ملک بھر میں کورونا کے کیسز کی تعداد 56 ہزار 349 ہوگئی، 1167 جاں بحق ::: کورونا وائرس کی صورت میں روشنی خارج کرنے والا ماسک ::: فضائی آلودگی میں کمی سے ہزاروں بچے اور بزرگ موت کے منہ سے لوٹ آئے - The News Cloud Online

STAY WITH US

test banner

Breaking

Monday, 25 May 2020

ملک بھر میں کورونا کے کیسز کی تعداد 56 ہزار 349 ہوگئی، 1167 جاں بحق ::: کورونا وائرس کی صورت میں روشنی خارج کرنے والا ماسک ::: فضائی آلودگی میں کمی سے ہزاروں بچے اور بزرگ موت کے منہ سے لوٹ آئے

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) عید الفطر کے موقع پر کورونا وائرس اور دفعہ 144 کے باوجود لاہور کے منچلوں نے گرمی کو دور بھگانے کیلئے نہر کا رخ کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق موسم کا پارہ چڑھنے لگا تو گرمی سے تنگ شہری نہر پر پہنچ گئے جنہوں نے وائرس کا خیال کیا اور نہ ہی قانون کا، اور ٹھنڈے پانی میں چھلانگیں لگا کر بدن کو تراوٹ پہنچائی۔ کسی نے ڈبکیاں لگائیں تو کوئی تربوز نہر کے پانی میں ٹھنڈا کرنے لگا جسے سب نے مل کر کھایا اور عید کا لطف دوبالا کیا۔

واضح رہے کہ نہر پر نہانے کے خلاف انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے جس پر گزشتہ ادوار میں عملدرآمد کروایا جاتا رہا تاہم ان دنوں حکومت اس معاملے میں ناکام نظر آتی ہے۔

https://dailypakistan.com.pk/25-May-2020/1136770?fbclid=IwAR2Rv5cRJY7g7yY_Bi-iKWrbF3staH_fy3dFClKYBwjQ7a4lx9oQ7zGU128

پشاور (ڈیلی پاکستان آن لائن) خیبرپختونخواہ کے چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے جس کے بعد انہوں نے خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔

نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخواہ ڈاکٹر کاظم نیاز میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی جس پر انہوں نے خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔ اس سے قبل صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہی وزیر ہاﺅسنگ ڈاکٹر امجد علی میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جنہوں نے بخار اور کھانسی کی علامات کے باعث اپنا ٹیسٹ کروایا تھا جو مثبت آیا۔

ڈاکٹر امجد علی نے ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خود کو قرنطینہ کر لیا جبکہ وائرس کا شکار ہونے کی ممکنہ وجوہات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ لاک ڈاﺅن کے دوران قرنطینہ مراکز اور ہسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں جبکہ اپنے حلقے میں بھی انہوں نے دیہاڑی دار طبقے میں راشن تقسیم کیا تھا۔

 ان کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماءاور سابق وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور کا کورونا وائرس ٹیسٹ بھی مثبت آ چکا ہے جس کی تصدیق رکن صوبائی اسمبلی ثمر بلور نے کی اور بتایا کہ غلام بلور کی طبیعت دو روز سے خراب تھی جس پر ٹیسٹ کروایا گیا تھا۔

https://dailypakistan.com.pk/25-May-2020/1136760?fbclid=IwAR0vguBQE2FfsSmvk5gv_UH

yhnNsGOoe_-omR5bBHQnn-J4eIQHM3wUFVQ

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے عیدالفطر کے موقع پر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کے صورتحال کا جائزہ لے کر مزید فیصلے کئے جائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت نے عید الفطر سے چند روز قبل لاک ڈاﺅن میں نرمی کی تو شہریوں کی بڑی تعداد شاپنگ وغیرہ کی غرض سے باہر نکل آئی اور پھر ہر روز بازاروں اور مارکیٹس میں عوام کا ہجوم دیکھنے کو ملا جن میں سے اکثر افراد کورونا وائرس کیخلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرتے بھی نظر نہیں آئے اور اب عید کے موقع پر بھی ایسی صورتحال ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ وباءسے بچنے کی تدابیر پر عمل سے ہی شہریوں اور ان کے پیاروں کی حفاظت ہے، شہریوں سے اپیل ہے عید سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے منائیں کیونکہ آج کا وقتی فاصلہ مستقل فاصلوں سے بچائے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ عید الفطر کے بعد صورتحال کا جائزہ لے کر مزید فیصلے کئے جائیں گے۔

https://dailypakistan.com.pk/25-May-2020/1136750?fbclid=IwAR3V7_ViVdmtKDD1h7R_p-nGyacuanK9Rztx7DUEQgqaLCFLfY-UbPfXqSM

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 34 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد مجموعی ہلاکتوں کی تعداد1167 تک جا پہنچی جبکہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 1,748 نئے کیسز سامنے آئے جس کے بعد مریضوں کی تعداد 56,349 ہوگئی ۔

اموات 

اب تک سب سے زیادہ اموات خیبرپختونخوا میں سامنے آئی ہیں جہاں کورونا سے 398 افراد انتقال کرچکے ہیں جب کہ سندھ میں 367 اور پنجاب میں 337 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، بلوچستان میں40، اسلام آباد 16، گلگت بلتستان میں 7 اور آزاد کشمیر میں مہلک وائرس سے دو افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

 ٹیسٹ 

سرکار ی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید10,049   ٹیسٹ کیے گئے جس کے بعد اب تک ہونیوالے ٹیسٹوں کی تعداد 483,656 ہوگئی۔

صوبوں میں مریض

مریضوں کی بات کی جائے تو سندھ سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں22،491  مریض ہیں، دوسرے نمبر پر 20077 کے ساتھ پنجاب ، تیسرے پر 7905 کیساتھ خیبرپختونخوا ہے ، بلوچستان میں 3407، اسلام آباد 1641، گلگت بلتستان 619 اور آزاد کشمیر میں  209 مریض ہیں۔ 

 https://dailypakistan.com.pk/25-May-2020/1136733?fbclid=IwAR1WRiu3LMo8uIStTfBLGg2Io0

7Wz93BsAmVyNindHneSrRMgJuY9-M6gIo

نیو یارک(ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکہ کی ریاست میسوری میں ایک ہیر سٹائلسٹ 91 افراد میں کورونا وائرس منتقل کرنے کا سبب بن گیا۔میسوری کے شہر کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کے مطابق ہیر سٹائلسٹ کو علم تھا کہ اسے کورونا وائر س ہے، اس کے باوجود اس نے خود کو قرنطینہ میں رکھنے کے بجائے اپنے سیلون پر لوگوں کے بال تراشنے کا سلسلہ جاری رکھا، اور 7 ساتھی ورکرز اور 84 گاہکوں کو کورونا وائرس کا شکار بنادیا۔واضح ہو کہ امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 16 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ98 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

https://dailypakistan.com.pk/24-May-2020/1136713?fbclid=IwAR25dr0mqLE4CarteVQ1s3pIP

4ULVdHE-Mrmsg4TPvBgBhjn3t9YIO6IRMw

ملک بھر میں کورونا وائرس کا شکار افراد کی تعداد 56 ہزار 349 تک جاپہنچی جب کہ 1167 لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 10 ہزار 49 کورونا ٹیسٹس ہوئے اور 1748 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی جس کے بعد مصدقہ مریضوں کی تعداد 56 ہزار 349 ہوگئی۔

اب تک سندھ میں 22 ہزار 491، پنجاب میں 20 ہزار 77، خیبر پختونخوا میں 7 ہزار 905، بلوچستان میں 3 ہزار 407، اسلام آباد میں ایک ہزار 641، آزاد کشمیر میں 221 اور گلگت بلتستان میں 619 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 34 مریض جاں بحق ہوئے جس کے بعد اس وبا سے جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد ایک ہزار 167 ہوگئی جب کہ 17 ہزار 482 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

کورونا وائرس اور احتیاطی تدابیر:

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازہ کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکر بیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اور ہر ایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اور وہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

https://www.express.pk/story/2044472/1/

امریکا میں مارچ کے لاک ڈاؤن کےبعد لوگوں نے اپنے اپنے انداز سےموبائل اور مفت لائبریریوں کا اجرا کردیا ہے۔ ان میں کرسچیان گیل شامل ہیں جو لایبریری میں کام کرتی ہیں اور انہوں نے گاڑی کی ڈکی ، پارکوں میں چھوٹے خانوں اور شیشے والے کیسوں میں کتابیں رکھنا شروع کردیں۔ اگرچہ کئی برس سے پارکوں اور عوامی مقامات پر چھوٹٰے خوبصورت کتب خانوں کا رواج فروغ پارہا ہے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد یہ رحجان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ رحجان فروغ پارہا ہے۔

مارچ 2020 میں ہڈسن کی ایک غیرسرکاری تنظیم نے اپنی طرف سے ایک لاکھ کتابوں کا عطیہ مکمل کرلیا جو بالخصوص لاطینی اور میکسیکو عوام کے لیے مخصوص تھیں۔ پورے امریکہ میں لوگ بڑی تعداد میں ان کتب خانوں کو استعمال کررہے ہیں۔

فری لائبریری تنظیم کے لوگ کتب خانوں کو صاف کرتے اور ہفتہ وار کتابوں کو تبدیل کرنے کا کام بھی کرتےہیں۔ مشی گن کی خاتون جینیلی کےمطابق ان کے علاقے کے 300 افراد کو عوامی لائبریری تک رسائی حاصل نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے

ایک چھوٹی موبائل لائبریری کا اجرا کیا ہے۔

اسی طرح یوسمائٹ وادی میں انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب نہیں اور یہاں کتب بینی کے شوقین بھی ہیں۔ اب یہاں موبائل کتب خانے پر لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ اسی طرح کئی لائبریریاں میکسکو سے لے کر نارتھ کیرولائنا تک بنائی گئی ہیں۔

https://www.express.pk/story/2042947/509/

 وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 3547 ٹیسٹ کئے گئے جن سے 846 یعنی 24 فیصد نئے کیسز کا پتہ چلا ہے۔

صوبے میں کورونا وبا کی تازہ ترین صورت حال سے متعلق اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ وہ عید کے دن سندھ کے عوام سے اعداد و شمار شیئر کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن پھر انہوں نے سندھ کے عوام کو اس صورتحال سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا جو بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اب تک 157449 نمونوں کی جانچ کی جاچکی ہے جس میں 22491 کیسز معلوم ہوئے۔ اب تک پائے گئے مثبت کیسز کی تعداد مجموعی طور پر ٹیسٹ کے تناسب میں 14 فیصد ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 3547 ٹیسٹ کئے گئے جن سے 846 یعنی 24 فیصد نئے کیسز کا پتہ چلا ہے، جب 26 فروری کے بعد صوبے میں کورونا وائرس کا پہلا کیس پایا گیا تو یہ نئے کیسز کا سب سے زیادہ تناسب 24 فیصد ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران 13 مزید مریضوں کی اموات ہوگئی ہے جس کے بعد مجموعی تعداد کا 367 یعنی 1.6 فیصد ہوگئی ہے۔ 156 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے ان میں سے 34 کو وینٹی لیٹر لگایا گیا ہے۔ اللہ رب العزت ان کو جلد از جلد صحت یابی عطا کرے۔

مراد علی شاہ نے 14765 مریضوں کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے کہا کہ 13094 یعنی 88.5 فیصد گھروں میں آئسولیشن میں ہیں جہاں ہمارے ڈاکٹرز ان کی مدد کرتے ہیں جبکہ کل مریضوں میں سے 791  یعنی 5.5 فیصد قرنطینہ مراکز میں ہیں اور 880 یعنی صرف 6 فیصد مریض مختلف اسپتالوں میں ہیں۔ ہمارے بیشتر مریض گھروں (آئسولیشن) پر زیر علاج ہیں۔ 146 مزید مریضوں کو علاج معالجہ کے بعد ڈسچارج کیا گیا ہے اور اب تک صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 7359 ہوگئی ہے۔ ہمارے بحالی کا تناسب 33 فیصد ہے جسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 846 نئے کیسوں میں سے 703 کا تعلق کراچی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے لوگوں سے گھروں میں رہنے کی درخواست کرتا رہتا ہوں کیونکہ کراچی ایک گنجان آباد شہر ہے اور یہاں مقامی ٹرانسمیشن کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ کراچی کے ضلع شرقی میں 178، جنوبی 148 ، وسطی 114 ، غربی 111 ، کورنگی 78 اور ملیر میں 74 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

لاڑکانہ میں کورونا وائرس کے 24 ، گھوٹکی 12 ، ٹنڈوالہیار 10 ، حیدرآباد 9 ، سانگھڑ 8 ، قمبر شہدادکوٹ 7، جیکب آباد 7 ، ٹھٹھہ 4، بدین اور جامشورو میں 2-2 میرپور خاص اور ٹنڈو محمد خان میں ایک ایک کیس ظاہر ہوئے ہیں۔

https://www.express.pk/story/2044410/1/

ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ 20 روز کے دوران صوبے میں 10 برس تک کے کورونا سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوگیا۔

کورونا وبا سے متعلق اپنے ویڈیو بیان میں مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ صوبے میں 10 برس تک کے کورونا سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھ کر 788 ہو گئی، 2 مئی تک سندھ میں کورونا سے متاثرہ معصوم بچوں کی تعداد 253 تھی محض 20 روز میں اس تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوگیا جو پریشان کن ہے، ان بچوں کو کسی اور نے نہیں بلکہ ہم نے خود کورونا سے متاثر کیا ہے ہم اپنے گھروں سے باہر جاکر کورونا اپنے گھروں میں لے کر آئے اور اپنے معصوم بچوں کو اس وباء کا شکار کردیا۔

بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم حکومت کی ایس او پیز کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں، حکومتی پابندیاں ہمارے بہتر مستقبل کے لئے ہیں، پابندیوں کا اطلاق حکومتی ارکان سمیت ہر شہری پر ہوتا ہے، خدارا یہ نہ سمجھیں کہ احتیاطی تدابیر صرف عام عوام کے لئے ہیں ہم سب کو ایک دوسرے کا احساس کرنا ہے، ہمیں ہر حال میں فیزیکل فاصلے اور گھروں پر قیام کو ترجیح دینا ہوگی۔ ہم بہت زیادہ کوتاہیاں کررہے ہیں، خدارا حکومتی ایس او پیز پر 100 فیصد عملدرآمد کریں تاکہ اس وبا سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے کیونکہ ہم بار بار قوم کو آگاہ کررہے ہیں کہ کورونا وبا کا دنیا میں کوئی علاج دریافت نہیں ہوا صرف احتیاط کرنا ہے۔

ترجمان سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور بعد میں پچھتاوا ہو ہمیں اپنے بچوں سمیت قوم کے تمام معماروں کو کورونا وباء سے محفوظ رکھنا ہے کورونا وباء ایک خطرناک حقیقت ہے لاپرواہی برتنے والے اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ آئیے مل کر اس وباء سے خود، اپنے شہر، صوبے اور ملک کو محفوظ رکھیں۔

https://www.express.pk/story/2044398/1/

افریقہ میں صرف ایک ڈالر کی کورونا ٹیسٹ کٹ آزمائشی مراحل سے گزرہی ہے جو استعمال میں بھی بہت آسان ہے۔ اس ٹیسٹ کٹ کو سینیگال کے پاسچر انسٹی ٹیوٹ میں آزمایا جارہا ہے جو ڈاکار شہر میں واقع ہے۔ ایک ڈالر ٹیسٹ برطانوی کمپنی مولوجک نے تیار کیا ہے جو استعمال میں عین حمل کے ٹیسٹ کی طرح آسان ہے۔ تاہم اس میں انسانی تھوک کے نمونے رکھے جاتے ہیں۔ پاسچر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اگر ابتدائی نتائج حوصلہ افزا نکلتے ہیں تو اسے تجارتی پیمانے پر تیار کیا جاسکے گا۔

پاسچر انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ امادوسال، کے مطابق کورونا ٹیسٹ کٹ بطورِ خاص افریقی ممالک کے لیے بنائی گئی ہے۔ توقع ہے کہ روزانہ 500 سے 1000 ٹیسٹ کئے جائیں گے جس کے لیے جدید تجربہ گاہ کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ کامیابی کی صورت میں سالانہ 40 لاکھ ٹیسٹ کٹس تیار کرنا ممکن ہوگا۔

اس وقت کورونا وائرس کو پولی مریز جین ری ایکشن (پی سی آر) تکنیک کے ذریعے شناخت کیا جارہا ہے۔ اس عمل میں بہت وقت اور اخراجات صرف ہوتے ہیں اور مہنگے ترین آلات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن صرف 150 روپے والی دستی کٹ انسانی جیب میں سماسکتی ہے۔

مولوجِک کمپنی کے مرکزی سائنسداں جو فشے کہتے ہیں کہ روایتی ٹیسٹ پوری دنیا کے بس میں نہیں اس لیے غیرمنافع بخش انداز میں نئی ٹیسٹنگ کٹس تیار کی گئی ہیں جن کی بدولت کہیں بھی کسی بھی جگہ ٹیسٹ کئے جاسکتے ہیں۔ دوسری جانب دیگر ماہرین نے ایک ڈالر کورونا ٹیسٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خبردار بھی کیا ہے کہ اس کی افادیت جانچنے کے لیے بہت سارے ٹیسٹ انجام دینا ہوں گے۔

https://www.express.pk/story/2041215/9812/

کورونا وائرس سے پروٹیکشن شیلڈ کے ذریعے محفوظ رہتے ہوئے آؤٹ ڈور میں آزادانہ طور پرکام کرنے کی پروٹیکٹیڈ اسپرے تیار کر لی گئی ہے ۔عید کے بعد ائینو لائٹ وی آئی آر اسپرے مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔ کورونا کے علاج کی کلورین بیسڈ میڈسن جو ناک میں سپرے اور نیبولائزیشن کے طریقہ استعمال سے متعلق ہے،اس کی منظوری متعلقہ فورم سے دیے جانے کا پراسس شروع کردیا گیا ہے۔اسپرے کو پروٹیکشن شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسسز کو پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹس پی پی آئیز استعمال کرنے کی ضروت نہیں رہے گی۔

ایک مرتبہ کپڑوں، جوتوں اور باڈی کے ایکسٹرنل پارٹس پر سپرے کرنے کا اثر دس گھنٹے تک رہ سکے گا۔پروٹیکشن سپرے کی120ملی لیٹراور900 لیٹر کی پیکنگ تیار کر لی گئی ہے۔ڈاکٹر طاہر شریف نے کہا کہ کورونا پروٹیکشن ائینو لائٹ وی آئی آر کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے جس کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے۔ کورونا وائرس کا شکار ہوجانے والوں کے لیے کلورین بیسڈ میڈسن بھی تیار کر لی گئی ہے ، منظوری ملنے پر یہ میڈسن لانچ کر دی جائیگی۔

https://www.express.pk/story/2042521/1/

کیا کوئی ماسک ازخود کورونا وائرس کی نشاندہی کرسکتا ہے؟ اس دلچسپ سوال کا جواب اثبات میں ہے اور اس ایجاد کا سہرا میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سر ہیں جس کے ماہرین ایک عرصے سے اس پر تحقیق کررہے ہیں۔

پہلے پہل یہ ماسک زیکا اور ایبولہ وائرس کی شناخت کے لیے بنایا گیا جس پر ماہرین گزشتہ 6 برس سے محنت کررہے ہیں۔ اب اس میں تبدیلی کرکے اسے کورونا وائرس کی شناخت کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ماسک تیار ہوسکے جو چھینکنے اور کھانسنے کی صورت میں کورونا وائرس کی موجودگی کا سگنل روشنی کی صورت میں خارج کرسکے۔

2014 میں ایم آئی ٹی کی بایوانجینیئرنگ لیبارٹری نے اسے سینسر پر کام شروع کیا جو کاغذ پر چپکے منجمند ایبولہ وائرس کو شناخت کرسکے۔ پہلی کامیابی 2016 میں ملی جس کےبعد زیکا وائرس کی شناخت پر کام شروع ہوا۔ اب وہ اسی ٹیکنالوجی کو کورونا وائرس کی شناخت کے لیے استعمال کررہے ہیں جس کے بعد ماسک ازخود روشنی خارج کرنے لگے گا۔

اس طرح مریضوں کو ہپستال میں داخل ہوتے ہی کورونا کے مریض کے طور پر شناخت میں آسانی ہوسکے گی۔ اس کے بعد مریض کے نمونوں سے مزید تصدیق کی جاسکے گی۔ اس ٹیکنالوجی سے کورونا کی وبا کی روک تھام میں مدد ملے گی اور یوں غریب ممالک بطورِ خاص مستفید ہوں گے۔

تاہم ایم آئی ٹی اور ہارورڈ کےماہرین نے کہا ہے کہ یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے، فی الحال ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں اور کئ ہفوں سے وہ اپنے پہلے کورونا سینسر کی آزمائش کررہے ہیں۔ اس کےبعد ہی انسانوں پر ان کی وسیع آزمائش شروع ہوسکے گی۔

تاہم یہ ٹیکنالوجی دیگر وباؤں کی شناخت میں مؤثر ثابت ہوچکی ہیں جن میں سارس، خسرہ، عام فلو، ہیپاٹائٹس سی، ویسٹ نائل وائرس اور دیگر امراض شامل ہیں۔ یہ سینسر کاغذ اور کپڑے پر لگا کر ان سے سستے وائرس ماسک بنائے جاسکتے ہیں لیکن جلد ہی پلاسٹک کو بھی شناخت کے قابل بنایا جاسکے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب تک کے سینسر بہت ہی سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔

روشن ہونے والا ماسک وائرس کے ڈی این اے یا آر این اے سے جڑتا ہے خواہ وہ منجمند حالت میں ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم کورونا کی شناخت کے لیے وائرس کا جینیاتی ڈرافٹ مدِ نظر رکھا گیا ہے اور جیسے وائرس سینسر پر پڑتا ہے ماسک روشن ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ روشنی عام آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اسے مخصوص آلے فلوری میٹر سے نوٹ کیا جاسکتا ہے۔

https://www.express.pk/story/2041868/508/

چند روز پہلے ایک رات میں کمرے سے باہر نکلا ، آسمان کی طرف دیکھا، صاف شفاف آسمان پر پہلے سے کہیں زیادہ روشن چاند چمک رہا تھا، اس قدر شفاف چاند کہ اس میں بوڑھی اماں چرخہ کاتتے بھی دکھائی دی حالانکہ میں اس سے دوکروڑ50 لاکھ میل (چار کروڑ کلومیٹر) دورکھڑا تھا اور ایک ایسے شہر میں تھا جو بذات خود روشنیوں میں نہا رہا تھا۔ مجھے چٹانیں بھی نظر آرہی تھیں اور بڑے بڑے گڑھے بھی۔

چاند کے اردگرد موجود ستارے بھی خوب روشن تھے۔ چاند اور ستاروں کو اس قدر چمکتا دمکتا بچپن ہی میں دیکھا تھا جب گاؤں والے گھر کے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹا، آسمان کو دیکھا کرتا تھا۔ میرے بستر کی سفید چادر بھی چاندنی میں نہائی خوب چمکا کرتی تھی۔ پھر جب شہر آئے تو جیسے چاند اورستارے بجھ سے گئے۔ اکتیس برس لاہور میں گزار کر اسلام آباد جیسے نسبتاً صاف ستھرے شہر میں آن بسا تو ایسے لگا جیسے چاند میرے اس فیصلے سے خوش ہوا ہو،کم ازکم اس کے صاف وشفاف ، روشن چہرے سے مجھے یہی محسوس ہوا۔

تاہم یہاں آکر بھی مصروف  زندگی نے مجھے کبھی سراٹھانے  اور چاند  کی طرف دیکھنے نہیں دیا۔ صبح سرجھکائے دفتر جانا، شام کے بعد سرجھکائے گھر آنا اور پھر کمرے سے کم ہی باہر نکلنا۔ جب کورونا وائرس کے نتیجے میں ساری دنیا لاک ڈاؤن ہوئی تو   طویل عرصہ بعد جی بھر کر  روشن چاند ستاروں  کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مجھے خوشی سے نہال نظر آئے۔ پھر انھوں نے مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد دلایا:

حُسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

میں یہ شعر سن کر خوب شرمسار ہوا۔ شہرواقعی اچھے نہیں ہوتے بالخصوص وہ شہر جو حسن بے پروا پر نقاب ڈال دیں، وہ ملک بھی اچھے نہیں ہوتے جو انسانوں ، چانداور ستاروں کے درمیان دھویں کی چادر تان دیں۔

ہمیں جس زمین پر رہنے کا ایک موقع دیاگیا، جی ہاں! صرف ایک موقع، اس زمین پر تادم تحریر کورونا وائرس سے ایک لاکھ60 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں 47 فیصد کی عمر 75برس سے زائد تھی، 24.6 فیصد کی عمر 65 سے 74 برس کے درمیان تھی، 23.1 فیصد کی عمر 45 سے 64 برس کے درمیان تھی۔ مرنے والوں میں مردوں کی شرح 61.8 فیصد تھی اور عورتوں کی 38.2 فیصد۔ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ان لوگوں کو بیمار کرنے میں فضائی آلودگی کا کردار سب سے اہم رہا ہو گا۔

دنیا میں ہرسال 17لاکھ 60 ہزار افراد پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلاہوکر جاں بحق ہوتے ہیں۔یہ تعدادکسی بھی کینسر سے ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں پھیپھڑوں کے کینسر کو سب سے زیادہ ہلاکت خیز کینسر کہا جا سکتا ہے۔ دنیا میں 33کروڑ40لاکھ افراد سالانہ ایستھما میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں 15فیصد بچے ہوتے ہیں،  اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 40لاکھ افراد سانس کی بعض دیگر بیماریوں اور نمونیا کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔ ہر ایک منٹ میں پانچ سال سے کم عمر کے دو بچے نمونیا کے سبب جاں بحق ہوتے ہیں۔ نمونیا کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں میں 2 برس  سے کم عمر بچوں کی شرح 80 فیصد ہے۔99فیصد اموات اوسط آمدن یا اس سے کم آمدن والے معاشروں  میں ہورہی ہیں۔ انتہائی چھوٹے بچوں اور  بڑے بزرگوں میں زیادہ تر اموات نمونیا کے سبب ہی ہوتی ہیں۔1964ء کے بعد اب تک 25لاکھ افراد دوسروں کی تمباکو نوشی کے دھویں کے سبب بیماری میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے۔

ہرسال 42لاکھ افراد گھرسے باہر، فضائی آلودگی کے سبب بیمار ہوتے اور موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ اور دنیا کی91 فیصد آبادی غیرصحت مند ماحول میں سانس لیتی ہے۔اس حوالے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک زیادہ نمایاں ہیں۔ مثلاً  انگولا، باہماس، کمبوڈیا، کانگو، مصر، گھانا، لٹویا، نائجیریا اور شام ۔ ان اعداد و شمار کے بعد مزید کسی لیکچر کی ضرورت نہیںکہ ہمیں کیسے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ ہاں! صحت کے اس ہلاکت خیز بحران( کورونا وائرس) سے کچھ سبق ضرور سیکھنے چاہئیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق یہ زمین ہی واحد دنیا ہے جہاں زندگی ممکن ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسری دنیا نہیں جہاں نوع انسانی نقل مکانی کرسکے۔ اسی زمین پر ہم ٹھہر سکتے ہیں چاہے ہم یہاں رہنا پسند کریں یا نہیں۔ اسی زمین پر ہمیں رہنا ہے چاہے ہم صحت مند ماحول میں رہ کر زندگی سے لطف اندوز ہوں یا غیرصحت مند ماحول میں رہ کر تڑپ تڑپ کر مریں۔

اس وقت غیرارادی طور پر پوری دنیا ایک مختلف تجربے سے گزر رہی ہے۔کرونا وائرس کی وبا نے تمام تر صنعتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں، اب فضاؤں میں جہاز بھی نہیں اڑ رہے ، گاڑیاں بھی بہت کم ہیں، نتیجتاً  ان سے نکلنے والا دھواں بھی اسی قدر کم ہے۔ شہروں کی فضائی آلودگی میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ فضائی آلودگی ہی تھی جس نے دنیا میں سانس کی بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کیا، اسی وجہ سے اب لاکھوں افراد شدید بُرے اثرات بھگت رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے ایسے لوگوں کو زیادہ پکڑا ہے جو پہلے ہی سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔

تاہم  اب کورونا وائرس کے سبب فضا بہت زیادہ صاف و شفاف ہوچکی ہے، ایسا عشروں بعد ہواہے۔ چین میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کم ہونے والی فضائی آلودگی کے باعث ، ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 4000 بچے  اور 70سال سے زائد عمر کے 73000 بزرگوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ ایسا اس وقت ہوا ہے جب دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی گرگیا ہے۔ جنوری، فروری 2020ء میں چین کی انڈسٹریل آؤٹ پٹ گزشتہ برس انہی دو مہینوں کی نسبت  13.5فیصد کم ہوگئی ہے۔ یہ جنوری 1990ء سے اب تک، تیس برسوں کے دوران میں سب سے کم آؤٹ پٹ ثابت ہوئی ہے۔تاہم جیسے ہی وبا کا خاتمہ ہوگا، معیشتوں کو دوبارہ سے کھڑا کیا جائے گا، نقصان  پورا کرنے کے لئے صنعتی سرگرمیاں کئی گنا تیزی سے شروع کی جائیں گی۔ ایسے میں نئی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے، موجودہ کافی حد تک صاف ماحول کو کیسے برقرار رکھنا ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لئے ابھی سے سوچنا چاہئے اور اسی کی مطابق اقدامات کرنے چاہئیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کورونا کے بعد ماحول کو کم سے کم آلودہ کیا جائے۔

صاف ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

یادرہے کہ ماحول کو آلودہ کرنے والے اہم ترین عوامل میں گردوغبار کے طوفان، جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی شامل ہے ۔بالخصوص جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے شہروں میں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاںکھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو کھلے عام جلایا جاتا ہے۔ اسی طرح زرخیز زمین کا صحرا میں تبدیل ہونا، مشرق وسطیٰ اور مغربی چین میں ریت کے طوفان بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے بعض اسباب کو ختم کرنا یا کم کرنا انسانی اختیار میں ہے، ان پر توجہ دینے اور  روک تھام کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اب تک ماحول کو صاف رکھنے کے لئے  جو چند کامیاب اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں ایک بڑی کامیابی دنیا میں ماحول کی آلودگی کومانیٹر کرنے کا انفراسٹرکچر بننا ہے۔ اب کورونا وائرس کے تناظر میں شاید لوگوں کو احساس ہو کہ ماحول کو صاف رکھنا کتنا ضروری ہے، کاش! ایسا ہوجائے، اگرچہ اس سے پہلے حکومتوں اور لوگوں پر ایسے اعدادوشمار کوئی خاص اثرات مرتب نہیں کرتے تھے کہ دنیا بھر میں کتنے زیادہ لوگ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

2019 ء میں ، چین نے اپنے ہاں ماحول کی آلودگی کو 9 فیصد کم کیا، واضح رہے کہ 2018ء میں یہاں فضائی آلودگی میں12فیصد کا اضافہ ہواتھا۔گزشتہ برس بیجنگ دنیا کے 200 آلودہ ترین شہروں کی فہرست سے باہر ہوگیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کے98 فیصد شہروں میں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی پرواہ نہیں کی جاتی اور 53 فیصد چینی شہروں کی زندگی چین کے اپنے اہداف کے مطابق نہیں ہوسکی۔ تاہم مندرجہ بالا اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین ماحول کو صاف بنانے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کررہاہے اگرچہ بعض مغربی طاقتیں اس باب میں چین پر کڑی تنقید کرتی رہتی ہیں۔

اس وقت بھارت اور پاکستان کے شہر دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔سب سے زیادہ گندے 30شہروں میں سے 21 شہر بھارت کے ہیں جبکہ پانچ کا تعلق پاکستان سے ہے، ان میں گوجرانوالہ اور پشاور بھی شامل ہیں۔ بھارت کے شہروں میں آلودگی کم ہوئی ہے تاہم اس کا تعلق ماحولیات سے متعلق حکومتی اقدامات سے نہیں بلکہ اقتصادی سست روی سے ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ اور ویت نام کا دارالحکومت ہنوئی کا تذکرہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں چین کے دارالحکومت بیجنگ سے پہلے  آرہا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے پہلے سب سے زیادہ آلودہ دس ممالک بالترتیب بنگلہ دیش، پاکستان، منگولیا، افغانستان، بھارت، انڈونیشیا، بحرین، نیپال، ازبکستان اور عراق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا فضائی آلودگی کے تمام تر مہلک اثرات کو جاننے اور دیکھنے کے بعد  بھی، ہم آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟ بالخصوص جب پاکستان فضائی آلودگی کے معاملے میں بنگلہ دیش کے بعد سب سے بری حالت میں ہے۔ پاکستان میں آلودگی پیدا کرنے والے ذرائع کا جائزہ لیاجائے تو صورت حال کافی خطرناک ہے۔

جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شہری آبادی پاکستان میں ہے،اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے پانچ برس بعد آدھے سے زیادہ پاکستانی شہروں میں ہوں گے۔ افسوسناک امر ہے کہ پھیلتی ہوئی شہری آبادی اور آلودگی پیدا کرنے والے دیگر ذرائع کی وجہ سے اس وقت 98 فیصد پاکستانی آبادی عالمی ادارہ صحت کے معیاری ماحول کے برعکس  غیرصحت مندانہ ماحول میں زندگی بسر کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو پاکستانیوں کی صحت پر خراب ماحول کے اثرات کی پروا نہیں ہے۔ ملک میں ماحول کو آلودہ کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس کے سبب بدترین مسائل پیدا ہوچکے ہیں، ہمیں 69 لاکھ پاکستانیوں کو پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں سے صحت یاب کرنے کے لئے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ایسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے کہ  مزید پاکستانی ان بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔

یاد رہے کہ ماحولیات کا تحفظ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ اسے قومی سلامتی کے شعبے میں شامل کرنا ہوگا۔ قومی وسائل کا دفاع ملکی سرحدوں کی طرح اہم ہے۔اگرقومی وسائل ہی نہ رہے تو ہم کس چیز کا دفاع کریں گے!!

https://www.express.pk/story/2037065/508/

No comments:

Post a Comment