پوری دنیا میں طرح طرح کے دماغی اور نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ الزائیمر اور ڈیمنشیا جیسے مرض تیزی سے سر اٹھارہے ہیں۔ اس تناظر میں دماغی ماہرین نے بعض طبی ٹوٹکے فراہم کئے ہیں جن پر عمل کرکے ہم تادیر اپنے دماغ کو روشن اور توانا رکھ سکتے ہیں۔
بیٹھنا چھوڑیں اور سرگرم رہیں
ٹرینٹی کالج ڈبلن سے وابستہ دماغی ماہر، اینی کیلی کہتی ہیں کہ جاگنے کے بعد 85 فیصد وقت تک کچھ نہ کچھ کرتے رہیں اور اپنے آپ کو سرگرم رکھیں۔ اس طرح سرگرم زندگی سے فوری طور پر تین فوائد حاصل ہوسکتےہیں، اول، یادداشت اچھی ہوتی ہے، دوم، خون کی نالیاں تندرست رہتی ہیں اور سوم جسم کا امنیاتی نظام بہترین حالت میں رہتا ہے۔
جیسے جیسے ہم بڑھاپے کی طرف جاتے ہیں ہماری یادداشت ماند پڑتی جاتی ہے۔ ورزش سے نہ صرف دماغی حجم بڑھتا ہے بلکہ اگر اس میں کمی واقع ہورہی ہو تو وہ بھی سست پڑجاتی ہے۔ اس کی تصدیق ایم آر آئی اور دیگر طبی طریقوں سے بھی ہوچکی ہے۔
دماغ کو خون کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ بلحاظ وزن پورے جسم کا دو سے تین فیصد حصہ ہے جبکہ پورے جسم کی 15 فیصد خون کی سپلائی استعمال کرتا ہے۔ ورزش سے خون کی نالیوں میں چربی کم ہوتی ہے اور خون کا بہاؤ بہتر ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح دماغی افعال منظم انداز میں کام کرتے ہیں اور یادداشت مضبوط رہتی ہے۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ جسم کا قدرتی دفاعی نظام یعنی امنیاتی نظام ورزش سے بہتر ہوتا جاتا ہے اور یوں ہم کئی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔
باغبانی کے مفید اثرات
اگر آپ بڑھاپے کی جانب گامزن ہیں تو اپنے لان کو باغبانی کی جگہ میں بدل کر اسے خاموش شفاخانہ بنایا جاسکتا ہے۔ پھولوں اور پودوں کی افزائش اور دیکھ بھال سے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بالخصوص ڈیمنشیا کے مریضوں کو اس سے بہت فائدہ ہوسکتا ہے جسے ہارٹیکلچرل تھراپی کا نام دیا گیا ہے۔ بعض تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے مثبت نتائج صرف دس ہفتوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
آلودگی سے دور رہیں
فضائی آلودگی اور دماغی اثرات پر اچھی خاصی تحقیق ہوچکی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرفضا مقام پر رہائش اختیار کی جائے۔ اس سے قبل فضائی آلودگی سے حاملہ خواتین اور بچوں میں بھی منفی اثرات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
بلڈ پریشر اور ذیابیطس پر قابو پائیں
دو امراض دماغی صحت کو تیزی سے نقصان پہنچاسکتے ہیں ان میں بلڈ پریشر اور ذیابیطس سرِفہرست ہیں۔ ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے خون کی نالیاں متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح دماغ شدید متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان دو امراض سے دور رہا جائے۔
https://www.express.pk/story/2207050/9812/
روزانہ ورزش بچوں کے ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں مددگار
30 July, 2021
امریکا کی ڈیلا ویئر یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کچھ دیر کی ورزش بچوں کے ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے
نیو یارک(نیٹ نیوز)طبی جریدے جرنل آف سپیچ لینگوئج اینڈ ہیئرنگ ریسرچ میں شائع تحقیق میں جسمانی سرگرمیوں یا ورزش کے بچوں کی زبان دانی پر اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔تحقیق میں 6سے 12سال کے بچوں کو سوئمنگ، کراس فٹ ایکسر سائز یا ڈرائنگ کرنے سے پہلے چند نئے الفاظ سکھائے گئے ۔ محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کو تیراکی کا موقع ملا، انہوں نے ان الفاظ کے ٹیسٹوں میں 13فیصد زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابل فہم ہے کیونکہ ورزش سے دماغی نشوونما تیز ہوتی ہے اور نئے الفاظ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ ماہرین نے بتایا کہ ہم پرجوش ہیں ورزش کا اطلاق آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور والدین، استاد اور دیگر بچوں کو اس کی مشق کراسکتے ہیں۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-07-30/1860139
بچوں کو درختوں کے قریب جانے دیجئے کیونکہ وہاں وقت گزارکران کی دماغی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس طرح درختوں کی شاخیں بڑھتی ہیں عین اسی طرح بچوں کے دماغ میں شاخ درشاخ عصبی خلیات (نیورون) بھی تشکیل پاتے ہیں۔
لندن میں کئے گئے مطالعے میں 9 سے 15 برس کے 3568 بچوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے جن بچوں نے درختوں میں وقت گزارا تھا ان میں اکتسابی صلاحیتیں بہتر ہوئیں اور دماغی صحت بھی اچھی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سبزہ بھرے میدان، دریا اور جھیلوں جیسے فطری مقامات سے دماغ پر ویسے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ درختوں پر گزارا گیا وقت بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کے دماغ کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ لیکن یہ درختوں اور انسانی دماغ کے درمیان دنیا کی پہلی تحقیق نہیں۔
اس سے قبل امریکہ اور ڈنمارک میں بھی ایسے کئی سروے ہوئے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوا ہے کہ درختوں کی موجودگی دماغ کو فعلیاتی اور نفسیاتی طور پر تندرست رکھتی ہے اور عمر بڑھنے پر بھی دماغ تروتازہ رہتا ہے۔ لیکن اب تک یہ معمہ ہی ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بعض افراد کا خیال ہے کہ شجربھرا قدرتی ماحول انسانی دماغ کی تشکیل میں مدد دیتا ہے اور بالخصوص نوعمر بچوں کے لیے تو بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ درختوں کی پیچیدہ اشکال بھی دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے۔
کچھ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ سبزہ اور درخت دماغی افعال پر اثرانداز ہوتے ہیں جن میں دماغ کا سفید اور بھورا مادہ اور ایمگڈالا کی بڑھوتری شامل ہے۔ لیکن تازہ برطانوی تحقیق درختوں کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے ناکہ محض گھاس پھوس کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
2019 میں شائع شدہ ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ سبزے میں پرورش پانے والے بچے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں دماغی ٹیسٹ بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پڑوس میں بھی درخت اور سبزہ ہو تو اس کے بھی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2206124/9812/
الارم کو سنوز پر لگانے کی عادت صحت کیساتھ دشمنی:ماہرین
28 July, 2021
سمارٹ فونز نے میں ایک الارم کا سنوز بٹن ہے جو ہمیں ایک سہولت لگتا ہے
لاہور(نیٹ نیوز)الارم کی آواز پر آنکھ کھلتے ہی ہم میں سے اکثر افراد سنوز کا بٹن دبا دیتے ہیں، اس سے الارم فوری طور پر خاموش ہوجاتا ہے اور دس یا پندرہ منٹ بعد دوبارہ بجتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ الارم کے بجتے ہی اسے سنوز پر لگا کر دوبارہ سوجاتے ہیں اور 10 منٹ بعد الارم دوبارہ بج اٹھتا ہے اور یہ سلسلہ آدھے گھنٹے تک جاری رہتا ہے تو جان لیں کہ آپ اپنی صحت کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ بار بار الارم بجنے سے نہ تو آپ ٹھیک سے سوپاتے ہیں اور نہ جاگ پاتے ہیں، یوں آپ کا دماغ تھکن کا شکار ہوجاتا ہے گے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ خوشگوار اور چاک و چوبند دن گزارنا چاہتے ہیں تو اسی وقت کا الارم لگائیں جب آپ کو اٹھنا ہے ، اور پہلی گھنٹی بجتے ہی فوراً اٹھ بیٹھیں، اس سے آپ کا جسم اور دماغ سارا دن فعال اور چاک و چوبند رہے گا۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-07-28/1859257
دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی بسااوقات جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ ایک سے تین کپ کافی پینے سے دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی (اردمیا) کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں 19000 افراد کا کئی برس تک مطالعہ کیا گیا ہے۔ دل کی بے ترتیب دھڑکن آرٹیریئل فبلریشن کہلاتی ہے جسے مختصراً اے فِب کہا جاتا ہے۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ روزانہ باقاعدگی سے ایک سے تین کپ کافی پینے سے دل کی بے ترتیب دھڑکن کا خدشہ 15 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
اگرچہ یہ تحقیق مردوں پر کی گئی تھی لیکن سال 2010 میں بھی خواتین پر ایسا ہی سروے کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلسل کافی پینے والی خواتین میں دل کی بے ترتیب دھڑکن کا خدشہ 20 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ کافی موڈ کو بہتر بناتی ہے اور دماغ کو فعال رکھتی ہے۔
اسی طرح کافی پینا دل کے لیے مفید قرار دیا گیا ہے جس کے کئی سائنسی ثبوت بھی مل چکے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2206591/9812/
سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ مرد و خواتین کے لیے سائیکلنگ کے نقصانات سے خبردار کردیا
Jun 07, 2021 | 19:28:PM

سورس: Pixabay (creative commons license)
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سائیکلنگ کو صحت کے لیے بہت فائدہ مند قرار دیا جاتا ہے مگر اب سائنسدانوں نے اس کا مردوخواتین دونوں کی جنسی صحت کے لیے ایک ایسا نقصان بتا دیا ہے کہ سن کر لوگ کبھی سائیکلنگ کے نزدیک بھی نہ جائیں گے۔میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سین فرانسسکو کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ”مرد ہی نہیں، خواتین کی جنسی صحت بھی زیادہ سائیکل چلانے سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سائیکل کی گدیوں سے جنسی اعضاءسے منسلک پٹھوں کو پہنچنے والا نقصان ہے۔
رپورٹ کے مطابق قبل ازیں سائیکل چلانا صرف مردوں کی جنسی صحت کے لیے نقصان دہ خیال کیا جاتا تھا تاہم اس تحقیق میں سائنسدانوں نے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی 875خواتین پر تجربات کے بعد بتایا ہے کہ ان کی جنسی صحت بھی سائیکل چلانے سے متاثر ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں شامل سائیکل چلانے والی آدھی سے زائد خواتین کی جنسی صحت متاثر پائی گئی۔ سائنسدانوں نے نتائج میں بتایا ہے کہ اس نقصان کی وجہ سائیکلوں کی گدی ہے، جس کے ڈیزائن میں 200سال قبل سائیکل کی ایجاد کے بعد سے کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہیں کی گئی۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ سائیکل بنانے والی کمپنیوں کو مردوخواتین کے جنسی اعضاءسے منسلک پٹھوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سائیکل کی گدیاں تیار کرنی چاہئیں، جو ان پٹھوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/07-Jun-2021/1299298?fbclid=IwAR1_wHThMIvt1EcUxnGzV0BUlT1h8gjN2Sk1jsOaTAuICX8gO8wuPzztW2g
سائنسدان روزانہ ایک گلاس دودھ پینے کا حیران کن فائدہ سامنے لے آئے ، جان کر آپ آج سے ہی عادت بنا لیں گے
May 25, 2021 | 19:15:PM

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) دودھ ایک بہترین غذا ہے جو بے شمار طبی فوائد کی حامل ہے۔ اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں روزانہ ایک گلاس دودھ پینے کا ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ جان کر آپ دودھ پینا اپنی عادت بنا لیں گے۔ میل آن لائن کے مطابق برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ ایک گلاس دودھ پینے سے ہارٹ اٹیک، دل کی دیگر بیماریوں اور سٹروک کا خطرہ 14فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ روزانہ دودھ پینے سے لوگوں میں کولیسٹرول کا لیول بھی کم رہتا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ویمل کیرانی نے بتایا ہے کہ ”ہم نے اس تحقیق میں 20لاکھ سے زائد امریکی اور برطانوی شہریوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ ان میں سے جن لوگوں میں ایک جینیاتی میوٹیشن پائی گئی جس کی وجہ سے لوگ زیادہ دودھ پینے کے قابل ہوتے ہیں، ان کودل کی بیماریاں اور سٹروک لاحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت 14فیصد تک کم پایا گیا۔ ان لوگوں میں دوران خون کی صحت دوسروں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر پائی گئی۔“
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293563?fbclid=IwAR39MjuIXZnFuW8v-9G1nQeYAy-SEVEbomKzLr5oY3VGm_Q0RNoAtdTZ0wg
نوعمر بچوں کی اعلیٰ تعلیم نہ صرف ان کا مستقبل سنوارتی ہے بلکہ ان کے والدین کی دماغی، نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف بفیلو سے وابستہ کرسٹوفر ڈینیسن کہتے ہیں کہ نئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ جن والدین کے بچے یونیورسٹی اور کالج کی ڈگری مکمل نہیں کرسکتے ان میں خرابی صحت اور ڈپریشن کے آثار دیکھے جاسکتےہیں۔ اسی طرح بچوں کی اعلیٰ تعلیم والدین کے ذہنی اور جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔
1994 میں شروع کئے گئے ایک سروے کو مزید جاری رکھا گیا اور اس سے حاصل شدہ نئے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایک سے زائد نسلوں پر اعلیٰ تعلیمی اثرات کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ پروفیسر کرسٹوفر نے بتایا کہ جن والدین کا ایک بیٹا یا بیٹی بھی جامعہ کے درجے تک نہ پہنچ سکا ان کے والدین نے خود ایسی علامات کا اظہار کیا جو ڈپریشن اور صحت کی خرابی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل آف گیرنٹولوجی کے سوشل سائنس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ گویا اس میں بچوں کی کم تعلیم اور والدین کی ناخوشی کے درمیان گہرا ربط بھی ملا ہے۔
اس مطالعے میں 20 ہزار افراد کے ڈیٹا کو پہلے ہی دیکھا گیا ہے جبکہ 30 سے 60 سال کے والدین کے ساتھ مزید دوہزار ایسے والدین کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 50 سے 80 برس کے درمیان تھیں۔ یہ تحقیق 2015 اور 2017 میں کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کھوج امریکی تناظر میں کی گئی ہے جہاں والدین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اطلاق پاکستان پربھی کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری تعلیم ہماری صحت پر اثرڈالتی ہے جبکہ خود بچوں کی تعلیم بھی ان کے والدین پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم ترین معاشی گنجائش والے والدین پر ان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے والے بچوں کے والدین ڈپریشن اور دیگر مسائل میں بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ والدین کی یہ فکرمندی ان کی صحت کو متاثرکرسکتی ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعلیم یافتہ بچے اچھی ملازمت اور معاشی مواقع حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے والدین سکون اور بے فکری کی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں زور دیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں کیونکہ نہ صرف یہ ان کی اولاد بلکہ خود ان کی صحت کے لیے بھی بہترین سرمایہ کاری ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2204518/9812/
اگر آپ کی بیگم گھر کے کاموں سے تنگ آکر شکایت کرے تو آپ کو چاہیے ان کو یہ تازہ تحقیق دکھائیں
Jan 19, 2021 | 19:14:PM

سورس: Pxhere (creative commons license)
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں گھریلو کام کاج کا ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر مرد بھی گھر کے کاموں میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹانے کی ضد کریں گے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف بیلفاسٹ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ گھریلو کام کاج کرنے سے انسان کی جسمانی و ذہنی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو خواتین گھر میں فارغ بیٹھنے کی بجائے زیادہ وقت کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اس سے انہیں ورزش سے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر لینڈرو گریشا کا کہنا تھا کہ ”جن خواتین کے پاس باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ورزش کے فوائد گھر کے کام کاج سے بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ہماری تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں کہ متحرک زندگی گزارنے والے مردوخواتین کی جسمانی و ذہنی صحت فارغ بیٹھ کر زیادہ وقت گزارنے والوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ میں بالغ افراد کو نصیحت کروں گی کہ وہ فارغ بیٹھنے کی عادت جس قدر کم کر سکتے ہوں کریں اور ایک متحرک طرز زندگی اپنائیں۔“
https://dailypakistan.com.pk/19-Jan-2021/1239147?fbclid=IwAR18qwLHFrFzKGWCZGnjIA0fCt5F3pP7Qlayy05-NeC1wzSpTME30zK8-_8
طب کے ماہرین نے ایک خوبصورت مثال سے بات سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی چکنائی بھری مچھلیوں سے منہ موڑتا ہے تو اس کا نقصان عین تمباکونوشی جیسا ہی ہوگا۔
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہ ماہرین نے کہا ہے کہ مچھلی میں اومیگا تھری جیسا قیمتی مرکب ہوتا ہے جو دل و دماغ کے لیے تو مفید ہے ہی لیکن اس کی کمی سے اوسط زندگی سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ متاثر ہوکر کم ہوجاتی ہے۔
ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ سگریٹ نوش افراد اپنی عادتِ بد سے اپنی قیمتی حیات کے اوسط چار سال کم کردیتے ہیں لیکن سامن اور میکرل جیسی اومیگا تھری سے بھرپور مچھلیوں سے منہ موڑ کر اوسط زندگی میں پانچ سال کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یعنی اومیگا تھری کی جسم میں کمی سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف گوئیلف سے وابستہ سائنسداں ، ڈاکٹر مائیکل مِک برنی کہتے ہیں کہ جسم میں اومیگا تھری کو ایک اشاریئے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کی بہترین صورت چار سے آٹھ فیصد تک ہوتی ہے اور اس سے کم کو اومیگا تھری کی کمی کہا جاتا ہے۔
اومیگا تھری خون کو صاف، پتلا اور ہموار رکھتا ہے۔ اس طرح بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں پیدا نہیں ہوتیں اور انسان طویل تندرست زندگی گزارتا ہے۔ اگر 65 سال کی عمر کا کوئی شخص تمباکو نوشی کرتا ہے تو اس کی زندگی کے چار سال ویسے ہی کم ہوجاتے ہیں جبکہ اس عمر میں اومیگا تھری اور مچھلی نہ کھانے سے یہ فرق پانچ برس تک جاپہنچتا ہے۔
یہ تحقیق امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہوئی ہے جس میں فریمنگھم اسٹڈی سے مدد لی گئی ہے جو اس ضمن میں ایک بہت بڑا سروے اور تاحال جاری ہے۔ اس مطالعے میں شامل ہزاروں افراد کا طویل عرصے تک مطالعہ کیا گیا ہے۔ ان افراد کی جنس، عمر، تمباکونوشی، غذائی عادات اور ورزش کے رحجانات تک کو دیکھا گیا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اومیگا تھری کی کمی سے کم عمری میں اموات واقع ہوئیں اور یوں کہا جاسکتا ہے کہ مچھلی کھانے سے عمر بڑھتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2204204/9812/
روزانہ ایک ماہ تک ادرک کھائیں،جسم سے سوزش ختم
19 July, 2021
ماہرین صحت کا کہناہے کہ روزانہ ایک ماہ تک ادرک کا استعمال کرنے پر جسم سے سوزش ختم ہو جاتی ہے
لاہور(نیٹ نیوز)ایک سائنسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ادرک کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے ہر روز ادرک کے بڑے ٹکڑے کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ ادرک کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جوس یا چائے میں شامل کرنے سے بھی جسم کو کئی فائدے پہنچ سکتے ہیں۔ادرک کھانے سے صبح کی متلی کا احساس بھی کم ہونے میں بھی مدد ملتی ہے ، خاص طور پر حاملہ خواتین اور کیموتھراپی سے گزرنے والے افراد کیلئے ادرک روزانہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔
https://dunya.com.pk/index.php/weird/2021-07-19/1855829
ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے ایسی اینٹی باڈی دریافت کی ہے جو نہ صرف موجودہ کورونا وائرس (سارس کوو 2) بلکہ کورونا وائرس کی درجنوں دوسری اقسام کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
یہ ’’سپر اینٹی باڈی‘‘ اب تک تجربہ گاہ میں زندہ خلیوں اور جانوروں پر کامیابی سے آزمائی جاچکی ہے جنہیں کورونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر کیا گیا تھا۔
ان کامیاب تجربات سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے کیونکہ یہی ’’سپر اینٹی باڈی‘‘ متوقع طور پر کورونا وائرس کی آئندہ اقسام کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
’’سارس کوو 2‘‘ (ناول کورونا وائرس) میں تیز رفتار تبدیلیوں کے باعث وجود میں آنے والی نت نئی اقسام (وائرس ویریئنٹس) کے تناظر میں یہ دریافت بہت اہم رکھتی ہے۔
سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ مزید تبدیلیوں کے بعد موجودہ ویکسینز بھی کورونا وائرس کے خلاف بیکار ہوجائیں گی۔ یعنی ہمیں جلد ہی ایسی نئی ویکسینز کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو کورونا وائرس کی نئی اقسام کا قلع قمع کرسکیں۔
ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ، بیلجیئم اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجانے والے افراد سے مختلف اینٹی باڈیز حاصل کیں۔
ان میں سے 12 ایسی اینٹی باڈیز الگ کی گئیں جن کی کارکردگی نسبتاً بہتر محسوس ہوئی۔
ان کی تجرباتی آزمائشوں میں ایک ایسی اینٹی باڈی سامنے آئی جو حالیہ کورونا وائرس کے مختلف ویریئنٹس کے علاوہ دیگر اقسام کے کورونا وائرسوں کے حملوں کو بھی بہت کامیابی سے ناکارہ بنا رہی تھی۔
مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ اینٹی باڈی، جسے ماہرین نے ’’سپر اینٹی باڈی‘‘ کا نام بھی دیا ہے، کورونا وائرس کے ایک ایسے حصے کو نشانہ بناتی ہے جس سے ہم پہلے واقف نہیں تھے۔
کورونا وائرس کی سطح پر موجود یہ حصہ اس وائرس کی تقریباً تمام اقسام میں ایک جیسا ہوتا ہے جبکہ یہ بہت کم تبدیل ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ سپر اینٹی باڈی بھی پرانے، نئے اور آئندہ، کم و بیش ہر طرح کے کورونا وائرسوں کے خلاف ایک مؤثر علاج کی بنیاد بن سکے گی۔
اگر یہ اینٹی باڈی انسانی تجربات میں بھی اتنی ہی کامیاب ثابت ہوئی تو ممکنہ طور پر اگلے سال تک ہمارے پاس کورونا وائرس کا ایک ایسا علاج دستیاب ہوگا جو کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹس سامنے آنے پر بھی مؤثر رہے گا۔
https://www.express.pk/story/2202435/9812/
ہڈیوں کے لیے مفید غذائیں
14 July, 2021

تحریر : ڈاکٹر اختر حسین
75 سالہ باباجی توقیر حسین اس عمر میں بھی بڑے چاق و چوبند ہیں۔ وہ اپنے گھر کے بھی اکثر کام کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو بازار بھی چلے جاتے ہیں۔ ورنہ اس عمر میں اکثر مردوزن کی ہڈیاں اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ دو قدم چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ توقیر حسین کی ہڈیوں کی مضبوطی کا راز یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے ایسی غذائیں کھاتے ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی موجود ہوں۔ کیلشیم ہماری ہڈیاں طاقتور بناتا ہے جبکہ وٹامن ڈی کی بدولت کیلشیم انسانی جسم میں بہ سہولت جذب ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں کی نشوونما میں بھی سودمند ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کو یہ دونوں غذائی عناصر ضرور لینے چاہئیں کیونکہ تب ہڈیاں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ تاہم ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑھاپے میں بیشتر مرد و زن ہڈیوں کی ایک بیماری ''بوسیدگی استخوان‘‘ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس بیماری میں ہڈیاں رفتہ رفتہ نہایت کمزور ہوجاتی ہیں۔ تاہم انسان غذائوں یا ادویہ کے ذریعے وافر کیلشیم اور وٹامن ڈی لے، تو ہڈیاں جلد بھربھری نہیں ہوتیں اور یوں ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ماہرین طب کے مطابق 50 سال کی عمر تک مردو زن کو روزانہ 1ہزارملی گرام کیلشیم جبکہ 200عالمی یونٹوں کے برابر وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ 50سال سے زائد عمر کے مردوزن کے لیے لازم ہے کہ وہ روزانہ 1.2 سو ملی گرام کیلشیم جبکہ 400 سے 600 عالمی یونٹ وٹامن ڈی استعمال کریں۔ ذیل میں ایسی غذائوں کا ذکر ہے جن میں دونوں غذائی عناصر وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ بازار میں ایسی گولیاں دستیاب ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی ہوتا ہے، تاہم ڈاکٹر غذائوں میں موجود فطری غذائی عناصر کو ترجیح دیتے ہیں۔
دہی:وٹامن ڈی کے سلسلے میں قباحت یہ ہے کہ وہ بہت کم غذائوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بنیادی طور پر سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے ۔ پندرہ بیس منٹ روزانہ دھوپ میں کھڑنے ہونے سے اس کی مطلوبہ مقدار مل جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما اور برسات کے دوران وہاں اکثر سورج نہیں نکلتا۔ چنانچہ وہاں ایسا دہی سامنے آیا ہے جس میں مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ دہی میں قدرتاً وافر کیلشیم ہوتا ہے، لہٰذا انسانی صحت کے لیے وہ سہ آتشہ بن جاتا ہے۔ اس خاص دہی کا صرف ایک پیالہ کیلشیم کی روزانہ 30 فیصد جبکہ وٹامن ڈی کی 20فیصد ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام دستیاب دہی میں کیلشیم تو خاصا ملتا ہے، البتہ وٹامن ڈی کی بہت کم مقدار ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے یہ سوچ کر نہ کھائیے کہ وہ وٹامن ڈی کی مطلوبہ ضرورت پوری کر دے گا۔
دنیا کی تمام غذائوں میں سب سے زیادہ کیلشیم دودھ ہی میں ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صرف ایک گلاس دودھ کیلشیم کی 30 فیصد روزانہ ضرورت پوری کردیتا ہے۔ اگر یہ دودھ چکنائی سے پاک ہو، تو اچھا ہے کہ یوں انسان کو محض 90 حرارے (کیلوریز) ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اب دودھ میں بھی مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جا رہا ہے تاکہ اْسے زیادہ غذائیت بخش بنایا جاسکے۔
پنیر:پنیر دہی سے بھی زیادہ کثیف ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میں سب سے زیادہ کیلشیم ہوتا ہے۔ اگر انسان محض چنداونس پنیر کھالے، تو اْسے 30 فیصد کیلشیم مل جاتا ہے لیکن پنیر ہضم کرنا کٹھن مرحلہ ہے، اسی لیے اْسے کثیر مقدار میں کھانے کی کوشش نہ کریں۔ پنیر کی معتدل مقدار ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔پنیر میں وٹامن ڈی کی بھی معمولی مقدار ملتی ہے۔ تاہم وہ اس غذائی عنصر کی مطلوبہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ لہٰذا وٹامن ڈی کے معاملے میں محض پنیر پر بھروسہ مت کریں۔
مچھلی:سالمن، سارڈین اور ٹونا وہ سمندری مچھلیاں ہی جن میں وٹامن ڈی کثیر مقدار میں ملتا ہے، تاہم پاکستانی سمندروں میں یہ مچھلیاں کم ہی ملتی ہیں ۔ گو ڈبوں میں دستیاب ہیں لیکن مہنگا ہونے کے باعث امیر لوگ ہی انھیں کھا سکتے ہیں۔ دیگر مچھلیوں میں وٹامن ڈی اتنا زیادہ نہیں پایا جاتا ۔
انڈے:گو ایک انڈہ ہمیں صرف 6 فیصد وٹامن ڈی مہیا کرتا ہے، لیکن یہ ایک عام دستیاب غذاہے۔ پھر اسے پکانا بھی آسان ہے۔ واضح رہے کہ وٹامن ڈی زردی میں ہوتا ہے، لہٰذا جو مردوزن دو تین انڈے کھانا چاہیں، وہ زردی کم کھائیں۔ یوں انھیں کم حرارے ملیں گے۔
ساگ:سبزیوں میں کیلشیم سب سے زیادہ ساگ میں ملتا ہے۔ چنانچہ جو افراد دودھ پینے کے شوقین نہیں، وہ ساگ سے مطلوبہ کیلشیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک پیالی ساگ ہمیں 25 فیصد کیلشیم فراہم کرتا ہے نیز یہ سبزی ریشہ (فائبر)، فولاد اور وٹامن اے کی خاصی مقدار بھی رکھتی ہے۔
مالٹے کا رس:آج کل بازار میں مالٹے کے ذائقے والے ایسے ادویاتی رس دستیاب ہیں جن میں وٹامن سی کے علاوہ کیلشیم اور وٹامن ڈی بھی شامل ہوتا ہے۔ ان مشروبات میں وٹامن سی شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ غذائی عنصر کیلشیم جسم انسانی میں جذب کراتا ہے۔ چنانچہ اس کی غذائی اہمیت بھی مسلم ہے۔
تھکن کی کیا وجہ ہے؟دورِجدید میں تھکن اور جسمانی درد سیکڑوں مردوزن کو نشانہ بناتا ہے۔ اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً خواتین میں تھکن کی ایک وجہ فولاد کی کمی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے، ہر انسان کو کم از کم18 ملی گرام فولاد روزانہ درکار ہوتا ہے۔ ایک تجربے میں سوئٹزرلینڈ کی لوزین یونیورسٹی میں 200 خواتین کو 3ماہ تک 80ملی گرام فولاد کی گولیاں کھلائی گئیں۔ یہ خواتین تھکن، سستی اور غنودگی کا شکار تھیں۔
3ماہ بعد دیکھا گیا کہ 90 فیصد خواتین میں 50 فیصد تک تھکن کم ہو گئی۔تاہم جسم میں فولاد کی زیادتی ہوجائے تو یہ بھی بڑا خطرناک امر ہے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-07-14/25100
ہڈیوں کی مضبوطی
12 July, 2021

تحریر : سارہ خان
صحت بخش اور متوازن خوراک کو برقرار رکھنا بچپن اوربڑھاپے میں زیادہ اہم ہے ۔ پھل اور سبزیاں، مچھلی اور سالم اناج والی غذائیں ہڈیوں کی صحت کیلئے حیاتین اور معدنیات حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔کیلشیم ہمارے جسم کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے ۔ یہ پٹھوں اور ہڈیوں کو بھی مضبوط بناتا ہے، اس لئے جسم میں کیلشیم کی کمی ہونے سے کئی بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں۔ کبھی کبھی اٹھتے بیٹھتے وقت ہڈیوں سے چٹخنے کی آواز آنے لگتی ہے۔ جوڑوں ، گھٹنوں اور ہڈیوں میں درد رہنے لگتا ہے ،دانت کمزور ہوکر ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ناخنوں پر سفید نشان آنے لگتے ہیں ۔کیلشیم کی کمی کیوجہ سے جسم میں اور بھی کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں اگر اس طرح کی علامات دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ کیلشیم کی کمی ہوگئی ہے یا ہو رہی ہے۔
ہم آپ کو دو ایسے گھریلونسخے کے بارے میں بتائیں گے جن کا استعمال کرکے آپ اپنے جسم سے کیلشیم کی کمی کو پورا کرسکتی ہیں۔اس سے جسمانی کمزوری بھی دور ہوجائیگی اور نظام ہاضمہ مضبوط ہو جائے گا۔
ہڈیوں کی حفاظت کرنے کیلئے ورزش، خوراک، محنت ،کھیل یا بھاگ دوڑبھی لازمی ہے۔ ایسے کام بچوں کی ہڈیوں کیلئے زبردست ثابت ہوتے ہیں۔ فعال طرز زندگی جیسا کہ تیز تیز چلنا ، تیراکی اور باغبانی بھی صحت بخش ہے ۔ نوعمری سے لے کر جوانی تک ان میں رشکت کرنے سے ان کی ایسی مضبوط ہڈیاں بنیں گی جن کی طاقت اواخر زندگی تک برقرار رہے گی۔یہ سب عضلات کومضبوط بنانے میں معاون ہوتے ہیں۔
رات کو سات بادام پانی میں بھگو کر رکھ دیں، صبح ان کا چھلکا اتار کر اچھی طرح چبا کر کھالیں۔ اوپر سے ایک گلاس دودھ پی لیں اس کا استعمال شام کے وقت کرنا ہے۔تین چھوہاروں کو باریک باریک کاٹ لیں اور کاٹنے کے بعد چھوہاروں کو ایک گلاس دودھ میں ملا لیں۔ساتھ ہی اس میں ایک چمچ خشخاش بھی ملا لیں ان دونوں کو ملا کر اچھی طرح مکس کرلیں اور درمیانی آنچ پر پانچ منٹ تک ابالیں۔ جب نیم گرم رہ جائے تو اس کا استعمال کریں ذائقہ کیلئے اس میں مصری بھی ملا سکتے ہیں ۔اس کا استعمال آپ نے شام کے وقت کرنا ہے۔ اگرآپ ان دونوں نسخوں کا استعمال کریں گی تو ایک ہفتے میں ہی کیلشیم کی کمی پوری ہونے لگے گی۔ ہڈیوں سے آنے والی کٹ کی آواز دور ہوجائے گی۔جوڑوں اور گھٹنوں کے درد میں آرام ملے گا۔
بادام ہمارے جسم کیلئے بہت فائدہ مند ہوتا ہے ۔بادام میں کیلشیم کے ساتھ ساتھ فائبر پروٹین میگنیشیم اورمعدنیات بھی پائے جاتے ہیں ۔یہ ہمارے جسم کیلئے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں۔ خشخاش ہمارے صحت کیلئے بہت مفید ہوتی ہے۔ اس میں کیلشیم زنک اور کاپر جیسے غذائی اجزاء بھرپور مقدار میں پائے جاتے ہیں یہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جسم میں کیلشیم کی کمی ہونے کی دو بنیادی وجہ ہوتی ہیں۔یا تو ہم اپنے کھانے والی چیزوں میں کیلشیم لیتے ہی نہیں یا پھر لیتے ہیں تو کیلشیم لگتا نہیں اور خشخاش ان دونوں میں فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس میں کیلشیم بھرپور مقدار میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آسانی سے ہضم بھی ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ پٹھوں میں ہونے والے درد اور جکڑن ختم کرنے کیلئے یہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ چھوہارے میں کیلشیم بھرپور مقدار میں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کیلشیم کی کمی کیوجہ سے جسم میں کمزوری سستی تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔اس میں چھوہارے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں۔اس ضمن میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2021-07-12/1554
برطانیہ : چالیس ارب روپے مالیت کی کرپٹو کرنسی ضبط
14 July, 2021
برطانیہ میں پولیس نے 40 ارب روپے مالیت کی کرپٹو کرنسی ضبط کر لی۔ پولیس نے کرپٹو کرنسی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران ضبط کی
لندن(صباح نیوز)برطانیہ میں پولیس نے 40 ارب روپے مالیت کی کرپٹو کرنسی ضبط کر لی۔ پولیس نے کرپٹو کرنسی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران ضبط کی، اس حوالے سے 24 جون کو منی لانڈرنگ کے شبہ میں 39 سالہ خاتون کو گرفتار کیا گیا تھا جس سے تفتیش کی گئی۔
https://dunya.com.pk/index.php/dunya-meray-aagay/2021-07-14/1854126
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ زیادہ وزن، موٹاپے، کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ مکمل اناج استعمال کیجیے۔
واضح رہے کہ مکمل اناج (ہول گرین) سے مراد ’’چھلکے سمیت‘‘ اناج ہوتے ہیں جن میں گندم (یا مکمل گندم سے بنا ہوا آٹا)، جو اور براؤن رائس (چھلکے سمیت چاول) وغیرہ شامل ہیں۔
یہ تحقیق امریکا میں 3,100 افراد پر کی گئی جنہوں نے 1948 سے شروع ہونے والے ایک طویل مدتی مطالعے میں حصہ لیا تھا جس میں ان کی غذائی عادات اور صحت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ ہر رضاکار کا تفصیلی معائنہ تقریباً ہر چار سال بعد کیا گیا۔
لگ بھگ 70 سال پر پھیلے ہوئے ان اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد ٹفٹس یونیورسٹی، بوسٹن کے ماہرین درج ذیل نتائج پر پہنچے:
اگر روزانہ مکمل گندم والی ڈبل روٹی کے تین سلائس (جن میں تقریباً دو چپاتیوں جتنی گندم ہوتی ہے)، مکمل جو (oats) سے تیار کردہ کورن فلیکس یا براؤن رائس کا ڈیڑھ کپ (120 گرام) استعمال کیا جائے تو اس سے موٹاپا اور وزن قابو میں رہتے ہیں، بلڈ پریشر درست رہتا ہے اور خون کی شکر (بلڈ شوگر) بھی محفوظ حد سے بڑھنے نہیں پاتی۔
’’دی جرنل آف نیوٹریشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مکمل اناج کی مناسب مقدار روزانہ استعمال کرنے سے خون میں مفید کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل) کی سطح بھی خاصی بہتر رہتی ہے۔ البتہ یہ تعلق کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔
بتاتے چلیں کہ مکمل اناج کی خوبیوں سے ہماری واقفیت صدیوں پرانی ہے۔ اگرچہ تازہ تحقیق بھی اس کی ایک بار پھر تصدیق کرتی ہے لیکن ماہرین اب تک یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ آخر مکمل اناج سے ہماری صحت کو پہنچنے والا فائدہ کس نظام (مکینزم) کے تحت ہوتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2201862/9812/
ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اسٹریچنگ کی ورزشیں بلڈ پریشر کو بہترانداز میں قابو میں رکھ سکتی ہیں۔ بلکہ بعض ماہرین کا اصرار ہے کہ جسمانی کھنچاؤ کی ورزشیں تیزقدمی (واکنگ) سے بھی بہتر ثابت ہوسکتی ہیں۔
مطالعے کے تحت اگر ہفتے میں پانچ روز، صرف 30 منٹ روزانہ اسٹریچنگ کی جائے تو اس سے بلڈ پریشر قابو کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایئروبک ورزشوں کے فوائد اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں جو ایک مفید عمل بھی ہے۔
اس طرح لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے بھی گھر بیٹھے ورزش کم کرنے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دن میں کسی بھی وقت کھنچاؤ کی ورزشوں سے یکساں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ تحقیق کینیڈا کی سسکواچن یونیورسٹی کے پروفیسر فِل چِلی بیک نے کی ہے۔
ڈاکٹر فِل کہتے ہیں کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے بھی اسٹریچنگ کی جاسکتی ہے اور ہفتے میں پانچ روز، نصف گھنٹے تک اسٹریچنگ کی جائے تو اس کے فوائد دوسرے مہینے سامنے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹرفِل نےکہا کہ توند کم کرنے میں واک کا کوئی نعم البدل نہیں۔
اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر فِل نے واک اور اسٹریچنگ دونوں کو ہی آزمانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اسٹریچنگ سے خون کی رگیں لچکدار ہوجاتی ہیں اور ان میں خون کا بہاؤ بہتر ہوجاتا ہے۔ اس طرح بلڈ پریشر میں کمی آنے لگتی ہے۔
انہوں نے اٹکل میں 40 مرد اور 30 خواتین کا انتخاب کیا ۔ ان سب کو یہ انتخاب دیا گیا کہ آیا وہ ہفتے میں پانچ روز 30 منٹ کے لئے اسٹریچنگ کریں یا پھر واک کیجئے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ دو ماہ تک یہ معمول برقرار رکھیں۔
شریک افراد کی اکثریت یا تو بلڈ پریشر نارمل سے تھوڑی اوپر تھا یعنی 130/85 سے 139/89 تھا یا پھر پہلے درجے کا بلڈ پریشر تھا یعنی 140/90 سے 159/99 تک تھا۔ تمام شرکا کی اوسط عمر 61 برس تھی۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ اسٹریچنگ سے بھی بلڈ پریشر قابو کرنے میں شاندار کامیابی ملی۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جسمانی کھنچاؤ کی ورزشوں سے بلڈ پریشر قابو کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2201172/9812/
ماﺅتھ واش استعمال کرنیوالے افراد کو ڈاکٹروں نے خبردار کردیا
Jul 12, 2021 | 19:55:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)اکثر لوگ دانت برش کرنے کے بعد ماﺅتھ واش استعمال کرتے ہیں مگر اب ایک ماہر ڈینٹسٹ نے اس حوالے سے تنبیہ جاری کر دی ہے۔
دی مرر کے مطابق ڈاکٹر اینا پیٹرسن نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بتایا ہے کہ دانت برش کرنے کے بعد ماﺅتھ واش استعمال کرنا فائدے کی بجائے الٹا سنگین نقصان کا سبب بنتا ہے۔ڈاکٹر اینا نے بتایا کہ ”ٹوتھ پیسٹ میں 1450پارٹس فی ملین فلورائیڈ ہوتے ہیں، اس کے برعکس ماﺅتھ واش میں صرف 220پارٹس فی ملین فلورائیڈ ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ دانت برش کرنے کے بعد ماﺅتھ واش استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو آپ بنیادی طور پر 1450پارٹس کو محض 220پارٹس کے لیے ضائع کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ ماﺅتھ واش انہیں دھو کر منہ سے نکال دیتا ہے اور آپ ان کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا دانت برش کرنے کے بعد ہمیں کبھی بھی ماﺅتھ واش استعمال نہیں کرنا چاہیے۔“
ڈاکٹر اینا کا کہنا تھا کہ ”ہمیں صبح شام اچھے ٹوتھ پیسٹ سے دانت برش کرنے چاہیے اور ہر کھانے کے بعد صفائی کے لیے ماﺅتھ واش استعمال کرنا چاہیے۔“
https://dailypakistan.com.pk/12-Jul-2021/1315044?fbclid=IwAR0Rh1HU1JkHPbDVxMswwFf50faYfUM9M4YYxsD7SOiwoRQYtMrA4VQ59PY
میٹھی اشیا ء کا زیادہ استعمال نقصان دہ
10 July, 2021

تحریر : رانا حیات
میٹھی چیزوں کو کبھی کبھار کھانے میں کوئی حرج نہیں بس ان چیزوں کو روز کا معمول نہ بنائیں ورنہ آپ کے جسم میں انسولین کے خلاف resistance پیدا ہو جاتی ہے اور تمام شوگر آپ کے خون میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ آپ کے لبلبہ کو اور زیادہ انسولین بنانی پڑتی ہے لیکن شوگر آپ کے سیلز میں جذب نہیں ہو پاتی۔ اس طرح آپ کو ہر وقت کمزوری اورنقاہت کا احساس رہتا ہے ایسے محسوس ہوتا ہے جسم میں طاقت نہیں رہی۔آپ کے گردوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے گردوں کو خون سے چینی خارج کرنے کیلئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس طرح آہستہ آہستہ آپ کے گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ جسم میں شکر کی اضافی مقدار آپ کے خون کی شریانوں کو بھی نقصان دیتی ہے۔ cholesterol شریانوں میں جمع ہونے لگتا ہے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں ان میں لچک کم ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے جسم میں زیادہ شوگر ہونے سے آپ کو دل کی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ خون میں شوگر زیادہ عرصہ تک زیادہ ہونے سے آپ کے nerves یا اعصاب تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ nerves آپ کے جسم کی موومنٹ، حساسیت اور پیغام رسانی کو کنٹرول کرتے ہیں اگر آپ کے اعصاب تباہ ہو جائیں تو آپ کا پورا جسم یا جسم کے مختلف حصے ناکارہ اور بے حس ہو جاتے ہیں جسے neuropathy کہا جاتا ہے ۔
آپ کے خون میں زیادہ چینی رہنے سے آپ کی آنکھوں کی بینائی جا سکتی ہے،آپ کو ہر وقت انفیکشن ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے خاص طور پر آپ کے کانوں میں انفیکشن ہو جاتی ہے جو ٹھیک نہیں ہوتی آپ کے زخم ٹھیک نہیں ہوتے آپ پر اینٹی بائیوٹک میڈیسن اثر نہیں کرتیں اسی طرح اور بھی بہت سے جسمانی مسائل ہیں جن کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے اپنی شوگر کنٹرول میں رکھیں چینی اور چینی کی بنی چیزوں سے جتنا ممکن ہو پرہیز کریں۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ صرف چینی اور میٹھا ہی ذیابیطس diabetes کا سبب بنتا ہے یقیناً میٹھا اور میٹھی چیزیں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن کاربوہائیڈریٹس یا نشاستہ دار چیزیں بھی چینی کی طرح ہی نقصان دہ ہیں یہ بات ذہن میں رکھیئے کہ قدرت نے پھلوں، سبزیوں، دالوں، بیجوں، nuts وغیرہ میں پہلے ہی کافی مقدار میں کاربوہائیڈریٹ رکھا ہے ۔ ہم میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو روز جسمانی مشقت نہیں کرتے اگرآپ روز چار پانچ ہزار یا اس سے بھی زیادہ کیلوریز burn کرتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ اپنی انرجی کا زیادہ حصہ ان کاربوہائیڈریٹس سے حاصل کریں ورنہ عام حالات میں اتنے کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت نہیں روٹی، نان، چاول، پاستا، مٹھائی سموسے،پکوڑے، بریانی، جلیبیاں، کیک، بسکٹس، رس پاپے، یہ سب کاربوہائیڈریٹس ہیں جو آپ کے معدے میں جا کر شوگر میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس لئے ان تمام کاربوہائیڈریٹس سے پرہیز ضروری ہے اگر مکمل پرہیز نہیں کر سکتے تو کم از کم انہیں کم ضرور کر دیں۔ سبزی، پھلوں، انڈوں،مچھلی، مشروم ،کچی ادھ پکی سبزیوں کو اپنی روزانہ خوراک کا حصہ بنائیں ۔ آپ روٹی چاول کے بغیر بھی سبزیاں گوشت اور دالیں کھا سکتے ہیں اپنی صحت پر توجہ دیجئے صحت ہے تو سب کچھ ہے۔
https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2021-07-10/25086
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل تین روز کی نیند متاثر ہونے سے دماغی، جسمانی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان میں سانس کی کمی، غصہ ، تنہائی اور چڑچڑاپن بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
فلوریڈا میں ہونے والی اس تحقیقی سروے میں کہا گیا ہے کہ آج کی تیزرفتار زندگی نے ہماری نیند چھین لی ہے اور اگر نیند کی کمی کو ہفتہ وار چھٹیوں میں پورا نہ کیا جائے تو پورے ہفتے کئی کیفیات انسان پر حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ اگر تین روز کی نیند خراب ہوجائے تو اگلے کئی روز تک اس کے منفی اثرات جاری رہتے ہیں۔
اس ضمن میں 2000 سے زائد بالغ افراد سے نیند کے بارےمیں ڈائری مرتب کرنے کو کہا۔ پہلے روزکی بے خوابی سے ان کا رویہ بدلنے لگا۔ تین روز بعد وہ غصہ آور، نروس، عدم برداشت، اداسی اور چڑچڑے پن کے شکار ہوئے۔ لیکن جسمانی منفی کیفیات اس سے بھی خطرناک تھیں۔ کچھ شرکا نے کہا کہ ان کے بدن میں درد ہورہا ہے، بعض نے مسلسل چکر کی شکایت کی اور یہاں تک کہ لوگوں کو سانس لینے میں بھی دقت کا سامنا ہوا۔
فلوریڈا کے شہر ٹامپا میں واقع، ساؤتھ فلوریڈا اسکول آف ایجنگ اسٹڈیز نے یہ تحقیق کی۔ رضاکار شرکا کو مسلسل آٹھ روز تک چھ گھنٹے سے بھی کم سونے دیا گیا جو بالغ افراد میں نیند کا سب سے کم دورانیہ ہے۔ تندرست اور بالغ افراد کے لیے8 گھنٹے کی نیند ضروری ہوتی ہے۔ سروے میں شامل افراد نے مسلسل آٹھ روز تک نیند کا ڈیٹا فراہم کیا اور بتایا کہ وہ چھ گھنٹے یا اس سے کم سوئے تھے اور اس کے بعد اپنی کیفیات کا انکشاف بھی کیا تھا۔
اس سروے میں نیند کی کمی کی وجہ سے تیسرے ہی روز شرکا کی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت بدلنے لگی اور چھ روز بعد ان کی جسمانی صحت بہت حد تک بگڑنے لگی۔ بعض افراد کو پیٹ کی خرابیاں، بدن میں درد اور سانس لینے میں دقت کا سامنا بھی ہوا۔ یہ تحقیقی ’اینلز آف بیہیوریئل میڈیسن‘ کی تازہ اشاعت میں چھپی ہے۔
تحقیق میں شامل سائنسداں سومی لی نے کہا کہ جب جب نیند میں کمی ہوکر اس کا قرض چھٹیوں میں زائد نیند سے اتاریں، ورنہ انہیں شدید نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2200110/9812/
No comments:
Post a Comment