مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں موجود سفیروں نے اپنی حکومت کو لکھے تھے۔ان خطوط سے افشا ہوتا ہے کہ امریکی حکومت دونوں یورپی ممالک کے حکمرانوں سے سخت ناراض تھی۔وجہ یہی کہ انھوں نے اپنی ان کمپنیوں کو روکنے کے لیے خاص اقدامات نہیں کیے جو پاکستانی ایٹم بم کی تیاری میں سرگرمی سے شریک تھیں۔

کہوٹہ پہ حملے کا منصوبہ
جون 1984ء میں اسرائیلی طیاروں نے بمباری کر کے بغداد، عراق کے قریب واقع ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ اس کی مدد سے صدام حسین ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔ مغربی وپاکستانی ماہرین لکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھارت اور اسرائیل کہوٹہ پلانٹ پہ فضائی حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔چناں چہ ایک بھارتی کمباٹ(combat)کالج میں حملے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی۔اس رپورٹ کی بنیاد پہ بھارتی طیاروں نے حملے کی مشقیں کیں۔اسی دوران اسرائیل نے اپنا منصوبہ پیش کر دیا۔ اس کی رو سے اسرائیلی طیاروں نے ہمالیائی پہاڑوں کے راستے کہوٹہ پہ حملہ کرنا تھا۔

گھر کے بھیدی کی گواہی
بھارت کرند(Bharat Karnad)مشہور بھارتی دانشور ہے۔نئی دہلی میں واقع’’سینٹر فار پالیسی ریسرچ‘‘میں پروفیسر ایمرطیس ہے۔14نومبر 2016ء کو اس نے اپنی ویب سائیٹ پر شائع ایک مضمون (Solidifying India-Israel relations with miltech quid pro quo; 1982 Indo-Israeli plans for Kahuta strike)میں درج بالا منصوبے کو حقیقی قرار دیا۔وہ لکھتا ہے:’’1983ء میں اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے میری ملاقات اسرائیلی فوج کے میجر جنرل ہارون یریف(Aharon Yaariv) سے ہوئی۔اسی جرنیل کی کمان میں اسرائیل نے جنگ 1956ء میں مصری علاقے، صحرائے سینا پہ قبضہ کیا تھا۔اسرائیلی آرمی چیف، موشے دایان کا دست راست تھا۔ اسی بااثر اسرائیلی آرمی جرنیل نے دوران گفتگو انکشاف کیا کہ اسرائیل اور بھارت مل کر کہوٹہ پلانٹ تباہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

میجر جنرل ہارون یریف کے مطابق پلان یہ تھا:’’سب سے پہلے اسرائیلی ٹرانسپورٹ طیارے حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ لے کر بھارتی فضائیہ کی جام پور(گجرات)بیس پہنچتے۔پھر چھ اسرائیلی ایف 16 اور چھ ہی ایف 15 طیارے جام پور پہنچتے۔وہاں اسرائیلی پائلٹ چند دن آرام کرتے۔پھر وہ اودھم پور(جموں وکشمیر)بیس کے لیے روانہ ہو جاتے۔راستے میں شمالی بھارت کی کسی بیس سے ایندھن بھروا لیتے۔ اودھم پور سے وہ ہمالیہ کے پہاڑوں کا رخ کرتے۔ مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے بعد وہ پاکستان میں داخل ہو کر چند منٹ میں کہوٹہ جا پہنچتے۔

وہاں ایف سولہ طیاروں نے اپنے پہ لدے خصوصی بم پاکستانی یورینیم انرچمنٹ پلانٹ پر گرانے تھے۔یہ بم اندرون زمین بنی تنصیبات بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔جبکہ ایف پندرہ پاک فضائیہ کے طیارے روکنے میں استعمال ہوتے۔اسرائیلی اور بھارتی منصوبہ سازوں کو یقین تھا کہ کہوٹہ میں نصب طیارہ شکن توپیں ایف سولہ اور ایف پندرہ جیسے جدید ترین لڑاکا و تیز رفتار جہازوں کو نہیں گرا پائیں گی۔ویسے بھی یہ آپریشن ایک دو منٹ میں مکمل ہو جانا تھا۔ اسرائیلی جہاز بم گرا کر وہاں سے ترنت فرار ہو جاتے۔

میجر جنرل ہارون یریف نے بھارت کرندکو بتایا کہ بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی کو یہ منصوبہ بہت پسند آیا تھا۔مگر کسی طرح اس منصوبے کی بھنک امریکی صدر ریگن کو مل گئی۔وہ پریشان ہو گئے۔وجہ یہ کہ تب امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنے اکلوتے حریف، سوویت یونین کا بھرپور مقابلہ کر رہا تھا۔اگر کہوٹہ پلانٹ پہ حملہ ہو جاتا تو سوویت یونین کے خلاف لڑائی متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔اس لیے صدر ریگن نے اسرائیلی حکومت پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ کہوٹہ پہ حملہ کرنے سے باز رہے۔ویسے بھی یہ حملہ پاکستان اور بھارت کے مابین چوتھی جنگ شروع کرا دیتا۔کہوٹہ پلانٹ پہ حملے کے بعد پاکستان نے اپنے ازلی دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہی تھا۔

نئے منصوبے
بھارت کرندکی رو سے 1984ء میں ائرکموڈور جسمیت سنگھ بھارتی فضائیہ میں ڈائرکٹر آپریشنز(آفینسیو)مقررہوا۔اس نے پھر کہوٹہ انرچمنٹ پلانٹ پہ فضائی حملے کا منصوبہ بنایا۔تاہم نئے وزیراعظم، راجیو گاندھی نے اسے نامنظور کر ڈالا۔آئرلینڈ کے ممتاز اخبار’’آئرش ٹائمز‘‘نے3 جون 1998ء کی اشاعت میں ایک مضمون(Israelis dismiss claims of plans to blow up Pakistani nuclear sites)شائع کیا۔ اس میں درج ہے کہ جولائی 1985ء میں اسرائیل نے دوبارہ راجیو گاندھی کو یہ پلان دیا کہ کہوٹہ پلانٹ پہ فضائی حملہ کر دیا جائے۔ اس بار اسرائیل نے بھارتی وزیراعظم کو کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر بھی دکھائیں جو سیٹلائٹوں سے لی گئی تھیں۔یہ تصاویر اسے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں گھسے موساد کے ایجنٹ، جوناتھن پولارڈ نے فراہم کی تھیں۔تاہم راجیو گاندھی نے پھر یہ منصوبہ مسترد کر دیا۔

1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دہماکوں سے قبل پاکستانی حدود میں اسرائیل کا ایک ایف سولہ طیارہ دیکھا گیا۔اس خبر نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔لگتا تھا کہ اسرائیلی و بھارتی مل کر پاکستانی ایٹمی تنصیبات پہ حملہ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان نے فوراً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کوفی عنان اور امریکی حکومت سے رابطہ کیا۔پاکستان کی زبردست سفارتی سرگرمی کی وجہ سے اسرائیل کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات پہ حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور بھارت ،دونوں کو آنکھوں میں پاکستانی ایٹمی پروگرام کانٹا بن کر چبھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2274294/10/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/30012022/P6-Lhr-013.jpg



اردو کے ممتاز شاعر اور نعت خواں مظفر وارثی کی گیارھویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا، آپ کی وجہ شہرت لازوال حمد اورنعتیں تخلیق کرنا بنا، مظفر وارثی ایک خوش گو شاعر تھے، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور جلد ہی ان کا شمار ممتاز شعراء کرام میں ہونے لگا۔ مظفر وارثی کی مشہور نعت یارحمت اللعالمین، لانبی بعد، ورفعنالک ذکرک، تو کجا من کجا اور حمدیہ کلام میں مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

ماضی میں پاکستانی فلم انڈسٹری مظفر وارثی کے بغیر ادھوری تھی، ان کے مشہور فلمی گانوں میں کیا کہوں اے دنیا والو کیا کہوں میں، مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے وال، یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو، عوام میں زبردست مقبولیت ملی- فنی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے ایوارڈ سے نوازا گیا، انہیں فصیح الہند اورشرف الشعرا کے خطابات عطا بھی ہوئے۔ فلمی اور قلمی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 28جنوری 2011 کو ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا-
https://www.express.pk/story/2277328/24/



سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022 کی منظوری کے موقع پر حکومتی رکن سینیٹر زرقا وہیل چیئر پر ایوان پہنچیں۔

آکسیجن کا سلنڈر اور ڈاکٹرز کی ٹیم ان کے ہمراہ تھی۔ ڈاکٹر زرقا وہیل چیئر پر ایوان میں بیٹھی رہیں۔
حکومتی و اپوزیشن اراکین ایوان میں ڈاکٹر زرقا کے پاس آکر ان کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔ بل کی منظوری کےبعد ڈاکٹر زرقا ایوان سے واپس چلی گئیں۔
https://www.express.pk/story/2277286/1/



امریکی ریاست آئیڈاہو سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ رش نے 52 ہفتوں میں 52 گنیز ورلڈ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) کی تعلیم کو پروموٹ کرنے والے ڈیوڈ رش نے کہا کہ انہوں نے اول دن سے یہ تہیہ کیا تھا کہ ہر ہفتے ایک ریکارڈ توڑیں گے۔

ڈیود نے اپنے ریکارڈ بنانے کا مشن گیلے صابنوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایک کے اوپر ایک رکھنے کے ریکارڈ سے شروع کیا تھا۔

انہوں نے اپنے سب سے مشکل ترین ریکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں سوئیس بال پر کھڑے ہوکر کیوی پھل کے ننجا تلوار سے ٹکرے کرنے کا ریکارڈ سب سے دشوار لگا تھا۔
https://www.express.pk/story/2276468/509/



یہ ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ ہی ہمارے سروں کے تاج ہیں، لیکن جو اعزاز اور سر بلندی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکی۔

پیدائش کے وقت والدین نے آپؓ کا نام عبدالکعبہ یعنی کعبہ کا بندہ رکھا، مگر اسلام قبول کرلینے کے بعد نبی کریم ﷺ نے آپؓ کا نام بدل کر عبداﷲ یعنی اﷲ کا بندہ کردیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کنیت صدیق اور عتیق لقب تھے۔ آپؓ زیادہ تر اپنی کنیت اور لقب صدیق سے مشہور ہوئے۔ ایمان کی دولت سے سر فراز ہونے کے بعد اپنا مال و دولت اسلام کی اشاعت اور مظلوم مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرتے رہے۔

اسلام کے پہلے موذّن سیدنا بلالؓ کو بھی حضرت صدیق اکبرؓ ہی نے اُن کے ظالم آقا سے خرید کر آزاد کیا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے سفر میں صدیق اکبر ؓ ہی حضور کریم ﷺ کے رفیق سفر تھے، دورانِ سفر کئی بار ایسے جذبۂ محبت و الفت کے مظاہر سامنے آئے کہ جن کی مثال مشکل ہے۔

پھر غار ثور میں نبی کریم ﷺ کی خاطر داری کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ غار کے اندر تمام سوراخ بند کرنے کے بعد جب ایک سوراخ بند نہ ہوسکا اور نبی کریم ﷺ آپؓ کے زانو پر سر ِاقدس رکھ کر سو گئے تو کیڑے مکوڑے اور سانپ بچھو سے حفاظت کے لیے اُس ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی، اُس میں ایک سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا، شدتِ تکلیف کے باوجود پہلو نہ بدلا کہ آپ ﷺ بے آرام نہ ہو جائیں، مگر آنسوؤں کے چند قطرے بے اختیار نکل کر نبی کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک پر جا گرے، جس سے آپ ﷺ جاگ گئے، وجہ پوچھی اور پھر آپ ﷺ نے اپنا لعابِ دہن آپ کے پیر کے زخم پر لگایا جس سے اسی وقت تکلیف کافور ہوگئی۔

حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت اور شرف کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے کہ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ آیت صاف بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے لیے خوف زدہ نہ تھے، بل کہ نبی ﷺ کے حوالے سے بے چین تھے کہ کہیں دشمن آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔

مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کی تعمیر کے لیے دو یتیم بچوں سے خریدی گئی زمین کی قیمت بھی حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ادا کی۔ اس طرح قیامت تک مسجد نبویؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے صدقۂ جاریہ کا باعث بنی رہے گی۔

سماجی اور رفاہی خدمات کے ساتھ دیگر دینی و مذہبی سرگرمیوں میں بھی حضرت ابوبکرؓ پیش پیش تھے، غزوہ بدر ہو یا اُحد، خیبر ہو یا دیگر معرکے، آپؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال و متاع لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے۔ تو عرض کیا: اُن کے لیے اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپؓ سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ کی خلافت پر مسلمان جمع ہوئے اور بیعت عام ہوئی تو اس کے بعد صدیق اکبرؓ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’لوگو! اﷲ کی قسم، نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجھے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یا ظاہراً اﷲ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ برپا ہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجھے کوئی راحت نہیں، بل کہ یہ ایسا بوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اﷲ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا۔

کاش! میرے بہ جائے کوئی ایسا شخص خلیفہ مقرر ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا، مجھے تم نے امیر بنایا، حالاں کہ میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں، اگر اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا۔ جب تک میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں، تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کے خلاف کرو ں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں لشکر اُسامہؓ کی روانگی، فتنۂ ارتداد، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے بعد عرب میں امن و استحکام کے ساتھ ایران پر فوج کشی کا حکم دیا، اسی طرح شام اور روم کی طرف بھی پیش قدمی کی اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ بیت المال سے ان ڈھائی برس میں جتنا روپیا بہ طور وظیفہ مجھے ملتا رہا، وہ سب میری زمین بیچ کر واپس بیت المال میں جمع کرایا جائے، مجھے پرانے کپڑوں میں ہی سپرد خاک کردیا جائے کہ نئے کپڑے کے زندہ زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ تریسٹھ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ حضرت عمر ؓنے نماز ِجنازہ پڑھائی اور حضور اکرم ﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔
https://www.express.pk/story/2276055/1/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/24012022/P6-LHR-034.jpg



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/24012022/P3-LHR-006.jpg



شاہین آفریدی نے پوری قوم کاسر فخر سے بلند کر دیا ، آئی سی سی کا سب سے بڑا یوارڈ جیت لیا
Jan 24, 2022 | 14:56:PM



دبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کیلئے بڑا اعزاز، قومی ٹیم کے فاسٹ باولر شاہین شاہ آفریدی نےانٹر نیشنل کونسل کا کرکٹر آف دیر ایئر کا ایوارڈ جیت لیاہے ۔نامزدگیوں میں جوئے روٹ، محمد رضوان ، کین ولیمسن اور شاہین شاہ آفریدی کا نام شامل تھا 

تفصیلات کے مطابق شاہین شاہ آفریدی نے تینوں فارمیٹس میں بہترین کارکردگی دکھا کر آئی سی سی کا ’’ سر گیری فیلڈ سوبرز ٹرافی ‘‘ایوارڈ جیت لیاہے، یہ ایوارڈ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے سال 2021 میں سب سے بہترین پرفارمنس پر دیا گیاہے ، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی پاکستانی کرکٹر نے ’’ سرگیری فیلڈ سوبرز ٹرافی‘‘ اپنے نام کیا ہے۔

شاہین شاہ آفریدی نے 36 میچز میں مجموعی طور پر 78 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے سال 2021 میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے 9 ٹیسٹ میچز میں 47کھلاڑیوں کو پولین کی راہ دکھائی ۔شاہین آفریدی نے ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ میں 7 وکٹیں حاصل کیں جبکہ مجموعی طور پر 21 میچز میں 23 وکٹیں لیں ۔

ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں شاہین شاہ آفریدی نے بھارت کے خلاف یادرگار سپیل کیا اور تین کھلاڑیوں کو پولین کی راہ دکھائی ۔کھلاڑی کا کہناتھا کہ 2021 اچھا گزرا ہے اورآئندہ بھی یہی کوشش ہوگی ،کوشش ہوتی ہے کہ اچھی پرفارمنس دیں، پاکستان ٹیم کی کارکردگی 2021 میں بہترین رہی ہے ۔
https://dailypakistan.com.pk/24-Jan-2022/1394500?fbclid=IwAR1Kcfwy8F7WvQJTrvUhZvI6Wc8b6o_c8ckodgoHLrMq3uC_ilseguL_uwY



سرچ انجن گوگل نے معروف سماجی کارکن مرحومہ پروین رحمان کی 65 ویں سالگرہ پر ڈوڈل کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

پروین رحمان مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے دارالحکومت ڈھاکا میں 22 جنوری سنہ 1957 میں پیدا ہوئیں۔ پروین رحمان ایک پاکستانی سماجی کارکن اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر تھیں۔



13 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو دفتر جاتے ہوئے فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ واقع کراچی کی مین منگھو پیر روڈ پر پیش آیا تھا۔ ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جب کہ پروین رحمان کو ان کے ڈرائیور نے شدید زخمی حالت میں عباسی شہید اسپتال پہنچایا تھا، جہاں وہ علاج کے دوران دم توڑ گئی تھیں، انھیں گردن میں گولیاں لگی تھیں۔

گزشتہ برس 17 دسمبر کو کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل کے مقدمے میں چار ملزمان کو دو، دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان چاروں ملزمان رحیم سواتی، احمد خان، امجد اور ایاز سواتی پر دو، دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ پانچویں مجرم عمران سواتی کو قتل میں دیگر مجرموں کی معاونت کرنے پر سات سال قید اور دولاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

کراچی میں اورنگی ٹاؤن پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات میں سامنے آنے والے انکشافات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انہیں اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا تھا۔
https://www.express.pk/story/2274385/1/



' دنیا والوں کے طعنوں پر والد نے گھر سے نکال دیا تھا، پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹرسارہ کی دکھ بھری کہانی
Jan 21, 2022 | 19:36:PM



کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گِل نے گھر اور معاشرے کی ناانصافیوں پر ہمت نہ ہاری، ہرچیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ڈاکٹر بن کر خود کو منوایا۔

پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل سب کےلیے مثال بن گئیں۔ جیونیوز سے گفتگو میں سارہ نے بتایا کہ پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا لیکن دنیا والوں کے طعنوں پر والد نے گھر سے نکال دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کڑے سفر میں والدہ نے بہت سپورٹ کیا ۔ ڈاکٹر سارہ نے مزید کہا کہ مجھے میڈیکل کالج کے سٹاف اور ساتھی طلباء کی جانب سے بھی بہت زیادہ سپورٹ ملی ،ان لوگوں نے مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں خواجہ سرا ہوں۔گزشتہ دنوں سارہ گل نےکراچی کے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (جے ایم ڈی سی ) سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی۔وہ ایم بی بی ایس کرنے والی پاکستان کی پہلی خواجہ سرا بن گئی ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jan-2022/1393418?fbclid=IwAR3QiT0myQXltpFnmJgHJzGsiC2Dl4R6GlzX4iuzz4NzK3hrjoDrNN12wTI



موٹروے پولیس نے فرض شناسی و دیانت داری کی مثال قائم کردی دوران سفر سڑک پر گرنے والا بیگ زیورات و نقدی سمیت تلاش کرکے مالکان کے حوالے کردیا.

حکام کے مطابق موٹروے پر اسلام آباد سے فیملی کے ہمراہ پشاور جانے والے ابصار نامی شہری فون کال سننے کے لیے روکے تو دروازہ کھلنے پر بچے کا پاؤں لگنے سے لیڈیز بیگ سڑک پر گر گیا جسکا علم فیملی کو نہ ہوا اور انھوں نے سفر جاری رکھا۔ کچھ وقت بعد موٹر وے پولیس کے پیٹرولنگ انسپکٹر امتیاز احمد اور سب انسپکٹر شیرین تاج موقع سے گزرے تو ان کی نظر پرس پر پڑی۔

موٹر وے پولیس نے اسے حفاظتی تحویل میں لیکر تلاشی لی تو بیگ سے پانچ تولہ سونے کے زیورات اور ستر ہزار روپے نقد اور اہم کاغذات ملے ۔ کاغذات میں موجود فون نمبر کے ذریعے فیملی کو ٹریس کرکے بیگ تمام املاک سمیت ان کے حوالے کردیاگیا۔

قیمتی اشیاء واپس ملنے پر فیملی نے موٹر وے پولیس کا شکریہ ادا کیا ۔ ڈی آئی جی موٹروے نارتھ زون مظہر الحق کاکا خیل اور سیکٹر کمانڈر ایم ون ذیشان حیدر نے افسران کی کارکردگی کو سراہا اور انھیں انعامات دینے کا اعلان کیا ۔
https://www.express.pk/story/2273540/1/



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/20012022/P3-Lhr-002.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/18012022/P3-Lhr-008.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/19012022/P6-LHR-024.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/17012022/P3-Lhr-003.jpg



اردو ادب کے معروف شاعر، مزاح اور سفر نامہ نگار ابن انشاء کو بچھڑے 44 برس بیت گئے۔

اردو کی دوسری جداگانہ تحریروں سے پہچان حاصل کرنے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔

ابن انشاء نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں حاصل کی اور تقسیم برصغیر کے بعد وہ پاکستان آگئے، جہاں کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی شاعری کے حوالے سے سامنے آنے والی تصانیف میں ’اس بستی کے ایک کوچے میں، چاند نگر، دل وحشی، بلو کا بستہ‘ شامل ہیں۔

علاوہ ازیں ’آوارہ گرد کی ڈائری، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دنیا گول ہے اور نگری نگری پھرا مسافر‘ جیسے سفرنامے مزاحیہ انداز تحریر کیے۔

آپ نے چینی نظموں کے اردو میں تراجم کیے، مختلف اخبارات میں کالم لکھے اور وہ پاکستان ریڈیو اور ثقافتی اداروں سے بھی وابستہ رہے۔

ابن انشاء کی کئی غزلوں کو مختلف گلوکاروں نے ترنم کے ساتھ گا کر ایک نئی پہچان دی، ان کی ایک غزل ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی جسے لیجنڈ گلوکار امانت علی خان نے اپنی مدھر آواز سے چار چاند لگا دیے۔ حکومت پاکستان نے ابن انشا کو تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

ابن انشاء نے زندگی کے آخری ایام برطانیہ میں گزارے اور 11 جنوری 1978ء کو لندن میں ہی اُن کا انتقال ہوا۔
https://www.express.pk/story/2269960/24/




Daily Express




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/10012022/P3-Lhr-003.jpg




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108938574&Issue=NP_PEW&Date=20220109




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/06012022/P3-Lhr-003.jpg



تنزانیہ کی ایک تنظیم ’اوپوپو‘ (APOPO) پچھلے چند سال سے بڑی جسامت والے مقامی چوہوں کی مدد سے بارودی سرنگیں ڈھونڈنے کے علاوہ ٹی بی کا پتا چلانے کا کام بھی لے رہی ہے۔ اسی مناسبت سے انہیں ’ہیرو چوہوں‘ کا نام دیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ اس تنظیم نے ایک نئے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس میں چوہوں کو تلاش اور امداد جیسی کارروائیوں کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔



یہ تنظیم پچھلے بیس سال سے تنزانیہ میں مختلف سماجی کاموں میں مصروف ہے جن میں کسانوں کی فلاح و بہبود، بارودی سرنگوں سے حفاظت اور ان دھماکوں سے معذور ہوجانے والے لوگوں کی بحالی بطورِ خاص شامل ہیں۔

باردوی سرنگوں اور ٹی بی کا سراغ لگانے کےلیے یہ تنظیم کتوں کے علاوہ چوہوں کی خداداد صلاحیتوں سے بھی خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہی وہ چوہے ہیں جنہیں ’ہیرو چوہوں‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔



واضح رہے کہ سونگھنے کے معاملے میں چوہے بھی کتوں کی طرح بہت تیز ہوتے ہیں اور دور سے آتی ہوئی معمولی بدبو سونگھ کر اس جگہ کی سمت اور فاصلے کا پتا لگا لیتے ہیں جبکہ ان کی یادداشت بھی بہت مضبوط ہوتی ہے۔

تنزانیہ اور دوسرے افریقی ممالک میں مسلسل بغاوتوں اور خانہ جنگی کے باعث ان گنت بارودی سرنگیں جگہ جگہ دفن ہیں جو معصوم بچوں اور عام لوگوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کرنے کے علاوہ انہیں زندگی بھر کےلیے معذور بھی کررہی ہیں۔

بارودی سرنگوں کی نشاندہی کےلیے تربیت یافتہ کتے برسوں سے استعمال کیے جارہے ہیں لیکن ایسے ایک کتے کی تربیت اور دیکھ بھال پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں۔ غریب ممالک کےلیے یہ اخراجات برداشت کرنا بہت مشکل رہتا ہے۔

’اپوپو‘ نے اس مسئلے کا حل ’بڑے تھیلی دار چوہوں‘ کی شکل میں ڈھونڈا، جو تنزانیہ سمیت افریقہ کے مختلف ممالک میں عام پائے جاتے ہیں۔

صرف ایک سے ڈیڑھ کلوگرام وزنی ہونے کے علاوہ یہ چوہے 45 سینٹی میٹر (ڈیڑھ فٹ سے کچھ کم) لمبے ہوتے ہیں اور تنگ جگہوں سے بھی بہ آسانی گزر جاتے ہیں۔ ان کی عمر 8 سال تک ہوتی ہے۔

مضبوط یادداشت اور غیرمعمولی ذہانت کے باعث ان چوہوں کا انتخاب کیا گیا اور چند ماہ تک انہیں زمین میں دفن کی گئی بارودی سرنگیں تلاش کرنے کی تربیت دی گئی۔

چوہے بہت جلد یہ کام سیکھ گئے اور انہوں نے امدادی ٹیموں کے ساتھ درجنوں بار بڑی کامیابی سے بارودی سرنگیں ڈھونڈ کر اپنی افادیت ثابت کردی۔

اس کامیابی کے بعد ’اپوپو‘ نے اپنی ویب سائٹ پر یہ چوہے مقامی کسانوں اور عام لوگوں کو نہایت کم داموں میں فروخت کرنا شروع کردیئے تاکہ وہ بھی اپنے کھیتوں اور ارد گرد کے علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی نہایت کم خرچ پر کرسکیں۔



اب تک یہ چوہے تنزانیہ میں ہزاروں انسانی جانیں بچا کر اپنی افادیت ثابت کرچکے ہیں جبکہ دوسرے جنگ زدہ افریقی ملکوں میں بھی ان کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

چند سال پہلے ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ اسی نسل کے چوہے کسی مریض کو سونگھ کر اس میں تپ دق (ٹی بی) کا سراغ بھی لگا سکتے ہیں۔

اس کے بعد سے ’اپوپو‘ میں چوہوں کو ٹی بی کا پتا لگانے کی تربیت بھی دی جانے لگی ہے کیونکہ غریب ممالک میں ٹی بی کی تشخیص کے روایتی طریقوں پر بہت رقم خرچ ہوجاتی ہے۔



یہ تجربات بھی کامیاب رہے اور اب یہ چوہے ٹی بی کی تشخیص میں بھی کم خرچ سہولت فراہم کررہے ہیں۔

اب ’اپوپو‘ میں نئے منصوبے کا آغاز ہوچکا ہے جس کے تحت چوہوں کو حادثاتی صورتِ حال میں متاثرہ افراد کو تلاش کرنے کی تربیت دی جارہی ہے تاکہ امدادی ٹیموں کی کارکردگی بہتر ہوسکے۔



اس سلسلے کے ابتدائی تجربات میں بھی ’اوپوپو‘ کو خاصی کامیابیاں ملی ہیں اور امید ہے کہ افریقہ کے بعد دوسرے ممالک میں بھی ان چوہوں کی قدرتی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جانے لگے گا۔
https://www.express.pk/story/2267163/509/



ڈولفن اہلکاروں نے ایمانداری کی مثال قائم کردی
Jan 03, 2022 | 00:03:AM



لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)ڈولفن ٹیم نمبر 100 نے ایمانداری کی مثال قائم کردی۔

تفصیلات کے مطابق ڈولفن ٹیم نمبر 100کو دوران پٹرولنگ مین بلیوارڈ سے ایک پرس ملا۔ پرس میں 46 ہزار پانچ سو روپے اور ضروری کاغذات تھے ۔ جسے ڈولفن اہلکاروں علی وغیرہ نے پرس کے مالک کو بلا کر اس کے حوالے کیا ۔پرس کے مالک تابش ولد سلیم نے رقم اور کاغذات کی واپسی پر ڈولفن ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔شہری کے مطابق وہ شاپنگ کے لیے رحیم سٹور آیا جہاں سے واپسی پر پرس گر گیا تھا۔
https://dailypakistan.com.pk/03-Jan-2022/1385584?fbclid=IwAR2yFU0rWBHmnaTcjGIu5E15mG_6zCtDmbayOaA9pxmIqgiQB_rnTZSppjg



موٹر وے پولیس کے اہلکار وں نے ڈیڑھ لاکھ مالیت کا موبائل فون ، 81 لاکھ کے چیک شہری کو لوٹا کر مثال قائم کر دی
Jan 03, 2022 | 10:45:AM



لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) موٹر وے پولیس کے اہلکاروں نے ڈیڑھ لاکھ مالیت کا موبائل فون اور 81 لاکھ کے چیک شہری کو لوٹا کر ایمانداری کی مثال قائم کر دی ۔

ترجمان موٹر وے پولیس کے مطابق درخانہ سروس ایریا سے ملنے والے 8.1 ملین روپے چیک اور ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کا فون لاہور کے شہری کے حوالے کیا گیا ، موٹروے پولیس پٹرولنگ آفیسر زاہد فاروق نے چیکس اور موبائل فون کو تلاش کیا اور اعلانات کروائے، ڈی ایس پی موٹروے پولیس حمید نیازی نے اپنی نگرانی میں زاہد نامی شہری کو چیکس اور قیمتی موبائل مالک کے حوالے کیا۔

ترجمان موٹر وے کے مطابق ملتان سے لاہور جانے والے شہری کے چیک اور موبائل فون موٹر وے پر گر گئے تھے ۔ سیکٹر کمانڈر ایس ایس پی سید حشمت کمال نے افسران کی ایمانداری کو سراہا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/03-Jan-2022/1385886?fbclid=IwAR1wEIWt3PnH1TtEUOaA9d4IQpxOwgK8eI3jJnfoq6AKSutvw-9HvFj0liM



سعودی عرب میں پاکستانی نوجوان نے سعودی شہری کی جان بچا کر انسانی ہمدردی کی مثال قائم کر دی ، دل جیت لیے
Jan 03, 2022 | 12:58:PM



ریاض(ڈیلی پاکستان آن لائن)سعودی عرب میں پاکستانی نوجوان نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سعودی شہری کی جان بچا کر انسانی ہمدردی کی شاندار مثال قائم کر دی ہے اور سب کے دل جیت لیے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر قصیم میں سعودی شہری کی گاڑی سیلابی ریلے میں پھنس گئی جس پرپاکستانی نوجوان سلیم نے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی جان بچائی ۔سلیم نامی شخص کی اس بہادری کی غیرملکی سمیت سعودی صارفین کی تعریف کررہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقامی شہری کی گاڑی طوفانی لہروں میں پھنس گئی تھی۔مقامی شہری نے مدد کے لیے آواز لگائی جس پر پاکستانی نوجوان سلیم جان کی پروا کیے بغیر سیلاب میں محصور گاڑی کو بچانے کے لیے میدان میں آگیا اور قبل اس کے کہ گاڑی سیلاب کی نذر ہو اس نے فن کارانہ طریقہ سے محفوظ مقام منتقل کردیا۔
https://dailypakistan.com.pk/03-Jan-2022/1385901?fbclid=IwAR2ZKGWC4JvQSHlEcUatZ6YPvMDU5DBeF7yS2oOmUdF0VjeCZqQ5oB1zPMY





https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2022/01/03012022/p1-lhr004.jpg





https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108913845&Issue=NP_PEW&Date=20211230




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108913848&Issue=NP_PEW&Date=20211230




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108913846&Issue=NP_PEW&Date=20211230




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108913847&Issue=NP_PEW&Date=20211230



آئی سی سی نے محمد رضوان کو شاندار ایوارڈ کیلئے نامزد کر دیا
Dec 29, 2021 | 16:36:PM



لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کو بہترین ٹی ٹوئنٹی کرکٹر آف دی ائیرایوارڈ کے لئے ‏آئی سی سی نے نامزد کر لیا۔

نجی ٹی وی اے آر وائے نیوز کے مطابق ایک سال میں 1326رنز، پانچ مین آف دی میچ، چار پلیئر آف دی سیریز ایوارڈ حاصل کرنے والے ‏محمد رضوان آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی پلیئر آف دی ایئر کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ان جیسا کوئی دوسرا بلے باز قریب بھی نہیں آ سکا کوئی بھارتی کھلاڑی ریس میں نہیں اس لیے ‏امکان ہے بھارتی بھی ووٹ دیں گے۔

رواں سال محمد رضوان خوب جم کر کھیلے پاکستان کو میچز بھی جتوائے اور سب سے داد وصول ‏کی۔ رضوان نے سال میں 1326رنز بنائے اور وہ واحد بلے باز ہیں جنہوں نے ٹی ٹوئنٹی کلینڈر ایئر ‏میں 1 ہزار سے زائد رنز اسکور کیے۔ٹی ٹوئنٹی کرکٹر آف دی ائیرایوارڈ پر پہلے ہی رضوان کا نام لکھا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/29-Dec-2021/1383991?fbclid=IwAR0NPkYldXob8bpNm6kg2XW-yg7zzjXaKNZuFA2pWY7I5LEgAuR49r-QX6Q



یہ 1944 کی بات ہے جب دوسری جنگِ عظیم اپنے عروج پر تھی، اس دوران پولینڈ کی فوج اٹلی کیلئے مصر سے اپنے سمندری جہازوں پر سوار ہورہی تھی تاکہ وہاں جنگ میں حصہ لیا جائے لیکن ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جہازوں پر صرف فوجی ہی جاسکتے تھے اور اصلحہ کی سپلائی پر مامور ایک ممبر ایسا تھا جو فوجی تو دور کی بات انسان بھی نہیں تھا بلکہ ایک ریچھ تھا۔

جی ہاں۔ تاریخ اس ریچھ کو ووجٹیک (Wojtek) کے نام سے جانتی ہے۔ پولینڈ کی فوج کو یہ ریچھ ایران میں لاوارث اور انتہائی کم عمری میں ملا تھا۔ اس کے بعد سے یہ ریچھ دو سال تک فوج میں بحیثیت ایک فوجی کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا۔

ووجٹیک فوجیوں کے ساتھ ہی سوتا، ان کے ساتھ کھیلتا اور لڑائی کے دوران بھاری بھرکم وزن اٹھاتا۔ یہ ریچھ فوجیوں کیلئے ایک فیملی ممبر کی طرح ہوگیا تھا۔ جب مصر سے پولینڈ کی فوج اٹلی کیلئے روانہ ہونے لگی تو ریچھ کو خصوصی طور پر بحیثیت فوجی بھرتی کیا گیا۔

ووجٹیک فوجیوں کے ساتھ فٹبال کھیلتا، کوئی بڑا آتا تو اسے سیلوٹ کرتا اور جنگ کے دوران اصلحے کا سازو سامان فوجیوں کو بہم پہنچاتا۔

ایک سال بعد جب جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تو ووجٹیک کی آخری قیام گاہ اسکاٹ لینڈ میں ایڈنبرگ کا ایک چڑیاگھر بنا۔ جہاں وہ کافی عرصے رہا۔ اس کے سابق فوجی ساتھی وہاں اس سے ملنے آتے اور اس کے ساتھ وقت بتاتے۔ 1963 میں 21 سال کی عمر میں ووجٹیک کی وفات ہوئی اور برطانوی نیشنل براڈکاسٹر نے یہ نیوز سنائی، “افسوس کے ساتھ ، پولینڈ کے ایک مشہور فوجی کا انتقال ہوگیا ہے”۔
https://www.express.pk/story/2264322/509/



پاکستان انڈر 19 ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا
Dec 27, 2021 | 18:32:PM



دبئی(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان یو اے ای کو شکست دیکر انڈر19 ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

پاکستان کی ٹیم لیگ میچز میں ناقابل شکست رہی، پاکستان نے اپنے تینوں میچز میں فتح حاصل کی۔ پاکستان نے لیگ میچز میں یو اے ای، افغانستان اور بھارت کو شکست دی۔آج کھیلے جانے والے میچ میں یوا ے ای کی ٹیم 220 رنز کے تعاقب میں 198 رنز بناسکی۔پاکستان کی جانب سے کپتان قاسم اکرم نے 50 رنز کی اننگز کھیلی اور تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔بہترین پرفارمنس پر ان کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔
https://dailypakistan.com.pk/27-Dec-2021/1382998?fbclid=IwAR0dYAnOZjEg62kjyCB1FQpM8ETLU54fFix39CevQd6eodecSlm1Dg9qwcw



برازیل میں ایک شخص نے زمین سے 6ہزارفٹ سے بھی زیادہ بلندی پردوگرم ہوا کے غباروں کے درمیان تنی رسی پرچل کرنیا ریکارڈ بنا ڈالا۔

برازیل کے34 سال کے خطروں کے کھلاڑی رافیل بریڈی نے دبئی میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ کی لمبائی سے بھی دگنی بلندی پرگرم ہوا کے دوغباروں کے بیچ میں تنی رسی پرچل کرنیا ریکارڈ قائم کردیا۔

رافیل نے 6ہزار131 فٹ کی بلندی پرتنی رسی پرچل کر ریکارڈ بنایا جبکہ برج خلیفہ کی اونچائی 2ہزار722فٹ ہے۔

نئے اورپرخطرتجربات کے شوقین رافیل کا کہنا تھا کہ گرم ہوا کے غباروں کے درمیان تنی رسی پرچلنے کا مقصد اتنی بلندی پرتیرنےجیسے احساس کی سنسی اورآزادی کومحسوس کرنا تھا۔میرے ساتھ میری مہم میں پوری ٹیم کام کرتی جو موسم اوردیگرامورسے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2264184/509/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/28122021/P3-Lhr-001.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/28122021/P1-Lhr-015.jpg



پاکستان کے لئے بڑا اعزاز ،قطر کی عالمی تنظیم نے پاکستانی پروفیسر کو اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے منتخب کر لیا
Dec 26, 2021 | 20:16:PM



لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)دینی اور ادبی کتب کے عربی سے اردو ترجمے کے بین الاقوامی مقابلے میں پاکستانی پروفیسر ایوارڈ کے لئے منتخب کر لئے گئے ہیں ،قطر کی بین الاقوامی تنظیم ’جائزہ حمد الترجمہ التفاہم الدولیٰ ‘کی جانب سے گورنمنٹ اصغر مال کالج راولپنڈی کے پرنسپل اور جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم مرحوم کے صاحبزادے اور مولانا عبدالعلیم یزدانی مرحوم کے بھتیجے ڈاکٹر عبدالکبیر محسن کو اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے منتخب کرلیا ہے ،ڈاکٹر عبد الکبیر محسن کو ان کی 13جلدوں پر مشتمل کتاب ’توفیق الباری‘پر ایوارڈ کے لئے چنا گیاہے جو بخاری شریف کی شرح ابن حجرؒ کی کتاب ’فتح الباری ‘کا ترجمہ ہے۔

ڈاکٹر عبد الکبیر محسن نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی میں ماسٹر کیا اور وہیں شعبہ عربی میں 16سال تک خدمات سرانجام دیں ،بعد ازاں وہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات کئے گئے ،ڈاکٹر عبدالکبیر محسن نے پی ایچ ڈی کی ڈگری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے مکمل کی ۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر،ناظم اعلی سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نےاس اعزاز پرڈاکٹر عبدالکبیرمحسن کو مبارکباد پیش کرتےہوئےدعا کی ہے کہ اللہ تعالی ان سے اشاعت دین کا مزید کام لے ۔ڈاکٹر عبدالکبیر محسن جمعیت طلبہ اہل حدیث کے سابق صدر معروف شاعر پروفیسر احمد ساقی کے بھانجے،ڈاکٹر حافظ عبدالوحید (امریکہ)کے بھائی،صدارتی ایوارڈ یافتہ قاری نوید الحسن لکھوی،معروف سکالر ڈاکٹر رانا تنویر قاسم،پرنسپل تاندلیانوالہ کالج ڈاکٹر عتیق امجد، عالمی انعام یافتہ قاری سلمان محموداورقاری عبدالرحمن حامد کے کزن ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/26-Dec-2021/1382626?fbclid=IwAR3dcAHq3QJ28ThypBOAM2jBhN_o8Rx_ahKOGNALBdlk0CfmR8CQJf10p1M




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/27122021/bp-lhe-023.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/27122021/P3-Lhr-003.jpg



دنیا بھر میں کرسمس آج جوش و خروش سے منائی جائیگی



هفته 25 دسمبر 2021ء

لاہور، کراچی ، اسلام آباد (نمائندہ خصوصی سے ، سٹاف رپورٹر) پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج کو حضرت عیسی ؑ( یسوع مسیح) کی پیدائش کا دن ’’کرسمس ‘‘ تہوار روایتی جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں، ملک میں اس حوالے سے سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں 25دسمبر کو بڑے دن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھی اہم ترین گرجا گھروں میں خصوصی عبادات کی محافل سے کرسمس منانے کا سلسلہ شروع ہوگیاہے ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی مسیحی برادری کو کرسمس کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے مسیحی برادری کی ملک کے لئے خدمات کو سراہا ۔وزیراعظم عمران خان نے کرسمس کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر کی عیسائی برادری کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے ۔ مسیحی برادری کی ملک کے لئے مخلصانہ اور گراں قدر خدمات ہمیشہ قابل تحسین رہی ہیں۔ حکومت پاکستان تمام اقلیتوں کو حاصل حقوق اور مراعات کا تحفظ جاری رکھے گی۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول نے دنیا بھر میں مسیحی برادری کو کرسمس مبارکباد پیش کی اور کہا ہے کہ بطور تمام پاکستانیوں کی نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی بلاتفریق پسماندہ طبقات اور غریبوں کے حقوق کی جدوجہد میں ہمیشہ صفِ اول میں رہی ۔ دیگر رہنماؤں نے بھی مسیحی برادری کو مبارکباد پیش کی ۔
https://www.roznama92news.com/%D8%A8%D8%B1-%D9%85%DA%BA-%D8%B1%D8%B3-%D8%AC-%D8%AC%D9%88



قائد اعظم ؒ کا یوم پیدائش ملی جوش و جذبہ سے منایا گیا، عسکری، سیاسی و سماجی شخصیات کی مزار پر حاضری



اتوار 26 دسمبر 2021ء

لاہور،ملتان ، اسلام آباد، راولپنڈی (نمائندہ خصوصی سے ، جنرل رپورٹرز، سپیشل رپورٹر، 92 نیوز رپورٹر) بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا145 واں یوم پیدائش لاہور سمیت ملک بھر میں ہفتہ کو ملی جوش و جذبے سے منایا گیا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مساجد اور مدارس میں ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ قائد کی روح کو ایصال ثواب کے لئے مختلف اداروں، تنظیموں کی جانب سے قرآن خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ کراچی میں مزار قائد ؒ پر عسکری، سیاسی اور سماجی شخصیات نے مزار قائد پر حاضری دی ۔ ٹی وی چینلز، ایف ایم اور ریڈیو پر خصوصی پروگرام نشر کیے گئے ۔مسلح افواج کی جانب سے بابائے قوم کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا ،ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے پیغام میں کہا قوم کی حقیقی کامیابی قائد کے امن و خوشحال پاکستان کے وژن میں پنہاں ہے ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائد اعظم کے یوم ولادت پر اپنے پیغام میں کہا دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کوختم نہیں کرسکتی۔ پوری قوم آج کے دن اس عہد کی تجدید کررہی ہے کہ قائد کی امید، جرات اور اعتماد کے پیغام پر عمل پیرا ہیں۔ سربراہ پاک فضائیہائیرچیف مارشل ظہیر احمد بابرسدھو نے قائداعظم کے یومِ ولادت پر اپنے پیغام میں کہا قائداعظم دور اندیش انسان تھے ۔ انھوں نے اپنے زریں اصولوں اتحاد، ایمان اوریقینِ محکم سے مسلمانان پاک و ہند کو متحد کیا اورایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ائیر فورس کو قائد کے تصور سیکنڈ ٹو نن کے عین مطابق دنیا کی غیر یقینی صورتحال میں ہمیں استعداد بڑھانی ہوگی۔ پاک فضائیہ کی جانب سے بانی پاکستان کے یوم پیدائش پر مختصر دورانیے کی دستاویزی فلم کا اجرا کیا گیا۔ مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد کی گئی۔ پی ایم اے کے کیڈٹس نے مزار قائد پر سکیورٹی کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات اور ذیلی اداروں کے زیر اہتمام قائداعظم کی سالگرہ کے حوالے سے لائٹ شو منعقد ہوا۔
https://www.roznama92news.com/2-%D9%85%D9%84%DB%8C-%D8%AC%D9%88%D8%B4-%D9%88-%D8%AC%D8%B0%D8%A8%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%86%D8%A7%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B9%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D9%88-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%AC%DB%8C-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B2%D8%A7%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%D8%AD%D8%A7%D8%B6%D8%B1%DB%8C




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/26122021/p6-lhe-039.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/26122021/p5-lhe-008.jpg



نیویارک سٹی: سٹی کالج آف نیویارک میں پروفیسر ڈاکٹر مینن کے نام بھیجے گئے ایک پُراسرار پیکٹ سے 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر برآمد ہوئے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سٹی کالج آف نیویارک کے شعبہ طبیعات کے سربراہ ڈاکٹر مینن کے نام گزشتہ برس ایک پیکٹ موصول ہوا تھا جو وبا کے دوران جامعہ کے بند ہونے کے باعث پروفیسر صاحب تک نہیں پہنچ سکا تھا۔

یہ پیکٹ ایک سال سے زائد عرصے تک جامعہ کے ڈاک کے کمرے میں پڑا رہا تھا۔ حال ہی میں یونیورسٹی کھلی تو عملے نے پیکٹ کو پروفیسر صاحب تک پہنچایا۔ پیکٹ میں ایک لاکھ 80 ہزار مالیت کے 50 اور 100 ڈالر کرنسی نوٹوں کے بنڈل تھے۔

پیکٹ سے ملنے والے ایک خط کے مطابق ڈالرز بھیجنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسی کالج میں فزکس اور ریاضی کا سابق طالب علم ہے جو اب ایک کامیاب سائنس دان بن چکا ہے اور یہ رقم ضرورت مند طلبا کو عطیہ کرنا چاہتا ہے۔

تاہم جب ڈاکٹر مینن نے ماضی کے ریکارڈ چیک کیے تو اس نام کا کوئی بھی طالب علم سٹی کالج میں زیر تعلیم نہیں رہا تھا جس کا مطلب ہے کہ ضرورت مند طلبا کی مدد کرنے والا اپنا نام صیغہ راز میں رکھنا چاہتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2263582/509/



خوشبووٴں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 برس بیت گئے، مگر ان کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔

نامور شاعرہ کی زندگی اور شاعری پر ایک نظر

محبتوں اور خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 سال بیت گئے ہیں لیکن اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے آج بھی انہیں نہیں بھولے۔

انکی شاعری کی خوشبو نے کئی عشروں بعد بھی گلشن ادب کو مہکا رکھا ہے۔ اردو ادب کے منفرد لہجے کی حامل پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔

انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سی سی ایس کیا اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں، انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دئیے۔

پروین شاکر کی شاعری اردو ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا ان کی منفرد شاعری کا موضوع عورت اور محبت رہا، ان کے مجموعہ کلام میں ’خوشبو‘، ’صد برگ‘، ’خود کلامی‘، ’انکار‘ اور ’ماہ تمام‘ قابل ذکر ہیں۔

منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں انہوں نے اندرون اور بیرون ملک بے پناہ شہرت حاصل کرلی تھی، انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور آدم جی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

اردوادب کومہکانے اور ادبی محفلوں میں اشعار کی خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سکیٹر ایچ ایٹ میں پروین شاکرکی آخری آ رامگاہ پہ شائقین ادب بڑی تعداد میں آکر انہیں سلامی پیش کرتے ہیں۔

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے

اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے

رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے

بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے

پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے

تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے

روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے
https://www.express.pk/story/2263558/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/22122021/P6-Lhr-048.jpg



امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) ڈیموکریٹ جماعت کی مسلمان رکن کانگریس 14 دسمبر کو اس وقت پھر خبروں کی زینت بن گئیں، جب ان کا اسلاموفوبیا کے خلاف بل نہ صرف منظور ہوا، بلکہ وائٹ ہائوس نے بھی اس بل کی حمایت کر دی۔

ماضی میں انھیں اپنے مسلمان ہونے کی بنا پر سخت رویوں اور تنقید کا سامناکرنا پڑا ہے، یہاں تک کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان پر طنز کے نشتر برساتے تھے۔۔۔ اس بل پر بحث کے دوران بھی رپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس اسکاٹ پیری نے غلط طور پر یہ دعویٰ کیا کہ الہان عمر کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے۔ پھر ایسے الفاظ کانگریس کی کارروائی سے حذف کرنا پڑ گئے۔

الہان عمر کے اس بل پر بحث کے دوران ریپبلکن پارٹی کے رکن اسکاٹ پیری نے کہا تھا کہ امریکی عوام کا پیسہ ان دہشت گرد تنظیموں کو نہیں جانا چاہیے، جن سے اس بل کے معمار منسلک ہیں۔ تاہم کانگریس نے الہان عمر کا پیش کردہ یہ بل منظور کر لیا جس کے حق میں تمام ڈیموکریٹس اور مخالفت میں تمام رپبلکنز نے ووٹ دیا اور اسکاٹ پیری کے الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے خارج کر دیا گیا۔

الہان عمر امریکی ایوان نمائندگان میں مشہور ’اسکواڈ گروپ‘ کی چار خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان میں راشدہ طلیب اور الہان عمر کو اس وقت امریکی کانگریس کی پہلی مسلم خواتین رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا، جب وہ 2018ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کام یاب ہوئی تھیں۔

راشدہ طلیب میشی گن سے اور الہان عمر مینیسوٹا سے کام یاب ہوئی ہیں، جب کہ الیگزنڈریا اوکاسیو نیویارک سے اور ایانا پیریسلے میساچیوسٹس سے منتخب ہوئیں۔ ان چاروں میں سے تین امریکا میں پیدا ہوئی تھیں جب کہ الہان عمر کی پیدائش صومالیہ میں ہوئی، جس کے بعد کم عمری میں ہی ایک پناہ گزین کے طور پرامریکا چلی آئی تھیں۔ وہ کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام مسلم خاتون ہیں۔

امریکا منتقل ہونے سے قبل الہان عمر کو کینیا کے تارکین وطن کے کیمپ میں بھی رہنا پڑا تھا۔ امریکی کانگریس کے لیے پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کے لیے ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی۔ یہ جیت اس لڑکی کے لیے ہے جسے زبردستی کم عمری میں شادی کرنی پڑی تھی۔ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا۔

ان چاروں خواتین کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس کہا تھا ’’یہ خواتین دراصل ان ممالک سے تعلق رکھتی ہیں جہاں کی حکومتیں مکمل طور پر نا اہل اور تباہی کا شکار ہیں اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ’’یہ خواتین بہت چالاکی سے امریکا کے عوام، جو کرہ ارض پر سب سے عظیم اور طاقتور قوم ہیں، کو بتا رہی ہیں کہ ہمیں حکومت کو کیسے چلانا ہے۔‘‘

امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’’یہ خواتین جہاں سے آئی ہیں وہاں واپس کیوں نہیں چلی جاتیں اور ان مکمل طور پر تباہ حال اور جرائم سے متاثرہ علاقوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کریں اور پھر واپس آکر ہمیں بتائیں کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے۔

الہان عمر اور رشیدہ طلیب فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر یہودی مخالف ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ ان دونوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

مسلمان خاتون رکن الہان عمر کے اس بل کا نام ’بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ‘ ہے، جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا جائے، جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے محکمۂ خارجہ کے علم میں لائے۔

اس نمائندے کی تعیناتی صدر کے ذریعے ہو گی اور واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمۂ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔ یہ بل گذشتہ کئی مہینوں سے ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کمیٹی میں موجود تھا مگر گذشتہ چند دنوں کے واقعات نے اس بل میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

نومبر کے اختتام میں رپبلکن نمائندہ لورین بوبرٹ کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں اْنھوں نے الہان عمر کو ’جہاد سکواڈ‘ کا حصہ کہتے ہوئے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا تھا۔

اْن کا یہ کہنا تھا کہ وہ کانگریس کی ایک لفٹ میں الہان عمر کے قریب اس لیے محفوظ محسوس کر رہی تھیں، کیوں کہ الہان عمر اپنا بیگ زمین پر رکھ کر کہیں بھاگ نہیں رہی تھیں۔ اس کے کچھ دن بعد رپبلکن نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین نے الہان عمر کو ’جہادی‘ قرار دیا۔

چنانچہ گذشتہ دو ہفتوں کے واقعات کے تناظر میں اس بل کی منظوری کو اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں الہان عمر نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایوانِ نمائندگان میں اس بل کی منظوری دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہے اور ایک مضبوط اشارہ ہے کہ اسلاموفوبیا کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ’نفرت کے خلاف کھڑے ہونے سے آپ حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں، مگر ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ مضبوطی سے کھڑے رہیں۔‘ علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس نے بھی اس بل کی حمایت کی اور کہا کہ آزادی مذہب بنیادی انسانی حق ہے۔ چناں چہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن اس بل کی حمایت کریں گے، مگر اْن تک پہنچنے کے لیے ابھی بھی اس بل کو سینیٹ سے منظور ہونا ہو گا جہاں سو نشستوں میں سے 50 رپبلکنز کے پاس، 48 ڈیموکریٹس کے پاس اور دو نشستیں آزاد اْمیدواروں کے پاس ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق الہان عمر نے کہا کہ ’ہم مسلم مخالف تشدد میں بے انتہا اضافے میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسلاموفوبیا اپنی نوعیت میں عالمی معاملہ ہے اور ہمیں اس کے خلاف عالمی کوششیں کرنی ہوں گی۔‘
https://www.express.pk/story/2261375/10/



سنگاپور میں جاری گلوبل ای اسپورٹس گیم 2021 کے مقابلوں میں پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کرلی ہے۔

گلوبل ای اسپورٹس گیم 2021 سنگاپور کے مقابلوں میں خیبر پختونخوا کے کھلاڑی احمد شاہد نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ اپنے نام کرلیا۔

احمد شاہد نے پاکستان کی جانب سے ای گیمز میں نمائندگی کی، اسٹریٹ فائٹر گیم میں 22 ممالک کے کھلاڑی شریک ہوئے جس میں احمد شاہد نے عالمی سطح پر تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ جیتا۔

نظامت امور نوجوانان خیبر پختونخوا اور پاکستان ای اسپورٹس فیڈریشن نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ای گیمز میں کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے خصوصی سیل بنائے جا رہے ہیں، دوسرے کھیلوں کی طرح ای گیمنگ میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2261620/16/



کامن ویلتھ گیمز : پاکستانی ویٹ لفٹر نے بھارتی حریف کو ہرا کر کوالیفائی کرلیا
Dec 18, 2021 | 10:03:AM



تاشقند(ویب ڈیسک) پاکستان کے نوح دستگیر بٹ نے بھارتی ویٹ لفٹر کو ہرا کر کامن ویلتھ گیمز کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

کامن ویلتھ گیمز کی کوالیفکیش چیمپیئن شپ میں 109 کلو گرام پلس کیٹگری میں نوح دستگیر بٹ نے شاندار پرفارمنس دیتے ہوئے بھارت کے گردیپ سنگھ کو چمپئین شپ میں ہرا کر دوسری پوزیشن لی۔ اس طرح کامن ویلتھ گیمز کے لیے نوح دستگیر بٹ نے نا صرف کوالیفائی کیا بلکہ گیمز میں گولڈ میڈل کے مضبوط امیدوار بھی بن گئے ہیں۔ ازبکستان میں تعینات ایمبسڈر سید علی اسد گیلانی نے پورا مقابلہ دیکھا۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Dec-2021/1379488?fbclid=IwAR1s6kVs8HwlfUCpYp-59xxwFOdJ0vnLjMg-dsmLodw1LQ3IYg1OygumO1M




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108885195&Issue=NP_PEW&Date=20211219




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/20122021/P1-Lhr-017.jpg



پاکستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان باکسر نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کر دیا
Dec 16, 2021 | 12:17:PM



دبئی (ویب ڈیسک) پاکستان کے ابھرتے نوجوان باکسر آصف ہزارہ نےانٹرنیشنل باکسنگ میلے میں ٹائٹل اپنے نام کر کے ملک کا نام روشن کردیا ہے۔

دبئی میں منعقد کیے جانے والے انٹرنیشنل باکسنگ میلے میں پاکستان کے آصف ہزارہ نے یوگینڈا کے باکسرکو شکست دی اور اے بی ایف ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

دوسری جانب گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے عثمان وزیر ورلڈ باکسنگ کونسل مڈل ایسٹ چیمپئن بن گئے ہیں۔

ایشین باکسنگ چیمپئن عثمان وزیر ڈبلیو بی سی مڈل ایسٹ ٹائٹل کےلیے رنگ میں اتریں گے، اس دوران عثمان وزیر کا ٹاکرا تنزانیہ کے باکسر روسٹا کے ساتھ ہو گا۔
https://dailypakistan.com.pk/16-Dec-2021/1378686?fbclid=IwAR0qYMxwBBfSSaJPKXs-ZsdVvMv6XQsI7CiH00yTJz-RhB2ReV78kFJXJo0




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877171&Issue=NP_PEW&Date=20211216




https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-12-16&edition=KCH&id=5880356_52036563




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877041&Issue=NP_PEW&Date=20211216




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877040&Issue=NP_PEW&Date=20211216




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877039&Issue=NP_PEW&Date=20211216






https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877038&Issue=NP_PEW&Date=20211216




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108877031&Issue=NP_PEW&Date=20211216




https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-12-16&edition=KCH&id=5880358_24048704




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/15122021/p1-lhr043.jpg



وزیراعظم عمران خان 2021 میں سب سے زیادہ سراہے جانے والے افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

برطانوی تنظیم کے سروے کے مطابق وزیراعظم عمران خان 2021 میں سب سے زیادہ سراہے جانے والی شخصیات میں شامل ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی بھی فہرست کا حصہ ہیں۔

سب سے زیادہ سراہے جانے والی شخصیات میں مردوں کی فہرست میں سابق امریکی صدر براک اوباما بدستورپہلے نمبر پرہیں۔بل گیٹس دوسرے اورچینی وزیراعظم شی جن پنگ تیسرے نمبرپرہیں۔

وزیراعظم عمران خان اورملالہ یوسفزئی 2018 اور2019 میں بھی سب سے زیادہ سراہے جانے والی شخصیات میں شامل تھے۔
سابق امریکی صدربراک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما سال 2021 کی سب سے زیادہ سراہے جانے والی خواتین میں سرفہرست ہیں۔ دوسری پوزیشن ہالی وڈ کی اداکارہ اورانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی اینجلینا جولی کی ہے جبکہ تیسرا نمبر ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کا ہے۔

2021 میں سب سے زیادہ سراہے جانے والے افراد کی فہرست میں ملالہ یوسفزئی 9 ویں اوربالی وڈ کی اداکارہ پریانکا چوپڑہ 10 ویں نمبرپرہیں۔ سابق مس ورلڈ اوربالی وڈ اسٹارایشوریہ رائے بچن، بھارتی کرکٹرسچن ٹنڈولکر اورفٹ بالرکرسٹیانو رونالڈو بھی سراہے جانے والوں میں شامل ہیں۔

سروے کے لئے 38ممالک میں 42 ہزارافراد سے رائے لی گئی تھی۔
https://www.express.pk/story/2259051/1/



آرمی میوزیم میں تحریک آزادی، قیام پاکستان، پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی گئی جنگوں، دہشت گردی کیخلاف جنگ سمیت پاک فوج کے شہدا اور سپہ سالاروں سے متعلق کئی گیلریاں اور ڈسپلے ہیں لیکن ایک گیلری میں 1971ء کی جنگ کے پس منظر، پاک فوج کی بہادری، شجاعت اور قربانیوں کی منظر کشی کی گئی ہے۔

اس خاص گیلری میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر، بھارت کی طرف سے بنائی گئی مکتی باہنی کی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپوں کی تفصیلات اور اس معرکے میں بے مثال بہادری کے ساتھ پاک سرزمین کے تحفظ کے لئے جان قربان کرنیوالے پاکستان آرمی کے ان افسروں کے بھی ڈیوراما بنائے گئے ہیں جنہیں نشان حیدرسے نوازاگیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان آرمی کے چارافسروں کوان کی بے مثال بہادری، شجاعت اور قربانی پر پاکستان آرمی کے سب سے بڑے فوجی اعزازنشان حیدرسے نوازاگیا تھا۔



میجر محمد اکرم نے مشرقی پاکستان میں دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،ان کی بہادری اورشجاعت پرانہیں نشان حیدرسے نوازاگیا۔ میجرشبیرشریف نے سلمانیکی سیکٹرمیں بھارتی فوج کے میجرنارائن سنگھ کودست بدست لڑائی میں شکست دی اورپھراسی کی مشین گن سے اسے ہلاک کردیاتھا۔دشمن کاجنگی سامان بھی قبضے میں لیا۔ان کی بے مثال جرات، قربانی اورشجاعت پرنشان حیدردیاگیا، سوارمحمدحسین نے شکرگڑھ سیکٹرمیں جوانمردی سے دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،یہ پاک فوج کے پہلے سپاہی تھے جنہیں نشان حیدرسے نوازگیا۔لانس نائیک محمدمحفوظ شہید نے لاہورکے محاذ پرشدیدزخمی ہونے کے باوجوددشمن کے مورچے میں گھس کراسے تباہ کیا۔ انہیں بھی نشان حیدرسے نوازاگیا۔



آرمی میوزیم دیکھنے آنیوالے شہری پاک فوج کی شجاعت ،بہادری اورقربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے شہریوں کا کہنا تھا ان مناظرکودیکھ کرتفصیلات جان کراپنی فوج کی بہادری، شجاعت اورقربانیوں پررشک آتا ہے، یہ میوزیم ہمیں پمارے شاندارماضی کی یاددلاتاہے۔ پاک فوج نے اس پاک سرزمین کے لئے کس قدرقربانیاں دی ہیں۔ بیرون ملک سے آئی ہوئی ایک طالبہ فاطمہ کاکہنا تھا انہوں نے پاکستان اورانڈیا کے مابین لڑی گئی جنگوں سے متعلق کتابوں میں پڑھا تھا یاپھراپنے بزرگوں سے واقعات سنے تھے لیکن آج یہاں میوزیم میں ان ماڈلز کے ذریعے ان مناظرکودیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ اس ملک کے قیام کے لئے لوگوں نے کس قدرقربانیاں دی ہیں، پاک فوج نے کس طرح بھارتی فوج کامقابلہ کیا۔ کئی شہریوں نے انیس سوپیسٹھ اورانیس سواکتہر کی جنگوں کے دوران قبضے میں لئے گئے بھارتی فوج کے تین ٹینکوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔



آرمی میوزیم انتظامیہ کے مطابق قبضے میں لئے گئے بھارتی فوج کے ٹینکوں پر بھارت کاپرچم الٹابنایاگیاہے،جنگی اصولوں کے مطابق یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ ٹینک جنگ کے دوران قبضے میں لئے گئے تھے۔ یہ ہماری بہادری اورکامیابی کی علامت ہیں۔ بھارتی ٹینکوں کے علاوہ کئی دوسرے جنگی ہتھیاربھی لاہورمیوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ آرمی میوزیم کی زینت بننے سے پہلے یہ ٹینک اوردیگرجنگی ہتھیارمختلف شہروں میں پاکستان آرمی کے پاس محفوظ تھے۔ واضع رہے کہ آرمی میوزیم لاہور میں صرف پاکستان کی بری فوج سے متعلق جنگی سازوسامان،اس کے شہدا اورسربراہان سے متعلق گیلریاں اورڈسپلے کئے گئے ہیں۔




https://www.express.pk/story/2258837/1/



بھارتی پلاسٹک سرجن ڈاکٹر سبود کمار سنگھ عالمی شہرت کےحامل اور بچوں کے مسیحا کہلاتے ہیں۔ اب تک وہ 37 ہزار بچوں میں پیدائشی نقائص کی سرجری کرسکتے ہیں اور یہ کام انہوں نے بلامعاوضہ کیا ہے۔

بچوں میں پیدائشی نقائص ہوتے ہیں جن میں کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو کےمسائل سرِفہرست ہیں۔ ان بچوں کےنقائص کا علاج نہ کیا جائے تو آگے چل کرکئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ایسے بچے عملی زندگی میں تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں اور احساسِ کمتری کے شکار رہتے ہیں۔

اگرچہ پیچیدہ پلاسٹک سرجری سے یہ مسائل ہوسکتے ہیں لیکن تمام والدین اتنی سکت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں کئی ادارے یہ سرجری مفت میں کرتےہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر سبود کمار ہیں جو ہزاروں بچوں کو ان کی مسکراہٹ اور معصومیت لوٹاچکے ہیں۔



اترپردیش کے شہر ویراناسی میں پیدا ہونے والے سبود کمار نے غربت کے ہاتھوں مزدوری کی لیکن بہت مشکل سے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ انہوں نے پلاسٹک سرجرسی میں کمال پیدا کیا ہے۔ ڈاکٹر سبود کے مطابق جن مشکلات سے وہ گزرے ہیں اس کی وجہ سے وہ لوگوں کے مسائل سے خوب آگاہ ہیں۔

ڈاکٹر سبود کمار نے ملک بھر میں مفت طبی کیمپ لگائے اور اس کےبعد بین الاقوامی تنظیموں کی مدد سے اس کا دائرہ کار مزید وسیع ہوا۔ پیدائشی معذوری کی وجہ سے بچے دودھ بھی نہیں پی پاتے اور اسکول جاتے ہوئے بھی جھجھکتے ہیں۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے 2004 میں تنہا اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اسمائل ٹرین نامی ایک تنظیم بنائی ہے جس کی بدولت 37 ہزار بچوں اور بڑوں کا آپریشن کیا جاچکا ہے۔ اس پلیٹ فارم پرسینکڑوں نئے ڈاکٹروں کو بھی تربیت فراہم کی گئی ہے۔

ڈاکٹر کمار کے مطابق ایک بچے کی سرجری سے پورا گھرانہ سکھ کا سانس لیتا ہے اور بہت پراعتماد ہوجاتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2258379/509/



مولانا محمد علی جوہر کی راہ نمائی میں برصغیر جنوبی ایشیا میں چلنے والی تحریک خلافت 20 ویں صدی میں اپنی نوعیت کی منفرد مزاحمتی تحریک تھی، جس کو پر امن طور پر جمہوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے منظم کیا گیا تھا۔

اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور کے انگریز وائسرائے کو برطانوی وزیراعظم لائٹ جارج کو برقی پیغام کے ذریعے کہنا پڑ ا تھا کہ “اگر ترکوں کے حوالے سے برطانوی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو ہندوستان میں ہماری لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا”۔

تحریک کی مقبولیت اور عوام کی شرکت کے جائزہ کے لیے تحریک پاکستان کے بے تیغ سپاہی محمود علی کا یہ بیان اہمیت رکھتا ہے کہ تحریک خلافت میں پورے ہندوستان جس میں ان کا صوبہ آسام بھی شامل تھا، کی مسلم آبادی نے اپنے گلیوں کے موڑ پر بکس رکھ دیے تھے جن میں وہ روز انہ ایک مٹھی چاول یا ایک مٹھی آٹا تحریک کے فنڈ میں اپنے حصے کے طور پر شامل کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد خلافت کا ادارہ تحلیل ہوگیا تھا جس کی بنا پر برصغیر میں خلافت کی تحریک ازخود وقتی طور پر غیرضروری ہوگئی تھی لیکن ناکام نہیں ہوئی تھی۔

مولانا محمد علی جوہر کی مقناطیسی شخصیت کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کی بقاء کے لیے جدوجہد کو اس طور پر ایک کام یاب کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کے دباؤ کے باعث ترکی کا جغرافیائی وجود باقی رہا اور اس ملک کا موجودہ وجود بھی برصغیر کی تحریک خلافت کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں اس میں شامل مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بیشتر ممالک میں یا تو مقامی حکومتیں قائم ہوگئیں یا پھر وہ برطانیہ اور فرانس کے زیرنگیں آگئے۔

مولانا محمد علی جوہر کی اعلٰی شخصیت کے خدوخال کے اظہار کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی مورخ کو پورے براعظم یورپ میں کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نظر نہ آئی جس کے ذریعے مولانا جوہر کی مثال دی جاسکتی، چناںچہ اس معروف تاریخ داں نے مولانا محمد علی کی خطابت کو “برک” ان کی تحریر کو”میکالے” اور ان کی جرأت و حوصلے کو “نپولین” سے تشبیہ دی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق اجاگر کرنے اور اس تناظر میں عوام کو بیدار کرنے میں مولانا محمد علی جوہر کا کردار تاریخ میں نمایاں نظر آتا ہے۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے۔ ان کی تحریک نے استعمار کے خلاف عوام میں شعور پیدا کیا۔ ان کی زیرقیادت عوام نے نوآبادیاتی نظام کو چیلینج کیا اور خود مسلمانوں میں مسلم قومیت کی بنیاد پر قومی تشخص کو فروغ حاصل ہوا جو بعد ازآں تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے متحرک ہونے کا سبب بنا۔

تحقیق و مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کام یابی میں جہاں ایک جانب قائداعظم محمد علی جناح کے تدبروفراست کا اہم عنصر شامل ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت اور اس کو ایک نتیجہ خیز تحریک بنانے میں خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

1937 کے بعد مسلم لیگ کے احیاء میں نئی روح پیدا ہوئی جب وہ چوہدری خلیق الزماں، عبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی جیسے متعدد راہ نماؤں اور کارکنوں، جنہوں نے تحریک خلافت میں اپنی جاںفشانی کا لوہا منوایا تھا، نے قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور خود مولانا محمد علی جوہر کی شریک حیات اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی قائد اعظم کی قیادت میں یک جا ہوگئے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ محض اشرافیہ کی حد تک محدود تھی۔ اس حقیقت کا ذکر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی قائداعظم کے نام اپنے خطوط میں نہایت دردمندی کے ساتھ کیا ہے۔

ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کو قائداعظم کی راہ نمائی میں ایک عوامی جماعت بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کے حل کی جانب توجہ کو وہ ناگزیر سمجھتے تھے۔ چناںچہ 1937 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی جس کے نتیجے میں محض 3 سال کے عرصے میں مارچ 1940 میں لاہور کے عام اجلاس میں مسلم لیگ کو برصغیر کے آئینی معاملات اور مسلمانوں کے حقوق کو منظم اور مربوط طور پر برطانوی حکم رانوں کے سامنے اپنے موقف کو اجتماعی طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ملا۔

مولانا محمد علی جوہر کی برصغیر میں ذاتی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1937 میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر جو پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے ان پر قائد اعظم کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی تصویر اس تحریر کے ساتھ موجود تھی “ملا تخت سیاست۔ محمد علی سے محمد علی کو۔”

بزم بانیان پاکستان کے ایک شریک چوہدری خلیق الزماں کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مولانا محمد علی جوہر کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ خود ذکرِنبیؐ کرتے یا ان کے سامنے کوئی اور رسالت مآب ﷺ کا تذکرہ کرتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے، جس کا سلسلہ تادیر جاری رہتا تھا۔ چوہدری صاحب نے مولانا کی جرأت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ وہ چتوڑ کے قلعے میں نظربند تھے اس موقع پر ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس امر کا تند ہی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہندوستان سے برطانوی راج کے خاتمے کے لیے ہم کس طرح طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی آزادی و حریت سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ آزادی کے علم بردار ہیں خواں وہ کسی اسلامی ملک کی ہو یا کفرستان کے کسی خطے کی۔ جمہور کی رائے کا احترام ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر جمہور کی اکثریت یہ اعلان کرے کہ دو جمع دو تین ہوتے ہیں تو میں ان کی رائے کا احترام کروں گا حالاںکہ علم ریاضی کا کوئی کلیہ اس جواب کو تسلیم نہیں کر تا۔

علامہ اقبال کی طرح مولانا جوہر بھی نوجوانوں میں عقابی روح کی بیداری اور اس کے ذریعے اپنی منزل آسمانوں کی بلندیوں پر دیکھنے کے آرزومند تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نوجوانوں میں اس انقلابی روح کی بیداری کے لیے ایک انقلابی درس گاہ کی ضرورت ہوتی ہے، چناںچہ انہوں نے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں “جامعہ ملیہ” کے نام سے یونیورسٹی قائم کی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ گذشتہ سال جامعہ ملیہ کے طلبہ نے کس حوصلے اور جرأت سے سیاسی جبر کا مقابلہ کیا۔ یہ مولانا محمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مترادف ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد “پین اسلامزم” کے حوالے سے خصوصاً 19ویں اور 20 ویں صدی میں علامہ سید جمال الدین افغانی کے ساتھ مولانا کا نام اور ان کے کارنامے تاریخ کے اوراق پر درخشاں ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ مولانا محمد علی “حجاز مقدس” کے تحفظ اور خدمت کو پورے عالم اسلام کا فریضہ سمجھتے تھے اور اسی لیے معتمر عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر سعودی سلطنت کے بانی عبد العزیز ابن سعود اور عالم اسلام کے دیگر اکابرین کے روبرو انہوں نے اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا جو تاریخ میں رقم ہے۔

مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری1931 کو برطانوی حکومت کی جانب سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں یہ اعلان کرنے کے بعد کہ وہ”آزادی کا پروانہ حاصل کیے بغیر غلام ملک میں جانا پسند نہیں کریں گے۔” اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ارض فلسطین میں واقع مسلمانوں کے تیسرے بڑے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کے جلو میں اور نبیوں کے جھرمٹ میں ابدی نیند سوگئے۔

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
https://www.express.pk/story/2256162/1/



پاک فضائیہ نے 1971 کی جنگ کے غازیوں اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

پاک فضائیہ کے شعبہ تعلقات عامہ نے 1971 کے جنگی کارناموں پر مبنی مختصر دورانیے کی دستاویزی فلم جاری کر دی۔

اس دستاویزی فلم میں 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کے جانباز، ہوابازوں اور جوانوں کے ناقابل فراموش کردار کو اجاگر کیا گیا ہے جنہوں نے دشمن کے خلاف جرات، شجاعت اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں۔

دستاویزی فلم میں اس عہد کی تجدید کی گئی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کے لیے مادرِ وطن کے دفاع کے لیے جان کا نذرانہ دینے سے بڑا کوئی مقدس نصب العین نہیں ہے اور ہمارے شہداء کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔
ہمارے اسلاف کی ان عظیم اور لازوال قربانیوں کو تاریخ کے جلی حروف میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
https://www.express.pk/story/2258561/1/



پاک فضائیہ کی جانب سے 1971 کی جنگ میں شہادت پانے والے فلائنگ آفیسر نسیم نثار بیگ شہید تمغہ جرأت کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق جنگ کے ہیرو فلائنگ آفیسر نسیم نثار بیگ شہید کے جنگی کارناموں پر مختصر دورانیے کی دستاویزی فلم جاری کردی گئی۔ پاک فضائیہ کے شعبہ تعلقات عامہ کی اجراء کردہ دستاویزی فلم میں قوم کے بہادر سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

دستاویزی فلم میں فلائنگ آفیسر نسیم نثار کی بےمثال جرات، پیشہ ورانہ مہارت اور حربی صلاحیتوں کو اجاگر کیا گیا۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق فلائنگ آفیسر نسیم نثار بیگ شہید دفاع وطن کے لیے ہمہ وقت سینہ سَپر رہے، فلائنگ آفیسر نسیم وطن عزیز کی عظیم قربانی دیتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے۔
https://www.express.pk/story/2258090/1/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/13122021/p1-lhr011.jpg





https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/13122021/p1-lhr013.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/13122021/P6-Lhr-013.jpg




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108870970&Issue=NP_PEW&Date=20211213



مولانا محمد علی جوہر کی راہ نمائی میں برصغیر جنوبی ایشیا میں چلنے والی تحریک خلافت 20 ویں صدی میں اپنی نوعیت کی منفرد مزاحمتی تحریک تھی، جس کو پر امن طور پر جمہوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے منظم کیا گیا تھا۔

اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور کے انگریز وائسرائے کو برطانوی وزیراعظم لائٹ جارج کو برقی پیغام کے ذریعے کہنا پڑ ا تھا کہ “اگر ترکوں کے حوالے سے برطانوی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو ہندوستان میں ہماری لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا”۔

تحریک کی مقبولیت اور عوام کی شرکت کے جائزہ کے لیے تحریک پاکستان کے بے تیغ سپاہی محمود علی کا یہ بیان اہمیت رکھتا ہے کہ تحریک خلافت میں پورے ہندوستان جس میں ان کا صوبہ آسام بھی شامل تھا، کی مسلم آبادی نے اپنے گلیوں کے موڑ پر بکس رکھ دیے تھے جن میں وہ روز انہ ایک مٹھی چاول یا ایک مٹھی آٹا تحریک کے فنڈ میں اپنے حصے کے طور پر شامل کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد خلافت کا ادارہ تحلیل ہوگیا تھا جس کی بنا پر برصغیر میں خلافت کی تحریک ازخود وقتی طور پر غیرضروری ہوگئی تھی لیکن ناکام نہیں ہوئی تھی۔

مولانا محمد علی جوہر کی مقناطیسی شخصیت کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کی بقاء کے لیے جدوجہد کو اس طور پر ایک کام یاب کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کے دباؤ کے باعث ترکی کا جغرافیائی وجود باقی رہا اور اس ملک کا موجودہ وجود بھی برصغیر کی تحریک خلافت کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں اس میں شامل مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بیشتر ممالک میں یا تو مقامی حکومتیں قائم ہوگئیں یا پھر وہ برطانیہ اور فرانس کے زیرنگیں آگئے۔

مولانا محمد علی جوہر کی اعلٰی شخصیت کے خدوخال کے اظہار کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی مورخ کو پورے براعظم یورپ میں کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نظر نہ آئی جس کے ذریعے مولانا جوہر کی مثال دی جاسکتی، چناںچہ اس معروف تاریخ داں نے مولانا محمد علی کی خطابت کو “برک” ان کی تحریر کو”میکالے” اور ان کی جرأت و حوصلے کو “نپولین” سے تشبیہ دی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق اجاگر کرنے اور اس تناظر میں عوام کو بیدار کرنے میں مولانا محمد علی جوہر کا کردار تاریخ میں نمایاں نظر آتا ہے۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے۔ ان کی تحریک نے استعمار کے خلاف عوام میں شعور پیدا کیا۔ ان کی زیرقیادت عوام نے نوآبادیاتی نظام کو چیلینج کیا اور خود مسلمانوں میں مسلم قومیت کی بنیاد پر قومی تشخص کو فروغ حاصل ہوا جو بعد ازآں تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے متحرک ہونے کا سبب بنا۔

تحقیق و مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کام یابی میں جہاں ایک جانب قائداعظم محمد علی جناح کے تدبروفراست کا اہم عنصر شامل ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت اور اس کو ایک نتیجہ خیز تحریک بنانے میں خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

1937 کے بعد مسلم لیگ کے احیاء میں نئی روح پیدا ہوئی جب وہ چوہدری خلیق الزماں، عبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی جیسے متعدد راہ نماؤں اور کارکنوں، جنہوں نے تحریک خلافت میں اپنی جاںفشانی کا لوہا منوایا تھا، نے قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور خود مولانا محمد علی جوہر کی شریک حیات اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی قائد اعظم کی قیادت میں یک جا ہوگئے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ محض اشرافیہ کی حد تک محدود تھی۔ اس حقیقت کا ذکر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی قائداعظم کے نام اپنے خطوط میں نہایت دردمندی کے ساتھ کیا ہے۔

ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کو قائداعظم کی راہ نمائی میں ایک عوامی جماعت بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کے حل کی جانب توجہ کو وہ ناگزیر سمجھتے تھے۔ چناںچہ 1937 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی جس کے نتیجے میں محض 3 سال کے عرصے میں مارچ 1940 میں لاہور کے عام اجلاس میں مسلم لیگ کو برصغیر کے آئینی معاملات اور مسلمانوں کے حقوق کو منظم اور مربوط طور پر برطانوی حکم رانوں کے سامنے اپنے موقف کو اجتماعی طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ملا۔

مولانا محمد علی جوہر کی برصغیر میں ذاتی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1937 میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر جو پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے ان پر قائد اعظم کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی تصویر اس تحریر کے ساتھ موجود تھی “ملا تخت سیاست۔ محمد علی سے محمد علی کو۔”

بزم بانیان پاکستان کے ایک شریک چوہدری خلیق الزماں کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مولانا محمد علی جوہر کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ خود ذکرِنبیؐ کرتے یا ان کے سامنے کوئی اور رسالت مآب ﷺ کا تذکرہ کرتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے، جس کا سلسلہ تادیر جاری رہتا تھا۔ چوہدری صاحب نے مولانا کی جرأت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ وہ چتوڑ کے قلعے میں نظربند تھے اس موقع پر ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس امر کا تند ہی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہندوستان سے برطانوی راج کے خاتمے کے لیے ہم کس طرح طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی آزادی و حریت سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ آزادی کے علم بردار ہیں خواں وہ کسی اسلامی ملک کی ہو یا کفرستان کے کسی خطے کی۔ جمہور کی رائے کا احترام ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر جمہور کی اکثریت یہ اعلان کرے کہ دو جمع دو تین ہوتے ہیں تو میں ان کی رائے کا احترام کروں گا حالاںکہ علم ریاضی کا کوئی کلیہ اس جواب کو تسلیم نہیں کر تا۔

علامہ اقبال کی طرح مولانا جوہر بھی نوجوانوں میں عقابی روح کی بیداری اور اس کے ذریعے اپنی منزل آسمانوں کی بلندیوں پر دیکھنے کے آرزومند تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نوجوانوں میں اس انقلابی روح کی بیداری کے لیے ایک انقلابی درس گاہ کی ضرورت ہوتی ہے، چناںچہ انہوں نے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں “جامعہ ملیہ” کے نام سے یونیورسٹی قائم کی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ گذشتہ سال جامعہ ملیہ کے طلبہ نے کس حوصلے اور جرأت سے سیاسی جبر کا مقابلہ کیا۔ یہ مولانا محمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مترادف ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد “پین اسلامزم” کے حوالے سے خصوصاً 19ویں اور 20 ویں صدی میں علامہ سید جمال الدین افغانی کے ساتھ مولانا کا نام اور ان کے کارنامے تاریخ کے اوراق پر درخشاں ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ مولانا محمد علی “حجاز مقدس” کے تحفظ اور خدمت کو پورے عالم اسلام کا فریضہ سمجھتے تھے اور اسی لیے معتمر عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر سعودی سلطنت کے بانی عبد العزیز ابن سعود اور عالم اسلام کے دیگر اکابرین کے روبرو انہوں نے اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا جو تاریخ میں رقم ہے۔

مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری1931 کو برطانوی حکومت کی جانب سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں یہ اعلان کرنے کے بعد کہ وہ”آزادی کا پروانہ حاصل کیے بغیر غلام ملک میں جانا پسند نہیں کریں گے۔” اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ارض فلسطین میں واقع مسلمانوں کے تیسرے بڑے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کے جلو میں اور نبیوں کے جھرمٹ میں ابدی نیند سوگئے۔

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
https://www.express.pk/story/2256162/1/



ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ ، پاکستان کے طلحہ طالب نے تاریخ رقم کردی
Dec 10, 2021 | 19:47:PM



تاشقند(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستانی ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ جیت کر تاریخ رقم کردی ہے۔



تاشقند میں جاری ویٹ لفٹنگ ورلڈ چیمپئن شپ میں پاکستانی ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے 67کلوگرام کی سنیچ کیٹیگری میں 143کلو گرام وزن اٹھاکر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ایونٹ میں پاکستان کے لیے پہلا میڈل جیتنے میں کامیاب رہے تاہم پاکستانی ویٹ لفٹر کلین اینڈ جرک میں مقابلہ مکمل نہ کرسکے۔واضح رہے کہ ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کا یہ پہلا تمغہ ہے۔


https://dailypakistan.com.pk/10-Dec-2021/1376278?fbclid=IwAR0mhbivXWxeHOydi5GgPGK8vRWriQnr3jg3w2LkAjHvp39vD6ff4tLIWHs



پاکستانی نژاد نوجوان معروف فٹ بال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کا حصہ بن گیا
Dec 10, 2021 | 19:57:PM



لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستانی نژاد برطانونی نوجوان زیدان اقبال مانچسٹر یونائیٹڈ کی سینیئر ٹیم کا حصہ بن گئے ہیں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے جنوبی ایشیائی اور پاکستانی نژاد کھلاڑی ہیں۔

واضح رہے کہ مانچسٹر یونائیٹڈ کی ٹیم چیمپیئنز لیگ کے ناک آؤٹ سٹیج تک پہنچ چکی ہے۔ زیدان اقبال سوئٹزر لینڈ کی ٹیم ینگ بوائز کے خلاف میچ کا حصہ بنے تاہم کہ یہ میچ ایک، ایک گول سے برابر رہا۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق زیدان اقبال مڈ فیلڈر کی حیثیت سے کھیلتے ہیں انکا تعلق مانچسٹر سے ہے۔زیدان اقبال کے والد پاکستانی جبکہ والدہ عراقی ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Dec-2021/1376280?fbclid=IwAR1OatAPTnaKRmnMJczE08FvoKDtHIza_FupJLVu18eZji3jKvUrA4hlVlM



شمالی شام میں ایک ٹانگ والے کنگ فو ماسٹر نے ساری دنیا کو حیران کرکے ثابت کیا ہے کہ ہمت و حوصلے کے ساتھ کسی بھی معذوری کو شکست دی جاسکتی ہے۔

فاضل عثمان نامی 24 سالہ نوجوان کو بچپن ہی سے مارشل آرٹ کا شوق تھا اور وہ 12 سال کی عمر سے کنگ فو سیکھ رہا تھا۔ وہ شمالی شام کے ابزیمو شہر کا رہائشی ہے جہاں باغی افواج قابض ہیں۔



لیکن 2015 میں باغیوں اور شام کی سرکاری فوج میں جھڑپوں کے دوران اس کی ایک ٹانگ شدید زخمی ہوگئی جسے بالآخر کاٹ دیا گیا۔

مزید علاج کی غرض سے اس نے تین سال ترکی میں بھی گزارے جہاں اس نے مارشل آرٹ بالخصوص کنگ فو کے استادوں سے تربیت حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔



ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود، عثمان نے ہمت نہ ہاری اور کنگ فو کی مشق جاری رکھتے ہوئے اپنے ہنر کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

شام واپس پہنچنے کے بعد عثمان نے اپنے شوق کی تکمیل میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ابزیمو میں ایک مارشل آرٹ اسکول کھول لیا جہاں وہ بچوں کو کنگ فو کی تربیت دیتا ہے۔



یہاں تقریباً 100 بچے اس سے کنگ فو سیکھ رہے ہیں جن کی بڑی تعداد ایسے یتیموں پر مشتمل ہے جو خانہ جنگی کے باعث اپنے والدین کے سائے سے محروم ہوچکے ہیں۔



فاضل عثمان ان بچوں کو کنگ فو سکھانے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا۔



خبر رساں ایجنسی ’’اے ایف پی‘‘ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے عثمان نے بتایا: ’’مجھے یقین ہے کہ یہ بچے ایک دن اتنے ماہر ہوجائیں گے کہ عالمی مقابلوں میں حصہ لے سکیں گے۔‘‘
https://www.express.pk/story/2257156/509/



حضرت شاہ رکن عالم ؒ عرس تقریبات شروع؛ سانحہ سیالکوٹ پر ملک کو بدنام کرنیوالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا: شاہ محمود
هفته 11 دسمبر 2021ء

ملتان(خبر نگار) برصغیر کے عظیم روحانی پیشوا حضرت شاہ رکن عالم سہروردی ملتانی کے 708 ویں 3 روزہ سالانہ عرس کی تقریبات جمعہ کے روز سے ملتان میں شروع ہو گئیں۔عرس کی تقریبات کا باقاعدہ افتتاح گزشتہ روز سجادہ نشین درگاہ عالیہ اور وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے مزار کو غسل اور چادر پوشی سے کیا ۔ سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کے بھائی مخدوم مرید حسین قریشی نے غسل اور چادر پوشی کی تقریب میں شرکت نہیں کی جبکہ ان کے بیٹے نے شرکت کی ہے ۔ ذرائع کے مطابق مطابق مخدوم مرید حسین قریشی نے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کے غسل اور چادر پوشی کر کے چلے جانے کے بعد مزار شریف پر پہنچے چادر چڑھائی اور دعا کی۔ بعد ازاں پاکستان زکریا اکیڈمی کے زیرِ اہتمام دربار کے احاطے میں قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی۔عرس کے دوسرے روز 11 دسمبر ہفتہ کو قومی کانفرنس کی دوسری نشست اور 12 دسمبر کو اختتامی تقریبات ہوں گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب بھی کوئی واقعہ پاکستان میں پیش آتا ہے تو ایک مخصوص طبقہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ہمیں سانحہ سیالکوٹ پر ملک کو بدنام کرنیوالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔ انہو ں نے کہا میں نے سیالکوٹ واقعہ پر سری لنکا کے وزیر خارجہ کو فون کر کے انہیں وزیر اعظم عمران خان کا پیغام دیا اور انہیں یقین دلایا کہ ملزمان کو سخت سزا دی جائے گی ۔ سربراہ اہلسنت والجماعت علامہ مظہر سعید کاظمی نے کہا کہ میں علالت کے باوجود حضرت شاہ رکن عالم کے عرس کی تقریبات میں شرکت کرنے آیا ہوں اور یہاں آنا میری عقیدت میں شامل ہے ۔ سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج میں اولیا اللہ کا اہم کردار ہے ۔تقریب سے پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی‘علامہ محمد فاروق خان سعیدی‘علامہ سید محمد رمضان شاہ فیضی‘ مولانا غلام درویش اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔
https://www.roznama92news.com/%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B4%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D8%AF%D9%86%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%88%DA%BA-%D8%B3%D8%B4%D8%A7%DB%81-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/09122021/P1-Lhr-015.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/09122021/P1-Lhr-044.jpg



ویڈیو گیمز کے عالمی پلیٹ فارم پر اپنا سکہ جمانے والے پاکستانی ارسلان ایش نے سی ای او 2021 چیمپئن شپ میں Tekken 7 گیم کے فائنل میں امریکی حریف ہووا انیکن لو کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔

ای-اسپورٹس ٹاک کی ایک رپورٹ کے مطابق ارسلان ایک بھی گیم ہارے بغیر ہر میچ جیتے گئے۔ ارسلان کا مقابلہ امریکہ کے کچھ سرکردہ کھلاڑیوں کے ساتھ تھا۔



ارسلان ایش کو گیم میں کئی مختلف کرداروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔

CEO 2021 چیمپئن شپ 2020 میں کورونا وبا کے آغاز کے بعد سے پہلا بڑا گیم ٹورنامنٹ تھا۔ یہ فتح ارسلان ایش کی جاپان میں EVO 2019 چیمپئن شپ میں یادگار کارکردگی کے بعد امریکا میں پہلی بڑی جیت ہے۔ یہ دوسرا آف لائن ایونٹ بھی ہے۔ پہلے ایونٹ میں ارسلان نے WePlay الٹیمیٹ فائٹنگ لیگ میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔

واضح رہے کہ CEO 21 میں تازہ ترین جیت سے پہلے ارسلان ایش صدیق نے 2019 میں اپنی کارکردگی کیلئے ‘پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ’ سمیت تین اعلی ای-اسپورٹس ایوارڈز بھی جیت چکے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2256145/508/



صدارتی ایوارڈ یافتہ عزیز میاں قوال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے 21 برس گزر گئے.

عزیز میاں کی قوالیاں میں شرابی میں شرابی، تیری صورت اور اللہ ہی جانے کون بشر ہے آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔ نامور قوال کو فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

تفصیلات کے مطابق عزیز میاں سترہ اپریل 1942 کو بھارتی شہر دہلی میں پیدا ہوئے. انہیں پاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بارعب اور طاقتور آواز کے مالک عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ عظیم فلسفی بھی تھے جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔ ان کا اصل نام عبد العزیز تھا۔ “میاں” ان کا تکیہ کلام تھا جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتے تھے جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔

حکومت پاکستان نے 1989ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000 کو تہران میں یرقان کی وجہ سے ہوا لیکن ان کی گائی گئی قوالیاں آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
https://www.express.pk/story/2255429/24/




https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1108853832&Issue=NP_PEW&Date=20211206




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/12/04122021/P1-LHE-015.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/29112021/P6-Lhr-050.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/25112021/P6-Lhr-029.jpg



ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا عالمی پروگرام، پہلی پاکستانی لڑکی منتخب ، یہ کون ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
Nov 24, 2021 | 18:56:PM


سورس: Facebook

ٹوکیو(مانیٹرنگ ڈیسک)سنہ 2019ءمیں شروع ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے عالمی پروگرام میں رواں سال پہلی پاکستانی لڑکی کو منتخب کر لیا گیا۔

آن لائن نیوز پلیٹ فارم ’جان لو‘ کے مطابق ’ہیروشیما آئی سی اے این (International Campaign to Abolish Nuclear Weapons)اکیڈمی‘ میں 2021ءکے پروگرام کے لیے منتخب ہونے والی اس 25سالہ پاکستانی طالبہ کا نام کومل علی شاہ ہے۔ رواں سال کومل علی شاہ سمیت دنیا بھر سے 41لوگوں کو منتخب کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق آئی سی اے این ایک ایسا بورڈ ہے جو سول سوسائٹی کو جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے متحرک کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پروگرام میں منتخب ہونے کے بعد کومل علی شاہ کا کہنا ہے کہ ”جب بھی ایٹمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، ان میں انسانی پہلو کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ جن جگہوں پر ایٹمی تجربات کیے جاتے ہیں، وہاں ماحول کس طرح تباہ ہوتا ہے، میں اس معاملے پر بھی تحقیق کروں گی۔“
https://dailypakistan.com.pk/24-Nov-2021/1369561?fbclid=IwAR2mwAH3FLmcImlZZCBkpZLofNB4796OVZNyqf-hebmxhnV596S_aLJa8ws




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/24112021/P6-Lhr-034.jpg



خوشبوؤں اورمحبتوں کوشاعری کا پیراہن دینے والی پروین شاکرکا آج69واں یوم پیدائش ہے۔

پروین شاکر24نومبر1954کوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ان کا تعلق ایک علمی اورادبی گھرانے سے تھا جس میں ان سے پہلے بھی کئی مشہورشاعرتھے۔گھرکے ادبی ماحول نے پروین شاکرکومعروف شعرا کے کلام سے روشناس کرایا۔

جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد پروین درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئیں لیکن کچھ عرصے بعد سرکاری ملازمت کرلی اورریڈیوپاکستان کے مختلف پروگراموں میں شریک رہیں۔

کم عمری میں شاعری کا آغازکرنے والی پروین شاکرکوان کے پہلے شعری مجموعے

’’خوشبو‘‘پرآدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے خود کلامی، صد برگ، انکار، ماہ تمام اور کف آئینہ کو بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔

پروین شاکر کے ساتھ دلچسپ اتفاق یہ ہوا کہ 1982 میں جب وہ سینٹرل سپیرئیر سروسزز(سی ایس ایس ) کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے پرچے میں ایک سوال ان کی شاعری سے ہی متعلق تھا۔

پروین شاکرکی شاعری ایک نسل کی نمائندگی کرتی ہے کیونکہ ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ عورت ہے۔ پروین شاکرنے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو نہایت خوبصورتی سے لفظوں کے قالب میں ڈھالا ۔

بلقیس خانم سے لے کرشہنشاہ غزل مہدی حسن تک پروین شاکرکا کلام بہت سے گلوکاروں نے گایا جوبہت مقبول ہوا۔

پروین شاکر26دسمبر1994کوایک روڈحادثے میں خالق حقیقی سے جاملیں لیکن اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
https://www.express.pk/story/2250879/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/23112021/P3-Lhr-004.jpg



اردو کے عہد ساز اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو دنیا سے رخصت ہوئے 37 برس بیت گئے لیکن وہ آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیرمکمل ہی نہیں ہوسکتی۔ فیض احمد فیض نے اپنی انقلابی فکراورعاشقانہ لہجے کو ملا کرایک ایسا لہجہ اپنایا جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی۔ ان کے سیاسی خیالات وافکارآفاقی ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری آج کی شاعری نظرآتی ہے۔

فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے تدریسی مراحل اپنے آبائی شہر اورلاہورمیں مکمل کیے، اپنے خیالات کی بنیاد پر1936 میں ادبا کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اسے بام عروج پربھی پہنچایا۔ درس و تدریس چھوڑ کردوسری جنگ عظیم میں انہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیارکی لیکن بعد میں ایک بار پھرعلم کی روشنی پھیلانے لگے جوزندگی کے آخری روزتک جاری رہی۔

فیض کی شاعری کے انگریزی، جرمن، روسی، فرنچ سمیت مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں، ان کے مجموعہ کلام میں ’’نسخہ ہائے وفا‘‘، ’’نقش فریادی‘‘، ’’نقش وفا‘‘، ’’دست صبا‘‘، ’’دست تہہ سنگ‘‘، ’’سر وادی سینا‘‘، ’’زنداں نامہ‘‘ اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کی شاعری مجازی مسائل پر ہی محیط نہیں بلکہ انہوں نے حقیقی مسائل کو بھی موضوع بنایا۔

فیض کی فلمی انڈسٹری کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ انہوں نے درجنوں فلموں کے لئے غزلیں، گیت اورمکالمے بھی لکھے۔ فیض نے ثابت کیا کہ حق گوئی کسی ایک کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور زمانے کے لیے ہوتی ہے۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے
https://www.express.pk/story/2249342/24/



پاکستان کی تاریخ میں 70 سالہ لوہار نسیم الدین نے ورلڈ ریکارڈ بنا ڈالا۔

انہوں نے ایک ہاتھ سے مٹھی میں سیب توڑنے کے مقابلے میں انگلینڈ کو شکست دی اور 13 کے مقابلے میں 18 سیب توڑ ڈالے۔ اس طرح وہ گنیز ورلڈ ریکارڈ بنا نے والے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بوڑھے شخص بن گئے، گنیز ورلڈ ریکارڈ نے ان کا ریکارڈ منظور کر لیا اور تصدیقی ای میل بھی موصول ہوگئی جبکہ ریکارڈ کی تفصیلات ویب سائٹ پر بھی جاری کردیں گئیں۔

گینز ورلڈ ریکارڈ کی سالگرہ کے حوالے سے پوری دنیا میں خصوصی طور پر ورلڈ ریکارڈ توڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے لوہار 70 سالہ نسیم الدین کو بھی خصوصی اجازت دی گئی۔

نسیم الدین 45 سال سے ویلڈنگ کے کام سے وابستہ ہیں۔ وہ لوہے کے گیٹ اور کھڑکی دروازے بنانے کا کام کرتے ہیں ، انہوں نے گنیز ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کر وا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی اور انگلینڈ کے ڈونی بیکسٹر کے ایک منٹ میں 13 سیب توڑنے کے ریکارڈ کو 18 سیب توڑ کر اپنے نام کر لیا۔

نسیم الدین کا کہنا ہے کہ ساری زندگی لوہے کے ساتھ کام کیا ہے اس لیے ہاتھ بھی لوہے کا ہی ہو گیا ہے،خواہش تھی کہ میں پاکستان کا نام روشن کروں،اللہ کا شکر ہے کہ اس میں کامیابی ملی۔

واضح رہے کہ نسیم الدین پاکستان کے لیے ماشل آرٹس میں پوری دنیا میں سب زیادہ 73 عالمی ریکارڈ بنانے والے محمد راشد کے والد ہیں۔ ان کی پوتی بھی صرف 7 سال کی عمر میں ورلڈ ریکارڈ بنا چکی ہیں۔ نسیم الدین نے اپناعالمی ریکارڈ پاکستان کرکٹ ٹیم کے نام کردیا۔
https://www.express.pk/story/2248644/509/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/18112021/P5-Lhr-006.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/12112021/bp-lhe-008.jpg



پاکستانی کوہ پیما کاشف شہروز نے بڑا اعزاز اپنے نام کرلیا
Nov 09, 2021 | 19:58:PM



لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کے کم عمر کوہ پیما شہروز کاشف کو گینز ورلڈ ریکارڈ کے دو سرٹیفکیٹ مل گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق 20 سالہ شہروز کاشف نے دو بلند ترین چوٹیاں ماونٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے پر گینیز ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام درج کروایا۔ شہروز کاشف بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما ہیں۔ وہ دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والے بھی کم عمر ترین کوہ پیما بن چکے ہیں۔شہروز کاشف نے 19 برس 138 دن کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیے کر تاریخ رقم کی۔
https://dailypakistan.com.pk/09-Nov-2021/1363468?fbclid=IwAR1t75RPxjq09U6Pm04zFVSfa1gKbHi367JdjfYyPruRQozx-bg0L_26Yg0




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/10112021/p1-lhr010.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/10112021/p1-lhr027.jpg



لاہوری ونڈر بوائے کم عمر کوہ پیما شہروز کاشف نے ایک اور اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ شہروز کاشف کو 2 گینز ورلڈ ریکارڈ کے سرٹیفکیٹ مل گئے۔

20 سالہ شہروز کاشف نے دو بلند ترین چوٹیاں ماونٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے پر گینیز ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام درج کروایا۔ شہروز کاشف بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما ہیں۔ وہ دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے والے بھی کم عمر ترین کوہ پیما بن چکے ہیں۔

شہروز کاشف نے 19 برس 138 دن کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیے کر تاریخ رقم کی۔
https://www.express.pk/story/2245229/16/



لاہور: شاعر مشرق اور عظیم مفکر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا 138 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے۔

9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولنے والے علامہ محمد اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور پھر لاہور کا رخ کیا۔ 1899 میں ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج میں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے اور اس دوران شاعری بھی جاری رکھی۔ علامہ اقبال نے 1905 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا اور پھر معروف تعلیمی ادارے لنکنزاِن میں وکالت کی تعلیم لینا شروع کردی بعد ازاں بعد وہ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

بیسویں صدی کے عظیم شاعر، فلسفی، مصنف، قانون دان اور مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا 144 واں یومِ پیدائش ملک بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔#IqbalDay pic.twitter.com/hGzjWZYYfE

— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) November 9, 2021

ڈاکٹر محمد اقبال نے 1910 میں وطن واپسی کے بعد وکالت کے ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے فکری اور سیاسی طور پر منتشر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا۔ 1934 کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے رکن بنے تاہم طبیعت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ قیام پاکستان سے 9 برس قبل 21 اپریل 1938 کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

مفکر پاکستان کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے، سیالکوٹ میں واقع اقبال منزل پر بھی شاعر مشرق سے جڑی چیزوں کو دیکھنے عوام کا تانتا بندھ گیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2245133/1/



علامہ اقبالؒ کی علمی وجاہت میں فلسفہ ، تاریخ ، شاعری اور مذہب نمایاں ترین پہلو ہیں، تاہم ان کی عظمت کا ایک بھاری بھر کم پہلو ان موضوعات کے سامنے قدرے دب کر رہ گیا ہے یعنی ان کے معاشی افکار۔

ان کے کلام پر غور کریں تو ان کی تمام شاعری کے پسِ منظر میں اقتصادی نظریات اور ان کے درمیان تصادم کا مسلسل ذکر ہے ۔ تاہم اس فکری پہلو کی اہمیت کا جس قدر تقاضا تھا اس کے مطابق منظم انداز میں ان کے معاشی افکار پر زیادہ کام نہیں ہوا 

افکارِ اقبال کی تفہیم کے لئے ان کے علمی اور فکری ادوار کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ ان کی شاعری، فلسفے اور افکار کا پہلا دور لاہور میں ان کے ایام طالب علمی اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج میں بطور استاد کا ہے۔ یہیں سے 1905 میں وہ فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے یورپ روانہ ہوئے۔

یورپ سے ان کی واپسی 1908 میں ہوئی۔ جس اقبال کی چار دانگ اور عہد در عہد دھوم ہے ، وہ اقبال یورپ سے واپسی کے بعد متشکل ہونا شروع ہوا۔ ان کے اردو اور فارسی کلام کا زیادہ تر وقیع اور فکری حصہ اسی دور میں تشکیل پایا اور اپنے عہد کی سیاست، ادب اور سماج پر انفرادیت کے ساتھ اثر انداز ہوا۔

علم الاقتصاد ۔ معیشت پر اردو میں اولین کتاب

علامہ اقبال کے افکار معیشت کا پہلا بھر پور اظہار اور اس موضوع کے ساتھ ان کی دل بستگی ان کی تصنیف علم الاقتصاد سے سامنے آئی ۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اقبال کی علمی کوششوں کا پہلا ثمر 1903 میں علم الاقتصاد کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ مشہور ماہر اقبالیات ممتاز حسن کے بقول علم الاقتصاد اردو زبان کی جدید معاشیات پر پہلی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کی علم الاقتصاد اردو میں اپنی اولیت اور اہمیت کے اعتبار سے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

مسلمانوں کی معاشی حالت ِ زار پر فکر مندی

معاشیات کے مسائل اقبال کی علمی اور فکری زندگی کی سب سے بڑی دلچسپی نہ بن سکے مگر انہیں اس موضوع سے عمر بھر گہری دلچسپی رہی۔ اس کی جھلک ان کی دیگر تحریروں اور تقریروں میں جا بجا موجود ہے۔

1910 میں انہوں نے علی گڑھ میں ٌ ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ٌ کے عنوان سے ایک لیکچر دیا اور فرمایا؛ سب سے زیادہ اہم عقدہ ہر ا س مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہے، یہ ہے کہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت سدھارے۔ اس کا یہ فرض ہے کہ ہندوستان کی عام اقتصادی حالت پر نظرِ غائر ڈال کر ان اسباب کا پتہ چلائے جنہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی ہے۔

دسمبر1930والے ا لہٰ آباد کے خطبہ صدارت میں جہاں انہوں نے پاکستان کاتصور پہلی بار دنیا کے سامنے پیش کیا، انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ مسلمانوں کی اقتصادی بد حالی اور مقروضیت کا ذکر کیا ۔

اسی طرح مارچ 1932 میں لاہور میں ایک تقریب کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان نوجوانوں کی انجمنیں اس غرض سے قائم کی جائیں کہ وہ اور باتوں کے علاوہ تجارت اور کاروبار کے میدان میں تنظیم کے لئے جدو جہد کریں اور دیہات میں مسلمان کاشتکاروں کی اقتصادی بد حالی اور قرض کے ازالے کے لئے ایک بیداری مہم چلائیں۔

معاشی مسائل سے اقبال کی دلچسپی ان کی شاعری میں بھی جا بجا جھلکتی ہے۔ ٌ خضرِ راہ ٌ میں شاعر جناب ِ خضر سے سوال کرتا ہے؛

زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ؟

خضر کا جواب ایک پیغام کی صورت بندہ مزدور کے نام کچھ یوں ہے؛

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت

اقبال نے اپنے عہد میں جنگِ عظیم اوّل سے قبل اور بعد کا پُرآشوب دور دیکھا ، ترک سلطنت کا زوال اور حصے بخرے ہوتے دیکھے ۔ اس دور میں صنعتی انقلاب کی نت نئی ایجادات، مشینری اور ٹیکنالوجی نے یورپ کا نیا معاشی جہان ترتیب دیا جس میں سرمایہ اور سرمایہ دار مالک و مختار ٹھہرا۔ کارخانوں کی پیداوار کو چالو رکھنے اور مزید بڑھانے کے لئے انگلستان اور یورپ کے کئی دیگر ممالک نے ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نوآبادیاں قائم کیں۔

یورپ کے کارخانوں میں مزدوروں کے حالات کار ، رہائش اور حقوق انتہائی یکطرفہ اور ظالمانہ روا رکھے گئے۔ اپنے قیام کے دوران علامہ اقبال نے یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھا اور اس پر غور کیا جس کا ان کی شاعری میں جا بجا ذکر ہے۔

سولہویں اور سترھویں صدی میں کلیسا اور سیاست کو علیحدہ کرنے کے بعد یورپ میں طاقت اور دولت کا مرکز سرمایہ داروں کی طرف شفٹ ہو گیا۔ روس اور یورپ میں مزدوروں کے مسلسل استحصال اور سرمایہ داری کی اندھی طاقت کے رد عمل میں کئی اسکالرز اور فلاسفرز نے روایتی سرمایہ داری نظام کی ہیبت ناکیوں کا پردہ چاک کیا اور متبادل خیالات پیش کئے۔

معروف فلاسفر کارل مارکس کی فکر جو اشتراکیت کے نام سے معروف ہوئی کا لب لباب یہ ہے کہ جدید صنعتی سرمایہ کاری میں رفتہ رفتہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو تا جائے گا اور باقی خلق خدا ان کی محتاج۔ کارل مارکس نے تاریخ کو انسانوں کے مابین معاشی کشمکش اور اقتصادی طبقات کی مسلسل باہم آویزش پر مبنی ایک سلسلہ بتلایا ۔

اشتراکیت کے ان نظریات کے مطابق مذہبی استبداد نے ہمیشہ سیاسی اور معاشی ظلم کی معاونت کی ہے۔ روس میں زار اور کلیسا کا زبردست تعاون تھا۔ اشتراکیت کے ظہور سے قبل ہی مغرب کے سائنس دانوں اور اہل فکر کے ہاں مذہبی عقائدعملی زندگی سے خارج ہو چکے تھے جن کی جگہ مادیت نے لے لی۔ اشتراکیت کے نظریے نے الحاد اور مادیت کو یکجا جانا اور عوام کی حقوق طلبی میں شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت کے نظریات کا حاصل یہ تھا کہ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو اجتماعی معاشرت اور سماج کے قدیم اور روایتی ڈھانچے کا قلع قمع کر دے۔

اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو سراہتے ہیں کہ اس نے مزدور اور دہقانوں کی حالت ِزار اور سرمایہ داری کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا مگر وہ اشتراکیت کے الحاد کے مخالف تھے۔ اقبال سرمایہ داری نظام کے بھی اسی لئے خلاف تھے کیونکہ اس نظام میں سرمائے اور منافع کی ایک مسلسل ہوس اور لالچ میں مزدور اور دہقان ایک منظم اور مسلسل بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اقبال طبعاٌ انقلاب پسند تھے اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے۔ انہوں نے اشتراکیت کی چند پہلووں کی تعریف کے سوا اس کے دیگر عملی پہلووں کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرمایہ داری نظام پر بھی کھل کر تنقید کی۔ پیام َ مشرق میں اس موضوع پر ان کی تین نظمیں ہیں جن میں سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور مزدور کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔

اقبال سوشلزم کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ زمین پر کسی کی شخصی ملکیت نہیں۔ زمین کی ملکیت کے بارے اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ اقبال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ریاستی اتھارٹی پیداوار کا کچھ حصہ ملکی ضروریات کے لئے طلب کر سکتی ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بالِ جبریل میں الارضِ للہ کے عنوان سے ایک نظم اس موضوع پر ہے؛

دِہ خُدایا! یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں

بالِ جبریل میں ایک اور ولولہ خیز نظم فرشتوں سے فرمانِ خدا ہے؛

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امراء کے درو دیوار ہلا دو

سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو

بالِ جبریل میں لینن خدا کے حضور میں عرض گزار ہے؛

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

ضربِ کلیم میں کارل مارکس کی زبان سے مغرب کے معیشت دانوں سے کچھ یوں خطاب ہے؛

تری کتابوں میں اے حکیم ِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خمدار کی نمائش مریز و کج دار کی نمائش

علامہ اقبال کے جداگانہ معاشی افکار

معیشت پر لینن اور کارل مارکس کی زبان سے اقبال نے بہت کچھ کہا اور کہلوایا ، اقبال کے افکارِ معیشت کے حوالے سے زیادہ تر حوالے بھی انہی نظموں سے معروف ہیں ، البتہ بغور جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اگرچہ سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ میں اقبال مزدور کے حامی ہیں مگر کارل مارکس اور لینن کی اشتراکیت کو وہ مساواتِ شکم تو سمجھتے ہیں مگر فکری اعتبار سے اسے لادینیت اور منفیت کا مظاہر سمجھتے ہیں؛

روس را قلب و جگر گر دید خوں

از ضمیرش حرف لا آمد بروں

کردہ ام اندر مقاماتش نگاہ

لا سلاطیں، لا کلیسا لا الہ

اشتراکیت کے ساتھ ساتھ اقبال کے ہاں مغربی تہذیب پر بھی جابجا تواتر سے تنقید و تنقیص ہے ۔ ضربِ کلیم میں مغربی تہذیب جو سرمایہ داری کی نقیب اور اجارہ دار ہے، اس کے دو پہلووں کے بارے میں کڑی تنقید کی؛

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بیکار زن تہی آغوش

اقبال کے معاشی افکار ایک مستقل موضوع ہے۔ یہ مضمون ان کے معاشی افکار اور اس موضوع سے ان کی عمر بھر کی دل بستگی کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش ہے۔اقبال کو اواخر عمر میں مسلمانوں کے افلاس اور اقتصادی زبوں حالی کا کس قدر شدید احساس تھا، اس کا بیّن ثبوت ان کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خط و کتابت سے ظاہر ہو تا ہے۔ اقبال 28 مئی 1937 کو قائد اعظم ؒکو خط میں لکھتے ہیں؛

’’مسلمانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پچھلے دو سو سال سے ان کی معاشی حالت برابر گرتی جا رہی ہے۔ عام طور پر ان کا یہ خیال ہے کہ ان کا افلاس ہندو سود خوروں اور سرمایہ داروں کی بدولت ہے۔ ابھی نہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ ان کے افلاس میں بیرونی استعمار کا بھی برابر کا دخل ہے مگر یہ احساس پیدا ہو کر رہے گا۔ ‘‘

معاشیات پر اقبال کے شعری کلام اور دیگر تحریروں کے مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے رہنماؤں میں قوم کی اقتصادی مشکلات کا جو احساس اور شعور اقبال کو تھاوہ کسی اور کو نہ تھا۔ وہ سرمایہ داری نظام اور مغربی تہذیب کے شدید نقاد ہیں ، دوسری جانب وہ اشتراکیت کے صرف ان پہلووں کی حد تک اس سے اتفاق کرتے ہیں جو مزدوروں اور کاشتکاروں کے حقوق اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و مکر کا پردہ فاش کرنے سے متعلق ہیں، تاہم وہ اشتراکیت میں الحاد اور مذہب بیزاری کے عنصر کے بالکل خلاف تھے۔

اقبال کے فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ معاشرت ہو یا معیشت اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو مساوات، انسان کی عزت و آبرو اور اس کے روح و شکم کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اقبال اپنی شاعری اور فکر میں اس امر کے داعی ہیں کہ مسلمانوںکی نشاۃ ثانیہ کا ظہور ممکن ہے اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات، نئے علم و ہنر کی تخلیق و تحصیل ، اجتہاد، خود انحصاری اور عشق و مستی کے اسی جذبے کو پھر سے اپنا سکیں جس کی وجہ سے مسلمان کئی سو سال دنیا کے افق پر غالب رہے۔

(خالد محمود رسول پولیٹکل اکونومسٹ، مصنف اور تجزیہ کار ہیں، روزنامہ ایکسپریس میں ہفتہ وار کالم گوشوارہ لکھتے ہیں ۔)
https://www.express.pk/story/2245056/1/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/3/2021/11/09112021/p2-isb-023.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/09112021/p2-lhr018.jpg



بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے. صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے، اردو زبان کے باکمال شاعر جون ایلیا کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

منفرد اسلوب اور دھیمے لہجے کے حامل جون ایلیا نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا، 14 دسمبر 1931ء کو بھارت کے شہرامروہہ میں پیدا ہونے والے جون ایلیا کو انگریزی، عربی اور فارسی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔

ان کا پہلا شاعری مجموعہ ’شاید‘ کے نام سے 1991ء میں شائع ہوا جس کو اردو ادب کا دیباچہ قرار دیا گیا۔ اردو ادب میں جون ایلیا کی نثر اور اداریے کو باکمال تصور کیا جاتا ہے۔ جون ایلیا کے شعری مجموعوں میں ’یعنی‘، ’گمان‘، ’لیکن‘، ’گویا‘ اور ’امور‘ شامل ہیں۔ ان کی تصانیف کو ادب دانوں میں پذیرائی ملی جب کہ فمود کے نام سے مضامین کی تصنیف بھی قابل ذکر ہے۔ الگ تھلگ نقطہ نظر اور غیر معمولی عملی قابلیت کی بناء پر جون ایلیا ادبی حلقوں میں ایک علیحدہ مقام رکھتے تھے۔ جون ایلیا اپنی نوعیت کے منفرد شاعرتھے۔

ادب سے جڑے شعراء کا ماننا ہے کہ جون اپنی منفرد شاعری میں اکیلا تھا، ان جیسے کی اب دوبارہ توقع نہیں کی جاسکتی، انھوں نے انگاروں پر چل کر شاعری کی جب کہ جون ایلیا ان نمایاں افراد میں شامل ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد جدید غزل کو فروغ دیا۔

شعراء جون ایلیا کو میر اور مصفی کے قبیل کا انسان قرار دیتے ہیں۔ جون ایلیا کی شاعری کو معاشرے اور روایات سے کھلی بغاوت سے عبارت کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری دیگر شعراء سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ انہیں معاشرے سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ شاعر کو وہ عزت و توقیر نہیں دی جاتی جس کا وہ حقدار ہے۔ زمانے میں الگ شناخت رکھنے والے جون ایلیا 8 نومبر 2002ء کو انتقال کرگئے۔
https://www.express.pk/story/2244507/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/07112021/p6-lhr009.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/05112021/P6-Lhr-004.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/01112021/P6-Lhr-032.jpg



https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/11/01112021/P6-Lhr-033.jpg



خواجہ خورشید انور: ایک رسیلے موسیقار
31 October, 2021



تحریر : محمد ارشد لئیق

خواجہ خورشید انورصرف ایک موسیقار ہی نہیں بلکہ فن موسیقی کی ایک تاریخ، ایک محقق اور ایک درسگاہ کے ساتھ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فلمساز، ہدایتکار، کہانی نویس، مکالمہ نگار اور نغمہ نگار بھی تھے۔ اپنے 39سالہ کریئر میں انہوں نے صرف 31 فلموں کے لئے موسیقی دی، لیکن جتنا بھی کام کیا وہ باکمال کیا۔ آج اس عظیم موسیقار کی 37ویں برسی منائی جا رہی ہے۔
21مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہونے والے خواجہ خورشید انور کا تعلق ایک انتہائی معزز اور تعلیم یافتہ کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے والد خواجہ فیروزالدین لاہور کے ایک نامی گرامی وکیل تھے۔انہوں نے 1935ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انڈین سول سروس کا امتحان تو پاس کرلیا لیکن کالج کے زمانے میں انقلابی تنظیم کا رکن ہونے کی پاداش میں جیل جانے کی وجہ سے انگریز سرکار نے انہیں انڈین سول سروس کے لئے مناسب نہ سمجھا۔
1939ء میں وہ آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں موسیقی کے مختلف پروگراموں میں انہوں نے اس وقت کی نامور گلوکارائوں ملکہ پکھراج، ممتاز بیگم اور اختری بائی سے کئی گیت گوائے۔1941ء میں ریڈیو کو خیرباد کہہ کر فلمی دنیا میں آ گئے۔1953ء میں بمبئی سے لاہور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں ''انتظار‘‘، ''ہیر رانجھا‘‘، ''کوئل‘‘ ، ''جھومر‘‘،''زہر عشق‘‘، گھونگھٹ‘‘،اور ''چنگاری‘‘ جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔
پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''مرزا صاحباں‘‘ تھی مگر انہیں اصل شہرت اور پہچان فلم ''انتظار‘‘ سے ملی۔ فلم ''انتظار‘‘ کا گانا ''چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار‘‘ ان کی موسیقی میں گلوکارہ نورجہاں کا گایا ہوا پہلا گانا ہے۔ فلم ''کوئل‘‘ ان کی بطور موسیقار سب سے کامیاب فلم تھی۔

خواجہ خورشید انور موسیقار کے علاوہ ایک کامیاب تمثیل نگار، شاعر اور ہدایتکار بھی تھے۔ بحیثیت ہدایتکار انہوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگٹ جیسی فلمیں بنائیں اور اِن فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ان کی موسیقی میں کلاسیکل رنگ نمایاں ہوتا تھا۔

خواجہ خورشید انور نے اپنے انداز میں کام کیا، کبھی اپنی ڈگر سے ہٹ کر کام کیا نہ کبھی بھیڑ چال کا شکار ہوئے۔ وہ فنی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے۔ عام طور پر کلاسیکل موسیقی پر عبور رکھنے والی نرم و ملائم آوازوں کو ہی استعمال کرتے تھے۔ وہ زیادہ تر نسوانی آوازواں کو استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ گیت ملکہ ترنم نورجہاں سے گوائے، مرد گلوکاروں میں سب سے زیادہ گیت مہدی حسن نے گائے تھے۔
وہ پنجابی فلموں کی موسیقی دینا پسند نہیں کرتے تھے، پنجابی فلم ''ہیر رانجھا‘‘ کو انہوں نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا جو ان کے فلمی کریئر کی سب سے بڑی اور سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اپنے عہد کے اس عظیم موسیقار کا انتقال 30اکتوبر 1984ء کو لاہور میں ہوا۔ خواجہ صاحب نے اپنی پوری زندگی فن کے معاملے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اُن کی موت پر احمد راہی نے کہا تھا کہ'' عزت کی روٹی تو سب کھاتے ہیں لیکن عزت سے بھوکا رہنا صرف خورشید صاحب کو آتا تھا‘‘۔
(ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے
موقر جریدوں میں ان کے سیکڑوں
مضامین شائع ہو چکے ہیں)
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-10-31/25316



بابر اعظم کی والدہ آئی سی یو میں لیکن ان کے والد پھر بھی ورلڈ کپ دیکھنے کیوں گئے؟ ایسی وجہ بتادی کہ آپ کو بھی فخر ہوگا
Oct 30, 2021 | 22:28:PM


سورس: Instagram

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے والد اعظم صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ سرجری کے بعد انتہائی نگہداشت (آئی سی یو) میں ہیں لیکن وہ اس کے باوجود بابر کا حوصلہ بڑھانے کیلئے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) گئے تاکہ وہ کمزور نہ پڑ جائے۔

انسٹاگرام پر اعظم صدیقی نے اپنے صاحبزادوں اور اہلیہ کے ساتھ تصاویر شیئر کیں اور کہا "کچھ سچ اب میری قوم کو پتہ ہونا چاہیے، آپ سب کو مبارک تینوں جیت پر ،ہمارے گھر پر بڑا امتحان تھا۔ جس دن انڈیا سے میچ تھااُس دن بابر کی والدہ شدید نگہداشت میں تھی ، اُن کا آپریشن ہواتھا، بابر شدید پریشانی میں یہ تینوں میچ کھیلا۔

بابر اعظم کے والد کا مزید کہنا تھا " میرا یہاں آنا نہیں بنتا تھا پر میں آیا کہ بابر کہیں کمزور نہ پڑ جائے، کرم ہےپروردگا ر کا اب وہ ٹھیک ہیں، بات شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خدارا اپنے قومی ہیروز کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ نہ بنایا کریں ، اور ہاں مجھے پتہ ہے مرے بغیر جنت نہیں ملتی، اگر مقام ملتا ہے تو امتحان بھی دینے پڑتے ہیں، پاکستان زندہ باد۔


چوہدری سرور نے 30شخصیات کو’’گور نر ایوارڈز‘‘سے نوازا
هفته 30 اکتوبر 2021ء

لاہور(کامرس رپورٹر)گور نر پنجاب چوہدری محمدسرور نے صحت ،تعلیم اور سماجی خدمت سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں کار کردگی کا مظاہر ہ کر نے والی 30شخصیات کو''گور نر ایوارڈز''سے نواز دیا ۔ گور نر ہائوس لاہور میں منعقدہ تقر یب کے دوران مذہبی شخصیت مولانا فضل الر حیم ،سماجی کارکن میاں سعید احمد ،وائس چانسلر منصور سرور،نیئر علی دادا،عمار اویس،پروفیسر ڈاکٹر وحید الحسن ،ثومیہ اقتدار،فاطمہ حسین،فدیہ کاشف ،ڈاکٹر طارق چیمہ،ڈاکٹر روبینہ فر خ،افشاں حمید ،کامران لاشاری ،جنید سبحانی ،ڈاکٹر سہیل مختار احمد ،ڈاکٹر خالد محمود،رانا خرم شہزاد خان،ذیشان ضیا راجہ ،طارق تنویر،شان این خان،سیدکوثرعباس،عائشہ جہانزیب ،شبانہ اختر ،استاد نایاب علی خاں،فرزانہ عاقب ،پروفیسرعائمہ سید،اویس یونس ،طاہر علی صادق،سعدیہ نورین اور سید حادیہ ہاشمی کو گور نر ایوارڈز سے نوا ز اگیا۔گور نر پنجاب نے تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا حکومت آئین وقانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے ۔ خواتین کو ہر اساں کر نے جیسے جرائم کیخلاف حکومتی ادارے سخت ایکشن لے رہے ہیں، ہم نے خواتین کیخلاف جرائم کی روک تھام اور آگاہی کے لیے پنجاب بھر کی یونیورسٹیز میں مہم شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تاریخ میں بڑے محلات اور دولت رکھنے والے نہیں صر ف اور صرف انسانیت کی خدمات کر نیوالے ہی زندہ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو بھی کوئی عہدہ اور کوئی ذمہ داری دی ہے ان سب کو اپنے عہدے سے انصاف کر نا چاہئے ۔ پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں احساس پروگرام،کامیاب جوان پروگرام اور کوئی بھوکا نہ سوئے جیسے پروگرام کا مقصد بھی انسانیت کی خدمت ہے ۔گور نر پنجاب کی اہلیہ بیگم پروین سرور نے کہا میری زندگی کا مشن صرف اور صرف انسانیت کی خدمات اور خواتین کی ترقی اور خوشحالی ہے ۔
https://www.roznama92news.com/%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%88%D8%B1-%D9%86%DB%92-30%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B3%DB%92-%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B2%D8%A7




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/29102021/p2-lhr006.jpg



محمدرضوان نے ویرات کوہلی کا ریکارڈ توڑتے ہوئے بڑا اعزاز اپنے نام کرلیا
Oct 26, 2021 | 21:19:PM



شارجہ(ڈیلی پاکستان آن لائن) محمد رضوان ٹی 20 کرکٹ میں سب سے بہترین ایوریج کے ساتھ ایک ہزار رنز مکمل کرنے والے بلے باز بن گئے ہیں۔

محمد رضوان کی ٹی 20 ایوریج اس وقت 52 اعشاریہ 77 ہے۔ویرات کوہلی نے ٹی 20 کرکٹ میں ایک ہزار رنز 52 اعشاریہ 72 کی ایوریج کے ساتھ مکمل کیے تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/26-Oct-2021/1357756?fbclid=IwAR2-3hWZOLh153lCKMQajbTycQ1cZ2DX3L-1FVxzB-4kAPqy0rF4K8m4Icc



دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور مائیکروسافٹ کے بانی بِل گیٹس نے پاکستانی خاتون شمائلہ رحمانی کو ہیرو قرار دیتے ہوئے دنیا سے پولیو کے خاتمے کے لیے شمائلہ رحمانی کی محنت کو سراہا۔

بل گیٹس دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کے لیے منظم اور مربوط مہم چلاتے ہیں جس کے دوران غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے دنیا بھر سے منتخب کردہ ایک باحوصلہ پولیو ورکر کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں اور اس بار یہ اعزاز پاکستانی خاتون شمائلہ رحمانی نے حاصل کیا ہے۔

مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں بلند حوصلہ پاکستانی خاتون پولیو ورکر شمائلہ رحمانی کو پیدل ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے اور 5 سال سے کم بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بل گیٹس نے یہ ویڈیو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بھی شیئر کی اور شمائلہ رحمانی کو میدان عمل کا ہیرو قرار دیا۔ بل گیٹس نے لکھا کہ پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا عزم لیے شمائلہ حسین روزانہ پیدل سفر کرکے پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔

اس دوران شمائلہ رحمانی کو شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کئی خواتین معلومات کم ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو قطرے پلوانے سے منع کردیتی ہیں اور غصہ بھی کرتی ہیں لیکن شمائلہ ہمت نہیں ہارتیں اور ایسے والدین کی ویکسین سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2240650/9812/



بھارت کے خلاف تاریخی فتح کے بعد بابر اعظم نے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے لیے بڑا اعلان کردیا
Oct 25, 2021 | 22:38:PM



دبئی(ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے اپنی فاؤنڈیشن کے تحت مزید 250 بچوں کی تعلیم کے انتظامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ میں فتح کا جشن 250 بچوں کی 'نون' کے ذریعے تعلیم کا اعلان کرکے منارہا ہوں،میں اس کو اپنے والد محمد اعظم جو کہ میرے رول ماڈل بھی ہیں ان کےاور فاونڈیشن سایہ کے نام کرتا ہوں۔انہوں نے فاؤنڈیشن کے لیے 20 لاکھ روپے ڈونیشن کا بھی اعلان کیا۔

واضح رہے کہ 'نون' بچوں کی تعلیم کی بین الاقوامی فاونڈیشن ہے جو پاکستان سمیت دیگرآٹھ ملکوں میں کام کررہی ہے،اس فاونڈیشن کے تحت 90 لاکھ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/25-Oct-2021/1357309?fbclid=IwAR2VtTQpkwkk4bwk5mdKbIJnigRM4auzbT4YRX91qjmayXikubQ8H4NmlFU



پاکستانی طالبعلم نے عالمی انویٹیشن مقابلہ جیت لیا
 25 October, 2021

بین الاقوامی انویٹیشن مقابلہ میں پاکستان کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی)لاہور کے طالبعلم محمد انس بیگ نے پہلا انعام حاصل کر لیا

بیجنگ(آئی این پی )اس موقع پر محمد انس بیگ کا کہنا تھا پاکستان اور چین کے نوجوان مسائل کے حل کے لیے خیالات اور تصورات شیئر کرسکتے ہیں۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ اور برکس اسکلز ڈویلپمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی انویٹیشن مقابلہ 2021 کے تحت انٹیلیجنٹ پاور سپلائی اینڈ ڈسٹری بیوشن ٹیکنالوجی کا بین الاقوامی انویٹیشن مقابلہ آن لائن اور آف لائن منعقد ہوا ۔ مقابلہ نے چین ، تھائی لینڈ ، کمبوڈیا اور پاکستان کی 49 ٹیموں کے 200 سے زیادہ حریفوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔ چین کے چنگ ژو الیکٹرک پاور کالج(زیڈ ای پی سی)اور پاکستان کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی)لاہور نے بین الاقوامی دعوت نامہ مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-25/1900205



یہ 18مئی 1974ء کی بات ہے جب بھارت نے اپنے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ اس تجربے نے پاکستان میں ہلچل مچا دی۔

بھارت پاکستان سے دو جنگیں لڑ چکا تھا۔ ایک جنگ تو تین سال قبل لڑی گئی تھی۔ بھارتی حکمران برہمن طبقہ پاکستان کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصہ بنانا چاہتا ہے‘ اس لیے مسلم وطن کا روز اول سے دشمن ہے۔ یہ طبقہ پاکستان کو کمزور کرنے کے واسطے مسلسل خفیہ و عیاں سازشوں میں محو رہتا ہے۔

پاکستانی حکمران طبقہ واقف تھا کہ بھارت ایٹم بم بنا رہا ہے پھر بھی تجربے کی خبر اس پر بجلی بن کر گری۔ اسے محسوس ہو گیا کہ ایٹم بم بنا کر بھارت نے خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر اپنے حق میں کر لیا۔ گویا پاکستان کی سالمیت و بقا کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے۔ اب طاقت کا توازن اسی وقت بحال ہو سکتا تھا جب پاکستان بھی ایٹم بم بنالے۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے فوراً پاکستانی ایٹمی منصوبے پر کام شروع کر دیا۔

ایٹمی سائنس کی معلومات
بھارت صرف برطانیہ‘ امریکا اور کینیڈا کے تعاون سے ایٹمی قوت بن پایا۔ تمام بھارتی ماہرین طبیعات اور انجینئروں نے برطانوی و امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی تھی۔ وہ وہاں ایٹمی ری ایکٹروں میں کام بھی کرتے رہے۔ یوں انہیں قیمتی تجربہ حاصل ہو گیا۔

1954ء میں کینیڈا نے بھارت کو ہیوی واٹر بریڈر ری ایکٹر‘ سیرس (Cirus) فراہم کر دیا جو ٹرام بے ‘ بمبئی میں لگایا گیا۔ یہ ری ایکٹر 40میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ اس میں یورینیم 238 بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ری ایکٹر میں استعمال کے بعد یورینیم کی اس قسم سے ری پروسیسنگ پلانٹ میں پلوٹونیم بنایا جاتا ہے جس سے ایٹم بم بنتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایٹم بم کی بنیادی معلومات حاصل کر لیجیے۔

ایٹم بم صرف پلوٹونیم یا افزودہ یورینیم 235سے بنتا ہے۔ یورینیم بہت بھاری اور نایاب دھات ہے۔ کان کنی سے جتنی قدرتی یورینیم دھات ملے‘ اس کا صرف 1 فیصد حصہ قابل استعمال ہوتا ہے جسے یورینیم آکسائڈ کہتے ہیں۔ یہ زرد کیک (yellow cake) بھی کہلاتا ہے۔یہ زرد کیک یورینیم کی تین اقسام (یا آئسوٹوپ) رکھتا ہے یعنی 235,238اور 234۔ زرد کیک کا 99.27فیصد حصہ یورینیم 238رکھتا ہے۔

0.72فیصد حصہ یورینیم 235کا ہے جبکہ انتہائی معمولی مقدار یورینیم 234کی ہوتی ہے۔ یورینیم 235 واحد قدرتی انشقاقی (Fissile) مادہ ہے یعنی وہ پھٹ کر زبردست توانائی پیدا کرتا ہے۔ یورینیم 238یہ صلاحیت نہیں رکھتا مگر جب پلوٹونیم میں بدل جائے تب وہ بھی انشقاقی مادہ بن جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ 1938ء میں جرمن سائنس دانوں‘ آٹوہان اور قرٹز سٹراسمان نے دریافت کیا تھا کہ یورینیم سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ایک بم (ایٹم بم ) بن سکتا ہے۔ اس دریافت کے بعد ہٹلر کی حکومت نے ایٹم بم کی تیاری شروع بھی کر دی مگر وہ مختلف وجوہ کی بنا پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔ البتہ اٹلی‘ آسٹریا اور ہنگری کے یہودی سائنس دانوں کی مدد سے امریکا ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہا۔

ایٹم بم کا میٹریل حاصل کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں۔ اول گیس سینٹری فیوج اور دوم بریڈر ری ایکٹر مع ری پروسیسنگ پلانٹ۔ گیس سینٹری فیوج طریق کار میں یورینیم آکسائڈ سے یورینیم 235کو الگ کیا جاتاہے۔ یورینیم 235 پھر ایٹم بم بنانے میں کام آتا ہے۔

ماضی میں کم از کم 50کلو یورینیم 235سے ایٹم بم بنتا تھا۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 15تا20 کلو یورینیم 235کے ذریعے بھی ایٹم بن جاتاہے۔ایٹمی ری ایکٹر وہ بہت بڑا آلہ ہے جس میں یورینیم سے توانائی حاصل کی جائے۔ ایٹمی بجلی گھر میں یہی ری ایکٹر نصب ہوتے ہیں۔ وہ جب توانائی پید ا کریں تو اس سے ٹربائنیں چلا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ری ایکٹر کی ایک قسم بریڈر ری ایکٹر کہلاتی ہیں۔

اس کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں قدرتی یورینیم (زرد کیک) کو بھی بطور ایندھن جلانا ممکن ہے۔ جبکہ بقیہ اقسام میں یورینیم 235سے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔بریڈر ری ا یکٹر میں جو قدرتی یورینیم استعمال ہو جائے تو اسے ا یک علیحدہ عمارت، ری پروسیسنگ پلانٹ میں پہنچا یا جاتا ہے۔ وہاں ماہرین بذریعہ ٹیکنالوجی قدرتی یورینیم میں موجود یورینیم 238کو پلوٹونیم میں بدل دیتے ہیں۔ 10کلو پلوٹونیم سے ایٹم بم بن جاتا ہے۔امریکا پہلا ملک ہے جس نے یورینیم 235اور پلوٹونیم‘ دونوں سے ایٹم بم بنائے۔ انہی ایٹم بموں نے جاپانی شہروں‘ ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں تباہی پھیلا کر جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔

بھارت کا ایٹمی دھماکہ
بھارت میں یورینیم کی کانیں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ کینیڈا سے ملے سیرس ری ایکٹر میں بھارتی یورینیم استعمال ہونے لگا۔ اس میں بھاری پانی توانائی پیدا کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھاری پانی بھارت کو امریکا نے فراہم کیا۔

قابل ذکر بات یہ کہ کینیڈا و امریکا نے بہ ظاہر ’’پُرامن مقصد‘‘ کے لیے سیرس ری ایکٹر بھارت کو فراہم کیا تھا… یہ کہ وہ اس سے بجلی بنا سکے۔ حقیقت میں اس کا مقصد بھارت کو ایٹمی طاقت بنانا تھا۔ اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سیرس میں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنانے کی خاطر ری پروسیسنگ پلانٹ ایک امریکی کمپنی‘ وائٹر وکارپوریشن آف امریکا نے بھارت کو فراہم کیا۔ ظاہر ہے امریکی حکمران طبقے کی آشیر باد سے ہی امریکی ساختہ ری پرسیسنگ پلانٹ بھارت کو دیا گیا۔

یہ پلانٹ ٹرام بے بمبئی میں مارچ 1961ء سے جون 1964ء کے عرصے میں مکمل ہوا۔ وہا ں جلد ہی سیرس میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلنے کا کام شروع ہو گیا۔1969ء سے 1972ء کے درمیان بھارت نے ٹرام بے بمبئی ہی میں روس کے تعاون سے پلوٹونیم کو بطور ایندھن استعمال کرنے کرنے والے چھوٹے ری ایکٹر تعمیر کر لیے۔ ان کی مدد سے بھارتی ماہرین پلوٹوینیم کی قیمتی معلومات سے آگاہ ہوئے۔ سب سے بڑھ کر انہوںنے جاناکہ پلوٹونیم سے کیسے ایٹم بم بن سکتا ہے۔ چنانچہ 28مئی 1974ء کو بھارت نے جو پہلا ایٹم بم چلایا‘ وہ پلوٹونیم کا ہی تھا۔

پاکستانی ایٹمی پروگرام
پاکستان میں بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے بیشتر ماہرین برطانوی یا یورپی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ مارچ 1956ء میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے سربراہ ‘ نذیر احمد نے کیمرج یونیورسٹی سے طبعیات کی تعلیم پائی تھی۔

بعدازاں کمیشن کے نئے صدر ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی اور دیگر ماہرین مثلاً پروفیسر رفیع محمد چودھری‘ سلیم الزمان صدیقی‘ ریاض الدین صدیقی‘ ڈاکٹر عبدالسلام ‘ منیر احمد خان وغیرہ نے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو رواں دواں رکھا۔1965ء میں امریکا نے پاکستان کو بھی ایک چھوٹا سا ری ایکٹر فراہم کر دیا مگر اس میں افزودہ یورینیم بطور ایندھن استعمال ہوتا تھا۔ یہ ری ایکٹر پاکستان میں جوہری سائنس پر تحقیق کرنے والے ادارے، پنسٹک ، نیلور اسلام آباد میں لگایا گیا۔



حقیقت یہ ہے کہ 1956ء سے 1971ء تک پاکستانی حکمران طبقے اور ایٹمی منصوبے سے منسلک ماہرین میں بھی بنیادی طور پر یہی نظریہ کار فرما رہا کہ ایٹمی پروگرام مکمل کر کے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے جائیں۔ اسی لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں یورینیم کی کانیں بھی تلاش کی گئیں۔ 1963ء میں معلوم ہوا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایسی کانیں موجود ہیں۔ اسی سال ان سے یورینیم نکالا جانے لگا۔

حکومت پاکستان اور پاکستانی ماہرین کی کوششوں سے آخر کینیڈا نے بھارت کی طرح پاکستان کو بھی ہیوی واٹرری ا یکٹر فراہم کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ یہ اب کینوپ اول کہلاتا ہے جس کی تعمیر یکم اگست 1966ء کوشروع ہوئی۔ 28نومبر 1972ء سے دنیائے اسلام کا یہ پہلا کمرشل ری ایکٹر کام کرنے لگا۔ یہ قدرتی یورینیم اور ہیوی واٹر کے ذریعے 137میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔(پاکستان کا یہ‘ پہلا ری ایکٹر اگلے سال بند کر دیا جائے گا)۔کینوپ اول میں استعمال شدہ یورینیم سے مگر پلوٹونیم بنانا ناممکن تھا کیونکہ وہ بھارتی ری ایکٹر سے مختلف ڈیزائن رکھتا تھا۔

تاہم حکومت پاکستان کی سعی تھی کہ نیلور‘ اسلام آباد میں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنانے کا ری پروسیسنگ پلانٹ لگ جائے تاکہ بووقت ضرورت وہ کام آئے۔بھارت نے ایٹمی دہماکہ کیا تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو شدت سے احساس ہوا کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر جلد از جلد ایٹم بم بنانا ضروری ہے۔ سوال یہ تھا کہ ایٹم بم یورینیم 235سے بنایا جائے یا پلوٹونیم سے؟

پلوٹونیم بم کی کوششیں
1967ء میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ جوہری سائنس دانوں اور انجینئروں نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند ‘ سلطان بشیر الدین اور محمد حفیظ قریشی کی زیر قیادت یورینیم 235 افزودہ کرنے کے سلسلے میں تجربات کیے تھے مگر انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اسی لیے یہ راستہ ترک کر دیا گیا۔جنوری 1972ء میں منیر احمد خان پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ بن گئے۔ یہ دس سال یورپ میں رہے تھے۔

اور انہیں علم تھا کہ بھارت ایٹم بم بنا رہا ہے۔ انہوں نے حکمران بھارتی برہمن طبقے کے شیطانی عزائم سے اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو آگاہ کیا ۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد آخر فیصلہ ہوا کہ پاکستان کو بھی پلوٹونیم سے ایٹم بم بنانے کی کوششیں شروع کرنی چاہیں۔چناں چہ نیلور‘ اسلام آباد میں ری پروسیسنگ پلانٹ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا جہاں یورینیم 238سے پلوٹونیم حاصل کیا جانا تھا۔

پاکستانی ایٹمی توانائی کمیشن نے برطانیہ اور فرانس کی کمپنیوں سے رابطہ کیا مگر ان کی یہ شرط تھی کہ پلانٹ بین الاقوامی ایجنسیوں کی نگرانی میں رہے گا۔ صرف بیلجیم کی کمپنی، بیلگو نوکلیری(Belgonucleaire) نے یہ شرط نہیں لگائی۔

چنانچہ نیلور کا ری پروسیسنگ پلانٹ لگانے کے سلسلے میں اس سے معاہدہ ہو گیا۔ یہ پلانٹ اب ’’نیو لیبز‘‘ (New labs) کہلاتا ہے۔مارچ 1973ء میں پاکستانی ایٹمی توانائی کمیشن کے تین ماہرین عبدالمجید چوہدری ‘ خلیل قریشی اور ظفر اللہ خان بیلجیم کے شہر مول پہنچ گئے۔

بیلجیمی کمپنی نے وہاں یورکیمی نامی ری پروسیسنگ پلانٹ لگا رکھا تھا۔ اسی پلانٹ میں 1966ء سے 1974ء تک کمپنی کے ماہرین دو سو ٹن یورینیم 238سے 678 کلو پلوٹونیم تیار کر چکے تھے۔کمپنی نے پاکستانی ماہرین کو پلانٹ بنانے کے ڈیزائن اور متعلقہ کاغذات فراہم کر دیئے۔ بعدازاں ماہرین نے یورکیمی میں پلوٹونیم ری پروسیس کرنے کا عملی تجربہ حاصل کیا۔ یوں پاکستانی ماہرین اس قابل ہو گئے کہ نیلور میں ابتدائی قسم کے پلوٹونیم پروسیسنگ پلانٹ کی تنصیب کر سکیں۔ اس پلانٹ میں ماہرین ایک سال میں دس سے بیس کلو پلوٹونیم تیار کر سکتے تھے۔ یہ پلوٹونیم دوایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس ایسا کوئی بریڈر ری ایکٹر نہیں تھا کہ وہاں استعمال شدہ یورینیم نیو لیبز میں ری پروسس ہوتا۔ اسی لیے پلانٹ کی تنصیب کا معاملہ لٹک گیا۔ آخر کار 1980ء میں نیو لیبز کی تعمیر کا آغاز ہوا اور یہ 1982ء میں مکمل ہوا۔

اس کے پہلے سربراہ عبدالمجید چودھری تھے۔نیو لیبز مگر طویل عرصہ آپریشنل نہیں ہو سکی کیونکہ پاکستان کو یورینیم 238 دستیاب نہ تھا۔آخر 1996ء میں خوشاب بریڈر ری ایکٹر اول مکمل ہو کر کام کرنے لگا تو وہاں سے یورینیم 238ملنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ اب نیو لیبز میں بھی زندگی کی لہر دوڑی اور وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بنایا جانے لگا۔پاکستان نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو تب تک نیو لیبز سے حاصل کردہ پلوٹونیم سے بم بن چکا تھا۔ یہی وجہ ہے ‘ 30مئی کو صحرائے خاران میں جو ایٹمی دھماکہ ہوا‘ وہ پلوٹونیم بم کا تھا۔

یوں پاکستان یورینیم 235اور پلوٹونیم ‘ دونوں دھاتوں سے ایٹمی ہتھیار بنانے والا دنیا کا چھٹا ملک بن گیا۔ واضح رہے ‘ بھارت اپنے ایٹمی ہتھیار بنیادی طور پر پلوٹونیم سے بناتا ہے ۔پلوٹونیم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے بنا بم چلانے کے لیے تھوڑے انشقاقی مواد (یورینیم 235یا پلوٹونیم) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ بم میزائلوں پر نصب کرنا ممکن ہے۔ پلوٹونیم سے چھوٹے یعنی ’’ٹیکٹیکل ‘‘ ایٹم بم بھی بنتے ہیں۔ تاہم اس دھات کی خرابی یہ ہے کہ یہ بہت تاب کار مادہ ہے۔ لہٰذا اس کی دیکھ بھال بہت احتیاط سے کرنا پڑتی ہے۔ یورینیم 235اس کے مقابلے میں کہیں کم تاب کار مادہ ہے۔ وہ زہریلے پن میں بس سیسے جیسا ہے۔

ایک اجنبی کی آمد
1974ء میں مگر پاکستانی حکومت جلد از جلد ایٹم بم بنانا چاہتی تھی۔ بھٹو صاحب اور افواج پاکستان کی قیادت کو پریشانی تھی کہ پلوٹونیم سے ایٹم بم بناتے ہوئے کئی سال لگ جائیں گے ۔اس دوران بھارتی حکمران کوئی بھی بد حرکت کر سکتے تھے۔تبھی اندھیرے میں ایک کرن جگمگائی … اور ایک اجنبی شخصیت نے اچانک نمودار ہو کر پاکستانی ایٹم بم کی تیاری کا کام جو ناممکن نظر آ رہا تھا، اسے عمل میں ڈھال دیا۔

یہ ڈاکٹر عبدالقد یر خان تھے۔اس پاکستانی سپوت نے سولہ سال بھوپال میں بسر کیے تھے۔ جانتے تھے کہ انتہا پسند ہندو اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں۔ حقیقتاً انہی کی نفرت ا نگیز کارروائیوں سے بچنے کی خاطر وہ 1952ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کیا۔ پھر سکالر شپ پر جرمنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔

بعدازاں ہالینڈ کی یونیورسٹی سے میٹریلز ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی اور بیلجیئم کی یونیورسٹی سے دھات کاری میں پی ایچ ڈی کی۔1972ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب گیس سینیٹری فیوج طریق کار سے یورینیم 235افزودہ کرنے والی ایک ولندیزی کمپنی سے وابستہ ہو گئے جو ایک یوریی کنسوریشم ‘ یورنیکو کا حصّہ تھی۔ یہ کمپنی ایملوشہر میں گیس سینٹری فیوج پلانٹ چلا رہی تھی۔

گیس سینٹری فیوج طریقے میں ہزارہا لمبوترے پائپوں جیسی مشینوںکے اندر زرد کیک کو گیس میں ڈھال کر نہایت تیزی سے گھمایا جاتا ہے۔ تب یورینیم 235 گیس کی شکل میں یورینیم 238 سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ایک سینٹری فیوج مشین سال میں 30گرام یورینیم 235 تیار کر سکتی ہے۔ لہٰذا پلانٹ میں جتنی زیادہ مشینیں ہوں‘ اتنا ہی زیادہ یورینیم 235ء حاصل ہوتا ہے۔ اگر پلانٹ میں ایک ہزار مشینیں ہوں تو وہ سال میں 20 سے 25 کلو یورینیم 235 بنا لیتی ہیں۔

یہ ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔گیس سینٹری فیوج پلانٹ تیار کرنا مگر بہت مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ اسے صرف وہی ماہرین تیار کر سکتے ہیں جو اس ٹیکنالوجی کا تجربہ ‘ذہانت اور محنت کی لگن رکھتے ہوں۔ مزید براں اب تک اس طریق کار کے ذریعے ایٹم بم بنانے کی خاطر یورینیم 235 حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ یہ طریق کار ایٹمی بجلی گھروں میں نصب ری ایکٹروں کو یورینیم 235 بطور ایندھن دینے کا کام آتا تھا۔

’’پروجیکٹ 706‘‘ کا قیام
مئی 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کومضطرب کر دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ ایٹمی طاقت بن کر دشمن پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکاہے۔ اب صرف پاکستانی ایٹم بم ہی اسے قابو کر سکتا تھا۔ ماہ اگست میں انہوںنے وزیراعظم بھٹو کو خط لکھ کربتایا کہ پاکستان پلوٹونیم کے بجائے افزودہ یورینیم 235سے جلد ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ خط بیورو کریسی نے منزل تک نہ پہنچایا۔

ستمبر میں بذریعہ سفیر ہالینڈ دوسرا خط وزیراعظم کے پاس پہنچ گیا۔ انہوںنے کہا ’’اس آدمی کی بات میں دم ہے‘‘۔وزیراعظم کے حکم پر منیر احمد خان نے سلطان بشیر الدین کو یہ کام سونپا کہ وہ یورینیم 235کی افزودگی کرنے والے طریقوں کا جائزہ لیں۔ سلطان صاحب نے تحقیق سے نتیجہ نکالا کہ گیس سینٹری فیوج طریقہ سب سے مؤثر اور ارزاں ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر گیس سینٹری فیوج طریقے سے یورینیم 235 افزودہ کرنے کا ایک منصوبہ بنایا گیا جسے ’’پروجیکٹ 706‘‘ کا نام ملا۔

دسمبر 1974ء میں بھٹوصاحب اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں یورینیم 235کی افزودگی کے طریق کار سے آگاہ کیا۔ مطمئن ہو کر بھٹو صاحب نے فروری 1975ء میں پروجیکٹ 706 کی منظوری دے دی۔ ڈاکٹر صاحب کو کہا گیا کہ وہ یورنیکو میں رہ کر گیس سینٹری فیوج طریق کار کی مزید معلومات حاصل کریں۔ اس دوران پاکستان میں پلانٹ کی عمارت تیار ہو جا ئے گی۔

پروجیکٹ706کا ابتدائی مرکز اسلام آباد ایئر پورٹ کے نزدیک بنی بیرکس تھیں۔ وہاں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس داں اور انجینئر مثلاً غلام دستگیر عالم‘ انور علی‘ جاوید ارشد مرزا‘ اشرف چوہدری‘ ڈاکٹر فخر ہاشمی اور اعجاز کھوکھر ابتدائی تجربات کرنے لگے۔

تمام شخصیات نے بعدازاں پاکستانی ایٹم بم بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پروجیکٹ منیجر سلطان بشیر الدین تھے۔اُدھر ہالینڈ میں ڈاکٹر عبدالقدیر گیس سینٹری فیوج طریق کار کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرتے رہے۔ بعدازاں ان پر الزام لگا کر انہوں نے یہ معلومات چوری کی ہیں۔ یہ ا یک لغو الزام تھا۔ اگر یہ بات ہے تو پھر امریکا نے بھی جرمن سائنس دانوں سے معلومات چُرا کر ایٹم بم بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی سائنس داں بھی چور ٹھہرتے ہیں کہ انہوںنے امریکی ایٹم بم کی دستاویزات دیکھ کر ہی اپنے ایٹمی ہتھیار تیار کیے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کی وطن واپسی
پروجیکٹ 706 میں شامل کوئی بھی پاکستانی ماہر گیس سینٹری فیوج طریق کار کا عملی تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ اس باعث پروجیکٹ کا کام سست رفتاری سے جاری رہا۔ اپریل 1976ء میں اسی لیے ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان چلے آئے اور انہوں نے کام خود سنبھال لیا تاکہ وہ تیز تر ہو سکے۔ انہی کی زیر نگرانی کہوٹہ اور واہ میں منصوبے سے متعلق لیبارٹریاں تعمیر ہوئیں ۔ تعمیراتی کام پاک فوج کے بریگیڈیئر (بعدازاں میجر جنرل) زاہد علی اکبر اور کرنل نسیم کی نگرانی میں مکمل ہوا۔لیبارٹریوں کی تعمیر کے بعد اب متعلقہ مشینری وہاں نصب کرنا تھی۔ بنیادی پرزہ جات تو مقامی انجینئروں سے تیار کرا لیے گئے ۔ اب جدید نوعیت کی مشینری یورپی کمپنیوں سے خریدنا تھی۔ اس خریداری میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا تجربہ بہت کام آیا۔

دراصل یورپی ممالک نے اپنی کمپنیوں پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ کوئی ایسا پرزہ یا مشین بیرون ملک فروخت نہیں کر سکتیں جو ایٹمی پروگرام میں استعمال ہو سکے۔ مگر گیس سینٹری فیوج طریق کار میں استعمال ہونے والی مشینری کی ندرت یہ تھی کہ وہ طبی و صنعتی منصوبوں میں بھی استعمال ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی ندرت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مطلوبہ مشینری کا ہر پرزہ مختلف کمپنیوں سے خریدا جائے تاکہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ پاکستانی اسے ایٹمی پروگرام کی خاطر خرید رہے ہیں۔ جب سبھی پرزے آ جائیں ‘ تو مطلوبہ مشینری تیار کر لی جائے گی۔

ایٹم بم بن گیا
ڈاکٹر صاحب کے پاس متعلقہ مشینری بنانے والی 100کمپنیوں کی فہرست موجود تھی۔ چنانچہ ان کی رہنمائی میں پاکستانی تاجر مطلوبہ پرزے خریدنے لگے مثلاً مشین ٹولز ‘ مختلف اقسام کے مقناطیس‘ اسٹیل پائپ‘ ویکیوم پمپ‘ بال بیرنگ اور ہر قسم کے دیگر پرزہ جات۔ بعض اہم پرزے تاجر نہیں خرید سکے۔ انہیں خریدنے کی خاطر جعلی طبی یا صنعتی کمپنی بنائی گئی ان کے ذریعے پرزے خرید لئے گئے۔

ایٹمی منصوبے کو خفیہ رکھنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا گیا۔ جو پاکستانی ایک پرزہ خرید لیتا‘ عموماً اس سے پھر کوئی خریداری نہ کرائی جاتی۔ منصوبے کے لیے سعودی عرب اور لیبیا نے ڈالر فراہم کیے جن کے ذریعے یورپ سے مطلوبہ سامان خریدا گیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں بھی ایٹمی منصوبہ پوری رفتار سے جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دس ہزار پاکستانیوں نے حصہ لیا۔ یہ سبھی پاکستانی ہمارے ’’نا معلوم ہیرو‘‘ ہیں۔

1982ء تک کہوٹہ کی لیبارٹری میں دس ہزار سینٹری فیوج مشینیں لگ چکی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان سے یورینیم زرد کیک کی شکل میں حاصل ہوا۔لیبارٹری میں اسے پھر گیس کی شکل دی گئی۔ اب گیس کومشینوں میں نہایت تیزی سے گھمانا تھا۔ مگر مشینوں کو خاص رفتار پر چلانے کے لیے ماہرین طبعیات اور ریاضی کی ضرورت تھی۔ آخر قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک ماہر ریاضی تسنیم شاہ نے ریاضیاتی مسائل حل کیے۔

جبکہ غلام دستگیر عالم اور انور علی طبعیاتی مسائل ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ رکاوٹیں دور ہونے کے بعد مشینوں میں یورینیم 235کی افزودگی شروع ہو گئی۔پاکستانی ایٹمی منصوبے پر کتابیں لکھنے والے فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ ابتداً پروجیکٹ 706سے منسلک بعض ماہرین کا بھی خیال تھا کہ یہ سعی لا حاصل ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کبھی سینٹری فیوج مشینیں نہیں بنا سکتے۔ حقیقتاً ڈاکٹر صاحب کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل رہیں۔ مگر انہوںنے حوصلہ نہ ہارا۔ وہ دل جمعی و لگن سے محنت کرتے رہے۔ ساتھیوں نے بھی ا ن کا پورا ساتھ دیا۔

ڈاکٹر صاحب کی زبردست قیادت میں ٹیم کی جدوجہد رنگ لائی اور 1983ء تک اتنا زیادہ یورینیم 235 جمع ہو گیا کہ اس سے ایٹم بم بنائے جا سکیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو کہا تھا ‘ اسے سچ کر دکھایا۔ انہوں نے صرف سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔

اس لیے انہیں بجا طور پر ’’پاکستانی یورینیم ایٹم بم کا باپ‘‘ کہا جاتاہے۔ ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات تاابد یاد رکھی جائیں گی۔وہ یورپ سے نہایت عمدہ ملازمت صرف پیارے وطن کی خاطر چھوڑ کر آئے اور اپنی مسلسل کوششوں سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔وسائل کم تھے، مگر انھوں نے اپنے ساتھیوں میں جذبہ حب الوطنی اور کچھ کر دکھانے کا ولولہ بھر ڈالا۔آخر اُن کی عظیم سعی سے خطے میں عسکری طاقت کے ترازو کا پلڑا پھر متوازن ہو گیا۔
https://www.express.pk/story/2238843/1/




https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-10-23&edition=KCH&id=5816009_81897872



پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان ڈاکٹر نادیہ انتقال کر گئیں
 23 October, 2021

پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان ڈاکٹر نادیہ چودھری 43 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں
ٹورنٹو (مانیٹرنگ ڈیسک)ڈاکٹر نادیہ کینسر میں مبتلا تھیں لیکن بیماری بھی انہیں مشن سے دور نہ کر سکی،آخری وقت تک نوجوان محققین کیلئے فنڈ ریزنگ میں مصروف رہیں۔ وہ کونکورڈیا یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں اور انہوں نے منشیات اور الکوحل کے استعمال پر تحقیق کی،ڈاکٹر نادیہ کا انتقال 5 اکتوبر کو مانٹریال کے ہسپتال میں ہوا۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-23/1899440



’میری رائے میں پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کا مضبوط ترین پاسپورٹ ہے‘ وہ وقت جب عمر شریف نے امریکہ کی شہریت ٹھکرائی
Oct 20, 2021 | 19:31:PM



کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) 2اکتوبر کو دنیا سے رخصت ہو جانے والے لیجنڈری کامیڈین عمر شریف کی یاد میں گزشتہ روز کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ نیوز ویب سائٹ جان لو کے مطابق اس تعزیتی ریفرنس میں عمر شریف کے صاحبزادے جواد عمر بطور مہمان خصوصی مدعو تھے۔ انہوں نے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے والد ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے ایک سفیر کی طرح دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کی۔“

جواد عمر نے کہا کہ ”عمر شریف نے ہر چیز پر اپنے ملک کو ترجیح دی۔ وہ جہاں بھی گئے، پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔ میں نے ان کے ساتھ بہت سفر کیا۔ کچھ برس قبل میں ان کے ساتھ امریکہ میں تھا جہاں ہیوسٹن کے میئر نے انہیں اعزازی شہریت دی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر شہریت لینے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کی رائے میں پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کا مضبوط ترین پاسپورٹ ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ میں پاکستان میں رہوں گا، پاکستان میں مروں گا، میں کسی دوسرے ملک میں نہیں رہوں گا۔“
https://dailypakistan.com.pk/20-Oct-2021/1355232?fbclid=IwAR29gpYxfyM4R7Avt0oMjFw5_8evl4Kd27WzIVNxra5siRlsN2j7DEyTsFc



اللہ اکبر، جب چھ ماہ بعد محمد محفوظ شہید کی قبرکھولی گئی تو ہر کوئی سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوگیا، ایمان افروز کہانی
Oct 06, 2019 | 13:36:PM

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام میں شہید کا رتبہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، اس بارے میں احکامات اور کرامات کا واضح ذکر ملتاہے اور اس کا ثبوت شہریوں کو اس وقت بھی دیکھنے کو ملا جب محمد محفوظ شہیدکی شہادت کے چھ ماہ بعد ان کامزار ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیاگیا۔

لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے موجودہ مزار پر موجودبھائی محمد معروف نے نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ محفوظ شہید کیلئے نشان حیدر کے اعلان پر کرنل نے ا±نہیں بلایا اور چھٹی کی ہدایت کی کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف نے آناتھا، جب وہ گھر پہنچے تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکاخان ہوکر چلے گئے تھے لیکن ان کی گھرموجودگی میں ہی 15پنجاب ایس ای او آئے انہوں نے آکر مزار پرپھولوں کی چادر چڑھائی ،عام قبرستان میں قبر تھی،سلامی دی اور کہاکہ یہ جگہ بہت تنگ ہے اوریہاں سلامی وغیرہ مشکل سے ہوگی اورمزار بناناہے لیکن اس جگہ پر مزار نہیں بن سکتا ، کھلی جگہ میں ہوتوبہترہے جس پر وہ (محمد معروف بھائی محفوظ شہید) مزار کی منتقلی پر راضی ہوگئی کیونکہ اردگرد اپنی زمین موجود تھی۔

محمدمعروف نے انکشاف کیاکہ لوگوں نے مزار منتقلی سے ڈرایا کہ گرمی بہت ہے ، اندرونی حالات کا علم نہیں ، چھ مہینے پہلے شہادت ہوئی ہے لیکن اللہ کانام لے کر ہم نے جمعہ کو قبرمنتقلی کا پروگرام بنایا، یہ 30جون کا دن تھا اور شدیدگرمی ، سخت دھوپ تھی ، جیسے ہی قبرکشائی شروع کی تو بادل کا ایک ٹکڑا قبرستان پر آگیا اور اس سے بونداباندی شروع ہوگئی ، قبرستان کے علاوہ نواح میں کڑکتی دھوپ تھی ، جب مٹی ہٹائی تو اتنی پیاری خوشبوآناشروع ہوگئی جو شاید اس سے کبھی نہیں سونگھی اور نہ ہی اس کے بعد محسوس کی ، لوگ حیران تھے کیونکہ کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ قبرکشائی مکمل کرنے کے بعد جب صندوق کو اٹھانے لگے تو نیچے ہاتھ ڈالا، پوراہاتھ خون میں لت پت ہوگیا، نیچے ساراخون تھا، صندوق باہر نکال کر چارپائی پر رکھا،چارپائی سے خون کے قطرے گرناشروع ہوگئے اور پھر پلیٹ منگواکر نیچے رکھ دی تاکہ شہید کے خون کی بے حرمتی نہ ہو، پہلے ارادہ تھا کہ صندوق نکال کر فوری دوسری جگہ تدفین کردیں گے مگر خوشبواور نورہی نور کی وجہ سے ہمیں حوصلہ ملا، پھر ہم نے آرام سے منتقلی کی ،اس وقت کے جذبات بیان نہیں کرسکتا، چونکہ پہلی تدفین کے وقت حاضرنہیں تھا اس پر درخواست کی کہ چہرہ مبارک دیکھناچاہتاہوں اور حاجی صاحب نے اجازت دیدی۔

محمدمعروف نے انکشاف کیاکہ جب چہرہ دیکھاتو حیران رہ گیا، شہید کی تدفین کے وقت چہرے پر تازہ شیو تھی لیکن چھ ماہ بعد داڑھی مبارک بڑھی ہوئی تھی ،پھول بھی اسی طرح تازہ تھے جیسے ہم نے یہ پھول پودے سے توڑ کر ادھر رکھے ہیں، خون جاری تھا، خون تو ساری دنیا نے دیکھا وہاں کوئی اڑھائی ہزار لوگ تھے ، اس چارپائی پر بھی والدہ نے اپنے انتقال تک کسی کو سونے کی اجازت نہ دی ، والدہ کوان سے بہت پیار تھا ، والدہ یہ دکھ برداشت نہیں کرسکی ،بہت سمجھایاکہ وہ جنتی ہے اور آپ کو بھی جنت میں بلائے گا، والدہ جب تک زندہ رہیں ، پھر کوئی نہ کوئی تکلیف میں مبتلارہتیں ، بہت علاج کرایا لیکن بالآخر اپنے بیٹے کیساتھ ہی ابدی نیند سوگئیں۔
https://dailypakistan.com.pk/06-Oct-2019/1030553?fbclid=IwAR05IVxEJATkJc9K0_3L454BSRlaS9iMEIGxNQFOvcCX_wHO5FjvDWSQG2E



اتباع مصطفیٰ ﷺ کی برکات ،آپ ﷺ کا پیروکار اللہ تعالیٰ کا مجبوب ہے
 19 October, 2021



تحریر : پروفیسر نصیر احمد

’’اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (آل عمران: آیت31)محبت ایک مخفی چیز ہے کسی کو کسی سے محبت ہے یا نہیں اور کم ہے یا زیادہ، اس کا کوئی پیمانہ بجز اس کے نہیں کہ حالات اور معاملات سے اندازہ کیا جائے۔ محبت کے کچھ آثار اور علامات ہوتی ہیں ان سے پہچانا جائے، یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار اور محبوبیت کے متمنی تھے وہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان آیات میں اپنی محبت کا معیار بتایا ہے۔ یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ اس کو اتباعِ محمدیﷺکی کسوٹی پر آزما کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے میری اتباع کی تو بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو بے شک اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘۔ (بخاری: 2957)

اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت رسول پاکﷺ کی اتباع اور آپﷺ کی پیروی کرنا ہے۔ جو آپﷺ کا پیروکار ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور جو آپﷺ کی پیروی سے محروم ہے وہ اللہ کی محبت سے محروم ہے۔ محبت الٰہی کے دعویٰ کی جانچ کے لیے کیا اچھا معیار بتادیا گیا یعنی اتباع رسولﷺ جو شخص جتنا زیادہ متبع رسولﷺ ہوگا اسی قدر اس کی محبت الٰہی مسلم و معتبر ہوگی۔

مخلوق کے کمال کی معراج یہ ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرے اور اللہ کی ان پر عنایت یہ ہے کہ وہ ان سے محبت کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لئے تمام مخلوق پر یہ واجب کردیا ہے کہ وہ حضرت محمدﷺکی اتباع اور آپﷺ کی اطاعت کریں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر موسیٰ تمہارے سامنے زندہ ہوتے تو میری اتباع کرنے کے سوا ان کے لئے کوئی امر جائز نہ ہوتا‘‘( صحیح بخاری: 3449) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی حضرت محمدﷺ کی اتباع واجب ہے تو جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب اور ان کے اُمتی ہیں ان پر تو حضرت محمدﷺ کی اتباع واجب ہوگی۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا تو وہ بھی آپﷺ کی شریعت کی اتباع کریں گے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوگا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین،اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘(صحیح بخاری: 15)۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا۔ یہ کہ اسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں، اور وہ جس شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لئے محبت کرے اور اس کے نزدیک کفر میں لوٹنا آگ میں ڈالے جانے کی طرح مکروہ ہو۔(صحیح بخاری: 16)۔

حضور ﷺ کا خلق عظیم

نبی مکرم، نور مجسم ﷺ کا حسن معاشرت اور خوش خلقی بے مثال تھی۔حضرت انسؓ حضور ﷺکے خادم خاص تھے، ان کا بیان ہے کہ آٹھ برس کا تھا جب خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور دس برس تک شرف یاب ملازمت رہا۔ اس مدت میں نبی کریم ﷺ نے کبھی مجھے اُف تک نہ کہا۔آپ ؓکے بقول رسول اللہ ﷺکی زبان اقدس سے کبھی کوئی فحش بات نہیں نکلی تھی اور نہ ہی آپﷺ کسی پر لعنت کرتے تھے۔

آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر نہایت مہربان اور بے انتہا شفیق تھے۔ آپ ﷺکو بچوں سے بھی بہت محبت تھی۔ آپ ﷺکے اپنے نواسے نواسیوں کا نماز کے اندر ہی آپ ﷺکے کندھوں پر سوار ہونا، گود میں آجانا، نماز میں آپ ﷺکا ان کو اٹھا لینا وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔

آپ ﷺمجسمہ بھلائی اور خیر تھے اور ہر بھلائی اور خیر آپ ﷺمیں بدرجہ اتم موجود تھی۔آپ ﷺکی طبیعت کا اصل میلان اور آپ ﷺ کے خلق کریم کا صحیح نمونہ ضبط نفس، بردباری اور حلم کے موقعوں پر نظر آتا ہے۔ جنگ احد میں حضورﷺ زخمی ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے ان حالات میں عرض کیا کہ کاش آپﷺ مشرکین کی ہلاکت کی دعا فرمائیں۔ لیکن نور مجسم ﷺ نے ان کو جواب دیا کہ میں لعنت اور بددعا کے لئے نہیں آیا، رب ذوالجلال نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔

ایک بار طفیل بن عمروؓ نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ قبیلہ دوس نافرمانی اور سرکشی کرتا ہے اور اسلام لانے سے انکاری ہے، آپﷺ ان کے حق میں بددعاکیجئے۔ رحمت کائناتﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور ان کے راہ راست پر آنے کی دعا کی۔

نبی مکرم ﷺ نہایت ہی رحیم المزاج واقع ہوئے تھے،بڑے سے بڑے دشمنوں کو بھی معاف فرما دیتے تھے۔ قریش مکّہ سے زیادہ دشمن آپﷺ کے اور کون تھے؟ لیکن جان رحمتﷺ نے سب کو معاف کر دیا۔

آپﷺ کی طبعی فیاضی کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باروایت جابر بن عبداللہؓ کبھی زبان فیض ترجمان سے کسی سائل کے لئے بھی ’’نہیں‘‘نہیں نکلا۔ بلا شبہ نبی اعظم وآخر ﷺکی زندگی کا اصل اصول ہی ایثار تھا۔

آپ ﷺ امت پر عبادات کا بار بھی بہت کم ڈالنا چاہتے تھے چنانچہ آپﷺ خود اسی خیال سے نوافل پر مداومت نہیں فرماتے تھے کہ کہیں لوگ ان عبادتوں کو اپنے اوپر لازم نہ کرلیں اور یوں تکلیف میں نہ پڑجائیں۔

(پروفیسر نصیر احمد اسلامی سکالر اور صدر شعبہ اسلامیات گورنمنٹ ایم اے او کالج ہیں)
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-19/1919



آمد مصطفیٰ ﷺ مرحبا مرحبا ،نبی کریم ﷺ کی آمد تمام جہانوں کے لئے رحمت
 19 October, 2021



تحریر : مفتی محمد قمر الزمان رضوی

’’اور بیشک آپﷺ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں‘‘۔ (القلم ۶۸:۴)اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاوّل شریف ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا، یہ مہینہ فیوض وبرکات کے اعتبار سے بہت ہی افضل و اعلیٰ ہے کیوں کہ اس ماہ مبارک میں باعث تخلیق کائنات فخر موجودات حضور ﷺ نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ 12 ربیع الاوّل بروز پیر مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپﷺ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔

اس لیے تمام اہل ایمان اس ماہ مبارک کے آتے ہی خوشیوں سے جھوم جاتے ہیں، ہر طرف مسرت وشادمانی کا پرکیف سماں بندھ جاتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ اور دُکھی و بے سہارا انسانیت کے لیے فرحت ومسرت کا سب سے بڑا سامان ہے۔

حضورنبی کریم ﷺ کی ذات گرامی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل وکرم، سب سے بڑا احسان، سب سے بڑی نعمت اور تمام جہاں والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ کے یوم میلاد کو عشاق انتہائی اکرام و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ ربیع الاول میں خوشیوں کا نظارہ ایک عجیب خوش کن نظارہ ہے، ہاتھوں میں قندیلیں اٹھائے، نعلین مقدسہ کے نقش سے مزین جھنڈے ہاتھوں میں تھامے، لبوں پہ آمد مصطفی ﷺ مرحبا مرحبا کا نعرہ سجائے، رنگ و نور میں نہائے ہوئے چہرے قابل دید نظارہ پیش کرتے ہیں۔ جشن میلاد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔

’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے، پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ یونس، 01: 58)

اسی طرح سورۃ الاعراف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’آپﷺ فرما دیں،اے لوگو:میں تم سب کی طرف اس اللہ کار سول (بن کر آیا) ہوں۔ جس کے لیے تمام آسمانوں اورزمین کی بادشاہت ہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف، آیت 158)

حضرت مطلب بن ابی وداعہؓ سے مروی ہے: ’’حضرت عباس ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، انہوں نے (نبی اکرم ﷺ کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ۔ (آپؓ نے یہ کلمات حضور ﷺ کو بتائے یا آپ ﷺ علم نبوت سے جان گئے) تو حضورﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا: آپ ﷺ پر سلام ہو، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں عبداللہ کابیٹا محمد(ﷺ) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا، پھر اسے گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا ، ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا ، پھر اس قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘(ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات 5:543، رقم:3532)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جائوں۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الإیمان، 1: 14، رقم: 15)

میلاد النبیؐ کی خوشیاں منا کر ہم اپنے پیارے آقاﷺ سے اسی لازوال تعلق کا اظہار کرتے ہیں جو تقاضائے ایمان ہے۔ ماہ میلاد میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و شمائل، خصائص و خصائل، نسبی طہارت، نورانی ولادت، بعثت و رسالت، شانِ علم و معرفت، شان ورفعنا لک ذکرک اور دیگر اوصاف و کمالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ حضورنبی کریم ﷺ سے امت کے تعلقِ حبی اور عشقی کو مزید مضبوط اورمستحکم کرتا ہے۔ میلاد النبی ﷺ کے دن خوشیاں منانے والے عشاق در حقیقت محبت رسول ﷺ سے سرشار وہ امتی ہیں جن کا ذکر حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی درج ذیل حدیث میں ہوا ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب: الجنۃ، 4:2178، رقم: 2832)

یہ وہ خوش نصیب ہیں جن کو آقا دو جہاں ﷺ نے سات مرتبہ خوشخبری دی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔‘‘(مسند احمد بن حنبل، 5: 257، رقم: 22268)

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے

حضورنبی کریم ﷺ کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیں۔ حضورنبی کریم ﷺ نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201)۔ آپ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی ۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65)۔ حضرت عباس ؓ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کئے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

حضرت عباسؓ کا خواب

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس ؓ نے اُسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی، سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزریؒ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حال ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے تو حضورﷺ کے اُمتی کا کیا حال ہو گا جو میلاد کی خوشی میں حضور ﷺ کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے۔(مواہب الدنیہ ج1،ص27، مطبوعہ مصر)

میلاد النبی ﷺ اور اللہ کے انعامات

سیرت حلبیہ ج 1، ص 78 اور خصائص کبریٰ ج 1، ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفےﷺ حضرت آمنہ ؓ کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ حضورﷺ کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے )۔

چراغاں کرنا

عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے، ’’میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ (مشکوۃ)

حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں، ’’جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی‘‘۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلادالنبی ﷺ کی خوشی میں اپنے گھروں اور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالق کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کی والدہ فرماتی ہیں، ’’جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں‘‘۔ (سیرت حلبیہ ج 1 ص 94، خصائص کبریٰ ج 1 ص 40، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

(مفتی قمرالزمان قادری معروف اسلامی سکالر

ہیں، آپ جامع مسجد احمد مجتبیٰﷺ سے بطور

خطیب وابستہ ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں)

امام طحاوی رحمتہ اللّہ علیہ (239،321) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں:

راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے،پِھر شبِ قدر،پِھر شبِ اِسراء و معراج،پِھر شبِ عرفہ،پِھر شبِ جمعہ،پِھر شعبان کی پندرہویں شب اور پِھر شبِ عید ہے۔

(اِبنِ عابدین،رد المحتار علی در المختار علی تنویر الا?بصار،2:511)

امام نبہانی رحمتہ اللّہ علیہ (م 1350ھ) اپنی مشہور تصنیف '' الا?نوار المحدیۃ من المواہب اللدنیۃ،صفحہ نمبر 28 '' میں لکھتے ہیں:

ولیلۃ مولدہ ﷺ ا?فضل من لیلۃ القدر۔

'' اور شبِ میلادِ رسول اللّہ ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔ ''

مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنوی رحمتہ اللّہ علیہ (1224،1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

'' تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے۔ ''

1- اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔

2- شام سے صبح تک تجلّی باری تعالیٰ آسمانِ اوّل پر ہوتی ہے۔

3- لوحِ محفوظ سے آسمانِ اوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہُوا ہے۔

اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلّیء اُمّتِ محمّدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔اللّہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

'' شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ''

(سورۃ القدر،3:97)

اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ مَنشاء نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیونکہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ: '' جب تک واضح دلیل نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔ ''

(عبدالحئی،مجموعہ فتاویٰ،1:86،87)

شبِ قدر کو فضیلت اِس لیے مِلی کہ اِس میں فرشتے اُترتے ہیں۔جب کہ ذات مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت کا یہ عالم ہے:

'' آپ ﷺ پر قرآن نازل ہُوا اور روزانہ ستّر ہزار فرشتے صبح اور ستّر ہزار فرشتے شام کو آپ ﷺ کے مزارِ اقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں ہدیہء درود و سلام پیش کرتے ہیں۔یہ سِلسِلہ قیامت تک اِسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضہء رسول ﷺ پر حاضری کا شرف پا لیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔ ''

(اِبنِ مبارک،الزھد:558،رقم:1600)

(دارمی،السنن،57،رقم:94)

فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ ﷺ کے خادم اور جاروب کش ہیں۔وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا اِنسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔آقا ﷺ کی آمد کی رات اور آپ ﷺ کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ:

'' شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے باقی اِنسانیت اِس سے محروم رہتی ہے۔مگر حضور ﷺ کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کُل کائنات کے لیے ہے۔آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے افضل اور اس کی رحمت ہے۔اس پر خوشی کا اِظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے محبوب کریمﷺ کی سچی محبت نصیب فرمائے۔ آمین۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-19/1918



قائد ملتؒ، مسلم قومیت کے نقیب ،لیاقت علی خان ؒ کا مکا قومی اتحاد کی علامت بن گیا
 16 October, 2021



تحریر : ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم

’’لیاقت علی خانؒ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ا یک کر دئیے وہ اگرچہ نوابزادہ ہیں لیکن وہ عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں ،میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ان سے سبق حاصل کریں‘‘:قائد اعظمؒ

پاکستان کو معرض وجود میں ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ بھارت نے پاکستانی سرحد پر افواج کی نقل و حمل شروع کر دی۔ یہ 1951ء کی بات ہے جب وطن عزیز پر جارحانہ حملہ کی نیت سے بھارت نے بھاری تعداد میں پاکستانی سرحد پر فوجیں جمع کر دیں انہی دنوں ملک بھر میں یوم دفاع بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ ہر شہر میں جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ کراچی میں ایک عظیم الشان جلوس پہنچا تو جلیل القدر ، باہمت اور بیباک وزیراعظم نے ہجوم سے خطاب کیا۔ مکا بنا کر دائیاں ہاتھ اونچا کرتے ہوئے کہا،

’’جس طرح یہ انگلیاں مل کر مکا بن جاتی ہیں اسی طرح تمام پاکستانی عوام متحد ہو جائیں یہی اتحاد ہمارا ایٹم بم ہے جس کی بدولت ہم دنیا کی ہر طاقت کو شکست دے سکتے ہیں‘‘۔لیاقت علی خانؒ کا مکا قومی اتحاد کا مظہر بن گیا۔ اتحاد کے مظاہر نے بھارتی سورمائوں کے حوصلے پست کر دئیے اور کچھ عرصے بعد بھارتی فوجیں پاکستانی سرحدوں سے پیچھے ہٹ گئیں۔ وزیراعظم نے ملی اتحاد کا نشان مکا فضا میں بلند کر کے پاکستانی قوم میں یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے والے قائد ملت، مسلم قومیت کے زبر دست نقیب لیاقت علی خانؒ تھے۔

اس وقت کے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان نے اپنی خود نوشت’’ Friends Not Master‘‘(جس رزق سے آتی پرواز میں کوتاہی) میں قائد ملتؒ کی جرأت و بیباکی بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’لیاقتؒ علی خان نے کہا میں اس روز روز کے خطرات اور دبائو سے تھک چکا ہوں اب تو نمٹا ہی جائے۔‘‘ لیکن ہمیں اپنے وسائل کو دیکھنا ہے۔ دشمن قوی ہے اور ہمارے پاس صرف تیرہ ٹینک۔ قائد ملتؒ کی آواز پھر گونجی ’’پاکستان کسی سے جنگ نہیں چاہتا لیکن حملہ آور کے لئے پاکستان مکے جیسا طاقتور اور متحد ہے۔‘‘

خان لیاقت علی خانؒ کے آبائو اجداد :۔خان لیاقت علی خان ؒکے آبائو اجداد تقریباً پانچ صدیاں قبل ایران سے ہندوستان آئے تو روائل میں بہتر وسائل زندگی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ ایک زمانے میں اس خاندان کا قیام لاہور میں بھی رہا۔ اعلیٰ فوجی و انتظامی قابلیت کے صلے میں مقتدر بزرگوں کو شمالی ہند کے ضلع مظفر نگرمیں خطیر آمدنی کی جاگیریں ملیں اور یہ علم و دانش سے آراستہ مہذب و متمدن خانوادہ مستقل طور پر کرنال میں سکونت پذیر ہوگیا۔ اس وقت خاندان کے سربراہ نواب احمد علی خان تھے جنہیں انگریز کی جانب سے رکن الدولہ شمشیر نواب بہادر کا خطاب عطا کیا گیا۔ نواب موصوف کے تین فرزند نواب رستم علی خان، نواب عظمت علی خان اور نواب سجاد علی وارث جائیداد بنے۔ نواب رستم علی خان نے موضع راجپور ضلع سہارن پور نواب گوہر علی خان کی صاحبزادی محمودہ بیگم سے شادی کی اس محترم خاتون کے بطن سے نوابزادہ لیاقت علی خانؒ یکم اکتوبر 1895ء کو کرنا ل میں پیدا ہوئے۔ ان کے دوسرے بھائیوں کے نام نوابزادہ خور شید علی خان اور نوابزادہ صداقت علی خان ہیں۔

آپ ؒ کی تعلیم و تربیت:۔لیاقت علی خانؒ نے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔1910ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لے لیا۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر گریجوایش اس کالج سے مکمل کرنے سے قبل ہی الٰہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوگئے اور وہیں سے 1918ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بزرگوں کی رائے تھی کہ آپ انڈین سول سروس میں شامل ہو جائیں۔ مگر انہیں یہ بات پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے بزرگوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیج دیا جائے۔ 1921ء میں ایکسٹر کالج آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا اور 1922ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے اگلے سال وطن واپس آئے۔ والدین نے تقاضائے محبت سے مجبور ہو کر ان کی چچا زاد بہن نواب زادی جہانگیرہ بیگم سے شادی کر دی۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے نواب زادہ ولدیت علی خان انہیں کے بطن سے پیدا ہوئے۔

قائد ملت اوائل عمری ہی میں خدمت قوم کا جذبہ رکھتے تھے چنانچہ 1923ء میں عملی طور پر مسلم لیگ سے وابستہ ہو ئے۔ تین سال بعد آپ نے یو پی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔مسلسل چودہ برس رکن اور چھ برس اسمبلی کے نائب صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ ان دنوں یو پی میں ڈیموکریٹک پارٹی رہنما تھے۔ 1936ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری رہے۔

قائد اعظم ؒ کی انڈیا واپسی کی کوششیں:۔قائداعظم ؒہندو اور انگریز کی عیاری سے مایوس ہو کر 1930ء میں مستقل طور پر لندن میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ وہاں پانچ سال تک رہے اس دوران میں برصغیر میں علامہ محمد اقبال کے خطبہ الٰہ آباد نے مسلمانوں میں عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ مسلمانان ہند کو مصمم ارادے والے مخلص رہنما کی ضرورت تھی۔ علامہ اقبالؒ کی نظر انتخاب قائداعظم محمد علی جناحؒ پر پڑی۔ لیاقت علی خانؒ بھی مسلسل قائداعظمؒ کو ہندوستان لانے کی کوششوں میں مصروف رہے تاکہ وہ مسلمانوں کی قیادت کریں۔ حضرت قائد اعظم ؒان رہنمائوں کے اصرار پر1935ء میں لندن سے واپس ہندوستان آکر مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ابتداء میں ایک بے جان تنظیم تھی ۔ قائداعظمؒ نے عوامی سطح پر اسے منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ساتھ قائد ملت کو لیگ کا نظم و نسق سونپ دیا۔ پھر آہستہ آہستہ مسلم لیگ کے خزاں رسیدہ شجر پر برگ و بار آنے شروع ہوئے۔ سخت کھٹن مراحل سے گزرکر انہیں اپنی محنتوں کا پھل ملا۔ لیاقت علی خان انجام سے بے خبر مگر خوشگوار مستقبل کی امید میں لگا تار محنت کرتے رہے۔

کارکنوں کے ساتھ ان کا برتائو اور طرز عمل ہمیشہ مشفقانہ ، پدرانہ، مخلصانہ اور دوستانہ رہا۔ وہ بہترین مقرر تھے اور اپنے دلکش انداز میں مؤثر باتیں کہتے جن سے حاضر جوابی اور شگفتگی اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہتی ۔ اتحاد اور یکجہتی کی ہمیشہ تلقین کرتے۔

حضرت قائداعظم ؒکا دایاں بازو:۔حضرت قائداعظمؒ نے 1943ء میں کراچی ریلوے سٹیشن پر انہیں اپنا دایاں بازو قرار دیا اور فرمایا ’’خان لیاقت علی خانؒ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ا یک کر دئیے وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن وہ عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ان سے سبق حاصل کریں۔‘‘

سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات میں بریلی کے انتخابی حلقے سے انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ کانگریس لیاقت علی خانؒ کو شکست دینے کے لئے نیشنلسٹ مسلمان امیدوار سامنے لانے کا حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام ہو گئی۔ اسمبلی میں لیاقت علی خان کی تقاریر نے تہلکہ مچا دیا۔ قائداعظم کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کے تمام امور کی نگرانی لیاقت علی خان خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔

ہندو سرمایہ داروں کی کمر توڑ دی!:۔25 جون 1945ء کو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول نے شملہ کانفرنس طلب کی تو آپ نے مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا۔ 1946ء میں مسلم لیگ نے ہندوستان کی عارضی حکومت میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا تو لیاقت علی خانؒ اس کابینہ میں مسلم بلاک کے رہنما کی حیثیت سے لئے گئے۔ وزارت خزانہ کا قلمدان ان کے سپرد ہوا۔ آپ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی عبوری حکومت کا بجٹ 1947-48ء پیش کیا۔ ان کے بجٹ پر ہندوستان کے سرمایہ دار بہت ناراض ہوئے ۔آپ کے بجٹ نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔عوامی حلقوں نے اس کا بے حد خیر مقدم کیا اور اسے ’’غریب کا بجٹ‘‘ قرار دیا جبکہ ماہرین اقتصادیات نے اسے ایک کارنامہ کہا۔

قائد اعظمؒ کے ساتھ لندن روانگی:۔سیکرٹری آف سٹیٹ نے انگلستان سے وائسرائے ہند کے نام ایک خط لکھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس سے دو دو نمائندے سیاسی تعطل دور کرنے کے لئے بھیجے جائیں۔چنانچہ مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہمراہ لیاقت علی خانؒ 2دسمبر 1946ء کو لندن گئے۔14اگست 1947ء کو شب لارڈ مائونٹ بیٹن کراچی پہنچے اور اقتدار دستور ساز اسمبلی کو سونپا۔ اس رات قائداعظم محمد علی جناحؒ پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے ۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم:۔ لیاقت علی خانؒ نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران میں آپ ؒنے اعلیٰ قابلیت، سنجیدگی، متانت ، تنظیمی صلاحیت اور روشن خیال کا ثبوت دیا۔ قائداعظم کی بے وقت رحلت کے بعد آپؒ نے قیادت سنبھالی۔ نوخیز مملکت خداداد پاکستان کی پہلی کابینہ میں آئی آئی چند ریگر ، مسٹر غلام محمد، سردار عبدالرب نشتر، راجہ غضنفر علی خان، مسٹر جوگندر ناتھ منڈل اور فضل الرحمن بطور وزارء شامل ہوئے۔ امور خارجہ تعلقات دولت مشترکہ اور دفاع کے محکموں کی ذمہ داری بھی آپؒ کے سپرد تھی۔ یہ سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے پریشان، ہر طرف خون ہی خون، انتظامی مشینری، انتہائی غیر منظم اور وسائل کے اعتبار سے پاکستان بالکل تہی دامن تھا۔ ایسے انتہائی نامساعد، مخدوش اور غیر یقینی حالات میں آپؒ نے غیر معمول تدبر، فراست اور عملی ذہانت کا ثبوت دیا۔

دھن دولت کے بعد جان کی قربانی :۔1951ء میں یوم استقلال کے جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے لیاقت علی خانؒ نے فرمایا تھا کہ ’’بھائیو میرے پاس دھن ہے نہ دولت، میں سب کچھ قوم پر قربان کر چکا ہوں۔ آپ مجھ سے جس محبت کا اظہار کرتے ہیں اس کے جواب میں میرے پاس دینے کو صرف اپنی جان رہ گئی ہے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر پاکستان کے لئے خون دینے کا موقع آیا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہو جائے گا۔‘‘

16اکتوبر1951ء کو راولپنڈی ایک جلسہ عام ہوا۔آپؒ جلسہ گاہ تشریف لائے تو فضا تالیوں سے گونج اٹھی۔ سپاسنامہ سننے کے بعد سٹیج پر پہنچے۔ ابھی ’’برادران ملت ‘‘ ہی کہا تھا کہ سید اکبر نامی ایک درندہ صفت شخص نے گولی چلا کر شہید کر دیا۔ ایک قاتل پکڑاگیا لیکن اے ایس آئی شاہ محمد نے اسے گولی مار دی۔ یوں آپؒ کی شہادت آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ متعدد بار تحقیقات ہوئیں لیکن نتیجہ نہ نکلا ۔

آپؒ کی شہادت ،ایک عالمی سازش :۔آپ ؒ کی شہادت ایک گہری سازش تھی، کئی سابق پولیس افسران نے سازش کا سراغ لگانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ ایک ایماندار پولیس آفیسر اعتزازالدین آئی جی سپیشل پولیس سرکاری طورپر تحقیقات کررہے تھے۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ موت کے سائے ان کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک روز اخباری نمائندے کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سازش کا سراغ مل گیا ہے اسے بہت جلد بے نقاب کر دیا جائے گا۔ لیکن ان کی بد قسمتی کہ جس ہوائی جہاز میں مقدمے کی فائلوں سمیت سفر کر رہے تھے۔ وہ جہلم کے قریب جل کر راکھ ہو گیا۔

شہادت کے وقت بینک بیلنس صرف 32 روپے!:۔شہید ملت لیاقت علی خانؒ کی زندگی سبق آموز ہے دولت کی انہیں کوئی تمنا نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت ان کا بینک بیلنس صرف 32روپے تھا۔ وہ عمر بھر صلے کی تمنا کیے بغیر قوم و ملک کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اور ہمارے لئے مشعل راہ ر ہے تاکہ ہم حقیقت سے دور نہ بھٹکنے پائیں۔ سخت اور کڑے وقت میں بھی ثابت قوم رہیں۔

جمہوری اصولوں او رانصاف کی بالا دستی کا عزم :۔ آپ نے کہا’’ہمیں ایسی مملکت کی بنیاد رکھنی چاہیے جس میں اللہ کا قانون نافذ ہو جہاں جمہوریت کے اصول پھیلیں ، پھولیں، مساوات معاشرتی انصاف جس کا اسلام میں ذکر ہے کا بول بالا ہو ۔ ایسی مملکت جس جگہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے اپنی زندگی قرآن مجید میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہو اور وہ اپنے کلچر کو آسانی سے فروغ دے سکیں۔ اسلام پرائیویٹ ، اعتقادات یا طرز عمل نہیں بلکہ یہ مسلمانوں سے بہترین مقاصد پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔قرارداد میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عوام کے منتخب نمائندے حکومت چلائیں گے اوریہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ہمیں پاکستان کو اس طرز کا بنانا چاہیے جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت رہنے کے اعتبار سے مساوات ، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی انصاف میسر ہو سکے‘‘۔
(ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم صحافی اور مصنف ہیں، ان کے تحقیقاتی مضامین اور کالم مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔)
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-16/1913



شہید ملت لیاقت علی خان،عظیم رہنما،صاحب فراست حکمراں
 16 October, 2021



تحریر : محمد ارشد لئیق

آپؒ نے تمام معاشی پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کردیا تھا،بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد تحریک پاکستان میں دوسرا بڑا نام لیاقت علی خانؒ کا ہے

کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی اعلیٰ صفات اور لائق تحسین خدمات کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور بعض عاقبت اندیش لوگ اپنی غلط اندیشیوں اور غلط کاریوں کے باعث زندگی میں ہی مر جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خانؒ مرحوم کا شمار قوم کے ان عظیم محسنوں میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور جن کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کیلئے چراغ راہ کا کام دیتے ہیں بلکہ تاریخ کے صفحات میں ان کے اسمائے گرامی اور ناقابل فراموش کارنامے چاند تاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔

دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر خال خال شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں یاد کرنے پر زمانہ مجبور ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے خود اپنی عظمت کا اپنی زندگی میں دوسروں سے لوہا منوایا ہوتا ہے۔ شہید ملتؒ آج بھی لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ہر صبح جب سورج کی پہلی کرنیں کرہ ارض پر پڑتی ہیں، تو ان کی یاد پھیل جاتی ہے، جیسے کہتی ہو :

میں اگر جا سکا نہ منزل تک

عجز سے لوٹ کر نہ آئوں گا

یا بگولوں کا روپ لے لوں گا

یا شعائوں میں پھیل جائوں گا

واقعی یہ ہیں ہمارے قائد ملت، جو ملت کی نبض اور دل میں دھڑکتے ہیں، جو درخشندہ سورج میں جگمگاتے اور چودھویں کے چاند میں جھلملاتے ہیں۔ اس سچائی میں شک کی ہر گز گنجائش نہیں ہے کہ شہید ملت کو ایک عظیم ترین قومی ہیرو کا اونچا درجہ حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے اولین لمحات سے آج تک اور آنے والے زمانوں میں بھی وہ عوام کے قلب و روح پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ عوامی فکر ونظر پر ان کی سدا بہار بادشاہی ہے ان کی عوامی سوچ ، ان کی پروقار منکسر المزاجی، تکبر، ٹھاٹھ باٹھ،نمودو نمائش اور روائتی سرمایہ دارانہ لائف سٹائل اختیار کرنے سے ان کا دائمی مستقل پرہیز، درویشانہ طرز زندگی، غریبوں سے محبت پر مبنی کردار ادا کرنا یہ سب کچھ عوام کو دل و جان سے پسند تھا۔

غیرت مند معاشرے کے ہر فرد کا ایک نصب العین ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک خاص مقصد حیات کی خاطر زندہ رہتا ہے، وہ اپنے نظریہ کی خاطر تمام زندگی سربکف رہتا ہے اور وقت آنے پر اپنے مقصد حیات کی تکمیل پر جان بھی نچھاور کر دیتا ہے۔ شاعر مشرق، مفکرپاکستان ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کے ماحول، معاشرے اور فکر کی کیا خوب ترجمانی کی تھی!

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی

اس خوبصورت شعر میں پنہاں فلسفے کی روح اور مفہوم و معنی کی روشنی میں جو عظیم تر خوبصورت شخصیت اجاگر ہوتی ہے، اس کا نام نواب زادہ لیاقت علی خانؒ ہے۔ ان کا وجود ا انقلابی شعر کی وہ عملی شکل ہے، جس پر نہ صرف اہل پاکستان، بلکہ تمام اسلامیان عالم ناز کرتے ہیں۔ وہ مملکت خدا داد پاکستان کے اولین وزیر اعظم، عوام کے محبوب ترین قائد اور قائد اعظمؒ کے دست راست و جانشین تھے۔

پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم شہید ملت نوبزادہ خان لیاقت علی خانؒ تھے۔ ان سب سے بڑھ کر تحریک پاکستان کے ایک نڈر مجاہد، پرجوش رہنما اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے معتمد خاص، دست راست اور پوری قوم کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ہر دل عزیز قائد تھے۔ جب تک زندہ رہے قوم نے ان کی لازوال خدمات اور عہد آفرین سیاسی سماجی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’قائد ملت‘‘ کے نام سے پکارا۔ پھر ملک دشمن عناصر نے16 اکتوبر 1951ء کو انہیں اپنے ناپاک عزائم کا نشانہ بنا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

وہ قائد اعظمؒ کے حلقہ احباب کے ایک رکن تھے۔ ضلع کرنال کے ایک نواب گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ نوابی ماحول میں ہی انہوں نے 1898ء میں آنکھ کھولی اور بچپن کا دور گھر میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق نے علیگڑھ کی راہ دکھائی۔ علیگڑھ یونیورسٹی سے 1919ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان چلے گئے جہاں آکسفورڈ سے 1921ء میں ایم اے پاس کیا۔ 1922ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے برطانیہ سے وطن واپس تشریف لے آئے۔

یہ وہ دور تھا جب قائداعظمؒ 1913ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے۔ لیاقت علی خانؒ نے بھی انگلستان سے واپس آکر ملی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ 1922ء میں وہ باقاعدہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔1926ء میں یو پی کی مجلس قانون ساز کے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوئے لیکن لیاقت علی خان کے اصل جوہر اس وقت کھلے جب قائد اعظمؒ کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کا نیا دورشروع ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ممبئی (جو اس وقت بمبئی تھا) میں 1936ء کے دوران منعقد ہوا تھا۔ اس میں قائد اعظمؒ نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ لیاقت علی خان کوجو اس وقت یو پی لیجسلیٹو کونسل کے نائب صدر تھے، 3سال کیلئے اعزازی جنرل سیکرٹری مقرر کیا جائے۔ 1938ء میں مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس کولکتہ (جو اس وقت کلکتہ تھا) میں منعقد ہوا تھا۔ مولوی فضل الحق نے اس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ لیاقت علی خانؒ نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان حقائق کی روشنی میں بیان کی ہے لیکن کانگریس نے اس کا مذاق اڑایا ہے۔ اگر اس ظلم کا 100واں حصہ بھی ہندوؤں پر ہوتا تو کانگریس گنگا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آگ لگا دیتی۔ اسی سال پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خانؒ کو دوبارہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا اور قیام پاکستان سے قبل تک قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے مسلسل صدر رہے اور لیاقت علی خانؒ جنرل سیکرٹری منتخب ہوتے رہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کے آخری سال وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور تحریکِ پاکستان کے پروردہ مسلم لیگی رہنما لیاقت علی خانؒ کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے ماضی کے عوام دشمن نو آبادیاتی میزانیوں کا رخ یکسر بدل دیا اور آزادی کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے لیے عوام دوست مالی پالیسیوں کی داغ بیل ڈالی۔

اس حوالے سے تحریکِ پاکستان کے دنوں کی ایک چشم کشا دستاویز وہ مشہور و معروف بجٹ ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے مسلم لیگی وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان نے 28فروری 1947ء کو پیش کر کے غلام ہندوستان کی استحصالی اور طبقاتی تقسیم پر مبنی معاشی زندگی میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے تقریباً 8عشرے گزر چکے ہیں اور اس دوران دونوں ممالک کے وزرائے خزانہ نے درجنوں مرکزی بجٹ پیش کئے لیکن کسی بجٹ کو قبولیت ِعامہ کا وہ درجہ حاصل نہ ہو سکا جو متحدہ برطانوی ہندوستان کے پہلے اور آخری وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان کے 1947-48ء کے بجٹ کو حاصل ہوا تھا۔ تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی تمام پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا تھا۔

لیاقت علی خانؒ نے یہ بجٹ غیر منقسم برطانوی ہندوستان کی لیجسلیٹو اسمبلی میں 28فروری1947ء کو پیش کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ قرآن مجید کے اس فرمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’دولت کو دولت مندوں کے مابین گھومنے کی اجازت نہ دی جائے اور سرمائے کو چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا جائے ( سورہ الحشر، آیت۷)۔ اس سلسلے میں جن اصولوں کو سامنے رکھ کر بجٹ کی تجاویز مرتب کی گئیں،ان میں نمایاں اصول یہ تھا کہ تعمیروترقی کے منصوبے اور تجاویز اس طرح تیار کیے جائیں کہ خوش حال طبقوں سے وسائل لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔ ان کی آمدنیوں اور روزگار میں اضافہ ہو اور ان پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو۔

اس بجٹ کے چیدہ چیدہ اقدامات یہ تھے:(i) ایک لاکھ سے زائد منافع کمانے والے تاجروں پر 25فیصد بزنس پرافٹ ٹیکس۔ (ii)بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کے اثاثوں پر لگنے والے کیپیٹل گنیز، کارپوریشن اور ڈیویڈنڈ محصولات کی مختلف شرحوں میں اضافہ۔ (iii)متوسط طبقوں پر ٹیکس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سطح 2000 روپے سے بڑھا کر 2500 روپے۔ (iv)دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے جن لوگوں نے بے تحاشا منافع خوری کی، بلیک مارکیٹ سے پیسہ کمایا اور کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدیں، ان کے وسائل کی چھان بین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن کا قیام۔ (v)عام لوگوں کے استعمال والی اشیاء پر ہر قسم کے ٹیکس کی تنسیخ۔ (vi)کسانوں کی اعانتوں میں اضافہ۔ (vii)مختلف قسم کی بچت سکیموں کی شرح منافع میں اضافہ۔ (viii)سرکاری محکموں کی فضول خرچیوں کے خاتمہ کے لیے کمیٹی کا اعلان۔ (ix)مرکزی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں کمیشن کی سفارشات کے مطابق اضافہ۔ (x)کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے مکانوں کی تعمیر۔(xi)مختلف قسم کے ترقیاتی اخراجات کے لیے رقومات کی فراہمی جس میں آبی بند، شاہراہیں اور پس ماندہ علاقوں کی تعمیر سے متعلق منصوبے شامل تھے۔(xii)ہندوستان کے مرکزی بینک یعنی ریزرو بینک آف انڈیا کو قومی ملکیت میں لینے کا انقلابی اعلان۔ (xiii)سٹاک مارکیٹ اور بازارِ صرافہ میں سٹہ بازی کنٹرول کرنے کے لیے قانونی اقدامات۔ یہ امر باعثِ دلچسپی ہو گا کہ لیاقت علی خان کے بجٹ پر جہاں غریبوں اور زیر دستوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا،وہاں پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور دیگر کانگرسی لیڈر شدید پریشان ہوئے کیونکہ اس بجٹ کی ضرب ہندو سرمایہ داروں پر پڑتی تھی جو کانگرس کی مالی پشت پناہی کرتے تھے۔

لیاقت علی خانؒ کی مسلم سیاست میں انفرادیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سر سید احمد خان کے علاوہ دوسری نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے تمام تر، ترغیبات کے باوجود کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی جو پاکستان کی اساس ’’دو قومی نظریہ‘‘ پر ان کے پختہ یقین کا عکاس ہے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ نے وزیراعظم اور وزیر دفاع کی حیثیت سے ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس سلسلہ میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اس دور میں انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ قائد اعظمؒ کی معیت میں گزرا۔پاکستان قائم ہوئے ابھی سال ہی گزرا تھا کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11ستمبر 1948ء کو اس عالم فانی سے عالم جادوانی کی طرف سدھار گئے۔ داعی اجل کی آواز پر لبیک کہنے والے اس عظیم انسان کا انتقال پاکستان کی نئی مملکت اور پاکستانیوں کیلئے نئے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ادھر بھارت نے حیدر آباد پر حملہ کردیا۔ ایسے میں صرف لیاقت علی خانؒ ہی کی واحد شخصیت تھی جس نے غم قائد سے نڈھال پاکستانیوں کو ہمت و جرات دلائی اور انہیں صبر و شکر کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہونے کی برابر تلقین کرتے رہے۔

قائد ملت نے ایسے میں بصیرت سے کام لے کر مملکت پاکستان کے گورنر جنرل کی کمان تو خواجہ ناظم الدین کے ہاتھوں میں دی اور خود مملکت کے دورے پر نکل گئے۔ قائد ملت لیاقت علی خان نے کمال جواں ہمتی سے کام لیا اور جہاں بھی گئے اپنے ولولہ انگیز خطابات سے عوام میں قومی اتحاد اور یک جہتی کی اس روح کو از سر نو تازہ کیا جو بابائے ملت حضرت قائد اعظمؒ کی وفات سے مایوسی و افسردگی کا رنگ اختیار کر چکی تھی۔ قائد ملت لیاقت علی خانؒ کا یہ اعجاز ہے جسے پاکستانی قوم کسی صورت فراموش نہیں کر سکتی۔

یہی نہیں ایک سچے مسلمان اور درد دل رکھنے والے انسان کی طرح لیاقت علی خانؒ کی سب سے بڑی خواہش اس وقت عالم اسلام کو متحد دیکھنے کی تھی اسی عزم کی ترجمانی کیلئے انہوں نے کراچی میں فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی کی زیر صدارت عالم اسلامی کا اجلاس طلب کیا۔اخوت اسلامی کو زندہ رکھنے اور پاکستان کو اسلامی ممالک سے متعارف کرانے کا یہ بڑا قدم تھا اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل خدمت اسلام کے جذبے سے کس قدر معمور تھا۔

وہ نواب زادہ تھے، دہلی میں ان کی جائیداد تھی، کرنال میں جاگیر تھی لیکن پاکستان میں کوئی ذاتی گھر تھا نہ جائیداد۔ شہادت کے وقت ان کے بنک میں صرف چند روپے تھے۔ اس قلندر کا ذکر کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کراچی میں 26دسمبر 1943ء کو فرمایا تھا ’’اگرچہ وہ ایک نواب زادہ ہیں لیکن عوام الناس میں سے ایک ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اور نواب بھی ان کی مثال بنیں گے‘‘۔

ان کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے، نیز تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا۔امور خارجہ میں لیاقت علی خانؒ نے مغرب اور اس کی ایک سپر طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کردیئے تھے۔لیاقت نہرو پیکٹ انسانی حقوق سے جڑی ہوئی لیاقت علی خانؒ کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔لیاقت علی خانؒ نے امریکہ کی خواہش کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکہ کو دلانے اور کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو بھیجنے سے انکار کرکے مکمل غیر وابستہ وغیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا تھا ۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عائد تاوان کی رقم جو پاکستان کے حصہ میں آئی تھی معاف کردی تھی ۔

16اکتوبر 1951 ء کو جب ان کا طیارہ چکلالہ ائیر پورٹ پر پہنچا تو ان کا فقید المثال استقبال کیاگیا۔اس روز راولپنڈی میں میلے ٹھیلے کا سماں تھا۔ رش اس قدر تھا کہ دور دور تک انسانی سر نظر آرہے تھے ۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعدجب وہ سٹیج پر پہنچے اورتقریرکا آغاز کرتے ہوئے ابھی انہوں ’’برادران ملت‘‘ ہی کہا تھا کہ بد بخت سیداکبرکی گولی کا نشانہ بن گئے۔ ان کے اگلے الفاظ یہ تھے’’مجھے گولی لگ گئی ہے، خدا پاکستان کی حفاظت کرئے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زندگی کی آخری ہچکی لی۔ مادر وطن پر جان نچھاور کرنے کا جو سچا وعدہ قائد ملت نے کیا تھا پورا کر دکھایا۔انہوں نے کہا تھا کہ وقت پڑنے پر میں اپنی جان اپنی قوم و وطن کی آبرو پر قربان کر دوں گااور انہوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا۔

لیاقت علی خانؒ عوامی تمنائوں کے مظہر تھے، لوگوںکے دلوں میں مچلتی لا محدود تمنائوں کے ترجمان تھے، کچلے ہوئے محروم انسانوں کی امیدوں کا سہارا تھے۔ انہیں بین الاقوامی استعمار ، سرمایہ دارانہ نظام ، عالمی صیہونیت اور بد نام زمانہ سامراج نے اپنے اندر ون ملک گماشتوں کی مدد سے راولپنڈی میں موت کے گھاٹ اتارا، کیونکہ وہ سامراج دشمن انقلابی فکر کے حامل تھے۔

لیاقت علی خانؒ کے قتل کا سانحہ ہماری قومی تاریخ کا ایسا المیہ ہے جن پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ ان کے قتل کی سازش آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ امریکی اور برطانوی سراغ رسانوں کی خدمت حاصل کرنے کے باوجود متعلقہ قانونی ادارے اپنے دامن پر لگنے والے اس سیاہ داغ کو مٹانے میں ناکام رہے ہیں۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک عام آدمی قتل ہو جائے تو درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جن کیخلاف جرم ثابت ہو جائے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم کے قتل کی تحقیقات ہی ناتمام ہے۔ لیاقت علی خانؒ کواس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بڑی گہری سازش تھی جس میں اپنے اور بیگانے دونوں شریک تھے۔ ان کی شہادت کے موقع پر قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے درست کہا تھا ۔

مسلمانوں کا محسن تھا لیاقت

مسلمانوں نے اس کو مار ڈالا

(محمد ارشد لئیق گزشتہ دو دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم شائع ہوتے رہتے ہیں، آجکل روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے منسلک ہیں۔)
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-16/1914



منشی پریم چند، افسانوی ادب کا اہم ستون
 17 October, 2021



تحریر : عبدالحفیظ ظفر

انہوں نے سماج کے کچلے ہوئے طبقات پر
بے باکی اور صداقت سے اپنے قلم کو استعمال کیا
منشی پریم چند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ناصرف ایک شاندار افسانہ نگار تھے بلکہ ناول نویس بھی کمال کے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے 300 افسانے اور 12 ناول تحریر کیے۔ ان کی تحریروں کا سب سے بڑا وصف سماجی حقیقت نگاری تھا۔

پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے سری واستو تھا۔ وہ 31جولائی 1880ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ سات برس کی عمر میں انہوں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔جہاں انہوں نے اردو اور فارسی پڑھی۔ کہانیاں لکھنے کا شوق پریم چند کو بچپن سے ہی تھا۔ انہیں کتب بینی سے بڑی رغبت تھی اور وہ ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے ایک کتب فروش کے ہاں نوکری کرلی اور کتابیں فروخت کرنا شروع کردیں۔ یہاں انہیں بہت سی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ انگریزی انہوں نے ایک مشزی سکول میں سیکھی۔ پھر انہوں نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔

1897ء میں ان کے والد کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ میٹرک کرنے کے بعد پریم چند کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1919ء تک پریم چند کے چار ناول شائع ہو چکے تھے۔کسی ناول کی ضخامت 100 صفحات سے زیادہ نہیں تھی۔ان کا پہلا بڑا ناول ''سیواعدن‘‘ ہندی میں شائع ہوا۔ اصل میں یہ ناول پہلے اردو میں تحریر کیا گیا تھا جس کا عنوان تھا ''بازارِ حسن‘‘۔ 1924ء میں لاہور کے ایک پبلشر نے اس ناول کو شائع کیا۔ جس کا نام تھا ''دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘۔ اس کہانی کے مطابق دنیا کا سب سے انمول رتن خون کا وہ آخری قطرہ ہے جو آزادی حاصل کرنے کیلئے بہایا جاتا ہے۔ پریم چند کے ابتدائی افسانوں میں قوم پرستی کی بڑی واضح جھلکیاں ملتی ہیں اور یہ افسانے بھارت کی تحریک آزادی سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔ ان کا دوسرا ناولٹ ''ہم خما وہم نواب‘‘1907ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں ہندو معاشرے میں بیوہ کی شادی کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ ناول کا ہیرو تمام رسموں اور روایات کو پس پشت ڈال کر ایک نوجوان بیوہ سے شادی کر لیتا ہے۔ دیکھا جائے تو اپنے زمانے کے حوالے سے یہ ایک انقلابی ناول تھا اور پریم چند نے اس موضوع پر ناول لکھ کر بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔
1907ء میں ہی پریم چند کا ایک اور ناولٹ ''کشنا‘‘ منظرعام پر آیا۔ اس میں عورتوں کی زیورات سے محبت پر طنز کی گئی تھی، ان کی طنز میں ایسی کاٹ تھی کہ اس زمانے کے نقادوں اور ادب کے قارئین نے ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ پھر پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ''سوزِ وطن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں اس افسانوی مجموعے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ اس میں چار افسانے ایسے تھے جن میں ہندوستان کے لوگوں کو سیاسی آزادی کے حصول کی ترغیب دی گئی تھی۔ پریم چند کے گھر پر چھاپہ مارا گیا جہاں ''سوزِ وطن‘‘ کی 500 کاپیوں کو جلا دیا گیا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس وقت تک پریم چند نواب رائے کے نام سے لکھتے تھے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے اپنا نام پریم چند رکھ لیا۔
منشی پریم چند کے مشہور اردو ناولوں میں ''بازارِ حسن‘‘، ''گئودان‘‘، ''بیوہ‘‘، ''نرملا‘‘ اور ''میدانِ عمل‘‘ شامل ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات جاگیرداری، سماجی اور معاشی ناہمواریاں ، بدعنوانی اورعورتو ں کا استحصال ہے ۔ ''نرملا‘‘ ایک دردناک ناول ہے۔ ''بیوہ‘‘ میں منشی پریم چند نے قارئین کو یہ بتایا ہے کہ ہندو معاشرے میں ایک بیوہ پر کیا گزرتی ہے۔ اس کی زندگی دردناک اور سسکتے ہوئے لمحوں کی داستان بن جاتی ہے۔

پریم چند کی قوتِ مشاہدہ بھی بڑی زبردست ہے۔ ناولوں کی طرح ان کے افسانوں میں بھی سماجی حقیقت نگاری کا واضح عکس ملتا ہے۔ انہوں نے سماج کے کچلے ہوئے طبقات کے بارے میں جس بے باکی اور صداقت سے اپنے قلم کو استعمال کیا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ جب ہم سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہے تو پھر ادب میں سماج کا عکس نظر آنا چاہیے۔ ان کے لازوال افسانوں میں ''کفن‘‘، ''بڑے گھر کی بیٹی‘‘، ''عیدگاہ‘‘، ''پوس کی رات‘‘، ''نمک کا داروغہ‘‘ اور ''لاٹری‘‘ شامل ہیں۔ ان کا شمار اردو اور ہندی زبان کے عظیم ترین ناول نگاروں اور افسانہ نویسوں میں ہوتا ہے۔
پریم چند نے غربت اور جہالت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کا عظیم افسانہ ''کفن‘‘ پڑھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ غربت اور جہالت کے اندھیرے انسان کو زندگی کے مفہوم سے ناآشنا کر دیتے ہیں اور وہ دنیا کی بدترین مخلوق بن جاتا ہے۔ ان کے کئی افسانوں پر بھارت میں آرٹ فلمیں بنائی گئیں۔ انہوں نے سماجی حقیقت نگاری اور ترقی پسندی کا جو پودا لگایا تھا وہ بعد میں تناور درخت بن گیا۔ سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور غلام عباس کے افسانوں میں پریم چند کی فکر کے سائے ملتے ہیں۔ انہوں نے لکھاریوں کو یہ بھی سمجھایا کہ ہوائوں میں چراغ نہ جلا ئیں، چراغ ہمیشہ اندھیرو ں میں جلایا کرتے ہیں۔ پریم چند ہندی اور اردو ادب کا تابندہ ستارہ تھے۔ انہوں نے جرأت اور صداقت کی شمعیں فروزاں کیں۔ 8 اکتوبر 1936ء کو یہ بے بدل افسانہ نگار اور ناول نویس 56 برس کی عمر میں چل بسا۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیںاور انہوں نے اردو کے افسانوی ادب کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے ۔دوکتابوں کے مصنف بھی ہیں)
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-10-17/25286




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/14102021/p2-lhr001.jpg




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/14102021/P3-Lhr-008.jpg



قومی اسمبلی: عبدالقدیر خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد متفقہ منظور
Published On 14 October,2021 05:23 pm



اسلام آباد: (دنیا نیوز) قومی اسمبلی میں محسن پاکستان اور ایٹمی سائنسدان مرحوم ڈاکٹر عبد القدیر خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی مشترکہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی۔

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے قرارداد پیش کی گئی، یہ قرار داد وزیر مملکت علی محمد خان نے قراردادپیش کیں۔

قرار داد کے متن میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسن پاکستان تھے۔ قومی اسمبلی کا ایوان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سلام پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان سمجھتا ہے کہ عبد القدیر خان نے پاکستان اور عالم اسلام کو دفاع کو مضبوط کیا، یہ ایوان ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو سرکاری نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ یہ ایوان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔

قرار داد کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات قومی نقصان ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نامساعد حالات میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کترے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان محسن پاکستان تھے، قائداعظمؒ نے ملک بنا کر دیا، ڈاکٹر عبدالقدیر نے دفاع کو ناقابل تسخیربنانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردارادا کیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما رانا تنویر نے کہا کہ کوئی شک نہیں ڈاکٹرعبدالقدیرپاکستان کے محسن تھے۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/624114_1



پاکستان کے ممتاز سائنسداں ڈاکٹر محمد افضل کی ایک اہم اختراع کو ہفت روزہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ نے گلوبل امپیکٹ ایوارڈ کے لیے نامزد (شارٹ لِسٹ) کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد افضل کا تعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ سے ہے جہاں وہ پرنسپل سائنٹسٹ ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی ایجاد پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتی ہے جس کا اعتراف ہفت روزہ نیچر نے بھی کیا ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ اختراع نیچر سسٹین ایبلٹی کے سرورق پر بھی نمایاں کی گئی تھی۔

ڈاکٹر افضل اپنے ادارے میں ’آلودہ پانی کی نباتاتی صفائی‘ کے گروپ کے سربراہ ہیں جو ماحولیاتی تجربہ گاہ کا ایک ذیلی حصہ بھی ہے۔

انہوں نے نہ صرف تیرتی ہوئی آبی چٹائیوں کا تصور پیش کیا بلکہ اس کے ماڈل بنائے ہیں جو اب پاکستان کے کئی علاقوں میں آلودہ پانی کو صاف کررہے ہیں۔ ان چٹائیوں کو ’فلوٹنگ ویٹ لینڈز‘ کا نام دیا گیا ہے جنہیں چلانےکے لیے بیرونی مدد یا بجلی کی ضرورت نہیں رہتی۔



مقامی طور پر پاکستانی پودوں پر مشتمل سبزتیراک چٹائیوں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ ان پر بین الاقوامی چٹائیوں کے مقابلے میں جو لاگت آئی ہے وہ 500 گنا تک کم ہے۔ اس لیے آلودہ پانی کے ذخائر کوصاف کرنے لئے یہ ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں۔

کئی بین الاقوامی اعزازات کےعلاوہ ڈاکٹر محمد افضل کو پاکستان اکادمی برائے سائنس سے گولڈ میڈل بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیچر نے آٹھ بین الاقوامی ماہرین کی فہرست میں ان کا نام تصویر پہلے نمبر پررکھی ہے۔

ان پیراک چٹائیوں کو فیصل آباد ایک ایسے جوہڑ میں آزمایا گیا ہے جس میں 60 فیصد پانی گھروں اور 40 فیصد پانی ٹیکسٹائل، کیمیا اور چمڑے کی صنعتوں کا تھا۔ طرح طرح کے آلودگیوں نے تالاب کو ٹیکنالوجی کی جانچ کے لیے ایک موزوں جگہ بنادیا تھا۔

دوسرے برس پیراک آب گاہوں کا جادو شروع ہوا اور پانی صاف ہونے کے تمام آثارظاہر ہوئے جنہیں تین درجوں میں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی طبعی کیمیائی یعنی تیل، سلفیٹ، چکنائی اور دیگر حل شدہ ٹھوس اجزا میں کمی، دوم خردحیاتیاتی یعنی انسانی فضلے کے ذرات میں کمی اور سوم کیڈمیئم، کرومیئم، اور نِکل جیسی دھاتوں میں تخفیف واقع ہوئی۔ اس ٹیکنالوجی سے کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈٰی) میں 79 فیصد، بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی اوڈی) میں 88 فیصد اور تمام حل شدہ ٹھوس اجسام (ٹی او ڈی) میں 65 فیصد کم ہوگئے۔



صاف یا الودہ پانی میں شامل قدرتی طور پر ختم ہونے والے یعنی بایوڈگریڈیبل یا نہ ختم ہونے والے نان بایوڈگریڈیبل اجزا کی کل مقدار کو سی او ڈی سے بیان کیا جاتا ہے جبکہ بی او ڈی میں حیاتی طور پر تلف ہوجانے والے اجزا کا شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی پانی جتنا صاف ہوگا اس میں سی او ڈی اور بی او ڈی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔ پینے یا دوسرے صاف پانی میں ان کی مقدار عموماً صفر ہوتی ہے۔

اگرچہ ایف ٹی ڈبلیو دنیا بھر میں دستیاب اور زیرِ استعمال ہیں لیکن پاکستانی اختراع انتہائی کم خرچ ہونے کی بنا پر بازار سے 500 درجے سستی بھی ہے۔ گزشتہ چھ برس سے سبزے والی چٹائیوں نے مجموعی طور پر 57,947,400 مکعب میٹر آلودہ پانی صاف کیا جو 31000 سے زائد اولمپک سوئمنگ پول کے برابر ہے جبکہ چند پیسے فی مکعب میٹر کے اخراجات آئے ہیں۔

اپنی پائیداری کے بنا پر ایک سسٹم مزید 15 برس کے لیے قابلِ عمل رہ سکتا ہے جس سے لاگت میں مزید کمی واقع ہوگی۔
ہفت روزہ نیچرگلوبل امپیکٹ ریسرچ ایوارڈ میں شامل دیگر سائنسدانوں کا تعلق امریکہ، چین، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہے
https://www.express.pk/story/2235166/508/



ڈاکٹر اقبال مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنسی ایوارڈجیت گئے
 14 October, 2021

پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری کو بائیو آرگینک کیمسٹری کے شعبے میں ان کی خدمات پر مسلم دنیا کے سب سے بڑے سائنسی ایوارڈ مصطفی انعام یافتہ 2021 دیا گیا ہے

اسلام آباد(آئی این پی ) مصطفی پرائز لاریئٹ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک اعلٰی ایوارڈ ہے ، اسے مسلم دنیا کا نوبیل انعام سمجھا جاتا ہے جو ہر دو سال بعد چوٹی کے محققین اور سائنسدانوں کو دیا جاتا ہے ۔پاکستان، ایران، بنگلہ دیش، لبنان اور مراکش کے پانچ سائنسدانوں کو ان کے متعلقہ شعبوں میں مصطفی انعام 2021 سے نوازا گیا ہے ۔ ہر شعبے میں ایوارڈ جیتنے والے کو 5لاکھ ڈالر، سرٹیفکیٹ اور میڈل دیا گیا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-14/1895756



لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ مل گیا
 13 October, 2021

وزیر اعظم کے سابق مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات و کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین کو پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا

کراچی (این این آئی) ڈاکٹر عشرت حسین کو یہ ایوارڈ پاکستان کے بینکنگ اور مالی شعبوں میں خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-13/1895382



اقوام متحدہ مشن پر جانیوالی پہلی لیڈی ٹریفک وارڈن وطن واپس پہنچ گئی
 13 October, 2021

یو این مشن پر جانے والی پہلی لیڈی ٹریفک وارڈن سلمیٰ شوکت وطن واپس پہنچ گئی

لاہور (نیوز رپورٹر ) لیڈی وارڈن سلمیٰ شوکت 2019 میں یو این امن مشن کے لئے منتخب ہوئی تھیں، سلمیٰ شوکت نے ڈارفور میں پنجاب پولیس کی نمائندگی کی، انہوں نے بطور پٹرولنگ آفیسر، لائزن آفیسر فرائض سرانجام دئیے ۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یو این مبصرین کی طرف سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔سی ٹی او لاہور منتظر مہدی نے ٹریفک پولیس کا نام روشن کرنے والی لیڈی وارڈن کو تعریفی اسناد اور نقد انعام سے نوازا ۔
https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2021-10-13/1895394



اپنی آواز اور سروں کا جادوجگانے والے نصرت فتح علی خان کی آج 73 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

نصرت فتح علی نے فیصل آباد کے ایک قوال گھرانے میں 13 اکتوبر 1948 کوآنکھ کھولی۔ 16 سال کی عمرمیں قوالی کا فن سیکھا، قوالی کے ساتھ غزلیں، کلاسیکل اورصوفی گیت بھی گائے، وہ ہارمونیم اورطبلہ بجانےسے بھی خوب آشنا تھے۔

موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا بنایا ہوا پہلا شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی۔

ہالی ووڈ کے بعد بالی ووڈ نے بھی نصرت فتح علی خان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان کی بالی ووڈ میں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کاگایا ہوا مقبول ترین گیت ’’دولہے کا سہرا ‘‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔

نصرت فتح علی خان کی قوالیاں پاکستان سمیت بھارت میں بھی پسند کی جاتی ہیں، ’’تیرے بن نئی لگدا دل میرا سوہنیا‘‘ ہو یا ’’میرے رشک قمر‘‘ استاد نصرت فتح علی خان کی قوالیوں نے ہمیشہ بھارتیوں کو اپنے گیتوں سے دیوانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بھارت کے مشہورموسیقاراے آررحمان کے ساتھ کئی البم اور گانے ریلیز کیے جنہیں بے حد پسند کیا گیا۔

نصرت فتح علی خان کی قوالی کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے اوران کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ 16 ستمبر 1997 میں محض 48 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرنے والے نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے کئی برس بیت گئے لیکن آج بھی سننے والے ان کے کلام میں کھو جایا کرتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2235267/24/




https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/2/2021/10/13102021/P6-Lhr-017.jpg



اسلام آباد پولیس کے اہلکار نے جب ڈاکووں کو شہری سے لوٹ مار کرتے دیکھا تو اس نے کیا ترکیب لگائی؟ جانئے
Oct 13, 2021 | 12:14:PM



اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹریفک پولیس اہلکار نے جان پر کھیل کر ڈکیتی کی کوشش ناکام بنا دی۔

اسلام آباد میں تھانہ آئی نائن کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار 2 ڈاکو شہری کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران وہاں ڈیوٹی پر موجود ٹریفک پولیس کے سب انسپکٹر محمد اکرم نے ڈاکوؤں کو پکڑنے کی کوشش کی تو ایک ڈاکو نے پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی۔پولیس کے مطابق بازو پر گولی لگنے سے سب انسپکٹر محمد اکرم زخمی ہو گیا لیکن ڈاکو موٹر سائیکل چھوڑ کر فرار ہو گئے۔بعدازاں پولیس اہلکار کو طبی معائنے کے لیے پمز ہسپتال منتقل کیا گیا اور علاج و معالجے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا۔
https://dailypakistan.com.pk/13-Oct-2021/1352761?fbclid=IwAR1KWlyHMSRDeHxpjUCASQlftlHM0yrgrtuQtetzJ-PH3_5pgVaUqtcB3k0



بابر اعظم اور محمد رضوان نے بڑا ریکارڈ اپنے نام کرلیا
Oct 12, 2021 | 19:49:PM



لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان با بر اعظم اور محمد رضوان رواں سال ٹی 20 کرکٹ کی سب سے کامیاب جوڑی بن گئی ہے۔

دونوں نے رواں سال اب تک 56.61 کی اوسط سے 736 رنز سکور کیے ہیں۔دوسرے نمبر پر موجود شیکھر دھون اور پارتھیو شاہ نے 47.46 کی ایوریج سے 712 رنز بنائے ہیں۔بابراعظم اور رضوان کی اس فارمیٹ میں انفرادی کارکردگی بھی کافی بہتر ہے۔بابر اعظم کو ٹی 20 کرکٹ میں تیز ترین 2000 ٹی 20 انٹرنیشنل رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس معاملے میں ویراٹ کوہلی دوسرے نمبر پر ہیں۔رضوان نے اس سال 14 اننگز کے دوران 7 نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنائی
https://dailypakistan.com.pk/12-Oct-2021/1352427?fbclid=IwAR0Si2Wp8q7OcP8GbeAXfUFsDheWufNS4VobEPmBwdPIb4PV4QGNX2xES6Y



نوبیل انعام، کیا ہے اور کیسے شروع ہوا؟
 12 October, 2021



تحریر : خاور نیازی

نوبیل انعام رنگ و نسل اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہیں،
بین الاقوامی ماہرین کی ایک کمیٹی خوش نصیب کا انتخاب کرتی ہے
اکتوبر کا مہینہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ہر سال اس ماہ کے پہلے ہفتے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ نوبیل انعام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ایسا کون ہو گا جس نے ''نوبیل انعام‘‘ بارے سن نہ رکھا ہو گا اور یقینا اکثر لوگ یہ بھی جانتے ہونگے کہ نوبیل انعام معاشیات، فزکس، کیمسٹری، ادب، میڈیسن یعنی طب میں ہر سال نمایاں کارکردگی یا کچھ نیا کر دکھانے والوں کو ملتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی انعام ہے جس کا انتخاب بہت چھان بین اور سخت مقابلے کے بعد ایک کمیٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ اس انعام کے نام سے ظاہر ہے اس کا بانی الفریڈ نوبیل تھا۔ الفریڈ نوبیل 21 اکتوبر 1833 کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوا۔ جب نوبیل کی عمر صرف نو سال تھی تو اس کے والدین سویڈن چھوڑ کر سینٹ پیٹر برگ منتقل ہو گئے۔ یہ شہر اس دور میں روس کا دارلحکومت ہوا کرتا تھا۔ اس کے والد نے یہاں آکر تارپیڈو بنانے اور پلائی ووڈ کا کام شروع کیا ۔ اس کے باپ کو پلائی ووڈ کا بانی بھی کہتے ہیں۔

الفریڈ نوبیل نے یہاں آکر اپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ فزکس اور کیمسٹری اس کے بنیادی مضامین تھے اس لئے اس نے پروفیسر نکولائی سے کیمسٹری پڑھی جو اپنے دور کے کیمسٹری کے مانے ہوئے معلم تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اٹھارہ سال کی عمر میں چار سال کے لئے کیمسٹری کی مزید تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلا گیا۔
الفریڈ نوبیل نے سویڈن واپس آ کراپنے آپ کو محفوظ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے مطالعے کے لئے وقف کر دیا۔ بنیادی طور پر اس کا مشن پہاڑوں اور چٹانوں کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے پھاڑ کر معدنیات تلاش کرنے والے کارکنوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا تھا۔

الفریڈ نوبیل کی ایجادات:الفریڈ نوبیل جس کی وجہ شہرت ایک ماہر کیمیا دان، موجد اور انجینئر کی حیثیت سے ہے۔ اس کی عمر کا بیشتر حصہ سائنسی مطالعہ اور تجربات کی نظر رہا۔ اس کی کل ایجادات یوں تو 355 ہیں لیکن جس ایجاد نے اسے شہرت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا وہ '' ڈائنامائیٹ ‘‘ اور '' کارڈائیٹ ‘‘ ہیں۔ الفریڈ نے ان ایجادات کے ذریعے بے پناہ دولت کمائی۔ ایک تخمینے کے مطابق الفریڈ کی کل دولت 186ملین ڈالر سے زائد تھی۔

الفریڈ نوبیل کی زندگی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب اس کے بھائی لودویک کا انتقال اپنی فیکٹری میں دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے دوران ہوا۔ چنانچہ اگلے دن کے اخبارات نے اس کے بھائی کی جگہ الفریڈ نوبیل کے انتقال کی خبر شائع کر ڈالی۔ اس خبر کو '' موت کے سوداگر کی موت ‘‘ کے نام کا عنوان دیا گیا۔ اس خبر نے الفریڈ کو ذہنی اور جذباتی طور پر انتہائی متاثر کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دیا۔
اس صورت حال کے بعد اپنی موت سے ایک سال قبل یعنی 1895 میں اس نے پیرس میں '' سویڈن ناروے کلب ‘‘ کی ایک تقریب میں اپنی آخری وصیت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی کل دولت کا 94فیصد مختلف مضامین میں قابل قدر اور فلاحی کام کرنے والے افراد کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا۔جس کے لئے فزکس، کیمسٹری، ادب، عالمی امن اور میڈیسن کے شعبوں کا انتخاب کیا گیا جبکہ اس کی وفات کے بعد معاشیات کے شعبے کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا۔
نوبیل انعام کا آغاز : الفریڈ کی وصیت کے فورا ً بعد ایک فنڈ قائم کر دیا گیا،جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم ہوتا آ رہا ہے۔

وصیت کے ایک سال بعد دسمبر 1896میں الفریڈ نوبل کا دماغی شریان پھٹ جانے سے انتقال ہو گیا۔ بعض وجوہات کے باعث اس کی وصیت کے تحت 1897ء میں'' دی نوبل پرائز‘‘ کا باقاعدہ طور پر ایک فاؤنڈیشن کے تحت آغاز کیا گیا۔
ابتدائی طور پر ریجنر سوہلمین اور روڈولف کو '' نوبل فاؤنڈیشن ‘‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔اس فاؤنڈیشن کے کل چھ ڈائریکٹر ہوتے ہیں جن کا تقرر دو سال کے لئے ہوتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ڈائریکٹرز کا تعلق سویڈن اور ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔اس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹرز کا کام نوبل فاؤنڈیشن کے اثاثہ جات کی دیکھ بھال، نوبل انعامات کا انعقاد کرنا ہوتا ہے۔ڈائریکٹرز کی منظوری کے بعد فزکس اور کیمسٹری کے مضامین کے انعام کے لئے '' رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت فزکس اور کیمسٹری کے شعبوں میں اہم ترین دریافت کرنے والے کو فزیا لوجی اور میڈیسن کے شعبے میں اہم ترین علاج کی دریافت پرایسے شخص کو انعام کا حق دار ٹھہراتی ہے جس نے اقوام کے درمیان دوستی، افواج کی تعداد میں کمی اور امن کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا ہو۔ اسی طرح ادب کے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کو '' سویڈیش اکیڈمی‘‘کے تحت انعام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ 1901ء سے مندرجہ بالا شعبہ جات میں باقاعدگی سے نوبل انعام تقسیم کئے جا رہے ہیں، ما سوائے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے چند سالوں کے۔جبکہ 1968ء سے سویڈن کے سنٹرل بنک کے تعاون سے معاشیات کے شعبے میں اہم خدمات سرانجام دینے والوں کو بھی نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ انعام چونکہ نوبیل فاؤنڈیشن کی سفارش پر عمل میں نہیں لایا گیا تھا، اس لئے اسے باضابطہ طور پر الفریڈ نوبیل یادگاری کہا جاتا ہے۔جس کا اہتمام ''رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کرتی ہے۔
نوبیل انعامات کا اعلان ہر سال اکتوبر کے مہینے کے پہلے ہفتے میں کیا جاتا ہے۔ انعام دینے کی تقریب کا اہتمام ہر سال 10 دسمبر کو الفریڈ نوبیل کے یوم وفات کے موقع پر سٹوخوم میں جبکہ امن کے نوبیل انعام کا اہتمام اسی روز اوسلو ناروے میں کیا جاتا ہے۔انعام جیتنے والے ہر شخص کو سونے کے ایک تمغے کے علاوہ گیارہ لاکھ دس ہزار ڈالر کی خطیر رقم بھی دی جاتی ہے۔

ایک تاریخی الزام کی وضاحت: ۔ تاریخ میں ڈائنامائٹ کو انسانی ہلاکتوں کو سہل بنانے کے لئے ایجاد کئے جانے کا جو الزام الفریڈ نوبیل پر عائد کیا جاتا ہے مورخین اور محققین نے اسے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ حقیقت میں ڈائنامائٹ کی ایجاد کا تصور پہاڑوں سے پتھر پھاڑ کر معدنیات نکالنے کے عمل کو سہل بنانا تھا۔بلاشبہ ڈائنامائیٹ جنگی سامان بنانے میں بھی استعمال ہوتا رہا لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ اس کے پیچھے اس کے انسان دشمن عزائم کار فرما تھے۔ بنیادی طور پر الفریڈ نوبیل کو جنگ سے شدید نفرت تھی۔ بلکہ یہ امن کا داعی تھا۔ اس کی زندگی کا مشن ہی یہ تھا کہ دنیا کی تمام قومیں آپس میں مل جل کر امن اور صلح کے ساتھ رہیں۔

متنازع نوبیل انعامات:نوبیل انعامات اگرچہ رنگ و نسل اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوتے ہیں جن کا اعلان بین الاقوامی طور پر ماہرین کی ایک کمیٹی چھان پٹھک کے بعد کرتی ہے لیکن ایک جائزے کے بعد کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جنہیں بعد کے حالات نے غلط ثابت کر دکھایا۔ ان کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
1926ء کا میڈیسن کا نوبیل انعام جوہانس فیبا ئگر کو اس تحقیق کے نتیجے میں دیا گیا جس کا وعویٰ تھا کہ کینسر Spiroptera Carcinoma نامی ایک کیڑے کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ بعد کی تحقیقات نے اسے یک سر غلط ثابت کر دکھایا۔
1927ء میں میڈیسن کے شعبے کا انعام آسٹریا کے ایک ڈاکٹر جولئیس ویگنر کو ملا تھا جس کا وعویٰ تھا کہ آتشک کے مریضوں میں ملیریا کے مریضوں کا خون داخل کرنے بعد انہیں کونین کھلا دینے سے مریض صحت یاب ہو سکتا ہے جبکہ بعد کی تحقیقات نے اس دعویٰ کو مضحکہ خیز قرار دے کر رد کر دیا تھا۔
1947ء میں انگریز کیمیا دان سر رابرٹ روبنسن کو آرگینک کیمسٹری کی جس تخلیق پر نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا بعد میں پاکستانی پروفیسر عطا الرحمان نے اسے غلط ثابت کر دکھایا تھا۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-10-12/25279



شان الحق حقی ایک ہنس مکھ انسان ، راست گو آدمی اور دیانت دار افسر تھے :برسی کے موقع پر بیٹے کا خراج عقیدت
 12 October, 2021



تحریر : شایان الحق

میرے والد شان الحق حقی، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی تیرہویں پیڑھی سے ہیں اور ڈپٹی نذیر احمد کے پرنواسے تھے۔ ان کے والد یعنی میرے دادا احتشام الدین حقی بھی ماہر لسانیات، ادیب اور شاعر تھے۔ میرے والد شان الحق حقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یہ تقریب شان الحق حقی کی برسی کے موقع پر منعقد کی گئی تھی جس کی صدارت مشتاق یوسفی نے کی اور اسلم اظہر اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اسلم اظہر جب کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے تو حقی صاحب سیلز کے شعبہ کے جنرل منیجر تھے۔ اسلم اظہر کے میرے والد کے ساتھ کچھ معاملات پر اختلافات تھے۔ اسلم اظہر کے بقول شان الحق حقی نے انہیں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ اشتہارات کو یا تو مناسب وقت پر جگہ نہیں دی جاتی یا انہیں گول کردیا جاتا ہے۔

اسلم اظہر صاحب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 1972ء میں سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو انہیں حقی صاحب کے شعبے کی اہمیت کا احساس ہوا جو کہ ظاہر ہے سرکاری ٹی وی کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھا اور اس آمدنی سے ادارے کے تمام اخراجات پورے ہو رہے تھے۔ اسلم اظہر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے شان الحق حقی سے تعلقات بہت اچھے ہوگئے بلکہ انہوں نے حقی صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے حقی صاحب کو نابغہ روزگار قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ایسے لوگ دل میں کوئی بات نہیں رکھتے اور بہت کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ حقی صاحب بھی ایسے ہی آدمی تھے۔

میں نے اپنے والد کو اتوار یا چھٹی والے کسی اور دن کو بھی گھر پر نہیں دیکھا۔ وہ بہت کم سوتے تھے کیونکہ وہ کم سونے کے عادی ہوچکے تھے۔ وہ دن میں 14 سے 16 گھنٹے تک کام کرتے تھے۔ ان پر کام کرنے کی دھن سوار رہتی تھی۔ اس لیے انہیں (Workaholic) بھی کہا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند بار وہ اردو بورڈ سے صبح چار یا پانچ بجے گھر آتے اور مجھے اپنی کار کے انجن کے شور سے جگایا کرتے تھے کیونکہ جس وقت وہ آتے تھے، ہر طرف خاموشی کا راج ہوتا تھا۔

پروفیسر سحر انصاری نے ایک بار مجھے بتایا کہ چند مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ جب وہ اور حقی صاحب کسی ادبی تقریب یا مشاعرے سے رات گئے واپس آتے تو مجھ سے (سحر انصاری) چند منٹوں کیلئے اردو بورڈ کے پاس رکنے کی اجازت طلب کرتے۔ انصاری صاحب نے بتایا کہ وہ چند منٹ تین یا چار گھنٹوں میں تبدیل ہو جاتے۔ سحر انصاری نے اس بات کا تذکرہ شان الحق حقی صاحب کے آخری مجموعہ کلام کے تعارفی مضمون میں بھی کیا ہے جس کا عنوان تھا ’’نوائے ساز شکن‘‘۔

میرے والد سنجیدہ انسان لگتے تھے لیکن حقیقت میں وہ بڑے ہنس مکھ شخص تھے۔ ان کی حس مزاح حیران کن تھی۔ ایک دفعہ ہمارا ملازم غفور تین مہینے کی چھٹی پر جانا چاہتا تھا وہ نہ صرف ایک باورچی تھا بلکہ سکیورٹی گارڈ بھی تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہماری والدہ کی غیر موجودگی میں بچوں کا بھی خیال رکھتا تھا۔ میری والدہ کام کرتی تھیں اس لیے انہیں غفور کی اتنی لمبی رخصت پر اعتراض تھا۔ انہوں نے میرے والد سے ان کی رائے پوچھی۔ مجھے یاد ہے اس وقت والد اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے۔ اخبار پڑھنے کے دوران ہی انہوں نے کہا ’’روکو مت جانے دو‘‘۔ پھر انہوں نے والدہ صاحبہ پر فیصلہ چھوڑ دیا۔

علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کراچی نے ان کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر والد نے یہ اشعار کہے!

لگتی ہے یہ جنم کی گھڑی سوگوار سی

سینے میں دردِ فرقتِ باراں ہے آج بھی

جو حسرتیں تھیں سب کہیں راہوں میں رہ گئیں

عبرت ہی کل سروساماں ہے آج بھی

یا رب اسے تو موت میرے جیتے جی نہ آئے

مجھ میں جو ایک طفلکِ ناداں ہے آج بھی

میں نے کبھی اپنے والد کو کتاب کے اس صفحے پر نشان لگائے بغیر سوتے نہیں دیکھا جس کا وہ اس وقت مطالعہ کررہے ہوں۔ سوتے وقت وہ بتی نہیں بجھاتے تھے۔ یہ درست ہے کہ وہ بہت کچھ فراموش کردیتے تھے لیکن ایک انسان کی حیثیت سے وہ اپنی ذمہ داریاں کبھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ ایک راست گو آدمی تھے اور ایک دیانت دار افسر بھی۔ اگر ٹیلی فون کا بل تھوڑا سا زیادہ بھی آجاتا تو وہ اپنے خاندان کے افراد سے ناراض ہوجاتے تھے۔ اگرچہ یہ بل اس رقم سے کم ہوتا جس کی انہیں اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے سرکاری سہولیات کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ وہ ہر ضرورت مند کی مدد کرتے۔ انہوں نے ایک شوہر، ایک باپ اور ملک کے ایک شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ مشتاق یوسفی نے ’’او یو پی‘‘ کی انگریزی سے اردو لغت کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کہا تھا کہ ’’اب وہ سانچے نہیں بنتے جن میں حقی صاحب جیسے لوگ ڈھالے جاتے‘‘۔

والد کے انتقال سے دو ماہ قبل میں اگست 2005ء کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے میری اہلیہ سے کہا کہ وہ کمر کی شدید درد میں مبتلا ہیں۔ میری اہلیہ ڈاکٹر ہیں۔ وہ درد ختم کرنے والی گولیاں کھانے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان گولیوں کے مضر اثرات (Side Effects) ہوں گے۔ میری اہلیہ نے ان سے کہا کہ وہ درد سے افاقہ کیلئے یہ گولیاں کھا لیں۔ اگلی رات انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے گولیاں (Pain Killer) کھانے کے بعد لغت کے پراجیکٹ پر 16گھنٹے کام کیا۔ ایک ہفتہ بعد جب میں اہل خانہ کے ساتھ جا رہا تھا انہوں نے مجھے ایک پیکٹ دیا جس میں ’’او یو پی‘‘ لغت کے لیے کچھ حروف تہجی کا سیٹ تھا۔ یہ اردو سے انگریزی کی وہ لغت تھی جسے وہ تیار کررہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ درد سے افاقے کیلئے جو دوا انہوں نے کھائی اس کی وجہ سے وہ 15 سے 16 گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ 22 دسمبر کو میں ان کے پاس دوبارہ گیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں ہسپتال کے سرطان وارڈ میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لیڈی ڈاکٹر میرے پاس آئی اور مجھے بتایا کہ حقی صاحب کو دوسری وارڈ میں بھیجا جارہا ہے جہاں انہیں درد سے قدرے آرام ملے گا۔ حقی صاحب نے اس سے پوچھا کہ انہیں اس وارڈ میں کیوں شفٹ کیا جارہا ہے تو لیڈی ڈاکٹر نے کہا قواعد کے مطابق جن مریضوں کی زندگی تین ماہ سے کم ہو انہیں پھر اس وارڈ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کمرے میں بہرا کر دینے والی خاموشی چھا گئی۔ میرے والد کی نظریں سامنے والی دیوار پر گڑ گئیں۔ میں نے ان کے چہرے پر خوف کے آثار نہیں دیکھے البتہ ان کے چہرے پر مایوسی اور بے بسی کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-12/1894



میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے ،مصطفٰی زیدی منفرد اسلوب کا شاعر
 12 October, 2021



تحریر : ارشد لئیق

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میں بے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سے ایک نام مصطفیٰ زیدی کابھی ہے، جنہوں نے اپنی خوبصورت اور مؤثر شاعری سے لاکھوں قارئین کو متاثر کیا۔ مصطفیٰ زیدی کے حوالے سے کچھ لکھنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ آسانی کی بات کریں تو ان کی جمال پرستی، رومانوی زندگی اور شاعری پر اظہار خیال کرکے کہانی مکمل کی جا سکتی ہے ۔ اگر دشواری کو دیکھیں تو ان کی شخصیت کی جذباتی پیچیدگیوں، نفسیاتی الجھنوں اور ان کی زندگی کے حالات و واقعات کا منظر نامہ سامنے رکھ کر کچھ لکھنا پڑتا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔

آج پاکستان کے معروف اردو شاعر مصطفیٰ زیدی کی 51ویں برسی ہے، وہ 16اکتوبر 1930ء کو بھارتی شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کی۔ نو عمری میں ہی اپنی عمدہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو حیران کر دیا تھا اور محض انیس سال کی عمر میں ’’موج مری صدف صدف‘‘ کے عنوان سے پہلا شعری مجموعہ شائع کروا دیا۔ 1952ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کیا۔ کچھ عرصہ اسلامیہ کالج پشاور اور اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے لیکچرر کے طور پر کام کیا۔ 1954ء میں سول سروس کا امتحان پاس کرکے اس نظام کا حصہ بنے جسے عرف عام میں بیوروکریسی کہتے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ وہ ایک انتہائی جذباتی اور جمال پرست انسان تھے اور ایسا لگتا ہے کہ عشق و محبت ان کے لئے محض ایک کھیل تھا۔ان کی محبتوں میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بیٹی سروج بالا سرن بھی شامل تھی اور اس سے عشق کی پاداش میں انہیں الہٰ آباد بھی چھوڑنا پڑا۔اسلامیہ کالج پشاور میں ملازمت کے دوران میں بھی وہ ایک امریکن کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور وہاں سے بھی ان کو نکلنا پڑا۔جرمن خاتون ویرا فان سے ان کی شادی بھی محبت ہی کا نتیجہ تھی۔ ویرا سے ان کی ملاقات انگلستان میں ہوئی اور چند ملاقاتوں کے بعد ہی مصطفیٰ زیدی نے انہیں شادی کی پیشکش کر دی مگر وہ ان کی طرح جذباتی نہیں تھیں۔ انہوں نے اپنی والدہ کی اجازت کے بغیر شادی سے انکار کیا۔ چنانچہ وہ جرمنی واپس گئیں، اپنی والدہ سے اجازت لی اور یوں مصطفیٰ زیدی سے ان کی شادی ہوئی اور وہ ان کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ ان کے دو بچے بھی پیدا ہوئے۔ مصطفیٰ زیدی کی نظم ’’اعتراف‘‘ ان کی اہلیہ کی محبت، وفا، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے۔

مصطفی زیدی کی بنیادی حیثیت شاعر کی ہے اور شاعری میں گو انہوں نے غزلیں کہی ہیں، مگر اُن کا غالب رجحان نظم کی طرف رہا۔بہت کم عمر پائی مگر بہت سے شعرا سے زیادہ لکھا اور عمدہ لکھا، 40 سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’موج مری صدف صدف‘‘ ، ’’روشنی‘‘،’’ شہر آذر‘‘،’’ زنجیریں‘‘،’’ قبائے ساز‘‘،’’ گریبان‘‘ اور ’’کوہ ندا‘‘ (جو ان کی وفات کے بعد چھپا) شامل ہیں۔

مصطفیٰ زیدی کی زندگی اور شخصیت ان کی جذباتی زندگی کے بوجھ تلے اس قدر دبی نظر آتی ہے کہ ان کی شاعری کا ذکر قدرے کم کم ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنے عہد کے ایک اہم اور با کمال شاعر تھے۔ بنیادی طور پر انہیں نظم کا شاعر کہا جاتا ہے تاہم ان کی غزلیں بھی کم معیار کی نہیں ہیں ۔

1969ء میں یحییٰ خان کا مارشل لا لگا تو پہلے معطل ہوئے اور پھر ملازمت سے فارغ کر دیے گئے جس کے نتیجے میں وہ بے پناہ ذہنی اور مالی دشواریوں کا شکار ہوئے۔ ’’کوہ ندا‘‘ میں بہت سی نظمیں اس عہد ابتلا کی یاد دلاتی ہیں، اسی زمانے میں وہ پراسرار موت سے دوچار ہوئے۔ جس کے بارے میں آج بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا۔ عدالتی طور پر ان کی موت کو خود کشی قرار دیا گیا تاہم ان کے کئی جاننے والے اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ اسے قتل قرار دیتے ہیں، عجیب اتفاق ہے کہ ان کا یہ معروف شعر بھی اس اندھی واردات کی طرف اشارہ کرتا ہے:

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-12/1893



مصطفٰی زیدی جوش اور فراق کی نظر میں
 12 October, 2021



تحریر : روزنامہ دنیا

مصطفی زیدی ایک ایسے شاعر ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری جیسے بڑے شاعروں نے سراہا ہے۔انہیں مصطفی زیدی سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ شاعری میں بہت آگے تک جائیں گے مگر ان کی اچانک موت نے ان امکانات کو ختم کر دیا۔

جوش نے مصطفی زیدی کی موت پر اس انداز سے اظہار تعزیت کی تھی ’’زیدی کی موت نے مجھے ایک ایسے جواں سال اور ذہین رفیق سفر سے محروم کردیا جو فکر کے بھیانک جنگلوں میں میرے شانے سے شانہ ملاکر چلتا اور مسائل کائنات سلجھانے میں میرا ہاتھ بٹایا کرتاتھا‘‘۔فراق گورکھپوری مصطفی زیدی کی شاعری اور اس کے اسلوب کے متعلق فرماتے ہیں ’’ اس سن و سال میں شاید ہی کسی شاعر کا کلام سلجھا ہوا اور سانچے میں ڈھلا ہوا دستیاب ہو سکے گا۔ان کا مجموعہ ’’کلیات مصطفی زیدی‘‘ ایک نرم و نازک اور شاداب شاخ ہے جس کے ہر پیچ و خم میں سفید گلابی اور کئی ہلکے رنگ کی کلیاں آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-10-12/1892



معاشیات کا نوبیل انعام تین امریکی ماہرین کے نام
 12 October, 2021


2021 کا معاشیات کا نوبیل انعام 3 امریکی ماہرین نے مشترکہ طور پر حاصل کر لیا

سٹاک ہوم(اے پی) رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کے مطابق تینوں ماہرین معاشیات ڈیوڈ کارڈ ، جوشاؤ انگریسٹ اور گیوڈو امبنز نے علوم معاشیات میں تجرباتی کام کو ایک مکمل نئی شکل دی۔ نیوز ایجنسی کے مطابق کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈیوڈ کارڈ کو انعامی رقم کا نصف جبکہ باقی نصف رقم میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جوشاؤ انگریسٹ اور سٹین فورڈ یونیورسٹی کے گیوڈو امبنز کے مابین تقسیم ہو گی۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-10-12/1894726








No comments:

Post a Comment